بعثت نبوی کا تیرهواں سال

مضامین سورۂ الاعراف (حصہ  سوم)

 اللہ تعالیٰ کی آیات سے بغاوت ،ایک مثال:

اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان کے سامنے اس شخص( بلعم بن باعورائ، امیہ بن ابی الصلت یا صیفی بن الراہب ) کاحال بیان کروجس کوہم نے کتاب الٰہی کاعلم عطاکیاتھااوروہ ایک ماہرعالم بن گیا،اس علم کانتیجہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ وہ اس رویہ سے بچتاجس کووہ غلط جانتاتھااوروہ طرزعمل اختیارکرتاجواسے صحیح معلوم ہوتاتھا،جس پراللہ تعالیٰ اسے انسانیت کے بلندمراتب پرترقی عطافرماتا،لیکن وہ دنیاکے عارضی فائدوں ،لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا ، خواہشات نفس کے تقاضوں کامقابلہ کرنے کے بجائے اس نے ان کے آگے سپرڈال دی ،مالی امورکی طلب میں دنیاکی حرص وطمع سے بالاترہونے کے بجائے وہ اس حرص وطمع سے ایسامغلوب ہواکہ اپنے سب اونچے ارادوں اوراپنی عقلی واخلاقی ترقی کے سارے امکانات کوطلاق دے بیٹھااوران تمام حدودکوتوڑکرنکل بھاگاجن کی نگہداشت کا تقاضاخوداس کاعلم کررہاتھا،جب وہ علم وایمان کی مضبوط پناہ گاہ سے نکل بھاگاتو شیطان جواس کی گھات میں لگاہواتھا اس کے پیچھے پڑگیااوراسے گناہوں پرآمادہ کیااور ایک گناہ سے دوسرے گناہ کی طرف دھکیلتارہااوراسے ان لوگوں کے زمرے میں پہنچاکرہی دم لیاجواس کے دام میں پھنس کرپوری طرح اپنی متاع عقل وہوش گم کرچکے ہیں ، لہذا حرص کی نہ بجھنے والی آگ میں اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پرحملہ کروتب بھی زبان لٹکائے رہے اوراسے چھوڑدوتب بھی زبان لٹکائے رہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الَّذِی یَعُودُ فِی هِبَتِهِ كَالكَلْبِ یَرْجِعُ فِی قَیْئِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بری مثال نہیں ہے لیکن جوشخص اپنی ہبہ کی ہوئی چیزکوواپس پھرلے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جوقے کرکے چاٹ لیتاہے۔[1]

یہی مثال ہے ان لوگوں کی جوہماری آیات کوجھٹلاتے ہیں ،انہیں وعظ کرویانہ کرواس کاحال ایک ہی رہے گا،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَیْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۶ [2]

ترجمہ:جن لوگوں نےان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ان کے لئے یکساں ہے خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ۔

اوردنیاکے مال ومتاع کے حصول کے لئے اس کی رال ٹپکتی رہے گی ،تم یہ حکایات ان کوسناتے رہوشایدکہ یہ کچھ عبرت حاصل کرکے گمراہی سے بچیں اورحق کواپنائیں ،بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کوجھٹلایااوروہ آپ اپنے ہی اوپرظلم کرتے رہے ہیں ،اورقانون مشیت کابیان فرمایاکہ جسے اللہ نیکیوں کی توفیق عطاکرکے راہ راست دکھادے اورناپسندیدہ امورسے بچالے اوران چیزوں کے علم سے نوازدے جنہیں وہ نہیں جانتاتووہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے، اورجس کواللہ اس کے حال پرچھوڑکراوربھلائی کی توفیق سے محروم کرکے گمراہ کردے تو اس کی شومی قسمت میں کیاشک ہے یہی لوگ روزقیامت اپنے آپ کواوراپنے گھروالوں کوخسارے میں ڈالنے والے ہیں ،خبردار!یہی کھلاخسارہ ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ فِی خُطْبَةِ الْحَاجَةِ: إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَسْتَعِینُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَهْدِهِ اللَّهُ، فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ یُضْلِلْ، فَلَا هَادِیَ لَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ حاجت اس طرح سکھایا ہے ’’ بیشک سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اوراسی سے ہی مددمانگتے ہیں اورہم اللہ تعالیٰ سے اپنے نفسوں کی شرارتوں اوربرے عملوں سے پناہ چاہتے ہیں ،جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتااورجسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواکوئی معبودنہیں اورمیں اس بات کی بھی گواہی دیتاہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے بندے اوررسول ہیں ۔‘‘

اورغم کی کیفیت میں فرمایاکہ ہم نے بہت سے جن اورانسان کو جہنم ہی کے لئے پیداکیایعنی ہم نے توان کوپیداکیا تھا ،دل،دماغ،آنکھیں ،کان اوردیگر صلاحتیں عطاکی تھیں ،مگران ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیااوراپنی غلط کاریوں کی بدولت آخرکارجہنم کاایندھن بن کررہے ،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی پیدائش سے پچاس ہزاربرس پہلے مخلوقات کی تقدیرکولکھافرمایا اس وقت پروردگار کا عرش پانی پرتھا[3]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ یُجْمَعُ خَلْقُهُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا، ثُمَّ یَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَیُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ كِتَابُهُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے، فرمایا تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہےپھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے، بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے، اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔ [4]

ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے غوروفکر نہیں کرتے،ان کے پاس آنکھیں ہیں مگروہ ان سے اللہ وحدہ لاشریک کی ہرسوبکھری ہوئی نشانیوں کونہیں دیکھتے ،اللہ کے عذاب سے تبا شدہ اقوام کے آثار و کھنڈرات دیکھ کرعبرت حاصل نہیں کرتے ،ان کے پاس کان ہیں مگروہ ان سے حق کی آوازنہیں سنتے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً۝۰ۡۖ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُہُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ كَانُوْا یَجْـحَدُوْنَ۝۰ۙ بِاٰیٰتِ اللہِ۔۔۔ ۝۲۶ۧ  [5]

ترجمہ: ان کو ہم نے کان، آنکھیں اور دل، سب کچھ دے رکھے تھے، مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے، نہ آنکھیں ، نہ دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ۔

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱ [6]

ترجمہ:ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہاجانوروں کوپکارتاہے اوروہ ہانک پکارکی صداکے سواکچھ نہیں سنتے ،یہ بہرے ہیں ،گونگے ہیں ،اندھے ہیں اس لئے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

جب اللہ نے ان کوہرطرح کی صلاحتیں بخشیں مگرانہوں نے غوروفکر ،تذکراورتدبرسے کام نہ لیاتوان اوصاف قبیحہ کے حامل انسان عقل وشعورسے محروم جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ گئے گزرے ،کیونکہ چوپائے آوازپرکان تو کھڑے کردیتے ہیں ، اپنے نفع نقصان کاکچھ شعوررکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندرتویہ تمیزکرنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے ، اسے تواپنی پیدائش کی غرض وغایت بھی معلوم نہیں ہوتی ،اس لئے تواللہ سے کفر کرتے ہیں اورغیراللہ کی عبادت کرتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جوسب سے زیادہ نفع بخش چیزسے غافل ہیں ۔

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِهِ ۚ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٨٠﴾‏ وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یَعْدِلُونَ ‎﴿١٨١﴾‏ وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٨٢﴾‏ وَأُمْلِی لَهُمْ ۚ إِنَّ كَیْدِی مَتِینٌ ‎﴿١٨٣﴾‏(الاعراف)
’’ اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی،اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اس کے موافق انصاف بھی کرتی ہے ،اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئےجا رہے ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں،اور ان کو مہلت دیتا ہوں ، بے شک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے ۔‘‘

اسماء الحسنٰی :

لوگوں کوچندنمایاں ترین گمراہیوں پرمتنبہ فرمایاکہ اللہ رب العالمین اچھے ناموں کامستحق ہے جن سے اس کی مختلف صفات کمالیہ ،اس کی عظمت وجلالت ، اس کے تقدس اورپاکیزگی اوراس کی قدرت وطاقت کا اظہارہوتاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا لاَ یَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ، وَهُوَ وَتْرٌ یُحِبُّ الوَتْرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے ننانوےنام ہیں ، اور فرمایا جو ان کوشمارکرے گا(یعنی ان پرایمان لانا،ان کو گننا اورانہیں ایک ایک کرکے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ پڑھنایاحفظ کرنا،ان کے معانی جاننااوران سے اپنے کو متصف کرنا) جنت میں داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کوپسندفرماتاہے۔[7]

اورعلماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد ننانوے پر منحصر نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہیں ،

أَنَّ بَعْضَهُمْ جَمَعَ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ أَلْفَ اسْمٍ

امام ابوبکربن عربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کتاب وسنت سے جمع کیے ہیں جن کی تعدادایک ہزارتک پہنچ گئی ہے۔ [8]

لہذا اس کواچھے ہی ناموں سے پکارویعنی ہرمطلوب میں اللہ تعالیٰ کواس کے اس اسم مبارک سے پکاراجائے جواس مطلوب سے مناسبت رکھتا ہو، مثلاًدعامانگنے والایوں دعامانگے اے اللہ! مجھے بخش دے ،مجھ پررحم فرمابے شک توبخشنے والااوررحم فرمانے والاہے،اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول فرما،اے رزق دینے والے مجھے رزق عطافرمااوراے لطف وکرم کے مالک مجھے اپنے لطف سے نوازوغیرہ ۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی کے علاوہ کسی کے واسطے یاوسیلے سے دعامانگنے کے متعلق حنفی علماء کرام اپنی کتابوں میں فرماتے ہیں

یُكْرَهُ أَنْ یَقُولُ الرَّجُلُ أَسْأَلُك بِحَقِّ فُلَان اور بِحَقِّ أَنْبِیَائِك وَرُسُلِك وبحق بیت الحرام والْمَشْعَرِ الْحَرَامِ إذْ لَیْسَ لِأَحَدٍعلی اللہ حق

کسی آدمی کااس طرح مانگنامکروہ ہے کہ اے اللہ!میں تجھ سے فلاں کے وسیلے یانبیوں اوررسولوں کے وسیلے سے اوربیت اللہ یامشعرالحرام کے وسیلے سے دعاکرتاہوں کیونکہ مخلوق کاخالق پرکوئی حق نہیں ۔[9]

فقہ حنفی کی اہم ترین کتاب الہدیہ ہے اورحنفی علماء کرام نے اس کتاب کے متعلق کہاہے

 الھدایة کالقران

ہدایہ قرآن کی طرح ہے۔

یعنی جس طرح قرآن نے پہلی آسمانی کتابیں منسوخ کردیں اسی طرح ہدایہ نے فقہ کی پہلی کتابیں منسوخ کردیں ،

وَیُكْرَهُ أَنْ یَقُولَ الرجل فی دعاء بِحَقِّ فُلَانٍ وبِحَقِّ أَنْبِیَا ئك وَرُسُلِك اذلَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ

چنانچہ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں اورکسی آدمی کااپنی دعامیں یہ کہنامکروہ ہے کہ فلاں کے وسیلے سے یا نبیوں اوررسولوں کے وسیلے سے یہ سوال کرتاہوں کیونکہ مخلوق کاخالق پرکوئی حق نہیں ۔[10]

فقہ حنفی کی مبسوط کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

لَا یَجُوزُ أَنْ یَقُولَ بِحَقِّ فُلَانٍ عَلَیْك وَكَذَا بِحَقِّ أَنْبِیَائِك، وَأَوْلِیَائِك وَرُسُلِك وَالْبَیْتِ وَالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ وَإِنَّمَا یَخُصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ غَیْرِ وُجُوبٍ عَلَیْهِ

اس طرح کہناجائزنہیں کہ میں فلاں کے وسیلے سے اس طرح تیرے رسول اورتیرے ولیوں اوررسولوں ،بیت اللہ اورمشعرالحرام کے وسیلے سے دعاکرتاہوں کیونکہ مخلوق کا خالق پرکوئی احسان؍حق نہیں ،وہ اپنی جس کو چاہے (ولایت یارسالت)کے لیے خاص کردے۔[11]

فتاوی عالمگیری میں جسے پانچ صد(۵۰۰)حنفی علمائکرام کے بورڈنے مرتب کیا تھا لکھا ہے

وَیكرهُ أَن یَقُول فِی دُعَائِهِ: بحق فلان، أَو بِحَق أنبیائك ورسلك

اس طرح دعامانگنامکروہ ہے کہ میں فلاں کے وسیلے اوراس طرح تیرے نبیوں اورتیرے ولیوں یارسولوں کے وسیلے سے مانگتاہوں ۔[12]

فقہ حنفی کی کتاب رد المحتار على الدر المختار میں ہے

عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَدْعُوَ اللَّهَ إلَّا بِهِ وَالدُّعَاءُ الْمَأْذُونُ فِیهِ الْمَأْمُورُ بِهِ مَا اُسْتُفِیدَ مِنْ قَوْله تَعَالَى – {وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا} ،[13]

اورابوحنیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ وہ اللہ کواس کے( اسماء وصفات کے سوا)کسی کی ذات کوپکڑکرپکارے جس چیزکااذن ہے اوراس کاحکم ہے ،وہ اللہ کے اس قول سے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ اللہ نے فرمایاہے’’ اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں تم ان کے وسیلے سے اللہ کوپکارو۔‘‘[14]

(مزیدتحقیق کے لیے امام زبیدی کی شرح احیاء العلوم ۲۵۸؍۲ اورامام ابوالحسین قدوری حنفی کی شرح کرخی دیکھیں )

فقہ حنفی کی مایہ نازکتاب درمختیار میں حنفی بزرگوں کے ارشادملاحظہ فرمائیں

وَاعْلَمْ أَنَّ النَّذْرَ الَّذِی یَقَعُ لِلْأَمْوَاتِ مِنْ أَكْثَرِ الْعَوَّامِ وَمَا یُؤْخَذُ مِنْ الدَّرَاهِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِهَا إلَى ضَرَائِحِ الْأَوْلِیَاءِ الْكِرَامِ تَقَرُّبًا إلَیْهِمْ فَهُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَحَرَامٌ

اورجان لوکہ عوام کی وہ نذریں اورنیازیں جوفوت شدگان بزرگوں کے نام پردیتے ہیں اوردرہم اورشمع اورتیل اوراس طرح کے دیگرنذرانے جووہ اولیاء کرام کے آستانوں پردیتے ہیں وہ بالاتفاق باطل اورحرام ہیں ۔[15]

اوران لوگوں کوچھوڑدو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّی عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِیَتِی بِیَدِكَ، مَاضٍ فِیَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّیْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِی كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَاءَ حُزْنِی، وَذَهَابَ هَمِّی، إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَحًا ، قَالَ: فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَتَعَلَّمُهَا؟ فَقَالَ:بَلَى، یَنْبَغِی لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ یَتَعَلَّمَهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو جب کبھی کوئی مصیبت یا غم لاحق ہو اور وہ یہ کلمات کہہ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت اور غم کو دور کر کے اس کی جگہ خوشی عطاء فرمائے گا وہ کلمات یہ ہیں ’’اے اللہ! میں آپ کا غلام ابن غلام ہوں ،آپ کی باندی کا بیٹا ہوں ،میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میری ذات پر آپ ہی کا حکم چلتا ہے،میری ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ عدل و انصاف والا ہے،میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو آپ نے اپنے لیے خود تجویز کیایا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایایا اپنی کتاب میں نازل فرمایایا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھاکہ آپ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار،سینے کا نور اور پریشانی کی دوری کا ذریعہ بنا دے۔‘‘تواللہ تعالیٰ ضروراس کی مصیبت ،پریشانی اورغم وفکرکودورفرماکراسے خوشی اورمسرت سے بدل دے گا،کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اس دعاء کو سیکھ لیں ، فرمایا کیوں نہیں ، جو بھی اس دعاء کو سنے اس کے لئے مناسب ہے کہ اسے سیکھ لے۔[16]

وَالْإِلْحَادُ فِی أَسْمَائِهِ سُبْحَانَهُ یَكُونُ عَلَى ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ،إِمَّا بِالتَّغْیِیرِ كَمَا فَعَلَهُ الْمُشْرِكُونَ،كَمَا فَعَلَهُ الْمُشْرِكُونَ، فَإِنَّهُمْ أَخَذُوا اسْمَ اللَّاتِ مِنَ اللَّهِ، وَالْعُزَّى مِنَ الْعَزِیزِ، وَمَنَاةَ مِنَ الْمَنَّانِ ،أَوْ بِالزِّیَادَةِ عَلَیْهَا بِأَنْ یَخْتَرِعُوا أَسْمَاءً مِنْ عِنْدِهِمْ لَمْ یَأْذَنِ اللَّهُ بِهَا،أَوْ بِالنُّقْصَانِ مِنْهَا، بِأَنْ یَدْعُوهُ بِبَعْضِهَا دُونَ بَعْضٍ

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد(کج روی)کی تین صورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردی جائےجیسے کہ مشرکین نے کیامثلاًاللہ کے ذاتی نام اللہ سے اپنے ایک بت کانام اللاتُ اوراس کی صفاتی ناموں عزیزسےالْعُزَّى بنا لیا اورمنان سے مَنَاةَ بنالیا۔ اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافے کر لینا جس کاحکم اللہ نے نہیں دیا۔

یااس کے ناموں میں کمی کردی جائے مثلاًاسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکاراجائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کوبراسمجھا جائے۔[17]

الذین یلحدون فی أسماء الله فیؤلونها، أو یعطلونها، أو یشبهونها

اللہ کے ناموں میں الحادکی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یاتعطیل یا تشبیہ سے کام لیاجائے۔[18]

جس طرح معتزلہ ،معطلہ اورمشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہاہے ۔

اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے کہ ان سب سے بچ کررہو،اگریہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے توان کی کج بحثیوں میں تم کوالجھنے کی کوئی ضرورت نہیں اپنی گمراہی کاانجام وہ خوددیکھ لیں گے ،ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسابھی ہے جوحق کاعلم رکھتاہے ،اس پرعمل کرتاہے اور حق کے مطابق ہدایت کی طرف راہ نمائی کرتاہے اورجب وہ لوگوں کے مال،خون،حقوق اوران کے مقالات وغیرہ کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں توحق کی بنیادپرانصاف کرتے ہیں ،

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الْحَقِّ، لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى یَأْتِیَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیری امت کاایک گروہ حق پرقائم رہے گاکوئی ان کونقصان نہ پہنچاسکے گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کاحکم آئے(یعنی قیامت) اوروہ اسی حال میں ہوں گے۔[19]

وَفِی رِوَایَةٍ : وَهُمْ بِالشَّامِ

ایک روایت میں ہے یہ گروہ شام میں ہوگا۔[20]

موحدین اورمنکرین کے تذکرے کے بعدشان نبوت میں گستاخی کرنے والوں کوتنبیہ کرتے ہوئے فرمایا رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کوجھٹلا دیاہے توانہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبرتک نہ ہوگی ، یعنی اللہ تعالیٰ ان پررزق اوراسباب معیشت کے دروازے کھول دے گاجس سے وہ مبتلائے فریب ہوں جائیں گے،جیسے فرمایا

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَةً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ۝۴۴فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۭ وَالْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۵ [21]

ترجمہ:پھر جب انہوں نے اس نصیحت کوجو انہیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے ،اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العا لمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)۔

میں ان کوڈھیل دے رہا ہوں یہاں تک کہ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کامواخذہ نہیں کیاجائے گااوران کوسزانہیں دی جائے گی مگرجب ہماری مشیت مواخذہ کرنے کی ہوگی تووہ منہ تکتے رہے جائیں گے اورکوئی اس سے بچانے پرقادرنہیں ہوگاکیونکہ میری مضبوط ومستحکم چال کاکوئی توڑنہیں ہے۔

أَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿١٨٤﴾‏ أَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَیْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن یَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَهُ یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٨٥﴾‏ مَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِیَ لَهُ ۚ وَیَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿١٨٦﴾(الاعراف)
 ’’کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ ان کے ساتھی کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ڈرانے والے ہیں، اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو ،پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

 صداقت رسالت پراللہ کی گواہی :

ہردورمیں مشرکین کاذہن ایک ہی رہاہے اورسولوں پران کے اعتراض بھی ایک ہی طرح کے رہے ہیں ،پچھلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر تسلیم نہیں کرتے تھے ،جس طرح وہ ا پنے رسولوں سے معجزات کامطالبہ کرتے تھے اسی طرح مشرکین مکہ بھی کرتے تھے ،جس طرح وہ اپنے رسولوں کی حق وسچ باتیں سن کران پرایمان لانے کے بجائے اپنے کفروشرک پرڈٹے رہتے اور انہیں ساحراورمجنون کے القاب سے نوازتے تھےمشرکین مکہ کارویہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاتم جو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی پاکیزہ دعوت، بہترین اخلاق واطوراور کامل ترین سیرت و صفات کے باوجود ساحراورمجنون کہتے ہو تو یہ تمہارے عدم تفکر کا نتیجہ ہے ،جیسے فرمایا

وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ۝۲۲ۚ      [22]

ترجمہ:اور( اے اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ۝۰ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا۝۰ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ۝۰ۭ اِنْ هُوَاِلَّا نَذِیْرٌ لَّكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۝۴۶ [23]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتاہوں ،اللہ کے لئے تم اکیلے اکیلے اوردودومل کر اپنا دماغ لڑاؤاورسوچو تمہارے صاحب میں آخر کون سے بات ہے جوجنون کی ہو؟وہ توایک سخت عذاب کی آمدسے پہلے تم کومتنبہ کرنے والاہے۔

حالانکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا آخری پیغمبرہے جو ہمارے احکامات تمہیں پوری امانت ودیانت کے ساتھ پہنچانے اوران سے غفلت و اعراض کرنے والوں کوڈرانے والا ہے، اگریہ لوگ بغیرستونوں والا بلندو بالا آسمان و وسیع وہموارزمین کے کسی قسم کی کجی سے پاک انتظام پر غورو تدبر کریں ،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّهُوَحَسِیْرٌ۝۴    [24]

ترجمہ:تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤگے ،پھرپلٹ کردیکھوکہیں تمہیں کوئی خلل نظرآتاہے ؟باربارنگاہ دوڑاؤتمہاری نگاہ تھک کرنامرادپلٹ آئے گی۔

اوراللہ کی تخلیق کردہ کسی چیزکوبھی بنظرتامل دیکھتے توانہیں معلوم ہوجاتاکہ رب کی الوہیت ووحدانیت، شرک کی تردید، معبود حقیقی رب العالمین کی بندگی کی دعوت اوردنیا میں انسان کی ذمہ داری ا ورآخرت میں جوابدہی کے بارے میں جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھارہے ہیں اس کی صداقت پریہ پورانظام کائنات اورخلق اللہ کازرہ زرہ شہادت دے رہا ہے ،پھریہ اپنے خود ساختہ شریکوں کوچھوڑکر ایمان لے آئیں اوراپنے معبودحقیقی کی قدرتوں وحکمتوں کے گن گانے لگیں ،اس کے رسول کی تصدیق اوراس کی اطاعت اختیار کر لیں ، اورکیاان لوگوں کوکچھ بھی فکرنہیں کہ اگراللہ کی توحید کے بجائے انہی گمراہیوں اوربداعمالیوں میں ان کی موت واقع ہوجائے توان کاانجام کتنابھیانک ہوگا، اوریہ کتنے بڑے خسارے کی بات ہوگی ،پھرآخر پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے انذاروتہدید اورجلیل القدر قرآن مجیدجس میں ان کی ہدایت ورہنمائی اورتباہ شدہ اقوام کی تباہی و بربادی کے اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں کے بعدبھی اگریہ ایمان نہیں لاتے تواس سے بڑھ کرانہیں ڈرانے والی چیزاورکیاہوگی جواللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھریہ اس پر ایمان لائیں ، جس کواللہ گمراہ کردے پھرکوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتاچاہے وہ کتنی ہی نشانیاں دیکھ لےپھر ایسے لوگوں کواللہ ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمَنْ یُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـیْـــــًٔـا۔۔۔ ۝۴۱          [25]

ترجمہ:جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے ۔

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۱    [26]

ترجمہ:اِن سے کہوزمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں ۔

‏ یَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَیَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّی ۖ لَا یُجَلِّیهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِیكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ یَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٨٧﴾‏قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٨٨﴾‏ ۞ هُوَ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ إِلَیْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِینَ ‎﴿١٨٩﴾‏ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِیمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿١٩٠﴾‏(الاعراف)
’’ یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ آپ فرما دیجئے اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی، وہ آپ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے، پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا،سو وہ اس کو لئےہوئے چلتی پھرتی رہی ،پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے اگر تم نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ،سو جب اللہ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے، سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے۔‘‘

قیامت کب اورکس وقت :

یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخرقیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟جیسے فرمایا

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵        [27]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟۔

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۴۸مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُوْنَ۝۴۹فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّلَآ اِلٰٓى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ۝۵۰ۧ [28]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی آخرکب پوری ہوگی؟بتاؤاگرتم سچے ہو ، دراصل یہ جس چیزکی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکاہے جویکایک انہیں اس حالت میں دھرلے گاجب یہ (اپنے دنیاوی معاملات میں )جھگڑرہے ہوں گے اوراس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیں گے،نہ اپنے گھروں کوپلٹ سکیں گے۔

کہواس کایقینی علم نہ کسی مقرب فرشتے کوہے نہ کسی نبی مرسل کو،اللہ کے سوااس کاعلم کسی کے پاس نہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ۔۔۔[29]

ترجمہ:اس گھڑی کاعلم اللہ ہی کے پاس ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ،ثُمَّ تَلاَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ} ،[30] الآیَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرئیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کاروپ دھارکرسائل کی شکل میں آپ کے پاس بیٹھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف جواب دیاکہ اس کاعلم نہ مجھے ہے نہ تجھے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ آیت تلاوت فرمائی ’’اس گھڑی کاعلم اللہ ہی کے پاس ہے وہی بارش برساتاہے وہی جانتاہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیاپرورش پا رہا ہے کوئی متنفس نہیں جانتاکہ کل وہ کیاکمائی کرنے والاہے اور نہ کسی شخص کویہ خبرہے کہ کس سرزمین میں اس کوموت آنی ہے ،اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ۔‘‘[31]

اوروہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گاوہ تم پراچانک آ جائے گی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآهَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِكَ حِینَ: {لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِی إِیمَانِهَا خَیْرًا[الأنعام: 158 ] وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَهُمَا بَیْنَهُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِهِ، وَلاَ یَطْوِیَانِهِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِهِ فَلاَ یَطْعَمُهُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَهُوَ یَلِیطُ حَوْضَهُ فَلاَ یَسْقِی فِیهِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ رَفَعَ أَحَدُكُمْ أُكْلَتَهُ إِلَى فِیهِ فَلاَ یَطْعَمُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو،اور جب لوگ آفتاب مغرب سے طلوع ہوتا ہوا دیکھ لیں گے تو سارے لوگ ایمان لے آئیں گے،’’ لیکن ایسا وقت ہوگا جس میں کسی شخص کا ایمان اس کو نفع نہ پہنچائے گا جب تک کہ پہلے سے ایمان نہ لایا ہو۔‘‘ اور قیامت اس طرح قائم ہوجائے گی کہ دو آدمی (خرید و فرخت کے لئے) کپڑے پھیلائے ہوں گے لیکن خرید وفرخت نہیں پائیں گے اور نہ اس کو لپیٹ سکیں گے،اور کوئی شخص اونٹنی کا دودھ لے کر چلا ہوگا لیکن وہ اس کو پینے نہ پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک آدمی اپنے جانور کو پلانے کے لئے حوض تیار کر رہا ہوگا اور اپنے جانوروں کو پلا نے نہ پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنالقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گااوراسے کھانے بھی نہ پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔[32]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرَّجُلُ یَحْلُبُ اللِّقْحَةَ، فَمَا یَصِلُ الْإِنَاءُ إِلَى فِیهِ حَتَّى تَقُومَ، وَالرَّجُلَانِ یَتَبَایَعَانِ الثَّوْبَ، فَمَا یَتَبَایَعَانِهِ حَتَّى تَقُومَ، وَالرَّجُلُ یَلِطُ فِی حَوْضِهِ، فَمَا یَصْدُرُ حَتَّى تَقُومَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآدمی اونٹنی دوہتاہوگا، دودھ کا برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچاہوگا قیامت قائم ہوجائے گی،اور دو مرد خریدوفروخت کرتے ہوں گےکپڑے کی خریدوفروخت نہ کرچکے ہوں گے کہ قیامت آجائے گی،اورکوئی مرداپناحوض درست کررہاہوگااس کودرست کرکے واپس نہ آئے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔[33]

وَقَالَ قَتَادَةُ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى:{لَا تَأْتِیكُمْ إِلا بَغْتَةً} قَضَى اللَّهُ أَنَّهَا {لَا تَأْتِیكُمْ إِلا بَغْتَةً} قَالَ: وَذُكِرَ لَنَا أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ السَّاعَةَ تَهِیجُ بِالنَّاسِ، وَالرَّجُلُ یَصْلِحُ حَوْضَهُ، وَالرَّجُلُ یَسْقِی مَاشِیَتَهُ، وَالرَّجُلُ یُقِیمُ سِلْعَتَهُ فِی السُّوقِ، وَیُخْفِضُ مِیزَانَهُ وَیَرْفَعُهُ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ وہ اچانک آئے گی۔‘‘کے بارے میں قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیاہے کہ وہ اچانک آئے گی، اوراس کے بارے میں ہم سے بیان کیاگیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک قیامت لوگوں پراس طرح ہلچل مچادے گی کہ کوئی اپنے حوض کودرست کررہاہوگا،کوئی اپنے مویشی کوپانی پلارہاہوگا،کوئی بازارمیں اپنے سامان تجارت کی نمائش کررہاہوگااورکوئی اپنے ترازوکونیچااوراونچاکررہاہوگا۔[34]

عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ البَادِیَةِ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ قَائِمَةٌ؟ قَالَ:وَیْلَكَ، وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَاقَالَ:مَا أَعْدَدْتُ لَهَا إِلَّا أَنِّی أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ:إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ فَقُلْنَا: وَنَحْنُ كَذَلِكَ؟ قَالَ:نَعَمْ فَفَرِحْنَا یَوْمَئِذٍ فَرَحًا شَدِیدًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورپوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئےگی ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(وہ آنے والی توقطعاًہے )افسوس تم نے اس کے لئے کیاتیاری کی ہے ؟(یعنی اس فکرکوچھوڑکہ قیامت کب اورکس وقت قائم ہوگئی بلکہ اس کی فکرکروکہ تمہاراعقیدہ کیاہے اورتم نے اپنے آگے کیابھیجاہے)اس نے عرض کی میں نے اس کے لئے توکوئی تیاری نہیں کی ہےالبتہ میں اللہ اوراس کے رسول کی محبت سے اپنے دل کولبریزپاتاہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم قیامت کے دن اس کے ساتھ ہوگاجس سے تم محبت رکھتے ہو،ہم نے عرض کی اورہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا؟فرمایاکہ ہاں ،ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے۔ [35]

اورجب قیامت کی گھڑی قائم ہوگی آسمانوں اورزمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا،

وَقَالَ الْحَسَنُ:ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ إِذَا جَاءَتْ ثَقُلَتْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ وَأَهْلِ الْأَرْضِ , یَقُولُ: كَبُرَتْ عَلَیْهِمْ

حسن بصری رحمہ اللہ کاقول ہے’’ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جب قیامت آئے گی تووہ آسمانوں اورزمین والوں پربہت شاق اوردشوراہوگی ۔[36]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ:{ثَقُلَتْ فِی السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ} قَالَ: إِذَا جَاءَتِ انْشَقَّتِ السَّمَاءُ، وَانْتَثَرَتِ النُّجُومُ، وَكُوِّرَتِ الشَّمْسُ، وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ، وَكَانَ مَا قَالَ اللَّهُ، فَذَلِكَ ثِقَلُهَا

اورابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت کریمہ’’ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔‘‘ کے معنی یہ ہیں جب قیامت آئے گی توآسمان پھٹ جائے گااورستارے جھڑجائیں گے سورج کولپیٹ دیاجائے گا اورپہاڑچلادیئے جائیں گے اوراللہ عزوجل نے جوفرمایاہے اسی طرح ہوگایہی وجہ ہے کہ قیامت بہت بھاری ہوگی۔[37]

یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑکر اس کی بابت ضروری علم حاصل کررکھاہے ، کہو !اس کاعلم توصرف اللہ کوہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ میں اپنی ذات کے متعلق کسی نفع اور نقصان کا اختیارنہیں رکھتاوہی کچھ ہوتاہے جو اللہ ہی چاہتاہے ،نہ میں عالم الغیب ہوں ، میں توصرف وہ جانتاہوں جواللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرادے ، علام الغیوب تواللہ کی ذات ہے،جیسے فرمایا

قُلْ اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَهٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا۝۲۵عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰی غَیْبِهٖٓ اَحَدًا۝۲۶ۙاِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا۝۲۷ۙ           [38]

ترجمہ:کہومیں نہیں جانتاکہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیاجارہاہے وہ قریب ہے یامیر ا رب اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقررفرماتاہے ،وہ عالم الغیب ہے اپنے غیب پرکسی کومطلع نہیں کرتاسوائے اس ر سول کے جسے اس نے (غیب کاعلم دینے کے لئے) پسند کر لیا ہوتواس کے آگے اورپیچھے وہ محافظ لگادیتاہے ۔

وَقَالَ ابْنُ جَرِیرٍ: وَقَالَ آخَرُونَ: مَعْنَى ذَلِكَ: لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَأَعْدَدْتُ لِلسَّنَةِ الْمُجْدِبَةِ مِنَ الْمُخْصِبَةِ، وَلَعَرَفْتُ الغَلاء مِنَ الرُّخْصِ، فَاسْتَعْدَدْتُ لَهُ مِنَ الرُّخْصِ

ابن جریرفرماتے ہیں کہ دیگرمفسرین نے اس آیت کریمہ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ اگرمجھے غیب کا علم ہوتاتومیں اپنے لئے بہت سے فائدے حاصل کرلیتااورمجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا، اگرمیں غیب کی باتیں جانتاتوخوشحالی کے دور میں قحط سالی کی تیاری کرلیتا ، چیزوں کے سستاہونے کے دورمیں مہنگائی کے دورکی تیاری کرلیتا ۔[39]

میں تومحض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں ،جیسے فرمایا

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا۝۹۷     [40]

ترجمہ:اس کلام کوہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں اسی لئے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دواورہٹ دھرم لوگوں کوڈرادو۔

وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں آدم علیہ السلام سے پیداکیااورانہی سے ان کی بیوی حواکوپیداکیاتاکہ اس کے پاس اطمینان و سکون حاصل کرے،پھران دونوں سے نسل انسانی جاری کی جیسے فرمایا

 وَمِنْ اٰیٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً۔۔۔۝۰۝۲۱ [41]

ترجمہ:اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کر دی ۔

 یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۔۔۔۝۰۝۱۳         [42]

ترجمہ: لوگو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورپھرتمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو۔

 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً ۔۔۔ ۝۱            [43]

ترجمہ: لوگو ! اپنے رب سے ڈروجس نے تم کوایک جان سے پیداکیااوراسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت دنیامیں پھیلادیے۔

پھر جب مردنے عورت کووطی کرنے کے لئے ڈھانک لیاتوبحکم الٰہی اسے ایک خفیف ساحمل رہ گیا ، جب تک وہ نطفے ، خون اورلوتھڑے کی شکل میں ہوتاہے ہلکاسارہتاہے اوروہ بغیرگرانی کے اپنے کام کاج وغیرہ میں لگی رہی،پھرکچھ وقت گزر جانے کے بعدپیٹ میں بچہ بڑاہوگیا اورولادت کا وقت قریب آگیا تومیاں بیوی دونوں کے دل میں خطرات اور توہمات پیداہوئے اور پھردونوں نے مل کراللہ اپنے رب سے دعاکی کہ اگرتو ہمیں بغیر کسی نقص کے صحیح سالم بیٹا عطا فرمادے توہم تیرے شکرگزارہوں گے مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیاتووہ اس کی بخشش وعنایت میں دوسروں کواس کاشریک ٹھیرانے لگے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ یافلاں پیرکی نظرکرم کانتیجہ ہے اورشکریے کے لئے ان کی درگاہوں پرنذریں اورنیازیں چڑھانے لگے اورپھراس کانام عبدالرسول ، عبدالعزیٰ ، امام بخش ،پیراں دتہ، عبد شمس ، بندہ علی وغیرہ رکھ لیتے ہیں اللہ بہت بلندوبرتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جویہ لوگ کرتے ہیں ۔

قال ابن حزم: اتفقوا على تحریم كل اسم معبد لغیر الله كعبد عمرو، وعبد الكعبة، وما أشبه ذلك حاشى عبد المطلب

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں اہل علم کااس بات پراتفاق ہے کہ جس نام میں غیراللہ کی عبدیت کااظہارہووہ حرام ہے مثلا ًعبدعمرو اورعبدالکعبہ وغیرہ البتہ عبدالمطلب نام میں اختلاف ہے۔[44]

أَیُشْرِكُونَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ‎﴿١٩١﴾‏ وَلَا یَسْتَطِیعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ‎﴿١٩٢﴾‏ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا یَتَّبِعُوكُمْ ۚ سَوَاءٌ عَلَیْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ ‎﴿١٩٣﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٩٤﴾‏ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ یَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْیُنٌ یُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِیدُونِ فَلَا تُنظِرُونِ ‎﴿١٩٥﴾إِنَّ وَلِیِّیَ اللَّهُ الَّذِی نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ یَتَوَلَّى الصَّالِحِینَ ‎﴿١٩٦﴾‏ وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ‎﴿١٩٧﴾‏ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا یَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْكَ وَهُمْ لَا یُبْصِرُونَ ‎﴿١٩٨﴾‏‏(الاعراف)
’’کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہو جو کسی کو پیدا نہ کرسکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں،اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود بھی مدد نہیں کرسکتے،اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو،واقع تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم جیسے ہی بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں اگر تم سچے ہو،کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے سنتے ہوں، آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو، یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے،اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اورنہ وہ اپنی مددکرسکتے ہیں،اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

انسان کاالمیہ خودمعبودسازی اوراللہ سے دوری ہے :

یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ ان ہستیوں کواللہ کاشریک ٹھیراتے ہیں جومخلوق میں کسی چیزکوبھی پیدانہیں کرتے بلکہ خوداللہ خالق کائنات انہیں پیداکرتاہے،واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭ  [45]

ترجمہ:اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ۔

ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بت پرست قوم کویہی تو فرمایاتھا

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ۝۹۵ۙ        [46]

ترجمہ:اس نے کہا کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو ؟۔

جونہ ان کی مددکرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ آپ اپنی مددکرنے کی استطاعت اورقدرت رکھتے ہیں ،جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بتوں کوتوڑپھوڑکربرابرکردیامگروہ اپنی مددپرقادرنہ ہوسکے اورنہ ہی ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان ہی پہنچاسکے۔

فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًۢـا بِالْیَمِیْنِ۝۹۳       [47]

ترجمہ:اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں ۔

 فَجَــعَلَہُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ۝۵۸ [48]

ترجمہ:چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیااور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔

اوران کے معبودوں کی کمزوری اورناتوائی کایہ حال تویہ ہے کہ اللہ کی مخلوق مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے توواپس بھی نہیں لاسکتے دوسروں کوکیادیں گے، جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـیْـــــًٔـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۷۴   [49]

ترجمہ:لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے،مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور،ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔

جب شریک ٹھیرائی ہوئی اس ہستی کی یہ حالت ہوکہ وہ ایک ذرہ بھی پیداکرنے پرقادرنہ ہوبلکہ خودمخلوق ہوتوبھلااس کواللہ کے ساتھ معبودکیسے بنایاجاسکتاہے ،اس کواللہ کی صفات اوراختیارات میں کیسے شامل کیاجاسکتاہے؟بلاشبہ یہ سب سے بڑاظلم اورسب سے بڑی حماقت ہے ،ان معبودان باطلا کاحال یہ ہے کہ سیدھی راہ دکھانااوراپنے پرستاروں کی رہنمائی کرناتودرکناروہ بیچارے توکسی رہنماکی پیروی کرنے کے قابل بھی نہیں حتی کہ کسی پکارنے والے کی پکارکاجواب تک نہیں دے سکتے،تم خواہ انہیں پکارویاخاموش رہودونوں صورتوں میں تمہارے لئے یکساں ہی ہے،جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدکووعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایاتھا

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَـیْــــــًٔــا۝۴۲       [50]

ترجمہ:(انہیں ذرا اس موقع کی یاد دلاؤ )جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان! آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ۔

مشرکانہ مذاہب میں تین چیزیں الگ الگ پائی جاتی ہیں ۔

و ہ اصنام ،تصاویریاعلامات جومرجع پرستش ہوتی ہیں ۔

و ہ اشخاص یاارواح یامعانی جودراصل معبودقراردیے جاتے ہیں اورجن کی نمائندگی اصنام اورتصاویروغیرہ کی شکل میں کی جاتی ہے۔

و ہ اعتقادات جوان مشرکانہ عبادات واعمال کی تہ میں کارفرماہوتے ہیں ۔

قرآن مجیدمختلف طریقوں سے ان تینوں چیزوں پرضرب لگاتاہے ،اس مقام پراس کی تنقیدکارخ پہلی چیزکی طرف ہے ،اصل میں مشرک کبھی بھی بت کوپتھرسمجھ کرنہیں پوجتا بلکہ یہ عقیدہ رکھتاہے کہ جس شخصیت کی شبیہ یامجسمہ سامنے ہے اس کی روح اس میں حلول کرگئی ہے اوروہ روح مجھے یوں عبادت کرتے دیکھ کرخوش ہوتی ہے اور پھر شیطان اسی اندازاوران تخیلات کونئی نئی شکلیں دیتارہتاہے ،چنانچہ فرمایاجن ہستیوں کوتم لوگ اللہ قادرمطلق کو چھوڑ کر پکارتے ہووہ تو محض تم جیسے بے بس اور لاچار بندے ہیں ، ان سے دعائیں مانگ دیکھواگران کے بارے میں تمہارے عقائد صحیح ہیں یہ تمہاری دعاؤں کاجواب دیں ،کیایہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟کیایہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟کیایہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟کیایہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں ؟مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودھمکیاں دیتے تھے کہ اگرتم ہمارے معبودوں کی مخالفت کرنے سے باز نہ آئے اورلوگوں کے عقائدخراب کرتے رہے توتم پرہمارے معبودوں کاغیض وغضب ٹوٹ پڑے گااوروہ تمہیں تباہ وبرباد کر کے رکھ دیں گے ،اس کا جواب فرمایاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو کہ میرے بارے میں تمہارایہ زعم ہے کہ میں ان بتوں کی گستاخی کے باعث کسی وبال کاشکارہوجاؤں گاتویہ میرا اعلان ہے کہ تمہارے معبود کچھ طاقت وقدرت اوراختیاررکھتے ہیں اور تمہارے مددگارہیں تومجھے برائی اورتکلیف پہنچانے کے لئے تم اورتمہارے معبوداکٹھے ہوجاؤ اورمجھے ہرگزمہلت نہ دو تب بھی تم مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچاسکوگے ،میراحامی وناصروہ اللہ رب العزت ہےجومجھے ہرقسم کی منفعت عطاکرتا اورہرقسم کے ضرر سے بچاتاہے ، جس نے یہ جلیل القدر کتاب قرآن مجیدنازل کیا ہے جوسراسرہدایت ،شفااورروشنی ہے، اوروہ نیک آدمیوں کی حمایت ومدد کرتاہے،جیسے فرمایا

اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۔۔۔۝۲۵۷ۧ           [51]

ترجمہ:جولوگ ایمان لاتے ہیں ان کاحامی ومددگاراللہ ہے اوروہ ان کوتاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتاہے۔

اوران کے دین و دنیا کی بھلائی اور مصالح میں ان کی مددکرتاہے اوران کے ایمان کے ذریعے سے ان سے ہرناپسندیدہ چیزکودورکرتاہے۔

اِنَّ اللهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔۝۰۝۳۸ۧ [52]

ترجمہ: یقینا ًاللہ مدافعت کرتاہے ان لوگوں کی طرف سے جوایمان لائے ہیں ۔

ہود علیہ السلام نے بھی مشرکین کی دھمکیوں کے جواب میں یہی بات کہی تھی۔

۔۔۔ قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙمِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۶ [53]

ترجمہ:ہود علیہ السلام نے کہامیں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں اورتم گواہ رہوکہ یہ جواللہ کے سوا دوسروں کوتم نے خدائی میں شریک ٹھیرارکھاہے اس سے میں بیزار ہوں ،تم سب کے سب مل کرمیرے خلاف اپنی کرنی میں کسرنہ اٹھارکھو اورمجھے ذرامہلت نہ دو، میرابھروسہ اللہ پرہے جو میرا رب بھی ہے اورتمہارارب بھی ،کوئی جاندارایسانہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہوبیشک میرارب سیدھی راہ پر ہے ۔

ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کوفرمایا تھا

وَكَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا۔۔۔۝۰۝۸۱ۘ [54]

ترجمہ:اورآخرمیں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جب کہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لئے اس نے تم پرکوئی سندنازل نہیں کی ہے۔

بخلاف اس کے تم اللہ کو چھوڑکرجنہیں پکارتے ہووہ نہ تمہاری مددکرسکتے ہیں اورنہ خودہی اپنی مددہی کرنے کے قابل ہیں ،پھر جو اپنی مددآپ کرنے پرقدرت نہ رکھتاہووہ بھلادوسروں کی مددکیا کر سکتے ہیں ،بلکہ اگرتم انہیں سیدھی راہ پرآنے کے لئے کہوتوراہ راست پرآناتوکجاوہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے، جیسے فرمایا

اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۔۔۔ۚ ۝۰۝۱۴ۧ[55]

ترجمہ:انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے۔

بظاہرتم کوایسا نظر آتاہے کہ وہ اپنی مصنوعی آنکھوں سے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِینَ ‎﴿١٩٩﴾‏ وَإِمَّا یَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٠٠﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ‎﴿٢٠١﴾‏ وَإِخْوَانُهُمْ یَمُدُّونَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُونَ ‎﴿٢٠٢﴾‏ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآیَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَیْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ مِن رَّبِّی ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٠٣﴾‏ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٢٠٤﴾(الاعراف)
’’ آپ درگزر اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ،اور اگرآپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے، یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں،سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں،اور جو شیاطین کے طابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے،اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے؟ آپ فرما دیجئے ! کہ میں اس کااتباع کرتا ہو جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں، اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ۔‘‘

مبلغ کی شان :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان سب لوگوں کوحکمت سکھائی جورسول اللہ کے قائم مقام بن کردنیاکوراہ راست دکھانے کے لئے کھڑے ہوں فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ظلم کے مقابلے میں معاف کردینے ،قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اوربرائی کے بدلہ احسان وسلوک اورجہاہلو ں سے نرمی ودرگزراوران کے نقائص سے چشم پوشی کاطریقہ اختیار کرو،سیدھی اورصاف نیکیوں کی تلقین کرتے رہواوراگرجاہل الجھنے اورالجھانے کی کوشش کریں تو ان کی طرف سے منہ پھیرلیاکرو،جیسے فرمایا

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَـنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴      [56]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہاے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ۔۔۔[57]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !برائی کواس طریقہ سے دفع کروجو بہترین ہو۔

عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَةَ، عَنْ رَجُلٍ، قَدْ سَمَّاهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِینَ}قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا جِبْرِیلُ مَا هَذَا ؟قَالَ: إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتُعْطِیَ مَنْ حَرَمَكَ،وَتَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ

سفیان بن عیینہ ازابی سے روایت ہے جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پریہ آیت کریمہ’’اے نبی، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘ نازل فرمائی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے جبریل علیہ السلام اس سے کیامرادہے؟  جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کویہ حکم دیاہے کہ جوآپ پرظلم کرے آپ اسے معاف کردیں اور جوآپ کو نہ دے آپ اسے دیں اور جو آپ سے قطع تعلقی کرے آپ اس سے مل کررہیں ۔[58]

أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ عُیَیْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَةَ فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِیهِ الحُرِّ بْنِ قَیْسٍ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِینَ یُدْنِیهِمْ عُمَرُ، وَكَانَ القُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ، كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، فَقَالَ عُیَیْنَةُ لِابْنِ أَخِیهِ: یَا ابْنَ أَخِی، هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الأَمِیرِ، فَاسْتَأْذِنْ لِی عَلَیْهِ، قَالَ: سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَیْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَاسْتَأْذَنَ الحُرُّ لِعُیَیْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهِ قَالَ: هِیْ یَا ابْنَ الخَطَّابِ، فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِینَا الجَزْلَ وَلاَ تَحْكُمُ بَیْنَنَا بِالعَدْلِ، فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ أَنْ یُوقِعَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ الحُرُّ: یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {خُذِ العَفْوَ وَأْمُرْ بِالعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الجَاهِلِینَ} [59]، وَإِنَّ هَذَا مِنَ الجَاهِلِینَ، وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِینَ تَلاَهَا عَلَیْهِ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےانہوں نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھتیجے حربن قیس کے پاس آئے اورحربن قیس ان لوگوں میں سے تھے جن کوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خاص قرب حاصل تھا،اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ہم نشین اورمشیرقرآن کریم کے عالم اور قاری ہوتے تھے، ادھیڑعمرہوں یاجوان اس کی کوئی پابندی نہ تھی، عیینہ بن حصن نے اپنے بھتیجے سے کہا اے بھتیجے! تجھے تواس امیر کے ہاں خاص قرب حاصل ہے، لہذا میرے لیے بھی ان سے ملاقات کی اجازت طلب کرو، حربن قیس نے کہا اچھا میں ضرورآپ کے لیے اجازت طلب کروں گا،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حر نے عیینہ کیلئے اجازت طلب کی توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، عیینہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم !نہ تو تم انصاف کرتے ہو اور نہ ہمارے ساتھ کچھ سخاوت سے پیش آتے ہو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر غضب ناک ہوگئےاور قریب تھا کہ اسے ماریں ، اس وقت حر نے ان کی خدمت میں عرض کی اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے فرمایا ہے’’اے نبی! نرمی ودرگزرکاطریقہ اختیارکرو،معروف کی تلقین کیے جاؤاورجاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘ اور بیشک یہ بھی جاہلوں سے ہے، (عبداللہ بن عباس کا بیان ہے) جس وقت حر نے یہ آیت تلاوت کی توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے سننے کے بعدذرہ برابربھی آگے نہ بڑھے اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے پاس ٹھیرجانے والے تھے۔[60]

کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے۔

خُذ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بعُرفٍ كَمَا، أُمِرتَ وأعْرض عَنِ الجَاهلینْ

عفوکواختیارکروجس طرح تمہیں حکم دیاگیاہے اورجاہلوں سے کنارہ کشی کرلو

وَلِنْ فِی الكَلام لكُلِّ الْأَنَامِ ، فَمُسْتَحْسَن مِنْ ذَوِی الْجَاهِ لِینْ

اورتمام لوگوں کے لیے کلام میں نرمی اختیارکرو،اصحاب جاہ کے لیے نرمی ہی مستحسن ہے۔[61]

اس موقع پراگر شیطان تمہیں اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تواللہ کی پناہ طلب کرو،جیسے فرمایا

وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۳۶      [62]

ترجمہ:اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

قال أبو جعفر: یَعْنِی جَلَّ ثَنَاؤُهُ بِقَوْلِهِ: (وَإِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ) ،وَإِمَّا یُغْضِبَنَّكَ مِنَ الشَّیْطَانِ غَضَبٌ ، یَصُدُّكَ عَنِ الْإِعْرَاضِ عَنِ الْجَاهِلِینَ، وَیَحْمِلُكَ عَلَى مُجَازَاتِهِمْ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ

ابن جریرنے آیت کریمہ’’اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘  کی تفسیرمیں لکھاہے کہ اگرشیطان کی طرف سے تمہیں اس قدرغصہ آجائے جوتمہیں جاہلوں سے کنارہ کشی سے روک دےاوران سے انتقام لینے پرآمادہ کرے تواس کے وسوسے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کرو۔[63]

ایساکرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہوجائے گا اور تم اخلاق کریمانہ پرعامل ہوجاؤگے،آپ جوکچھ کہتے ہیں اللہ اسے سنتاہے،وہ آپ کی نیت ، آپ کی کمزوری اورآپ کی پناہ لینے کی قوت کو خوب جانتاہے ،وہ آپ کوشیطان کے فتنے سے محفوظ رکھے گااورآپ کوشیطان کے وسوسوں سے بچائے گا،جیسے فرمایا

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۝۱ۙمَلِكِ النَّاسِ۝۲ۙاِلٰهِ النَّاسِ۝۳ۙمِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ۝۰ۥۙ الْخَنَّاسِ۝۴۠ۙالَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۝۵ۙمِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۝۶ۧ        [64]

ترجمہ:کہومیں پناہ مانگتاہوں انسانوں  کے رب،انسانوں کے بادشاہ،انسانوں کے حقیقی معبودکی اس وسوسہ ڈالنے والے کے شرسے جوباربارپلٹ کرآتاہے ،جولوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتاہے خواہ وہ جنوں میں سے ہویاانسانوں میں سے۔

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلاَنِ یَسْتَبَّانِ، فَأَحَدُهُمَا احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذَهَبَ عَنْهُ مَا یَجِدُ، لَوْ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّیْطَانِ، ذَهَبَ عَنْهُ مَا یَجِدُ

سلیمان بن صردسے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھاہواتھااور(قریب ہی)دوشخص آپس میں گالی گلوچ کررہے تھے ،ان میں سے ایک کامنہ سرخ ہو گیااورگردن کی رگیں پھول گئیں (یعنی ایک شخص سخت غضبناک ہوگیا )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ایک ایساکلمہ معلوم ہے کہ اگریہ شخص اسے پڑھ لے تواس کاغصہ جاتا رہے گا،اگریہ شخص میں پناہ مانگتاہوں اللہ کی شیطان سےکہہ لے تواس کاغصہ جاتارہے گا۔[65]

حقیقت میں جولوگ متقی ہیں ان کاحال تویہ ہوتاہے کہ کبھی شیطان کے اثرسے کوئی براخیال اگرانہیں چھوبھی جاتاہے تو وہ فوراًچوکنے ہو جاتے ہیں اورشیطانی شرسے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے لگتے ہیں ، پھر انہیں صاف نظرآنے لگتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کارکیاہے،رہے شیاطین کے بھائی بند اوران کے دوست،جیسے فرمایا

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔۔۔۝۰۝۲۷ [66]

ترجمہ:فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں ۔

تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لئے چلے جاتے ہیں اورانہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ تَـــؤُزُّہُمْ اَزًّا۝۸۳ۙ [67]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے ان منکرین حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو انہیں خوب خوب (مخالفت حق پر) اکسا رہے ہیں ؟۔

وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَیْتَهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ۝۰ۚ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۲۰۳ وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴            [68]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی(یعنی معجزہ)پیش نہیں کرتے تویہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لئے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟ان سے کہو میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومیرے رب نے میری طرف بھیجی ہے،یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اورہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جواسے قبول کریں ،جب قرآن تمہارے سامنے پڑھاجائے تواسے توجہ سے سنواورخاموش رہوشایدکہ تم پربھی رحمت ہوجائے۔

سب سے بڑامعجزہ قرآن مجیدہے :

مشرکین مکہ سرکشی اورعنادکے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کرتے اورآپ اسے پیش نہ کرتے توکہتے اگریہ نبی ہوتاتواپنی صداقت میں کوئی معجزہ ظاہرکردیتا اس لئے ہم اپنے آباؤاجدادکے دین کوترک کرکے اس پرایمان کیوں لائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تم ان لوگوں کے سامنے ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ پیش نہیں کرتے تویہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لئے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟اللہ تعالیٰ نے فرمایااگرہم چاہتے توآسمان سے کوئی نشانی اتاردیتے جس سے ان کی گردنیں جھک جاتیں ۔

 اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ۝۴ [69]

ترجمہ:ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں ۔

مگرآپ ان لوگوں سے کہیں معجزات پیش کرنامیرے اختیارمیں نہیں ہے،یہ تورب کے اختیارمیں ہے کہ اپنی حکمت و مشیت سے چاہئے تومعجزہ ظاہرفرمادے اورنہ چاہے تونہ فرمائے،میرامنصب یہ نہیں ہے کہ جس چیزکی مانگ ہویاجس کی میں خودضرورت محسوس کروں اسے خودایجاد یا تصنیف کرکے پیش کردوں ،میں توایک رسول ہوں اورصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومیرے رب نے میری طرف بھیجی ہے،ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیاہے یہ بجائے خودایک بہت بڑا معجزہ ہے، جس میں تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل وبراہین اور اورہدایت و رحمت ہے ،اس کے بعدکسی اورمعجزے کی طلب باقی نہیں رہتی بشرطیکہ کوئی ایمان لانے والاہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے سامنے تلاوت قرآن فرماتے تومشرکین خودبھی شور وغل مچاتے اوراپنے ساتھیوں کوبھی ایساکرنے کا کہتے تاکہ کوئی اس پراثر کلام کوتوجہ سے سن نہ سکے،جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝۲۶ [70]

ترجمہ:یہ منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کوہرگزنہ سنو اور جب یہ سنایاجائے تواس میں خلل ڈالوشایدکہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔

ان لوگوں سے فرمایاکہ تعصب اورہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آوازکوسنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہواور شوروغل مچاتے ہوتاکہ نہ تم خودسنواورنہ کوئی دوسراسن سکے ،اس روش کوچھوڑکر اگرتم قرآن کو توجہ سے سنو اورخاموش رہوتو شاید اللہ رب العالمین تمہیں ہدایت سے نوازدے اورتم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ یہ یاد رہے کہ اس آیت میں جوخاموش رہنے کاحکم ہے یہ صرف اس قرآن کے لئے ہے جوسورۂ فاتحہ کے سواہو،

عن عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ: مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فلیقرأبِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جوشخص امام کے پیچھے نمازپڑھ رہاہووہ سورۂ فاتحہ ضرورپڑھ لے۔[71]

ابْنُ عَبَّاسٍ یقول: اقرأ خَلْفَ الْإِمَامِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےامام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھو۔[72]

پس فاتحہ پڑھنے کاحکم ہے اورقرات کے وقت خاموشی کاحکم ہے۔

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِی نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِیفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِینَ ‎﴿٢٠٥﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ عِندَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ یَسْجُدُونَ ۩ ‎﴿٢٠٦﴾‏(الاعراف)
’’اور اے شخص ! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا،یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘

اللہ کی یادبکثرت کرومگرخاموشی سے :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے رب کوعاجزی اورتذلل سے صبح وشام یادکیاکرو،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ۝۳۹ۚ       [73]

ترجمہ: اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہوطلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے ۔

دل ہی دل میں زاری اورخوف کے ساتھ اورزبان سے بھی ہلکی آوازکے ساتھ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا۝۱۱۰        [74]

ترجمہ:اوراپنی نمازنہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھواورنہ بہت پست آوازسے،ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کالحجہ اختیارکرو۔

قَالَ أَرَاهُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : أَقَرِیبٌ رَبُّنَا فَنُنَاجِیهِ، أَمْ بَعِیدٌ فَنُنَادِیهِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ

ایک اعرابی سے مروی ہےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ ہمارارب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کرلیاکریں یادورہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،’’اوراے نبی!میرے بندے اگرتم سے میرے متعلق پوچھیں توانہیں بتادوکہ میں ان سے قریب ہی ہوں ،پکارنے والاجب مجھے پکارتاہے میں اس کی پکارسنتااورجواب دیتاہوں ۔‘‘[75]

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ، هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِیعٌ قَرِیبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک سفر( غزوہ خیبر)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،جب ہم کسی وادی میں اترتے توکہتے لاالٰہ الااللہ اورہماری آوازبلندہوجاتی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےلوگو!اپنی جانوں پر ترس کھاؤتم کسی بہرے یاکسی غائب اللہ کونہیں پکاررہے ہو،وہ توتمہارے ساتھ ہی ہے،بے شک وہ سننے والااورتم سے بہت قریب ہے (وہ توتمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے)برکتوں والاہے ،اس کانام اوراس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے۔[76]

تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جوغفلت میں پڑے ہوئے ہیں اوروہ دنیاوآخرت کی بھلائی سے محروم رہ گئے ہیں جوفرشتے تمہارے رب کے حضورتقرب کامقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈمیں آکراس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے بلکہ اس کی عبادت کے لئے سرافگندہ اوراپنے رب کے احکام کے سامنے مطیع ہیں اوررات دن اس کی حمدوثنا بیان کرنے میں مگن رہتے ہیں اور اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سجدے کرتے ہیں ،اس لئے اگرتم ترقی وبلندی اوراللہ کے تقرب کے خواہشمندہوتواپنے طرزعمل کوملائکہ کے طرزعمل کے مطابق بناؤ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:فَقَالَ:أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللهِ، وَكَیْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ:یُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَیَتَرَاصُّونَ فِی الصَّفِّ

جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ اس طرح صف باندھاکرو جس طرح فرشتے بارگاہ الہیٰ میں صف بستہ رہتے ہیں ہم نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !فرشتے بارگاہ الہیٰ میں کیسے صف بستہ ہوتے ہیں ؟ وہ پہلے اول صف کوپوراکرتے ہیں اورصفوں میں ذراسی بھی گنجائش اورجگہ باقی نہیں چھوڑتے۔[77]

اس آیت پرسجدہ واجب ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْكِی، یَقُولُ: یَا وَیْلَهُ – وَفِی رِوَایَةِ أَبِی كُرَیْبٍ: یَا وَیْلِی – أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَیْتُ فَلِیَ النَّارُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب انسان سجدے کی آیت پڑھ کرسجدہ کرتاہے توشیطان الگ ہٹ کررونے لگتاہے کہ افسوس !ابن آدم کو سجدے کاحکم ملااس نے سجدہ کرلیااب اس کوجنت ملے گی ، اورمجھے سجدہ کاحکم ہوامیں نے انکارکردیامیرے لئے جہنم ہے۔[78]

[1]۔ صحیح بخاری کتاب الھبة بَابٌ لاَ یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یَرْجِعَ فِی هِبَتِهِ وَصَدَقَتِهِ ۲۶۲۲

[2] البقرة۶

[3] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ۶۷۴۸

[4] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۸،صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ ۶۷۲۳،شرح السنة للبغوی ۶۷

[5] الاحقاف۲۶

[6] البقرة۱۷۱

[7] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابٌ لِلَّهِ مِائَةُ اسْمٍ غَیْرَ وَاحِدٍ ۶۴۱۰،وکتاب الشروط بَابُ مَا یَجُوزُ مِنَ الِاشْتِرَاطِ وَالثُّنْیَا فِی الإِقْرَارِ، وَالشُّرُوطِ الَّتِی یَتَعَارَفُهَا النَّاسُ بَیْنَهُمْ، وَإِذَا قَالَ: مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَیْنِ ۲۷۳۶،صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابٌ فِی أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَى وَفَضْلِ مَنْ أَحْصَاهَا۶۸۰۹

[8] تفسیرابن کثیر۵۱۴؍۳

[9] شرح فقہ اکبر۷۱

[10] الهدایة فی شرح بدایة المبتدی۳۸۰؍۴

[11] البحر الرائق شرح كنز الدقائق۲۳۵؍۸

[12] فتاوی عالمگیری ۳۸

[13]الأعراف: 180

[14] رد المحتار على الدر المختار۳۹۶؍۶

[15] رد المحتار على الدر المختار۴۳۹؍۲

[16] مسند احمد ۳۷۱۲، مسند البزار ۱۹۹۴، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۳۵۲، صحیح ابن حبان۹۷۲،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۳۱۸، مسند ابی یعلی۵۲۹۷

[17] فتح القدیر ۳۰۵؍۲

[18] ایسرالتفاسیر۲۶۷؍۲

[19] صحیح بخاری کتاب المناقب باب ۲۸،ح۳۶۴۰،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الْحَقِّ لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ ۴۹۵۰

[20] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ۷۴۶۰

[21] الانعام۴۴،۴۵

[22] التکویر۲۲

[23] سبا۴۶

[24] الملک۳،۴

[25] المائدة۴۱

[26] یونس۱۰۱

[27] الملک۲۵

[28] یٰسین۴۸تا۵۰

[29] لقمان۳۴

[30]لقمان: 34

[31] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ ۵۰، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ۹۷،۹۹

[32] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ طُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا۶۵۰۶

[33] صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۱۳

[34] تفسیرطبری۲۹۷؍۱۳

[35] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ الرَّجُلِ وَیْلَكَ ۶۱۶۷،صحیح مسلم کتاب البرو الصلة بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ۶۷۱۱

[36] تفسیرعبدالرزاق ۱۰۱؍۲

[37] تفسیر طبری۲۹۶؍۱۳

[38] الجن۲۵تا۲۷

[39] تفسیر طبری ۳۰۲؍۱۳

[40] مریم ۹۷

[41] الروم۲۱

[42] الحجرات۱۳

[43] النسائ۱

[44] مراتب الإجماع فی العبادات والمعاملات والاعتقادات۱۵۴؍۱

[45] النحل۲۰

[46] الصافات۹۵

[47] الصافات۹۳

[48] الانبیائ۵۸

[49] الحج۷۳،۷۴

[50] مریم۴۲

[51] البقرة۲۵۷

[52] الحج۳۸

[53] ھود۵۴تا۵۶

[54] الانعام۸۱

[55] فاطر۱۴

[56] حم السجدة۳۴

[57] المومنون۹۶تا۹۸

[58] تفسیرابن ابی حاتم ۱۶۳۸؍۵، تفسیرطبری۳۳۰؍۱۳

[59] الأعراف: 199

[60] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ خُذِ العَفْوَ وَأْمُرْ بِالعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الجَاهِلِینَ ۴۶۴۲

[61] زهر الآداب وثمر الألباب۴۲۷؍۲،حیاة الحیوان الكبرى۳۲۰؍۲

[62] حم السجدة۳۶

[63] تفسیرطبری۳۳۲؍۱۳

[64] الناس۱تا۶

[65] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ صِفَةِ إِبْلِیسَ وَجُنُودِهِ۳۲۸۲ ،وکتاب الادب بَابُ مَا یُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ۶۰۴۸،وبَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ۶۱۱۵

[66] بنی اسرائیل۲۷

[67] مریم۸۳

[68] الاعراف۲۰۳،۲۰۴

[69] الشعرائ۴

[70] حم السجدة۲۶

[71]کنزالعمال۱۹۶۸۲

[72] کنز العمال ۲۲۹۶۶

[73]ق ۳۹

[74] بنی اسرائیل۱۱۰

[75] العظمة لابی الشیخ الاصبھانی۵۳۵؍۲

[76] صحیح بخاری کتاب الجھادبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ فِی التَّكْبِیرِ ۲۹۹۲،صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء بَابُ اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ۶۸۶۲

[77] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِی الصَّلَاةِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْیَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِیهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ ۹۶۸

[78] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ۲۴۴،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ ۱۰۵۲،مسنداحمد۹۷۱۳،صحیح ابن خزیمة۵۴۹،صحیح ابن حبان ۲۷۵۹،شعب الایمان ۱۴۰۷،السنن الکبری للبیہقی ۳۷۰۰،شرح السنة للبغوی ۶۵۳

Related Articles