بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ البینہ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بیان کرنے کے بعدکہ اللہ تعالیٰ کاپاکیزہ کلام کب نازل فرمایاگیاتھا،اس کے بعدیہ سورۂ البینہ نازل فرمائی ،جس میں اہل کتاب یہودونصاریٰ کے بارے میں فرمایاکہ انہوں نے نفسانی خواہشات اورمالی مفادات کے تحت دین میں خودساختہ رسومات واعمال داخل کردیے ہیں اوراصل دین نظرنہیں آتا،تورات وانجیل میں اس قدرمن مانی تحریفات کر دی ہیں کہ اب صرف وہ برائے نام ہی اللہ کی کتاب رہ گئی ہے،اوراب ظلمتوں میں بھٹکتے لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے سے قاصرہے ،انہوں نے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے کی بجائے اللہ کی اولادتخلیق کرڈالی ہے،چنانچہ اہل کتاب اورمشرکین کوباورکرایاکہ دنیامیں رسول کابھیجنااس لیے ضروری تھاتاکہ اللہ اس پرتمام آمیزشوں ، آلودگیوں سے پاک اپنی کتاب نازل کرے اوروہ خودعملی طورپراس کتاب کے احکام پرعمل پیراہواورلوگوں کواپنے مالک حقیقی کی بندگی اوران کے باہمی معاملات ، معاشیات اورعدل وانصاف میں صحیح رہنمائی کرے تاکہ لوگ کماحقہ عمل پیراہوکرآخرت کے دردناک عذاب سے بچ جائیں ۔

سورۂ البینہ میں تین امور پر بحث کی گئی ہے۔

x اہل کتاب کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موقف۔

xاخلاص جس کے بغیرایمان وعمل معتبرنہیں ہوتا۔

 xکفارومشرکین اوراہل ایمان کاانجام ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

لَمْ یَكُنِ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِینَ مُنفَكِّینَ حَتَّىٰ تَأْتِیَهُمُ الْبَیِّنَةُ ‎﴿١﴾‏ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ یَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ‎﴿٢﴾‏ فِیهَا كُتُبٌ قَیِّمَةٌ ‎﴿٣﴾‏  (البینہ )

اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آجائے باز رہنے والے نہ تھے (وہ دلیل یہ تھی کہ) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول جو پاک آسمانی کتاب پڑھےجن میں صحیح اور درست احکام ہوں ۔


أَبَا حَبَّةَ الْبَدْرِیَّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَمْ یَكُنِ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ}[1] إِلَى آخِرِهَا، قَالَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رَبَّكَ یَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَهَا أُبَیًّا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَیٍّ:إِنَّ جِبْرِیلَ أَمَرَنِی أَنْ أُقْرِئَكَ هَذِهِ السُّورَةَ قَالَ أُبَیٌّ: وَقَدْ ذُكِرْتُ ثَمَّ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:نَعَمْ قَالَ: فَبَكَى أُبَیٌّ

ابوحبہ بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب سورت البینہ نازل ہوئی توجبرئیل علیہ السلام نے فرمایااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کوحکم دیاہے کہ یہ سورت(ثابت قدمی اوران کے ایمان کی زیادتی کے لئے) ابی رضی اللہ عنہ کو سناؤ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایاجبرئیل علیہ السلام نے مجھے کہاہے کہ میں یہ سورت تمہیں سناؤ ں توابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وہاں میراذکرکیاگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں توابی رضی اللہ عنہ روپڑے۔ [2]

سورۂ کاابتدائیہ رسالت کی اہمت وفلسفہ کے بیان میں ہے ،جب سے دنیاوجودمیں آئی ہے ،ابلیس اپنے چیلنج کے مطابق اللہ کے بندوں کومختلف حیلوں بہانوں اورجھوٹے وعدوں سے راہ حق سے گمراہ کرتا ہی رہاہے،جیسے فرمایا:

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [3]

ترجمہ: بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گاآگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۳۹ۙاِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۝۴۰ [4]

ترجمہ: وہ بولا میرے رب! جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں زمین پر ان کے لیے دلفریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گاسوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کرلیا ہو۔

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۲ۙ [5]

ترجمہ:اس نے کہا تیری عزت کی قسم !میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا۔

قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۝۰ۡلَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲ [6]

ترجمہ:پھر وہ بولادیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔

اوراللہ تبارک وتعالیٰ اپنےوعدے کے مطابق بندوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے جلیل القدر پیغمبرمبعوث فرماتارہاہے،جیسے فرمایا

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ [7]

ترجمہ: ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا،اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اور اپنے پیغمبروں پر کتابیں نازل کرکے بندوں پر حجتیں اوردلیلیں قائم فرماتارہاہے،جیسےفرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [8]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جورسول بھی بھیجاہے اس کویہی وحی کی ہے کہ میرے سواکوئی الٰہ نہیں ہے پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

مگراس واضح ہدایات کے باوجود اہل کتاب نے اللہ کے کلام میں اختلاف کیا،توراة کے حامل یہود نے اللہ کووحدہ لاشریک سمجھنے کے بجائے بدترین شرک میں مبتلاہوکراپنے پیغمبر عزیر رضی اللہ عنہ کو (نَعُوذُ بِاَللَّه) اللہ کابیٹامان لیا،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ۔۔۔ [9]

ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ عزیراللہ کابیٹاہے ۔

اوراللہ کی کتاب انجیل کے حامل نصاریٰ نے بھی اللہ کووحدہ لاشریک سمجھنے کی بجائے عیسٰی علیہ السلام (روح اللہ )کو (نَعُوذُ بِاَللَّه)اللہ کا بیٹا سمجھ لیا،جیسے فرمایا:

وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللهِ۝۰ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ۔۔۔۝۳۰ [10]

ترجمہ: اورعیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کابیٹاہے ،یہ بے حقیقت باتیں ہیں جووہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ۔

ان میں سے بعض اپنے کفرمیں اتنے بڑھے کہ انہوں نے خودمسیح ہی کو اللہ سمجھ لیا،جیسے فرمایا

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ هُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ۔۔۔ ۝۱۷ [11]

ترجمہ: یقینا ً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے ۔

ان میں بعض نے تثلیث کا عقیدہ وضع کرکے تین الٰہ تسلیم کر لیے ،جیسے فرمایا

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلٰــثَةٍ۝۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۔۔۔ ۝۷۳ [12]

ترجمہ:یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالانکہ ایک الٰہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کوصلیب پر لٹکا دیاہے مگراس واقعہ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے مشتبہ بنادیا،جیسے فرمایا

وَّقَوْلِـهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُـبِّهَ لَهُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ۝۰ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا۝۱۵۷ۙ [13]

ترجمہ:اور خود کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔

بنی اسرائیل نے چندٹکوں کی منفعت حاصل کرنے کے لئے اپنی دینی کتابوں میں تحریف کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاکیزہ تعلیمات کومسخ کردیا،جیسے فرمایا:

مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۝۷۵ [14]

ترجمہ:اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔

مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ۝۴۶ [15]

ترجمہ:جو لوگ یہودی بن گئے ہیں ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں ۔

 یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ۝۱۳ [16]

ترجمہ:اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ۔

یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ۝۴۱ [17]

ترجمہ:کتاب اللہ کے الفاظ کو ان کا صحیح محل متعیّن ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں ۔

اپنے علماء کو خدائی کادرجہ دے دیایعنی جووہ کہتے اسے حرف بحرف صحیح تسلیم کرلیاجاتااورجس سے روکتے رک جاتے ،جیسے فرمایا

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۝۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۳۱ [18]

ترجمہ:انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ یَقْرَأُ فِی سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ}، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ یَكُونُوا یَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْهِمْ شَیْئًا حَرَّمُوهُ.

عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم سے مروی ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورمیری گردن میں سونے کی صلیب پڑی ہوئی تھی، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عدی!اس بت کواپنے پاس سے دورکردو،اورمیں نے سورۂ التوبہ کی اس آیت کوپڑھتے ہوئے سنا انہوں نےاپنے علماء اورور درویشوں کواللہ کے سوااپنارب بنالیا(یہ آیت سن کرعدی رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اپنے علماء اوردرویشوں کورب تونہیں بناتے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہواورجوکچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو ؟یہی تورب بناناہے۔[19]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی سرکشی پران میں یکے بعد دیگرے پیغمبربھیجے مگریہ اپنی روش سے بازنہ آئے بلکہ کئی پیغمبروں کوقتل تک کردیا،جیسے فرمایا:

ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّـةُ اَیْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَاۗءَ بِغَیْرِ حَقٍّ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۱۱۲ۤ [20]

ترجمہ:یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ، کہیں اللہ کے ذمّہ یا انسانوں کے ذمّہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے،یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہےاور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا، یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔

مشرکین میں ستارہ پرست لوگوں نے جوکسی نبی کے پیروکاراورکسی کتاب کوماننے والے نہ تھے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ادنیٰ مخلوق سات ستاروں کواپنامعبود بنالیا،ان کی عبادت کرنے کے لئے عظیم الشان ہیکل تعمیرکیے جہاں ان کی خوشنودی کے لئے انسانی وحیوانی جانوں کی قربانی کی رسومات اداکی جانے لگیں ، بدترین اخلاقی رسومات کوفروغ دیا گیا ،مجوس نے دوالٰہ بناکر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ادنیٰ مخلوق آگ کی پوجا شروع کردی، اہل عرب جواللہ تبارک وتعالیٰ کوتسلیم کرتے تھے مگر اللہ کی ذات وصفات واختیارات میں اپنے باطل معبودوں کوشریک کرکے ان کی پرستش کرنے لگے،اللہ تبارک وتعالیٰ کے مقدس گھرمیں ہی ان باطل معبودوں کوسجادیاگیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زمین پر ہر طرح کے ظلم وستم کابازارگرم کردیا،ان کے علاوہ کئی لوگ ایسے تھے جو اللہ کومانتاتھے مگر رسالت کے منکرتھے اور انبیاء کے ذریعہ آئی ہوئی ہدایت کوقبول نہ کرتے تھے،بعض لوگ ایسے تھے جو ایک نبی کومانتے تھے مگرکسی دوسرے نبی کے منکرتھے ،آخرت کاعقیدہ ان مشرکین کے لئے ایک دیوانے کی بڑکے سواکچھ نہ تھا،جیسے فرمایا

 اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْــرَجُوْنَ۝۳۵۠ۙهَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۝۳۶۠ۙاِنْ هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۳۷۠ۙاِنْ هُوَاِلَّا رَجُلُۨ افْتَرٰى عَلَی اللهِ كَذِبًا وَّمَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۳۸ [21]

ترجمہ:یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اس وقت تم(قبروں سے)نکالے جاؤ گے؟بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے،زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی، یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ،یہ شخص اللہ کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں ہیں ۔

کفروشرک میں ڈوبے ان سب لوگوں کو گمراہیوں ،ظلمتوں سے نکالنے کی صرف ایک ہی سبیل تھی کہ جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی امتوں میں ان کے اختلافات کی وجہ سے پیغمبرمبعوث فرمائے تھے،جیسے فرمایا:

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً۝۰ۣ فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِـیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ۔۔۔۝۲۱۳ [22]

ترجمہ:ابتدامیں سب لوگ ایک ہی طریقے پرتھے(پھریہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونماہوئے)تب اللہ نے اپنے نبی بھیجے جوراست روی پربشارت دینے والے اورکجروی کے نتائج سےڈرانے والے تھے ، اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تا کہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے ان کافیصلہ کرے ۔

اسی طرح اب بھی ساری دنیاکے لئے کمال درجہ کے پاکیزہ اخلاق وکردار والاخاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے، اس پر اپنی مقدس کتاب قرآن مجیدنازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کے سامنے باطل کی تمام آمیزشوں سے پاک اللہ کی کتاب کواس کی اصل اورصحیح حالت میں پیش کرے ،راہ راست کوواضح کرکے کفرکی ہرصورت کاغلط اورخلاف حق ہوناسمجھائے ،اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام دینیہ پرخودبھی عمل پیراہواور ان احکامات کی عملی تعبیرسے کفروشرک میں ڈوبے لوگوں کوان کی ضلالت وجہالت بیان کریں اور ظلمتوں سے نکال کرصراط مستقیم پر گامزن کرے،اس کے باوجودبھی اگرکوئی بدقسمت چاہے وہ اہل کتاب میں ہویامشرکین میں سے اپنے کفروشرک پرقائم رہے تواللہ تعالیٰ نے آخری رسول اوراس پرآخری کتاب نازل فرماکر اپنی حجت اس پرپوری فرمادی،جیسے فرمایا:

وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ۔۔۔۝۰۝۹ۧ [23]

ترجمہ:اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ۔

اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى۝۱۲ۡۖ [24]

ترجمہ:راستہ بتاناہمارے ذمہ ہے ۔

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَـمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ۝۰ۚ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِیْسٰى وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَیْمٰنَ۝۰ۚ وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝۱۶۳ۚوَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ۝۰ۭ وَكَلَّمَ اللهُ مُوْسٰى تَكْلِــیْمًا۝۱۶۴ۚرُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۝۱۶۵ [25]

ترجمہ:اے نبی!ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اوراس کے بعدکے نبیوں کی طرف بھیجی تھی ، ہم نے ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام اوراولادیعقوب،عیسیٰ علیہ السلام ،ایوب علیہ السلام ،یونس علیہ السلام ،ہارون علیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤ د علیہ السلام کوزبوردی،ہم نے ان رسولوں پربھی وحی نازل کی جن کاذکرہم اس سے پہلے تم سے کرچکے ہیں اوران رسولوں پربھی جن کاذکرتم سے نہیں کیا،ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے اس طرح گفتگوکی جس طرح گفتگوکی جاتی ہے،یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اورڈرانے والے بناکربھیجے گئے تھے تاکہ ان کومبعوث کردینے کے بعدلوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے ۔

یٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُـبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰی فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ۝۰ۡفَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ۝۰ۭ وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۹ۧ [26]

ترجمہ: اے اہل کتاب!ہمارایہ رسول ایسے وقت تمہارےپاس آیاہے اوردین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہاہے جبکہ رسولوں کی آمدکاسلسلہ ایک مدت سے بندتھاتاکہ تم یہ نہ کہہ سکوکہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والااورڈرانے والانہیں آیا،سودیکھواب وہ بشارت دینے والا اور ڈرانے والاآگیااوراللہ ہرچیزپرقادرہے۔

اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَحْدَهٗٓ ۝۴ [27]

ترجمہ:ہم تم سے اورتمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کرپوجتے ہو قطعی بیزار ہیں ،ہم نے تم سے کفر کیااور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک تم اللہ وحدہ پرایمان نہ لاو ۔

 وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَةُ ‎﴿٤﴾‏ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ حُنَفَاءَ وَیُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِینُ الْقَیِّمَةِ ‎﴿٥﴾‏(البینہ)

اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آجانے کے بعد ہی (اختلاف میں پڑ کر) متفرق ہوگئے،انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں ، ابراہیم حنیف کے دین پراور نماز قائم رکھیں اور زکوة دیتے رہیں ، یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔


اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی امتوں یہودونصاریٰ وغیرہ کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ان میں لگاتار جلیل القدرپیغمبرمبعوث فرمائے،ان پیغمبروں پراپناپاکیزہ کلام( تورات ، انجیل زبوراورکئی صحیفے) نازل فرمایا،ہررسول نے اپنی قوم کویہی دعوت پیش کی کہ اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرواورطاغوت سے بچو،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۝۳۶ [28]

ترجمہ:ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیااوراس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیاکہ اللہ کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے بچو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پراپنی واضح ہدایات بھیج کر حجتیں قائم کر دیں مگرہدایت نے ان کی گمراہی میں اوربصیرت نے ان کے اندھے پن میں اضافے کے سواکچھ نہیں کیا ، حالانکہ تمام کتابیں ایک ہی اصل اورایک ہی دین لے کرآئی ہیں ،تمام شریعتوں میں حکم تویہی ہواتھاکہ اللہ وحدہ لاشریک کی اخلاص کے ساتھ ظاہری وباطنی بندگی کرو، مگراہل کتاب اپنی فطری خساست و سرکشی میں ڈوب کر ان کتابوں میں اختلاف وتحریف کرنے لگے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے واضح کلام میں من مرضی کے مطالب نکال لئے، دین میں نئی نئی بدعات شامل کرلیں جس کی وجہ سے وہ بے شمار گروہوں میں بٹ گئے ،ہرگروہ دوسرے کوگمراہ کہنے لگا حالانکہ وہ سب خوداپنے اعمال کی بدولت گمراہ ہو چکے تھے ،جیسے فرمایا

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَیِّنٰتُ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۱۰۵ۙ [29]

ترجمہ:کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِیَادٍ الأَفْرِیقِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ یَزِیدَ،عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیَأْتِیَنَّ عَلَى أُمَّتِی مَا أَتَى عَلَى بنی إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِیَةً لَكَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بنی إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت پرایک ایسازمانہ آئے گاجیسابنی اسرائیل پرآیاتھااوردونوں کے زمانہ اس طرح مطابق ہوں گے جیسے ایک نعل دوسرے نعل کے مطابق ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگربنی اسرائیل میں کوئی شخص ایساہوگاکہ علانیہ اپنی ماں سے زناکرے کرے گاتومیری امت میں سے ایساشخص ہوگاجواس امرشنیع کامرتکب ہوگا،اوربنی اسرائیل بہترفرقوں میں متفرق ہوئے اورمیری امت تہترفرقوں میں متفرق ہوگی سوئےایک کے سب جہنم میں جائیں گے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے ؟فرمایاوہ جو اس پرہوجس پرمیں اورمیرے اصحاب ہیں یعنی کتاب وسنت پر۔[30]

یہ ضعیف روایت ہے،اس کی سندمیں راوی عبدالرحمٰن بن زیادافریقی ضعیف ہے۔

اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہم نے منصب رسالت پر فائز کر دیاہے اوروہ امی ہونے کے باوجودقرآن مجیدجیسی کتاب پیش کررہے ہیں اوریہ ان کی رسالت کی واضح دلیل ہے اس طرح اللہ نے تم پرپھرحجت تمام کردی ہے ،اس کے بعدبھی اگرتم متفرق رہوتواس کی ذمہ داری خودتمہیں پرعائدہوتی ہے ،مگران میں سے اکثر لوگ جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت واضح تھی محض اپنے حسد وبغض اورضدوہٹ دھرمی کی وجہ سے ایمان لانے سے گریزاں تھے اورآپ کی تکذیب کرتے تھے ،یہاں اہل کتاب یہودونصاریٰ کو ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دے کر فرمایاگیا کہ تم انہیں اپنامذہبی پیشواتسلیم کرتے ہومگر جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اسلام کی طرف مائل اور یکسو ہوکر کفروشرک میں ڈوبی اپنی قوم وبرادری کے خلاف وا شگاف الفاظ میں یہ نعرہ حق لگایاتھا،جیسے فرمایا

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَـنَةٌ فِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَحْدَهٗٓ ۔۔۔ ۝۴ [31]

ترجمہ:تم لوگوں کے لئے ابراہیم علیہ السلام اوراس کے ساتھیوں میں ایک اچھانمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیاہم تم سے اورتمہارے ان معبودوں سے جن کوتم خداکوچھوڑکرپوجتے ہوقطعی بیزارہیں ،ہم نے تم سے کفرکیااورہمارے اورتمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اوربیرپڑگیاجب تک تم اللہ وحدہ پرایمان نہ لاؤ ۔

تم بھی ان کی سیرت کوصرف نام کی حدتک تسلیم کرنے کے بجائے ان کی طرح اپنے دین کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے خالص کرکے شرک سے بیزاری ونفرت کااظہار کر و، اپنے باطل معبودوں کے آگے سرجھکانے،ان کی رضاحاصل کرنے کے لئے مشرکانہ رسومات ادا کرنے کے بجائے ہرطرف سے رخ پھیرکر اپنے خالق ومالک اوررازق کومعبودبرحق تسلیم کر کے اس کے حضور سر جھکاؤ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی یادکے لئے نما ز قائم کروجوبدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلیٰ عبادت ہے ،رب کاقرب حاصل کرنے کابہترین طریقہ ہے ،ہم نے جو مال ودولت تمہیں عنایت فرمایاہےاس پراتراکرمالی طورپرکمزوربندوں پرظلم وستم نہ کروبلکہ تمہارے اس مال میں ہم نے اپنے مالی طور پرکمزور بندوں ، ضرورت مندوں ، یتیموں ، بیواوں وغیرہ کاحق رکھاہے ،یہ حق خوشی خوشی ان تک پہنچاو،یہ حق دیتے ہوئے اورنہ انہیں جھڑکواورنہ ان پراپنااحسان نہ جتلاو، صرف اتناہی نہیں ہماری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے فرض زکواة کے علاوہ بھی ان پرصدقہ وخیرات خرچ کرو، یہی صرط مستقیم ہے،اسی میں تمہاری کامیابی وکامرانی ہے۔

 إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِینَ فِی نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ ‎﴿٦﴾‏   (البینہ )

بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئےاور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں ( جائیں گے) ،جہاں وہ( ہمیشہ ہمیشہ)رہیں گے، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں ۔


اے اہل کتاب(یہودونصارٰی) تمہارے پاس تواللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں ہیں جس میں تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات پڑھتے ہو،انہیں کتابوں میں اللہ تعالیٰ لگاتار اپنے آخری پیغمبر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشخبری دیتارہاہےجس رسول کاتم انتظارکررہے تھے ،کیاتم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتعلیمات دے رہے ہیں وہ وہی تعلیمات ہیں جوان سے پہلے پیغمبرتمہیں دے چکے ہیں ،یعنی ہرقسم کے شرک سے دوررہ کرخالص اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی،صرف اس کی پرستش اورتابع فرمانی،جیسے فرمایا:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍؚبَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَـیْـــًٔـا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۶۴ [32]

ترجمہ:اے نبی کہو!اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہےیہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے، اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم (صرف اللہ کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں ۔

اب جبکہ پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کوتمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے مبعوث کردیاگیاہے، اورتم ان کی امانت ودیانت و صداقت کے گواہ ہوپھران کی رسالت پرایمان لانے کے بجائے حق وسچ کا انکار کیوں کررہے ہو،اے اہل قریش! تم ہمارے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کواپناجداعلیٰ تسلیم کرتے ہو،جنہوں نے ہمارے حکم سے بیت اللہ تعمیرکیاجس کے تم متولی ہو،ہمارے گھر کے متولی ہونے کی وجہ سے عرب میں تمہیں امن اور عزت واحترام حاصل ہےمگر ابراہیم واسماعیل علیہ السلام کی توحیدپرمشتمل تعلیمات کو فراموش کرکے شرک کوہی اصل دین قراردیتے ہو ، ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کی یاددہانی کے لئے ہی سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم کوساری دنیاکے لئے مبعوث کیاہے اس لئے ہرطرح کے کفروشریک سے تائب ہوکران کی پیروی کرو،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ان واضح تعلیمات کے باوجوددبھی اگرتم اپنی ضدوہٹ دھرمی اورخود دساختہ شرکیہ عقائدو اعمال ورسومات کی روش سے بازنہ آئے تو اخروی زندگی میں تمہیں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگاجہاں تم جیسے جانوروں سے بھی گئے گزرے بدترین خلائق کے لئے جنہوں نے حق کوپہچان کرترک کردیا ہم نے دردناک عذاب کے لئے جہنم تیارکررکھاہے جس میں تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے جہاں نہ تم جی سوگے اورنہ مرسکوگے،جیسے فرمایا

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [33]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙ وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [34]

ترجمہ:جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گااور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں جائے گا،پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭلَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴ [35]

ترجمہ:وہ جب دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے،اور جب یہ دست و پا بستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے،(اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو ۔

‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ‎﴿٧﴾‏ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۖ رَّضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهُ ‎﴿٨﴾‏ (البینہ:7-8)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئےیہ لوگ بہترین خلائق ہیں ،ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیںجنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے، یہ ہے اس کے لیے جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔


اوروہ لوگ جودل وجاں کے ساتھ ہماری نازل کردہ تعلیمات اورہمارے مبعوث کیے ہوئے پیغمبرپرایمان لائیں گے اور ہماری تعلیمات پر ممکن حدتک عمل پیراہونے کی کوشش کریں گے ،خالص اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عبادات وطاعت اوراعمال صالحہ اپنائیں گے اور ہمارے علاوہ کسی اور مخلوق کی بندگی وعبادت کا شائبہ تک بھی پیدا نہیں ہونے دیں گےایسے لوگ ہماری تمام مخلوقات سے افضل ہیں ،اسے لوگوں کے انعام واکرام کے لئے ہم نے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سےبھری جنتیں تیارکررکھی ہیں جن میں وہ بے خوف وخطر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،ایسی بہترین جزاء اوراس پرہماری رضا ان لوگوں کے لئے ہوگی جواس عارضی قیام گاہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی گزاریں گے اوراگرکسی بشری تقاضے سے ان سے کوئی لغزش ہوبھی جائے گی تواپنی معصیت پراصرارنہیں کریں گے،جری وبیباک بن کرنہیں رہیں گے بلکہ فورا ًاللہ سبحان وتعالیٰ سے معافی کے خواستگارہوں گے ،جیسے فرمایا :

اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ یَتُوْبُ اللهُ عَلَیْھِمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلِــیْمًا حَكِـیْمًا۝۱۷ [36]

ترجمہ:ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیّت کا حق انہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں ،ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجّہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے ۔

اورروزقیامت اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعامات اوررضاپریہ لوگ اپنے رب سے راضی ہوجائیں گے۔

ابوذرغفاری( جندب رضی اللہ عنہ بن جنادہ )

مکہ مکرمہ سے جوکاروانی راستہ پہاڑوں کے دروں اورریگستانی بیابانوں میں سے ہوتاہواشام فلسطین کی طرف جاتاہے ٹھیک اسی شاہراہ کے کسی ایک سمت میں غفاربن ملیل بن ضمیر(جوکنانی النسل عرب تھے)کی اولادغفارکے نام سے بسی ہوئی تھی ،ایک روایت ہے کہ غفاریوں کاماؤ یٰ اورمسکن مدینہ منورہ سے اسی(۸۰)میل کے فاصلہ پر بدر کے نواح میں ودان نامی بستی تھی ، قریش ایک تجارت پیشہ قوم تھی آئے دن قریشی تاجروں ،عربی ساہوکاروں کے ہزاروں اونٹ عرب کی مخصوص پیداواروں سے لدے ہوئے شام کی طرف جاتے تھے اوروہاں سے شامی غلے رومی دولتوں کے انبارعرب لاتے تھے ،خیال کیاجاتاہے کہ جوں جوں بازنطینی حکومت شام میں اپنے قدم جمارہی تھی عربی تجارت کوخاص ترقی ہوتی رہی ،غسانیوں کی پشت پناہی میں رومی درباروں تک عرب کی بخوبی گزرہوتی تھی اس لیے ان ملکوں میں ہرطرح کی آسانیاں مہیاہوتی رہیں تاآنکہ آخرزمانہ میں توعرب تجارت سے رومی حکومت نے چنگی محصول بھی اٹھادیاتھا،قیاس کامقتضی ہے کہ عرب کے ان تجارتی ترقیوں پرراستے کے قبائل اعراب کی للچائی نکاہیں پڑنے لگیں اوررفتہ رفتہ اس معاملہ نے یہ صورت اختیارکی کہ غفارکے جوشیلے بہادرنوجوانوں سے رہانہ گیاپھرجیساکہ جہالت وافلاس اورشجاعت کے مجموعی جذبات وقوی کاتقاضاہے غفاریوں کے ہاتھوں سے صبرکادامن چھوٹ گیا،گزرنے والے قافلوں پرانہوں نے ڈاکہ زنی شروع کردی ،بیچارے راہ گیروغریب مسافروں کولوٹنے لگے اس کے بعدیہ ناممکن تھاکہ ان کی غارت گری اسی حدتک آکرٹھیرجاتی،ہرجرم دوسرے جرم کامقدمہ ہے ،علم النفس کاایک مشہورومسلم قانون ہے ضمیرکے خلاف جس وقت ایک کمزوری بھی سرزدہوجاتی ہے توآئندہ اس کاانسدادمشکل ہوجاتاہے ،بسااوقات بے باقی بہت زیادہ دردناک ہوجاتی ہے،غفاریوں کوکیامعلوم تھاکہ راہزنی کے بعدانہیں اردگردکے قبیلوں کے ریوڑبھی تاخت وتاراج کی دعوت دیں گے حتی کی ایساہی ہواغفاری ڈاکوؤ ں کی ایک جماعت بھی جوصبح کی اندھیریوں میں اکثرقبیلوں پرچھاپے مارتی ،چراگاہوں پردھاوے بول کران کے اونٹوں کوہنکالاتی ۔

غفاریوں پراسی قسم کے طغیان وتمردکے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن عین انہی دنوں جنادہ بن کعب بن صعیرہ بن الواقعہ بن سفیان بن حرام بن غفارکے گھررملہ بنت ربیعہ کے بطن سے جوایک غفاریہ خاتون تھیں وہ سعیدلڑکاپیداہواجس سے زیادہ سچی زبان والے انسان کوزمین نےاپنی پشت پرکبھی نہیں اٹھایاتھا،باپ نے لڑکے کانام جندب رکھاجن کی کنیت ابوزرتھی اوراسی کنیت سے ہی مشہورہوئے۔

غفاری قبیلہ رہزنی میں بڑی شہرت رکھتا تھا وہ نہ صرف مکہ مکرمہ اورشام کے درمیان آنے جانے والے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے بلکہ اردگردکے قبائل کوبھی اپنی ترکتازیوں کانشانہ بناتے رہتے تھے ،یہ باکل ناممکن ہے کہ انسان جس قوم میں پیداہوان کے عادات واطوارکے پرتواس پرنہ پڑیں ،چنانچہ جب ابوزر رضی اللہ عنہ جوان ہوئے اورتیروکمان سنبھانے کی صلاحیت پیداہوئی تواپنی قوم کی عادت واطوارکے مطابق وہ ایک زبردست ڈاکوکی شکل میں سامنے آئے،ان کی جرات وبہادری کایہ عالم تھاکہ قافلوں کوگھوڑے کی پیٹھ پربیٹھ کربلاکسی رفیق کے لوٹ کھسوٹ لیتے تھے،دیکھنے والوں کابیان ہے کہ ان کاحملہ پیادہ ہوتاتوعجیب چستی وچالاکی سے قافلوں میں گھستے تھے ایسامعلوم ہوتاکہ ایک بپھراہواشیربکریوں پرجاپڑاہے،

عَنْ خُفَافِ بْنِ إِیمَاءِ بْنِ رَحَضَةَ قَالَ:كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَجُلا یُصِیبُ الطَّرِیقَ وَكَانَ شُجَاعًا یَتَفَرَّدُ وَحْدَهُ یَقْطَعُ الطَّرِیقَ وَیُغِیرُ عَلَى الصِّرَمِ فِی عَمَایَةِ الصُّبْحِ عَلَى ظَهْرَ فَرَسِهِ أَوْ عَلَى قَدَمَیْهِ كَأَنَّهُ السَّبْعُ. فَیَطْرُقُ الْحَیَّ وَیَأْخُذُ مَا أَخَذَ

خفاف بن ایماء بن رحضہ سے مروی ہےابوذر رضی اللہ عنہ راستہ روکتے تھے اورایسے شجاع تھے کہ تنہا جا کر رہزنی کرتے تھے،صبح کی تاریکی میں اپنے گھوڑے کی پشت پریاپیادہ اس طرح اونٹوں کو لوٹتے تھے گویاوہ درندے ہیں ،رات کووہ قبیلے میں جاتے تھے اورجوچاہتے تھے لے لیتے تھے۔[37]

یہ بہت دانش مند،دوراندیش اوربڑے جرات مند تھے مگراسلام لانے سے تین برس بیشتر یکایک ان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اورطبیعت لوٹ مار،قتل وغارت اورزہزنی سے سخت متنفرہوگئی اوراس کے ساتھ ہی قبیلے کے دیوی دیوتاؤ ں سے بھی متنفرہوگئے،اپنی عاقبت کی بدانجامی کاخوف روزبروزبہت زیادہ شدت پذیرہوا،رب اکبرنے انہیں توحیدکاراستہ سمجھا دیا اوروہ شب وروزاللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں مشغول ہوگئے، کیونکہ نمازکاطریقہ معلوم نہ تھااس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یادکے لئے جوطریقہ ذہن میں آتااس طرح نماز پڑھ لیتے تھے ،

قَالَ:وَقَدْ صَلَّیْتُ بِابْنِ أَخِی قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَ سِنِینَ فَقُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ ، فَقُلْتُ: أَیْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَیْثُ یُوَجِّهُنِی اللَّهُ أُصَلِّی عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ أُلْقِیتُ كَأَنِّی خِفَاءٌ حَتَّى تَعْلُوَنِی الشَّمْسُ

ان کااپنابیان ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نے بھتیجے کے ساتھ نمازپڑھی تھی عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس کی رضا کے لئے ؟ انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے،میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھاانہوں نے کہا جہاں میرا رب رخ کر دیتااسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جاتا۔[38]

قبیلہ کے لوگ ان کی زبان سے الاالہ الااللہ، اللہ کے سواکوئی معبودنہیں کے الفاظ سنتے تو حیران ہوتے کہ یہ اپنے آباؤ اجدادکے معبودوں کوچھوڑکرکس خبط میں مبتلاہوگیاہے ، وہ ایک نبی کے منتظرتھے جولوگوں کو چاروں طرف پھیلی بت پرستی،عرب میں مختلف مذاہب اوران کے فرقوں کے باطل عقائد کی گمراہی سے نکال کرسیدھے راستے پر گامزن کرے ،اس وقت کوہ فاران کی چوٹیوں سے خورشیداسلام طلوع ہوچکاتھااورہادی برحق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کومسلسل اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دے رہے تھے،

 قَالَ: فَقَالَ أُنَیْسٌ: إِنَّ لِی حَاجَةً بِمَكَّةَ، فَاكْفِنِی حَتَّى آتِیَكَ. قَالَ: فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَیَّ، ثُمَّ أَتَانِی، فَقُلْتُ: مَا حَبَسَكَ؟ قَالَ: لَقِیتُ رَجُلًا یَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ عَلَى دِینِكَ ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا یَقُولُ النَّاسُ لَهُ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: مَا یَقُولُ النَّاسُ لَهُ؟ قَالَ: یَقُولُونَ: إِنَّهُ شَاعِرٌ وَسَاحِرٌ وَكَاهِنٌ وَكَانَ أُنَیْسٌ شَاعِرًا قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكُهَّانِ، فَمَا یَقُولُ بِقَوْلِهِمْ وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ، فَوَاللَّهِ مَا یَلْتَامُ لِسَانُ أَحَدٍ أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ، وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ،قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ أَنْتَ كَافِیَّ حَتَّى أَنْطَلِقَ فَأَنْظُرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَكُنْ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ عَلَى حَذَرٍ، فَإِنَّهُمْ قَدْ شَنِفُوا لَهُ، وَتَجَهَّمُوا لَهُ

ابوذر رضی اللہ عنہ کے بھائی انیس نے کہاکہ مجھے مکہ مکرمہ میں ایک کام ہےمجھے اجازت دوکہ وہ کام کرکے تمہارے پاس آجاؤ ں ،انیس گئے اوربہت دیرکے بعدآئے تو ابوذر رضی اللہ عنہ نےپوچھاکہ تمہیں کس نے روکاتھا؟انیس نے کہاکہ میں مکہ مکرمہ میں ایک شخص سے ملاجوتمہارے دین پرہے وہ دعویٰ کرتاہے کہ اللہ نے اسے رسول بنایاہے، یہ سنتے ہی سنبھل کربیٹھ گئے اورنہایت اضطراب سے پوچھاکہ لوگ اسے کیاکہتے ہیں ؟انیس نے کہاکہ لوگ اسے شاعر، کاہن اورساحرکہتے ہیں ،انیس خودایک بلندپایہ شاعرتھےمگرانہوں نے کہاکہ واللہ میں نے کاہنوں کاقول بھی سناہے لیکن یہ باتیں کاہنوں کے قول کے مطابق نہیں ہے،میں نے ان کے قول کواقسام شعرپربھی رکھ کر پرکھا مگروہ کسی زبان پرنہیں بھرتایہ بعیدہے کہ وہ شعرہو،واللہ وہ ضرورسچے ہیں اورلوگ جھوٹے ہیں ،ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ مجھے بھی موقعہ دوکہ میں مکہ مکرمہ جاؤ ں اورخوددیکھوں ،انیس نے کہاٹھیک ہے تم جاؤ مگراہل مکہ سے ہوشیاررہناکیونکہ وہ لوگ نے ان کے ساتھ برائی اوربداخلاقی کرتے ہیں ۔

قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَیْنَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟قَالَ: فَأَشَارَ إِلَیَّ، قَالَ: الصَّابِئُ، قَالَ: فَمَالَ أَهْلُ الْوَادِی عَلَیَّ بِكُلِّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِیًّا عَلَیَّ فَارْتَفَعْتُ حِینَ ارْتَفَعْتُ كَأَنِّی نُصُبٌ أَحْمَرُ فَأَتَیْتُ زَمْزَمَ فَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَغَسَلْتُ عَنِّی الدَّمَ ، فَدَخَلْتُ بَیْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا فَلَبِثْتُ بِهِ ابْنَ أَخِی ثَلَاثِینَ، مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ، وَمَا لِی طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِی وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِی سَخْفَةَ جُوعٍ

ابوزر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں روانہ ہوکرمکہ مکرمہ آیاایک شخص کوکمزورسمجھ کراس سے پوچھاکہ وہ شخص کہاں ہے جسے تم لوگ بے دین کہتے ہو؟اس نے مجھے اشارہ کیااورکہایہ ہے وہ بے دین !اہل وادی ڈھیلے اورہڈی وغیرہ لے کرمجھ پرٹوٹ پڑےاورمجھے اتناذدوکوب کیاکہ میں بے ہوش ہوکرگرپڑاجب ہوش میں آیا اور زمین سے اٹھاتومیری یہ حالت تھی کہ گویاایک سرخ بت ہوں ،میں زمزم پرآیا،اس کاپانی پیااوراپنے جسم سے خون دھویااورخودکوغلاف کعبہ میں چھپالیااے بھتیجے!میں تیس شبانہ روزوہاں اس طرح رہاکہ میرے لئے سوائے آب زمزم کے کچھ نہ تھامگرمیں موٹا ہو گیا میرے پیٹ کی شکنیں جاتی رہیں اورمیں نے اپنے جگرپربھوک کی کمزوری محسوس نہیں کی،

قَالَ: فَبَیْنَا أَهْلُ مَكَّةَ فِی لَیْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِیَانٍ فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى أَصْمِخَةِ أَهْلِ مَكَّةَ فَمَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ غَیْرُ امْرَأَتَیْنِ، فَأَتَتَا عَلَیَّ وَهُمَا تَدْعُوَانِ إِسَافَ وَنَائِلَ قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْكِحُوا أَحَدَهُمَا الْآخَرَفَمَا ثَنَاهُمَا ذَلِكَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَیَّ، فَقُلْتُ: وَهَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ. غَیْرَ أَنِّی لَمْ أُكَنِّ، قَالَ: فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا

اہل مکہ ایک روشن چاندنی رات میں تھے، اللہ نے ان کے دماغوں پرضرب لگادی سوائے دوعورتوں کے کوئی بھی بیت اللہ کاطواف نہیں کررہاتھا،دونوں عورتیں اساف اورنائلہ (بتوں ) کو پکارتی میرے پاس آئیں ،میں نے کہاتم دونوں اساف اورنائلہ میں سے ایک دوسرے کانکاح کردو مگر وہ پھربھی اپنے معبودوں کوپکارتی رہیں ،وہ میرے پاس آئیں تومیں نے کچھ اس طرح کہاجیسے لکڑی سے آوازآئے،البتہ میں نے بات چھپائی نہیں ،عورتیں پشت پھیرکریہ کہتی ہوئی چلی گئیں کہ کاش اس جگہ ہمارے مردوں میں سے کوئی موجود ہوتا،

فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ مِنَ الْجَبَلِ فَقَالَ:مَا لَكُمَافَقَالَتَا: الصَّابِئُ بَیْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا قَالَا: مَا قَالَ لَكُمَا؟ قَالَتَا: قَالَ لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ،قَالَ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَصَاحِبُهُ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، فَطَافَ بِالْبَیْتِ، ثُمَّ صَلَّى قَالَ: فَأَتَیْتُهُ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَیَّاهُ بِتَحِیَّةِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ:عَلَیْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ

راستہ میں ان عورتوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے جوپہاڑپرسے اتررہے تھےانہوں نے عورتوں سے پوچھاکیابات ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ایک صابی آیاہے جوکعبہ کے پردوں میں چھپاہواہے،انہوں نے پوچھاوہ کیاکہتاہے ؟عورتوں نے کہاوہ فحش بات کہتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آئے،حجراسودکوبوسہ دیا،بیت اللہ کاطواف کیااورنمازپڑھی،جب نمازپوری کرلی تومیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیامیں پہلاشخص تھاجس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواسلامی سلام کیارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوعلیک (السلام)ورحمة اللہ،تم کون ہو؟ میں نے عرض کیامیں قبیلہ غفارسے ہوں ۔

قَالَ: فَأَهْوَى بِیَدِهِ، فَوَضَعَهَا عَلَى جَبْهَتِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: كَرِهَ أَنِّی انْتَهَیْتُ إِلَى غِفَارٍ قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آخُذَ بِیَدِهِ، فَقَذَفَنِی صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّی قَالَ:مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟قَالَ: كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِینَ مِنْ بَیْنِ لَیْلَةٍ وَیَوْمٍ، قَالَ:فَمَنْ كَانَ یُطْعِمُكَ؟قُلْتُ: مَا كَانَ لِی طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ قَالَ: فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِی، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِی سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، وَإِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ اپنی پیشانی کی طرف اس طرح بڑھایاجس سے میں نے اپنے دل میں کہاکہ میرا اپنے آپ کوقبیلہ غفارکی طرف منسوب کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندکیاہے،میں نے آگے بڑھ کرآپ کے دست مبارک کا پکڑنا چاہا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ کی جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے جانتے تھے،پوچھاکہ تم یہاں کب سے ہو؟میں نے عرض کی تیس دن سے یہاں ہوں ،فرمایاتمہیں کھاناکون کھلاتاہے؟میں نےعرض کی میرے لئے سوائے آب زمزم کے کوئی کھانانہیں ہے،میں موٹاہوگیا،پیٹ کی شکنیں جاتی رہیں مجھے جگر پر بھوک کی تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ مبارک ہے وہ بھوکے کی غذاہے۔

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: ائْذَنْ لِی یَا رَسُولَ اللَّهِ فِی طَعَامِهِ اللَّیْلَةَ. قَالَ: فَفَعَلَ،قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، حَتَّى فَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ یَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِیبِ الطَّائِفِ قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَیْتُ أَخِی أُنَیْسًا، قَالَ: فَقَالَ لِی: مَا صَنَعْتَ؟قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی صَنَعْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: قَالَ: فَمَا بِی رَغْبَةٌ عَنْ دِینِكَ، فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آج رات مجھے ان کی مہمان داری کی اجازت دیجئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمادی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئےمیں بھی ان کے ہمراہ چلا،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولااورمیرے لئے طائف کی کشمش لینے لگےیہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا،میں روانہ ہوگیااوراپنے بھائی انیس سے ملا تو اس نے پوچھاتم نے کیاکیا؟میں نے کہامیں نے اسلام قبول کرلیااورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی،انیس نے کہامجھے بھی تمہارے دین اسلام سے انکارنہیں ،میں بھی اسلام قبول کرتاہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرتاہوں ۔

ثُمَّ أَتَیْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: فَمَا بِی رَغْبَةٌ عَنْ دِینِكُمَا، فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ،فَتَحَمَّلْنَا حَتَّى أَتَیْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ بَعْضُهُمْ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَوَكَانَ یَؤُمُّهُمْ خُفَافُ بْنُ إِیمَاءِ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِیُّ، وَكَانَ سَیِّدَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَقَالَ بَقِیَّتُهُمْ: إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَأَسْلَمَ بَقِیَّتُهُمْ،قَالَ: وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِخْوَانُنَا، نُسْلِمُ عَلَى الَّذِی أَسْلَمُوا عَلَیْهِ. فَأَسْلَمُوافَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:غِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ

ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے اورانہیں دین اسلام پیش کیاتوانہوں نے کہامجھے بھی تم دونوں کے دین سے انکارنہیں ،میں بھی اسلام قبول کرتی ہوں اوررسالت کی تصدیق کرتی ہوں ،ہم لوگ سوارہوئے اوراپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں دین اسلام کی دعوت پیش کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے قبل ہمارے قبیلہ کے نصف لوگ ایمان لے آئے،ایماء بن رحضہ الغفاری ان کی امامت کراتے تھے اوروہی ان کے سردارتھے،بقیہ لوگوں نے کہاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائیں گے توہم بھی اسلام قبول کرلیں گے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے توان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا،قبیلہ اسلم کے لوگ آئے اورعرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم بھی ان باتوں پراسلام قبول کرتے ہیں جن پرہمارے بھائی اسلام لائے،چنانچہ وہ لوگ بھی دین میں داخل ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ قبیلہ غفارکی مغفرت کرے اورقبیلہ اسلم سے مصالحت کرے۔ [39]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ غفارکاایک شخص مکہ معظمہ گیا،وہاں اس کے کانوں میں دعوت توحیدورسالت کی بھنک پڑگئی ،وہ واپس آکر ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ سے ملااورانہیں بتلایاکہ مکہ میں بھی ایک شخص تمہاری طرح لاالہ الااللہ کہتاہے ،وہ لوگوں کومعبودان باطلہ کی پرستش سے روکتاہے چنانچہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح معلومات کے لئے بے چین ہوگئے اورفورا ًاپنے بھائی أُنَیْسٌ[40]کوجوایک بلندپایہ شاعراوربڑے ذہین وفطین شخص تھے کہا۔

ارْكَبْ إِلَى هَذَا الوَادِی فَاعْلَمْ لِی عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ، یَأْتِیهِ الخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِی، فَانْطَلَقَ الأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ، وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِی ذَرٍّ فَقَالَ لَهُ: رَأَیْتُهُ یَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الأَخْلاَقِ، وَكَلاَمًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ فَقَالَ: مَا شَفَیْتَنِی مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِیهَا مَاءٌ، حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى المَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ یَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ یَسْأَلَ عَنْهُ،حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّیْلِ، فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِیٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِیبٌ، فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ یَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَیْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى المَسْجِدِ،وَظَلَّ ذَلِكَ الیَوْمَ وَلاَ یَرَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلِیٌّ فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَعْلَمَ مَنْزِلَهُ؟ فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ، لاَ یَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَیْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ یَوْمُ الثَّالِثِ، فَعَادَ عَلِیٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، فَأَقَامَ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ: أَلاَ تُحَدِّثُنِی مَا الَّذِی أَقْدَمَكَ؟

مکہ جانے کی تیاری کراوراس شخص کے متعلق جونبی ہونے کامدعی ہے اورکہتاہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے میرے لئے خبریں حاصل کرکے لا،اس کی باتوں کوخودغورسے سننااورپھرمیرے پاس آنا،ان کے بھائی وہاں سے چلے اورمکہ مکرمہ حاضرہوکررسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خودسنیں پھرواپس ہوکرانہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کوبتایاکہ میں نے انہیں خوددیکھاہے،وہ اچھے اخلاق کالوگوں کوحکم کرتے ہیں اورمیں نے ان سے جوکلام سناوہ شعرنہیں ہے،اس پرابوذر رضی اللہ عنہ نے کہاجس مقصدکے لئے میں نے تمہیں بھیجاتھامجھے اس پرپوری طرح تشفی نہیں ہوئی،آخرانہوں نے خودتوشہ باندھا،پانی سے بھراہواایک پرانامشکیزہ ساتھ لیااورمکہ مکرمہ آئے،مسجدالحرام میں حاضری دی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتلاش کیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچانتے نہیں تھے اورکسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھنابھی مناسب نہ سمجھاکچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کواس حالت میں دیکھااورسمجھ گئے کہ کوئی مسافرہے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاکہ آپ میرے گھرچل کرآرام کیجئے،ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئےلیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی ،جب صبح ہوئی توابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنامشکیزہ اورتوشہ اٹھایااورمسجدالحرام میں آگئے،یہ دن بھی یونہی گزرگیااوروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہ دیکھ سکے،شام ہوئی توسونے کی تیاری کرنے لگے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ پھروہاں سے گزرے اورسمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کاوقت اس شخص پرنہیں آیا،وہ انہیں وہاں سے پھراپنے ساتھ لے آئے اورآج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی،تیسرادن جب ہوااورسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیااوراپنے ساتھ لے گئے توان سے پوچھاکیاتم مجھے بتاسکتے ہوکہ یہاں آنے کاباعث کیاہے؟

قَالَ: إِنْ أَعْطَیْتَنِی عَهْدًا وَمِیثَاقًا لَتُرْشِدَنِّی فَعَلْتُ، فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ، وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِی، فَإِنِّی إِنْ رَأَیْتُ شَیْئًا أَخَافُ عَلَیْكَ قُمْتُ كَأَنِّی أُرِیقُ المَاءَ، فَإِنْ مَضَیْتُ فَاتْبَعْنِی حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِی فَفَعَلَ، فَانْطَلَقَ یَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى یَأْتِیَكَ أَمْرِی،قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَیْنَ ظَهْرَانَیْهِمْ

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اگرتم مجھ سے پختہ وعدہ کرلوکہ میری راہ نمائی کروگے تومیں تم کوسب کچھ بتادوں گا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیاتوانہوں نے اپنے خیالات کی خبردی،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ بلاشبہ وہ حق پرہیں اوراللہ کے سچے رسول ہیں ، اچھاصبح کوتم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا،اگرمیں (راستے میں )کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہوتومیں کھڑاہوجاؤ ں گا(کسی دیوارکے قریب)گویامجھے پیشاب کرناہے،اس وقت تم میراانتظارنہ کرنااورجب میں پھرچلنے لگوں تومیرے پیچھے آجاناتاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اوراس طرح جس گھرمیں ،میں داخل ہوں تم بھی داخل ہوجانا،انہوں نے ایساہی کیااورپیچھے پیچھے چلے تاآنکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اوروہیں اسلام لے آئے، پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایااب اپنی قوم غفارمیں واپس جاؤ اورانہیں میراحال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کاعلم تم کوہوجائے (توپھرمیرے پاس آجانا)ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکارکرکلمہ توحیدکااعلان کروں گا۔

فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى المَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،ثُمَّ قَامَ القَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ وَأَتَى العَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَیْهِ، قَالَ: وَیْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ، وَأَنَّ طَرِیقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ، فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الغَدِ لِمِثْلِهَا، فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَیْهِ، فَأَكَبَّ العَبَّاسُ عَلَیْهِ

چنانچہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجدحرام میں آئےاوربلندآوازسے کہاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوریہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، یہ سنتے ہی سارامجمع ٹوٹ پڑااوراتناماراکہ زمین پرلٹادیااتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپراپنے کوڈال کرقریش سے کہاافسوس!کیاتمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفارسے ہے اورشام جانے والے تمہارے تاجروں کاراستہ ادھرہی سے پڑتا ہے ، اس طرح سے ان سے ان کوبچایاپھرابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اوراپنے اسلام کااظہارکیا،قوم بری طرح ان پرٹوٹ پڑی اورمارنے لگے،اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پراوندھے پڑگئے۔ [41]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورکئی اوراصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے ایک مرتبہ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورایسے لہجے میں سلام کیاجس میں بے پناہ عقیدت اورمحبت پائی جاتی تھی ،انہیں دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انورپربشاشت پھیل گئی۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ وَلا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ عَلَى ذِی لَهْجَةٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ مَنْ سره أن ینظر إلى تواضع عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ فَلْیَنْظُرْ إِلَى أَبِی ذَرٍّ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآسمان کسی ایسے شخص پرسایہ فگن نہیں ہوااورزمین نے کسی ایسے شخص کوکندھوں پراٹھایاجوابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچی زبان رکھتاہو،جوشخص عیسیٰ ابن مریم کی توضع دیکھناچاہتاہووہ ابوزر رضی اللہ عنہ کودیکھ لے۔[42]

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف

آپ کااصل نام عبدعمروتھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ کے قبیلہ بنی زہرہ میں سے تھیں ۔

وكان عَبْد الرَّحْمَن رجلا طویلا

عبدالرحمٰن بن عوف لمبے قدکے آدمی تھے۔[43]

سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے دوروزبعدایمان لائے ،اس وقت انکی عمرستائیس یاتیس برس تھی،

صحیح بخاری کے مطابق عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کاجاہلی نام عبدعمروتھا۔[44]

كان اسمه عبد عمرو فأسماه رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ

جاہلیت میں ان کانام عبدعمروتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام عبدالرحمٰن رکھا۔[45]

كَانَ اسمه فِی الجاهلیة عَبْد عَمْرو وقیل عَبْد الكعبة فسماه رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْد الرَّحْمَن

جاہلیت میں ان کانام عبدعمروتھااوریہ بھی کہاجاتاہے کہ عبدالکعبہ تھا(جب انہوں نے اسلام قبول کیاتو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام بدل کرعبدالرحمٰن رکھا۔[46]

وكان اسمه عبد الكعبة، ویقال عبد عمرو، فغیّره النبیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ان کانام عبدالکعبہ تھایہ بھی کہاجاتاہے کہ عبدعمروتھانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل دیا۔[47]

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ،بلاذری رحمہ اللہ اورحافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کاجاہلی نام عبدالکعبہ لکھاہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں اورامام مالک رحمہ اللہ نے مستدرک میں بیان کیاہے کہ جب وہ ایمان لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائشی نام بدل کرعبدالرحمٰن رکھ دیا،

عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ قَالَ: كَانَ اسْمُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَبْدَ الْكَعْبَةِ فسماه رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. عَبْدَ الرَّحْمَنِ

عمروبن دینارکہتے ہیں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کاپیدائشی نام عبدالکعبہ تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کرعبدالرحمٰن رکھ دیا۔[48]

كنیة عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أبو محمد

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی کنیت ابومحمد تھی۔[49]

دعوت اسلام قبول کرنے والوں میں آپ آٹھویں نمبر پر تھے ،ایک روایت میں ہے اسلام لانے والوں میں ان کاتیرھواں نمبر تھا اس وقت تک سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم رارارقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے،

وأسلم قبل أن یدخل الرَّسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دار الأرقم

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لائے۔[50]

وأسلم قدیما قبل دخول دار الأرقم

وہ پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالاقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لائے۔[51]

قال أسلم عبد الرحمن بن عوف قبل ان یدخل رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دار أرقم بن أبی الأرقم

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالارقم بن الارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لائے۔[52]

 كان عبد الرحمن حرّم الخمر فی الجاهلیة

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہےانہوں نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپرشراب حرام کرلی تھی۔[53]

سینکڑوں معبودان باطل اوربدترین اخلاقی حالت کو ترک کرنے اوراللہ وحدہ لاشریک پرایمان لاکربہترین اخلاقی حالت اختیارکرنے کے جرم میں بے شمار تکالیف اٹھائیں مگر کفارمکہ کاکوئی ظلم وستم آپ کے قدموں لززش پیدا نہ کر سکا ۔

وَهَاجَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ الْهِجْرَتَیْنِ جَمِیعًا

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے دین وایمان کی سلامتی کے لئے اولین مسلمانوں کے ہمراہ اہل وعیال کواللہ کے بھروسے پرچھوڑکرتنہادومرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[54]

وَهَاجَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ الْهِجْرَتَیْنِ جَمِیعًا

عبدالرحمن بن عوف نےدومرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[55]

پھر جب ہجرت مدینہ منورہ کاحکم ہواتو ہجرت کرنے والوں میں بھی سرفہرست تھے،اس طرح ان کوتین بارہجرت کرنے کاشرف حاصل ہوا،

وكان من المهاجرین الأولین، هاجر إلى الحبشة، وإلى المدینة

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مہاجرین الاولین میں سے تھے انہوں نے حبشہ اورپھرمدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔[56]

وآخى رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بینه، وبین سعد بْن الربیع

(جب آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کر دیا۔[57]

لَمَّا قَدِمْنَا المَدِینَةَ آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنِی وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ ،فَقَالَ سَعْدُ بْنُ الرَّبِیعِ: إِنِّی أَكْثَرُ الأَنْصَارِ مَالًا، فَأَقْسِمُ لَكَ نِصْفَ مَالِی وَانْظُرْ أَیَّ زَوْجَتَیَّ هَوِیتَ نَزَلْتُ لَكَ عَنْهَا، فَإِذَا حَلَّتْ، تَزَوَّجْتَهَاقَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لاَ حَاجَةَ لِی فِی ذَلِكَ هَلْ مِنْ سُوقٍ فِیهِ تِجَارَةٌ؟قَالَ: سُوقُ قَیْنُقَاعٍ ، قَالَ: فَغَدَا إِلَیْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَتَى بِأَقِطٍ وَسَمْنٍ

عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیاجب ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کر دیا، سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع نے اپنے دینی بھائی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کی خستہ مالی حالت دیکھ کران سے کہامیں انصار میں زیادہ مالدار ہوں اس لئے میں اپنا آدھا مال تجھ کو دیتا ہوں ، اورمیری بیویوں کو دیکھ لو میری جو بیوی تمہیں پسند آئے میں اس کو تمہارے لئے چھوڑ دوں جب وہ عدت سے فارغ ہو جائے تو تم اس سے نکاح کر لو،مگرعبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کاشکریہ اداکیااورکہا مجھے اس کی ضرورت نہیں یہاں کوئی بازار ہے جہاں تجارت ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا قینقاع کا بازار ہے،چنانچہ عبدالرحمن وہاں گئے اور پنیر و گھی لے کر آئے یعنی مدینہ منورہ کی منڈی میں پنیربناکراس کی تجارت کرنے لگے۔ [58]

عن أنس،أن الرَّسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آخى بین المهاجرین والأنصار وآخى بَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ وبین عَبْد الرَّحْمَن بْن عوف ، فَقَالَ لَهُ سعد: إن لی مالًا فهو بینی وبینك شطران ولی امرأتان فأنظر أیتهما أحببت حتَّى أخالعها، فإذا حلت فتزوجهافقال: لاَ حَاجَةَ لِی فِی أهلك ومالك، بارك اللَّه لَكَ فِی أهلك ومالك، دلونی عَلَى السوق

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارمیں بھائی چارہ کرایاتوسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا، سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف سے کہامیں ایک مالدارآدمی ہوں اس لئے میں اپنا آدھا مال تجھ کو دیتا ہوں ،اورمیری دوبیویاں ہیں ،تم انہیں دیکھ لومیری جو بیوی تمہیں پسند آئے میں اس کو تمہارے لئے چھوڑ دوں جب وہ عدت سے فارغ ہو جائے تو تم اس سے نکاح کر لو، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نےکہا مجھے تمہارے مال اورتمہاری بیوی کی حاجت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے مال اوراہل وعیال میں برکت ڈالے مجھے یہاں کے بازارکے بارے میں رہنمائی کرو۔[59]

جب کام ایمانداری ، دلی لگن اورمحنت سے کیاجائے تواللہ سبحانہ وتعالیٰ اس میں برکت نازل کرتاہے چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے کافی سرمایہ پس اندازکرکے(سہلہ رضی اللہ عنہا بنت عاصم)سے شادی کرلی(جوقبیلہ بلی سے تھیں ) اور اپنی بیوی کوحق مہرمیں سونے کی ڈلی دی ،پھر خوشبو لگاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ،آپ کی شادی کا سنکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاولیمہ کروچاہئے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو اور اس وقت ان کے حق میں دعافرمائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے مال میں برکت عطافرمائے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکوشرف قبولیت بخشااوراس دن کے بعدعبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کے مال میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ، خود عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف فرماتے ہیں کہ دنیا مجھ پرفریفتہ ہو گئی میں اگرکوئی پتھربھی اٹھاتا تومجھے اس کے نیچے سے سوناوچاندی ہی ہاتھ لگتا،تیس سوتیرہ کمزور،اسلحہ سے تہی دست حق پرست اورایک ہزار اسلحہ سے لیس معبودان باطل کے پرستاروں کے مابین پہلاغزوہ بدرمیں شامل ہوکرتلوار کے ایک ہی وار میں عمیربن عثمان بن کعب کاسرتن سے جداکردیا ، غزوہ احدمیں آپ نے بڑی بہادری اورثابت قدمی کامظاہرہ کیا ، جب چندمسلمانوں نے مال غنیمت جمع کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی اور پہاڑی درہ چھوڑدیا تو جنگ کا نقشہ بدل کرکفارمکہ کے حق میں ہوگیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پسپاہوکربھاگنے پرمجبورہوگئے تواس وقت آپ ایک چٹان کی طرح اپنی جگہ پرجمے رہے،اس غزوہ میں آپ کے جسم پر بیس سے زائدزخم آئے جن میں بعض زخم اتنے گہرے تھے کہ ان میں پوراہاتھ ہی داخل ہوسکتاتھا،پاؤ ں کازخم اتناشدیدتھاکہ عمر بھر لنگڑاکرچلتے رہے،

وجرح یَوْم أحد إحدى وعشرین جراحة وجرح فِی رجله، فكان یعرض منها

غزوہ احدمیں آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر بیس سے زائدزخم آئے ، آپ کے پاؤ ں پرشدید زخم آیاکہ عمربھرلنگڑاکرچلتے رہے۔[60]

جس طرح آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں ثابت قدم رہے اسی طرح وافرمال ودولت کی محبت بھی ان کے دل میں جگہ نہ پاسکی،چنانچہ ایک موقعہ پرجب ان کے پاس چار ہزار دینارموجودتھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جہادکے لئے مالی امدادکی ترغیب دی ، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے ان چارہزاردیناروں میں سے نصف دوہزاردینارلاکر خدمت اقدس میں پیش کرکے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس چار ہزاردینارتھے ان میں سے نصف دوہزارمیں اپنے اہل وعیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں اوردوہزاردینار جہاد فی سبیل اللہ کی ضروریات کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی بات سن کربہت خوش ہوئے اوران کے حق میں دعا فرمائی کہ تم نے جو سرمایہ پیش کیا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اسے قبول فرمائے اورجو سرمایا تواپنے اہل وعیال کے لئے چھوڑ آیا ہے اس میں برکت عطا فرمائے،اسی طرح جب غزوہ تبوک کاموقعہ آیاجس میں مسلمانوں کا سامنا رومیوں کی بے شمار اورمنظم فوج سے تھاجن کے پاس جنگی وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں تھی،مسلمانوں کواس معرکے کے لئے افرادی قوت کے علاوہ کافی مالی وسائل کی بھی ضرورت تھی جبکہ اس کے برعکس مسلمانوں کے پاس جنگی اسلحہ ،اورطویل ودشوار گزارسفرکے گھوڑے ، اونٹ ناکافی تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان جہادفی سبیل اللہ پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس شرف عظیم میں شمولیت کے لئے پروانوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے مگر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس اس کٹھن سفرکے لئے سواری کاکوئی بندوبست نہ تھا جس کی بنا پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس لوٹادیا،اورصحابہ کرام جوراہ اللہ شہادت کی آرزولے کرحاضرہوئے تھے حکم کی تعمیل میں زارو قطارروتے ہوئے واپس لوٹ گئے،جیسے فرمایا:

لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰى وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلهِ وَرَسُوْلِهٖ۝۰ۭ مَا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۹۱ۙوَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۝۰۠ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ۝۹۲ۭ [61]

ترجمہ:ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے،اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس آگئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے ۔

اس لئے تبوک جانے والے اس لشکرکانام جیش عسر(تنگ حال لشکر)پرگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتبوک کے جنگی مقاصدکے لئے راہ اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دے کرفرمایاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس مالی تعاون کاصلہ انہیں کئی گنابڑھاچڑھاکردے گا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اتنی بڑی خوشخبری سن کرصحابہ کرام کب پیچھے رہنے والے تھےفوراًایک دوسرے پرسبقت حاصل کرنے کے لئے دوڑپڑےاس موقعہ پربھی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے اتنا سرمایہ جمع کرایاکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے بازی لے گئے ،

وقال عمر بن الخطاب یا رسول الله إنی لا أرى عبد الرحمن إلا قد اخترب ما ترك لأهله شیئا فسأله رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هل تركت لأهلك شیئاقال نعم اكثر مما انفقت وأطیب،قال كم؟ قال ما وعد الله ورسوله من الرزق والخیر

ان کے ایثاروقربانی کا جذبہ دیکھ کرسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے اپنا ساراسرمایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاورکردیاہے اورپنے اہل وعیال کے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف سے دریافت کیا کیاتم اپنے گھروالوں کے لئے بھی کچھ چھوڑکرآئے ہو،دست بدست عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس قدرمال میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیاہے اس سے زیادہ اور بہترین مال میں اپنے اہل وعیال کے لئے چھوڑآیاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکتنا ؟ انہوں نے جوجواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیاوہ ایسے الفاظ ہیں جوایک مسلمان کے شان شیاں ہیں اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کے وعدوں پرکامل یقین وبھروسے کی ترجمانی کرتے ہیں اورسونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں ،عرض کیاکیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی راہ میں صرف اس کی رضاو خوشنودی کے لئے مال خرچ کرنے پررزق کی فراوانی، مال میں خیروبرکت،اوران گنت اجروثواب کاوعدہ نہیں فرمایاہے۔[62]

ان کو ایک عظیم شرف یہ بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اقتدامیں نمازپڑھی ۔

أن رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لما انتهى إلى عَبْد الرَّحْمَن بْن عوف، وهو یصلی بالناس أراد عَبْد الرَّحْمَن أن یتأخر،

ہوایوں کہ لشکرعسرتبوک روانہ ہوا، دوران سفرنمازکاوقت ہوگیامگرامامت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجودنہ تھے،

كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَوْفٍ مِمَّنْ یُفْتِی فِی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فتوے جاری کرتے ہیں ۔[63]

فأومأ إِلَیْه النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أن مكانك، فصلى، وصلى رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بصلاة عبد الرَّحْمَن،

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے اکرام کے پیش نظر انہیں نماز کی امامت کے لئے آگے بڑھایااورانہوں نے نماز پڑھانا شروع کی ،ابھی پہلی رکعت ہی پڑھی گئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے،انہوں نے پیچھے ہٹنے کاارادہ کیامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایااورباقی نماز عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کی اقتدامیں پڑھی۔[64]

فأتینا الناس وعبد الرحمن بن عوف یصلی بهم صلاة الصبح فلما رأى النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أراد ان یتأخر فأومأ إلیه أن تمضی فی صلاتك ، فصلى رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وانا معه خلف عبد الرحمن بن عوف ركعة،فلما قضى صلاته قام یصلی إلیها ركعة أخرى ولم یزد علیها شیئا

جب لوگ آئے توعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم نمازفجرپڑھارہے تھے،جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا توپیچھے ہٹنے کاارادہ کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہاکہ وہ نمازپڑھاتے رہیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتدامیں ایک رکعت نمازپڑھی ،جب نمازختم ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکرایک رکعت پڑھی اوراس میں کچھ اضافہ نہیں کیا۔[65]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاہمیشہ ان کے شامل حال رہی ،ان کی تجارت پھلتی پھولتی ہی رہی اور وہ تمام اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دولت مندبن گئے مگروہ اپنا پرانا وقت کبھی نہ بھولے ،مال ودولت کی محبت کبھی ان کے دل میں جگہ پیدانہ کرسکی اورنہ کوئی فخروغرور پیدا ہوا،وہ ہمیشہ سادہ غذااورسادہ سالباس زیب تن کرتےتھے اس لئے جب وہ اپنے غلاموں میں بیٹھے ہوتے توان میں اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا،

أُتِیَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَوْفٍ بِطَعَامٍ، فَجَعَلَ یَبْكِی، فَقَالَ: قُتِل حَمْزَة، فَلَمْ یُوْجَدْ مَا یُكَفَّنُ فِیْهِ إِلاَّ ثَوْباً لَقَدْ خَشِیْتُ أَنْ یَكُوْنَ عُجِّلَتْ لَنَا طَیِّبَاتُنَا فِی حَیَاتِنَا الدُّنْیَا وَجَعَلَ یَبْكِی

ایک مرتبہ افطارکے وقت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کے سامنے ( پرتکلف )کھاناپیش کیا گیاتوانہیں ابتدائے اسلام کازمانہ یاد آگیا اوررونے لگے اورفرمایاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب قتل ہوئے مگران کے کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادر کے سواکچھ نہ تھا پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے ہم پر دنیاوی مال واسباب کی فراوانی کردی ،جس سے مجھے ڈرلگتاہے کہ کہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ہی نہ نپٹادیاہواورآخرت میں ہم تہی دست رہے جائیں ،پھر آخرت کے خوف سے زارو قطار رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔ [66]

أن عَبْد الرحمن أتی بطعام، وكان صائمًافَقَالَ: قتل مصعب بْن عمیر، وهو خیر منی، فكفن فِی بردته،إن غطی رأسه بدت رجلاه، وإن غطی رجلاه بدا رأسه وأراه قَالَ: وقتل حمزة وهو خیر منی ثُمَّ بسط لنا من الدنیا ما بسط أَوْ قَالَ: أعطینا من الدنیا ما أعطینا وَقَدْ خشینا أن تكون حسناتنا عجلت لنا ثُمَّ جعل یبكی حتَّى ترك الطعام

اوراسدالغابہ میں ہےعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ دسترخوان پرتشریف لائے اور وہ روزے سے تھے ، فرمانے لگے مصعب بن عمیرشہیدہوئے اوروہ مجھ سے بہترتھے ،انہیں ایک چادرمیں کفن دیاگیا وہ چادراتنہ چھوٹی تھی کہ اگراس سے سرٖھانپتے توپاؤ ں کھل جاتے اوراگرپاؤ ں ڈھانپتے توسرکھل جاتاتھاپھرفرمایاحمزہ بن عبدالمطلب شہیدہوئے وہ بھی مجھ سے بہترتھے پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے ہم پر دنیاوی مال واسباب کی فراوانی کردی جس سے مجھے ڈرلگتاہے کہ کہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ہی نہ نپٹادیا ہو اور آخرت میں ہم تہی دست رہے جائیں ،پھر آخرت کے خوف سے زارو قطار رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔[67]

وَقُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، فَلَمْ یُوجَدْ مَا یُكَفَّنُ بِهِ إِلَّا ثَوْبًا وَاحِدًاوَلَمْ یَتْرُكْ إِلاَّ نَمِرَةً كُنَّا إِذَا غَطَّیْنَا رَأْسَهُ بَدَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غَطَّیْنَا رِجْلَیْهِ بَدَا رَأْسُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:غَطُّوا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجلَیْهِ مِنَ الإِذْخِرِ

ایک روایت میں ہےاورمصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرشہیدہوئے تواس شہید راہ حق کے پاس ایک چھوٹی سی چادرکے سواان کے کفن کے لیے کچھ بھی نہ تھااگران کرسرڈھاپتے توپاؤ ں کھل جاتے اوراگرپاؤ ں مستورکیے جاتےتوسربرہنہ ہو جاتا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کاسرچادرسےڈھانپ دواوراؤ ں کو اذخرگھاس سے چھپاکراس شہیدحق کوسپرد خاک کردو۔[68]

آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مال و دولت کواپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جہادفی سبیل اللہ، غریبوں ، ضرورت مندوں ، بیواوں ، یتیموں اورمحتاجوں پربے دریغ خرچ کرتے رہتے تھے ،ایک مرتبہ جہادفی سبیل اللہ کے لئے پانچ سو اورایک مرتبہ ایک سوپچاس تربیت یافتہ جنگی گھوڑے خریدکرمجاہدین کو نذر کیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ امہات المومنین کی گھریلومالی ضروریات کاہرطرح خیال رکھتے ،جب امہات المومنین میں سے کوئی سفرپرروانہ ہوتیں تو سارے کام چھوڑ کر خادم بن کر ساتھ ہو لیتے ، جب ازواج مطہرات حج کا ارادہ فرماتیں ان کے سفرحج کابندوبست فرماتے اور دوران سفران کی شان ومرتبہ کوظاہرکرنے کے لئے ان کے ہودج پرسبز رنگ کاقیمتی کپڑا ڈلوا دیتے اور ان کے آرام وسکون کے لئے جہاں پڑاوکرناپسندفرماتیں وہاں قیام کا بندوبست فرماتے،

حَدَّثَتْنَا أُمُّ بَكْرٍ بِنْتُ المِسْوَرِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بَاعَ أرضًا له مِنْ عُثْمَانَ بِأَرْبَعِیْنَ أَلْفَ دِیْنَارٍ فَقَسَمَهُ فِی فقراء بنی زُهْرَةَ وَفِی المُهَاجِرِیْنَ وَأُمَّهَاتِ المُؤْمِنِیْنَ، قَالَ المِسْوَرُ فَأَتَیْتُ عَائِشَةَ بِنَصِیْبَهَا فَقَالَتْ: مَنْ أَرْسَلَ بِهَذَا؟ قُلْتُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ أَمَا إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقول:لاَ یَحْنُو عَلَیْكُنَّ بَعْدِی إلَّا الصَّابِرُوْنَ ،سَقَى اللهُ ابْنَ عَوْفٍ مِنْ سَلْسَبِیْلِ الجَنَّةِ

ام بکربنت مسورسے روایت ہےایک مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کرکے ساری کی ساری رقم ازواج مطہرات ،محتاجوں ،یتیموں ،بیواوں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آمنہ کے خاندان بنوزہرہ میں تقسیم فرما دی، مسورکہتے ہیں جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کاحصہ جب ان کے سامنے پیش کیا گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھایہ کس نے بھیجاہے؟ انہیں جواب دیاگیاکہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے یہ بھیجاہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کومخاطب کر کے ارشاد فرمایاتھاکہ میرے بعدصابر و شاکرلوگ ہی تمہاری خدمت بجالائیں گے اے اللہ ابن عوف رضی اللہ عنہ کوجنت کے سلسبیل چشمہ سے پانی پلا۔[69]

عن أم سلمة قالت:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لأَزْوَاجِهِ إِنَّ الَّذِی یُحَافِظُ عَلَیْكُنَّ بَعْدِی لَهُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ اللَّهُمَّ اسْقِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ مِنْ سَلْسَبِیلِ الْجَنَّةِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے فرماتے ہوئے سنا کہ جوشخص میرے بعدتمہاری خدمت کرے گاوہ صادق اورسخی ہوگا،الٰہی! عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کوسلسبیل(جنت کاایک چشمہ)سے سیراب کر۔[70]

عن ابن أبی نجیح، أنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال:الّذی یحافظ على أزواجی من بعدی هو الصّادق البارّ

ابن ابی نجیح سے روایت ہےجوشخص میرے بعدمیری ازواج کی خدمت کرے گاوہ صادق اورسخی ہوگا۔[71]

آپ رضی اللہ عنہ نے سخاوت کواپنااوڑھنابچھونابنارکھاتھا،آپ انکی سخاوت کااندازہ اس واقعہ سے اچھی طرح لگاسکتے ہیں ،

وَعَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ: بَیْنَمَا عَائِشَةُ فِی بَیْتِهَا إِذْ سَمِعَتْ صَوْتًا رُجَّتْ مِنْهُ الْمَدِینَةُ فَقَالَتْ: مَا هَذَا؟فَقَالُوا: عِیرٌ قَدِمَتْ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مِنَ الشَّامِ، وَكَانَتْ سَبْعَمِائَةٍ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَمَا إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ حَبْوًا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَأَتَاهَا فَسَأَلَهَا عَمَّا بَلَغَهُ فَحَدَّثَتْهُ ،قَالَ: فَإِنِّی أُشْهِدُكِ أَنَّهَا بِأَحْمَالِهَا وَأَقْتَابِهَا وَأَحْلَاسِهَا فِی سَبِیلِ اللهِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےایک مرتبہ میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھرپرتھاکہ انہوں نے تھرتھراہٹ کی آوازسنی جس سے مدینہ کی زمین تھرتھرانے لگی،تھرتھراہٹ محسوس فرماکرام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیایہ کیسی تھرتھراہٹ ہے؟ جواب ملاکہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کاسات سواونٹوں کاتجارتی قافلہ شام سے مدینہ منورہ میں داخل ہورہاہے،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کے ازواج مطہرات اورعام مسلمانوں کے ساتھ جودوسخا کو اچھی طرح جانتی تھیں اس لئے ان کے حق میں یوں دعافرمائی الہٰی! تونے انہیں اس دنیامیں جوکچھ عطاکررکھاہے اس میں خیرو برکت فرمااور آخرت میں بھی اس سے زیادہ آجرو ثواب سے نوازنا ،دعامانگ کر فرمانے لگیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف جنت میں خوشی سے اچھلتے کودتے ہوئے داخل ہوگا،ان کے کسی ساتھی نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم ترین بشارت سنی توان کی طرف دوڑ لگادی اورقبل اس کے کہ قافلہ پوری طرح مدینہ منورہ میں داخل ہوتاانہیں اس بشارت سے اگاہ کردیا، عبدالرحمٰن بن رضی اللہ عنہ عوف کواس بشارت کا کوئی علم نہ تھا، یہ خوشخبری سننے کے لئے بیتاب ہوگئے اورسب کچھ چھوڑ کر دیوانہ وار عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دوڑلگا دی اور جا کر عرض کی اے ہماری ماں !کیاآپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے لئے جنت کی بشارت کے کلمات سنے ہیں ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاہاں میں نے خودیہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں ،مال ودولت کے پہلے بھی رسیانہ تھے ،اوراب تواس کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوگئی تھی اسی سرخوشی میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کومخاطب کرکے کہنے لگے اے ہماری ماں !آپ گواہ ر ہئے گاکہ میں جنت کی اس عظیم خوشخبری کوسننے پرسات سواونٹوں پرلدا ہوا اپنا تمام مال واسباب اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں پیش کرتاہوں ۔[72]

یہ منکراورجھوٹاقصہ ہے۔

قال أحمد بن حنبل: هذا حدیث منكر

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکرہے۔[73]

اس واقعہ کے بعدتوان کے سخاوت کی کوئی انتہانہ رہی اور انہوں نے چالیس ہزاردیناراورچالیس ہزاردرہم کوبے دریغ راہ اللہ خرچ کر ڈالا، بھائیوکیاآپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کی خوشی کاکیاحال ہوگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان دس خوش نصیبوں میں شامل فرمایاتھا جن کو زندگی میں جنت کی بشارت سنادی گئی تھی،

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَبُو بَكْرٍ فِی الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّةِ، وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِی الْجَنَّةِ، وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّةِ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دس لوگ جنتی ہیں ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورطلحہ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورزبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسعیدبن زید رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔[74]

جب سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کومجوسی غلام نے خنجرکے وار کرکے کاری زخم لگائے تودارفانی سے کوچ کرنے سے پہلے انہوں نے لوگوں کے اصرارپر چھ اکابرصحابہ کی مجلس شوریٰ بنادی کہ اپنے میں سے کسی کوخلیفہ منتخب کرلیں مگرساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیں کہ اگررائیں مساوی ہوں توجدھر (ان کے بلندمقام ومرتبہ کی بناپر فرمایا)عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ رائے دیں وہ قبول کرلی جائے ،چنانچہ انہوں نے عام لوگوں کے خیالات اوررائیں معلوم کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کوخلیفہ منتخب کیا،قبل ازوفات اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے،انہوں نے اپنی دولت کی تقسیم کے لئے وصیت فرمائی کہ جتنے بھی بدری صحابی زندہ ہوں ان میں سے ہرایک کو میرے مال سے چارسو دینار پیش کیے جائیں اور امہات المومنین کووافر مقدار میں حصہ پیش کیاجائے،

وصلّى علیه عثمان، ویقال الزبیر بن العوام

آپ کی نمازجنازہ سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ذوالنورین نے پڑھائی،یہ بھی کہا جاتاہے کہ زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ [75]

ولما مات قَالَ علیّ بْن أَبِی طَالِب: اذهب یا ابْنُ عوف قَدْ أدركت صفوها، وسبقت زنقها

جب دفن کرنے کے لئے جانے لگے توسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایااے عبدالرحمٰن تونے کھرے سکے حاصل کیے اورکھوٹے سکے لینے سے انکارکرکے جنت کی پاکیزہ راحت کوپالیااللہ تبارک وتعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔[76]

آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے قبرمیں اتارا،

 أوصى عَبْد الرَّحْمَن لمن بقی ممن شهد بدرًا، لكل رَجُل أربعمائة دینار، وكانوا مائة، فأخذوهاوكان لَهُ أربعة نسوة، أخرجت امْرَأَة بثمانین ألفًا، یعنی صولحت ،وخلف مالًا عظیمًا، من ذَلِكَ ذهب قطع بالفؤ س، حتَّى مجلت أیدی الرجال مِنْهُ، وترك ألف بعیر، ومائة فرس، وثلاثمائة آلاف شاة

زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ کے تقریبا ً چارسوبدری صحابہ کی خدمت میں چارسودینارپیش کیے جائیں ،چنانچہ انہیں یہ وصول کیے ، آپ کی چار بیویاں تھیں وصیت کی تکمیل کے بعد ہرایک کواسی اسی ہزاردینارحصہ میں آئے ، انہوں نے اپنے پیچھے بہت مال چھوڑاجس میں سونے اورچاندی کی اتنی مقدارتھی کہ ڈلیوں کو کاٹتے کاٹتے کاٹنے والوں کے ہاتھ زخمی ہوگئے،دینارودرہم کےعلاوہ ایک ہزاراونٹ ،چارسو گھوڑے ،تین ہزار بکریاں موجودتھیں ۔[77]

 تقول عائشة: سقى الله أباك من سلسبیل الجنة

آپ کی وفات کے بعد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دعائیں ان کے حق میں جاری رہیں وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ا ن کے حق میں دعاکرتے ہوئے فرماتی تھیں الہٰی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کوجنت کے میٹھے اورٹھنڈے چشمے سلسبل سے پانی پلانا ۔

[1] البینة: 1

[2] مسند احمد۱۶۰۰۱

[3] الاعراف۱۶،۱۷

[4] الحجر۳۹،۴۰

[5] ص۸۲

[6] بنی اسرائیل۶۲

[7] البقرة۳۸،۳۹

[8] الانبیاء ۲۵

[9] التوبة۳۰

[10] التوبة۳۰

[11] المائدة ۱۷

[12] المائدة۷۳

[13]  النساء

[14] البقرة۷۵

[15]  النساء ۴۶

[16] المائدة۱۳

[17] المائدة۴۱

[18] التوبة۳۱

[19]جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ۳۰۹۵

[20] آل عمران۱۱۲

[21] المومنون۳۵تا۳۸

[22] البقرة ۲۱۳

[23] النحل۹

[24] الیل۱۲

[25]  النساء ۱۶۳تا۱۶۵

[26] المائدة۱۹

[27]الممتحنة ۴

[28] النحل۳۶

[29] آل عمران۱۰۵

[30] جامع ترمذی کتاب الایمان مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۱

[31]الممتحنة۴

[32] آل عمران۶۴

[33] طہ۷۴

[34] الاعلی۱۰تا۱۳

[35] الفرقان۱۲تا۱۴

[36]  النساء ۱۷

[37] ابن سعد۱۶۷؍۴

[38] مسند احمد ۲۱۵۲۵،ابن سعد ۱۶۶؍۴

[39] مسند احمد۲۱۵۲۵،ابن سعد ۱۶۷؍۴

[40] مسنداحمد۲۱۵۲۵

[41] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ إِسْلاَمِ أَبِی ذَرٍّ الغِفَارِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۸۶۱

[42] ابن سعد۱۷۲؍۴،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۵۵؍۱،اسدالغابة۵۶۲؍۱،تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۲۹۶؍۳۳، معرفة الصحابة لابی نعیم۵۶۰؍۲

[43] تاریخ دمشق۲۴۹؍۳۵

[44] صحیح بخاری كِتَاب الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا وَكَّلَ المُسْلِمُ حَرْبِیًّا فِی دَارِ الحَرْبِ، أَوْ فِی دَارِ الإِسْلاَمِ جَازَ۲۳۰۱

[45] تاریخ دمشق۲۴۰؍۳۵

[46] اسد الغابة۴۷۵؍۳

[47] الإصابة فی تمییز الصحابة ۲۹۰؍۴

[48] ابن سعد۲؍۳

[49] تاریخ دمشق۲۴۶؍۳۵

[50] اسدالغابة۴۷۵؍۳

[51] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۹۰؍۴

[52] تاریخ دمشق۲۵۲؍۳۵

[53] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۹۱؍۴،تاریخ دمشق ۲۹۵؍۳۵

[54] ابن سعد ۹۲؍۳

[55] تاریخ دمشق ۲۴۱؍۳۵

[56] اسد الغابة ۴۷۵؍۳

[57] اسدالغابة۴۷۵؍۳

[58] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِی الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۲۰۴۸

[59] اسدالغابة۴۷۵؍۳

[60] اسدالغابة۴۷۵؍۳،تاریخ دمشق۲۵۰؍۳۵

[61] التوبة۹۱تا۹۲

[62] تاریخ دمشق لابن ابن عساکر۲۸؍۲

[63] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۹۱؍۴، سیر أعلام النبلاء۵۶؍۳

[64] اسد الغابة ۴۷۵؍۳، تاریخ دمشق ۲۵۷؍۳۵

[65] تاریخ دمشق۲۵۸؍۳۵،سیر أعلام النبلاء۵۶؍۳

[66] سیراعلام النبلائ۱۴۵؍۱

[67] اسد الغابة۴۷۵؍۳

[68] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی ۶۵۹؍۱،سیراعلام النبلائ۹۶؍۳

[69] سیر أعلام النبلاء۵۵؍۳

[70] سیراعلام النبلا۶۲؍۳،ابن سعد۹۸؍۳

[71] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۹۱؍۴

[72] معرفة الصحابة لابی نعیم۱۲۳؍۱، اسدالغابة۴۷۵؍۳،تاریخ دمشق۲۵۴؍۳۵، سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۲۵۷؍۱،الریاض النضرة فی مناقب العشرة۳۰۵؍۴،سیر أعلام النبلاء۵۶؍۳

[73] مختصر تاریخ دمشق لابن عساكر۳۴۷؍۱۴

[74] اسدالغابة۴۷۵؍۳

[75] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۹۱؍۴،تاریخ دمشق۲۴۱؍۳۵

[76] أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۴۷۵؍۳

[77] أسد الغابة فی معرفة الصحابہ ۴۷۵؍۳

Related Articles