بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ الزمر(حصہ اول)

اس سورہ کااصل موضوع اورمحورعقیدہ توحیدہے کیونکہ اللہ کی واحدانیت کااعتقادہی اصل ایمان ہے ،اس اصل اصول کوباربارمختلف اندازسے پیش کرتے ہوئے پرزورطورپرتوحیدکی حقانیت اوراس پرایمان لانے کے بہترین نتائج اورشرک کی غلطی اورحق وسچ سامنے آنے کے باوجوداس پرقائم رہنے کے برے نتائج کو واضح کیا گیا ہے،اورلوگوں  کودعوت دی گئی ہے کہ وہ طاغوت کی بندگی سے بازآجائیں  اوراپنے معبودحقیقی اللہ رب العالمین کی طرف پلٹ آئیں ،اسی میں  ان کی اخروی فلاح ونجات ہے صدیوں  پہلے ایک طبی حقیقت کااعلان فرمایاکہ اللہ وحدہ لاشریک انسان کو شکم مادرکی تین تاریکیوں  میں  ایک کے بعدایک شکل دیتاچلاجاتاہے،وہی خالق تمہارا معبود حقیقی ہے ،اس کے سواکوئی معبودنہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوحکم دیاگیاکہ وہ کفارومشرکین کے سامنے برملااعلان کردیں  کہ وہ اس پاکیزہ دعوت کوروکنے کے لیے جوحربے چاہیں  استعمال کرلیں  مگرمیں  اپنے رب کے بھروسے پرتبلیغ دین کاکام جاری رکھوں  گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

 یلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ ‎﴿١﴾ (الزمر)
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔

ہرطرح کے دلائل کے باوجودمشرکین مکہ قرآن مجیدکے بارے میں  کہتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے منزل نہیں  ہے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خودسے گھڑلیاہے ،اللہ تعالیٰ نے ان کے خیالات کی تردید فرمائی اور فرمایاتمہارایہ خیال غلط ہے کہ اسراسروحکمت سے بھرایہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے یاکسی کے اشارے پرخودسے بنالیاہے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ جوالْعَزِیْزِ(یعنی ایسا زبردست ہے جس کے ارادوں  اورفیصلوں  کونافذہونے سے کوئی طاقت روک نہیں  سکتی )اورالحکیم (یعنی وہ اپنے اقوال وافعال اور شرع وقدرمیں  حکمت والاہے)نے نازل فرمایاہے ،جیسے فرمایا

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙبِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۝۱۹۵ۭ [1]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے ، اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں  میں  شامل ہو جو( اللہ کی طرف سے اس کی خلق کو) متنبہ کرنے والے ہیں ،صاف صاف عربی زبان میں  ۔

۔۔۔وَاِنَّہٗ لَكِتٰبٌ عَزِیْزٌ۝۴۱ۙلَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [2]

ترجمہ:مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے ،باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

جس طرح اللہ تعالیٰ ہرلحاظ سے کامل ہے اوراس کی مثل ونظیر نہیں  ، جیسے فرمایا

۔۔۔لَیْسَ كَمِثْلِہٖ شَیْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝۱۱ [3]

ترجمہ:کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں  وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔

اسی طرح اس کاکلام بھی ہرلحاظ سے کامل اوربے نظیرہے اوراپنی دعوت سمیت تمام کتابوں  میں  سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے،اوراللہ تعالیٰ نے اس لئے نازل فرمائی ہے کہ مخلوق کوگمراہی کی تاریکیوں  سے نکال کرہدایت کی روشنی میں  لائے،جیسے فرمایا

اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِیٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ یُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵۷ۧ [4]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لاتے ہیں  ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں  سے روشنی میں  نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں  ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں  اور وہ انہیں  روشنی سے تاریکیوں  کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں  یہ آگ میں  جانے والے لوگ ہیں  جہاں  یہ ہمیشہ رہیں  گے ۔

یَّہْدِیْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶ [5]

ترجمہ:جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں  سلامتی کے طریقے بتاتا ہےاور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں  سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔

الۗرٰ۝۰ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۝۰ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۱ۙ [6]

ترجمہ:ا، ل، ر، اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں  کو تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں  لاؤان کے رب کی توفیق سے ، اس اللہ کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں  آپ محمود ہے۔

ہُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۹ [7]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں  نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں  تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں  لے آئے ۔

رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُبَـیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۱۱ [8]

ترجمہ:ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سنا تا ہے تاکہ ایمان لانے والوں  اور نیک عمل کرنے والوں  کو تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں  لے آئے۔

 (إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّینَ ‎﴿٢﴾‏ أَلَا لِلَّهِ الدِّینُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِی مَا هُمْ فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ‎﴿٣﴾الزمر)
’’ یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے ،خبردار ! اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوااولیابنارکھے ہیں(اورکہتے ہیں)کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ)اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا( سچا) فیصلہ اللہ( خود) کرے گا، جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا۔‘‘

درمیانی واسطوں  کی تلاش،بنیادشرک ہے :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکودنیامیں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل فرمایا ہے، اس لئے یہ نعمت بہت عظیم اورجلیل القدرہے، اس میں  توحید ورسالت، معاداورمختلف احکام وفرائض کاجواثبات کیاگیاہے وہ سب حق اورسچائی ہے ،اورانہی پرایمان لانے اورانہی پرعمل کرنے میں  انسان کی آخروی نجات ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہرطرح کے شک وشبہ سے پاک اور اخلاص نیت کے ساتھ ان احکامات کے مطابق بے چوں  وچرااطاعت ، برضاو رغبت پیروی اوراس کے امرونہی کی دل وجان سے فرمانبرداری کیے جاؤ ،

عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیَّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْیَا یُصِیبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ یَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَیْهِ

علقمہ بن وقاص کہتے ہیں  میں  نےسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کومنبرپرخطبہ دیتے ہوئے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعملوں  کادارومدارنیتوں  پرہے،انسان کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی ہو،سوجس نے اللہ اوراس کے رسول کی طرف ہجرت کی، تواس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کی طرف ہےاورجس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو وہ اسے پائے گا یا کسی عورت کے لئے ہوکہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہو۔[9]

یعنی جوعمل خیراللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیاجائے گا (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو)وہ مقبول اورجس عمل میں  کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی وہ نامقبول ہوگا ، بندگی واطاعت کامستحق صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے کوئی اورنہیں  کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی پرستش اور اس کے احکام وقوانین کی بھی اطاعت کی جائے ،اگرکوئی شخص اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگی غیرکی آمیزش کرتاہے،مشکلات اورپریشانیوں  میں ان کومددکے لیےپکارتاہے اورانہیں  اپناولی ومددگاربناتا ہے تووہ سراسرحق کے خلاف ورزی کرتا ہے،

عَنْ یَزِیدَ الرَّقَاشِیِّ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نُعْطِی أَمْوَالَنَا الْتِمَاسَ الذِّكْرِ فَهَلْ لَنَا فِی ذَلِكَ مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَاقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا نُعْطِی الْتِمَاسَ الْأَجْرِ وَالذِّكْرِ فَهَلْ لَنَا أَجْرٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَا یَقْبَلُ إِلَّا مَا أُخْلِصَ لَهُ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ أَلا لِلَّهِ الدِّینُ الْخالِصُ

یزیدالرقاشی سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھاہم اپنامال لوگوں  کواس لئے دیتے ہیں  کہ ہمارانام بلندہوکیااس پراللہ ہمیں  کوئی اجروثواب دے گا؟  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  ،اس شخص نے پھر پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مال کے خرچ کرنے میں  اللہ کے اجروثواب اوردنیاکی ناموری دونوں  کی نیت ہو؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کوئی بھی عمل قبول نہیں  کرتاجب تک وہ خالص اسی کے لئے نہ ہواس کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت’’ اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔‘‘ تلاوت فرمائی۔[10]

البتہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کوچونکہ خوداللہ نے اپنی ہی اطاعت قراردیاہے اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے ،کسی غیرکی نہیں ،جیسے فرمایا

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔۔۔۝۰۝۸۰ۭ [11]

ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔

تاہم عبادت میں  یہ بات بھی نہیں ،اس لئے عبادت اللہ کے سواکسی بڑے سے بڑے رسول کی بھی جائزنہیں  چہ جائیکہ عام افرادواشخاص کی جنہیں  لوگوں  نے اپنے طور پر خدائی اختیارات کاحامل قراردے رکھاہے ، پچھلی مشرک قوموں  کی طرح مشرکین مکہ کابھی یہی دعویٰ تھا کہ ہم اللہ بلندوبرترکو ہی اس عظیم الشان کائنات کاخالق ومالک ، مختار اوررزاق مانتے ہیں ،ہم یہ بھی مانتے ہیں  ہمارے معبودوں نے کوئی چیز پیدا نہیں  کی ،اس لئے ہم اپنے معبودوں  کی عبادت انہیں  خالق ومالک اوررزاق سمجھ کرنہیں  کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اونچی بارگاہ میں  ان بزرگ ہستیوں  کواللہ تک رسائی کا ذریعہ بناتے ہیں  تاکہ یہ ہماری دعائیں ،حاجتیں  اورالتجائیں  اللہ کی بارگاہ پہنچادیں  اورہمارے سفارشی بنیں  ، جیسے فرمایا

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۸ [12]

ترجمہ:اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن کی پرستش کرتے ہیں  وہ نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں  اور نہ ہی کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں ۔

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: { إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى} قَالُوا:مَا نَعْبُدُ هَؤُلَاءِ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا، إِلَّا لِیَشْفَعُوا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ  مَنْزِلَةٌ

قتادہ رحمہ اللہ  اورسدی رحمہ اللہ  اس آیت کریمہ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں  کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں  ۔‘‘کے معنی بیان کرتے ہیں  یہ ہماری شفاعت کریں  اورمقام ومرتبہ کے اعتبارسے ہمیں  اللہ تعالیٰ کامقرب بنادیں  ۔[13]

حالانکہ یہ ان کاخیال خام اور خود کو دھوکادینے کے مترادف تھا،ان بزرگ ہستیوں  پر مشرکین کاکبھی بھی اتفاق نہیں  ہوا ہے،بعض لوگ خودساختہ بے شمار دیویوں  اوردیوتاؤ ں  میں  سے کچھ دیوتااوردیویوں  کواللہ تک رسائی کاذریعہ مانتے ہیں  ، مظاہرپرست لوگ اجرام فلکی سورج ،چاند،مریخ،مشتری کواللہ تک رسائی کاذریعہ جانتے ہیں  مگراس پرمتفق نہیں  کہ ان میں  کس کامرتبہ زیادہ ہے اورکس کاکم،بعض لوگ محض وہم ، اندھی عقیدت اوراسلاف کی بے سوچے سمجھی تقلید سے فوت شدہ بزرگ ہستیوں  کواللہ تک ذریعہ رسائی مانتے ہیں  حالانکہ ان مختلف مشکل کشا،حاجت روا،اللہ تک رسائی کرنے والی ہستیوں  کے بارے میں  ان کا گمان نہ توکسی علم پرمبنی ہے اورنہ ہی اللہ کی طرف سے اس پرکوئی دلیل ہے کہ فلاں  فلاں  اشخاص ہمارے مقرب خاص ہیں  لہذا اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے تم ان کوذریعہ بنالو۔

۔۔۔مَّا نَزَّلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُـلْطٰنٍ۔۔۔۝۰۝۷۱ [14]

ترجمہ:اللہ نے اس کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں  کی۔

لہذاان لوگوں  میں  بھی اختلاف ہے ،کوئی کسی بزرگ کوبڑامان رہاہے اورکوئی کسی اورکو ، بس انہوں  نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ فلاں  بزرگ اتنے بلند مقام کاہے اور فلاں  بزرگ ایسی کرنے والاہے،اس لئے انہیں  اللہ کی بخشی ہوئی یہ نعمتیں  ان بزرگوں  کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں  اورپھریہی جھوٹا،مشرکانہ عقیدہ وہ بڑے شدومدکے ساتھ دوسرے کم علم لوگوں  میں  پھیلاتے ہیں  کہ ہمار افلاں  کام اس بزرگ نے کر دیا اورفلاں  کام دوسرے بزرگ نہیں  کردیا، دوسرے معنوں  میں  وہ یہ عقیدہ پھیلاتے ہیں  کہ (نعوذباللہ )اللہ تعالیٰ معطل ہوگیاہے اورکائنات کی بھاگ دوڑان ہستیوں  نے سنبھال لی ہے ، یااللہ تعالیٰ اس وسیع وعریض کائنات کاانتظام کرتے کرتے تھک کرسوگیاہے ، یااللہ تعالیٰ کواب اپنی مخلوقات کی طرف کوئی دلچسپی نہیں  رہی اوراس نے ان کا اختیارکسی بزرگ کو بخش دیاہےوہ کسی کو دیں  یانہ دیں  یااللہ تعالیٰ کاعلم ناقص ہوگیاہے اوراسے سمجھ ہی نہیں  آرہاکہ وہ کیاکرے اس لئے وہ ان بزرگ ہستیوں  سے مشاورت فرماتاہے یاپھراللہ تعالیٰ سے یہ ہستیاں  زیادہ طاقتواراوربااختیارہیں  کہ اللہ ان کے آگے بے بس ولاچارہوکران کی بات ماننے پرمجبورہوجاتاہے اس لئے اللہ کوچھوڑکران بزرگوں  کی عبادت کرو، چونکہ یہ لوگ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک کرتے ہیں ،اس کی عنایت فرمائی ہوئی نعمتوں  کی ناشکری کرتے ہیں اس لئے اللہ ایسے ناشکروں  کوراہ راست پر گامزن ہونے کی توفیق عطا نہیں  کرتا،مگرچاہے کوئی دیوی دیوتا کاپجاری ہو،مظاہرپرست ہویافوت شدہ بزرگوں  کی طاقت واختیارکوماننے والا ہو ، قرآن وحدیث کی روشنی میں  ہرطرح کی دلائل کے باوجود کوئی بھی یہ ماننے کوتیارنہیں  کہ وہ شرک کررہاہے یاوہ حق پرنہیں  ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۵۳  [15]

ترجمہ: ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں  وہ مگن ہے۔

۔۔۔كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ [16]

ترجمہ:ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں  وہ مگن ہے ۔

مگر روز قیامت اللہ تعالیٰ حق وباطل کافیصلہ فرمادے گااوراسی کے مطابق جزاوسزاملے گی ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاللہُ یَحْكُمُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۱۳ [17]

ترجمہ: یہ اختلافات جن میں  یہ لوگ مبتلا ہیں  ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا۔

۔۔۔اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۹۳  [18]

ترجمہ:یقیناً تیرا رب قیامت کے روز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں  وہ اختلاف کر تے رہے ہیں  ۔

۔۔۔وَاِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِـیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۲۴ [19]

ترجمہ: اور یقیناً تیرا رب قیامت کے روز ان سب باتوں  کا فیصلہ کر دے گا جن میں  وہ اختلاف کرتے رہے ہیں  ۔

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَیَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِــیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۲۵ [20]

ترجمہ:یقینا تیرا رب ہی قیامت کے روز ان باتوں  کا فیصلہ کرے گا جن میں  باہم اختلاف کرتے رہے ہیں  ۔

اللہ کسی ایسے شخص کوہدایت نہیں  دیتاجواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھےاوراس کادل اس کی آیات اوردلائل وبراہین کوقبول کرنے سے انکارکرے۔

لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ‎﴿٤﴾ (الزمر)
’’اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا، (لیکن) وہ تو پاک ہے، وہ وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت والا۔‘‘

اللہ وحدہ لاشریک ہے :

اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات تخلیق فرمائی اورہرطرح کے جانداروبے جان مخلوق کے ساتھ ساتھ فرشتوں ، جنوں  اور انسانوں  کوبھی پیدافرمایا،انسان کواشرف المخلوقات بناکر زمین پرخلیفہ بنایااورساری کائنات کواس کے لئے مسخرفرمادیا،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَةً وَّبَاطِنَةً۔۔۔۝۲۰ [21]

ترجمہ:کیا تم لوگ نہیں  دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں  کی ساری چیزیں  تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں  اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں  تم پر تمام کر دی ہیں ؟۔

چنانچہ ساری کائنات انسان کی اپنی اپنی طرح سے خدمت سرانجام دے رہی ہے ، اس طرح ساری کائنات اوراس کے اندر جو کچھ بھی ہے اللہ کی مخلوق ہے ،اورمخلوق چاہے جتنی بھی برگزیدہ ہوجائےاولادکی حیثیت اختیارنہیں  کرسکتی ،چاہے یہودیوں  کے کہنے کے مطابق عزیر علیہ السلام  ہوں  یاعیسائیوں  کے گمان کے مطابق عیسیٰ   علیہ السلام ہوں ،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۔۔۔۝۳۰ [22]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں  کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں  کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔

یامشرکین مکہ کے مطابق مقرب فرشتے ہوں ،جیسے فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا۔۔۔۝۲۶ۙ [23]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  کہ اللہ رحمن (فرشتوں  کی شکل میں ) اولاد رکھتا ہے ۔

خواہ کتنے ہی بڑے مرتبہ والے کیوں  نہ ہوں  اللہ کے حضورلاچار،عاجز،محتاج اورغلاموں  کی ماندہیں ،انہیں  اتنابھی اختیارنہیں  کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش میں  لب ہلاسکیں ،جیسے فرمایا

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۔۔۔۝۲۳ [24]

ترجمہ:اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں  ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو ۔

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۝۰ۭۤۙ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۝۳۸ [25]

ترجمہ:جس روزروح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔

اس لئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ان تمام نقص، عیب اورکمزوری سے پاک اورمنزہ ہے جن کاکفاراللہ تعالیٰ کے بارے میں  گمان کرتے ہیں اورملحدین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ،وہ اپنی ذات ، اپنے اسماء وصفات اوراپنے افعال میں  ایک ہے لہذااس بارے میں  اللہ تعالیٰ کاکوئی شبیہ ہے نہ مثل ،اس لئے زمینی مخلوق جن وانس میں  سے کسی کوبیٹا بنانا یاآسمانی مخلوق فرشتوں  کوبیٹی بنانا تو درکنار اللہ تعالیٰ نے ایسی بیہودہ باتوں  کوکرنے کا کبھی ارادہ نہیں  کیا، دنیاکی ہرچیزاس سے مغلوب اوراس کی قاہرانہ گرفت میں  جکڑی ہوئی ہے ،کائنات میں  کوئی کسی درجے میں  بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں  رکھتا،جس کی بناپراس کے متعلق یہ گمان کیاجاسکتاہوکہ اللہ تعالیٰ سے اس کاکوئی رشتہ ہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ۝۰ۤۖ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ۝۸۱سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۸۲ [26]

ترجمہ:ان سے کہواگرواقعی رحمان کی اولادہوتی توسب سے پہلے عبادت کرنے والامیں  ہوتا،پاک ہے آسمانوں  اورزمین کافرماں  روا عرش کامالک ان ساری باتوں  سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔

‏ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ یُكَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَى النَّهَارِ وَیُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّیْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِیزُ الْغَفَّارُ ‎﴿٥﴾‏ خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَةَ أَزْوَاجٍ ۚ یَخْلُقُكُمْ فِی بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ‎﴿٦﴾ (الزمر)
’’نہایت اچھی تدبیر سے اس نے آسمان اور زمین کو بنایا وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے،ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے،اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہےپھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیااور تمہارے لیے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے، وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اسی کے لیے بادشاہت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔‘‘

تخلیق کائنات اورعقیدہ توحید:

اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے زمین وآسمانوں  کواپنی حکمت ومشیت اور بہترین تدبیرسے بنایاہے تاکہ وہ بندوں  پراپنے قانون وضابطے نافذ کرے ،اور سورج وچاندکوانتہائی منظم طورپراورایک خاص رفتارکے ساتھ ایک خاص وقت تک (دنیاکے خاتمے تک)کے لیے مسخرفرماکران کاایک مدارقائم فرما دیا ہے جس پرچلتے ہوئے وہ سرمونو انحراف نہیں  کرتے ،انہیں  کی طے شدہ مخصوص حرکت سے رات اوردن پیدا ہوتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا۔۔۔  ۝۵۴ [27]

ترجمہ: جورات کودن پرڈھانک دیتاہے اورپھردن رات کے پیچھے دوڑاچلاآتاہے۔

جس کی وجہ سے تم دن کی روشنی میں  معاش حاصل کرتے ہواور رات کو سکون وچین سے آرام کرتے ہو،اسی اللہ وحدہ لاشریک نے انسانوں  کے جداعلیٰ آدم   علیہ السلام  کواپنے ہاتھوں  سے تخلیق فرمایاتھااوراس میں  اپنی طرف سے روح پھونکی تھی ، پھر اپنی کمال قدرت سے حوا کو ان کی بائیں  پسلی سے پیدافرمایاتھاتاکہ وہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ، جیسے فرمایا

ہُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْكُنَ اِلَیْہَا۔۔۔۝۱۸۹ [28]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا۔۔۔۝۱ [29]

ترجمہ:لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔۔۝۹۸ [30]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے ایک متنفّس سے تم کو پیدا کیا۔

وہی اللہ وحدہ لاشریک انسانوں  کورحم مادرکے تین اندھیروں  پیٹ،رحم اور مشیمہ میں  مختلف اطوارپہلے نُطْفَةٍ  پھرعَلَقَةٍ پھرمُضْغَةٍ پھرہڈیوں  کاڈھانچہ اوررگ ،پٹھے بناکر اس کے اوپرگوشت کالباس پہناکرکامل انسان تیارکرتااورزمین میں  پھیلا دیتا ہے ، اسی اللہ نے اپنی تقدیرسے چوپاؤ ں  میں  سے نرومادہ بھیڑ،بکری،اونٹ اورگائے پیدا فرمائے ، جس سے تم دودھ ،گوشت اون،کھال کی ضروریات حاصل کرتے ہو اوران پر سواری کرتے ہو ،جیسے فرمایا

۔۔۔ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ۔۔۔۝۰۝۱۴۳ۙ [31]

ترجمہ:یہ آٹھ نرومادہ ہیں دوبھیڑکی قسم سے اوردوبکری کی قسم سے۔

وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ۔۔۔۝۰۝۱۴۴ۧ [32]

ترجمہ:اوراسی طرح دواونٹ کی قسم سے ہیں  اوردوگائے کی قسم سے۔

۔۔۔اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ۔۔۔ ۝۱ [33]

ترجمہ:تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے۔

اسی کی تمام کائنات میں  بادشاہی ہے ،ساری کائنات میں  اسی کاحکم چل رہاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔۝۵۴ [34]

ترجمہ:خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔

اس کے الوہیت یا ربوبیت میں  کوئی شریک نہیں  ،کوئی چھوٹاہویابڑاسب اسی کے درکے سوالی ہیں ،اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں ،وہ ایسازبردست ہے کہ اگروہ تمہیں  عذاب دیناچاہے توکوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں  کرسکتی مگروہ اپنی بے بہا رحمت وکرم سے بندوں  کومہلت عطاکرتاہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں  کودیکھ کرایمان لے آئیں  اوراپنے گناہوں  سے تائب ہوکرمغفرت وبخشش طلب کریں  ،اوراللہ انہیں  معاف فرما کر گناہوں  سے پاک وصاف کردے،جیسےفرمایا

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى۝۸۲ [35]

ترجمہ: البتہ جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے پھر سیدھاچلتا رہے اس کے لیے میں  بہت درگزرکرنے والاہوں ۔

اس لئے ان صاحب حیثیت،صاحب اقتدار لوگوں  کے چکموں  سے، جواپنے اغراض و مفادات کے تحت اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی سے پھیر کرتمہیں غیراللہ کی بندگی میں  پھانسنے اورپھانسے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں  نکل کراللہ کے کلام کا مطائعہ کرو، اس میں  نازل کیے گئے دلائل پر غوروفکرکرو،حق وباطل کوپہچانواورمہلت عمل ختم ہونے سے پہلے پہلے باطل معبودوں  کی عبادت سے جوکسی چیزکی تدبیر کرتے ہیں  اورنہ ہی انہیں  کوئی اختیارہے ، تائب ہوکرپروردگار کی بندگی کی طرف لوٹ آؤ ۔

 إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا یَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا یَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٧﴾‏(الزمر)
 ’’ اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بےنیاز ہےاور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں، اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا، اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے، تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے، یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے۔‘‘

کوئی کسی کابوجھ نہیں  اٹھائے گا:

اوراس کے باوجودبھی تم کفرسے بازنہیں  آتے تویادرکھواللہ تم سے بے نیازہے ،جس طرح تمہاری اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں  پہنچاسکتی اسی طرح تمہاراکفروشرک اسے کوئی نقصان نہیں  پہنچاسکتا،جیسے فرمایا

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۸ [36]

ترجمہ:اور موسیٰ نے کہا اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں  تو اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں  آپ محمود ہے۔

اس کی فرمانروائی اپنے زورپرچل رہی ہے تمہارے نہ ماننے سے اس کی حاکمیت،بڑائی میں  کچھ کمی واقع نہیں  ہو گی ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَیْتُ، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ أَنِّی أَقْدِرُ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِی بِقُدْرَتِی غَفَرْتُ لَهُ، وَلَا أُبَالِی، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِیرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَیْتُ، فَاسْأَلُونِی أُغْنِكُمْ.

ابوذر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! تم سب کے سب گنہگار ہو سوائے اس کے جسے میں  عافیت عطاء کر دوں   اس لئے مجھ سے معافی مانگا کرو میں  تمہیں  معاف کر دوں  گااور جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معاف کرنے پر قدرت ہے اور وہ میری قدرت کے وسیلے سے مجھ سے معافی مانگتا ہے تو میں  اسے معاف کر دیتا ہوں  اور کوئی پرواہ نہیں  کرتا،تم میں  سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں  ہدایت دے دوں  لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں  تم کو ہدایت عطاء کروں  گا، تم میں  سے ہر ایک فقیر ہے سوائے اس کے جسے میں  غنی کردوں  لہٰذا مجھ سے غناء مانگا کرو میں  تم کو غناء عطاء کروں  گا،

وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَحَیَّكُمْ وَمَیِّتَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ وَیَابِسَكُمْ، اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبٍ مِنْ قُلُوبِ عِبَادِی، مَا نَقَصَ فِی مُلْكِی جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِی، مَا زَادَ فِی مُلْكِی جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَحَیَّكُمْ وَمَیِّتَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ وَیَابِسَكُمْ، اجْتَمَعُوا، فَسَأَلَنِی كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِیَّتُهُ، فَأَعْطَیْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا سَأَلَ، مَا نَقَصَنِی، كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِشَفَةِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ فِیهِ إِبْرَةً ثُمَّ انْتَزَعَهَا، كَذَلِكَ لَا یَنْقُصُ مِنْ مُلْكِی، ذَلِكَ بِأَنِّی جَوَادٌ مَاجِدٌ صَمَدٌ، عَطَائِی كَلَامٌ، وَعَذَابِی كَلَامٌ، إِذَا أَرَدْتُ شَیْئًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ: كُنْ، فَیَكُونُ

اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب کے سب میرے سب سے زیادہ شقی بندے کے دل کی طرح ہو جائیں  تو میری حکومت میں  سے ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں  کر سکتے اور اگر وہ سب کے سب میرے سب سے زیادہ متقی بندے کے دل پر جمع ہو جائیں  تو میری حکومت میں  ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں  کر سکتےاگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب جمع ہوجائیں  اور ان میں  سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں  تک اس کی تمنا پہنچتی ہو اور میں  ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق مطلوبہ چیزیں  دیتا جاؤں  تو میرے خزانے میں  اتنی بھی کمی واقع نہ ہوگی، کہ اگر تم میں  سے کوئی شخص ساحل سمندر سے گذرے اور اس میں  ایک سوئی ڈبوئے اور پھر نکالے میری حکومت میں  اتنی بھی کمی نہ آئیگی ،کیونکہ میں  بے انتہا سخی، بزرگ اور بے نیاز ہوں ،میری عطاء بھی ایک کلام سے ہوتی ہےاور میرا عذاب بھی ایک کلام سے آجاتا ہے،میں  کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں  تو کن کہتا ہوں  اور وہ چیز وجود میں  آجاتی ہے۔ [37]

 أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، حَدَّثَهُ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: یَا عَبْدِی، مَا عَبَدْتَنِی وَرَجَوْتَنِی، فَإِنِّی غَافِرٌ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِیكَ، وَیَا عَبْدِی إِنْ لَقِیتَنِی بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِیئَةً، مَا لَمْ تُشْرِكْ بِی، لَقِیتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے! تو جتنی عبادت اور مجھ سے جتنی امید وابستہ کرے گا میں  تیرے سارے گناہوں  کو معاف کردوں  گا میرے بندے اگر تو زمین بھر کر گناہوں  کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراتا ہو تو میں  اتنی ہی بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں  گا ۔[38]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ،

ابوزرغفاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں  نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں  نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  ہدایت دوں  تم مجھ سے ہدایت مانگو میں  تمہیں  ہدایت دوں  گا،اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  کھلاؤں  تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں  تمہیں  کھانا کھلاؤں  گا،اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  پہناؤں  تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں  تمہیں  لباس پہناؤں  گا

یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا،

اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں  سارے گناہوں  کو بخشتا ہوں  تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں  تمہیں  بخش دوں  گا،  اے میرے بندو !تم مجھے ہرگز نقصان نہیں  پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، اے میرے بندو! اگر تم سب اولین و آخرین اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں  کچھ بھی اضافہ نہیں  کر سکتے، اور اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں  کچھ کمی نہیں  کر سکتے

یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

اے میرے بندو! اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں  کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں  ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں  تو پھر بھی میرے خزانوں  میں  اس قدر بھی کمی نہیں  ہوگی جتنی کہ سمندر میں  سوئی ڈال کر نکالنے سے، اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں  کہ جنہیں  میں  تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں  پھر میں  تمہیں  ان کا پورا پورا بدلہ دوں  گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔[39]

مگراللہ جوغفوررحیم ہے،جو اپنے بندوں  کے مفاد کے خاطر یہ پسندنہیں  کہ وہ کفروشرک کریں کیونکہ کفروشرک احسان فراموشی ونمک حرامی ہےاس لئے یہ خودانہی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی ،اوراگراللہ تعالیٰ کی توحیداوراس کے لئے دین میں  اخلاص اختیار کرکے اس کاشکراداکروگے تواللہ اس کوتمہارے لئے پسندکرتاہے ،ایک مقررہ روزتم نے مرناہے اورپھردوبارہ جسم وجان کے ساتھ زندہ ہو کر رب حقیقی کے حضورجزاوسزاکے لئے پیش ہوناہے ،اس لئے اپنی رحمت کی وجہ سے وہ چاہتاہے کہ اس کے بندے جب روزقیامت اس کے حضورپیش ہوں  تو ان کے نامہ اعمال ہرطرح کے گناہوں ،لغزشوں  سے صاف ہوں ،ان کاحساب کتاب آسان ہو تاکہ وہ رب کی بے شمارنعمتوں  بھری جنتوں  کے وارث بن سکیں ،اوراگرکسی شخص یاگروہ کو راضی رکھنے یاان کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کفروشرک کروگے تووہ لوگ تمہارے کفروشرک کاوبال ہرگز اپنے اوپرنہیں  اٹھائیں  گے،بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لئے چھوڑدیں  گے ،ہرشخص وہی پائے گاجواس نے کیاہوگاایک کے بدلے دوسرانہیں  پکڑاجائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْہَا۝۰ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔۔۔۝۱۶۴ [40]

ترجمہ:ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اٹھاتا۔

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْــتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ [41]

ترجمہ:جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے،کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔

 وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۔۔۔۝۱۸ [42]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنی حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہو۔

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙ [43]

ترجمہ:یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اٹھائے گا ۔

ابھی وقت ہے،اعمال کی گھڑیاں  باقی ہیں ، حقیقت کو سمجھو اور اپنے بااثر لوگوں  کے دباؤ سے نکل آؤ ،ان کی حیثیت ومرتبہ اس روز تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اس روزتم میں  سے ہرشخص اپنے اعمال کاخودذمہ دارہوگا ،اور اس روزاللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے، جس سے دلوں  کا کوئی بھیداورآنکھ کی کوئی خیانت چھپی ہوئی نہیں  ہے،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [44]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

جوسینوں  کے اندرپنہاں  نیکی اوربرائی کے اوصاف کوخوب جانتاہے، تمہیں  وہ سب کچھ بتا دے گاجو اس دینامیں  کھلے عام یاچھپ کر کرتے رہے ہو،جن پراس کاقلم جاری ہو چکا ہے ، جنہیں  معززمحافظین نے صحیفوں  میں  درج کررکھا ہے اورجن پر تمہارے جوارح تمہارے خلاف گواہی دیں  گے،جیسے فرمایا

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [45]

ترجمہ: آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ان کے ہاتھ ہم سے بولیں  گے اور ان کے پاؤں  گواہی دیں  گے کہ یہ دنیا میں  کیا کمائی کرتے رہے ہیں  ۔

اوروہ تم میں  سے ہرایک کواس کے استحقاق کے مطابق جزادے گا۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِیبًا إِلَیْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُو إِلَیْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّیُضِلَّ عَن سَبِیلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ‎﴿٨﴾‏ ( الزمر)
’’اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے (بالکل بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے (اوروں کو بھی) اس کی راہ سے بہکائے، آپ کہہ دیجئے!  کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو، (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔‘‘

مشرک کاکردار:

کافرومشرک انسان کی ناشکری ،احسان فراموشی کاتویہ عالم ہے کہ جب اسے اپنے اعمال بدکی وجہ سے جب مرض اورفقروفاقہ وغیرہ کی کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا سمندرکی غضب ناک لہروں  وغیرہ میں  گھرجاتاہے تواپنے معبودوں  سے مایوس ہو کرجنہیں  وہ اپنے اچھے حال میں  پکاراکرتاتھاجن کے بارے میں  اسے زعم تھا کہ وہ دکھی دلوں  کی پکار کا سننے والے اورمشکل کشاوحاجت رواہیں ، سب سے مایوس ہوکرنہایت عاجزی اورانابت کے ساتھ اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کرتاہے اورگڑگڑاکراس سے مدد طلب کرتا ہے مگرجب اس کا رب اسے اس تکلیف ومصیبت سے نجات دے دیتاہے تواس رحیم وکریم رب کوبھول جاتاہے جسے مشکلات ومصائب میں  پکارتا رہا تھا ، جس کے سامنے تضرع وگریہ زاری کرتا تھا اورعافیت کے وقت پھرشرک میں  مبتلاہوکرغیراللہ کی اطاعت وبندگی کرنے لگتاہے،انہیں  کے آگے رسوم عبادات بجالانے لگتاہے، جیسے فرمایا

 وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷ [46]

ترجمہ:  جب سمندر میں  تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں  مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۝۰ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ۔۔۔۝۰۝۱۲ [47]

ترجمہ:انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہےمگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں  تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی برے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔

اورپھریہ جاہل شخص اس پرہی اکتفا نہیں  کرتابلکہ دوسرے لوگوں  میں  اس بات کا چرچا کرتاہے کہ میری پریشانی و مصیبت فلاں  بزرگ،فلاں  دیوی دیوتاکی نظرکرم یافلاں  پتھر کی تاثیر سے ٹل گئی جس سے دوسرے لوگ بھی ان معبودان غیراللہ کے مققدبن جاتے ہیں ،اس طرح شیطانی گمراہی بڑھتی چلی جاتی ہے،اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں  سے جو واضح ترین دلائل کے باوجود محض بغض وعناد،ضدوہٹ دھرمی کی وجہ سے کفروشرک سے بازنہیں  آرہے کہہ دیں  ، کفرانہ ومشرکانہ زندگی کی چندگھڑیوں  میں  جتنالطف اٹھانا چاہتے ہو اٹھالو،بالآخر متکبرلوگوں  کا ٹھکانہ جہنم کاہولناک گھڑاہی ہے جوبہت ہی براٹھکانہ ہے،جیسے فرمایا

 نُمَـتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [48]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں  دنیامیں  مزے کرنے کاموقع دے رہے ہیں  پھران کوبے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں  گے۔

۔۔۔قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ۝۳۰ [49]

ترجمہ:ان سے کہو،اچھامزے کرلو آخر کار تمہیں  پلٹ کرجانادوزخ ہی میں  ہے۔

جہاں  یہ نعمتیں  جن سے یہ فائدہ اٹھارہے ہیں  کسی کام نہیں  آئیں  گی،جیسے فرمایا:

اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِیْنَ۝۲۰۵ۙثُمَّ جَاۗءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۝۲۰۶ۙمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَـتَّعُوْنَ۝۲۰۷ۭ [50]

ترجمہ:تم نے کچھ غورکیااگرہم انہیں  برسوں  تک عیش کرنے کی مہلت بھی دے دیں  اورپھروہی چیز ان پرآجائے جس سے انہیں  ڈرایاجارہاہے تووہ سامان زیست جوان کو ملا ہوا ہے ان کے کس کام آئے گا۔

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَیَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا یَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٩﴾‏ ( الزمر)
’’بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہوسکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر کےہیں ؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں(اپنے رب کی طرف سے) ‘‘

مشرک اورموحدبرابرنہیں :

جبکہ اللہ کے وہ بندے جنہوں  نے اللہ کے ہرحکم کی بے چوں  وچرا اطاعت اوراس کی بندگی وپرستش کواپنے اوپرلازم کرلیاہے ،جوراتوں  کی تنہائیوں  میں  آرام دہ بستروں  پر پہلوبدلنے اوربدمستیاں  کرنے کے بجائے آخرت کے خوف اور رب کی رحمت کی امیدلگاکر(یعنی خوف ورجادونوں  کیفیتوں  سے سرشار ہو کر جواصل ایمان ہے) عاجزی اور فرماں برداری کااظہارکرتے ہوئے ،رب کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے رات کے بیشترحصہ میں  قیام میں  خشوع وخضوع کرتے ہیں  ، رکوع وسجود میں  گرکر رب کی شان کے لائق حمدوثنابیان کرتے ہیں ،رب کے پاکیزہ کلام میں  غوروتفکرکرتے ہیں ،اپنے اعمال کامحاسبہ کرتے ہیں ، کیااپنے رب کی اطاعت سے روگرداں  اورخواہشات کی پیروی کرنے والااس شخص کی مانندہوسکتاہے جورات کے اوقات میں  رکوع وسجودکرتاہے ، کیا رات اوردن ،روشنی اوراندھیرااورآگ وپانی برابر ہو سکتے ہیں ؟کیاعالم اور بے علم کادرجہ ایک ہوسکتاہے ؟جب یہ دونوں  برابرنہیں  ہوسکتے توکیاآخرت میں  دونوں  کاانجام ومرتبہ ایک جیسا ہو سکتاہے ؟اگرتم میں  کچھ بھی عقل وشعورہے تواس نصیحت سے فائدہ اٹھاؤ ،اپنی خواہش نفس کواپنامعبودبنانے کے بجائے دعوت حق کودل کی گہرائیوں  سے تسلیم کرکے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیارکرواور جہنم کے ہولناک عذاب سے بچ جاؤ  ،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِی الْمَوْتِ، فَقَالَ: كَیْفَ تَجِدُكَ؟، قَالَ: وَاللَّهِ یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أَرْجُو اللَّهَ، وَإِنِّی أَخَافُ ذُنُوبِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا یَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا یَخَافُ.

خوف ورجاکے بارے میں  انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے جب کہ اس پرسکرات الموت کی کیفیت طاری تھی ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھاتواپنے آپ کوکیسے پاتاہے ؟اس نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! اللہ کی قسم !میں  اللہ سے امید رکھتا ہوں اوراپنے گناہوں  کی وجہ سے ڈرتابھی ہوں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس موقعہ پرجس بندے کے دل میں  یہ دونوں  باتیں  جمع ہوجائیں  تواللہ تعالیٰ اسے وہ چیزعطا فرما دیتا ہے جس کی وہ امیدرکھتاہے اوراس سے اسے بچالیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔[51]

اہل عقل و دانش ہی نصیحت سن کراس پر غورو تدبر کرتے اورعبرت حاصل کرتے ہیں

قُلْ یَا عِبَادِ الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا فِی هَٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا یُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿١٠﴾‏ ( الزمر)
’’کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے، صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بے شمارر اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

اہل تقویٰ کوتین نصیحتیں  :

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں  کوجو اللہ وحدہ لاشریک ،  تمام رسولوں  اوران پرنازل کتابوں ،فرشتوں ،جنت وجہنم اورتقدیر وغیرہ پرغیرمتزلزل ایمان لائے ہیں  وہ صرف یہ ہی تسلیم کرکے نہ رہ جائیں  ،اسی پرقناعت کرکے نہ بیٹھے رہیں بلکہ مخلوق کے خوف کودل سے نکال کر اللہ کاتقوی اختیارکریں ،اللہ نے جن کاموں  کے کرنے کا حکم فرمایاہے اسے ممکن حدتک بجالائیں  اورجن چیزوں  سے روکاہے اس سے روک جائیں ،اوراس دنیاوی زندگی میں  معاشی ضروریات کے کام یاذاتی اورمنصبی فرائض ادا کرتے ہوئے اللہ کے مواخذے سے ڈرتے ہوئے کام کریں  ،اس سے تمہیں  دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہوگی،اللہ اس دنیامیں  کفارکے مقابلے میں  تمہیں  عزت و سر بلندی،رعب ودبدبہ اور امن وسکون اورآخرت میں  ابدی لازوال نعمتیں  عطافرمائے گا،اوراگراپنے وطن میں  ایمان وتقویٰ سے عمل کرنا مشکل ہوجائے،کفارومشرکین تمہیں  شعائر اسلامی پرعمل نہ کرنیں  دیں  تو اللہ کی وسیع زمین میں  ہجرت کرجاؤ جہاں  ایمان وتقویٰ کی راہ میں  روکاوٹ نہ ہو،جہاں  احکام الہٰی کے مطابق زندگی گزار سکو، اگرتقویٰ اور نیکی کی راہ پرقائم رہتے ہوئے ہجرت کے مصائب وشدائدپرصبراورراہ حق سے انحراف نہیں  کروگے تواس کابے حدوحساب اجروثواب عنایت کیاجائے گا، جیسے فرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۷ [52]

ترجمہ:جوشخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مردہویاعورت بشرطیکہ ہووہ مومن اسے ہم دنیامیں  پاکیزہ زندگی بسرکرائیں  گے اور(آخرت)میں  ایسے لوگوں  کوان کے اجران کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں  گے ۔

قَالَ الْأَوْزَاعِیُّ: لَیْسَ یُوزَنُ لَهُمْ وَلَا یُكَالُ ، إِنَّمَا یُغْرَفُ لَهُمْ غَرْفًا

امام اوزاعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس کامطلب یہ ہے کہ انہیں  ناپ تول کراجروثواب نہیں  دیاجائے گابلکہ انہیں  بے حدوحساب اجروثواب عطاکیاجائے گا۔[53]

وَقَالَ السُّدِّیُّ: {إِنَّمَا یُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ} یَعْنِی: فِی الْجَنَّةِ

سدی کہتے ہیں ’’ صبر کرنے والوں  کو تو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا۔‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ انہیں  جنت میں  بے شمارثواب دیا جائے گا۔[54]

حَدَّثَنِی عُمَیْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِیَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:لاَ یَزَالُ مِنْ أُمَّتِی أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، مَا یَضُرُّهُمْ مَنْ كَذَّبَهُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى یَأْتِیَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ

عمیربن ہانی  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں  نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سناانہوں  نے کہا میں  نےنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بشارت کوان الفاظ میں  فرمایامیری امت میں  سے ایک گروہ ہمیشہ حق پرقائم رہے گا   کسی کاان سے علیحدہ ہونااورمخالفت کرناانہیں  کوئی نقصان نہ دے سکے گایہاں  تک کہ اللہ کاحکم آپہنچے گااوریہ گروہ حق اسی نہج پرہوگا۔[55]

قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّینَ ‎﴿١١﴾‏ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿١٢﴾‏ قُلْ إِنِّی أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٣﴾‏ قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِینِی ‎﴿١٤﴾‏ فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِیهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِینُ ‎﴿١٥﴾‏ ( الزمر)
’’آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لیے عبادت خالص کرلوں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا فرماں بردار بن جاؤں، کہہ دیجئے! کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے، کہہ دیجئے! کہ میں تو خالص کرکے صرف اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں، تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرتے رہو، کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔‘‘

چاراہم اعلان :

اوراے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں  سے کہہ دوکہ میراکام اس پرختم نہیں  ہوجاتا کہ صرف اللہ کاپیغام تم تک پہنچادوں ،اورکیونکہ میں  مخلوق کے لئے داعی اوران کے رب کی طرف ان کی راہنمائی کرنے والاہوں  اوریہ چیزاس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ اس دعوت توحیداورنازل شدہ احکامات پر تمام لوگوں سے پہلے ان احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کروں  ، کہواگرمیں  اپنے رب کی نافرمانی کروں  تومجھے قیامت کے عذاب کاخوف ہے، اس لئے نہ توپہلے میں  تمہارے بے شمارمعبودوں  کوتسلیم کرتاتھااورنہ کبھی کروں  گا بلکہ میں  تو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروں  گا، اور میں اپنے فرض منصبی کے تحت اللہ کے پیغامات جب تک اللہ چاہے گاتم تک پوری امانت و دیانت کے ساتھ پہنچاتارہوں  گا،اس سچی اورپاکیزہ دعوت کو ماننا یانہ مانناتمہارے اختیارمیں  ہے ،چاہے توکفروشرک سے تائب ہوکراپنے رب حقیقی کی طرف پلٹ آؤ  اور اس سے اپنے گناہوں اورلوگوں  پرظلم وزیادتیوں  سے مغفرت چاہو یا اس کوقادرمطلق کوچھوڑکربے شمارمعبودوں  کی پرستش کرتے رہوجن کی کوئی حقیقت نہیں  ، جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙلَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙوَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚوَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙوَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭلَكُمْ دِیْنُكُمْ وَلِیَ دِیْنِ۝۶ۧ [56]

ترجمہ:کہہ دوکہ اے کافرو!میں  ان کی عبادت نہیں  کرتاجن کی عبادت تم کرتے ہو،نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہوجس کی عبادت میں  کرتاہوں  اورنہ میں  ان کی عبادت کرنے والاہوں  جن کی عبادت تم نے کی ہے اورنہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہوجس کی عبادت میں  کرتاہوں ،تمہارے لیے تمہارادین ہے اورمیرے لیے میرادین۔

اللہ نے تمہیں  زندگی کی مہلت،عقل سلیم،جسمانی قوتیں ،دماغی قابلیتیں ،بے شمارمختلف ذرائع اورموقع مہیافرمائے ہیں ، روز قیامت اللہ تعالیٰ ان تمام کاتم سے حساب لے گا کہ تم نے ان نعمتوں  کو کہاں  استعمال کیا تھا ، اگردہریوں  کی طرح ان نعمتوں  کواس مفروضے پرلگادیاکہ کوئی اللہ نہیں  جس نے کائنات تخلیق کی ہوبلکہ یہ دنیاکسی حادثے کے نتیجے میں خودبخودوجودمیں  آگئی اورخودبخودکبھی ختم بھی ہوجائے گی ،انسان کوکسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں  بلکہ اپنی ضروریات کے لئے وہ جوچاہے جیسے چاہے قانون بناتا رہے اور مرنے کے بعدکسی کے آگے جواب دہ نہیں ،یاانسان ایک قادرمطلق ا لٰہ کوچھوڑ کر بہت سے خودساختہ الٰہ بنا لے اورکہے میں  ان سب کابندہ ہوں  یا اس کاعقیدہ یہ ہوکہ زندگی میں  جوکچھ سہہ کاریاں ،ظلم وزیادتیاں  وہ کرتارہے روزقیامت کوئی دوسرا آکر اسے اللہ تعالیٰ کے دردناک عذاب سے بچالے گا تواس نے اپنی خام خیالی میں  اپنے نفس پرخود ہی ظلم ڈھایااوراپنے عزیزواقارب،دوستوں  اورہم قوموں  کوغلط تعلیم وتربیت کی اورغلط مثال سے لے ڈوبا،یہ تمام مفروضے غلط اورگمراہ کن شیطانی راہیں  ہیں  جواس نے تمہیں  بہکانے کے لئے بنائی ہوئی ہیں ،پھروعیدکے اندازمیں  فرمایااگراللہ کی نازل شدہ ہدایت کو چھوڑ کر اس طرح کے خودساختہ غلط مفروضوں  پرزندگی گزاروگے تواس کے نتیجے میں  روزقیامت کوجہنم تمہاراابدی ٹھکاناہوگااوریہی واضح نقصان ہے ۔

لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ یُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ یَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ ‎﴿١٦﴾‏ وَالَّذِینَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن یَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ ‎﴿١٧﴾‏ الَّذِینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿١٨﴾ ( الزمر)
’’انہیں نیچے اوپر سے آگ کے( شعلے مثل) سائبان( کے) ڈھانک رہے ہوں گے، یہی (عذاب) ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے، اے میرے بندو ! پس مجھ سے ڈرتے رہو، اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وہ خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں،پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں،یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور یہی عقلمند بھی ہیں۔‘‘

جہنم کی آگ کے طبق،سائبان انہیں  اوپرنیچے سے ڈھانک لیں  گے اورجہنمیوں  سے کہاجائے گااب اپنے اعمال کا مزہ چکھوجوتم دنیامیں  کرتے رہے ہو،جیسے فرمایا

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۴۱ [57]

ترجمہ:ان کے لئے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا اور ہم ظالموں  کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔

یَوْمَ یَغْشٰـىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۵۵  [58]

ترجمہ:(اور انہیں  پتہ چلے گا) اس روز جبکہ عذاب انہیں  اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں  کے نیچے سے بھی اور کہے گا کہ اب چکھو مزا ان کرتوتوں  کا جو تم کرتے تھے۔

یہ وہ بدترین انجام ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کوڈراتاہے تاکہ وہ گناہوں  اور نافرمانیوں  کوچھوڑکر اطاعت الہٰی کاراستہ اختیارکریں  ،پس اے میرے بندو!میرے غیض و غضب سے بچواوردنیاکی مختصرزندگی میں  مست رہنے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی کی تیاری کرو،بخلاف اس کے جن لوگوں  نے غیراللہ کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا، اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ان بندوں  کوانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کی بشارت دے دوجوبات کوتوجہ سے سنتے ہیں ،اس پر غوروتدبرکرتے ہیں اوراس کے بہترین پہلوکی پیروی کرتے ہیں ،جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام کو فرمایا تھا

وَكَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ۝۰ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا۝۰ۭ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ۝۱۴۵َ  [59]

ترجمہ:اس کے بعدہم نے موسیٰ  علیہ السلام کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اورہرپہلوکے متعلق واضح ہدایت تختیوں  پرلکھ کردے دی اوراس سے کہاان ہدایات کومضبوط ہاتھوں  سے سنبھال اوراپنی قوم کوحکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں ۔

یہ وہ لوگ ہیں  جن کواللہ نے ہدایت بخشی ہے اوریہی اہل عقل ودانش ہیں ۔

‏ أَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِی النَّارِ ‎﴿١٩﴾‏ لَٰكِنِ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّةٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ الْمِیعَادَ ‎﴿٢٠﴾ ( الزمر)
’’بھلا جس شخص پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی ہے تو کیا آپ اسے جو دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں، ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں( اور) ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،رب کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘

نیک اعمال کے حامل لوگوں  کے لیے محلات :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شدیدخواہش تھی کہ آپ کی قوم کے لوگ دعوت حق کوقبول کرلیں اوراللہ کے درناک عذاب سے بچ جائیں مگرقوم اپنے سرداروں  کی اطاعت میں  حق بات سننے کوتیارہی نہیں  ہوتی تھی ،باری تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کی خواہش اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن ا س شخص کوعذاب جہنم سے کوئی نہیں  بچاسکتاجومحض بغض وعناداورہٹ دھرمی کے باعث کفروشرک پرجمارہا، جس نے خودہی اپنے آپ کواللہ کے عذاب کامستحق بنالیاہو اوراللہ کاکلمہ اس کے حق میں  ثابت ہوگیاہو آپ اس شخص کو جہنم کے ہولناک عذاب سے بچانے پرقادرنہیں  ہیں ،البتہ جولوگ ایمان لائے،اعمال صالحہ اختیارکیے اور اپنے رب سے ڈرکرزندگی گزاری ان کے لئے جنت میں  سونے چاندی کی اینٹوں  اورمشک کے گارے سے تعمیرکیے ہوئے، سامان آرائش سے آراستہ کثیر المنازل عمارتیں  ہیں  ،

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ فِی الجَنَّةِ لَغُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا فَقَامَ إِلَیْهِ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: لِمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: هِیَ لِمَنْ أَطَابَ الكَلاَمَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّیَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ.

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت میں  ایسے(شفاف) محل ہیں  جن کااندرونی حصہ باہرسے اوربیرونی حصہ اندرسے صاف دکھائی دیتا ہے،ایک اعرابی نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لیے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایایہ (محلات)ان کے لیے ہیں  جونرم کلامی سے حق گوئی کریں  (یتیموں  ، مسکینوں ،حاجت رواؤ ں ، مسافروں ، اسیروں ) کو کھانا کھلائیں  پے درپے روزے رکھیں اورراتوں  کوجب لوگ میٹھی نیندمیں  ہوں  یہ اللہ الرحم الرحمین کے حضورکھڑے ہو کر گڑگڑائیں ،تہدکی نمازیں  پڑھیں ۔[60]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ أَهْلَ الجَنَّةِ یَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا یَتَرَاءَوْنَ الكَوْكَبَ الدُّرِّیَّ الغَابِرَ فِی الأُفُقِ، مِنَ المَشْرِقِ أَوِ المَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَهُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الأَنْبِیَاءِ لاَ یَبْلُغُهَا غَیْرُهُمْ، قَالَ:بَلَى وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا المُرْسَلِینَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اہل جنت اپنے اوپر کے بالا خانے والوں  کو ایسے دیکھیں  گے جیسے مغربی یا مشرقی گوشہ کے قریب ایک روشن ستارہ کو دیکھتے ہوں  اس تفاوت کی وجہ سے جو ان کے درمیان ہے، ان محلات کی یہ تعریفیں  سن کرلوگوں  نے کہا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توانبیاء کے محل ہوں  گے،جنہیں  ان کے سوااورکوئی نہ پاسکے گا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں  میری جان ہےیہ ان لوگوں  کے لئے ہوں  گے جواللہ تعالیٰ پرایمان لائے اورانبیاء کی تصدیق کی۔[61]

جن کے نیچے دودھ،شہد،پانی اورمختلف انواع کی شراب کی نہریں  بہ رہی ہوں  گی،یہ اللہ کاوعدہ ہے جواس نے اپنے مومن بندوں  سے کر رکھا ہے اوراللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کرتا،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا۝۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝۰ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا۝۱۲۲ [62]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں  اور نیک عمل کریں  تو انہیں  ہم ایسے باغوں  میں  داخل کریں  گے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی اور وہاں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے ،یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں  سچا ہوگا ۔

وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا یُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۶ [63]

ترجمہ:یہ وعدہ اللہ نے کیا ہےاللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کرتا مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ۝۸ۙخٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۹ [64]

ترجمہ:البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں  اور نیک عمل کریں  ان کے لیے نعمت بھری جنتیں  ہیں  جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔

‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ یَنَابِیعَ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ‎﴿٢١﴾‏ ( الزمر۲۱)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے، پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کردیتا ہے، اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے۔‘‘

زندگی کی بہترین مثال :

اللہ کی قدرت کی نشانیوں  کودیکھوکہ وہ کس طرح ہواؤ ں  کوبھیجتاہے جوسمندروں  سے پانی کولے کراٹھتی ہیں  ،ان سے بادل بنتے ہیں پھران بادلوں  کوجہاں  اللہ چاہتاہے بھیج کر آسمان سے ضرورت کے مطابق میٹھا پانی برساتاہے،جیسے فرمایا:

وَاللہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۝۹ [65]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہےپھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں  اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں  جو مری پڑی تھی، مرے ہوئے انسانوں  کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

پھروہ پانی زمین میں  جذب ہوجاتاہے جس سے مردہ زمین جی اٹھتی ہے پھراللہ اس پانی کو سوتوں  ، چشموں  اوردریاؤ ں  کی شکل میں  زمین کے اندررواں  دواں  فرما دیتا ہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِیْنٍ۝۳۰ۧ [66]

ترجمہ:ان سے کہوکبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں  کا پانی زمین میں  اتر جائے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں  تمہیں  نکال کر لادے گا ؟ ۔

پھراسی ایک پانی سے انواع اقسام کے پھل جن کے رنگ،ذائقہ اورخوشبومختلف ہوتی ہیں  اور مختلف اجناس و نباتات کو خوشنمانپلوں  کی شکل میں  پیدا کرتا ہے۔

وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۴ [67]

ترجمہ:اور دیکھوزمین میں  الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں  جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں ، انگور کے باغ ہیں کھیتیاں  ہیں کھجور کے درخت ہیں  جن میں  کچھ اکہرے ہیں  اور کچھ دوہرے، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں  ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں  اور کسی کو کمتر، ان سب چیزوں  میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں  ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا۝۰ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ۝۰ۭ اُنْظُرُوْٓا اِلٰى ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَــرَ وَیَنْعِہٖ۔۔۔۝۹۹ [68]

ترجمہ: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیےپھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں  سے پھلوں  کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں  اور انگور زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں  اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں  یہ درخت جب پھلتے ہیں  تو ان میں  پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو ۔

پھرایک وقت مقررہ پروہ شاداب وتروتازہ کھیتیاں  زردہوکرسوکھ جاتی ہیں  اورآخرکارریزہ ریزہ ہوکر بھس بن کررہ جاتی ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا۔۔۔۝۲۰ [69]

ترجمہ: اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئےپھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے ۔

جس سے عقل والوں  کے لئے پیغام ہے کہ اللہ جس کوچاہتاہے پروان چڑھاتاہے اورجسے چاہتاہے خستہ وخراب کردیتاہے ،کسی مخلوق کے اختیارمیں  نہیں  کہ جسے اللہ پروان چڑھارہاہواس کو پھلنے پھولنے سے روک دے ،اورنہ ہی یہ کسی کے اختیارمیں  ہے کہ جسے اللہ غارت کرناچاہئے وہ اسے خاک میں  ملنے سے بچالے ،جس طرح شاداب وتروتازہ کھیتیاں  خشک ہو کربھس بن جاتی ہیں  اسی طرح دنیاکی یہ زندگی،اس کی رونق،اس کی شادابی وزینت اوراس کی لذتیں  اورآسائشیں  بھی عارضی ہیں یہ بھی ایک مقررہ وقت پرزوال وفنا سے ہم کنار ہوجائیں گی ،جیسے فرمایا

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا۝۴۵ [70]

ترجمہ:اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں  حیات دنیاکی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسادیاتوزمین کی پودخوب گھنی ہوگئی اورکل وہی نباتات بھس بن کررہ گئی جسے ہوائیں  اڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔

لہذ ا دنیا اسی چیزنہیں  جس کے چندروزہ بہارپرفریفتہ ہو کر آدمی اللہ رب العالمین اورآخرت کی دائمی زندگی کوبھول جائے، اوردنیاکی چندروزہ بہارکے مزے لوٹنے کی خاطر ایسے اعمال کرے جواس کی عاقبت کوبربادکردیں ،جس طرح اللہ اپنی قدرت سے مردہ زمین کو زندہ فرماتاہے،پانی کے حصول کوآسان بنایاہےاسی طرح ایک وقت مقررہ پر وہ مردوں  کوان کی قبروں  سے دوبارہ زندہ فرمائے گااوران کے اعمال کامحاسبہ کرے گا،جیسے فرمایا

وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَا۝۰ۙ وَاَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۷ [71]

ترجمہ: قیامت کی گھڑی آکر رہے گی اس میں  کسی شک کی گنجائش نہیں  اور اللہ ضرور ان لوگوں  کو اٹھائے گا جو قبروں  میں  جاچکے ہیں  ۔

لہذاان تمام افعال کوسرانجام دینے والی ہستی ہی درحقیقت عبادت کی مستحق ہے۔

أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٢٢﴾‏ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ یَهْدِی بِهِ مَن یَشَاءُ ۚ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ‎﴿٢٣﴾ ( الزمر۲۲،۲۳)
’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے بلکہ) سخت ہوگئے ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں، اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں ،یہ ہے اللہ تعالیٰ کہ ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے، اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔‘‘

قرآن حکیم کی تاثیر:

اب کیاوہ شخص جس کاسینہ اللہ نے اپنی رحمت وفضل سے اسلام کے لئے کھول دیاہویعنی جسے قبول حق اورخیرکاراستہ اپنانے کی توفیق نصیب ہوگئی ہو اوروہ اس کی صاف روشنی میں  راہ راست پرچل رہا،کیا اس شخص جیساہوسکتاہے جس کاسینہ تنگ ہواوروہ گمراہی کی تاریکیوں  میں  بھٹک رہا؟جیسے فرمایا

اَوَمَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۔۔۔۝۱۲۲ [72]

ترجمہ:کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں  وہ لوگوں  کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں  میں  پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟ ۔

ہرگز نہیں ،حق وباطل کبھی یکساں  نہیں  ہو سکتے ،جیسے فرمایا

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙوَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙوَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚوَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۔۔۔۝۲۲ [73]

ترجمہ:اندھا اور آنکھوں  والا برابر نہیں  ہے،نہ تاریکیاں  اور روشنی یکساں  ہیں  ،نہ ٹھنڈی چھاؤں  اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہےاور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں  ۔

چنانچہ تباہی وہلاکت ہے ان لوگوں  کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سن کرنرم ہونے کے بجائے پتھرسے زیادہ سخت ہوگئے یہی لوگ ہیں  جو کھلی گمراہی میں  بھٹک رہے ہیں  ، اللہ نے پہلی کتابوں  کی طرح انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے یہ قرآن کریم نازل فرمایاہے ، یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے الفاظ فصیح ترین اورواضح ترین اور اس کے معانی جلیل ترین ہیں ،جس کے مضامین میں  کسی لحاظ سے کوئی تضاداوراختلاف نہیں ، جس کے تمام اجزاحسن کلام،حسن تالیف وغیرہ خوبیوں  میں ہمرنگ ہیں ،جیسےفرمایا

 ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ    ۔۔۔ ۝۷ [74]

ترجمہ:اے نبی!وہی خداہے جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اس کتاب میں  دوطرح کی آیات ہیں  ایک محکمات جوکتاب کی اصل بنیاد ہیں  اوردوسری متشابہات۔

اورجس میں  لوگوں  کی عبرت ونصیحت کے لیے پہلی تباہ شدہ اقوام کے قصص وواقعات اورمواعظ واحکام باربارمختلف اندازسے دہرائے گئے ہیں ،

قَالَ مُجَاهِدٌ: یَعْنِی الْقُرْآنُ كُلُّهُ مُتَشَابِهٌ مَثَانِی

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  سارے کاساراقرآن باہم ملتاجلتا اور باربار دہرایا جاتاہے۔[75]

وَقَالَ قَتَادَةُ: الْآیَةُ تُشْبِهُ الْآیَةَ، وَالْحَرْفُ یُشْبِهُ الْحَرْفَ

اورقتادہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں  آیت آیت سے اورحرف حرف سے ملتاجلتاہے۔[76]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {مَثَانِیَ} قَالَ: الْقُرْآنُ یُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا، ویُرَدُّ  بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے ’’جس میں  بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں ۔ ‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ قرآن مجیدکاایک حصہ دوسرے سے ملتاجلتااورمشابہت رکھتاہے۔[77]

اس میں  بیان کیے ہوئے قیامت اورمیدان محشر کے احوال،مجرموں  کی سزاؤ ں  اورہٹ دھرموں  کودی جانی والی دھمکیوں  کوسن کران لوگوں  کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں  جو اپنے رب کی معرفت رکھتے ہیں  ،اور جب اللہ کی رحمت اوراس کے لطف وکرم کی امیدان کے دلوں  میں  پیداہوتی ہے توان کے اندرسوزوگدازپیداہوجاتاہے،جس سے ان کا ایمان اور بڑھ جاتاہے اوروہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں  سجدہ ریزہوجاتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ [78]

ترجمہ:سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں  جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں  اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں  تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔

 وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِـرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا۝۷۳ [79]

ترجمہ: جنہیں  اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں  رہ جاتے ۔

تَلَا قَتَادَةُ {تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ , ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ،قَالَ:هَذَا نَعْتُ أَوْلِیَاءِ اللَّهِ نَعَتَهُمُ اللَّهُ أَنْ تَقْشَعِرَّ جُلُودُهُمْ،وَتَبْكِی أَعْیُنُهُمْ،  وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ،وَلَمْ یَنْعَتْهُمْ بِذَهَابِ عُقُولِهِمْ، وَالْغَشَیَانِ عَلَیْهِمْ،وَإِنَّمَا هَذَا فِی أَهْلِ الْبِدَعِ وَهَذَا مِنَ الشَّیْطَانِ

قتادہ رحمہ اللہ  نے اس آیت کریمہ’’ اسے سن کر ان لوگوں  کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں  جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘ کی تلاوت کی اورکہاکہ یہ اولیاء اللہ کی صفت ہے اللہ عزوجل نے ان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ ان کی کھالوں  کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، ان کی آنکھیں  اشکبارہوجاتی،  اوران کے دل اللہ کے ذکر سے آرام پاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت بیان نہیں  فرمائی کہ آیات سن کران کی عقلیں  ماؤ ف ہوجاتی ہیں ،اوروہ بے ہوش ہوجاتے ہیں ، یہ اہل بدعت کی نشانی ہے اور یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔[80]

یہ اس کے بندوں  کے لیے اللہ کی طرف سے ہدایت ہے،اس تاثیرقرآن کے ذریعے اللہ جسے چاہتاہے ہدایت دے دیتاہے،جیسے فرمایا

 یَّهْدِیْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِهٖ وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶  [81]

ترجمہ: اورایک ایسی حق نماکتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں  سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں  سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

اورجسے اللہ ہی گمراہ کر دے پھر اس کے لئے کوئی ہادی نہیں  ہے۔

(أَفَمَن یَتَّقِی بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ وَقِیلَ لِلظَّالِمِینَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ كَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْیَ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٦﴾الزمر۲۶)
’’بھلا جو شخص قیامت کے دن ان کے بدترین عذاب کی سپر (ڈھال) اپنے منہ کو بنائے گا (ایسے) ظالموں سے کہا جائے گا اپنے کیے کا (وبال) چکھو، ان سے پہلے والوں نے بھی جھٹلایا پھران پر وہاں سے عذاب آپڑا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگانی دنیا میں رسوائی کا مزہ چکھایا اور ابھی آخرت کا تو بڑا بھاری عذاب ہے، کاش کہ یہ لوگ سمجھ لیں۔‘‘

کیاوہ شخص جس کواللہ تعالیٰ نے ہدایت اوراپنے عزت واکرام کے گھرپہنچانے والے راستے پرگامزن ہونے کی توفیق سے بہرہ مندکیاہو،اس شخص کے برابرہوسکتاہے جومحض اپنی ہٹ دھرمی کے باعث طاغوت کی بندگی پرجماہواہے اوردائمی بغض وعنادمیں  سرگرداں  ہے،یہاں  تک کہ قیامت آپہنچے اوراسے زنجیروں  میں  جکڑکراورگلے میں  طوق ڈال کر جہنم میں  دھکیل دیاجائے اور وہ بالکل عاجزوبے بس ہوکراپنے چہرے کواس عذاب سے بچانے کی ناکام کوشش کرے؟ جیسے فرمایا

اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰی وَجْهِهٖٓ اَهْدٰٓى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۲۲  [82]

ترجمہ: بھلاسوچوجوشخص منہ اوندھائے چل رہاہووہ زیادہ صحیح راہ پانے والاہے یاوہ جوسراٹھائے سیدھا ایک ہموارسڑک پر چل رہاہو۔

ایک مقام پرفرمایا

اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْٓ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰۝۴۰ [83]

ترجمہ: بھلا جو شخص دوزخ میں  ڈالا جائے وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن امن و امان کے ساتھ حاضر ہوگا؟۔

ایسے ظالموں  سے توکہہ دیاجائے گاکہ اب حق کی تکذیب اوران اعمال بدکا مزہ چکھو جو تم دنیا میں  کرتے رہے ہو ،اوراے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں  کہ حق کوجھٹلایا جا رہا ہوان لوگوں  سے پہلے بھی بہت سی اقوام اسی طرح دعوت حق کو جھٹلاچکی ہیں انہوں  نے بھی پیغمبروں  کی تکذیب کی تھی ،اسی طرح دعوت کوروکنے کے لیے ہرطرح کے ہتکنڈے استعمال کیےمگرہرطرح کے مکروفریب کے باوجودحق ہی سربلند رہااور تکذیب کرنے والی اقوام پر ایسے رخ سے عذاب نازل ہوا جدھران کاوہم وگمان بھی نہ جاسکتا تھا،جیسے فرمایا

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۶ [84]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ( حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں  کر چکے ہیں  تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا۔

پھراس مشکل گھڑی میں  نہ ان کی طاقت وقوت کچھ کام آئی اورنہ ہی ان کے معبودانہیں  اس عذاب سے بچاسکے ، دعوت حق قبول نہ کرنے کے جرم میں  اللہ نے ان کودنیاہی کی زندگی میں  رسوائی کامزہ چکھایااورآخرت کاعذاب تواس سے شدیدترہے ،کاش یہ لوگ جانتے کہ اللہ کاعذاب کتنا شدید ہوتا ہے ، جیسے فرمایا

وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۝۳۳ۧ [85]

ترجمہ:اور آخرت کا عذاب اس سے بھی بڑا ہے کاش یہ لوگ اس کو جانتے۔

‏ وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِی هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ قُرْآنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِی عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ إِنَّكَ مَیِّتٌ وَإِنَّهُم مَّیِّتُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ ثُمَّ إِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ‎﴿٣١﴾‏ ( الزمر)
’’اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثالیں بیان کردی ہیں کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں، قرآن ہے عربی میں جس میں کوئی کجی نہیں، ہوسکتا ہے کہ پرہیزگاری اختیار کرلیں، اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں، اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سب تعریف ہے، بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ سمجھتے نہیں، یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں پھر تم سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے۔‘‘

شرک کی قباحت ،ایک سادہ سی مثال :

کیونکہ مثالوں  سے باتیں  ٹھیک طورپرسمجھ میں  آجاتی ہیں  اس لیے ہم نے اس قرآن میں  لوگوں  کواہل خیر،اہل شر،توحیدوشرک ،حیات بعد الموت اوردنیاوآخرت وغیرہ کی مثالیں  دی ہیں  تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں  ،جیسے فرمایا

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ۝۰ۚ وَمَا یَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝۴۳ [86]

ترجمہ:یہ مثالیں  ہم لوگوں  کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں  مگر ان کووہی لوگ سمجھتے ہیں  جوعلم رکھنے والے ہیں ۔

ہم نے اس قرآن عظیم کوعربی میں  واضح الفاظ اورآسان معانی والا بنایاہے ،جس میں  کوئی خلل یانقص نہیں  بلکہ اس میں  صاف صاف سیدھی باتیں کہی گئی ہیں ،واضح ترین دلائل وبراہین بیان کیے گئے ہیں  جسے معمولی سمجھ بوجھ کامالک بھی براہ راست سمجھ سکتا ہے،جیسے فرمایا

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا۝۱ۭ۫قَیِّـمًا۝۲ۙ [87]

ترجمہ:تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پریہ کتاب نازل کی اوراس میں  کوئی ٹیڑھ نہ رکھی،ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب۔

تاکہ لوگ اس میں  بیان کردہ وعیدوں  سے ڈریں  اورآخرت کے برے انجام سے بچنے کی کوشش کریں ،اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کرنے کے لئے شرک وتوحیدکے فرق اور انسان کی زندگی پردونوں  کے اثرات کوکھول کربیان فرمایا کہ ایک غلام ہے جس کے کئی مختلف المزاج بدخو آقاہیں  جو آپس میں  ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،ہرایک آقا کا اپنا اپنامفادہے اورہرایک متضاداحکامات دے کر اس غلام کو اپنی خدمت پر رکھنا چاہتا ہے ،جس سے وہ کسی کی بھی صحیح طورپرخدمت نہیں  کرسکتا،اس کے تمام آقااسے ڈانٹتے پھٹکارتے رہتے ہیں اوراسے سزادینے پرتل جاتے ہیں ،اس طرح اس کی زندگی کو عذاب بناکررکھ دیتے ہیں  ،اس کے مقابلے میں  ایک غلام ہے جس کا صرف ایک ہی آقا ہے اوراس کی ملکیت میں  اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں  ،چنانچہ وہ اپنے مالک کا ہر کام پوری جانفشانی اور لگن سے کرتاہےجس سے اس کا مالک اس سے خوش ہے اوروہ اپنے مالک سے خوش ہے کیا یہ دونوں  غلام برابرہوسکتے ہیں  ؟ایک مقام پر فرمایا

 ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۲۸ [88]

ترجمہ:وہ تمہیں  خودتمہاری اپنی ہی ذات کی ایک مثال دیتاہے ، کیا تمہارے ان غلاموں  میں  سے جوتمہاری ملکیت میں  ہیں  کچھ غلام ایسے بھی ہیں  جوہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں  تمہارے ساتھ برابرکے شریک ہوں  اورتم ان سے اس طرح ڈرتے ہوجس طرح آپس میں  اپنے ہمسروں  سے ڈرتے ہو ، اس طرح ہم آیات کھول کرپیش کرتے ہیں  ان لوگوں  کے لیے جوعقل سے کام لیتے ہیں ۔

کوئی بھی مخالف توحید اس کاجواب اثبات میں  نہیں  دے سکتا ،اسی طرح مشرک جوکئی معبودوں  کاپجاری ہے اورمومن جوصرف اللہ ہی کی بندگی واطاعت کرتاہے بھی برابرنہیں  ہوسکتے ، جیسے یوسف  علیہ السلام نے فرمایا تھا

 یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ [89]

ترجمہ:اے زنداں  کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں  یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟۔

مگرلوگوں  کاعالم یہ ہے کہ ایک آقاکی غلامی اوربہت سے آقاؤ ں  کی غلامی کا فرق توخوب سمجھ لیتے ہیں  مگر جب انہیں  ایک اللہ کی بندگی اوربہت سے الٰہوں  کی بندگی کافرق سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تونادان بن جاتے ہیں  اور محض ہٹ دھرمی سے کھلی صداقت کودباکر شرک کاارتکاب کرتے ہیں ،اچھااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اس دنیامیں  نہ آپ نے سدا رہناہے نہ ان لوگوں  نے،بقائے جاودانی تمہارے لیے بھی نہیں  ہے اورنہ ان لوگوں  کے لیے ہے ،ایک وقت مقررہ پرسب نے موت کاذائقہ چکھناہے ، جیسے فرمایا

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ۝۳۴كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰[90]

ترجمہ:اوراے نبی!ہمیشگی توہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں  رکھی ہےاگرتم مرگئے توکیایہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں  گے ؟ ہر جاندار کوموت کامزہ چکھنا ہے۔ آخرکارقیامت کے روزتم سب اپنے رب کے حضوراپنااپنامقدمہ پیش کروگے،

عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّكَ مَیِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَیِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ  ] قَالَ الزُّبَیْرُ: أَیْ رَسُولَ اللَّهِ أَیُكَرَّرُ عَلَیْنَا مَا كَانَ بَیْنَنَا فِی الدُّنْیَا مَعَ خَوَاصِّ الذُّنُوبِ؟ قَالَ:نَعَمْ لَیُكَرَّرَنَّ عَلَیْكُمْ حَتَّى یُؤَدَّى إِلَى كُلِّ ذِی حَقٍّ حَقُّهُ فَقَالَ الزُّبَیْرُ: وَاللَّهِ إِنَّ الْأَمْرَ لَشَدِیدٌ

زبیربن العوم  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پریہ آیات نازل ہوئیں ’’ (اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم )تمہیں  بھی مرناہے اوران لوگوں  کوبھی مرناہے،آخرکارقیامت کے روزتم سب اپنے رب کے حضوراپنااپنامقدمہ پیش کروگے۔‘‘ تو زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاگناہوں  کے ساتھ ساتھ دنیاکے جھگڑوں  کوبھی ہم پرلوٹادیاجائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں (تمہارے جھگڑوں  کوبھی)تم پر البتہ ضرور لوٹا دیا جائے گاتاکہ ہرحق دارکواس کاحق دلادیاجائے، زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ کی قسم !یہ معاملہ تو بہت سخت ہوگا۔[91]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {ثُمَّ إِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ، یَقُولُ:یُخَاصِمُ الصَادِقُ الْكَاذِبَ، وَالْمَظْلُومُ الظَّالِمَ، وَالْمُهْتَدِی الضَّالَّ، وَالضَّعِیفُ الْمُسْتَكْبِرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے آیت کریمہ ’’آخرکار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ‘‘ کے بارے میں  روایت ہے سچاجھوٹے سے،مظلوم ظالم سے،ہدایت یافتہ گمراہ سے اورکمزورطاقتوارسے جھگڑاکرے گا ۔ [92]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ:  یَخْتَصِمُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، حَتَّى تَخْتَصِمَ الرُّوحُ مَعَ الْجَسَدِ، فَتَقُولُ الرُّوحُ لِلْجَسَدِ: أَنْتَ فَعَلْتَ. وَیَقُولُ الْجَسَدُ لِلرُّوحِ: أَنْتِ أَمَرْتِ، وَأَنْتِ سَوَّلْتِ. فَیَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا یَفْصِلُ بَیْنَهُمَا، فَیَقُولُ [لَهُمَا]  إِنْ مَثَلَكُمَا كَمَثَلِ رَجُلٍ مُقْعَدٍ بَصِیرٍ وَالْآخَرُ ضَرِیرٌ، دَخَلَا بُسْتَانًا، فَقَالَ الْمُقْعَدُ لِلضَّرِیرِ: إِنِّی أَرَى هَاهُنَا ثِمَارًا، وَلَكِنْ لَا أَصِلُ إِلَیْهَا. فَقَالَ لَهُ الضَّرِیرُ: ارْكَبْنِی فَتَنَاوَلْهَا، فَرَكِبَهُ فَتَنَاوَلَهَا، فَأَیُّهُمَا الْمُعْتَدِی؟ فَیَقُولَانِ: كِلَاهُمَا. فَیَقُولُ لَهُمَا الْمَلَكُ. فَإِنَّكُمَا قَدْ حَكَمْتُمَا عَلَى أَنْفُسِكُمَا. یَعْنِی: أَنَّ الْجَسَدَ لِلرُّوحِ كَالْمَطِیَّةِ، وَهُوَ رَاكِبُهُ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے لوگ قیامت کے دن جھگڑاکریں  گے  حتی کہ روح اپنے جسم سے جھگڑاکرے گی، روح جسم سے کہی گی کہ تونے یہ کام کیاتھا اورجسم روح سے کہے گاکہ تونے ہی مجھے اس کاحکم دیا اوراسے مزین کرکے دکھایاتھا،اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجے گاجوان دونوں  کافیصلہ کرے، فرشتہ کہے گاتم دونوں  کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص اپاہج مگربیناہواوردوسرانابیناہواوردونوں  ایک باغ میں  داخل ہوگئے ہوں ، اپاہج نے اندھے سے کہامیں  یہاں  باغ میں  لگے ہوئے پھل دیکھ رہاہوں  مگرمیں  انہیں  توڑنہیں  سکتا، نابینانے اس سے کہا مجھ پر سوار ہوکرانہیں  توڑلو،اپاہج نے نابیناپرسوارہوکرتوڑلیے توبتاؤ ان دونوں  میں  سے کون مجرم ہے؟وہ جواب دیں  گے کہ دونوں  ہی مجرم ہیں ،فرشتہ ان سے کہے گاکہ اپنے بارے میں  تم نے خودہی فیصلہ کردیاہے یعنی جسم ایسے ہے جیسے سواری ہواورروح کی مثال ایسے ہے جیسے سوارہو۔[93]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَاقَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ، وَمَا نَعْلَمُ فِی أَیِّ شَیْءٍ نَزَلَتْ:{ثُمَّ إِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ} [قَالَ ]  قُلْنَا: مَنْ نُخَاصِمُ؟ لَیْسَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ أَهْلِ الْكِتَابِ خُصُومَةٌ، فَمَنْ نُخَاصِمُ؟ حَتَّى وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَذَا الَّذِی وَعَدَنَا رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ-نَخْتَصِمُ فِیهِ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے جب یہ آیت کریمہ’’آخرکار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ‘‘ نازل ہوئی توہم نے عرض کی ہم کن لوگوں  سے جھگڑاکریں  گے ہمارے اوراہل کتاب کے مابین توکوئی جھگڑانہیں  توپھرہم کن سے جھگڑیں  گے؟ حتی کہ فتنہ رونماہوگیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہے وہ جس کا ہمارے رب تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایاہے کہ ہم اس کے بارے میں  جھگڑیں  گے۔[94]

اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف پرمبنی حکم کے ذریعے موحدین اور مشرکین ومکذبین کے درمیان فیصلہ فرمادے گااورہرایک کواس کے عمل کی جزادے گا۔

۔۔۔ اَحْصٰىهُ اللهُ وَنَسُوْهُ۝۰ۭ وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۶ۧ [95]

ترجمہ:وہ بھول گئے ہیں  مگراللہ نے ان کاسب کیا دھرا گن گن کرمحفوظ کررکھاہے اوراللہ ایک ایک چیزپرشاہدہے۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوا تو سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ  کویقین نہ آیا اور وہ کہنے لگے کہ جوکوئی یہ کہے گاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں  تو سیدنا عمر اپنی تلوارسے اس کاسرتن سے جداکردے گا،جب سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ  کی یہ بات سنی توسیدناعمر رضی اللہ عنہ  سے کہاکہ وہ اپنی تلوارنیام میں  کر لیں

فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ:

مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۝۰ۭ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللهَ شَـیْـــًٔـا۝۰ۭ وَسَیَجْزِی اللهُ الشّٰكِرِیْنَ  [96]

قَالَ عُمَرُ: فَلَكَأَنِّی لَمْ أَقْرَأْهَا إِلَّا یَوْمَئِذٍ وَمَا

اور سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  منبر رسول پرچڑھے اور یہ آیت پڑھی’’اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے سوا کیا ہیں  کہ ایک رسول ہیں  اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ، پھر اگر وہ وفات پا جائیں  یا قتل ہو جائیں  تو کیا تم الٹے پاؤں  (راہ حق سے) پھر جاؤ گے؟ اور (یاد رکھو) جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا البتہ جو لوگ اللہ کے شکرگزار ہیں  تو وہ ضرور ان کو (اس کا) اجر دے گا۔ ‘‘تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کویقین آگیاکہ  محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیاسے رحلت فرماچکے ہیں ۔[97]

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بابت یہ عقیدہ رکھناکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوبرزخ میں  بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہے جس طرح دنیامیں  حاصل تھی قرآن کی نصوص کے خلاف ہے ۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَیْسَ فِی جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ لَهُم مَّا یَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ لِیُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِی عَمِلُوا وَیَجْزِیَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِی كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ (الزمر)
ترجمہ:پھراس شخص سے بڑاظالم کون ہوگاجس نے اللہ پرجھوٹ باندھااورجب سچائی اس کے سامنے آئی تواسے جھٹلادیاکیاایسے لوگوں  کے لئے جہنم میں  کوئی ٹھکانانہیں  ہے؟ اورجوشخص سچائی لے کرآیااورجنہوں  نے اس کوسچ ماناوہی عذاب سے بچنے والے ہیں ،انہیں  اپنے رب کے ہاں  وہ سب کچھ ملے گاجس کی وہ خواہش کریں  گے،یہ ہے نیکی کرنے والوں  کی جزا،تاکہ جوبدترین اعمال انہوں  نے کیے ہیں  انہیں  اللہ ان کے حساب سے ساقط کردے اورجوبہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کواجر عطا فرمائے۔

مشرکین بے شماردیوی ودیوتاؤ ں  کوبغیرکسی سندکے اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شریک ٹھیراتے تھے ،فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  تسلیم کرکے ان کی پرستش کرتے تھے ، اسی طرح یہودی عزیر  علیہ السلام کواورعیسائی عیسیٰ   علیہ السلام کواللہ کابیٹامانتے ہیں  حالاں  کہ اللہ کی بلندوبالاذات وصفات،اختیارات اورحقوق ہرطرح کے شرک سے پاک وبرتر ہے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۳۳ [98]

ترجمہ:اوریہ کہ اللہ کے نام پرکوئی ایسی بات کہوجس کے متعلق تمہیں  علم نہ ہوکہ وہ حقیقت میں  اس نے فرمائی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اللہ کی نازل کردہ کتاب کوبھی جھٹلاتے تھے،جیسے فرمایا

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۙ وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۝۱۵ [99]

ترجمہ:بستی والوں  نے کہا تم کچھ نہیں  ہو مگر ہم جیسے چند انسان، خدائے رحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں  کی ہے تم محض جھوٹ بولتے ہو ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایااس شخص سے بڑاظالم کون ہوگاجس نے اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ بیٹی ،بیٹااوردوسرے خودساختہ شریک بنا لیے ہوں  اورجب اسے واضح دلائل اور براہین کے ساتھ دعوت حق پیش کی گئی تو اس نے اسے جھٹلاہی نہیں دیابلکہ داعی حق کوجھوٹاقراردے کراس دعوت کوروکنے کے درپے ہو گیا،ایسے ظالم وکفر لوگوں  کوجہنم کے عذاب میں  مبتلاکرکے ان سے بدلہ لیاجائے گا۔

۔۔۔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳   [100]

ترجمہ:بے شک شرک بہت بڑاظلم ہے ۔

اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جوسچادین لے کرآئے یاوہ شخص جولوگوں  کوتوحیدکی دعوت دیتا،اللہ کی شریعت کی طرف رہنمائی کرتااورطاغوت کی بندگی اوربرائی سے روکتاہے ، اور جو لوگ اللہ وحدہ لاشریک پر غیر متزلزل ایمان لاتے ہیں ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورپہلے تمام انبیاء ومرسلین کی رسالت اوران پرنازل کتابوں  کی تصدیق کرتے ہیں ،یوم آخرت اوراچھی بری تقدیرپرایمان رکھتے ہیں ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیارکرتے اوراللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں یہی لوگ متقی و پرہیز گارہیں  اور یہی لوگ عذاب برزخ ، قیامت کے روزکی سختیوں ،سخت حساب،میدان محشرمیں  ساری خلقت کے سامنے رسوائی اور جہنم کے دردناک عذاب سے بچنے والے ہیں ،جیسے فرمایا

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـیِّاٰتِهِمْ فِیْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ۝۰ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۝۱۶ [101]

ترجمہ:یہی وہ لوگ ہیں  جن سے ہم وہ نیک عمل قبول کرتے ہیں  جو انہوں  نے کیے اور بہشتیوں  میں  شامل کر کے ان کے گناہوں  سے درگزر کرتے ہیں  یہ اس سچے وعدے کے مطابق ہے جو ان سے کیا گیا تھا۔

اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے صغیرہ وکبیرا گناہوں  کومعاف فرماکرانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت میں  داخل فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کی ہراس خواہش کو پوراکردے گاجس کی وہ تمنا کریں   گے ،جیسے فرمایا

لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ [102]

ترجمہ:ان کے لئے وہاں  ہر قسم کے پھل بھی ہوں  گے اور ان کو وہاں  ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ طلب کریں  گے ۔

یہ ہے اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والوں  کی بہترین جزا،جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [103]

ترجمہ: اللہ کسی پرذرہ برابربھی ظلم نہیں  کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تواللہ اسے دوچندکرتاہے اورپھراپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتاہے ۔

أَلَیْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَیُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِینَ مِن دُونِهِ ۚ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ‎﴿٣٦﴾‏ وَمَن یَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ ۗ أَلَیْسَ اللَّهُ بِعَزِیزٍ ذِی انتِقَامٍ ‎﴿٣٧﴾ ( الزمر)
’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں، اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ،اور جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، کیا اللہ تعالیٰ غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ہے ؟ ۔‘‘

اللہ پرکامل بھروسہ :

پچھلی قومیں  اپنے معبودوں  کی حمایت میں  نبیوں  کوکہاکرتی تھیں  کہ یہ جوتم اللہ کی طرف سے وحی، فرشتوں ،مرنے کے بعدزندگی،قیامت ،حشرنشر اورجنت ودوزخ وغیرہ کے بارے میں جوبہکی بہکی باتیں  کرتے ہویقیناًیہ ہمارے معبودوں  اوران کے آستانوں  کی شان میں  گستاخیاں  کرنے کی سزاہے،

جیسے قوم نوح نے کہا

 كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝۹ [104]

ترجمہ:ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے، ان لوگوں  نے ہمارے بندے کو جھوٹاقراردیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اوروہ بری طرح جھڑکاگیا ۔

اِنْ هُوَاِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ۝۲۵ [105]

ترجمہ: بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہوگیا ہے کچھ مدت اور دیکھ لو(شاید افاقہ ہو جائے)۔

قوم ہودنے کہا

 اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ  ۔۔۔ ۝۵۴ۙ [106]

ترجمہ:ہم تویہ سمجھتے ہیں  کہ تیرے اوپرہمارے معبودوں  میں  سے کسی کی مارپڑگئی ہے۔

قوم صالح نے کہا

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۵۳ۚ [107]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیاتومحض ایک سحرزدہ آدمی ہے۔

انہی اقوام کے نقش قدم پرچلتے ہوئے کفارومشرکین مکہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے باطل معبودوں  کی طاقت ،قوت واختیار سے ڈراتے ہوئے کہتے تھےاے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم ہماری معبودوں  کی شان میں  بڑی گستاخیاں  کرتے ہو،ان کے خلاف زبان کھولتے ہو،ان کوبے بس وحقیرسمجھتے ہوحالانکہ یہ بڑی زبردست اورباکرامت ہستیاں  ہیں جوبھی ان کی توہین کرے گاتباہ و بربادہوکررہ جائے گااس لئے اگر آپ نے بھی ان کے خلاف زبان درازی بندنہ کی تووہ تمہاراتختہ الٹ دیں  گے ،اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کوایک تسلی اوریقین دہانی کرائی اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان لوگوں  کی دھمکیوں  اورلن ترانیوں  سے بے خوف و بے فکرہوکراسلام کی تبلیغ واشاعت کے مشن میں  لگے رہیں  ،کفارکی باتوں  کی ہرگزپرواہ نہ کریں  اور نتیجہ اللہ پرچھوڑدیں جب اللہ تعالیٰ آپ کاحامی وناصرہوتوکوئی آپ کاکچھ نہیں  بگاڑ سکتا،اللہ ان سب کے مقابلے کے لئے آپ کو کافی ہے جو کوئی آپ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گااللہ تعالیٰ اس سے آپ کی مدافعت کرے گا،اللہ ہی راہ ہدایت کی سمجھ عطافرمادیتاہے اورجسے اللہ گمراہ کردے اسے گمراہی سے نکال کرہدایت کے راستے پر لگانے بھی کوئی نہیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلًا۝۸۸ [108]

ترجمہ:جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں  پا سکتے ۔

مَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ۝۰ۭ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۝۱۸۶ [109]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں  ہے اور اللہ انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے۔

۔۔۔وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝۳۳ [110]

ترجمہ:پھر جس کو اللہ گمراہی میں  پھینک دے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں  ہے ۔

وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۔۔۔۝۹۷ [111]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہی میں  ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں  کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں  پاسکتا ۔

۔۔۔مَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ  [112]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں  پاسکتے۔

وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ وَّلِیٍّ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۔۔۔۝۴۴ۚ [113]

ترجمہ:جس کو اللہ ہی گمراہی میں  پھینک دے اس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں  ہے۔

اگریہ لوگ کفروعنادسے بازنہ آئے تویقیناًاللہ جوکامل قہراورغلبے کا مالک ہے وہ ان باغیوں  سے زبردست انتقام لے گااورانہیں  عبرت ناک انجام سے دو سچار کر دے گا ۔

 (وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَیْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِیَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِی بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِیَ اللَّهُ ۖ عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ ‎﴿٣٨﴾‏الزمر۳۸)
’’اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے، آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ؟ یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے، توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں ۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں  سے اگرتم پوچھوکہ زمین اورآسمانوں  کی تخلیق کس نے کی ہے تویہ مشرکین یقیناًاعتراف کریں  گے کہ اللہ وحدہ لاشریک نے ان کی تخلیق کی ہے، جب یہ مشرکین تسلیم کرتے ہیں  کہ زمین وآسمانوں  کاخالق اکیلا اللہ ہی ہے،اللہ ہی نے خونخوار درندے،ہوامیں  اڑتے رنگارنگ چھوٹے بڑے پرندے،زمین پررنگتے ہوئے حشرات الارض ، طرح طرح کی آبی مخلوقات اور انسانوں  کی مختلف ضروریات کے لئے مویشوں  کوپیداکیاہے ،اللہ ہی رات کودن میں  اوردن کورات میں  پروتاہے ، جیسے فرمایا

تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۲۷ [114]

ترجمہ:رات کو دن میں  پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ۔۔۔۝۶۱ [115]

ترجمہ:یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۲۹ [116]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ رات کو دن میں  پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں  ۔

اللہ ہی آسمانوں  سے بارش کا بندوبست فرماتاہے،جیسے فرمایا

اَللہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہٗ فِی السَّمَاۗءِ كَیْفَ یَشَاۗءُ وَیَجْعَلُہٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝۰ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۸ۚ [117]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں  ، پھر وہ ان بادلوں  کو آسمان میں  پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں  ٹکڑیوں  میں  تقسیم کرتا ہے ، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں  ٹپکے چلے آتے ہیں ، یہ بارش جب وہ اپنے بندوں  میں  سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں ۔

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۔۔۔۝۵۷ [118]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے )طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے ۔

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ۝۰ۤۖ وَاِنَّا عَلٰی ذَہَابٍؚبِہٖ لَقٰدِرُوْنَ۝۱۸ۚفَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ۝۰ۘ لَكُمْ فِیْہَا فَوَاكِہُ كَثِیْرَةٌ وَّمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۱۹ۙ [119]

ترجمہ:اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں  پانی اتارا اور اس کو زمین میں  ٹھیرا دیاہم اسے جس طرح چاہیں  غائب کر سکتے ہیں ،پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں  میں  بہت سے لذیز پھل ہیں  اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا۝۰ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ۔۔۔۝۹۹ [120]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی ،پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیےپھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں  سے پھلوں  کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں ، اور انگور زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں  اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں  ۔

جس سے انسان اورجانورکھاتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْہُ اَنْعَامُہُمْ وَاَنْفُسُہُمْ۝۰ۭ اَفَلَا یُبْصِرُوْنَ۝۲۷ [121]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں  نے یہ منظر کبھی نہیں  دیکھا کہ ہم ایک بےآب گیا ہ زمین کی طرف پانی بہا لاتے ہیں  پھر اسی زمین سے وہ فصل اگاتے ہیں  جس سے ان کے جانوروں  کو بھی چارہ ملتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں  ؟ ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَہُوْرًا۝۴۸ۙلِّنُحْیِۦ بِہٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّنُسْقِیَہٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِیَّ كَثِیْرًا۝۴۹ [122]

ترجمہ:اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں  کو بشارت بنا کر بھیجتا ہےپھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے تاکہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں  سے بہت سے جانوروں  اور انسانوں  کو سیراب کرے۔

ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ۝۱۰یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۔۔۔۝۱۱ [123]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں  کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے،وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں  اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔

۔۔۔وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۭ فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝۵۳كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ۔۔۔۝۵۴ۧ [124]

ترجمہ: اور اوپر سے پانی برسایاپھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی کھاؤ اور اپنے جانوروں  کو بھی چراؤ۔

اوراللہ ہی بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے رزق اورپرورش کابندوبست فرمادیتاہے، اوران تمام تخلیقی کاموں  میں  جن میں  اللہ کی قدرت، طاقت واختیارکاواضح اظہار ہو رہاہے ان کے معبودوں  کا کوئی تعلق یاواسطہ نہیں ، جس سے ان کے معبودوں  کی بے بسی ثابت ہوتی ہے توان کے معبودوں  کے پاس جونہ دیکھ سکتے ہیں  اورنہ سن سکتے ہیں ،نہ کسی کونفع پہنچاسکتے ہیں  اورنہ نقصان،نہ کسی کوتکلیف پہنچاسکتے ہیں  اورنہ تکلیف دورکرسکتے ہیں  خدائی کے اختیارات کہاں  سے آگئے ،یہ تواپنی شکل وصورت کی تخلیق کے لئے انسانوں  کے محتاج ہیں ،ان کی خدائی توان کے پجاریوں  سے مشروط ہے، مٹی پتھرکے یہ دیوی دیوتایاسورج ، چاند، مشتری ،زہرہ وغیرہ یاقبروں  میں  لیٹے ہوئے بزرگ ہستیاں  سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں  اورہرمخلوق چاہے اسے کسی بھی مرتبے پرفائزکردیاجائے اپنے خالق کی بارگاہ میں  بے بس ولاچارہے ،روزقیامت کسی کی ازخود سفارش کرناتودرکناران کی بے بسی ولاچاری کاتویہ عالم ہوگا کہ روزقیامت رب کی بارگاہ میں  اس کی اجازت کے بغیرلب کشائی تک نہیں  کرسکیں  گے، جیسے فرمایا

یَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا۝۱۰۹ [125]

ترجمہ:اس روز شفاعت کارگر نہ ہوگی الا یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے۔

لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۝۸۷ۘ [126]

ترجمہ:اس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں  گے بجز اس کے جس نے رحمان کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو۔

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۔۔۔۝۲۳ [127]

ترجمہ:اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں  ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو ۔

کیونکہ ہرطرح کی طاقت ،قوت واختیارصرف اللہ ہی کے اختیارمیں  ہے،اس لئے ان معبودوں  نے اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیرکوٹال کر کسی کورزق،اولاد،بیماری سے شفا اور مشکل کشائی وغیرہ کیاکرنی ہے ، یااللہ تعالیٰ کسی پرفضل وکرم کر کے دینی یادنیاوی منفعت عطا کرنا چاہے توکیاوہ خودساختہ معبوداس رحمت وکرم کوروک سکتے ہیں ، یہ توخود اللہ سے بخشش ومغفرت کی امیدوآس رکھتے ہیں ،اس لئے ہر طرح کی کوشش اور تدبیرکے بعد اللہ وحدہ لاشریک ہی پربھروسہ رکھوجواہم اورغیراہم امورمیں  کفایت فرماتا ہے، کیونکہ اہل ایمان دنیاوی وسائل واسباب اور تدبیر پرنہیں  ہمیشہ اپنے رب پرہی غیرمتزلزل بھروسہ رکھتے ہیں  جوبھروسہ رکھنے کے لائق ہے۔

جیسے ہود  علیہ السلام نے فرمایا تھا

 اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا ۔۔۔ ۝۵۶ [128]

ترجمہ:میرابھروسہ اللہ پرہے جومیرارب بھی ہے اورتمہارابھی،کوئی جاندارایسانہیں  جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں  نہ ہو۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ،قَالَهَا إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلاَمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَقَالَهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَالُوا: {إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا، وَقَالُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ} [129]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے ’’حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ‘‘ابراہیم  علیہ السلام نے اس وقت پڑھی تھی جب کہ ان کو آگ میں  ڈالا گیا تھا  اور یہی آیت’’ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ ‘‘محمد   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس وقت پڑھی تھے جب منافقوں  نے مسلمانوں  کو ڈرانے کے لئے کہا تھا کہ تم سے لڑنے کو بہت لوگ جمع ہو گئے ہیں ۔[130]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَ الْحَدِیثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَكُونَ أَقْوَى النَّاسِ فَلْیَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَكُونَ أَغْنَى النَّاسِ فَلْیَكُنْ بِمَا فِی یَدِ اللَّهِ أَوْثَقَ مِنْهُ بِمَا فِی یَدِهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَكُونَ أَكْرَمَ النَّاسِ فَلْیَتَّقِ اللَّهَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص چاہتا ہوکہ وہ سب انسانوں  سے زیادہ طاقتوارہوجائے تواسے چاہے کہ اللہ تعالیٰ پرتوکل کرے  اورجو شخص چاہتاہوکہ وہ سب سے بڑھ کرغنی ہوجائے تواسے چاہے کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسہ رکھے بہ نسبت اس چیزکے جو اس کے اپنے ہاتھ میں  ہے  اور جوشخص چاہتاہوکہ سب سے زیادہ عزت والاہوجائے تواسے چاہیے کہ اللہ عزوجل سے ڈرے۔[131]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كُنْتُ رَدِیفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا غُلامُ، أَوْ یَا غُلَیِّمُ، أَلا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ یَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِنَّ؟  فَقُلْتُ: بَلَى،فَقَالَ:احْفَظِ اللَّهَ یَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ ،  تَعَرَّفْ إِلَى اللَّهِ فِی الرَّخَاءِ یَعْرِفْكَ فِی الشِّدَّةِ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ،وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَضُرُّوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَكْتُبْهُ اللَّهُ عَلَیْكَ لَمْ یَضُرُّوكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَنْفَعُوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَكْتُبْهُ اللَّهُ لَكَ لَمْ یَنْفَعُوكَ، جَفَّتِ الصُّحُفُ  وَرُفِعَتِ الْأَقْلَامُ، وَاعْمَلْ لِلَّهِ بِالشُّكْرِ فِی الْیَقِینِ،وَاعْلَمْ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَیْرٌ كَثِیرٌ  وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ  وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ،  وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا

ایک اورروایت میں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہےایک دن میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے سوار تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے! کیا میں  تمہیں  ایسے کلمات نہ سکھا دوں  جن کے ذریعے اللہ تمہیں  فائدہ دے؟ میں  نے عرض کیا کیوں  نہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کویادرکھ وہ تیری حفاظت کرے گا،اللہ کویادرکھ تو اسے ہروقت اپنے ساتھ پائے گا، آسانی کے وقت رب کی نعمتوں  کا شکرگزاررہ سختی کے وقت وہ تیرے کام آئے گا،جب کچھ مانگ تواللہ ہی سے مانگ اور جب مددطلب کر تو اسی سے مددطلب کر  یقین رکھ کہ اگرتمام دنیا مل کرتجھے کوئی نقصان پہنچاناچاہے اوراللہ نے مقدرمیں  نہ لکھاہوتوہرگزنہیں  پہنچاسکتے،  اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں  نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں  نفع نہیں  پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، صحیفے خشک ہوچکے اورقلمیں  اٹھالی گئیں ، یقین اورشکرکے ساتھ نیکیوں  میں  مشغول رہ    ، یقین رکھ تکلیفوں  میں  صبرکرنے پربڑی نیکیاں  ملتی ہیں اورمددصبرکے ساتھ ہے اور غم ورنج کے ساتھ ہی خوشی و فراخی ہے اورہرسختی اپنے اندرآسانی کولئے ہوئے ہے۔ [132]

عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ عَلَى عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَةً، أُرَاهُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ: وَیْحَكَ مَا هَذِهِ؟ قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَةِ ؟ قَالَ:أَمَا إِنَّهَا لَا تَزِیدُكَ إِلَّا وَهْنًا انْبِذْهَا عَنْكَ؛ فَإِنَّكَ لَوْ مِتَّ وَهِیَ عَلَیْكَ مَا أَفْلَحْتَ أَبَدًا

عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کے بازو میں  پیتل (تانبے) کا ایک کڑا دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہ کس لیے ہے؟اس نے بتایا میں  نے یہ واھنہ(ایک مرض)کی وجہ سے پہناہواہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسے اتارپھینکو(اس لیے کہ یہ تمہیں  کوئی فائدہ نہیں  پہناسکتا)بلکہ اس سے تمہاری کمزوری میں  مزید اضافہ ہی ہوگااگر تم اس حال میں  مر گئے کہ یہ تمہارے ہاتھ میں  ہوتو تم کبھی نجات نہ پاسکوگے۔[133]

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیمَةً، فَلَا أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً، فَلَا وَدَعَ اللَّهُ لَهُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ ارشادفرماتے ہوئے سنا جس نے (بیماری سے تحفظ کے لیے) کوئی تمیمہ (تعویذ،منکاوغیرہ)لٹکایااللہ تعالیٰ اس کی مرادپوری نہ کرے  اورجس نے سیپ باندھی اللہ تعالیٰ اسے بھی آرام اور سکون نہ دے۔[134]

ایک روایت میں  ہے

مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

جس نے (بیماری سے تحفظ کی نیت سے)تمیمہ (تعویذ، منکاوغیرہ) لٹکایا اس نے شرک کیا۔[135]

أَنَّ أَبَا بَشِیرٍ الأَنْصَارِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِی بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ : وَالنَّاسُ فِی مَبِیتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، رَسُولًا أَنْ:لاَ یَبْقَیَنَّ فِی رَقَبَةِ بَعِیرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ، قَالَ مَالِكٌ:أُرَى ذَلِكَ مِنَ الْعَیْنِ

ابوبشیرانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ شریک سفر تھا عبداللہ نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں  نے کہا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں  میں  تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک قاصد کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں  لٹکن تانت یا کسی دوسری قسم کا قلادہ نہ لٹکایا جائے اور اگر لٹکا ہوا ہو تو کاٹ دیا جائے،امام مالک رحمہ اللہ  نے کہامیں  خیال کرتاہوں  یہ نظرنہ لگنے کے خیال سے ڈالتے تھے۔[136]

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشاد فرماتے ہوئے سنابلاشبہ جھاڑ پھونک (دم) تعویذگنڈے اورباہمی عشق ومحبت کرنے کے لیے تیارکی جانے والی چیزیں  یہ سب شرک ہیں ۔[137]

وَالتَّمَائِمَ

سے مرادہروہ چیزہے جوبچوں  کونظربدسے بچانے کے لیے ان کے گلے میں  یاجسم کے کسی اورحصے پرلٹکائی یا باندھی جاتی ہے،یہ شرک ہے

الرُّقَى

سے مرادوہ اعمال ہیں  جنہیں  منتر،جھاڑپھونک اوردم کہاجاتاہے یہ بھی شرک ہےالبتہ جس دم میں  شرکیہ الفاظ نہ ہوں  جائزہے

وَالتِّوَلَةَ

سے مرادوہ چیزہے جسے مشرکین اس نظریے اوراعتقاد سے بناتے اورتیارکرتے تھے کہ یہ میاں  بیوی کوایک دوسرے کامحبوب بنانے کاذریعہ اورسبب ہے ۔

عِیسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَیْمٍ وَهُوَ مَرِیضٌ نَعُودُهُ فَقِیلَ لَهُ: لَوْ تَعَلَّقْتَ شَیْئًا، فَقَالَ: أَتَعَلَّقُ شَیْئًا، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُكِلَ إِلَیْهِ

عیسیٰ بن عبدالرحمن سے مروی ہےعبداللہ بن عکیم  رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے ہم ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے توکسی نے کہا کہ آپ کوئی تعویذوغیرہ گلے میں  ڈال لیتے ؟   انہوں  نے فرمایا میں  کوئی چیزلٹکاؤں  گا؟ جبکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ جو شخص کوئی بھی چیز(گلے وغیرہ میں )لٹکائے گا وہ اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ [138]

عَنْ شِیَیْمِ بْنِ بَیْتَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا رُوَیْفِعُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا فِی زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْخُذُ جَمَلَ أَخِیهِ عَلَى أَنْ یُعْطِیَهُ النِّصْفَ مِمَّا یَغْنَمُ وَلَهُ النِّصْفُ، حَتَّى أَنَّ أَحَدَنَا لَیَطِیرُ لَهُ النَّصْلُ وَالرِّیشُ، وَالْآخَرَ الْقِدْحُ، ثُمَّ قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا رُوَیْفِعُ، لَعَلَّ الْحَیَاةَ سَتَطُولُ بِكَ فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْیَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِیعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بَرِیءٌ

شییم بن بیتان سے مروی ہے رویفع بن ثابت نے بیان کیاہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور باسعادت میں  جہاد کرتے تھے تو ہم میں  سے کوئی شخص اس شرط پر دوسرے سے اونٹ لیتا تھا کہ مال غنیمت میں  سے اپنے حصے کا نصف اونٹنی والے کو دے گا حتی کہ ہم میں  سے کسی کے پاس صرف دستہ ہوتا تھا اور کسی کے پاس پھل اور پر ہوتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایا تھا اے رویفع! ہو سکتا ہے کہ تمہیں  لمبی زندگی ملے تم لوگوں  کو بتا دینا کہ جو شخص داڑھی میں  گرہ لگائے یا تانت گلے میں  لٹکائے یا کسی جانور کی لید یا ہڈی سے استنجاء کرے تو گویا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہونے والی شریعت سے بیزاری ظاہر کی۔[139]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ:مَنْ قَطَعَ تَمِیمَةً عَنْ إِنْسَانٍ، كَانَ كَعَدْلِ رَقَبَةٍ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ سے منقول ہےجس شخص نے کسی کی گردن سے تمیمہ (تعویذ)کاٹ پھینکا اسے ایک گردن(غلام) آزادکرنے کے برابرثواب ہے۔[140]

قَالَ: كَانُوا یَكْرَهُونَ التَّمَائِمَ كُلَّهَا، مِنَ الْقُرْآنِ وَغَیْرِ الْقُرْآنِ

عاوروکیع رحمہ اللہ ،ابن مسعود رضی اللہ عنہما  کے شاگردابراہیم نخعی  رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے شاگردقرآنی اورغیرقرآنی ہرقسم کے تمائم (تعویذات)کوناپسندسمجھتے تھے ۔[141]

(‏ قُلْ یَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّی عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ مَن یَأْتِیهِ عَذَابٌ یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیمٌ ‎﴿٤٠﴾‏الزمر)
’’کہہ دیجئے کہ اے میری قوم ! تم اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں، ابھی ابھی تم جان لو گے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی مار اور ہمیشگی کی سزا ہوتی ہے، آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لیے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راہ راست پر آجائے اس کے اپنے لیے نفع ہے اور جو گمراہ ہوجائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے آپ ان کے ذمہ دار نہیں۔‘‘

اوراگرتم لوگ میری دعوت توحیدکوجس کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایاہے قبول نہیں  کرتےاوراپنے باطل معبودوں  کی حمایت میں مجھے زک پہنچانے اورپاکیزہ ،سچی دعوت کوروکنے کے لئے جوکچھ تم کررہے ہواورجوکچھ بھی تم کرسکتے ہوکیے جاؤ اوراپنی کرنی میں  تم کوئی کسرباقی نہ چھوڑو،

ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہی کہاتھا۔

مِنْ دُوْنِہٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵ [142]

ترجمہ:تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں  کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے مہلت نہ دو۔

مگرمیں  پھربھی اللہ کے بھروسہ پر تمہاری رشدوہدایت کا کام جاری رکھوں  گا ،جیسے فرمایا

اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللہِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۶ [143]

ترجمہ:میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی کوئی جاندار ایسا نہیں  جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں  نہ ہوبیشک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔

دین کے معاملے میں  کوئی زورزبردستی نہیں  ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔لَآ اِكْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔۔۔۝۲۵۶ [144]

ترجمہ:دین کے معاملے میں  کوئی زور زبردستی نہیں  ہے۔

اگرتم اپنے مشرکانہ آبائی دین پرگامزن رہناچاہتے ہو،معبودان باطل کی رسوم عبادات بجالاناچاہتے ہو تو تمہاری مرضی ،مگرمیں  تمہیں  اکیلے اللہ تعالیٰ کے دین کوخالص کرنے کی دعوت دیتارہوں  گااورخودبھی اسی سیدھی ،صاف شفاف،جرنیلی سڑک کامسافر رہوں  گا جس کی اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت فرمائی ہے ،جس راہ میں  کوئی کجی نہیں ،جس راہ میں  کوئی ڈریاخوف نہیں  ، اس وقت تم اپنے جتھے کی طاقت کے نشے میں  مخمورہوکر، اپنی جاہلانہ ہٹ دھرمی ،بغض وحسداورفخروغرورکی بناپراس دعوت حق کومستردکررہے ہومگرعنقریب تمہیں  معلوم ہو جائے گاکہ دنیا میں  ذلیل وخوارکون ہوتاہے ؟اورمرنے کے بعد جب اللہ کی بارگاہ میں  پہنچوگے توپھرتمہیں حق وباطل کافرق اچھی طرح سمجھ میں  آجائے اورحق سے انحراف کی سزا ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی سزاہے،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے یہ کتاب برحق تم پرتمام جن وانس کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کردی ہے ،اب جواس کی روشنی میں  رہنمائی حاصل کرے گا اوراس کے احکامات کی پیروی کرے گاتواس کافائدہ اسی کوپہنچے گا اور جوہدایت کے واضح ہوجانے کے بعدبھی گمراہی اختیارکرے گاتووہ اپناہی نقصان کرے گا،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۔۔۔۝۱۰۸ۭ [145]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! کہہ دو کہ لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے ۔

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْــتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۱۵ [146]

ترجمہ:جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہےکوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

آپ کا کام اللہ کا کلام پہنچادینااورحق وباطل کوواضح کردینا ہےاگرپھربھی یہ گمراہی اختیارکرتے ہیں  تو انہیں  راہ راست پرلے آناآپ کی ذمہ دارنہیں  ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِیْرٌ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ۝۱۲ۭ [147]

ترجمہ: تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [148]

ترجمہ:بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىہَا۝۴۵ۭ  [149]

ترجمہ: تم صرف خبردار کرنے والے ہو ہر اس شخص کو جو اس کا خوف کرے۔

یَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِهَا ۖ فَیُمْسِكُ الَّتِی قَضَىٰ عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا یَمْلِكُونَ شَیْئًا وَلَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ ( الزمر)
’’ اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے ،اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے، غور کرنے والوں کے لیے اس میں یقیناً بہت نشانیاں ہیں، کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا (اوروں) کو سفارشی مقرر کر رکھا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں، کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے، تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لیے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔‘‘

حیات بعدالموت کی ایک مثال:

وہ اللہ ہی ہے جوموت کے وقت روحیں  قبض کرتاہے(وفات کبریٰ) اورجوابھی نہیں  مراہے اس کی روح نیندمیں  قبض کر لیتا ہے (وفات صغریٰ)یعنی اس شخص کااحساس وشعور، فہم وادراک اوراختیاروارادہ کی قوتوں  کومعطل کردیتاہے ،پھرجس پروہ موت کافیصلہ نافذکرتاہے اسے روک لیتا ہے (وفات کبریٰ) اوردوسروں  کی روحیں  ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُكُمْ فِیْهِ لِیُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۶۰ۧوَهُوَالْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ۝۶۱ [150]

ترجمہ:وہی ہے جو رات کوتمہاری روحیں  قبض کرتاہے اوردن کوجوکچھ تم کرتے ہواسے جانتاہے ،پھردوسرے روزوہ تمہیں  اسی کاروبارکے عالم میں  واپس بھیج دیتاہے تاکہ زندگی کی مقررمدت پوری ہو آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہےپھروہ تمہیں  بتا دے گا کہ تم کیاکرتے رہے ہو،اپنے بندوں  پروہ پوری قدرت رکھتاہے اورتم پرنگرانی کرنے والے مقررکرکے بھیجتاہے یہاں  تک کہ جب تم میں  سے کسی کی موت کاوقت آ جاتاہے تواس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں  اوراپنافرض انجام دینے میں  ذراکوتاہی نہیں  کرتے ۔

ایک مقام پرفرمایا

قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۝۱۱ۧ [151]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوموت کاوہ فرشتہ جوتم پرمقررکیاگیاہے تم کوپوراکاپورااپنے قبضے میں  لے لے گااورپھرتم اپنے رب کی طرف پلٹالائے جاؤ گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ فَلْیَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ، فَإِنَّهُ لاَ یَدْرِی مَا خَلَفَهُ عَلَیْهِ،  ثُمَّ یَقُولُ: بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِی وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِی فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِینَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی بسترپرلیٹے توپہلے اپنابستراپنے ازارکے کنارے سے جھاڑلے کیونکہ وہ نہیں  جانتاکہ اس کی بے خبری میں  کیا چیز اس پر آگئی ہے  پھریہ دعاپڑھے’’اے میرے پالنے والے رب تیرے ہی پاک نام کی برکت سے میں  لیٹتاہوں  اورتیری ہی رحمت میں  جاگوں  گا ، اگر تومیری روح کوروک لے تواس پررحم فرما اوراگرتواسے بھیج دے تواس کی ایسی ہی حفاظت کرناجیسی تواپنے نیک بندوں  کی حفاظت کرتاہے۔ ‘‘[152]

کسی کووفات کبریٰ سے اورکسی کو وفات صغریٰ سے ہمکنار کر دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زندگی اورموت پر قدرت رکھتاہے ،وہی ان کی زندگی اور موت میں  تصرف کرتاہے اوروہ قیامت کے روزمردوں  کویقیناًان کی قبروں  سے اسی جسم وجان کے ساتھ زندہ کرے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۷ [153]

ترجمہ:اور اللہ ضرور ان لوگوں  کو اٹھائے گا جو قبروں  میں  جاچکے ہیں ۔

ان لوگوں  نے اپنے رب حقیقی کوچھوڑکردوسرے خودساختہ معبودبنارکھے ہیں  اوراپنے طورپربغیرکسی دلیل کے خودہی یہ فرض کرلیاہے کہ کچھ ہستیاں  ایسی ہیں  جواللہ کے ہاں  بڑی زورآور ہیں ،جن کی سفارش کواللہ کبھی نہیں  ٹال سکتابس ان کوخوش کرتے رہوتاکہ یہ خوش ہوکراللہ سے ہمارے کام کراسکیں  اورہماری سفارش بھی کریں ،حالانکہ اللہ نے یہ کبھی نہیں  فرمایا کہ فلاں  ہستی کی میری بارگاہ میں  یہ مرتبہ ومنزلت ہے اورنہ یہ کبھی فرمایاہے کہ فلاں  کی اللہ سفارش ردنہیں  فرمائے گا،اورنہ ہی ان ہستیوں  نے خودکبھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم اپنی زوربازوپر اللہ سے تمہارے کام بنوادیا کریں  گےمگراس کے باوجودان لوگوں  نے مالک حقیقی کو چھوڑ کر ان فرضی ہستیوں  کوہی سب کچھ سمجھ لیاہے ،اللہ تک رسائی اور شفاعت کے لئے ان کی تمام نیازمندیاں  انہی کے لئے وقف ہوگئیں  ہیں ،جیسے فرمایا:

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا یَتَّبِـــعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۶۶ [154]

ترجمہ:آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں  یا زمین کے،سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں  اور جو لوگ اللہ کے سوا (اپنے خود ساختہ) شریکوں  کو پکار رہے ہیں  وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں  اور محض قیاس آرائیاں  کرتے ہیں ۔

جوپتھرکے ٹکڑے ہیں جن پاس نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل وشعور،جبکہ شفاعت کی تمام اقسام کامالک صرف اللہ ہے،اس کی اجازت کے بغیر کسی بھی ہستی کی اللہ کی بارگاہ میں  سفارش منوالینے کی بات تو بہت دورہے ان میں  تواتنی بھی جرات وطاقت بھی نہیں  ہوگی کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں  اس کی اجازت کے بغیرلب کشائی کرسکیں  یاازخودکسی کے لئے سفارشی بن کرکھڑاہوسکیں ،پھراسی کی بارگاہ میں  تم اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے پیش کیے جانے والے ہو۔

اس لئے کیوں  نہ اللہ معبودحقیقی ہی کی عبادت کی جائے جو مالک ارض وسماوات ہے تاکہ وہ راضی ہو جائے اورشفاعت کے لئے کوئی سہاراڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

[1] الشعراء ۱۹۲تا۱۹۵

[2] حم السجدة۴۱،۴۲

[3] الشوری۱۱

[4] البقرة۲۵۷

[5] المائدة۱۶

[6] ابراہیم۱

[7] الحدید۹

[8] الطلاق۱۱

[9] صحیح بخاری کتاب الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟   ۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ النِّیَّةِ ۴۲۲۷،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِیمَا عُنِیَ بِهِ الطَّلَاقُ وَالنِّیَّاتُ ۲۲۰۱،معجم ابن عساکر ۷۰۰، السنن الکبری للبیہقی ۱۸۱،شرح السنة للبغوی ۲۰۶

[10] فتح القدیر۵۱۷؍۴،فتح البیان ۷۸؍۱۲

[11]النسائ۸۰ 

[12] یونس۱۸

[13] تفسیرطبری۲۵۱؍۲۱

[14] الاعراف۷۱ 

[15] المومنون۵۳

[16] الروم۳۲

[17] البقرة۱۱۳

[18]یونس۹۳

[19] النحل۱۲۴

[20] السجدة۲۵

[21] لقمان۲۰

[22] التوبة۳۰

[23] الانبیاء ۲۶

[24] سبا۲۳

[25] النبا۳۸

[26] الزخرف۸۱،۸۲

[27] الاعراف۵۴

[28] الاعراف۱۸۹

[29] النسائ۱

[30] الانعام۹۸

[31] الانعام۱۴۳

[32] الانعام۱۴۴

[33] المائدہ۱

[34] الاعراف۵۴

[35] طہ۸۲

[36] ابراہیم۸

[37]مسنداحمد ۲۱۳۶۷

[38] مسند احمد ۲۱۳۶۸

[39] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۷۲،شرح السنة للبغوی ۱۲۹۱

[40] الانعام۱۶۴

[41] بنی اسرائیل۱۵

[42] فاطر۱۸

[43] النجم۳۸

[44] المومن۱۹

[45] یٰسین۶۵

[46] بنی اسرائیل۶۷

[47] یونس۱۲

[48] لقمان۲۴

[49] ابراہیم۳۰

[50] الشعراء ۲۰۵تا۲۰۷

[51] جامع ترمذی کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یَمُوتُ بِعَرَقِ الجَبِینِ ۹۸۳ ،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ۴۲۶۱، شعب الایمان ۹۷۰،السنن الکبری للنسائی ۱۰۸۳۴،مسندابی یعلی ۳۳۰۳،شرح السنة للبغوی۱۴۵۵

[52] النحل۹۷

[53] تفسیرابن کثیر۸۹؍۷

[54] تفسیرطبری۲۷۰؍۲۱

[55] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ۷۴۶۰، صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الْحَقِّ لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ ۴۹۵۵،شرح السنة للبغوی۴۰۱۱

[56] الکافرون۱تا۶

[57] الاعراف۴۱

[58] العنکبوت۵۵

[59]الاعراف۱۴۵

[60] جامع ترمذی کتاب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ غُرَفِ الجَنَّةِ ۲۵۲۷،مسنداحمد۱۳۳۸،صحیح ابن خزیمة۲۱۳۶،مسندابی یعلی ۴۳۸، مسندالبزار۷۰۲

[61]صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۵۶، صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا  بَابُ تَرَائِی أَهْلِ الْجَنَّةِ أَهْلَ الْغُرَفِ، كَمَا یُرَى الْكَوْكَبُ فِی السَّمَاءِ ۷۱۴۴،جامع ترمذی کتاب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی تَرَائِی أَهْلِ الجَنَّةِ فِی الغُرَفِ۲۵۵۶،صحیح ابن حبان ۷۳۹۳، شرح السنة للبغوی ۴۳۷۸

[62] النسائ۱۲۲

[63] الروم۶

[64] لقمان۸،۹

[65] فاطر۹

[66] الملک۳۰

[67] الرعد۴

[68] الانعام۹۹

[69] الحدید۲۰

[70] الکہف۴۵

[71] الحج۷

[72] الانعام۱۲۲

[73] فاطر۱۹تا۲۲

[74] آل عمران۷

[75] تفسیرطبری۲۷۹؍۲۱

[76] تفسیرطبری۲۷۹؍۲۱

[77] تفسیر طبری۲۷۹؍۲۱،الدر المنثور ۲۲۱؍۷

[78] الانفال۲

[79] الفرقان۷۳

[80] تفسیرعبدالرزاق۱۳۰؍۳

[81] المائدة۱۶

[82] الملک۲۲

[83] حم السجدة۴۰

[84] النحل۲۶

[85] القلم۳۳

[86]العنکبوت ۴۳

[87] الکہف۱،۲

[88] الروم۲۸

[89] یوسف۳۹

[90] الانبیاء ۳۴،۳۵

[91] مسند احمد ۱۴۳۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ  بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ۳۲۳۶، الدر المنثور۲۲۶؍۷

[92]تفسیرطبری۲۸۷؍۲۱،الدر المنثور۲۲۷؍۷

[93] الدر المنثور۲۲۷؍۷

[94] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۵۰،۳۲۵۱؍۱۰

[95] المجادلة۶

[96] آل عمران: 144

[97] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۶۲۷، مسند احمد ۲۵۸۴۱، السنن الکبری للبیہقی ۱۶۵۳۶، مصنف عبدالرزاق۹۷۵۵

[98] الاعراف۳۳

[99] یٰسین۱۵

[100]  لقمان۱۳

[101] الاحقاف۱۶

[102] یٰسین۵۷

[103] النسائ۴۰

[104] القمر۹

[105] المومنون۲۵

[106] ھود۵۴

[107] الشعراء ۱۵۳

[108] النسائ۸۸

[109] الاعراف۱۸۶

[110] الرعد۳۳

[111] بنی اسرائیل۹۷

[112] الکہف۱۷

[113] الشوری۴۴

[114] آل عمران۲۷

[115] الحج۶۱

[116] لقمان۲۹

[117] الروم۴۸

[118] الاعراف۵۷

[119] المومنون۱۸،۱۹

[120] الانعام۹۹

[121] السجدة۲۷

[122] الفرقان۴۸،۴۹

[123] النحل۱۰،۱۱

[124]طہ۵۳،۵۴

[125] طہ۱۰۹

[126] مریم۸۷

[127] سبا۲۳

[128] ھود۵۶

[129] آل عمران: 173

[130] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ۴۵۶۳،شرح السنة للبغوی ۴۱۰۶

[131] تفسیر  ابن ابی حاتم محققا۱۸۹۱۴

[132] جامع ترمذی   أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ  باب باب ۲۵۱۶، مستدرک حاکم ۶۳۰۴، شعب الایمان ۱۰۴۳،مسنداحمد۲۸۰۳، تفسیرابن ابی حاتم ۱۸۳۹۵،۳۲۵۱؍۱۰، تفسیرابن کثیر۱۰۰؍۷، تفسیرالقرطبی۳۹۸؍۶

[133] مسند احمد ۲۰۰۰۰، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ ۳۵۳۱

[134] مسنداحمد۱۷۴۰۴

[135] مسنداحمد۱۷۴۲۲

[136]صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَا قِیلَ فِی الجَرَسِ وَنَحْوِهِ فِی أَعْنَاقِ الإِبِلِ ۳۰۰۵،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ كَرَاهَةِ قِلَادَةِ الْوَتَرِ فِی رَقَبَةِ الْبَعِیرِ۵۵۴۹،سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی تَقْلِیدِ الْخَیْلِ بِالْأَوْتَارِ ۲۵۵۲

[137] مسنداحمد۳۶۱۵،سنن ابوداود كِتَاب الطِّبِّ بَابٌ فِی تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ۳۸۸۳

[138]مسنداحمد ۱۸۷۸۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطِّبِّ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ التَّعْلِیقِ۲۰۷۲

[139] مسنداحمد۱۶۹۹۶،سنن ابوداودكِتَاب الطَّهَارَةِ بَابُ مَا یُنْهَى عَنْهُ أَنْ یُسْتَنْجَى بِهِ۳۶

[140] مصنف ابن ابی شیبة ۲۳۴۷۳

[141] مصنف ابن ابی شیبة۲۳۴۶۷

[142] ھود۵۵

[143] ھود۵۶

[144] البقرة۲۵۶

[145] یونس۱۰۸

[146] بنی اسرائیل۱۵

[147] ھود۱۲

[148] الرعد۴۰

[149] النازعات۴۵

[150] الانعام۶۰،۶۱

[151] السجدة  ۱۱

[152]صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ التَّعَوُّذِ وَالقِرَاءَةِ عِنْدَ المَنَامِ۶۳۲۰،صحیح مسلم کتاب الدعوات بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ النَّوْمِ وَأَخْذِ الْمَضْجَعِ ۶۸۹۲،سنن ابوداود کتاب الادب بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ النَّوْمِ ۵۰۵۰، مسند احمد ۷۹۳۸، ۷۸۱۱،صحیح ابن حبان ۵۵۳۴،السنن الکبری للنسائی ۱۰۵۵۹،سنن الدارمی ۲۷۲۶،شرح السنة للبغوی ۱۳۱۳

[153] الحج۷

[154] یونس۶۶

Related Articles