بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ الضحیٰ

نبوت کے منصب جلیل پرفائزہونے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجووحی نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لوگوں کوسنادیتے ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت ومشیت کے مطابق کچھ عرصہ کے لئے جبرائیل علیہ السلام کی آمدکاسلسلہ بندہوگیا،جوابن جریح کے مطابق بارہ روز،کلبی پندرہ روز،عبداللہ بن عباس پچیس روز،سدی اورمقاتل چالیس روزتک بندرہا ،جب کئی روزتک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کوئی نئی وحی نہ سنائی تومشرکین مکہ کوباتیں کرنے کاموقعہ مل گیااورانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرطعن کرناشروع کردیاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب نے انہیں چھوڑدیاہے،ایک عورت

وَهِی أم جمیل هِیَ أُمُّ جَمِیلٍ بِنْتُ حَرْبٍ امْرَأَةُ أَبِی لَهَبٍ

آپ کے حقیقی چچاابولہب کی بیوی عوراجس کی کنیت ام جمیل بنت حرب تھی ۔[1]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہنے لگی اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )معلوم ہوتاہے کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیاہے،دوتین راتوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ تیرے قریب نہیں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے رک جانے سے پہلے ہی دل گرفتہ تھےاورخیال کرتے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایساقصورتوسرزدنہیں ہوگیاجس سے میرارب مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اورحق وباطل کے اس معرکے میں وہ تنہاتونہیں رہ گئے ،دوسری طرف اپنی چچی اور مشرکین مکہ کی زبان درازیاں آپ کے لئے سخت پریشانی کی موجب ہورہی تھیں ، چنانچہ اس کیفیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دینے کے لئے چارمضامین پرمشتمل یہ سورۂ نازل فرمائی۔

xااللہ تعالیٰ نے دن کی روشنی اوررات کی قسم کھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے نہ توآپ کوچھوڑاہے اورنہ ہی آپ سے ناراض ہواہے ۔آپ کے مخالفین اگرحسداوربغض کی بناپرایسی باتیں کرتے ہیں توقطعاجھوٹ بولتے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودوعظیم بشارتیں سنائی گئیں ،پہلی یہ کہ دعوت اسلامی کے ابتدائی دورمیں جن شدیدمشکلات سے آپ کوسابقہ پیش آرہاہے ،یہ مشقت اورکوفت مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے ،جس طرح رات کے گھپ اندھیرے کے بعددن آکررہتاہے جس سے سو روشنی پھیل جاتی ہے بالکل اسی طرح وحی کے رکنے اوراللہ تعالیٰ سے ہم کلامی میں کمی آنے کے بعداس کاانتہائی قرب اورکثرت وحی کاحصول ہوگا اورآپ کاہرآنے والالمحہ پہلے سے کہیں بہترہوگا،یایہ کہ آپ کی آخروی زندگی دنیاوی زندگی سے بہترہوگی اوریہ کہ اللہ آپ پردنیاوآخرت میں اپنی عطاوبخشش کی ایسی بارش برسائے گاکہ آپ نہال وشاداں ہوجائیں گے،قرآن مجیدکی یہ پیش گوئیاں بعدکے ادوارمیں حرف بحرف پوری ہوئیں ۔

xپھراللہ نے اپنے تین احسانات یاددلائے کہ ہم توتمہارے روزپیدائش سے مسلسل تم پرمہربانیاں کرتے چلے آرہے ہیں ، آپ یتیم پیداہوئے تھے ہم نے آپ کی تربیت وپرورش کے لئے بہترین اورسازگارماحول مہیاکیا،آپ راہ راست سے بے خبرتھے ہم نے آپ کوصراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی ،آپ تنگ دست تھے ہم نے آپ کوہرطرح کے مال ودولت سے نوازکرغنی کردیا۔

xان تین نعمتوں کے مقابلے میں آپ کوتین وصیتوں کی صورت میں گویاشکرکی تلقین کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے شکریے کے طورپرآپ بھی یتیم اوراللہ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردانہ اورفیاضانہ سلوک کریں پرسختی نہ کیجئے،کیونکہ شکریے کی ادائیگی کایہی طریق سب سے عمدہ اورپسندیدہ ہے، اوررب کی ان گنت نعمتوں کاتذکرہ کیاکریں ۔

نبوت کے منصب جلیل پرفائزہونے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجووحی نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لوگوں کوسنادیتے ،

جُنْدُبَ بْنَ سُفْیَانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَقُمْ لَیْلَتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: یَا مُحَمَّدُ، إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَكُونَ شَیْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ، لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَیْلَتَیْن فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:وَالضُّحَى وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَى

جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمارہوگئے،اوردویاتین راتوں تک( نمازتہجدکے لئے )نہ اٹھ سکے،ایک عورت آپ کے پاس آئی اورکہنے لگی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے،دوتین راتوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ تمہارے پاس نہیں آیا،اس پر اللہ عزوجل نے سورت الضحیٰ نازل فرمائی۔[2]

أَبْطَأَ جِبْرِیلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ:قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ

ایک روایت ہےجب کئی روزتک ابن جریح کے مطابق بارہ روز،کلبی پندرہ روز،عبداللہ بن عباس پچیس روز،سدی اورمقاتل چالیس روزتک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کوئی نئی بات نہ سنائی تومشرکین مکہ کوباتیں کرنے کاموقعہ مل گیااورانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرطعن کرناشروع کردیامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔[3]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے رک جانے سے پہلے ہی دل گرفتہ تھےاورخیال کرتے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایساقصورتوسرزدنہیں ہوگیاجس سے میرارب مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اورحق وباطل کے اس معرکے میں وہ تنہا تو نہیں رہ گئے ،دوسری طرف اپنی چچی اور مشرکین مکہ کی زبان درازیاں آپ کے لئے سخت پریشانی کی موجب ہورہی تھیں ، چنانچہ اس کیفیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دینے کے لئے آیات مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى نازل فرمائیں ۔[4]

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالضُّحَىٰ ‎﴿١﴾‏ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَىٰ ‎﴿٢﴾‏ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ‎﴿٣﴾‏ وَلَلْآخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ ‎﴿٤﴾‏ وَلَسَوْفَ یُعْطِیكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ‎﴿٥﴾‏ أَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیمًا فَآوَىٰ ‎﴿٦﴾‏ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ‎﴿٨﴾ (الضحیٰ )

قسم ہے چاشت کے وقت کی، اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے، نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوگیا ہے،یقیناً تیرے لیے انجام آغاز سے بہتر ہوگا،تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی و خوش ہوجائے گاکیااس نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ،اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی، اور تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنادیا ۔


اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت وطاقت ، دن کے اجالے اوررات کی تاریکی کی قسم کھا ئی ،جیسے فرمایا:

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى۝۱ۙوَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى۝۲ۙ [5]

ترجمہ: قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے ،اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتین انعامات کی خوشخبری سنائی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جیساکہ کافرومشرکین سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے کسی وجہ سے ناراض ہوکرتمہیں چھوڑدیاہے،ایساہرگزنہیں ہے،نہ ہی تیرے رب نے تمہیں چھوڑاہے اور نہ ہی آپ سے بیزارہوگیاہے، وحی کی بندش حکمت ومصلحت کے تحت ہے ، یہ بندش مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے، اگر وحی کی تیزروشنی آپ پربرابرپڑتی رہتی تو آپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کرسکتے ،اس لئے درمیان میں کچھ وقفہ دیا گیا تاکہ وحی کاجوبار آپ پرپڑتاہے ،اس کے اثرات زائل ہوجائیں اورآپ کے اعصاب پرسکون ہوجائیں ، اس کے بعدکثرت وحی کاحصول ہوگا، اگرچہ دینے میں کچھ وقت تو درکار ہو گا مگربہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کواس قدر انعامات سے نوازے گا،عطاوبخشش کی بارش کردے گاکہ آپ مطمئن ہوجائیں گے،ان ابتدائی دورکی مشکلات سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں ،اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد،آپ کی قدرومنزلت بڑھتیچلی جائے گی،آپ کانفوذواثر پھیلتاچلا جائے گا، آپ کاہرآنے والالمحہ پہلے سے کہیں بہتر ہوگا،اللہ تعالیٰ نے دنیاکی کامیابی کے ساتھ آخرت کے بے شمار اجروثواب کابھی وعدہ فرمایاکہ آخرت میں جومقام ومرتبہ آپ کوعطاکیاجائے گاوہ دنیاوی مرتبہ سے اتنابڑھ چڑھ کرہوگاکہ اس کی عظمت کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبہ ہوش وحواس جسمانی معراج عطافرمائی اورآپ وہاں تک گئے جہاں جبرائیل امین بھی نہیں جاسکتے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم کلامی سے شادکلام کیا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہر کوثر عطافرمائی،جیسے فرمایا:

 اِنَّآ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ۝۱ۭ [6]

ترجمہ:یقیناً ہم نے تجھے(حوض) کوثر (اوربہت کچھ) دیاہے۔

جس کے دونوں کنارے شان دار موتیوں کے گنبدسے مزین ہوں گے اورجس کی مٹی کستوری کی مہک سے معطرہوگی اورمقام محمود عنایت فرمایا،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری اس وقت دی تھی جب مسلمانوں کی تعدادمٹھی بھرتھی ،پوری قوم وبرادری اوراہل عرب اس دعوت حق کے مخالف تھے ،اوربزورطاقت اس دعوت کومٹادیناچاہتے تھے ،مگراللہ تبارک وتعالیٰ کایہ وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حرف بحرف پوری ہوا،کفار ومشرکین کے ہرقسم کے ظلم وستم کے باوجوداسلام پھیلتا چلا گیا ، مدینہ منورہ کے قبائل اوس وخزرج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار بن گئے اورکفرکے خلاف سینہ سپر ہو کر مردانہ وارغزوات میں حصہ لیا، مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی بنیادرکھ دی گئی، اور کچھ ہی عرصہ بعدمکہ مکرمہ فتح ہوگیا،مشرکین کا ہر پروپیگنڈااورطاقت کامظاہرہ اپنی موت آپ مرگیا ،فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن آپ کے آگے سرجھکائے اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظرکھڑے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کے پیاسوں ،بڑے بڑے جرائم کے مرتکب افراد کو معاف فرمادیاجس سے ان کے دل مسخرہوگئے،ان کے عقائد،اخلاق واعمال میں عظیم انقلاب برپاہوگیا، اوروہ لوگ بھی کلمہ حق بلندکرنے کے لئے حق کے اس قافلہ کے ساتھ گامزن ہوگئے ،پھراسلام عرب سے نکل کرتیزی سے دوردورتک پھیل گیااورکوئی طاقت اس کاراستہ نہ روک سکی،جیسے فرمایا:

اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ۝۱ۙوَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ اَفْوَاجًا۝۲ۙ [7]

ترجمہ:جبکہ اللہ کی مدد اور فتح آچکی اور آپ نے لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق جوق داخل ہوتے دیکھ لیا۔

اللہ کاکلمہ سربلندہوگیااورکفارومشرکین کی ہرسازش کے باوجودہمیشہ سربلندہی رہے گا،جیسے فرمایا:

 وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِینَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِیَ الْعُلْیَا۝۴۰ [8]

ترجمہ: اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے۔

اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًـا فَاٰوٰى۝۶۠ وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى۝۷۠ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۝۸ۭ [9]

ترجمہ:کیااس نے تجھے یتیم پاکرجگہ نہیں دی؟اورتجھے راہ بھولاپاکرہدایت نہیں دی؟اورنادارپاکرتونگرنہیں بنادیا؟۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومزید تسلی کے لئے فرمایاکہ جن خوشخبریوں کاہم وعدہ فرمارہے ہیں وہ توہم پوری کریں گے ہی ، ہم اس سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل مہربانیاں اورعنایات کرتے رہے ہیں ، تین مہربانیوں اورعنایات کاذکرفرمایاکہ پیدائش سے پہلے ہی اپنے والدکے سایہ ،پھرکم سنی میں والدہ اورپھرداداجیسے شفیق سہاروں سے محروم ہوگئے ، اس وقت ہم نے آپ کی دست گیری وچارہ سازی فرمائی اور اس بدترین معاشرے میں تربیت وپرورش کے لئے بہترین اورکارسازماحول مہیافرمایا،چاروں طرف پھیلے ہرطرح کے کفروشرک میں جہاں آپ کی زندگی مشرکانہ عقیدے وعمل اورگناہوں سے پاک ، بہترین فضائل واخلاق سے مزین تھی لیکن آپ کودین شریعت اوراس کے اصول واحکامات کاعلم نہ تھا،جیسےفرمایا:

مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ۝۵۲ۙ [10]

ترجمہ:تمہیں کچھ پتہ نہ تھاکہ کتاب کیاہوتی ہے اورایمان کیاہوتاہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جوغیر معمولی صلاحیتیں آپ کوعطافرمائی تھیں وہ جاہلیت کے ناسازگارماحول میں ضائع ہورہی تھیں ،کفروشرک کی ان ظلمتوں میں آپ صراط مستقیم کے لئے سرگرداں تھے جو ڈھونڈے سے نہیں مل پا رہی تھی،پھر ہم نے آپ کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی، جیسے فرمایا:

وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ۝۳ [11]

ترجمہ:اوراگرچہ تم اس سے پہلے ان باتوں سے غافل تھے ۔

نبوت جیسے منصب جلیل سے نوازا،آپ پر قیامت تک کے لئے راہ ہدایت دینے والا اپناکلام (قرآن مجید) نازل فرمایا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ نے اپنے ترکے میں صرف ایک اونٹنی،پانچ بکریاں اورایک لونڈی چھوڑی تھی اس طرح آپ کی زندگی ابتدا ًافلاس سے شروع ہوئی ،پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوان ہوئے توقریش کی سب سے زیادہ مالدارعورت ام المومنین خدیجہ الکبریٰ نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ساتھ تجارت میں شریک کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تجارت کوفروغ دینے میں محنت وقابلیت کامظاہرہ کیا چنانچہ آپ کی محنت،قابلیت اور اخلاق حسنہ سے متاثرہوکرانہوں نے آپ سے شادی کرلی اور اپنا تمام مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپردکردیااوراللہ کے فضل وکرم سے آپ مالدار ہو گئے ،چنانچہ فرمایااورہم نے اپنے سواتجھ کو ہر ایک سے بے نیاز کر دیا پس تو فقرمیں صابر اور غنامیں شاکررہا،جیسے اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام پراپنی مہربانیوں کا تذکرہ فرمایا:

اِذْ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا یُوْحٰٓی۝۳۸ۙاَنِ اقْذِفِیْهِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِیْهِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّهٗ۝۰ۭ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ۝۰ۥۚ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ۝۳۹ۘاِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰی مَنْ یَّكْفُلُهٗ۝۰ۭ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ۝۰ۥۭ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا۝۰ۥۣ فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَهْلِ مَدْیَنَ۝۰ۥۙ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى۝۴۰وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْ۝۴۱ۚاِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْ۝۴۲ۚ [12]

ترجمہ:یادکرووہ وقت جب ہم نے تیری ماں کااشارہ کیا،ایسااشارہ جووحی کے ذریعہ سے ہی کیاجاتاہے کہ اس بچے کوصندوق میں رکھ دے اورصندوق کو دریامیں چھوڑدے ، دریااسے ساحل پرپھینک دے گااوراسے میرادشمن اوراس بچے کادشمن اٹھالے گا،میں نے اپنی طرف سے تجھ پرمحبت طاری کردی اورایساانتظام کیاکہ تومیری نگرانی میں پالاجائے ،یادکرجبکہ تیری بہن چل رہی تھی پھرجاکرکہتی ہے میں تمہیں اس کاپتہ دوں جواس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے ؟اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچادیاتاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اوروہ رنجیدہ نہ ہو،اور(یہ بھی یاد کرو کہ ) تونے ایک شخص کوقتل کردیاتھاہم نے تجھے اس پھندے سے نکالااورتجھے مختلف آزمائشوں سے گزارااورتومدین کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرارہا،پھراب ٹھیک اپنے وقت پرتو آگیاہے ،اے موسیٰ !میں نے تجھ کواپنے کام کابنالیاہے جاتواورتیرابھائی میری نشانیوں کے ساتھ اوردیکھوتم میری یادمیں تقصیرنہ کرنا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ الغِنَى عَنْ كَثْرَةِ العَرَضِ، وَلَكِنَّ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتونگری ،سازوسامان کی کثرت کانام نہیں ہے ،اصل تونگری دل کی تونگری ہے۔[13]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ

عبداللہ بن عمرو عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًوہ شخص کامیاب ہوگیاجومسلمان ہوا،بقدرضرورت اسے رزق دیاگیااوراللہ تعالیٰ نے اسے جوعطا فرمایاتواس پراسے قناعت بھی عطافرمادی۔[14]

اس کے علاوہ بھی ہر طرح مال ودولت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا گیاہے ۔

فَأَمَّا الْیَتِیمَ فَلَا تَقْهَرْ ‎﴿٩﴾‏ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ ‎﴿١٠﴾(‎الضحیٰ)

’’ پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کراور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ۔ ‘‘


لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان بے بہا نعمتوں کے شکریے کے طورپرآپ بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ سختی کے بجائے نرمی ،تکبرکے بجائے احسان ،درشت وتلخ کلام کے بجائے ہمدردانہ وفیاضانہ سلوک کریں کیونکہ شکریے کی ادائیگی کایہی طریقہ سب سے عمدہ اورپسندیدہ ہے۔

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ‎﴿١١﴾‏(‎الضحیٰ )

اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔


جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کوراہ ہدایت،رسالت ونبوت سے نوازاہے،یتیمی کے باوجودکفالت وسرپرستی کابندوبست فرمایا،قناعت وتونگری عطافرمائی ہے،آپ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اوراس کے احسان سے زیربارہوتے ہوئے ،اوراس کی طاقت،قدرت اوراختیارات سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ ان نعمتوں سے محروم نہ کر دے ان نعمتوں کوجذبات تشکروممنونیت کے ساتھ بیان کرتے رہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا یَشْكُرُ النَّاسَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے اللہ کی شکرگزاری نہیں کی جس نے لوگوں کی شکرگزاری نہ کی۔[16]

عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أُبْلِیَ بَلَاءً فَذَكَرَهُ، فَقَدْ شَكَرَهُ، وَإِنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجس شخص پرکوئی احسان کیاگیااوراس نے اس(احسان)کاذکرکیاتویقیناًاس نے اس کاشکراداکیا اوراگراس نے اسے چھپایاتویقیناًاس نے اس کی ناشکری وناقدری کی ۔[17]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَیْنَا، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِینَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِینَ بِهَا، قَابِلِیهَا وَأَتِمَّهَا عَلَیْنَا

عبداللہ عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوں میں یہ دعابھی تھی اے اللہ!ہمارے دلوں میں (ایک دوسرے کی)الفت پیدافرمادے اورہمارے آپس کے روابط کوعمدہ بنادے،ہمیں سلامتی کے راستوں کی رہنمائی فرمااوراندھیروں سے بچاکرنورمیں پہنچادے اورتمام طرح کی ظاہری اورچھپی بدکاریوں سے محفوظ رکھ ،ہمارے کانوں ،آنکھوں ،دلوں ،گھروالیوں (بیویوں )اوربچوں میں برکتیں عطافرما(اے اللہ!)اورہم پررجوع فرما (ہماری توبہ قبول کر)بلاشبہ توبہت زیادہ توبہ قبول کرنے والااوررحمت کرنے والاہے، ہمیں اپنی نعمتوں کی شکرگزاری کرنے والا،ان کی وجہ سے تیری ثنابیان کرنے والا،ان کااقرار کرنے والاکردے اوران نعمتوں کوہم پرپورا کر دے۔[18]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ صَلَّى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحْوِیلِ عَافِیَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نَقْمَتِكَ، وَجَمِیعِ سُخْطِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤ ں میں سے یہ دعا تھی اے اللہ!ہم تیری پناہ مانگتے ہیں تیری نعمت کے چھن جانے سے اورتیری عافیت کے پلٹ جانے سے اورتیری سزاکے اچانک واردہوجانے سے اور تیری ہر ناراضگی اورناخوشی سے۔[19]

[1] فتح الباری۷۱۰؍۸

[2] صحیح بخاری تفسیر سورۂ الضحی عن جندب بن سفیان ۴۹۵۰ٰ، صحیح مسلم کتاب الجہادباب مالقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اذی المشرکین والمنافقین ۴۶۵۷، مسنداحمد۱۸۸۰۱،دلائل النبوة للبیہقی۵۹؍۷،تفسیرابن کثیر۲۲؍۱

[3] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ وَالْمُنَافِقِینَ ۴۶۵۶، تفسیر طبری ۴۸۵؍۲۴

[4] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ والضحٰی بَابُ قولہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى ۴۹۵۰ ، ۲۴۰، ۵۲۰،۳۱۸۵۲۹۳۴،۳۸۵۴،۳۹۶۰،صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ وَالْمُنَافِقِینَ ۴۶۴۹

[5] اللیل۱،۲

[6] الکوثر۱

[7] النصر۱،۲

[8] التوبة۴۰

[9] الضحیٰ ۶تا۸

[10] الشوریٰ ۵۲

[11] یوسف ۳

[12] طہ ۳۸تا۴۲

[13] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ۶۴۴۶،صحیح مسلم کتاب الزکاة باب فضل القاعة والحث علیھا۲۴۲۰،مسند احمد۷۳۱۶

[14] صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابٌ فِی الْكَفَافِ وَالْقَنَاعَةِ۲۴۲۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الكَفَافِ وَالصَّبْرِ عَلَیْهِ ۲۳۴۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْقَنَاعَةِ ۴۱۳۸،مسنداحمد۶۵۷۲

[15] الضحیٰ ۹،۱۰

[16] سنن ابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی شُكْرِ الْمَعْرُوفِ ۴۸۱۱، جامع ترمذی کتاب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَیْكَ ۱۹۵۴،صحیح ابن حبان۳۴۰۷،شعب الایمان۸۶۹۶،شرح السنة للبغوی۳۶۱۰،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۰۳۲،مسنداحمد۷۹۳۹

[17] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی شُكْرِ الْمَعْرُوفِ۴۸۱۴

[18] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ التَّشَهُّدِ۹۶۹،صحیح ابن حبان۹۹۶،مستدرک حاکم۹۷۷

[19] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی الِاسْتِعَاذَةِ۱۵۴۵

Related Articles