بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ العنکبوت

اللہ تعالیٰ نے یہ سورۂ صادق الایمان لوگوں  میں  عزم وہمت اوراستقامت پیداکرنے کے لیے اور ضعیف الایمان لوگوں  کوشرم دلانے کے لیے نازل فرمائی ،اس سورہ کے شروع میں  اہل ایمان سے کہاگیاکہ تم یہ خیال مت کروکہ دعوت حق قبول کرنے کے بعدتمہاری آزمائش نہیں  ہوگی ،تم سے پہلے بھی سچے اور جھوٹے،مومن اورمنافق میں  امتیاز کرنے کے لیے ایمان والوں  کی آزمائش ہوتی رہی ہے ،مکہ معظمہ میں  مسلمانوں  پرطرح طرح کے ظلم وستم کادوردورہ تھادوسری طرف لوگوں  کوایمان سے دوررکھنے کے لئے خاندانی دباؤ اوروالدین کے حقوق کوبطورحربہ استعمال کیاجاتا تھا ، اس سلسلے میں  وضاحت کی گئی کہ بلاشبہ والدین کے حقوق ہیں  لیکن اگر وہ توحیدکی راہ اپنانے سے روکیں  اور شرک کی طرف مجبورکریں  توپھران کی اطاعت لازم نہیں ،اگر والدین یاکوئی اورشخص یہ کہہ کربہکانے کی کوشش کرے کہ وہ آخرت کے عذاب وثواب کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو یاد رکھوروزقیامت کوئی کسی کاجواب دہ نہ ہوگاہرشخص کو اپنے اعمال کاجواب خود ہی دیناہوگا،انبیاء کرام پرجوسختیاں  کی گئیں  مگر وہ آزمائش کی گھڑیوں  میں راہ حق سے جڑے رہے وہ سختیاں نمایاں  کی گئیں  اوربتایاگیاکہ پھررب کی مددان کے شامل حال رہی ،انہی واقعات کوبیان کرکے اہل مکہ کوتنبیہ کی گئی کہ تم سے بیشتراقوام بھی دعوت حق کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے تباہ و بربادہوئیں  ،تم بھی انہی کی راہوں  پرگامزن ہولہذا تمہارا انجام بھی ان جیساہی ہوگا،انبیاء کے حوالے سے ان سخت ترین حالات میں  مسلمانوں  کوہجرت کاکہاگیاکہ اگرظلم وستم ناقابل برداشت ہوچکاہے تو  اللہ  کی زمین بہت وسیع ہے لہذاگھربارچھوڑکرکسی امن والی جگہ پرہجرت کرجاؤ جہاں  اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کر سکو ، سابقہ امتوں  میں  ابراہیم  علیہ السلام ،لوط  علیہ السلام ،اسحق   علیہ السلام ،یعقوب  علیہ السلام  اور شعیب  علیہ السلام  کے حالات بیان فرمائے ،قوم ثمود،قوم عاد،طوفان نوح کے ساتھ فرعون ، قارون کے عبرت ناک انجام کا تذکرہ کیا اور مسلمانوں  کوحکم دیا گیاکہ  اللہ کی زمین پرنکل کر رب کی چاروں  طرف بکھری نشانیوں  پرغوروتدبرکریں  ،سورہ کے اختتام پرمشرکین کے بتوں  کومکڑی کے ساتھ تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مکڑی کاجالاازحدکمزورہوتاہے ،جو سردی سے بچاسکتاہے نہ گرمی سے اورنہ ہی تیزہواؤ ں  کامقابلہ کرسکتاہے،اسی طرح مشرکوں  کے معبود بھی کمزور ہیں  ،نہ انہیں  نقصان سے بچاسکتے ہیں  اورنہ ہی کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں ایمان، اعمال صالحہ،والدین کے ساتھ حسن سلوک، مشکلات میں  صبر،نمازکاقائم کرنااورتوحیدکی عظمت کاذکر کیا گیا اور برے اعمال ،فسق وفجور،ظلم وعدوان سے بچنے کی تلقین فرمائی اوردنیاوی زندگی کی حقیقت بیان فرمائی،اہل مکہ کونصیحت فرمائی کہ بیت  اللہ  کو ہم نے امن کاگہوارہ بنایا ہے ،اورجوحق کادشمن ہواس سے بڑاظالم کون ہوسکتاہے اور نیکو کاروں  پر ہمارے احسانات ہیں  اورہم ان کے ساتھ ہیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الم ‎﴿١﴾‏ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَكُوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٣﴾(العنکبوت)
’’الف ، ل ۔،م ،کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیںبغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ؟ ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا ،یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اہل ایمان کو صرف اس بات پر قبول نہیں کرلیتاکہ وہ یہ کہیں  کہ ہم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لائے بلکہ ان کوخوشحالی اورتنگدستی ،راحت اور مشقت ، بشاشت اورناگواری ، فراخی اورمحتاجی ،بعض اوقات دشمنوں  کی فتح وغلبہ اوردشمنوں  کے خلاف قول وفعل کے ساتھ جہادوغیرہ جیسی آزمائشوں  کے ذریعے سے آزماتا ہے ،جوشخص ایمان کے تقاضوں  پر عمل کرتاہے ،اپنی شہوات کے خلاف جدوجہدکرتاہے تویہ چیزاس شخص کے ایمان کی صداقت اورپختگی پر دلالت کرتی ہے ،کچھ لوگوں  کے پاس بہت قلیل ایمان اورکچھ لوگ اس سے بہت زیادہ بہرہ ورہوتے ہیں ،اس لئے اس مقام پرلوگ بہت سے درجات میں  منقسم ہوجاتے ہیں جن کواللہ کے سواکوئی شمارنہیں  کر سکتااورجواس کسوٹی پرپورانہیں  اترتاوہ لاکھ اپنے ایمان کادعویٰ کرے اللہ کے رجسٹرمیں  اہل ایمان لکھاہوانہیں  ہوتا ،مکہ مکرمہ میں  جوشخص اسلام کی حقانیت جان کر،اسلامی تعلیمات کی گہرائی اورمضامین کی وسعت دیکھ کر، گزشتہ قوموں  کے عبرت انگیزحالات سن کردائرہ اسلام میں  داخل ہوتاتو سرداران مکہ کے ہاتھوں اس پرآفات ومصائب اور مظالم کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتااور اگرکسی بااثرخاندان کاکوئی شخص مسلمان ہوتاتواس کے خاندان کے لوگ اسے طرح طرح سے تنگ کرتے اوراس کی زندگی اجیرن کردیتے ،کوئی غریب اگرمسلمان ہوتا تواس کے روزی کے دروازے بندکردیئے جاتے تاکہ اس کے اہل وعیال بھوکے مرجائیں  یاپھریہ شخص واپس ملت کفرپر آجائے ، غلاموں  اورلونڈیوں  کاتوحال پہلے ہی براتھااوراگران میں  سے کوئی مسلمان ہو جاتا تواس پرمظالم کاوہ سلسلہ شروع ہوتاجسے دیکھ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں ،ان حالات نے مکہ مکرمہ میں  خوف ودہشت کاماحول پیداکردیاتھاجس کی وجہ سے بہت سے لوگ جواسلام کی حقانیت کے قائل ہوچکے تھے ایمان لانے سے ڈرتے تھے ،جبکہ کچھ نومسلم جن کے ایمان میں  ابھی پختگی پیدا نہیں  ہوتی تھی ایمان لانے کے بعدجب دردناک اذیتوں  سے دوچارہوتے توپست ہمت ہو کرکفارکے آگے گھٹنے ٹیک دیتے مگرراسخ الایمان صحابہ کرام کے عزم وثبات میں  کوئی تزلزل پیدانہ ہوتاتھامگرخوف و ہراس کی کیفیت دیکھ کران پربھی اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی ،

عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِی ظِلِّ الكَعْبَةِ، قُلْنَا لَهُ: أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا، أَلاَ تَدْعُو اللَّهَ لَنَا؟ قَالَ:كَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَكُمْ یُحْفَرُ لَهُ فِی الأَرْضِ، فَیُجْعَلُ فِیهِ، فَیُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِینِهِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِینِهِ، وَاللَّهِ لَیُتِمَّنَّ هَذَا الأَمْرَ، حَتَّى یَسِیرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلَّا اللَّهَ، أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ

چنانچہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت اپنی ایک چادرپرٹیکادیئے کعبہ کے سائے میں  بیٹھے ہوئے تھے،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  عرض کیاکہ آپ ہمارے لئے مددکیوں  نہیں  طلب فرماتے؟ہمارے لئے اللہ سے دعاکیوں  نہیں  مانگتے؟(ہم کافروں  کی ایذادہی سے تنگ آ چکے ہیں )آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(ایمان لانے کی سزامیں )تم سے پہلی امتوں  کے لوگوں  کے لئے گڑھاکھوداجاتااورانہیں  اس میں  ڈال دیاجاتاپھر ان کے سرپرآرا چلا کر ان کے دوٹکڑے کردیئے جاتے پھربھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے، لوہے کے کنگے ان کے گوشت میں  دھنساکران کی ہڈیوں  اورپٹھوں  پرپھیرے جاتے پھربھی وہ اپناایمان نہ چھوڑتے، اللہ کی قسم !یہ کام(اسلام)بھی کمال کوپہنچےاورایک زمانہ آئے گاکہ ایک سوارمقام صنعاء سے حضرموت تک سفرکرے گا(لیکن راستوں  کے پرامن ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوااورکسی کاڈرنہیں  ہوگایاصرف بھیڑیئے کاخوف ہوگاکہ کہیں  اس کی بکریوں  کونہ کھاجائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔[1]

اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبروتحمل میں  تبدیل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوسمجھایاکہ ہمارے وعدے دنیااورآخرت کی کامرانیوں  و سرفرازیوں کے لئے ہیں  کوئی شخص محض زبانی ایمان کادعویٰ کرکے ان کامستحق نہیں  ہوسکتابلکہ ایمان کے دعوے دارہرشخص کولازماًمختلف آزمائشوں  کی بھٹی سے گزرناہوگاتاکہ وہ اپنے دعوے کی سچائی کا ثبوت مہیاکرے،اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں  ہے اورنہ دنیا ہی میں  ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں  ہیں  کہ تم بس زبان سے اللہ پرایمان لانے کااعلان کرواورہم وہ سب کچھ تمہیں  بخش دیں  ،اللہ کی نعمتیں  حاصل کرنے کے لئے توامتحان شرط ہے ،اس کے لئے تمہیں اللہ کی خاطرمشقتیں  اٹھانی ہوں  گی،جان ومال کا زیاں  برداشت کرنا ہوگا، ہر طرح کی سختیاں  جھیلنی ہوں  گی ، خطرات ،مصائب اورمشکلات کامقابلہ کرناہوگا،تم لوگ خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اورلالچ سے بھی ،ہروہ چیز چاہے وہ جان ہویامال ، بیوی بچے ہوں  یاکاروبارجسے تم عزیزومحبوب رکھتے ہوہماری رضاپراسے قربان کرناپڑے گا،جیسے فرمایا

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۵۵ۙ [2]

ترجمہ:اور ہم ضرور تمہیں  خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں  کے گھاٹے میں  مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں  گےاور ان صبر کرنے والوں  کو خوشخبری دے دیجئے ۔

تب جاکرپتہ چلے گا کہ تمہاراایمان سچاتھایاجھوٹااوریہ آزمائش تمہارے لئے خاص نہیں  ہے بلکہ یہ توہر دور میں  اہل ایمان کوپرکھنے کے لئے ہوتی رہی ،جس نے بھی ایمان کا دعوی کیااسے آزمائشوں  کی بھٹی میں  ڈال کر ضرور تپایاگیاہے ،جیسےفرمایا

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً۝۰ۭ وَاللهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۶ۧ [3]

ترجمہ:کیا تم لوگوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ  گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں  کہ تم میں  سے کون وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے (اس کی راہ میں )جاں  فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایاجو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللهِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِیْبٌ۝۲۱۴ [4]

ترجمہ:پھر کیا تم لوگوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں  ہی جنت کا داخلہ تمہیں  مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں  گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں  پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں  گزریں  ، مصیبتیں  آئیں  ، ہلا مارے گئے حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی( اس وقت انہیں  تسلی دی گئی کہ ) ہاں  اللہ کی مدد قریب ہے۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۴۲ [5]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں  چلے جاؤ  گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں  کہ تم میں  کون وہ لوگ ہیں  جو اس کی راہ میں  جانیں  لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں ۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ۝۰ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ۝۳۱ [6]

ترجمہ: ہم ضرور تم لوگوں  کو آزمائش میں  ڈالیں  گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں  اور دیکھ لیں  کہ تم میں  مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں ۔

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّهِ أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟قَالَ:الْأَنْبِیَاءُ،  ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، یُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِینِهِ، فَإِنْ كَانَ فِی دِینِهِ صُلْبًا، اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِی دِینِهِ رِقَّةٌ، ابْتُلِیَ عَلَى حَسَبِ دِینِهِ، فَمَا یَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى یَتْرُكَهُ یَمْشِی عَلَى الْأَرْضِ، وَمَا عَلَیْهِ مِنْ خَطِیئَةٍ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کن لوگوں  کاامتحان سخت ہوتاہے،اوران پرمصیبت زیادہ اترتی ہے؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں  کا ہوتاہے،پھرصالح نیک لوگوں  کا،پھران سے کم درجے والے،پھران سے کم درجے والے،انسان کاامتحان اس کے دین کے اندازے پر ہوتا ہے  اگر وہ اپنے دین میں  سخت اورقوی ہوتا ہے تومصیبتیں  بھی سخت نازل ہوتی ہیں  اوراگراس کے دین میں  نرمی اورکمی ہوتی ہے تواسی اندازسے بندہ پر مصیبت رہتی ہے  یہاں  تک کہ زمین پرچلتاہے اوراس پرکوئی گناہ نہیں  ہوتا(سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں )۔[7]

جب دوسروں  کوامتحان کے بغیرکچھ نہیں  دیا گیا تو تمہاری کیاخصوصیات ہیں  کہ محض زبانی دعوی پراس عظیم الشان جنتوں  سےنوازدیئے جاؤ ،اہل ایمان کی اس طرح کی آزمائش کے بعدہی نصرت کافیصلہ ہوتاہے،اس لئے آزمائشوں  پر صبر کرو اور اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرکے ثابت قدمی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہو۔

أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ أَنْ یَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ ‎﴿٤﴾‏(العنکبوت)
’’کیا جو لوگ برائیاں کر رہے ہیں انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے، یہ لوگ کیسی بری تجویزیں کر رہے ہیں۔‘‘

کیامکہ مکرمہ کے ظالم سردارولیدبن مغیرہ،ملت کافرعون ابوجہل ،عتبہ،شیبہ،عقبہ بن ابی معیط اورحنظلہ بن وائل وغیرہ نے جن کے ارادوں  پرجرائم کاارتکاب اوربرے افعال غالب ہیں  یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ اس طرح مسلمانوں  پرانسانیت سوزظلم وستم ڈھاکر ، ایمان لانے والوں  کاراستہ روک کر سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم کامذاق واستہزااڑاکر،اللہ کے نازل کردہ جلیل القدرکلام قرآن مجید کوبے حقیقت جان کرآرام وچین سے رہیں  گے،کیادنیاوآخرت میں ان کوان کے اعمال کی جزانہیں  دی جائے گی؟ کیایہ بھاگ کرہماری دست رس سے دورنکل جائیں  گے،جیسے فرمایا

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [8]

ترجمہ:اے گرہ جن و انس اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں  سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو، نہیں  بھاگ سکتے اس کے لیے بڑا زور چاہیے ۔

کیاان میں  اتنی طاقت اورقدرت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے المناک عذاب سے بچ سکیں حالانکہ وہ سب سے کمزور اورسب سے عاجزمخلوق ہیں ، یادرکھو!ایساہرگزنہیں  ہوگا،تم لوگ اللہ کے بارے میں  ظن فاسدمیں  مبتلاہوجبکہ وہ ہربات سے باخبراورہرچیزپرقادرہے،پھراپنے رب کی نافرمانی کرکے اس کے مواخذہ وعذاب سے کس طرح بچ پاؤ گے ،اے کفار و مشرکو! دین میں  نئی نئی باتیں  داخل کرنے والو!قرآن وسنت کی غلط تفسیرکرنے والو!اس دنیامیں  اپنی خواہش نفس کے مطابق تم جوچاہو کر گزرو، جیسے اعمال چاہو جمع کرلوبالآخرایک وقت مقررہ پرتمہیں اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوناہے جہاں  تمہیں  اپنے اعمال کاحساب دیناہوگااوراس وقت تمہیں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔

مَنْ كَانَ یَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٥﴾‏ وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦﴾‏وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِی كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٧﴾ (العنکبوت)
’’ جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت یقیناً آنے والا ہے، وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے، اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے، ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے، اورجولوگ ایمان لائے اورانہوں نے مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کردیں گے اور انہیں نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے۔‘‘

  نیکیوں  کی کوشش :

شیطان نے باری تعالیٰ کے سامنے دعوی ٰ کیاتھا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [9]

ترجمہ:بولا اچھا تو جس طرح تونے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں  کی گھات میں  لگا رہوں  گا،آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں  ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔

۔۔۔لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲ [10]

ترجمہ:اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں  اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں  گے۔

چنانچہ اپنے دعویٰ کے مطابق شیطان انسان کوہرآن نیکی کے نقصانات سے ڈراتااوربدی کے فائدوں  اورلذتوں  کالالچ دلاتا رہتا ہے،اس کے برے اعمال کوخوش نمابنا کر دکھاتارہتاہے۔

۔۔۔وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ۔۔۔ ۝۳۸ۙ  [11]

ترجمہ: ان کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے خوشنما بنا دیا ۔

فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۴۳    [12]

ترجمہ:پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں  نہ انہوں  نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو۔

وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِیْنٌ۝۳۶وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۳۷  [13]

ترجمہ:جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں  اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے،یہ شیاطین ایسے لوگوں  کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں  اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ۔

پھرجب انسان شیطان کادوست بن جاتاہے توپھراللہ تعالیٰ بھی اسے بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتاہے۔

 اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَ۝۴ۭ  [14]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں  مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں  کو خوشنما بنا دیا ہے اس لیے وہ بھٹکے پھرتے ہیں ۔

اور انسان کوہمیشہ اس خام خیالی میں  مبتلارکھنے کی کوشش کرتا رہتاہے کہ انسان کوموت سے غافل رکھے ،چنانچہ وہ انسان کے دل میں  یہ خیال پیداکرتارہتاہے کہ ابھی تو میں  جوان ،صحت منداورطاقتورہوں اس لئے موت کاوقت ابھی بہت دورہے ، مہلت کی بہت گھڑیاں  ابھی باقی ہیں پہلے یہ کام کرلوں اللہ کوخوش کرنے کے لئے پھرعمل کرلوں  گا یا اپنے کسی جرم کی توبہ کرلوں  گا ، مگر جو شخص اخروی زندگی کاقائل ہو، جس شخص کو اللہ کی ملاقات کااشتیاق ہو،جس شخص کایہ عقیدہ ہو کہ اس نے اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوکراپنے اعمال کی جزاپانی ہے انہیں  اس غفلت میں  نہیں  پڑارہناچاہیے بلکہ اہل ایمان کو یہ سمجھناچاہیے کہ زندگی کی گنی چنی سانسیں  ختم ہونے کو ہیں ، عمل کی مہلت ختم ہواہی چاہتی ہے ، موت کاوقت دورنہیں قریب آلگاہے اس لئے اپنی عاقبت کی بھلائی کے لئے جو زادراہ جمع کرسکتے ہیں  جلد از جلد جمع کرلیں  ،طویل حیات کے بے بنیادبھروسے پراپنی اصلاح میں  دیرنہ لگائیں ،اوران کواس غلط فہمی میں  نہیں  رہناچاہیے کہ اللہ کوان کے اعمال کی خبرنہیں  ہےیادرکھواللہ اپنے بندوں  کی نیتوں  کاجاننے والا دعاؤ ں  کاسننے والا اور ان کے چھپے اورظاہرسب اعمال کاجاننے والاہےاوراسی کے مطابق وہ جزاوسزابھی دے گا،اورلوگواگرتم راہ راست اختیارکروگے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ کروگے،اپنے عقائدوافکار درست اورپاکیزہ رکھوگے، اپنی زبان سے حق وانصاف کی بات کروگےاوراپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت وبندگی میں  اوراس کے احکام وقوانین کی پابندی میں  بسرکروگے تواللہ اوراس کے رسول پرکوئی احسان نہیں  کروگے بلکہ اس کانہ ختم ہونے والااجروثواب کسی اورکونہیں  تمہیں  ہی پہنچے گا، جیسے فرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۔۔۔  ۝۱۵ [15]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لئے کرے گا اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا ۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [16]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں  کے حق میں  ظالم نہیں  ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں  نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں  نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو،اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  ہدایت دوں  تم مجھ سے ہدایت مانگو میں  تمہیں  ہدایت دوں  گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  کھلاؤں  تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں  تمہیں  کھانا کھلاؤں  گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  پہناؤں  تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں  تمہیں  لباس پہناؤں  گااے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں  سارے گناہوں  کو بخشتا ہوں  تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں  تمہیں  بخش دوں  گا،

یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا،

اے میرے بندو!تم میرانقصان نہیں  کرسکتے اورنہ مجھے فائدہ پہنچاسکتے ہو،اے میرے بندو!اگرتمہارے اگلے اورپچھلےتمام انسان اورجنات سب ایسے ہوجائیں  جیسے تمہارا بڑاپرہیزگارشخص تومیری سلطنت میں  کوئی قوت واضافہ نہیں  ہوجائے گا، اے میرے بندو!اور اگرتمہارے اگلے اورپچھلے تمام آدمی اورجنات سب ایسے ہوجائیں  جیسے تمہارا بڑابدکارشخص تو میری بادشاہی میں  کوئی کمی واقع نہیں  ہو جائے گی۔[17]

اللہ تعالیٰ بھلائیوں  کی قدرفرماتااورانہیں  بڑھاتاہےاس لئے وہ اپنی رحمت سے تمہاری ایک ایک نیکی پرسات سو گنابلکہ اس سے بھی زیادہ اجروثواب دے گا ، جیسے فرمایا

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ ۔۔۔    ۝۱۶ [18]

ترجمہ:جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۔۔۔  ۝۸۴  [19]

ترجمہ:جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے۔

اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [20]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں  کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہےاو ر پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔

اللہ اپنے فضل وکرم سےتمہاری امیدیں  برلائے گا،وہ تمہیں  اس دنیامیں  بھی عزت وسربلندی ، رعب ودبدبہ اوروقار عطا فرمائے گا اورکیونکہ نیکیاں  برائیوں  کومٹادیتی ہیں ۔

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ یُبَدِّلُ اللہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۷۰ [21]

ترجمہ:سوائے ان لوگوں  کے جو توبہ کریں  اور ایمان لائیں  اور نیک کام کریں  ایسے لوگوں  کے گناہوں  کو اللہ تعالیٰ نیکیوں  سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔

اس لئے آخرت میں  بھی تمہاری بشری کمزوریوں  سے سرزدگناہوں سے درگزرفرمائے گا،اللہ کی رضاوخوشنودی تمہارے حصے میں  آئے گی اورجنت کی لازوال دائمی نعمتوں  کے تم ہی وارث بنوگے۔

وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا ۖ وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِی مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصَّالِحِینَ ‎﴿٩﴾ (العنکبوت)
’’ ہم ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہےہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے، تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا، اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے انہیںاپنے نیک بندوں میں شمار کرلوں گا۔‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت اسلام پرکئی نوجوان بھی مسلمان ہوگئے تھے ان کوایک دھوکادے کربہکانے کی کوشش کی گئی کہ ماں  باپ کے حقوق اولادپربے حدوحساب ہیں  اس لئے اپنے آباؤ اجدادسے بغاوت کرکے والدین کواذیت نہیں  دیناچاہیے،ایسے ہی نوجوانوں  میں  اٹھارہ ،انیس سال کے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  بھی تھے ،ان کی والدہ حمنہ بنت سفیان بن امیہ (ابوسفیان کی بھتیجی)کوجب علم ہواکہ اس کابیٹامسلمان ہوگیاہے تواس نے قسم کھائی اور کہا

أَنْ لَا تُكَلِّمَهُ أَبَدًا حَتَّى یَكْفُرَ بِدِینِهِ، وَلَا تَأْكُلَ وَلَا تَشْرَبَ،  زَعَمْتَ أَنَّ اللهَ وَصَّاكَ بِوَالِدَیْكَ، وَأَنَا أُمُّكَ، وَأَنَا آمُرُكَ بِهَذَا مَكَثَتْ ثَلَاثًا حَتَّى غُشِیَ عَلَیْهَا مِنَ الْجَهْدِفَقَامَ ابْنٌ لَهَا یُقَالُ لَهُ عُمَارَةُ، فَسَقَاهَافَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَى سَعْدٍ

میں  تم سے کبھی بات نہیں  کروں  گی جب تک تواپنادین (اسلام)چھوڑکراپنے آباؤ اجدادکے دین پرپلٹ کر نہیں  آؤ گےمیں  اس وقت تک نہ کھاؤ ں  گی نہ کچھ پیوں  گی،اللہ نے تمہاری کتاب میں حکم دیاہے کہ اپنے قول وفعل میں والدین کی نافرمانی نہ کرو اورنہ اس کے ساتھ براسلوک کروبلکہ ان کی خدمت اورادب واحترام کرومیں  تمہاری ماں  ہوں  اور تمہیں  حکم دیتی ہوں  کہ اپنے آباؤ اجداد کے دین کی طرف پلٹ آؤ ،چنانچہ اس نے یہی کیا اورتین دن تک یوں  ہی نہ کھایانہ پیایہاں  تک کہ اس کوغش آگیاآخراس کا بیٹاجس کانام عمارہ تھاکھڑاہوااوراس کاپانی پلایا،وہ سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کوبددعاکرنے لگی۔[22]

ماں  کی یہ بات سن کر سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  بہت پریشان ہوئے اورسیدکونین  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  آکرتمام ماجراکہہ سنایااس پرآیت نازل ہوئی کہ بیشک مخلوقات میں  والدین کاحق سب سے بڑھ کر ہے لیکن والدین کی خاطردین حق کوترک مت کرنا،البتہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعدان کی جائزباتوں  میں  ان کی اطاعت کرو،ان سےعزت واحترام کے ساتھ کلام کرو،محبت اوررحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہو،ان کی مالی وجسمانی خدمت کرو،جیسے فرمایا

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ۝۲۴ۭ [23]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ، اگر تمہارے پاس ان میں  سے کوئی ایک یا دونوں  بوڑھے ہو کر رہیں  تو انہیں  اُف تک نہ کہو نہ انہیں  جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ (شریفانہ) بات کرواور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو۔

لیکن اگروہ دونوں  اپنا بھر پور زورلگاکر اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک پر مجبور کریں  جبکہ ان کے پاس شرک کی صحت پرکوئی دلیل نہیں  ہے تویہ بات کسی صورت بھی قابل قبول نہ کرو،سورہ لقمان میں  اس مضمون کوپورے زورکے ساتھ دوہرایاگیا

وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۔۔۔۝۰۝۱۵ [24]

ترجمہ:لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ  ڈالیں  کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں  جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان، دنیا میں  ان کے ساتھ نیک برتاؤ  کرتا رہ۔

عَنْ مُحَمَّدٍ، أَنَّ زِیَادًا اسْتَعْمَلَ الْحَكَمَ بْنَ عَمْرٍو الْغِفَارِیَّ عَلَى خُرَاسَانَ قَالَ: فَجَعَلَ عِمْرَانُ یَتَمَنَّاهُ فَلَقِیَهُ بِالْبَابِ فَقَالَ: لَقَدْ كَانَ یُعْجِبُنِی أَنْ أَلْقَاكَ. هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا طَاعَةَ فِی مَعْصِیَةِ اللَّهِ ؟ قَالَ الْحَكَمُ: نَعَمْ. قَالَ: فَكَبَّرَ عِمْرَانُ

عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےزیاد نے حکم بن عمرو غفاری  رضی اللہ عنہ کو خراسان کا گورنر مقرر کر دیا، عمران  رضی اللہ عنہ کو ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ ان سے گھر کے دروازے پر ملے اور کہا کہ مجھے آپ سے ملنے کی خواہش تھی کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں  کسی مخلوق کی اطاعت نہیں  ہے؟ حکم  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا جی ہاں !   اس پر عمران  رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا۔[25]

اگرتم نے ان کے دباؤ  میں  آکراللہ کی ذات وصفات وافعال میں  کسی کو شریک کرلیاجواللہ تعالیٰ پرایک تہمت ہے ،ظلم عظیم ہے تو پھریادرکھوہماری طرف ہی تمہیں  پلٹ کرآنا ہے وہاں  ہرایک کی بازپرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیادپرہوگی ،اگروالدین نے اولاد کو گمراہ کیاہوگاتووہ پکڑے جائیں  گے اوراگراولادنے والدین کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تواسے سزاملے گی ،اوراگراولادنے راہ راست اختیارکی اوروالدین کے جائزحقوق اداکرنے میں  کوتاہی نہیں  کی تواپنی عبادت اوروالدین کی اطاعت کرنے کابھرپور بدلہ دوں  گا،ایمان والوں  اورنیک اعمال کرنے والوں  کواپنے صالحہ بندوں  کے ساتھ ملا دوں  گا،لیکن والدین نے صرف اس قصور پر اسے ستایاکہ اس نے گمراہی میں  ان کا ساتھ کیوں  نہ دیاتووہ اللہ کے مواخذے سے نہ بچ سکیں  گے،اور جو لوگ دعوت حقہ پر غیر متزلزل ایمان لائے ہوں  گے اور جنہوں  نے اعمال صالحہ اختیار کیے ہوں  گے ان کو ہم ضرور صالحین میں  داخل کریں  گے ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِیَ فِی اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَیَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَیْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِی صُدُورِ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٠﴾‏ وَلَیَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِینَ ‎﴿١١﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِیلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَایَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِینَ مِنْ خَطَایَاهُمْ مِنْ شَیْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَیُسْأَلُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَمَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿١٣﴾ (العنکبوت)
’’ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لتے ہیں، ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں ،کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ دانا نہیں ہے ؟ جو لوگ ایمان لائے انہیں بھی ظاہر کر کے رہے گا اور منافقوں کو بھی ظاہر کر کے رہے گاکافروں نے ایمان والوں سے کہا کہ تم ہماری راہ کی تابعداری کرو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گےحالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والےیہ تو محض جھوٹے ہیں، البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی، اور جو کچھ افترا پردازیاں کر رہے ہیں ان سب کی بابت ان سے باز پرس کی جائے گی۔‘‘

اہل باطل کاایک فریب :

منافق ہمیشہ اپنے آپ کواہل ایمان کے زمرہ میں  شامل کرنے کی کوشش کرتاہے،اوراپنے ایمان کاذکراس طرح کرتاہے کہ گویاوہ بھی ویساہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں  ، فرمایالوگوں  میں  سے کوئی ایسا ہے جو زبانی دعویٰ کرتاہے کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک پراوراس کی نازل کردہ شریعت پرایمان لائے ، مگراس کے ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ کی راہ میں  اس پرکوئی مشکل آن پڑتی ہے توکفارکی دھمکیوں ،ظلم وستم اورقیدوبند کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتاہے،اوران تکالیف اورمصائب کی وجہ سے ایمان پر ثابت قدم رہنے کے بجائےاس کاایمان متزلزل ہوجاتا ہے اوروہ گھبراکرایمان اورنیکی کوچھوڑکرکفارکے ساتھ جاملتاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فِتْنَتُهُ أَنْ یَرْتَدَّ عَنْ دِینِ اللَّهِ إِذَا أُوذِیَ فِی اللَّهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں اس کی آزمائش یہ ہے کہ جب اسے اللہ کے رستے میں  کوئی ایذاپہنچتی ہے تووہ دین سے مرتد ہو جاتا ہے۔ [26]

اب اگر دین کی خاطرسردھڑکی بازی لگا دینے والوں  کواللہ تعالیٰ کی طرف سےفتح وغلبہ نصیب ہوجائے تو یہی شخص فتح کے ثمرات میں  حصہ بٹانے کے لئے آجائے گااور مسلمانوں  سے کہے گا کہ میں  تو تمہارا دینی بھائی ہوں اورتمہاری کامیابی وکامرانی کے لئے بارگاہ الٰہی میں  گڑگڑاتا رہا ہوں ،میری نگاہ میں  تمہاری جانفشانیوں  اورقربانیوں  کی بڑی قدرومنزلت ہے ، ایسے لوگ ان لوگوں  کی صنف سے تعلق رکھتے ہیں  جن کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللہَ عَلٰی حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۝۱۱یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَضُرُّہٗ وَمَا لَا یَنْفَعُہٗ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ۝۱۲ۚ [27]

ترجمہ:اور لوگوں  میں  کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیااس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ،یہ ہے صریح خسارہ،پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو نہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں  نہ فائدہ، یہ ہے گمراہی کی انتہا۔

الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ۝۰ۡۖ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔۔۔  ۝۱۴۱ۧ [28]

ترجمہ:یہ منافق تمہارے معاملے میں  انتظار کر رہے ہیں  (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں  گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اگر کافروں  کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں  گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں  سے بچایا؟ ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضَعْفِ الْیَقِینِ أَنْ تُرْضِیَ النَّاسَ بِسَخَطِ اللهِ، وَأَنْ تَحْمَدَهُمْ عَلَى رِزْقِ اللهِ، وَأَنْ تَذِمَّهُمْ عَلَى مَا لَمْ یُؤْتِكَ اللهُ إِنَّ رِزْقَ اللهِ لَا یَجُرُّهُ حِرْصُ حَرِیصٍ، وَلَا یَرُدُّهُ كُرْهُ كَارِهٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بلاشبہ یہ(ایمان اوراللہ پر)یقین کی کمزوری کی علامات ہیں  کہ تواللہ کی ناراضی مول لے کرلوگوں  کوخوش کرے اور اللہ نے جورزق لوگوں  کودے رکھاہے اس پرتوان کی مدح وستائش کرے   اورجورزق اللہ نے(لوگوں  کودیاہے لیکن)تجھے نہیں  دیااس پرتوان کی مذمت کرے،یقینااللہ تعالیٰ کے رزق کونہ کسی حریص کھینچ کرلاسکتاہے اورنہ کسی ناپسندکرنے والے کی ناپسندیدگی اسے روک سکتی ہے۔[29]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:من التمس رضَا اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِیَ الِلَّهِ عَنْهُ وَأَرْضَى النَّاسَ عَنْهُ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ الله سخط الله عَلَیْهِ وأسخط النَّاس عَلَیْهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص لوگوں  کوناراض کرکے اللہ تعالیٰ کوراضی رکھے اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے اورلوگوں  کوبھی اس سے راضی رکھتاہے   اورجوشخص اللہ تعالیٰ کوناراض کرکے لوگوں  کی رضاکاطالب ہواللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوجاتاہے اورلوگوں  کوبھی اس سے ناراض کردیتاہے ۔[30]

گوتم لوگ زبان سے مسلمانوں  کاساتھی ہوناظاہرکرتے ہومگرکیااللہ علام الغیوب کوجودلوں  میں  چھپے بھیدجانتاہےلوگوں  کےدلوں  کا حال بخوبی معلوم نہیں  ہے؟جیسے فرمایا

 اِنَّ اللهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَلِـیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۳۸ [31]

ترجمہ:بے شک اللہ آسمانوں  اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں  کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [32]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴ [33]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں  کی ہر چیز کا اسے علم ہےجو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں  کا حال تک جانتا ہے۔

اور اللہ توتمہیں  خوشی اورتکالیف دے کر ضرورآزمائے گاتاکہ نیک وبداور مومن ومفادپرست میں  تمیزہوجائے اورمخلص مومنوں  کے درجات بلندکیے جائیں جیسے فرمایا

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ۝۰ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ۝۳۱ [34]

ترجمہ:ہم ضرور تم لوگوں  کو آزمائش میں  ڈالیں  گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں  اور دیکھ لیں  کہ تم میں  مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں ۔

غزوہ احدکے بعدجس میں  مسلمان اختیاروامتحان کی بھٹی سے گزارے گئے،فرمایا

مَا كَانَ اللهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔۔۔۝۰۝۱۷۹ [35]

ترجمہ:اللہ مومنوں  کو اس حالت میں  ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں  تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو وہ پاک لوگوں  کو ناپاک لوگوں  سے الگ کر کے رہے گا۔

جب اہل ایمان کی تعدادروزافزوں  تھی تو کفارومشرکین کمزوراورضعیف الاعتقادلوگوں  کوراہ راست سے بہکانے کے لئے کہتے ہیں  کہ اول توحیات بعدالموت ،حشرونشر اور حساب کتاب کی یہ سب باتیں  ایک ڈھکوسلےسے زیادہ نہیں  ہیں لیکن اگربالفرض محال کوئی دوسری زندگی ہے بھی اوراس میں کوئی بازپرس ہونی ہے تو تمہاری خطاؤ ں ،گناہوں  کو ہم اپنی گردنوں  پراٹھا لیں  گے اور جوعذاب ہوگاوہ ہم بھگت لیں  گےاس لئے ہماری بات مان لواوراس نئے دین کویااس کے کچھ حصے کوچھوڑکر اپنے آباؤ اجدادکے دین کی طرف پلٹ آؤ ،اس فریب سے آگاہی کے لئےفرمایا قیامت کے روزوہ کسی کے گناہوں  میں  سے کچھ بھی اپنی گردنوں  پرنہیں اٹھائیں  گے اورنہ کسی کے جرم کی سزاکسی دوسرے ہی کودی جائے گی ، میدان محشرمیں  جہاں  جہنم اپنے غیض وغضب سے پھٹنے کوہوگی اوراس میں  سے ہولناک آوازیں  نکل رہی ہوں  گی۔

 تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۔۔۔۝۸ [36]

ترجمہ:شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔

اس عذاب کودیکھ کر تونفسا نفسی کایہ عالم ہوگا

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ۝۳۳ۡیَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭ لِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ  [37]

ترجمہ:آخر کار ! جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی  اس روز آدمی اپنے بھائی ،اپنی ماں  اور اپنے باپ سےاور اپنی بیوی اور اپنی اولادسے بھاگے گااِن میں  سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا۔

اس ہولناک روزہرشخص کواپنی پڑی ہوگی اس وقت کوئی کسی کاعذاب اپنی گردن پرنہیں  لے گا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔ ۝۱۸ [38]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

کوئی قریبی رشتہ داربھی ایک دوسرے کابوجھ نہیں  اٹھائے گا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۔۔۔۝۰۝۱۸ [39]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اُٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہو ۔

اورنہ کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو پوچھے گاکہ توکس حال میں  ہے۔

وَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا۝۱۰ۚۖ  [40]

ترجمہ:اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا ۔

اوریہ تواللہ کاہمیشہ سے پیغام رہاہے کہ قیامت کے روز کوئی شخص کسی کابوجھ نہیں  اٹھائے گا۔

اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى۝۳۶ۙوَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙاَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙ [41]

ترجمہ:کیا اُسے ان باتوں  کی کوئی خبر نہیں  پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں اور اس ابراہیم کے صحیفوں  میں  بیان ہوئی ہیں  جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟یہ کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اُٹھائے گا۔

وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں  کہ ہم تمہارے گناہوں  کابوجھ اپنی گردنوں  پراٹھالیں  گے،ہاں ! یہ ائمہ کفراورداعیان ضلال قیامت کے روزاپنے بوجھوں  کے ساتھ ان لوگوں  کے گناہوں  کا بوجھ بھی اٹھائیں  گے جوان کی سعی وکاوش سے گمراہ ہوئے تھے، اسی مضمون کوایک مقام پریوں  فرمایا

لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا یَزِرُوْنَ۝۲۵ۧ [42]

ترجمہ:یہ باتیں  وہ اس لیے کرتے ہیں  کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں  اور ساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں  کے بوجھ بھی سمیٹیں  جنہیں  یہ بربنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں ۔

وہاں  تویہ عالم ہوگاکہ لوگ اپنی جان بچانے کے لئے کچھ بھی فدیہ میں  دینے کوتیارہوں  گے مگرکوئی فدیہ قبول نہیں  کیا جائے گا، دیکھو ! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو راہ حق کی دعوت دے اسے اس قدرثواب ہے جس قدراس کی اتباع کرنے والوں  کوہوگاان اتباع کرنے والوں  میں  سے کسی کے ثواب میں  کوئی کمی نہیں  ہوگی،اورجس نے کسی گمراہی کی دعوت دی تواسے اس قدرگناہ ہوگاجس قدراس کی پیروی کرنے والوں  کوہوگااس وجہ سے ان کے گناہوں  میں  کوئی کمی نہ ہوگی۔[43]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ القَتْلَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایازمین پرجتنی خونریزیاں  ہوتی ہیں  آدم  علیہ السلام کا لڑکا جس نے اپنے بھائی کوناحق قتل کردیاتھااس پراس خون کاوبال پڑتا ہے کیونکہ قتل ناحق کی بری رسم اسی نے قائم کی تھی۔[44]

اورروزقیامت یقیناً ان سے اس افترا پردازی پرکہ ہم تمہارے گناہوں  کابوجھ اٹھالیں  گے اوراسی طرح کی دوسری چالبازیوں  کی بابت باز پرس کی جائیگی جو وہ کرتے رہے ہیں ،

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَلَّغَ مَا أُرْسِلَ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: إِیَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى یُقْسِمُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیَقُولُ: وَعِزَّتِی لَا یَحُوزُنِی الْیَوْمَ ظُلْمٌ، ثُمَّ یُنَادِی مُنَادٍ فَیَقُولُ: أَیْنَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ؟ فَیَأْتِی تَتْبَعُهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالُ الْجِبَالِ فَیُشْخِصُ النَّاسُ إِلَیْهَا أَبْصَارَهُمْ حَتَّى یَقُومَ بَیْنَ یَدَیِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ یَأْمُرُ الْمُنَادِی فَیُنَادِی مَنْ كَانَتْ لَهُ تَبَاعَةٌ أَوْ ظُلَامَةٌ عِنْدَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، فَهَلُمَّ فَیُقْبِلُونَ حَتَّى یَجْتَمِعُوا قِیَامًا بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمَنِ، فَیَقُولُ  الرَّحْمَنُ: اقْضُوا عَنْ عَبْدِی فَیَقُولُونَ: كَیْفَ نَقْضِی عَنْهُ؟ فَیَقُولُ لَهُمْ: خُذُوا لَهُمْ مِنْ حَسَنَاتِهِ فَلَا یَزَالُونَ یَأْخُذُونَ مِنْهَا حَتَّى لَا یَبْقَى لَهُ حَسَنَةٌ،

ابوامامہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ سب کچھ پہنچادیاجس کے ساتھ آپ کومبعوث فرمایاگیاتھافرمایااپنے آپ کوظلم سے بچاؤ  بے شک اللہ تعالیٰ روزقیامت قسم کھائے گاچنانچہ ارشادفرمائے گامجھے اپنی عزت (وجلال)کی قسم !آج ظلم مجھ سے بچ نہ سکے گا،پھرایک اعلان کرنے والایہ اعلان کرے گاکہ فلاں  بن فلاں  کہاں  ہے؟ وہ آئے گا تو اس کے پیچھے پہاڑوں  جیسی نیکیاں  آرہی ہوں  گی،لوگ آنکھیں  اٹھااٹھاکر ان کی طرف دیکھیں  گے حتی کہ وہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑاہوجائے گاتووہ منادی کاحکم دے گااوریہ اعلان کرے گاکہ جس کافلاں  بن فلاں  پرکوئی حق ہے یااس نے کسی پرظلم کیاہے تووہ آجائے،لوگ آکرجمع ہوتے جائیں  گے اوررحمان عزوجل کے سامنے کھڑے ہوجائیں  گے،رحمان فرمائے گا میرے بندے کی طرف سے اداکردو،وہ کہیں  گے کہ ہم اس کی طرف سے کیسے اداکریں ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ اس کی نیکیاں  لے کران کودے دو،(فرشتے)اس کی نیکیاں  لے کران(حق داروں )کودیناشروع کردیں  گے حتی کہ اس کی نیکیاں  نہ بچیں  گی،

وَقَدْ بَقِی مِنْ أَصْحَابِ الظُّلَامَاتِ، فَیَقُولُ: اقْضُوا عَنْ عَبْدِی: فَیَقُولُونَ: كَیْفَ نَقْضِی عَنْهُ؟ فَیَقُولُ لَهُمْ: خُذُوا لَهُمْ مِنْ حَسَنَاتِهِ ، فَلَا یَزَالُونَ یَأْخُذُونَ مِنْهَا حَتَّى لَا یَبْقَى لَهُ حَسَنَةٌ، وَقَدْ بَقِیَ مِنْ أَصْحَابِ الظُّلَامَاتِ فَیَقُولُ: اقْضُوا عَنْ عَبْدِی، فَیَقُولُونَ: لَمْ یَبْقَ لَهُ حَسَنَةٌ، فَیَقُولُ: خُذُوا مِنْ سَیِّئَاتِهِمْ فَاحْمِلُوهَا عَلَیْهِ، ثُمَّ نَزَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهَذِهِ الْآیَةِ الْكَرِیمَةِ: {وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَیُسْأَلُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَمَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ} [45]

اللہ تعالیٰ فرمائے گامیرے بندے کی طرف سے اداکرو  توفرشتے کہیں  گے اس کی توایک نیکی بھی نہیں  بچی،اللہ تعالیٰ فرمائے گاان حق داروں  کے گناہ لے کراس پرڈال دو، پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَیُسْأَلُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَمَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ  ’’ہاں  ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں  گے اور اپنے بوجھوں  کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افترا پردازیوں  کی باز پرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘[46]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِینَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِی یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِیَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَیَأْتِی قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَیُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ یُقْضَى مَا عَلَیْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَایَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جانتے ہومفلس کون ہے؟ لوگوں  نے عرض کی ہم میں  مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ اوراسباب نہ ہو،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یقیناًمیری امت میں  سے مفلس وہ شخص ہے جوقیامت کے دن نمازاورروزے  اورزکواة سمیت حاضرہوگاجبکہ اس نے کسی کوگالی دی ہےکسی پربہتان باندھاہےکسی کامال کھایاہےکسی کاخون بہایاہےاورکسی کوماراہے، چنانچہ اس (مظلوم)کواس کی نیکیوں  میں  سے کچھ دیاجائے گااوراس کوبھی اس کی نیکیوں  میں  سے(دیاجائے گا)پس اگر اس عائدشدہ حقوق کی مکمل ادائیگی ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں  ختم ہوگئیں  توان (مظلومین)کے گناہ لے کراس پرڈال دیے جائیں  گےپھراسے آگ میں  پھینک دیاجائے گا۔[47]

‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِیهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِینَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿١٤﴾‏فَأَنْجَیْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِینَةِ وَجَعَلْنَاهَا آیَةً لِلْعَالَمِینَ ‎﴿١٥﴾‏ وَإِبْرَاهِیمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ۖ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١٦﴾‏ إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا یَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿١٨﴾‏ (العنکبوت)
’’ اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے، پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم، پھر ہم نے انہیں اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس واقعہ کو ہم نے تمام جہان کے لیے عبرت کا نشان بنادیا، اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے، تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو ،سنو ! جن جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے،اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے، رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے۔‘‘

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حوصلہ افزائی:

پھر نوح   علیہ السلام  اور ابراہیم  علیہ السلام کاحوالہ دے کرفرمایاہم نے اپنے بندے اوررسول نوح   علیہ السلام کوان کی قوم میں  مبعوث فرمایاجوتمہاری طرح بے شمارچھوٹے بڑے معبودان باطلہ کی پرستش میں  مبتلا تھے ،نبوت پرسرفرازہونے کے بعدنوح   علیہ السلام ساڑھے نوسو سال تک اپنی قوم کو صبروثبات اورعزم واستقلال کے ساتھ رات دن،کھلے اورچھپے دعوت توحیددیتے رہے ، اس دوران وہ انہیں  مسلسل ایمان لانے پراللہ کی خوشنودی اورجنت کی لازوال اوردائمی نعمتوں  کی خوشخبریاں  اورانکارپرجہنم کے المناک عذاب کی وعیدسناتے رہے ، مگر اتنی طویل مدت تک قوم کے شدائد برداشت کرنے کے باوجودوہ اپنی قوم کودعوت دینے سے اکتائے اورنہ ان کی خیرخواہی سے بازآئے ، مگر ان کی قوم رشدوہدایت قبول کرنے کے بجائے اپنی سرکشی اورگمراہی میں  اوربڑھتی چلی گئی ،بالآخرنوح   علیہ السلام نےبے انتہاصبر،حلم اورتحمل کے باوجودان الفاظ میں  بددعاکی۔

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷  [48]

ترجمہ:اور نوح نے دعا کی میرے رب ! ان کافروں  میں  سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑاگر تو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں  کو گمراہ کریں  گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔

اوراللہ علام الغیوب نے بھی توثیق فرمائی۔

 وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ۔۔۔۝۳۶ۚۖ [49]

ترجمہ:نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں  سے جو لوگ ایمان لاچکے بس وہ لاچکےاب کوئی ماننے والا نہیں  ہے ۔

جس کانتیجہ یہ ہواکہ اللہ نے اپنے نبی اور چند اہل ایمان کواپنے فضل وکرم سے سفینہ نوح کے ذریعہ سے بچالیااور دعوت حق کی تکذیب کرنے والوں کوان کے جرم کی سزامیں  غرق کرکے دنیاکے لئے نشان عبرت بنادیا،جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے

حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ۝۰ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ۝۰ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ۝۴۰ [50]

ترجمہ:یہاں  تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ہر قسم کے جانوروں  کا ایک ایک جوڑا کشتی میں  رکھ لو اپنے گھر والوں  کو بھی،سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں  سوار کرا دو اور ان لوگوں  کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔

وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّــتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۴۱ۙوَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ۝۴۲  [51]

ترجمہ:ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں  سوار کر دیا اور پھر اِن کے لیے ویسی ہی کشتیاں  اور پیدا کیں  جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔

اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِ۝۱۱ۙلِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِیَهَآ اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ۝۱۲  [52]

ترجمہ:جب پانی کا طوفان حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں  سوار کر دیا تھاتاکہ اس واقعہ کو تمہارے لیے ایک سبق آموز یادگار بنا دیں  اور یاد رکھنے والے کان اس کی یاد محفوظ رکھیں ۔

تواے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ اپنی قوم کی تکذیب پردل رنجیدہ نہ کریں ہدایت وضلالت اللہ کے ہاتھ میں  ہے۔

اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۝۵۶ [53]

ترجمہ: اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں  دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں  ۔

جن لوگوں  کے مقدرمیں  جہنم کاایندھن بننالکھ دیاگیاہے وہ کوئی بھی نشانی دیکھ لیں انہیں  ایمان نصیب نہیں  ہوگا ،جیسے فرمایا

وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [54]

ترجمہ:ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ بھی ایمان لا کر نہیں  دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں ۔

جس طرح نوح   علیہ السلام کواوران کے پیروکاروں  کونجات ملی تھی اوران کی تکذیب کرنے والے ہلاک ہوگئے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائیدآپ ہی کوحاصل ہوگی ،اور آخرمیں  غلبہ آپ ہی کوملے گااورآپ کے مخالفین ذلیل وخوار ہوجائیں  گے،پھراللہ تعالیٰ نے امام الموحدین ابراہیم خلیل اللہ کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایاانہوں  نے بھی اپنی قوم کویہی بنیادی دعوت دی تھی کہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے ڈرواور معبودان باطلہ کی پرستش سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو،تمہارے ان معبودوں  کاوجود ایک جھوٹ کے سواکچھ نہیں ہے، یہ تو سونے چاندی ،پیتل اورمٹی پتھر کے چندبے جان ٹکڑے ہیں  جنہیں  تم اپنی خواہش کے مطابق تراش کرایک خاص شکل وصورت بناتے ہو ،پھر انہیں  خدائی اختیارات وصفات سونپ کران کی عبادت اورتمسک کے لئے جھوٹے احکام گھڑتے ہو،پھراپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ان بے جان بتوں  سے امیدیں  وابستہ کرتے ہواور انہیں  حاجت روااورمشکل کشاباورکرلیتے ہو،حالانکہ یہ بت نہ تو دیکھ سکتے ہیں  کہ تمہاری حالت زار کامشاہدہ کرسکیں  ،یہ نہ تو تمہاری پکارکوسن سکتے ہیں  ،نہ ہی تمہیں  نفع یانقصان پہنچانے پرقدرت رکھتے ہیں  اورنہ ہی تمہاری روزی کے اسباب ووسائل میں  سے کسی بھی چیز کےمالک ہیں ، نہ یہ آسمان سے بارش برساسکتے ہیں ،نہ زمین میں  درخت اگاسکتے ہیں  اورنہ سورج کی حرارت پہنچاسکتے ہیں  اورنہ تمہیں  وہ صلاحیتیں  دے سکتے ہیں  جنہیں  بروئے کارلاکرتم قدرت کی ان چیزوں  سے فیض یاب ہوتے ہو تو یہ بے جان خوبصورت ٹکڑے تمہارے روزی رساں  کیسے ہوسکتے ہیں ،مشکلات ومصائب میں  تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں ، اللہ ہی اپنی تمام مخلوقات کو رزق دینے والاہے اورہرمخلوق اللہ کاشکربجالاتی اورحمدبیان کرتی ہے ،اللہ نے تمہیں  تمام مخلوقات پرفوقیت عطافرمائی ہے جب تم بھی اس کارزق کھاتے ہوتواسی کی بےشمار عطافرمائی ہوئی نعمتوں  کاشکرداکرواوراسی وحدہ لاشریک کی عبادت کرو،اور تمہارایہ عقیدہ کہ یہ بے شمار چھوٹے بڑے دیوی دیوتااللہ کے اوتاریااس کی اولاد ہیں ،اللہ کے مقرب خاص اوراس کے ہاں  شفیع ہیں  ،یہ شفادینے والے ہیں  ،اولادعطافرمانے والے ہیں  ، تمہاری پرورش کاسامان کرتے اوررزق مہیا کرنے والے ہیں ، زندگی اور موت کی قدرت رکھتے ہیں  اورتمہارامستقبل ان کی عنایات سے وابستہ ہے کہ اگریہ ناراض ہوگئے تو تمہاراخانہ خراب کر دیں  گے؟ اس طرح کی تمام باتیں  تم لوگوں  نے اپنے وہم وگمان سے خودتصنیف کرلی ہیں  حالانکہ ان میں  سے کوئی بھی نہ توخودمعبودیت کااستحقاق رکھتا ہے اورنہ ہی ان کوکوئی طاقت، قدرت واختیارحاصل ہے ، اس لئے اللہ کی نافرمانی سے ڈروجس کی طرف تم لوگوں  نے پلٹنا ہے ،اس دن وہ تمہیں  تمہارے اعمال کی جزادے گااورجوکچھ تم چھپاتے اورظاہرکرتے رہے ہواس کے بارے میں  تمہیں  آگاہ کرے گا،پس تم شرک کی حالت میں  اس کی بارگاہ میں  حاضرہونے سے بچواوراپنی ہرچھوٹی بڑی ضرورت اورمشکل میں  اللہ کی طرف رجوع کروجو سنتا دیکھتا اور جانتا ہے ،جس کے خزانوں  میں  کچھ کمی نہیں  ہے اوراپنی دائمی زندگی کی فکرکرو،اوراگرمیری دعوت توحید، موت کے بعددوبارہ زندگی اور حشرونشر کوجھٹلاتے ہوتویہ کوئی نئی بات نہیں  ، نوح   علیہ السلام ،ہود  علیہ السلام اور صالح   علیہ السلام  وغیرہ بھی یہی تعلیم لے کرآئے تھے اور ان کی قوموں  نے بھی تمہاری طرح اس دعوت کوجھٹلایاتھااب اپنے اردگرد ان بستیوں  کے آثار دیکھ لو کہ نبیوں  اوران کی تعلیمات کوجھٹلانے والوں  کاانجام کیا ہوا ، جیسے فرمایا

كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ۝۱۲ۙوَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ۝۱۳ۙ وَّاَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ۝۰ۭ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَـــقَّ وَعِیْدِ۝۱۴ [55]

ترجمہ:ان سے پہلے نوح علیہ السلام  کی قوم، اور اصحاب الرَّس ، اور ثمود،اور عاد، اور فرعون ، اور لوط کے بھائی،اور ایکہ والے، اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ، ہر ایک نے رسولوں  کو جھٹلایا اور آخر کار میری وعید ان پر چسپاں  ہو گئی۔

۔۔۔ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِــمِیْنَ۝۳۹  [56]

ترجمہ: اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں  پھر دیکھ لو ان ظالموں  کا کیا انجام ہوا ۔

أَوَلَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرٌ ‎﴿١٩﴾‏ قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢٠﴾ (العنکبوت)
’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعادہ کرے گا یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت ہی آسان ہے، کہہ دیجئے! کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداءً پیدائش کی، پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

توحیدورسالت کے اثبات کے بعدآخرت کااثبات کیاگیاجس کاکفارشدت سے انکارکرتے تھے ،فرمایا تمہیں  پہلی مرتبہ پیداکرنے والابھی وہی اللہ وحدہ لاشریک ہے جب سرے سے تمہارا وجود ہی نہیں  تھا ،جیسے فرمایا

اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَـیْـــــًٔـا۝۶۷ [57]

ترجمہ:کیا انسان کو یاد نہیں  آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں  جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا ؟۔

ہَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱ [58]

ترجمہ:کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟۔

پھرتم دیکھنے ،سننے اورسمجھنے والے بن گئے،جیسے فرمایا

وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـیْـــًٔـا۝۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ۝۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ [59]

ترجمہ:اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں  کے پیٹوں  سے نکالا اس حالت میں  کہ تم کچھ نہ جانتے تھے ،اس نے تمہیں  کان دیے ، آنکھیں  دیں اور سوچنے والے دل دیے اس لیے کہ تم شکر گزار بنو ۔

 وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ [60]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں  سننے اور دیکھنے کی قوتیں  دیں  اور سوچنے کو دل دیے۔

مگراللہ کی بے شمارنعمتوں  کے باوجود تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۹ [61]

ترجمہ:پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیے ، آنکھیں  دیں  اور دل دیے، تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔

قُلْ ہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۲۳ [62]

ترجمہ:ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں  دیں  اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو ۔

اورپھرجب تم مرکرمٹی میں  مل جاؤ گے ،بظاہرتمہارانام ونشان تک مٹ جائے گاتب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں  دوبارہ زندہ فرمائے گااورایساکرنااس کے لئے زیادہ آسان ہے ،یہ بات تمہیں  چاہے کتنی ہی مشکل لگے مگراللہ کے لئے یہ بہت آسان ہے، اگرتمہیں  ابتدائے تخلیق میں  کوئی شک وشبہ ہے توکائنات میں  پھیلی اللہ کی بے شمارنشانیوں  کودیکھو،اس زمین پرغوروتدبرکروکس طرح اللہ نے اسے فرش کی طرح بچھایا ہے ، اس میں  کس طرح رنگارنگ بلندوبالا پہاڑوں  کو میخوں  کی طرح نصب کیاہے ،جیسے فرمایا

وَاِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْ۝۱۹۪وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ۝۲۰۪ [63]

ترجمہ: ان پہاڑوں  کو نہیں  دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے ؟اور زمین کو نہیں  دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ؟ ۔

وسیع وعریض سرسبز وادیاں ،بہتے دریا اورسمندربنائے جس میں  تمہاری کشتیاں  چلتی ہیں ،اوراسی زمین سے انواع واقسام کی روزیاں  اورطرح طرح کے پھل پیداکیے ،کیایہ سب چیزیں  اس بات پردلالت نہیں  کرتیں  کہ انہیں  بنایاگیاہے اوران کاکوئی بنانے والابھی ہے،جیسے فرمایا

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ۝۳۵ۭ [64]

ترجمہ: کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں ؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں ؟ ۔

جب اللہ پہلی باربغیرکسی نمونے اورنقشے کے یہ سب کچھ تخلیق کرسکتاہے تواتنا بڑا صانع وقدیراللہ کیاکچھ نہیں  کرسکتا،کیااس کے لئے جن وانس کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل ہےبیشک اللہ تعالیٰ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے ،اللہ کی قدرت کسی چیزسے عاجزنہیں ،جس طرح وہ تخلیق کی ابتدا پرقادرہے اسی طرح تخلیق کے اعادہ پراس کا قادر ہونا زیادہ اولیٰ اورزیادہ لائق ہے،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ  [65]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔

اِنَّہٗ ہُوَیُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ۝۱۳ۚ [66]

ترجمہ:وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

اس لئے اس حقیقت کوتسلیم کرواورآخرت کے حساب وکتاب کی فکرکرو۔

یُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَیَرْحَمُ مَنْ یَشَاءُ ۖ وَإِلَیْهِ تُقْلَبُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿٢٢﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَٰئِكَ یَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِی وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٢٣﴾‏فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ (العنکبوت)
’’جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے، سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تم نہ تو زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے نہ مددگار، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وہ میری رحمت سے ناامید ہوجائیں اور ان لیے دردناک عذاب ہے،ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اسے مار ڈالو یا اسے جلا دو، آخرش اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا، اس میں ایمان والے لوگوں کے لیے تو بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘

لوگو!اللہ وحدہ لاشریک ہی اس عظیم الشان کائنات کا اصل حاکم اورمتصرف ہے،وہ اپنی حکمت ومشیت سے جسے چاہے سزا دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے اس سے کوئی پوچھ نہیں  سکتا،یعنی وہ اکیلاہے جواطاعت کرنے والوں  کوثواب عطاکرتاہےاورانہیں  اپنی وسیع رحمت کے سائے میں  لیتاہے اورنافرمانوں  کوعذاب دیتاہے،پھرایک وقت مقررہ پرتمہیں  اعمال کی جزاکے لئےاس کی بارگاہ میں  پیش کیاجائے گاجہاں  تم پراس کے عذاب یارحمت کے احکام جاری ہوں  گے،اس لئے اس دنیامیں  نیکیوں  کا اکتساب کر لوجواس کی رحمت کاسبب ہیں اوراس کی نافرمانیوں  سے دوررہوجواس کے عذاب کاباعث ہیں ،اوراے جھٹلانے والو!یہ نہ سمجھوکہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جاؤ گے،تم زمین کی گہری تہوں  میں  اترجاؤ یاآسمان کی بلندیوں  میں  پہنچ جاؤ مگرپھربھی تم اللہ کی گرفت سے بھاگ کرکہیں  نہیں  جاسکتے۔

 یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [67]

ترجمہ:اے گروہِ جِنّ و انس ! اگر تم زمین اور آسمانوں  کی سرحدوں  سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھونہیں  بھاگ سکتے اس کے لیے بڑا زور چاہیے ۔

اورمیدان محشرمیں تمہیں  اللہ مالک یوم الدین کے مواخذہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اورجہنم میں  جانے سے روکنے والاکوئی مدد گار نہیں  ہوگا،اللہ کی رحمت دنیامیں  عام ہے جس سے کافر اور مومن ،منافق اورمخلص اورنیک وبدسب یکساں  طورپر مستفید ہورہے ہیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۔۔۔  ۝۱۵۶ۚ [68]

ترجمہ: مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔

مگرجن لوگوں  نے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اوران کی لائی ہوئی کتابوں  کاانکارکیااوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش ہونے کوجھٹلایا اس روز وہ میری رحمت سے ناامیدہوں  گے ، یعنی ان کے حصے میں  رحمت الٰہی نہیں  آئے گی اور ان کے لیے جہنم کا درد ناک سزا ہے،اس مضمون کوایک مقام پریوں  بیان فر مایا

۔۔۔فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ [69]

ترجمہ: اور اُسے میں  ان لوگوں  کے حق میں  لکھوں  گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں  گے ، زکوٰة دیں  گے اور میری آیات پر ایمان لائیں  گے ۔

اللہ کی توحیداوراس کی قدرت وطاقت کو بیان کرنے کے بعدسلسلہ کلام پھرابراہیم  علیہ السلام کے قصہ کی طرف پھیرکرفرمایاکہ جب قوم ابراہیم  علیہ السلام  کے توحیداورآخرت کے اثبات میں  دیے معقول دلائل وبراہین کاکوئی جواب نہ دےسکی توانہوں  نے شقاوت کامظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیاکہ حق بات کہنے والی اس زبان کو کاٹ دیاجائےاورایسے ظالم شخص سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے قتل یا اسےجلا ڈالناچاہیےتاکہ ہراس شخص کوعبرت حاصل ہوجوہمارے معبودوں  کے ساتھ ایسی حرکت کرے، یعنی بدترین طریقے سے قتل کردو، وہ قدرت رکھنے والے اصحاب اقتدارتھےچنانچہ انہوں  نے آگ میں  ڈال دینے کافیصلہ کیا،اس سلسلہ میں  انہوں  نےبہت بڑاالاؤ  تیار کیااورابراہیم  علیہ السلام کواس میں پھینک دیا، جیسے فرمایا

قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَــحِیْمِ۝۹۷فَاَرَادُوْا بِہٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ۝۹۸ [70]

ترجمہ:انہوں  نے آپس میں  کہا اس کے لیے ایک الاؤ تیار کرو اور اسے دہکتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں  پھینک دو انہوں  نے اس کے خلاف ایک کارروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہی کو نیچا دکھا دیا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق آگ کو براہ راست حکم فرمایا

قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ۝۶۸قُلْنَا یٰنَارُ كُـوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ۝۶۹ۙ [71]

ترجمہ:انہوں  نے کہا جلا ڈالو اس کواور حمایت کرو اپنے خداؤ ں  کی اگر تمہیں  کچھ کرنا ہے،ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔

چنانچہ آگ گل وگلزار بن گئی اور اس طرح اللہ نے ابراہیم  علیہ السلام کو معجزانہ طریقہ سےآگ میں  جلنے سے بچا لیا ، یقیناً ایمان لانے والوں  کے لئے ابراہیم  علیہ السلام کے قصہ میں  عبرت کی بڑی نشانیاں  ہیں  ۔

وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ (العنکبوت)
’’ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے، تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے، اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘

اوراے اہل مکہ !آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعدابراہیم   علیہ السلام  نے جس کی ذریت ہونے پرتم فخرکرتے ہو، جن کی پیروی کاتم دعویٰ کرتے ہو،اس نےاپنی مشرک قوم سے کہاتھااس چندروزہ زندگی میں  بت پرستی تمہاری اجتماعیت،اتفاق اورآپس کی دوستی کی بنیادبن گئی ہے ،اگرتم ان کی پرستش کرنی چھوڑدوتوتمہاری قومیت اوردوستی کاشیرازہ بکھرجائے گامگر روزآخرت جب تمہارے ہاتھوں  میں  نامہ اعمال تھمایاجائے گااور تم جہنم کواپنے سامنے غیض وغضب کی حالت میں  دیکھوگے تومعاملہ اس کے برعکس ہوجائے گا، تمہارے باطل عقیدہ پرمبنی یہ رشتہ داریاں ، دوستیاں ،محبتیں ، نفرت ،دشمنی اور اختلاف میں  بدل جائیں  گی ،عقیدتوں  کی جگہ نفرت اوراتفاق کے بدلے اختلاف ہوجائے گا ، تمام عابداورمعبودایک دوسرے سے برات کااظہارکریں  گے ،جیسے فرمایا

 اَلْاَخِلَّاۗءُ یَوْمَىِٕذٍؚبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۝۶۷ۭۧ [72]

ترجمہ:وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں  گے۔

باپ ،بیٹا،شوہربیوی،پیراورمریدہرایک اپنی گمراہی کاذمہ دار دوسرے کوٹھیرائے گااور ایک دوسرے پر لعنت کرے گااوراللہ سے درخواست کرے گاکہ اے اللہ!دنیا میں  جب تیرے پیغمبرنے مجھے سیدھے راستے پرچلنے کی دعوت دی اس وقت اس شخص نے مجھے گمراہی میں  ڈالا اور میرے سیدھے راستے پرچلنے میں  مانع رہااس لئے اس کو دوہرا عذاب دے،جیسے فرمایا

۔۔۔كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۔۔۔ ۝۳۸ [73]

ترجمہ:اللہ فرمائے گا جاؤ  تم بھی اسی جہنم میں  چلے جاؤ  جس میں  تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہِ جن وانس جا چکے ہیں ، ہر گروہ جب جہنم میں  داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا د اخل ہوگا حتیٰ کہ جب سب وہاں  جمع ہو جائیں  گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گا کہ اے رب ! یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں  آگ کا دوہرا عذاب دے۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [74]

ترجمہ:اور کہیں  گے اے رب ہمارے ! ہم نے اپنے سرداروں  اور اپنے بڑوں  کی اطاعت کی اور انہوں  نے ہمیں  راہِ راست سے بے راہ کر دیااے رب ! ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔

اس وقت تمہارے یہ سارے معبودبھی تمہارے دشمن بن جائیں  گے اورتمہاری عبادت کے بھی منکرہوں  گے،جیسے فرمایا

وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [75]

ترجمہ:اور جب تمام اِنسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں  گے۔

پھرمشکل کی اس سخت گھڑی میں  تمہاری مددکرنے والااوراللہ سے سفارش کرنے والاکوئی نہیں  ہوگااورانجام کار عابدومعبوددونوں جہنم میں  داخل کردیئے جائیں گے ۔

فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّی مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّی ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢٦﴾‏ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَیْنَاهُ أَجْرَهُ فِی الدُّنْیَا ۖ وَإِنَّهُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِیلَ وَتَأْتُونَ فِی نَادِیكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ قَالَ رَبِّ انْصُرْنِی عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ (العنکبوت)
’’پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام ایمان لائے اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، وہ بڑا ہی غالب اور حکیم ہے، اور ہم نے انہیں (ابراہیم کو) اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کردی، اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ثواب دیا اور آخرت میں تو وہ صالح لوگوں میں سے ہے، اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم بدکاری پر اتر آئے ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا،کیا تم مردوں کے پاس بدفعلی کے لیے آتے ہو اور راستے بند کرتے ہو اور اپنی عام مجلسوں میں بےحیائیوں کا کام کرتے ہو؟ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا بس جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ، حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ پروردگار ! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما۔‘‘

جب ابراہیم  علیہ السلام آگ سے معجزانہ طورپرزندہ سلامت باہرنکل آئے تواس وقت اس وقت  اللہ تعالیٰ نے لوط   علیہ السلام  کے دل کوسیدھے راستے کی ہدایت بخشی اورآپ نعمت ایمان سے فیض یاب ہوئے،جب اپنے ملک میں  رہنامشکل ہوگیاتو ابراہیم نے کہامیں  اپنے رب کی خاطراس ملک کوچھوڑکر ہجرت کرتا ہوں  اب میرارب جہاں  مجھے لے جائے وہیں  چلا جاؤ ں  گا،وہ ہرچیز پرقدرت رکھتاہے اوراس کاہر فیصلہ حکمت پرمبنی ہوتاہے ،چنانچہ ابراہیم  علیہ السلام اوران کی اہلیہ سارہ اورلوط  علیہ السلام نے اپناوطن چھوڑدیا اس سرزمین(شام) کی طرف روانہ ہوئے جس میں   اللہ تعالیٰ نے برکتیں  رکھی ہیں ،اور ہم نے سارہ کے بطن سے اسماعیل  علیہ السلام کے بعداسے ہاجرہ کے بطن سےاسحاق   علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام  (جیسی اولاد) عنایت فرمائی ، جیسے فرمایا

فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۙ وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ۝۰ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا۝۴۹ [76]

ترجمہ:پس جب وہ ان لوگوں  سے اور ان کے معبودان غیر اللہ سے جدا ہوگیا تو ہم نے اس کو اسحاق  علیہ السلام اور یعقوب  علیہ السلام  جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا۔

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ۝۰ۭ وَیَعْقُوْبَ نَافِلَةً۝۰ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ۝۷۲ [77]

ترجمہ:اور ہم نے اسے اسحاق علیہ السلام  عطا کیا اور یعقوب علیہ السلام  اس پر مزیداور ہر ایک کو صالح بنایا۔

۔۔۔فَبَشَّرْنٰہَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱  [78]

ترجمہ:پھر ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔

اور اس کی نسل میں  نبوت اور کتاب رکھ دی ، اورڈھائی ہزارسال کے بعداسماعیل  علیہ السلام کی نسل سے محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوئے اوران پر قرآن جیسی جلیل القدرکتاب نازل ہوئی ،اللہ تعالیٰ نےابراہیم  علیہ السلام کو دنیا میں  سرفرازی عطا فرمائی کہ چارہزاربرس سے ہرمذہب کے لوگ چاہے عیسائی ہوں ،یہودی ہوں  ،مسلمان ہوں  یامشرکین سب ابراہیم  علیہ السلام کی عزت وتکریم کرتے اوربالاتفاق انہیں  اپناپیشوامانتے ہیں  اور آخرت میں  وہ یقیناًبلنددرجات کے حامل زمرئہ صالحین میں  سے ہوگا،جیسے فرمایا

وَاٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَـنَةً۝۰ۭ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۲۲ۭ [79]

ترجمہ:دنیا میں  اس کو بھلائی دی اور آخرت میں  وہ یقینا ً صالحین میں  سے ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ نےلوط  علیہ السلام کو اپنی قوم کی ہدایت کے لئے منصب رسالت پر سرفرازفرما کر اردن کی طرف روانہ کیاجوابراہیم  علیہ السلام  کی جائے ہجرت حبرون (موجودہ الخلیل )کے جنوب مشرق میں  چندمیل کے فاصلے پرتھایہ علاقہ نشیب میں  واقع تھااورحبرون کی پہاڑیوں  سے صاف نظرآتاہے اس کے قریب ہی ایک اورشہرعامورا بھی تھا ان کے چاربڑے شہرتھے جن میں  ایک کانام ضغریاضوغر تھاجوبحیرئہ مردارکے جنوبی کنارے پرتھاآجکل غوراصافی نامی قصبہ آبادہے،

أرسل الله لوطاً إلى المدائن الخسمن، وهی: سدوم، وعمورا، وأدموتا، وصاعورا، وصابورا

مسودی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نےلوط علیہ السلام کو مدین کے شہروں  سدوم،عمورا،ادموتا،صاعورا،اورصابوراکی طرف بھیجا۔ [80]

لوط علیہ السلام کی قوم مشرک تھی اردگرد کے دوسرے علاقوں  کی طرح یہ بھی بے شماراصنام بناکر ان کی مشرکانہ رسم ورواج،عبادت میں  ڈوبے ہوئے تھے ،انہوں  نے طاغوت کوہی اپنا الٰہ بنا رکھا تھا، دوسرے عیوب وفواحش کے علاوہ یہ لوگ طبعی زندگی کے عیش وآرام ولذت پرستی پر بری طرح فریفتہ تھے مگران کاکام جوبطورخاص  اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں  بیان کیاہے دنیاسے نرالا ، انوکھا،منفردہی تھا، ایساکام جوجانوروں  کوبھی شرمادے،  اللہ  تعالیٰ نے اپنی ہرمخلوق کاجوڑاجوڑابنایاہے اس طرح  اللہ تعالیٰ نے مردوعورت کو ایک دوسرے کے لئے بنایااس مقصدکے لئے ایک دوسرے کی طرف قدرتاً طبعی رجحان رکھا اس لئے نہیں  کہ بے شعور جانوروں  کی طرح زندگی گزاریں جس سے کنبوں  اور خاندانوں  میں  قتل وغارت اورزمین پر فسادبرپا ہوجائے بلکہ اس لئے کہ وہ باشعورمخلوق ہوتے ہوئے  اللہ کانام لے کرنکاح کریں  اور ایک کنبے کی بنیادرکھیں  ان کی اولادہواورنسل انسانی نشوونماپائے اوردونوں  مردوعورت جائزطریقہ پر پاکیزہ زندگی گزاریں ، مگرلوط   علیہ السلام  کی قوم جس طرح شرک میں  ڈوب کرعقل وشعورسے گرچکی تھی، اس طرح حس لطیف سے بھی بیگانہ ہوچکی تھی وہ لوگ عورتوں  کی طرف راغب ہونے کے بجائے خوبصورت لڑکوں  کی طرف دیوانہ وار مائل ہوتے اوراپنی مجلسوں  میں  سرعام ان سے اپنی جنسی تسکین حاصل کرتے، عورتوں  کوپوچھنے والاکوئی بھی نہ تھاجس سے انسانی نسل نشوونماہوتی، اپنی مجالس میں  انتہائی بے حیائی کے ساتھ بدکاریاں  کرتے تھے اس کے علاوہ روزمرہ زندگی میں  بھی سخت ظالم،دھوکاباز اوربدمعاملہ تھے ،کوئی مسافران کی بستیوں  سے بخیروخوبی نہیں  گزرسکتاتھا،مسافروں  کوسرعام لوٹ لیتے اوران کی فریادوں  ، التجاوں  کوٹھٹھوں  میں  اڑادیتے۔

لوط علیہ السلام  نے اپنی قوم کودل نشین پیرایہ میں ،شائستگی ،شرافت،معقولیت اورلطافت سے وعظ ونصیحت کی ،آپ نے قوم کوفرمایااے میری قوم !رب کی عظمت وقدرت کوپہچانوجورب اتنی بڑی کائنات کووجودمیں  لایا ہے، جس نے اپنی ہرمخلوق چاہے سورج ہویا چاند وستارے ،دریاہوں  یاسمندر،پہاڑہوں  یازمین ہوائیں  ہوں  یا برسات ،پھل ہوں  یا اجناس ،آگ اور انواع واقسام کے جانور،درندے، پرندے ،حشرات الارض ،نباتات وجمادات،سمندری مخلوقات ہیں  ،سب رب کے فرمان سے انحراف نہ کرتے ہوئے ایک مقررہ وقت تک لگے بندھے ضابطے اصول کے تحت کام کررہی ہیں  ،اوروہ رب جب تک چاہے گایہ مبنی برحکمت اوربامقصد نظام کائنات کام کرتارہے گا ان سب چیزوں  کو تمہارے لئے مسخرکردیاجس سے تم طرح طرح کے فائدے حاصل کرتے ہو ، اسی خالق کائنات نے تمہیں  زندگی دی اوروہی زندگی گزارنے کے لئے تمہاری ضروریات کے مطابق ہرطرح کاوافرسامان مہیافرماتاہے ،اسی نے بچپن کی ناتوانی کے بعدتمہیں  قوت وطاقت بہم پہنچائی،تمہیں  قوت گویائی بخشی ، زندگی کی راہوں  پرچلنے کے لئے تمہاری فطرت میں  نیک وبد کی پہچان رکھی۔

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ [81]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [82]

ترجمہ:اور دونوں  نمایاں  راستے اسے (نہیں ) دکھا دیے ؟۔

تاکہ تم جانوروں  کی طرح آنکھیں  بندکرکے نہیں  بلکہ باہوش وحواس اپنے عظمت والے خالق کوپہچان کرجس کاکوئی شریک یاہمسراورمقابل نہیں ،جس کی قدرت کے کرشموں  کی کوئی حدوحساب نہیں اسکی بندگی اورحمدو ستائش کرویہی تمہارامقصد تخلیق ہے ،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [83]

ترجمہ:میں  نے جن اور انسانوں  کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں  کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ۔

اب تم خود غوروتفکرکروکہ کیا کوئی بھی مخلوق اپنے خالق کی شریک یاہمسر ہوسکتی ہے جن پر اعتمادکرکے رب حقیقی کی صراط مستقیم پرچلنے سے انکار کردیا جائے،میرے بھائیو! صرف خالق ہی حمدوستائش کامستحق ہوتا ہے ،مخلوق کوحمدوستائش کا استحقاق کہاں  سے پہنچ گیا،مگرتم لوگ بغیرسوچے سمجھے اپنے مالک حقیقی کی روشن شاہراہ کوچھوڑ طاغوت کی بندگی کرتے ہو اورگمراہیوں  کی گھٹا گھپ اندھیری راہوں  میں  بھٹک رہے ہو، اور زندگی کے چندروزہ سانسوں پرہی خوش ہواورآخرت کاتمہیں  کوئی کھٹکا یا اندیشہ نہیں  جوہمیشہ کی زندگی ہے جس میں  تمہیں  عطاکیے ہوئے ثابت وسالم اعضاء ،تمہاری صحت مندی کی قوت ،مال ودولت ، اعمال الغرض ہرنعمت کاحساب دیناہوگا ، ان کومیزان پرتولاجائے گا اگر تمہارے نیک اعمال کاوزن بھاری ہواتویہ بہت بڑی کامیابی ہے، اللہ مالک یوم الدین تمہیں  انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  ہمیشہ کے لئے داخل فرما دے گا،اوراگروزن کم ہواتو تمہاراٹھکانا جہنم ہوگاجوبڑاہی براٹھکانا ہے ،جیسے فرمایا

 وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [84]

ترجمہ:اور وزن  اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں  مبتلا کرنے والے ہوں  گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ  [85]

ترجمہ:اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی لوگ ہوں  گے جنہوں  نے اپنے آپ کو گھاٹے میں  ڈال لیاوہ جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۶ۙفَہُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۸ۙفَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِیَہْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ  [86]

ترجمہ:پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں  گےوہ دل پسند عیش میں  ہوگااور جس کے پلڑے ہلکے ہوں  گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی،اور تمہیں  کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟بھڑکتی ہوئی آگ۔

اے میرے بھائیو! حق کوپہچانواوراپنے واضح دشمن ابلیس کی بندگی سے بازآ جاؤ جس نے تمہیں  ذکر الہٰی سے غافل کیاہواہے اورتمہارے عقائد بد کو مزین اورآراستہ کرکے دکھایاہواہے جس کی وجہ سے تم شیطانی احوال وامورکااظہارکرتے ہو،شیطان نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہی دعویٰ کیاتھاناں ،جیسے فرمایا

 لَّعَنَہُ اللہُ۝۰ۘ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۱۱۸ۙ وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا۝۱۱۹ۭ [87]

ترجمہ:جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں )جس نے اللہ سے کہا تھا کہ میں  تیرے بندوں  سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں  گا میں  انہیں  بہکاؤں  گامیں  انہیں  آرزوؤں  میں  الجھا دوں  گا میں  انہیں  حکم دوں  گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں  کے کان پھاڑیں  گے اور میں  انہیں  حکم دوں  گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں  ردوبدل کریں  گے ،اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں  پڑ گیا ۔

 قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۳۹ۙاِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۝۴۰ [88]

ترجمہ:وہ بولا میرے رب! جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں  زمین پر ان کے لیے دلفریبیاں  پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں  گاسوائے تیرے ان بندوں  کے جنہیں  تو نے ان میں  سے خالص کر لیا ہو۔

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [89]

ترجمہ:بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں  کی گھات میں  لگا رہوں  گا،آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

چنانچہ اپنے دعویٰ کے مطابق وہ یہی حربہ پہلی اقوام پربھی آزماتارہاہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے عذاب کے مستحق ہوئے،جیسے فرمایا

تَاللہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَہُوَوَلِیُّہُمُ الْیَوْمَ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۶۳ [90]

ترجمہ:اللہ کی قسم، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں  میں  ہم رسول بھیج چکے ہیں ( اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ)شیطان نے ان کے برے کرتوت انہیں  خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں  کی بات انہوں  نے مان کر نہ دی) وہی شیطان آج ان لوگوں  کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں ۔

لہذااپنے آباؤ اجدادکے جاری کردہ شرک ودہریت کے عقیدوں  سے توبہ کرلواوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرواوراس قادر مطلق سے ڈروجس کی پکڑبڑی شدید ہوتی ہے جس سے چھڑانے والاکوئی نہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ۝۱۲ۭ [91]

ترجمہ:درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

اوررب کی طرف جانے والی صراط مستقیم اختیار کرو، احکام خداوندی کے سامنے اپنے سر جھکا دو جن امورپرعمل کرنے کوکہاجائے وہ کرواور جس سے روک دیاجائے اس سے رک جاؤ ،سب چھوٹے بڑے معبودوں  کوچھوڑکراس کے لئے خشوع وخضوع اختیارکرو،اس کے سامنے اطاعت سے منحرف ہونے کے بجائے عبدیت کاملہ کا اظہار کرو، اپنی طاقت کے مطابق  اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرو اورراہ راست اختیار کرکےاللہ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرکے بخیروخوبی اپنی منزل پرپہنچ جاؤ اور اس دنیااوراخروی زندگی میں  رب کی نعمتوں  سے لطف اندوز ہو،اس کی رضاحاصل کرنے کے بعدپھرجتنی نیک نیتی اور خیرطلبی چاہو گے اتنی ہی اس کی مدد اور توفیق تمہارے شامل حال رہےگی، بھائیو!مجھے اپنے معبودوں  کے بارے میں  کچھ بتلاؤ  کیا تمہارے معبودوں  نے اس کائنات میں  کچھ بھی تخلیق کیاہے کہ وہ معبودکادرجہ پائیں  اور ان کی عبادت کی جائے،کیاان کو تمہاری زندگی یاموت پراختیارہے؟ کیایہ دنیاوی امورمیں  متصرف ہیں اوران کے اختیاریاقدرت میں  کچھ ہے کہ وہ تمہاری پکاراورآہ وبکا پر تمہیں  عنایت کر سکیں  ؟ کیا وہ تمہاراکسی قسم کا نفع یانقصان کر سکتے ہیں ؟ اوراگرتم پرکوئی مصیبت آجائے توکیایہ اسے کسی اورکی طرف پھیر سکتے ہیں ؟کیایہ تمہاری حالت سے باخبرہوکرتمہاری فریادوں  کوسن سکتے ہیں ؟ کیا یہ زمین وآسمان سے تمہارا رزق تمہیں  پہنچا سکتے ہیں  یامیرے رب نے تمہارے مقدر میں  جوکچھ لکھ دیاہے اسے روک سکتے ہیں ؟کیاتمہاری دنیاوآخرت میں  عزت وذلت ان کے قبضہ قدرت میں  ہے؟ جب ان سب صفات کی نفی کرتے ہوے تمہاری گردنیں  شرم سے جھک جاتی ہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کی ملکیت میں  منفرداوریکتاہے اوراس کے علاوہ کوئی ایک ذرہ برابرحق ملکیت نہیں  رکھتا، اللہ تعالیٰ ہی اپنی کمال مہربانی ولطف وکرم سے تمہارے کرتوتوں  کی وجہ سے آئی ہوئے مصائب ومشکلات کودورفرماتاہے ،پھرتم ایسے بودے معبودوں  کو ترک کیوں  نہیں  کردیتے ، اپنے معبودحقیقی پرایمان لاکراس سے بخشش ومغفرت کیوں  نہیں چاہتے ، اسی سے ہی دعاوالتجا کیوں  نہیں  کرتے؟ اے میری قوم !  اللہ  تعالیٰ کی دعوت پرفہم وفراست سے غوروفکرکرواس میں  تمہاری فلاح ہے، اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی زمین پر فسادبرپا مت کرو،رہزنی سے لوگوں  کا مال و متاع ظلم وجبر سے نہ چھینو، ایک دوسرے کامال دھوکہ، فراڈ، مکاری اور دغابازی سے نہ کھاؤ ،حرام سے طیب پیدانہیں  ہوتابلکہ حرام مال کااستعمال مزیدحرام ہی کو جنم دیتاہے اور روحانی ترقیوں  میں  رکاوٹ ڈالتاہے ، ایسے معاشرے جن میں  حرام وحلال کی تمیزمٹ جاتی ہے بالآخر مٹ جاتا ہے، اس لئے  اللہ تعالیٰ نے جوتمہارے مقدر میں  لکھ دیا ہے اسے ناجائز طرح سے لینے کے بجائے جائزطریقے سے حاصل کرو، تمہارے لئے وہی حلال ہے جوتمہاری محنت کی کمائی ہویاتمہارابھائی اپنی خوشی سے تمہیں  کچھ دے دے اوراس مال کو جائز جگہوں  پر خرچ کرکے رب کی رضا حاصل کرو ، گزشتہ تباہ شدہ اقوام سے عبرت حاصل کروجن کی طرف رب نے رحمت کی نظرکی ،اپنے رسول ان میں  معبوث فرمائے جنہوں  نے اپنی قوم میں  خیر خواہی کا حق اداکردیامگروہ لوگ اپنی مستی میں  مست رہے اوررب کوچھوڑکراپنی من مانی کرتے رہے ،پھران کا انجام تمہارے سامنے ہے ،اور یہ کیا راہ بدتم نے اختیارکی ہوئی ہے کہ فطرت کے ساتھ غداری اورخیانت کاارتکاب کرتے ہو،اپنے آپ کونسل اورخاندان کی خدمت سے نااہل بناتے ہو،  اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر تمہاری شہوانی خواہش کے لئے معلوم و معروف طریقے کے لئے تمہاراجوڑا عورتوں  کو بنایاہے،جیسے فرمایا

 وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹  [92]

ترجمہ:اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں  شاید کہ تم اس سے سبق لو ۔

ان سے مہر ادا کر کے نکاح کرو اور سکون وآرام حاصل کرتے ہوئے عزت وعصمت کی حفاظت کرو،ان تعلقات کو رحمت و مودت ،عدل وانصاف،ایثاروفیاضی کے ساتھ مستحکم اورخوشگواربناؤ  جس پرانسانی تمدن کے قیام وبقاکاانحصارہے ، عورتوں سے نکاح کرکے تم باہمی اتفاق و یک جہتی ،رفاقت ، تعاون ومحبت حاصل کرکے تہذیب وتمدن کی مضبوط بنیادرکھ سکتے ہو،تمہاراتابناک مستقبل، دین وایمان ،اخلاق وکردار، شرافت و انسانیت سے آراستہ تمہاری نیک اولادوں  سے وابستہ ہے مگرتم لوگ اخلاق ومعاشرت کے فطری قوانین کو چھوڑکرمردوں  کی طرف راغب ہوتے ہواورفطرت کے طریقے کوقابل التفات نہیں  سمجھتے،جیسے فرمایا

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ  ۔۔۔۝۵۵ [93]

ترجمہ:کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ ۔

اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۔۔۔۝۰۝۸۱  [94]

ترجمہ:تم عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۵ۙوَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۶۶ [95]

ترجمہ:کیا تم دنیا کی مخلوق میں  سے مردوں  کے پاس جاتے ہواور تمہاری بیویوں  میں  تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اُسے چھوڑ دیتے ہو؟ ۔

تم تو انسانیت کے مرتبے سے ہی گرچکے ہو ،تمہارے ضمیرہی مردہ ہوچکے ہیں کہ ایسی بری حرکت عقل وشعور سے عاری جانور بھی نہیں  کرتے ،ایسی برائی جوچھپ کربھی نہیں  کرنی چاہئے تم لوگ کھلے عام اپنی مجلسوں  میں  ایک دوسرے کے سامنے سرانجام دیتے ہواوراس پرفخرکرتے ہو،جیسے فرمایا

۔۔۔اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝۵۴ [96]

ترجمہ:کیا تم آنکھوں  دیکھتے بد کاری کرتے ہو؟۔

بے حیائی کا چرچا کرتے ہوے برائی کو پھیلاتے ہو،انسانی ذہن کوشہوانی جذبات سے بھڑکاکرپراگندہ کرتے ہواورتمہیں  کوئی شرمندگی یاخجالت محسوس نہیں  ہوتی، یہ توگناہ گاری کی وہ حد ہے کہ رب تمہیں  زمین میں  دھنسا دے یاآسمانوں  سے پتھربرسائے ،اپنی قبیح حرکتوں سے بازآجاؤ  اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پرتمہیں  پیدا کیا ہے اس کو بگاڑ کر مسخ نہ کرو شرافت و طہارت کی زندگی گزارو،اپنی اولادکی حفاظت کرواوراپنے آپ کواورانہیں  بھی عذاب جہنم سے بچاؤ ،غفلت کی زندگی نہ گزارو اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان لاؤ  اوراس کا تقویٰ اختیار کرو ، اعمال حسنہ سے رب کے حضورعزت ،تکریم وتوقیرکے مستحق بنویہی صراط مستقیم ہے،اپنی گھٹتی زندگی میں  موت کومت بھولو آخر ایک دن یہ سب کچھ چھوڑکررب کے حضورپیش ہوناہے اس لئے ہرمعاملہ میں   اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی مخلصانہ اور کامل پیروی کرواور اللہ تعالیٰ کوکثرت سے یاد کرو ، ایک دوسرے کونیکی کی باہمی تلقین اورتعاون کرو اپنے ایمان ویقین پرجم جاؤ پھرتمہارا رب تمہارے ایمان ویقین کوجانچنے کے لئے تمہاری آزمائش فقروفاقہ،جان ومال کی تباہی ،پیداوار کے نقصانات میں  ڈال کرکرے گا،جیسے فرمایا

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۵۵ۙ [97]

ترجمہ:اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں  گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں  کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں  کو خوشخبری دے دیجئے۔

اس آزمائش کے مرحلے میں  صبرواستقامت اورحوصلہ کے ساتھ سیدھی راہ پرگامزن رہو،اپنے قدموں  کو جما کر چلواوررب سے ثابت قدمی کی دعاکرتے رہو پھرتمہارارب تمہیں  طرح طرح کے المناک عذابوں  سے بھری جہنم سے بچاکر اپنی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل کرے گااوریہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۝۷۱ [98]

ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

مگرقوم نے لوط  علیہ السلام کی اس دعوت وعظ ونصیحت کوایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیااوردھمکی دیتے ہوئےکہا

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ۝۱۶۷  [99]

ترجمہ:انہوں  نے کہااے لوط   علیہ السلام  اگرتوان باتوں  سے بازنہ آیاتو جو لوگ ہماری بستیوں  سے نکالے گئے ہیں  ان میں  توبھی شامل ہوکررہے گا ۔

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ۝۰ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ۝۵۶  [100]

ترجمہ:اسکی قوم کاجواب اس کے سوا کچھ نہ تھاکہ انہوں  نے کہا نکال دولوط   علیہ السلام  کے گھروالوں  کو اپنی بستی سے،یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں ۔

لوط   علیہ السلام  نے بغیرکسی ڈروخوف کے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دعوت وعظ ونصیحت جاری رکھی اورقوم کوباطل معبودوں  کی عبادت ،فحش کاموں  اورمال ودولت کوناجائزذرائع حاصل کرنے سے روکنے کی ہرممکن کوشش فرمائی مگرجس غلط رسم ورواج ،عبادات اور کاموں  کاچسکاان کولگ چکاتھاوہ اس سے الگ ہونے کوتیارنہ ہوئے ،قوم پرامربالمعروف اورنہی عن المنکر کامطلق اثرنہ ہواپوری قوم میں  سے کوئی ایک شخص بھی ایمان کی دولت سے فیض یاب نہ ہوا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَـمَارَوْا بِالنُّذُرِ۝۳۶ [101]

ترجمہ:لوط   علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں  کوہماری پکڑ سے خبردار کیامگروہ ساری تنبیہات کو مشکوک سمجھ کر باتوں  میں  اڑاتے رہے۔

آخرقوم کاپیمانہ صبرچھلک گیا اور انہوں  نے برملاکہااے لوط   علیہ السلام  کیاتم ہی ہماری پوری قوم میں  سچے رہ گئے ہوہم توتمہیں  جھوٹاہی سمجھتے ہیں  اور جھوٹوں  کی باتوں  کاکیا اعتبار، ہم تمہارے جھانسے میں  آنے والے نہیں  کہ تمہارے کہنے پراپنے معبودوں  کوبھی چھوڑدیں ،جیسے فرمایا

اِنْ ہُوَاِلَّا رَجُلُۨ افْتَرٰى عَلَی اللہِ كَذِبًا وَّمَا نَحْنُ لَہٗ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۳۸ [102]

ترجمہ:یہ شخص اللہ کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں  ہیں ۔

اپنی لذتوں  سے بھی کنارہ کش ہوجائیں اورمفت میں  آتی ہوئی دولت کو بھی ترک کردیں  ،اگرتم واقعی ہی سچے ہواوراپنے رب کے رسول ہوتوجس عذاب کا ہوا تم نے کھڑا کررکھا ہے اوراس سے ہمیں  ڈراتے رہتے ہو اسے لے ہی آؤ اب ہمارااورتمہارافیصلہ ہوہی جانا چاہیے اورہم جانتے ہیں  تم ایسانہیں  کرسکتے ،جب لوط  علیہ السلام اپنی قوم سے مایوس ہوگئے تو انہوں  نے بارگاہ الٰہی میں  التجاکی اے میرے رب ! ان مفسدوں  کے مقابلے میں  میری مدد فرما۔جیسےفرمایا

رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَهْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ۝۱۶۹  [103]

ترجمہ:اے پروردگار! مجھے اورمیرے اہل وعیال کوان کی بدکرداریوں  سے نجات دے۔

وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ ۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالَ إِنَّ فِیهَا لُوطًا ۚ قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا ۖ لَنُنَجِّیَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ (العنکبوت)
’’اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں، یقیناً یہاں کے رہنے والے گناہ گار ہیں، (حضرت ابراہیم (علیہ السلام)) نے کہا اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں، فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں، لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے، البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔‘‘

رب نے اپنے رسول کی دعاکوقبول فرمایااورچندفرشتوں  کوبھیجاجوپہلے توابراہیم  علیہ السلام  کے پاس پہنچے اوران کواسحاق   علیہ السلام  اوراس کے بعدیعقوب  علیہ السلام  کی بشارت دی اورجب ابراہیم  علیہ السلام  نے آنے کا مقصد پوچھا توفرشتوں  نےقوم لوط   علیہ السلام  کی بستیوں  کی طرف اشارہ کرکے جوچندکوس ہی دور تھیں  کہاہم قوم لوط کی بداعمالیوں  کی وجہ سے کچی مٹی کے پکے ہوئے پتھروں کا عذاب لے کرآئے ہیں وہ ایسے پتھرہیں جونشان زدہ کیے گے ہیں ۔

قَالَ فَمَاخَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ۝۳۱قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِیْنَ۝۳۲ۙلِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍ۝۳۳ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ۝۳۴ [104]

ترجمہ:ابراہیم نے پوچھا اے فرستاد گانِ الٰہی ! کیا مہم آپ کو در پیش ہے ؟ انہوں  نے کہا ! ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں جو آپ کے رب کے ہاں  حد سے گزر جانے والوں  کے لیے نشان زدہ ہیں  ۔

ابراہیم  علیہ السلام نے قوم لوط کی مدافعت کے لئےکہاوہاں  تو لوط  علیہ السلام  موجود ہے،اس کی موجودگی میں  عذاب کیسے نازل کیاجاسکتاہے۔

 ۔۔۔یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ۝۷۴ۭ [105]

ترجمہ: اس نے قومِ لوط کے معاملہ میں  ہم سے جھگڑا شروع کیا۔

قَالَ لَهُمْ [إِبْرَاهِیمُ]  أَتُهْلِكُونَ قَرْیَةً فِیهَا ثَلَاثُمِائَةِ مُؤْمِنٍ؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: أَفَتُهْلِكُونَ قَرْیَةً فِیهَا مِائَتَا مُؤْمِنٍ؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: أَفَتُهْلِكُونَ قَرْیَةً فِیهَا أَرْبَعُونَ مُؤْمِنًا؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: ثَلَاثُونَ؟ قَالُوا لَا حَتَّى بَلَغَ خَمْسَةً قَالُوا: لَا. قَالَ: أَرَأَیْتُكُمْ إِنْ كَانَ فِیهَا رَجُلٌ وَاحِدٌ مُسْلِمٌ أَتُهْلِكُونَهَا؟ قَالُوا: لَا. فَقَالَ إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلَامُ عِنْدَ ذَلِكَ: {إِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلا امْرَأَتَهُ} الْآیَةَ  [106]

ابراہیم  علیہ السلام نے فرشتوں  سےفرمایا اگرکسی بستی میں  تین سومسلمان ہوں  توکیاپھربھی وہ بستی ہلاک کردی جائے گی، فرشتوں  نے جواب دیانہیں ،ابراہیم  علیہ السلام نے پھر دریافت کیا اگرکسی بستی میں  سومسلمان ہوں  توکیاپھربھی وہ بستی ہلاک کردی جائے گی ؟ فرشتوں  نے جواب دیانہیں ، ابراہیم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرچالیس مسلمان ہوں  توکیاپھربھی وہ بستی ہلاک کردی جائے گی؟فرشتوں  نے کہاپھربھی نہیں ،ابراہیم  علیہ السلام نے پھر دریافت کیااگرتیس مسلمان ہوں ؟جواب دیا گیا پھربھی ہلاک نہیں  کیاجائے گایہاں  تک کہ تعدادگھٹاتے گھٹاتے پانچ پرآگئی، فرشتوں  نے پھربھی وہی جواب دیاکہ نہیں  وہ ہلاک نہیں  ہوں  گے،ابراہیم  علیہ السلام نے دریافت کیا اگرایک ہی فردہو توکیاپھربھی وہ بستی ہلاک کردی جائے گی ؟ انہوں  نے جواب دیا نہیں ،اس پرابراہیم  علیہ السلام نے فرمایا’’ اس میں  تو لوط  علیہ السلام  ہیں ، فرشتوں  نے کہا یہاں  جو ہیں  ہم انہیں  بخوبی جانتے ہیں ، لوط علیہ السلام  کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں  گے، البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے ہے۔‘‘[107]

فرشتوں  نے کہااے ابراہیم! اس معاملہ میں  جھگڑنے سے بازآجاؤ  تمہارے رب کی طرف سے قضاء حق نافذوجاری ہوگئی ہے اب ان پرعذاب نازل ہوکرہی رہے گااسے لوٹایانہیں  جا سکتا۔

یٰٓـــاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۝۰ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۝۰ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ۝۷۶  [108]

ترجمہ:(آخر کار ہمارے فرشتوں  نے اس سے کہا) اے ابراہیم ! اس سے باز آ جاؤ  تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں  پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں  پھر سکتا۔

ہم نے لوط  علیہ السلام  اور اس کی دوبیٹیوں  کواس دردناک عذاب سےبچالیا اور اس کی بیوی کو عذاب کی جگہ پرچھوڑدیاکیونکہ اس کی ہمدردیاں  اوردلچسپیاں اپنی قوم کے ساتھ وابستہ تھیں  ، جیسے متعددمقامات پرفرمایا

فَنَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اَجْمَعِیْنَ۝۱۷۰ۙاِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ۝۱۷۱ۚ [109]

ترجمہ:آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچالیابجز ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  تھی۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ۝۰ۭ نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ [110]

ترجمہ:اور ہم نے پتھراؤ  کرنے والی ہوا اس پر بھیج دی ، صرف لوط کے گھر والے ان کو ہم نے رات کے پچھلے پہر بچا کر نکال دیا۔

فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳۵ۚفَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۶ۚ  [111]

ترجمہ:پھر ہم نے ان سب لوگوں  کو نکال لیا جو اس بستی میں  مومن تھےاور وہاں  ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں  کا کوئی گھر نہ پایا۔

وَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَىٰ أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا یَفْسُقُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آیَةً بَیِّنَةً لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٣٥﴾(العنکبوت)
’’پھر جب ہمارے قاصد لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے غمگین ہوئےاور دل ہی دل میں رنج کرنے لگے، قاصدوں نے کہا آپ نہ خوف کھائیے نہ آرزدہ ہوں، ہم آپ کو مع آپ کے متعلقین کے بچا لیں گے مگر آپ کی بیوی کہ وہ عذاب کے لیے باقی رہ جانے والوں میں سے ہوگی، ہم اس بستی والوں پر آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں اس وجہ سے کہ یہ بےحکم ہو رہے ہیں، البتہ ہم نے اس بستی کوصریح عبرت کی نشانی بنادیا ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘

ابراہیم  علیہ السلام  کوخوشخبری دے کر وہ فرشتے خوبصورت نوجوان لڑکوں  کی شکل میں  لوط   علیہ السلام  کے ہاں  آئے انہوں  نے اپناتعارف بھی نہیں  کرایااس لئے لوط   علیہ السلام  انکی اصلیت سے ناواقف تھے اس لئے انہیں  دیکھ کر بہت مضطرب ہوے،ان کے دل کو تنگی لاحق ہوئی کیونکہ بے حیااوربدکردار قوم کاحال ان سے مخفی نہ تھا اپنے دل میں  کہنے لگے ان اجنبی مہمانوں  کا میرے ہاں آنامیرے لئے بڑی مصیبت کا دن ہے میں  ان اجنبی مہمانوں  کومفسدقوم کی بداعمالیوں  سے کیسے بچاؤ ں  گا ، فرشتوں  نے اپنی اصلیت ظاہرکی کہا

قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْكَ۔۔۔ [112]

ترجمہ:اے لوط   علیہ السلام  ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں  یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں  گے۔

اس لئے دل میں  کوئی ڈر وخوف نہ کھاؤ  ، ہم تمہیں  اور تمہارے گھر والوں  کو بچا لیں  گے سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے ہے،ہم اللہ کے حکم سےاس بستی کے لوگوں  پر اس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس لئے اب جبکہ رات کاپچھلاپہرہے اور صبح بالکل قریب ہے جلدی سے اس بستی سے نکل جائیں  اورکوئی پیچھے مڑکرنہ دیکھے،ان کی بد اعمالیوں  ،فسق وفجورکی بدولت وقت صبح آسمان سے  اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوگا،جیسے فرمایا

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْـعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِـــعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ۝۶۵ [113]

ترجمہ:لہذااب تم کچھ رات رہے اپنے گھروالوں  کولیکر نکل جاؤ اورخودان کے پیچھے پیچھے چلو،تم میں  کوئی پلٹ کرنہ دیکھےبس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں  حکم دیا جارہا ہے۔

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ۝۷۳ۙفَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۷۴ۭ [114]

آخرکار پوپھوٹے ہی ان کوایک زبردست دھماکے نے آلیااورہم نے اس بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیااوران پرپکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بارش برسا دی ۔

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙ [115]

ترجمہ:پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے۔

اس ظالم قوم پراس کے کرتوتوں  کی بدولت جوعذاب آیاتھااس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہ عام پریعنی حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوے یہ تباہ شدہ علاقہ راستہ میں  پڑتا ہے اور عموماً قافلوں  کے لوگ تباہی کے ان آثار کودیکھتے ہیں  جو اس پورے علاقے میں  آج تک نمایاں  ہیں مگرکتنے لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرتے ہیں  ، رب سے توبہ کرتے ہوئے صراط مستقیم پرپلٹ آتے ہیں ، رب سے بخشش ومغفرت مانگتے ہیں  اورآئندہ پاکیزہ زندگی اختیارکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

وَاِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ۝۷۶اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۷۷ۭ  [116]

اوروہ علاقہ(جہاں  یہ واقعہ پیش آیا تھا)گزرگاہ عام پر تھا اس میں  سامان عبرت ہے ان لوگوں  لیے جو صاحب ایمان ہیں ۔

وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ۝۱۳۷ۙوَبِالَّیْلِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۳۸ۧ[117]

ترجمہ: آج تم شب وروزان کے اجڑے دیار پرسے گزرتے ہوکیاتم کوعقل نہیں  آتی۔

وَإِلَىٰ مَدْیَنَ أَخَاهُمْ شُعَیْبًا فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْیَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَیَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ (العنکبوت)
’’ اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو  اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو، پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا، آخرش انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہو کر رہ گئے، اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں ان کی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے ۔‘‘

اورمشہورومعروف قبیلہ مدین کی طرف ہم نے ان کے نسبی بھائی شعیب کومبعوث کیا اس نے بھی اپنی قوم کودعوت توحیدپیش کی اور کہااے میری قوم کے لوگو !طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو جوتمہارامعبودحقیقی ہے،جس نے تمہیں  اپنی عبادت کے لئے پیداکیااورجوتمہارے رزق کابندوبست فرماتا ہے، یادرکھوایک وقت مقررہ پر اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوناہے اس لئےاپنے گناہوں  پردلیرہوکر روز آخرت کومت بھولوبلکہ اعمال صالحہ اختیار کرکے روز آخرت اللہ تعالیٰ سے بہترین جزاکے امیداوار بنو ،اورلوگوں  پر ظلم وزیادتی نہ کرو،ناپ تول میں  کمی نہ کرو،لوگوں  کاحق نہ مارو،لوٹ ماراورڈاکہ زنی سے باز آجاؤ مگر قوم نے فخروغرور سے اپنے پیغمبرکے وعظ و نصیحت پرکچھ توجہ نہ کی اوراپنے معبودوں  پرتکیہ کرتے ہوئے اپنے پیغمبراور اس پاکیزہ دعوت کوسختی سے جھٹلا دیاآخر کارسوچنے ،سمجھنے اور سنبھلنے کے لئے ایک لمبی مہلت دینے کے بعدہم نے ایک وقت مقررہ پر ان پراپناعذاب نازل کیااور ایک سخت زلزلے نے انہیں  آ لیا اور گھڑی کی گھڑی میں ساری بستی کے لوگ اپنے گھروں  میں  بے حس پڑے کے پڑے رہ گئے،

عَنْ قَتَادَةَ{فَأَصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ} أَیْ: مَیِّتِینَ

قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں   ’’اوروہ اپنے گھروں  میں  بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہوکررہ گئے۔‘‘اس کے معنی یہ ہیں  کہ وہ اپنے گھروں  میں  مرے پڑے تھے۔[118]

وَقَالَ غَیْرُهُ: قَدْ أُلْقِیَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ

دیگرائمہ تفسیرکاقول ہے کہ وہ مردہ حالت میں  ایک دوسرے کے اوپرگرے ہوئے تھے۔[119]

اورہم نے ہود  علیہ السلام کی قوم عاد جوعلاقہ حضرموت کےقریب احقاف میں  سکونت پذیر تھے اورصالح   علیہ السلام کی قوم ثمود جووادی القریٰ کے قریب حجرمیں  سکونت پذیرتھےکوطاغوت کی بندگی ،دعوت حق اوراپنے پیغمبروں  کی تکذیب کے باعث ہلاک کردیا ، تم ان علاقوں  سے جہاں  یہ قومیں  رہتی تھی اپنے تجارتی قافلوں  کے ساتھ گزرتے رہتے ہو اوران اقوام کے حالات سے خوب واقف ہو،شیطان نے ان کی بداعمالیوں  کوخوب آراستہ کرکےدکھایا اور انہوں  نے سوچ سمجھ کر اسی راستے کواختیارکیاجس میں  انہیں  بڑی لذتیں  اور منفعتیں  نظرآتی تھیں  اورپیغمبروں  کے پیش کیے ہوئے راستے کوٹھکرادیا حالانکہ وہ جاہل یانادان نہ تھے بلکہ دنیاداری میں  بڑے عقل منداورہوشیارتھے مگر دین کے معاملے میں  انہوں  نے عقل وبصیرت سے کام نہ لیااس لئے یہ عقل اورسمجھ ان کے کچھ کام نہ آئی۔

وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَىٰ بِالْبَیِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِی الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٤٠﴾ (العنکبوت)
’’ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی، ان کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے ،پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔‘‘

اورمصرکا طاقتورحکمران فرعون جس نے اپنے بارے میں  الوہیت کادعویٰ کردیاتھا۔

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ [120]

ترجمہ:پھر اس نے کہا میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ۔۔۔۝۰۝۳۸ [121]

ترجمہ:اور فرعون نے کہا اے اہلِ دربار ! میں  تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں  جانتا۔

اوراس نے بنی اسرائیل کواپناغلام بنارکھاتھا ،اس کاوزیرتعمیرات ہامان اوربنی اسرائیل کے دولت مند شخص قارون کوبھی ہم نے ہلاک کیا، موسیٰ ان کے پاس واضح دلائل ومعجزات لے کر آیا مگر انہوں  نے اللہ کی زمین میں  اپنی بڑائی کا زعم کیااورایمان وتقویٰ اختیارکرنے سے گریز کیا حالانکہ کفروعنادکاراستہ اختیارکرکے وہ عذاب کے شکنجے سے بچ نہیں  سکتے تھے،اللہ مالک الملک  کی خدائی اندھیرنگری نہیں آخر کار ہم نے ہر قوم کی ان کے ظلم وستم اور بد اعمالیوں  کی پاداش میں  گرفت کی پھر ان میں  سے کسی قوم (قوم عاد ) پرجوسرزمین احقاف میں  رہتے تھےہم نے پتھراؤ  کرنے والی ہوا بھیجی ، اور کسی قوم(قوم ثمود) کوجوحجرکے قریب وادی قریٰ میں  رہتے تھےکو ایک زبردست دھماکے ، چنگھاڑ نے آ لیا اور کسی قوم(قوم لوط) کوہم نے زمین میں  دھنسا دیا اور کسی قوم(قوم نوح وقوم فرعون) کو غرق کر دیا، کسی پر ظلم کرنااللہ کاشیوہ نہیں  مگر کفروشرک اورتکذیب ومعاصی کا ارتکاب کرکےوہ خود ہی اپنی جانوں پرظلم کر رہے تھے۔

مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِیَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿٤١﴾ (العنکبوت)
’’  جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش ! وہ جان لیتے۔‘‘

شرک کی تردیدکے لئے ایک مثال :

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کومشکلات ومصائب کے اس سخت طوفان میں صبرواستقلال پر قائم رہنے اورحق وصداقت کاعلم بلندرکھنے کا حوصلہ دینے ،اورمشرکین مکہ کومتنبہ کرنے کے لئے قوم لوط  علیہ السلام ،قوم شعیب  علیہ السلام ،قوم ہود علیہ السلام ،قوم صالح   علیہ السلام اور فرعون کاذکرفرمایاکہ یہ قومیں  جاہل ونادان نہ تھیں ،بلکہ اپنے وقت کے ترقی یافتہ لوگ تھے ،اپنی دنیاوی معاملات میں  بڑے ہوشیار اورداناتھے ،انہیں  اپنی بڑائی کازعم تھا،انہوں  نے پیغمبروں  کی پاکیزہ دعوت کاراستہ جوبظاہرخشک ،بدمزہ اوراخلاقی پابندیوں  کی وجہ سے تکلیف دہ نظرآتا تھا کو چھوڑکر شیطان کے پیش کیے ہوئے راستے کواپنایا،تمہاری طرح انہوں  نے بھی اپنے معبودوں  کے متعلق یہ عقیدہ رکھاکہ یہ اندھے ،گونگے اور بہرے بت ان کے حامی ومددگاراورسرپرست ہیں ، وہی قسمتیں  بنانے اوربگاڑنے کی قدرت واختیاررکھتے ہیں ،اگران کے حضوررسوم عبادت اداکی جائیں  توان کی خوشنودی حاصل کرکے روزی میں  اضافہ کیاجاسکتاہے،سختیوں  اورپریشانیوں  میں  بگڑے کام بنائے جاسکتے ہیں  ، عزت وقوت اورفتح ونصرت حاصل کی جاسکتی ہے ،ہرطرح کی آفات سے محفوظ رہاجاسکتاہے ، ان قوموں  نے بھی اہل ایمان کا راستہ روکنے کے لئے ہرممکن جتن کیے ،مبعوث کیے گئے پیغمبروں ،اہل ایمان اورہماری دعوت کامذاق اڑایا، کمزورو بے بس اہل ایمان پرظلم وستم روارکھا،اللہ نے انہیں  بغاوت ، سرکشی ،ظلم وستم اوربداعمالیوں  پرسوچنے،سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے لمبی مہلت عنایت فرمائی اورزیادہ مال و دولت اورطاقت عطافرمائی ، اللہ کے حلم اور بردباری سے وہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اللہ کی زمین پرجوجی چاہے کرسکتے ہیں اندھیرنگری ہے اورانصاف کرنے والی کوئی ہستی نہیں ، آخراللہ تعالیٰ نے ایک مقررہ مہلت کے بعد ان کے مشرکانہ عقائدو اعمال اور پیغمبروں  کی تکذیب کے باعث انہیں  مختلف طریقوں  سے عذاب بھیج کرہلاک کردیا،ان کے علاقے جنہیں  تم اچھی طرح جانتے ہونشان عبرت بنا دیئے گئے،مصیبت کی اس گھڑی میں  ان کاکوئی دیوی یادیوتا ،کوئی ولی یااوتار،کوئی جن یافرشتہ جن کی وہ عبادت کرتے تھے جن کی طاقت وقوت سے وہ خائف رہتے تھے،جن کی خوشنودی کے حصول کے لئے نذرونیازپیش کی جاتی تھیں ان کی ادنیٰ سی مددکونہ آیااورمشکل کی اس گھڑی میں وہ انہیں  مددکے لئے پکارتے ہوئے پیوندخاک ہوگئے، تم بھی انہی قوموں  کی روش اختیارکررہے ہو،تم بھی کائنات کے حقیقی مالک وفرمانرواکوچھوڑکربے اختیاربندوں  اورمعبودان باطلہ پرتکیہ کررہے ہو اور تمہارا انجام بھی ان اقوام جیساہوسکتاہے،ان باطل معبودوں  ، بے سہارابنیادوں  سے وابستہ تمہاری توقعات کاگھروندابھی مکڑی کا گھر جو نہایت بودا،کمزور اورناپائیدار ہوتا ہے کی طرح انگلی کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے نابود ہو سکتا ہے، اس لئے ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ اوردعوت اسلامی پرایمان لاؤ اوراللہ کی عنایت فرمائی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھاؤ  ،طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکرمالک کائنات رب العالمین کامضبوط سہاراتھام لوجوکبھی ٹوٹنے والانہیں  ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْۢ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَهَا۝۰ۭ وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۵۶ [122]

ترجمہ: اب جو کوئی طاغوت کا اِنکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں  ، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

ورنہ جب مہلت ختم ہوگی توکوئی طاقت ،کوئی قوت تمہیں  اللہ کے عذاب سے نہ بچاسکے گی،کاش یہ لوگ عقل وشعورسے کام لیتے توجان سکتے کہ قیامت کے روزانہیں  کیسے المناک عذابوں  سے پالاپڑے گا اورانہیں  ان ہستیوں  کی بے بسی کاحال بھی معلوم ہوجاتا،پھروہ انہیں  کبھی معبودنہ بناتےبلکہ ان سے بے زاری کااظہارکرتے اوررب رحیم وکریم کواپناوالی ومددگاربناتے ۔

إِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَیْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٤٢﴾‏ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا یَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٤٤﴾ (العنکبوت)
’’ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وہ اس کے سوا پکار رہے ہیں، وہ زبردست اور ذی حکمت ہے، ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں انھیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، ایمان والوں کے لیے تو اس میں بڑی بھاری دلیل ہے ۔‘‘

یہ مشرک اپنے معبودحقیقی اللہ رب العزت کو چھوڑ کر جن دیوی دیوتاؤ ں اورہستیوں  کومعبودبنائے ہوئے ہیں  ،جن کی خوشنودی کے حصول کے لئے نذرونیازپیش کرتے ہیں ،جن کی طاقت وقوت سے خائف رہتے ہیں اورجن کواپنی مشکلات ومصائب میں  مددکے لئے پکارتے ہیں ان کاسرے سے کوئی وجودہی نہیں ،یہ توچندمجردنام ہیں  جوانہوں  نے گھڑرکھے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۔۔۔۝۰۝۲۳ۭ [123]

ترجمہ:دراصل یہ کچھ نہیں  ہیں  مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے اِن کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی۔

اورمحض وہم وگمان ہے جس کوانہوں  نے عقیدہ بنالیاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا یَتَّبِـــعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۶۶ [124]

ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خود ساختہ) شریکوں  کو پکار رہے ہیں  وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں  اور محض قیاس آرائیاں  کرتے ہیں  ۔

کائنات میں طاقت وقوت کااصل مالک صرف اورصرف اللہ مالک الملک ہی ہےجوتمام مخلوق پرغالب ہےاوراسی کی تدبیر و حکمت سے اس کائنات کانظام چل رہا ہے ، ہم یہ مثالیں  لوگوں  کوخواب غفلت سے بیدار کرنے،شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اورہدایت کاراستہ سمجھانے کے لئے بیان کرتے ہیں  اور انہیں  بس وہ لوگ ہی سمجھتے ہیں  جو اللہ اوراس کی شریعت کاعلم رکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے بغیرستونوں  کے بلندوبالا اورکشادہ ساتوں  آسمانوں ، حرارت کا منبہ سورج،میٹھی روشنی والاچاند،آسمان دنیا پر انگنت جگمگاتےستارے اوراپنے اپنے مدارمیں  تیرتے دیگر سیارے فرشتوں  کی موجودگی کے باوجوداکیلے تخلیق کیااوراس کاہرطرح کی کجی سے پاک نظام قائم کیاہے،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِیْرٌ۝۴  [125]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے، تم رحمن کی تخلیق میں  کسی قسم کی بےربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں  تمہیں  کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نگاہ دوڑآؤ ، تمہای نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

اوروہی ہے جو زمین اوراس کے بلندٹھوس پہاڑوں ، سمندروں  ، صحراؤ ں ،بیابانوں ،جمادات ونباتات اوربحروبر کی تخلیق میں  متفردہے، اوراس نے اس کائنات اوراس کے نظام کو بے مقصد،بے کاراورکھیل تماشے کے طورپر نہیں  بلکہ برحق پیدا کیا ہے،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۔۔۔۝۷۳ [126]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْكُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۹ۙ [127]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ وہ چاہے تو تم لوگوں  کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ۝۸۵ [128]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں  کیا ہےاور فیصلے کی گھڑی یقینا آنے والی ہے۔

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۸ [129]

ترجمہ:کیا انہوں  نے کبھی اپنے آپ میں  غور و فکر نہیں  کیا ؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۝۳۸ [130]

ترجمہ:یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں  ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنا دی ہیں ۔

وَخَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۲۲ [131]

ترجمہ:اللہ نے تو آسمانوں  اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے، لوگوں  پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا۔

تاکہ اس کاحکم اورشریعت نافذہواوراس کے بندوں  پراس کی نعمتوں  کااتمام ہو،اورکوئی غوروتدبرکرے تواس عظیم الشان کائنات میں  ایمان والوں  کے لئے اللہ وحدہ لاشریک کے وجوداس کی قدرت کاملہ اورعلم وحکمت کی بے شمار واضح نشانیاں  ہیں ۔

اتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ (العنکبوت)
’’ جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئےاور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے ، بیشک اللہ کا ذکربہت بڑی چیز ہے ،تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔‘‘

نسخہ استقامت :

حالات اہل ایمان کے حق میں  انتہائی ناسازگارتھے ،مسلمانوں  کودین اسلام سے ہٹانےاورآباؤ اجدادکے مشرکانہ دین پرواپس لانے کے لئے ان پر انسانیت سوزظلم وستم ڈھائےجارہے تھےاورمسلمانوں  کواپنے ایمان ویقین پرقائم رہنے میں  شدیدحوصلہ شکن مشکلات سے سابقہ پڑرہاتھا،ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پچھلے چاررکوعوں  میں  صبروثبات اوراللہ پرغیرمتزلزل بھروسہ کی تلقین کی گئی تھی،اب بظاہررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخطاب کرکے تمام اہل ایمان کومخاطب کرکے انہیں  عملی تدبیرفرمائی کہ اس جلیل القدرکتاب کی تلاوت کیاکرو،اس کے معانی ومطالب پرتدبروتفکرکروتاکہ اس کی ہدایت کوراہ نمابناسکو، اس کے احکامات کی تعمیل اوراس کے نواہی سے اجتناب کرسکو ،اس کے الفاظ کی تلاوت سےاجروثواب حاصل کرسکو،اورلوگوں  کی تعلیم وتدریس ،وعظ ونصیحت کے لئے دلائل وبراہین اورغیرمسلم سےبحث ومباحثہ کی تعلیم و تربیت حاصل کرو، اور اللہ کے ذکرکے لئے نمازکوخشوع وخضوع کے ساتھ سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھو جواس کی صحت وقبولیت کے لئے ضروری ہیں  مثلا ًرزق حلال ہوکیونکہ رزق حرام سے جو کپڑے پہنے جاتے ہیں  اورمال حرام جس جسم میں  داخل ہوتا اس کے ہوتے ہوئے نہ تو اللہ نمازقبول فرماتاہے اورنہ دعا ، انتہائی اخلاص ، طہارت قلبی (یعنی نمازمیں  اللہ کے سواکسی اورکی طرف التفات نہ ہو،ایسانہ ہوکہ بندہ بظاہر تونمازپڑھ رہاہو مگراس کادل کہیں  اوراٹکاہواہو ) وقت کی پابندی اوربا جماعت ، ارکان صلوٰة(قراء ت، رکوع، قومہ، سجدہ)میں  اعتدال واطمینان،خشوع وخضوع اوررقت) کی کیفیت کے ساتھ نمازقائم کریں  ،اس طرح سے قائم کی گئی نمازبے حیائی، فحاشی اوربدفعلیوں کے روکنے کا سبب اورذریعہ بنتی ہےکیونکہ یہی دوچیزیں  اللہ کی کتاب میں  غوروتدبر، رہنمائی اوراقامت صلوٰة ہی ہیں  جوایک مومن کے کردارمیں مضبوط سیرت اورزبردست صلاحیت پیداکرتی ہیں  جن سے ہرطرح کے مصائب کا سامنا کیا جا سکتا ہے،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ۔۔۔۝۰۝۱۵۳ [132]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ: {إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}  [133]قَالَ:مَنْ لَمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ

معمران بن حصین سے مروی ہےیں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں  سے روکتی ہے ۔‘‘  کامطلب دریافت کیا  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جسے اس کی نمازبے جااورفحش کاموں  سے نہ روکے توسمجھ لوکہ اس کی نماز اللہ کے ہاں  مقبول نہیں  ہوئی۔[134]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ لَمْ یَزِدْ بِهَا مِنَ اللَّهِ إِلَّا بُعْدًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جونمازی بھلے کاموں  میں  مشغول اوربرے کاموں  سے بچنے والانہ ہوسمجھ لوکہ اس کی نمازاسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے۔[135]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یُطِعِ الصَّلَاةَ، وَطَاعَةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص نمازکی بات نہ مانے اس کی نمازنہیں ،نمازبے حیائی اوربدفعلیوں  سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بے ہودہ کاموں  سے نمازی رک جائے۔[136]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا یُصَلِّی بِاللَّیْلِ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ،  فَقَالَ:إِنَّهُ سَیَنْهَاهُ مَا یَقُولُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکسی شخص نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہافلاں  شخص رات کونمازپڑھتاہے لیکن جب صبح ہوتی ہے تووہ چوری کرتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعنقریب اس کی نمازاس کی یہ برائی چھڑادے گی ۔[137]

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ، فِی قَوْلِهِ: {إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} [138]إِنَّ الصَّلَاةَ فِیهَا ثَلَاثُ خِلَالٍ، فَكُلُّ صَلَاةٍ لَا یَكُونُ فِیهَا شَیْءٌ مِنْ هَذِهِ الْخِلَالِ فَلَیْسَتْ بِصَلَاةٍ؛ الْإِخْلَاصُ وَالْخَشْیَةُ وَذِكْرُ اللَّهِ، فَالْإِخْلَاصُ یَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالْخَشْیَةُ تَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَذِكْرُ اللَّهِ الْقُرْآنُ یَأْمُرُهُ وَیَنْهَاهُ

ابوالعالیہ  رحمہ اللہ  آیت کریمہ’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں  سے روکتی ہے ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں نمازمیں  تین چیزیں  ہیں  اگریہ نہیں  تونماز، نماز نہیں ،اخلاص وخلوص،خوف الٰہی اورذکرالٰہی،اخلاص سے انسان نیک ہوجاتاہےاورخوف الٰہی سے انسان گناہوں  کوچھوڑدیتاہےاورذکرالٰہی یعنی قرآن مجیداسے بھلائی وبرائی بتادیتاہے جوحکم بھی کرتا ہے اورمنع بھی کرتاہے۔[139]

عَنْ أَبِی غَوْثٍ، قَوْلُهُ: {إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}[140] قَالَ:إِذَا كُنْتَ فِی صَلَاةٍ فَأَنْتَ فِی مَعْرُوفٍ وَقَدْ حَجَزَتْكَ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالَّذِی أَنْتَ فِیهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أَكْثَرُ

ابن عون انصاری آیت کریمہ’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں  سے روکتی ہے ۔‘‘کے بارے میں  کہتے ہیں جب تم حالت نمازمیں  ہوتوتم مصروف ہی مصروف ہواورنمازنے تمہیں  برائی اوربے حیائی کے کاموں  سے روک دیاہےاوراس طرح تم اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں  مشغول ہواورذکرالٰہی دیگرسب کاموں  سے بڑاکام ہے۔[141]

بیشک اللہ کاذکربہت بڑی چیزہے،بیشک سب سے بڑاذکرتو نمازہی ہے ،مگرچلتے،پھرتے،اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے اللہ تعالیٰ کویادکرنا اوریادرکھنابھی اللہ کاذکرہے ،جیسے فرمایا

فَاذْكُرُوْنِیْٓ اَذْكُرْكُمْ۔۔۔ ۝۱۵۲ۧ [142]

ترجمہ:تم مجھے یاد رکھو میں  تمہیں  یاد رکھوں  گا۔

پس جب کوئی بندہ اللہ کویاد کرے گا تو لامحالہ اللہ رب العزت بھی اسے یادکرے گااوریہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کویادکرے،اس سے کہیں  بہترہے کہ بندہ اللہ کویاد کرے اوریہ خیال ذہن میں  راسخ رکھوکہ تم اعلانیہ یاچھپ کر جونیکی یابرائی کرتے ہواللہ تعالیٰ اسے جانتاہے ، اوراس کے بزرگ فرشتے تمہاے اعمال کوضابطہ تحریرمیں  لارہے ہیں  ، جیسے فرمایا

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱۷مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸ [143]

ترجمہ:ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں (اور ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں  اور بائیں  بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں ، کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں  نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [144]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں  گے اور کہہ رہے ہوں  گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں  رہی جو اس میں  درج نہ کی گئی ہو ، جو جو کچھ انہوں  نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں  گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اوراسی اعمال نامہ کے مطابق روزجزاوہ تمہیں  اس کی پوری پوری جزادے گا۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَأُنْزِلَ إِلَیْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ (العنکبوت)
’’ اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو، مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ،ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔‘‘

بحث ومباحثہ میں  تعلیم وتربیت :

مسلمان اہل مکہ مکرمہ کے ظلم وستم سے مجبورہوکرحبشہ کی طرف ہجرت کاسوچ رہے تھے جس پرعیسائیوں  کاغلبہ تھا،جووحی ورسالت اور توحید باری تعالیٰ کے منکرنہ تھے ،اس لئے وہ اہل علم وفہم تھے اوربات کوسمجھنے کی صلاحیت واستعدادرکھتے تھے،مسلمان عیسیٰ   علیہ السلام اور ان پرنازل کتاب پربھی ایمان رکھتے تھے کہ وہ کتاب بھی من جانب اللہ عیسیٰ   علیہ السلام  پرنازل ہوئی تھی اوریہ بات مسلمانوں  اورعیسائیوں  میں  مشترکہ تھی ، چنانچہ فرمایاکہ یہودونصاریٰ سے تمہارا بحث ومباحثہ ہوتوپہلے نرمی سے ان نکات پربات کروجوتم میں  اوران میں  مشترکہ ہوں  اورپھر انہی متفق علیہ امورسے استدلال کرکے مخاطب کو شیریں  اوربہترین اندازسے سمجھاناچاہیے کہ ان کامسلک کہاں  پر متفق علیہ بنیادوں  سے متضادہے، مگروہ لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   اور قرآن مجیدپرایمان نہیں  رکھتے تھے اور مسلمانوں  کوان کے ساتھ بحث ومباحثہ کامرحلہ پیش آنے والا تھا ، ان لوگوں  کےلئے مسلمانوں  کی تربیت فرمائی کہ جب ایسے لوگوں  سے دین کے معاملے میں  بحث وکلام ہوتو جہلاء کی طرح تلخی اورتندی اختیارکرنے کے بجائے معقول دلائل ، مہذب وشائستہ زبان،افہام وتفہیم، درگزرکی روش اوربہترین اندازاختیاکرو اوراپنے موقف کوحق ثابت کرنے کے لئے مخالف کی حق بات کوکبھی ردنہ کروخواہ وہ کافرہی کیوں  نہ ہو،جیسے فرمایا

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ۔۔۔۝۰۝۱۲۵ [145]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ، اور لوگوں  سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَـنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴ [146]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !نیکی اور بدی یکساں  نہیں  ہیں  تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہاے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ۔۔۔     ۝۹۶ [147]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو۔

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝۱۹۹وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ۔۔۔۝۰۝۲۰۰ [148]

ترجمہ:اے نبی ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ  اور جاہلوں  سے نہ اُلجھو،اگر کبھی شیطان تمہیں  اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ  علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے یہی نصیحت فرمائی تھی ۔

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى۝۴۴ [149]

ترجمہ:اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔

اور اگر کوئی شخص اہل ایمان کی شرافت اور معقولیت کوکمزوری اورمسکنت سمجھ بیٹھے اورظلم کارویہ اختیارکرے توان لوگوں  کے ساتھ پھراسی نوعیت کارویہ اختیارکرو،اورمسلمانوں  کوتلقین فرمائی کہ جب تمہاراسابقہ اہل کتاب سے پیش آئے توان سے کہوکہ جس اللہ خالق کائنات کوتم لوگ مانتے ہو ہم بھی اسے اپناالٰہ تسلیم کرتے ہیں  ،ہمارااورتمہارا معبود ایک ہی ہے،جوصحیفے اللہ نے پہلے انبیاء ورسل پرنازل فرمائے تھے اورجوکتاب اللہ نے عیسیٰ  علیہ السلام پرنازل فرمائی اورجونبی آخرالزمان  صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل فرمائی ہے ،ان میں جواحکام وہدایات اورتعلیمات بھی آئی ہیں  ان سب کے سامنے ہمارا سر جھکا ہوا ہے مگر تورات وانجیل میں جوتحریفات تم لوگوں  نے کردی ہیں  ہم اسے تسلیم نہیں  کرتے،

أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَیْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الكِتَابِ عَنْ شَیْءٍ وَكِتَابُكُمُ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ، تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ یُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ أَهْلَ الكِتَابِ بَدَّلُوا كِتَابَ اللَّهِ وَغَیَّرُوهُ، وَكَتَبُوا بِأَیْدِیهِمُ الكِتَابَ، وَقَالُوا: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِیَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا؟ أَلاَ یَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ العِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِهِمْ؟ لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَیْنَا مِنْهُمْ رَجُلًا یَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْكُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے تم اہل کتاب سے کسی چیزکے بارے میں  کیوں  پوچھتے ہو حالانکہ تمہاری کتاب جوتمہارے رسول پرنازل کی گئی ہے وہ تازہ ترین کتاب ہے ،تم اس کی تلاوت کرتے ہواوریہ بالکل خالص ہےاس میں  کسی چیزکی ملاوٹ نہیں ،اوراس کتاب نے تمہیں  یہ بتایاہے کہ اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  تحریف وتبدیلی کردی تھی، انہوں  نے اپنے ہاتھوں  سے لکھ کرکہاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہواہے تاکہ اس کے بدلے میں  تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں ،یہ علم جوتمہارے پاس آچکا ہے کیایہ تمہیں  اہل کتاب سے پوچھنے سے منع نہیں  کرتا؟اللہ کی قسم !ہم نے توان میں  سے کوئی ایک شخص بھی نہیں  دیکھاجوتم سے اس کے بارے میں  سوال کرتاہوجوتم پرنازل کیاگیاہے۔[150]

أَخْبَرَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ مُعَاوِیَةَ، یُحَدِّثُ رَهْطًا مِنْ قُرَیْشٍ بِالْمَدِینَةِ، وَذَكَرَ كَعْبَ الأَحْبَارِ فَقَالَ:إِنْ كَانَ مِنْ أَصْدَقِ هَؤُلاَءِ  المُحَدِّثِینَ الَّذِینَ یُحَدِّثُونَ عَنْ أَهْلِ الكِتَابِ، وَإِنْ كُنَّا مَعَ ذَلِكَ لَنَبْلُو عَلَیْهِ الكَذِبَ

حمیدبن عبدالرحمٰن سے مروی ہےانہوں  نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سناآپ مدینہ منورہ میں  قریش کی ایک جماعت سے گفتگوفرمارہے تھے،گفتگومیں  جب کعب الاحبارکاذکرآیا  توآپ نے فرمایاکہ اگرچہ اہل کتاب میں  سے جوبیان کرنے والے ہیں  ان میں  سے سب سے سچے ہیں اس کے باوجودہم نے ان میں  بھی کذب پایاہے۔[151]

وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَٰؤُلَاءِ مَنْ یُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا یَجْحَدُ بِآیَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِیَمِینِكَ ۖ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ بَلْ هُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا یَجْحَدُ بِآیَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ ‎﴿٤٩﴾ (العنکبوت)
’’اورہم نے اسی طرح آپ کی طرف اپنی کتاب نازل فرمائی ہے ،پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ‘ اور ان (مشرکین) میں سے بعض اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکارصرف کافرہی کرتے ہیں،  اس سے پہلے توآپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے، بلکہ(قرآن)تو روشن آیتیں ہیں جواہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں، ہماری آیتوں کامنکربجز ظالموں کے اورکوئی نہیں۔‘‘

نبوت کی دلیل :سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کے ثبوت میں  استدلال پیش کیاگیاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !جس طرح ہم نے پہلے انبیاء  پر کتابیں  نازل کیں  تھیں  اسی طرح لوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تمہاری طرف بھی آخری کتاب نازل کی ہے ، جن لوگوں  کو کتب الٰہیہ کاصحیح علم وفہم نصیب ہواہےوہ ضدوہٹ دھرمی اورتعصبات میں  مبتلانہیں  ہوئے بلکہ ان حقائق ونشانیوں  کودیکھ کراپنے دلوں  میں  قائل ہوگئے ہیں  کہ ایسی شان صرف ایک پیغمبرکی ہی ہوسکتی ہےجن کی صفات توراة وانجیل میں  لکھی ہوئی ہیں ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ۝۰ۡیَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ۔۔۔۝۰۝۱۵۷ۧ [152]

ترجمہ:(پس آج یہ رحمت ان لوگوں  کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر ، نبی امی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کریں  جس کا ذکر انہیں  اپنے ہاں  تورات اور انجیل میں  لکھا ہوا ملتا ہے، وہ انہیں  نیکی کا حکم دیتا ہے بدی سے روکتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں  حلال اور ناپاک چیزیں  حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدھے ہوئے تھے اور وہ بندشیں  کھولتا ہے جن میں  وہ جکڑے ہوئے تھے۔

اوراہل مکہ مکرمہ میں  سے بھی بہت سے اس پر ایمان لا رہے ہیں ،اور ہماری واضح نشانیوں  کی تکذیب صرف وہ لوگ ہی کرتے ہیں  جواپنے تعصبات چھوڑکرحق بات ماننے کے لئے تیارنہیں ،جواپنی خواہشات نفس اوراپنی بے لگام آزادیوں  پرپابندیاں  قبول کرنے سے جی چراتے ہیں  ،کیاتم لوگ اس بات پرغوروتدبرنہیں  کرتے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ساری زندگی تمہارے درمیان گزاری ہے ،تم لوگ بچپن سے لیکر جوانی اورپھرادھیڑعمرتک ان کے پاکیزہ،صاف ستھرے اوربہترین کردارکے خود گواہ ہو،تم لوگ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہوکہ وہ عرب کے اکثرلوگوں  کی طرح لکھنا پڑھنا نہیں  جانتے ہیں مگرجب انہوں  نے نبوت کااعلان فرمایاتویکایک ایک انوکھی،فصیح وبلیغ کتاب پڑھنے لگے ، ایسی پرازحکمت کتاب جو اپنے سے پہلے کی نازل شدہ کتابوں  کی تعلیمات، آدم   علیہ السلام  سے لیکر عیسیٰ   علیہ السلام  تک تمام انبیاء کے حالات ، مختلف مذاہب وادیان کے عقائد،قدیم قوموں  کی تاریخ،اوراخلاق وتمدن ومعیشت کے اہم مسائل پربحث کرتی ہے،کیاممکن ہے کہ ایسی گفتگووہ وحی کے بغیرکسی اوردنیاوی ذرائع سے کر سکتے تھے ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھے لکھے ہوتے یاکسی استادسے کچھ سیکھا ہوتا تو تم ان کی ذات پرشک وشبہ کرسکتے تھے کہ جوعلم وہ بیان فرمارہے ہیں  وہ وحی نہیں  ہے بلکہ سابقہ انبیاء کی کتابوں  سے اخذواکتساب سے حاصل کیاگیاہےیافلاں  کی مدد اوراس سے تعلیم حاصل کرنے کانتیجہ ہے ،اس لئے ان حقائق کی موجودگی میں  دعوت حق سے تمہارے انکارکی وجہ صرف تمہاری ہٹ دھرمی اورتعصبات کے سوااورکچھ نہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ۝۰ۡۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِهٖ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۶ [153]

ترجمہ:اور کہو اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں  یہ قرآن تمہیں  کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں  اس کی خبر تک نہ دیتا آخر اس سے پہلے میں  ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں  کیا تم عقل سے کام نہیں  لیتے؟۔

اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین میں آدم ثانی نوح  علیہ السلام ،زکریا  علیہ السلام اورمریم ،یوسف  علیہ السلام اورموسیٰ  علیہ السلام کے صدیوں  پرانےواقعات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کے ثبوت میں  بیان فرمایاجنہیں  اہل کتاب بدترین مخالفت کے باوجود نہ جھٹلاسکے، جیسے فرمایا

 تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَآ اِلَیْكَ۝۰ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۔۔۔۝۰۝۴۹ۧ [154]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! یہ غیب کی خبریں  ہیں  جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ۝۰ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۝۰۠ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ۝۴۴ [155]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! یہ غیب کی خبریں  ہیں  جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں  ورنہ تم اس وقت وہاں  موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو؟ اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ۝۰ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْكُرُوْنَ۝۱۰۲ [156]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قصہ غیب کی خبروں  میں  سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں  ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسف کے بھائیوں  نے آپس میں  اتفاق کر کے سازش کی تھی۔

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ۝۴۴ۙوَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ۝۰ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا۝۰ۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ۝۴۵وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۝۴۶ [157]

ترجمہ:(اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اس وقت مغربی گوشے میں  موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ  علیہ السلام  یہ فرمان شریعت عطا کیا اور نہ تم شاہدین میں  شامل تھے، بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک) ہم بہت سی نسلیں  اٹھا چکے ہیں  اور ان پر بہت زمانہ گزر چکا ہے، تم اہل مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ان کو ہماری آیات سنا رہے ہوتے، مگر(اس وقت کی یہ خبریں ) بھیجنے والے ہم ہیں اور تم طور کے دامن میں  بھی اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسی  علیہ السلام  کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے( کہ تم کو یہ معلومات دی جارہی ہیں ) تاکہ تم ان لوگوں  کو متنبہ کرو جن کے پاس ان سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں  آیا شاید کہ وہ ہوش میں  آئیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بس ایک خاموش تاجرتھے ،لیکن نبوت کے فوراًبعددنیانے دیکھاکہ وہ شخص جس نے کبھی تین آدمیوں  کوبٹھاکرکبھی گفتگونہیں  کی تھی وہ بڑے بڑے مجمعوں کوخطاب کرتاہے ،رسالت سے پہلےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی میدان جنگ میں  نہیں  اترے ،کبھی تلوار چلانا اور تیر چلانا بھی نہ سیکھامگروہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل ہیں ،ہجرت مدینہ منورہ کے بعد دس سال میں  تریاسی جنگیں  لڑیں  جن میں  مقتولین کی تعداد صرف پانچ سوتینتیس(۵۳۳)ہے اوران سب کے نام تاریخ میں  محفوظ ہیں  ، انسانی تاریخ میں  اتناپرامن (Bloodless)انقلاب اوراتنی تعدادمیں  جنگیں  اوراتنی کم تعداد مقتولین (Casualties)آج تک دیکھنے میں  نہیں  آئیں  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےایسی ایسی جنگی چالیں  چلیں  کہ انسان حیران رہ جاتاہے ،اس سلسلہ میں فتح مکہ کا ایک واقعہ ہی کافی ہے جب ہرطرف جنگل کا قانون رائج تھااس وقت انٹرنیشنل لاء کوسب سے پہلے مرتب کرنے والے محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ساری زندگی میں  کبھی کشتی کافن نہیں  سیکھامگرجزیرة العرب کے ایک نامی گرامی پہلوان رکانہ نے کہاہمیں  صرف کشتی آتی ہےہم کسی اورچیزکونہیں  جانتےآپ نبی ہیں  تومجھے کشتی میں  ہرادیں  پھر میں  آپ پر ایمان لے آؤ ں  گا،بھلاکہاں  کشتی کافن اور کہاں  رسالت مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقابلہ کرنے کی حامی بھرلی اور میدان میں  اترآئے، اورجب وہ پہلوان قریب آیاتواسے اٹھا کرزمین پرپٹخ دیامگراس پہلوان کو یقین نہ آیااس نے کہانہیں ،نہیں ابھی نہیں میں  پھرمقابلہ کروں  گا،دوسرے ہی لمحے آپ نے اسے اٹھا کر زور سے زمین پرپٹخا،جس پراس نے اشھدان الاالٰہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ پڑھ لیا،کیایہ کتاب مبین کی منزل من اللہ اور محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ناقابل تردیدثبوت نہیں ۔ دراصل یہ روشن نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لئے جنہیں  علم بخشا گیا ہےاورہماری آیات کامتکبر،ہٹ دھرم اورمتعصب لوگ ہی انکار کرتے ہیں ۔

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْهِ آیَاتٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مُبِینٌ ‎﴿٥٠﴾ (العنکبوت)
’’انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں (معجزات) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں  میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کردینے والا ہوں ۔‘‘

معجزہ کامطالبہ:اتنی واضح دلیل کے باوجودمشرکین مکہ ضد،تکبراورہٹ دھرمی سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سےپیغمبری کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے معجزہ کامطالبہ کرتے،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۔۔۔ ۝۹۳ۧ [158]

ترجمہ:اور انہوں  نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں  گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے،یا تیرے لیے کھجوروں  او انگوروں  کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں  نہریں  رواں  کر دے،یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپرگرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہےیا اللہ اور فرشتوں  کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئےیا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائےیا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں  گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں  کہہ دیں  معجزہ دکھانامیرے اختیارمیں  نہیں  یہ تواللہ کا اختیاراوراس کی قدرت ہےوہ جب چاہے اپنی حکمت ومشیت سے معجزہ ظاہر فرمادے ،میراکام تمہارے کانوں  تک آوازالٰہی کوپہنچادیناہے ،ہدایت وضلالت اللہ کی طرف سے ہےوہ جسے چاہتاگمراہ کردیتاہےاگروہ کسی کوگمراہ کردے توپھرکوئی اس کی رہنمائی نہیں  کرسکتا،جیسے فرمایا

مَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ۝۰ۭ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۝۱۸۶ [159]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں  ہے، اور اللہ انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے۔

۔۔۔مَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ [160]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں  پاسکتے۔

میں  تواللہ کابندہ اورکھلم کھلا ڈرانے والاہوں اس سے زیادہ میراکوئی مرتبہ نہیں ۔

أَوَلَمْ یَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ یُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥١﴾‏ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ شَهِیدًا ۖ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِینَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ (العنکبوت)
’’ کیا انہیں یہ کافی نہیں؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمادی جو ان پر پڑھی جا رہی ہے، اس میں رحمت (بھی) ہے اور نصیحت (بھی) ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں،کہہ دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالیٰ گواہ ہونا کافی ہے ، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا عالم ہے، جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے ہیںوہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں ۔‘‘

اورفرمایاکہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے امی ہونے کے باوجودقرآن جیسی کتاب جس کے الفاظ میں  حلاوت ،جس کے نظم میں  ملاحت ،جس کے اندازوبیان میں  فصاحت و بلاغت ،جس کاطرزدلربا،جس کاسیاق وسباق دلچسپ کا آپ پرنازل ہوناکیاایک معجزہ سے کم ہے؟کیااس کے بعدبھی آپ کی رسالت کی تصدیق کے لئے کسی اورمعجزے کی ضرورت باقی رہتی ہے؟حالانکہ اس کی بابت ساری دنیاکے جن وانس کوچیلنج کردیاگیاہے کہ وہ سب مل کراوراپنے معبودوں  کوشامل کرکے اس جیساقرآن لاکردکھائیں ،یاکوئی ایک سورت ہی بناکرپیش کردیں ،جب قرآن کریم کی اس معجزہ نمائی کے باوجودیہ قرآن پرایمان نہیں  لارہے ہیں  تو موسیٰ   علیہ السلام ، اور عیسیٰ   علیہ السلام  کی طرح انہیں  معجزے دکھابھی دیئے جائیں  تواس پریہ کون ساایمان لے آئیں  گے ؟حالانکہ اس کتاب کانزول ہی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے،جس میں انسانوں  کی رشدوہدایت کے لئے واضح ہدایات ہیں ، مگران ہدایات ،احکامات سے وہی لوگ ہی متمتع اورفیض یاب ہوتے ہیں  جواس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! کہوکہ میرے اورتمہارے درمیان اللہ مالک الملک کی گواہی کافی ہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً۝۰ۭ قُلِ اللهُ۝۰ۣۙ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹ۘ  [161]

ترجمہ: کہو ،ان سے پوچھو کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔

اس لئے میں  نے اسے گواہ بنایا ہے اگرمیں  جھوٹا ہوتاتومجھ پراللہ کاعبرتناک عذاب نازل ہوتا،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۝۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ۝۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ۝۴۶ۡۖ  [162]

ترجمہ:اور اگر اس (نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں  ہاتھ پکڑ لیتےاور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔

اوراگراللہ میری تائیداورمدد کرتا اورمیرے لئے میرے تمام معاملات آسان فرماتاہے تواللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جلیل القدرشہادت تمہارے لئے کافی ہونی چاہیے ، اگر تمہارے دلوں  میں  اللہ کی شہادت کافی نہیں  تووہ علام الغیوب ہے،وہ آسمانوں  اورزمین میں  سب کچھ جانتاہے ،جولوگ غیراللہ کوعبادت کامستحق ٹھہراتے ہیں  اوراللہ جوفی الواقع مستحق عبادت ہے کا انکارکرتے ہیں انہی لوگوں  نے ایمان کے بدلے کفراورہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے،قیامت کے روز وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں  ۔

 مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ۝۱۶ [163]

ترجمہ: اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں  کامیابی ہے۔

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٥٣﴾ (العنکبوت)
’’  یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا، یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے۔‘‘

قدیم قوموں  کی طرح اہل مکہ بھی یہ تسلیم کرنے کوہرگزتیارنہ تھے کہ ان جیسا ایک بشربھی اللہ کارسول ہوسکتاہے،وہ حیات بعدازموت کوبھی تسلیم نہیں  کرتے تھے،ان کاخیال تھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے سیکھ کرایسی گفتگوفرماتے ہیں  ،وہ پیغمبرکی تعلیمات پرغوروتفکرکرنے اوراس کی حقانیت تسلیم کرنے کے بجائے تباہ شدہ اقوام کی طرح بڑے دھڑلے سےچیلنج کے اندازمیں  عذاب کامطالبہ کرتے کہ اگرآپ سچے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،آپ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے تو جس دردناک عذاب سے آپ ہمیں  ڈراتے رہتے ہیں  اللہ سے کہہ کرہم پرنازل کروادیں ، جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [164]

ترجمہ:اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں  نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ لوگ اللہ غفورورحیم سے اپنے گناہوں  کی مغفرت اوربخشش طلب کرنے کے بجائے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ، جیسے فرمایا

وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّـئَةِ قَبْلَ الْحَسَـنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمُ الْمَثُلٰتُ۔۔۔۝۶ [165]

ترجمہ:یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں  حالانکہ ان سے پہلے( جو لوگ اس روش پر چلے ہیں  ان پر اللہ کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں  گزر چکی ہیں ۔

قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ۝۰ۚ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۴۶ [166]

ترجمہ:صالح علیہ السلام  نے کہا اے میری قوم کے لوگو، بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں  جلدی مچاتے ہو؟ کیوں  نہیں  اللہ سے مغفرت طلب کرتے ؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے۔

اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ۝۲۰۴ [167]

ترجمہ:تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟۔

وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ۝۰ۭ وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝۴۷ [168]

ترجمہ:یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں  اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا مگر تیرے رب کے ہاں  کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔

ان کے اعمال واقوال( یعنی اللہ کوعاجزاوربے بس سمجھنے اورحق کی تکذیب کرنے کی بناپر) تویقیناًاس لائق ہیں  کہ انہیں  فوراًصفحہ ہستی سے مٹادیاجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ ہر قوم کوان کے گناہوں  پرفوراًنہیں  پکڑلیتااگرایسانہ ہوتاتوان کے مطالبہ عذاب پرفوراًہی عذاب کے مہیب بادل ان پربرس پڑتے بلکہ ایک خاص وقت تک سوچنے اورسنبھلنے کی مہلت عطافرماتاہے ، مگرجب یہ مہلت عمل ختم ہوتی ہے توپھراللہ کاعذاب اچانک اوریک بیک نازل ہوجاتاہے جسے کوئی ہستی ،کوئی طاقت وقوت روکنے والی نہیں  ہوتی،جیسے اہل مکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے میدان بدرمیں اتراتے اورتکبرکرتے ہوئے اترے،مسلمانوں  کی قلت تعداد اور جنگی ہتھیاروں  کی بے سروسامانی دیکھ کروہ سمجھے کہ وہ اپنامقصدبدحاصل کرنے کی طاقت و قدرت رکھتے ہیں  ،مگرمشرکین کی کثرت تعداد اوروافرسازوسامان کے باوجوداللہ تعالیٰ نے ان کوذلیل ورسواکردیا ، اللہ تعالیٰ نےان پراس طرف سے عذاب نازل فرمایاجدھرسے ان کووہم وگمان اورشعورتک نہ تھا،جیسے فرمایا

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۶  [169]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں  کر چکے ہیں  تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا۔

اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۴۵ۙ [170]

ترجمہ:پھر کیا وہ لوگ جو(دعوت پیغمبر کے مخالفت میں ) بدتر سے بدتر چالیں  چل رہے ہیں  اس بات سے بالکل ہی بےخوف ہو گئے ہیں  کہ اللہ ان کو زمین میں  دھنسا دے یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو۔

فَیَاْتِیَہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۰۲ۙ [171]

ترجمہ:پس وہ عذاب ان کو ناگہاں  آجائے گا انہیں  اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔

كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۵ [172]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ اسی طرح جھٹلا چکے ہیں  آخر ان پر عذاب ایسے رخ سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔

ان کے بڑے بڑے نامور سترسردار قتل ہوگئے اورتمام شریرلوگوں  کااستیصال ہوگیااورمکہ مکرمہ کاکوئی گھرایسانہ بچاجسے یہ مصیبت نہ پہنچی ہو۔

یَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْكَافِرِینَ ‎﴿٥٤﴾‏ یَوْمَ یَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَیَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِی وَاسِعَةٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُونِ ‎﴿٥٦﴾‏ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَیْنَا تُرْجَعُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ وَكَأَیِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ یَرْزُقُهَا وَإِیَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٦٠﴾ (العنکبوت)
’’ یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور (تسلی رکھیں) جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے،اس دن ان کےاوپر تلے سے انہیں عذاب ڈھانپ رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب اپنے (بد) اعمال کا مزہ چھکو، اے میرے ایمان والے بندو ! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو ،ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے،اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے انہیں ہم یقیناً جنت کے ان بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے، وہ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں، اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے، ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے، وہ بڑا ہی سننے والا ہے ۔‘‘

یہ لوگ دعوت حق قبول کرنے اوراللہ سے اپنی بخشش طلب کرنے کے بجائے اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکر تم سے باربار عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں  حالانکہ جہنم ان کافروں  کو گھیرے میں  لے چکی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا  ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔۔۔  [173]

ترجمہ:ہم نے (انکار کرنے والے )ظالموں  کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپیٹیں  انہیں  گھیرے میں  لے چکی ہیں ۔

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۔۔۔۝۰۝۴۱[174]

ترجمہ:ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔

لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ۔۔۔۝۰۝۱۶ [175]

ترجمہ:اُن پر آگ کی چھتریاں  اوپر سے بھی چھائی ہوں  گی اور نیچے سے بھی۔

لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ ۔۔۔۝۳۹  [176]

ترجمہ:کاش اِن کافروں  کو اس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں  گے نہ اپنی پیٹھیں ۔

اور اس روز انہیں  پتہ چلے گا جبکہ جہنم کا دردناک عذاب انہیں  اوپر اور نیچے سے ڈھانپ لے گا،جب دوزخیوں  کوعذاب چاروں  طرف سے گھیرلے گاتواللہ تعالیٰ یاجہنم کے نگراں فرشتے کہیں  گے کہ اب اپنے کفروشرک اوران بداعمالیوں  کا چکھو مزا جو تم دنیامیں  کرتے تھے،جیسے فرمایا

یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ۝۰ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۝۴۸ [177]

ترجمہ:جس روز یہ منہ کے بل آگ میں  گھسیٹے جائیں  گے اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا۔

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا۝۱۳ۭهٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴ [178]

ترجمہ:جس دن انہیں  دھکے مار مار کر نارِ جہنم کی طرف لے چلا جائے گااس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

اب اس عذاب پرصبرکرویاآہ فغاں  کرویکساں  ہے،تم موت کوایک بارنہیں  باربارپکارومگراب موت بھی نہیں  آئے گی ،جیسے فرمایا

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭ لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴  [179]

ترجمہ:اور جب یہ دست و پا بستہ اس میں  ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں  گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں  گے،(اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک موت کو نہیں  بہت سی موتوں  کو پکارو ۔

جب مسلمانوں  پرمکہ میں  اسلامی تعلیمات واحکامات پرچلنامشکل ہوگیا اورمشرکین کے انتہائی غیض وغضب ،ظلم وستم میں  سانس لینابھی مشکل ہوگیاتواللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوفرمایاکہ اے میرے بندو!جومجھ پر اورمیرے رسولوں  پرایمان لائے ہیں  اللہ تعالیٰ کی بچھائی ہوئی زمین تنگ نہیں  بلکہ کشادہ، فراغ ہے ،جب کسی سرزمین میں  تمہارے لئے اپنے رب کی عبادت کرناممکن نہ رہے تواس کو چھوڑکرکسی اور سرزمین میں  چلے جاؤ جہاں  تم اللہ وحدہ لاشریک کی آزادی سے عبادت کرسکو اور بالآخرایک وقت مقررہ پر تمہاری زندگی ختم اورموت آکررہے گی۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۝۱۸۵ [180]

ترجمہ:آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں  آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں  داخل کر دیا جائے۔

 كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً۔۔۔۝۳۵ [181]

ترجمہ:ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور برے حالات میں  ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں  ۔

پھرتمہیں  اپنے رب کی طرف لوٹناہے اوراپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے ،اس وقت اللہ اس شخص کوبہترین جزاسے نوازے گاجس نے ایمان اوراعمال صالحہ کواکٹھاکیا،وہ انہیں  رفیع الشان بالاخانوں  اورخوبصورت منازل میں  ٹھیرائے گاجن کے نیچے قسم قسم کی نہریں  بہہ رہی ہیں ،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۭ كَمَنْ ہُوَخَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [182]

ترجمہ:پرہیز گاروں  کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں  نہریں  بہہ رہی ہوں  گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں  ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں  کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں  ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں  گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔

اللہ تعالیٰ کی تیارکردہ جنت میں  کبھی ختم نہ ہونے والی وہ تمام چیزیں  جمع ہوں  گی جسے نفس چاہتے اورآنکھیں  لذت حاصل کرتی ہیں ۔

 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [183]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے۔

اورجنت کے اونچے محلات میں  تم ہمیشہ رہوگے،

أَبُو مُعَانِقٍ الأَشْعَرِیُّ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الأَشْعَرِیّ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ أَنَّ فِی الْجَنَّةِ غُرَفًا یُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا ( أَعَدَّهَا اللَّهُ تعالی)  لمن أطعم الطعام،وأطاب الْكَلامَ  وَتَابَعَ الصَّلاةَ وَالصِّیَامَ، وَقَامَ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ

ابومعانق اشعری اپنے والدابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایاتھابے شک جنت میں  کچھ ایسے محلات بھی ہوں  گے جن کے باہرسے اندراوراندرسے باہردیکھاجاسکے گایہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں  کے لیے تیارفرمائے ہیں  جوکھاناکھلاتے ہیں  پاکیزہ گفتگوکرتے ہیں ، نمازروزے کی پابندی کرتے ہیں  اوررات کواس وقت نمازپڑھتے ہیں  جب لوگ سوئے ہوتے ہیں ۔[184]

اوریہ سوچ کرہمت نہ ہاروکہ ہمارے رزق کاکیاہوگا،ذراجانوروں  اور پرندوں  کودیکھوان کے پاس رزق کاذخیرہ نہیں  ہوتااورجب یہ صبح سویرے اپنے گھروں  اور گھونسلوں  سے خالی پیٹ نکلتے ہیں  تواپنارزق اورتوشہ دان ساتھ اٹھاکرنہیں  چلتے مگراللہ تعالیٰ انہیں  رزق دے دیتاہے،چنانچہ تم جہاں  بھی ہجرت کرجاؤ گے ہم وہیں  پربحروبرکی بے شمار دوسری مخلوقات کی طرح تمہارارزق بہم پہنچائیں  گے۔

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [185]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں  ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں  وہ رہتا ہے اور کہاں  وہ سونپا جاتا ہے سب کچھ ایک صاف دفتر میں  درج ہے۔

اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہروباطن اوراعمال وافعال کو جانتااورتمہاری التجاؤ ں  کوسنتااورپوراکرتا ہےاس لئےاللہ قادرمطلق پربھروسہ کرواوراس کے سواکسی سے مت ڈرو ۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ یُؤْفَكُونَ ‎﴿٦١﴾‏ اللَّهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَیَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٦٢﴾ (العنکبوت)
’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے ؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ، پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ، یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔‘‘

توحیدالوہیت :

مگرشیطان نے مشرکین کی آنکھوں پراس طرح پردے ڈال رکھے تھے کہ وہ ہرسوبکھری اللہ کی نشانیوں  کو دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کرتے ،ان کے کانوں  کوحق کی طرف سے بہرہ بنارکھاتھا کہ حق بات سننا گوارہ نہیں کرتے ،ان کے دلوں  کوخشیت اللہ سے عاری کررکھاتھاکہ انہیں  اپنی عاقبت کاکوئی خوف نہ تھا،الغرض وہ بری طرح اس کے شکنجے میں  جکڑے ہوے تھے کہ ان کوکوئی دلیل سمجھ میں  نہ آتی تھی،اللہ تعالیٰ نے ایک اورطرح سے انہیں  سمجھایاکہ جب تم سمجھتے ہواوراس کااظہاربھی کرتے ہوکہ اس کائنات کو اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق فرمایا ہے ،اوراسی نےچاند،سورج ، ستاروں  ،پہاڑوں  اورہواؤ ں  اوربے شمارمخلوقات وغیرہ کوانسان کی خدمت کے لئے مسخرکر رکھا ہے ، جو آسمان سے پانی برساکرتمہارے رزق کابندوبست کرتاہے،جوتمام کائنات کی تدبیرکرتاہے توپھر حمدوستائش کامستحق صرف وہی وحدہ لاشریک ہی ہوسکتاہے ،جب تم خوداپنے خودساختہ معبودوں  کی عاجزی اوربے بسی کاواضح اقرار کرتے ہوکہ تمہارے معبودوں  نے کچھ تخلیق نہیں  کیا،وہ کسی کورزق بھی نہیں  پہنچاسکتے،ان کے پاس کچھ طاقت ،قدرت واختیارہی نہیں  ہے توضعیف العقل لوگو!خودہی غورکروانہیں  معبودکادرجہ کس نے دیا،ان کوحمدکااستحقاق کہاں  سے مل گیا،کائنات کی تمام مخلوقات کارازق اللہ تعالیٰ ہی ہےوہ اپنی حکمت ومشیت سے اپنے جس بندے کا رزق چاہتاہے کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

‏ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٦٣﴾‏وَمَا هَٰذِهِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿٦٤﴾ (العنکبوت)
’’ اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا ؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے، آپ کہہ دیجئے کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے، بلکہ ان میں اکثر بےعقل ہیں ،اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے، البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش ! یہ جانتے ہوتے۔‘‘

توحیدربوبیت :

اورجب تم لوگ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہوکہ آسمانوں  سے بارش کابندوبست بھی اللہ ہی کرتاہے ،جس سے تمہاری مردہ پڑی ہوئی زمینیں  زندہ ہوجاتی اورلہلہااٹھتی ہیں  ، تمہارے جانوروں  کے لئے خوراک اورتمہارے لئے انواع واقسام کی اجناس اورطرح طرح کے پھل پیداکرتی ہے،اسی بارش کے پانی سے دریارواں  دواں  ہوتے ہیں  جس میں  تمہاری کشتیاں  چلتی ہیں  تو پھر اللہ تعالیٰ کی خالقیت وربوبیت کے اعتراف کے باوجودخودساختہ معبودوں  کومشکل کشااورحاجت روااورلائق عبادت کیوں  سمجھ رہے ہو جنہوں  نے اس نعمتوں  کوزمین سے نکالا ہی نہیں  اورنہ ہی اس کی طاقت وقدرت رکھتے ہیں ،اللہ پرتوکل کرنےکے بجائے غیراللہ پربھروسہ کیوں  کرتے ہو؟ اللہ جوتمہاری پکار کوسنتااورپوراکرتاہے اسے چھوڑکردوسروں  کوکیوں  پکارتے ہو؟اللہ جوتمام مخلوقات کارازق ہے اسے چھوڑکرغیراللہ سے رزق کیوں  طلب کرتے ہو؟اور دنیا کی یہ زندگی تو ایک کھیل اور دل کا بہلاواکے سواکچھ حیثیت نہیں  رکھتی ،یہ توچندسانسوں  پرمشتمل زندگی ہےتمہاری اصل زندگی اوردائمی گھر تو دارِ آخرت ہے ، جس کے لئے تمہیں  جدوجہدکرنی چاہیے،کاش! یہ لوگ دنیاکی بے ثباتی کو جانتے تواپنی حقیقی اوردائمی زندگی سے بے پرواہ ہوکراس زندگی کی رنگینیوں  میں  نہ کھوجاتے۔

فَإِذَا رَكِبُوا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ یُشْرِكُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ لِیَكْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاهُمْ وَلِیَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿٦٦﴾ (العنکبوت)
’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیںتاکہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے رہیں اور برتتے رہیں، ابھی ابھی پتہ چل جائے گا۔‘‘

مشرکین مکہ نام کی حدتک اللہ تعالیٰ کومانتے تھے باقی ساراکاروبارزندگی ان کے خودساختہ معبودوں  کے ہاتھوں  میں  تھا،وہی رزق دینے والے تھے،اولادیں  دینے والے تھے ،جانوروں اورپیداوار میں  اضافہ کرنے والے تھے ،دشمنوں  پرفتح دینے والے اوروہی مشکل کشاتھے ،مگرجب وہ سمندری مسافرت میں  ہوتے اوریکایک تیزہوائیں  چلنا شروع ہوجاتیں  اورکشتی گرداب وغیرہ میں  پھنس جاتی جس سے خطرہ پیداہوجاتاکہ اب کشتی کے بچنے کاکوئی امکان نہیں اورموت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوتی تومشکل کی اس گھڑی میں  اپنے ان معبودوں  کوبھول جاتے،جن کے بارے میں  ان کادعویٰ تھا کہ وہ ہمارے مشکل کشاحاجت رواہیں ،بگڑی بنانے والے ہیں  اور اللہ کے دامن کے سواکوئی دوسری پناہ گاہ نظرنہ آتی توسب مشرک مسافرپورے خلوص نیت سے اللہ کی بارگاہ میں  ہاتھ پھیلادیتے کہ اگراللہ نے ہمیں  اس مشکل سے بچا لیا تو وہ شرک سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک سے لولگالیں  گے مگرجب یہ شدت اورمصیبت ختم ہوجاتی اور اللہ انہیں  بحفاظت خشکی پرپہنچا دیتا تو اپنے عزم وارادے بھول جاتے اورخشکی پرپہنچتے ہی اللہ کاشکربجالانے کے بجائے اپنے معبودوں  کی چوکھٹ پرسر جھکانے کے لئے پہنچ جاتے جیسے انہوں  نے ان لوگوں  کی مشکل کشائی کی ہو،اس مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷ [186]

ترجمہ:جب سمند ر میں  تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں  مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو انسان واقعی بڑا نا شکرا ہے۔

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ۝۳۳ۙ [187]

ترجمہ:لوگوں  کا حال یہ ہے کہ جب انہیں  کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں  پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں  چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں  سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے جومہلت انہیں  عنایت فرمائی ہوئی ہے ان لمحوں  میں  خوب اچھل کودکرلیں ، جانوروں  کی طرح خوب کھاپی لیں ،من مستی،بے فکری میں  ان قیمتی لمحوں  کوضائع کرلیں ،دنیاکی یہ زیب وزینت جلدہی زائل ہوکرختم ہوجائے گی ،اس مہلت کے بعدانہوں  نے ہماری بارگاہ میں  اعمال کاحساب کتاب دینے حاضرہوناہے ،اس وقت انہیں  اچھی طرح معلوم ہو جائے گاکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے کاکیاخوفناک انجام ہوتاہے مگراس وقت انہیں  ندامت اورخسارے کے سواکچھ حاصل نہ ہوگا۔

أَنَّهُ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ ذَهَبَ فَارًّا مِنْهَا، فَلَمَّا رَكِبَ فِی الْبَحْرِ لِیَذْهَبَ إِلَى الْحَبَشَةِ، اضْطَرَبَتْ بِهِمُ السَّفِینَةُ،  فَقَالَ أَهْلُهَا: یَا قَوْمِ، أَخْلِصُوا لِرَبِّكُمُ الدُّعَاءَ، فَإِنَّهُ لَا یُنْجِی هَاهُنَا إِلَّا هُوَفَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ إِنْ كَانَ لَا یُنْجِی فِی الْبَحْرِ غَیْرُهُ، فَإِنَّهُ لَا یُنَجّی غَیْرُهُ فِی الْبَرِّ أَیْضًااللَّهُمَّ لَكَ علیَّ عَهْدٌ لَئِنْ خرجتُ لَأَذْهَبْنَ فلأضعَنّ یَدِی فِی یَدِ مُحَمَّدٍ فلأجدنه رؤوفًا رَحِیمًا، وَكَانَ كَذَلِكَ

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح فرمایاتوعکرمہ بن ابی جہل نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت سے بچنے کے لئے مکہ سے فرار ہو کرجدہ کی راہ لی اور حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی پرسوارہوا،جب کشتی بیچ سمندرمیں  پہنچی تواتفاقاًسخت طوفان آیااورکشتی گرداب میں  پھنس گئی،اول اول تودیوی دیوتاؤ ں  کوپکاراجاتا رہا، آخر کشتی میں  سوارلوگوں  نے (حسب سابق) ایک دوسرے سے کہا کہ مکمل خلوص نیت سے اللہ سے دعائیں  کروکیونکہ اب اس کے علاوہ کوئی اوراس مصیبت سے نجات دینے والانہیں ،لوگوں  کی گفتگوسن کرعکرمہ بن ابی جہل سوچ میں  پڑگیاکہ اگریہاں  سمندرمیں  رب کے سواکوئی اورنجات نہیں  دے سکتا توخشکی میں  اس کے سواکون مصیبتوں  کوٹالنے والاہو سکتاہے،یہ بات ان کے دل میں  گھرکرگئی اوراس نے دل میں  عہدکرلیاکہ اگرمیں  یہاں  سے بخیریت ساحل پرپہنچ گیا تو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ پربیعت کرکے مسلمان ہوجاؤ ں  گامجھے یقین ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤ ں  سے درگزرفرمالیں  گے اورمجھ پررحم کریں  گے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے کشتی کو بچا لیا اور عکرمہ بن ابی جہل نے اپنے ارادہ کے مطابق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکراسلام قبول کرلیا۔ [188]

اچھااس عارضی ،فانی دنیامیں جویہ چاہیں  کرلیں عنقریب انہیں  اپنی بداعمالیوں  کانتیجہ معلوم ہوجائے گا۔

أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ یَكْفُرُونَ ‎﴿٦٧﴾(العنکبوت)
’’کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنادیا ہے حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں ۔‘‘

احسان کابدلہ احسان :

اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر اپنی بے بہانعمت اور احسان کاتذکرہ فرمایاکہ کیاتم لوگ اپنے شہرمکہ مکرمہ کونہیں  دیکھتے کہ اللہ نے اسے کیساکمال درجے کا پرامن شہربنادیاہے ،یہاں  کے باشندے قتل وغارت ،لوٹ ماراوراسیری وغیرہ سے محفوظ ومامون ہیں ،جب کہ عرب کے دوسرے علاقے خوف زدہ رہتے ہیں  اور امن وسکون سے محروم ہیں ،جدال وقتال ولوٹ مار وہاں  روزکامعمول ومشغلہ ہے، کیاتمہارے بے شمارچھوٹے بڑے دیوی دیوتاؤ ں  میں  سے لات،منات ،عزیٰ،بعل ،ود،سواع ، یغوث ، یعوق ،نسراورشعریٰ یاجنات یافرشتوں  میں  سے کسی نے ایسا پائیدارامن قائم کیاہواہے؟کیاتم سوچتے نہیں  کہ کیاان دیوی دیوتاؤ ں  میں  اتنی قوت و طاقت واختیار تھا کہ وہ ڈھائی ہزارسال سے عرب کی انتہائی بدامنی کے ماحول میں  اس جگہ کوتمام فتنوں  اورفسادوں  سے محفوظ رکھتے ؟ کیا تم نہیں  سوچتے کہ اس گھرکوہمارے پیغمبر ابراہیم  علیہ السلام نے ہمارے حکم سے تعمیرکیا تھا اور ہم ہی اس وقت سے اس کی حرمت کوبرقراررکھے ہوئے ہیں ؟ جب تم تسلیم کرتے ہوکہ یہ بیت اللہ ہے ،یہ ہماراگھرہے اورہمارے ہی حکم سے ابراہیم  علیہ السلام  نے اسے خالص ہماری ہی عبادت کے لئے تعمیرکیاتھا توپھراس رب کا شکرکیوں  نہیں  بجالاتے جس نے بھوک اورقحط میں  کھاناکھلایااورخوف اوربدامنی میں  امن مہیا کیا۔

الَّذِیْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ۝۰ۥۙ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۝۴ۧ  [189]

ترجمہ:جس نے اِنہیں  بھوک (قحط) سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ۔

مگر اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان پرشکرگزاری کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللہِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ۝۲۸ۙ  [190]

ترجمہ:تم نے دیکھا ان لوگوں  کو جنہوں  نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں  جھونک دیا۔

نبی آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم  کوجھٹلاتے ،ایذاپہنچاتے اوردعوت کاراستہ روکنے کی کوششیں  کرتے ہو آخر کیوں  باطل پرستی میں  حق کی دعوت کونہیں  سنتے؟

‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ أَلَیْسَ فِی جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِینَ ‎﴿٦٨﴾‏ وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٦٩﴾‏ (العنکبوت)

’’ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا جب حق اس کے پاس آجائے وہ اسے جھٹلائے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا ؟ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے، یقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے تمام انبیاء کی طرح تمہیں  دعوت توحیدپیش کی ہےمگر تم نے بغیراس پرغوروفکرکیے محض اپنے آباؤ اجدادکی تقلیدمیں  اس پاکیزہ دعوت کو جھٹلا دیا ہے اب معاملہ دو حال سے خالی نہیں  اگر نبی نے اللہ کا نام لے کر جھوٹا دعوی کیا ہے تو اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں  اور اگر تم نے سچے نبی کی تکذیب کی ہے تو پھر تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں  ، کیونکہ یہ دونوں  ہی بڑے جرم ہیں  اس لیے فرمایاایسے کافروں  کاجواللہ پرجھوٹ باندھیں  یااللہ کی طرف سے جوحق نازل ہواہے اسے جھٹلادیں ان کا ٹھکانہ یقیناً جہنم ہی ہے؟ جیسے فرمایا

وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ۝۷ۙیَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللہِ تُتْلٰى عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا۝۰ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۸

ترجمہ:تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں  اور وہ ان کو سنتا ہےپھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ، ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مژدہ سنا دو ۔

سورت کے آغازمیں  فرمایاتھا

وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ۔۔۔۝۶  [191]

ترجمہ:اور جو کوئی بھی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے (ہی فائدے کے) لیے جہاد کرتا ہے۔

یعنی جو نیک عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔اب اختتام بھی اسی مجاہدے کی بشارت کے ساتھ فرمایا جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کش مکش کا خطرہ مول لے لیتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا بلکہ وہ ان کی دستگیری و رہنمائی فرماتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے، وہ قدم قدم پر انہیں بتاتا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کرسکتے ہو، ہر ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں، جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی ان کے ساتھ رہتی ہے۔

[1] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۲،المعجم الکبیرللطبرانی۳۶۴۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۲۰

[2] البقرة۱۵۵

[3] التوبة۱۶

[4] البقرة۲۱۴

[5] آل عمران ۱۴۲

[6] محمد۳۱

[7] جامع ترمذی کتاب الزھدبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّبْرِ عَلَى البَلاَءِ ۲۳۹۸،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ۴۰۲۳، مسند احمد۱۵۵۵،صحیح ابن حبان ۲۹۰۱،شعب الایمان ۹۳۱۸،السنن الکبری للنسائی ۷۴۳۹،مسندابی یعلی ۸۳۰

[8] الرحمٰن۳۳

[9] الاعراف۱۶،۱۷

[10] بنی اسرائیل۶۲

[11]العنکبوت۳۸

[12] الانعام۴۳

[13] الزخرف۳۶،۳۷

[14] النمل۴

[15] الجاثیة۱۵

[16] حم السجدة۴۶

[17]صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۷۲  ،شعب الایمان ۶۶۸۶،شرح السنة للبغوی۱۲۹۱

[18] الانعام۱۶۰

[19] القصص۸۴

[20] النسائ۴۰

[21] الفرقان۷۰

[22] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۶۲۳۸، جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ العَنْكَبُوتِ  ۳۱۸۹،صحیح ابن حبان ۶۹۹۲،مسندابی یعلی ۷۸۲ش

[23] بنی اسرائیل۲۳

[24] لقمان۱۵

[25] مسنداحمد۱۹۸۸۰

[26] تفسیرطبری۱۳؍۲۰

[27] الحج۱۱،۱۲

[28] النسائ۱۴۱

[29] شعیب الایمان۲۰۳

[30] موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان۱۵۴۲،۳۷۰؍۱

[31] فاطر۳۸

[32] المومن۱۹

[33] التغابن۴

[34] محمد۳۱

[35] آل عمران۱۷۹

[36] الملک۸

[37] عبس۳۳تا۳۷

[38] فاطر۱۸

[39] فاطر۱۸

[40] المعارج۱۰

[41] النجم۳۶تا۳۸

[42] النحل۲۵

[43] صحیح مسلم کتاب العلم  بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً وَمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى أَوْ ضَلَالَةٍ۶۸۰۴،سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ لُزُومِ السُّنَّةِ من دعاالیٰ کزوم السنة۴۶۰۹،سنن ابن ماجہ المقدمة بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً۲۰۳،جامع ترمذی ابواب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ ۲۶۷۴، مسند احمد۹۱۶۰، مسند البزار ۸۳۳۸، صحیح ابن حبان ۱۱۲،سنن دارمی ۵۳۰،مسندابی یعلی ۶۴۸۹،شرح السنة للبغوی ۱۰۹

[44] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ ۳۳۳۵،وکتاب الدیات بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَنْ أَحْیَاهَا۶۸۶۷،وكِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ إِثْمِ مَنْ دَعَا إِلَى ضَلاَلَةٍ، أَوْ سَنَّ سُنَّةً سَیِّئَةً ۷۳۲۱،صحیح مسلم کتاب القسامة والمحاربین بَابُ بَیَانِ إِثْمِ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۴۳۷۹، سنن ابن ماجہ  کتاب الدیات بَابُ التَّغْلِیظِ فِی قَتْلِ مُسْلِمٍ ظُلْمًا ۲۶۱۷،سنن نسائی کتاب المحاربة كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ۳۹۹۰ ، مسنداحمد۳۶۳۰،السنن الکبری للنسائی ۳۴۳۳،مصنف ابن ابی شیبة ۲۷۷۵۹، شرح السنة للبغوی ۱۱۱

[45] العنكبوت: 13

[46] تفسیرابن ابی حاتم۳۰۳۹؍۹،الدر المنثورفی التفسیربالماثور۴۵۴؍۶

[47] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۹

[48] نوح۲۶،۲۷

[49] ھود۳۶

[50] ھود۴۰

[51] یٰسین۴۱،۴۲

[52] الحاقة۱۱،۱۲

[53] القصص۵۶

[54] یونس۹۷

[55] ق۱۲تا۱۴

[56] یونس۳۹

[57] مریم۶۷

[58] الدھر۱

[59] النحل۷۸

[60] المومنون۷۸

[61] السجدة۹

[62] الملک۲۳

[63] الغاشیة۱۹،۲۰

[64] الطور۳۵

[65] الروم۲۷

[66] البروج۱۳

[67] الرحمٰن۳۳

[68] الاعراف۱۵۶

[69] الاعراف۱۵۶

[70] الصافات۹۷،۹۸

[71] الانبیاء ۶۸،۶۹

[72] الزخرف۶۷

[73] الاعراف۳۸

[74] الاحزاب۶۷،۶۸

[75] الاحقاف۶

[76] مریم۴۹

[77] الانبیاء ۷۲

[78] ھود۷۱

[79] النحل۱۲۲

[80]مروج الذہب ومعادن الجوھر للمسعودی ۴۲؍۱

[81] الشمس۸

[82] البلد۱۰

[83] الذاریات۵۶

[84] الاعراف۸،۹

[85] المومنون۱۰۲،۱۰۳

[86] القارعة۶تا۱۱

[87] النسائ۱۱۸،۱۱۹

[88] الحجر۳۹،۴۰

[89] الاعراف۱۶،۱۷

[90] النحل۶۳

[91] البروج۱۲

[92] الذاریات۴۹

[93] النمل۵۵

[94] الاعراف۸۱

[95] الشعراء ۱۶۵،۱۶۶

[96] النمل ۵۴

[97] البقرة۱۵۵

[98] الاحزاب۷۱

[99] الشعراء ۱۶۷

[100] النمل۵۶

[101] القمر۳۶

[102] المومنون۳۸

[103]الشعر اء ۱۶۹

[104] الذاریات۳۱تا۳۴

[105] ھود۷۴

[106] الْعَنْكَبُوتِ:32

[107] تفسیرابن کثیر۳۳۵؍۴

[108] ھود۷۶

[109] الشعراء ۱۷۰،۱۷۱

[110] القمر۳۴

[111] الذاریات۳۵،۳۶

[112] ھود ۸۱

[113] الحجر۶۵

[114] الحجر ۷۳،۷۴

[115] ھود۸۲

[116]  الحجر۷۶،۷۷

[117] الصافات۱۳۷،۱۳۸

[118] تفسیرطبری۳۴؍۲۰

[119] تفسیرطبری۳۴؍۲۰

[120] النازعات۲۴

[121] القصص۳۸

[122] البقرة۲۵۶

[123] النجم۲۳

[124] یونس۶۶

[125] الملک۳،۴

[126] الانعام۷۳

[127] ابراہیم۱۹

[128] الحجر۸۵

[129] الروم۸

[130] الدخان۳۸

[131] الجاثیة۲۲

[132] البقرة۱۵۳

[133] العنكبوت: 45

[134] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۳۳۹

[135]تفسیرابن ابی حاتم۱۷۳۴۰،۳۰۶۶؍۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۱۰۲۵

[136] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۳۴۱

[137] مسنداحمد۹۷۷۸،صحیح ابن حبان۲۵۶۰

[138] العنكبوت: 45

[139] تفسیرابن  ابی حاتم۱۷۳۴۴

[140] العنكبوت: 45

[141] تفسیرطبری ۴۲؍۲۰، تفسیرابن ابی حاتم۳۰۶۶؍۹

[142] البقرة۱۵۲

[143] ق۱۶تا۱۸

[144] الکہف۴۹

[145] النحل۱۲۵

[146] حم السجدة۳۴

[147] المومنون۹۶

[148] الاعراف۱۹۹،۲۰۰

[149] طہ۴۴

[150]صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَسْأَلُوا أَهْلَ الكِتَابِ عَنْ شَیْءٍ ۷۳۶۳

[151] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَسْأَلُوا أَهْلَ الكِتَابِ عَنْ شَیْءٍ۷۳۶۱

[152] الاعراف۱۵۷

[153] یونس ۱۶

[154] ھود۴۹

[155] آل عمران۴۴

[156] یوسف۱۰۲

[157] القصص۴۴تا۴۶

[158] بنی اسرائیل ۹۰تا۹۳

[159] الاعراف۱۸۶

[160] الکہف۱۷

[161] الانعام۱۹

[162] الحاقة۴۴تا۴۶

[163] الانعام۱۶

[164] الانفال۳۲

[165] الرعد۶

[166] النمل۴۶

[167] الشعراء ۲۰۴

[168] الحج۴۷

[169] النحل۲۶

[170] النحل۴۵

[171] الشعراء ۲۰۲

[172] الزمر۲۵

[173] الکہف۲۹

[174] الاعراف۴۱

[175] الزمر۱۶

[176] الانبیاء ۳۹

[177] القمر۴۸

[178] الطور۱۳،۱۴

[179] الفرقان۱۳،۱۴

[180] آل عمران۱۸۵

[181] الانبیاء ۳۵

[182] محمد۱۵

[183] السجدة۱۷

[184]تفسیرابن ابی حاتم۳۰۷۷؍۹،صحیح ابن حبان۵۰۹، جامع ترمذی  أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ الْمَعْرُوفِ ۱۹۸۴،مستدرک حاکم۲۷۰

[185] ھود۶

[186] بنی اسرائیل۶۷

[187] الروم۳۳

[188] تفسیرابن کثیر ۲۹۵؍۶

[189] القریش۴

[190] ابراہیم۲۸

[191] العنکبوت۶

Related Articles