بعثت نبوی کا پہلا سال

 مضامین سورۂ القدر

سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف نہیں بلکہ اس عظیم الشان کلام کو اللہ مالک ارض وسماوات نے نازل کیاہے،جس رات میں یہ پاکیزہ کلام آسمان دنیاپراتاراگیااس کی فضیلت کے بارے میں فرمایاکہ ہم نے یہ قرآن اس رات میں نازل کیاجس کی قدرومنزلت ہمارے ہاں ہزارراتوں سے زیادہ ہے کیونکہ اس رات میں ایک ایسی کتاب اتارنے کافیصلہ کیاگیاجوخودخالق کائنات کاکلام ہے ،اس قرآن کی وجہ سے ہم ان سارے لوگوں کوجواس پرعمل پیراہوں گے عزت و منزلت کے مناصب عطاکریں گے ،نیزیہ کہ یہ کتاب اس قدرفضیلت اور برکت والی ہے کہ اس کے ذریعے سے ہم عرب بلکہ ساری کائنات کے نظام کویکسربدل دیں گے ، سورۂ میں اہل مکہ کولطیف پیرائے میں تنبیہ کی گئی کہ تم جس قرآن کواپنے لئے مصیبت اورآفت سمجھ رہے ہویہ قرآن بجائے خودایک رحمت ہے بلکہ اس پرعمل کرنے والے دنیا وآخرت میں ہرمصیبت وآفت سے نجات پاجائیں گے ،اس ر ات میں غروب آفتاب سے صبح صادق تک آپ کے رب کے حکم سے سلامتی اورخیروبرکت نازل ہوتی رہتی ہے اور اس رات ہرقسم کی شراورآفت کوروک دیاجاتاہے اوراس رات تقدیروں کے فیصلے کردیے جاتے ہیں ۔

اس سورۂ کے شان نزول میں واحدی نے اپنی سندکے ساتھ مجاہدسے نقل کیاہے۔

وَقَالَ ابن مسعود: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَبِسَ السِّلَاحَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَلْفَ شَهْرٍ فَعَجِبَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ ذَلِكَ،فَنَزَلَتْ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ،خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کاذکرفرمایاجس نے ایک ہزارمہینے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیاتھا اس کوسن کرمسلمانوں کوبے حدتعجب ہوا اس پریہ سورۂ شریف نازل ہوئی۔[1]

عَنْ مُجَاهِدٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِی إسرائیل لَبس السلاح فی سَبِیلِ اللَّهِ أَلْفَ شَهْرٍ قَالَ: فَعَجب الْمُسْلِمُونَ مِنْ ذَلِكَ ،قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:إِنَّا أَنزلْنَاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کاذکر فرمایاجوجنگی لباس پہن کرایک ہزارماہ تک اللہ کے دین کے لیے جہادکرتے رہے،یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتعجب ہوا تواللہ عزوجل نے یہ سورہ نازل فرمائی ہم نے اس(قرآن)کوشب قدرمیں نازل کیاہےاورتم کیاجانوکہ شب قدرکیاہے؟شب قدرہزارمہینوں سے زیادہ بہترہے ۔[2]

رجلا من بنى إسرائیل اسمه شمسون لبس السلاح فى سبیل الله ألف شهر فتعجب المؤمنون منه وتقاصرت إلیهم أعمالهم فاعطوا لیلة هى خیر من مدة

مفسرین نے کہاہےپہلے زمانے میں ایک بنی اسرائیل میں شمسون نامی نبی تھے جوایک ہزارماہ تک اللہ کے دین کے لئے جہادفرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیارجسم سے نہیں اتارے،یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس طویل عمرکے لئے تمنا ظاہرکی تاکہ وہ بھی اس طرح خدمت اسلام کریں ،اس پریہ سورہ نازل ہوئی اوربتلایاگیاکہ تم کوصرف ایک رات ایسی دی گئی جو عبادت کے لئے ایک ہزارماہ سے بھی بہتروافضل ہے۔[3]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ ‎﴿١﴾(القدر)
یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاکہ کلام اللہ (قرآن مجید)کوکب نازل فرمایااوراس رات کی عظمت کیاہے۔

فرمایایقیناًہم نے اس قرآن کولیلة القدرمیں نازل کیاہے،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُهُ: أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ جُمْلَةً وَاحِدَةً مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ إِلَى بَیْتِ العِزّة مِنَ السَّمَاءِ الدُّنْیَا ثُمَّ نَزَلَ مُفَصَّلًا بِحَسْبِ الْوَقَائِعِ فِی ثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً على رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اوردیگرائمہ کرام رحمہم اللہ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نےلوح محفوظ سے آسمان دنیاکےبیت العزت میں ایک ہی مرتبہ نازل فرمادیاتھاپھرحسب حالات وواقعا ت بہ تدریج تیئس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔[4]

وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ‎﴿٢﴾‏ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎﴿٣﴾(القدر)

تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔


اس رات کی عظمت واہمیت کوواضح کرنے کے لئے فرمایاکہ آپ کیاجانتے ہیں شب القدر کیا ہے ؟فرمایایہ وہ رات ہے جس کی قدرومنزلت ہمارے ہاں ایک ہزارمہینوں ،یعنی تریاسی سال چارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے ۔

حَدَّثَنِی أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِیُّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ یَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِیَامِهَا وَقِیَامِهَا

اسی طرح اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشاد فرماتے ہوئے سناہےجس نے جمعہ کے روزغسل کیااورخوب اچھی طرح کیااورجلدی آیااور(خطبہ میں )اول وقت پہنچا،پیدل چل کے آیا اور سوارنہ ہوا،امام سے قریب ہوکربیٹھااورغورسے سنااورلغوسے بچا(یعنی باتیں کرنا،کپڑوں ،صفوں کے تنکوں یادریوں وغیرہ سے دھاگو ں سے کھیلنا)تواس کے لئے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اورقیام (یعنی دن کوروزہ اوررات کومسلسل قیام کرنا) کے عمل کاثواب ہے۔[5]

اس رات کی قدرو منزلت اورعظمت وشرف اس لئے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ تقدیروں کے فیصلے فرماتا ہے ،جیسے فرمایا

وَالْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ۝۲ۙۛاِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۳ۚوَاِنَّهٗ فِیْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ۝۴ۭ [6]

ترجمہ:قسم ہے اس کتاب مبین کی کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیاہے کیونکہ ہم لوگوں کومتنبہ کرنے کاارادہ رکھتے تھے ،یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کاحکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادرکیاجاتاہے ۔

عن مجاهد، قوله (فِیهَا یُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِیمٍ)قَالَ: فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ كُلُّ أَمْرٍ یَكُونُ فِی السَّنَةِ إِلَى السَّنَةِ: الْحَیَاةُ وَالْمَوْتُ، یُقَدَّرُ فِیهَا الْمَعَایِشُ وَالْمَصَائِبُ كُلُّهَا

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’فِیهَا یُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِیمٍ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں لیلة القدرمیں ایک سال سے دوسرے سال تک کے زندگی اورموت،لوگوں کے رزق اورہرطرح کے معاملات کے فیصلے طے کردیئے جاتے ہیں ۔[7]

تقدیروں کافیصلہ کرنے والی رات کونسی ہے ؟

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ الْأَنْصَارِیِّ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَیْنِ فَقَالَ فِیهِ وُلِدْتُ وَفِیهِ أُنْزِلَ عَلَیَّ

ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموارکے دن روزے کے بارے میں دریافت کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا ، مجھے پیغمبر بنایا گیااورمجھ پر وحی نازل کی گئی۔[8]

چنانچہ وحی بروزدوشنبہ(سوموار) کو نازل ہوئی اس پرتمام مورخین کااتفاق ہے،مگروہ مہینہ کونسا تھااس پرمحدثین مختلف الرائے ہیں ،

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلعت نبوت آٹھ ربیع الاول کو پہنائی گئی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک پورے چالیس سال کی تھی ۔

قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ دو شنبہ کادن جس پر سب کواتفاق ہے وہ نو ربیع الاول کوپڑتاہے اس لئے یہ تاریخ صحیح ہے ،

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اصحاب الفیل کے اکتالیس سال بعداٹھارہ ربیع الاول کی تاریخ دیتے ہیں ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نزول وحی کی تاریخ ستائیس رجب کہتے ہیں ۔

حالانکہ باری تعالیٰ نے خود فرمادیا

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۝۱۸۵ [9]

ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔

اس لئے اکثرمورخین ربیع الاول اوررجب کے بجائے رمضان المبارک کوہی ترجیح دیتے ہیں ۔

حَدِیثِ أَنَسٍ،فَعَلَى الصَّحِیحِ الْمَشْهُورِ أَنَّ مَوْلِدَهُ فِی شَهْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ یَكُونُ حِینَ أُنْزِلَ عَلَیْهِ بن أَرْبَعِینَ سنة وَسِتَّة اشهروَكَانَ ذَلِكَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ نَهَارًاشَهْرُ رَمَضَانَ فِی سَابِعِ عَشَرِهِ أَنَّهُ الشَّهْرُ الَّذِی جَاءَ فِیهِ فِی حِرَاءٍ

چنانچہ انس سے روایت ہےجس میں حافظ ابن حجر نےفرمایاجب سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال اورچھ ماہ کی ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوربیع الاول کے مہینے منصب نبوت پرفائزکیا گیا اس وقت سوموارکا دن اور رمضان المبارک کی سترہ تاریخ تھی،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال ماہ رمضان المبارک میں غارحرامیں اعتکاف فرماتے تھے(قریش بھی اعتکاف کیاکرتے تھے) اس لئے حافظ عسقلانی اس قول کوصحیح تسلیم کرتے ہیں ۔[10]

کچھ مورخین سات ، کچھ بارہ رمضان المبارک،ام المومنین عائشہ صدیقہ سترہ رمضان المبارک ، ابن اثیر اٹھارہ رمضان المبارک ،مولاناصفی الرحمٰن اکیس رمضان المبارک ، واثلہ بن الاسقع ،جابر بن عبداللہ چوبیس رمضان المبارک بیان کرتے ہیں ،جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں تاریخ کے بارے میں فرمایا:

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ۝۳ [11]

ترجمہ:اس کتاب مبین کوہم نے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ، کیونکہ ہم لوگوں کومتنبہ کرنے کاارادہ رکھتے تھے ۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۝۱ [12]

ترجمہ:ہم نے اس (قرآن )کوشب قدر میں نازل کیاہے ۔

۔۔۔اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۔۔۔۝۴۱ [13]

ترجمہ: اگرتم ایمان لائے ہواللہ پراوراس چیز پرجوفیصلے کے روزیعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑکے دن ہم نے اپنے بندے پرنازل کی تھی ۔

اوراکثراہل علم کے نزدیک یہ مبارک رات رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَحَرَّوْا لَیْلَةَ القَدْرِ فِی الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشب قدرکو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو۔[14]

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ:خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَیْلَةِ القَدْرِ، فَتَلاَحَى فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ یَكُونَ خَیْرًا لَكُمْ فَالْتَمِسُوهَا فِی التَّاسِعَةِ، وَالسَّابِعَةِ، وَالخَامِسَةِ

عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدرکی خبردینے کے لئے تشریف لارہے تھے کہ دومسلم ان آپس میں کچھ جھگڑاکرنے لگے،اس پررحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں تمہیں شب قدربتانے کے لئے آیاتھالیکن فلاں اورفلاں نے آپس میں جھگڑاکرلیاپس اس کاعلم اٹھالیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہترہوگاپس اب تم شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات اکیس،تئیس،پچیس،ستائیس،انتیس میں تلاش کرو۔[15]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:التَمِسُوهَا فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَةَ القَدْرِ، فِی تَاسِعَةٍ تَبْقَى، فِی سَابِعَةٍ تَبْقَى، فِی خَامِسَةٍ تَبْقَى

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشب قدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو ، جب مہینہ ختم ہونے میں نودن ،یاسات دن ، یاپانچ دن باقی ہوں ۔[16]

ذُكِرَتْ لَیْلَةُ القَدْرِ عِنْدَ أَبِی بَكْرَةَ فَقَالَ:فَإِنِّی سَمِعْتُهُ یَقُولُ:التَمِسُوهَا فِی تِسْعٍ یَبْقَیْنَ، أَوْ فِی سَبْعٍ یَبْقَیْنَ، أَوْ فِی خَمْسٍ یَبْقَیْنَ، أَوْ فِی ثَلَاثِ أَوَاخِرِ لَیْلَةٍ

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنےلیلة القدرکاذکرکیاگیاتوانہوں نے فرمایامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ شب قدرکوتلاش کروجب نوراتیں باقی ہوں یا سات دن،یاپانچ دن،یاتین دن یاآخری رات۔[17]

مگر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف ستائیسویں رات ہی کوشب القدرکہتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ:إِنَّهَا لَیْلَةُ سَابِعَةٍ أَوْ تَاسِعَةٍ وَعِشْرِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا کہ یہ ستائیسویں یا انتیسویں شب ہوتی ہے۔[18]

عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ أُبَیٌّ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ:وَاللهِ، إِنِّی لَأَعْلَمُهَا، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْبَرُ عِلْمِی هِیَ اللَّیْلَةُ الَّتِی أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقِیَامِهَا، هِیَ لَیْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے زربن حبیش نے شب قدر کے بارے میں دریافت کیاتو انہوں نے کہااللہ کی قسم !میں اسے خوب جانتاہوں ،شعبہ نے کہاکہ اکثرروایتیں مجھے ایسی پہنچی ہیں کہ وہ وہی رات تھی جس میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجاگنے کا حکم فرمایااور وہ ستائیسویں رات ہے۔ [19]

عَنْ قَنَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّهْمِیِّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرًّا عَنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ: كَانَ عُمَرُ، وَحُذَیْفَةُ، وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَشُكُّونَ أَنَّهَا لَیْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ تَبْقَى ثَلَاثٌ

قنان بن عبداللہ نہمی سے مروی ہےہم نے ابوزر رضی اللہ عنہ سے شب القدر کے بارے میں دریافت کیاگیا توانہوں نے فرمایا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب، حدیفہ رضی اللہ عنہ اوربہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ شب قدررمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہے۔[20]

اس لئے علمائے سلف کی ایک بڑی تعداد ستائیسویں رات کو ہی شب القدرکہتے ہیں ، مگرصحیح حقیقت کاعلم اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کوہے اس لئے صرف ستائیسویں رات پرتکیہ کرنے کے بجائے اس مبارک شب کوآخری طاق راتوں میں بھی تلاش کرنا چاہیے، وَاللَّهُ أَعْلَم

 تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ ‎﴿٤﴾‏ سَلَامٌ هِیَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‎﴿٥﴾‏(القدر)

اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک (رہتی ہے) ۔جبرئیل علیہ السلام اورفرشتے اس رات میں اپنے رب کے اذن سے ہرحکم لے کراترتے ہیں ،


عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ:وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تِلْكَ اللَّیْلَةَ فِی الْأَرْضِ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ الْحَصَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیلة القدر میں زمین پر آنے والے فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔[21]

عَنْ كَعْبٍ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى عَلَى حَدِّ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ،مِمَّا یَلِی الْجَنَّةَ، فَهِیَ عَلَى حَدّ هَوَاءِ الدُّنْیَا وَهَوَاءِ الْآخِرَةِعُلوها فِی الْجَنَّةِ وَعُرُوقُهَا وَأَغْصَانُهَا مِنْ تَحْتِ الْكُرْسِیِّ، فِیهَا مَلَائِكَةٌ لَا یَعْلَمُ عِدَّتَهُمْ إِلَّا اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ، یَعْبُدُونَ اللَّهَ، عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أَغْصَانِهَا فِی كُلِّ مَوْضِعِ شَعْرَةٍ مِنْهَا مَلَكٌ وَمَقَامُ جِبْرِیلَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، فِی وَسَطِهَا فَیُنَادِی اللَّهُ جِبْرِیلَ أَنْ یَنْزِلَ فِی كُلِّ لَیْلَةِ قَدْر مَعَ الْمَلَائِكَةِ الَّذِینَ یَسْكُنُونَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، وَلَیْسَ فِیهِمْ مَلَكٌ إِلَّا قَدْ أُعْطِیَ الرَّأْفَةَ وَالرَّحْمَةَ لِلْمُؤْمِنِینَ، فَیَنْزِلُونَ عَلَى جِبْرِیلَ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ، حِینَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، فَلَا تَبْقَى بُقْعَةٌ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ إِلَّا وَعَلَیْهَا مَلَكٌ، إِمَّا سَاجِدٌ وَإِمَّا قَائِمٌ، یَدْعُو لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ كَنِیسَةٌ أَوْ بَیْعَةٌ، أَوْ بَیْتُ نَارٍ أَوْ وَثَنٍ أَوْ بَعْضُ أَمَاكِنِكُمُ الَّتِی تَطْرَحُونَ فِیهَا الخبَث، أَوْ بَیْتٌ فِیهِ سَكْرَانٌ، أَوْ بَیْتٌ فِیهِ مُسكر، أَوْ بَیْتٌ فِیهِ وَثَنٌ مَنْصُوبٌ، أَوْ بَیْتٌ فِیهِ جَرَسٌ مُعَلّق، أَوْ مَبْوَلَةٌ، أَوْ مَكَانٌ فِیهِ كَسَاحَةِ الْبَیْتِ،

لیلة القدرکے بارے میں کعب رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی روایت مروی ہےسدرة المنتہی جوساتویں آسمان کی حدپرجنت سے متصل ہے جودنیااورآخرت کے فاصلہ پرہے اس کی بلندی جنت میں ہے اوراس کی شاخیں اورڈالیاں کرسی تلے ہیں ،اس میں اس قدرفرشتے ہیں جن کی گنتی اللہ تعالیٰ کے سوااورکوئی نہیں جانتاوہ اللہ عزوجل کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ،اس کی ہرہرشاخ پربیشمارفرشتے ہیں ایک بال برابربھی جگہ ایسی نہیں جو فرشتوں سے خالی ہواوراس درخت کے بیچوں بیچ جبرئیل علیہ السلام کامقام ہے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرئیل کوآوازدی جاتی ہے کہ اے جبرئیل لیلة القدرمیں اس درخت کے تمام فرشتوں کولے کرزمین پرجاؤ ،یہ سارے کے سارے فرشتے رافت اوررحمت والے ہیں ،جن کے دلوں میں ہرمومن کے لئے رحم کے جذبات موج زن ہیں ،سورج غروب ہوتے ہی یہ سارے کے سارے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ لیلة القدرمیں اترتے ہیں اورتمام روئے زمین پرپھیل جاتے ہیں ،اورہرجگہ میں قیام میں مشغول ہوجاتے ہیں اورتمام مومن مردوں اور عورتوں کے لئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں البتہ گرجا گھروں ، مندروں ، آتش کدوں اوربت خانوں میں نہیں جاتے ،الغرض اللہ کے سوااوروں کی جہاں بھی پرستش ہوتی ہے وہاں یہ فرشتے نہیں جاتے اوران جگہوں میں بھی جن میں تم گندی چیزیں ڈالتے ہواوراس گھرمیں بھی جہاں نشے والاشخص ہویانشہ والی چیزہویاجس گھرمیں کوئی بت گڑاہواہویاجس گھرمیں باجے گاجے گھنٹیاں ہوں یاہیولے ہو یا کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ ہووہاں تویہ رحمت کے فرشتے جاتے نہیں باقی زمین کےچپے چپے پرگھوم جاتے ہیں ۔

فَلَا یَزَالُونَ لَیْلَتَهُمْ تِلْكَ یَدْعُونَ لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَجِبْرِیلُ لَا یَدَعُ أَحَدًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ إِلَّا صَافَحَهُ وَعَلَامَةُ ذَلِكَ مَن اقْشَعَرَّ جلدهُ وَرَقَّ قَلْبُهُ ودَمعَت عَیْنَاهُ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ مُصَافَحَةِ جِبْرِیلَ،وَذَكَرَ كَعْبٌ أَنَّهُ مَنْ قَالَ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ: “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، غَفَر اللَّهُ لَهُ بِوَاحِدَةٍ، وَنَجَا مِنَ النَّارِ بِوَاحِدَةٍ، وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِوَاحِدَةٍ. فَقُلْنَا لِكَعْبِ الْأَحْبَارِ: یَا أَبَا إِسْحَاقَ، صَادِقًا؟ فَقَالَ كَعْبٌ وَهَلْ یَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ إِلَّا كُلُّ صَادِقٍ؟ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ لَتَثْقُلُ عَلَى الْكَافِرِ وَالْمُنَافِقِ، حَتَّى كَأَنَّهَا عَلَى ظَهْرِهِ جَبَلٌ، فَلَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ هَكَذَا حَتَّى یَطْلُعَ الْفَجْرُ

اورساری رات مومن مردوں اورعورتوں کے لئے دعائیں مانگنے میں گزارتے ہیں ،جبرئیل علیہ السلام تمام مومنوں سے مصافحہ کرتے ہیں ،اس کی نشانی یہ ہے کہ جسم پررونگھٹے گھڑے ہوجائیں ،دل نرم پڑجائے،آنکھیں بہہ نکلیں اس وقت آدمی کوسمجھ لیناچاہئے کہ اس وقت میراہاتھ جبرئیل علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے،کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جوشخص اس رات میں تین مرتبہ لاالہ الااللہ پڑھے اس کی پہلی مرتبہ کے پڑھنے پرگناہوں کی بخشش ہوجاتی ہےدوسری مرتبہ کے کہنے پرآگ سے نجات مل جاتی ہےاورتیسری مرتبہ کے کہنے پرجنت میں داخل ہوجاتاہے،راوی نے پوچھاکہ اے ابواسحاق جواس کلمہ کوسچائی سے کہے؟ فرمایاجولاالہ الااللہ کاسچائی سے کہنے والاہوگااس کے منہ سے تو نکلے ہی گااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے لیلة القدرکافرومنافق پرتواتنی بھاری پڑتی ہے کہ گویااس کی پیٹھ پرپہاڑآپڑاہے،الغرض فجرہونے تک فرشتے اسی طرح رہتے ہیں ۔

فَأَوَّلُ مَنْ یَصْعَدُ جِبْرِیلُ حَتَّى یَكُونَ فِی وَجْهِ الْأُفُقِ الْأَعْلَى مِنَ الشَّمْسِ، فَیَبْسُطُ جناحیه وَلَهُ جَنَاحَانِ أَخْضَرَانِ، لَا یَنْشُرُهُمَا إِلَّا فِی تِلْكَ السَّاعَةِ فَتَصِیرُ الشَّمْسُ لَا شُعَاعَ لَهَا ثُمَّ یَدْعُو مَلَكًا فَیَصْعَدُ فَیَجْتَمِعُ نُورُ الْمَلَائِكَةِ وَنُورُ جَنَاحَیْ جِبْرِیلَ، فَلَا تَزَالُ الشَّمْسُ یَوْمَهَا ذَلِكَ مُتَحَیِّرَةً، فَیُقِیمُ جِبْرِیلُ وَمَنْ مَعَهُ بَیْنَ الْأَرْضِ وَبَیْنَ السَّمَاءِ الدُّنْیَا یَوْمَهَمْ ذَلِكَ، فِی دُعَاءٍ وَرَحْمَةٍ وَاسْتِغْفَارٍ لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَلِمَنْ صَامَ رَمَضَانَ احْتِسَابًا، وَدُعَاءٍ لِمَنْ حَدث نَفْسَهُ إِنْ عَاشَ إِلَى قَابِلٍ صَامَ رَمَضَانَ لِلَّهِ

پھرسب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام اوپرچڑھتے ہیں اوربہت اونچے چڑھ کراپنے پروں کوپھیلادیتے ہیں بالخصوص ان دوسبزپروں کوجنہیں اس رات کے سواوہ کبھی نہیں پھیلاتے،یہی وجہ ہے کہ سورج کی تیزی ماندپڑجاتی ہے اورشعائیں جاتی رہتی ہیں ،پھرایک ایک فرشتے کوپکارتے ہیں اورسب کے سب اوپرچڑھتے ہیں ،پس فرشتوں کانوراورجبرئیل علیہ السلام کے پروں کانورمل کرسورج کو ماندکردیتاہے،اس دن سورج متحیررہ جاتاہے،جبرئیل علیہ السلام اوریہ سارے کے سارے بیشمارفرشتے یہ دن آسمان وزمین کے درمیان مومن مردوں اورمومن عورتوں کے لئے رحمت کی دعائیں مانگنے میں اوران کے گناہوں کی بخشش طلب کرنے میں گزاردیتے ہیں ،نیک نیتی کے ساتھ روزے رکھنے والوں کے لئے اوران لوگوں کے لئے بھی جن کا یہ خیال رہاکہ اگلے سال بھی اگراللہ نے زندگی رکھی تورمضان کے روزے عمدگی کے ساتھ پورے کریں گے یہی دعائیں مانگتے رہتے ہیں ،

فَإِذَا أَمْسَوْا دَخَلُوا السَّمَاءَ الدُّنْیَا، فَیَجْلِسُونَ حِلَقًا [حِلَقًا] فَتَجْتَمِعُ إِلَیْهِمْ مَلَائِكَةُ سَمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَسْأَلُونَهُمْ عَنْ رَجُلٍ رَجُلٍ، وَعَنِ امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ فَیُحَدِّثُونَهُمْ حَتَّى یَقُولُوا: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ وَكَیْفَ وَجَدْتُمُوهُ العامَ؟ فَیَقُولُونَ: وَجَدْنَا فُلَانًا عَامَ أَوَّلَ فِی هَذِهِ اللَّیْلَةِ مُتَعَبِّدًا وَوَجَدْنَاهُ الْعَامَ مُبْتَدِعًا، وَوَجَدْنَا فُلَانًا مُبْتَدِعًا وَوَجَدْنَاهُ الْعَامَ عَابِدًا قَالَ: فَیَكُفُّونَ عَنِ الِاسْتِغْفَارِ لِذَلِكَ، وَیَقْبَلُونَ عَلَى الِاسْتِغْفَارِ لِهَذَا، وَیَقُولُونَ: وَجَدْنَا فُلَانًا وَفُلَانًا یَذْكُرَانِ اللَّهَ، وَوَجَدْنَا فُلَانًا رَاكِعًا، وَفُلَانًا سَاجِدًا، وَوَجَدْنَاهُ تَالِیًا لِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ: فَهُمْ كَذَلِكَ یَوْمَهُمْ وَلَیْلَتَهُمْ، حَتَّى یَصْعَدُونَ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِیَةِ، فَفِی كُلِّ سَمَاءٍ یَوْمٌ وَلَیْلَةٌ،

شام کوآسمان دنیاپرچڑھ جاتے ہیں وہاں کے تمام فرشتے حلقے باندھ کران کے پاس جمع ہوجاتے ہیں اورایک ایک مرداورایک ایک عورت کے بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں اوریہ جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کواس سال تم نے کس حالت میں پایا؟تویہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال توہم نے اسے عبادتوں میں پایاتھالیکن اس سال تووہ بدعتوں میں مبتلا تھا اور فلاں شخص گزشتہ سال بدعتوں میں مبتلاتھالیکن اس سال ہم نے اسے سنت کے مطابق عبادتوں میں پایاپس یہ فرشتے اس سے پہلے شخص کے لئے بخشش کی دعائیں مانگنی موقوف کردیتے ہیں اوراس دوسرے شخص کے لئے شروع کردیتے ہیں ،اوریہ فرشتے انہیں سناتے ہیں کہ فلاں فلاں کوہم نے ذکراللہ میں اورفلاں کو رکوع اورفلاں کوسجدے میں اورفلاں کوکتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول پایاغرض ایک رات دن یہاں گزارکردوسرے آسمان پرجاتے ہیں یہاں بھی یہی ہوتاہے۔

حَتَّى یَنْتَهُوا مَكَانَهُمْ مِنْ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَتَقُولُ لَهُمْ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى: یَا سُكَّانِی، حَدِّثُونِی عَنِ النَّاسِ وَسَمُّوهُمْ لِی. فَإِنَّ لِی عَلَیْكُمْ حَقًّا، وَإِنِّی أحبُّ مَنْ أحبَّ اللَّهَ. فَذَكَرَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ أَنَّهُمْ یَعدُون لَهَا، وَیَحْكُونَ لَهَا الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ ثُمَّ تُقْبِلُ الجنة على السدرة فتقول: أخبرنی بِمَا أَخْبَرَكِ سُكَّانُكِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَتُخْبِرُهَا قَالَ: فَتَقُولُ الْجَنَّةُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى فُلَانٍ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى فُلَانَةٍ، اللَّهُمَّ عجِّلهم إلیَّ، فَیَبْلُغُ جِبْرِیلُ مَكَانَهَ قَبْلَهُمْ

یہاں تک کہ سدرة المنتہی میں اپنی اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں ، اس وقت سدرة المنتہی ان سے پوچھتاہے کہ مجھ میں بسنے والو!میرابھی تم پرحق ہے،میں بھی ان سےمحبت رکھتاہوں جو اللہ سے محبت رکھیں ذرامجھے بھی تولوگوں کی حالت کی خبردواوران کے نام بتاؤ ،کعب احبار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب فرشتے اس کے سامنے گنتی کرکے اورایک ایک مردوعورت کامع ولدیت کے نام بتاتے ہیں ،پھرجنت سدرة المنتہی کی طرف متوجہ ہوکرپوچھتی ہے کہ تجھ میں رہنے والے فرشتوں نے جوخبریں تجھے دی ہیں مجھ سے بھی توبیان کرچنانچہ سدرہ اس سے ذکرکرتاہے، یہ سن کروہ کہتی ہے اللہ کی رحمت ہوفلاں مردپراورفلاں عورت پر،اے اللہ !انہیں جلدی مجھ سے ملا،جبرئیل علیہ السلام سب سے پہلے اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں ۔

فَیُلْهِمُهُ اللَّهُ فَیَقُولُ: وَجَدْتُ فُلَانًا سَاجِدًا فَاغْفِرْ لَهُ فَیَغْفِرُ لَهُ،فیسمعُ جبریلُ جمیعَ حَمَلَةِ الْعَرْشِ فَیَقُولُونَ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى فُلَانٍ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى فُلَانَةٍ، وَمَغْفِرَتُهُ لِفُلَانٍ، وَیَقُولُ یَا رَبِّ، وَجَدْتُ عَبْدَكَ فُلَانًا الَّذِی وَجَدْتُهُ عَامَ أَوَّلَ عَلَى السُنَّة وَالْعِبَادَةِ، وَوَجَدْتُهُ الْعَامَ قَدْ أَحْدَثَ حَدَثًا وَتَوَلَّى عَمَّا أُمِرَ بِهِ فَیَقُولُ اللَّهُ: یَا جِبْرِیلُ، إِنْ تَابَ فَأَعْتَبَنِی قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِثَلَاثِ سَاعَاتٍ غَفَرْتُ لَهُ فَیَقُولُ جِبْرِیلُ: لَكَ الْحَمْدُ إِلَهِی، أَنْتَ أَرْحَمُ مِنْ جَمِیعِ خَلْقِكَ، وَأَنْتَ أَرْحَمُ بِعِبَادِكَ مِنْ عِبَادِكَ بِأَنْفُسِهِمْ، قَالَ: فَیَرْتَجُّ الْعَرْشُ وما حوله، والحجب والسموات وَمِنْ فِیهِنَّ، تَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الرَّحِیمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الرَّحِیمِ

انہیں الہام ہوتاہے اوریہ عرض کرتے ہیں پروردگار!میں نے تیرے فلاں فلاں بندوں کوسجدے میں پایاتوانہیں بخش دے اللہ تعالیٰ فرماتاہے میں نے انہیں بخش دیا جبرئیل علیہ السلام اسے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کوسناتے ہیں ، پھرسب کہتے ہیں فلاں فلاں مردوعورت پراللہ تعالیٰ کی رحمت اورمغفرت ہوئی،پھرجبرئیل علیہ السلام خبردیتے ہیں اے رب! فلاں شخص کوگزشتہ سال توعامل سنت اورعابدچھوڑاتھالیکن امسال تووہ بدعتوں میں مبتلاہوگیاہےاورتیرے احکام سے روگردانی کرلی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے اے جبرئیل اگریہ مرنے سے تین ساعت پہلے بھی توبہ کرلے گاتومیں اسے بخش دوں گااس وقت جبرئیل علیہ السلام بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں اے اللہ!ساری تعریفیں تیرے لئے ہی سزاوارہیں ، الٰہی!تواپنی مخلوق پرسب سے زیادہ مہربان ہے ، بندوں پرتیری مہربانی خودان کی مہربانی سےبھی بڑھی ہوئی ہے،اس وقت عرش اوراس کے آس پاس کی چیزیں اورپردے اور تمام آسمان جنبش میں آجاتے ہیں اورکہہ اٹھتے ہیں الحمدللہ الرحیم، الحمدللہ الرحیم۔[22]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَكَّ الْأَعْمَشُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَلَائِكَةً سَیَّاحِینَ فِی الْأَرْضِ فَضْلًا عَنْ كِتَابِ النَّاسِ إِذَا وَجَدُوا قَوْمًا یَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَنَادَوْا هَلُمُّوا إِلَى بُغْیَتِكُمْ فَیَحُفُّونَ بِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَیُّ شَیْءٍ تَرَكْتُمْ عِبَادِی یَصْنَعُونَ؟ فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ یَحْمَدُونَكَ وَیُمَجِّدُونَكَ وَیَذْكُرُونَكَ، فَیَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِی؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ:كَیْفَ لَوْ رَأَوْنِی ، فَیَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ تَحْمِیدًا وَتَمْجِیدًا وَذِكْرًا،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یاابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل کے فرشتے زمین پرذاکرین کی مجالس کو تلاش کرنے کے لیے گشت کرتے ہیں جب وہ ان لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جواللہ کی حمدوثنا،تمجیدوتہلیل اورذکرکررہے ہوتے ہیں تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اپنے مقصد کی طرف دوڑوپھروہ آسمان دیناکی طرف چڑھتے ہیں تو اللہ عزوجل ان ملائکہ سے پوچھتاہے تم نے میرے بندوں کوکس حال میں چھوڑاہے؟وہ عرض کرتے ہیں ہم نے انہیں تیری حمدوثنا،تمجیدوتہلیل اورتیراذکرکرتے ہوئے چھوڑاہے،اللہ تعالیٰ پوچھتاہے کیا انہوں نے مجھے دیکھاہے؟فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں انہوں نے آپ کونہیں دیکھااوراللہ فرماتا ہےکہ وہ مجھے دیکھ بھی کیسے سکتے ہیں تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگروہ آپ کو دیکھ لیں تووہ آپ کی حمدوثنا،تمجیدوتہلیل اورذکرزیادہ کرنے لگیں ۔

فَیَقُولُ: مَا یَسْأَلُونِی؟فَیَقُولُونَ: یَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ، فَیَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ:فَكَیْفَ لَوْ رَأَوْهَا ، فَیَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا لَكَانُوا أَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَشَدَّ عَلَیْهَا حِرْصًا، فَیَقُولُ:فَمِنْ أَیِّ شَیْءٍ یَتَعَوَّذُونَ؟ فَیَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ، فَیَقُولُ:وَهَلْ رَأَوْهَا؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ: فَكَیْفَ لَوْ رَأَوْهَا ، فَیَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا لَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا هَرَبًا وَأَشَدَّ مِنْهَا تَعَوُّذًا وَخَوْفًا، فَیَقُولُ:فَإِنَّى أُشْهِدُكُمْ أَنِّی غَفَرْتُ لَهُمْ ، فَیَقُولُونَ: فَإِنَّ فِیهِمْ فُلَانًا الْخَطَّاءَ لَمْ یُرِدْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ، فَیَقُولُ: هُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقَى بِهِمْ جَلِیسُهُمْ

اللہ تعالیٰ پوچھتاہے وہ مجھ سے کیاسوال کرتے ہیں ؟فرشتے عرض کرتے ہیں وہ جنت کا سوال کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ پوچھتاہے کیاانہوں نے جنت کودیکھاہواہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں انہوں نے جنت کونہیں دیکھا تو اللہ فرماتاہے کہ وہ جنت کودیکھ بھی کیسے سکتے ہیں ،فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگروہ جنت اوراس کی لازوال نعمتوں کودیکھ لیں تواس کی زیادہ شدت سے طلب کریں گے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے وہ کس چیزسے میری پناہ چاہتے ہیں ؟فرشتے عرض کرتے ہیں وہ جہنم سے پناہ مانگتے ہیں ،اللہ تعالیٰ پوچھتاہے کیاانہوں نےجہنم کودیکھاہواہے؟فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں انہوں نے جہنم کونہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ جہنم کودیکھ بھی کیسے سکتے ہیں ،فرشتے عرض کرتے ہیں اگروہ جہنم اوراس کے دردناک عذاب کودیکھ لیں توخوف سےاس کی زیادہ شدت سے پناہ مانگیں گے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی،فرشتے عرض کرتے ہیں ان لوگوں کے ساتھ فلاں گنہگارشخص بھی ہے جوان کے پاس کسی ضرورت سے آیاتھا،اللہ تعالیٰ انہیں فرماتاہے ان کے ساتھ بیٹھنے والے محروم نہیں رہ سکتے۔[23]

وہ ساری رات طلوع فجرتک سراسرسلامتی ہے،اوراس میں کوئی شرنہیں ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَیْكُمْ صِیَامَهُ، تُفْتَحُ فِیهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِیهِ أَبْوَابُ الْجَحِیمِ، وَتُغَلُّ فِیهِ الشَّیَاطِینُ، فِیهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَیْرَهَا، فَقَدْ حُرِمَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رمضان آیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے پاس ماہ رمضان آگیاہے جوماہ مبارک ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پرفرض قراردیے ہیں ،اس میں جنت کے دروازوں کوکھول دیاجاتاہےجہنم کے دروازوں کوبندکردیاجاتاہے اورشیطانوں کوبیڑیاں پہنادی جاتی ہیں ،اس میں ایک ایسی رات ہے جوہزارمہینے سے بہترہے،جواس رات کی خیروبرکت سے محروم رہاوہ بلاشبہ بڑامحروم ہے۔[24]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَیْلَةَ القَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

اوراس رات کے اجروثواب کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے ایمان کی حالت میں حصول ثواب کی نیت سے لیلة القدرکاقیام کیاتواس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے گئے۔[25]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَیْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَیُّ لَیْلَةٍ لَیْلَةُ القَدْرِ مَا أَقُولُ فِیهَا؟قَالَ: قُولِی: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نےپوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرمیں لیلة القدرکوپالوں تومیں کیا دعا کروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بابرکت رات کے لئے بطورخاص یہ دعا بتلائی اے اللہ! تو در گزر فرمانے والا اورمعافی کوپسندفرمانے والاہے مجھ سے درگزرفرما۔[26]

قَالَ عُمَرُ:أَمَا إِنَّ نَبِیَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ:إِنَّ اللهَ یَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِهِ آخَرِینَ

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کی عظمت کے بارے میں فرمایااللہ تعالیٰ اس کتاب کو(اپنانے )کی وجہ سے قوموں کورفعت عطافرماتاہے اوراس کتاب (کوچھوڑنے )کی وجہ سے دوسری قوموں کوذلت کامزہ چکھادیتاہے۔[27]

خباب رضی اللہ عنہ بن ارت

كان أصابه سِبًا فبیع بمكّة فاشترته أم أنماروكانت ختانة بمكّة

جوکم سنی میں کسی قبیلے کی لوٹ مارمیں گرفتارہوکرغلام بن گئے اورجنہیں ان کے چہرے کی شرافت دیکھ کر مکہ مکرمہ میں ام انمارخزاعیہ نے منڈی سے خریدلیا تھا جومکہ میں عورتوں کاختنہ کرتی تھی۔[28]

اپنے گھریلوکام کاج کے علاوہ مزیدمالی فوائدحاصل کرنے کے لئے ام انمارخزاعیہ نے انہیں تلوارسازی کی تربیت دلائی اوروہ بہت جلداعلیٰ قسم کی نفیس تلواریں بنانے لگے اورپھرانہیں ایک دوکان پر بٹھا دیا گیا ،

عَنْ عَلْقَمَةَ أَنَّ خَبَّابًا یُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ

علقمہ سے مروی ہےخباب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔[29]

وقیل: أَبُو مُحَمَّد، وقیل: أَبُو یحیى

یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کی کنیت ابومحمدتھی اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ ابویحییٰ تھی۔[30]

خَبَّابُ بْنُ الْأَرَتِّ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ، وَیُقَالُ: هُوَ مِنْ خُزَاعَةَ

خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نسب کے حساب سے تمیمی تھے اوریہ بھی کہاجاتاہے وہ خزاعہ سے تھے۔[31]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: أسلم خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الأَرْقَمِ وَقَبْلَ أَنْ یَدْعُوَ فِیهَا

یزیدبن رومان کہتے ہیں خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے اوراس میں دعوت اسلام دینے سے پہلے اسلام قبول کیاتھا۔[32]

وهو من السابقین الأولین إِلَى الإسلام، وممن یعذب فی اللَّه تعالى، كان سادس ستة فی الإسلام

خباب رضی اللہ عنہ بن ارت تمیمی سابقون الولون میں سے تھے،وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں میں چھٹے یاساتویں نمبرپر تھے ۔[33]

خباب رضی اللہ عنہ بن ارت بڑے خوش گفتار،خوش اخلاق اورمکہ مکرمہ میں چاروں طرف پھیلی ہوئی جہالت وگمراہی اورقبائل کی آپس کی دشمنی وبربریت سے متنفرتھےاورتلاش حق کی جستجومیں تھے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ان کے خلوص نیت کودیکھ کر اپنے آخری رسول کاساتھ دینے کے لئے چن لیا،چنانچہ جیسے ہی ان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کاعلم ہواکوئی لمحہ ضائع کیے بغیرایک متلاشی حق کی طرح ، ایک پیاسے کی طرح جواپنی جان بچانے کے لئے پانی کی طرف دوڑتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے قرآن مجیدسے کچھ آیات سنائیں اور انہیں دعوت اسلام پیش کی جسے انہوں نے فوراًقبول کرکے کلمہ شہادت اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ پڑھ لیا ، خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نے بڑی دلیری و جرات سے اپنے قبول اسلام کوکسی سے مخفی نہ رکھا،ام انمارخزاعیہ یہ کب برداشت کرسکتی تھی کہ اس کا غلام اس کے آبائی معبودوں کوترک کرکے ایک نئے دین میں شامل ہوجائےاوراس کے معبودوں پرتنقیدکرے ،بس پھرکیاتھاوہ اپنے بھائی سباع بن عبدالعزیٰ اوراپنے قبیلے کے لڑکوں کے ساتھ اس پرٹوٹ پڑی اوراتنا مارا کہ خباب رضی اللہ عنہ بن ارت کولہولہان کردیا جس سے نڈھال ہوکروہ بے ہوش ہوکرگر گئے، مگر جب وہ ہوش میں آئے تویہ نشہ کچھ اورہی زیادہ چڑھ چکاتھا،

كُنْتُ رَجُلا قَیْنًا وَكَانَ لِی عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَیْنٌ فَأَتَیْتُهُ أَتَقَاضَاهُ فَقَالَ لِی: لَنْ أَقْضِیَكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: لَنْ أَكْفُرَ بِهِ حَتَّى تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ،قَالَ: إِنِّی لَمَبْعُوثٌ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ فَسَوْفَ أَقْضِیكَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَى مَالٍ وَوَلَدٍ.قَالَ: فَنَزَلَ فِیهِ {أَفَرَأَیْتَ الَّذِی كَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ: لَأُوتَیَنَّ مَالًا وَوَلَدًا، أَطَّلَعَ الغَیْبَ أَمُ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا}

اسی دورمیں خباب رضی اللہ عنہ نے ایک بارعاص بن وائل کے لئے تلواربنائی ،جب انہوں نے قیمت کا تقاضہ کیاتوعاص بن وائل نے دام دینے سے انکارکردیااورکہاجب تک تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت)کاانکارنہیں کروگے توایک دمڑی بھی نہیں دوں گا، خباب رضی اللہ عنہ نے بڑی جرات سے جواب دیااگرتومرجائے اورپھرزندہ ہوجائے تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکارنہیں کروں گا ۔اہل عرب دوسری قوموں کی طرح روزآخرت پریقین نہیں رکھتے تھے اس لئے عاص نے کہاکیامیں مرنے کے بعدزندہ کیاجاؤ ں گا ؟ خباب رضی اللہ عنہ نے کہاہاں ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے تمہاری قبروں سے زندہ کرے گااس پرعاص نے استہزاکے لہجے میں کہاجب اللہ مجھے موت دے گااوردوبارہ زندہ کرے گا اوراسی طرح مال واولادمیرے ساتھ ہوگامیں اس وقت تمہاراقرضہ ادا کر دوں گااس پراللہ تعالیٰ نے سورہ مریم کی آیات۷۷تا۸۰ نازل فرمائیں ۔’’پھرتونے دیکھااس شخص کوجوہماری آیات کوماننے سے انکارکرتاہے اورکہتاہے کہ میں مال اوراولادسے نوازاہی جاتارہوں گا؟کیااسے غیب کاپتہ چل گیاہے یااس نے رحمان سے کوئی عہدلے رکھاہے ؟ ہرگز نہیں ،جوکچھ یہ نکتاہے اسے ہم لکھ لیں گے اوراس کے لئے سزامیں اورزیادہ اضافہ کریں گے ،جس سروسامان اورلاؤ لشکرکایہ ذکرکررہاہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اوریہ اکیلا ہمارے سامنے حاضرہوگا۔‘‘[34]

جب کفار قریش نے دیکھاکہ اسلام سلیم فطرت لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتاچلاجارہاہےتوان کوسخت اندیشوں نے آن گھیراکہ اگریہ دعوت ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی چلی گئی تومعاملہ خطرناک حدپر پہنچ جائے گالہذااس دعوت کواسی مقام پرہی دبادیاجائے توان کے حق میں بہترہوگا،چنانچہ مشترکہ فیصلہ کرلیاگیاکہ جس قبیلے کاکوئی شخص اپنے آبائی دین سے منحرف ہوجائے تواسے اتنی سخت سزائیں دی جائیں کہ یاتووہ واپس ہماری ملت میں شامل ہوجائے اوریاپھراسے اس دنیاہی سے رخصت کر دیا جائے ، اس طرح قریش مکہ نے تمام قبائل عرب کوظلم وستم کی کھلی چھٹی دے دی ،بنوخزاعہ کے پاس ان کاغلام خباب رضی اللہ عنہ بن ارت تھاانہوں نے اپنے غلام پر انسانیت سوزمظالم کرنے شروع کردئے،وہ لوگ عین دوپہرکے وقت جب شدیدگرمی ہوتی اور میدانی پتھرخوب تپ جاتے تو خباب رضی اللہ عنہ بن ارت پرپانی بندکردیتے اوران کو میدان میں لے جاکران کے کپڑے اتارکرلوہے کی درع پہنادیتے ، گرمی اور پیاس سے جب وہ نڈھال ہوجاتےتو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرتےکہ شاید اپنی جان بچانے کے لئے اب ان کے ہوش ٹھکانے پرآگئے ہوں گے مگروہاں سے ایک ہی کوراجواب ملتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوررسول ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ہماری طرف مبعوث فرمایا ہے تاکہ وہ ہمیں جہالت کی ظلمتوں ،شرک کی پستیوں ، ظلم وبربریت سے نکال کرحق کی طرف رہنمائی کریں تاکہ اس عارضی زندگی اورہمیشہ قائم رہنے والی اخروی زندگی میں سرخروہوجائیں ،ان کلمات میں ان کے معبودوں کی نفی اور اخروی زندگی کے بارے میں اثبات تھاجن کووہ نہیں مانتے تھے اس لئے یہ کلمات ان کے عقائدپر تازیانے کاکام کرتے اوروہ دوبارہ مارپٹائی شروع کردیتے،لوہے کی چادرکوسرخ انگاراکرکے انہیں پیٹھ کے بل اس پرگھسیٹاجاتاجس سے پیٹھ کا گوشت ہڈیوں سے جداہوجاتااورجسم سے جوپانی اورخون نکلتاوہ اس چادرکوٹھنڈاکرتاپھرپوچھتے ہمارے معبودوں کے بارے میں توکیاکہتاہے؟ خباب رضی اللہ عنہ کہاں چوکنے والے تھے فوراًجواب دیتےجن معبودوں کوتم نے نفع ونقصان کامالک سمجھ کر ان سے آس وامیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ان کے اختیارمیں کچھ بھی نہیں ،سب قدرتیں اور اختیارات اللہ وحدہ لاشریک کے پاس ہیں اورہرمخلوق اس کی محتاج ہےتمہارے یہ معبود پتھرکے حقیر ٹکڑوں سے زیادہ کچھ نہیں ،اس پروہ بپھرجاتے اورگرم گرم پتھراٹھاکران کی پشت سے لگادیتے جس سے خون وچربی بہنے لگتی ، مگران مظالم پرایک ہی جواب تھااشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ،

فكان المشركون یذیقونه أنواعا من التنكیل، یأخذون بشعر رأسه فیجذبونه جذبا، ویلوون عنقه تلویة عنیفة وأضجعوه مرات عدیدة على فحام ملتهبة، ثم وضعوا علیه حجرا؛ حتى لا یستطیع أن یقوم

ایک روایت میں ہےمشرکین انہیں طرح طرح سے عذاب میں مبتلاکرتے ،ان کے سرکے بال نوچتےتھےاورانتہائی بے دردی سے ان کی گردن مروڑدیتے ،انہیں بارہامرتبہ دہکتے ہوئے انگاروں پرلٹاکران کے سینہ پربھاری پتھررکھ دیاجاتاتاکہ وہ وہ سے اٹھ نہ سکیں ۔[35]

فكانت تأخذ الحدیدة المحماة فتضعها عَلَى رأسه، فشكا ذلك إِلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال:اللهم انصر خبابًا فاشتكت مولاته أم أنمار رأسها، فكانت تعوی مثل الكلاب، فقیل لها: اكتوی، فكان خباب یأخذ الحدیدة المحماة فیكوی بها رأسها

ان کی مالکہ اپنے قبیلے کے لوگوں سے چندہاتھ آگے رہی وہ اپنی دوکان پرآتی اورآگ میں سرخ کی ہوئی لوہے کی سلاخ اٹھا کر خبیب رضی اللہ عنہ کے سرپر داغ دیتی اورشدت تکلیف سے آپ بے ہوش ہوجاتے، خباب نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خباب رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا فرمائی اے اللہ خباب کی مدد فرما،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکے بعدام انمارکے سرمیں اتنی شدت کادرداٹھتاکہ وہ کتوں کی طرح بھونکتی آخرلوگوں نے بتایاکہ جب تک لوہے کی گرم سلاخ سے تمہاراسرنہیں داغاجائے گااس دردمیں کمی نہیں ہوگی، ام انمارشدت کرب سے تڑپ رہی تھی اس نے خباب رضی اللہ عنہ ہی کویہ کام تفوض کیاکہ وہ گرم لوہے سے اس کا سر داغیں ،چنانچہ جب اس کے سرمیں درداٹھتا خباب رضی اللہ عنہ گرم گرم سلاخیں اس کے سرپرلگاتےلیکن اس علاج کے باوجوداسے کوئی فائدہ نہ ہوااورچنددنوں کے بعدتڑپ تڑپ کرجہنم رسیدہوئی ۔[36]

اس کے بعد خباب رضی اللہ عنہ بن ارت مدینہ منورہ ہجرت فرماگئے۔

قَتَادَةَ قَالَ:لَمَّا هَاجَرَ خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى كُلْثُومِ بْنِ الْهِدْمِ فَلَمْ یَزَالا عِنْدَهُ حَتَّى فُتِحَتْ بَنُو قُرَیْظَةَ

قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب خباب بن ارت نے محض رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو کلثوم رضی اللہ عنہا بن الہدم کے گھرٹھہرے اورغزوہ بنی قریظہ تک وہیں قیام پذیررہے۔[37]

ولما هاجر آخى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بینه وبین تمیم مولى خراش بْن الصمة وقیل: آخى بینه وبین جبر بْن عتیك

جب انہوں نے ہجرت کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خباب رضی اللہ عنہ اورتمیم مولی خراش بن صمہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ جبیربن عتیک کے ساتھ بھائی چارہ قائم فرمایا۔[38]

مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ:وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ خَبَّابٍ وَبَیْنَ جَبْرِ بْنِ عَتِیكٍ

محمدبن عمرسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خباب رضی اللہ عنہ کی مواخاة جبیر رضی اللہ عنہ بن عتیک سے کرائی تھی۔[39]

وَشَهِدَ خَبَّابٌ بدرًا وأحدًا والخندق والمشاهد كلها مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حق وباطل کے معرکے غزوہ بدر ،غزوہ احد،غزوہ خندق اوردوسرے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔[40]

دخل خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ عَلَى عُمَرَ بِنِ الْخَطَّابِ فَأَجْلَسَهُ عَلَى مُتَّكَئِهِ وَقَالَ: مَا عَلَى الأَرْضِ أَحَدٌ أَحَقُّ بِهَذَا الْمَجْلِسِ مِنْ هَذَا إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ، قَالَ لَهُ خَبَّابٌ: مَنْ هُوَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟ قَالَ: بِلالٌ،قَالَ فَقَالَ لَهُ خَبَّابٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَا هُوَ بِأَحَقِّ مِنِّی. إِنَّ بِلالا كَانَ لَهُ فِی الْمُشْرِكِینَ مَنْ یَمْنَعُهُ اللَّهُ بِهِ وَلَمْ یَكُنْ لِی أَحَدٌ یَمْنَعُنِی ،فَلَقَدْ رَأَیْتُنِی یَوْمًا أَخَذُونِی وَأَوْقَدُوا لِی نَارًا ثُمَّ سَلَقُونِی فِیهَا ثُمَّ وَضَعَ رَجُلٌ رِجْلَهُ عَلَى صَدْرِی فَمَا اتَّقَیْتُ الأَرْضَ. أَوْ قَالَ بَرْدَ الأَرْضِ. إِلا بِظَهْرِی قَالَ ثُمَّ كَشَفَ عَنْ ظَهْرِهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ بَرِصَ

جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کاوقت آیا تو خباب رضی اللہ عنہ بن ارت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے گئے ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ قدرومنزلت انہیں اپنی نشست پربٹھایا اورفرمایاسوائے ایک شخص کےروئے زمین پرکوئی شخص اس مجلس کاان سے زیادہ مستحق نہیں ، خباب رضی اللہ عنہ نے کہااے امیرالمومنین !وہ کون ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاوہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں ،اس پر خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین بلال رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے زیادہ مستحق نہیں اس لئے کہ ان شدائدومصائب میں بعض مشرکین مکہ بلال رضی اللہ عنہ کے حامی وہمدردتھے مگرمیراکوئی بھی حامی وہمدردنہیں تھاایک روزمیں نے اپنے کواس حالت میں دیکھاکہ مشرکین مکہ نے مجھے پکڑلیااورآگ سلگائی اورمجھے دہکتےہوئے انگاروں پرچت لٹایااورایک شخص نے میرے سینے پراپناپیررکھ دیاتاکہ جنبش نہ کرسکوں میں زمین سے یاکہازمین کی ٹھنڈک سے سوائے اپنی پیٹھ کے نہ بچ سکا،پھرانہوں نے کرتااٹھاکرپشت دکھائی تووہ برص کی طرح ہوگئی تھی۔[41]

خباب رضی اللہ عنہ کی دلدوز مصائب کی تفصیل سن کرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اوردوسرے حاضرین مجلس کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے خباب رضی اللہ عنہ بن ارت کومال ودولت سے خوب نوازامگروہ اس سے بے نیازہی رہے بلکہ ہر وقت انہیں یہ اندیشہ لگا رہتا کہ روزقیامت اس مال ودولت کے بارے میں حساب لیاجائے گااوراس مال کی وجہ سے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عتاب کاشکارنہ ہوجائیں ،اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعطاکردہ یہ مال گھرمیں بغیرکسی رکھوالی کے کھلاپڑارہتاتھااورکوئی بھی ضرورت مندشخص جتناچاہتا اس میں سے اٹھا کرلے جاتاتھا۔

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں خباب رضی اللہ عنہ باہمہ جلالت بے حدمنکسرالمزاح تھے،

عن أَبِی خَالِد شیخ من أصحاب عَبْد اللَّهِ، قال: بینما نحن فی المسجد إذ جاء خباب بْن الأرت، فجلس فسكت، فقال له القوم: إن أصحابك قد اجتمعوا إلیك لتحدثهم أو لتأمرهم.قال: بم آمرهم؟ ولعلی آمرهم بما لست فاعلًا

عبداللہ کے ساتھیوں میں سے ابوخالدشیخ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم مسجدمیں بیٹھے ہوئے تھے کہ خباب رضی اللہ عنہ بن ارت تشریف لائے ان کے احترام میں سب خاموش ہوگئے،ان اصحاب نے خباب رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں کسی بات کاحکم کریں تاکہ ہم اس پرعمل کریں ،انہوں نے فرمایامیں کون ہوں جوکسی بات کاحکم کروں ،ممکن ہے کہ میں لوگوں کوکسی بات کاحکم کروں اورخوداس پرعمل نہ کروں ۔[42]

وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا أَمْلِكُ دِینَارًا وَلا دِرْهَمًا وَإِنَّ فِی نَاحِیَةِ بَیْتِی فِی تَابُوتِی لأَرْبَعِینَ أَلْفٍ وَافٍ. وَلَقَدْ خَشِیتُ أَنْ تَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَیِّبَاتُنَا فِی حَیَاتِنَا الدُّنْیَا

انہوں نے لمبی عمرپائی ،جب وفات کاوقت آیاتوجوساتھی عیادت کے لئے گئے توان کے سامنے زاروقطار روتے ہوئے فرمانے لگےمیں نے اپنے کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حالت میں دیکھاہے کہ نہ ایک دینارکامالک تھااورنہ ایک درہم کا،اب میرے مکان کے کونے میں صندوق میں چالیس ہزاردرہم موجودہیں ،جس کی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری نیکیاں ہمیں اسی زندگی میں نہ دے دی گئی ہوں اور روز آخرت میں رب کی رحمت سے محروم نہ ہوجاؤ ں ۔[43]

قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَهُوَ خَیْرٌ مِنِّی، كُفِّنَ فِی بُرْدَةٍ، إِنْ غُطِّیَ رَأْسُهُ، بَدَتْ رِجْلاَهُ، وَإِنْ غُطِّیَ رِجْلاَهُ بَدَا رَأْسُهُ وَأُرَاهُ فَأَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّیَ رَأْسَهُ، وَأَنْ نَجْعَلَ عَلَى رِجْلَیْهِ مِنَ الإِذْخِرِ قَالَ: وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَیْرٌ مِنِّی ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْیَا مَا بُسِطَ أَوْ قَالَ: أُعْطِینَا مِنَ الدُّنْیَا مَا أُعْطِینَا وَقَدْ خَشِینَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا

ایک روایت میں ہےفرمانے لگےجب مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرجومجھ سے بہترتھےقتل ہوئے توان کے کفنانے کے لیے ایک چھوٹی سی چادرکے سواہمارے پاس کوئی چیزنہ تھی ،اس چادرسے ان کاسرڈھانکتے توان کے پاؤ ں ننگے رہ جاتے اورپاؤ ں ڈھانکتے توسربرہنہ ہوجاتاآخرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ ان کاسرچادرسے ڈھانپ دواورپاؤ ں پراذخر (ایک قسم کی گھاس)ڈال دو ،اورسیدالشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جومجھ سے بہترتھے قتل ہوئے توان کے کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادرکے سواکچھ نہ تھا ،آج یہ حال ہے کہ اللہ کافضل ہم پربارش کی طرح برس رہاہے مجھےاندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مصائب کابدلہ کہیں دنیاہی میں تونہیں دے دیا اورروزآخرت میں رب کی رحمت سے محروم نہ ہوجاؤ ں ۔[44]

تُوُفِّیَ خَبَّابٌ سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلَاثِینَ

خباب رضی اللہ عنہ نے بہتربرس کی عمرمیں وفات پائی۔[45]

قال زید بْن وهب: سرنا مع علی حین رجع من صفین، حتى إذا كان عند باب الكوفة إذا نحن بقبور سبعة عن أیماننا، فقال: ما هذه القبور؟ فقالوا: یا أمیر المؤمنین، إن خباب بْن الأرت توفی بعد مخرجك إِلَى صفین، فأوصى أن یدفن فی ظاهر الكوفة، وكان الناس إنما یدفنون موتاهم فی أفنیتهم، وعلى أبواب دورهم، فلما رأوا خبابًا أوصى أن یدفن بالظهر دفن الناس، فقال علی رضی اللَّه عنه: رحم اللَّه خبابًا، أسلم راغبًا، وهاجر طائعًا، وعاش مجاهدًا، وابتلى فی جسمه، ولن یضیع اللَّه أجر من أحسن عملًا، ثم دنا من قبورهم فقال: السلام علیكم یا أهل الدیار من المؤمنین والمسلمین، أنتم لنا سلف فارط ونحن لكم تبع عما قلیل لاحق، اللهم أغفر لنا ولهم، وتجاوز بعفوك عنا وعنهم، طوبى لمن ذكر المعاد، وعمل للحساب، وقنع بالكفاف

زیدبن وہب کہتے ہیں جنگ صفین کے بعد(۳۷ہجری میں )اپنے دارالخلافہ کوفہ کومراجعت کی توشہرکے باہرآپ کی نظرسات قبروں پرپڑی لوگوں سے پوچھایہ کس کی قبریں ہیں ؟ جب ہم کوفہ سے چلے تھے تویہاں کوئی قبرنہیں تھی؟لوگوں نے کہااے امیرالمومنین!جب آپ صفین کی طرف روانہ ہوگئے تو خباب رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے،انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں کوفہ کے باہرکھلے میدان دفن کیاجائےباقی قبریں دوسرے لوگوں کی ہیں جنہیں ان کے اعزہ نے خباب رضی اللہ عنہ کے اتباع میں یہاں دفن کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا خباب رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہووہ برضاورغبت اسلام لائے اپنی خوشی سے ہجرت کی ،ساری زندگی جہادمیں گزاری اورراہ حق میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے اعمال ضائع نہیں کرتایہ فرما کر آپ رضی اللہ عنہ قبروں کے بالکل قریب کھڑے ہوگئے اوردیرتک خباب رضی اللہ عنہ اوردوسرے اہل قبورکے لیے مغفرت کی دعاکرتے رہے۔[46]

[1] تفسیر القرطبی۱۳۲؍۲۰

[2] تفسیرابن ابی حاتم ۴۴۲؍۸

[3] روح البیان۴۸۳؍۱۰،تفسیر حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن۱۸۹؍۳۲

[4] تفسیرابن کثیر۴۴۱؍۸

[5] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۳۴۵، جامع ترمذی کتاب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الغُسْلِ یَوْمَ الجُمُعَةِ۴۹۶،سنن نسائی کتاب الجمعة باب فَضْلِ الغُسْلِ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۱۳۸۲،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ مَا جَاءَ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۰۸۷

[6] الدخان ۲تا۴

[7] تفسیرطبری۸؍۲۲

[8] صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ اسْتِحْبَابِ صِیَامِ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۲۷۵۰،اعلام النبوة للمابوردی۲۳۹؍۱

[9] البقرة ۱۸۵

[10] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۸۶؍۱،فتح الباری ۳۵۶؍۱۲

[11] الدخان ۳

[12] القدر۱

[13]الانفال۴۱

[14] صحیح بخاری کتاب لیلة القدر بَابُ تَحَرِّی لَیْلَةِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ ۲۰۱۷،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَیَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ إِتْبَاعًا لِرَمَضَانَ۲۷۷۶، جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ القَدْرِ۷۹۲، مصنف ابن ابی شیبة۸۶۶۰

[15] صحیح بخاری کتاب لیلة القدر بَابُ رَفْعِ مَعْرِفَةِ لَیْلَةِ القَدْرِ لِتَلاَحِی النَّاسِ۲۰۲۳

[16] صحیح بخاری کتاب لیلة لقدر بَابُ تَحَرِّی لَیْلَةِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ ۲۰۲۱

[17] جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ القَدْرِ۷۹۴ ،مصنف ابن ابی شیبة ۸۶۶۱

[18] مسنداحمد۱۰۷۳۴

[19] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ لَیْلَةِ الْقَدْرِ، وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِهَا، وَبَیَانِ مَحَلِّهَا وَأَرْجَى أَوْقَاتِ طَلَبِهَا۲۷۷۷، جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ القَدْرِ۷۹۳،سنن ابوداودکتاب تفریح ابواب شھررمضان بَابٌ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ۱۳۷۸

[20]مصنف ابن ابی شیبة۸۶۶۷

[21] مسند احمد ۱۰۷۳۴

[22] تفسیرابن ابی حاتم۱۹۴۲۸، ۳۴۵۳؍۱۰، تفسیرابن کثیر۴۳۴؍۸

[23] الدعاء للطبرانی۱۸۹۴

[24] مسنداحمد۷۱۴۸،السنن الکبری للنسائی۲۴۲۷

[25] صحیح بخاری کتاب فَضْلِ لَیْلَةِ القَدْرِ بَابُ فَضْلِ لَیْلَةِ القَدْرِ ۲۰۱۴،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ التَّرْغِیبِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، وَهُوَ التَّرَاوِیحُ۱۷۷۹

[26] جامع ترمذی ابواب الدعوات فی فضل سوال العافیة والمعافاة ۳۵۱۳ ،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ الدُّعَاءِ بِالْعَفْوِ وَالْعَافِیَةِ ۳۸۵۰،مستدرک حاکم۱۹۴۲

[27] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ فَضْلِ مَنْ یَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُهُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ، أَوْ غَیْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا۱۸۹۷،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ۲۱۸،سنن الدارمی ۳۴۰۸

[28] ابن سعد۱۲۲؍۳

[29] ابن سعد۱۲۲؍۳

[30] اسدالغابة۱۴۷؍۲

[31] ابن ہشام ۲۵۴؍۱

[32] ابن سعد۱۲۲؍۳

[33] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۴۷؍۲

[34] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورۂ مریم بَابُ قَوْلِهِ أَطَّلَعَ الغَیْبَ أَمُ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا۴۷۳۳ ،فتح الباری ۴۷۳۳، ۴۳۰؍۸،ابن سعد۱۲۱؍۳

[35] السیرة النبویة والدعوة فی العهد المكی۵۴۳؍۱

[36] اسدالغابة۱۴۷؍۲

[37] ابن سعد۱۲۳؍۳

[38] اسدالغابة۱۴۷؍۲

[39] مستدرک حاکم۵۶۴۲

[40] ابن سعد۱۲۳؍۳،مستدرک حاکم۵۶۴۲

[41]ابن سعد۱۲۳؍۳

[42] اسدالغابة۱۴۷؍۲

[43]ابن سعد۱۲۳؍۳

[44]صحیح بخاری كِتَابُ الجَنَائِزِبَابٌ: الكَفَنُ مِنْ جَمِیعِ المَالِ۱۲۷۵ ، ۱۲۷۶،سیراعلام النبلائ۹۶؍۳

[45] مستدرک حاکم۵۶۴۲

[46]اسدالغابة۱۴۷؍۲

Related Articles