بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ المدثر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب علانیہ تبلیغ دین کاسلسلہ شروع کیاتوشرفائے اہل مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے پاس حاضرہوئے ،اسی دوران موسم حج شروع ہوگیا،قریش کوفکرہوئی کہ حج کے موقع پردوردرازسے لوگ آئیں گے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوجب اپناپیغام سنائیں گے تووہ اس کلام سے متاثرہوئے بنانہیں رہیں گے ،اس خطرے کے پیش نظرقریش ایک وفدلے کرابوطالب کے پاس گئے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ تبلیغ دین کوترک نہ کیا،اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپاکیزگی وطہارت اپنانے ،کفارکو دعوت حق پہنچانے ،انہیں اللہ کے غیض وغضب اورنارجہنم سے ڈرانے اورراہ حق کی تبلیغ کی پاداش میں درپیش مشکلات ومصائب پرصبرکرنے حکم فرمایاگیا(یہ احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہیں )،پھرمجرمین و مخالفین کوروزقیامت کے سخت دن سے ڈرایاگیا ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن ولیدبن مغیرہ کانام لئے بغیرتذکرہ کیاگیاکہ جو قرآن سنتااوراس کی صداقت وحقانیت کاقائل ہوچکاتھالیکن مال ودولت،ظاہری شان وشوکت اوراولادکی کثرت کے گھمنڈمیں اس پاکیزہ کلام کو جوتمام انسانوں کی ہدایت وبھلائی کے لئے نازل کیاگیاتھامُعَاذاللَّهَ جادوقراردیتاتھا،اللہ تعالیٰ نے جہنم کی ہولناکیوں اوراس کے تند خو داروغوں کا ذکر کیاجس کا سامناکفاروفجارکوکرناپڑے گا ،مزیدتاکیداورڈراوے کے لئے اللہ تعالیٰ نے چاند،رات اورصبح کی قسم کھاکرفرمایاکہ بڑی مصیبتوں میں جہنم سب سے بڑی مصیبت ہے ، ہر شخص کی مسؤ لیت اورذمہ داری کو واضح فرمایاگیاکہ ہرشخص سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھاجائے گااورسب اپنے گناہوں کے اسیرہوں گے سوائے ان لوگوں کے جن کوان کانامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا،وہ مجرمین سے سوال کریں گے کہ کس چیزنے تمہیں جہنم میں ڈالاہے تووہ انتہائی ندامت وپشیمانی سے جہنم میں داخل ہونے کے چاراسباب بیان کریں گے ۔

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ۝۴۴ۙوَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِیْنَ۝۴۵ۙوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۴۶ۙ [1]

xپہلایہ کہ ہم دنیاکی رنگینیوں ،اپنی خواہشات کی تکمیل میں اس قدرالجھے ہوئے تھے کہ نمازوں سے غافل تھے ۔

xدوسرایہ کہ ہم مال ودولت کوبہت عزیزرکھتے تھے اوراس میں کمی کے خوف سے یتیموں اورمساکین کوکھانانہیں کھلاتے تھے۔

xتیسرایہ کہ راہ حق پرچلنے اوراس کی حمایت کے بجائے ہم کج بحثی اورگمراہی کی حمایت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے۔

xاورمرض کی اصل جڑ بیان کی کہ قیامت کے برپاہونے کوہم ایک دیوانے کی بڑسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے،اس لئے بے خوف ہوکربرے سے برے اعمال کرتے رہے ،

اور آخر میں فرمایاگیاکہ یہ بلندپایہ کلام تمام نوح انسانی کی نصیحت کے لئے نازل کیاگیاہے ،جس میں حق وباطل توخوب ممیز کر دیا گیا ہے ، اورانسان کوبھی عقل وشعوراوراختیارکی صلاحیت سے بھی بہرہ ورکردیاگیاہے ، اب جوآخرت کی بھلائی کاخواہش مندہواسے چاہے کہ اس کلام سے نصیحت حاصل کرے لیکن اس کے لئے اللہ رب العزت کی مشیت بھی ضروری ہے،اورقانون فطرت یہ ہے کہ تقویٰ اوراللہ کاخوف آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑالپیٹ کرلیٹے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی حالت کی مناسبت سے وحی فرمائی۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

 یَا أَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ‎﴿١﴾‏ قُمْ فَأَنذِرْ ‎﴿٢﴾‏ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ‎﴿٣﴾‏ وَثِیَابَكَ فَطَهِّرْ ‎﴿٤﴾‏ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ‎﴿٥﴾‏ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ ‎﴿٦﴾‏ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ‎﴿٧﴾ (المدثر)

’’اے کپڑا اوڑھنے والے کھڑا ہوجا اور آگاہ کر دے، اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر،ناپاکی کو چھوڑ دےاور احسان کرکے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔‘‘


اے چادراوڑھ کرلیٹنے والے!اللہ تعالیٰ نے آپ پرنبوت کے کارعظیم کابارڈالاہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت ،ربوبیت ،حاکمیت اوراپنی رسالت کاکھلم کھلااعلان کرنے کے لئے عزم صمیم اورقوی ارادے کے ساتھ کمربستہ ہو جاؤ ، اورخواب غفلت میں ڈوبے لوگوں کواللہ وحدہ لاشریک کی ذات، تمام کائنات پراس کی حاکمیت ،مجرموں پراس کی زبردست گرفت،مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہوکراللہ کے حضورپیشی اورعذاب جہنم سے ڈراؤ ،تاکہ وہ اعمال خبیثہ ترک کرکے اللہ کے غضب اور عذاب جہنم سے بچ جائیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کوفرمایاتھا اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۱(نوح۱)ترجمہ:ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آئے ۔اورتمام خودساختہ معبودوں کی بڑائی سے براء ت کاصاف صاف اعلان کرکے صرف اپنے رب کی توحید،کبریائی، حمدوثنا اورعظمت بیان کرو،تاکہ بندے اللہ کی تعظیم اور اس کی عبادت کریں ،کیونکہ اہل مکہ پاکیزگی اور طہارت کے ابتدائی تصورات تک سے خالی تھے جبکہ ناپاکی اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ چیزہے،وہ ناپاکی عقائدونظریات کی ہویاظاہری اعمال کے اعتبارسے ، دونوں عذاب قبرکاسبب ہیں اس لئے فرمایاقلب ونیت کے ساتھ اپنے کپڑے بھی پاک رکھو،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے ہی پاکیزگی کوپسندکرتے تھے اورصاف وپاکیزہ لباس زیب تن کرتے تھے ،چنانچہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھویعنی اپنے گردوپیش سارے معاشرے میں پھیلے شرک ،ریا،نفاق ،خودپسندی ، تکبر،غفلت وغیرہ سے دامن بچاکررہوتاکہ کوئی شخص کبھی آپ پرحرف زنی نہ کرسکے، اور بتوں سے منسوب تمام اقوال وافعال سے براء ت کااعلان کرکے لوگوں کووعظ ونصیحت کروکہ اپنے ہاتھوں سے مختلف صورتوں وجنس سے بنائے ہوئے بے جان وبے بس بتوں کی پرستش چھوڑکراپنے معبودحقیقی کی عبادت کریں ،اور احسان کرکے یہ خواہش نہ کروکہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گااوراس راہ میں جومشکلات ومصائب پیش آئیں ان پر اپنے رب کی خاطر صبر کرو اور اپنے رب کی راہ میں ثابت قدم رہو ۔

پہاڑی پروعظ

تو گویااسلام کے دائرہ عمل کوپوری دنیاپروسیع کردیاگیا،اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں کوجمع کرنے کے لئے کوہ صفاکی چوٹی پرچڑھ گئے اور باآواز بلندعادت عرب کے مطابق قوم کوآوازلگائی

یَا صَبَاحَاهْ، یَا صَبَاحَاهْ

مکہ مکرمہ کے لوگ اس آوازسے نامانوس نہیں تھے ،جب مکہ مکرمہ پرکوئی ایسی آفت آنے والی ہوتی جس سے عام لوگ بے خبرہوتے توجس شخص کواس آفت کاسب سے پہلے علم ہوتاوہ اسی طرح مکہ والوں کوآوازدیتاتھااورمکہ مکرمہ والے آوازکی طرف لپکتے ،اس کی مزیدتفصیلات سنتے اورپھرمتحدہوکراس آفت کامقابلہ کرنے پرتیارہوجاتے ،آج بھی اس آوازکایہی اثرہواقریش کے نامورسرداراوراہل مکہ گھبراگھبراکرکوہ صفاکی طرف لپکے کہ نجانے کیابات ہوگئی ہے کہ کوئی اس طرح پکار رہا ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے کے الفاظ احادیث میں بکھرے ہوئے ہیں جویہاں جمع کردیئے گئے ہیں )جب یہ لوگ قریب آئے توان کی نگاہیں جس پرپڑیں وہ محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ،مکہ معظمہ کی وہ اعتمادآفریں شخصیت جس کی سچائی اورحقانیت پرکسی کوکبھی شبہ نہیں ہواتھاجب سب جمع ہوگئے توسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یَا بَنِی فُلَانٍ، یَا بَنِی فُلَانٍ، یَا بَنِی فُلَانٍ ،یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَاجْتَمَعُوا إِلَیْهِ،فَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ لَوْ أخْبَرْتُكُمْ أنَّ الْعَدُوَّ مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّیكُمْ، أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُونِی؟ أَرَأَیْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ بِسَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ كَذِبًا، یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا،یَا مَعْشَرَ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا،یَا مَعْشَرَ بَنِی قُصَیٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا، یَا مَعْشَرَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًایَا صَفِیَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَیْئًایَا بَنِی كَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ، یَا بَنِی مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِیَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ لَا أُغْنِی عَنْكَ مِنَ اللهِ شَیْئًایَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ أَنْقِذِی نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لاَ أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا،سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِئْتُمْ إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلاَلِهَاإِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَ یَرْبَأُ أَهْلَهُ، فَخَشِیَ أَنْ یَسْبِقُوهُ، فَجَعَلَ یَهْتِفُ، یَا صَبَاحَاهُ، فَإِنِّی نَذِیرٌ لَكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّی وَاللهِ مَا أَعْلَمُ شَابًّا مِنَ الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ،فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا

اے فلاں کی اولاد،اے فلاں کی اولاد، اے فلاں کی اولاد،اے عبدمناف کی اولاد، اے عبدالمطلب کی اولاد!وغیرہ جب سب آپ کی طرف متوجہ ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا پہلے یہ بتلاؤ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تم پر صبح یا شام میں کسی وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ اگر میں تم سے یہ کہدوں کہ ایک بہت بڑا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرلو گے؟ (اہل قریش بچپن سے ہی آپ کوبات چیت اورمعاملات میں سچا،دیانتداراورامانت دارجانتے تھے اس لئے آپ کو صادق وامین کالقب بھی دے چکے تھے ،تعمیرخانہ کعبہ کے بعدحجراسودکے معاملہ کوجس میں ایک خونریز جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ،جو پورے عرب کواپنی لپیٹ میں لے لیتی اورسالوں پرمحیط ہوتی جس خوش اسلوبی اورذہانت سے سلجھایاتھاوہ بھی جانتے تھے)اس لئے سب مجمع نے بالاتفاق جواب دیاکہ ہاں بے شک ہم آپ کو سچاسمجھیں گے ، اس لئے کہ آج تک حالانکہ آپ کوسن چالیس سے تجاوزکرچکاہم نے نہیں دیکھاکہ آپ نے اس پوری عمر میں ایک مرتبہ بھی کوئی غلط اور جھوٹ لفظ اپنی زبان سے نکالاہو، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!اب سنومیں تمہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرارہاہوں جوبڑے سخت ہیں ، جوتمہارے سامنے ہی ہیں ، جواس کے اوراس کے رسول کونہ ماننے کی وجہ سے تم پر برس پڑیں گے ،پس ہوشیارہوجاو،میں تمہیں آگاہ کررہاہوں ،اے قریش کے لوگو ! اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤمیں تم لوگوں کے لئے اللہ کی بارگاہ میں نفع یا تکلیف کا اختیار نہیں رکھتااے بنو عہد مناف ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ، میں تم لوگوں کے لئے اللہ کے سامنے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتااے بنوقصی بنو عبدالمطلب اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤمیں تمہارے لئے اللہ کے سامنے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتااے بنوعبدالمطلب کے لوگو اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ میں تم لوگوں کے لئے اللہ کی بارگاہ میں نفع یا تکلیف کا اختیار نہیں رکھتااے کعب بن لوی کی اولاد،اے بنومرہ بن کعب، تم بھی ایمان قبول کرکے خدائی آگ سے نجات حاصل کرلو اے میری پھوپھی جان صفیہ بنت عبدالمطلب تم بھی آتش دوزخ سے بچنے کاسامان کرلومیں تمہارے لئے اللہ کے سامنے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتااے عباس رضی اللہ عنہ میرے چچاآپ بھی ایمان قبول کرکے نارجہنم سے چھٹکاراحاصل کرکیجئے میں تمہارے لئے اللہ کے سامنے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتااے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمداپنی جان کو آگ سے بچاؤ میں تمہارے لئے اللہ کی بارگاہ میں نفع یا تکلیف کا اختیار نہیں رکھتامیری قرابت پرمطمئن ہوکرنیک عمل چھوڑنہ بیٹھنا،ہاں جودنیاوی قرابت داری ہے اسے بے شک میں نبھاتارہوں گاصلہ رحمی میراشیوہ ہے تم میرامال اگرمجھ سے مانگو تو لو حاضر ہے جتنابھی چاہولیجاؤ ،لیکن اللہ کے ہاں کی کسی چیزسے میں تمہیں بے پرواہ نہیں کرسکتا، پس ڈرجاؤ ، ہوشیار ہوجاؤ میری اور تمہاری مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص دشمن کودیکھ لے جوچھپ کرتاک میں بیٹھا ہو تووہ اپنی قوم کوہوشیارکرنے اورانہیں محفوظ ہوجانے کی ہدایت کرنے کے لئے دوڑتاہواان کی طرف بڑھے لیکن پھردل میں خیال گزرے کہ ایسانہ ہواس کے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں دشمن ان پرحملہ نہ کردے تووہ راستے ہی سے چیخنے چلانے لگے کہ میرے بھائیو! ہوشیار ہوجاؤ ، اپنا بچاؤ کرلو،دشمن کمین گاہ میں چھپاہواہے اسی طرح تمہارے شرک وکفر کی وجہ سے اللہ کے جوعذاب تمہارے سروں پر منڈلا رہے ہیں ،میں تمہیں ان سے ہوشیارکررہاہوں ،اللہ سے ڈرجاؤ اس سے پہلے کہ عذاب خداوندی کی آگ تمہاری انگنائیوں میں برسنے لگے تم اللہ کووحدہ لاشریک اور مجھے سچا رسول مان لواے اولادعبدالمطلب! واللہ کوئی نوجوان اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر چیزنہیں لایاجومیں تمہارے پاس لایاہوں ،سنو!میں تمہارے پاس دین ودنیادونوں کی بھلائی لے کرآیاہوں ،اتناسنناتھاکہ آپ کے حقیقی چچاابولہب کاردعمل بدمزگی اورکسی حدتک سخت برہمی کی صورت میں ظاہر ہوااور وہ کہنے لگاتم ہلاک ہو کیاتم نے اس بات کے لیے ہمیں جمع کیاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاکی بے ہودہ باتوں کاکوئی جواب نہ دیا ۔[2]

فتكلم القوم كلاما لینا غیر أبی لهب فإنه قال: یا بنی عَبْدِ الْمُطّلِب هذه والله السوأة، خذوا على یده قبل أن یأخذ على یده غیركم فإن أسلمتموه حینئذ ذللتم وإن منعتموه قتلتم، فقالت أخته صفیة عمة رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رضی الله تعالى عنها: أی أخی! أیحسن بك خزلان ابن أخیك فوالله ما زال العلماء یخیرون أنه یخرج من بنی عَبْدِ الْمُطّلِب نبی، فهو هو

ایک روایت میں ہےآپ کاخطبہ سن کرسب کے دل پسیج گئے لیکن آپ کاچچاراس الکفرابولہب بلبلاکر اٹھ کھڑا ہو کرکہنے لگاتیرا برا ہو، تو ہلاک ہوجائے ،اسی لئے تونے ہمیں جمع کیاتھا،اے لوگو!اسے روکوورنہ عرب تم پر چڑھ دوڑے گااورتم ہلاک کردیئے جاؤ گے،یہ سن کرابولہب کی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ کہنے لگیں بھائی کیاکررہے ہو؟اپنے بھتیجے کی رسوائی کے درپے ہو؟ دنیا سنتی آئی ہے کہ اولادعبدالمطلب میں سے ایک نبی آنے والاہے اورمجھے یقین کامل ہے کہ وہ آنے والانبی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہی ہیں ،لیکن ابولہب نے انہیں بھی برا بھلا کہناشروع کردیا۔[3]

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کی قوم کے دلوں پرکفروشرک کی سیاہی جمی ہوئی ہے جواتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی ،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہلی کوشش سے بددل یادل برداشتہ نہ ہوئے اورچندروزکے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوحکم فرمایاکہ کھاناتیارکرواورقریش کے موثرترین خاندان اولادعبدالمطلب کی میری طرف سے دعوت کااہتمام کرو۔

فصنع لهم علیّ طعاما: أی رجل شاة مع مدّ من البر وصاعا من لبن، فقدّمت لهم الجفنة، وقال: كلوا بسم الله،قال ادنوا عشرة عشرة فدنا القوم عشرة عشرة، فلما أراد رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یتكلم بدره أو لهب بالكلام، فقال: لقد سحركم صاحبكم سحرا عظیما. وفی روایة: ما رأینا كالسحر الیوم فتفرقوا ولم یتكلم رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تھوڑے سے گوشت کاسالن ،تھوڑے سے آٹے کی روٹیاں اور تقریبا ًتین کلودودھ کا بندوبست کرکے اولادعبدالمطلب کو کھانے کی دعوت دی ،چنانچہ جب تمام اولادعبدالمطلب جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاابوطالب،ابولہب اور عباس رضی اللہ عنہ ، حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ وقت پر کھانے کے لئے جمع ہو گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے نام سے کھاناشروع کرو دس دس لوگ آتے تھے اورسیرہوکرکھاناکھاکرایک طرف ہوجاتے ،اس طرح اس مختصرکھانے میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت ڈال دی کہ سب شریک دعوت کاپیٹ بھرگیاجب سب لوگ دعوت کھا کر فارغ ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاابولہب نے ایک بار پھر رنگ بگاڑ دیا اور کہنے لگالوگو!یہ توبڑاجادوگرہے ، ایساجادوتوہم نے آج تک نہیں دیکھانہ سنا،یہاں سے بھاگوورنہ اس وقت نجانے وہ تم پرکیاجادوکردے اس طرح کی باتیں بناکرسب لوگوں کولیکر کھڑاہوگیا اورلوگ کچھ سنے بغیرمنتشرہوگئے۔[4]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارپھرسیدنا علی رضی اللہ عنہ کودعوت کاحکم فرمایاجب سب اکھٹے ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کوکھاناکھلایا اور کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرمایا:

یا بنی عَبْدِ الْمُطّلِب إن الله قد بعثنی إلى الخلق كافة، وبعثنی إلیكم خاصة ،فقال: وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ،وأنا أدعوكم إلى كَلِمَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِیلَتَیْنِ فِی الْمِیزَانِ، شهادة أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وأنی رَسُولُ اللَّهِ،فمن یجیا بنی إلى هذا الأمر ویوازرنی- أی یعاوننی- على القیام به؟ فقام علیّ وقال أنا یَا رَسُولَ الله، قال اجلس ، ثم أعاد القول على القوم ثانیا فصمتوا، فقام علیّ وقال أنا یَا رَسُولَ الله، فقال: اجلس، ثم أعاد القول على القوم ثالثا فلم یجبه أحد منهم، فقام علیّ فقال: أنایَا رَسُولَ الله، فقال اجلس فأنت أخی ووزیری ووصیی ووارثی وخلیفتی من بعدی

اے اولادعبدالمطلب ! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام مخلوق کی طرف اپنارسول بناکربھیجاہے اورخوصاًتمہاری طرف ، مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ میں اپنے قرابت داروں کوہوشیارکردوں سنو!میں تمہیں صرف دوکلموں کی دعوت دیتاہوں جوزبان پر بہت سبک ہیں لیکن میزان میں بہت وزنی ہیں ،ان میں ایک کلمہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیناہے اوردوسراکلمہ میری رسالت کی گواہی دیناہے،تم میں سے کون ہے جو میری اس دعوت کوقبول کرے اورمیری موافقت کرے اورمیرے کام میں ساتھ دے؟تمام مجلس میں سناٹاچھاگیا،اس اہم سوال کاجواب سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی طرف سے موصول ہواانہوں نے اٹھ کرکہا میں اس دعوت کوقبول کرتاہوں اورآپ کی موافقت کروں گارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ ،اورپھردوبارہ یہی بات دہرائی مگرسب لوگ خاموش ہی رہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اورکہامیں اس دعوت کوقبول کرتاہوں اورآپ کی موافقت کروں گاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری باریہی الفاظ دہرائےمگرپھربھی کوئی کھڑانہ ہواتوسیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس دعوت کوقبول کرتا ہوں اورآپ کی موافقت کروں گا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیٹھ جاؤ تم میرے بھائی ہو اور میرے وزیر ہو اورمیرے وصی ہواورمیرے وارث ہواورمیرے بعدخلیفہ ہوگے۔ مگرکفروشرک میں ڈوبے ہوئے ذہن حق آواز کہاں برداشت کرسکتے تھے اس لئے اس پاکیزہ دعوت کوسنکرچیں بہ چیں ہوگئے اورمنہ پھلائے اک بک کہنے لگے اورآٹھ کرچلے گئے۔[5]

پہاڑی پروعظ کے بعدکاواقعہ

عَنْ عَلِیٍّ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ قَالَ: جَمَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ، فَاجْتَمَعَ ثَلاثُونَ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ:مَنْ یَضْمَنُ عَنِّی دَیْنِی وَمَوَاعِیدِی، وَیَكُونُ مَعِی فِی الْجَنَّةِ، وَیَكُونُ خَلِیفَتِی فِی أَهْلِی؟فَقَالَ: رَجُلٌ لَمْ یُسَمِّهِ شَرِیكٌ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْتَ كُنْتَ بَحْرًا، مَنْ یَقُومُ بِهَذَا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: لِآَخَرٍ، قَالَ: فَعَرَضَ ذَلِكَ عَلَى أَهْلِ بَیْتِهِ، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا

سیدناعلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب یہ آیت ’’اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ۔‘‘ نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کوجمع کیایہ تیس شخص تھے جب یہ کھاپی چکے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکون ہے جومیراقرض اپنے ذمے لے اورمیرے بعدمیرے وعدے پورے کرے ،وہ جنت میں بھی میراساتھی اورمیری اہل میں میراخلیفہ ہوگا،توایک شخص نے کہا آپ توایک سمندرہیں آپ کے ساتھ کون کھڑاہوسکتاہے،تین دفعہ آپ نے فرمایالیکن کوئی تیارنہ ہواتومیں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کے لئے تیارہوں ۔[6]

ضعیف روایت ہے اس کی سندمیں شریک بن عبداللہ نخعی اورعبادبن عبداللہ اسدی ضعیف راوی ہیں ۔

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَةِ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ، عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ نَاجِذٍ، عَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فِیهِمْ رَهْطٌ كُلُّهُمْ یَأْكُلُ الْجَذَعَةَ، وَیَشْرَبُ الْفَرَقَ، قَالَ: فَصَنَعَ لَهُمْ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: وَبَقِیَ الطَّعَامُ كَمَا هُوَ كَأَنَّهُ لَمْ یُمَسَّ، ثُمَّ دَعَا بِغُمَرٍ فَشَرِبُوا حَتَّى رَوَوْا، وَبَقِیَ الشَّرَابُ كَأَنَّهُ لَمْ یُمَسَّ أَوْ لَمْ یُشْرَبْ فَقَالَ:یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّی بُعِثْتُ لَكُمْ خَاصَّةً وَإِلَى النَّاسِ بِعَامَّةٍ، وَقَدْ رَأَیْتُمْ مِنْ هَذِهِ الْآیَةِ مَا رَأَیْتُمْ، فَأَیُّكُمْ یُبَایِعُنِی عَلَى أَنْ یَكُونَ أَخِی وَصَاحِبِی؟قَالَ: فَلَمْ یَقُمِ الَیْهِ أَحَدٌ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَیْهِ وَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ،قَالَ: فَقَالَ:اجْلِسْ قَالَ: ثَلاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ أَقُومُ إِلَیْهِ فَیَقُولُ لِی:اجْلِسْ حَتَّى كَانَ فِی الثَّالِثَةِ ضَرَبَ بِیَدِهِ عَلَى یَدِی

ایک اور روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کوجمع کیا ،یہ ایک جماعت کی جماعت تھی اوربڑے کھاؤ تھے،ایک ایک شخص ایک ایک بکری کابچہ کھاجاتاتھااورایک بڑا بدھنادودھ کاپی جاتاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے کھانے کے لئے صرف تین پاؤ کے قریب کھانا پکوایالیکن اللہ نے اسی میں اتنی برکت دی کہ سب پیٹ بھر کر کھا چکے اورخوب آسودہ ہوکرپی چکے لیکن نہ توکھانے میں کمی نظرآئی نہ پینے کی چیز گھٹتی ہوئی معلوم ہوتی تھی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اولادعبدالمطلب! میں تمہاری طرف خصوصاًاورتمام لوگوں کی طرف عموماًنبی بناکربھیجاگیاہوں ،اس وقت تم ایک معجزہ بھی میرادیکھ چکے ہواوراب تم میں سے کون تیارہے کہ مجھ سے بیعت کرے ،وہ میرابھائی اورمیراساتھی ہوگا؟ لیکن ایک شخص بھی مجمع میں کھڑانہ ہواسوامیرےاورمیں اس وقت عمرکے لحاظ سے ان سب سے چھوٹاتھا،آپ نے فرمایاتم بیٹھ جاؤ ،تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایااورتینوں مرتبہ بجزمیرے اورکوئی کھڑانہ ہوا،تیسری مرتبہ آپ نے میری بیعت لی۔[7]اس روایت کی سندمیں ربیعہ بن ناجدمحجول راوی ہے۔

لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ: وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَناحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ . قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنِّی إِنْ بَادَأْتُ بِهَا قَوْمِی رَأَیْتُ مِنْهُمْ مَا أَكْرَهُ فَصَمَتُّ عَلَیْهَا فَجَاءَنِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فَقَالَ لِی : یَا مُحَمَّدُ! إِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَكَ بِهِ رَبُّكَ عَذَّبَكَ رَبُّكَ. قَالَ عَلِیٌّ: فَدَعَانِی فَقَالَ یَا عَلِیُّ إِنَّ اللهَ قَدْ أَمَرَنِی أَنْ أُنْذِرَ عَشِیرَتِی الْأَقْرَبِینَ فَعَرَفْتُ أَنِّی إِنْ بَادَأْتُهُمْ بِذَلِكَ رَأَیْتُ مِنْهُمْ مَا أَكْرَهُ فَصَمَتّ عَنْ ذَلِكَ ثُمَّ جَاءَنِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ مَا أُمِرْتَ بِهِ عَذَّبَكَ رَبُّكَ، فَاصْنَعْ لَنَا یَا عَلِیُّ رِجْلَ شَاةٍ عَلَى صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ وَأَعِدَّ لَنَا عُسَّ لَبَنٍ ثُمَّ اجْمَعْ لِی بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَفَعَلْتُ فَاجْتَمَعُوا لَهُ وَهُمْ یَوْمَئِذٍ أَرْبَعُونَ رَجُلًا یزیدون رجلا أن یَنْقُصُونَهُ فِیهِمْ أَعْمَامُهُ أَبُو طَالِبٍ وَحَمْزَةُ وَالْعَبَّاسُ وَأَبُو لَهَبٍ الْكَافِرُ الْخَبِیثُ فَقَدَّمْتُ إِلَیْهِمْ تِلْكَ الْجَفْنَةَ فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ مِنْهَا حُذْیَةً فَشَقَّهَا بِأَسْنَانِهِ ثُمَّ رَمَى بِهَا فِی نَوَاحِیهَا وَقَالَ كُلُوا بِسْمِ اللهِ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے ایک روایت میں ہےجب یہ آیت ’’اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ۔‘‘ نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں اپنی قوم کے سامنے ابھی ہی اسے پیش کروں گاتووہ نہ مانیں گے اورایساجواب دیں گے جومجھ پر گراں گزرےپس آپ خاموش ہو گئے،اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آئے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ نے تعمیل ارشادمیں تاخیرکردی تو ڈر ہے کہ آپ کوسزاہوگی، اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوبلایااورفرمایااے علی رضی اللہ عنہ !مجھے حکم ہواہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈراؤ ں ،میں نے یہ خیال کرکے کہ اگرپہلے ہی سے ان سے کہا گیاتویہ مجھے ایساجواب دیں گے جس سے مجھے ایذاپہنچے،میں خاموش رہالیکن جبرائیل علیہ السلام آئے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہ اگرتونے ایسانہ کیاتوتجھے عذاب ہوگاتواب اے علی رضی اللہ عنہ !تم ایک بکری ذبح کر کے پکالواورکوئی تین سیراناج بھی تیارکرلو اورایک بدھنادودھ کابھی بھرلواور اولادعبدالمطلب کوبھی جمع کرلو، میں نے ایساہی کیااورسب کودعوت دی،چالیس آدمی جمع ہوئے یاایک آدھ کم یاایک آدھ زیادہ،ان میں آپ کے چچابھی تھے ،ابوطالب، حمزہ عوف رضی اللہ عنہ ، عباس رضی اللہ عنہ اورابولہب،میں نے سالن پیش کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک بوٹی لے کرکچھ کھائی پھراسے ہنڈیامیں ڈال دیااورفرمایا لواللہ کانام اورکھاناشروع کردو،

فَأَكَلَ الْقَوْمُ حَتَّى نَهِلُوا عَنْهُ مَا یُرَى إِلَّا آثَارُ أَصَابِعِهِمْ وَاللهِ إِنْ كَانَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ یَأْكُلُ مِثْلَهَاثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ اسْقِهِمْ یَا عَلِیُّ فجیت بِذَلِكَ الْقَعْبِ فَشَرِبُوا مِنْهُ حَتَّى نَهِلُوا جَمِیعًا وَایْمُ اللهِ إِنْ كَانَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ لَیَشْرَبُ مِثْلَهُ، فَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ أَنْ یُكَلِّمَهُمْ بَدَرَهُ أبولَهَبٍ إِلَى الْكَلَامِ، فَقَالَ: لهدّما سَحَرَكُمْ صَاحِبُكُمْ. فَتَفَرَّقُوا وَلَمْ یُكَلِّمْهُمْ رَسُولُ اللهِ،فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ یَا عَلِیُّ عُدْ لَنَا بِمِثْلِ الَّذِی كُنْتَ صَنَعْتَ لَنَا بِالْأَمْسِ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ فَإِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ بَدَرَنِی إِلَى مَا قَدْ سَمِعْتَ قَبْلَ أَنْ أُكَلِّمَ الْقَوْمَ. فَفَعَلْتُ، ثُمَّ جَمَعْتُهُمْ لَهُ فَصَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ كَمَا صَنَعَ بِالْأَمْسِ فَأَكَلُوا حَتَّى نَهِلُوا عَنْهُ ثُمَّ سَقَیْتُهُمْ فَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْقَعْبِ حَتَّى نَهِلُوا عَنْهُ وَایْمُ اللهِ إِنْ كَانَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ لَیَأْكُلُ مِثْلَهَا وَیَشْرَبُ مِثْلَهَاثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّی وَاللهِ مَا أَعْلَمُ شَابًّا مِنَ الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ. إِنِّی قَدْ جِئْتُكُمْ بِأَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

سب نے کھاناشروع کیا،یہاں تک کہ پیٹ بھرگئے لیکن اللہ کی قسم گوشت اتناہی تھاجتنارکھتے وقت رکھاتھا،صرف ان کی انگلیوں کے نشانات توتھے مگرگوشت کچھ بھی نہ گھٹاتھا، حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتناگوشت توکھالیتے تھے، پھرفرمایااے علی رضی اللہ عنہ !انہیں پلاؤ ،میں وہ بدھنا لایاسب نے باری باری شکم سیرہوکرپیااور خوب آسودہ ہوگئے لیکن دودھ بالکل کم نہیں ہوا،حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنادودھ پی لیاکرتاتھا،اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمانا چاہا لیکن ابولہب جلدی سے اٹھ کھڑاہوااورکہنے لگاتوصاحب اب معلوم ہواکہ یہ تمام جادوگری محض اس لئے تھی ، چنانچہ مجمع اسی وقت اکھڑگیااورہرایک اپنی راہ لگ گیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونصیحت وتبلیغ کاموقعہ نہ ملا دوسرے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایاآج پھراسی طرح ان سب کی دعوت کروکیونکہ کل اس نے مجھے کچھ کہنے کاوقت ہی نہیں دیا،میں نے پھراسی طرح انتظام کیا،سب کو دعوت دی ،سب آئے کھایا پیا،پھرکل کی طرح آج بھی ابولہب نے کھڑے ہوکروہی بات کہی اوراسی طرح سب تتربترہوگئے ،تیسرے روزپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہی فرمایا،آج جب سب کھاپی چکےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کردی اورفرمایااے بنوعبدالمطلب!واللہ کوئی نوجوان شخص اپنی قوم کے پاس اس سے بہتربھلائی نہیں لایاجومیں تمہارے پاس لایا ہوں ،میں دنیااورآخرت کی بھلائی لایا ہوں ۔[8]

وَقَدْ أَمَرَنِی اللَّهُ أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَیْهِ، فَأَیُّكُمْ یُؤَازِرُنِی عَلَى هَذَاالْأَمْرِ عَلَى أَنْ یَكُونَ أَخِی وَكَذَا وَكَذَا قَالَ: فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ عَنْهَا جَمِیعًا، وَقُلْتُ وَلَإِنِّی لَأَحْدَثُهُمْ سِنًّا وَأَرْمَصُهُمْ عَیْنًا، وَأَعْظَمُهُمْ بَطْنًا، وَأَحْمَشُهُمْ سَاقًا: أَنَا یَا نَبِیَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِیرَكَ عَلَیْهِ،فَأَخَذَ بِرَقَبَتِی فَقَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِی وَكَذَا وَكَذَا فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُواقَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ یَضْحَكُونَ وَیَقُولُونَ لِأَبِی طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَتُطِیعَ!

اورروایت میں اس کے بعدیہ بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب بتاؤ تم میں سے کون میرے ساتھ اتفاق کرتاہے اورکون میراساتھ دیتاہے؟ مجھے اللہ تعالیٰ کاحکم ہواہے کہ پہلے میں تمہیں اس کی راہ کی دعوت دوں جوآج میری مان لے گاوہ میرابھائی ہوگااوریہ درجے ملیں گے،لوگ خاموش ہوگئے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ جواس وقت مجمع میں سب سے کم عمرتھے اور دکھتی آنکھوں والے اورموٹے پیٹ والے اوربھری پنڈلیوں والے تھے بول اٹھے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس امرمیں میں آپ کی وزارت میں قبول کرتا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کرکہاکہ یہ میرابھائی ہے اورایسی ایسی فضیلتوں والاہے تم اس کی سنواورمانو،یہ سن کروہ سب لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اورابوطالب سے کہنے لگےلے اب تواپنے بچے کی سن اورمان۔[9]

تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الْغفار ابْن الْقَاسِمِ أَبُو مَرْیَمَ، وَهُوَ كَذَّابٌ شِیعِیٌّ اتَّهَمَهُ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ وَغَیْرُهُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ، وَضَعَّفَهُ الْبَاقُونَ، قال أبو داود: وأنا أشهد أن أبا مریم كذاب ، وقال أبو حاتم والنسائی وغیرهما: متروك الحدیث. وقال البخاری: عبد الغفار بن القاسم بن قیس بن فهد لیس بالقوى عندهم.

اس روایت کاراوی عبدالغفاربن قاسم بن ابی مریم متروک ،کذاب اوررافضی ہے،ابن مدینی وغیرہ کہتے ہیں یہ حدیثیں گھڑ لیاکرتاتھا،امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ابومریم کذاب ہے، امام ابوحاتم رحمہ اللہ اورامام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ متروک حدیث ہے،امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبدالغفاربن قاسم میرے نزدیک قوی نہیں ہے۔[10]

دیگرائمہ حدیث نے بھی اس کوضعیف لکھاہے۔

یہ سب ضعیف روایات ہیں ،اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غورہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں جانثاراہلیہ اورتین بیٹیاں موجودتھیں اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چندلوگوں کے کھانے کابندوبست کرنے کافرماتے تووہ فوراًکھانے کابندوبست کرسکتی تھیں ،اوراگرمکہ معظمہ میں فاسٹ فوڈکے ہوٹل کھلے ہوئے تھے توگھرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ بولابیٹا تیس سال کا زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ موجودتھا جوبااحسن وخوبی کھانےپینےکابندوبست کرسکتا تھا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمرتواس وقت پانچ سال کی تھی اورایک کم سن بچہ ایک دعوت کا بندوبست کیسے کرسکتا ہے ، اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوان بالغ شخص کوچھوڑکر ایک بچے کے ذمہ یہ کام سپرد فرماتے؟

نزول وحی کے بعدپہلافرض نماز

انسان کی پوری زندگی کوعبادت میں تبدیل کرنے کے لئے سب سے پہلے جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں یہ شعور ہر وقت تازہ رہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کابندہ ہے ،یہ ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی حواس سے بالاترہے لیکن گمراہی کی طاقتیں ہرسمت پھیلی ہوئی ہیں ، لہذا اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کوبارباراس بات کی یاددہانی کی جاتی رہے کہ اسے اپنی زندگی ایک مخصوص اندازسے گزارنی ہے ،یہ نمازکاسب سے بڑافائدہ ہے، نماز صبح وشام ،دن کے کام کاج وہنگاموں ، تفریح یاآرام کے وقت بندے کوآگاہ کرتی ہے کہ تم شیطانی نفس کے بندے نہیں اللہ کے بندے ہو، اوراللہ کی بندگی کے لیے پیداکیے گئے ہو۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [11]

ترجمہ:میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ۔

نمازکی اسی خصوصیت کی بناپرقرآن مجیدمیں اسے ذکرکے لفظ سے تعبیرکیاگیاہے،جس کے معنیٰ یاددہانی کے ہیں ۔

فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ [12]

ترجمہ:دوڑواللہ کے ذکرکی طرف۔

چوں کے انسان کے سپردیہ کام ہواہے کہ وہ ہرقدم پراللہ کے احکام وفرائض بجالائے ،ہرآن شیطانی قوتوں سے لڑتارہے اورحدوداللہ کی حفاظت کرتارہے ، اس مقصد کے لئے سخت تنظیم ،تربیت اورآزمائش کی ضرورت ہے تاکہ بندے میں فرض شناسی اورمستعدی پیدا ہو بلکہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے ،انہی مقاصدکے تحت نمازدن اوررات میں پانچ بارفرض کی گئی تاکہ ایک طرف تومسلمانوں کی تربیت ہواوردوسری طرف سچے اور جھوٹے مسلمانوں میں امتیازہوجائے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابندے اورکفرکے درمیان نمازکا چھوڑناہے (یعنی ترک صلوٰة وہ پل ہے جسے پارکرکے آدمی ایمان سے کفرکی طرف جاتاہے)۔[13]

نمازکاایک کام یہ ہے کہ وہ انسان کی سیرت کواس خاص ڈھنگ پرتیارکرتی ہے جواسلامی زندگی بسرکرنے کے لئے ضروری ہے۔اسلام کامقصدایک ایسی جماعت کی تیاری ہے جس کامقصداولین نیکی کوقائم کرنااوربدی کومٹاناہے۔

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴ [14]

ترجمہ:تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اورہرشعبہ زندگی میں اللہ کے قوانین کی پابندی کرنی ہے اورانہیں پوری دنیامیں نافذکرنے کی ذمہ داری سنبھالنی ہے،یہ عظیم کام اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک انسان میں اللہ کاخوف،اس کی محبت اوراس کی خوشنودی کی خواہش نہ پیداہواورجب تک آدمی یہ جان نہ لے کہ اللہ حاکم اصلی ہے اورہرانسان اس کے سامنے جواب دہ ہے، مسلمان اسلام کے طریقے پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتاجب تک کہ اسے یقین کامل نہ ہوکہ اللہ ہرجگہ ہرحال میں اسے دیکھ رہاہے ،اس کی ہرہرحرکت سے باخبرہے ، اندھیرے میں بھی اس کودیکھتاہے ، تنہائی میں بھی اس کے ساتھ ہے۔

وَهُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴ [15]

ترجمہ:وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

اوراس کے دل میں جونیت چھپی ہوئی ہے اس کوبھی وہ جانتا ہے،

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [16]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اوروہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

یہی یقین انسان کواللہ کے احکام کی اطاعت اوراس کے قانون کی پیروی کے لئے تیار کرتاہے ،اورنمازکامقصدیہ ہے کہ وہ اسی یقین کوباربارانسان کے ذہن میں تازہ کرے،نمازکاارادہ کرنے کے ساتھ ہی روح کی تربیت اوراسلامی سیرت کی تعمیرکاعمل شروع ہوجاتاہے اورپھرایک ایک حرکت ،ایک ایک فعل اورایک ایک قول جونمازسے متعلق ہے کچھ اس طورپررکھاگیاہے کہ اس سے خودبخودانسان کی سیرت اسلام کے سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے اسی وجہ سے قرآن میں دعویٰ کیاگیاہے،

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۴۵ [17]

ترجمہ:یقینا ًنمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔

اسی بناپرنمازقدیم ترین زمانے سے انبیاء کی تعلیمات کاجزرہی ہے،جتنے انبیاء اللہ کی طرف سے آئے ہیں ان سب کی شریعت میں نمازاولین رکن اسلام تھی،اسلامی تحریک میں جب کبھی زوال آیانمازکانظام تربیت ٹوٹ جانے کی وجہ ہی سے آیاکیوں کہ اسلام کے طریقے پر چلنے کے لئے اسلامی سیرت ضروری ہے اوراسلامی سیرت نمازکے نظام تربیت ہی سے بنتی ہے اورجب یہ نظام ٹوٹے گاتوسیرتیں بگڑ جائیں گی اوراس کالازمی نتیجہ زوال وانحطاط ہوگا۔ نماز میں دعاؤ ں اورتسبیحوں کے ساتھ اوقات کی پابندی ، طہارت وغیرہ کی شرائط اورجسمانی حرکات کاجوڑاسی لئے لگایا گیا ہے کہ انسان اپنے نفس پرپوری طرح قابو رہے اوراسے اپنے ارادے کے تحت چلانے میں مشاق ہو جائے ،انسانی نفس ہروقت کسی نہ کسی مشغولیت،فائدے ونقصان ، لطف ولذت اورمشکلات وغیرہ کے بہانے ڈھونڈتاہے لیکن نمازہروقت تازیانہ بن کرآجاتی ہے اورانسان کی اونگھتی ہوئی قوت ارادی کوجگاتی ہے ،اگرانسان نمازکامطالبہ پوراکررہاہے تووہ اپنی خواہشات نفسی کازورتوڑدے گااوران پرحکمراں ہوجائے گا اوراس میں یہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ اپنے علم وارادے کے مطابق انہیں تبدیل کرسکے،قرآن میں بتایاگیاہے کہ نماز چھوڑ کر آدمی خواہشات کاپیروکاربن کرگمراہ ہوجاتاہے۔

 فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا۝۵۹ [18]

ترجمہ: پھر ان کے بعدوہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نمازکوضائع کیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی ،پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔

یہ ظاہرہے کہ انفرادی سیرت تنہاکوئی نتیجہ نہیں پیداکرسکتی جب تک کہ جماعت میں وہی سیرت موجودنہ ہو،آدمی دنیامیں کوئی کام اکیلانہیں کرسکتا،اس کی ساری زندگی اپنے بھائی بندوں ،دوستوں اورہمسائیوں ،معاملہ داروں اورساتھیوں کے ساتھ ہزاروں قسم کے تعلقات میں جکڑی ہوئی ہے ،اب اگرایک انسان ایسے لوگوں کے درمیان گھرا رہے جواللہ کے قانون کوتسلیم ہی نہیں کرتے،یااس کی نافرمانی پرتلے ہوئے ہیں تواکیلے آدمی کے لئے اپنی زندگی میں اس قانون کوجاری کرنادشوارہوجائے گا،حالانکہ مسلمانوں کے ذمے کام نہ صرف یہ ہے کہ اسے اپنی زندگی میں جاری کریں بلکہ دنیاپرغالب و نافذ کریں ،اس کام کے لئے ایک آدھ مسلمان کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مسلمان مل کرایک جتھابنیں اورپھراس کام کے لئے کوشش کریں ،نمازہماری اس ضرورت کوبھی پوراکرتی ہے وہ اجتماعی نظام کاپوراڈھانچہ بناتی ہے ،اس کوقائم کرتی اوررکھتی ہے اوراسے روزانہ پانچ مرتبہ حرکت میں لاتی ہے تاکہ وہ ایک مشین کی طرح چلتارہے ،اس لئے پنج وقتہ نمازکوجماعت کے ساتھ اداکرناواجب قراردیاگیاہے،حکم ہے کہ اذان کی آوازسنتے ہی سب کام چھوڑکرمسجدکودوڑجاو۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹ [19]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذِکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔

اس کافائدہ یہ ہے کہ جب کبھی کوئی مہم درپیش آئے توساراگروہ ایک منظم جتھے کی صورت میں جمع ہوسکے اوراس کے لئے کام کرسکے،یہ تومحض اذان کافائدہ تھا،اب سب لوگ مسجدمیں جمع ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کوپہچانتے ہیں اوراس حیثیت سے متعارف ہوتے ہیں کہ سب ہم مقصد اورایک ہی راہ کے مسافرہیں ،پھرجب کوئی خوشحال مسلمان کسی غریب مسلمان بھائی کوپھٹے پرانے کپڑوں ، پریشان صورت یا فاقہ زدہ دیکھے گا تواس کے دل میں ہمدردی کاجذبہ پیداہوگااور وہ غریبوں کی مددکرسکے گا۔

پھرمسجدمیں تمام مسلمان مساوی حیثیت کے حامل ہیں ،ایک كم حیثیت اگرپہلے آیاتووہ اگلی صف میں ہوگااورایک رئیس اگربعدمیں آئے توپچھلی صفوں میں رہے گا،کوئی بڑے سے بڑاآدمی بھی مسجدمیں اپنی نشست محفوظ نہیں کراسکتااورنہ کوئی شخص اس بات کامجازہے کہ کسی شخص کواس کی جگہ سے ہٹادےتمام مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے،یہاں نہ کوئی بڑاہے نہ چھوٹا،نہ اونچ نہ نیچ،کسی کے چھوجانے سے کوئی ناپاک نہیں ہوتااورنہ کسی کے برابرکھڑے ہونے سے کسی کی عزت کوبٹہ لگتاہے۔

اس طرح سوسائٹی کے افرادکویاددلایاجاتاہے کہ اللہ کی نگاہ میں تم سب برابرہوطبقاتی امتیاز،رنگ ونسل،قبیلہ اوروطن کی عصبتیں غلط ہیں ۔

مسجدمیں ہرمسلمان امام بن سکتاہے ،البتہ مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے شریعت میں وہ صفات بیان کی گئی ہیں جن کالحاظ رکھناچاہیے،یہ صفات انتہائی معنی خیزہیں ،ان کے ذریعے سے مسلمانوں کویہ بتایاگیاہے کہ اس چھوٹی سی مسجدکے باہراس وسیع مسجدمیں جس کانام زمین ہے مسلمانوں کااجتماعی نظام کیساہوناچاہیے ،انہیں کیساامام یالیڈر منتخب کرناچاہیے اوراس کے ساتھ کس قسم کاتعلق رکھناچاہئے ،ہدایت دی گئی ہے کہ امام ایسے شخص کومنتخب کیاجائے جوپرہیزگارہو،نیک سیرت ہو،دین کاعلم رکھتاہو،حکم دیاگیاہے کہ امام ایسے شخص کونہ بنایاجائے جس سے جماعت کی اکثریت ناراض ہو،ان ساری ہدایات سے معلوم ہوتاہے کہ سردارقوم کے انتخاب میں کن چیزوں کالحاظ کرناچاہئے۔

حکم ہے کہ جوشخص امام بنے وہ نمازپڑھانے میں جماعت کے ضعیف لوگوں کابھی لحاظ رکھے ،محض جوان،مضبوط اورفرصت والے آدمیوں کوپیش نظررکھ کرلمبی لمبی قرات اورلمبے لمبے رکوع اورسجدے نہ کرنے لگے بلکہ یہ بھی خیال رکھے کہ جماعت میں بوڑھے بھی ہیں ،بیماربھی ہیں اورکمزوراورمشغول آدمی بھی ہیں جواپناکام چھوڑکرآئے ہیں ، اس طرح گویاسردارقوم کوتعلیم دی جارہی ہے کہ جب وہ سرداربنایاجائے توافرادکے ساتھ اس کاطرزعمل کیساہوناچاہیے۔

حکم دیاگیاہے کہ امام کی سختی سے پیروی کرنی چاہیے اس کی حرکت سے پہلے حرکت کرنامنع ہے ،اس طرح قوم کوبتایاجارہاہے کہ اسے اپنے سردارکی اطاعت کس طرح کرنی چاہےالبتہ اگرامام غلطی کرے تومقتدیوں کافرض ہے کہ اسے سبحان اللہ کہہ کرٹوک دیں ،سبحان اللہ کے معنی ہیں کہ اللہ پاک ہے ،مطلب یہ کہ تم سے غلطی ہوجاناکوئی تعجب کی بات نہیں غلطیوں سے مبراذات توصرف اللہ کی ہے ،امام کافرض ہے کہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے لیکن اگروہ سمجھتاہے کہ وہ صحیح ہے تومقتدیوں کافرض ہے کہ اس کی پیروی کرتے رہیں ،یہ توچھوٹی موٹی غلطیوں کی بات ہے لیکن اگرغلطی سنگین ہواورکفروشرک تک پہنچتی ہوتوجماعت کافرض ہے کہ فوراًعلیحدہ ہوجائے اوراس امام کوہٹاکردوسرا امام مقررکرے ،قومی زندگی میں بھی یہی حیثیت ہے ،جب تک سردارقوم حدوداللہ میں کام کررہاہواس کی اطاعت واجب ہے لیکن اگروہ اللہ کی حدودکوتوڑدے توملت اسلامیہ کا فرض ہے کہ ایسے رہنماؤ ں اوراکابرکوان کے عہدوں سے اتاردے اوران کی جگہ خداترس لوگ منتخب کرے۔

نمازکے انہی فوائدکی بناپراس کودین میں بنیادی اہمیت دی گئی ہے ،اسے دین کاستون کہاگیاہے جس نے اسے گرادیااس نے دین کی عمارت ڈھادی اورجس نے اس کی حفاظت کی اس نے دین کی عمارت محفوظ رکھی،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: اُفْتُرِضَتْ الصَّلَاةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَا اُفْتُرِضَتْ عَلَیْهِ رَكْعَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ، كُلَّ صَلَاةٍ، ثُمَّ إنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَتَمَّهَا فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَأَقَرَّهَا فِی السَّفَرِ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ رَكْعَتَیْنِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےسب سے پہلے جوچیزفرض کی گئی وہ نمازتھی اورابتدامیں ہرنمازکی دودورکعت تھی،پھراللہ تعالیٰ نے حضرمیں ان کی چاررکعتیں کردیں اورسفرمیں وہی دوقائم رکھیں ۔[20]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: فُرِضَتْ الصّلَاةُ رَكْعَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ ثُمّ هَاجَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْمَدِینَةِ، فَفُرِضَتْ أَرْبَعًاوَتُرِكَتْ صَلاَةُ السَّفَرِ عَلَى الأُولَى

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے(پہلے)نمازصرف دورکعت فرض ہوئی تھی پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تووہ فرض رکعات چاررکعات ہوگئیں ،البتہ سفرکی حالت میں نمازاپنی حالت میں باقی رکھی گئی۔[21]

وَعَنْ مُقَاتِلِ بْنِ سُلَیْمَانَ: فَرَضَ اللَّهُ فِی أَوَّلِ الإِسْلامِ الصَّلاةَ رَكْعَتَیْنِ بِالْغَدَاةِ، وَرَكْعَتَیْنِ بِالْعَشِیِّ، ثُمَّ فَرَضَ الْخَمْسَ لَیْلَةَ الْمِعْرَاجِ

مقاتل بن سلمان سے مروی ہےاللہ تعالیٰ نے ابتدائے اسلام میں دورکعتیں صبح کی اوردورکعتیں شام کی فرض کیں ،اورپھرپانچ نمازیں شب معراج کوفرض ہوئیں ۔[22]

ابتدائے بعثت سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانمازپڑھناتوثابت ہے ،البتہ اس بات پراختلاف ہے کہ معراج میں پانچ نمازوں کے تحفہ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکوئی نمازفرض تھی یانہیں ، ایک گروہ کے نزدیک شب معراج سے قبل کوئی نمازفرض نہیں تھی ،بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدرچاہتے تھے نمازپڑھ لیتے تھے، البتہ سورۂ مزمل میں صلاة اللیل کا حکم نازل ہواتھا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک بعثت کی ابتداہی سے دونمازیں فرض تھیں ،دورکعت نمازفجراوردورکعت نمازعصر،جیسے قران مجیدمیں ہے،

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ ۝۱۱۴ۚ [23]

ترجمہ:اوردیکھونمازقائم کرودن کے دونوں سروں پر۔

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَــقُوْلُوْنَ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ ۝۱۳۰ [24]

ترجمہ: اور اپنے رب کی حمدوثناکے ساتھ اس کی تسبیح کروسورج نکلنے سے پہلے اورغروب ہونے سے پہلے۔

 وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْكَارِ۝۵۵ [25]

ترجمہ:صبح وشام اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مزمل نازل فرمائی اورراتوں کونمازکاحکم فرمایا،

الْمُزَّمِّلُ۝۱ۙقُـمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۲ۙنِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا۝۳ۙاَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۝۴ۭاِنَّا سَـنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَـقِیْلًا۝۵اِنَّ نَاشِـئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا۝۶ۭاِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا۝۷ۭوَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا۝۸ۭ [26]

ترجمہ:اے اوڑھ لپیٹ کرسونے والے ،رات کونمازمیں کھڑے رہا کرو مگر کم ، آدھی رات یااس سے کچھ کم کرلو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھادو،اورقرآن کوخوب ٹھہرٹھہرکر پڑھو، ہم تم پرایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں ،درحقیقت رات کااٹھنانفس پرقابوپانے کے لئے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے ،دن کے اوقات میں توتمہارے لئے بہت مصروفیات ہیں ،اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کراسی کے ہورہو۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:وَكَانَتْ خَدِیجَةُ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَصَدَّقَ بِمَا جَاءَ بِهِ ثُمَّ إِنَّ جِبْرِیلَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بأعلى مكة حِینَ افْتُرِضَتْ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ فَهَمَزَ لَهُ بِعَقِبِهِ فِی نَاحِیَةِ الْوَادِی، فَانْفَجَرَتْ لَهُ عَیْنٌ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَتَوَضَّأَ جِبْرِیلُ وَمُحَمَّدٌ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ وَسَجَدَ أَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ثُمَّ رَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَقَرَّ اللَّهُ عَیْنَهُ، وَطَابَتْ نَفْسُهُ، وَجَاءَهُ مَا یحب من الله، فأخذ ید خَدِیجَةَ حَتَّى أَتَى بِهَا إِلَى الْعَیْنِ، فَتَوَضَّأَ كَمَا تَوَضَّأَ جِبْرِیلُ، ثُمَّ رَكَعَ رَكْعَتَیْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، ثُمَّ كَانَ هُوَ وَخَدِیجَةُ یُصَلِّیَانِ سِرًّا

ابن اسحاق سے روایت ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا اللہ اوراس کے رسول پرایمان لانے والی اورآپ کی نبوت کی تصدیق کرنے والی نوع انسانی میں پہلی ہستی تھیں (بحیراراہب نہیں )جب جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرپہلی بارآپ کواللہ کی طرف سے نمازکی فرضیت کاحکم پہنچایاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی میں نمازپڑھی، جبرائیل علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سے وضوکیاپھر جبرائیل علیہ السلام نے کھڑے ہوکر دورکعات نماز چارسجدوں کے ساتھ نمازپڑھی،اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھرتشریف لائے جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اوراپنے فضل وکرم سے آپ کے نفس کوطیب وطاہرفرماچکاتھااورآپ کوواجبات حیات کاحکم دے چکاتھا،گھرپہنچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کاہاتھ پکڑااور انہیں چشمہ زمزم پرلائے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آب زمزم سے اسی طرح وضوکیاجس طرح جبرائیل علیہ السلام نے بتایاتھااوراس کے بعددونوں نے چارسجدوں کے ساتھ دورکعت نمازاداکی ،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا آئندہ گھرکے اندرہی رازداری کے ساتھ نمازاداکرتے رہے۔[27]حافظ عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے ایک پتھرپرایڑی ماری جس سے ایک چشمہ پھوٹ پڑااوراس سے وضوکیا۔

اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ نَزَلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَوَّلِ مَا أُوحِیَ إِلَیْهِ فَعَلَّمَهُ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کے نزول کے بعدپہلا کام یہ ہواکہ جبرائیل علیہ السلام نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کووضواور نمازکی تعلیم دی۔[28]

اس روایت میں عبداللہ بن لہیعہ ہے جس کے بارے میں محدثین نے کلام کیاہے۔

[1] المدثر۴۳تا۴۶

[2] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ، مسند احمد ۲۵۴۴،۲۸۰۱

[3] الدعوة الإسلامیة فی عهدها المكی: مناهجها وغایاتها۳۱۵؍۱،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد ۳۲۳؍۲، السیرة الحلبیة۴۰۵؍۱

[4] السیرة الحلبیة۴۰۶؍۱

[5] السیرة الحلبیة۴۰۶؍۱

[6] مسنداحمد ۸۸۳ ،فضائل الصحابة ۷۰۰؍۲

[7] مسنداحمد۱۳۷۱،تاریخ طبری ۳۲۱؍۲

[8] تاریخ طبری ۳۲۱؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۱۷۸؍۲، سیرة ابن اسحاق۱۴۵؍۱،شرف مصطفی ۱۱۸۰،۴۴۵؍۳، الخصائص الکبری۲۰۶؍۱

[9] السیرةالنبویة لابن کثیر۴۵۹؍۱

[10] میزان الاعتدال۶۴۰؍۲

[11] الزاریات۵۶

[12] الجمعة ۹

[13] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ۱۰۷۸،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی رَدِّ الْإِرْجَاءِ ۴۶۷۸،مسنداحمد۱۴۹۷۹، سنن الدارقطنی۱۷۵۳،السنن الکبری للبیہقی ۶۴۹۸، مصنف ابن ابی شیبة ۳۰۳۹۴،مسندابی یعلی۱۷۸۳،شرح السنة للبغوی۳۴۷

[14] آل عمران۱۰۴

[15] الحدید۴

[16] المومن۱۹

[17] العنکبوت ۴۵

[18] مریم ۵۹

[19] الجمعة۹

[20]ابن ہشام۲۴۱؍۱

[21] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ التَّارِیخِ، مِنْ أَیْنَ أَرَّخُوا التَّارِیخَ۳۹۳۵

[22]عیون الاثر۱۰۹؍۱

[23] ھود۱۱۴

[24] طہ ۱۳۰

[25] المومن ۵۵

[26] المزمل ۱تا۸

[27]دلائل لابی نعیم ۱۶۰؍۲، ابن ہشام۲۴۴؍۱، ابن اسحاق ۱۳۶؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۱۶۰؍۲،الروض الانف ۲۸۵؍۲،عیون الاثر۱۰۹؍۱،البدایة والنہایة۳۳؍۳

[28]مسنداحمد۲۱۷۷۱ ، المعجم الاوسط للطبرانی۳۹۰۱

Related Articles