بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ المرسلات

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَارٍ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَیْهِ: وَالمُرْسَلاَتِ فَإِنَّهُ لَیَتْلُوهَا وَإِنِّی لَأَتَلَقَّاهَا مِنْ فِیهِ، وَإِنَّ فَاهُ لَرَطْبٌ بِهَا، إِذْ وَثَبَتْ عَلَیْنَا حَیَّةٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْتُلُوهَافَابْتَدَرْنَاهَا فَذَهَبَتْ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وُقِیَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِیتُمْ شَرَّهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک بار ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورت المرسلات نازل ہوئی آپ اس کو تلاوت کر رہے تھے اور میں اسے آپ سے سن کرسیکھ رہا تھا ابھی ختم بھی نہیں کیا تھا کہ ہم نے ایک سانپ کودیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو،ہم اس کی طرف دوڑے مگر وہ بھاگ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے شر سے بچ گیا جس طرح تم اس کے شر سے بچ گئے۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ أُمَّ الفَضْلِ سَمِعَتْهُ وَهُوَ یَقْرَأُ:وَالمُرْسَلاَتِ عُرْفًافَقَالَتْ: یَا بُنَیَّ، وَاللَّهِ لَقَدْ ذَكَّرْتَنِی بِقِرَاءَتِكَ هَذِهِ السُّورَةَ، إِنَّهَا لَآخِرُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ بِهَا فِی المَغْرِبِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیری والدہ ام فضل نے ایک مرتبہ نماز میں مجھے سورہ المرسلات پڑھتے سنا تو کہنے لگیں کی اے میرے بیٹے! تو نے یہ سورت پڑھ کر مجھے یاد دلایا کہ یہی آخری سورت ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مغرب کی نمازمیں پڑھتے تھے۔[2]

سورۂ القیامہ اورالدھرکی طرح اس سورةکامضمون بھی قیامت اورحیات بعدالموت ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کوذہن نشین کرنے کے لئے پانچ قسمیں کھاکرقیامت اوراس کے بعدکی زندگی کے ثبوت پردلائل بیان فرمائے ،فرمایاکہ جس چیزکاتم سے وعدہ کیاگیاہے وہ ایک وقت مقررہ پر ضرورقائم ہوگی،اورحساب کتاب اور جزاوسزا کا معاملہ ہوکررہے گا ، پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح اہل مکہ بھی قیامت اورعذاب کوبعیدازامکان سمجھ کر بارباررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے تھے کہ قیامت یاعذاب لاکر دکھادوتب ہم تمہاری بات کایقین کرلیں گے،فرمایاکہ ہم نے کائنات کایہ نظام کھیل تماشے کے طورپرنہیں بنایاگیاہے کہ جب کوئی عذاب کامطالبہ کرے اسی وقت اسے دکھا دیاجائے،یہ تو ایک حکیم ذات کاترتیب دیاہواایسانظام ہے جس کے ہرمعاملے کے لیے خالق نے ایک وقت مقررکررکھاہے اورہرچیزاپنے مقررہ وقت پرظہورپذیرہوگی ، اللہ تعالیٰ نے فیصلے کے دن کابھی ایک خاص وقت مقررکررکھاہے اوروہ دن اپنے مقررہ وقت پریقیناًآئے گااوراس دن اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان عدل وانصاف پرمبنی فیصلہ فرمائے گا،آج یہ لوگ تمسخر کے طور پراس ہولناک دن کامطالبہ کرتے ہیں مگرجب وہ دن آئے گا اس دن آسمان دنیاپر چمکتے ہوئے ان بے شمارستاروں کوبے نور کر دیا جائے گا ، آسمان توڑپھوڑدیاجائے گا، زمین میں میخوں کی طرح ٹھوکے ہوئے بڑے بڑے پہاڑزمین سے نکال کرہوامیں اڑا دیے جائیں گے ،یہ ہولناک منظردیکھ کرانسان حواس باختہ ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون بیان فرمایاکہ پچھلی اقوام کوہم نے ان کے عقائدوافکار،اخلاق واعمال بدکے سبب تباہ وبرباد کر دیا اور اگر بعد کے لوگ بھی انہی کی پیروی کریں گے توہم انہیں بھی اسی عذاب سے دوچارکردیں گے،اللہ کایہ قانون ہمیشہ سے جاری وساری ہے ، پھراللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کابیان فرمایا کہ کیاہم نے تم کوایک بدبودارحقیرپانی کے ایک قطرے سے پیدانہیں کیا،پھرٹپکے ہوئے اس قطرے کوماں کے پیٹ میں مختلف مراحل سے گزارکربے شمارصلاحتیوں کاحامل خوبصورت انسان نہیں بنادیا ، وہ اللہ جوتمہیں اس طرح عدم سے وجودمیں لا سکتاہے، وہ قادرمطلق اورحکیم ذات جوکائنات کے اس سارے نظام کوپیداکرکے انسان کی فلاح کے لیے مسخرکرسکتی ہے اوریہ عظیم الشان اور بے داغ نظام اس کی مشیت کے مطابق چل رہاہے تووہ ان اشیاء اورخصوصاًانسان کو اعمال کی جزاکے لیے دوبارہ بھی زندہ کرنے کی یقینا ًقدرت رکھتاہے ، پھردوزخیوں کے عذاب کاہولناک بیان فرمایاجنہیں بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف لے جایاجائے گاجبکہ متقین کوٹھنڈے سائے اوربہتے چشموں کے پاس جگہ دی جائے گی،آخری آیات میں مجرموں کودوبارہ تنبیہ کی گئی کہ اللہ اوراس کے رسول کے یہ منکرین کچھ دن اورہماری نعمتوں سے استفادہ حاصل کرلیں ،بالآخران کے لیے ہلاکت اورتباہی کے سواکچھ نہیں ، آخرمیں فرمایاجوشخص اللہ کے اس بے نظیرکلام سے ہدایت حاصل کرکے اپنی عاقبت نہ سنوارسکے توپھردنیاکی کوئی چیزاسے ہدایت کی جانب رہنمائی نہیں کرسکتی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔

وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا ‎﴿١﴾‏ فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا ‎﴿٢﴾‏ وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا ‎﴿٣﴾‏ فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا ‎﴿٤﴾‏ فَالْمُلْقِیَاتِ ذِكْرًا ‎﴿٥﴾‏ عُذْرًا أَوْ نُذْرًا ‎﴿٦﴾‏ إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ ‎﴿٧﴾‏(المرسلات)

دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم، پھر زور سے جھونکا دینے والیوں کی قسم، پھر (ابر کو) ابھار کر پراگندہ کرنے والیوں کی قسم، پھر حق اور باطل کو جدا جدا کردینے والے اور وحی لانے والے فرشتوں کی قسم، جو (وحی) الزام اتارنے جس چیززکا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً ہونے والی ہے ۔


المرسلات کے معنی کے بارے میں اختلاف ہے ،بعض کے مطابق مذکورہ بالاقسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِی قَوْلِهِ: وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا،قَالَ: الْمَلَائِكَةُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ ’’ قسم ہے ان (ہوآؤ ں )کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں ‘‘کے بارے میں روایت ہے اس سے مرادفرشتے ہیں ۔[3]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا، قَالَ: الْمَلائِكَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’ قسم ہے ان(ہوآؤ ں )کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں ۔[4]

عَنْ أَبِی الْعُبَیْدَیْنِ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ مَسْعُودٍ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا، قَالَ:الرِّیحُ

ابوالعبدین سے روایت ہے کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے’’ قسم ہے ان (ہوآؤ ں )کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں ‘‘ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایااس سے مرادہوا ہے ۔[5]

بعض کے مطابق پہلی چارقسمیں توہواؤ ں کی ہیں اورپانچویں قسم فرشتوں کی ہے ، مگر بظاہرمرسلات سے ہوائیں ہیں ،جیسے فرمایا

وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ۔۔۔ ۝۲۲ [6]

ترجمہ: بار آور ہواؤ ں کوہم ہی بھیجتے ہیں ۔

وَهُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ۔۔۔ ۝۵۷ [7]

ترجمہ:اوروہ اللہ ہی ہے جوہواؤ ں کواپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتاہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ہواجس سے حیوانی اورنباتی زندگی ممکن ہوئی کی پانچ صفات کاذکر فرمایاکہ وہ ہوائیں جوبھلائی کے طورپر بھیجی جاتی ہیں یعنی باران رحمت کی خوشخبری دینی والی ہوائیں ،وہ ہوائیں جو بہت تیزی اور شدت کے ساتھ چلتی ہیں جس میں اللہ کاعذاب پوشیدہ ہوتاہے ،وہ ہوائیں جو بادلوں کوبارش برسانے کے لئے مختلف قطعات تک پھیلاتی ہیں ، اور وہ ہوائیں جوان بادلوں کوپھاڑکرجداکرتی ہیں ،اوروہ ہوائیں جن کے رکنے اورقحط کاخطرہ پیداہونے سے دل گداز ہوتے ہیں اورلوگ اللہ سے توبہ واستغفار کرنے لگتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہواکی ان پانچ چیزوں صفات کی قسم کھاکرفرمایا جو قادرمطلق اورحکیم ذات اس سارے حیرت انگیز نظام کو پیدا کرکے انسان کی فلاح کے لئے مسخرکرسکتی ہے ، اوریہ سارا نظام اس کی مشیت کے مطابق چل رہاہے تواس کی قدرت ان اشیاء اورخصوصا ًانسان کی دوبارہ پیدائش پرکیوں قادر نہیں ہوسکتی؟ اس بات پرغوروفکر کرواوریادرکھو مرنے کے بعدزندگی اوراعمال کی جزاوسزاکا وعدہ وہ ضرورواقع ہونے والا ہے۔

فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ ‎﴿٨﴾‏ وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ ‎﴿٩﴾‏ وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ ‎﴿١٠﴾‏ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ ‎﴿١١﴾‏ لِأَیِّ یَوْمٍ أُجِّلَتْ ‎﴿١٢﴾‏ لِیَوْمِ الْفَصْلِ ‎﴿١٣﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ ‎﴿١٤﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١٥﴾‏ ( المرسلات)

پس جب ستارے بےنور کردیئے جائیں گےاور جب آسمان توڑ پھوڑ دیا جائے گا اور جب پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کرکے اڑا دیئے جائیں گے اور جب رسولوں کو وقت مقررہ پر لایا جائے گا، کس دن کے لیے (ان سب کو) موخر کیا گیاہے؟فیصلے کے دن کے لئے،تجھے کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟ اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔


جب اللہ کے حکم سے صورپھونکاجائے گا جس کی آوازسے نظام شمسی درہم برہم ہوجائے گا،تمام ستاروں اورسیاروں کی کشش ثقل ختم ہوجائے گی،جس کے نتیجے میں یہ ان گنت روشن ستارے اورسیارے اپنے اپنے مدارسے باہرنکل کر ا ٓپس میں ٹکراکرمٹ جائیں گے ،جیسے فرمایا

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ۝۲ [8]

ترجمہ:اورجب تارے بکھر جائیں گے۔

وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ۝۲ [9]

ترجمہ:اور جب ستارے جھڑ جائیں گے۔

آسمان پھاڑدیاجائے گا۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙ [10]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا۔

فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ۔۔۔ ۝۳۷ۚ [11]

ترجمہ:پھر(کیابنے گا اس وقت)جب آسمان پھٹے گا۔

اور پہاڑ اچانک زمین سے نکل کرہوامیں اڑنے لگیں گے اورآپس میں ٹکراکردھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے،اورزمین ایک چٹیل میدان کی طرح ہوجائے گی جس میں کوئی نشیب وفرازنہیں ہوگا جیسے فرمایا

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [12]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخراس دن پہاڑکہاں چلے جائیں گے ؟کہوکہ میرارب ان کودھول بناکراڑادے گااورزمین کوایسا ہموارچٹیل میدان بنادے گاکہ اس میں تم کوئی بل اورسلوٹ نہ دیکھوگے ۔

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً۝۰ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا۝۴۷ۚ

ترجمہ:فکر اس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کوصاف میدان پاؤ گےاور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ(اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا۔

یہ وہ دن ہوگاجس دن مقررہ وقت پررسولوں کو اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے لایاجائے گاتاکہ ان کے بیانات سن کران کی قوموں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے،جیسے فرمایا:

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۝۶۹ [13]

ترجمہ :زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے ، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔

یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۔۔۔۝۱۰۹ [14]

ترجمہ:جس روزاللہ سب رسولوں کوجمع کرکے پوچھے گاکہ تمہیں کیاجواب دیاگیا۔

اس روزوہ چیز واقع ہوجائے گی ،استفہام تعظیم اور تعجب کے طور پرفرمایاان سب کاموں کوکس عظیم دن کے لئے موخرکیاگیاہے؟اس دن کے لئے جس دن لوگوں کے اعمال کے مطابق صحیح صحیح فیصلے کردیے جائیں گے ،پھرکوئی خوش نصیب جنت کی نعمتوں سے سرفرازہوگا اورکوئی بدبخت جہنم کے عذاب میں گرفتارہو جائے گا،اورآپ کوکیامعلوم وہ فیصلے کادن کیا ہے؟یہ وہ دن ہوگا جب زمین وآسمان بدل دیئے جائیں گے،جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [15]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بےنقاب حاضر ہو جائیں گے ۔

اس دن جھٹلانے والوں کے لئے حسرت وہلاکت کے سواکچھ نہیں ہے۔

 أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٦﴾‏ ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِینَ ‎﴿١٧﴾‏ كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِینَ ‎﴿١٨﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١٩﴾‏ (المرسلات)
 کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا ؟ پھر ہم ان کے بعد پچھلوں کو لائے، ہم گنہگاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں ، اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ویل(افسوس) ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال پیش کیاکہ کیاتم لوگ اپنے اردگردپھیلے تباہ شدہ قوموں کے آثارنہیں دیکھتےجنہوں نے تمہاری طرح حقائق سے آنکھیں بند کرکے انبیاء کی تعلیمات ،قیامت اور حیات بعدازموت کاانکارکیا ،جس کے نتیجے میں اللہ نے ان باغیوں اورناشکروں کو زمین سے حرف غلط کی طرح مٹادیاجیسے فرمایا :

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۝۰ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا ۝۱۳ [16]

ترجمہ: لوگو!تم سے پہلے کی قوموں کوہم نے ہلاک کر دیاجب انہوں نے ظلم کی روش اختیارکی اوران کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کرآئے اور انہوں نے ایمان لاکرہی نہ دیا۔

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۝۶۹ [17]

ترجمہ:کہوذرازمین میں چل پھرکردیکھوکہ مجرموں کاکیاانجام ہوچکاہے۔

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔۔۔ ۝۹ۭ [18]

ترجمہ:اورکیایہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کاانجام نظرآتا جوان سے پہلے گزرچکے ہیں ؟۔

اللہ کایہ مستقل قانون ہے جس سے کوئی مستثنٰی نہیں کہ جس طرح اس نے پچھلی قوموں کورسولوں ،قیامت اورعقیدہ حیات بعدازموت کی تکذیب کے سبب نیست ونابود کردیا اسی طرح بعدوالی منکر قوموں کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہوگا،جیسے فرمایا

سُـنَّةَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۶۲  [19]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے ، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

سُـنَّةَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۲۳ [20]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

ۭ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ۝۰ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِیْلًا۝۴۳ [21]

ترجمہ: اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔

مگر دنیا میں اللہ اوراس کے رسول کے فرمان کو جھٹلانے والوں کے لئے سخت عذاب ہے،مگریہ اصل سزانہیں بلکہ ان کے جرائم کا فیصلہ اور سزاتواللہ روزمحشر میں ساری خلقت کے سامنے سنائے گا۔

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِینٍ ‎﴿٢٠﴾‏ فَجَعَلْنَاهُ فِی قَرَارٍ مَّكِینٍ ‎﴿٢١﴾‏ إِلَىٰ قَدَرٍ مَّعْلُومٍ ‎﴿٢٢﴾‏ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا ‎﴿٢٥﴾‏ أَحْیَاءً وَأَمْوَاتًا ‎﴿٢٦﴾‏ وَجَعَلْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَیْنَاكُم مَّاءً فُرَاتًا ‎﴿٢٧﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٢٨﴾ (المرسلات)

کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے (منی سے) پیدا نہیں کیا پھر ہم نے اسے مضبوط ومحفوظ جگہ میں رکھا ،ایک مقرره وقت تک ،پھر ہم نے اندازه کیا اور ہم کیا خوب اندازه کرنے والے ہیں ، اس دن تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے ،کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا؟ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ،اور ہم نے اس میں بلند وبھاری پہاڑ بنادیے اور تمہیں سیراب کرنے واﻻ میٹھا پانی پلایا ،اس دن جھٹلانے والوں کے لیے وائے اور افسوس ہے


اللہ نے مخلوق کواپنااحسان یاددلانے اورمنکرین قیامت کے سامنے دلیل کے طورپربیان فرمایاکہ کیااللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کوپشت اورسینے کے درمیان سے خارج ہونے والے بدبو دار پانی کے ایک حقیر قطرے سے پیدانہیں کیا؟جیسے فرمایا:

فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۝۵ۭخُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۝۶ۙیَّخْرُجُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝۷ۭ [22]

ترجمہ:پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے،ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے،جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

پھراس نطفہ کو ایک مقررہ وقت تک رحم مادر میں مضبوطی سے ٹھہرائے رکھا،جیسے فرمایا:

ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۱۳۠ [23]

ترجمہ:پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔

پھر اسی نے رحم مادرمیں نطفہ کی نشوونماکے لئے غذا، اس کی حیات اورروح کے لئے ضروری وسائل کابندوبست کیا ،اسی کی قدرت سے یہ نطفہ تین تاریکیوں میں نشوونما پاتا رہا ، جیسے فرمایا:

۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۔۔۔ ۝۶ [24]

ترجمہ:وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے ۔

پہلے یہ نطفہ خون کے لوتھڑے اورپھربوٹی میں تبدیل ہوا،پھراللہ نے جیسے چاہااس کی شکل وصورت اورجسمانی ساخت بنائی،پھر اس میں روح پھونکی ،اس کی تقدیر لکھی اورپھر وہی بچے کوماں کے پیٹ سے باہرنکال لاتا ہے ، جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ۝۰ۭ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا۔۔ ۝۵ [25]

ترجمہ:لوگو! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی(یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں ، ہم جس( نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ۔

یہ سب اللہ رب العزت کی قدرت و تدبیرہے ،توغوروفکرکرو جو قادر مطلق تمہاری تخلیق کایہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دے سکتاہے توکیاوہ تمہیں دوبارہ زندہ کر دینے کی قدرت نہیں رکھتا،آج یہ لوگ اللہ کی واضح آیات ،عبرت ناک چیزیں اورکھلی نشانیاں دیکھنے کے بعدعقیدہ حیات بعدازموت کوجھٹلارہے ہیں ،اس حقیقت کامذاق اڑارہے ہیں مگرروزمحشرجب یہ اللہ کی بارگاہ میں مجرموں کی طرح پیش کیے جائیں گے اوریہ ندامت وخجالت سے سرجھکائے کھڑے ہوں گے،وہ ان کے لئے تباہی وحسرت کادن ثابت ہوگا،اللہ تعالیٰ نے آخرت کے ممکن اورمعقول ہونے کی ایک اوردلیل پیش کی کہ کیااللہ نے انسان پریہ احسان نہیں کیاکہ زمین کواس کے لیے مسخرکردیاجس پروہ بستاہے ،جیسے فرمایا:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً۔۔۔۝۲۰ [26]

ترجمہ:کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں ؟۔

جوکروڑوں ، اربوں سالوں سے حیوانات اورانسانوں کی غذاکے لئے مختلف اجناس،انواع اقسام کے پھل اورچارے پیداکرتی ہے،پھرجب اللہ کی مخلوقات مرتی ہیں توان کے لاشے اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں ،جیسے فرمایا

قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَفِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۝۲۵ۧ [27]

ترجمہ:اور فرمایا وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا۔

عَن مُجَاهِد كفاتاً ،قَالَ: تكفت الْمَیِّت وَلَا یرى مِنْهُ شَیْء

مجاہد رحمہ اللہ كفاتاًکے بارے میں فرماتے ہیں زمین میت کواس طرح چھپالیتی ہے کہ کچھ بھی نظرنہیں آتا ۔[28]

اس کے علاوہ اللہ نے زمین کوسپاٹ گیندکی طرح نہیں بنایابلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اورفلک بوس پہاڑقائم کیے تاکہ زمین ڈھلک نہ پڑے ، جیسے فرمایا:

وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُـبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۵ۙ [29]

ترجمہ:اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے ،اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔

اس کے علاوہ ان پہاڑوں کا بارشوں کے برسنے ، دریاؤ ں کی پیدائش ،زرخیزوادیوں کے وجودمیں آنے،مضبوط اور تناور درختوں کے اگنے ، قسم قسم کی معدنیات اورطرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑادخل ہے،جن سے انسان استفادہ کرتاہے، پھر اسی زمین کے نیچے پینے اورزراعت کے قابل شیریں اورخوش ذائقہ پانی پیدا کیا ، اگرمیٹھاپانی نہ ہوتا تو زراعت ممکن ہی نہ ہوتی ،جیسے فرمایا:

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [30]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہے یہ پانی جوتم پیتے ہواسے تم نے بادل سے برسایاہے یااس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں تواسے سخت کھاری بناکررکھ دیں پھرکیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے ۔

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙ [31]

ترجمہ:ان لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ، ہم نے اس کوزندگی بخشی اوراس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں ،ہم نے اس میں کھجوروں اورانگوروں کے باغ پیداکیے اوراس کے اندرسے چشمے پھوڑنکالے ۔

تو کیا تمہارے خیال میں یہ عظیم الشان کائنات خودبخود وجود میں آگئی ہے؟ اورکیا کائنات کایہ بے داغ نظام خودبخودچل رہاہے؟ جیسے فرمایا

مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ [32]

ترجمہ:تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے،پھرپلٹ کردیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظرآتاہے؟باربارنگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامرادپلٹ آئے گی۔

کیایہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اس عظیم الشان نظام کوایک قادر مطلق نے تخلیق کیاہے اور وہی اپنی حکمت ومشیت سےاس کوچلارہاہے اوروہی ایک وقت مقررپر اس دنیاکی بساط لپیٹ دے گا ، پھرجب چاہے گا ایک دوسری دنیا نئی طرزاورنئے قوانین کے تحت تخلیق فرمائے گا،پھراول تا آخرتمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے اعمال کی باز پرس کرے گا ،جواس کے تابعدارہوں گے انہیں انعام واکرام سے نوازے گااور نافرمانوں کوجہنم میں دھکیل دے گا جہاں وہ عذاب میں مبتلارہیں گے۔

 انطَلِقُوا إِلَىٰ مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ انطَلِقُوا إِلَىٰ ظِلٍّ ذِی ثَلَاثِ شُعَبٍ ‎﴿٣٠﴾‏ لَّا ظَلِیلٍ وَلَا یُغْنِی مِنَ اللَّهَبِ ‎﴿٣١﴾‏ إِنَّهَا تَرْمِی بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ ‎﴿٣٢﴾‏ كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ ‎﴿٣٣﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ هَٰذَا یَوْمُ لَا یَنطِقُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ وَلَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ هَٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ ۖ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ فَإِن كَانَ لَكُمْ كَیْدٌ فَكِیدُونِ ‎﴿٣٩﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ (المرسلات)

اس دوزخ کی طرف جاؤ جسے تم جھٹلاتے رہے تھے، چلو تین شاخوں والے سائے کی طرف جو دراصل نہ سایہ دینے والا ہے اور نہ شعلے سے بچا سکتا ہے،یقیناً دوزخ چنگاریاں پھینکتی ہے جو مثل محل کے ہیں  گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں ، آج ان جھٹلانے والوں کی درگت ہے، آج (کا دن) وہ دن ہے کہ یہ بول بھی نہ سکیں گے نہ انہیں معذرت کی اجازت دی جائے گی، اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے،یہ ہے فیصلہ کا دن ہم نے تمہیں اور اگلوں کو سب کو جمع کرلیاہے پس اگر تم مجھ سے کوئی چال چل سکتے ہو تو چل لو، وائے ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے۔


فرشتے جہنمیوں سے کہیں گے اب اس دوزخ کی طرف چلوجسے تم جھٹلاتے تھے،جہنم کاجودھواں آئے گاوہ بلندہوکرتین جہتوں میں پھیل جائے گافرشتے کہیں گے چلواس تین شاخوں والے دھوئیں کے سائے کی طرف،لیکن جہنم کایہ گرم سایہ راحت وعافیت نہ دے گا،جیسے فرمایا

لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ۔۔۔ ۝۱۶ [33]

ترجمہ:ان پر آگ کی چھتریاں اوپرسے بھی چھائی ہوں گی اورنیچے سے بھی۔

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۔۔۔ ۝۴۱ [34]

ترجمہ: ان کے لئے توجہنم کابچھوناہوگااورجہنم ہی کااوڑھنا۔

یقیناًدوزخ بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی جوچاروں طرف اڑنے لگیں گی اور ایسی نظرآئیں گی جیسے(سیاہی مائل) زرد اونٹ اچھل کودکررہے ہیں ،جولوگ روزمحشرکی حقیقت کوتسلیم نہیں کرتے اس دن ان کے لئے حسرت اورعذاب ہے، آج یہ لوگ اپنے لایعنی قیاسات اورگھمنڈمیں بڑھ بڑھ کرباتیں بنا رہے ہیں مگر اس روزجب رب کی بارگاہ میں ان کانامہ اعمال پیش کیاجائے گا اور بطور ثبوت گواہ بھی پیش کردیے جائیں گے توپہلے یہ لوگ اللہ سے معذرت کریں گے جوانہیں کچھ فائدہ نہ دے گی، جیسےفرمایا:

 فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۝۵۷ [35]

ترجمہ:پس وہ دن ہوگاجس میں ظالموں کوان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اورنہ ان سے معافی مانگنے کے لئے کہاجائے گا۔

پھر ایک دوسرے پراپنے قصوروں کاالزام ڈال کرخودبے قصوربننے کی کوشش کریں گے،اپنے سرداروں اورپیشواؤ ں کو برابھلاکہیں گے ،جیسے فرمایا:

قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ۝۰ۭ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [36]

ترجمہ:اللہ فرمائے گا جاؤ تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن و انس جا چکے ہیں ، ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا، حتٰی کہ سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ! یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے، جواب میں ارشاد ہوگا ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو ۔

وَاِذْ یَتَـحَاۗجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ۝۴۷قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِیْهَآ۝۰ۙ اِنَّ اللهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ۝۴۸ [37]

ترجمہ:پھر ذرا خیال کرو اس وقت کا جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے،دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھےاب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچالو گے؟ وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [38]

ترجمہ: اور کہیں گے اے رب ہمارے ! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بےراہ کر دیااے رب ! ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔

 وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱قَالَ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ۝۳۲وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۝۰ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۳۳ [39]

ترجمہ: کاش تم دیکھو ان کا حال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گےاس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گےجو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے،وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے ،وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں سے کہیں گے، نہیں بلکہ شب روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں ، آخرکار جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پچھتائیں گے اور ہم ان منکرین کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے،کیا لوگوں کو اس کے سوا اور کوئی بدلہ دیا جا سکتا ہے کہ جیسے اعمال ان کے تھے ویسی ہی جزا وہ پائیں ؟۔

پھر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم سے مکرجائیں گے ،پھراللہ ان کے اعضا کو زبان عطافرمائے گاجوحق بیان کریں گے ،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ۝۱۹حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱ [40]

ترجمہ:اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف کے لیے گھیر لائے جائیں گے ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں ، وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گی ہمیں اس خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے ، اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائی جا رہے ہو ۔

اس طرح عدل وانصاف کے تمام ترتقاضے پورے کر کے علی الاعلان پوری خلقت کے سامنے انہیں سزاسنادی جائے گی ، پھراللہ کے حکم سے فرشتے انہیں بیڑیاں اور طوق پہنا کر جہنم میں داخل کرنے کے لئے گھسیٹ رہے ہوں گے تویہ لوگ عالم اضطراب وپریشانی میں دم بخودرہ جائیں گے اور کوئی کلام نہ کر سکیں گے ، اس سخت دن میں جھٹلانے والوں کی تباہی ہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گاہم نے تمام اولین وآخرین کو اپنی قدرت کاملہ سے فیصلہ کرنے کے لئے ایک ہی میدان میں جمع کرلیاہے ،دنیامیں توتم ہمارے مقابلے میں بڑی چالبازیاں ، مکاریاں اورہوشیاری کرتے رہے ہوآج اگرمیرے مقابلہ میں کوئی چال چل کر عذاب سے بچ سکتے ہوتوکوشش کردیکھو،جیسے فرمایا:

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ۝۳۳ۚ [41]

ترجمہ: اے گروہ جن وانس! اگرتم زمین اورآسمانوں کی سرحدوں سے نکل کربھاگ سکتے ہوتو بھاگ دیکھو۔

۔۔۔وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ شَـیْـــًٔـا۔۔۔۝۰۝۵۷ [42]

ترجمہ:اورتم اللہ کا کچھ نہ بگاڑسکوگے ۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں ہدایت دوں تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا،اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں کھلاؤں تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہواس کے کہ جسے میں پہناؤں تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، اے میرے بندو تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا، اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو،

یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

اے میرے بندو اگر تم سب اولین و آخریں اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر سکتے، اور اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں کر سکتے،اے میرے بندو اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں تو پھر بھی میرے خزانوں میں اس قدر بھی کمی نہیں ہوگی جتنی کہ سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے،اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔[43]

اس روز جھٹلانے والوں کی تباہی وہلاکت ہے۔

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی ظِلَالٍ وَعُیُونٍ ‎﴿٤١﴾‏ وَفَوَاكِهَ مِمَّا یَشْتَهُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِیئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِیلًا إِنَّكُم مُّجْرِمُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا یَرْكَعُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَهُ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ (المرسلات)

بیشک پرہیزگار لوگ سایوں میں ہیں اور بہتے چشموں میں، اور ان میووں میں جن کی وه خواہش کریں ، (اے جنتیو!) کھاؤ پیو مزے سےاپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے ،یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ،اس دن سچا نہ جاننے والوں کے لیے ویل (افسوس) ہے،(اے جھٹلانے والو) تم دنیا میں تھوڑا سا کھا لو اور فائده اٹھا لو بیشک تم گنہگار ہو،اس دن جھٹلانے والوں کے لیے سخت ہلاکت ہے،ان سے جب کہا جاتا ہے کہ رکوع کر لو تو نہیں کرتے۔


اوروہ متقی وپرہیزگار لوگ جوآخرت پرایمان لائےاورجنہوں نے اس عقیدے سے زندگی بسرکی کہ ایک دن ہمیں رب کی بارگاہ میں اپنے اقوال وافعال اوراخلاق وکردارکی جوابدہی کرنی ہے وہ کامیاب وکامران ہوں گے،جیسے فرمایا:

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ۝۲۰ۚ [44]

ترجمہ:اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھوپڑھو میرا نامہ اعمال ،میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔

وہ جنت کے خوش منظر درختوں کے گھنے ٹھنڈے اورپرکیف سایوں میں لیٹے بیٹھے ہوں گے،خوش ذائقہ پانی اورمختلف شراب کے چشمے ان کے گردپوری روانی سے جاری وساری ہوں گے،جنت کے انواع اقسام کے لذیزپھل ،میوہ جات اورمرغوب کھانے انہیں کھانے کودیے جائیں گےجس میں نہ روک ٹوک ہوگی نہ ہی کمی یانقصان کا اندیشہ ہوگا،رب العزت فرمائے گاجنت کی یہ بے شمار نعمتیں تمہیں تمہارے اعمال صالحہ کی وجہ سے دی گئی ہیں ،بافراغت ہر چیز کھاؤ اورشراب طہورکے لبریز جام پیواللہ متقی وپرہیزگارلوگوں کوایسی ہی جزاعطافرماتاہے،اب جس کوحسن انجام کی طلب ہوتووہ دنیامیں نیکی اوربھلائی کاراستہ اپنالے ، آج جولوگ آخرت سے بے خوف ہوکرزندگی گزار رہے ہیں ان کے لئے عذاب جہنم ہے،پھرتمام دنیاکے کفارومشرکین کوتہدیدووعید کے لئے فرمایااچھااللہ کی پکڑ سے بے خوف ہوکراس کی عطاکردہ نعمتوں کو تھوڑے دن جانوروں کی طرح کھاپی کرخوب عیش وآرام کرلوعنقریب یہ نعمتیں بھی فناہوجائیں گی اورتم بھی موت کے گھات اترجاؤ گے ، تمہاری بداعمالیوں اورسیاہ کاریوں کی سزاکے طور پرہم نے یہاں شکنجہ عذاب تیارکررکھاہے ،پھرتوتمہیں ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بننا ہی ہے،جیسے فرمایا

نُمَـتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [45]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں دنیامیں مزے کرنے کاموقع دے رہے ہیں پھران کوبے بس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے ۔

 مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ [46]

ترجمہ:دنیاکی چند روزہ زندگی میں مزے کرلیں پھر ہماری طرف ان کوپلٹناہے پھرہم اس کفر کے بدلے جس کاارتکاب وہ کررہے ہیں ان کوسخت عذاب کامزہ چکھائیں گے۔

قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۶۹ۭمَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ [47]

ترجمہ:اے نبی ! کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے،دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں پھر ہماری طرف ان کو پلٹنا ہے پھر ہم اس کفر کے بدلے جس کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

جب مجرموں کو عذاب میں جھونکا جائے گاوہ دن ان کے لئے بڑاہی سخت ہوگا، یہ اس بناپرہوگا کہ جب ان سے کہاجاتاہے کہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو، اس کی نازل کردہ کتاب پرایمان لاؤ اوراسی کے مطابق اپنی زندگی کادستورعمل تیارکرو،ہرطرف سے منہ موڑکراللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرواورسنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکرکے اپنی اخروی زندگی کی تیاری کروتوتکبرکے ساتھ اس عقیدے کا مذاق اڑاتے ہیں ، اورسخت عذاب ہے ان دل کے اندھوں کے لئے جو حق کوجھٹلاتے ہیں ،اب قرآن کریم سے بڑھ کر اور کونسا کلام ہوسکتاہے جوانہیں حق وباطل کافرق سمجھائے اورہدایت کا راستہ دکھائے اورجس پر یہ ایمان لائیں ، جیسےفرمایا:

فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰیٰتِهٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۶ [48]

ترجمہ:اَب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔

ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ :

اسمه عامر بن عبد الله بن الجَرَّاحِ بنِ هِلاَلِ بنِ أُهَیْبِ بنِ ضَبَّةَ بنِ الحَارِثِ بنِ فِهْرِ بنِ مَالِكِ

عامر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن جراح بن بلال بن اہیب بن ضبہ بن حارث بن فہربن مالک۔[49]

جن کی کنیت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ تھی ،

مشهور بكنیته

اورآپ اپنی کنیت سے ہی مشہورہیں ۔[50]

عَنْ مَالِكِ بْنِ یُخَامِرَ أَنَّهُ وَصَفَ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ: كَانَ رَجُلا نَحِیفًا. مَعْرُوقَ الْوَجْهِ. خَفِیفَ اللِّحْیَةِ. طُوَالا. أَجْنَأَ. أَثْرَمَ الثَّنِیَّتَیْنِ

مالک بن یخامر سے مروی ہےانہوں نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح کاحلیہ بیان کیاکہ وہ دبلے پتلےلمبے،چھدری داڑھی،ابھرے سینے والے،وہ ذہانت کے کھونڈے تھے اوران کے چہرے میں بھرا ہوا گوشت نہ تھا۔[51]

أَحَدُ السَّابِقِیْنَ الأَوَّلِیْنَ

آپ سابقون اولون کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں ۔

جنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے ایمان لانے کے دوسرے روزہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ ، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، اور ارقم بن ابی الارقم کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھ کراپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اس وقت ان کی عمر چالیس برس تھی،آپ کی والدہ اممیہ رضی اللہ عنہا بنت غنم فہریہ کوبھی صحابیت کا شرف حاصل ہوا، ان کاتعلق بنوحارث سے تھا، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان توحیدو رسالت کیا کفار مکہ کالشکراپنے معبودوں کی حمایت میں ہرطرح کا رشتہ ناطہ،قوم قبیلہ اوراخلاق کوبالائے طاق رکھ کربھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پرٹوٹ پڑااورجوبھی ظلم وستم وہ سوچ سکتے تھے کمزورمسلمانوں پرروا ہو گیا،مسلمانوں کی آہ وبکاپرنہ ہی ان کے دلوں میں کچھ ہمدردی پیداہوئی اورنہ ہی ان کاکوئی ہاتھ روکنے والا تھا،مگرتاریخ شاید ہے کوئی مسلمان پھردوبارہ ان کی ملت پرلوٹ کرنہ گیا ،بلکہ جتناجتناظلم وستم بڑھتا گیا اتناہی ان کااللہ سبحانہ وتعالیٰ پرایمان ویقین بڑھتا چلاگیا،ظلم کی چکی میں پسنے والوں میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح بھی تھے،دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی اس دورابتلاء میں اپنے اسلام پر ثابت قدم رہ کر اپنی قوت ایمانی ،دینی جذبہ اورامانت ودیانت کے اعلیٰ مقام پر قائم رہے ،

قَالُوا: وَهَاجَرَ أَبُو عبیدة إلى أرض الحبشة الهجرة الثانیة

جب مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی توابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین کے دوسرے قافلہ میں شامل ہوئے۔

اوروہاں کئی سال تک غریب الوطنی کی زندگی گزارتے رہے بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے قبل مکہ مکرمہ واپس آگئے ،جب تیرہ ہجری میں سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومدینہ منورہ کی طرف ہجرت کااذن دیا تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی دوسرے مہاجرین کے ہمراہ ارض مکہ کوالوداع کہہ کر مدینہ منورہ آگئے،

 لَمَّا هَاجَرَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى كُلْثُومِ بْنِ الْهِدْمِ

جب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو انہوں نے کچھ عرصہ قباء میں کلثوم بن الہدم کے مکان میں قیام کیا۔[52]

قال ابن إسحاق آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بینه وَبَیْنَ سعد بن معاذ

ابن اسحاق کہتے ہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کی مواخات سیدالاوس سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قائم فرمائی تھی۔[53]

عَنْ أَنَسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَیْنَ أَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَبَیْنَ أَبِی طَلْحَةَ

لیکن صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ بن مالک سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح اورابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخاة قائم فرمائی۔[54]

اورقرائن سے بھی یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ تقریب مواخاة راوی یعنی انس رضی اللہ عنہ ہی کے مکان پرمنعقدہوئی تھی اورابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے سوتیلے باپ تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ کے مدینہ منورہ ہجرت کے بعدان کی والدہ بھی مدینہ منورہ ہجرت کرکے آگئیں ،

وَشَهِدَ أَبُو عُبَیْدَةَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَثَبَتَ یَوْمَ أُحُدٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ انْهَزَمَ النَّاسُ وَوَلَّوْا

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح حق وباطل کے معرکہ بدراوراحد میں شریک ہوئے اورغزوہ احدمیں جب کچھ لوگ منتشرہوگئےتھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے ۔[55]

جب آپ حق و باطل کے اولین معرکے بدر میں دنیائے کفر کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اورموت سے بے خوف ہو کر دشمنوں پرٹوٹ پڑے اورکوئی ان کے مقابلہ کو کھڑانہ ہوسکا،

أَنَّ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ ابْنُ إِحْدَى وَأَرْبَعِینَ سَنَةً

غزوہ بدرکے وقت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح کی عمراکتالیس سال تھی۔[56]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہاں بھی ان کاشدید امتحان لیا۔

ولما كان أَبُو عبیدة ببدر یَوْم الوقعة، جعل أبوه یتصدى له، وجعل أَبُو عبیدة یحید عنه، فلما أكثر أَبُوہ قصده قتله أَبُو عبیدة

ان کے والدعبداللہ بن جراح کفار مکہ کی طرف سے شامل معرکہ ہوئے تھے ،وہ بارباراپنے بیٹے کے سامنے آئے مگر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہرباران پروارکرنے سے پہلوتہی کی مگرایک موقعہ ایسا بھی آگیاکہ والدسے مقابلہ کے سوااورکوئی چارہ نہ رہا تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وارکرکے اپنے والدکی کھوپڑی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور باپ اپنے بیٹے کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر یہ آیت نازل فرمائی۔

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ ۝۰۝۲۲ۧ [57]

ترجمہ:تم کبھی نہ پاوگے کہ جولوگ اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ ان کے باپ ہوں ،یاان کے بیٹے یاان کے بھائی یاان کے اہل خانہ ہوں ۔[58]

إنه قتل أباه یوم بدر

انہوں نے غزوہ بدر میں اپنے والدکوقتل کردیا۔[59]

وقتل أباه یوم بدر كافرا

آپ نے غزوہ بدرمیں اپنے والدکوقتل کیاجبکہ وہ کفرپرتھا۔[60]

وَقَدْ شَهِدَ أَبُو عُبَیْدَةَ بَدْراً فَقَتَلَ یَوْمَئِذٍ أَبَاهُ

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شریک ہوئے اوراس دن انہوں نے اپنے والدکوقتل کردیا۔[61]

غزوہ احدمیں جنگی صورت حال تبدیل ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک زخمی ہوئی ، رخسارمبارک میں خودکے دوحلقے پیوست ہوچکے تھے اور دانت مبارک شہید ہوئے اورتھوڑی دیرکے لئے اکیلے ہوگئے اس وقت آپ ان دس جان نثار صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردگھیراڈال کر رکھاتھا اوردشمنوں کی جانب سے آئے ہوئے ہرتیرکواپنے سینوں پرکھاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے ، جنگ کے بعد رخسارمبارک سے حلقے نکالنے کے لئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے مگراسی وقت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کرگزارش کی کہ یہ خدمت ان کے سپردکردی جائے چنانچہ آپ کے جذبہ کودیکھ کرسیدنا ابوبکر صدیق پیچھے ہٹ گئے ، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حلقوں کی کیفیت دیکھ کراندازہ لگایاکہ اگروہ اپناہاتھ ڈال کرانہیں رخسارمبارک سے نکالنے کی کوشش کریں گے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف اٹھانی پڑے گی اوراگروہ اپنا اگلادانت حلقہ میں ڈال کرزورلگائیں گے توبہتراندازسے رخسارمبارک میں پیوست حلقہ باہرآجائے گااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف بھی کم ہوگی چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیااپنااگلاایک دانت ایک پیوست حلقہ میں مضبوطی سے گاڑکرباہرنکالنے کے لئے زورلگایا،ان کی اس کوشش میں حلقہ تو باہرآگیامگران کاوہ دانت بھی ٹوٹ گیا، یہی عمل دوسرے حلقہ کے ساتھ بھی کیا گیا اوردوسرادانت بھی ٹوٹ کرگرگیااس طرح دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے مگرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے تھے

فما رئی أهتم قط أحسن منه

دونوں دانت ٹوٹ جانے کے باوجود ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بہت خوبصورت نظرآتے تھے۔

چھ ہجری ربیع لآخررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کوچالیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ نمازمغرب کے بعدبنوثعلبہ اور انمار کے علاقوں کی طرف روانہ کیا جو مدینہ منورہ کے مویشیوں کو لوٹنے کا پروگرام بنارہے تھے ،مجاہدین کایہ دستہ جوصبح کے وقت ذوالقصہ (جومدینہ سے چوبیس میل دورہے) پہنچ گیا سوائے ایک شخص کے جس نے بعدمیں اسلام قبول کرلیا باقی سب لوگ فرارہوگئے،مجاہدین نے ان کے مویشی اور دیگرسامان سمیٹ کرمدینہ منورہ واپس لوٹ آئے، آپ بیت رضوان میں شامل تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جنت میں ہونے کی بشارت دی اس طرح آپ عشرہ مبشرہ صحابہ میں سے ہیں ،

وَهُوَ أحد العشرة الَّذِینَ شهد لهم رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالجنة

آپ ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔[62]

نصرانیوں کے ایک وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوکرگزارش کی کہ ہمارے اندرونی اختلاف شدت اختیارکرچکے ہیں آپ ہماری طرف کسی ایسے شخص کو روانہ کریں جو ہمارے اختلافات کونپٹادے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شام کوآنے کاکہااورفرمایامیں تمہارے ساتھ ایک ایساآدمی روانہ کروں گاجو دیانتداراورطاقتواربھی ہے، سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس امید پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواوصاف بیان فرمائے ہیں شایدوہ اس پر پورے اترجائیں جلدی جلدی نمازظہرکے لئے مسجدمیں جمع ہو گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازسے فارغ ہوئے تو دائیں بائیں بڑے غور سے کسی کودیکھنے لگے آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مبارک ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پرجاکرٹھہرگئی جن میں امانت ودیانت ،شجاعت اورقائدانہ صلاحتیں بدرجہ اتم موجود تھیں ،انہیں اپنے پاس بلایا اورحکم فرمایاتم نصرانیوں کے وفد کے ہمراہ جاواوران کے باہمی اختلافات کوعدل وانصاف سے نپٹا آو ، اس موقعہ پرسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پکار اٹھے ابوعبیدہ ہم سے بازی لے گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدسقیفہ بنی ساعدہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لِأَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِینٌ، وَأَمِینُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےہر امت کاایک امین ہوتا ہے اوراس امت کاامین ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح ہے۔[63]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے،

عَنْ عَمْرِو بنِ العَاصِ قَالَ: قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ قِیْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ:أَبُو بَكْرٍ قِیْلَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُو عُبَیْدَةَ بنُ الجَرَّاحِ

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفرماتے ہیں میں عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سب سے زیادی کس سے محبت کرتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے،میں نے عرض کی اور مردوں میں سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے، میں عرض کی ان کے بعدکس سے زیادہ محبت کرتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کے بعدابوعبیدہ بن الجراح سےمحبت کرتاہوں ۔[64]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِیقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَیُّ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ إِلَیْهِ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ. قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: ثُمَّ عُمَرُ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: ثُمَّ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ.

عبد اللہ بن شفیق کہتے ہیں میں نےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھااے ام المومنین رضی اللہ عنہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں کن لوگوں سے زیادہ محبت کرتے تھے؟انہوں نے جواب دیاسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے،میں نے کہاان کے بعد ؟ان نے کہاان کے بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، میں نے کہاان کے بعد؟ کہاان کے بعدابوعبیدہ بن الجراح سے محبت کرتے تھے۔[65]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَرْحَمُ أُمَّتِی بِأُمَّتِی أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِی أَمْرِ اللهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالحَلاَلِ وَالحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِینٌ وَأَمِینُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ،اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں ،اور علم وراثت کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں ،اور کتاب اللہ کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں ،اوراور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں ۔[66]

اس لئے میری گزارش ہے کہ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پربیت کر لوں مگر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی فقرہ فرمایا کہ میں اس عظیم ہستی سے بھلا کس طرح سبقت لے جا سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک میں ہمارا امام مقرر فرمایا تھا ، آپ رضی اللہ عنہ کی یہ بات سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں گھرکرگئی اور بااتفاق سب نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیت کرنا شروع کر دی،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ کے زیرکمان تمام ملک شام کوفتح ہو ا اور لشکر اسلامی دریائے فرات اورایشائے کوچک تک پہنچ گیا ،اسی دورمیں جب آپ کے زیر کمان شہردرشہرفتح ہوتے جا رہے تھے کہ شام میں طاعون کی خطرناک وباپھوٹ پڑی جس سے بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوئے،

أَنَّ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى أَبِی عُبَیْدَةَ فِی الطَّاعُوْنِ إِنَّهُ قَدْ عَرَضَتْ لِی حَاجَةٌ وَلاَ غِنَى بِی عَنْكَ فِیْهَا فَعَجِّلْ إِلَیَّ فَلَمَّا قَرَأَ الكِتَابَ قَالَ: عَرَفْتُ حَاجَةَ أَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ إِنَّهُ یُرِیْدُ أَنْ یَسْتَبْقِیَ مَنْ لَیْسَ بِبَاقٍ فَكَتَبَ إِنِّی قَدْ عَرَفْتُ حَاجَتَكَ فَحَلِّلْنِی مِنْ عَزِیْمَتك فَإِنِّی فِی جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ المُسْلِمِیْنَ لاَ أَرْغَبُ بِنَفْسِی عَنْهُم فَلَمَّا قَرَأَ عُمَرُ الكِتَابَ بَكَى

اس صورت حال کے پیش نظر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں واپس مدینہ منورہ بلانا چاہاچنانچہ خط لکھ کر فورا ًطلب فرمایا ، جب انہوں نے خط کوپڑھاتوآپ رضی اللہ عنہ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عندیہ سمجھ گئے اور واپسی خط لکھاکہ وہ اس مصیبت میں اپنے مسلمان بھائیوں کو چھوڑکرنہیں آ سکتے اس لئے انہیں ان کے ساتھ ہی رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں ، امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان کانامہ پڑھاتورودیئے۔

توفی بعمواس سنة ثمان عشرة

آپ نے اٹھارہ ہجری میں طاعون عمواس میں وفات پائی۔[67]

مَاتَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی طَاعُونِ عَمَوَاسَ بِالشَّامِ سَنَةَ ثَمَانِ عَشْرَةَ

ابوعبیدہ بن الجراح نے شام میں طاعون عمواس سے اٹھارہ ہجری کووفات پائی۔[68]

وصلى عَلَیْهِ معاذ بْن جبل، ونزل فِی قبره معاذ، وعمرو بْن العاص ، والضحاك بْن قیس

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی اور معاذ رضی اللہ عنہ ،عمروبن عاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں قبرمیں اتارا۔[69]

مالك بن أنس أن عمر بن الخطاب أَرْسَلَ إِلَى أَبِی عُبَیْدَةَ بِأَرْبَعَةِ آلافِ دِرْهَمٍ وَأَرْبَعِمِائَةِ دِینَارٍ.وَقَالَ لِلرَّسُولِ: انْظُرْمَا یَصْنَعُ،قَالَ فَقَسَمَهَا أَبُو عُبَیْدَةَ. قَالَ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مُعَاذٍ بِمِثْلِهَا وَقَالَ لِلرَّسُولِ مِثْلَ مَا قَالَ. فَقَسَمَهَا مُعَاذٌ إِلا شَیْئًا قَالَتِ امْرَأَتُهُ نَحْتَاجُ إِلَیْهِ. فَلَمَّا أَخْبَرَ الرَّسُولُ عُمَرَ قَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَ فِی الإِسْلامِ مَنْ یَصْنَعُ هَذَا.

مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوچارہزاردرہم اورچارسودیناربھیجے اورقاصدسے فرمایاکہ دیکھناوہ ان رقوم کاکیاکرتے ہیں ؟ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس تمام رقم کو تقسیم کردیا،انہوں  نے اس قدر معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجااورقاصدسے اسی طرح فرمایاجس طرح ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں  فرمایاتھا معاذ رضی اللہ عنہ نے بھی سوائے ایک قلیل رقم کے سب تقسیم کردیا، ان کی اہلیہ نے کہاکہ ہمیں  اس کی حاجت ہے، جب قاصدنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوخبردی توفرمایاسب تعریف اسی اللہ کے لیے ہے جس نے اسلام میں  ایسے آدمی شامل کیے جویہ عمل کرتے ہیں ۔[70]

ارقم رضی اللہ عنہ بن الارقم:

ویكنى الأرقم أَبَا عَبْد الله

الارقم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔[71]

یہ ساتویں  یادسویں  صحابہ میں  سے ہیں اور سابقین اولین میں سے تھے،

یَقُولُ: أَنَا ابْنُ سَبْعَةٍ فِی الإِسْلامِ أَسْلَمَ أَبِی سَابِعُ سَبْعَةٍ

خودفرماتے تھے کہ میں دعوت اسلام قبول کرنے والوں میں ساتویں نمبرپرہوں ،میرے والداسلام لائے جوسات میں سے ساتویں تھے۔[72]

دعوت اسلام اندرہی اندر خوب پھیلتی چلی گئی مگرابھی کوئی مرکز قائم نہیں ہواتھا باوقت نماز مسلمان مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر چھپ کرکسی سنسان گھاٹیوں میں نمازاداکرلیتے تھے

وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَخْرُجُ إِلَى الْكَعْبَةِ أَوَّلَ النَّهَارِ وَیُصَلِّی صَلَاةَ الضُّحَى، وَكَانَتْ قُرَیْشٌ لَا تُنْكِرُهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج نکلنے کے بعدبیت اللہ میں تشریف لے جاتے اورچاشت کی نمازاداکرتے تھے کیونکہ یہ نمازقریش میں بھی جائزتھی اس لیے وہ منع نہیں کرتے تھے ۔[73]

فَكَانَ أَصْحَابُهُ إِذَا أَرَادُوا الصَّلَاةَ ذَهَبُوا إِلَى الشِّعَابِ فَاسْتَخْفَوْا، فَبَیْنَمَا سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ وَعَمَّارٌ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَخَبَّابٌ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ یُصَلُّونَ فِی شِعْبٍ ، اطَّلَعَ عَلَیْهِمْ نَفَرٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ،مِنْهُمْ: أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، وَالْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ، وَغَیْرُهُمَا فَسَبُّوهُمْ وَعَابُوهُمْ حَتَّى قَاتَلُوهُمْ، فَضَرَبَ سَعْدٌ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِینَ بِلِحْیِ جَمَلٍ فَشَجَّهُ ،فَكَانَ أَوَّلَ دَمٍ أُرِیقَ فِی الْإِسْلَامِ

دعوت حق کے آغازمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں سعدبن ابووقاص رضی اللہ عنہ ،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،خباب اور سعیدبن زیدشامل تھےکفارکی شرانگیزی سے بچنے کے لیے مکہ مکرمہ کے قریبی پہاڑوں کی سنسان گھاٹیوں میں چھپ کر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے،مگر کسی طرح مشرکین کو جن میں ابوسفیان بن حرب ،اخنس بن شریق وغیرہ شامل تھےاس بات کی خبرہوگئی پہلے تووہ مسلمانوں پرآوازے کسنے لگے اور پھران پرحملہ کردیا،سعد رضی اللہ عنہ کی اٹھتی جوانی تھی انہیں جوش آگیاپاس ہی اونٹ کی ایک ہڈی پڑی ہوئی تھی اسے اٹھاکرمشرکین پرپل پڑےجس سے بنی تیم کے ایک مشرک عبداللہ بن خطل کاسرپھٹ گیااوراس میں سے خون بہنے لگااس طرح سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص پہلے شخص ہیں جنہوں نے حق کی حمایت میں خونریزی کی۔[74]

اب اس بات کااندیشہ پیدا ہوگیا کہ مسلمانوں اور کفارمکہ کے درمیان قبل ازوقت ہی تصادم برپانہ ہوجائے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ارقم رضی اللہ عنہ بن ارقم مخزومی کے مقدس ومتبرک مکان کوجو صفاسے بائیں جانب پینتیس یاچالیس میڑ کے فاصلہ پرتھا مسلمانوں کے اجتماع اوردعوت وتبلیغ کامرکزبنادیا تاکہ مسلمان گھاٹیوں میں چھپ کر نمازاداکرنے کے بجائے اس مکان میں جمع ہوکر نماز ادا کریں اورجونئے لوگ اسلام قبول کریں وہ بھی یہیں آئیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف فرماہوجاتے اور دیگر مسلمان جمع ہوکر قرآن کی نازل شدہ سورتوں ، آیات سے اوراسلام کے احکامات سے بہرہ مند ہوتے ، کیونکہ مشرکین مکہ کے غلبہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تواعلانیہ نمازپڑھ سکتے تھے اورنہ ہی دعوت دین کی خدمت سرانجام دے سکتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مکان کوعرصہ دراز تک تبلیغ،تدریس اورنماز کا مرکز بنائے رکھا،دعوت رسالت کے ابتدائی تین سالہ دورمیں دارارقم بڑی ہی اہمیت کاحامل تھا اور اس مرکزکو بڑی شہرت حاصل ہوئی ،اسی مکان میں ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اسلام قبول فرمایاتھا ، شعب بنی ہاشم میں محصورہونے تک بھی یہ مرکزقائم رہا ،بعدمیں ارقم رضی اللہ عنہ نے اس مکان کواپنی اولادپروقف کردیا۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

 هَذَا مَا قَضَى الْأَرْقَمُ فِی رُبُعِهِ مَا حَازَ الصَّفَا إِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ بِمَكَانِهَا مِنَ الْحَرَمِ، لَا تُبَاعُ وَلَا تُوَرَّثُ،

شَهِدَ هِشَامُ بْنُ الْعَاصِ وَفُلَانٌ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ وہ تحریرہے جوالارقم رضی اللہ عنہ نے اپنے اس مکان کافیصلہ کیاجوحدودصفامیں ہے وہ حرم میں ہونے کی وجہ سے محرم ہے جونہ فروخت کیاجائے گانہ میراث بنے گا۔

گواہ شد ہشام بن العاص وفلاں شخص مولائے ہشام بن العاص

قَالَ: فَلَمْ تَزَلْ هَذِهِ الدَّارُ صَدَقَةً قَائِمَةً فِیهَا وَلَدُهُ یَسْكُنُونَ وَیُؤَاجِرُونَ وَیَأْخُذُونَ عَلَیْهَا، حَتَّى كَانَ زَمَنُ أَبِی جَعْفَرٍ

یہ مکان وقف قطعی رہاجس میں ان کے لڑکے رہتے تھے ،اسے کرایہ پردیتے تھے اوراس پررقم وصول کرتے تھے یہاں تک کہ ابوجعفرکازمانہ آگیا۔[75]

ارقم بن الارقم رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ،

آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَرْقَمَ بْنِ أَبِی الأَرْقَمِ وَبَیْنَ أَبِی طَلْحَةَ زَیْدِ بْنِ سَهْلٍ

تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارقم بن الارقم رضی اللہ عنہ اورابوطلحہ زیدبن سہل رضی اللہ عنہ کے مابین بھائی چارہ قائم فرمایا۔[76]

قَالُوا: وَشَهِدَ الأَرْقَمُ بْنُ أَبِی الأَرْقَمِ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ارقم ابن الاقم رضی اللہ عنہ حق وباطل کے تمام معرکوں غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ [77]

قَالَ: حَضَرَتِ الْأَرْقَمَ بْنَ أَبِی الْأَرْقَمِ الْوَفَاةُ، فَأَوْصَى أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْهِ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، وَكَانَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ وَالِیًا لِمُعَاوِیَةَ عَلَى الْمَدِینَةِ، وَكَانَ سَعْدٌ فِی قَصْرِهِ بِالْعَقِیقِ ، ثُمَّ جَاءَ سَعْدٌ فَصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلَكَ الْأَرْقَمُ وَهُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَثَمَانِینَ سَنَةً

جب ارقم بن الاقم رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت آیاتوانہوں نے وصیت کی کہ ان کی نمازجنازہ سعدبن ابووقاص رضی اللہ عنہ پڑھائیں حالانکہ مروان بن الحکم مدینے پرمعاویہ رضی اللہ عنہ کاولی تھااورسعد رضی اللہ عنہ اپنے محل واقع عقیق میں تھے، پھرسعد رضی اللہ عنہ آگئے اورانہوں نے ان پرنمازجنازہ پڑھی، وفات کے وقت ارقم بن الارقم رضی اللہ عنہ اسی برس سے زائدکے ہوچکے تھے۔[78]

خلیفہ ہارون الرشیدکی والدہ خیزان جب حج کے لئے آئیں تو داراقم کوخریدکر یہاں مسجد تعمیرکرائی ، بعد میں جب سعودی حکومت نے حرم کی توسیع کا پروگرام بنایاتویہ مسجداس کی ذدمیں آ گئی جس کی وجہ سے اسے گرادیاگیا ۔

[1] صحیح بخاری تفسیر سورۂ المرسلات بَابُ قَوْلِهِ هَذَا یَوْمُ لاَ یَنْطِقُونَ۴۹۳۴،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ قَتْلِ الْحَیَّاتِ وَغَیْرِهَا۵۸۳۵

[2] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ القِرَاءَةِ فِی المَغْرِبِ۷۶۳،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِفِی الْمَغْرِبِ۱۰۳۳

[3] تفسیر طبری ۱۲۴؍۲۴

[4] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۹۲؍۱۰

[5] تفسیر طبری ۱۲۲؍۲۴، تفسیر ابن ابی حاتم۳۳۹۲؍۱۰

[6] الحجر۲۲

[7] الاعراف۵۷

[8] التکویر۲

[9] الانفطار۲

[10] الانفطار۱

[11] الرحمٰن۳۷

[12] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[13] الزمر۶۹

[14] المائدة۱۰۹

[15] ابراہیم۴۸

[16] یونس۱۳

[17] النمل۶۹

[18] الروم ۹

[19] الاحزاب۶۲

[20] الفتح۲۳

[21]فاطر۴۳

[22] الطارق۵تا۷

[23] المومنون۱۳

[24] الزمر۶

[25] الحج۵

[26] لقمان۲۰

[27] الاعراف۲۵

[28] الدر المنثور۳۸۴؍۸،تفسیرابن کثیر۲۹۹؍۸

[29] النحل۱۵

[30] الواقعة ۶۸تا ۷۰

[31] یٰسین۳۳،۳۴

[32]الملک۳

[33] الزمر۱۶

[34] الاعراف۴۱

[35]الروم۵۷

[36] الاعراف۳۸

[37] المومن۴۷،۴۸

[38]الاحزاب۶۷،۶۸

[39] سبا۳۱تا۳۳

[40] حم السجدة۱۹تا۲۱

[41] الرحمٰن۳۳

[42] ھود۵۷

[43] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲

[44] الحاقة۱۹،۲۰

[45]لقمان۲۴

[46] یونس۷۰

[47] یونس۶۹،۷۰

[48] الجاثیة۶

[49] ابن ہشام۲۵۲؍۱

[50] الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۷۵؍۳

[51] ابن سعد۳۱۶؍۳

[52]ابن سعد ۳۱۳؍۳

[53] تهذیب التهذیب۷۳؍۵

[54] صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابُ مُؤَاخَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَصْحَابِهِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ۶۴۶۲،اسد الغابة ۱۲۵؍۳

[55] ابن سعد ۳۱۳؍۳

[56] ابن سعد ۳۱۶؍۳

[57] المجادلة ۲۲

[58] اسد الغابة ۱۲۵؍۳

[59] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۷۵؍۳

[60] تهذیب التهذیب۷۳؍۵

[61] سیر أعلام النبلاء۵؍۳

[62] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۱۰؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۲۵؍۳

[63] تاریخ المدینة لابن شبة ۸۸۱؍۳،سیر أعلام النبلاء۸؍۳،سیر أعلام النبلاء۱۰؍۳، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۷۵؍۳

[64] سیر أعلام النبلاء۹؍۳

[65] الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۷۷؍۳،بحر الفوائد المشهور بمعانی الأخبار۲۷۵؍۱، حدیث ابی الفضل الزهری۲۴۶،مسند أبی یعلى الموصلی۴۸۰۰

[66] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأُبَیٍّ، وَأَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ الجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ۳۷۹۰

[67] اسد الغابة ۱۲۵؍۳

[68] معرفة الصحابة لابی نعیم۱۵۰؍۱

[69] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۱۰؍۴

[70] ابن سعد۳۱۵؍۳

[71] ابن سعد۱۸۳؍۳

[72] ابن سعد۱۸۳؍۳

[73] الکامل فی التاریخ۶۵۷؍۱

[74] الکامل فی التاریخ۶۵۸؍۱،تاریخ طبری ۳۱۸؍۲

[75] ابن سعد۲۴۴؍۳

[76] ابن سعد۱۸۵؍۳

[77] ابن سعد۱۸۵؍۳

[78] ابن سعد۱۸۵؍۳

Related Articles