بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ المومن

کفارمکہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دوطرح کی کاروائیاں  شروع کررکھی تھیں ،ایک یہ کہ ہرطرف جھگڑے اوربحثیں  چھیڑکر،طرح طرح کے الٹے سیدھے سوالات اٹھا کر اور نت نئے الزامات لگاکرقرآنی تعلیمات اوردعوت اسلام اورخودرسول اللہ کے بارے میں  اتنے شہبات اوروسوسے لوگوں  کے دلوں  میں  پیدا کر دیے جائیں  کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخرکاررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان زچ ہوجائیں ،دوسرے یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کردینے کے لیے زمین ہموارکی جائے ، چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں  کررہے تھے،

قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ:عَمْرِو بْنِ العَاصِ: أَخْبِرْنِی بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ المُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِفِنَاءِ الكَعْبَةِ، إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوَى ثَوْبَهُ فِی عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِیدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: {أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ} [1]

عبداللہ بن عمروبن عاص  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حرم میں  نمازپڑھ رہے تھے،یکایک عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھااوراس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں  کپڑاڈال کربہت زور سے گھوٹنا شروع کیا (تاکہ گلاگھونٹ کرآپ کو مارڈالے)مگرعین وقت پرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  پہنچ گئے اورانہوں  نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا عبداللہ  رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس وقت سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت ان کی زبان پریہ الفاظ جاری تھے’’ کیاتم ایک شخص کوصرف اس قصورمیں  مارے ڈالتے ہوکہ وہ کہتاہے میرارب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے کر آ یا ہے۔‘‘[2]

اس سورہ کاموضوع حق وباطل اورہدایت وضلالت کے درمیان معرکہ ہے،سورۂ کا آغازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دائمی معجزہ قرآن کے تذکرہ سے ہوا جوکئی صدیاں  گزرنے کے باوجودآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی گواہ ہے ،سائنسی ترقیاں  اورجدیدتحقیقات اس کے بیان کردہ علمی حقائق کی تصدیق کرتی ہیں ،قرآن کریم کے وحی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی چار صفات کاذکرہے کہ وہ گناہوں  کی بخشش اورمغفرت کرنے والاہےاگرکوئی خلوص نیت سے اپنے گناہوں  اورکفروشرک سے توبہ کرے تووہ توبہ قبول کرنے والا ہے ،جس طرح وہ غفورورحیم ہے اسی طرح وہ سخت سزادینے والابھی ہے اورہرطرح کی قدرتوں  والاہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخطاب کر کے فرمایاکہ کفارکازمین پراقتداراورغلبہ آپ کوکسی شک میں  نہ ڈالے،ان سے پہلے بھی ایساہوگزراہے جب منکرین حق اللہ کے عذاب میں  مبتلاہوئے (اسی طرح ان کفار پر بھی عذاب الٰہی نازل ہوسکتاہے) عرش کواٹھانے والے مقرب فرشتے اللہ کی حمدوستائش کے ساتھ مومنوں  کی بخشش ومغفرت کے لیے بھی اللہ کی بارگاہ میں  دعائیں  کرتے رہتے ہیں ،مکذبین کوتنبیہ کی گئی کہ قیامت کے روزکفارکویاددلایاجائے گاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کاکیسامذاق اڑاتے اورکس طرح تکذیب کرتے تھے،اس وقت وہ جہنم کے دردناک عذاب سے نکلنے کے لیے گڑگڑائیں  گے ،التجائیں  کریں  گے لیکن ان کاپچھتاوا اور گڑگڑانا بے سودہوگا،جہنم کے دروغے ان سے کہیں  گے کہ جیسے آج عذاب کی شدت دیکھنے کے بعدتم اپنے آپ پرجتنے غصہ کااظہار کر رہے ہواس سے کہیں  زیادہ اللہ تعالیٰ تم پر اس وقت غضب ناک ہوتا تھاجب تمہیں  ایمان کی طرف دعوت دی جاتی تھی لیکن تم تکبراورسرکشی کرتے ہوئے کفرکرتے تھے اورایمان قبول کرنے سے انکارکردیتے تھے، مسلمانوں  کوحکم دیاگیاکہ وہ خالص اعتقادکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں  خواہ کفارکوکتناہی ناگوارگزرے،اورکفارکواس دن سے ڈرنا چاہیےجس کی ہولناکی اور شدت کودیکھ کر کلیجے منہ کوآئیں  گے،اس روزان کانہ کوئی دوست ہوگااورنہ سفارشی،اللہ تعالیٰ سینوں  میں  چھپے بھیداورآنکھوں  کی چوری کوبھی جانتا ہے اورقیامت کے روزوہ عدل وانصاف کے تمام تقاضوں  کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمادے گااورہرشخص کواس کے نیک یابدعمل کابدلہ مل کررہے گا،اہل ایمان کوتسلی دی گئی کہ تم سے پہلے لوگوں  پرتم سے بھی زیادہ مصائب وآلام کے پہاڑٹوٹے مگرانہوں  نے دعوت حق کاسلسلہ جاری رکھا اور ان کی استقامت کے باعث کامیابی وکامرانی نے ان لوگوں  ہی کے قدم چومے، اس دورمیں  ایک ایساگروہ بھی تھاجودعوت حق کوپہچان چکاتھامگران مصائب وآلام سے گھبرا کر ایمان کااظہارنہ کرپاتاتھااورحق وباطل کی اس کشمکش کاخاموشی سے تماشادیکھ رہاتھا ،اللہ تعالیٰ نے ان کے ضمیرکوجھنجھوڑاکہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں  کے سامنے اتنا بڑاظالمانہ اقدام کرنے پرتل گئے ہیں  تو تم کب تک خاموش تماشائی بنے ان مظالم کودیکھتے رہوگے ؟اٹھو!آگے بڑھو!اورحق کاساتھ دوورنہ زندگی بھرکاپچھتاوا تمہارا پیچھا نہ چھوڑے گا،سورةکے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوصبرکی تلقین کی گئی ہے اوراس کے بعدجھٹلانے والوں  کوزمین پرچل پھرکرہلاک شدہ اقوام کاانجام اوران کے آثار و کھنڈرات دیکھنے کی تلقین کی گئی ہے،جن اقوام کواپنی ظاہری قوت اورمادی وسائل پربڑاناز تھا ،انہوں  نے بھی انبیاء کے معجزات اورصداقت کی واضح نشانیوں  کو جھٹلا دیا تھا پھر جب انہوں  نے اللہ کاعذاب اپنی آنکھوں  سے دیکھ لیاتو توحیدکا اقراراورطاٖغوت سے بے زاری کااظہارکیا،لیکن یہ اللہ کادستورہے کہ عذاب کامشاہدہ کرلینے کے بعد متکبروں  ،سرکشوں  اور ناشکروں  کاایمان قبول نہیں  کیاجاتا،چنانچہ اس وقت کااقراراوراظہاران کے کسی کام نہ آیا ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ تَنْزِیلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ‎﴿٢﴾‏ غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَیْهِ الْمَصِیرُ ‎﴿٣﴾‏(المومن)
’’حم ،اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے، گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا، سخت عذاب والا، انعام وقدرت والا ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف واپس لو ٹنا ہے۔‘‘

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ لِكُلِّ شَیْءٍ لُبَابًا ولُبَاب الْقُرْآنِ آلُ حم-أَوْ قَالَ: الْحَوَامِیمُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایاہرچیزکاخلاصہ ہوتاہے اورقرآن مجیدکاخلاصہ آل حم ہے یاآپ نے یہ فرمایاکہ قرآن مجیدکاخلاصہ حوامیم ہیں ۔[3]

قَالَ مِسْعَر بْنُ كِدَام: كَانَ یُقَالُ لَهُنَّ: الْعَرَائِسُ

مسعر بن کدام رحمہ اللہ  کا قول ہے (مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ)ان سورتوں  کودلہنیں  کہاجاتاتھا۔ [4]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ رَجُلٍ انْطَلَقَ یَرْتَادُ لِأَهْلِهِ مَنْزِلًا فَمَرَّ بِأَثَرِ غَیْثٍ فَبَیْنَمَا هُوَ یَسِیرُ فِیهِ وَیَتَعَجَّبُ مِنْهُ إِذْ هَبَطَ عَلَى رَوْضَاتٍ دَمِثَاتٍ، فَقَالَ: عَجِبْتُ مِنَ الْغَیْثِ الْأَوَّلِ فَهَذَا أَعْجَبُ مِنْهُ وَأَعْجَبُ، فَقِیلَ لَهُ إِنَّ مَثَلَ الْغَیْثِ الْأَوَّلِ مَثَلُ عِظَمِ الْقُرْآنِ وَإِنَّ مَثَلَ هَؤُلَاءِ الرَّوْضَاتِ الدَّمِثَاتِ مَثَلُ الْ حم فِی الْقُرْآنِ.

عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قرآن مجیدکی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھروالوں  کے لیے کسی جگہ کی تلاش میں  ہواوراس کاکسی ایسی جگہ سے گزرہواہوجہاں  بارش ہوچکی ہو   وہ اس جگہ خوشی کااظہارکرتے ہوئے چلتے چلتے سرسبزوشاداب اورگھنے باغات میں  پہنچ جائےاورکہے کہ میں  توبارش برسنے والی پہلی جگہ ہی سے خوش ہورہاتھاحالانکہ یہ مقام تو اس سے بھی زیادہ خوش منظرہے، تواس سے کہا جائے کہ پہلی بارش کی مثال قرآن مجیدکی عظمت کی مثال ہےاوران سرسبزوشاداب اورگھنے باغات کی مثال ایسے ہے جیسے قرآن مجیدکی حم سورتیں  ہیں ۔[5]

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا وَقَعْتُ فِی آلِ حم وَقَعْتُ فِی رَوْضَاتٍ دَمِثَاتٍ أَتَأَنَّقُ فِیهِنَّ

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں  جب میں  حم سے شروع ہونے والی سورتوں  کوپڑھتاہوں  تویوں  محسوس ہوتاہے جیسے خوش منظراوردلفریب باغات سے لطف اندوزہورہاہوں ۔[6]

حم،مشرکین مکہ اللہ کی الوہیت وربوبیت،قرآن کی حقانیت اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کے بارے میں  نت نئے سوالات اوراعتراضات گھڑکرمجادلے کی صورت پیداکرتے رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراضات کے مدلل اورمسکت جواب دے کرخبردارکیاکہ جوکلام ان کے سامنے پیش کیاجارہاہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں  گھڑلیا ہے اورنہ ہی کسی معمولی ہستی کاکلام نہیں  ہےبلکہ اللہ خالق کائنات کی طرف سے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل کیاگیا ہے،اللہ جوقادرمطلق ہے اورکوئی اس کی قوت اورغلبے کے سامنے پرنہیں  مارسکتا،اس کاجوبھی فیصلہ ہونافذہوکرہی رہتاہے، لہذااس کے رسول سے جھگڑاکر کے کوئی یہ امیدرکھتاہوکہ وہ اسے نیچادکھادے گاتو یہ اس کی اپنی حماقت ہے ایسی توقعات کبھی پوری نہیں  ہوسکتیں ،وہ قیاس وگمان پربات نہیں  کرتابلکہ ہرچیزکابراہ راست علم رکھتا ہے، وہ جانتاہے کہ انسان کی فلاح کس چیزمیں  ہے اور کون سے اصول وقوانین اوراحکام اس کی بہتری کے لئے ضروری ہیں  ،اس کی ہرتعلیم حکمت اورعلم صحیح پرمبنی ہے جس میں  غلطی کاکوئی امکان نہیں ،انسانوں  کی حرکات وسکنات میں  سے کوئی چیزاس سے چھپی نہیں  رہ سکتیں ،حتی کہ وہ نیتوں  اوردل کے ارادؤ ں تک کوجانتاہے ،وہی غفورورحیم ہے اوراپنے بندوں  کے گزشتہ گناہوں  کابخشنے والاہے اس کے سوااور کوئی گناہوں  کو بخشنے والا نہیں اوروہی بندوں  کی مستقبل میں  ہونے والی کوتاہیوں  پرتوبہ قبول فرمانے والاہے ،مگرجولوگ حق کو قبول کرنے کے بجائے بغاوت وسرکشی کا رویہ اختیارکریں ، آخرت کی دائمی زندگی پردنیاکی عارضی رنگینیوں کوترجیح دیں  انہیں  سخت عذاب دینے والاہے،اوراس کی سزاایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اس کوقابل برداشت سمجھ سکتا ہے ،جیسے فرمایا

نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۴۹ۙوَاَنَّ عَذَابِیْ هُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ۝۵۰ [7]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بندوں  کوخبردے دوکہ میں  بہت درگزر کرنے والااوررحیم ہوں  مگراس کے ساتھ میراعذاب بھی نہایت دردناک ہے۔

وہی ہرآن اپنی تمام مخلوقات پران گنت نعمتوں  ، احسانات اوررحمتوں  کی ہمہ گیر بارش کرتا رہتا ہے، فی الحقیقت اس کے سوااورکوئی الٰہ نہیں خواہ لوگوں  نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبودبنارکھے ہوں ،سب کوبالآخراس کی بارگاہ میں  حاضرہوناہے ،کوئی دوسرا معبودلوگوں  کے اعمال کاحساب لینے والااوران کی جزاوسزاکافیصلہ کرنے والانہیں لہذا ایسے رب کوچھوڑکر اگر کوئی دوسروں  کو اپنامعبود بنائے گاتواپنی حماقت کاخمیازہ خودہی بھگتے گا۔

مَا یُجَادِلُ فِی آیَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِینَ كَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ ‎﴿٤﴾ (المومن)
’’اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔‘‘

دنیاوی مال واسباب کی حقیقت :

اللہ تعالیٰ نے کفارومشرکین کے طرزعمل کوبیان فرمایاکہ اللہ کاکلام نہایت سادہ ، آسان اور واضح ہے،مگران لوگوں  نے جواللہ کی نعمتوں  اوراس کے احسانات کوبھول کرغیراللہ کی محبت میں  ڈوبے ہوئے ہیں  وہ حق کی تردیدکے لئے کج بحثیاں  کرتے ہیں ،اللہ کے کلام میں  دلائل وبراہین کے ظاہرہونے کے بعد طرح طرح کے نکتے پیداکرکے شبہات پیدا کرتے ہیں ،مال ودولت حاصل کرنے کے لئے ملکوں  اورشہروں  میں  اطمینان سے دندناتے پھرتے ہیں ،ان کے کاروبارچمک رہے ہیں  جس سے یہ دھوکہ کھا رہے ہیں  کہ وہ حق پرہیں  اس لئے اللہ انہیں  اپنی بے شمارنعمتوں  سے نوازرہاہے ،اے لوگو!ان لوگوں  کی مختلف انواع کی تجارت اورکاروبار، ان کی ظاہری شان وشوکت، ڈھاٹ باٹ ،دنیوی سج دھج،مال ومتاع، رہن سہن ، مرتبہ وحیثیت اورحق سے انحراف اورمقابلہ سے مرعوب مت ہوناکہ وہ اللہ کی پکڑسے بچ نکلے ہیں ،جیسے فرمایا

لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ۝۱۹۶ۭمَتَاعٌ قَلِیْلٌ۝۰ۣ ثُمَّ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِھَادُ۝۱۹۷ [8]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !دنیاکے ملکوں  میں  خداکے نافرمان لوگوں  کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں  نہ ڈالےیہ محض چندروزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے پھریہ سب جہنم میں  جائیں  گے جوبدترین جائے قرارہے ۔

 نُمَـتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [9]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں  دنیا میں  مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں  ، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں  گے۔

اللہ نے ان لوگوں  کومہمل چھوڑ نہیں  دیا بلکہ مہلت عطاکی ہے تاکہ یہ اپنے کفروشرک اور دنیاوی کاروبارمیں  اچھی طرح غرق ہو جائیں  مگربہت جلد یہ اپنے کفر وشرک کی وجہ سے مواخذہ الٰہی میں  آجائیں  ۔

 ‏ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِیَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ ‎﴿٥﴾‏ وَكَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِینَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ‎﴿٦﴾‏(المومن)
’’قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا، اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کرلینے کا ارادہ کیا اور باطل کے ذریعہ کج بحثیاں کیں تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں، پس میں نے انہیں پکڑ لیا سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی، اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘

اوراے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اگریہ لوگ غیراللہ کی محبت میں  ڈوب کردعوت حق کوجھٹلارہے ہیں ،اللہ کی آیات کامذاق اڑارہے ہیں  تویہ کوئی انوکھی اورنرالی بات نہیں ان سے پہلے قوم نوح،قوم عاد اوران کے بعددوسری اقوام بھی کفروشرک میں  مبتلاہوکر اپنے رسول کی دعوت کوجھٹلاتی،مذاق اڑاتی اور انہیں قیدیاقتل کرنے کی سازشیں  کرتی رہی ہیں اوربعض کو قتل بھی کردیاگیا،جس طرح یہ لوگ باطل کوسربلنداور حق کونیچاکرنے کے لئے جھوٹے پروپیگنڈے،استہزا ، مسلمانوں  پرانسانیت سوزظلم وستم اوررسول کوگرفتاریاقتل کرنے کے حربے استعمال کررہے ہیں  گزشتہ مشرک اقوام نے بھی یہی طرزعمل اختیارکیاتھا وہ بھی حق کونیچادکھانے اورباطل کی مددکرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے مگران کی خواہش کے برعکس ہمیشہ حق ہی سربلنداورباطل سرنگوں  ہوا،جیسے فرمایا

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا   ۚ    فَاَنْزَلَ اللہُ سَكِیْـنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى۝۰ۭ وَكَلِمَةُ اللہِ ہِىَ الْعُلْیَا۝۰ۭ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰ [10]

ترجمہ:تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں  نے اسے نکال دیا تھا جب وہ صرف دو میں  کا دوسرا تھا جب وہ دونوں  غار میں  تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں  سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں  کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔

ایک وقت مقررہ پر جب مہلت کی گھڑیاں  ختم ہوگئیں  اوروہ حق کی طرف نہ پلٹے تووہ اقوام تکذیب حق اورحق کے خلاف اکٹھے ہونے کے سبب اللہ کے عذاب میں  مبتلا ہوگئیں  ، جب ان پراللہ کادنیاوی عذاب نازل ہواتووہ اس مشکل گھڑی میں  اپنے دیوی دیوتاؤ ں  کوجن کوانہوں  نے بے بہااختیارات سونپ رکھے تھے،جن کی مشکل کشائی اورحاجت روائی پرانہیں  کامل یقین تھا مدد کے لئے پکارتے رہے مگران کاکوئی معبودانہیں  بچانے کے لئے میدان میں  نہ آیا،اللہ نے ان پر زبردست گناہوں  اوربدترین سرکشیوں  کی بناپر تکلیف دہ اور الم ناک عذاب نازل کیااور حرف غلط کی طرح مٹاکرنشان عبرت بنادیا،

عَنْ قَتَادَةَ، فَأَخَذْتُهُمْ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ،قَالَ:شَدِیدٌ وَاللَّهِ

قتادہ رحمہ اللہ نے آیت کریمہ ’’پس میں  نے انہیں  پکڑلیاسومیری طرف سے کیسی سزاہوئی۔‘‘کے بارے میں  فرمایا واللہ ! اللہ تعالیٰ کاعذاب بے حدشدیدتھا۔[11]

مگر یہ ان کی آخری سزانہ تھی بلکہ اللہ نے ان کے حق میں  یہ فیصلہ بھی کردیاہے کہ ان کو جہنم میں  داخل کرناہے جومتکبروں   کے لیے بدترین ٹھکانہ ہے،اب یہ لوگ بھی پچھلی اقوام کی ڈگرپرگامزن ہیں  ،آخری رسول کی تکذیب کرتے ہیں ،باطل کوسربلندکرنے اورحق کوسرنگوں  کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں مگرہمیشہ کی طرح یہ نامرادہی رہیں  گے ، اگریہ تیری تکذیب اور مخالفت سے بازنہ آئے تویہ بھی پچھلی اقوام کی طرح عذاب الہٰی کی گرفت میں  آجائیں  گے اورپھرانہیں  کوئی معبودبچانے کے لئے نہیں  آئے گا ۔

الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِهِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ ‎﴿٧﴾‏رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٨﴾‏ وَقِهِمُ السَّیِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّیِّئَاتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٩﴾ (المومن)
’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اس پاس کے( فرشتے) اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے، اے ہمارے رب ! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں، یقیناً تو غالب و باحکمت ہے،انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ، حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کردی اور بہت بڑی کامیابی تویہی ہے۔‘‘

اہل ایمان کے لئے مقرب فرشتوں  کی دعائیں :

مسلمان مشرکین مکہ کی زبان درازیاں  ،چیرہ دستیاں  اوران کے مقابلے میں  اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کرسخت دل شکستہ ہورہے تھے،اس پرانہیں  اپنے لطف وکرم اور تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ ان گھٹیااوررزیل لوگوں  کی باتوں  پرجن کی حیثیت جانوروں  سے بھی کمترہے تم رنجیدہ کیوں  ہورہے ہو،جیسے فرمایا

 ۔۔۔لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۔۔۔۝۱۷۹ [12]

ترجمہ:ان کے پاس دل ہیں  مگر وہ ان سے سوچتے نہیں  ان کے پاس آنکھیں  ہیں  مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں  ان کے پاس کان تو ہیں  مگر وہ ان سے سنتے نہیں  وہ جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ۔

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ۝۰ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۝۴۴ۧ [13]

ترجمہ:کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں  سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں  کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔

تمہارا مرتبہ تووہ ہے کہ اختلاف جنس اوربعدمقام کے باوجود عرش الٰہی کے حامل طاقتوار ،قدرومنزلت اورفضیلت میں  اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے اور جوعرش کے گردوپیش حاضررہتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَّالْمَلَكُ عَلٰٓی اَرْجَاۗىِٕهَا۝۰ۭ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ۝۱۷ۭ [14]

ترجمہ:فرشتے اس کے اطراف وجوانب میں  ہوں  گے اور آٹھ فرشتے اس روزتیرے رب کاعرش اپنے اوپراٹھائے ہوئے ہوں  گے۔

وہ اللہ کی بارگاہ میں  تسبیح وتہلیل میں  مصروف رہتے ہیں  اور انتہائی پستی اورعاجزی کے ساتھ اس کی حمد بجالاتے ہیں  تمہارے ساتھ گہری دلچسپی اورہمدردی رکھتے ہیں ، وہ اسماء الٰہی کووسیلہ بناکر کل اہل ایمان مردوں  وعورتوں ،ان کے صالح آباواجداداوران کی مومن وصالح اولادوازواج کے حق میں  اللہ تعالیٰ کے حضور دین وآخرت کی بھلائی اور تقصیروں  کی معافی کے لئے غائبانہ دعائیں کرتے رہتے ہیں  کہ اے ہمارے رب! تجھ سے اپنے بندوں  کی کمزوریاں  ، لغزشیں  اورخطائیں  چھپی ہوئی نہیں  ہیں  ،تیرے علم کی طرح تیری رحمت بھی وسیع ہے،انہوں  نے شرک اورمعاصی سے خلوص نیت کے ساتھ توبہ کی ہےاور فرمانبرداری اختیار کر کے فی الواقع تیرا خود بتایاہواراستہ اختیارکیاہے اس لئے بربنائے رحمت اپنے ان بندوں کوبخش کرعذاب جہنم سے بچالےاور جن ہمیشہ رہنے والی جنتوں  کاتونے مومنین سے وعدہ فرمایاہے ان میں  ان کوان کے والدین ، بیویوں  ،اولاد،دوستوں  اوررفقاء کے ساتھ گوان کے اعمال ان جیسے نہ ہوں  تاہم توان کے درجات بڑھاکراونچے درجے میں  داخل فرمادے ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّــتُهُمْ بِـاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ۔۔۔۝۰۝۲۱ [15]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے ہیں  اوران کی اولادبھی کسی درجہ ایمان میں  ان کے نقش قدم پرچلی ہے ان کی اس اولادکوبھی ہم(جنت میں )ان کے ساتھ ملادیں  گے اوران کے عمل میں  کوئی گھاٹاان کونہ دیں  گے۔

اے ہمارے رب ! دنیا میں  ان کوغلط عقائد،بگڑے اخلاق ، برے اعمال اور دنیا،عالم برزخ اور روز قیامت کے آفات،مصائب اوراذیتوں سے بچالےجس کوتونے میدان حشر کے ہول،سائے اورہرقسم کی آسائشوں  سے محرومی ، محاسبے کی سختی،تمام خلائق کے سامنے زندگی کے رازفاش ہونے کی رسوائی اوردوسری تمام ذلتوں  و سختیوں  اورجہنم سے بچا کر جنت میں  داخل فرما دیا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۱۸۵ [16]

ترجمہ:کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں  آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں  داخل کر دیا جائے رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔

وبلغنی أن رجلا قال لبعض الصالحین ادع لی واستغفر لی، فقال له: تب واتبع سبیل الله، یستغفر لك من هو خیر منی،وتلا هذه الآیة  الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِهِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا

قاضی ابن عطیہ رحمہ اللہ نے بیان کیامجھے یہ خبرملی ہے کہ ایک شخص نے کسی نیک شخص سے کہامیرے لیے دعاکیجئے،میرے لیے استغفارکیجئے، اس نیک شخص نے جواب دیاتوبہ کرواور  اللہ تعالیٰ کی راہ کی پیروی کرو تمہارے لیے وہ دعائے مغفرت کریں  گے جومجھ سے بہترہیں   پھراس آیت کریمہ’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اس پاس کے( فرشتے) اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں  اور اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور ایمان والوں  کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔‘‘ کی تلاوت کی۔[17]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یَدْعُو لِأَخِیهِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ، إِلَّا قَالَ الْمَلَكُ: وَلَكَ بِمِثْلٍ

ابوالدرداء  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی مسلمان ایسا نہیں  ہے جواپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کی غیرحاضری میں  دعاکرے مگر فرشتہ کہتاہے اورتجھ کوبھی یہی ملے گا۔[18]

عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: كَانَ لأَبِی الدَّرْدَاءِ سِتُّوْنَ وَثَلاَثُ مائَةِ خَلِیْلٍ فِی اللهِ, یَدْعُو لَهُمْ فِی الصَّلاَةِ, فَقُلْتُ لَهُ فِی ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَیْسَ رَجُلٌ یَدْعُو لأَخِیْهِ فِی الغَیْبِ إلَّا وَكَّلَ الله له مَلَكَیْنِ یَقُوْلاَنِ: وَلَكَ بِمِثْلٍ, أَفَلاَ أَرْغَبُ أَنْ تدعو لی الملائكة.

ام الدرداء سے روایت ہے ابوالدرداء  رضی اللہ عنہ کے تین سوساتھ دینی دوست تھے  جن کے لیے وہ نمازمیں  دعاکیاکرتے تھے، میں  نے ان سے اس کے بارے میں  دریافت کیا  انہوں  نے کہا کو ئی بھی شخص اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں  دعاکرتا ہےتو ایسی دعاکے بارے میں  متعین کردہ فرشتہ کہتاہے اللہ تعالیٰ تجھے وہی چیزعطافرمائے جس کاتونے اپنے بھائی کے لیے سوال کیاہے  کیامیں  اس بات کی رغبت نہ رکھوں  کہ فرشتے میرے لیے دعاکریں ۔[19]

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِیمَانِ فَتَكْفُرُونَ ‎﴿١٠﴾‏ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِیلٍ ‎﴿١١﴾‏ ذَٰلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِیَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِنْ یُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیرِ ‎﴿١٢﴾ (المومن)
’’بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے ،وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہمیں دو بار مارا اور دوہی بار جلایا اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے؟ یہ (عذاب) تمہیں اس لیے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کرجاتے تھے، اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے پس اب فیصلہ اللہ بلندو بزرگ ہی کا ہے۔‘‘

کفارکی دوبارہ زندگی کی لاحاصل آرزو:

اس دنیامیں  جب کفارومشرکین کواللہ کی کتاب اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی بات کی جاتی ہے تواس پر سنجیدگی سے غوروفکرکرنے کے بجائے فوراً ان کے ماتھوں  پرسلوٹیں  پڑ جاتی ہیں ، سمجھانے والے پربگڑجاتے ہیں  اورکہتے ہیں  کیاتونے زیادہ علم حاصل کر لیاہے ،کیاتودین کوہم سے یاہمارے بزرگوں  اور پیروں  فقیروں  سے زیادہ جانتا ہے ، مگر جب اللہ تعالیٰ ،اس کی کتابوں  اس کے رسولوں  اورروزآخرت کاانکار کے سبب فیصلہ ان کے خلاف ہوجائے گااوروہ اپنے آپ کوجہنم کی آگ میں  جھلستے دیکھیں  گے تو شدید غیظ وغضب کااظہارکرتے ہوئے اپنی انگلیاں  چبائیں  گے اورجھنجلا جھنجلا کر خود اپنے آپ کوکوسنے لگیں  گے اس وقت فرشتے بہ آواز بلند ان سے پکارکرکہیں  گے کہ دنیا میں  جب تمہیں  انبیاء اوردوسرے نیک لوگ اسلام وایمان کی دعوت دیتے تھے،حق کوواضح کرنے کے لیے تمہارے سامنے دلائل وبراہین پیش کرتے تھے توتم محض اپنی جھوٹی انا ، فخرو غرورکے سبب کفرکواپنائے رکھتےاور ایمان سے منہ موڑلیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے سائے سے نکل جاتے تھے،جہاں  اللہ وحدہ لاشریک کا ذکر آتا تھا تمہارے دلوں  میں  کفرسماجاتاتھاہاں  اس کے ساتھ کسی کوشریک کیاجائے توتمہیں  یقین وایمان آجاتاتھا، جیسے فرمایا

وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [20]

ترجمہ:جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں  کے دل کڑھنے لگتے ہیں  اور جب اس کے سوا دوسروں  کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں  ۔

اس وقت اللہ تعالیٰ کاغیض وغضب اس سے کہیں  زیادہ تم پربھڑکتاتھاجتناآج تم اپنے آپ پر ہو رہے ہو،

قَالَ قَتَادَةُ فِی قَوْلِهِ: {لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الإیمَانِ فَتَكْفُرُونَ}یَقُولُ: لمقتُ اللَّهِ أَهْلَ الضَّلَالَةِ حِینَ عُرض عَلَیْهِمُ الْإِیمَانُ فِی الدُّنْیَا، فَتَرَكُوهُ وَأَبَوْا أَنْ یَقْبَلُوهُ، أَكْبَرُ مِمَّا مَقَتُوا أَنْفُسَهُمْ حِینَ عَایَنُوا عَذَابَ اللَّهِ یَوْمَ الْقِیَامَة

قتادہ  رحمہ اللہ اس آیت کریمہ’’ قیامت کے روز ان کو پکار کر کہا جائے گا آج تمہیں  جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اس سے زیادہ غضب ناک اس وقت ہوتا تھا جب تمہیں  ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے ۔‘‘ کی تفسیرمیں  فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ کی اہل ضلالت سے ناراضی ، جب دنیامیں  ان کے سامنے ایمان پیش کیاجاتاتھامگروہ اسے ترک کردیتے اورقبول کرنے سے انکارکردیتے تھے، اس سے کہیں  زیادہ تھی جتنی روزقیامت عذاب الٰہی کو دیکھ کرانہیں  اپنے نفسوں  سے ہوگی۔[21]

یہ اللہ کی اسی ناراضگی کاہی نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں  ہو،جہنمی سرنگوں  ہوکرحسرت سے کہیں  گے اے اللہ! بیشک تو نے ہمیں  دودفعہ موت اوردومرتبہ زندگی عطافرمائی(یعنی اب مشاہدہ ہونے کے بعد حیات بعد از موت کا اعتراف کریں  گے)جیسے فرمایا

كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸  [22]

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہوحالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کو زندگی عطا کی ، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا پھر وہی تمہیں  دوبارہ زندگی عطا کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں  پلٹ کر جانا ہے۔

ہم نے دوسری زندگی کاانکارکرکے سخت غلطی کی ،اوراس غلط عقائد پرکام کرکے ہماری زندگی گناہوں  سے لبریز ہوگئی ،کیااب کوئی امکان ہے کہ تو ہمیں  دوبارہ دنیامیں  بھیج دے تاکہ ہم ایمان لائیں  اورنیکیاں  کما کر لائیں اوراس عذاب سے نکل کرتیری جنتوں  کے حقداربن جائیں ،جیسےفرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [23]

ترجمہ: کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ہمیں  اب یقین آگیا ہے۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷ [24]

ترجمہ:کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں  پھر واپس بھیجے جائیں  اور اپنے رب کی نشانیوں  کو نہ جھٹلائیں  اور ایمان لانے والوں  میں  شامل ہوں ۔

وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۝۰ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِیْرُ۝۰ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ۝۳۷ۧ [25]

ترجمہ:وہ وہاں  چیخ چیخ کر کہیں  گے کہ اے ہمارے رب!ہمیں  یہاں  سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے(انہیں  جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں  کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا ؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا اب مزا چکھو ظالموں  کا یہاں  کوئی مدد گار نہیں  ہے ۔

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷ قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸ [26]

ترجمہ:اے پروردگار! اب ہمیں  یہاں  سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں  تو ظالم ہوں  گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں  اور مجھ سے بات نہ کرو ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گادنیامیں  ہم نے تمہاری طرف پے درپے رسولوں  کوبھیجاجنہوں  نے تمہیں  اللہ تعالیٰ کی توحیداوراس کے لئے اخلاص عمل کی دعوت دی،اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کے واضح دلائل دیے مگر تم اللہ کی توحیدکے سخت منکررہے،تم بدبختی ،ذلت اوراللہ تعالیٰ کی ناراضی کے اسباب کوترجیح دیتے اورفوزوفلاح اورکامیابی کے اسباب سے منہ موڑتے رہے ،حق تمہیں  بہت ناگواراورشرک تمہیں  بہت مرغوب تھا،تمہیں  اپنے خالق وپروردگار سے چڑتھی اور دوسروں  کواس کے ساتھ شریک کیے بغیرتمہیں  چین وسکون نہ آتا تھا، جیسے فرمایا

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵  [27]

ترجمہ: جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں  کے دل کڑھنے لگتے ہیں  جو آخرت پر ایمان نہیں  رکھتے اور جب اللہ کے سوا دوسروں  کا ذکر آتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ۔

تم نے غیراللہ کو اللہ کی ذات وصفات،اختیارات،حقوق اورافعال میں  شامل کیے رکھا جو دنیا و آخرت میں  فساداورشرکاباعث تھا اگر بالفرض محال تم دنیا میں لوٹائے بھی گئے تو بھی تم دوبارہ وہی کچھ کرنے لگو گے جس سے منع کیے گئے تھے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [28]

ترجمہ: اگر انہیں  سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں  جس سے انہیں  منع کیا گیا ہےوہ تو ہیں  ہی جھوٹے ۔

اب اسی اللہ وحدہ لاشریک کاحکم ہے جس کی خدائی پرتم راضی نہ تھےاس کے فیصلے میں  کوئی تغیروتبدل نہیں  ہو سکتا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِیْلًا۝۴۳ [29]

ترجمہ: سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں  گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں  گے۔

مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۲۹ۧ [30]

ترجمہ:میرے ہاں  بات پلٹی نہیں  جاتی اور میں  اپنے بندوں  پر ظلم توڑنے والا نہیں  ہوں  ۔

اب جہنم کے دائمی عذاب سے تمہارے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں  ہے۔

هُوَ الَّذِی یُرِیكُمْ آیَاتِهِ وَیُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ وَمَا یَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ یُنِیبُ ‎﴿١٣﴾‏ فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ‎﴿١٤﴾‏(المومن)
’’وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے روزی اتارتا ہے، نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں، تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لیے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں۔‘‘

اللہ جو کائنات کاصانع اورمدبرومنتظم ہے، لوگوں کو راہ راست پرلانے کے لئے اپنی قدرت کی نشانیاں  دکھلاتاہے ،زمین وآسمان میں  اس کی توحیدکی بیشمارنشانیاں  موجود ہیں  جن پرغوروفکرکرنے والے کے لئے معرفت حقائق میں  ادنیٰ سابھی شک وشبہ نہیں  رہتاکہ سب کاخالق،سب کامالک،سب کاپالنہاراورحفاظت کرنے والاوہی اللہ وحدہ لاشریک ہے، اسی حی وقیوم ذات نے لاکھوں  کروڑوں  برس سے اس کائنات کا ایسا منظم نظام چلارکھاہے جس میں  کبھی خلل واقع نہیں  ہوا ،اسی خالق کائنات نے انسانوں ، حیوانات اورنباتات کی ضروریات کے مطابق پانی تخلیق فرمایااوراس پانی کوباقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پرپہنچانے اورپھیلانے کے لئے حیرت انگیز انتظامات کیے ، انسان یہ تودیکھ لے کہ ہوائیں  چلیں جنہوں  نے سمندروں  سے نمکین پانی کے بخارات کواٹھایا،جس سے گہرے سیاہ بادل بن گئےپھرہوائیں  پانی سے بھرے ان بادلوں  کو لے کر چلیں اورجہاں  اللہ نے چاہااورجتنی چاہی گرج وچمک کے ساتھ میٹھاپانی برس پڑاجس سے مردہ زمین زندہ ہوگئی،ایک ہی پانی اور ایک ہی زمین سے انسانوں  اور جانوروں  کی ضروریات کے لئے انواع و اقسام ،مختلف رنگ وروپ ،شکل وضع اورمختلف ذائقہ کے پھل اور نباتات اگنے لگیں ، بارش کے پانی سے دریالبالب بھرکرٹھاٹھیں  مارنے لگے ،ان دریاؤ ں  میں  نقل وحمل اور باربرداری کی کشتیاں  چلنے لگیں ،اس طرح اللہ تعالیٰ بارش سے انسانوں  ،جانوروں  اورپرندوں  کے رزق کابندوبست فرماتاہے مگر ان نشانیوں  سے سبق وہی حاصل کرتے ہیں  جواللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ،اب اس شخص سے بڑاظالم کون ہوسکتاہے جواللہ کی اس عام مشاہدے کی نشانی کودیکھ کراس کی ذات وصفات اورقدرتوں  کاانکارکرے یااس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں  کوبھی اس کے ساتھ شریک کرے ،اس لئے اے مسلمانوں !جب کائنات کاصانع اور مدبرومنتظم اکیلااللہ ہی ہے تو صرف اسی وحدہ لاشریک کی خالص اطاعت وبندگی کرو،جیسے فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ۝۲ۭ [31]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے لہذاتم اللہ ہی کی بندگی کرودین کواسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔

اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں  اللہ کے راستے سے نہ روک دے ۔

عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، قَالَ:كَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ، یَقُولُ: فِی دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ حِینَ یُسَلِّمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ

ابوالزبیرسے مروی ہےعبداللہ بن زبیرہرفرض نمازکے بعدیہ دعاکرتے تھے،’’ایک اللہ کے سوااورکوئی معبودنہیں  ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ،ملک اسی کاہے ،تعریف اسی کی ہےاوروہ ہرشئے پر قادر ہے،اوراللہ کی توفیق کے بغیرنہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہےاور نہ عبادت کرنے کی قوت ہے اللہ کے سوااورکوئی معبودنہیں ،ہم خالص اسی کی اطاعت کرتے ہیں  (اے اللہ) تو ہی نعمت وفضل والااوربہترین تعریف کامستحق ہے ،اللہ کے سوااورکوئی معبودنہیں  ! ہم خالص اسی کی اطاعت کرتے ہیں  خواہ کافروں  کویہ ناپسندہی ہو۔‘‘ اورکہتے تھےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی ہرنمازکے بعدیہی دعاکرتے تھے۔[32]

‏ رَفِیعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ یُلْقِی الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ‎﴿١٥﴾‏ یَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۖ لَا یَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَیْءٌ ۚ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ‎﴿١٦﴾‏الْیَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿١٧﴾ (المومن)
’’بلند درجوں والا عرش کا مالک، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن ڈرائے، جس دن سب لوگ ظاہر ہو جائیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی، آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ، فقط اللہ واحد وقہار کی،آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے ۔‘‘

حشرکے دن صرف اللہ کی حکومت ہوگی :

اللہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی وعظمت اورجلال وکمال کاذکر فرمایا کہ وہ بلنداوراعلیٰ ہے اورساتوں  آسمانوں  سے اوپراپنے عرش پرمستوی ہے،اوروہ اکیلا ہی اس عظیم الشان کائنات کابادشاہ اورفرمانرواہے ،وہ اپنے بندوں  میں  سے جس کوچاہتاہے رسالت کے لیے منتخب کرتااور اس پر وحی نازل فرماتاہے تاکہ وہ لوگوں  کومحشر کے ہولناک دن اور اعمال کی جزا سے خبردارکردے،جیسے فرمایا

یُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۝۲ [33]

ترجمہ:وہ اس روح کواپنے جس بندے پرچاہتاہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے  نازل فرمادیتاہے(اس ہدایت کے ساتھ لوگوں  کو)آگاہ کردو میرے سواکوئی تمہارا معبود نہیں  ہے لہذامجھی سے ڈرو۔

ایک مقام پرفرمایا

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙ [34]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے ،اسے لے کر تیرے دل پرامانت دارروح اتری ہے تاکہ توان لوگوں  میں  شامل ہوجو(اللہ کی طرف سے اللہ کی مخلوق کو)متنبہ کرنے والے ہیں ۔

وہ دن جب اللہ کے حکم سے سب اولین وآخرین اپنی قبروں  سے زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

  اَلَا یَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۝۴ۙلِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۵ۙیَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۶ۭ [35]

ترجمہ:کیا یہ لوگ نہیں  سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ؟ اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں  گے۔

اورکسی طرف توجہ کیے بغیردوڑتے ہوئے میدان محشرمیں  جمع ہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّہُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙ [36]

ترجمہ:جب یہ اپنی قبروں  سے نکل کر اس طرح دوڑے جارہے ہوں  گے جیسے اپنے بتوں  کے استھانوں  کی طرف دوڑے جارہے ہوں  ۔

یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًا۔۔۔۝۴۴ [37]

ترجمہ:جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کر تیز تیز بھاگے جا رہے ہوں  گے۔

جس میں  کوئی نشیب وفرازنہ ہوگا،جیسے فرمایا

فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [38]

ترجمہ : اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

اوران کی کوئی چھوٹی بڑی ،چھپی کھلی بات اللہ علام الغیوب سے مخفی نہ رہے گی ، میدان محشرکی ہولناکیوں  اوراپنے سامنے غیض وغضب سے پھٹتی ہوئی جہنم کودیکھ کر ہر شخص دہشت زدہ ہوگااوردہشت کایہ عالم ہوگا کہ دل غم واندوہ کے باعث اچھل کرگلے میں  آرہے ہوں  گے ،اس عالم میں  اللہ مالک یوم الدین پکارکرپوچھے گاآج بادشاہی کس کی ہے ؟یعنی اس عظیم دن کامالک کون ہے؟جس نے اولین وآخرین ،آسمانوں  اور زمین کی مخلوق کوجمع کیا ہے ، آج اقتدارمیں  خودساختہ شراکت ختم اورتمام اسباب منقطع ہوگئے اور اچھے یابرے اعمال کے سواکچھ باقی نہ رہا،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ  یَقْبِضُ اللَّهُ الأَرْضَ، وَیَطْوِی السَّمَوَاتِ بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَنَا المَلِكُ، أَیْنَ مُلُوكُ الأَرْضِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوئی فرماتے ہوئے سناہےاللہ تعالیٰ زمین کواپنی مٹھی میں  اورآسمان کواپنے دائیں  ہاتھ میں  لپیٹ لے گا اورپھرفرمائے گا میں  بادشاہ ہوں ،زمین کے بادشاہ کہاں  ہیں ۔[39]

جیسے فرمایا

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذٍ لِّلہِ۔۔۔۝۵۶ [40]

ترجمہ:اس روز بادشاہی اللہ کی ہوگی۔

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۔۔۔۝۲۶ [41]

ترجمہ:اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی۔

اللہ کے سوال کی گونج سے میدان محشرمیں  مزید دہشت طاری ہو جائے گی ، پھربے ساختہ ساراعالم پکار اٹھے گایاسناٹاچھاجائے گااوراللہ تعالیٰ خودہی ارشادفرمائے گااللہ واحد قہار کی ،

وَفِی حَدِیثِ الصُّورِ: أَنَّهُ تَعَالَى إِذَا قَبَضَ أَرْوَاحَ جَمِیعِ خَلْقِهِ،فَلَمْ یَبْقَ سِوَاهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ  حِینَئِذٍ یَقُولُ: لِمَنِ الْمَلِكُ الْیَوْمَ؟  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،ثُمَّ یُجِیبُ نَفْسَهُ قَائِلًا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

اورحدیث صورمیں  ہے کہ اللہ عزوجل جب اپنی تمام مخلوق کی روحوں  کوقبض فرمالے گا اوراس وحدہ لاشریک لہ کے سوااس وقت کوئی اورنہ بچے گاتووہ فرمائے گاتووہ فرمائے گا آج کس کی بادشاہت ہے؟تین بارفرمائے گا پھراپنے آپ کواس کاجواب دیتے ہوئے فرمائے گا اللہ کی جواکیلا،بڑاغالب ہے۔[42]

کہاجائے گاآج ہرمتنفس کواس کی کمائی کاپوراپورابدلہ دیا جائے گاجواس نے دنیامیں  کی تھی،آج کسی پرکسی بھی نوعیت کا ظلم نہ ہوگا،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں  نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں  نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  ہدایت دوں  تم مجھ سے ہدایت مانگو میں  تمہیں  ہدایت دوں  گا، اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  کھلاؤں  تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں  تمہیں  کھانا کھلاؤں  گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  پہناؤں  تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں  تمہیں  لباس پہناؤں  گا،اے میرے بندو تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں  سارے گناہوں  کو بخشتا ہوں  تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں  تمہیں  بخش دوں  گا،

یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں  پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو،اے میرے بندو اگر تم سب اولین و آخرین اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں  کچھ بھی اضافہ نہیں  کر سکتے، اے میرے بندو اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں  کچھ کمی نہیں  کر سکتے،اے میرے بندو اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں  کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں  ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں  تو پھر بھی میرے خزانوں  میں  اس قدر بھی کمی نہیں  ہوگی جتنی کہ سمندر میں  سوئی ڈال کر نکالنے سے،  اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں  کہ جنہیں  میں  تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں  پھر میں  تمہیں  ان کا پورا پورا بدلہ دوں  گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔[43]

اوراللہ کو بندوں  سے ان کے اعمال کاحساب لینے میں  دیرنہیں  لگے گی ۔جیسے فرمایا

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [44]

ترجمہ: اورہماراحکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اوروہ پلک جھپکتےعمل میں  آجاتا ہے ۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۲۸ [45]

ترجمہ:انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھاناتو(اس کے لیے)بس ایساہے جیسے ایک متنفس کو ( پیداکر دینا اور جلا اٹھانا ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

 وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِینَ ۚ مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلَا شَفِیعٍ یُطَاعُ ‎﴿١٨﴾ (المومن)
’’اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہوں گے، ظالموں کا کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے گی۔‘‘

تنبیہ :

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! الْاٰزِفَةُ قیامت کاایک نام ہے ۔فرمایاقیامت کی گھڑی دورنہیں  کہ بے فکرہوجاؤ  بلکہ بالکل قریب ہی آلگی ہے ،اورکسی لمحہ وقوع پذیرہوسکتی ہے ، جیسے فرمایا

اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ [46]

ترجمہ:آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۝۱ [47]

ترجمہ: قیامت کی گھڑی نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا۔

ایک مقام پرمتنبہ فرمائی

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ [48]

ترجمہ:قریب آگیاہے لوگوں  کے حساب کا وقت اوروہ ہیں  کہ غفلت میں  منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

ایک مقام پرارشادفرمایا

اَتٰٓى اَمْرُ اللهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۔۔۔  ۝۱ [49]

ترجمہ:آگیااللہ کافیصلہ اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ  ۔

ایک مقام پریوں فرمایا

فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِیْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَقِیْلَ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ۝۲۷ [50]

ترجمہ:پھرجب یہ اس چیز کو قریب سے دیکھ لیں  گے توان سب لوگوں  کے چہرے بگڑجائیں  گے جنہوں  نے انکارکیاہےاوراس وقت ان سے کہاجائے گاکہ یہی ہے وہ چیز جس کے لیے تم تقاضے کر رہے تھے۔

اس سے پہلے کہ قیامت کی یہ گھڑی وارد ہو جائے آپ لوگوں  کواس دردناک دن کے عذاب سے ڈرائیں  جس کی ہولناکی دیکھ کردل گلے میں  اٹک جائیں  گے،یعنی خوف وہراس کایہ عالم ہوگاکہ کسی کادل ٹھکانے پرنہ رہے گا،

عَنْ قَتَادَةَ، إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ، قَالَ:قَدْ وَقَعَتِ الْقُلُوبُ فِی الْحَنَاجِرِ مِنَ الْمَخَافَةِ، فَلَا هِیَ تَخْرُجُ وَلَا تَعُودُ إِلَى أَمْكِنَتِهَا

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں  گے۔‘‘کے بارے میں  کہتے ہیں   خوف کی وجہ سے دل گلوں  میں  اٹک جائیں  گے نہ باہرنکلیں  گے اورنہ اپنی جگہوں  پرواپس جا سکیں  گے۔[51]

آنکھیں  اوپرکی جانب اٹھی کی اٹھی رہ جائیں  گی،زبانیں  کنگ ہوجائیں  گی اوروہ دلوں  میں  چھپے ہوئے خوف اوردہشت کوزبان پرنہیں  لا سکیں  گےتاکہ اگرکسی نے سنبھلناہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیرسنبھل جائے ورنہ اس وقت یہ ظالم باغی اپنے مشرکانہ اعمالوں  پر پچھتاتے ہوئے غم کے گھونٹ بھر رہے ہوں  گے ، آج ان کاکفروشرک پرایک جتھے کی صورت میں  اتحادواتفاق ہے،یہ کہتے ہیں  کہ ہم اپنے معبودوں  کی پرستش اس لئے کرتے ہیں  کہ وہ اللہ کے ہاں  ان کی درخواستوں  کی رسائی اورروزقیامت سفارش کریں ، جیسے فرمایا

اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۔۔۔۝۳ [52]

ترجمہ:خبرداردین خالص اللہ کا حق ہے، رہے وہ لوگ جنہوں  نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں  (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں  کہ ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں  کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں  ۔

مگراس وقت ان ہستیوں  کی بے بسی ولاچاری کا بھانڈاپھوٹ جائے گا جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی تھی،اورظالموں  کواللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والاکوئی مشفق دوست ہوگا اورنہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا جس کی سفارش اللہ کولازماًقبول ہی کرنی پڑے ، ہربھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں  گے،جیسے فرمایا

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶ [53]

ترجمہ:جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں  پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں  سے بےتعلقی ظاہر کریں  گے مگر سزا پا کر رہیں  گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا ۔

پھر یہ ظالم ایک دوسرے پربہکانے ، گمراہ کرنے کاالزام لگائیں  گے اورہرگروہ دوسرے کوکوس رہا ہوگا مگر مصیبت کی اس کٹھن گھڑی میں  جب ماں  باپ اولادکواوراولادماں  باپ کو بھول چکے ہوں  گے اورہرایک کوصرف اپنی نجات کی فکردامن گیرہوگی۔

یَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ ‎﴿١٩﴾‏ وَاللَّهُ یَقْضِی بِالْحَقِّ ۖ وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا یَقْضُونَ بِشَیْءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ‎﴿٢٠﴾‏ (المومن)
’’وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے،اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے، بیشک اللہ تعالیٰ خوب سنتا خوب دیکھتا ہے۔‘‘

شرک کی تردید:

اللہ تعا لیٰ کفارومشرکین کے معبودوں  کی طرح لاعلم اوربے اختیارنہیں  ہے کہ اسے جن وانس کے کرتوتوں  کاعلم نہ ہو بلکہ وہ صاحب قدرت اور علام الغیوب ہے ، وہ بندوں  کی التجاؤ ں  کوسنتااوران کے حال سے واقف ہے ،کوئی چیزچاہے کتنے ہی دبیزپردوں  میں  چھپی ہوئی ہواس پرعیاں  ہے ،وہ جن وانس کے دلوں  کے بھید،وسوسوں  اور آنکھوں  کی خیانت تک جانتاہے،یہی صاحب علم وقدرت اللہ روزقیامت بغیرکسی کے خوف وخطر،حرص وطمع حق وانصاف کے ساتھ عدل فرمائے گاتاکہ ہرعمل کرنے والے کواس کے عمل کے مطابق جزادے،جیسے فرمایا

۔۔۔ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [54]

ترجمہ: تاکہ اللہ برائی کرنے والوں  کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں  کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں  نے نیک رویہ اختیار کیا ہے ۔

مشرکین کے لاعلم ،عاجز ولاچار معبودفیصلے نہیں  کریں  گے،جب تک اللہ عزوجل کسی کوکلام کی اجازت نہ فرمائے گا اس کی بارگاہ میں  کسی کولب کشائی تک کی جرات وہمت نہ ہو گی،شفاعت یافیصلہ کرناتوبعیدترین بات ہے۔

أَوَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِی الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ ‎﴿٢١﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِیهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٢٢﴾ (المومن)
’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا نتیجہ کیسا ہوا ؟ وہ باعتبار قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے ان سے بہت زیادہ تھے، پس اللہ نے انہیں ان گناہوں پر پکڑ لیا اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیتا،یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس پیغمبر معجزے لے لے کر آتے تھے تو وہ انکار کردیتے تھے، پس اللہ انہیں پکڑ لیتا تھا، یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے۔‘‘

دھمکی:

کفارومشرکین کوآخرت کے احوال کے بعداب انہیں  دنیاکے احوال سے ڈرایاکہ ذرازمین میں  چل پھرکران اقوام کے آثاروکھنڈرات پر غور و فکرکریں  جوان سے پہلے اس جرم تکذیب میں  ہلاک کی گئیں  جس کایہ ارتکاب کررہے ہیں  ،دراں  حالیکہ گزشتہ قومیں  تعداد،سازوسامان ،شان وشوکت،تمکنت اورجسمانی طورپر ان سے کہیں  بڑھ کر تھیں  ، جیسے قوم عادکہتی تھی۔

۔۔۔وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً۔۔۔   [55]

ترجمہ:اورکہتے ہیں کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔

اورانہوں  نے زمین میں  زبردست آثار چھوڑے تھے،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَــرُوْہَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَــرُوْہَا۝۹ [56]

ترجمہ:اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں  چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ انہیں  ان لوگوں  کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے ، انہوں  نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں  نے نہیں  کیا ہے۔

لیکن جب انہوں  نے رسولوں  کو واضح علامات ونشانیوں  کے باوجودجھٹلایا،گناہوں  پر اصرار کیااوردعوت حق کے سامنے دیواربن کرکھڑے ہوگئے،زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق واضح ہدایات کامذاق اڑایا تو ان پراللہ کا عذاب وفعتہ نازل ہوا،پھران کی قوت ،عالیشان عمارتیں ،شان وشوکت ان کے کسی کام نہ آئی، انکاکوئی معبودجن کے وہ گن گاتے تھے،جن کے بڑے بڑے خوبصورت عبادت خانے بناتے تھے،جن کے دربارکے لئے جائیدادیں  وقف کی جاتی تھیں ، جن کے حضوروہ رسومات بندگی بجا لاتے تھے انہیں  اللہ کی گرفت سے نہ بچاسکااسی طرح تم لوگوں  پربھی اچانک عذاب نازل کیاجاسکتاہے ،اگریہ نازل ہوگیا تو پھر تمہارابھی کوئی معبودتمہارا پشت پناہ نہ ہوگا، یقیناً رب العالمین بڑی قوت والااورباغیوں  کو سزادینے میں  بہت سخت ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ۝۱۲ۭ [57]

ترجمہ:درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآیَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِینٍ ‎﴿٢٣﴾‏ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ‎﴿٢٤﴾‏ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْیُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَیْدُ الْكَافِرِینَ إِلَّا فِی ضَلَالٍ ‎﴿٢٥﴾وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِی أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْیَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّی أَخَافُ أَنْ یُبَدِّلَ دِینَكُمْ أَوْ أَنْ یُظْهِرَ فِی الْأَرْضِ الْفَسَادَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ‎﴿٢٧﴾‏(المومن)
’’اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا فرعون ہامان اور قارون کی طرف، تو انہوں نے کہا (یہ تو) جادوگر اور جھوٹا ہے،پس جب ان کے پاس (موسیٰ (علیہ السلام)) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے، اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے، مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے، موسیٰ(علیہ السلام) نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص (کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘

اللہ رب العزت نے اہل مکہ کوسمجھانے کے لیے اقوام سابقہ کے حالات کو بیان فرمایا،ہم نے موسیٰ بن عمران کوقبطیوں  کے بادشاہ فرعون اوراس کاوزیراورمشیرخاص ہامان اور بنی اسرائیل میں وقت کامال دارترین آدمی قارون کی طرف دوبڑے واضح معجزات اوررسالت کی قوی دلیل،صریح علامات کے ساتھ بھیجا، معجزات دیکھ کران کے دلوں  نے حقیقت کوتسلیم کرلیاکہ موسیٰ   علیہ السلام فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامورہوئے ہیں ،جیسے فرمایا

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۔۔۔ ۝۱۴ۧ [58]

ترجمہ:انہوں  نے سراسرظلم اور غرورکی راہ سے ان نشانیوں  کاانکارکیاحالاں  کہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔

مگراپنی جھوٹی انااوربغض وعنادکی بناپراس دعوت پرایمان لانے کے بجائے پہلی اقوام کی طرح ہمارے پیغمبر  علیہ السلام کو ساحرگردانااورکہا یہ رسالت کاجھوٹادعویٰ کرتاہے ،جیسے ارشاد فرمایا

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚاَتَوَاصَوْا بِهٖ۝۰ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۝۵۳ۚ [59]

ترجمہ:یونہی ہوتارہاہے ان سے پہلے کی قوموں  کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں  آیاجسے انہوں  نے یہ نہ کہاہوکہ یہ ساحرہے یا مجنون،کیاان سب نے آپس میں  اس پرکوئی سمجھوتاکرلیاہے؟نہیں  بلکہ یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں  ۔

پھر جب موسیٰ   علیہ السلام نے پے درپے معجزات اورنشانیاں  دکھاکراپنی رسالت کوثابت کردیا توفرعون نے موسیٰ   علیہ السلام کی تذلیل واہانت کے لیے حکم جاری کردیا کہ جو لوگ موسیٰ   علیہ السلام  کی دعوت پر ایمان لاکراس کے اطاعت گزار ہوگئے ہیں  ان سب کے لڑکوں  کوقتل کرواورلڑکیوں  کو جیتا چھوڑ دوتاکہ بنی اسرائیل موسیٰ  علیہ السلام کو اپنے لیے باعث مصیبت اورنحوست سمجھیں  اور خوف زدہ ہوکراس کا ساتھ چھوڑدیں اورفرعون کی یہ ترکیب کچھ کام کرگئی ،چنانچہ بنی اسرائیل نے موسیٰ   علیہ السلام سے کہا

قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۔۔۔۝۰۝۱۲۹ۧ [60]

ترجمہ:اس کی قوم کے لوگوں  نے کہاتیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اوراب تیرے آنے پربھی ستائے جارہے ہیں ۔

فرعون کااصل مقصدیہ تھاکہ بنی اسرائیل کی قوت میں  اضافہ نہ ہواوروہ ان کی غلامی میں  مطیع بن کررہیں مگروہ یہ مقصدحاصل نہ کرسکا بلکہ اس کے مقاصدکے برعکس نتیجہ حاصل ہوا،فرعون ہرحالت میں  موسٰی کوقتل کردیناچاہتاتھاجس کے واضح ترین دلائل کے سامنے اس کی کوئی بات نہیں  چلتی تھی، جس کی وجہ سے اس کی غرورسے تنی ہوئی گردن بھرے مجمع میں  جھک گئی تھی ،جس کی وجہ سے خود اس کی ملکہ ایمان لاکر مزید اس کو ذلت عطاکرگئی تھی ، خود اس کی قوم میں  کچھ نوجوان اس سے بے خوف ہوکر ایمان لے آئے تھے اور ڈر تھاکہ اس کارعب و دبدبہ ختم ہی نہ ہوجائے، ملک میں  موسیٰ   علیہ السلام کی دعوت حق اورچوٹی کے ساحروں  کے دن دھاڑے مقابلے کا چرچا تھا جس میں  دعوت حق کامیاب وکامران ہوئی تھی اورساحروں  نے بھرے مجمع میں  اسلام قبول کرلیا، خطرہ تھاکہ یہ طوفان شدت اختیار نہ کرلے جس سے ان کے پوجے جانے والے معبودوں  کی سبکی ہواوروہ خودبھی بے وقوف گردانے جائیں  ، فرعون اہل ایمان کوفسادی کہتاتھااس لئے اپنی دیدہ دلیری اورتکبرکااظہارکرتے ہوئے کہتاتھاکہ میں  موسٰی کوقتل کردیتاہوں  میں  رب اعلیٰ ہوں  میرے علاوہ کوئی رب نہیں ، مجھے اس کے رب کی کوئی پرواہ نہیں ، موسٰی اپنے رب کوپکار کر دیکھے کہ وہ اسے کیسے مجھ سے بچاتا ہے اوروہ اپنابچاؤ کیسے کرتاہے،پھراپنے سرداروں  سے کہتا اگر اسے زندہ رکھاگیااور اسے قتل نہ کیاگیاتومجھے اندیشہ ہے اس کے دلائل کے آگے کوئی کھڑانہیں  رہ سکے گااس کی دعوت بڑی پرزورہے جس سے لوگ ایمان لاکراس کے ہاتھ مضبوط کرتے رہیں  گے اوروہ رفتہ رفتہ تمہیں  اپنے سب معبودوں  کی عبادت سے ہٹاکراپنے ایک اکیلے رب کی عبادت پرلگادے گا، تمہارابہترین دین ،دینی رسومات وعادات بدل جائیں  گی اوراگرمیری قوم کے کچھ لوگوں  نے اس کی دعوت قبول کرلی تووہ اس دعوت کوقبول نہ کرنے والوں  سے بحث ومباحثہ کرنے لگیں  گے اس طرح دوگرہوں  میں  چپقلش کی وجہ سے ملک میں  فساد برپاہوجائے گا،الغرض وہ ہرحالت میں  موسٰی کوقتل کردیناچاہتاتھا مگر چند امراء اسے ایسا عمل کرنے سے روکتے تھے کہ اگرتم نے اسے قتل کر دیاتولوگ اسے مظلوم اورتمہیں ظالم سمجھ کرمزیداس کی طرفداری کریں  گے،اس کی دعوت کوچارچاندلگ جائیں  گے اورلوگ اس کی دعوت کوقبول کر لیں  گے پھراندیشہ ہے کہ ایسا شدیدطوفان اٹھے گا جو نہ تھمے گااس لئے ابھی تھوڑی نرمی رکھو اوروقت کاانتظارکرو، جب موسٰی کو فرعون کے ارادے کاعلم ہوا کہ وہ انہیں  قتل کرنے کاارادہ رکھتاہے تووہ مطلق خوف زدہ نہ ہوئے اوراپنے رب کی بارگاہ میں  سرجھکاکر اس کے شرسے بچنے کی دعاکی اورفرمایامیں  نے ہراس شخص سے جوشرک وکفرمیں  ڈوب کر رب سے مقابلے کے لئے کمربستہ ہوجائے اور مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہو کر اپنے اعمال کاحساب دینے پریقین نہ رکھتا ہو اپنے رب کی پناہ لے لی ہے وہی اپنی رحمت سے مجھے اپنی حفظ وامان  میں  رکھے گا اور فرعون جوبھی تدبیرکرے گا میراکچھ بھی نہیں  بگاڑپائے گا،

عَنْ أَبِی بُرْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا، قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب دشمن کاخوف ہوتاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاپڑھاکرتے تھے ’’اے اللہ ہم تجھ کوان کے مقابلے میں  کرتے ہیں  اوران کی شرارتوں  سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں ۔ ‘‘[61]

وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَكْتُمُ إِیمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ وَإِنْ یَكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِنْ یَكُ صَادِقًا یُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِی یَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ‎﴿٢٨﴾‏ یَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظَاهِرِینَ فِی الْأَرْضِ فَمَنْ یَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِیكُمْ إِلَّا سَبِیلَ الرَّشَادِ ‎﴿٢٩﴾ (المومن)
’’اور ایک مومن شخص نےجو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے، اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں،اے میری قوم کے لوگو ! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا؟ فرعون بولا میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔‘‘

ایک اہل ایمان سردارکامشورہ اورڈرانا :

دربارمیں  آل فرعون میں  سے ایک طاقتور منصب دار بھی تھاجو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اوربخشی ہوئی توفیق سے ایمان کی دولت سے بہرہ مندہوچکا تھا مگر چندوجوہ کی بناپراعلان نہیں  کیاتھاجب فرعون نے پرزورانداز میں  موسٰی کو قتل کرنے کاعندیہ دیاتواس سردارنے معاملے کواپنے اوران کے درمیان مشترک رکھ کربولا تاکہ ان کوباورکراسکے کہ وہ ان کااسی طرح خیرخواہ ہے جس طرح وہ خوداپنی ذات کاخیرہ خواہ ہے اوران کے لیے بھی وہی کچھ پسندکرتاہے جواپنے لیے پسندکرتاہے،کیاتم لوگ موسٰی کواس گناہ میں  قتل کرنا چاہتے ہو جوصرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب  اللہ ہے اور اس کے پاس  اللہ  تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت کے واضح دلائل ہیں  ، یہی بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  نے فرمائی تھی ،

عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ، قَالَ:قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ: أَخْبِرْنِی بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ المُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، بَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِفِنَاءِ الكَعْبَةِ، إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوَى ثَوْبَهُ فِی عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِیدًافَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں میں  نے عبداللہ بن عمروبن عاص  رضی اللہ عنہ سے پوچھارسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیاکیاتھا؟انہوں  نے کہاکہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کعبہ کے قریب نمازپڑھ رہے تھے، عقبہ بن ابی معیط آیااوراس نے آپ کاشانہ مبارک پکڑ کرآپ کی گردن میں  اپنا کپڑاڈال دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا،اتنے میں  سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  آگئے اورانہوں  نے اس بدبخت عقبہ بن معیط کا مونڈھا پکڑ کراسے رسول اللہ سے جداکیااورفرمایا کیاتم اس شخص کوقتل کرناچاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اوروہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایاہے۔اس پراہل مکہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ آپ زخمی ہوکربیہوش ہو گئے۔[62]

اسی طرح مشرکین نے متعددمرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کرنے کے منصوبے بنائے اور کوششیں  کیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ الْمَلَأَ مِنْ قُرَیْشٍ اجْتَمَعُوا فِی الْحِجْرِ، فَتَعَاقَدُوا بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الْأُخْرَى، وَنَائِلَةَوَإِسَافٍ: لَوْ قَدْ رَأَیْنَا مُحَمَّدًا، لَقَدْ قُمْنَا إِلَیْهِ قِیَامَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَلَمْ نُفَارِقْهُ حَتَّى نَقْتُلَهُ، فَأَقْبَلَتِ ابْنَتُهُ فَاطِمَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا تَبْكِی، حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: هَؤُلَاءِ الْمَلَأُ مِنْ قُرَیْشٍ، قَدْ تَعَاقَدُوا عَلَیْكَ، لَوْ قَدْ رَأَوْكَ، لَقَدْ قَامُوا إِلَیْكَ فَقَتَلُوكَ، فَلَیْسَ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا قَدْ عَرَفَ نَصِیبَهُ مِنْ دَمِكَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےایک دفعہ قریش کے بڑے سردارحطیم میں  اکٹھے ہوئے اورلات،عزٰی،تیسری گھٹیامنات،نائلہ اوراساف کی قسم کھائی اورباہم عہدکیاکہ اگر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو(بیت اللہ کے قریب عبادت کرتے ہوئے )دیکھ لیاتوہم سب ایک دم اس پرٹوٹ پڑیں  گے اورجب تک وہ مرنہ جائے انہیں  نہیں  چھوڑیں  گے،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادی فاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے سن لیں وہ روتی ہوئی واپس گئیں  یہاں  تک کہ رسول اللہ کے پاس پہنچ گئیں  اور کہنے لگیں  کہ سرداران قریش آپ کے متعلق یہ عہد و پیمان کر رہے ہیں  کہ اگر انہوں  نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ آگے بڑھ کر آپ کو قتل کر دیں  گے اور ان میں  سے ہر ایک آپ کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے،

فَقَالَ: یَا بُنَیَّةُ، أَرِینِی وَضُوءًافَتَوَضَّأَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَیْهِمِ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا رَأَوْهُ، قَالُوا: هَا هُوَ ذَا، وَخَفَضُوا أَبْصَارَهُمْ، وَسَقَطَتْ أَذْقَانُهُمْ فِی صُدُورِهِمْ، وَعَقِرُوا فِی مَجَالِسِهِمْ، فَلَمْ یَرْفَعُوا إِلَیْهِ بَصَرًا، وَلَمْ یَقُمِ إلَیْهِ مِنْهُمْ رَجُلٌ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَلَى رُءُوسِهِمْ، فَأَخَذَ قَبْضَةً مِنَ التُّرَابِ، فَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوهُ ثُمَّ حَصَبَهُمْ بِهَا، فَمَا أَصَابَ رَجُلًا مِنْهُمْ مِنْ ذَلِكَ الْحَصَى حَصَاةٌ إِلَّا قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ كَافِرًا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے بیٹی! مجھے وضوکراؤ انہوں  نے وضوکرایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیت اللہ میں  داخل ہوئے، ان لوگوں  نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا تو کہنے لگے وہ یہ رہے لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ انہوں  نے اپنی نگاہیں  جھکالیں  اور ان کی ٹھوڑیاں  ان کے سینوں  پر لٹک گئیں  اور وہ اپنی اپنی جگہ پر حیران پریشان بیٹھے رہ گئے، وہ نگاہ اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھ سکے اور نہ ہی ان میں  سے کوئی آدمی اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف بڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے یہاں  تک کہ ان کے سروں  کے پاس جاکر کھڑے ہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مٹھی بھرمٹی اٹھائی اورفرمایا یہ چہرے بگڑ جائیں  اوروہ مٹی ان پرپھینک دی، جس کسی پراس مٹی کاایک ذرہ بھی پڑگیاوہ غزوہ بدرکے دن کفرکی حالت میں  قتل ہوا ۔[63]

اگر تمہارے دل اس کے د لائل وبراہین سے مطمئن نہیں  ہیں  تب بھی عقل ودانش اوراحتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ اس کواس کے حال پرچھوڑدواوراس سے کوئی تعرض نہ کرو،یہی بات موسیٰ   علیہ السلام فرعون سے کہہ چکے تھے۔

وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ۝۲۱ [64]

ترجمہ:اگر تم میری بات نہیں  مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے بازر ہو۔

اگروہ جھوٹاہے اور اس نے  اللہ تعالیٰ پربہتان باندھاہے تواس کے جھوٹ کاضرراسی کوہوگااوراگروہ اپنی دعوت میں  سچاہے تب تم نے اسے کوئی ایذاپہنچائی توپھروہ تمہیں  جن عذابوں  سے ڈراتاہے تو یقیناً تم پران میں  سے کوئی عذاب نازل ہو سکتاہے، تمہارے خیال کے مطابق اگروہ جھوٹا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دلائل ومعجزات سے نہ نوازتابلکہ اسے مقابلے کے میدان میں  ذلیل و رسواکردیتا،اوراے میری قوم !یہ  اللہ تعالیٰ کا تم پربہت بڑافضل و احسان ہے کہ اس نے تمہیں  زمین پراقتدار عطاکیا ہوا ہے اورایک بڑے علاقہ پر تمہاراحکم جاری کررکھا ہے تواللہ کے اس احسان پرتمہیں رب کا شکرشکرگزارہوناچاہیے ، نعمت غلبہ واقتدار کی ناشکری کرکے اللہ رب العالمین کے غیض وغضب کودعوت نہ دو ، اگر جباروقہاررب نے تم پرعذاب بھیجنے کافیصلہ کرلیا تو غوروتفکر کروکہ وہ کون سی ہستی اور کون سا معبود ہے جوتمہیں   اللہ  کے عذاب سے بچاسکے گااس کائنات میں  وہ کون سی جگہ ہے جہاں  جاکر تم پناہ حاصل کر لو گے اور  اللہ وہاں  نہیں  پہنچ پائے گا، تمہاری بہادرفوجیں  جن کی بڑی دھاک ہے تو کیایہ بڑے لاؤ  لشکرتمہیں  عذاب الٰہی سے بچانے کی طاقت وقدرت رکھتے ہیں یاکوئی اوراسباب و وسائل تمہارے پاس ہیں  جن کی بناپرتم اس عذاب سے محفوظ ہوجاوگے،جب فرعون سے اس سردارکی باتوں  کاکوئی معقول جواب نہ بن پڑاتو(اپنے موقف پرقائم رہ کر)کھسیانہ ہوکرقوم میں  اپنی خیرخواہی جتانے لگا کہ میں  تو جو کچھ دیکھ اورمحسوس کر رہاہوں  وہی تمہیں  بتلا رہا ہوں اورتم دیکھ لوگے میں  نے اپنے مشاہدہ سے جونتیجہ نکالاہے وہی صحیح ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ۝۹۷  [65]

ترجمہ : حالانکہ فرعون کاحکم راستی پرنہ تھا۔

اس طرح فرعون نے اپنی قوم کی صحیح رہنمائی کرنے کے بجائےگمراہ کردیا،جیسے فرمایا

وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَمَا ہَدٰى۝۷۹ [66]

ترجمہ:فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا کوئی صحیح رہنمائی نہیں  کی تھی۔

مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِیَّةً، فَلَمْ یَحُطْهَا بِنَصِیحَةٍ، إِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ،وَرِیحُهَا یُوجَدُ مِنْ مَسِیرَةِ مِائَةِ عَامٍ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہے جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کوکسی قوم کاحاکم بناتاہے اوروہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں  کرتاتووہ جنت کی خوشبوبھی نہیں  پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبوپانچ سوسال کی مسافت سے بھی آرہی ہوگی ۔[67]

خط کشیدہ الفاظ مسنداحمداورالمعجم الکبیرللطبرانی میں  ہیں ۔

‏ وَقَالَ الَّذِی آمَنَ یَا قَوْمِ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ مِثْلَ یَوْمِ الْأَحْزَابِ ‎﴿٣٠﴾‏ مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِینَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ یُرِیدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ ‎﴿٣١﴾‏ وَیَا قَوْمِ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِ ‎﴿٣٢﴾‏ یَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِینَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۗ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ‎﴿٣٣﴾‏وَلَقَدْ جَاءَكُمْ یُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِی شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ یُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ ‎﴿٣٤﴾‏ الَّذِینَ یُجَادِلُونَ فِی آیَاتِ اللَّهِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِینَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ یَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ‎﴿٣٥﴾(المومن)
’’اس مومن نے کہا اے میری قوم (کے لوگو)! مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا، جیسے امت نوح اور عاد وثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا)، اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا، اور مجھے تم پر ہانک پکارکے دن کا بھی ڈر ہے جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے،  تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں ،اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے،  پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں ، اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو ،جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر مغرور سرکش کے دل پر مہر کردیتا ہے۔‘‘

اس سردار نے قوم سے مایوس ہوئے بغیرمسلسل دعوت دی اورانہیں  اقوام سابقہ کے انجام سے ڈرایاکہ اے اہل دربار!تمہاری ہٹ دھرمی اور غروروتکبرکی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہ کرنے اوررب کے رسول کی تکذیب ومقابلے کی بناپر مجھے تمہارے عبرت ناک نجام کااندیشہ ہے کہ کہیں  تمہارے اعمال کی بدولت تم پرایسے عذاب نہ آ جائیں  جیسے تم سے بیشتر طاقتور صاحب حیثیت صاحب اقتداراورصاحب تمکنت گروہوں  قوم نوح ،قوم عاد اوران کے بعدوالی قوموں  پرآیاجن کے کردار واعمال تم سے مختلف نہیں  تھے،  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان پر رحمت نازل کرتے ہوئے کہ وہ اپنے بندوں  پرظلم نہیں  کرناچاہتااپنے رسول بھیجے تا کہ وہ ابلیس کی گمراہ کن راہوں سے نکل کررب کی صراط مستقیم پرآ جائیں  مگروہ بھی تمہاری طرح دعوت حق پر شک وشبہ میں  گرفتار رہے،بشررسول پرایمان نہ لائے ،کفروشرک میں  ڈوب کراپنے آباؤ اجدادکے مشرکانہ دین کوبہترین دین سمجھتے رہے،انہوں  نے رسولوں  کی دعوت کامذاق اڑایاان پر آوازیں  کسیں اوراس دعوت کاراستہ روکنے کے لیے مقابلے پرتل گئے، ابلیس نے اپنے وعدے کے مطابق انہیں  ان کی راہ بدبڑی خوبصورت کرکے دکھلائی، پھران قوموں  کا عبرت ناک انجام تمہارے سامنے ہےان اقوام کے آثاروکھنڈات کودیکھ کرتم فیصلہ کرسکتے ہو کہ کون اللہ کی پاکیزہ دعوت اوراس کے رسول کی تکذیب کرکے سربلندہوااورکیسے رب نے رہتی دنیاتک عبرت کانشان بنادیا، اللہ کے عذاب کے وقت ان کے بیشمارمعبودوں  میں  سے کوئی معبود ان کے کام نہ آیاکوئی طاقت کوئی قوت ان کی مددپرقادرنہ ہوسکی اورناہی  اللہ کے عذاب سے انہیں  کوئی جائے پناہ ملی ،اے میری قوم! اگرتم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو رب اپنی سنت کے مطابق تمہیں  بھی اس دنیاسے نیست ونابودکردے گا جو اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں اورتمہاری جگہ کسی دوسری قوم کوکھڑاکردے گاجواس کی اطاعت گزاراور اس کے دین کوکھڑاکرنے والی ہو گی ، تمہارے مرنے کے بعد تمہارے ظلموں  کی داستان ختم نہیں  ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ تمہاری کرنی کے پھل میں  جزایاسزادینے کے لئے قیامت کے روزتمہیں  تمہاری قبروں  سے دوبارہ زندہ کرکے اپنے حضور لا کھڑا کرے گااس وقت تمہاراایکہ ،جتھا، لاؤ  لشکراورمال ودولت تمہارے کچھ کام نہ آئے گاسب کو اپنے اپنے اعمال کی پڑی ہوگئی، تم ایک دوسرے کومددکے لئےپکاروگے، بھاگے بھاگے پھروگے کہ کسی طرح رب کے قہرو غضب سے بچ جاؤ مگرکوئی جائے پناہ نہ پاؤ  گے، جیسے فرمایا

كَلَّا لَا وَزَرَ۝۱۱ۭاِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ۝۱۲ۭ [68]

ترجمہ: ہرگز نہیں ، وہاں  کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اس روز تیرے رب ہی کے سامنے جا کر ٹھیرنا ہوگا۔

اس عدل و انصاف کے دن تمہاراکوئی حمائتی یامددگارنہ ہوگاجوتمہیں  اللہ مالک یوم الدین سے بچاسکے،وہاں  تمہاراٹھکانہ دردناک عذاب کی جگہ جہنم ہی ہوگاجہاں  نہ تم جی سکو گے اورنہ ہی تمہیں  موت آئے گی، تمہاری بدترین مہمان نوازی کی جائے گی ،موسیٰ  علیہ السلام سے بیشتر تمہارے اسی علاقے میں جس میں  اب تم آبادہو  اللہ  تعالیٰ کے رسول یوسف  علیہ السلام بھی دلائل وبراہین کے ساتھ دعوت حق لے کر آئے تھے اورتمہارے آباؤ اجداد کو راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن قوم نے ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کی تکذیب کی اوران کی نبوت کی طرف سے شک وشبہ میں گرفتاررہے اوراللہ کی آیات پرغوروتدبرکرنے کے بجائے ان کے ساتھ کج بحثیاں  کرتے رہے، پھر طبعی زندگی کے بعد ان کی وفات ہوگئی توتم لوگ ان کی عظمت کااعتراف کرکے کہنے لگے اب  اللہ تعالیٰ کسی کونبی بناکرنہیں  بھیجے گا، ابھی وقت ہے غوروفکرکرلوکہیں  پھرتمہیں  نہ پچھتاناپڑے ،سچ یہ ہے کہ جسے  اللہ بھٹکادے توپھراسے راستہ دکھانے والاکوئی نہیں ہوتا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلًا۝۸۸ [69]

ترجمہ:حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں  پا سکتے ۔

مَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ۝۰ۭ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۝۱۸۶ [70]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں  ہےاور اللہ انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے۔

۔۔۔وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝۳۳  [71]

ترجمہ:پھر جس کو اللہ گمراہی میں  پھینک دے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں  ہے ۔

پھر  اللہ پاکیزہ دعوت حق میں شک وشبہ کرنے والوں  ،حق سے سرکشی کرنے والوں  اور قائم شدہ حدودسے پارنکل جانے والوں  کے دلوں ،کانوں  اورآنکھوں  پرمہر لگا دیتاہے ، جیسے فرمایا

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَةِ۝۰ۙ وَاَنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۱۰۷اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۰۸ [72]

ترجمہ:یہ اس لیے کہ انہوں  نے آخرت کے مقابلہ میں  دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں  کو راہ نجات نہیں  دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں  یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  اور کانوں  اور آنکھوں  پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔

خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ۝۰ۡوَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۷  [73]

ترجمہ:اللہ نے ان کے دلوں  اوران کے کانوں  پرمہرلگادی ہے اوران کی آنکھوں  پرپردہ پڑگیاہےوہ سخت سزا کے مستحق ہیں ۔

۔۔۔فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵  [74]

ترجمہ:پھرجب انہوں  نے ٹیڑھ اختیارکی تواللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے اللہ فاسقوں  کوہدایت نہیں  دیتا۔

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [75]

ترجمہ:ہم اسی طرح ان کے دلوں  اورنگاہوں  کوپھیررہے ہیں  جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب)پرایمان نہیں  لائے تھے ہم انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں ۔

جس کے بعدانہیں  کوئی پاکیزہ بات پسندہی نہیں  آتی اوروہ اپنے کفر و شرک میں  آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں ،

وَقَالَ أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ وَقَتَادَةُ: آیَةُ الْجَبَابِرَةِ الْقَتْلُ بِغَیْرِ حَقٍّ

ابوعمران جونی اورقتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  سرکشوں  کی نشانی یہ ہے کہ وہ ناحق قتل کرتے ہیں ۔[76]

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا هَامَانُ ابْنِ لِی صَرْحًا لَعَلِّی أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ ‎﴿٣٦﴾‏ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّی لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِیلِ ۚ وَمَا كَیْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِی تَبَابٍ ‎﴿٣٧﴾‏(المومن)
’’فرعون نے کہا اے ہامان ! میرے لیے ایک بالا خانہ بنا شاید کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں (ان) دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اور بیشک میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹا ہے ،اور اسی طرح فرعون کی بد کرداریاں اسے بھلی دکھائی گئیں اور راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی (ہر) حیلہ سازی تباہی میں ہی رہی ۔‘‘

فرعون کی سرکشی اورتکبر :

فرعون نے اس مومن کے بہترین اسلوب میں  وعظ ونصیحت کوالتفات کے قابل نہ سمجھااورمتکبرانہ شان کے ساتھ اس کی طرف سے منہ پھیرکراپنے سرداروں  سے بولااے اہل دربار!میں  تواپنے سواتمہارے کسی الٰہ سے واقف نہیں  ہوں اورتمسخراڑاتے ہوئے اپنے وزیر ہامان کو جو اس کے معاملات کابندوبست کرنے والا تھا کہنے لگااے ہامان آگ میں  پکی ہوئی اینٹیں  تیارکرکے میرے لئے ایک عظیم الشان اور بہت اونچی عمارت تیار کر جس پرچڑھ کرمیں  آسمان کے دروازوں  تک پہنچ سکوں  اوردیکھوں  کہ واقعی ہی موسٰی کا میرے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جسے وہ کہتاہے کہ وہ اوپرہے اوروہ زمین وآسمان کاخالق اورمدبرہےساری کائنات کاپالنہارہے اصل میں  تو میں  اسے جھوٹوں  میں  گمان کرتا ہوں  اس کی دعوت کی کوئی حقیقت نہیں ،جیسے فرمایا

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ۝۰ۚ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰہِ مُوْسٰی۝۰ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۳۸ [77]

ترجمہ:اور فرعون نے کہا اے اہل دربار!میں  تو اپنے سوا تمہارے کسی الٰہ کو نہیں  جانتا،ہامان! ذرا اینٹیں  پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا شاید کہ اس پر چڑھ کر میں  موسی  علیہ السلام  کے الٰہ کو دیکھ سکوں میں  تو اسے جھوٹاسمجھتا ہوں ۔

اس طرح ابلیس نے اپنے دعویٰ کے مطابق اسے سیدھی راہ سے گمراہ کیے رکھااوراس کے برے اعمال کوخوبصورت بناکرپیش کرتارہاجسے وہ پسندکرتارہا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۴۳ [78]

ترجمہ:اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہوخوب کر رہے ہو ۔

پھر  اللہ تعالیٰ نے اس کے اعمال کے سبب اس کے دل،کانوں  اورآنکھوں  پرمہرلگا دی اوراسے صراط مستقیم پرآنے سے روک دیا اوروہ گمراہیوں  کی بھول بھلیوں  میں  گم ہوگیا، فرعون نے دعوت حق کودبانے کے لئے جتنی بھی چال بازیاں  اختیارکیں  اس کانتیجہ خوداسی کے حق میں  براثابت ہوااورانجام کار اپنے لشکروں  سمیت غرق کردیاگیا۔

وَقَالَ الَّذِی آمَنَ یَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِیلَ الرَّشَادِ ‎﴿٣٨﴾‏ یَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ ‎﴿٣٩﴾‏ مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُونَ فِیهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٤٠﴾‏ وَیَا قَوْمِ مَا لِی أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِی إِلَى النَّارِ ‎﴿٤١﴾‏ تَدْعُونَنِی لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِیزِ الْغَفَّارِ ‎﴿٤٢﴾‏ لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِی إِلَیْهِ لَیْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِینَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ‎﴿٤٣﴾‏ فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ ‎﴿٤٤﴾‏(المومن)
’’اور اس مومن شخص نے کہا اے میری قوم (کے لوگو)! تم (سب) میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری رہبری کرونگا ،اے میری قوم ! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے ،جس نے گناہ کیا ہے اسے تو برابر ہی کا بدلہ ہے اور جس نے نیکی کی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان والا ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بیشمار روزی پائیں گے، اے میری قوم ! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو،تم مجھے یہ دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ شرک کروں جس کا کوئی علم مجھے نہیں اور میں تمہیں غالب بخشنے والے (معبود) کی طرف دعوت دے رہا ہوں، یہ یقینی امر ہے کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے نہ آخرت میں، اور یہ (بھی یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً ) اہل دوزخ ہیں،پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ،یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگران ہے۔‘‘

مومن سردارکی قوم کودعوت :

وہی طاقتور سرداراپنی قوم سے بولااے میری قو م کے لوگو! میری بات پر اعتبارکرو میں  تمہیں  اس سیدھے راستے کی رہنمائی کروں  گاجس کی طرف موسیٰ  علیہ السلام   علیہ السلام  دعوت دے رہے ہیں  ، فرعون تمہیں جس راستے کی طرف لے جاناچاہتاہے وہ ہدایت کاراستہ نہیں بلکہ وہ گمراہی اورفسادکی راہ ہے ،اے میری قوم! اس چندروزہ زندگی کی رنگینیوں  پرنہ ریجھ جاؤ اس زندگی نے چاہے وہ جتنی لمبی ہو بالآخر ختم ہوجاناہے اس زندگی کی حیثیت جس کے لئے تم کتنی تگ ودو،ظلم وذیادتی ،قتل وغارت ، نافرمانیاں  اور ناشکریاں کرتے ہوتم لوگوں  نے اس زندگی کے سامان کواتنا پھیلایا ہواہے کہ گویاتم نے مرناہی نہیں  اوردوبارہ زندہ ہوکررب کوحساب نہیں  دیناحالانکہ یہ زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلے میں  ایک گھڑی سے بھی کم ہے، اوراس زندگی کے لئے تم کچھ زاد راہ اکھٹانہیں  کرتے جوہمیشگی کی زندگی ہوگی،پھرانہیں  دنیاسے بے رغبت اورآخرت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہااہل ایمان مرد ہوں  یاعورتیں  اگراس دعوت پرایمان لاکراعمال صالحہ اختیارکریں  گے تواللہ انہیں  انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل فرمائے گا،جہاں  رب کی رضا اور رحمت ان کے شامل حال ہوگی اورانہیں  رب کی طرف سے ہروہ چیزمہیاکی جائے گی جس کی وہ تمناکریں گے اورانہیں  بے حدوحساب ایسارزق دیاجائے گاجن کی لذت کا تصورہی محال ہے ،اوراگر شرک ،فسق یامعصیت کاارتکاب کروگے تواللہ تعالیٰ تمہیں  جہنم میں  دھکیل دے گاجہاں رب کی ناراضگی اور غضب ہوگا،تمہیں بدترین غذااوربدترین مشروب دیے جائیں  گے ،اے میری قوم !کیاتم میں  کچھ عقل وشعورنہیں  کہ حق وباطل میں  تمیزکرکے وہ راہ اختیارکروجس میں  تمہاری فلاح ہو، میں  توتمہیں  فلاح ونجات کی راہ کی دعوت دیتا ہوں  کہ تمام باطل معبودوں  کی عبادات سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کروجوتمہاراخالق وپالنہارہےاور اس کے مبعوث کئے ہوئے رسول کی جو تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے بھیجا گیاہے تکذیب کرنے کے بجائے تصدیق اوراس کی اطاعت کرو،اس راہ پرچل کرہی تمہاری اخروی زندگی میں  نجات ممکن ہے ،رب کی رضامندی اور مغفرت ہے، اس کی انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت ہے جس میں  حسین وجمیل حوریں  اوربے شمارموتیوں  کی طرح چمکتے ہوئے غلمان ہیں جس میں  تمہاراقیام ہوگااوررب کی زیارت ہوگی جس کے مقابلے میں  جنت کی ہرنعمت ہیچ ہوگی، اس پاکیزہ دعوت کے مقابلے میں  تم لوگ مجھے کفروشرک کی دعوت دیتے ہو اوران ہستیوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شریک کرنے کو کہتے ہوجوبس چندنام ہیں  جوتم اورتمہارے آباء واجدادنے گھڑ رکھے ہیں ، جو نہ کسی کی پکارسننے کی استعداد رکھتے اورنہ کسی کونفع یا نقصان پہنچانے پرقادرہیں  ، نہ توانہیں  الوہیت وربوبیت کااستحقاق حاصل ہے اورنہ ہی روزآخرت میں  کسی کوعذاب سے چھڑانے پریا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں  گے، اب تم خودفیصلہ کرلوبھلا ایسے بودے معبود اس لائق ہیں  کہ ان سے ڈروخوف رکھاجائے ، انہیں  خوش کرنے کے لئے ان کی عبادت کی جائے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵   [79]

ترجمہ:آخراس شخص سے زیادہ بہکاہواانسان اورکون ہو گا جو اللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کوپکاررہے ہیں ۔

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۝۰ۭ وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۝۱۴ۧ [80]

ترجمہ:انہیں  پکاروتووہ تمہاری دعائیں  سن نہیں  سکتے اورسن لیں  تواس کاتمہیں  کوئی جواب نہیں  دے سکتے اورقیامت کے روزوہ تمہارے شرک کاانکارکردیں  گے ،حقیقت حال کی ایسی صحیح خبرتمہیں  ایک خبردارکے سواکوئی نہیں  دے سکتا۔

بھائیو! جس راہ پرتم چل رہے ہو یہ تورب کو غضبناک کرنے کا راستہ ہے جوسیدھاجہنم کی وادیوں میں  جاتاہے اے لوگو!اآخرکارایک وقت مقررہ پرلوٹناتورب کی طرف ہی ہے جہاں  میدان محشرمیں  میزان عدل قائم کیاجائے گا اورہرشخص کواپنے اعمال کاحساب دینا ہوگا،ہرایک شخص کے اعمال کاوزن کیاجائے گااور اس کے مطابق جزایاسزادی جائے گی ،جیسے فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷  [81]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں  گے پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں  گےاور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

 وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [82]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگاجن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں  مبتلا کرنے والے ہوں  گےکیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ [83]

ترجمہ:اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں  گےوہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی لوگ ہوں  گے جنہوں  نے اپنے آپ کو گھاٹے میں  ڈال لیاوہ جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۶ۙفَہُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۸ۙفَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِیَہْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ [84]

ترجمہ: پھرجس کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہ دل پسند عیش میں  ہوگا،اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں  گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی،اور تمہیں  کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟ بھڑکتی ہوئی آگ۔

اے لوگو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدودکوپامال نہ کرو اگر ایسا کرو گے تو جہنم کی آگ تمہاراٹھکانہ ہوگاجوبہت ہی بری جگہ ہے ،جیسے فرمایا

وَلِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۶ [85]

ترجمہ:جن لوگوں  نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

 وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝۵۵ۙجَہَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلَوْنَہَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۵۶ [86]

ترجمہ:اور سرکشوں  کے لیے بدترین ٹھکانا ہے ،جہنم جس میں  وہ جھلسے جائیں  گے بہت ہی بری قیام گاہ۔

ابھی میری باتیں  تمہاری سمجھ میں  نہیں  آتیں  ابلیس نے تمہاری آنکھوں  پرپٹی باندھی ہوئی ہے مگرعنقریب وہ وقت آنے والاہے جب تم میری باتوں  کویادکروگے ،مذمت کا اظہار کرو گے مگرپانی پل کے نیچے سے گزرچکا ہوگا اس وقت تمہاری مذمت کااظہارتمہیں  کچھ بھی فائدہ نہیں  دے گا،اس اہل ایمان شخص کواب یقین ہوگیاکہ دعوت حق پیش کرنے کے جرم میں  فرعون کی پوری سلطنت کاعتاب اس پرٹوٹ پڑے گااورہوسکتاہے کہ اسے جان سے ہی ماردیاجائے چنانچہ آخرمیں  اس نے کہامیں  تم لوگوں  سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتاہوں  اوراپنامعاملہ رب کریم کے سپردکرتاہوں  جو اپنے بندوں  کو دیکھ رہاہے ، میرارب جومستحق ہدایت ہوتاہے اسے ہدایت سے نوازتا ہے اور ضلالت کااستحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکنارکرتاہے ان امور میں  جوحکمتیں  ہیں  ان کووہی خوب جانتا ہے وہ بڑا ہی مہربان اور مغفرت کرنے والا ہے۔

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَیِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ‎﴿٤٥﴾‏ النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا ۖ وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ‎﴿٤٦﴾(المومن)
’’پس اسے اللہ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا ،آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘

مومن سردارکے خلاف اقدام :

اس مومن سردارکی فرعون کے دربارمیں  ایک اچھی حیثیت تھی مگرفرعون اوراس کے سرداراس مومن کوکیسے معاف کرسکتے تھے جوبرملاڈنکے کی چوٹ پرحق بات کی دعوت دے گیاتھا،جوتبلیغ کاحق اداکرگیا تھا ،بادشاہ وقت فرعون اوراس کی قوم کوگمراہ کہہ کراسے جہنم کی وعیددے گیاتھا،ان کے معبودوں  کو جن کووہ الٰہ مان کر عبادت کرتے تھے ان کے حضور نذرونیازپیش کرتے ان کے ناموں  کے نعرے لگاتے اور مشکلوں  میں  ان سے داروفریاد کرتے تھے ان کوبے بس لاچار کہہ کر ان کی توہین کرگیاتھا،چنانچہ وہ فرعون اور اہل فرعون کے عتاب کاشکار ہوا مگر جسے  اللہ رکھے اسے کون چکھے وہ اس کاکچھ بھی نہ بگاڑپائے ، اللہ نے ان کی تمام تدابیر بد اور سازشوں کوناکام بنادیا اوراسے موسٰی کے ہمراہ نجات دی، آخرت میں  اس کاٹھکانارب کی جنتوں  میں  ہوگااورفرعون اوراس کے سردارہاتھ ہی ملتے رہے، موسٰی ، ہارون  علیہ السلام  ،اس مومن سرداراوراس کی قوم کے نوجوانوں  پران کا کچھ بس نہ چلا،وہ رب کی حفظ وامان میں  رہے ،رب کی رضاحاصل کرنے میں  کامیاب وکامران رہے اورفرعون اپنے پورے جاہ وجلال ،رعب ودبدبہ ،طاقت وقوت،مال وزراوراس کے سرداررب کی شدید پکڑ میں  آ گئے کوئی طاقت ،لشکر، قلعہ اوران کا کوئی الٰہ انہیں  رب کی گرفت سے نہ بچاسکا رب نے رہتی دنیاتک انہیں  عبرت کانشانہ بنادیا، جیسے فرمایا

وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّعَدْوًا۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَآ اَدْرَكَہُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً ۔ ۔ ۔ ۝۹۲ۧ [87]

ترجمہ:اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے پھر فرعون اور اس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلےحتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں  نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں  ہے جِس پر بنی اسرائیل ایمان لائےاور میں  بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں  میں  سے ہوں ( جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے ! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں  میں  سے تھا اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں  گے تاکہ تو بعد کی نسلوں  کے لیے نشان عبرت بنے ۔

عالم برزخ میں فرعون اوراس کی قوم کوصبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ ہروقت ہول کھاتے رہیں  ،

عَنْ قَتَادَةَ، {النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا} قَالَ: یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا صَبَاحًا وَمَسَاءً،  یُقَالُ لَهُمْ: یَا آلَ فِرْعَوْنَ هَذِهِ مَنَازِلُكُمْ، تَوْبِیخًا وَنَقْمَةً وَصَغَارًا لَهُمْ

قتادہ رحمہ اللہ  آیت کریمہ’’دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں   انہیں صبح وشام جہنم کی آگ کے سامنے پیش کیاجاتاہے جب تک دنیاباقی رہے گی ان سے کہاجائے گااے آل فرعون!یہ ہیں  تمہارے گھر، یہ ان سے ازراہ سرزنش وسزاوتذلیل کہاجائے گا۔[88]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ ،إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَیُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى یَبْعَثَكَ اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ، إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک تم میں  سے کوئی ایک جب فوت ہوجاتاہے توصبح وشام اس کاٹھکانااس کے سامنے پیش کیاجاتاہے اگراہل جنت میں  سے ہوتواہل جنت کاٹھکانااسے دکھایاجاتاہےاوراگروہ اہل جہنم میں  سے ہوتواہل جہنم کاٹھکانااسے دکھایاجاتاہےاوراس سے کہاجاتاہے کہ یہ ہے تیراٹھکاناحتی کہ اللہ عزوجل تجھے قیامت کے دن اس ٹھکانے پرپہنچادے گا۔[89]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقبریاتوجنت کے باغوں  میں  سے ایک باغ ہے یادوزخ کے گڑھوں  میں  سے ایک گڑھا۔[90]

یعنی برزخی زندگی میں  فرعون اورآل فرعون کو آگ کامزہ چکھایاجارہاہے ،جس طرح اس اہل ایمان شخص کی زندگی کو جنت کی زندگی کہاگیاہے جسے اپنے ایمان کے اظہار اور انبیاء کرام کی حمایت میں  بولنے پرقتل کردیاگیاتھا،جیسے فرمایا

اِنِّىْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ۝۲۵ۭقِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ۝۰ۭ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۙبِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ۝۲۷ [91]

ترجمہ:میں  توتمہارے رب پرایمان لے آیاتم بھی میری بات مان لو(آخرکاران لوگوں  نے اسے قتل کردیااور)اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ داخل ہوجاجنت میں ،اس نے کہا کاش میری قوم کومعلوم ہوکہ میرے رب نے کس چیزکی بدولت میری مغفرت فرمادی اورمجھے باعزت لوگوں  میں  داخل فرمایا۔

بعض گروہ برزخ کی زندگی کوتسلیم نہیں  کرتے مگرقرآن مجیدمیں یہ دونوں  مقامات عالم برزخ کے دونوں  پہلوؤ ں  کواجاگرکرتے ہیں  ،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ یَهُودِیَّةً كَانَتْ تَخْدُمُهَا، فَلَا تَصْنَعُ عَائِشَةُ إِلَیْهَا شَیْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، إِلَّا قَالَتْ لَهَا الْیَهُودِیَّةُ: وَقَاكِ اللَّهُ عَذَابَ الْقَبْرِ ، قَالَتْ: فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیَّ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِلْقَبْرِ عَذَابٌ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: لَا، وَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَتْ: هَذِهِ الْیَهُودِیَّةُ لَا نَصْنَعُ إِلَیْهَا مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، إِلَّا قَالَتْ: وَقَاكِ  اللَّهُ عَذَابَ الْقَبْرِ، قَالَ:كَذَبَتْ یَهُودُ، وَهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَكْذَبُ، لَا عَذَابَ دُونَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک یہودی عورت ان کی خدمت کیا کرتی تھی، عائشہ رضی اللہ عنہ  اس کے ساتھ جب بھی کوئی نیکی کرتیں  تو وہ انہیں  یہ دعا دیتی کہ اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے یہاں  تشریف لائے تو میں  نے ان سے پوچھا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا قیامت کے دن سے پہلے قبر میں  بھی عذاب ہو گا؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نہیں ، مگر تم کیوں  پوچھ رہی ہو؟میں  نے عرض کی کہ اس یہودیہ کے ساتھ میں  جب بھی کوئی بھلائی کرتی ہوں  تو وہ یہی کہتی ہے کہ اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہودی جھوٹ بولتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جھوٹی نسبت کردیتے ہیں  قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہ ہوگا،

قَالَتْ: ثُمَّ مَكَثَ بَعْدَ ذَاكَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَمْكُثَ، فَخَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ نِصْفَ النَّهَارِ مُشْتَمِلًا بِثَوْبِهِ، مُحْمَرَّةً عَیْنَاهُ، وَهُوَ یُنَادِی بِأَعْلَى صَوْتِهِ:أَیُّهَا النَّاسُ، أَظَلَّتْكُمُ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، أَیُّهَا النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ بَكَیْتُمْ كَثِیرًا وَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا، أَیُّهَا النَّاسُ، اسْتَعِیذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ

تھوڑے عرصے بعد جب تک اللہ کو منظور ہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نصف النہار کے وقت اپنے کپڑے اوپر لپیٹے ہوئے اس حال میں  نکلے کہ آنکھیں  سرخ ہو رہی تھیں  اور بآ واز بلند فرما رہے تھےاے لوگو! تم پر تاریک رات کے ٹکڑوں  کی طرح فتنے چھا گئے ہیں ،اے لوگو! جو میں  جانتا ہوں  اگر تم جانتے ہوتے تو زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے،اے لوگو! عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرواور عذاب قبر برحق ہے۔[92]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بہت سی دعائیں  اس کی تائیدکرتی ہیں ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَیَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ یَهُودِ المَدِینَةِ، فَقَالَتَا لِی: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ یُعَذَّبُونَ فِی قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ  أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَیْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ یُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا فَمَا رَأَیْتُهُ بَعْدُ فِی صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمدینہ منورہ کے یہودیوں  کی دوبوڑھی عورتیں  میرے پاس آئیں  اورانہوں  نے مجھ سے کہاکہ قبروالوں  کوان کی قبرمیں  عذاب ہوگا لیکن میں  نے انہیں  جھٹلایااوران کی تصدیق نہیں  کرسکی،پھروہ دونوں  عورتیں  چلی گئیں  اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومیں  نے عرض کیادوبوڑھی یہودی عورتیں  آئی تھیں  اور پھر میں  نے آپ سے واقعہ کا ذکرکیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہوں  نے صحیح کہا قبر والوں  کو عذاب ہوگااوران کے عذاب کوتمام چوپائے سنیں  گے،پھرمیں  نے دیکھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر نمازمیں  قبرکے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔[93]

أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِی امْرَأَةٌ مِنَ الْیَهُودِ، وَهِیَ تَقُولُ لِی: أَشَعَرْتِ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِی الْقُبُورِ، فَارْتَاعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنَّمَا تُفْتَنُ الْیَهُودُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثْنَا لَیَالِیَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِی الْقُبُورِ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ یَسْتَعِیذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم میرے پاس تشریف لائے اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی وہ عورت کہہ رہی تھی کیاتجھے معلوم ہے کہ تم قبروں  میں  فتنے میں  مبتلاکیے جاؤ گے یعنی تم لوگ قبر میں  آزمائے جاؤ گے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ سن کرکانپ اٹھے اورفرمایاصرف یہودی(قبروں  میں )آزمائے جائیں  گے ،  ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ چندراتیں  گزری تھیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاتجھے معلوم ہے یہ بات مجھے وحی کی گئی کہ یقیناًتم قبروں  میں  فتنے میں  مبتلاکیے جاؤ  گے، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قبرسے پناہ طلب کیاکرتے تھے۔[94]

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک دعایہ بھی تھی،

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَتَعَوَّذُاللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الغِنَى، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگاکرتے تھے ’’اے اللہ ! میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  دوزخ کی آزمائش سے،دوزخ کے عذاب سے اورتیری پناہ مانگتاہوں  قبرکی آزمائش سے اورتیری پناہ مانگتاہوں  قبرکے عذاب سے اورتیری پناہ مانگتا ہوں  مالداری کی آزمائش سے اورتیری پناہ مانگتاہوں  مسیح دجال کی آزمائش سے۔‘‘[95]

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: تَعَوَّذُوا بِكَلِمَاتٍ كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ بِهِنَّ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ البُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْیَا، وَعَذَابِ القَبْرِ

اورمصعب بن سعدنے فرمایااللہ کی پناہ مانگوجن کے ذریعہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پناہ مانگاکرتے تھے’’اے اللہ!میں  تیری پناہ مانگتاہوں  بزدلی سےاور تیری پناہ مانگتا ہوں  بخل سے اور تیری پناہ مانگتاہوں  اس سے کہ ناکارہ عمرکوپہنچوں  اورتیری پناہ مانگتاہوں  دنیاکی آزمائش سے اورقبرکے عذاب سے۔‘‘[96]

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو فِی الصَّلاَةِ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْیَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازمیں  یہ دعا مانگتے تھے’’اےاللہ! میں  پناہ مانگتاہوں  تیری قبرکے عذاب سےاورمیں  پناہ مانگتاہوں  تیری دجال کے فتنہ سےاور پناہ مانگتاہوں  تیری زندگی اورموت کے فتنہ سے،   اےاللہ !پناہ مانگتاہوں  میں  تیری گناہ اورقرضداری سے۔‘‘[97]

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوبھی اس کی تلقین فرماتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ یَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی تم میں  سے نمازمیں  تشہدپڑھے توچارچیزوں  سے پناہ مانگے، ’’اےاللہ! میں  پناہ مانگتا ہوں  تیری جہنم کے عذاب سےاورقبرکے عذاب سےاورزندگی اورموت کے فتنہ( عذاب) سےاوردجال کے فتنہ سے۔‘‘[98]

اورجب قیامت کی گھڑی آجائے گی تواللہ مالک یوم الدین حکم فرمائے گا کہ فرعون اور آل فرعون کوجہنم کے شدید تر عذاب میں  دھکیل دو ۔

وَإِذْ یَتَحَاجُّونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِیبًا مِنَ النَّارِ ‎﴿٤٧﴾‏ قَالَ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِیهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ ‎﴿٤٨﴾ (المومن)
’’اور جب کہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر والوں سے (جن کے یہ تابع تھے) کہیں گے ہم تو تمہارے پیرو تھے تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو ؟ وہ بڑے لوگ جواب دیں گے ہم تو سبھی اس آگ میں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔‘‘

فرعون اورموسیٰ   علیہ السلام کاعبرت ناک واقعہ سناکر عام لوگوں  کوخبردارکیاکہ ابھی توتم اپنے بااثرسرداروں  کے خوف سے دعوت حق کوتسلیم نہیں  کررہے مگر روزقیامت تم پران کی بڑائی کی حقیقت کھل جائے گی کہ یہ تمہارے کسی کام آنے والے نہیں  ہیں ، اس وقت تم انہیں  ذلیل کرنے کے لئے کہوگے کہ جناب عالی! دنیامیں  توآپ بڑے طنطنے سے ہم پراپنا سرداری نظام چلاتے تھے،ہم آپ کی بڑائی اوربزرگی کے قائل تھے اورہم آپ کے تقدس اورعلم وفضل،سرداری اورحکومت کی بناپرآپ کی باتیں  تسلیم کرتے اورآپ کی تابعداری کرتے تھے ، یہ مصیبت ہمیں  آپ ہی کی تعبداری کی وجہ سے آئی ہے اب آپ ہمیں  اس آفت سے بچائیں یاہمارے عذابوں  کاکچھ حصہ اپنے اوپراٹھالیں ،اس وقت یہ بڑے بااثررؤ سا،طاقتورسرداراوربزرگ بے بسی سے جواب دیں  گے کہ ہم دونوں  ہی سزایافتہ ہیں ،ہم بھی تمہارے ساتھ ہی جہنم میں جل بھن رہے ہیں ،ہمارے اپنے عذاب کیاکم ہیں  کہ تمہارے عذاب بھی اٹھائیں ؟اب اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جس کوجوسزاملنی تھی مل چکی ،رب ہرشخص کے اعمال کے مطابق جوفیصلے صادر کر چکا سوکر چکا اس کے فیصلہ میں  تغیر وتبدل کرنااب کسی کے اختیارمیں  نہیں  ہے۔

وَقَالَ الَّذِینَ فِی النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ ‎﴿٤٩﴾‏قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِیكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِینَ إِلَّا فِی ضَلَالٍ ‎﴿٥٠﴾ (المومن)
’’اور (تمام) جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کر دے، وہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزے لے کر نہیں آئے تھے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، وہ کہیں گے پھر تم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا محض بےاثر اور بےراہ ہے۔‘‘

دوزخیوں  کاایک مکالمہ :

جب اہل دوزخ اپنے ٹھکانے پرپہنچ جائیں  گے اورجہنم کی آگ انہیں  ہرطرف سے گھیرلے گی تواللہ تعالیٰ سےجہنم سے نکالنے کی التجاکریں  گے۔

 رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷ قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸ [99]

ترجمہ:اے پروردگار! اب ہمیں  یہاں  سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں  تو ظالم ہوں  گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں  اور مجھ سے بات نہ کرو۔

اپنی التجاسے مایوس ہوکرپھریہ سزایافتہ لوگ جہنم کے کارندوں  سے گزارش کریں  گے کہ اپنے رب سے صرف ایک دن کے لیے ہماری سزامیں  تخفیف کے لئے دعاکروشایداس سے کچھ راحت حاصل ہو ،وہ جواب دیں  گے ہم ایسے لوگوں  کے حق میں  اللہ سے کیوں  کرکچھ کہہ سکتے ہیں  جن کے پاس اللہ کے پیغمبردلائل ومعجزات لے کرآئے مگرانہوں نے ان کی دعوت کوتسلیم نہ کیا اور اسی وجہ سے آج اس عذاب میں  مبتلاہیں ،کیونکہ دنیامیں  تم اپنی طرف سے ہرعذر،حجت اورمعذرت کی گنجائش پہلے ہی ختم کرچکے ہواوریہ دارالجزاء ہے اس لئے اب ہم جوتم سے بیزاراورتمہارے دشمن ہیں ،ہمارا اللہ تعالیٰ سے تمہارے حق میں  دعاکرناکسی طرح بھی ممکن نہیں  ہےہاں  تم خوددعاکرناچاہوتوکرکے دیکھ لو لیکن تمہاری فریادکی کوئی شنوائی نہیں  ہوگی ۔

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْهَادُ ‎﴿٥١﴾‏ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ‎﴿٥٢﴾‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْهُدَىٰ وَأَوْرَثْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْكِتَابَ ‎﴿٥٣﴾‏ هُدًى وَذِكْرَىٰ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ‎﴿٥٤﴾(المومن)
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے،جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لیے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لیے برا گھر ہوگا، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ عطا فرمایا اور بنو اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لیے۔‘‘

یقین جانوکہ ہم اپنے رسولوں  اورایمان لانے والوں  کے دشمنوں  کواس دنیامیں  ذلیل ورسوا اوران کوغالب کردیتے ہیں  اورقیامت کے روزبھی جب اللہ کی عدالت قائم ہوگی، اور فرشتے اورانبیاء ومرسلین گواہ کے طورپر کھڑے ہوں  گے ان کواچھے اعمال کی بہترین جزادیں  گے اورانہیں  انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  عزت وتکریم کے ساتھ داخل کردیں  گے ، وہ دارالجزاہے وہاں  کفارومشرکین سے معذرت یافدیہ قبول نہیں  کیاجائے گاوہ اللہ کی رحمت سے دوردھکیل دیے جائیں  گے اوران کے لیے جہنم کابدترین ٹھکاناہو گا،آخردیکھ لوفرعون کے مقابلے میں  ہم نے موسیٰ   علیہ السلام کی قدم قدم پررہنمائی کی،یہاں  تک کہ انہیں  کامیابی وکامرانی کی منزل پرپہنچادیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ایساہی معاملہ ہم تمہارے ساتھ بھی کریں  گےہم نے تمہیں  بے یارومددگارنہیں  چھوڑدیابلکہ ہم تمہاری پشت پرہیں اورتمہاری رہنمائی کررہے ہیں ،ہم نے موسیٰ   علیہ السلام  کونبوت اور تورات عطافرمائی تھی جوعقل ودانش رکھنے والوں  کے لئے ہدایت ونصیحت تھی،جیسے فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ  ۔۔۔۝۴۴ [100]

ترجمہ:ہم نے توراة نازل کی جس میں  ہدایت اورروشنی تھی۔

اوران کے بعد بنی اسرائیل کونسل درنسل تورات کا وارث بنادیاانہوں  نے تواس کتاب کاحق ادانہ کیامگر مسلمانوں  کویہ سعادت نصیب ہوگی کہ وہ قرآن کریم کے وارث بن کر دنیامیں  ہدایت کے علم برداربن کراٹھیں  گے ۔

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْكَارِ ‎﴿٥٥﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یُجَادِلُونَ فِی آیَاتِ اللَّهِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِنْ فِی صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِیهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ‎﴿٥٦﴾ (المومن)
’’ پس اے نبی ! تو صبر کر، اللہ کا وعدہ بلا شک (وشبہ) سچا ہی ہے، تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح شام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ، جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الٰہی میں جھگڑا کرتے ہیں ،ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں، سو تو اللہ کی پناہ مانگتا رہ بیشک وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیکھنے والا ہے۔‘‘

صبرکی تلقین :

پس اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !کفارومشرکین کی قینچی کی طرح چلتی زبانوں  ،خفیہ چالوں  اورانسانیت سوزظلم وستم سے رنجیدہ نہ ہوں  ،جوحالات تمہیں  اورمسلمانوں  کو درپیش ہیں  ان کو پہلے اولوالعزم پیغمبروں  کی طرح اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ ،تم بے صبرہوکرچاہتے ہوکہ اللہ کوئی معجزہ دیکھادے جسے دیکھ کر کفار اس دعوت کے قائل ہو جائیں  ،مسلمانوں  کے خلاف مخالفت کایہ طوفان تھم جائے،جس سے دعوت حق کوفروغ ملے ،یقیناًایساہی ہوگا،اللہ کاوعدہ برحق ہے ،انجام کے لحاظ سے آپ ہی غالب رہیں  گے،اوراپنی اس کمزوری پر استغفار کرتے رہیں اوراپنے موقف پرچٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں  ،اورمشکلات ومصائب کامقابلہ کرنے کے لیے اپنے پروردگارکی حمدوتسبیح کرتے رہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ غروروتکبرمیں  مبتلا لوگ ہیں  اوراوراپنے باطل نظریات کے ذریعے سے حق پرغالب آنا چاہتے ہیں ،اوراسی مقصد کے لیے غیر معقول بحث ومباحثہ کرتے ہیں ، لوگوں  کے دلوں  میں شکوک وشبہات پیداکرتے ہیں مگرحق کوکمزوراورباطل کومضبوط کرنے کاجومقصدیہ حاصل کرناچاہتے ہیں  وہ کبھی حاصل نہ کرسکیں  گے ، ان کی یہ مرادکبھی پوری نہ ہوگی کیونکہ حق توہمیشہ ہی سربلندرہتاہےلہذاموسیٰ  علیہ السلام  کی طرح تم بھی مشرکین کی دھمکیوں  ،سازشوں  اورہرقسم کے شر سے اللہ واحدقہار کی پناہ مانگ کربے فکر ہو کر اپنے فرض منصبی کوپوراکرنے میں  لگ جاؤ ،وہ سب کچھ دیکھتااورسنتاہے ۔

 لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٥٧﴾(المومن)
’’آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) اکثر لوگ بےعلم ہیں۔‘‘

انسان کی دوبارہ پیدائش کے دلائل :

سرداران قریش کی سازشوں  پرتبصرہ کرنے کے بعدعام لوگوں  کوسمجھایاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جن حقائق کوماننے کی دعوت دے رہے ہیں  وہ سراسرمعقول ہیں  اورانہی کے مان لینے میں  ہی تمہاری دنیاوی واخروی بھلائی ہے اورنہ ماننا خودتمہارے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوگا،اس سلسلے میں  سب سے پہلے عقیدہ آخرت کے دلائل پیش کیے گئے ،جسے کفارومشرکین بعیدازفہم سمجھتے تھے کہ اگرتم سنجیدگی سے غوروفکر کروتوتمہارے لئے یہ سمجھناکچھ مشکل نہ ہوگاکہ جس اللہ وحدہ لاشریک نے بغیرکسی شریک اوربغیرکسی نمونے کے یہ عظیم الشان کائنات تخلیق فرمائی ہے ، جس نے اتنے بڑے بڑے اجرام فلکی کوان کے کام کے لحاظ سے نہایت مہارت سے تخلیق کیا ہے پھرسورج چاندستاروں  اورہواؤ ں  کا کجی سے پاک ایک مربوط نظام بنایاہے،جس نے زمین پرایک اندازے پرطرح طرح کے طاقتوار خونخوار درندے ، پالتو مویشی ، ہوامیں  قلابیں  بھرتے رنگ برنگ کے چھوٹے بڑے پرندے،زمین پررنگتے ہوئے حشرات الارض اورسمندروں  میں  رہنے والی ان گنت مخلوقات کوتخلیق کیاہےاوران تمام مخلوقات کے لئے خوراک کابندوبست فرمایاہےکیااس خالق ومدبر اور منتظم کے لئے جنات و انسانوں  کوجزاوسزاکے لئے دوبارہ پیداکرناکوئی مشکل یادشوارکام ہوسکتا ہے؟ جیسے فرمایا

 اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳  [101]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں  کو یہ سجھائی نہیں  دیتا کہ جس اللہ نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں  اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں  کو جلا اٹھائے؟ کیوں  نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔

لیکن اکثرلوگ اس دلیل پرغوروتدبرنہیں  کرتے۔

‏ وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِیءُ ۚ قَلِیلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٥٨﴾‏إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیهَا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٩﴾(المومن)
’’ اندھا اور بینا برابر نہیں، نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے بدکاروں کے( برابر ہیں) تم (بہت) کم نصیحت حاصل کر رہے ہو، قیامت بالیقین اور بلاشبہ آنے والی ہے لیکن (یہ اور بات ہے کہ) بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘‘

اوپرکی آیت میں  فرمایاگیاتھاکہ آخرت کاہوناناممکنات میں سے نہیں  ہے،یہاں  فرمایاکہ عقل اورانصاف کاتقاضایہی ہے کہ آخرت کوہوناچاہیے تاکہ بدکاروں  کوان کی برائی کی سزا اورنیکوکاروں  کوان کی بہترین جزاملے ،اگرآخرت نہ ہوتونیکیوکاراوربدکاردونوں  ایک ہی انجام سے دوچارہوں  گے ،نہ کسی کوبدکاری کی سزاملے گی اورنہ کسی کونیکی کی جزا، پھرنیکوکاروں  کوتقویٰ اختیارکرنے کی کیاضرورت ہے ،اب تم لوگ خودہی غوروفکرکرلو کیااندھاجوکچھ نہیں  دیکھ سکتا اوربیناجوراستے کودیکھ کرچلتاہے یکساں  ہوسکتے ہیں  ؟ جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۰ۭ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۝۵۰ۧ [102]

ترجمہ:پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں  والا دونوں  برابر ہو سکتے ہیں  ؟کیا تم غور نہیں  کرتے ؟ ۔

۔۔۔قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۔۔۔۝۱۶ [103]

ترجمہ:کہوکیا اندھا اور آنکھوں  والا برابر ہوا کرتا ہے؟ ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙ [104]

ترجمہ:اندھا اور آنکھوں  والا برابر نہیں  ہے۔

کیاایک ایمانداروصالح شخص جس کے بہترین اخلاق ہیں  اور بد کار متکبرشخص جس نے معاشرے میں  فسادپھیلارکھاہے برابرٹھیرسکتے ہیں ؟کیاپاک اورناپاک برابرہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ۔۔۔۝۱۰۰ۧ [105]

ترجمہ:اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں  نہیں  ہیں  خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں  کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔

کیارات اوردن ایک جیسے ہو سکتے ہیں ؟کیااندھیرااوراجالابرابرہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔اَمْ ہَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ۔۔۔۝۱۶ [106]

ترجمہ:کیا روشنی اور تاریکیاں  یکساں  ہوتی ہیں ؟ ۔

 وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙ [107]

ترجمہ:نہ تاریکیاں  اور روشنی یکساں  ہیں  ۔

کیاٹھنڈی چھاؤ ں  اوردھوپ برابرہوسکتی ہے،کیازندہ اورمردہ برابرہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚ وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۔۔۔۝۲۲ [108]

ترجمہ:نہ ٹھنڈی چھاؤں  اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہےاور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں ۔

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔۔۔۝۹ۧ [109]

ترجمہ:ان سے پوچھوکیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں  کبھی یکساں  ہو سکتے ہیں  ؟ ۔

کیااہل جنت اوراہل دوزخ برابرہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۔۔۔۝۲۰ [110]

ترجمہ:دوزخ میں  جانے والے اور جنت میں  جانے والے کبھی یکساں  نہیں  ہو سکتے۔

کیا آگ اورپانی ایک تاثیر رکھتے ہیں ؟ اگر اس حقیقت پرغوروتدبرکروتوتم لوگ آخرت پر ایمان لے آؤ گے، یقیناًایک وقت مقررہ پرقیامت کی ہولناک گھڑی آنے والی ہے ، اس کے واقع ہونے میں  کوئی شک وشبہ نہیں  تاکہ ہرشخص کواس کے اعمال کی جزادی جاسکے، اتمام حجت کے لیے انبیاء ومرسلین اس کے بارے میں  خبردارکرچکے ہیں  اور تمام منزل کتابوں  میں  اس دن کے ہولناک احوال کی خبردے دی گئی ہے مگراس کے باوجوداکثرلوگ اس المنا ک دن پرایمان نہیں  لاتے اورخالق کائنات کی قدرت پرشک وشبہ کرتے ہیں ۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَ ‎﴿٦٠﴾ (المومن)
’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔‘‘

عبادت کی روح دعاہے:

آخرت کی دلیل کے بعدتوحیدکی دعوت دی جوکفاراورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دوسری بنائے نزاع تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت تھی کہ تمام معبودان باطلہ سے تائب ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں  اپنی گردنیں  جھکادواوراس سے اپنے گناہوں  کی بخشش طلب کرو،اپنی مشکلات ومصائب میں  چپکے چپکے ،یادل میں خالص اللہ تعالیٰ کو پکارو ، اسی کے حضوراپنی حاجتیں  پیش کروجونداؤ ں  کاسننے والا،قبول کرنے والااوربندوں  کی ضروریات کوپوراکرنے پرقادرہے ، جومالک کائنات ہے اورجس کے پاس ہر طرح کے خزانے اور کلی اختیارہیں ،غیراللہ تواللہ کی مخلوق ہیں  جوقیامت تک تمہاری دعاؤ ں  کونہیں  سن سکتے ہیں  اوراگرفرض محال سن بھی لیں توتمہاری پکارکاجواب نہیں  دے سکتے اور نہ ہی ان کے پاس کسی طرح کا اختیارہی ہے کہ تمہاری حاجات کوپوراکرسکیں  ، جیسے فرمایا

اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۔۔۔۝۱۴ۧ [111]

ترجمہ:انہیں  پکارو تو وہ تمہاری دعائیں  سن نہیں  سکتے اور سن لیں  تو ان کا تمہیں  کوئی جواب نہیں  دے سکتےاورقیامت کے روزوہ تمہارے شرک کاانکارکردیں  گے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۹۴ [112]

ترجمہ:تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں  پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں  جیسے تم بندے ہو ،ان سے دعائیں  مانگ کر دیکھویہ تمہاری دعاؤں  کا جواب دیں  اگر ان کے بارے میں  تمہارے خیالات صحیح ہیں ۔

بلکہ وہ تواس سے بھی بے خبرہیں  کہ انہیں  پکاراجارہاہے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ [113]

ترجمہ: آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں  ۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸ فَكَفٰى بِاللہِ شَہِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹ [114]

ترجمہ:جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں ) اکٹھا کریں  گے، پھر ان لوگوں  سے جنہوں  نے شرک کیا ہے کہیں  گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں  گے اور ان کے شریک کہیں  کہ تم ہماری عبادت تو نہیں  کرتے تھےہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بےخبر تھے۔

اپنے خالق ،مالک اوررازق سے دعامانگناہی عین تقاضائے بندگی ہے ،اس لئے اللہ کی عبادت سے منہ موڑکر اعتراف عبودیت سے مت کتراؤ ،

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ ، ثُمَّ قَرَأَ:{ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَكُمْ، إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی} [115]

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادعاعین عبادت ہے پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں  تمہاری دعاؤں  کو قبول کروں  گا۔‘‘تلاوت فرمائی۔ [116]

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ یَرُدُّ القَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءُ، وَلاَ یَزِیدُ فِی العُمْرِ إِلاَّ البِرُّ

سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قضاکوکوئی چیزنہیں  ٹال سکتی مگردعا(یعنی اللہ کے فیصلے کوبدل دینے کی طاقت کسی میں  نہیں  مگراللہ خوداپنافیصلہ بدل سکتا ہے( اوریہ اس وقت ہوتاہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے)اورنہیں  بڑھاتی عمرکومگرنیکی۔[117]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ أَحَدٍ یَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلاَّ آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهُ، مَا لَمْ یَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِیعَةِ رَحِمٍ.

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہے  آدمی جب کبھی اللہ سے دعامانگتاہے اللہ اسے یاتووہی چیزدیتاہے جس کی اس نے دعاکی تھی یااس درجے کی کوئی بلااس پرآنے سے روک دیتاہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یاقطع رحمی کی دعانہ کرے۔[118]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ ،اللَّهُمَّ ارْحَمْنِی إِنْ شِئْتَ ،وَلَكِنْ لِیَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ،فَإِنَّهُ لاَ مُسْتَكْرِهَ لَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں  سے کوئی شخص دعامانگے تویوں  نہ کہے اےاللہ! اگر تو چاہے تومجھے بخش دے،اگرچاہے تومجھ پررحم فرما  بلکہ یقین کے ساتھ دعاکرے  کیونکہ اللہ پرکوئی زبردستی کرنے والانہیں  ہے۔[119]

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یُحِبُّ أَنْ یُسْأَلَ ،  وَأَفْضَلُ العِبَادَةِ انْتِظَارُ الفَرَجِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے اس کافضل مانگوکیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائےاوردعاکے قبول ہونے کاانتظارکرنا افضل عبادت ہے۔[120]

اورجولوگ اپنے تکبرو گھمنڈ میں  آکراللہ سے دعانہیں  کرتے ،وہ اللہ کو دعاؤ ں  کاسننے والا اور قبول کرنے والا اور بااختیار نہیں  سمجھتے ،ایسے لوگ ذلیل ورسواہوکرجہنم میں  داخل ہوں  گے،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، أَمْثَالَ الذَّرِّ، فِی صُوَرِ النَّاسِ، یَعْلُوهُمْ كُلُّ شَیْءٍ مِنَ الصَّغَارِ، حَتَّى یَدْخُلُوا سِجْنًا فِی جَهَنَّمَ، یُقَالُ لَهُ: بُولَسُ، فَتَعْلُوَهُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ، یُسْقَوْنَ مِنْ طِینَةِ الْخَبَالِ، عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ

عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتکبرکرنے والوں  کوقیامت کے دن انسانوں  کی صورتوں  میں  چیونٹیوں  کی طرح اٹھایاجائے گا جن پرہرقسم کی ذلت و رسوائی چھائی ہوگی، حتی کہ وہ جہنم کی ایک جیل میں  داخل ہوں  گے جسے بولس کہاجائے گاپس اللہ کی بڑی آگ ان پرچھائی ہوگی، (اور)انہیں  پینے کے لیے دوزخیوں  کالہواور پیپ دی جائے گی۔ [121]

اللَّهُ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ لِتَسْكُنُوا فِیهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٦١﴾‏ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ كَذَٰلِكَ یُؤْفَكُ الَّذِینَ كَانُوا بِآیَاتِ اللَّهِ یَجْحَدُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ (المومن)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے رات بنادی کہ تم اس میں آرام حاصل کرواور دن کو دیکھنے والا بنادیا، بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے،یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہر چیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر کہاں تم پھرے جاتے ہو، اس طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔‘‘

 توحیدکی دلیل:

یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں  رحمت،اس کالامحدودفضل وکرم ،اس کی قدرت کاملہ ،اس کی عظیم قوت اوروسیع اقتدار ہے کہ اس ذات نے تاریک رات کوتمہارے لیے سکون و راحت کی چیزبنایا ،اور دن کوخوب روشن بنایا تاکہ انسانوں  کوسفر،کام کاج اورطلب معاش میں  سہولت ہو ، اللہ تعالیٰ نے ان دونشانیوں  کوتوحیدکی دلیل کے طور پر پیش فرمایاکہ زمین اورسورج کا ایک خاص رفتارسے گردش کرناجس سے رات اور دن باقاعدگی سے ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں ،اس بات کی صریح دلیل ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی ا لٰہ حکمران ہے،اگرکائنات میں ایک الٰہ کے بجائے کئی الٰہ ہوتے ،کوئی زمین کاالٰہ ہوتااورکوئی سورج کاتوہرطرح کی کجی سے پاک یہ نظام کبھی قائم نہیں  رہ سکتا تھا، جیسے فرمایا

مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۹۱ۙ [122]

ترجمہ:اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں  بنایا ہے اور کوئی دوسرا الٰہ اس کے ساتھ نہیں  ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر الٰہ اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲ [123]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں  تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔

لَوْ كَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَةٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۝۰ۚ فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۲۲ [124]

ترجمہ:اگر آسمان و زمین میں  ایک اللہ کے سوا دوسرے الٰہ بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان) دونوں  کا نظام بگڑ جاتاپس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں  سے جویہ لوگ بنا رہے ہیں  ۔

اوردن ورات کاایک دوسرے کے پیچھے آنااورانسانوں  اوردوسری بے شمارزمینی مخلوقات کے لئے فائدہ مند ہونابھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کائنات کی سب چیزوں  کاخالق ورازق ہے ،اس لئے احسان مندی کاتقاضاتویہ ہے کہ اسی ہستی کاشکرگزارہوناچاہیے جوبے شمار نعمتوں  کوعطافرمانے والا ہے،جواپنی الوہیت اور ربوبیت میں  منفردہے اورہرچیزکوپیداکرنے اور رزق دینے والاہے ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللہِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۔۔۔۝۳ [125]

ترجمہ:لوگوتم پر اللہ کے جو احسانات ہیں  انہیں  یادرکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں  آسمان اور زمین سے رز ق دیتا ہو؟۔

اس کے سواکوئی معبودحقیقی نہیں ،

۔۔۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔۔۔۝۱۰۲ [126]

ترجمہ:کوئی الٰہ اس کے سوا نہیں  ہے۔

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔۔۔۝۲۵۵ [127]

ترجمہ:اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہےاس کے سوا کوئی الٰہ نہیں  ہے۔

اوریہ بات توسراسراپنے مالک کی ناشکری ہے کہ خالق و رازق تو اللہ وحدہ لاشریک ہو اورمستحق عبادت بن جائیں  وہ جوخودمخلوق ہیں  ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭ [128]

ترجمہ:اور وہ دوسری ہستیاں  جنہیں  اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں  وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں  ہیں  بلکہ خود مخلوق ہیں ۔

جن کی شکل وصورت تم خودگھڑتے ہو اور پھر ان کو بغیرکسی دلیل کے انہیں  لامحدود اختیار وقدرت کامالک سمجھتے ہو،جیسے فرمایا

وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ  ۔۔۔۝۱۱۷ [129]

ترجمہ:اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارےجس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَیْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ۔۔۔۝۷۱ [130]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں  جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود ان کے بارے میں  کوئی علم رکھتے ہیں ۔

مگران واضح نشانیوں  کے باوجودتم خالق کائنات کی عبادت سے منہ موڑتے اوراس کی مخلوق کی چوکھٹ پرپیشانیاں  رگڑتے ہوجومحض بے بس ولاچارہیں  اوراپنے رب کے درکے سوالی ہیں ،تمہاری طرح ہراقوام میں  لوگ شاطر سرداروں ،پروہتوں  کے فریب میں  مبتلاہوتے رہے ہیں ،وہ بھی ان کے بہکاوے میں  آکربغیرکسی دلیل وحجت غیراللہ کی عبادت کرنے لگے تھے ،انہوں  نے بھی خواہش نفسانی میں  مبتلاہوکراللہ کی ہر سو بکھری نشانیوں  کی تکذیب کی تھی ، ان کے رسولوں  نے انہیں  شیطان کے اس فریب میں  مبتلا ہونے سے روکا مگرانہوں  نے اپنے معبودوں  کی اندھی محبت میں  گرفتارہوکرکوئی دلیل نہ مانی اوران خودغرض فریبیوں  کے جال میں  پھنستے چلے گئے جواپنی دوکان چمکانے کے لئے جعلی الٰہوں  کے آستانے بنائے بیٹھے تھے ۔

اللَّهُ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ هُوَ الْحَیُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦٥﴾(المومن)
’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، پس بہت برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا، وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں  پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

اوریہ بھی اللہ کی ہی قدرت ہے کہ اس نے بے حدوحساب مختلف النوع آبادی کے لئے زمین کو جائے قرار،بساط،بچھونابنایا،جیسے فرمایا

الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا۔۔۔۝۲۲ [131]

ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا۔

اس کوآبادرکھنے کے لئے ہواکامناسب دباؤ ،پانی کاایک بڑا ذخیرہ ،متوازن کشش، شدیدحرارت کاحامل سورج سے مناسب فاصلہ ،سیاروں  کی ایک خاص رفتارسے گردش کا ایک نظام قائم فرمایا،پھراسی اللہ نے زمین کے اوپرایک نہایت مستحکم سماوی نظام تعمیرکردیاجس سے گزرکرکوئی تباہ کن چیزتم تک نہیں  پہنچ سکتی حتی کہ آفاق کی مہلک شعاعیں  تک نہیں  پہنچ سکتیں ،کیایہ عظیم الشان تخلیقی منصوبے کسی خالق حکیم کی منصوبہ بندی کے بغیر خود بخودمحض ایک حادثہ کے نتیجے میں قائم ہوگئے ہیں ؟یاان کوتخلیق کرنے اورانہیں  روبعمل لانے میں  کسی دیوی دیوتا،جن،نبی ولی یافرشتے کاکوئی دخل ہے؟پھراس خالق نے انسان کوسب حیوانات سے زیادہ خوش شکل اورمتناسب الاعضاء بنایااس کونہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی وذہنی قوتیں  عطا فرمائیں ،جیسے فرمایا

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [132]

ترجمہ:ہم نے انسان کوبہترین ساخت پرپیداکیا ۔

یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ۝۶ۙالَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [133]

ترجمہ:اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں  ڈال دیاجس نے تجھے پیدا کیا تجھے نک سک سے درست کیاتجھے متناسب بنایااور جس صورت میں  چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟۔

پھر پیداہوتے ہی ماں  کے سینے میں پاکیزہ ، قوت بخش ،خوش ذائقہ اورپرورش ونشونماکے لئے موزوں  ترین رزق کابندوبست فرمایا کیایہ کسی نبی ولی یادیوی دیوتا کی قدرت و اختیارسے ہوا ؟ کیایہ اس بات کاصریح ثبوت نہیں  ہے کہ تمہارا پیداکرنے والامحض خالق ہی نہیں  بلکہ خالق حکیم اوررب رحیم ہے، جوالحی القیوم ہے اوروہی حیات کامل کا مالک تمہاراحقیقی معبودہے،اس کے سواکسی کوازلی وابدی حیات نہیں  ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔كُلُّ شَیْءٍ ہَالِكٌ اِلَّا وَجْہَہٗ۔۔۔۝۸۸ۧ [134]

ترجمہ: ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔

کسی کے پاس کوئی طاقت واختیار نہیں  توپھرعبادت کامستحق بھی صرف ایک اللہ ہی ہے دوسراکوئی نہیں جس نے ان تمام امورکی تدبیرکی ہے اورتمہیں ان نعمتوں  سے بہرہ ور کیا ہے ،اس لئے اپنے دین کو خالص اللہ کے لئے کرکے اس کی بندگی کرو،

عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَیْرِ یَقُولُ فِی دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ حِینَ یُسَلِّمُ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، لَا  إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاهُ، وَلَهُ النِّعْمَةُ، وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ، وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ قَالَ:وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ

ابوزبیرسے مروی ہےعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہرنمازسے سلام پھیرنے کے بعدیہ کلمات کہاکرتے تھے ’’اللہ کے سواکوئی بھی لائق عبادت نہیں  ،وہ اکیلاہے کوئی اس کاشریک نہیں  ، ساری بادشاہت اس کے لیے ہے اسی کے لیے تمام تعریفیں  ہیں اوروہی ہرچیزپرقادرہے، کسی کام کی بھی طاقت وقوت اللہ کی مددکے بغیرممکن نہیں ،اوراللہ کے سواکوئی معبود نہیں  اورہم اس کے سواکسی کی عبادت نہیں  کرتے،اسی کی عطافرمائی ہوئی سب نعمتیں  ہیں ،اسی کاہم پرفضل وکرم ہے اوراسی کے لیے ہی سب اچھی اچھی تعریفیں  ہیں ،اللہ کے سواکوئی معبودنہیں (ہم تو پورے)اخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کرتے ہیں  خواہ کافروں  کوکتناہی برالگے۔‘‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہرنمازکے بعد ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے۔[135]

ہم نے پہلی اقوام کوبھی یہی پیغام دیاتھا

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ ۔۔۔۝۵ۭ  [136]

ترجمہ:ان کواس کے سواکوئی حکم نہیں  دیاگیاتھاکہ اللہ کی بندگی کریں  اپنے دین کواس کے لیے خالص کرکے ،بالکل یک سو ہو کر ۔

اسی کو اپنی ضروریات ، مشکلات اورمصائب میں  پکارو،وہی سب کی فریادیں  اور التجائیں  سننے پرقادرہے ،اس کے سواکوئی بھی کسی بھی طریقے سے کسی کی بات سننے پرقادر نہیں  ہے ، جب حقیقت یہ ہے تو دوسرے مشکل کشائی اورحاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں ،چنانچہ ہرطرف سے کٹ کراسی کی بندگی کے گن گاؤ ،اس کے سواکوئی اورنہیں  جس کی حمدوثناکے گیت گائے جائیں  اورجس کے شکرانے بجالائے جائیں ۔

قُلْ إِنِّی نُهِیتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِیَ الْبَیِّنَاتُ مِنْ رَبِّی وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦٦﴾‏هُوَ الَّذِی خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُیُوخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ یُتَوَفَّىٰ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٧﴾ هُوَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ‎﴿٦٨﴾(المومن)
’’ آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو، اس بنا پر کہ میرے پاس میرے رب کی دلیلیں پہنچ چکی ہیں، مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا تابع فرمان ہوجاؤں،وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا  پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے، پھر (تمہیں بڑھاتا ہے کہ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہوجاؤ، تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں، (وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو،وہی ہے جو جلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے ، پھر وہ جب کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے ہوجاپس وہ ہوجاتا ہے۔‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرکین کودعوت توحید:

اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے دلائل میں  فرمایااے نبی!ان لوگوں  سے کہہ دوکہ مجھے توان تمام اصنام ،بتوں  اورہراس چیزکی عبادت سے روکاگیاہے جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے ،اورمیں  یہ مشرکانہ کام کیسے کرسکتاہوں جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے دلائل وبراہین ، کھلی نشانیاں  آچکی ہیں ،مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں  رب العالمین کے احکام کے سامنے جومیراخالق،مالک اوررازق ہے سرافگندہ کردوں ،انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کاذکرکیاکہ انسان کے جدامجدآدم  علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں  سے کھنکھناتی مٹی سے بنایا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚ  [137]

ترجمہ: ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ [138]

ترجمہ:انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا۔

قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۔۔۔۝۷۵ [139]

ترجمہ:رب نے فرمایا اے ابلیس!تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں  نے اپنے دونوں  ہاتھوں  سے بنایا ہے؟۔

پھرنسل انسانی کی بقاوتحفظ کے لئے انسانی تخلیق کو (سوائے عیسیٰ   علیہ السلام  کے)نطفے سے وابستہ کر دیا جو صلب پدر سے رحم مادرمیں  جاکرقرارپکڑتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔ ۝۵ [140]

ترجمہ:ہم جس(نطفے)کوچاہتے ہیں  ایک وقت خاص تک رحموں  میں  ٹھیرائے رکھتے ہیں ۔

پھرخون کالوتھڑابن جاتاہےپھرہڈیاں  تخلیق ہوتی ہیں  پھرماں  کے پیٹ ہی میں  اس کی جنس،شکل وصورت،جسم کی ساخت،ذہن کی خصوصیات،قوتیں  وصلاحیتیں  ، نیک بخت یا بدبخت اورعمر متعین ہوجاتی ہے اورپھرروح پھونکی جاتی ہے اس طرح ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں  منتقل ہوتے ہوئے ایک حقیرپانی کی بوند سے مکمل بچہ بن کر دنیامیں  آجاتاہے،اس طرح اللہ تعالیٰ ہرانسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں  سے گزارتاہوامقررہ عمرتک لے جاتاہے ،کیایہ ساری باتیں  اس حقیقت کی نشان دہی نہیں  کر رہی ہیں  کہ تمہارارب ایک ہی ہے اورتمہارامعبودبھی ایک ، اس کے سواکوئی معبودنہیں ،اس کے سواکوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں ، زندگی دینااورفوت کرنابھی اسی کے اختیار میں  ہے ، اس کے سوااورکسی کواس کی قطعاًقدرت نہیں  ہے، اسی کی متعین کی ہوئی عمرکے مطابق بعض رحم مادرمیں ،بعض بچپن میں ،بعض جوانی میں  اوربعض بڑھاپے سے قبل کہولت میں  اور بعض کولمبی عمردینے کے بعدمارکرموت کی وادیوں  میں  سلادیتاہے،کوئی نفس ،کسی سبب سے یاکسی سبب کے بغیراس کے حکم کے بغیرمرنہیں  سکتا یہ سب کام اسی ایک کے حکم تقدیراورتدبیرہوتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۱۱ [141]

ترجمہ:کوئی عمرپانے والا عمرنہیں  پاتااورنہ کسی کی عمر میں  کچھ کمی ہوتی ہے مگریہ سب کچھ ایک کتاب میں  لکھاہوتاہے،اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔

اس کی قدرت کاملہ کاتویہ حال ہے کہ جس چیزکاوہ ارادہ فرمائے خواہ یہ کام چھوٹاہویابڑا اسے کہتاہے(كُنْ) ہوجااوروہ ہوجاتی ہے،اس حکم کوردیااس سے گریز یاانکارنہیں  کیا جا سکتا تو پھر ایسی قدرتوں  والی ہستی کو چھوڑ کر کوئی نبی یا ولی یافرشتہ یا کوئی ستارہ اورسیارہ آخرکیسے بندگی وعبادت کامستحق ہوسکتاہے؟ کسی بندے کویہ مقام کب سے حاصل ہوگیا کہ اس سے دعائیں  مانگیں  جائیں  اور انہیں  اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کامختار مان لیاجائے؟اورکسی انسانی طاقت کویہ منصب کیسے حاصل ہوگیاکہ اس کے قانون اوراس کے امرونہی اوراس کے خودساختہ حلال وحرام کی بے چوں  و چراں  اطاعت کی جائے؟ اس کے ساتھ تمہیں  یہ بھی سمجھ لیناچاہے کہ جواللہ اتنی قدرتوں  والا ہے اس کے لئے قیامت والے دن انسانوں  کوجزاوسزا کے لئے دوبارہ زندہ کر دینا بھی کچھ مشکل نہیں  ہے اور وہ یقینا ًسب کوزندہ فرمائے گا ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یُجَادِلُونَ فِی آیَاتِ اللَّهِ أَنَّىٰ یُصْرَفُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ إِذِ الْأَغْلَالُ فِی أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ یُسْحَبُونَ ‎﴿٧١﴾‏ فِی الْحَمِیمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُونَ ‎﴿٧٢﴾ثُمَّ قِیلَ لَهُمْ أَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَیْئًا ۚ كَذَٰلِكَ یُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِینَ ‎﴿٧٤﴾‏ ذَٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِینَ ‎﴿٧٦﴾ (المومن)
’’کیا تو نےا نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ،وہ کہاں پھیر دئیے جاتے ہیں، جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انہیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہوجائے گی، جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجریں ہوں گی گھسیٹے جائیں گے کھولتے ہوئے پانی میں اور پھر جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ جو اللہ کے سوا تھے وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے بہک گئےبلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے، اللہ تعالیٰ کافروں کو اسی طرح گمراہ کرتا ہے، یہ بدلہ ہے اس چیز کا جو تم زمین میں ناحق پھولے نہ سماتے تھے، اور( بےجا) اتراتے پھرتے تھے،(اب آؤ )جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لیے ،(اس کے) دروازوں میں داخل ہوجاؤ، کیا ہی بری جگہ ہے تکبر کرنے والوں کی۔‘‘

  کفارکوعذاب جہنم اورطوق وسلاسل کی وعید:

اللہ تعالیٰ نے مکذبین کی ٹھوکرکھانے کی اصل وجہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ اللہ کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں  اوران پر نازل کی ہوئی تعلیمات پرخوش ہونے اوران پرایمان لانے کے بجائے تسلیم نہیں  کرتے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا۝۰ۭ ھُوَخَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸ [142]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہوکہ یہ اللہ کافضل اوراس کی مہربانی ہے کہ یہ چیزاس نے بھیجی ہے اس پر تو لو گوں  کوخوشی منانی چاہیے۔

اوراللہ کی آیات پرسنجیدگی کے ساتھ غوروتدبرکرنے کے بجائے انکار و تکذیب کرتے ہیں ،پروپیگنڈے کے ذریعہ حق کو مشتبہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،دعوت حق کا راستہ روکنے کے لیے بدترین حربے استعمال کرتے ہیں ،مگرسکرات موت کے وقت جب فرشتے سختی سے ان کی روح قبض کریں  گے اس وقت ہی ان پر صحیح حقیقت واضح ہوجائے گی کہ حق پرکون تھااورباطل پرست کون ، اورعالم برزخ میں  یہ صبح وشام آگ کے سامنے پیش کیے جاتے رہیں  گے اورروزقیامت اللہ تعالیٰ کے عدل وانصاف پرمبنی فیصلہ کے بعدایسے مکذبین کی گردنوں  میں  آگ کے طوق ڈال دیئے جائیں  گےاورسترگزلمبی زنجیروں  سے ان کواوران کے شیاطین کوجکڑدیاجائے گاجس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں  کر سکیں  گے ، جب وہ پیاس کی شدت سے مجبورہوکرپانی مانگیں  گے تودوزخ کے کارکن ان کوزنجیروں  سے کھنچتے،گھسیٹتے ہوئے کھولتے ہوئے پانی کے چشموں  پرلے جائیں  گے ، جہاں یہ اس کھولتے ہوئے پانی کوپیاسے اونٹوں  کی طرح پئیں گے،جیسے فرمایا

فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ۝۵۴ۚفَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ۝۵۵ۭ [143]

ترجمہ:اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے۔

جب وہ پانی پی کرفارغ ہوجائیں  گے تودوبارہ انہیں  کھینچتے ہوئے دوزخ کے دروازوں  کی طرف لے آئیں  گےاورجہنم اورکھولتے ہوئے پانی پرآنے کا سلسلہ جاری رہے گا ، جیسے فرمایا

 یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [144]

ترجمہ:اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں  گے۔

اوردروغہ جہنم ان کے شرک اورکذب پران کی زجروتوبیخ کریں  گے اوران سے پوچھیں  گے اب کہاں  ہیں  اللہ کے سواوہ دوسرے الٰہ جن کوتم اس کے ساتھ شریک کرتے تھے؟ تم انہیں  اللہ کی بارگاہ میں  اپناسفارشی سمجھتے تھے توکیاوہ تمہاری شفاعت کی جرات کرسکے؟ کیاوہ اللہ کے حضوراتنے باثرتھے کہ انہوں  نے سامنے آکر تم سے جہنم کے اس المناک عذاب کودورکرادیاہو؟ تم لوگ توان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرتے تھے پھراس برے وقت میں  وہ تمہیں کیوں  نہیں  آکرچھڑاتے؟ انہوں  نے تمہیں یوں  کسمپرسی کی حالت میں  کیوں  چھوڑدیا؟وہ مایوسی سے جواب دیں  گے ہمیں  نہیں  معلوم کہ وہ کہاں  گم ہوگئے ہیں اور اگر موجودبھی ہوتے تب بھی وہ ہمیں  کوئی فائدہ نہیں  پہنچاسکتے تھے،پھروہ اپنے معبودوں  کی الوہیت کاانکارکرتے ہوئے کہیں  گے اب ہم پریہ بات اچھی طرح کھل گئی ہے کہ جن کی خوشنودی کے لیے ہم مراسم عبودیت بجالاتے تھے ، اللہ کوچھوڑکر جنہیں  دنیامیں  ہم اپنی مشکلات ومصائب میں  پکارتے تھے ، ان کے پاس توکچھ بھی قدرت و اختیارنہ تھا،وہ بھی ہماری طرح اللہ کے بے بس و لاچاربندے تھے ،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْٓا اَیْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۲۲ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ [145]

ترجمہ:جس روزہم ان سب کو اکٹھا کریں  گے اورمشرکوں  سے پوچھیں  گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے شریک کہاں  ہیں جن کوتم اپناالٰہ سمجھتے تھے تووہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں  گے کہ(یہ جھوٹابیان دیں  کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگزمشرک نہ تھے۔

اس طرح اللہ کافروں  کاگمراہ ہونامتحقق کردے گا، جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا یَتَّبِـــعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۶۶  [146]

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے سواکچھ (اپنے خودساختہ)شریکوں  کو پکار رہے ہیں  وہ نرے وہم وگمان کےپیروہیں  اورمحض قیاس آرائیاں  کرتے ہیں ۔

وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [147]

ترجمہ: اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں  گے۔

فرشتے کہیں  گے جب رسولوں  اوراہل ایمان نے دلائل وبراہین کے ساتھ تمہارے سامنے دعوت حق پیش کی گی توتم نے اس پرکچھ غوروتدبرنہ کیا، تم اپنے تکبر، کفروتکذیب اور فسق وفجورمیں  اتنے غرق تھے کہ الٹے اپنی باطل پرستی پر خوش ہوتے اورناحق اتراتے تھے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے دروازوں  میں  داخل ہوجاؤ جومتکبروں  کاٹھکانہ ہے،پھرہرایک کواس کے عمل کے مطابق جہنم کے طبقات میں  سے ایک طبقے میں  داخل کر دیا جائے گا جہاں  ان کومحبوس کرکے ذلیل ورسوا کیا جائے گاجہاں  انہیں  کبھی سخت گرمی میں  اورکبھی سخت سردی میں  داخل کیاجائے گا۔

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَإِلَیْنَا یُرْجَعُونَ ‎﴿٧٧﴾‏(المومن)
’’پس آپ صبر کریں اللہ کا وعدہ قطعاً سچا ہے، انہیں ہم نے جو وعدے دے رکھے ہیں ان میں سے کچھ ہم کو دکھائیں یا (اس سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں، ان کا لوٹایا جانا تو ہماری ہی طرف ہے۔‘‘

اللہ کے وعدے قطعاًحق ہیں :

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ جوآج دعوت حق کاراستہ روکنے کے لئے آپ سے جھگڑتے اور لایعنی بحث ومباحثہ کرتے ہیں اورذلیل ہتھکنڈوں  سے آپ کواوردعوت حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں  ان کی ان حرکتوں  پرآپ کوجوتکالیف پہنچتی ہیں  اس پر صبروبرداشت کریں اوراپنے صبرپراپنے ایمان سے مدد لیں ،اللہ کاوعدہ برحق ہے انجام کاروہ اپنے دین کی مدداوراپنے کلمہ کوغالب کرے گااوراپنے رسولوں  اوراہل ایمان کودنیاوآخرت میں  اپنی نصرت سے نوازے گااورمجرموں  کودردناک سزامل کررہے گی، ہم چاہیں  توہراس شخص کوجوآپ کواوردعوت حق کوزک پہنچانے کی کوشش کررہاہے آپ کی زندگی میں  مبتلائے عذاب کردیں یااس سے پہلے ہم تمہیں  دنیاسے اٹھالیں  اور کفارو مشرکین اللہ کی مشیت سے دینوی مواخذہ وعذاب سے بچ بھی جائیں  بہرحال وہ اللہ کی شدیدگرفت سے بچ کرکہیں  جانہیں  سکتے، بالآخر مرنے کے بعدانہوں  نے ہماری بارگاہ میں  حاضرہوناہے جہاں  ان کے لئے سخت عذاب تیارہے اس وقت وہ اپنے اعمال کی بھرپورسزاپالیں  گے،جیسے فرمایا

 وَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۔۔۔  ۝۴۲ۙ [148]

ترجمہ:اب یہ ظالم لوگ جوکچھ کررہے ہیں  اللہ کوتم اس سے غافل نہ سمجھو۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ یَأْتِیَ بِآیَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ ‎﴿٧٨﴾ (المومن۷۸)
’’یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کرچکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیےاور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لاسکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئے گا حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں رہ جائیں گے۔‘‘

معجزے کامطالبہ:

پہلی تباہ شدہ اقوام کی طرح کفارمکہ کابھی مطالبہ تھاکہ ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کواس وقت تک اللہ کارسول تسلیم نہیں  کرسکتے جب تک آپ ہمارامنہ مانگامعجزہ ہمیں  نہ دکھادیں جوآپ کی پیغمبری پر دلالت کرے ،اللہ تعالیٰ نے تسلی کے طورپر فرمایاہم نے ہربستی اورہرقوم میں  رسول بھیجے ہیں  جن میں  صرف پچیس انبیاء ورسل کاحال بیان کیا ہے،جیسے فرمایا

وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ ۔۔۔ ۝۱۶۴ۚ [149]

ترجمہ:ہم نے ان رسولوں  پربھی وحی نازل کی جن کا ذکرہم اس سے پہلے تم سے کرچکے ہیں  اوران رسولوں  پربھی جن کاکرتم سے نہیں  کیا۔

جواپنی قوم کودلائل وبراہین کے ساتھ توحیدکی دعوت دیتے تھے اورقوم کی ایذارسانی پرصبرکرتے تھے ، ان مشرک اقوام نے بھی اپنے رسولوں  سے معجزوں  کامطالبہ کیا مگر یہ کسی بھی پیغمبرکے دست تدبیرمیں  نہ تھاکہ وہ اپنی قوموں  کاان کے مطالبے پران کوکوئی معجزہ صادر کرکے دکھلا سکتا،معجزہ دکھلانےیانہ دکھلانے کا اختیارتوصرف اللہ ہی کو ہے ،یہ تو اللہ کی مشیت وحکمت کے تابع ہے کہ معجزہ دکھایاجائے یا نہیں  ،اللہ نے بعض انبیاء ومرسلین کودعوت کی ابتداہی سے معجزے عطاکردیئے تھے ،بعض اقوام کوان کے مطالبے پر معجزہ دکھادیاگیااوربعض کومطالبے کے باوجودمعجزہ نہیں  دکھایاگیا،یہ لوگ بھی پہلی اقوام کی طرح محض شوق تماش بینی میں  معجزے کا مطالبہ کررہے ہیں مگر دراصل وہ خود اپنی شامت کودعوت دے رہے ہیں کیونکہ جب اللہ کسی قوم کو معجزہ دکھادیتا ہے اوروہ قوم اس پرایمان نہیں  لاتی توپھراس کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کردیا جاتا ہے ،اوراس سے پہلے انبیاء اوران کے پیروکاروں  کووہاں  سے نکال لیاجاتاہے اوراس وقت مکذبین خسارے میں  پڑجاتے ہیں ،اس لئے اپنے باطل عقائد پرجمے رہنے اور معجزے کا مطالبہ کرنے کے بجائے دعوت حق اور سیرت رسول پرغوروفکرکرو،جوتمہیں  صراط مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں ،اس راہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں  جس میں  تمہاری دنیاوی واخروی سربلندی اور نجات ہے ۔

اللَّهُ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ وَلَكُمْ فِیهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَیْهَا حَاجَةً فِی صُدُورِكُمْ وَعَلَیْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَیُرِیكُمْ آیَاتِهِ فَأَیَّ آیَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ ‎﴿٨١﴾ (المومن)
’’اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو اور بھی تمہارے لیے ان میں بہت سے نفع ہیں اور تاکہ اپنے سینوں میں چھپی ہوئی حاجتوں کو انہی پر سواری کرکے تم حاصل کرلو اور ان چوپایوں پر اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو،اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جا رہا ہے، پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا منکر بنتے رہو گے۔‘‘

ہرمخلوق خالق کائنات پردلیل ہے :

تم لوگ توحیداورآخرت کی نشانیاں  طلب کرتے ہوحالاں  کہ حقیقت کوسمجھنے کے لیے اللہ کی یہ نشانیاں  کافی ہیں ، اللہ وحدہ لاشریک ہی نے بغیرکسی شریک کے اپنی ان گنت نعمتوں  میں  تمہارے لئے یہ چوپائے اونٹ ،گائے ،بھیڑ،بکری اورگھوڑے وغیرہ بنائے ہیں  تاکہ ان میں  سے کسی پرسوارہواور بار برداری وکھیتی باڑی کاکام لواوران کاگوشت کھاؤ ،ان کاخون اورگوبرسے نکلاہواصحت بخش خوش ذائقہ دودھ پیواوران سے چکنائی حاصل کرو،اس کے علاوہ ان کی اون ،بالوں  اوران کی کھالوں  میں  بھی تمہارے لئے بہت سے منافع ہیں ،اس علاوہ دور دراز ملکوں  میں  جہاں  تمہیں  جانے کی حاجت ہو ان پرسوارہوکرپہنچ سکو،ان پرجانوروں  پربھی اورسمندروں  میں  تیرتی کشتیوں  پربھی تم سوار کیے جاتے ہو جنہیں  اللہ نے تمہارے لیے مسخرکردیاہے،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ۝۰ۡۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۝۱۴۱وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّفَرْشًا۝۰ۭ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۱۴۲ۙثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ۝۰ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ۝۰ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـیَیْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـیَیْنِ۝۰ۭ نَبِّــــُٔــوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۴۳ۙوَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ۝۰ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـیَیْنِ۝۰ۭ اَمْ كُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللہُ بِھٰذَا۝۰ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۴۴ۧ [150]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں  اگائیں  جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں  مشابہ اور مزے میں  مختلف ہوتے ہیں ، کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں  اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں  کو پسند نہیں  کرتا،پھر وہی ہے جس نے مویشیوں  میں  سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں  کھاؤ ان چیزوں  میں  سے جو اللہ نے تمہیں  بخشی ہیں  اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،یہ آٹھ نرومادہ ہیں دو بھیڑ کی قسم سے اور دو بکری کی قسم سے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کیے ہیں  یا مادہ، یا وہ بچّے جو بھیڑوں  اور بکریوں  کے پیٹ میں  ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں  اور دو گائے کی قسم سے، پوچھو ان کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں  یا مادہ، یا وہ بچّے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں  ہوں ؟ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں  دیا تھا ؟ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں  کی غلط راہ نمائی کرے، یقیناً اللہ ایسے ظالموں  کو راہ راست نہیں  دکھاتا ۔

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَا۝۰ۚ لَكُمْ فِیْہَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۵۠وَلَكُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ۝۶۠وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۷ۙوَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِیْنَةً۝۰ۭ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸ [151]

ترجمہ:اس نے جانور پیدا کیے جن میں  تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی،ان میں  تمہارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انہیں  چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں  واپس لاتے ہو وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں  جہاں  تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں  پہنچ سکتے حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے،اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں  ،وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے ) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں  علم تک نہیں  ہے ۔

اللہ مالک الملک تمہیں  اپنی قدرت ،وحدانیت اوراسماء وصفات کی ثابت شدہ ان گنت کھلی نشانیاں  دکھارہاہے پھرانکار اور روگردانی کاکیاموقع ہے،جیسے فرمایا

فَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۶ [152]

ترجمہ:پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں  ، احسانات،انعامات ،کمالات اورصفات حمیدہ کوجھٹلاؤ گے۔

أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِی الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٨٣﴾ (المومن)
’’کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا؟ جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یادگاریں چھوڑی تھیں، ان کے کئے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا، پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔‘‘

مقام عبرت:

کیاان لوگوں  نے فکرواستدلال کی نظرسے اپنے علاقوں  میں  قوم عادوقوم ثمودجیسی قوم کے مضبوط محلات،کھیتیاں ،خوبصورت باغات کی شکل میں  آثاراورکھنڈرات نہیں  دیکھے ؟ جو صنعت کاری کے میدان میں  ان سے زیادہ ترقی یافتہ تھے،ان کے پاس مال ودولت ،طاقت اوروسائل بھی ان سے زیادہ تھے ،وہ بھی دعوت حق کے مقابلے میں  اپنے دینوی علوم اوراپنے پیشواؤ ں  کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں  وتوہمات پرنازاں  رہے،وہ بھی انبیاء کی لائی ہوئی پاکیزہ تعلیمات کوجوحق وباطل اورہدایت و گمراہی میں  امتیاز کرتی تھیں  ہیچ سمجھ کرحقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ،بعث بعدالموت،آخرت حساب کتاب اورجنت ودوزخ کا مذاق اڑاتے رہے ،

قَالَ مُجَاهِدٌ: قَالُوا: نَحْنُ أَعْلَمُ مِنْهُمْ لَنْ نُبْعَثَ وَلَنْ نُعَذَّبَ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  انہوں  نے کہاتھاکہ ہم انبیاء سے زیادہ جانتے ہیں ہمیں  معلوم ہے کہ ہم دوبارہ نہیں  اٹھائے جائیں  گے اورنہ ہمیں  کوئی عذاب ہوگا۔[153]

وَقَالَ السُّدِّیُّ: فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ بِجَهَالَتِهِمْ

اورسدی نے کہاہے کہ ازراہ جہالت وہ اپنے ہی علم پرشاداں  وفرحاں  تھے۔ [154]

نتیجہ یہ ہواکہ جس چیز کو وہ قابل التفات نہ سمجھ کر مذاق اڑاتے تھے اسی کے پھیرمیں  آگئے، ایک وقت مقررہ تک ڈھیل دینے کے بعد اللہ کا عذاب اچانک ان پرٹوٹ پڑا اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیاپھر ان کی تعمیرات میں  کاریگری ،علوم وفنون میں  ترقی،مضبوط قلعوں ،من گھڑت مذہبی افسانوں  اوران کے ان گنت دیوی دیوتاؤ ں نے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچایا اوروہ اپنی حسرتیں  دل ہی دل میں  لے کرموت کی وادیوں  میں  کھوگئے۔

‏ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ إِیمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ (المومن)
’’ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے اور جن جن کو ہم شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیالیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا،اللہ نے اپنا معمول یہی مقرر کر رکھا ہے جو اس کے بندوں میں برابر چلا آرہا ہے اور اس جگہ کافر خراب و خستہ ہوئے۔‘‘

مشرکوں  کاانجام:

جب اللہ کے عذاب نے انہیں  گھیرلیا جس کاوہ بے خوفی سے مطالبہ کرتے تھےاس وقت وہ اپنے معبودوں  کوجس کے حضوروہ تمام رسومات عبادات بجالاتے تھے ،جن کے بارے میں  ان کے دل ودماغ میں  بڑے بڑے خیالات و اثرات تھے کہ ان کے پاس ایسی اورویسی طاقتیں  اوراختیارات ہیں  پکارتے پکارتے تھک گئے مگروہ ان کی مدد کو نہ پہنچے،جب ان کی بے بسی ولاچاری واضح ہوگئی توپھرکہنے لگے ہم اپنے معبودوں  سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لاتے ہیں ،فرعون نے بھی سمندرمیں  ڈوبتے وقت یہی کہاتھا

۔۔۔حَتّٰٓی  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰  [155]

ترجمہ:حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگاتوبول اٹھامیں  نے مان لیاکہ خداوندحقیقی  اس کے سواکوئی نہیں  ہے جس پربنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں  بھی سراطاعت جھکادینے والوں  میں  سے ہوں ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱ [156]

ترجمہ:(جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے ! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں  میں  سے تھا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہونے کے بعد فرعون کا ایمان لاناکچھ فائدہ مندنہ ہواکیونکہ توبہ وایمان بالغیب بس اسی وقت تک فائدہ مند ہیں  جب تک آدمی اللہ کے عذاب یا موت کی گرفت میں  نہ آیا ہو ،عذاب آنے یاموت کے آثارشروع ہوجانے کے بعدایمان لانایاتوبہ کرنااللہ تعالیٰ کے ہاں  قابل قبول نہیں  ہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتاہے جب تک اس کی جان حلق میں  نہ آجائے۔[157]

چنانچہ وہ لوگ شدیددائمی اورابدی عذاب میں  گھرگئے۔

عمروبن مرہ جہنی کاقبول اسلام:

خَرَجْتُ حَاجًّا فِی جَمَاعَةٍ مِنْ قَوْمِی فِی الْجَاهِلِیَّةِ. فَرَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ وَأَنَا بِمَكَّةَ نُورًا سَاطِعًا مِنَ الْكَعْبَةِ حَتَّى أَضَاءَ فِی جَبَلِ یَثْرِبَ وَأَشْعَرِ  جُهَیْنَةَ،فَسَمِعْتُ صَوْتًا فِی النُّورِ وَهُوَ یَقُولُ: انْقَشَعَتِ الظَّلْمَاءُ، وسطح الضِّیَاءُ، وَبُعِثَ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ ثُمَّ أَضَاءَ إِضَاءَةً أُخْرَى حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى قُصُورِ الْحِیرَةِ وَأَبْیَضِ الْمَدَائِنِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا فِی النُّورِ وَهُوَ یَقُولُ: ظهر الإسلام وكسرت الأصنام، ووصلت الأرحام،فانتبهت فَزِعًا، فَقُلْتُ لِقَوْمِی وَاللَّهِ لَیَحْدُثَنَّ فِی هَذَا الحی من قریش حدث، وأخبرتهم بما رأیت

عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ جہنی کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں  میں  اپنی قوم کے ساتھ حج کے لئے آیامیں  نے خواب میں  دیکھاکہ ایک نورکعبہ سے نکل کریثرب کی پہاڑیوں  تک جا پہنچا اور قبیلہ جہینہ کوڈھانپ لیاپھرمیں  نے اس نورمیں  سے ایک آوازسنی کہ ظلمت کے بادل چھٹ گئے ،اجالاپھیل گیا،آخری نبی تشریف لے آئے ،اس کے بعدایک تیز روشنی برآمدہوئی جس میں  حیرہ کے محل اورمدائن کے قصرہائے ابیض دکھائی دینے لگےاس وقت میرے کان میں  یہ آوازآئی کہ اسلام آگیا،بت ٹوٹ گئے اورصلہ رحمی کادوردورہ ہوا یہ خواب دیکھ کردیکھ کرمجھ پروحشت طاری ہوئی اورمیں  نے اپنی قوم کے لوگوں  کے سامنے جومیرے ساتھ حج کے لئے مکہ مکرمہ آئے تھے خواب کاماجرابیان کیا

فَلَمَّا انْتَهَیْنَا إِلَى بِلَادِنَا جَاءَنَا رَجُلٌ فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَجُلًا یُقَالَ لَهُ أَحْمَدُ قَدْ بُعِثَ فأتیته فأخبرته بما رأیت،  فقال  یا عمرو بْنَ مُرَّةَ إِنِّی الْمُرْسَلُ إِلَى الْعِبَادِ كَافَّةً أَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ  وَآمُرُهُمْ بِحَقْنِ الدِّمَاءِ وَصِلَةِ الأرحام، وعبادة الله وحده ورفض الأصنام  فَمَنْ أَجَابَ فَلَهُ الْجَنَّةُ.وَمَنْ عَصَى فَلَهُ النَّارُ  فَآمِنْ یَا عَمْرُو بْنَ مُرَّةَ یُؤَمِّنْكَ مِنْ نَارِ  جَهَنَّمَ ،  فَقُلْتُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ.آمَنْتُ بكل ما جئت بِهِ  وَإِنْ أَرْغَمَ ذَلِكَ كَثِیرًا مِنَ الْأَقْوَامِ

حج کرنے کے بعدجب ہم اپنی سرزمین پرواپس پہنچے  توہم نے سناکہ ایک شخص جس کانام احمدہے لوگوں  کو توحید کی دعوت دیتاہے اوربت پرستی سے بازرہنے کی تلقین کرتا ہے ، پھرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیاکہ میں  نے یہ خواب دیکھاہے اوریہ معلوم کرنے کے لئے آیا ہوں  کہ آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہیں ،رسول اکرم  نے ان کی باتیں  بڑی توجہ سے سنیں  اور پھر فرمایا اے عمروبن مرہ !میں  نبی مرسل ہوں  اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ اللہ کےتمام بندوں  کواسلام کی طرف بلاؤ ں ،بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کروں  اوراللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اورصلہ رحمی کاحکم دوں ،جوکوئی اس دعوت کوقبول کرے گاوہ جنت کاحقدارہوگااورجواس کوردکرے گااس کاٹھکانا جہنم میں  ہوگااے عمروبن مرہ !تم میری دعوت کوقبول کرلوتودوزخ کی آگ سے محفوظ رہوگے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشادسن کرعمروبن مرہ نے بلاتامل عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ پرایمان لاتاہوں  اورجودعوت آپ دیتے ہیں  صدق دل سے قبول کرتاہوں  اگرچہ عرب کے درودیوارسے اس کی مخالفت ہورہی ہے۔

عمرو رضی اللہ عنہ کا شماراپنے قبیلے کے عمائد میں  ہوتاتھااورلوگ ان کوبہت مانتے تھے ،شعرگوئی کانہایت پاکیزہ ذوق رکھتے تھے شرف اسلام سے بہرہ ورہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے یہ اشعارپڑھے۔

شَهِدْتُ بِأَنَّ اللَّهَ حَقٌّ وَأَنَّنِی ، لِآلِهَةِ الْأَحْجَارِ أَوَّلُ تَارِكِ

میں  اس بات کی شہادت دیتاہوں  کہ اللہ حق ہے اورمیں  پتھروں  کے معبودوں  کوسب سے پہلے پس پشت ڈالنے والاہوں

 فَشَمَّرْتُ عَنْ سَاقِی إِزَارَ مُهَاجِرٍ ، إِلَیْكَ أَدِبُّ الْغَوْرَ بَعْدَ الدَّكَادِكِ

میں  نے پوری سرگرمی کے ساتھ ہجرت کے ارادہ سے تہبندپنڈلیوں  سے اوپرچڑھالیاہےمیں  نے دشوراگزارراستوں  سے آپ کی طرف چل رہاہوں  تاکہ اس ذات گرامی کاشرف وصحبت حاصل کروں

 لِأَصْحَبَ خَیْرَ النَّاسِ نَفْسًا وَوَالِدًا ، رَسُولَ مَلِیكِ النَّاسِ فَوْقَ الْحَبَائِكِ

جوبذات خودبھی اورخاندانی حیثیت سے بھی تمام لوگوں  میں  بہترین ہے،زمین اورآسمان کے مالک کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کاجوتمام نیکیوں  سے اعلی وبرترہے

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  مَرْحَبًا بِكَ یَا عَمْرُو بْنَ مُرَّةَ .فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ابْعَثْ بِی إِلَى قَوْمِی، لعلَّ اللَّهَ أَنَّ یَمُنَّ بِی عَلَیْهِمْ كَمَا مَنَّ بِكَ عَلِیَّ، فَبَعَثَنِی إِلَیْهِمْ، وَقَالَ: عَلَیْكَ بِالْقَوْلِ السَّدِیدِ وَلَا تَكُنْ فَظًّا وَلَا مُتَكَبِّرًا وَلَا حَسُودًا

یہ اشعارسن کرسیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے روئے انورپربشاشت پھیل گئی اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے عمرو رضی اللہ عنہ !تمہیں  مبارک ہو(یاشاباش اے عمرو رضی اللہ عنہ !) عمرو رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں  باپ آپ پرقربان ہوں  آپ مجھے اپنی قوم میں  جاکرتبلیغ کرنے کی اجازت مرحمت فرمایئے شایداللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے ان پراحسان کرے جس طرح اس نے آپ کے طفیل مجھ پراحسان کیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  تم اپنی قوم کوہدایت کی دعوت دے سکتے ہوجب عمرو رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے رخصت ہونے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعمرو رضی اللہ عنہ !میری چندباتیں  یادرکھنااورہرحال میں  ان پرعمل کرناوہ باتیں  یہ ہیں  کہ ہمیشہ نرمی سے کام لیناسختی نہ کرنا،کسی سے حسدنہ کرنا ، خودپسندی اورتکبرسے بازرہنا،اپنی گفتگومیں  تلخی اورترشروائی سے کام نہ لینا

ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ أَبْیَاتًا قُلْتُهَا حِینَ سَمِعْتُ بِهِ وَكَانَ لَنَا صَنَمٌ وَكَانَ أَبِی سَادِنًا لَهُ فَقُمْتُ إِلَیْهِ فَكَسَرْتُهُ، فَأَتَیْتُ قَوْمِی فَقُلْتُ لَهُمْ:یَا بَنِی رِفَاعَةَ ثُمَّ یَا بَنِی جُهَیْنَةَ إِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَیْكُمْ أَدْعُوكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَأُحَذِّرُكُمُ النَّارَ، وَآمُرُكُمْ بِحَقْنِ الدِّمَاءِ، وَصِلَةِ الْأَرْحَامِ، وَعِبَادَةِ اللَّهِ،وَرَفْضِ الْأَصْنَامِ،فَمَنْ أَجَابَ فَلَهُ الْجَنَّةُ. وَمَنْ عَصَى فَلَهُ النَّارُ

عمرو رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے میں  پہنچے توسب سے پہلاکام انہوں  نے یہ کیاکہ جس بت کی پرستش کیاکرتے تھے اس کو توڑڈالاپھرانہوں  نے سب لوگوں  کوجمع کیااوران سے یوں  خطاب کیا اے بنورفاعہ،اے بنوجہینہ!میں  تمہارے پاس اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے قاصدبن کرآیاہوں  اورتمہیں  اسلام کی دعوت دیتاہوں  اوراس بات کی تلقین کرتاہوں  کہ قتل وغارت اورخونریزی کوچھوڑدواورآپس میں  صلہ رحمی کرو،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرواوربتوں  کی پرستش کرناچھوڑدو،جومیری دعوت پرلبیک کہے گااس کے لیے جنت ہے اورجوکوئی اس سے روگردانی کرے گااس کے لیے جہنم ہے،

 یَا مَعْشَرَ جُهَیْنَةَ إِنَّ اللَّهَ  وَلَهُ الْحَمْدُ  جَعَلَكُمْ خِیَارَ مَنْ أَنْتُمْ مِنْهُ  وَبَغَّضَ إِلَیْكُمْ فِی جَاهِلِیَّتِكُمْ مَا حَبَّبَ إِلَى غَیْرِكُمْ مِنَ الرَّفَثِ، لِأَنَّهُمْ كَانُوا یَجْمَعُونَ بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ، وَیَخْلُفُ الرَّجُلُ [منهم ]  عَلَى امْرَأَةِ أَبِیهِ.فَأَجِیبُوا هَذَا النَّبِیَّ الْمُرْسَلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِی لُؤَیِّ بْنِ غَالِبٍ.تَنَالُوا شَرَفَ الدُّنْیَا وَكَرَامَةَ الْآخِرَةِ، سَارِعُواسَارِعُوا فِی ذلك یكون لَكُمْ فَضِیلَةٌ عِنْدَ اللَّهِ.

اے میرے جہنی بھائیو!قبائل عرب میں  اب بھی تمہاری ایک امتیازی شان ہے ، دوسرے لوگوں  میں  رواج ہے کہ دوبہنوں  کوبیک وقت نکاح میں  رکھ لیتے ہیں  اورباپ کے مرنے کے بعدبیٹاسوتیلی ماں  سے شادی کرلیتاہے لیکن تم نے ہمیشہ ان باتوں  کو مکروہ جانا،اب تم اللہ کے اس مرسل نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کااتباع کرلوجولوی بن غالب سے تعلق رکھتا ہےتودنیااورآخرت کی بھلائیاں  تمہارے حصے میں  آئیں  گی،دوڑدوڑکرآؤ یہ اللہ کے ہاں  یقیناً تمہاری فضیلت ہوگی،

فَأَجَابُوا إِلَّا رَجُلًا مِنْهُمْ قَامَ فَقَالَ: یَا عَمْرُو بْنَ مُرَّةَ أَمَرَّ اللَّهُ عَلَیْكَ عَیْشَكَ، أَتَأْمُرُنَا أَنْ نَرْفُضَ آلِهَتَنَا وَنُفَرِّقَ جَمَاعَتَنَا بِمُخَالَفَةِ دِینِ آبَائِنَا إِلَى مَا یَدْعُو هَذَا الْقُرَشِیُّ مِنْ أَهْلِ تِهَامَةَ؟ لَا وَلَا مَرْحَبًا وَلَا كَرَامَةَ

عمرو رضی اللہ عنہ کی باتوں  میں  کچھ ایسی تاثیرتھی کہ ایک شخص کے سواساراقبیلہ چنددنوں  کے اندراندراسلام سے بہرہ ورہوگیایہ شخص بڑاسیاہ باطن اورشقی القلب تھا عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کرتاتھا اے عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ!تیری زندگی تلخ ہوجائے کیاتوہمیں  اپنے معبودوں  کوچھوڑنے کی تلقین کرتاہے ،کیاتیراارادہ ہے کہ ہم پارہ پارہ ہوجائیں  ،کیاتوچاہتاہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت کریں ،یہ تہامہ کارہنے والاقریشی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )ہمیں  کس بات کی طرف بلاتاہے جس میں  نہ کوئی کرامت ہے نہ کوئی شرافت ؟

ثُمَّ أَنْشَأَ الخبیث یَقُولُ:

بعض اہل سیرنے اس خبیث شخص سے یہ اشعار منسوب کیے ہیں ۔

 إِنَّ ابْنَ مُرَّةَ قَدْ أَتَى بِمَقَالَةٍ ، لَیْسَتْ مَقَالَةَ مَنْ یُرِیدُ صَلَاحَا

عمروبن مرہ وہ بات لے کرآیاہے ،جوبات صلاح پسندلوگوں  جیسی نہیں

 إِنِّی لَأَحْسَبُ قَوْلَهُ وَفَعَالَهُ ، یَوْمًا وَإِنْ طَالَ الزَّمَانُ رِیَاحَا

مجھے یقین ہے کہ عمروکاقول وفعل، ایک دن غلط ثابت ہوگااگرچہ اس میں  کچھ دیرہوجائے

 أَتُسَفِّهُ الْأَشْیَاخَ مِمَّنْ قَدْ مَضَى ، مَنْ رَامَ ذَلِكَ لَا أَصَابَ فَلَاحَا

وہ ہمارے گزرے ہوئے بزرگوں  کوبیوقوف ثابت کرناچاہتاہے اورجس خلف کاارادہ ایساہووہ کبھی بھلائی کامنہ نہیں  دیکھ سکتا

فَقَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ: الْكَاذِبُ مِنِّی وَمِنْكَ أَمَرَّ اللَّهُ عَیْشَهُ، وَأَبْكَمَ لِسَانَهُ، وَأَكْمَهَ بَصَرَهُ،قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى سَقَطَ فُوهُ وَكَانَ لَا یَجِدُ طَعْمَ الطَّعَامِ، وَعَمِیَ وَخَرِسَ،وَخَرَجَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ قَوْمِهِ حتَّى أَتَوُا النَّبیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَرَحَّبَ بِهِمْ وَحَبَاهُمْ وَكَتَبَ لَهُمْ كِتَابًا هذه نسخته:

عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ اس نابکارکے جواب میں  فرماتے تھے ہم میں  سے جو جھوٹا ہو اللہ تعالیٰ اس کے عیش کوتلخ ،اس کی آنکھوں  کواندھااوراس کی زبان کوگونگاکردے، عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم !یہ شخص اس وقت تک نہ مراجب تک وہ گونگا،بہرہ اوراندھانہ ہوگیااوراس کامنہ گل کرنہ گرا،یہ اس کے لیے ایسی مصیبت تھی جس نے اس کوکھاناکھانے سے بھی محروم کردیاتھا،کچھ مدت بعدعمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ اپنے قبیلے کوساتھ لے کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے تو سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  زندگی میں  برکت اور رزق میں  کشائش کی دعادی اوران کے لیے ایک فرمان لکھ دیاجس کاخلاصہ یہ ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،

هَذَا كِتَابٌ منَّ اللَّهِ عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ بِكِتَابٍ صَادِقٍ، وَحَقٍّ نَاطِقٍ، مَعَ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ الْجُهَنِیِّ لِجُهَیْنَةَ بْنِ زَیْدٍ إِنَّ لَكُمْ بُطُونَ الْأَرْضِ وَسُهُولَهَا، وَتِلَاعَ الْأَوْدِیَةِ وَظُهُورَهَا، تَرْعَوْنَ نَبَاتَهُ وَتَشْرَبُونَ صَافِیَهُ.عَلَى أَنْ تُقِرُّوا بِالْخُمْسِ، وَتُصَلُّوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَفِی التَّبِعَةِ وَالصُّرَیْمَةِ شَاتَانِ إِنِ اجْتَمَعَتَا، وَإِنْ تَفَرَّقَتَا فَشَاةٌ شَاةٌ.لَیْسَ عَلَى أَهْلِ المیرة صدقة، لیس الوردة اللبقة

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اے مسلمانان جہنیہ!تمہارے لیے جہنیہ کی ساری زمین ہے نرم اورپتھریلی،چشمے اوروادیاں  ،تم جہاں  چاہواپنے جانوروں  کوچراؤ اورجہاں  پانی پاؤ اپنے استعمال میں  لاؤ  بشرطیکہ مال غنیمت کاپانچواں  حصہ دیتے رہواورپانچوں  وقت کی نمازیں  اداکرتے رہواوربھیڑبکریوں  کے دوریوڑیکجاہوں  (یعنی ایک سوبیس بکریاں  ہوں )تودوبکریاں  نکالی جائیں  گی اوراگرایک ایک ریوڑہوتوچالیس میں  سے ایک بکری نکالی جائے گی،کھیتی میں  کام آنے والے بیلوں  پرکوئی صدقہ نہیں  اورنہ کسی کنوئیں  سے زمین کوپانی دینے والی اونٹنیوں  پر۔[158]

اس فرمان سے ظاہرہوتاہے کہ یہ اس وقت لکھاگیاجب رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے اوراسلام ایک غالب قوت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا،یہاں  سوال پیداہوتاہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ کے قبول اسلام کاصحیح زمانہ کیاتھا،

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے اسدالغابہ میں لکھاہے کہ انہوں  نے ہجرت نبوی سے پہلے مکہ مکرمہ آ کر اس وقت سعادت ایمانی حاصل کی جب مشرکین نے اسلام کی مخالفت میں  طوفان برپاکررکھاتھا۔

لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اصابةفی تمیزاصحابة میں  لکھتےہیں

وكان عَمْرو بْن مرة یجالس مُعَاذ بْن جبل، ویتعلم مِنْهُ القرآن وسنن الْإِسْلَام

اسلام قبول کرنے کے بعدعمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ نے معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل سے قرآن اوراسلامی احکامات کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعداپنے قبیلہ میں  واپس جاکرلوگوں  کواسلام کی دعوت دی ،ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں  ساراقبیلہ چنددنوں  کے اندر اندرسعادت اندوز اسلام ہوگیا۔

اور استیعاب میں  لکھا ہے

وشهد مع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أكثر المشاهد،ومات فِی خلافة مُعَاوِیَة

اورانہوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ اکثرغزوات میں  حصہ لیا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  وفات پائی۔[159]

وقال ابن سمیع: مات فی خلافة عبد الملك بن مروان

ابن سمیع کہتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ  خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورخلافت میں  وفات پائی۔[160]

أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ، قَالَ لِمُعَاوِیَةَ: یَا مُعَاوِیَةُ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  مَا مِنْ إِمَامٍ أَوْ وَالٍ یُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِی الْحَاجَةِ، وَالْخَلَّةِ، وَالْمَسْكَنَةِ ، إِلا أَغْلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَبْوَابَ السَّمَاءِ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَمَسْكَنَتِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ مُعَاوِیَةُ رَجُلا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ

ایک مرتبہ انہوں  نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاکریہ حدیث بیان کی کہ میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناہے کہ جو امام (حاکم) محتاجوں  ،دوستوں  اورحاجت مندوں  کے لیے اپنادروازہ بندکرے گاتواللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجتوں  اوردعاؤ ں  کے لیے آسمان کے دروازے بندکردے گا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بڑے غورسے سنی اوراسی وقت ایک خاص افسراس کام کے لیے مقرر کردیاکہ وہ لوگوں  کی حاجتیں  اور ضرورتیں  معلوم کرے اورانہیں  پوراکرے۔[161]

مشرکین مکہ نے روزاول سےمسلمانوں  کی ایذارسانی میں  کوئی دقیقہ نہ اٹھارکھاتھا،ان لوگوں  کومارمارکرادھ مواکردیاجاتا،بھوکاپیاسابندرکھاجاتا،درختوں  پربھی لٹکایا جاتا، مکہ مکرمہ کی تپتی ریت پرچلچلاتی دھوپ میں  پیٹ اورپیٹھ کے بل لٹادیاجاتااورسینے پربھاری  تپتے ہوئے  پتھررکھ کرگھنٹوں  تڑپایاجاتا،پیروں  میں  رسیاں  باندھ کربھی گھسیٹا جاتا ، جولوگ پیشہ ورتھے ان سے کام لے لیا جاتا اوراجرت اداکرنے میں  پریشان کیاجاتا ، سب کچھ کیامگردین حق سے کسی ایک فردکابھی قدم نہ ڈگمگایا،سختیاں  اورصعوبتیں  جھیلتے ہوئے جہان فانی سے کوچ کرگئے مگراسلام کی نعمت کوہاتھ سے نہ چھوڑا،جب حالات ناقابل برداشت حدتک پہنچ گئے تورجب ۴۵عام الفیل پانچ بعثت نبوی میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے فرمایا

لَوْ خَرَجْتُمْ إلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَإِنَّ بِهَا مَلِكًا لَا یُظْلَمُ عِنْدَهُ أَحَدٌ، وَهِیَ أَرْضُ صِدْقٍ، حَتَّى یَجْعَلَ اللَّهُ لَكُمْ فَرَجًامِمَّا أَنْتُمْ فِیهِ

اچھاہوکہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ وہاں  ایک ایسابادشاہ ہے جس کے ہاں  کسی پرظلم نہیں  ہوتااوروہ بھلائی کی سرزمین ہے جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کورفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے تم لوگ وہاں  ٹھیرے رہو۔

عَنِ الزُّهْرِیِّ قَالَ:فَلَمَّا كَثُرَ الْمُسْلِمُونَ وَظَهَرَ الإِیمَانُ، أَقْبَلَ كُفَّارُ قُرَیْشٍ عَلَى مَنْ آمَنَ مِنْ قَبَائِلِهِمْ یُعَذِّبُونَهُمْ وَیُؤْذُونَهُمْ لِیَرُدُّوهُمْ عَنْ دِینِهِمْ، قَالَ: فَبَلَغَنَا أَنَّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَنْ آمَنَ بِهِ:تَفَرَّقُوا فِی الأَرْضِ فَإِنَّ اللَّهَ تعالى سیجمعهم،قَالُوا: إِلَى أَیْنَ نَذْهَبُ؟ قَالَ:إِلَى هَاهُنَا ، وَأَشَارَ بِیَدِهِ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ

زہری رحمہ اللہ  سےمروی ہےجب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کاعندیہ دے دیاگیااورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ صحابہ کرام کفارکی طرف سے طرح طرح دردنال مصائب وتکالیف میں  مبتلاہیں اورآپ کفارکے ظلم وستم کوروکنے پرقادرنہیں تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں  کو مشورہ دیاکہ وہ اللہ کی زمین میں  کہیں  ہجرت کر جائیں اللہ تعالیٰ تم لوگوں  کو عنقریب پھرجمع کردے گا، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کس طرف جائیں ؟ ان کے جواب میں  آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرما دیا۔[162]

قَالَ لَهُمْ: لَوْ خَرَجْتُمْ إلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَإِنَّ بِهَا مَلِكًا لَا یُظْلَمُ عِنْدَهُ أَحَدٌ، وَهِیَ أَرْضُ صِدْقٍ

اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے فرمایاتم حبشہ کی طرف ہجرت کرجاؤ  وہاں  ایک عدل وانصاف پسندحکمران کی حکومت ہے ، وہاں  کسی پرظلم نہیں  ڈھایا جاتااوروہ صدق وراستی کی سرزمین ہے ۔[163]

[1] [غافر: 28]

[2] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ المومن بَابُ قَوْلِهِ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ، إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ نُفِخَ فِیهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ ۴۸۱۵،ابن ہشام۲۹۰؍۱

[3] فتح القدیر۵۵۰؍۴، تفسیر البغوی۱۰۳؍۴

[4]تفسیرالقرطبی۲۸۸؍۱۵،تفسیرالبغوی۱۰۳؍۴

[5] تفسیرالبغوی۱۰۳؍۴

[6] تفسیر البغوی۱۰۳؍۴

[7] الحجر۴۹،۵۰

[8]آل عمران۱۹۶،۱۹۷

[9]لقمان۲۴ 

[10] التوبة۴۰

[11] تفسیرطبری۳۵۳؍۲۱

[12] الاعراف۱۷۹

[13] الفرقان۴۴

[14] الحاقة۱۷

[15]الطور ۲۱

[16] آل عمران۱۸۵

[17] تفسیرابن عطیہ ۵۴۸؍۴

[18] صحیح مسلم کتاب الذکروالدعابَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ لِلْمُسْلِمِینَ بِظَهْرِ الْغَیْبِ ۶۹۲۷،۶۹۲۹،سنن ابوداودکتاب الوتر بَابُ الدُّعَاءِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ ۱۵۳۴، مسند احمد۲۷۵۵۸،صحیح ابن حبان ۹۸۹،شعب الایمان ۸۶۴۳،السنن الکبری للبیہقی۶۴۳۱

[19] سیر أعلام النبلاء۲۲؍۴

[20] الزمر۴۵

[21] تفسیر طبری ۲۵۹؍۲۱

[22] البقرة۲۸

[23] السجدة۱۲

[24] الانعام۲۷

[25] فاطر۳۷

[26] المومنون۱۰۷،۱۰۸

[27] الزمر۴۵

[28] الانعام۲۸

[29] فاطر۴۳

[30] ق۲۹

[31] الزمر۲

[32] صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ ۱۳۴۳،سنن ابوداودکتاب الوتر بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ۱۵۰۶،مسنداحمد۱۶۱۰۵

[33] النحل۲

[34] الشعراء ۱۹۲تا۱۹۴

[35] المطففین۴تا۶

[36] المعارج۴۳

[37] ق۴۴

[38] طہ۱۰۶،۱۰۷

[39] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الزمربَابُ قَوْلِهِ وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُهُ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِهِ۴۸۱۲، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین باب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۷۰۵۰،سنن الدارمی ۲۸۴۱،مسنداحمد۸۸۶۳

[40] الحج۵۶

[41] الفرقان۲۶

[42] تفسیرابن کثیر۱۱۶؍۷

[43] صحیح مسلم  كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲

[44] القمر۵۰

[45] لقمان ۲۸

[46] النجم۵۷

[47] القمر۱

[48] الانبیاء ۱

[49] النحل۱

[50] الملک۲۷

[51] تفسیرطبری۳۶۸؍۲۱

[52] الزمر۳

[53] البقرة۱۶۶

[54] النجم۳۱

[55] حم السجدة۱۵

[56] الروم۹

[57] البروج۱۲

[58] النمل۱۴

[59] الذاریات۵۲،۵۳

[60]الاعراف ۱۲۹

[61] سنن ابوداودکتاب الوتربَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا خَافَ قَوْمًا۱۵۳۷،مستدرک حاکم ۲۶۲۹، مسنداحمد۱۹۷۱۹،صحیح ابن حبان۴۷۶۵،السنن الکبری للبیہقی۱۰۳۲۴، شرح السنة للبغوی۱۳۵۳

[62] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سورۂ المومن ۴۸۱۵، مسنداحمد۶۹۰۸،شرح السنة للبغوی ۳۷۴۶

[63] مسند احمد۲۷۶۲

[64] الدخان۲۱

[65] ھود۹۷

[66] طہ۷۹

[67] صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّةً فَلَمْ یَنْصَحْ۷۱۵۱،۷۱۵۲،مسنداحمد۲۰۳۱۵،المعجم الکبیرللطبرانی۴۷۳

[68] القیامة۱۱،۱۲

[69] النسائ۸۸

[70] الاعراف۱۸۶

[71] الرعد۳۳

[72] النحل۱۰۷،۱۰۸

[73] البقرة۷

[74] الصف۵

[75] الانعام۱۱۰

[76] الدر المنثور ۴۰۱؍۶، تفسیرابن ابی حاتم۲۹۵۹؍۹

[77] القصص۳۸

[78] الانعام۴۳

[79] الاحقاف۵

[80] فاطر۱۴

[81] الانبیاء ۴۷

[82] الاعراف۸،۹

[83] المومنون۱۰۲،۱۰۳

[84] القارعة۶تا۱۱

[85] الملک۶

[86] ص۵۵،۵۶

[87] یونس۹۰تا۹۲

[88] تفسیرطبری۳۹۶؍۲۱

[89] مسنداحمد۵۹۲۶،صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ المَیِّتِ یُعْرَضُ عَلَیْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِیِّ ۱۳۷۹، صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ ۱۱۷۲، صحیح ابن حبان ۳۱۳۰،مسندابی یعلی ۵۸۳۰، شرح السنة للبغوی۱۵۲۴، السنن الکبری للنسائی۲۲۰۸

[90] جامع ترمذی ابواب القیامة بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ أَوَانِی الحَوْضِ ۲۴۶۰  ، المعجم الاوسط ۸۶۱۳،معجم ابن عساکر۱۰۹۱

[91] یٰسین۲۶،۲۷

[92] مسند احمد ۲۴۵۲۰

[93]صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ ۶۳۶۶  ، صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ اسْتِحْبَابِ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ۱۳۲۱

[94] مسنداحمد۲۴۵۸۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

[95] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ فِتْنَةِ الغِنَى ۶۳۷۶

[96] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ أَرْذَلِ العُمُرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدُّنْیَا وَفِتْنَةِ النَّارِ ۶۳۷۴ ، شرح السنة للبغوی ۷۲۱

[97] صحیح بخاری کتاب صفة الصلوٰة بَابُ الدُّعَاءِ  قَبْلَ السَّلاَمِ ۸۳۲،سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ۸۸۰،مسنداحمد۲۴۵۷۸،صحیح ابن حبان ۱۹۶۸، السنن الکبری للبیہقی ۲۸۸۱،شرح السنة للبغوی ۶۹۱

[98] صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ مَا یُسْتَعَاذُ مِنْهُ فِی الصَّلَاةِ۱۳۲۴ ،السنن الکبری للبیہقی۲۸۸۲

[99] المومنون۱۰۷،۱۰۸

[100] المائدة۴۴

[101] الاحقاف۳۳

[102] الانعام۵۰

[103] الرعد۱۶

[104] فاطر۱۹

[105] المائدة۱۰۰

[106] الرعد۱۶

[107] فاطر۲۰

[108] فاطر۲۱،۲۲

[109] الزمر۹

[110] الحشر۲۰

[111] فاطر۱۴

[112] الاعراف۱۹۴

[113] الاحقاف۵

[114] یونس۲۸،۲۹

[115][غافر: 60 ]

[116] مسند احمد۱۸۳۵۲، جامع ترمذی کتاب التفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمُؤْمِنِ ۳۲۴۷، سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ ۳۸۲۸ ،مستدرک حاکم۱۸۰۲،شرح السنة للبغوی ۱۳۸۴

[117] جامع ترمذی ابواب القدر بَابُ مَا جَاءَ لاَ یَرُدُّ القَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ۲۱۳۹  ،مسند البزار ۲۵۴۰، المعجم الکبیرللطبرانی ۶۱۲۸

[118] جامع ترمذی ابواب الدعوات  بَاب مَا جَاءَ أَنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ ۳۳۸۱

[119] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ لِیَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لاَ مُكْرِهَ لَهُ۶۳۳۹،صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء  بَابُ الْعَزْمِ بِالدُّعَاءِ وَلَا یَقُلْ إِنْ شِئْتَ۶۸۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ لَا یَقُولُ الرَّجُلُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ ۳۸۵۴،سنن ابوداودکتاب الوتر بَابُ الدُّعَاءِ ۱۴۸۳، مسند احمد ۹۹۶۸، المعجم الصغیرللطبرانی ۱۷۰

[120] جامع ترمذی ابواب الدعوات  بَاب فِی انْتِظَارِ الفَرَجِ وَغَیْرِ ذَلِكَ۳۵۷۱،المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۰۸۸

[121] مسنداحمد۶۶۷۷

[122] المومنون۹۱

[123] بنی اسرائیل۴۲

[124] الانبیاء ۲۲

[125] فاطر۳

[126] الانعام۱۰۲

[127] البقرة۲۵۵

[128] النحل۲۰

[129] المومنون۱۱۷

[130] الحج۷۱

[131] البقرة۲۲

[132] التین۴

[133] الانفطار۶تا۸

[134] القصص۸۸

[135] مسند احمد ۱۶۱۰۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ۱۳۴۳،سنن ابوداود کتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ۱۵۰۶،۱۵۰۷،السنن الکبری للنسائی۱۲۶۴

[136] البینة۵

[137] الحجر۲۶

[138] الرحمٰن۱۴

[139] ص۷۵

[140] الحج۵

[141] فاطر۱۱

[142] یونس۵۸

[143] الواقعة۵۴،۵۵

[144] الرحمٰن۴۴

[145] الانعام۲۲،۲۳

[146] یونس۶۶

[147] الاحقاف۶

[148] ابراہیم۴۲

[149] النسائ۱۶۴

[150] الانعام۱۴۱تا۱۴۴

[151] النحل۵تا۸

[152] الرحمٰٗن۱۶

[153] تفسیرطبری۴۲۲؍۲۱

[154] تفسیرطبری۴۲۲؍۲۱

[155] یونس۹۰

[156] یونس۹۱

[157] جامع ترمذی کتاب الدعوات  بَاب فِی فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ بِعِبَادِهِ ۳۵۳۷، سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ ۴۲۵۳، مسنداحمد۶۱۶۰، مستدرک حاکم ۷۶۵۹، صحیح  ابن حبان ۶۲۸،مسندابی یعلی ۵۶۰۹،شرح السنة للبغوی ۱۳۰۶

[158] البدایة والنہایة ۴۲۹؍۲

[159] استیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۲۰۰؍۳

[160] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۶۳؍۴

[161] اسدالغابة۲۵۷؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۵۶۳؍۴

[162] عیون الآثر ۱۳۵؍۱

[163] ابن ہشام۳۲۱؍۱

Related Articles