بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ النبا

سورۂ القیامہ ،الدھر،المرسلات کی طرح اس سورۂ کامرکزی مضمون بھی بعث بعدالموت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کاآغازتین چیزوں کے خصوصی ذکرسے کیاجوایمان کی بنیادہیں ۔

xاللہ تعالیٰ کی وحدانیت پرایمان اورشرک سے اجتناب ۔

xمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مکمل اطاعت ۔

xآخرت اوراس میں اعمال کی جزاکے لیے اولین وآخرین کاجمع ہونااورعقائدواعمال کاحساب لیاجانا۔

پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح ہل مکہ بھی اللہ تعالیٰ کے وجودکے قائل تھے،وہ اللہ کے خالق ہونے،قادرہونے اوررزاق ہونے پرایمان رکھتے تھے مگروہ مخلوقات کے چند افرادکوخدائی صفات و اختیارات کامالک سمجھتے تھے،جیساکہ سورۂ الزمرمیں بیان ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کااعلان کرنے سے پہلے چالیس سال انہی لوگوں میں گزارے تھے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی وفرزانگی،سلامت روی اوراخلاق کی بلندی کے قائل ومعترف تھے،وہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت وامانت کے عینی شاہد تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق وامین کالقب بھی دے چکے تھے لیکن اس کے باوجودآپ کی رسالت کے اقرارمیں انہیں اس لیے ہچکچاہٹ تھی کیونکہ اس سے ان کی اپنی سیادت اورعظمت متاثرہوتی تھی اوراسی طرح بیت اللہ کے مجاوراورمتولی ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے والے مفادات سے بھی انہیں محروم ہوناپڑتاتھا،مگرانہیں سب سے زیادہ الجھن آخرت کے ذکر سے تھی اس لیے اس بات کاوہ سب سے زیادہ مذاق اڑاتے تھے اورتعجب کرتے تھے کہ جب انسان مرکرمٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گااس کے ذرات بکھرجائیں گے تو پھران ذرات کوجمع کرنااوران سے دنیاکی زندگی کے بارے میں بازپرس کرنابعیدازعقل معلوم ہوتاہے،چونکہ اسلام میں اس عقیدے کوبھی اولیت حاصل ہے اوراس عقیدے کوذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے اس کوکئی باردہرایاگیاتاکہ انسانی تصورات وخیالات میں سنجیدگی اورراست گوئی پیداکی جاسکے اورانسان کواس کے مقصدحیات سے قریب ترلایاجاسکے۔

قیامت کے بارے میں اہل مکہ شکوک وشبہات کاشکارتھے اوراس کے بارے میں ہرکوچہ وبازاراورہرمحفل میں چرچے اور چہ مگوئیاں کرتے تھے، ان مکذبین سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ لوگ یوم الفصل والی عظیم خبرکے بارے میں قرآن کی بتلائی ہوئی حقیقت سے اختلاف رکھتے ہیں ،کوئی اس کااقرارکرتاہے اورکوئی انکار،کوئی تذبذب کاشکارہے اورکوئی اس کااثبات کرتاہے وہ عنقریب جان لیں گے کہ ایک وقت مقررہ پر قیامت قائم ہوگی،اس کے بعدقدرت الٰہیہ کے دلائل اورقیامت کے مختلف مناظراورجنت وجہنم کاتذکرہ ہے ،فرمایاوہ اللہ جس نے زمین کوفرش کی طرح بچھونابنایاہے،بلندوبالاپہاڑوں کومیخوں کی طرح زمین میں گاڑدیاہے،تمام انسانوں کومردوں اورعورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیداکیاہے،جس نے نیندکوذریعہ آرام وسکون ،رات کولباس اوردن کووقت معاش بنایاہے،جس نے تمہارے اوپربغیرستونوں کے تہہ بہ تہہ سات مضبوط آسمان بنائے ہیں ، جس نے آسمان دنیاپرساری دنیاکوروشن اورحرارات مہیاکرنے والاچراغ بنایاہے،جوبھرے بادلوں سے موسلادھارمینہ برساکرتمہارے لیے انواع و اقسام کے اناج ،سبزیاں ،مختلف رنگوں ،ذائقوں کے گھنے باغات اورجانوروں کے لیے چارہ پیداکرتاہے وہ قادرمطلق یقیناً مرنے کے بعداعمال کی جزاکے لیے دوبارہ زندگی بھی عطا کر سکتا ہے،وہ سرکش لوگ جو حساب کتاب کی توقع نہیں رکھتے اورجنہوں نے اللہ کی آیات کوجھٹلادیاہے،ان کے سب اعمال اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں اوران کی خبرلینے کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جہاں ان کے اعمال کاپوراپورابدلہ چکادیاجائے گا اورمتقین کامیاب وکامران ہوں گے،اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اجرکے علاوہ بہترین انعامات سے بھی نوازے گا، یوم الفصل برحق ہے اس کے وقوع میں کوئی شک وشبہ نہیں ،اس دن کودورنہ سمجھووہ قریب آلگاہے اب جوشخص چاہے اپنے رب کے پاس اپنا ٹھکانابنالے ، اس روزسب لوگ اللہ کی بارگاہ میں خشوع وخضوع کے ساتھ سرجھکائے کھڑے ہوں گے اورباوجوداللہ کے بے حدمہربان اوررحمٰن ہونے کے کسی کواللہ تعالیٰ کے سامنے تاب گویائی نہ ہوگی ،اس دن اللہ کی بارگاہ میں صرف وہی آدمی سفارش کامجازہوگاجس کواللہ اجازت فرمائے گااوران لوگوں کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی جو ایمان کی دولت سے مالامال اس دنیاسے اٹھائے گئے مگرعمل کے سلسلے میں ان کی کوتاہی تھی،کفارکے حق میں ہرگزہرگزکوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی،اس روزہرشخص اپنے کیے ہوئے اعمال کودیکھ لے گااوراس کے بارے میں قطعی فیصلہ سنادیاجائے گااس فیصلہ کوسن کرکافریہ تمناکرے گااے کاش! میں مٹی ہوتا،یعنی میں پیداہی نہ ہوا ہوتا ، یا میں تکبرنہ کرتااورمٹی کی طرح مسکینی اورعاجزی اختیارکرتا،یایہ کہ میں انسان نہیں حیوان ہوتااورمجھے بھی حیوانوں کی طرح دوبارہ زندہ کرنے کے بعدمٹی بنادیاجاتاتاکہ میں جہنم کے اس ہولناک عذاب سے بچ جاتامگران کواس پشیمانی کاہرگزفائدہ نہ پہنچ سکے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

عَمَّ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿١﴾‏ عَنِ النَّبَإِ الْعَظِیمِ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِی هُمْ فِیهِ مُخْتَلِفُونَ ‎﴿٣﴾‏ كَلَّا سَیَعْلَمُونَ ‎﴿٤﴾‏ ثُمَّ كَلَّا سَیَعْلَمُونَ ‎﴿٥﴾‏ (النباء)
یہ لوگ کس کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں اس بڑی خبر کے متعلق جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ، یقیناً یہ ابھی جان لیں گے پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے دین کی تبلیغ کاآغازاللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اوران کی اطاعت اورآخرت جس میں اولین وآخرین تمام لوگوں کاجمع ہوناسے کیا،اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے خالق،قادراوررازق ہونے کوتسلیم کرتے تھے ،مگراپنے خودساختہ معبودوں کواللہ کے اختیارات میں شریک سمجھتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے کی تمام زندگی اسی معاشرہ میں گزارچکے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردارکی بناپرانہیں صادق وامین کے خطاب سے بھی نوازاجاچکاتھا،کیونکہ قریش کواپنی سیادت اوربیت اللہ کے مجاورہونے کی حیثیت سے مالی مفادات کاخوف تھااس لئے اہل مکہ آپ کی رسالت کے اقرارمیں ہچکچاتے تھے ،مگرسب سے زیادہ پریشان کن بات ان کے لئے نظریہ آخرت تھا ،عرب میں قیامت کے بارے میں مختلف خیالات کے لوگ بستے تھے ،ان میں ایک گروہ جوعیسائیوں سے متاثرتھاوہ حیات بعدازموت کومانتاتھا مگراس زندگی کوجسمانی کی بجائے روحانی تسلیم کرتاتھا ، ایک گروہ ایساتھا جوقیامت کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلاتھا ،جیسے فرمایا

اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ۝۳۲ [1]

ترجمہ:ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ،یقین ہم کونہیں ہے ۔

ایک گروہ ایساتھا جوصاف صاف کہتا تھا کہ مرنے کے بعدکوئی زندگی نہیں ہے۔

وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۲۹ [2]

ترجمہ:جوکچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیاکی زندگی ہے اورہم ہرگزمرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔

ایک گروہ دہریہ تھاجوکہتا تھا کہ گردش زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتی ہے ۔

وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ۝۰۝۲ [3]

ترجمہ:زندگی یہی ہماری دنیاکی زندگی ہے ،یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اورگردش ایام کے سواکوئی چیزنہیں جوہمیں ہلاک کرتی ہو۔

ایک گروہ ایساتھاجودہریہ تونہ تھامگر اللہ کودوبارہ زندگی بخشنے پرقادرنہیں سمجھتا تھا۔

قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [4]

ترجمہ:کہتا ہے کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں ؟۔

اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عقیدے کوذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے اس ذکر کو بار بار دہرایاتاکہ انسانی تصورات وخیالات میں سنجیدگی اورراست گوئی پیداکی جاسکے اورانسان کواس کے مقصدحیات سے قریب تر لایا جائے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے قیامت کے بارے میں صحیح نقشہ بیان فرمایاتویہ لوگ تعجب سے مکہ کے ہرکوچہ وبازاراورمجلسوں میں اپنے اپنے گمان وقیاس کااظہارکرنے لگے کہ کیاایساہونا ممکن ہے ،چنانچہ ان لوگوں کی قیاس آرائیوں کے بارے میں فرمایا مشرکین قیامت کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کررہے ہیں کہ کیا قیامت کاواقع ہوناممکن ہے؟ یہ اس عظیم خبر کے بارے میں چہ میگوئیاں کررہے ہیں جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، جوکچھ یہ گمان وقیاس کررہے ہیں وہ صحیح نہیں ،قیامت جس کاصحیح وقت اللہ ہی کومعلوم ہے بہت دور نہیں بلکہ بہت جلد ایک حقیقت بن کران کے سامنے آجائے گی ،ہاں بہت جلدانہیں اس عذاب کے بارے میں معلوم ہوجائے گاجسے یہ جھٹلاتے تھے۔

 أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ‎﴿٦﴾‏ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ‎﴿٧﴾‏ وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ‎﴿٨﴾‏ وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ‎﴿٩﴾‏ وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاسًا ‎﴿١٠﴾‏ وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ‎﴿١١﴾‏ وَبَنَیْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ‎﴿١٢﴾‏ وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا ‎﴿١٣﴾‏ وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا ‎﴿١٤﴾‏ لِّنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا ‎﴿١٥﴾‏ وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا ‎﴿١٦﴾ (النباء)

کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا)؟ اور ہم نے تجھے جوڑا جوڑا پیدا کیا اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا اور رات کو ہم نے پردہ بنایا اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنایا، اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے اور ایک چمکتا ہوا روشن چراغ (سورج) پیدا کیا، اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا تاکہ اس سے اناج اور سبزہ اگائیں اور گھنے باغ (بھی اگائیں )۔


اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات اورنوع انسانی پرکیے گئے احسانات کاتذکرہ فرمایاکہ کیایہ حقیقت نہیں کہ اللہ نے مخلوقات کے لیے ہموارونرم زمین کافرش بنایا،جیسے فرمایا:

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا۔۔۔۝۵۳ [5]

ترجمہ:وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا۔۔۔۝۱۰ۚ [6]

ترجمہ:وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا۔

وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙ [7]

ترجمہ:اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا۔

زمین جوایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے اپنے محورپرگھوم رہی ہے مگرتم اسے محسوس تک نہیں کرتے،پھرزمین کوساکن رکھنے ، زمین کی گردش اوراس کی رفتارمیں انضباط کے لئے پہاڑوں کو اس میں میخوں کی طرح گاڑدیا، اوران پہاڑوں کے بیچ میں درے بنائے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَاَنْهٰرًا وَّسُـبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۵ۙ [8]

ترجمہ: اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔

پانی کوان پر منجمدکرنے اور پھران دروں سے ضرورت کے وقت بہانے کابندوبست فرمایا، اس نے پانی کے ایک حقیر قطرے سے مختلف جسمانی ساخت ،مختلف ذہنی ونفسی اوصاف اور مختلف جذبات ، مختلف شکلوں ،رنگوں والے مردووعورتوں کے علاوہ حیوانات ،نباتات وجمادات غرض ہر چیز کاجوڑاجوڑا پیداکیا، جیسے فرمایا:

وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا۝۸ۙ [9]

ترجمہ:اور تمہیں ( مردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔

وَاللهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۔۔۔۝۱۱ [10]

ترجمہ:اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت)۔

۔۔۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۔۔۔ ۝۳ [11]

ترجمہ:اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں ۔

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [12]

ترجمہ:اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق لو ۔

اور سارے دن کے کام کاج کی تھکان،کسل مندی دورکرنے کے لئے پردہ پوش رات بنائی جس میں انسان سوکر راحت حاصل کرتاہے، اوردن کوکسب معاش کے لئے روشن بنایا،اسی نے زمین کے اوپرسات تہہ بہ تہہ مضبوط ومستحکم اور زینت والے آسمان بنائے،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔۔۔۝۳ [13]

ترجمہ:جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙ [14]

ترجمہ:کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔

جن میں سے ہرایک کادرمیانی فاصلہ پانچ سومیل کی مسافت جتناہے ،زمین سے پانچ سومیل بلندی تک ہوا کاایک کثیف پردہ چڑھایاجس سے گزرکرکوئی شہاب شاقب اورمہلک شعاعیں زمین تک نہیں پہنچ سکتی ، یہی ہواایک قانون کے تحت درجہ حرارت کو قابومیں رکھتی ہے ،کبھی یہ ٹھنڈی ہو کرچلتی ہے اورکبھی گرم ہوکر،کبھی بندہو جاتی ہے توکبھی آندھی اورطوفان کی شکل اختیارکرلیتی ہے ، کبھی خشک چلتی ہے اور کبھی مرطوب ، کبھی بارش لانے والی ہوتی ہے تو کبھی بادلوں کواڑالے جانے والی ہوتی ہے، طرح طرح کی ہواؤ ں سے موسموں کی تبدیلی واقع ہوتی ہے ،زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈحرارت والا سورج چمکایا،جواللہ کے حکم سے ایک لگے بندھے نظام کے مطابق اربوں سالوں سے تمام جہان کو روشنی اور حرارت مہیا کر رہاہے جس سے انسان حرارت حاصل کرتا ہے ،اسی حرارت سے ہوائیں سمندروں سے گرم بھاپیں اٹھاتی ہیں ، پھریہ بادل بنتے ہیں اورپھرزمین کے مختلف حصوں پرجہاں اللہ چاہتاہے بارش برسا دیتاہے،جیسے فرمایا:

اَللهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَاۗءِ كَیْفَ یَشَاۗءُ ۔۔۔۝۴۸ۚ [15]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جوہواؤ ں کو بھیجتا ہے اوروہ بادل اٹھاتی ہیں پھر وہ ان بادلوں کوآسمان میں پھیلاتاہے جس طرح چاہتاہے۔

پھربارش کے اس پانی سے مختلف اجناس، سبزیاں اورانواع اقسام ،مختلف رنگت اورمختلف ذائقہ دار پھل اورجانوروں کے لئے چارہ پیداہوتاہے ،جیسے فرمایا:

وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۴ [16]

ترجمہ:اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں ، انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر ،ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔

جس قادرمطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ کائنات تخلیق کی ہے ،اتناعظیم الشان نظام شمسی تیار کرکے اس کوانسان کی خدمت پر مامورکردیاہے،مختلف مخلوقات پیدا کیں اور ان کے رزق کابندوبست کیا ہے،کیا یہ سارانظام اس نے لغواوربے کاربنایاہے ؟ہرگزنہیں ،بلکہ یہ کارخانہ قدرت بامقصد ہے،جیسے فرمایا:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۔۔۔۝۲۷ۭ [17]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اورزمین کواوراس دنیاکوجوان کے درمیان ہے فضول پیدانہیں کردیاہے یہ توان لوگوں کاگمان ہے جنہوں نے کفرکیاہے ۔

تو پھر سوچو کیا اللہ اس پرقادرنہیں ہوسکتاکہ وسیع وعریض جنت ودوزخ تیارکرلے اور انسان کودوبارہ پیدا کر کے اس کے اعمال اوراپنی نعمتوں کامحاسبہ کرے ۔

إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِیقَاتًا ‎﴿١٧﴾‏ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ‎﴿١٨﴾‏ وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا ‎﴿١٩﴾‏ وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا ‎﴿٢٠﴾‏(النباء)

بیشک فیصلہ کا دن کا وقت مقرر ہے، جس دن کہ صور پھونکا جائے گا پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے،  اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس میں دروازے دروازے ہوجائیں گے اور پہاڑ چلائے جائیں گے پس وہ سراب ہوجائیں گے۔


قیامت کے وقوع پذیرہونے سے قبل کی نشانیاں بتلائیں کہ یقیناًانسانوں کے اعمال کی جزاکے لئے فیصلے کاایک دن مقررہے جومقررہ وقت سے نہ آگے ہوگانہ پیچھے ، جیسےفرمایا:

وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۝۱۰۴ۭ [18]

ترجمہ: ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں ۔

۔۔۔وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ۔۔۔ [19]

ترجمہ:اس نے ان کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے۔

جب تیسری اورآخری مرتبہ صورمیں پھونک ماری جائے گی،جس کی آوازبلندہوتے ہی آغازآفرنیش سے قیامت تک پیداہونے والے تمام مرے ہوئے انسان یکایک گروہ درگروہ اپنی قبروں سے جسم وجان کے ساتھ نکل آئیں گے ، اورہرامت اپنے اپنے نبی کے ساتھ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑی ہوجائے گی،جیسے فرمایا:

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍؚبِـاِمَامِهِمْ ۔۔۔ ۝۷۱ [20]

ترجمہ: پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے ۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔۔۝۸۹ۧ [21]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس دن دے خبردارکردو)جب کہ ہم ہرامت میں خوداسی کے اندرسے ایک گواہ اٹھاکھڑاکریں گے جواس کے مقابلہ میں شہادت دے گااوران لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لئے ہم تمہیں لائیں گے۔

(دوسرے صورکی کیفیت بیان فرمائی )کہ اس کی آواز سے آسمان پھٹ جائے گا اوراس میں دروازے بن جائیں گے،جیسے فرمایا

 فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ۝۳۷ۚ [22]

ترجمہ:پھر (کیا بنے گا اس وقت) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا؟۔

زمین جھنجھوڑدی جائے گی ،جیسے فرمایا

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙ [23]

ترجمہ:زمین اس وقت یکبا رگی ہلا ڈالی جائے گی۔

 اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙ [24]

ترجمہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔

دیکھتے ہی دیکھتے بلندوبالاپہاڑاپنی جگہ سے اکھڑکرہوامیں بادلوں کی طرح اڑنے لگیں گے اور آپس میں ٹکراکرریزہ ریزہ ہوکراس طرح پھیل جائیں گے کہ جہاں پہلے کبھی پہاڑ تھے،وہاں ریت کے وسیع،ہمواراورچٹیل میدانوں کے سوااورکچھ نہیں ہوگا،جیسے فرمایا

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ[25]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن پہاڑکہاں چلے جائیں گے ؟ کہوکہ میرارب ان کودھول بناکر اڑا دے گااور زمین کوایساہموارچٹیل میدان بنادے گاکہ اس میں تم کوئی بل اورسلوٹ نہ دیکھوگے ۔

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۔۔۔۝۴۷ۚ [26]

ترجمہ: جب کہ ہم پہاڑوں کوچلائیں گے اورتم زمین کوبالکل برہنہ(صاف میدان کی طرح) پاؤ گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ [27]

ترجمہ: اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ أَرْبَعُونَ،قَالَ: أَرْبَعُونَ یَوْمًا؟ قَالَ: أَبَیْتُ،قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا؟قَالَ: أَبَیْتُ،قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَبَیْتُ،قَالَ:ثُمَّ یُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیَنْبُتُونَ كَمَا یَنْبُتُ البَقْلُ، لَیْسَ مِنَ الإِنْسَانِ شَیْءٌ إِلَّا یَبْلَى، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ یُرَكَّبُ الخَلْقُ یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادونوں صورکے درمیان چالیس ہوں گے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیاچالیس دن؟ فرمایامیں نہیں کہہ سکتا، انہوں نے دریافت کیا چالیس مہینے؟ فرمایامجھے خبرنہیں ، انہوں نے پھردریافت کیاچالیس سال؟فرمایامیں یہ بھی نہیں کہہ سکتا فرمایاپھراللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گااورجس طرح درخت اگتے ہیں لوگ زمین سے اگیں گے ،انسان سارے کا ساراگل سڑجائے گالیکن ایک ہڈی اوروہ کمرکی ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے قیامت کے دن مخلوق مرکب کی جائے گی۔[28]

‏ إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا ‎﴿٢١﴾‏ لِّلطَّاغِینَ مَآبًا ‎﴿٢٢﴾‏ لَّابِثِینَ فِیهَا أَحْقَابًا ‎﴿٢٣﴾‏ لَّا یَذُوقُونَ فِیهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا ‎﴿٢٤﴾‏ إِلَّا حَمِیمًا وَغَسَّاقًا ‎﴿٢٥﴾‏ جَزَاءً وِفَاقًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِنَّهُمْ كَانُوا لَا یَرْجُونَ حِسَابًا ‎﴿٢٧﴾‏ وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا كِذَّابًا ‎﴿٢٨﴾‏ وَكُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاهُ كِتَابًا ‎﴿٢٩﴾‏ فَذُوقُوا فَلَن نَّزِیدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا ‎﴿٣٠﴾‏(النباء)

بیشک دوزخ گھات میں ہے، سرکشوں کا ٹھکانا وہی ہےاس میں وہ مدتوں تک پڑے رہیں گے نہ کبھی اس میں خنکی کا مزہ چکھیں گےنہ پانی کا سوائے گرم پانی اور (بہتی) پیپ کے ،(ان کو) پورا پورا بدلہ ملے گا،انہیں تو حساب کی توقع ہی نہ تھی اور بےباکی سے ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے،  ہم نے ہر چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے اب تم (اپنے کئے کا) مزہ چکھو ،ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے۔


حقیقت یہ ہے کہ جہنم اللہ کے حکم سے کفارکے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے،جہنم جواللہ کے باغیوں اورسرکشوں کاٹھکاناہے،جس میں وہ ابدالاآبادتک پڑے رہیں گے،وہاں انہیں اپنے اعمال کے سبب ٹھنڈایاپینے کے قابل مشروب کے بجائے کھولتاہواپانی اورسخت تعفن اورسڑانڈوالاپیپ اورکچ لہووغیرہ دیاجائے گا،اوریہ پانی اتناتیزگرم ہوگاکہ جہنمیوں کی انتیں اس سے کٹ جائیں گی۔

۔۔۔ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ۝۱۵ [29]

ترجمہ:اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا۔

اس سزا کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں سرکشی کی زندگی گزارتے اوراپنے عقائدپرقائم رہے کہ قیامت کبھی قائم نہیں ہوگی ، مرنے کے بعدکوئی زندگی نہیں ، اللہ کی بے شمارنعمتوں اوراپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے کوئی روز محشر نہیں ،ان باغیوں نے انبیاء کی تنبیہات کوجھوٹ قراردے کرتسلیم کرنے سے انکارکردیاتھاحالانکہ اللہ نے ان کومتنبہ کردیاتھاکہ اس کے مقررکردہ اہل کار ان کی نیتوں اور چھوٹے بڑے اعمال کاپوراپورا ریکاڈتیار کررہے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [30]

ترجمہ:حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں ،ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں ۔

جس میں ذرہ بھربھول چوک نہیں ہوگی اورتمہیں اس کی جوابدہی کرنی ہوگی جیسے فرمایا :

۔۔۔وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ۔۔۔ ۝۱۲ۧ [31]

ترجمہ:جوکچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں اورجوکچھ آثارانہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کررہے ہیں ۔

 وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [32]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر ہو رہے ہوں گے اور کہتے جاتے ہوں گے اورکہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جواس میں درج نہ ہوگئی ،ہوجو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیراا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

مگرتم لوگوں نے ہرتنبیہ کوسناان سناکرخودہی اپنی جانوں پر ظلم کیاتھا،لہذااس دردناک عذاب اوردائمی رسوائی کوجھٹلانے والواب اپنی سرکشی اوربداعمالیوں کامزا چکھو،اب ہم عذاب میں تخفیف کرنے کے بجائے ہرآن اورہروقت اضافہ ہی کریں گے۔

إِنَّ لِلْمُتَّقِینَ مَفَازًا ‎﴿٣١﴾‏ حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا ‎﴿٣٢﴾‏ وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ‎﴿٣٣﴾‏ وَكَأْسًا دِهَاقًا ‎﴿٣٤﴾‏ لَّا یَسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا ‎﴿٣٥﴾‏ جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ‎﴿٣٦﴾‏ رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمَٰنِ ۖ لَا یَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا ‎﴿٣٧﴾ (النباء)

’’یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لیے کامیابی ہے،باغات ہیں اور انگور ہیں اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں ، چھلکتے ہوئے جام شراب ہیں ، وہاں نہ تو وہ بیہودہ باتیں سنیں گے اور نہ ہی جھوٹیں باتیں سنیں گے ، (ان کو) تیرے رب کی طرف سے (ان کے نیک اعمال کا) یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہوگا (اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہےان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے، کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔


مجرموں اورباغیوں کے مقابلہ میں وہ متقی لوگ جواللہ کی آیات پرایمان لائے،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں زندگی گزاری،جنہوں نے اللہ کی پکڑسے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری کہ آخر ایک دن رب کی بارگاہ میں کھڑے ہوکرزرہ زرہ کاحساب دیناہے،جیسے لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایاتھا۔

یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [33]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا! کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا، وہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [34]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [35]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا ،جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

وہ امتحان میں کامیاب وکامران قرارپائیں گے اوراللہ انہیں انکے تقوی اور اعمال صالح کے صلے میں جنتوں میں داخل فرمائے گا،جَعَلَنَا اللَّهُ مِنْهُمْ،جہاں انگور اور انواع و اقسام کے بہترین ذائقے والے پھل کھائیں گے ،اللہ ان کی زوجیت میں ان کے ہم سن کنواریاں ، بھرپورشباب کے باعث ابھرے ہوئے پستانوں والیاں ،شرم وحیاوالیاں ، خوبصورت آنکھوں والیاں اورمحبت والفت رکھنے والیاں حوریں دے گا جنہیں کسی انسان نے یاجن نے نہ چھواہوگاجیسے فرمایا:

وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ۝۵۲ [36]

ترجمہ:اوران کے پاس شرمیلی ہم سن بیویاں ہوں گی۔

وَحُوْرٌ عِیْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ [37]

ترجمہ:اوران کے لئے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی ،ایسی حسین جیسے چھپاکررکھے ہوئے موتی ۔

فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚ [38]

ترجمہ:ان نعمتوں کے درمیان نیچی نگاہوں والی (حوریں ) ہوں گی جنہیں جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا۔

وہاں وہ کافور،سونٹھ کی آمیزش والی اوردوسری شرابوں کے چھلکتے ہوئے جام پرجام نوش کریں گے ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا۝۵ۚ [39]

ترجمہ:نیک لوگ جنت میں شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی۔

مگراس سے دماغ میں کوئی فتور پیدا نہیں ہو گا ، جنتی وہاں ہر بیہودہ، جھوٹی اورگندی بات سننے سے محفوظ ہوں گے ،جیسے فرمایا

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۝۲۵ۙاِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ [40]

ترجمہ:وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یاگناہ کی بات نہ سنیں گے،بس ہر طرف سےسلام ہی سلام کی آوازیں آ رہی ہوں گی۔

۔۔۔لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَلَا تَاْثِیْمٌ۝۲۳ [41]

ترجمہ:جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بدکرداری۔

 یَوْمَ یَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا یَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ‎﴿٣٨﴾‏ ذَٰلِكَ الْیَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِیبًا یَوْمَ یَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدَاهُ وَیَقُولُ الْكَافِرُ یَا لَیْتَنِی كُنتُ تُرَابًا ‎﴿٤٠﴾‏ (النباء )

جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کھڑے ہوں گے تو کوئی کلام نہ کرسکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت  لدے دے اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے، یہ دن حق ہے اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے، ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا اور (چوکنا کردیا) ہے، جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا ۔


روزمحشرجب سب فرشتوں میں افضل جبرائیل امین اوردوسرے فرشتے رب کے دربارمیں سرافگندہ ہوکر صف باندھے کھڑے ہوں گے،اوراللہ مالک یوم الدین جس کی بارگاہ میں اس کی عظمت ،ہیبت اورجلالت کے باعث بغیر اجازت کوئی بھی انسان یافرشتے لب کشائی یاشفاعت یاعدالت کے کام میں مداخلت کی جرات وحوصلہ نہیں کرسکیں گےاورجسے اجازت ملے گی وہ حق بات میں ہی شفاعت کرے گا،جیسے فرمایا:

۔۔۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔ ۝۲۵۵ [42]

ترجمہ: ایسا کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں سفارش کر سکے ۔

یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔ ۝۱۰۵ [43]

ترجمہ :جب وہ دن آئے گا تو کسی کی مجال نہ ہوگی الا یہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ یَتَكَلَّمُ یَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس دن رسولوں کے سوااورکوئی بات نہ کرسکے گا۔[44]

اے غافل لوگو!فیصلے کاوہ دن یقیناً آنے والاہے،اللہ اپنے فضل واحسان سے ان خوش نصیبوں کو تکریم کے طورپرمزید انعام واکرام سے نوازے گایعنی اللہ کی طرف سے دادودہش کی فراوانی ہوگی جوکبھی ختم نہ ہوگی ،جیسے فرمایا:

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ۝۰۝۲۶ [45]

ترجمہ: جن لوگوں نے بھلائی کاطریقہ اختیارکیا ان کے لئے بھلائی ہے اورمزیدفضل ۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۝۰ۚ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۝۸۹ [46]

ترجمہ:جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کےہول سے محفوظ ہوں گے۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۔۔۔ ۝۸۴ [47]

ترجمہ:جوکوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لئےاس سے بہتر بھلائی ہے۔

ا ور اللہ تعالیٰ نےجہنم اورجنت کی طرف جانے والے دونوں راستوں کے بارے میں واضح طور بتلادیا ہے،جیسے فرمایا

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [48]

ترجمہ:اور(نیکی اوربدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے( نہیں ) دکھا دیے ؟۔

اللہ نے تم پرحجت قائم کردی ہے اب ان دونوں راستوں میں سے جس پرتم چلنا پسند کرو فیصلہ تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے، لوگو! روز محشر میں اللہ مالک یوم الدین کے حضورکھڑے ہوکراعمال کاحساب دینے کاوقت بہت دورنہیں بلکہ قریب آلگا ہے ، لہذاسانسوں کی ڈورکولمبا سمجھنے کے بجائے مختصرسمجھواور جلدی فیصلہ کر لوتاکہ اس دن پچھتانانہ پڑے ،کہیں ابلیس کے بہکاوے میں آکریہ نہ سوچنے لگوکہ ابھی تولمبی زندگی پڑی ہے ،ابھی عمرہی کیاہےابھی یہ کام ضروری ہے یہ کرلوں پھراللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لوں گا ، یایہ نہ سوچنے لگوکہ یہ مولوی لوگ تو بس اللہ سے ڈراتے ہی رہتے ہیں ایسی کوئی بات ہی نہیں اللہ تعالیٰ بڑاغفوررحم ہے وہ بخش دے گا،بھائیو! اس سخت ترین دن میں ہر انسان اپنے تمام اعمال کو دیکھ لے گا جو اس نے کیے تھے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔۔۔ ۝۴۹ۧ [49]

ترجمہ: جوجوکچھ انہوں نے کیاتھاوہ سب اپنے سامنے حاضرپائیں گے ۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ [50]

ترجمہ:اس روزانسان کو جتا دیا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا تھا اور کیا پیچھے چھوڑا تھا۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔۔۔ ۝۱۸ [51]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے ۔

اس وقت میدان محشرمیں سامنے غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کودیکھ کر کفار و مشرکین آرزوکریں گے کہ کاش وہ دنیامیں پیداہی نہ ہواہوتایااب مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے اوراس ہولناک عذاب سے نجات پا جائے۔

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ :

اختلف فِی اسمه واسم أبیه، وأصح مَا فِی ذلك قول من قَالَ: اسمه نضلة بْن عبید، وَهُوَ قول أحمد بن حنبل، ویحیى بن معین اسمه نضلة بْن عَبْد الله

ان کے اوران کے والدکے نام میں اختلاف ہے، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اوریحییٰ بن معین رحمہ اللہ ان کانام نضلہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں ۔[52]

ویُقال: نضلة بن عَمْرو

بعض ان کانام نضلہ بن عمروبیان کرتے ہیں ۔[53]

وقال بعضهم: ابن عُبَیْد الله بْن الْحَارِث بْن حبال بْن ربیعة

اوربعض اہل علم ابن عبیداللہ بن حارث بن حبال بن ربیعہ بیان کرتے ہیں ۔[54]

أن ولده یقولون: اسمه عَبْد اللَّه بْن نضلة

واقدی کے بقول اوران کے والدکانام عبداللہ بن نضلہ بیان کیاجاتاہے۔[55]

ان کا تعلق قبیلہ اسلم بن افصیٰ سے تھا۔

أسلم قدیمًا وَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فتح مكّة

آپ بعثت نبوی کے ابتدائی زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے اورفتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ قَالَ:النَّاسُ آمِنُونَ كُلُّهُمْ غَیْرَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خطل وبناته الْفَاسِقَةِ،قَالَ أَبُو بَرْزَةَ: فَقَتَلْتُهُ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ. یَعْنِی عَبْدَ اللَّهِ بْنَ خَطَلٍ.

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (فتح مکہ کے موقع پر)عبداللہ بن خطل کے سواسب کوامان مل گئی جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کاحمل اسقاط ہوگیاتھا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ کعبہ کاغلاف پکڑکرلٹکاہواتھامیں نے اسے یعنی عبداللہ بن خطل کواس کے کیفرکردارتک پہنچادیا ۔[56]

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الأَسْلَمِیِّ قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ مُرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ. قَالَ: أَمِطِ الأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ فَإِنَّهُ لَكَ صَدَقَةٌ.

ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے کوئی ایساعمل بتایئے جومیں کروں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاراستے سے ایذاپہنچانے والی چیز(کانٹے پتھر وغیرہ)دورکرویہی تمہاری خیرات ہے۔[57]

حدثنا سیار ابن سَلامَةَ قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا بَرْزَةَ أَبْیَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیَةِ

سیاربن سلامہ سے مروی ہے کہ میں نے ابوبرزہ کوسفیدسراورداڑھی والادیکھا۔[58]

وحضر مع علی بْن أَبی طالب قتال الخوارج بالنهروان

آپ رضی اللہ عنہ نہروان میں خوارج کے قتال میں سیدناعلی بن ابوطالب کے ساتھ تھے۔ [59]

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نہایت پاکیزہ اخلاق وکردارکے حامل تھے ،ابن سعدکابیان ہے کہ ان کامعمول تھاکہ صبح وشام غریبوں اورمسکینوں کوکھاناکھلاتے تھے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَكِیمٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِی أُمِّی أَنَّهَا كَانَتْ لِأَبِی بَرْزَةَ جَفْنَةٌ مِنْ ثَرِیدٍ غُدْوَةً وَجَفْنَةٌ عَشِیَّةً لِلْأَرَامِلِ وَالْیَتَامَى وَالْمَسَاكِینِ

حسن بن حکیم اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ ثرید(عربوں کاایک مرغوب کھانا)کاایک بڑاطشت بھرکرہرصبح وشام بیواؤ ں ،یتیموں اورمسکینوں کوکھلاتے تھے۔[60]

أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ أَنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو كَانَ یَلْبَسُ الْخَزَّ وَیَرْكَبُ الْخَیْلَ وَكَانَ أَبُو بَرْزَةَ لا یَلْبَسُ الْخَزَّ وَلا یَرْكَبُ الْخَیْلَ وَیَلْبَسُ ثَوْبَیْنِ مُمَصَّرَیْنِ. فَأَرَادَ رَجُلٌ أَنْ یَشِیَ بَیْنَهُمَا فَأَتَى عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو فَقَالَ: أَلَمْ تَرَ إِلَى أَبِی بَرْزَةَ یَرْغَبُ عَنْ لُبْسِكَ وَهَیْئَتِكَ وَنَحْوُكَ لا یَلْبَسُ الْخَزَّ وَلا یَرْكَبُ الْخَیْلَ؟ فَقَالَ عَائِذٌ: یَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا بَرْزَةَ. مَنْ فِینَا مِثْلُ أَبِی بَرْزَةَ! ثُمَّ أَتَى أَبَا بَرْزَةَ فَقَالَ: أَلَمْ تَرَ إِلَى عَائِذٍ یَرْغَبُ عَنْ هَیْئَتِكَ وَنَحْوِكَ. یَرْكَبُ الْخَیْلَ وَیَلْبَسُ الْخَزَّ؟ فَقَالَ:

یَرْحَمُ اللَّهُ عَائِذًا. وَمَنْ فِینَا مِثْلُ عَائِذٍ؟

ثابت بنانی سے مروی ہےعائذ رضی اللہ عنہ بن عمرو خزکےعمدہ کپڑے بھی پہنتے تھے اورگھوڑے پرسواری بھی کرتے تھے جبکہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ جن کواللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دے رکھاتھالیکن وہ زاہدانہ زندگی بسرکرتے تھے ،زندگی بھرکبھی پرتکلف لباس نہ پہنا،صرف دوگیروے کپڑے پہنتے تھےاورگھوڑے کی سواری سے بھی اجتناب کرتے تھے،کسی شخص نے ان دونوں بزرگوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے خیال سے عائذ رضی اللہ عنہ بن عمروسے کہا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے توآپ کی مخالفت پرکمرباندھ رکھی ہے آپ خز(ایک قیمتی کپڑا)استعمال کرتے ہیں اورگھوڑے پربھی سوارہوتے ہیں لیکن ابوبرزہ رضی اللہ عنہ ان دونوں سے اجتناب کرتے ہیں ، عائذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیااللہ تعالیٰ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ پررحم نازل فرمائے آج ہم میں کون ان کی ہمسری کرسکتاہے،وہ شخص عائذکے جواب سے مایوس ہوکر ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورکہا عائذ رضی اللہ عنہ بن عمرونے توآپ کی مخالفت پرکمرباندھ رکھی ہے وہ کس ٹھاٹھ سے زندگی گزارتے ہیں خزکالباس پہنتے ہیں اور گھوڑے پرسواری کرتے ہیں ، ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیااللہ تعالیٰ عائذ رضی اللہ عنہ پررحم فرمائے ہم میں ان کے مرتبہ کاکون ہے؟۔[61]

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کوفیضان نبوت سے بہرہ یاب ہونے کاکافی موقع ملااس لیے وہ علم وفضل کے اعتبارسے بڑااونچامقام رکھتے تھے ان سے چھیالیس آحادیث مروی ہیں ان میں ستائیئس متفق علیہ ہیں ،دوصحیح بخاری اورچارصحیح مسلم میں منفردہیں ،ان کے کثیرالتعدادشاگردوں میں ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ ،ابومنہال ریاحی رحمہ اللہ ،ارزق بن قیس رحمہ اللہ ، ابو طالوت رحمہ اللہ ،مغیرہ رحمہ اللہ ،ابوالعالیہ ریاحی رحمہ اللہ ،کنانہ بن نعیم رحمہ اللہ ، رابسی رحمہ اللہ اورابوالسوارعدوی رحمہ اللہ کے نام قابل ذکرہیں ۔

ومات بالبصرة

آپ رضی اللہ عنہ بصرہ میں فوت ہوئے۔[62]

 واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ یربوعی التمیمی:

واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کاتعلق عرب کے مشہورقبیلے بنوتمیم سے تھا،اہل سیرنے یہ وضاحت نہیں کی کہ واقد رضی اللہ عنہ کب مکہ مکرمہ میں مقیم تھے کیونکہ مکہ بنوتمیم کاوطن نہیں تھا،یہ بھی ہوسکتاہے کہ واقد رضی اللہ عنہ کے آباؤ اجدادمیں سے کوئی صاحب مکہ مکرمہ میں آکربس گئے ہوں اور واقد رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ ہی میں پلے بڑھے ہوں ، واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ ان عظیم المرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت میں سے ہیں جن کوبعثت نبوی کے بالکل ابتدائی زمانے میں قبول حق کاشرف حاصل ہوا۔

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ:أَسْلَمَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّمِیمِیُّ قَبْلَ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الأَرْقَمِ وَقَبْلَ أَنْ یَدْعُوَ فِیهَا

یزیدبن رومان کہتے ہیں واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ تمیمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے اوروہاں دعوت اسلام دینے سے پہلے ایمان لائے۔[63]

واقد بْن عبد الله حلیف بنی عدِیّ.من السّابقین الأوَّلِین

واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن عبدمناف جوبنوعدی کے حلیف تھے اور سابقوں الالون میں سے تھے۔[64]

واقد بن عبد الله التمیمی حلیف بنى عدى بن كعب

واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ تمیمی بنی عدی بن کعب کے حلیف تھے۔[65]

دوسرے مسلمانوں کی طرح واقد رضی اللہ عنہ بھی کئی سال تک مشرکین قریش کے تشددکانشانہ بنے رہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہجرت مدینہ منورہ کااذن دیا تو بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خفیہ طورپرمکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے لیکن واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ علانیہ ہجرت کی

لَمَّا هَاجَرَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّمِیمِیُّ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى رِفَاعَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِآخى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ وَاقِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التَّمِیمِیِّ وَبِشْرِ بْنِ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ

مدینہ منورہ پہنچ کر واقد رضی اللہ عنہ نے رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذرانصاری کے ہاں قیام کیا،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایااورچندماہ بعد مہاجرین وانصارکے درمیان مواخاة قائم فرمائی تو تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ اور بشر رضی اللہ عنہ بن براء بن معرورکے درمیان مواخاة قائم فرمائی۔[66]

وَشَهِدَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ سَرِیَّتَهُ إِلَى نَخْلَةَ، وَقُتِلَ یَوْمَئِذٍ عَمْرُو بْنُ الْحَضْرَمِیُّ ، فَقَالَتِ یَهُودُ: عَمْرُو بْنُ الْحَضْرَمِیُّ قَتَلَهُ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ

واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن جحش کے ساتھ سریہ نخلہ میں شامل تھے اورانہوں نے ہی عمرو بن حضرمی کاقتل کیاتھا،یہودی کہتے تھے واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے عمروبن حضرمی کاقتل کیاہے۔[67]

فرمى وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التمیمی عَمْرَو بْنَ الْحَضْرَمِیَّ بسهم فَقَتَلَهُ

واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے عمروبن حضرمی پر تیرچلایااورانہیں قتل کردیا۔[68]

وعمرو بن الحضرمیّ أول قتل من المشركین فِی الإسلام

عمروبن حضرمی مشرکین میں پہلا شخص ہے جو اسلام میں قتل ہوا ۔[69]

قال ابن دُرَیْد: هو أول من رمى بسهم فی سبیل الله عز وجل

ابن دریدکہتے ہیں یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فی سبیل اللہ پہلاتیرچلایا۔[70]

وشهد وَاقِدٌ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وتوفی فِی أَوَّلِ خِلافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَلَیْسَ لَهُ عَقِبٌ ،فَصَلَّى عَلَیْهِ ابْنُ عُمَرَ , وَدَفَنَهُ

اور واقد رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اوردوسرے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب ہونے کی سعادت حاصل کی،اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی عرصہ میں وفات پائی، انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کی نمازجنازہ پڑھی اورانہیں دفن کیا۔[71]

عاقل رضی اللہ عنہ ،عامر رضی اللہ عنہ ،ایاس رضی اللہ عنہ اورخالد رضی اللہ عنہ بن بکیرکااسلام قبول کرنا:

بعثت نبوی کے اڑھائی سال بعدسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے دارارقم کومرکزتبلیغ وہدایت بنایاتوسب سے پہلے عاقل رضی اللہ عنہ ، عامر رضی اللہ عنہ ،ایاس رضی اللہ عنہ اورخالد رضی اللہ عنہ بن بکیرنے اس مرکزمیں اسلام قبول کیا ،

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ:أسلم عَاقِلٌ وَعَامِرٌ وَإِیَاسٌ وَخَالِدٌ بَنُو أَبِی الْبُكَیْرِ بْنِ عَبْدِ یَالِیلَ جَمِیعًا فِی دَارِ الأَرْقَمِ وَهُمْ أَوَّلُ مَنْ بَایَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَاوكان اسم عاقل غافلًا فَلَمَّا أسلم سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عاقلا

یزیدبن رومان کہتے ہیں دارارقم میں سب سے پہلے عاقل رضی اللہ عنہ ، عامر رضی اللہ عنہ ، ایاس رضی اللہ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ بن بکیر(چاروں حقیقی بھائیوں )نے اسلام قبول کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدست اقدس پربعیت کاشرف حاصل کیا، عاقل رضی اللہ عنہ کانام غافل تھاجب انہوں نے اسلام قبول کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام عاقل رکھ دیا۔[72]

حلیف بنی عدی بْن كَعْب بْن لؤی

یہ بنوعدی بن کعب بن لوی کے حلیف تھے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومدینہ منورہ کی طرف ہجرت کااذن دیاتو

خَرَجَ عَاقِلٌ وَخَالِدٌ وَعَامِرٌ وَإِیَاسٌ بَنُو أَبِی الْبُكَیْرِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ لِلْهِجْرَةِ فَأَوْعَبُوا رِجَالُهُمْ وَنِسَاؤُهُمْ فَلَمْ یَبْقَ فِی دُورِهِمْ أَحَدٌ حَتَّى غُلِّقَتْ أَبْوَابُهُمْ ،فَنَزَلُوا عَلَى رِفَاعَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِوآخى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ عَاقِلِ بْنِ أَبِی الْبُكَیْرِ وَبَیْنَ مُبَشِّرِ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ وَیُقَالُ بَلْ آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ عَاقِلِ بْنِ أَبِی الْبُكَیْرِ وَمُجَذَّرِ بْنِ زِیَادٍ

چاروں بھائیوں عاقل رضی اللہ عنہ ، عامر رضی اللہ عنہ ، ایاس رضی اللہ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ نےاپنے تمام مردوں اورعورتوں کوجمع کرلیا،ان کے مکانوں میں کوئی باقی نہ رہایہاں تک کہ گھروں کے دروازےبندکر کے روانہ ہوئے،اورمدینہ منورہ میں رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذرکے گھرقیام کیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصارمیں مواخاة قائم فرمائی تو عاقل رضی اللہ عنہ بن بکیراورمبشربن عبدالمنذرکے درمیان مواخاة قائم فرمائی،یہ بھی کہاجاتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاقل رضی اللہ عنہ بن بکیراورمجذربن زیادکے درمیان مواخاة قائم فرمائی تھی ،

وَقُتِلَ عَاقِلُ بْنُ أَبِی الْبُكَیْرِ یَوْمَ بَدْرٍ شَهِیدًا وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعٍ وَثَلاثِینَ سَنَةً ، قَتَلَهُ مَالِكُ بْنُ زُهَیْرٍ الْجُشَمِیُّ

جب غزوات کاسلسلہ شروع ہواتو عاقل رضی اللہ عنہ بن ابو بکیرغزوہ بدر میں شامل ہوئے اوراس میں شہادت کے عظیم درجہ پرفائزہوئے،اس وقت ان کی عمرچونتیس برس کی تھی،انہیں مالک بن زہیرجشمی نے قتل کیا۔

آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ أَبِی الْبُكَیْرِ وَبَیْنَ زَیْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ ، وَشَهِدَ خَالِدُ بْنُ أَبِی الْبُكَیْرِ بَدْرًا، وَأُحُدًا وَقُتِلَ یَوْمَ الرَّجِیعِ شَهِیدًا فِی صفر سنة أربعٍ من الهجرة، وكان یوم قُتِلَ ابن اربع وثلاثین سنة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن بکیراور زید رضی اللہ عنہ بن دثنہ کے درمیان مواخاة قائم فرمائی، خالد رضی اللہ عنہ بن بکیر نے غزوہ بدراورغزوہ احدمیں شرکت کی اورصفرچارہجری میں یوم الرجیع میں شہادت پائی، جس روزوہ شہیدہوئے چونتیس برس کے تھے۔

وله یقول حسّان بْن ثابت:

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت نے ان کی مدح میں یہ کہا

أَلَا لَیْتَنِی فِیهَا شَهِدْتُ ابْنَ طَارِقٍ ، وَزَیْدًا وَمَا تُغْنِی الْأَمَانِی وَمَرْثَدَا

کاش میں اس میں ابن طارق اورزیداورمرثدکے پاس موجودہوتااورمجھے(آرزوئیں بے نیازنہ کرتیں )

فَدَافَعْتُ عَنْ حِبِّی خُبَیْبٍ وَعَاصِمٍ،وَكَانَ شِفَاءً لَوْ تَدَارَكْتُ خَالِدَا

تومیں اپنے محبوب خبیب رضی اللہ عنہ اورعاصم رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدافعت کرتااوراگرمیں خالد رضی اللہ عنہ کاانتظام کرتاتووہ بھی شفاتھے۔

آخى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ إِیَاسِ بْنِ أَبِی الْبُكَیْرِ وَالْحَارِثِ بْنِ خَزْمَةَ، وَشَهِدَ إِیَاسُ بْنُ أَبِی الْبُكَیْرِ بَدْرًا، وَأُحُدًا، وَالْخَنْدَقَ، وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وتوفی إیاس سنة أربع وثلاثین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایاس رضی اللہ عنہ بن بکیراورحارث رضی اللہ عنہ بن خزیمہ کے درمیان مواخاة قائم فرمائی،ایاس رضی اللہ عنہ بن بکیر غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہے،اورایاس رضی اللہ عنہ نے چونتیس ہجری میں وفات پائی۔[73]

آخى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ عامر بْن أبی البكیر وثابت بْن قَیْس بْن شماس ، وَشَهِدَ عَامِرُ بْنُ أَبِی الْبُكَیْرِ بَدْرًا، وَأُحُدًا، وَالْخَنْدَقَ، وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر رضی اللہ عنہ بن بکیراورثابت رضی اللہ عنہ بن قیس بن شماس کے درمیان مواخاة قائم فرمائی، عامر رضی اللہ عنہ بن بکیر غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہے۔[74]

اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش کیا۔

[1] الجاثیہ۳۲

[2] الانعام۲۹

[3] الجاثیہ۲۴

[4] یٰسین۷۸

[5] طہ:53

[6] الزخرف۱۰

[7]نوح۱۹

[8] النحل۱۵

[9] النبا۸

[10] فاطر۱۱

[11] الرعد۳

[12] الذاریات۴۹

[13] الملک۳

[14] نوح۱۵

[15] الروم۴۸

[16] الرعد۴

[17] ص۲۷

[18] ھود۱۰۴

[19] بنی اسرائیل۹۹

[20] بنی اسرائیل۷۱

[21]النحل ۸۹

[22] الرحمٰن۳۷

[23] الواقعة۴

[24] الزال۱

[25] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[26] الکہف۴۷

[27] القارعة۵

[28] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۂ عم یتساء لون بَابُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ۴۹۳۵، صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ۷۴۱۴

[29] محمد۱۵

[30] الانفطار ۱۰تا۱۲

[31] یٰسین۱۲

[32] الکہف۴۹

[33] لقمان۱۶

[34] الزلزل۷،۸

[35] الانبیائ۴۷

[36] ص ۵۲

[37] الواقعة۲۲،۲۳

[38] الرحمٰن۵۶

[39]الدھر۵

[40]الواقعة۲۵،۲۶

[41] الطور۲۳

[42] البقرة۲۵۵

[43] ھود۱۰۵

[44] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۳۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ۴۵۱،السنن الکبری للنسائی۱۱۴۲۴، مسند احمد ۷۹۲۷

[45] یونس۲۶

[46]النمل ۸۹

[47] القصص۸۴

[48] البلد۱۰

[49] الکہف۴۹

[50] القیامة۱۳

[51] الحشر۱۸

[52] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۶۱۰؍۴

[53] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۰۷؍۲۹

[54] ابن سعد۲۲۳؍۴

[55] أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۴۰۱؍۳

[56] ابن سعد۲۲۳؍۴

[57] ابن سعد۲۹۹؍۴

[58] ابن سعد۶؍۷

[59] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۰۹؍۲۹، تهذیب التهذیب ۴۴۶؍۱۰

[60] ابن سعد۲۲۴؍۴

[61] ابن سعد۲۲۴؍۴

[62] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۱۰؍۴

[63] ابن سعد۲۹۸؍۳، اسدالغابة

[64] تاریخ اسلام بشار۱۶۶؍۲

[65] الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم۳۲؍۹، اسد الغابة ۴۰۳؍۵، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۵؍۶

[66] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۵۰؍۴

[67] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۵۰؍۴

[68] اسدالغابة ۴۰۳؍۵، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۵؍۶

[69] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۵۰؍۴

[70] المؤتَلِف والمختَلِف للدارقطنی۲۲۸۴؍۴

[71] ابن سعد۲۹۸؍۳

[72] ابن سعد۲۹۶؍۳،اسدالغابة۱۱۳؍۳

[73] اسدالغابة۳۳۴؍۱

[74] ابن سعد۲۹۶؍۳

Related Articles