بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ الکہف(حصہ اول)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کوشرک چھوڑکرتوحیداختیارکرنے اوردنیاپرستی چھوڑکرآخرت پریقین دلانے کی دعوت دے رہے تھے ،مگرقوم کے بڑے بڑے سرداراپنی دولت اورشوکت وحشمت کے زعم میں  نہ صرف آپ کی دعوت کوردکررہے تھے بلکہ ان چندراست پسندانسانوں  کوبھی جنہوں  نے یہ دعوت قبول کرلی تھی ،ان کواپنی مشرکانہ ملت پرلانے کے لئے انسانیت سوز ظلم وستم اورتحقیروتذلیل کانشانہ بنارہے تھے،اوران کاہاتھ روکنے والاکوئی نہ تھا،مگرراست پسند،سلیم الفطرت یہ چند انسان اللہ کی وحدانیت وربوبیت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی راہنمائی میں  ایمان کی دولت سے سرشارتھے ،اورکفارمکہ کوسمجھ نہیں  آرہاتھاکہ انہیں  کس طرح اس راہ سے روکا جائے،

قَالَ: بَعَثَتْ قُرَیْشٌ النَّضْرَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ إِلَى أَحْبَارِ یَهُودَ بِالْمَدِینَةِ، فَقَالُوا لَهُمْ: سَلُوهُمْ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَصِفُوا لَهُمْ صِفَتَهُ، وَأَخْبِرُوهُمْ بِقَوْلِهِ، فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، وَعِنْدَهُمْ عِلْمُ مَا لَیْسَ عِنْدَنَا مِنْ عِلْمِ الْأَنْبِیَاءِ. فَخَرَجَا حَتَّى قَدِمَا الْمَدِینَةَ، فَسَأَلُوا أَحْبَارَ یَهُودَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَوَصَفُوا لَهُمْ أَمْرَهُ وَبَعْضَ قَوْلِهِ، وَقَالَا: إِنَّكُمْ أَهْلُ التَّوْرَاةِ، وَقَدْ جِئْنَاكُمْ لِتُخْبِرُونَا عَنْ صَاحِبَنَا هَذَا،قَالَ:قَالَ: فَقَالَتْ لَهُمْ أَحْبَارُ یَهُودَ: سَلُوهُ عَنْ ثَلَاثٍ نَأْمُرُكُمْ بِهِنَّ، فَإِنْ أَخْبَرَكُمْ بِهِنَّ فَهُوَ نَبِیُّ مُرْسَلٌ، وَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ فَالرَّجُلُ مُتَقَوِّلٌ، فَرُوا فِیهِ رَأْیَكُمْ

آخر قریش نے مددکے لئے اہل کتاب یہودونصاریٰ کی طرف نضربن حارث اورعقبہ بن ابی معیط کومدینہ کے یہودی علماء کے پاس روانہ کیااورانہیں  فہمائش کردی کہ وہ ان علماء سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  سوال کریں ،ان کے سامنے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کریں ،اورانہیں  آپ کے دعویٰ نبوت کی اطلاع دیں ، وہ پہلےاہل کتاب ہیں  اوران کے پاس علم ہےاوران کے پاس اگلے انبیاء کاعلم نہیں  ہے، یہ دونوں  روانہ ہوئے یہاں  تک کہ مدینہ منورہ پہنچ  گئے،احبارمدینہ سے ملے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حالات واوصاف بیان کیے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم کاذکرکیااورکہاتم اہل تورات ہوبتاؤ ان مدعی نبوت کے بارے میں  تمہاراکیاخیال ہے؟احباریہودنے کہادیکھوہم تمہیں  (اپنی تاریخ سے) ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں  تم جاکران سے تین سوالات کرو(جن کا حجازمیں  کوئی چرچانہ تھا)اگروہ جواب دے دیں  توان کے سچے ہونے میں  کچھ شک نہیں  ،بے شک وہ اللہ کے نبی اوررسول ہیں اوراگران سوالات کے جوابات نہ دے سکیں  توان کے جھوٹاہونے میں  کچھ شک نہیں ،پھرتم جو چاہو کرو۔

سَلُوهُ عَنْ فِتْیَةٍ ذَهَبُوا فِی الدَّهْرِ الْأَوَّلِ، مَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِمْ فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لَهُمْ حَدِیثٌ عَجِیبٌ. وَسَلُوهُ عَنْ رَجُلٍ طَوَّافٍ، بَلَغَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، مَا كَانَ نَبَؤُهُ؟ وَسَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ مَا هُوَ؟ فَإِنْ أَخْبِرَكُمْ بِذَلِكَ، فَإِنَّهُ نَبِیُّ فَاتَّبِعُوهُ، وَإِنْ هُوَ لَمْ یُخْبِرْكُمْ، فَهُوَ رَجُلٌ مُتَقَوِّلٌ، فَاصْنَعُوا فِی أَمْرِهِ مَا بَدَا لَكُمْ. فَأَقْبَلَ النَّضْرُ وَعُقْبَةُ حَتَّى قَدِمَا مَكَّةَ عَلَى قُرَیْشٍ، فَقَالَا: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ: قَدْ جِئْنَاكُمْ بِفَصْلِ مَا بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ، قَدْ أَمَرَنَا أَحْبَارُ یَهُودَ أَنْ نَسْأَلَهُ، عَنْ أُمُورٍ، فَأَخْبَرُوهُمْ بِهَا،

ان سے پوچھواگلے زمانے میں  جونوجوان اپنا شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے ان کاواقعہ بیان کرو،وہ ایک عجیب واقعہ ہے(یعنی اصحاب کہف کون تھے؟ ) اوراس شخص کے حالات دریافت کروجس نے زمین کاگشت لگایاتھااورمشرق ومغرب ہوآیاتھا(یعنی ذوالقرنین کاکیاقصہ ہے؟ ) اورروح کی ماہیت دریافت کروکہ وہ کیاہے؟اگروہ ان سوالات کے جوابات بتلادیں  توانہیں  نبی مان کران کی اتباع کرواوراگروہ نہ بتاسکیں  تووہ فضول گفتگوکرنے والے ہیں  پھرتم ان کے ساتھ جوچاہوسلوک کرو،نضربن حارث اورعقبہ بن ابومحیط معلومات اورسوالات لیکر مکہ واپس آگئےاوربولے اے گروہ قریش! ہم تمہارے اورمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان حق وباطل کافیصلہ کرنے والی باتیں  لے کرآئے ہیں ، احباریہودنے کہاہے کہ تم ان سے یہ سوالات کرواورپھرساری روئیدادان کے گوش گزارکی،

فَجَاءُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنَا، فَسَأَلُوهُ عَمَّا أَمَرُوهُمْ بِهِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أُخْبِرُكُمْ غَدًا بِمَا سَأَلْتُمْ عَنْهُ وَلَمْ یَسْتَثْنِ فَانْصَرَفُوا عَنْهُ، فَمَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً، لَا یُحْدِثُ اللَّهُ إِلَیْهِ فِی ذَلِكَ وَحْیًا، وَلَا یَأْتِیهِ جَبْرَائِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ، حَتَّى أَرْجَفَ أَهْلُ مَكَّةَ، وَقَالُوا: وَعَدَنَا مُحَمَّدٌ غَدًا، وَالْیَوْمَ خَمْسَ عَشْرَةَ قَدْ أَصْبَحْنَا فِیهَا لَا یُخْبِرُنَا بِشَیْءٍ مِمَّا سَأَلْنَاهُ عَنْهُ. وَحَتَّى أَحْزَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُكْثَ الْوَحْیِ عَنْهُ، وَشَقَّ عَلَیْهِ مَا یَتَكَلَّمُ بِهِ أَهْلُ مَكَّةَ.ثُمَّ جَاءَهُ جَبْرَائِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ، مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، بِسُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ

پھریہ سب جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اورکہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہمیں  ان تین سوالات کے جواب دیں  اوروہ سوالات پوچھے جووہ پوچھ کرآئے تھے،اس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکچھ تم نے پوچھاہے اس کے بارے میں میں  تمہیں  کل سب کچھ بتاؤ ں  گامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان شاء اللہ نہ فرمایا،وہ لوگ یہ سن کر واپس لوٹ گئے،دوسری طرف رسول اللہ پندرہ دن تک انتظارفرماتے رہے ،اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپ پرکوئی وحی نہ بھیجی اورنہ ہی جبرائیل  علیہ السلام  تشریف لائےیہاں  تک کہ مکہ والوں  نے لوگوں  کوبھڑکانہ شروع کردیاکہ محمدنے ہم سے ایک دن کاوعدہ کیاتھااورآج پندرہ دن ہوگئے ہیں  مگرانہوں  نے ہمارے سوالات کےجوابات نہیں  دیئے، اہل مکہ کے یہ طعنے اوروحی کاانقطاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پربہت گراں  گزرا،پندرہ دن کے بعدجبرائیل  علیہ السلام   سورۂ  کہف لے کر حاضر ہوئے۔[1]

جس میں  کفارکی باتوں  کاجواب تھا اور جس میں  فرمایاگیا کہ انسان کوعلم غیب نہیں  کہ وہ آئندہ حالات کے بارے میں  اپنے قطعی اوریقینی علم کے ساتھ کچھ کہہ سکے اورنہ ایسا طاقتوار ہے کہ جوچاہے سوکرلے ،اس لئے اگر ایسی بات کہنی ہوتواس کواللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے ان شاء اللہ کہناچاہیے،اللہ تعالیٰ نے کفارمکہ کے ان سوالات کاجواب میں  اصحاب کہف کے بارے میں  فرمایاکہ وہ تواہل توحیدتھے جن کے ساتھ بادشاہ وقیانوس ،اس کی حکومت کے امراء اور ان کے اہل خاندان نے توحید کے جرم میں  تمہاری طرح ان کے ساتھ تحقیرآمیزرویہ اختیارکیا،انہیں  ڈرایااورجان سے ماردینے کی دھمکیاں  دی گئیں ، دوسری طرف انہیں  مال ودولت کے انبار، اونچے عہدوں  پر تقرراورمعیارزندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں لیکن ان نوجوانوں  نے ایمان کی حفاظت کوہرچیزپرمقدم جانااوراسے بچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مخلص بندوں  کوتودشمنوں  کے شرسے بچالیامگران کے خلاف چلنے والے انجام کارفناہوگئے ،اگرتم نے اپنی اصلاح نہ کی توتمہاراانجام بھی اس وقت کے لوگوں  جیسا ہی ہوگااورپھرروزقیامت تم سے مسلمانوں  پر اس ظلم وستم کی سختی سے بازپرس بھی کی جائے گی ،مسلمانوں  کواصحاب کہف کے کرداروں  سے متعارف کراکر ہمت افزائی کی گئی کہ گووہ بہت ہی قلیل التعداد اورکمزور تھے مگرانہوں  نے شیطان کے پجاریوں  کے سامنے ہمت ہارکراپناسرنہیں  جھکایاتھابلکہ رب کی بھروسے پراپنا گھربار، عزیز و اقارب اوراپناوطن تک چھوڑکرچل دیئے تھے ،کفارمکہ پہلی امتوں  کی طرح آخرت پریقین نہیں  رکھتے تھے ،اس واقعہ کو بیان کرکے موجودہ مختصر زندگی کے بعدہمیشہ کی زندگی پر استدلال کیاگیاکہ جب وہ رب ان چندنوجوانوں کوایک لمبے عرصے تین سونوسال کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتاہے توکیاوہ تمہیں  زندہ نہیں  کرسکے گا،ایک منکر اورایک اہل ایمان کاواقعہ بیان کرکے اہل مکہ کوتنبیہ کی گئی کہ جس دولت پرتم اتراتے ہووہ توبہت ہی ناپائدار شے ہے ،اس کی توکوئی حقیقت ہی نہیں  ہے،موسٰی اور خضرکے واقعہ کوبیان کر کے مسلمانوں  کوتسلی دینے کے لئے بتایا گیا کہ کسی بھی مصلحت ومشیت ایزدی کی وجہ سے جو واقعات ظاہرہوتے ہیں  وہ انسان کی بے خبری کی وجہ سے حیران کن ہوتے ہیں  ، ذوالقرنین کے بارے میں  بتایاگیاکہ تم ایک معمولی تجارت اور معمولی جاگیروحویلی اور مختصر علاقہ کی حاکمیت پراتراتے ہو اورخودکونہ جانے کیاسمجھتے ہومگر ذوالقرنین ایک مسلمان انصاف پسند بادشاہ تھا جسے ہم نے ہرطرح کا مال واسباب مہیاکیاتھامگروہ اس پراترانے کے بجائے ہمارے حضور سربسجودرہتاتھااورہمارا شکرگزاربندہ تھا اورظاہری اسباب کے طورپرجومضبوط دیوار اس نے تیارکی تواس کا بھروسہ رب پر ہی تھاناکہ اپنی تیارکردہ دیوارپر، ان سوالوں  کے جواب کے بعدتوحیدوآخرت کے فوائدکا ذکر کیا گیا اور رسالت کے سلسلے میں  بتایا گیا کہ ہرنبی ورسول کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم میں  سے ہیں  مگران کامرتبہ وعظمت یہ ہے کہ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ،اگرتم لوگ ان تعلیمات پرعمل کروگے تو اس دنیا اور اخروی زندگی میں  فلاح وکامیابی تمہارامقدرہوگی ورنہ ذلت کی ہمیشگی والی زندگی تمہاری منتظر ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والاہے

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ ‎﴿١﴾‏ قَیِّمًا لِّیُنذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِّن لَّدُنْهُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا ‎﴿٢﴾‏ مَّاكِثِینَ فِیهِ أَبَدًا ‎﴿٣﴾‏ وَیُنذِرَ الَّذِینَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ‎﴿٤﴾ا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ۚ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن یَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ‎﴿٥﴾ (الکھف)
’’تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دے، اور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے کہ ان کے لیے بہترین بدلہ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان لوگوں کو بھی ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے، درحقیقت نہ تو خود انھیں اس کا علم ہے نہ ان کے باپ دادوں کو، یہ تہمت بڑی بری ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے ،وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں۔‘‘

سورۂ  کہف کی فضیلت :

الْبَرَاءَ،یَقُولُ:قَرَأَ رَجُلٌ الْكَهْفَ وَفِی الدَّارِ دَابَّةٌ، فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ، فَنَظَرَ فَإِذَا ضَبَابَةٌ، أَوْ سَحَابَةٌ، قَدْ غَشِیَتْهُ. قَالَا: فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اقْرَأْ فُلَانُ، فَإِنَّهَا السَّكِینَةُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ، أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ

براء  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک آدمی(اسید رضی اللہ عنہ بن حضیریاثابت رضی اللہ عنہ  بن قیس بن شماس)نے  سورۂ  کہف کو پڑھا اس وقت گھرمیں  ایک جانوربھی تھااس نے بدکناشروع کردیا،اس آدمی نے دیکھاتوایک بادل ساتھاجس نے اسے ڈھانپ رکھاتھا،اس نے اس کانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ذکرکیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے فلاں !اسے پڑھتے رہتے یہ تو سکینت(اللہ تعالیٰ کی پیداکی ہوئی ایک شئے جس میں  اطمینان اوررحمت ہے) تھی جو قرآن کے پاس   یاقرآن کے لیے نازل ہوتی ہے۔[2]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ،أَنَّ نَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص  سورۂ  کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کرلے وہ (فتنہ)دجال سے محفوظ ہوجائے گا۔[3]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَرَأَ ثَلاَثَ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

اورجامع ترمذی میں ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص نے  سورۂ  کہف کی ابتدائی تین آیات پڑھ لیں  وہ(فتنہ) دجال سے محفوظ ہوجائے گا۔[4]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَیْنَ الْجُمُعَتَیْنِ

ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص جمعہ کے دن  سورۂ  کہف پڑھے تویہ سورت دونوں  جمعوں  کے درمیان اس کے لیے نورکاباعث ہوگی۔[5]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ كَمَا أُنْزِلَتْ كَانَتْ لَهُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے  سورۂ  کہف کواس طرح پڑھاجس طرح یہ نازل ہوئی ہے توقیامت کے دن یہ اس کے لیے نورہوگی۔[6]

اللہ وحدہ لاشریک ہی قابل حمدوستائش،لائق ثنااورہرطرح کی تعریفوں  کاسزاوارہے جس نے اپنے بندے اورپیغمبرآخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پردینی ودنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی جلیل ترین نعمت قرآن مجیدفرقان حمید نازل کی اوراس میں  کوئی کجی ،کوئی کسراورکوئی کمی نہ رکھی تاکہ وہ اس کے ذریعہ سے بدکاروں  کو اللہ کے دنیاوی اور اخروی دردناک عذاب سے خبردار کردے،جیسے فرمایا

لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ یُخَــوِّفُ اللهُ بِهٖ عِبَادَهٗ۝۰ۭ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ۝۱۶ [7]

ترجمہ:ان کے اوپر بھی آگ کی چھتریاں  اوپرسے بھی چھائی ہوں  گے اور ان کے نیچے بھی ،یہ وہ انجام ہے جس سے الله اپنے بندوں  کوڈراتا ،پس اے میرے بندو ! میرے غضب سے بچو۔

اور جو اللہ کے اس پرپاکیزہ کلام پریقین کرے اورایمان لاکراعمال صالح اختیارکرے اسے اجرعظیم کی خوشخبری دے دے کہ ان کے لئے اللہ کے ہاں  جنت کا بہترین بدلہ ہے،جس کی نعمتوں  کونہ کسی آنکھ نے دیکھاہے ،نہ کسی کان نے سناہے اورنہ کسی انسان کے تصورمیں  اس کا گزرہواہے، جس کی غیرفانی نعمتوں  میں  وہ ابدالآبادتک رہیں  گے ، اوریہ نعمتیں  ہروقت بڑھتی ہی رہیں  گی۔

 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [8]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے ۔

اور یہودیوں  ،نصاریٰ اورمشرکین کوڈرادے جوعزیر علیہ السلام ،عیسیٰ   علیہ السلام اورفرشتوں  کو اللہ کابیٹااوربیٹیاں  قراردیتے ہیں ،حالانکہ اس بات کانہ ان کے باپ دادا کو کوئی علم تھااورنہ انہیں  کوئی علم ویقین ہے،بلکہ وہ محض اپنی عقیدت مندی کے ظن وگمان میں  اپنے منہ سے بڑی گمراہی کی بات نکالتے ہیں ،اور محض جھوٹ بکتے ہیں  جو صدق کے منافی ہے،جبکہ اللہ کی ربوبیت والوہیت میں  غیراللہ کی شراکت اللہ پربہتان طرازی کی متقاضی ہے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ۔۔۔۝۰۝۲۱   [9]

ترجمہ: اوراس شخص سے بڑ ھ کرظالم کون ہوگاجواللہ پرجھوٹابہتان لگائے یا اللہ کی نشانیوں  کو جھٹلائے ؟ ۔

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا ‎﴿٦﴾‏ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَیُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ‎﴿٧﴾‏ وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْهَا صَعِیدًا جُرُزًا ‎﴿٨﴾ (الکہف)
’’پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟ روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے ،اس پر جو کچھ ہے ہم اسے ایک ہموار صاف میدان کر ڈالنے والے ہیں ۔‘‘

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی اوردلاسہ :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  شدیدخواہش رکھتے تھے کہ آپ کی قوم گمراہی اوراخلاقی پستی سے نکل کردین اسلام قبول کرلے اورروزقیامت اللہ کے عذاب سے بچ جائے،مگررات دن کی انتھک کوششوں  اورہرطرح کے دلائل وبراہین کے باوجودان کے اعراض وگریزسے رحم وشفقت کی بناپران کی حالت پرمتاسف اورغم زدہ ہوتے تھے ،

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیهَا، فَجَعَلَ یَنْزِعُهُنَّ وَیَغْلِبْنَهُ فَیَقْتَحِمْنَ فِیهَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَهُمْ یَقْتَحِمُونَ فِیهَا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےمیری اورتمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی، جب آگ نے اپنی آس پاس کی چیزیں  روشن کردیں  توپتنگے اورپروانے وغیرہ اس میں  گرگرکرجان دینے لگے، وہ انہیں  ہرچندروکتاہے لیکن بس پھربھی وہ برابرگررہے ہیں   بالکل یہی مثال میری اورتمہاری ہے کہ میں  تمہاری کمرپکڑپکڑکرتمہیں  روکتاہوں  اورکہہ رہاہوں  کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں  سنتے ،نہیں  مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کرآگ میں  گرے چلے جاتے ہو۔[10]

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اسی کیفیت اور جذبے کااظہارفرماکرلطیف انداز میں تسلی فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگریہ قرآنی تعلیمات پر ایمان نہ لائے توشایدتم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودوگے،جیسےایک اور مقام پر فرمایا

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۳ [11]

ترجمہ: اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )!شایدتم اس غم میں  اپنی جان کھودوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں  لاتے ۔

۔۔۔فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ۔۔۔۝۸ [12]

ترجمہ: پس( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) خواہ مخواہ تمہاری جان اِن لوگوں  کی خاطر غم و افسوس میں  نہ گھلے ۔

 وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ۔۔۔۝۷۰ [13]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کے حال پر رنج نہ کرو۔

طٰهٰ۝۱ۚمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی۝۲ۙاِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى۝۳ۙ  [14]

ترجمہ: طہ، ہم نے یہ قرآن تم پراس لیے نازل نہیں  کیا ہے کہ تم مصیبت میں  پڑجاؤ ،یہ توایک یاددہانی ہے ہراس شخص کے لیے جوڈرے۔

ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری آپ پرنہیں  ہے ،آپ کااجروثواب تواللہ تعالیٰ پرواجب ہوچکاہے ،اس لیے ان لوگوں  کی حالت پرآپ اس قدرغم وغصہ ،رنج وافسوس نہ کریں ،آپ بس اپنافریضہ تبلیغ اداکرتے رہیں ،کسی کوہدایت دے دینااللہ کاکام ہے ،جیسے فرمایا

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [15]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جس کو چاہو ہدایت نہیں  دے سکتے مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے جوہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

جیسے موسیٰ   علیہ السلام نے اعتراف کیاتھا

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ۔۔۔ ۝۲۵ [16]

ترجمہ:موسیٰ نے کہااے میرے رب! میرے اختیارمیں  کوئی نہیں  مگریامیری اپنی ذات یامیرابھائی۔

ایک مقام پر فرمایا

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭلَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙ [17]

ترجمہ:اچھاتو(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نصیحت کیے جاؤ ،تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پرجبرکرنے والے نہیں  ہو۔

اگریہ ایمان لاکرعمل صالحہ اختیارکریں  گے تواپناہی بھلاکریں  گے اوراگرگمراہی پر اڑے رہیں  گے تواپناہی برا کریں  گے ، ہرانسان کاعمل اس کے ساتھ ہے ، واقعہ یہ ہے کہ روئے زمین پرلذت بھرے ماکولات ومشروبات ،خوبصورت ملبوسات ، اشجار وانہار، کھیتوں ، باغات ، دلفریب مناظر، خوش منظر باغیچوں ، سحر انگیز آوازوں ،خوبصورت چہروں  ، سونے چاندی ،اونٹوں  اورگھروں ،ان سب کودنیاکی زینت ،فتنہ اورآزمائش کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ ہم ان لوگوں  کو آزمائیں  کہ ان میں  کون بہترعمل کرنے والاہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِیهَا، فَیَنْظُرُ كَیْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ كَانَتْ فِی النِّسَاءِ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادنیا(ظاہرمیں )میٹھی اور سبزرنگ ہے ،اللہ تعالیٰ تمہیں  اس میں  خلیفہ بنا کر دیکھناچاہتاہے کہ تم کیسے اعمال اختیار کرتے ہو، پس دنیا(کی رونقوں ، رنگینیوں ،دلفریبیوں ) سے اورعورتوں  سے بچو، بنواسرائیل میں  سب سے پہلافتنہ عورتوں  کاہی تھا۔[18]

آخرکارایک وقت مقررہ پر یہ دنیااپنی تمام تر رونقوں  ، دلفریبیوں  اوررنگینیوں  سمیت نیست ونابودہوکر ایک بے آب وگیاہ اور بنجر ہموار چٹیل میدان کی طرح ہوجائے گی ،جیسے فرمایا

فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [19]

ترجمہ:اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

جس میں  ہم تمام لوگوں  کوجمع کریں  گے اورلوگوں  کوان کے اعمال کے مطابق جزادیں  گے ۔

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِیمِ كَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا﴿٩﴾‏ إِذْ أَوَى الْفِتْیَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَیِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴿١٠﴾‏ فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ سِنِینَ عَدَدًا﴿١١﴾‏ ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَیُّ الْحِزْبَیْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا﴿١٢﴾‏(الکہف)
’’کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے؟ ان چند نو جوانوں نے جب غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی کو آسان کر دے ،پس ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال اسی غار میں پردے ڈال دیئے ، پھر ہم نے انھیں اٹھا کھڑا کیا کہ ہم یہ معلوم کرلیں کہ دونوں گروہ میں سے اس انتہائی مدت کو جو انہوں نے گزاری کس نے زیادہ یاد رکھی ہے۔‘‘

اللہ کی بے شمار نشانیاں ہیں انہی نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی اصحاب کہف کی ہے۔یہ بلند و بالا بغیر سہاروں پرقائم آسمان وہموارپھیلی ہوئی زمین کی پیدائش، بلندو بالا ٹھوس رنگ برنگ کےپہاڑ،وسیع وعرض سمندر،پہاڑوں سے میدانوں کی طرف بہتے ہوئے دریا،خشک،ٹھنڈی اورمرطوب ہوائیں، برسات اوران کاعقل کوحیران کردینے والانظام ،ہوامیں اڑتے رنگارنگ کے چھوٹے بڑےپرندے،جنگلوں میں رہتے بے شمارقسم کے حیوانات ودرندے،زمین پررینگتے ہوئے بے شمارقسم کے حشرات الارض، ایک ہی زمین اورایک ہی پانی سے پیدا ہوتے انواع واقسام کے رنگوں اورذائقوں والے پھل، سورج چانداورستاروں کی تسخیر،رات اوردن کاایک دوسرے کے پیچھے آنا جانا اورچھوٹابڑاہونااورایسی دیگربے شمارنشانیاں بڑی ہی تعجب انگیزہیں،اسی طرح یہ واقعہ بھی اللہ کی ایک نشانی ہے جب وہ چندتوحیدپرست نوجوان اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے اپنی بستیوں کوخیربادکہہ کرایک غارمیں پناہ گزین ہوئے اورانہوں نے نہایت عاجزی اورانکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے رحمت اوراس کے لطف وکرم کے حصول کی دعا کی اے ہمارے پروردگار!ہم کواپنی رحمت خاص سے نوازاوررشدوہدایت تک پہنچانے والاہرراستہ ہمارے لیے آسان فرمادے اورہمارے دینی اوردنیاوی امورکی اصلاح کردے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا کویہ دعاسکھلائی تھی ہم نے ان کی دعاکوقبولیت بخشی اور انہیں اسی غارمیں تھپک کرسالہاسال کے لیے گہری نیندسلادیا،پھرہم نے انہیں ان کی نیندسے بیدار کیا تاکہ ہم جانیں کہ ان دوگروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمارکرتاہے۔

(نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ‎﴿١٣﴾‏ وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا ‎﴿١٤﴾‏ هَٰؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْهِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ ۖ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ‎﴿١٥﴾‏اوَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ یَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَیُهَیِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا ‎﴿١٦﴾‏لکہف)
’’ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں،یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی،ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے تھے جبکہ یہ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود پکاریں ،اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی،یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں، ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے، اللہ پر جھوٹ افترا باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے؟ جبکہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو ،تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا۔‘‘

قصہ اصحاب الکہف:

جس زمانے میں  ان توحیدپرست نوجوانوں  نے توحیدکی آوازبلندکی اس وقت شہرافسس ایشائے کوچک میں  بت پرستی اورجادوگری کاسب سے بڑامرکز تھا ، وہاں  ڈائنادیوی (چانددیوی) کاایک عظیم الشان مندرتھاجس کی شہرت تمام دنیامیں  پھیلی ہوئی تھی اور دوردورسے لوگ اس کی پوجاکے لئے آتے تھے ،وہاں  کے جادوگر ، عامل ،فال گیر اور تعویذ نویس دنیابھرمیں  مشہورتھے،شام وفلسطین اورمصرتک ان کاکاروبار چلتا تھا ، اور اس کاروبارمیں  یہودیوں  کا بھی اچھاخاصاحصہ تھاجواپنے فن کو سلیمان u کی طرف منسوب کرتے تھے،اس وقت وہاں  دقینوس یادقیانوس یادقیوس یابقول گبن قیصر ڈلیسیس (Decius)حکمران تھاجس نے ۲۴۹ء سے ۲۵۱ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے،یہ لوگوں  کوبتوں  کی عبادت کرنے اوران کے نام کی نذرونیازدینے کی ترغیب دیتاتھا، اپنے دور حکمرانی میں  اس سرکش وظالم شہنشاہ دقیانوس نے ایک قانون نافذکیاجس کے تحت ہر شخص پررومی دیوتائوں  کو قربانی پیش کرنااوراس کاتصدیقی ثبوت حاصل کرناضروری تھا،چنانچہ ہرشخص حکومتی کارندوں  کوجب وہ طلب کرتے تصدیقی ثبوت دکھاتا تھا اورجوقربانی کاتصدیقی ثبوت نہ دکھاتے انہیں  سزادی جاتی تھی ،جولوگ اس بت پرستی کے عمل سے انکار کرتے تھے وہ دوسری جگہ پناہ کی تلاش میں  ہجرت کر جاتے تھے ،اس طرح رومی حکومت اہل توحیدکی سخت دشمن ہورہی تھی اورمسیح علیہ السلام کے پیروکاروں  پرظلم وستم کرنے کے معاملہ میں  اس کاعہد بہت ہی بدنام ہے، شرک اوراوہام پرستی کے اس ماحول میں  شہرافسس یاافسوس یابقول گبن افسس(Ephesus)جوایشائے کوچک کے مغربی ساحل پررومیوں  کاسب سے بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ تھا،اس کے کھنڈرات موجودہ ٹرکی کے شہرازمیر(سمرنا)سے بیس پچیس میل دور جنوب کی طرف پائے جاتے ہیں ،

أَنَّهُمْ خَرَجُوا یَوْمًا فِی بَعْضِ أَعْیَادِ قَوْمِهِمْ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ لِمُجْتَمَعِهِمْ ذَلِكَ، وَخَرَجَ هَؤُلَاءِ الْفِتْیَةُ مَعَ آبَائِهِمْ وَقَوْمِهِمْ،وَنَظَرُوا إِلَى مَا یَصْنَعُ قَوْمُهُمْ بِعَیْنِ بَصِیرَتِهِمْ ، عَرَفُوا  أَنَّ هَذَا الَّذِی یَصْنَعُهُ قَوْمُهُمْ مِنَ السُّجُودِ لِأَصْنَامِهِمْ وَالذَّبْحِ لَهَا لَا یَنْبَغِی إِلَّا لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ

ایک مرتبہ قوم کے لوگ عیدمنانے میلے میں  گئے، جب شہرکے لوگ اپنے میلے میں  شرکت کے لیے باہرنکلے تویہ نوجوان بھی اپنے باپ دادئوں  اورقوم کے لوگوں کے ساتھ نکلے  اورانہوں  نے بصیرت کی آنکھ سے اپنی قوم کے افعال کودیکھاتو انہیں  یہ حقیقت معلوم ہوگئی کہ ان کی قوم کاطرزعمل غلط ہے کہ وہ بتوں  کوسجدہ کرتی اوران کے نام پرجانوروں  کو ذبح کرتی ہے، کیونکہ یہ کام تو صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کی ذات گرامی ہی کے لیے سرانجام دینے چاہئیں  جوآسمان وزمین کا خالق اور کائنات کارب ہے ، یہ مختلف دھاتوں  ،لکڑی وغیرہ کےہاتھوں  سے اپنی من مرضی کے تراشے ہوئےبت اورخودساختہ معبوداس کائنات کے خالق نہیں  ہوسکتے جوکسی چیزکوپیداکرسکتے ہیں  نہ رزق دے سکتے ہیں  ،وہ نہ کسی نفع ونقصان کے مالک ہیں  ، موت وحیات کے اورنہ موت کے بعددوبارہ اٹھانے پرقادرہیں ،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [20]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں  نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں  ۔

اس طرح انہوں  نے توحیدربوبیت سے توحیدالوہیت پر استدلال کیا

فَجَعَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ یَتَخَلَّصُ مِنْهُمْ یَتَخَلَّصُ مِنْ قَوْمِهِ، وَیَنْحَازُ مِنْهُمْ وَیَتَبَرَّزُ عَنْهُمْ نَاحِیَةً. فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ جَلَسَ مِنْهُمْ [وَحْدَهُ ] أَحَدَهُمْ، جَلَسَ تَحْتَ ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَجَاءَ الْآخَرُ فَجَلَسَ عِنْدَهُ، وَجَاءَ الْآخَرُ فَجَلَسَ إِلَیْهِمَا، وَجَاءَ الْآخَرُ فَجَلَسَ إِلَیْهِمْ، وَجَاءَ الْآخَرُ، وَجَاءَ الْآخَرُ، وَجَاءَ الْآخَرُ، وَلَا یَعْرِفُ وَاحِدٌ مِنْهُمُ الْآخَرَ، وَإِنَّمَا جَمَعَهُمْ هُنَاكَ الَّذِی جَمَعَ قُلُوبَهُمْ عَلَى الْإِیمَانِ

اس سوچ کے بعدان میں  سے ہرایک نے اپنی قوم سے الگ ہوناشروع کردیا، پس ان میں  سے جوشخص اس سوچ کے بعدسب سے پہلے الگ ہوااور سرکتاہوادورایک درخت کے سائے میں  جاکربیٹھ گیاپھرایک اورنوجوان سرکتاہوااسی درخت کے نیچے جاکربیٹھ گیا،کچھ دیرمیں  ایک اورنوجوان وہاں  سے سرک کراسی درخت کے نیچے آکربیٹھ گیا، پھر ایک اورنوجوان وہاں  آکران کے ساتھ بیٹھ گیا،پھرایک اورآگیا،پھرایک اورآگیا،پھرایک اورنوجوان آ کر اس درخت کے نیچے بیٹھ گیا  حالانکہ یہ جوان ایک دوسرے سے شناسا نہ تھے لیکن اس ذات گرامی نے انہیں  ایک دوسرے سے ملادیاتھاجس نے ان کے دلوں  کوایمان سے بھردیاتھا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ فرمارہے تھے، روحوں  کے جھنڈکے جھنڈالگ الگ ہیں پھروہاں  جن روحوں  میں  آپس میں  پہچان تھی ان میں  یہاں  بھی محبت ہوتی ہے اورجووہاں  غیرتھیں  یہاں  بھی وہ خلاف رہتی ہیں ۔[21]

 وَالْغَرَضُ أَنَّهُ جَعَلَ كُلَّ  أَحَدٍ مِنْهُمْ یَكْتُمُ مَا هُوَ فِیهِ عَنْ أَصْحَابِه خَوْفًا مِنْهُمْ وَلَا یَدْرِی أَنَّهُمْ مِثْلُهُ، حَتَّى قَالَ أَحَدُهُمْ: تَعْلَمُونَ وَاللَّهِ یَا قَوْمِ إِنَّهُ مَاأَخْرَجَكُمْ مِنْ قَوْمِكُمْ وَأَفْرَدَكُمْ عَنْهُمْ، إِلَّا شَیْءٌ فلیظهر كل واحد منكم بِأَمْرِهِ،فَقَالَ آخَرُ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّی [وَاللَّهِ] رَأَیْتُ مَا قَوْمِی عَلَیْهِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ بَاطِلٌ، وَإِنَّمَا الَّذِی یَسْتَحِقُّ أَنْ یُعْبَدَ [وَحْدَهُ ] وَلَا یُشْرَكَ بِهِ شَیْءٌ هُوَ اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ: السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا

الغرض ان میں  سےہرشخص خوف کی وجہ سے اپنے دین کواپنے ساتھیوں  سے چھپائے ہوئے تھا اورنہیں  جانتاتھا وہ بھی اسی کی طرح قوم کی اس احمقانہ اورمشرکانہ رسوم سے بے زارہے،آخر ایک دانااورجری نوجوان نے کہاواللہ!کوئی نہ کوئی بات ضرورہے کہ لوگوں  کے اس عام شغل چھوڑکرتم ان سے یکسوہوکریہاں  آبیٹھے ہو میراتوجی چاہتاہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کردے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے،اس پرایک نوجوان نے کہاواللہ! بات یہ ہے کہ میں  نے اپنی قوم کودیکھاہے کہ وہ باطل پرستی میں  مبتلا ہے، کیونکہ جواس بات کامستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اوراس کے ساتھ شرک نہ کیاجائے وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات گرامی ہے جس نے آسمان وزمین اوران کے مابین ہر چیز کو پیدافرمایاہے،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۸۵ [22]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں  کیا ہے۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۔۔۔۝۵۹ [23]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں ۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۔۔۔۝۴ [24]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  چھ دنوں  میں  پیدا کیا۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۔۔۔۝۲۷ۭ [25]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں  کر دیا ہے ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۝۳۸ [26]

ترجمہ:یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں  ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنا دی ہیں ۔

وَقَالَ الْآخَرُ: وَأَنَا وَاللَّهِ وَقَعَ لِی كَذَلِكَ ،وَقَالَ الْآخَرُ كَذَلِكَ، حَتَّى تَوَافَقُوا كُلُّهُمْ عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، فَصَارُوا یَدًا وَاحِدَةً وَإِخْوَانَ صِدْقٍ، فَاتَّخَذُوا لَهُمْ مَعْبَدًا یَعْبُدُونَ اللَّهَ فِیهِ، هَؤُلاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلا یَأْتُونَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ أَیْ: هَلا أَقَامُوا عَلَى صِحَّةِ مَا ذَهَبُوا إِلَیْهِ دَلِیلًا وَاضِحًا صَحِیحًا؟!فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا

یہ بات سن کردوسرے نے کہااللہ کی قسم !یہی نفرت مجھے یہاں  لے آئی ہے،تیسرے نوجوان نے بھی یہی کہاجب سب نوجوانوں  نے ایک ہی وجہ بتلائی توسب کے دل میں  محبت کی لہر دوڑ گئی  اورسب سچے بھائی بھائی بن گئے،چنانچہ انہوں  نے عبادت کی ایک جگہ مقررکرلی اورقوم سے چھپ کروہیں  اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے لگے، کچھ عرصہ بعدانہوں  نے قوم کو شرک سے تائب اورتوحیدربی کی دعوت دیناشروع کر دی اورقوم کے نظریات وعقائدپرناراضگی کااظہارکیااوران پراچھی طرح واضح کیاکہ ان کے مشرکانہ عقائدونظریات یقین پر مبنی نہیں  ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ جہالت اورضلالت میں  مبتلا ہیں  ، اور قوم سے کہاکہ اگر تم اپنے باطل عقائد کے حق میں  کہ اللہ کے ساتھ اور معبودبھی ہیں  کوئی کھلی دلیل پیش کر سکتے ہوتوکرو ،جب تم کوئی دلیل پیش نہیں  کر سکتے توپھر باطل معبودوں  کے مطابق تمہارے عقائدونظریات ، رسوم ورواج اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اوربہتان طرازی ہے، اوراس شخص سے بڑھ کرظالم کون ہوسکتاہے جواللہ پر جھوٹ باندھتا ہے،اورایسے مسائل اور عقائد بتلاتا ہے جواللہ نے نہیں  بتلائے، جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۴۴ۧ [27]

ترجمہ:پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں  کی غلط راہ نمائی کرے ۔

 فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ۔۔۔۝۳۷ [28]

ترجمہ:ظاہر ہے کہ اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو بالکل جھوٹی باتیں  گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائے۔

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ۔۔۔۝۱۷ [29]

ترجمہ:پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق کہ جوکوئی نیک عمل کرتاہے اس کو مزیدتوفیق خیر عطا فرماتا اوردلوں  کومضبوط کرتاہے، اس انتہائی پریشان کن حالت میں ان کوبھی صبروثبات اورطمانیت قلب سے نوازا ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ  ۝۱۷ [30]

ترجمہ: رہے وہ لوگ جنہوں  نے ہدایت کی راہ اختیار کی، اللہ انہیں  اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں  ان کے حصےکا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

وَیَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى۔۔۔۝۷۶ [31]

ترجمہ:اس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں  اللہ ان کو راست روی میں  ترقی عطا فرماتا ہے۔

۔۔۔ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ۔۔۔۝۴ [32]

ترجمہ:تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اوربڑھالیں ۔

۔۔۔فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴ [33]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے ہیں  ان کے ایمان میں  تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں ۔

مگران کی قوم توحیدپر ایمان نہیں  لائی تھی ، آہستہ آہستہ لوگوں  میں  ان کے عقیدہ توحیدکاچرچاہواتوبات قیصرڈیسیس تک پہنچ گئی

فَاسْتَحْضَرَهُمْ بَیْنَ یَدَیْهِ فَسَأَلَهُمْ عَنْ أَمْرِهِمْ وَمَا هُمْ عَلَیْهِ،  فَأَجَابُوهُ بِالْحَقِّ وَدَعَوْهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِنَّ مَلِكَهُمْ لَمَّا دَعَوْهُ إِلَى الْإِیمَانِ بِاللَّهِ    أَبَى عَلَیْهِمْ، وتَهَدّدهم وَتَوَعَّدَهُمْ، وَأَمَرَ بِنَزْعِ لِبَاسِهِمْ عَنْهُمُ الَّذِی كَانَ عَلَیْهِمْ مِنْ زِینَةِ قَوْمِهِمْ، وأجَّلهم لِیَنْظُرُوا فِی أَمْرِهِمْ، لَعَلَّهُمْ یُرَاجِعُونَ دِینَهُمُ الَّذِی كَانُوا عَلَیْهِ، وَكَانَ هَذَا مِنْ لُطْفِ اللَّهِ بِهِمْ، فَإِنَّهُمْ فِی تِلْكَ النَّظْرَةِ تَوَصَّلُوا إِلَى الْهَرَبِ مِنْهُ. وَالْفِرَارِ بِدِینِهِمْ مِنَ الْفِتْنَةِ

قیصرڈیسیس نے ان کوطلب کرکے ان کے مذہب کے بارے میں  پوچھا،ان نوجوانوں  کوخوب معلوم تھاکہ قیصر مسیح   علیہ السلام  کے پیروکاروں  کے خون کادشمن ہے مگراس کے باوجود انہوں  نے نہایت دلیری سے برملااپنی توحیداوراپنامسلک بیان کر دیاکہ ہمارارب وہ ہے جوکائنات کارب ہے جس کے سواکوئی اور الٰہ نہیں  ہے ،ہم اس کے سواکسی اورباطل معبودکی پرستش نہیں  کریں  گے اورنہ ہی اپنی مشکلات میں  اللہ کوچھوڑکرکسی اورکوپکاریں  گےاورقیصرڈیسیس اوراہل دربارکواللہ عزوجل کی دعوت پیش کی،ان نوجوانوں  نے جب بادشاہ کو اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے کی دعوت پیش کی تواس نے نہ صرف انکارکردیابلکہ انہیں  ڈانٹ ڈپٹ کی اورقتل کرنےدھمکیاں  دیں ،اورحکم دیاکہ اس فاخرانہ لباس کوان کے جسموں  سے اتاردیاجائے جوانہوں  نے زیب تن کررکھاتھا، قیصرڈیسیس نے اپنے موقف پرنظرثانی کرنے کے لیے انہیں  مہلت دے دی کہ شایدیہ اپنے سابقہ دین کی طرف لوٹ آئیں ،اوریہ مہلت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم کاسبب بن گئی کیونکہ اس دوران میں  ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ اپنے دین کومحفوظ کرنے اور اپنے آپ کوکسی فتنے سے بچانے کے لیے بھاگ جائیں  ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُوشِكُ أَنْ یَكُونَ خَیْرَ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ وَمَوَاقِعَ القَطْرِ، یَفِرُّ بِدِینِهِ مِنَ الفِتَنِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا(سب سے )عمدہ مال(اس کی ) بکریاں  ہوں  گی،جن کے پیچھے وہ پہاڑوں  کی چوٹیوں  اوربرساتی وادیوں  میں  اپنے دین کو بچانے کے لئے بھاگ جائے گا۔[34]

اس مہلت سے فائدہ اٹھاکریہ نوجوان دربارسے باہرنکل آئے اورآپس میں  ایک دوسرے سے کہنے لگےہماری قوم تورب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے الٰہ بنابیٹھی ہے جبکہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں  ہے جب تم نے دینی طورپر اپنی قوم کے معبودوں  سے کنارہ کشی کرلی ہے توسنگسار ہونے یا مجبوراًمرتدہوجانے سے بچنے کے لیے جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو اورکسی وسیع غار میں  جاکرچھپ جاؤ ، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت خاص سے تمہیں  نوازے گا اور تمہارے کام میں  سہولت مہیا کر دے گا، چنانچہ یہ رائے سب کو پسند آئی اس کے بعدوہ شہرسے نکل گئے ، راستے میں  ایک کتا بھی ان کے ساتھ لگ گیا تھاجوکسی طرح بھی ان سے جدانہ ہوا ، جان وایمان کے خوف سے تیزتیز چلتے ہوئے شہرسے بہت دورگہرے غارمیں (جسکانام حیزوم کہا جاتا ہے) جبکہ دن کا پہلا پہر تھا جاچھپے اورکتاغارکے دہانے پربیٹھ گیا ،وہاں  انہوں  نے اپنے رب سے دعا کی اور اس کے حضورملتجی ہوئے اے ہمارے پروردگار! ہمیں  اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے راہ یابی کو آسان کردے۔

(اصحاب کہف کی قیام کی جگہ طرطوس بیان کی جاتی ہے ،اس شہرکے شمال مغرب میں  این کی لس یابین کی لس نامی پہاڑمیں  قرآن مجیدمیں  بیان کردہ تفصیل سے مماثل اصحاب کہف کاایک غار موجود ہے،کئی مسلم محققین کے مطابق یہ تصوردرست ہے ،امام طبری نے اصحاب کہف کی پہاڑی کانام بین کی لس بیان کیاہے اورشہرکانام طرطوس لکھا ہے ،مفسرمحمدامین نے پہاڑ کا نام پین کی لس اور شہرکانام طرطوس ہی لکھاہے ،امام رازی لکھتے ہیں  کہ اگرچہ اس جگہ کو الفیی سس کہاجاتاہے مگراس سے مرادطرطوس ہی ہے کیونکہ یہ بھی طرطوس ہی کادوسرانام ہے ، اس کے علاوہ قاضی بیضاوی ،امام نسفی ،جلالین،التبیان ، المالی،نصوحی بلمن اوربہت سے دوسرے محققین کے مطابق یہ جگہ طرطوس ہی ہے ، سورج طلوع کے وقت غارکے دائیں  اورغروب کے وقت بائیں  طرف جھک جاتاتھااس غارکادھانہ شمال کی طرف واقع ہے ، سلطنت عثمانیہ کے دور میں  بھی یہ غارتحقیق کا موضوع رہی ، نیشنل کونسل کی طرف سے کی جانے والی تحقیق میں  لکھاگیاکہ طرطوس کے شمال میں  صوبہ ادانہ میں  طرطوس سے دوگھنٹے کے فاصلے پر پہاڑی پرایک غارہے جس کا دھانہ قرآن مجیدکی تفصیل کے مطابق شمال کی طرف ہی واقع ہے،تاہم دستیاب معلومات سے کسی غارکوبھی یقینی قرارنہیں  دیاجاسکتا)

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهَا هَذَا الدُّعَاءَ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَیْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِیُّكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِیُّكَ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَیْتَهُ لِی خَیْرًا

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے یہ دعاسکھلائی،اے اللہ!میں  تجھ سے مانگتاہوں  ساری بہتری دنیاکی اورآخرت کی جومجھ کومعلوم ہے اورجومعلوم نہیں  ہے، اورپناہ مانگتاہوں  میں  تیری تمام برائیوں  سے دنیاکی اورآخرت کی جومجھ کومعلوم ہیں  اورجومعلوم نہیں  ہیں ،اےاللہ میں  تجھ سے مانگتاہوں  وہ بھلائی جوتجھ سے مانگی تیرے بندے اورتیرے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے،اورپناہ مانگتاہوں  میں  تیری اس برائی سے جس سے پناہ مانگی تیرے بندے اورتیرے نبی نے، اےاللہ میں  تجھ سے جنت مانگتاہوں  اورجوچیزجنت کی طرف نزدیک کرے ، قول ہویافعل ، اورپناہ مانگتاہوں  میں  تیری دوزخ سے اوراس چیزسے جودوزخ کی طرف نزدیک کرے قول ہویافعل،اور میں  مانگتاہوں  تجھ سے یہ کہ توہرقضا(حکم الٰہی اورتقدیر)کوجوتونے میرے لیے کی ہے۔[35]

اللہ تعالیٰ نے ان کی دعامقبول فرمائی اور انہیں  اپنی بے پایاں  رحمت سے ڈھانپ لیااوران کے معاملے میں  آسانی پیدافرمادی،ان کی زندگی اوران کے دین کی حفاظت فرمائی اورخلائق کے لئے انہیں  ایک بڑامعجزہ بنادیا ، کیونکہ وہ شہر سے باہر غار تک ایک لمباسفرکرکے آئے تھے اور تھکاوٹ سے چورچورتھے اس لئے جیسے ہی لیٹے فوراًہی معجزانہ طور پر بے خبرہوکرسوگئے اوربرسوں  سوتے ہی رہے ،جب ان کے غائب ہونے کی خبرمشہورہوئی تو ہر چند تلاش کیاگیالیکن وہ ناکام رہے ،تقریباً۱۹۶سال بعد وہاں  کا حکمران تیذوسیس اوربقول گبن قیصر تھوڈوسیس (Theodosius)دوم تھاجو ۴۰۸ء تا ۴۵۰ء تک روم کا قیصر رہا، رومی سلطنت مسیحت اختیار کر چکی تھی اور شہر افسوس کے باشندے بھی بت پرستی ترک کرچکے تھے،مگرلوگوں  کے درمیان زندگی بعد از موت اور حشر نشرکے معاملہ پرسخت اختلاف برپاتھااورقیصراس پربہت فکرمندتھا۔

(وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِی فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ ۗ مَن یَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن یُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ‎﴿١٧﴾‏ وَتَحْسَبُهُمْ أَیْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا ‎﴿١٨﴾الکہف)
’’آپ دیکھیں گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے، اور وہ اس غار کی کشادہ جگہ میں ہیں، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، اللہ تعالیٰ جس کی رہبری فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں ،آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے ،خود ہم انھیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے، ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا، اگر آپ جھانک کر انھیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی ۔‘‘

سورج طلوع کے وقت دائیں  جانب اورغروب کے وقت بائیں  جانب کوکتراکرنکل جاتاتھا جس سے دونوں  وقتوں  میں  ان پرسورج کی تمازت نہیں  پہنچتی تھی،حالانکہ وہ کشادہ جگہ پرمحواستراحت تھے(یعنی ان کے غارکادہانہ شمال کی جانب تھاجس کی وجہ سے کسی موسم میں  بھی سورج کی تمازت اورروشنی اندرنہیں  پہنچتی تھی جس کی وجہ سے کسی کومعلوم نہ ہوتاتھاکہ غارکے اندرکوئی ہے)ان نوجوانوں  کوغارمیں  پہنچانا،انہیں  معجزانہ طورپرایک لمبے عرصہ کے لیے سلادینا ،زندہ رکھنااورباوجودکشادہ جگہ ہونے کے سورج کادونوں  وقتوں  میں اس طرح کتراکرنکل جانا اللہ کی نشانیوں  میں  سے ہے جواس کی قدرت اوررحمت پردلالت کرتی ہے ،جس کی اللہ تعالیٰ رہبری فرمائے وہی راہ راست پر ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارسازاوررہنما پاسکیں ،جیسے فرمایا

مَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِیْ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِـرُوْنَ۝۱۷۸ [36]

ترجمہ:جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔

وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۔۔۔۝۹۷ [37]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں  ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں  کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں  پاسکتا۔

اگرتم انہیں  دیکھتے تو یہ سمجھتے کہ وہ توحیدپرست جوان جاگ رہے ہیں  حالانکہ وہ سورہے تھے،اورہم انہیں  وقتاًفوقتاً دائیں  بائیں  کروٹیں  دلواتے رہتے تھے تاکہ ان کے جسموں  کومٹی نہ کھاجائے، اوران کی حفاظت کے لیے ان کاکتاغارکے دہانے پرہاتھ پھیلائے بیٹھاتھا،اگرتم کہیں  جھانک کرانہیں  دیکھتے توالٹے پاؤ ں  بھاگ کھڑے ہوتے اورتم پران کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔

وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِیَتَسَاءَلُوا بَیْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِینَةِ فَلْیَنظُرْ أَیُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْیَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْیَتَلَطَّفْ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا ‎﴿١٩﴾‏ إِنَّهُمْ إِن یَظْهَرُوا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوكُمْ أَوْ یُعِیدُوكُمْ فِی مِلَّتِهِمْ وَلَن تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا ‎﴿٢٠﴾‏ (الکہف)
’’ اسی طرح ہم نے انھیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں،ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ،کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لیے لے آئے اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے ، اگر یہ کافر تم پر غلبہ پالیں تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں پھر اپنے دین میں لوٹا لیں گے، اور پھر تم کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکو گے۔‘‘

موت کے بعدزندگی :

جس طرح اللہ قادرمطلق نے انہیں  اپنی قدرت کاملہ سے جس عجیب طریقے پر سلادیاتھااوردنیاکوان کے حال سے بے خبررکھا گیا ویسے ہی عجیب کرشمہ قدرت سے انہیں  (تقریباً ۴۴۵  یا۴۴۶ عیسوی میں ) جب دن کاآخری پہرتھا گہری لمبی نیند سے جگادیااوراس حال میں  اٹھایاکہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے جس طرح سوتے وقت تھے، بیدار ہونے پرایک ساتھی نے پوچھا کہ ہم کتناوقت سوتے رہے؟دوسروں  نے کہا شاید دن بھریااس سے کچھ کم وقت سوتے رہے ہوں  گے، جب انہیں  اشتباہ ہواتووہ بولے  اللہ ہی بہترجانتاہے کہ ہماراکتناوقت نیندکی حالت میں  گذرا،اب انہیں  بھوک وپیاس محسوس ہوئی تو خوراک کاسروسامان کرنے کی فکرلاحق ہوئی ،ان نوجوانوں  کے امیرنے ایک سمجھدار نوجوان یملیخا یابقول گبن یملیخس (Jamblchus) کو چاندی کے چندسکے دے کرحلال اور پاکیزہ کھانالانے کے لئے بازار بھیجا اور ہدایت کی کہ وہ جاتے اور آتے ہوئے احتیاط اورہوشیاری سے کام لے تاکہ وہ پہچان نہ لیاجائے ورنہ انہیں  سخت سزائیں  دی جائیں  گی اور چانددیوی کی پرستش پر مجبور کیا جائے گااس طرح ہمارااصل مقصد ہی فوت ہوجائے گااورہماری محنت بھی برباد ہوجائے گی اورہم نہ دین کے رہیں  گے اورنہ دنیاکے۔

كَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیهَا إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْهِم بُنْیَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِم مَّسْجِدًا ‎﴿٢١﴾‏ (الکہف ۲۱)
’’ ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہےاور قیامت میں کوئی شک و شبہ نہیں، جبکہ وہ اپنے امر میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے، کہنے لگے ان کے غار پر ایک عمارت بنالو اور ان کا رب ہی ان کے حال کا زیادہ عالم ہے، جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنالیں گے۔‘‘

دوبارہ جینے کی عینی دلیل :

چنانچہ ان کاایک ساتھی چاندی کاسکہ لیکر خوراک حاصل کرنے شہرچلاگیاجوتین سوسال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کاتھا،مگروہاں  تودنیا ہی بدل چکی تھی بت پرست روم کوعیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی ، زبان ،تہذیب وتمدن اورلباس وغیرہ میں  نمایاں  فرق آگیاتھا،وہ شخص اپنی سج دھج ،لباس اورزبان کے اعتبار سے فوراًایک تماشابن گیااورجب اس نے قیصرڈیسیس کے وقت کاسکہ کھانا خریدنے کے لئے دوکاندارکو پیش کیاتودوکاندارحیران رہ گیا کہ یہ سکہ توتین سوسال پراناہے ، جس پر اسے شبہ ہواکہ اس شخص کوپرانے زمانے کاکوئی دفینہ ملاہے ،جس پردونوں  میں  توتکرار ہونے لگی اوربالآخرمعاملہ کوتوال تک جاپہنچا،ایک لمبی تکرار کے بعدجب نوجوان کو یقین ہو گیاکہ اسے اور اس کے ساتھیوں  کو چاند دیوی سے کوئی خطرہ نہیں  تووہ کوتوال اور دوسرے لوگوں  کو لے کرغارکی طرف چلا،غار میں  پہنچ کر یہ اور اس کے ساتھی لیٹ گئے اوران کی روح پروازکر گئی ،اس زمانے میں  یونانی فلسفے کے اثرات سے قیامت اورعالم آخرت کے بارے میں  زورشورسے بحث چھڑی ہوئی تھی

 فَمِنْهُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَیَعْلَمُ أَنَّ السَّاعَةَ حَقٌّ

بعض لوگ اللہ پرایمان رکھتے تھے اور قیامت کے قائل اور اعمال کی جزاء کومانتے تھے۔[38]

  لَا حَیَاةَ إِلَّا الْحَیَاةَ الدُّنْیَا

بعض کہتے تھے کہ اس زندگی کے بعدکوئی زندگی نہیں  ہے۔

وَقَالَ عِكْرِمَةُ: كَانَ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ قَدْ قَالُوا: تُبْعَثُ الْأَرْوَاحُ وَلَا تُبْعَثُ الْأَجْسَادُ.

عکرمہ کہتے ہیں بعض کاخیال تھاکہ فقط روحیں  دوبارہ زندہ کی جائیں  گی اورجسم کوزندہ نہیں  کیاجائے۔[39]

بعض لوگ یہودیوں  کے صدوقی فرقے کے زیراثرکھلم کھلا آخرت کاانکارکرتے تھے۔

ذَكَرَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ أَنَّهُ كَانَ قَدْ حَصَلَ لِأَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ شَكٌّ فِی الْبَعْثِ وَفِی أَمْرِ الْقِیَامَةِ

کئی ایک ائمہ سلف نے ذکرکیاہے کہ اس زمانے کے لوگوں  کودوبارہ جی اٹھنے اورقیامت کے بارے میں  شک تھا۔[40]

اوربعض لوگ شک وشبہ میں  مبتلاتھے ، اس طرح  اللہ تعالیٰ نے اہل شہرکواصحاب کہف کے حال سے مطلع کیاتاکہ لوگ جان لیں  کہ  اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کی گھڑی بیشک آکررہے گی ، جس میں  وہ لوگ دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں  گے اوراپنے اعمال کاحساب دے کرجزاپائیں  گے، اورساتھ ہی اہل ایمان کو نہایت واضح اشارہ بھی دیاکہ جس طرح اصحاب کہف نے اپنی جان ،دین وایمان بچانے کے لئے اپنی قوم وملک کوخیربادکہہ کراللہ کے توکل پرنکل کھڑے ہوئے تھے اسی طرح تم بھی اپنی قیمتی ترین متاع حیات کوبچانے کے لئے یہاں  سے ہجرت کرجاؤ اوروہاں  ڈیرہ جماؤ جہاں  تم اپنے دین وایمان کی حفاظت اوراس پرکاربندہوسکو ، جب  اللہ تعالیٰ نے انکو ظاہر کردیا تو صالحین نصاریٰ نے رائے دی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں  لیٹے ہوئے ہیں  اسی طرح انہیں  لیٹا رہنے دواور غار کے دہانے کو تیغا لگادوانکا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون اورکس قدرومنزلت کے انسان ہیں  ۔مگررومی سلطنت کے ارباب اقتداراورمسیحی کلیساکے مذہبی پیشواجس کے مقابلے میں  صالح العقیدہ عیسائیوں  کی کوئی بات نہ چلتی تھی انہوں  نے کہاہم توان پر ایک عبادت گاہ بنائیں  گے،بعض لوگ اس آیت کودلیل بناکرصالحین کی قبروں  پرمسجدیں  تعمیر کرناجائزقراردیتے ہیں ،حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  پرمسجدیں  بناناممنوع اورحرام قراردیاہے اورایساکرنے والوں  کی مذمت فرمائی ہے ،

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی مَرَضِهِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ:لَعَنَ اللَّهُ الیَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسْجِدًا، قَالَتْ:وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَیْرَ أَنِّی أَخْشَى أَنْ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے مرض الموت میں  فرمایایہودونصاریٰ پراللہ کی لعنت ہوکہ انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کومساجد بنالیا عائشہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ اگرایساڈرنہ ہوتاتوآپ کی قبر کھلی رہتی(اورحجرہ میں  نہ ہوتی)کیونکہ مجھے اس کاڈرہے کہ کہیں  آپ کی قبربھی مسجدنہ بنالی جائے۔[41]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذَاتِ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی قبروں  کی زیارت کرنے والی عورتوں  پراورقبروں  پرمسجدیں  بنانے اورچراغ روشن کرنے والوں  پر۔[42]

حَدَّثَنِی جُنْدَبٌ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِخَمْسٍ، وَهُوَ یَقُولُ: أَلَاوَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ وَصَالِحِیهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّی أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ

جندب بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وفات سے پانچ دن پہلے فرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاخبرداررہوتم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں  کی قبروں  کومسجد بنالیتے تھےکہیں  تم قبروں  کومسجدنہ بنانامیں تمہیں  اس حرکت سے منع کرتاہوں ۔[43]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ، فَذَكَرَتَا للنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِیهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِیكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ یَوْمَ القِیَامَةِ

ام المومنین عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےام حبیبہ  رضی اللہ عنہا اورام سلمہ  رضی اللہ عنہا  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  گرجاکاذکرکیاجس کوانہوں  نے (ہجرت کے دوران)حبشہ میں  دیکھاتھااس میں  تصویریں  لگی تھیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں  کاحال یہ تھاجب ان میں  کوئی صالح مردمرجاتاتووہ اس کی قبرپرمسجد بناتے اوروہاں  صورتیں  بناتے، یہ لوگ قیامت کے روزاللہ کے سامنےبدترین مخلوقات ہوں  گے۔[44]

(‏ سَیَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَیَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ ۖ وَیَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّی أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا یَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِیلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِیهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِیهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا ‎﴿٢٢﴾الکہف)
’’ کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا، غیب کی باتوں میں (اٹکل (کے تیر تکے) چلاتے ہیں ،کچھ کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے، انھیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو ہی کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں ۔‘‘

اس واقعہ کے پونے تین سوسال بعد نزول قرآن کے زمانے میں  اسکی تفصیلات کے متعلق کہ اصحاب کہف کی تعدادکیاتھی عیسائیوں  میں  مختلف افسانے پھیلے ہوئے تھے،بعض کی رائے تھی کہ اصحاب کہف تین آدمی تھے اورچوتھاان کاکتاتھا،بعض کی رائے تھی کہ وہ پانچ آدمی تھے اورچھٹاان کاکتاتھا،بعض کہتے ہیں  کہ وہ تعدادمیں  سات تھے اور آٹھواں  ان کاکتاتھا ،چونکہ تیسرے قول کی تردید  اللہ  تعالیٰ نے نہیں  فرمائی اس لئے یہ گمان کیاجاسکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَا مِنَ الْقَلِیلِ الَّذِی اسْتَثْنَى اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ، كَانُوا سَبْعَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کاقول ہے میں  بھی ان تھوڑے لوگوں  میں  شامل ہوں  جن کواللہ تعالیٰ نے متثنیٰ قراردیاہے اورمیں  جانتاہوں  کہ ان کی تعدادسات تھی ۔[45]

بہرحال صحیح تعداد ، مدت قیام اورغارکی جگہ  اللہ ہی جانتاہے ، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ایک اہم ترین نصیحت کی گئی کہ اصحاب کہف کی تعداداورمدت کے بارے میں  تحقیق وتجسس کرناایک غیرضروری کام ہے لہذاآپ ان کے معاملے میں  لوگوں  سے بحث وتکرار نہ کرواورنہ ان کے متعلق کسی اہل کتاب سے کچھ پوچھوکیونکہ کسی کو ان کی صحیح تعدادکاعلم ہی نہیں  ہے۔

(وَلَا تَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ‎﴿٢٣﴾‏ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِیتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن یَهْدِیَنِ رَبِّی لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا ‎﴿٢٤﴾‏ وَلَبِثُوا فِی كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا ‎﴿٢٥﴾‏ قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا یُشْرِكُ فِی حُكْمِهِ أَحَدًا ‎﴿٢٦﴾‏الکہف )
’’اورہرگزہرگز کسی کام پریوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کر وں گا مگر انشاء اللہ کہہ لینا اور جب بھی بھولے اپنے پروردگارکی یادکرلیاکرنا اور کہتے رہنا کہ مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کرے،وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اورنوسال اورزیادہ گزارے ،آپ کہہ دیں اللہ ہی کوان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کابخوبی علم ہے، آسمانوں اور زمینوں کاغیب صرف اسی کوحاصل ہے وہ کیاہی اچھا دیکھنے سننے والا ہے،سوائے اللہ کےا ن کا کوئی مددگار نہیں ،اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔‘‘

ان شاءاللہ کہنے کاحکم:

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کوہدایت کی گئی کہ جب بھی مستقبل قریب یابعیدمیں  کوئی کام کرنے کاعزم کروتوکبھی دعوے سے یوں  نہ کہہ دیاکروکہ کل میں  فلاں کام کروں  گابلکہ اس کے ساتھ ان شاء اللہ ضرور کہا کرو ، یادرکھوتم اپنے افعال میں  ایسے خودمختارنہیں  ہوکہ جوچاہوکرسکو،اللہ کی مشیت کے سواتم کچھ نہیں  کرسکتے ،جیسے فرمایا

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ [46]

ترجمہ:اورتمہارے چاہنے سے کچھ نہیں  ہوتاجب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔

اس لیے اگرایسی بات کہنی ہوتواس کواللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ وابستہ کرکے کہنی چاہیے ،

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ: لَأَطُوفَنَّ اللَّیْلَةَ عَلَى مِائَةِ امْرَأَةٍ، أَوْ تِسْعٍ وَتِسْعِینَ كُلُّهُنَّ، یَأْتِی بِفَارِسٍ یُجَاهِدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ یَقُلْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ یَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ، جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَوْ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فُرْسَانًا أَجْمَعُونَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلیمان بن داود رضی اللہ عنہ  نےایک بار کہاکہ آج رات میں  اپنی سویا(راوی کوشک تھا)ننانوے بیویوں  کے پاس جاؤ ں  گااور ہر بیوی ایک ایک شہسوارجنے گی جو اللہ کے تعالیٰ کے راستے میں  جہادکریں  گے،ان کے ساتھی نے کہاان شاء اللہ  بھی کہہ دیں مگرسلیمان  علیہ السلام نے ان شاء اللہ نہ کہا(وہ اپنے ارادے کے مطابق سب بیویوں  کے پاس گئے مگر) صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں  اوران کے بھی آدھابچہ پیداہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! اگرسلیمان علیہ السلام  اس وقت ان شاء اللہ کہہ لیتے تو(تمام بیویاں  حاملہ ہوتیں  اور)سب کے یہاں  ایسے شہسواربچے ہوتے جو اللہ کے راستے میں  جہادکرتے۔[47]

علاوہ ازیں  بندہ ایک بشرہے اوراللہ تعالیٰ کی مشیت کے ذکرکوبھول جاناایک لابدی امرہے اس لیے اس نے اپنے بندے کوحکم فرمایاکہ اگر کلام یاوعدہ کرتے وقت بے خیالی میں  ان شاء اللہ کہنا بھول جاؤ  توجس وقت بھی یادآجائے فوراًمتنبہ ہوکران شاء اللہ کہواوراپنے رب کی تسبیح بیان کرواوراس سے استغفارکروتاکہ مطلوب ومقصودحاصل ہو،

قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّهُ یَسْتَثْنِی وَلَوْ بَعْدَ سَنَةٍ أَیْ: إِذَا نَسِیَ أَنْ یَقُولَ فِی حَلِفِهِ أَوْ كَلَامِهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ” وَذَكَرَ وَلَوْ بَعْدَ سَنَةٍ، فالسُّنة لَهُ أَنْ یَقُولَ ذَلِكَ، لِیَكُونَ آتِیًا بسُنَّة الِاسْتِثْنَاءِ، حَتَّى وَلَوْ كَانَ بَعْدَ الْحِنْثِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایاہے   خواہ ایک سال بعدیادآئے توان شاء اللہ کہہ لےتوعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کے قول کے معنی یہ ہیں  کہ جب اسے ایک سال بعدیادآئے کہ وہ اپنے کلام یاقسم میں  ان شاء اللہ کہنابھول گیاتھاتواس کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ اسی وقت کہہ لے تاکہ وہ ان شاء اللہ کہنے کی سنت پرعمل کرسکے خواہ وہ اپنی قسم کوپورانہ کرسکاہوتوپھر بھی ان شاء اللہ کہہ دے۔[48]

انسان کونہ تو علم غیب ہے کہ آئندہ حالات کے بارے میں  اپنے قطعی اوریقینی علم کے ساتھ کچھ کہہ سکے ، اس لیے کہوکہ میں  جس چیزکاعزم ظاہرکررہاہوں  مجھے امیدہے کہ میرا رب اس معاملے میں  اس سے بہتر اورمفیدکام کی طرف میری رہنمائی فرمادے گا،اصحاب کہف اپنے غارمیں  شمسی حساب سے تین سوسال رہے،جوقمری حساب سے تین سونو سال بنتے ہیں  ، اگر اہل کتاب یاکوئی اوراللہ کی اس بتلائی ہوئی مدت میں  اختلاف کرے توتم ان سے کہواللہ ان کے قیام کی مدت تم سے زیادہ جانتاہے ،ساتوں آسمانوں  اور ساتوں زمینوں  کے سب پوشیدہ احوال اسی علام الغیوب کومعلوم ہیں ،وہ خوب دیکھنے والااورسننے والا ہے،اوراس کے سوازمین وآسمان کی مخلوقات کی کوئی خبرگیری کرنے والا نہیں  ہے،وہی وحدہ لاشریک ہی مخلوقات کی تخلیق اورتمام کائنات کی تدبیرکرتاہے ،اور وہ اپنی قضاوقدراورتخلیق وتدبیرمیں  کسی چھوٹی بڑی مخلوق کوشریک نہیں  کرتا،وہ ان تمام خامیوں سے پاک ہے۔

وَاتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ‎﴿٢٧﴾‏ وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِیدُ زِینَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ‎﴿٢٨﴾ (الکہف)
’’تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا رہ، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ پائے گا، اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں) ، خبردار ! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا، دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے  ۔‘‘

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارمکہ کے تینوں  سوالات کے مدلل جواب دے دیے جس سے ان کی تسلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صداقت واضح ہوگئی کہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاتصنیف کردہ نہیں  بلکہ اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی رحمت وکرم سے تمام انسانوں  کی رشدوہدایت کے لئے نازل فرمایاہواہے تواس دعوت پرایمان لانے کے بجائے اپنے کفروشرک پرقائم رہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پرلگاتاروحی کاسلسلہ جاری تھاجس میں  بنیادی عقائدتوحید،رسالت اورحیات بعدازموت کے دلائل ہوتے تھے،مشرکین مکہ کویہ بے ٹوک دلائل گھائل کرتے تھے اوروہ باربارمطالبہ کرتے تھے کہ کوئی دوسراقرآن لاؤ یا اس میں  کچھ ترمیم کرو، آخرایسی بھی کیاضدہے کہ ہم توتمہاری پوری بات مان لیں  مگرتم ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم ورواج کی کچھ رعایت ملحوظ نہ رکھویعنی کچھ تم ہماری مان لوکچھ ہم تمہاری مان لیں اس پرسمجھوتہ ہوسکتاہے،جیسے فرمایا

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ۝۰ۙ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ۔۔۝۱۵ [49]

ترجمہ:جب ہماری آیات صاف صاف ان کوسنائی جاتی ہیں  تووہ لوگ جوکبھی ہمارے سامنے حاضرہونے کی توقع نہیں  رکھتے ،کہتے ہیں  کہ اس کے بجائے کوئی اورقرآن لاؤ  یا اس میں  کچھ ترمیم کرو۔

اس پرہدایت فرمائی گئی کہ یہ لوگ جلیل القدر کتاب قرآن مجید فرقان حمید پرایمان لائیں  یانہ لائیں  آپ کوجوکچھ وحی کی جارہی ہے انہیں  بے کم وکاست لوگوں  تک پہنچا دیں  ، اگر انہیں  ایمان لاناہے تواس پورے کلام پر جوں  کاتوں  ایمان لائیں  اورایمان نہیں  لاناتوشوق سے نہ لائیں مگرکسی حال میں  یہ امید نہ رکھیں کہ انہیں  راضی کرنے کے لئے اس دین میں  انکی خواہشات کے مطابق کوئی جزوی سی ترمیم کی جائے گی ،کفارمکہ کوبتلایاگیاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نازل کردہ کلام میں  کسی کمی بیشی کرنے کے مجازنہیں  ہیں  ، ان کاکام اس پاکیزہ کلام کوبلاکم وکاست لوگوں  تک پہنچادیناہے ،فرمایا کہ اگرآپ نے کسی کی خاطراس کے کلمات میں  تغیروتبدیلی کی یااسے بیان کرنے سے گریزوانحراف کی کوشش کی تو آپ کے رب کے سواآپ کوکہیں  کوئی ٹھکانہ نہیں  ملے گاجہاں  آپ چھپ سکیں ،نہ پناہ ملے گی جہاں  پناہ لے سکیں ،اس کے علاوہ ابتدائی طورپراسلام قبول کرنے والے ہمیشہ کی طرح غریب لوگ تھے،جن میں  قبیلہ ہذیل کا بلال  رضی اللہ عنہ ،  صہیب رضی اللہ عنہ ،  عمار رضی اللہ عنہ ،        خباب  رضی اللہ عنہ  ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما  اورسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ شامل تھے ،سرداران مکہ کادماغ اپنی مالی حیثیت ،مرتبہ اورحسب نسب کی وجہ سے عرش پر رہتا تھاوہ ان غریب دین دارلوگوں  کے ساتھ بیٹھنااپنی بے عزتی سمجھتے تھے،ان کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مطالبہ تھا کہ آپ کی صحبت میں  جوکم حیثیت لوگ بیٹھتے ہیں  ہم ان کے ساتھ نہیں  بیٹھ سکتے تھے،پہلے آپ انہیں  اپنی مجلس سے دور کریں  پھرہم آپ کے پاس بیٹھ کرمعلوم کریں  گے کہ آپ کیاکہتے ہیں ، مشرکین کی سوچ ہمیشہ ایک ہی رہی ہے ،قوم نوح کے سرداربھی یہی کہتے تھے۔

۔۔۔وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ۔۔۔۝۰۝۲۷ [50]

ترجمہ:اورہم دیکھ رہے ہیں  کہ ہماری قوم میں  سے بس ان لوگوں  نے جوہمارے ہاں  اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیارکرلی ہے۔

 قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ [51]

ترجمہ:کیاہم تجھے مان لیں  حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں  نے اختیارکی ہے۔

تونوح   علیہ السلام نے فرمایا تھا

۔۔۔وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔۝۲۹ [52]

ترجمہ:میں  ان لوگوں  کودھکے دینے سے بھی رہا جنہوں  نے میری بات مانی ہے۔

وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۴ۚ [53]

ترجمہ:میرایہ کام نہیں  ہے کہ جوایمان لائیں  ان کومیں  دھتکاردوں ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللهُ خَیْرًا۔۔۔  ۝۳۱ [54]

ترجمہ:جن لوگوں  کوتم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہومیں  ان کے بارے میں  یہ نہیں  کہہ سکتاکہ اللہ نے انہیں  کوئی بھلائی نہیں  دی ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں  خیال آیاکہ سردست ان کے اس بے جاغرورکومان لوں  اور تھوڑی دیرکے لئے اپنے ساتھیوں  کودورکرکے انہیں  دعوت حق دوں  شایدمیری بات سننے سے ان کے دلوں  کی دنیا بدل جائے ، چندروزبعدیہ لوگ خودہی سمجھ جائیں  گے لیکن اللہ تعالیٰ  کے ہاں  ان فرعونی دماغوں  کی خاک بھی قدرنہ تھی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے (آپ کے اس خیال کو)سختی کے ساتھ منع فرمایا،فرمایا اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ شب وروزاپنے رب کی خوشنودی کے لئے اس کویادکرتے ہیں  اوررضائے الہٰی کی خاطرآپ کے گردجمع ہیں  ، ان کی معیت میں  اپنے دل کومطمئن کریں اوران لوگوں  کے فضول مطالبہ پران سے ہرگزنگاہ نہ پھیریں  اور ان کے اس مطالبے کو رد کر دیں  ،

عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: “ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فِینَا سِتَّةٍ: فِیَّ، وَفِی ابْنِ مَسْعُودٍ، وَصُهَیْبٍ، وَعَمَّارٍ، وَالْمِقْدَادِ، وَبِلَالٍ، قَالَ: قَالَتْ قُرَیْشٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نَرْضَى أَنْ نَكُونَ أَتْبَاعًا لَهُمْ، فَاطْرُدْهُمْ عَنْكَ، قَالَ: فَدَخَلَ قَلْبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَدْخُلَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ، بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ [55] الْآیَةَ

سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ آیت ہم چھ آدمیوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ،میں اورابن مسعود رضی اللہ عنہما اور صہیب رضی اللہ عنہ  اور عمار رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ اور بلال  رضی اللہ عنہ ،قریش کے لوگوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہاہم ان لوگوں  کے ساتھ بیٹھنانہیں  چاہتے ان کوآپ اپنے پاس سے دورکردیں ،اس بات کوسن کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دل میں  آیاجواللہ تعالیٰ کوآنامنظورتھاپھراللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں  اور اس کی خوشنودی کی طلب میں  لگے ہوئے ہیں  انہیں  اپنے سے دُور نہ پھینکو ان کے حساب میں  سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں  ہے اور تمہارے حساب میں  سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں ، اس پر بھی اگر تم انہیں  دُور پھینکو گے تو ظالموں  میں  شمار ہوگے۔‘‘[56]

یعنی ان مشرکین اورمنکرین حق سے مصالحت قطعاًخارج از بحث ہے ،جوحق اللہ کی طرف سے آیاہے اسے بے کم وکاست ان کے سامنے پیش کر دیں ،ایمان لاتے ہیں  تولے آئیں  اورتسلیم نہیں  کرتے تو خود اپنا براانجام دیکھیں  گے ، جنہوں  نے دعوت حق کو قبول کرلیاہے خواہ ان کی مالی حیثیت کتنی ہی کمزورہواللہ کے ہاں وہی قیمتی جواہرہیں ، انہی کو یہاں  عزیزرکھاجائے گااوران کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں  اوررئیسوں  کی کچھ پرواہ نہیں  کی جائے گی جودنیاکی شان وشوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں  مگروہ اللہ سے غافل ہیں  اورانہوں نے اللہ عزوجل کوچھوڑکر ا پنی خواہشات نفس کواپنا معبود بنا رکھا ہے ،جیسے فرمایا

اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۔۔۔۝۴۳ۙ [57]

ترجمہ:کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا ہو؟۔

اللہ کے فرمان کے بجائےان کے نفس نے جوچاہاانہوں  نے وہ کیااوراس کو جائزوناجائزپالینے کی کوشش کی خواہ اس میں  اس کی ہلاکت اوراس کے لیے خسارہ ہی کیوں  نہ ہو ، ان لوگوں  کاطریق کارافراط وتفریط پرمبنی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی کہ انہیں  اپنے ذکر سے غافل کر دیا ، جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۔۔۔ ۝۲۳ [58]

ترجمہ: پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پربھی غورکیاجس نے اپنی خواہش نفس کواپناالٰہ بنالیااوراللہ نے علم کے باوجوداسے گمراہی میں  پھینک دیااوراس کے دل اورکانوں  پرمہر لگا دی اور اس کی آنکھوں  پرپردہ ڈال دیا؟

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْیَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِینَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ‎﴿٢٩﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِیعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ‎﴿٣٠﴾‏ أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ یُحَلَّوْنَ فِیهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَیَلْبَسُونَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِینَ فِیهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا ‎﴿٣١﴾ (الکہف)
’’ اور اعلان کر دے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے، اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیںانہیں گھیر لیں گے، اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا، بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ (دوزخ) ہے، یقیناً جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ثواب ضائع نہیں کرتے، ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی، وہاں یہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سبز رنگ کے نرم و باریک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں گے، وہاں تختوں کے اوپر تکیے لگائے ہوئے ہونگے۔ کیا خوب بدلہ ہے اور کس قدر عمدہ آرام گاہ ہے ۔‘‘

اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ منکرین ومشرکین سےصاف کہہ دیں کہ یہ سراسربرحق قرآن تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لیے تمہارے رب کی طرف سے نازل کیاگیا ،اب جس کا جی چاہے اس پرایمان لے آئے اورجس کاجی چاہے انکارکردے،جیسے فرمایا

لَآ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ڐ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔۔۔۝۲۵۶ [59]

ترجمہ:دین کے معاملے میں  کوئی زورزبردستی نہیں ،صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کررکھ دی گئی ہے۔

راہ راست سے منہ موڑنے والے ظالموں  کے لیے ہم نے جہنم کی آگ تیارکررکھی ہے ، جس کی آگ کی اونچی دیواریں  انہیں  ہرطرف سے گھیرے میں  لے چکی ہیں  ،اب وہ اس سے بچ کربھاگ نہیں  سکتے ،جہنم کی تکالیف پروہ آہ وبکااورموت کی تمناکریں  گے اورپیاس کی شدت سے پانی مانگیں  گے،جس پر انہیں  پیپ اورلہو،یاپگھلے ہوئے سیسے یا زیتون کے تیل کی تلچھٹ جیسے گرم پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جوشدت حرارت سے ان کے ہونٹوں  اور منہ کو بھون ڈالے گا،

وَقَالَ الضَّحَّاكُ: مَاءُ جَهَنَّمَ أَسْوَدُ، وَهِیَ سَوْدَاءُ وَأَهْلُهَا  سُودٌ

ضحاک  رحمہ اللہ  کہتے ہیں  جہنم کاپانی سیاہ رنگ کاہوگااورجہنمیوں  کا رنگ بھی سیاہ ہوگا۔[60]

اس کھولتے پانی سے ان کی پیاس توکیابجھے گی بلکہ عذاب میں  اضافہ اوران کی عقوبت میں  شدت ہوگی ،ایک مقام پر فرمایاکہ یہ کھولتاہوا پانی ان کے سروں  پربھی ڈالاجائیگا۔

یُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭوَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۝۲۱ [61]

ترجمہ:ان کے سروں  پرکھولتاہواپانی ڈالاجائیگاجس سے ان کی کھالیں  ہی نہیں  پیٹ کے اندرکے حصے تک گل جائیں  گے،اوران کی خبرلینے کے لیے لوہے کے گرزہوں  گے۔

خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِیْمِ۝۴۷ۖۤثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۝۴۸ۭ [62]

ترجمہ:پکڑو اسے اور گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں  بیچ اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِهِ: {كَالمُهْلِ} قَالَ: كَعَكَرِ الزَّیْتِ، فَإِذَا قَرَّبَهُ إِلَى وَجْهِهِ سَقَطَتْ فَرْوَةُ وَجْهِهِ فِیهِ.

ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے كَالْمُهْلِ کی تفسیرمیں  فرمایا وہ تیل کی تلچھٹ کی مانندہے ،پھرجب دوزخی اپنے منہ کے پاس لے جائیں  گے تو(اس کی حدت سے)ان کے منہ کی کھال جھلس کر اس پیالہ کے اندرگرپڑے گی۔[63]

اور کھانے کے لیے زقوم کا درخت دیا جائے گا،جیسے فرمایا

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُہْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙ كَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶  [64]

ترجمہ:زقوم کا درخت،گناہگاروں  کا کھانا ہوگا ، پیٹ میں  وہ اس طرح جوش کھائے گاجیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے ۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّہَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙ فَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ۝۵۴ۚفَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ۝۵۵ۭ [65]

ترجمہ:پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والوں  تم شجر زقوم کی غذا کھانے والے ہواسی سے تم پیٹ بھرو گے،اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے۔

اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲ اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ۝۶۳ اِنَّہَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ۝۶۴ۙطَلْعُہَا كَاَنَّہٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ۝۶۵ فَاِنَّہُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْہَا فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۶۶ۭثُمَّ اِنَّ لَہُمْ عَلَیْہَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ۝۶۷ۚثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِیْمِ۝۶۸ [66]

ترجمہ: بولو ، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ہم نے اس درخت کو ظالموں  کے لیے فتنہ بنا دیا ہے ،وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے،اس کے شگوفے ایسے ہیں  جیسے شیطانوں  کے سر ،جہنم کے لوگ اسے کھائیں  گے اور اس سے پیٹ بھریں  گے پھر اس پر پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گااور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی ۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ هَارُونُ: إِذَا جَاعَ أَهْلُ النَّارِ. وَقَالَ جَعْفَرٌ: إِذَا جَاءَ أَهْلُ النَّارِ اسْتَغَاثُوا بِشَجَرَةِ الزَّقُّومِ، فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَاخْتَلَسْتُ جُلُودَ وُجُوهِهِمْ، فَلَوْ أَنَّ مَارًّا مَارَّ بِهِمْ یَعْرِفُهُمْ، لَعَرَفَ جُلُودَ وُجُوهِهِمْ فِیهَا، ثُمَّ یَصُبُّ عَلَیْهِمُ الْعَطَشَ، فَیَسْتَغِیثُونَ، فَیُغَاثُونَ بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ وَهُوَ الَّذِی قَدِ انْتَهَى حَرُّهُ، فَإِذَا أَدْنَوْهُ مِنْ أَفْوَاهِهِمُ انْشَوَى مِنْ حَرِّهِ لُحُومُ وُجُوهِهِمُ الَّتِی قَدْ سَقَطَتْ عَنْهَا الْجُلُودُ

سعیدبن جبیرفرماتے ہیں  جہنمی جب بھوکے ہوں  گے توفریادکریں  گے پھران کی فریادرسی زقوم کے درخت کے ساتھ کی جائے گی جسے وہ کھائیں  گے،اس سے ان کے چہروں  کی کھالیں  جھلس جائیں  گی،اس کے باوجودان کے پاس سے گزرنے والا انہیں  پہچان لے گا کیونکہ ان کے چہروں  سے ان کی کھالوں  کی بدبوآرہی ہوگی،پھران پرپیاس طاری کر دی جائے گی،وہ فریادکریں  گےتوان کی فریادرسی ایسے پانی سے کی جائے گی جوتیل کی تلچھٹ  کی طرح ہوگا اورانتہائی شدیدگرم کہ جب اسے اپنے مونہوں  کے قریب کریں  گے توان کی کھالیں  اترجائیں  گی اور گوشت بھن جائے گا ۔[67]

ایک مقام پرفرمایاکہ وہ گرم پانی ان کی آنتیں  کاٹ دے گا۔

۔۔۔وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [68]

ترجمہ: اور جنہیں  ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں  کاٹ دے گا۔

یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [69]

ترجمہ:اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں  گے۔

کیاہی بدترین پینے کی چیزہےاورجہنم بہت ہی بری آرام گاہ ہے ، جیسے فرمایا

 اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا۝۶۵ۤۖاِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا۝۶۶ [70]

ترجمہ:اس کاعذاب توجان کالاگوہے وہ توبڑاہی برا مستقر اور مقام ہے۔

جنت حاصل کرنے کا شوق ورغبت پیدا کرنے کے لیے فرمایا اورجو لوگ اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتوں ،اس کی منزل کتابوں ،اس کے رسولوں ،یوم آخرت اوراچھی بری تقدیرپر ایمان لائیں  گے اورسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم   کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کریں  گے تو یقیناًہم اپنے فضل وکرم سے نیکوکارلوگوں  کے اجرکو بڑھا چڑھا کر عطافرمائیں  گے، ہم نے ان کے لیے انواع اقسام کی نعمتوں  سے بھری سدابہارجنتیں  تیارکررکھی ہیں  ،جن میں  ان کے عالیشان بالاخانوں  کے نیچے مختلف اقسام کی نہریں  بہہ رہی ہیں ،دنیامیں  مردوں  کے لیے سونااورریشمی لباس ممنوع ہیں  مگراہل جنت کی امتیازی حیثیت کو نمایاں  کرنے کے لیے ان کو زیورات خصوصاسونے کے کنگنوں  سے آراستہ کیا جائے گا،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝۰ۭ وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ۝۲۳ [71]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ان کو اللہ ایسی جنتوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  بہ رہی ہوں  گی، وہاں  وہ سونے کے کنگنوں  اور موتیوں  سے آراستہ کیے جائیں  گےاور ان کے لباس ریشم کے ہوں  گے۔

اورپہننے کے لیے سبزرنگ کے باریک ریشم اوراطلس ودیباکے سبزکپڑے دیے جائیں  گے، وہ ان نہروں  اورچشموں  کے کناروں  پرشاہانہ شان سے اونچی مسندوں  پرجس پر چتر لگا ہوگا گاؤ  تکیوں  پرسہارا لگائے آمنے سامنے متمکن ہوں  گے،موتیوں  کی طرح چمکتے ہوئے نو خیز خدام ان کی دل پسندچیزوں  کے ساتھ ان کی خدمت میں  مصروف ہوں  گے، وہاں  وہ جس چیزکی تمناکریں  گے اسے پوراکیاجائے گا۔

۔۔۔ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ [72]

ترجمہ:وہاں  جوکچھ تم چاہوگے تمہیں  ملے گااورہرچیزجس کی تم تمناکروگے۔

لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ [73]

ترجمہ:ہرقسم کی لذیذ چیزیں  کھانے پینے کوان کے لیے وہاں  موجودہیں جوکچھ وہ طلب کریں  ان کے لیے حاضر ہے ۔

 لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَاۗءُوْنَ۔۔۔ ۝۱۶  [74]

ترجمہ:جس میں  ان کی ہرخواہش پوری ہو گی ۔

خوشی ،مسرت ،دائمی فرحت ،کبھی ختم نہ ہونے والی لذتیں  اوروافرنعمتیں ، یہ ہے تمہارے اعمال کی بہترین جزااوراعلیٰ درجے کی قیام گاہ،جیسے فرمایا

 اُولٰۗىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا۝۷۵ۙخٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۭ حَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا۝۷۶ [75]

ترجمہ:یہ ہیں  وہ لوگ جو اپنے صبرکا پھل منزل بلند کی شکل میں  پائیں  گے، آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا،وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے وہ کیا ہی عمدہ ٹھکانہ ہوگا اور کیسی ہی خوب ابدی قیام کی جگہ ہوگی۔

وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هَٰذِهِ أَبَدًا ‎﴿٣٥﴾‏ وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا ‎﴿٣٦﴾ وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هَٰذِهِ أَبَدًا ‎﴿٣٥﴾‏ وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا ‎﴿٣٦﴾ (الکہف )
’’  اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی،دونوں باغ اپنا پھل خوب لائے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور ہم نے ان باغوں کے درمیان نہر جاری کر رکھی تھی الغرض اس کے پاس میوے تھے، ایک دن اس نے باتوں ہی باتوں میں اپنے ساتھی سے کہا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور جتھے کے اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط ہوں اور یہ اپنے باغ میں گیا اور تھا اپنی جان پر ظلم کرنے والا کہنے لگا کہ میں خیال نہیں کرسکتا کہ کسی وقت بھی یہ برباد ہوجائے،اور نہ میں قیامت کو قائم ہونے والی خیال کرتا ہوں اور اگر (بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میں (اس لوٹنے کی جگہ) اس سے بھی زیادہ بہتر پاؤں گا ۔‘‘

فخروغرور:

اوپرکیونکہ مالی حیثیت سے کمزوراہل ایمان اوردولت مندمشرک کاذکرہواتھاجوکہتے تھے کہ ہم مفلس مسلمانوں  کے ساتھ نہیں  بیٹھ سکتے ،اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اگرتم انہیں  اپنی مجلس سے نکال دوتوہم تمہاری دعوت کوآکرسن لیں  گے،اس بات کی مزیدوضاحت کے لیے دواشخاص کی ایک مثال بیان فرمائی جس میں  ایمان وکفرکے انجام کا تقابل ہے ، فرمایا دواشخاص تھے ان میں  سے ایک مومن تھااوردوسراکافر،  اللہ  تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت سے کافرکودوانگوروں  کے باغ عطاکررکھے تھے،جن کی خوب ہری بھری پھل دار بیلیں  تھیں ، جس طرح چاردیواری کے ذریعہ سے باغ کی حفاظت کی جاتی ہے اس طرح ان باغوں  کے گرداگردکھجوروں  کے درخت تھے جوچاردیواری کا کام دیتے تھے اوران دونوں باغوں  کے درمیان کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی جس سے غلہ جات کی فصلیں  حاصل ہوتی تھیں ،یوں  دونوں  باغ غلے اورمیوہ جات کے جامع تھے ، ان باغوں  کے درمیان میں  آبپاشی کے لئے میٹھے پانی کی ایک نہربھی جاری تھی جودونوں  باغوں  کوسیراب کرتی تھی ،اس طرح دونوں  باغ بارانی علاقوں  کی طرح بارش کے محتاج نہ تھے ، رب کے فضل وکرم سے دونوں  انگوروں  کے باغ بھرپورپیداواردیتے تھے اورپیداوارمیں  کوئی کمی نہیں  کرتے تھے ،اور ان پرکوئی آفت بھی نازل نہیں  ہوتی تھی الغرض اس شخص کے پاس غلہ جات اور میواؤ ں  کی بہتات تھی ،اس طرح وہ ایک مال دارشخص تھااورایک فاجرشخص کی تمنابھی یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں  اس کے پاس بکثرت ہوں ، ایک دن باغوں  کے کافرمالک نے فخروغرورمیں  ڈوب کراپنے مومن ساتھی سے کہامیں  تم سے مال ودولت ،عزت واولاد،جاہ وحشم اورغلام وخدام میں  بھی تم سے زیادہ حیثیت والاہوں  ،یہ باتیں  کرتاہوااور اپنی جان پرظلم کرتایعنی غروروتکبرسے اکڑتا ، انکار قیامت کرتاہوااپنے باغ میں  داخل ہوااورہرے بھرے باغ اورلہلہاتی فصلوں  کو دیکھ کروہ کافر غروروتکبرمیں  ہی مبتلاہوگیا اور اس نے خودفریبی میں  مبتلاہوکر قیامت کاہی انکار کردیااوراس نے اپنے گمان کوالفاظ کاپیرایہ دیتے ہوئے کہاکہ میری یہ لہلہاتی کھیتیاں  ، پھل داردرخت ،سرسبزبیلیں ،جاری نہرکبھی فنانہیں ہوں  گی اورمیرے خیال میں  توقیامت کبھی نہیں  آئے گی،یہ توپچھلی قوموں  سے چلی آنے والی باتیں  ہیں  ، پھر ڈھٹائی اور کفروطغیان کی حدتجاوز کرتے ہوئے متکبرانہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا اوراگرفرض محال قیامت قائم ہوبھی گئی تو ظاہر ہے کہ  اللہ مجھ سے راضی اورخوش ہے ورنہ وہ مجھے اس قدرمال ومتاع کیوں  دے دیتا اس لئے حسن انجام میرامقدرہوگا وہاں  بھی وہ مجھے اس سے بھی بہترباغ عنایت کردے گاوہاں  میرے لئے اوربھی بھلائی ہوگی ، جیسے فرمایا

۔۔۔لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ۝۰ۙ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّیْٓ اِنَّ لِیْ عِنْدَهٗ لَــلْحُسْنٰى۔۔۔۝۵۰ [76]

ترجمہ:یہ کہتاہے کہ میں  اسی کامستحق ہوں  اور میں  نہیں  سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی لیکن اگرواقعی میں  اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں  بھی مزے کروں  گا۔

اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۝۷۷ۭ [77]

ترجمہ: پھر تو نے اس شخص کودیکھاجوہماری آیات کوماننے سے انکارکرتاہے اور کہتا ہے کہ میں  تومال اوراولادسے نوازاہی جاتارہوں  گا ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [78]

ترجمہ:کیایہ سمجھتے ہیں  کہ ہم جوانہیں  مال اولادسے مدددیے جارہے ہیں  توگویاانہیں  بھلائیاں  دینے میں  سرگرم ہیں ؟نہیں ،اصل معاملے کاانہیں  شعورنہیں  ہے۔

(قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ یُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا ‎﴿٣٧﴾‏ لَّٰكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّی وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّی أَحَدًا ‎﴿٣٨﴾‏ وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا ‎﴿٣٩﴾‏ فَعَسَىٰ رَبِّی أَن یُؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّن جَنَّتِكَ وَیُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِیدًا زَلَقًا ‎﴿٤٠﴾‏ أَوْ یُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَن تَسْتَطِیعَ لَهُ طَلَبًا ‎﴿٤١﴾‏ الکہف)
’’ اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس (معبود) سے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تجھے پورا آدمی بنادیا،لیکن میں تو عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہی اللہ میرا پروردگار ہے میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں گا،تو نے اپنے باغ میں جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے والا ہے، کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی مدد سے، اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کم دیکھ رہا ہے بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے اور اس پر آسمانی عذاب بھیج دے تو یہ چٹیل اورچکنا میدان بن جائے یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تیرے بس میں نہ رہے کہ تو اسے ڈھونڈھ لائے ۔‘‘

مفلس مسلمان :

مفلس مسلمان ساتھی نے اس ناشکرے کو وعظ ونصیحت کی اور اسے گمراہی اورفخروغرورسے ہٹاتے ہوئے ایمان ویقین کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایاتو اللہ کے ساتھ کفرکا ارتکاب کرتاہے ،پھراس کی اصل یاددلاکراسے اس کے خالق اوررب کی طرف توجہ دلائی کہ توکس قدرناشکرا شخص ہے،زرا اپنی حقیقت اوراصل پرغورکرجس نے تجھے پہلے سڑی ہوئے مٹی سے اور پھرایک غلیظ پانی کے قطرے کو ماں  کے پیٹ میں  تین تہہ بہ تہہ اندھیروں  کے اندر گوشت پوست کے ڈھانچے میں  بتدریج تبدیل کیا، جیسے فرمایا

۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۔۔۔۝۶ [79]

ترجمہ: وہ تمہاری ماؤں  کے پیٹوں  میں  تین تین تاریک پردوں  کے اندر تمہیں  ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے ۔

اور پھر اس ڈھانچے کوعقل وشعور،فہم وادراک کی تمیز،سمع وبصر،قوت گویائی اوربے شمارصلاحیتوں  سے آراستہ مختلف رنگ وروپ اورشکلوں  والی انسان جیسی عظیم ہستی کوبنا کھڑا کیا اور اس عمل تخلیق میں  کوئی اس کاشریک اور مددگارنہیں  ہے اورنہ ہی اس میں  انسان کی خواہش ،ارادے یااختیارکازرہ بھردخل ہے،تاکہ یہ  باشعور ہستی اپنے خالق اورمحسن کو پہچان کراس کی اطاعت گزارہواورناشکروں  کی روش اختیارکرکے غفلت نہ برتے، اورپھررب کے ان احسانات کودیکھ کہ کس طرح اس نے تجھے ہرطرح کی قوتیں  اور صلاحتیں دے کر پورابے عیب آدمی بناکھڑاکیا،وہی رب ہی ہے جس نے اپنی مشیت سے تجھے یہ دونوں  ہرے بھرے باغ اور دوسری دنیاوی آسائش مہیاکررکھی ہیں  ،جن پر تیراکوئی استحقاق نہیں  تھا ،تمہاری یہ شان وشوکت تمہاری محنت وقابلیت کانتیجہ نہیں  ہے بلکہ یہ سب کچھ کرنے والا صرف اورصرف وہ رب ہی ہے جس کوماننے کے لئے توتیارنہیں  ،وہ اپنی مشیت سے جس کوچاہے عزت سے نوازے اور جس کوچاہے ذلیل کرے،وہ جس کوچاہے مال ودولت سے نوازدے اورجس کوچاہے محتاج کردے ،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۔۔۔۝۲۶ [80]

ترجمہ:کہو! اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے، جسے چاہےعزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے، بھلائی تیرے اختیار میں  ہے۔

جب اس مسلمان نے دیکھاکہ اس کاساتھی کفروسرکشی پرجماہواہے تواس نے مجادلات وشہبات کے واردہونے کے وقت اپنے رب کی شکرگزاری اوراپنے رب کی ربوبیت اوراس ربوبیت میں  اس کی یکتائی اوراس کی اطاعت وعبادت کے ضروری ہونے کااعلان کرتے ہوئے کہامیں  تیری طرح رب کی نعمتوں  اورفضل وکرم کی ناشکری نہیں  کروں  گابلکہ میں  تو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اوراس کی وحدنیت کا اقرار واعتراف کرتاہوں ،اورمیں  اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کسی کوشریک نہیں  کروں  گااوراسے  اللہ کی نعمتوں  کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہاکہ اے غافل شخص تجھے اپنے باغات میں  داخل ہوتے وقت سرکشی اور غروروتکبرکامظاہرہ کرنے کے بجائے ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ یعنی اس عظیم الشان کائنات میں  جوکچھ ہوتاہے  اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تائیدوتوفیق سے ہوتا ہے کہنا چاہئے تھا ،

قَالَ بَعْضَ السَّلَفِ: مَنْ أَعْجَبَهُ شَیْءٌ مِنْ حَالِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ وَلَدِهِ أَوْ مَالِهِ،فَلْیَقُلْ:مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ،وَهَذَا مَأْخُوذٌ مِنْ هَذِهِ الْآیَةِ الْكَرِیمَةِ

بعض ائمہ سلف نے کہاہے کہ جس شخص کواپنے حال،مال یااولادمیں  سے کوئی چیزبہت ہی انوکھی معلوم ہو  تواسے یہ کلمات ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ پڑھ لینے چاہییں  یہ بات اسی آیت کریمہ سے ماخوذہے۔[81]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَكُنَّا إِذَا عَلَوْنَا كَبَّرْنَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، وَلَكِنْ تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا ثُمَّ أَتَى عَلَیَّ وَأَنَا أَقُولُ فِی نَفْسِی: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَقَالَ:یَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَیْسٍ، قُلْ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الجَنَّةِ  أَوْ قَالَ:أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ هِیَ كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الجَنَّةِ؟ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

ابوموسیٰ سے مروی ہےہم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک سفرمیں  تھے جب ہم کسی بلندجگہ پرچڑھتے توتکبیرکہتے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا لوگو!اپنے اوپررحم کرو،تم کسی بہرے یاغائب خداکونہیں   پکارتے ہوتم تواس ذات کوپکارتے ہوجوبہت زیادہ سننے والا،بہت زیادہ دیکھنے والا ہے ، پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس تشریف لائے ،میں  اس وقت   زیرلب  ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ کہہ رہاتھا،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا عبداللہ بن قیس کہو ماشاء اللہ لاقوة الا باللہ  کیونکہ یہ جنت کے خزانوں  میں  سے ایک خزانہ ہے،یا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ فرمایاکیامیں  تمہیں  ایک ایساکلمہ نہ بتادوں  جوجنت کے خزانوں  میں  سے ایک خزانہ ہے وہ  ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ ہے۔[82]

اس باغ کی ہریالی یا وافر مقدار میں  پھل اورغلہ جات کے پیداہونے میں  تمہاری کوئی طاقت وقوت نہیں ، وہ چاہے تواس ہرے بھرے باغ اورفصلوں  کی ہریالی کو باقی رکھے اورچاہے توفناکردے ،اوراگرتومجھے مال واولاد ، جاہ و عزت ،نوکرچاکراورحیثیت میں  اپنے سے کمتردیکھ رہاہے،اوراپنے مال دولت پرفخروغرورکااظہارکررہاہے توبہت ممکن  ہے میرارب جوبے بہاعنایت کرنے والاہے،جس کے ہاتھوں  میں  خزانوں  کی کنجیاں  ہیں اپنی رحمت سے مجھے اس دنیا میں  اورآخرت دونوں  جگہوں میں  تیرے باغات سے بہتر باغ اورتیرے مال ودولت سے زیادہ دے دے اورتیرے کرتوتوں  کے عوض طوفانی بارش یاکسی اورقسم کا آسمانی عذاب کے ذریعہ سے تیرا محاسبہ کرلے اوریہ جگہ جہاں  اس وقت سرسبزوشاداب باغ، لہلہاتی کھیتی اوربہتی نہریں ہیں  ،چٹیل ،چکنامیدان بن جائے اور تو اپنے کفرکے سبب ہاتھ ہی ملتا رہ جائے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ باغات کے درمیان میں  جونہرجاری ہے جوباغ کی شادابی اور زرخیزی کاباعث ہے اس کے پانی کو اتنا گہرا کردے کہ اس سے پانی کاحصول ہی ناممکن ہوجائے،جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِیْنٍ۝۳۰ۧ [83]

ترجمہ:ان سے کہوکبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگرتمہارے کنوؤ ں  کاپانی زمین میں  اترجائے توکون ہے جواس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں  تمہیں  نکال کردے گا۔

اس طرح تیرے یہ شاداب باغات ویران ہوکررہے جائیں  ، اللہ قادرمطلق کے لئے یہ کوئی ناممکن کام نہیں  ہے ۔

(وَأُحِیطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِیهَا وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّی أَحَدًا ‎﴿٤٢﴾‏ وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ یَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا ‎﴿٤٣﴾‏ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَخَیْرٌ عُقْبًا ‎﴿٤٤﴾الکہف)
’’اور اس کے (سارے) پھل گھیر لیے گئے پس وہ اپنے اس خرچ پر جو اس نے اس میں کیا تھا اپنے ہاتھ ملنے لگا اور باغ تو اوندھا الٹا پڑا تھا اور (وہ شخص) یہ کہہ رہا تھا کہ کاش ! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرتا ، اس کی حمایت میں کوئی جماعت نہ اٹھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاؤ کرتی اور نہ وہ خود بدلہ ہی لینے والا بن سکا، یہیں سے (ثابت ہے) کہ اختیارات اللہ برحق کے لیے ہیں وہ ثواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہے ۔‘‘

ناشکری کاانجام :

مالک ارض وسماوات نے اس کی دعاقبول فرمائی اور فخروغرورمیں  مبتلاناشکرے کا باغ فنا کرڈالا جن چھتوں  ،چھپڑوں پرانگوروں  کی بیلیں  اپنی بہار دکھلارہی تھیں  وہ سب زمین پرآرہیں اورکاشت کی ہوئی ساری کھڑی فصل ماری گئی اوراس میں  کچھ بھی باقی نہ رہا ،پھروہ باغ کی تعمیرواصلاح اور کاشت کاری کے اٹھنے والے اخراجات پر ندامت سے کف افسوس ملنے لگا،

وَقَالَ قَتَادَةُ: یُصفّق كَفَّیْهِ مُتَأَسِّفًا مُتَلَهِّفًا عَلَى الْأَمْوَالِ الَّتِی أَذْهَبَهَا عَلَیْهِ

قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  وہ کف افسوس ملتاتھااوران مالوں  کے ضائع ہونے کااسے غم تھاجواس نے باغ پرخرچ کیے تھے۔[84]

سب کچھ گنواکراب اسے احساس ہواکہ  اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانا،اس کی نعمتوں  سے فیض یاب ہوکراس کے احکامات کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں  سرکشی کسی طرح بھی ایک انسان  کے لئے زیبانہیں ،لیکن اب حسرت وافسوس کرنے کاکوئی فائدہ نہیں  تھااب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں  چگ گئیں  کھیت ،جن نوکروں چاکروں  اور اولادکے جتھے پراس کوناز اور فخروغرور تھاوہ جتھہ بھی اس کے کچھ کام نہ آیا،جیسے فرمایا

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۔۔۔۝۰۝۳۷ [85]

ترجمہ:یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں  ہے جو تمہیں  ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں  مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ۔

اورنہ وہ خودہی  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کاکوئی انتظام کرسکا،اوراللہ تعالیٰ کی قضاوقدرکے مقابلے میں  کون اس کی مددکرسکتاتھاجس کافیصلہ جب اللہ تعالیٰ جاری فرما دیتا ہے توزمین وآسمان کے تمام رہنے والے مل کربھی اس میں  سے کسی چیزکوزائل کرناچاہیں  تووہ اس کی قدرت نہیں  رکھتے ،اس وقت وہ اپنے شرک اوراپنی بدی پرپشیمان ہوااور کہنے لگاکاش! میں  اپنے رب کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرتا ،ایک مقام پرفرمایا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷ [86]

ترجمہ:ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گاکاش میں  نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔

ہمیشہ یہی ہوتارہاہے کہ جب اللہ کاعذاب کسی قوم پر نازل ہوجاتاہے تواس وقت بڑے بڑے سرکش اورجباربھی اظہارایمان پرمجبورہوجاتے ہیں  گو اس وقت کاایمان نافع اورمقبول نہیں ،جیسےفرمایا

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ۔۔۔۝۰۝۸۵ۧ [87]

ترجمہ:جب انہوں  نے ہماراعذاب دیکھ لیاتوپکاراٹھے کہ ہم نے مان لیااللہ وحدہ لاشریک کواورہم انکار کرتے ہیں  ان سب معبودوں  کا جنہیں  ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے ، مگرہماراعذاب دیکھ لینے کے بعدان کاایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکتا تھا ، کیوں  کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جوہمیشہ اس کے بندوں  میں  جاری رہاہے۔

جیسے سرکش فرعون جب اللہ کی گرفت میں  آیاتواس نے غرق ہوتے وقت اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ۔

۔۔۔حَتّٰٓی  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰ [88]

ترجمہ:حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگاتوبول اٹھامیں  نے مان لیاکہ خداوندحقیقی اس کے سواکوئی نہیں  ہے جس پربنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں  بھی سراطاعت جھکادینے والوں  میں  سے ہوں  ۔

اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا

اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱ [89]

ترجمہ:(جواب دیاگیا)اب ایمان لاتاہے حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتارہااورفسادکرنے والوں  میں  سے تھا۔

اس وقت اسے معلوم ہواکہ کارسازی تو  اللہ تعالیٰ کے اختیارمیں  ہے،اللہ کے سواکوئی کسی کی مددکرنے پراوراس کے عذاب سے بچانے پرقادر نہیں  ہے،اورجواعمال صرف اللہ ہی کے لیے ہوں  اللہ ان کا بہتربدلہ دینے والااورحسن عاقبت سے مشرف کرنے والاہے۔

‏ وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِیمًا تَذْرُوهُ الرِّیَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا ‎﴿٤٥﴾‏ الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا ‎﴿٤٦﴾ (الکہف)
’’ ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیںاللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، مال و اولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں  تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔‘‘

متاع دنیاکی حقیقت :

اللہ تعالیٰ نے دنیاکی بے ثباتی اورناپائیداری کوکھیتی کی ایک بڑی خوبصورت مثال کے ذریعے سے واضح فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ زمین پر پانی برساتاہے توزمین کے پودے اور درخت حیات نوسے شاداب ہوکرلہلہانے لگتے ہیں ،زمین کی روئیدگی خوب گھنی ہوجاتی ہیں  ،اورہرقسم کی خوش منظرنباتات اگ آتی ہیں  ، جدھر نظر اٹھاؤ سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے ،پس اس وقت کہ جب اس کی خوبصورتی اورسجاوٹ دیکھنے والوں  کوخوش کن لگتی ہے ،لوگ اس سے فرحت حاصل کرتے ہیں  اور زمین کایہ حسن غافل لوگوں  کی نظروں  کواپنی طرف متوجہ کرلیتاہے ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے سخت لولگنے سے وہی سرسبزمیدان چوراچوراہوجاتاہے اورہوائیں  اس چورے کوہرطرف اڑاتی پھرتی ہیں  ،جیسے فرمایا

 اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَآ۝۰ۙ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۲۴ [90]

ترجمہ:دنیاکی یہ زندگی(جس کے نشے میں  مست ہوکرتم ہماری نشانیوں  سے غفلت برت رہے ہو)اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایاتوزمین کی پیداوار جسے آدمی اورجانورسب کھاتے ہیں  خوب گھنی ہوگئی،پھرعین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہارپرتھی اورکھیتیاں  بنی سنوری کھڑی تھیں  اوران کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پرقادرہیں یکایک رات کویادن کوہماراحکم آگیااورہم نے اسے ایساغارت کرکے رکھ دیا کہ گویا وہاں  کچھ نہیں  تھا،اس طرح ہم نشانیاں  کھول کھول کر پیش کرتے ہیں  ان لوگوں  کے لیے جوسوچنے سمجھنے والے ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًا۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ۝۲۱ۧ [91]

ترجمہ:کیاتم نہیں  دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کوسوتوں  اور چشموں  اوردریاؤ ں  کی شکل میں  زمین کے اندر جاری کیاپھراس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں  نکالتاہے جس کی قسمیں  مختلف ہیں  ،پھروہ کھیتیاں  پک کرسوکھ جاتی ہیں پھرتم دیکھتے ہوکہ وہ زردپڑگئیں  پھر آخر کار اللہ ان کوبھس بنا دیتا ہے ،درحقیقت اس میں  ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں  کے لیے۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ۝۰ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ۝۰ۭ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۲۰ [92]

ترجمہ: خوب جان لوکہ یہ دنیاکی زندگی اس کے سواکچھ نہیں  کہ ایک کھیل اوردل لگی اورظاہری ٹیپ ٹاپ اورتمہاراآپس میں  ایک دوسرے پرفخرجتانااورمال واولادمیں  ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرناہے،اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تواس سے پیداہونے والی نباتات کودیکھ کرکاشت کارخوش ہوگئے ،پھروہی کھیتی پک جاتی ہے اورتم دیکھتے ہوکہ وہ زردہوگئی ،پھروہ بھس بن کررہ جاتی ہے ،اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں  سخت عذاب ہے اوراللہ کی مغفرت اوراس کی خوشنودی ہے ،دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ نہیں ۔

اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے یعنی زندگی بھی وہی بخشتا ہے اوروہی موت سے ہمکنارکرتاہے ،عروج وزوال بھی وہی عطافرماتاہے ، بہاراورخزاں  بھی اسی کے حکم سے آتی ہیں ، الغرض دنیاکی زندگی ہویاانسان کی جوانی ہویا دنیاکی عزت اورآبروہو،جب اللہ چندروزکے لیے یہ نعمتیں  انسان کوعطافرماتاہے توانسان فرعون بن جاتاہے ،کوئی اعلیٰ وادنیٰ شخص اس کی نظروں  میں  نہیں  سماتا،کوئی حکم شرعی اس کی نظروں  میں  نہیں  جچتا،کسی ناصح کی نصیحت اس کواثرنہیں  کرتی اوراپنی مستی میں  ایساغراتاہے کہ الٹاسمجھانے والوں  سے بگڑ جاتاہے اورانہیں  بھی دوچارسنادیتا ہے ، مگر تھوڑے ہی دنوں  میں  اس کا بھرپور شباب،اس کی طاقت اوراس کامال سب اس کاساتھ چھوڑدیتے ہیں  اوروہ نیک یابرے اعمال کے ساتھ اکیلاباقی رہ جاتاہے ،یہی وہ حال ہے کہ جب روزآخرت ظالم کواس کی حقیقت کاعلم ہوگاتواپنے ہاتھوں  کوکاٹے گااورتمناکرے گاکہ اسے دنیامیں  واپس بھیجا جائے۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [93]

ترجمہ:کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں  گے ) اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ، ہمیں  اب یقین آگیا ہے ۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ۝۰ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ۝۳۶ۚ وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔۝۳۷ۧ [94]

ترجمہ:اور جن لوگوں  نے کفر کیاہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ ان کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں  اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں  کوئی کمی کی جائے گی، اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں  ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو،وہ وہاں  چیخ چیخ کر کہیں  گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  یہاں  سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے ۔

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۲ [95]

ترجمہ:کاش ہمیں  ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں  ۔

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷ [96]

ترجمہ:اے پروردگار! اب ہمیں  یہاں  سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں  تو ظالم ہوں  گے۔

اس لئے نہیں  کہ وہ ان شہوات کو پورا کرے جو نامکمل رہ گئی تھیں  بلکہ اس لئے کہ اس سے غفلت میں  جوکوتاہیاں  صادرہوئی ہیں  توبہ واستغفار اوراعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تلافی کرسکے،چنانچہ فرمایاکہ یہ مال و اسباب ، اولاد،خاندان وقبیلہ،منصب ومرتبہ جس پرتم فخروغرورکرتے ہویہ تودنیائے فانی کی عارضی زینت ہیں  ،روزآخرت یہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئیں  گی ،جیسے فرمایا

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ [97]

ترجمہ:لوگوں  کے لیے مرغوبات نفس عورتیں ، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں  بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں  ، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں  حقیقت میں  جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے ۔

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۝۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۱۵ [98]

ترجمہ:تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں  اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے ۔

دانالوگ جانتے ہیں  کہ ان کے پاس چاہے جتنابھی مال ودولت ہو،کتنابھی بڑاخاندان وقبیلہ ہو،کسی بھی بڑے منصب پرہم فائزہوں یہ سب اس دنیامیں  ہی رہ جائے گا اور اسے خالی ہاتھ اکیلے صرف دو چادروں  میں  دفن کیا جائے گا ،وہ جانتے ہیں  کہ جس اولاد،خاندان وقبیلہ کے لئے لوگ ہرطرح کی جائزوناجائزتگ ودوکرتے ہیں ،وہ سب روز محشر اپنی جان بچانے کے لئے انہیں  پہچانے گے بھی نہیں ،اس لئے آخرت میں  کام آنے والے صرف اعمال صالحہ ہی ہیں  مثلاً حقوق اللہ،حقوق العباد، نماز ، زکوٰة، صدقہ،حج ، عمرہ تسبیح،تحمید وتہلیل، قرآت قرآن،طلب علم ،نیکی کاحکم دینااوربرائی سے روکنا،صلہ رحمی،والدین کے ساتھ حسن سلوک،بیویوں  کے حقوق پورے کرنا، غلاموں  اورجانوروں  کے حقوق کا احترام کرنااورمخلوق کے ساتھ ہرلحاظ سے اچھاسلوک کرنا،یہی وہ نیکیاں  ہیں  جن کااجراللہ تعالیٰ کے ہاں  بہترہے اورانہی سے اچھی امیدیں  وابستہ کی جاسکتی ہیں  ، ان کا اجر و ثواب باقی رہتاہے اورابدالآبادتک بڑھتا رہتاہے۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ، وَغَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ:الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  ،سعیدبن جبیراورکئی ائمہ سلف کاقول ہے کہ ’’باقی رہنے والی نیکیاں ۔‘‘  سے مرادپانچ اوقات کی نمازہے۔ [99]

وَقَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیر، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ،سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ.

عطاء بن ابورباح اورسعیدبن جبیرنے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت کیاہے ’’باقی رہ جانے والی نیکیاں  ۔‘‘سے مرادسبحان اللہ والحمدللہ، ولاالٰہ الاللہ، واللہ اکبر کلمات ہیں  ۔[100]

وَهَكَذَا سُئل أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، رَضِیَ اللَّهُ عنه، عَنْ:الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ مَا هِیَ؟   فَقَالَ: هِیَ  لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لله، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.

امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان سے پوچھاگیا’’باقی رہ جانے والی نیکیاں  ۔‘‘سے کیا مراد ہے؟ انہوں  نے فرمایاان سے مرادیہ کلمات لاالٰہ الااللہ،وسبحان اللہ، والحمدللہ، واللہ اکبر،ولاحول ولاقوة الاباللہ ہیں ۔[101]

عَنْ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَخٍ بَخٍ، لَخَمْسٌ مَا أَثْقَلَهُنَّ فِی الْمِیزَانِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ یُتَوَفَّى فَیَحْتَسِبُهُ، وَالِدَاهُ وَقَالَ: بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ مَنْ لَقِیَ اللَّهَ مُسْتَیْقِنًا بِهِنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ: یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَبِالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْحِسَابِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک آزادکردہ غلام سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بہت خوب،بہت خوب!یہ پانچ چیزیں  میزان میں  کس قدربھاری ہوں  گی لاالٰہ الااللہ، واللہ اکبر،وسبحان اللہ،والحمدللہ،اوروہ نیک بچہ جوفوت ہوجائے اوراس کاوالداللہ تعالیٰ سے ثواب کی امیدرکھےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپانچ چیزیں  بہت خوب ہیں  جوان کے ساتھ یقین رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گاتوجنت میں  داخل ہوجائے گا وہ اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت اورجنت وجہنم اوربعث بعدالموت اورحساب پرایمان رکھتا ہو۔[102]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ  مِنَ الْبَاقِیَاتِ الصَّالِحَاتِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا سبحان اللہ والحمدللہ،ولاالٰہ الااللہ،واللہ اکبر باقیات الصالحات میں  سے ہیں ۔[103]

عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ، [104] قَالَ: هِیَ ذِكْرُ اللَّهِ، قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَتَبَارَكَ اللَّهُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَالصِّیَامُ وَالصَّلَاةُ وَالْحَجُّ وَالصَّدَقَةُ وَالْعِتْقُ وَالْجِهَادُ وَالصِّلَةُ، وَجَمِیعُ أَعْمَالِ الْحَسَنَاتِ، وَهُنَّ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ، الَّتِی تَبْقَى لِأَهْلِهَا فِی الْجَنَّةِ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے’’باقی رہ جانے والی نیکیاں  ۔‘‘ سے مراداللہ کاذکر لاالٰہ الااللہ،واللہ اکبر،وسبحان اللہ،والحمدللہ،وتبارک اللہ،ولاحول ولاقوة الاباللہ، واستغفراللہ، اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پردرودپڑھ کربھیجنا،اورروزہ اورنمازاورحج اورصدقہ خیرات اورغلام کوآزادکرنااورجہادفی سبیل اللہ اورصلہ رحمی کرنااوردیگرتمام اعمال حسنہ ہیں   پس وہ باقیات صالحات ہیں  جواپنے انجام دینے والوں  کے لیے جنت میں  اس وقت تک باقی رہیں  گے جب تک آسمان وزمین باقی رہیں  گے۔[105]

پس یہی وہ کام ہیں  کہ سبقت کرنے والوں  کوان کی طرف سبقت کرنی چاہیے ، عمل کرنے والوں  کوانہی کے لئے آگے بڑھنا چاہیے ،اورجدوجہدکرنے والوں  کوان کے حصول کے لئے جدوجہدکرنی چاہیے ۔

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا ‎﴿٤٧﴾‏ وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا ‎﴿٤٨﴾‏ وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَا كَبِیرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ‎﴿٤٩﴾‏ (الکہف)
’’ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑیں گے اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کیے جائیں گے، یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا لیکن تم تو اس خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں گے بھی نہیں، اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے پس تو دیکھے گا گناہ گار اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا ۔‘‘

اولین وآخرین سب میدان محشرمیں :

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کاحال بیان فرماتاہے کہ تم لوگ توآخرت کی طرف سے بے فکرہوکرجائزوناجائزطورپردنیاکے مال واسباب کو جمع کرنے ،اپنی اولادوں کے لیے بہترین مکانات اورکاروبار چھوڑجانے اوراپنی قوم وقبیلہ کی سربلندی کی تگ ودومیں  لگے ہوئے ہو،حالانکہ تمہیں  اس چندروزہ دنیاوی سازوسامان ،اولاد،خاندان وقبیلہ وغیرہ کی فکرکرنے کی بجائے اس سخت دن کی فکراورتیاری کرنی چاہے جس دن دل دہلادینے والی ہولناکیاں  اورتڑپادینے والی سختیاں  ہوں  گی، جب اللہ کے حکم سے آسمان پھٹ پڑے گا،زمین اپنی گرفت ڈھیلی کردے گی،جس کی وجہ سے پہاڑجیسی مضبوط چیزیں  جواپنی جگہ سختی سے جمے ہوئے ہیں اپنی جگہ سے ہٹ جائیں  گے اوررنگین دھنی ہوئی روئی کی طرح ہوامیں  بادلوں  کی طرح اڑتے پھریں  گے،جیسے فرمایا

یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا۝۹ۙوَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۝۱۰ۭ [106]

ترجمہ:وہ اس روز واقع ہوگا جب آسمان بری طرح ڈگمگائے گا ور پہاڑ اڑے اڑے پھریں گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ [107]

ترجمہ: اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں  گے۔

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [108]

ترجمہ:اورپہاڑاس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں  گے کہ پراگندہ غباربن کررہ جائیں  گے ۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۝۰۝۸۸ [109]

ترجمہ:آج توپہاڑوں  کو دیکھتاہے اور سمجھتاہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگراس وقت یہ بادلوں  کی طرح اڑرہے ہوں  گے۔

پھروہ مضمحل ہوکرغبارکی مانداڑجائیں  گےپھریہ ریت زمین پرآگرے گی اورزمین میں  کوئی نشیب وفرازنہیں  رہے گا،جیسے فرمایا

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [110]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گااورزمین کوایساہموار چٹیل میدان بنادے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اورسلوٹ(نشیب وفراز) نہ دیکھوگے ۔

پھرجب اللہ مالک یوم الدین چاہئے گااولین وآخرین ،چھوٹے بڑے ، کافرومومن سب کوجب ان کے اجزابکھرچکے ہوں  گے اورپارہ پارہ ہو چکے ہوں  گے زمین وصحراؤ ں  کے پیٹوں  سے اورسمندروں  کی گہرائیوں  سے نکال کران کونئی زندگی عطافرمائے گا اورسب لوگ ننگے پاؤ ں  اورننگے بدن قبروں  سے نکل کرمال ومتاع ، اہل وعیال ،قبیلے کنبے اور اپنے سفارشیوں  کے بغیرصرف ان اعمال کے ساتھ جووہ کرتے رہے تھے میدان محشرکے وسیع میدان میں  صفوں  کی شکل میں  بارگاہ الٰہی میں  حاضر ہوجائیں  گے ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ  اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [111]

ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان لوگوں  سے کہو ، یقینا اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں  جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے۔

۔۔۔ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝۰ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ۝۱۰۳ [112]

ترجمہ:وہ ایک دن ہوگا جس میں  سب لوگ جمع ہوں  گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں  کے سامنے ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گالودیکھ لو،آگئے ناتم ہمارے پاس اسی طرح جیساہم نے تم کوپہلی بارپیداکیاتھا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۔۔۔ ۝۹۴ۧ [113]

ترجمہ:لواب تم ویسے ہی تن تنہاہمارے سامنے حاضرہوگئے جیساہم نے تمہیں  پہلی مرتبہ اکیلاپیداکیاتھا۔

روح (الامین)اورفرشتے بھی صفیں  باندھے کھڑے ہوں  گے،کسی چھوٹے یابڑے کواللہ کی بارگاہ میں  لب کشائی کی جرات نہیں  ہوگی،بجزجنہیں  اللہ رحمان اجازت عطا فرما دے اوروہ معقول بات کہیں  ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۝۰ۭۤۙ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۝۳۸ [114]

ترجمہ:جس روزروح (الامین)اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے ۔

وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۝۲۲ۚ [115]

ترجمہ:اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگااس حال میں  کہ فرشتے صف درصف کھڑے ہوں  گے۔

اس وقت منکرین آخرت کوڈانٹ کر کہاجائے گاتم لوگ حیات بعدالموت اوراعمال کی سزاو جزا کوجھٹلاتے اوراس بات کامذاق اڑاتے تھے ،اب دیکھ لو،ہمارے انبیاء کی دی ہوئی خبرسچی ثابت ہوئی ،ہمارے رسولوں  نے بڑی مثالوں  سے دنیاکی بے ثباتی وناپائیداری اوراخروی زندگی کے بارے میں  تمہیں  سمجھایاتھاکہ جس طرح اللہ خالق کائنات نے تمہیں  پہلی باربغیرکسی نمونے پیدا کیا تھا اسی طرح تمہارے اعمال کی جزاکے لئے دوبارہ بھی پیدافرمائے گا،اس لئے کفروشرک سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لے آؤ اوروہ اعمال صالحہ اختیارکرلوجورب کوراضی کرنے والے ہوں  ،لیکن افسوس !تم نے دنیاوی حادثات سے ہدایت نہ پائی بلکہ تم سمجھتے تھے کہ یہ عظیم الشان کائنات خود بخود وجودمیں  آگئی تھی ،اس کایہ لگابندھانظام خودبخود قائم ہوگیاتھا، تمام چھوٹی بڑی بحروبرکی مخلوقات بغیرکسی خالق کے خودوجودمیں  آگئی تھیں ،اس لیے پیدائش اورموت کایہ سلسلہ ہمیشہ چلتارہے گااوریہ کبھی ختم نہیں  ہوگا، اللہ تعالیٰ جس نے اس عظیم الشان کائنات کی تخلیق فرمائی تھی اس کے خاتمے کاکوئی وقت ہی مقررنہیں  فرمایا تھاجس میں  نیک وبدکی جزا و سزامل سکے ،تم نے یہ نہ سوچاکہ اگر اللہ نیک وبدمیں  تمیزنہیں  کرے گا ،عمل صالحہ اورعمل خبیثہ کونہیں  جانچے گا،فرمانبرداروں  اورباغیوں  کوان کے اعمال کی جزانہیں  دے گا تو پھر ظلم کس چیزکانام ہے،اس وقت کراماً کاتبین کے لکھے ہوئے تمہارے اعمال نامے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں  پیش کئے جائیں  گے جن کودیکھ کرمجرموں  کے دل اڑنے لگیں  گے۔

 وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [116]

ترجمہ:حالانکہ تم پر نگراں  مقرر ہیں ،ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں  ۔

ہرشخص کانامہ اعمال اس کے ہاتھ میں  تھما دیا جائے گا،ہرکوئی چاہے دنیامیں وہ جاہل تھایاپڑھالکھااپنے نامہ اعمال کوخودپڑھ لے گا، جیسے فرمایا

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ۭ [117]

ترجمہ:پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

مجرموں ،باغیوں  کو اپنے تمام بھولے بسرے گناہ یاد آجائیں  گے اوروہ رنج وافسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہیں  گے ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے جس میں  ہمارے ہر طرح کے اقوال واعمال وافعال درج ہیں ، جس میں ہمارے صغیرہ کبیرگناہ درج ہیں  چاہے وہ کھلا ہواکیاتھایاچھپا ہوا،رات کے اندھیروں  میں  کیاتھایا دن کی روشنی میں  سر انجام دیا تھا ، اور جو کچھ انہوں  نے کیا تھا اپنے سامنے پائیں  گے اوروہ اس کاانکارنہیں  کرسکیں  گے،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗٓ اَمَدًۢا بَعِیْدًا۔۔۔۝۰۝۳۰ۧ [118]

ترجمہ:وہ دن آنے والاہے جب ہرنفس اپنے کیے کاپھل حاضرپائے گاخواہ اس نے بھلائی کی ہویابرائی،اس روزآدمی یہ تمنا کرے گاکہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا!۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ [119]

ترجمہ:اس روزانسان کواس کاسب اگلا پچھلا کیا کرایا بتادیا جائے گا ۔

یَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ۝۹ۙ [120]

ترجمہ: جس روزپوشیدہ اسرارکی جانچ پڑتال ہوگی۔

عَنْ أَنَسٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یُعْرَفُ بِهِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقیامت کے روزہردغاباز کے لیے( اس کی بد عہدی کے مطابق )ایک جھنڈاہوگا جس سے اس کی پہچان ہوجائے گی۔ [121]

اللہ احکم الحاکمین کے حکم سے ترازو عدل نصب کردیا جائے گا،سب گواہ حاضرہوں  گے اوراللہ تعالیٰ فرداًفرداً ہرشخص کاٹھیک ٹھیک حساب کردے گا، اللہ تعالیٰ عدل کو پسند فرماتا ہے،اوروہ ایک ذرے کے برابربھی ناانصافی نہیں  کرتا،وہ اپنے فضل وکرم سے لوگوں  کی نیکیوں  کوتوبڑھادیتاہے مگرگناہوں  کوبرابررکھتاہے ،جیسے فرمایا:

اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [122]

ترجمہ: اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں  کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [123]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں  گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں  گے، اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں  ۔

اس لیے اس روز نہ کسی کواس کے جرم سے بڑھ کرسزا دی جائے گی اورنہ ہی کسی بیگناہ کو پکڑ کر سزا سنادی جائے گی،جیسے فرمایا:

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۱۸۲ۚ [124]

ترجمہ:یہ تمہارے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے، اللہ اپنے بندوں  پر ظلم نہیں  کرتا ۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۵۱ۙ [125]

ترجمہ:یہ ان اعمال کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں  نے آگے بھیجے ہیں  اور یہ جان رکھو کہ اللہ بندوں  پر ظلم نہیں  کرتا۔

ہرایک سے انفرادی طورپر سوال کیاجائے گااللہ کی عطاکی ہوئی عمروجوانی کی طاقت وقوت کوکہاں  لگایا،کیایہ طاقت اللہ کی اطاعت اوراس کے دین کی سربلندی میں  خرچ ہوئی یاغیراللہ کی پرستش اورناشکرگزاروں  کی طرح بسرہوئی؟جس مال ودولت کے جمع کرنے کے تم بڑے حریص تھے اور اس پراتراتے تھے اورفرعون بن کرانسان کوانسان نہیں  سمجھتے تھے کوکہاں  سے حاصل کیااورکس راہ پرخرچ کیاتھا ، کیااس مال کو اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ اور یتیموں ،مسکینوں  بیواؤ ں  وغیرہ اورنیکی کے دوسرے کاموں  پرخرچ کرتے تھے یانمودونمائش اوردعوتوں  پارٹیوں  پر بے جااسراف کرتے تھے ؟اللہ نے تم پرکچھ حقوق اللہ اورحقوق العبادفرض کیے تھے انہیں کہاں  تک پورا کیا ، اللہ نے تمہیں  مرتبہ وحیثیت بخشی تھی کیاوہ فرائض کماحقہ پورے کیے یااس کواپنی اوراولادکی حیثیت ،عزت ووقارکومستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا ؟ جس رب نے تمہیں  ہر طرح کی دنیاوی نعمتیں  عنایت کررکھی تھیں  کیااس کے شکرگزاربندے بنے یاناشکروں  کی طرح زندگی گزارکرواپس آگئےاگر شکر گزار بندے تھے تواللہ کی رضاو خوشنودی کے لئے کیااعمال کیے ہیں  وغیرہ؟ ۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّیَّتَهُ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِی وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِینَ بَدَلًا ‎﴿٥٠﴾‏ ۞ مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّینَ عَضُدًا ‎﴿٥١﴾ (الکہف)
’’ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو ؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے، ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدل ہے،میں نے انھیں آسمانوں و زمین کی پیدائش کے وقت موجود نہیں رکھا تھا اور نہ خود ان کی اپنی پیدائش میں، اور میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والابھی نہیں ۔‘‘

[1] تفسیرطبری۵۹۲؍۱۷، تفسیرابن کثیر۱۳۶؍۵

[2] مسند احمد ۱۸۴۷۴،صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۴،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ نُزُولِ السَّكِینَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ۱۸۵۶

[3] مسند احمد۲۷۵۴۰،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ فَضْلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، وَآیَةِ الْكُرْسِیِّ۱۸۸۳،سنن ابوداودكِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ۴۳۲۳، السنن الکبری للنسائی۱۰۷۲۱

[4] جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الكَهْفِ۲۸۸۶

[5] مستدرک حاکم۳۳۹۲

[6] السنن الكبرى للبیہقی۵۹۹۶

[7] الزمر۱۶

[8] السجدة۱۷

[9]الانعام ۲۱

[10] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ الِانْتِهَاءِ عَنِ المَعَاصِی ۶۴۸۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَمُبَالَغَتِهِ فِی تَحْذِیرِهِمْ مِمَّا یَضُرُّهُمْ۵۹۵۷،مسنداحمد۸۱۱۷

[11] الشعراء ۳

[12] فاطر۸

[13] النمل۷۰

[14] طہ۱تا۳

[15] القصص۵۶

[16] المائدہ۲۵

[17] الغاشیة۲۱،۲۲

[18] صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء بَابُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْفُقَرَاءُ وَأَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءُ وَبَیَانِ الْفِتْنَةِ بِالنِّسَاءِ ۶۹۴۸،مسند احمد ۱۱۱۶۹، السنن الکبری للنسائی ۹۲۲۴

[19] طہ۱۰۶،۱۰۷

[20] الفرقان۳

[21]صحیح بخاری کتاب  احادیث الانبیاء بَابٌ الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ  ۳۳۳۶، صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ  عن ابی ہریرہ  ۶۷۰۸

[22] الحجر۸۵

[23] الفرقان۵۹

[24] السجدة۴

[25] ص۲۷

[26] الدخان۳۸

[27] الانعام۱۴۴

[28] الاعراف۳۷

[29] یونس۱۷

[30] محمد۱۷

[31]مریم ۷۶

[32] الفتح۴

[33] التوبة۱۲۴

[34] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ مِنَ الدِّینِ الفِرَارُ مِنَ الفِتَنِ  ۱۹،سنن ابوداود کتاب الفتن والملاحم بَابُ مَا یُرَخَّصُ فِیهِ مِنَ البَدَاوَةِ فِی الْفِتْنَةِ۴۲۶۷، مسنداحمد۱۱۰۳۲،صحیح ابن حبان ۵۹۵۸،مصنف ابن ابی شیبة۳۷۱۱۶، مسندابی یعلی۹۸۳، شرح السنة للبغوی ۴۲۲۷

[35] سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ الْجَوَامِعِ مِنَ الدُّعَاءِ ۳۸۴۶، مسند احمد ۲۵۰۱۹،صحیح ابن حبان۸۶۹،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۳۴۵

[36] الاعراف۱۷۸

[37] بنی اسرائیل۹۷

[38] تفسیرطبری۶۲۹؍۱۷

[39] تفسیرابن کثیر۱۴۶؍۵

[40]تفسیرابن کثیر۱۴۶؍۵

[41] صحیح بخاری کتاب باب الجنائز بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ ۱۳۳۰،صحیح مسلم المساجدبَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۴،سنن نسائی کتاب الجنائزاتِّخَاذُ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۲۰۴۸، مسنداحمد ۲۴۵۱۳ ، مصنف ابن ابی شیبة۷۵۴۷،شرح السنة للبغوی ۵۰۸

[42] سنن نسائی کتاب  الجنائزباب التَّغْلِیظُ فِی اتِّخَاذِ السُّرُجِ عَلَى الْقُبُورِ۲۰۴۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ زِیَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ۱۵۷۴،سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابٌ فِی زِیَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ ۳۲۳۶،مسنداحمد۲۰۳۰،مستدرک حاکم ۱۳۸۴،صحیح ابن حبان ۳۱۷۹،السنن الکبری للبیہقی ۷۲۰۶،مصنف ابن ابی شیبة۷۵۴۹،شرح السنة للبغوی ۵۱۰

[43] صحیح مسلم المساجدبَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۸ ، المعجم الکبیرللطبرانی ۱۶۸۶،مصنف ابن ابی شیبة۷۵۴۶

[44] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ ۳۸۷۳، صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ ۱۱۸۱،سنن نسائی کتاب المساجد النَّهْیُ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۷۰۵،مسندابی یعلی۴۶۲۹

[45] تفسیرطبری ۶۴۲؍۱۷

[46] التکویر۲۹

[47] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ مَنْ طَلَبَ الوَلَدَ لِلْجِهَادِ۲۸۱۹،وبَابُ فِی المَشِیئَةِ وَالإِرَادَةِوَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّهُ۷۴۶۹، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الِاسْتِثْنَاءِ فی الیمین وغیرھا۴۲۸۵،مسنداحمد۷۷۱۵،مسندالبزار۸۸۷۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۹۹۰۹

[48] تفسیرابن کثیر۱۴۹؍۵

[49] یونس۱۵

[50] ھود۲۷

[51] الشعراء ۱۱۱

[52] ھود۲۹

[53] الشعراء ۱۱۴

[54]ھود۳۱

[55]الأنعام: 52

[56] سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مُجَالَسَةِ الْفُقَرَاءِ ۴۱۲۸،صحیح مسلم فضائل الصحابہ بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۶۲۴۰

[57] الفرقان۴۳

[58] الجاثیةہ۲۳

[59] البقرة۲۵۶

[60] تفسیرطبری۱۳؍۱۸

[61] الحج۲۰،۲۱

[62] الدخان۴۷،۴۸

[63] جامع ترمذی کتاب صفة جھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ  ۲۵۸۱، مسند احمد ۱۱۶۷۲، صحیح ابن حبان ۷۴۷۳، مسندابی یعلی ۱۳۷۵، شرح السنة للبغوی ۴۴۰۷

[64] الدخان۴۳تا۴۶

[65] الواقعة۵۱تا۵۵

[66] الصافات۶۲تا۶۸

[67] تفسیر طبری ۱۴؍۱۸

[68] محمد۱۵

[69] الرحمٰن۴۴

[70] الفرقان ۶۵، ۶۶

[71] الحج۲۳

[72] حم السجدة۳۱

[73] یٰسین۵۷

[74] الفرقان۱۶

[75] الفرقان۷۵،۷۶

[76] حم السجدة۵۰

[77] مریم۷۷

[78] المومنون۵۵،۵۶

[79] الزمر۶

[80] آل عمران۲۶

[81] تفسیرابن کثیر۱۵۸؍۵

[82] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا عَلاَ عَقَبَةً ۶۳۸۴،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعابَابُ اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ۶۸۶۲، مسند احمد ۱۹۶۰۵،صحیح ابن حبان ۸۰۴،شعب الایمان ۶۵۳،سنن الکبری للنسائی ۱۰۱۱۶،مسندابی یعلی ۷۲۵۲

[83] الملک۳۰

[84]تفسیرطبری۲۷؍۱۸

[85] سبا۳۷

[86] الفرقان۲۷

[87] المومن۸۴،۸۵

[88] یونس ۹۰

[89] یونس۹۱

[90] یونس۲۴

[91] الزمر۲۱

[92] الحدید۲۰

[93] السجدة۱۲

[94] فاطر۳۶،۳۷

[95] الشعراء ۱۰۲

[96] المومنون۱۰۷

[97] آل عمران۱۴

[98] التغابن۱۵

[99] تفسیر طبری ۳۲؍۱۸

[100] تفسیرطبری۳۳؍۱۸

[101] تفسیرابن کثیر ۱۶۱؍۵

[102] مسنداحمد۱۵۶۶۲

[103] تفسیر طبری ۳۴؍۱۸

[104]الكهف: 46

[105] تفسیر طبری ۳۶؍۱۸

[106] الطور۹،۱۰

[107] القارعة۵

[108] الواقعة۵،۶

[109] النمل۸۸

[110] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[111] الواقعة۴۹،۵۰

[112] ھود۱۰۳

[113] الانعام۹۴

[114] النبا۳۸

[115] الفجر۲۲

[116] الانفطار۱۰تا۱۲

[117] بنی اسرائیل۱۴

[118]آل عمران ۳۰

[119] القیامة۱۳

[120] الطارق۹

[121] مسند احمد ۱۲۴۴۳،صحیح بخاری کتاب الجزیة بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ۳۱۸۷،وکتاب الحیل بَابُ إِذَا غَصَبَ جَارِیَةً فَزَعَمَ أَنَّهَا مَاتَتْ، فَقُضِیَ بِقِیمَةِ الجَارِیَةِ المَیِّتَةِ، ثُمَّ وَجَدَهَا صَاحِبُهَا فَهِیَ لَهُ، وَیَرُدُّ القِیمَةَ وَلاَ تَكُونُ القِیمَةُ ثَمَنًا عن عبداللہ بن عمر۶۹۶۶،صحیح مسلم کتاب الجھادبَابُ تَحْرِیمِ الْغَدْرِ۴۵۲۹، السنن الکبری للبیہقی ۱۶۶۳۴، مصنف ابن ابی شیبة ۳۳۴۱۶، مسندابی یعلی ۳۵۲۰،شرح السنة للبغوی ۲۴۸۱

[122] النسائ۴۰

[123] الانبیاء ۴۷

[124] آل عمران ۱۸۲

[125] الانفال۵۱

Related Articles