بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ الکہف(حصہ دوم)

خالق کوچھوڑکراس کے دشمن سے دوستی

مشرکین جنہوں  نے اللہ خالق کائنات کوچھوڑکرشیاطین کواپنادوست اورسرپرست بنارکھاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۳۰ [1]

ترجمہ:انہوں  نے اللہ کے بجائے شیاطین کواپناسرپرست بنالیاہےاور سمجھتے ہیں  کہ وہ راہ راست پر ہیں ۔

مشرکین کی حماقت کوواضح کرنے کے لیے آدم   علیہ السلام اوران کی اولادکے ساتھ ابلیس کی عداوت کاذکر فرمایا اس وقت کاتصورکروجب ہم نے فرشتوں  سے کہاتھاکہ آدم  علیہ السلام کوبطورتعظیم وتکریم سجدہ کرو،جیسے فرمایا

 وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ۝۲۹  [2]

ترجمہ:پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں  سے کہا کہ میں  سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں  ،جب میں  اسے پورا بنا چکوں  اور اس میں  اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں  گر جانا۔

اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تمام فرشتوں  نے حکم برداری کی مگرابلیس نے تکبرکی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اورکہنے لگا

۔۔۔قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۝۶۱ۚ [3]

ترجمہ: کیا میں  اس کوسجدہ کروں  جسے تونے مٹی سے بنایاہے۔

اورخودکوآدم  علیہ السلام سے برترسمجھ کرکہا

۔۔۔قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ۝۰ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ۝۱۲ [4]

ترجمہ:بولامیں  اس سے بہترہوں تونے مجھے آگ سے پیداکیاہے اوراسے مٹی سے۔

وہ جنوں  میں  سے تھا مگرفرشتوں  کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں  شمارہوتاتھا،

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: مَا كَانَ إِبْلِیسُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ طَرْفَةَ عَیْنٍ قَط، وَإِنَّهُ لَأَصْلُ الْجِنِّ، كَمَا أَنَّ آدَمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، أَصْلُ الْبَشَرِ

حسن بصری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ابلیس لمحہ بھرکے لیے بھی فرشتوں  میں  سے نہ تھاکیونکہ وہ توجنات کی اصل تھا جیساکہ آدم  علیہ السلام  انسانوں  کی اصل ہیں ۔[5]

اس لیے اللہ کے اس حکم میں  فرشتوں  کے ساتھ وہ بھی شامل تھا،جیسے فرمایا

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ۔۔۔۝۰۝۱۲ [6]

ترجمہ: پوچھا تجھے کس چیزنے سجدہ کرنے سے روکاجب کہ میں  نے تجھ کوحکم دیاتھا؟۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں  کی صفت بیان فرمائی کہ وہ اللہ کے حکم کی سرتابی نہیں  کرتے۔

۔۔۔ لَّا یَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶ [7]

ترجمہ:جوکبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اورجوحکم بھی انہیں  دیاجاتاہے اسے بجالاتے ہیں ۔

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۴۹یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۵۰ۧ۞  [8]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں  میں  جس قدر جان دارمخلوقات ہیں  اورجتنے ملائکہ ،سب اللہ کے آگے سربسجودہیں ،وہ ہرگزسرکشی نہیں  کرتے،اپنے رب سے جوان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں  اورجوکچھ حکم دیاجاتاہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔

مگر ابلیس اپنے فخروغروراورحسدوبغض کی بناپر اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا،تم لوگ یہ تسلیم کرتے ہو کہ اس عظیم الشان کائنات کو اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق کیا ہے ، تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ آسمان وزمین کی تخلیق وتدبیر میں  اللہ نے ان میں  سے کسی کومددکے لیے نہیں  بلایا تھا اورنہ خودان کی اپنی تخلیق میں  انہیں  شریک کیاتھا،تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ اللہ تعالیٰ ہی بحروبرمیں اپنی بے شمار چھوٹی بڑی مخلوقات کوآسمانوں  اورزمین سے رزق مہیاکرتا ہے اور مختلف دھاتوں  سےتمہارے اپنے ہاتھوں  سے مختلف شکلوں  میں  تراشے ہومعبودوں  کاان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ، تو پھر سوچو جو رب اتنی قدرتوں ،طاقتوں  اوراختیارات والاہے تو بندگی واطاعت کے لائق بھی صرف وہی ہو سکتا ہے ، جبکہ جن شیاطین کی تم مالک ارض وسماوات کوچھوڑکرپرستش کرتے ہوان کانہ توآسمانوں  وزمین کی تخلیق وتدبیرمیں  کوئی حصہ ہے،اورنہ ہی یہ کسی کے رازق ہیں  بلکہ خود مخلوق ہیں  اورانہیں  رزق مہیا کیاجاتاہے، جب یہ ثابت ہوگیاکہ یہ مخلوق ہیں  اوراللہ ان سب کاخالق ورازق ہے، انہیں زرہ بھربھی کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں  ہیں  اورنہ ہی یہ اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۚ لَا یَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِیْرٍ۝۲۲وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ۔۔۔ ۝۲۳ [9]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان مشرکین سے)کہوکہ پکار دیکھواپنے ان معبودوں  کوجنہیں  تم اللہ کے سوا اپنا معبودسمجھے بیٹھے ہو،وہ نہ آسمانوں  میں  کسی ذرہ برابرچیزکے مالک ہیں  نہ زمین میں ،وہ آسمان وزمین کی ملکیت میں  شریک بھی نہیں  ہیں ،ان میں  سے کوئی اللہ کامددگاربھی نہیں  ہے،اوراللہ کے حضورکوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں  ہوسکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۔۔۔ ۝۴ [10]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکبھی تم نے آنکھیں  کھول کربھی دیکھا کہ وہ ہستیاں  ہیں  کیاجنہیں  تم اللہ کوچھوڑکرپکارتے ہو؟ذرامجھے دکھاؤ توسہی کہ زمین میں  انہوں  نے کیا پیدا کیا ہے؟یاآسمانوں  کی تخلیق وتدبیرمیں  ان کاکوئی حصہ ہے؟۔

تو پھراللہ کی عبادت واطاعت سے منہ موڑکرتم اپنے کھلے دشمن شیطان اوراس کی ذریت کی پرستش یاان کی اطاعت کیوں  کرتے ہو ؟ اللہ ارحم الرحمین اورخیرخواہ پیغمبروں  کو چھوڑ کراللہ کے دشمن ابلیس کی اطاعت کرناتوبہت ہی براظلم ہے اور ظالموں  کے لیے بڑاہی برا بدل ہے ، میراکام یہ نہیں  ہے کہ گمراہ کرنے والوں  کواپنامددگار بنایا کروں  اور بفرض محال اگرمیں  کسی کومددگاربناتابھی توان کوکیسے بناتاجبکہ یہ میرے بندوں  کوراست راست سے ہٹاکرمیری لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  اورمیری خوشنودی سے روکنے کی کوشش میں  لگے رہتے ہیں  ۔

‏ وَیَوْمَ یَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِیَ الَّذِینَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَهُم مَّوْبِقًا ‎﴿٥٢﴾‏ وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ یَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا ‎﴿٥٣﴾‏ (الکہف)
’’ اور جس دن وہ فرمائے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے انھیں پکارو ! یہ پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا ہم ان کے درمیان ہلاکت کا سامان کردیں گے، اور گناہ گار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اسی میں جھونکے جانے والے ہیں لیکن اس سے بچنے کی جگہ نہ پائیں گے ۔‘‘

روزمحشرمشرک شرمندہ ہوں  گے :

میدان محشرمیں  جب یہ لوگ اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں  حاضرہوں  گے،جن وانس میں نامہ اعمال تقسیم کیے جاچکے ہوں  گے ، تمام گواہ اللہ کی عدالت میں گواہی کے لئے سرجھکائے کھڑے ہوں  گے ،سامنے سترہزارلگاموں  سے جکڑی جہنم پورے غیض وغضب سے دہک رہی ہوگی اوراس سے ہولناک آوازیں  بلند ہو رہی ہوں  گی،

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَجُرُّونَهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس دن جہنم لائی جائے گی اس کی سترہزارباگیں  ہوں  گی اورہرایک باگ کے ساتھ سترہزارفرشتے کھینچتے ہوں  گے ۔[11]

اللہ تعالیٰ حق وانصاف سے فردا ًفرداً سب کافیصلہ صادرفرمادے گا،نیک بخت خوشی خوشی جنت میں  داخل ہوجائیں  گے ،جہاں  انہیں  ہر طرف سے فرشتے خوش آمدید کہیں  گے ،

تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۔۔۔۝۴۴ [12]

ترجمہ:جس روز وہ اس سے ملیں  گے ان کا استقبال سلام سے ہوگا ۔

انہیں  اونچی مسندوں  پربٹھائیں  گے اوران کی خاطرتواضع کے لئے پھل ،میوہ جات اورطرح طرح کے پرندوں  کابھنا ہوا گوشت وغیرہ پیش کریں  گے ، جیسے فرمایا

وَفَاكِہَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ [13]

ترجمہ:اور وہ ان کے سامنے طرح طرح لذیذ پھل پیش کریں  گے کہ جسے چاہیں  چن لیں  ،اور پرندوں  کے گوشت پیش کریں  گے کہ جس پرندے کا چاہیں  استعمال کریں ۔

اس وقت اللہ تعالیٰ ان مشرکوں  کو جو دنیا میں  بغیر کسی دلیل کے اپنے خالق ،مالک اوررازق ا لٰہ کو چھوڑ کر غیراللہ کومددکے لئے پکاراکرتے تھے،اللہ کے احکام اوراس کی ہدایات کو چھوڑکرکسی دوسرے کے احکام اوررہنمائی کااتباع کرتے تھے،اس طرح شیاطین کواللہ کا شریک بناتے تھے کہے گا اب اس مشکل ترین گھڑی میں  ان خودساختہ معبودوں  کو مددکے لئے بلاؤ  جن کے بارے میں  تمہارے بڑے زعم تھے کہ یہ اللہ کے ہاں  تمہارے سفارشی ہوں  گے، اس برے وقت میں وہ آئیں  اور تمہیں  ان سختیوں  سے نجات دلائیں  ،جیسےفرمایا

وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ۔۔۔۝۰ ۝۶۴ [14]

ترجمہ:پھران سے کہاجائے گاکہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں  کو،یہ انہیں  پکاریں  گے مگروہ ان کوکوئی جواب نہ دیں  گےاوریہ لوگ عذاب دیکھ لیں  گے۔

بدبخت مشرک سمجھیں  گے کہ شایدان کوپکارنے میں  کچھ فائدہ ہوتو اس وقت بھی ان کوپکاریں  گے ،مگرکس بڑے یاچھوٹے کی جرات ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کے مقابل ان مشرکوں  کی مدد کے لئے کھڑا ہو سکے ، لہذوہ بزرگ ،انبیاء اوراولیاء جن کویہ مشکل کشا اورحاجت رواجانتے تھے،اپنی پریشانیوں  وتکالیف میں  ان سے مددمانگتے تھے ،ان کی قبروں  کو دودھ سے دھوتے اورقیمتی کپڑوں  اورپھولوں کی چادریں  چڑھاتے تھے ،عرس مناتے اورچراغاں  کرتے تھے،ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے اموال میں  ان کا حصہ مقررکرتے اور نذرو نیاز پیش کرتے تھے ،ان کی پکارکاکوئی جواب نہیں دیں  گے،اللہ ان مشرکوں  اوران کے معبودوں  کے درمیان عداوت ڈال دے گا،جس کے باعث دنیا میں  ان کے درمیان جودوستی ومحبت تھی وہ سخت عداوت اورنفرت میں  تبدیل ہوجائے گی،ان کے خودساختہ شرکاء ان کے شرک کاانکار اوران سے بیزاری کا اظہارکریں  گے ،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [15]

ترجمہ:آخراس شخص سے زیادہ بہکاہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کوپکاررہے ہیں ،اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں  گے۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [16]

ترجمہ:ان لوگوں  نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدابنارکھے ہیں  کہ وہ ان کے پشتبان ہوں  گے ،کوئی پشتبان نہ ہوگاوہ سب ان کی عبادت کاانکارکریں  گے اورالٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے ۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸ فَكَفٰى بِاللہِ شَہِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹ہُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۳۰ۧ [17]

ترجمہ:جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں ) اکٹھا کریں  گے، پھر ان لوگوں  سے جنہوں  نے شرک کیا ہے کہیں  گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں  گےاور ان کے شریک کہیں  گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں  کرتے تھےہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ ( تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو )ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بےخبر تھے،اس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیے جائیں  گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں  نے گھڑ رکھے تھے گم ہو جائیں  گے ۔

جب کوئی سفارشی ان کے حق میں  سفارش نہیں  کرے گااور فیصلہ ان کے خلاف ہوجائے گااورمخلوق میں  سے ہرگروہ اپنے اعمال کی بناپرعلیحدہ ہوجائے گاتو ہرطرف سے مایوس ہو کرکفارومشرکین کویقین ہوجائے گا کہ اب ان کا جہنم میں  داخل ہونے کے سوااورکوئی چارہ کارنہیں  اوروہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں  گے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یُنْصَبُ الْكَافِرُ مِقْدَارَ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، كَمَا لَمْ یَعْمَلْ فِی الدُّنْیَا، وَإِنَّ الْكَافِرَ لَیَرَى جَهَنَّمَ   وَیَظُنُّ أَنَّهَا مُوَاقِعَتُهُ مِنْ مسیرة أربعین سنة

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپانچ ہزارسال تک کافراسی تھرتھری میں  مبتلارہے گاکہ جہنم اس کے سامنے ہے جس کے خوف سے اس کاکلیجہ قابوسے باہر ہو رہا ہوگاکافرابھی چالیس سال کی مسافت پرہوگاکہ یقین کرلے گاکہ جہنم ہی اس کاٹھکانہ ہے۔[18]

(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ‎﴿٥٤﴾‏ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ وَیَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِینَ أَوْ یَأْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا ‎﴿٥٥﴾الکہف )
’’ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لیے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے،لوگوں کے پاس ہدایت آچکنے کے بعد انہیںایمان لانے اور اپنے رب سے استغفار کرنے سے صرف اس چیز نے روکا کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ انھیں بھی پیش آئے یا ان کے سامنے کھلم کھلا عذاب آموجود ہوجائے ۔‘‘

ہم نے لوگوں  کوراہ راست پر لانے کے لیے اس قرآن مجیدفرقان حمید میں  باربارمختلف اندازسے وعظ وتذکیر، ترغیب وترہیب کی مثالوں ،پچھلی اقوام کے عبرتناک واقعات اورپرزوردلائل وبراہین کو خوب کھول کربیان کیا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا  ۝۴۱ [19]

ترجمہ:ہم نے اس قرآن میں  طرح طرح سے لوگوں  کوسمجھایامگرچونکہ انسان بڑا ہی جھگڑالواوربحثیں  کرنے والا ہے،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ [20]

ترجمہ: کیا انسان نے نہیں  دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑنے والا ہوگیا۔

أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْهِ السَّلاَمُ لَیْلَةً، فَقَالَ:أَلاَ تُصَلِّیَانِ؟  فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِیَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ یَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِینَ قُلْتُ ذَلِكَ، وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ  شَیْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ یَضْرِبُ فَخِذَهُ یَقُولُ : {وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا} [21]

سیدناعلی رضی اللہ عنہ  بن ابوطالب سے مروی ہےایک رات نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے اوراپنی لخت جگرفاطمہ  رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اورفرمایاکیاتم نمازنہیں  پڑھتے؟میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہماری جانیں  اللہ کے ہاتھ میں  ہیں  جب وہ ہمیں  اٹھاناچاہے تواٹھادیتاہے، جب میں  نے یہ بات کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  واپس تشریف لے گئے اورمیری بات کا کوئی جواب نہ دیا، میں  نے سناکہ جب آپ واپس تشریف لے جارہے تھے تواپنی ران پرہاتھ مارتے اورفرماتے جارہے تھے  ’’مگرانسان بڑاہی جھگڑالوواقع ہواہے۔‘‘[22]

حالانکہ یہ اس کے لائق ہے نہ یہ قرین انصاف ہے ،اس لیے اس پراس وعظ ونصیحت اوردلائل وبراہین کااثر نہیں  ہوتا،حجت قائم ہوجانے کے باوجود اپنے رب پر اایمان لانے اوراپنی بدعملیوں  اورسیاہ کاریوں  پراس سے بخشش ومغفرت کا طلبگارہونے میں  کیاچیزمانع ہے؟ کیایہ کفارومشرکین اس بات کے منتظرہیں  کہ پچھلی اقوام کی طرح ان پر بھی عذاب نازل کردیاجائے؟ یایہ کہ وہ عذاب کوسامنے آتے دیکھ لیں  اور پھر ایمان لے آئیں ؟ مگران کومعلوم ہوناچاہیےاس وقت ایمان لاناکچھ نفع بخش نہیں  ہوگا۔

 وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ ۚ وَیُجَادِلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ۖ وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا ‎﴿٥٦﴾‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآیَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاهُ ۚ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا ۖ وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن یَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا ‎﴿٥٧﴾ (الکہف)
’’ ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنا دیں اور ڈرادیں، کافر لوگ باطل کے سہارے جھگڑتے ہیں اور (چاہتے ہیں) کہ اس سے حق کو لڑا کھڑا دیں، انہوں نے میری آیتوں کو اور جس چیز سے ڈرایا جاتا اسے مذاق بنا ڈالا ہے، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر بھی منہ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے (نہ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے، گو تو انھیں ہدایت کی طرف بلاتا رہےلیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے کے ۔‘‘

بڑاظالم کون ؟:

فیصلے کاوقت آنے سے پہلے ہم رسولوں  کواس لیے مبعوث کرتے ہیں  کہ وہ لوگوں  کوبھلائی کی طرف بلائیں  اوربرائی سے روکیں ،پھر جولوگ خلوص نیت سے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت قبول کرلیں  اوررسول کی اطاعت میں اعمال صالحہ اختیارکریں انہیں  اللہ کی خوشنودی اوراس کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  کی بشارت سنادے اورجو اللہ وحدہ لاشریک اس کے رسولوں  اوران پرنازل کتابوں  کی تکذیب کریں  انہیں  اللہ کے عذاب سے خبردارکرکے اتمام حجت کردے ،مگرکفارومشرکین ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں  اٹھاتے اور جھوٹ ،مکروفریب اورظلم وستم کے ہتھیاروں سے حق کونیچادکھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں  حالانکہ ہردورمیں باطل کے مقابلے میں  ہمیشہ حق ہی سر بلند اورباطل سرنگوں  ہی رہاہے،جیسے فرمایا

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَزَاهِقٌ ۔۔۔ ۝۱۸ [23]

ترجمہ:مگرہم توباطل پرحق کی چوٹ لگاتے ہیں  جو اس کاسرتوڑدیتی ہے اوروہ دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتاہے۔

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۝۸۱ [24]

ترجمہ: اوراعلان کر دو کہ حق آگیااورباطل مٹ گیاباطل تومٹنے ہی والاہے۔

اورانہوں  نے میری ان دلائل وبراہین ،معجزات اوران تنبیہات کوجوانہیں  کی گئیں  ہنسی مذاق بنا لیاہے،اوراس روگرداں شخص سے بڑھ کرظالم اورمجرم کون ہوسکتاہے جسے اللہ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے ، جس کے سامنے حق باطل ،ہدایت وضلالت، اندھیرے اوراجالے کوواضح کردیاگیاہواوروہ اندھے پن کامظاہرہ کرکے ان کوسمجھنے سے مسلسل اعراض کرے اورجہنم کے دردناک عذاب کوبھول جائے جس کاسروسامان خود اس نے اپنے ہاتھوں  سے کیاہے؟اس ظلم عظیم کی وجہ سے ہم نے ان کے لیے ہدایت کے راست بندکردیے ہیں  اوران دلوں  پرمہر اوران کے کانوں  میں ایسی گرانی پیداکردی ہے کہ قرآن کاسننا،سمجھنااوراس سے ہدایت قبول کرناان کے لیے ممکن نہیں  رہا،آپ ان لوگوں  کوحق کی طرف کتنی ہی دعوت پیش کریں  وہ راہ حق کوقبول نہیں  کریں  گے،انہیں  حقیقت کا اس وقت یقین آجائے گاجب یہ ہلاکت کے گڑھے میں  جاگریں  گے اور دردناک عذاب سے چھٹکاراپانے کے لیےموت کوپکاریں  گے مگرموت نہیں  آئے گی ۔

(وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ یُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن یَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا ‎﴿٥٨﴾‏ وَتِلْكَ الْقُرَىٰ أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدًا ‎﴿٥٩﴾الکہف۵۸،۵۹)

’’تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انھیں جلدی عذاب کردے، بلکہ ان کے لیے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے،یہ ہیں وہ بستیاں جنہیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کردیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی ۔‘‘

دھمکی :

اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں  مغفرت اوررحمت کاذکرکرنے کے بعددھمکی دی کہ اگراللہ تعالیٰ نے تمہارے مشرکانہ اعمال اورصغیرہ وکبیرہ گناہوں  پرفوری طورپرگرفت نہیں  کی گئی ہے تویہ نہ سمجھوکہ تمہیں  کوئی پوچھنے والانہیں اورتمہاری جواب طلبی نہیں  کی جائے گی، یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان رحیمی ہے کہ وہ مجرموں  کوفوری طورپر پکڑکراسی وقت سزانہیں  دے دیتا بلکہ اس کے برعکس ایک عرصہ تک مہلت عطاکرکے سوچنے اور سنبھلنے کاموقع عطافرماتاہے تاکہ لوگ توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرلیں ،اللہ کے دامن رحمت کوتھام لیں   اورعذاب سے بچ جائیں ،اگر ایسانہ ہوتاتوپاداش عمل میں  ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں  کسا ہوتا،جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا۝۴۵ۧ [25]

ترجمہ:اگر کہیں  وہ لوگوں  کو ان کے کیے کرتوتوں  پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑتا مگر وہ انہیں  ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے، پھر جب ان کا وقت آن پورا ہوگا تو اللہ اپنے بندوں  کو دیکھ لے گا ۔

۔۔۔وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ۝۰ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۶ [26]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں  کی زیادتیوں  کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔

وہ لوگوں  کے ظلم سے درگزرفرماتاہے مگر سرکش لوگ اس ڈھیل سے چوکنا ہونےکے بجائے یہ گمان کرتے ہیں  کہ ان کوکوئی پوچھنے والاہی نہیں ،ان کی کبھی بازپرس نہیں  ہوگی اس لئے جودنیامیں چاہوکرتے رہو ، مگر اسی غلط فہمی میں جب تم مہلت کا وقت بھی ضائع کردوگے اور اپنے ظلم وعنادپرجمے رہوگے تو پھراللہ کی گرفت سے تمہارے لئے فرارکاکوئی راستہ اور بچاؤ  کی کوئی سبیل نہیں  رہے گی ،پھرتم جہنم کے باسی بن کر پچھتانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکو گے ،ابھی مہلت کاکچھ وقت ہے،سانس کی ڈورابھی باقی ہے لہذا اللہ کے عذابوں  سے ڈرو اور کلام اللہ(قرآن مجید) سے نصیحت حاصل کرو،قوم عاد ،قوم ثمود،قوم صالح،قوم شعیب اورقوم لوط وغیرہ کی  عذاب رسیدہ بستیوں  کے آثاروکھنڈرات تمہارے سامنے موجودہیں ،ہم نے ان کی طرف رسول مبعوث کیے ،انہیں  بھی طرح طرح کے دلائل وبراہین سے سمجھایا،ان سے پہلی تباہ شدہ قوم کے عبرتناک حالات واقعات بیان کیے مگر راہ حق پرچلنے کے بجائے انہوں  نے اندھابن کررہناپسندکیا، ہم نے اپنی سنت کے مطابق انہیں  سوچنے اورسمجھنے کے لیے ایک لمبی مہلت عطافرمائی مگر اس پروہ اوراکڑ گئے اور سمجھنے لگے کہ انہیں  پکڑنے والاکوئی نہیں ،جب وہ ظلم وطغیان کی حدوں سے گزرگئے اوران سے خیروبھلائی کی کوئی امیدباقی نہ رہی اورمہلت کی گھڑیاں  بھی بیت گئیں  تو ہم نے ان پرمختلف طرح کے عذاب نازل کرکے حرف غلط کی طرح مٹا کراہل دنیاکے لیے عبرت کانمونہ بنادیا،ان میں  سے ہرایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے ایک وقت مقرر کررکھاتھاجس وہ نہ آگے ہوئے نہ پیچھے،جیسے فرمایا

قُلْ لَّكُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَــقْدِمُوْنَ۝۳۰ۧ [27]

ترجمہ:کہو تمہارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس کے آنے میں  نہ گھڑی بھر کی تاخیر تم کر سکتے ہو اور نہ ایک گھڑی بھر پہلے اسے لا سکتے ہو۔

پس لوگو!تم اپنے کفروعنادسے باز آجاؤ اور میرے دردناک عذابوں  سے ڈرواورمیرے کلام سے نصیحت حاصل کروورنہ تمہاراانجام بھی پہلی اقوام سے مختلف نہیں  ہوگا۔

(وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ أَوْ أَمْضِیَ حُقُبًا ‎﴿٦٠﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیلَهُ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا ‎﴿٦١﴾ فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِینَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا ‎﴿٦٢﴾‏ قَالَ أَرَأَیْتَ إِذْ أَوَیْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّی نَسِیتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِیهُ إِلَّا الشَّیْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِیلَهُ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا ‎﴿٦٣﴾‏ قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا ‎﴿٦٤﴾‏ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَیْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎﴿٦٥﴾‏ا(لکہف )
’’جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچوںخواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے، جب وہ دونوں دریا کے سنگم پر پہنچے وہاں اپنی مچھلی بھول گئے جس نے دریا میں سرنگ جیسا اپنا راستہ بنا لیا، جب یہ دونوں وہاں سے آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ لا ہمارا کھانا دے ہمیں تو اپنے اس سفر سے سخت تکلیف اٹھانی پڑی، اس نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی ؟ جبکہ ہم پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا دراصل شیطان نے ہی مجھے بھلا دیا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں، اس مچھلی نے ایک انوکھے طور پر دریا میں اپنا راستہ بنا لیا ، موسٰی نے کہا یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے،پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم سکھا رکھا تھا۔‘‘

الٰہی مصلحتیں :

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:  أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِیبًا فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَسُئِلَ: أَیُّ النَّاسِ أَعْلَمُ، فَقَالَ: أَنَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ إِنَّ لِی عَبْدًا بِمَجْمَعِ البَحْرَیْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ،  فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَیْهِ إِذْ لَمْ یَرُدَّ العِلْمَ إِلَیْهِ،  قَالَ مُوسَى: یَا رَبِّ فَكَیْفَ لِی بِهِ،قَالَ: تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِی مِكْتَلٍ، فَحَیْثُمَا فَقَدْتَ الحُوتَ فَهُوَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاموسیٰ   علیہ السلام بنی اسرائیل کووعظ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے توان سے پوچھا گیاکہ سب بڑاعالم کون شخص ہے ( موسیٰ  علیہ السلام  نے اپنے خیال کے مطابق کہ میں  نبی ہوں  اورسب لوگوں  کی ہدایت کے لئے مبعوث کیاگیاہوں  اس لئے مجھ سے بڑاعالم کون ہو گا)چنانچہ جواب میں  فرمایا میں  سب سے بڑاعالم ہوں ، اللہ تعالیٰ نےاس پرغصہ کیاکیونکہ انہوں  نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں  کی تھی، اوران کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں  ، میرے بندوں  میں  سے ایک بندہ ( خضر ) دودریاؤ ں  کے ملنے کی جگہ پرہے اوروہ تم سے بڑاعالم ہے، موسٰی نے عرض کیا اے  اللہ سبحانہ وتعالیٰ! تیرے اس بندہ سے ملاقات کس طرح ممکن ہے، اللہ  تبارک وتعالیٰ نے فرمایاایک مچھلی زنبیل میں  ساتھ لے جاؤ ،جہاں  تمہاری مچھلی تمہاری زنبیل سے نکل کر غائب ہوجائے توسمجھ لیناکہ یہی مقام ہے۔[28]

اللہ تعالیٰ نے موسٰی کواپنے اس بندے کے پاس اس لئے بھیجاتھاکہ پردہ اٹھاکروہ ایک نظر انہیں  یہ دکھائے کہ اس کارخانہ مشیت میں  کن مصلحتوں  کے مطابق کام ہوتا ہے جنہیں  سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے ، موسیٰ  علیہ السلام  نے نمک چڑھی مچھلی کوزنبیل میں  رکھ کر اپنے نوجوان ساتھی( یوشع بن نون) جو سفروحضرمیں  ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا کے ہمراہ خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے اپنا سفر شروع کیااورشوق اوررغبت کی بناپران سے کہنے لگے کہ مسافت خواہ کتنی بھی طویل اورکتنی بھی پرمشقت ہو میں  اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھوں  گاجب تک میں  دونوں  دریاؤ ں  کے سنگم پرپہنچ جاؤ ں  (اس سے مرادصحرائے سینا کاوہ جنوبی راس ہے جہاں  خلیج عقبہ اورخلیج سولیس دونوں  آکر ملتے ہیں  اور بحراحمر میں  ضم ہو جاتے ہیں )جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہ پرپہنچے تو اس مقام پرپتھرسے ٹیک لگا کرسونے کے لئے لیٹے ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق مچھلی زندہ ہوکر زنبیل سے نکلی اور اس نے عجیب وغریب طورپر دریامیں  سرنگ جیسااپناراستہ بنا لیا اور دیگر حیوانات میں  شامل ہوگئی ، یوشع بن نون نے مچھلی کوسمندرمیں  جاتے اور راستہ بناتے ہوئے دیکھالیکن اس عجیب وغریب واقعہ کا ذکرموسٰی کوکرنابھول گئے حتیٰ کہ آرام کر کے وہاں  سے پھرآگے سفرشروع کردیا،اس دن اوراس کے بعدرات سفر کر کے جب دوسرے دن موسٰی کوتھکاوٹ اوربھوک لگی تواپنے ساتھی یوشع بن نون سے کہاکہ بھوک لگی ہے کھانالاؤ تاکہ کھائیں ،یوشع بن نون نے کہا اے موسیٰ   علیہ السلام ! پچھلی رات ایک عجیب واقعہ ہوا، جہاں  ہم نے پتھر سے ٹیک لگاکرآرام کیاتھاوہاں  مچھلی زندہ ہوکرسمندرمیں  چلی گئی تھی اوروہاں  اس نے دریامیں  بڑے عجب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنالیا تھا ،شیطان نے مجھے بھلادیااورمیں اس واقعہ کاآپ سے تذکرہ کرنابھول گیا،موسٰی نے فرمایا اللہ کے بندے ! جہاں  مچھلی زندہ ہوکرغائب ہوئی تھی وہی تو ہمارا مطلوبہ مقام تھاجس کی تلاش میں  ہم یہ سفرکررہے ہیں ، چنانچہ اپنے قدموں  کے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اوراسی مجمع البحرین پرواپس آ گئے تووہاں  اللہ کے بندوں  میں  سے ایک صالح بندہ خضرسے ملاقات ہوگئی جو کپڑا لپیٹے ہوئے لیٹے تھے ،جسے ہم نے اپنی رحمت خاص سے نوازاتھا اوراپنی طرف سے ایک خاص علم عطاکیاتھاجونبی تونہ تھے مگر  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنی خاص رحمت سے بعض تکوینی امورکاعلم خاص عطاکیا ہوا تھاجن کاعلم موسٰی کونہیں  تھااگرچہ موسیٰ   علیہ السلام بہت سے امورمیں  ان سے زیادہ علم رکھتے تھے خاص طورپرعلوم ایمانیہ اورعلوم اصولیہ،کیونکہ موسیٰ   علیہ السلام  اولوالعزم رسولوں  میں  سے تھے جن کواللہ تعالیٰ نے علم وعمل کے ذریعے سے تمام مخلوق پرفضیلت سے نوازاتھا۔

(قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ‎﴿٦٦﴾‏ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا ‎﴿٦٧﴾‏ وَكَیْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ‎﴿٦٨﴾‏ قَالَ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَكَ أَمْرًا ‎﴿٦٩﴾‏ قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِی فَلَا تَسْأَلْنِی عَن شَیْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ‎﴿٧٠﴾الکہف)
’’اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں ؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے، اس نے کہا آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکتےاور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ؟ موسٰی نے جواب دیا کہ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور کسی بات میں میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا ،اس نے کہا اچھا اگر آپ میرے ساتھ ہی چلنے پر اصرار کرتے ہیں تو یاد رہے کسی چیز کی نسبت مجھ سے کچھ نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکرہ نہ کروں ۔‘‘

موسٰی نے انہیں  سلام کیااورازراہ ادب ومشاورت انہیں  اپنا مقصدبیان کرتے ہوئے استدعا کی کہ کیامیں  آپ کے ساتھ رہ سکتاہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس علم ودانش کی تعلیم دیں  جو رب نے آپ کوسکھلائی ہوئی ہیں  تاکہ اس کے ذریعے سے میں  رشدوہدایت کی راہ پاسکوں  اوراس علم کے ذریعے سے تمام قضیوں  میں  حق کوپہچان سکوں ،خضر  علیہ السلام  نے فرمایا میں  ایساکرنے سے انکارنہیں  کرتامگر مجھے یقین ہے کہ رب نے مجھے جوعلم ودانش دیاہے اس کوسیکھنے کے لئے آپ میرے ساتھ صبرنہیں  کرسکیں  گے اورقرین قیاس بھی یہی ہے کہ جس چیزکی اصلیت کوآپ نہیں  جانتے اس کے متعلق ظاہراحوال پرکیونکرصبرکرسکیں گے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا سُمِّیَ الخَضِرَ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَیْضَاءَ، فَإِذَا هِیَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاانہیں  خضرکے نام سے اس لیے موسوم کیاگیاکہ وہ خشک گھاس پربیٹھےتووہ ان کے نیچے سبزرنگ میں  لہلہانے لگی تھی۔[29]

موسٰی نے پرعزم لہجے میں جواب دیاان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں  گے اورمیں  آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں  کروں  گا ،خضر  علیہ السلام  نے موسٰی سے کہااگرآپ طلب صادق سے میری اتباع کرنے پر اصرارکرتے ہیں  تومیں  آپ کو اپنے ہمراہ رکھنے پراس شرط پررکھنے کے لئے تیار ہوں  کہ آپ مجھ سے کسی چیزکی نسبت کوئی سوال نہیں  کریں  گے اورنہ میرے کسی فعل پرمجھ پرکوئی نکیرکریں  گے جب تک میں خودہی آپ کومناسب وقت پراس چیز کا تذکرہ نہ کردوں ۔

(‏ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِی السَّفِینَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا ‎﴿٧١﴾‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا ‎﴿٧٢﴾‏ قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ وَلَا تُرْهِقْنِی مِنْ أَمْرِی عُسْرًا ‎﴿٧٣﴾الکہف)
’’پھروہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئےتواس نے کشتی کے تختے توڑ دیئے، موسیٰ نے کہا کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں کہ کشتی والوں کو ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑی (خطرناک) بات کردی، اس نے جواب دیا میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا،موسٰی نے جواب دیا کہ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے اور مجھے اپنے کام میں تنگی نہ ڈالیے ۔‘‘

ان کے پاس سمندرمیں  سفرکرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہیں  تھا دونوں  سمندرکے کنارے کنارے روانہ ہوئے ،ایک کشتی وہاں  سے گزری اوران لوگوں  نے دونوں  کو کشتی پر سوار کر لیا ، جب کشتی کچھ ہی دورگئی تھی کہ خضر  علیہ السلام  اٹھے اور کشتی  کے پیندے میں  شگاف ڈال دیا،موسٰی یہ ماجرادیکھ کرحیران رہ گئے کہ جب ہم پیدل سفرکررہے تھے تو کشتی والوں  نے احسان کرکے ہمیں  کشتی میں  سوارکیا اورخضر  علیہ السلام  نے اسی کشتی میں  شگاف ڈال دیاہے جس سے تمام لوگ ڈوب جائیں  اسی حیرانی اوربے صبری میں  اپنے علم وفہم کے مطابق کشتی میں  شگاف کو ہولناک کام سمجھا اوراپنی شرط کوبھول کر پوچھایہ آپ نے کیاکیاکہ کشتی میں  شگاف ڈال دیاتاکہ تمام مسافرسمندرمیں غرق ہوجائیں  ،یہ آپ نے بہت برااورمکروہ کام سرانجام دیاہے ، خضر  علیہ السلام  نے انہیں  اپنی شرط یاددلاتے ہوئے کہامیں  نے آپ سے پہلے کہہ نہیں  دیاتھاکہ آپ میرے ساتھ صبرنہیں  کر سکیں  گے، موسٰی نے جواب دیامیری پہلی بھول پرمجھے نہ پکڑیئے میرے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں  سختی کانہیں  اور میرے کام کومشکل میں  نہ ڈالئے ، خضر   علیہ السلام  نے درگزرکردیااورتنبیہ کی کہ خبردارآئندہ ایسی بھول چوک نہ ہونے پائے،

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  وَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْیَانًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاموسیٰ  علیہ السلام نے پہلایہ اعتراض ازراہ نسیان کیاتھا۔[30]

(فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِیَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّكْرًا ‎﴿٧٤﴾‏ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا ‎﴿٧٥﴾‏ قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَیْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِی ۖ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّی عُذْرًا ‎﴿٧٦﴾‏ الکہف)
’’پھر دونوں چلےیہاں تک کہ ایک لڑکے کو پایااس نے اسے مار ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا ؟ بیشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، وہ کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکتے،موسٰی (علیہ السلام) نے جواب دیا اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، یقیناً آپ میری طرف سے (حد) عذر کو پہنچ چکے۔‘‘

اورپھردونوں  آگے بڑھتے رہے وہاں  انہوں  نے ایک چھوٹاسا لڑکادیکھاجودوسرے لڑکوں  کے ساتھ کھیل رہاتھا،

إِذْ أَبْصَرَ الخَضِرُ غُلاَمًا یَلْعَبُ مَعَ الغِلْمَانِ،فَأَخَذَ الخَضِرُ رَأْسَهُ بِیَدِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِیَدِهِ فَقَتَلَهُ

خضر علیہ السلام نے ایک لڑکادیکھاجودوسرے لڑکوں  کے ساتھ مل کرکھیل رہاتھا،خضر  علیہ السلام  نے اس لڑکے کے سرکوپکڑااوراسے ہاتھ سے کچل کرقتل کردیا۔[31]

موسٰی توہک دک رہ گئے کانپ اٹھے کہ شریعت میں  تواس کی کوئی گنجائش نہیں  اوریہ کام توکشتی میں  شگاف کر دینے سے زیادہ براہے، موسٰی پھراس وقعہ پرصبرنہ کرسکے اورحمیت دینی کے جوش میں سخت ناراضگی سے بولے آپ نے ایک بے قصور لڑکے کو بغیر کسی قصاص کے قتل کرڈالاہے بیشک یہ تو آپ نے بڑاہی ناپسندیدہ اورمنکر کام کیاہے، خضر  علیہ السلام  نے تنبیہ فرمائی کہ میں  نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبرنہیں  کرسکیں  گے موسٰی نے دل میں  سوچااللہ ہی نے مجھے ان کے پاس علم سیکھنے کے لئے بھیجاہے اب یہ جو بھی کام کریں  مجھے توان کی تابعداری کرنی چاہیے اس لئے بمنت وسماجت عرض کیا مجھے ایک موقعہ اورعنایت کردیں  اب اگرمیں  آپ  سے کسی چیزکے بارے میں  سوال کروں  توآپ کااختیار ہوگا کہ مجھے اپنی مصاحبت کے شرف سے محروم کردیں  مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا اس لئے کہ آپ کے پاس مجھے الگ کردینے کا معقول عذرہوگا خضر  علیہ السلام  خاموش ہوگئے،

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَهُ بَدَأَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْنَا وَعَلَى مُوسَى، لَوْ لَبِثَ مَعَ صَاحِبِهِ لَأَبْصَرَ الْعَجَبَ وَلَكِنَّهُ قَالَ: {إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِی قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّی عُذْرًا} [32]  مُثَقَّلَةً

ابی بن کعب سے مروی ہے   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی کاذکرکرتے ہوئے دعافرماتے تواپنے آپ سے دعاکاآغازفرماتے، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ کی ہم پر اورموسیٰ  علیہ السلام پررحمت ہو اگروہ اپنے ساتھی کے ساتھ کچھ عرصہ اوررہتے تویقینا ًعجیب وغریب باتیں  دیکھتے، لیکن انہوں  نے جلدی میں  کہہ دیا’’اگرمیں  اس کے بعدکوئی بات پوچھوں  تومجھے اپنے ساتھ نہ رکھناکہ تومیری طرف سے عذر(کے قبول کرنے میں  غایت)کوپہنچ گیا۔‘‘[33]

(فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَیَا أَهْلَ قَرْیَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن یُضَیِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِیهَا جِدَارًا یُرِیدُ أَن یَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْهِ أَجْرًا ‎﴿٧٧﴾‏ قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَیْنِی وَبَیْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِیلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَیْهِ صَبْرًا ‎﴿٧٨﴾‏ أَمَّا السَّفِینَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِینَ یَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِیبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ یَأْخُذُ كُلَّ سَفِینَةٍ غَصْبًا ‎﴿٧٩﴾‏ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِینَا أَن یُرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَكُفْرًا ‎﴿٨٠﴾‏ فَأَرَدْنَا أَن یُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ‎﴿٨١﴾‏ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن یَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَیَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِی ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَیْهِ صَبْرًا ‎﴿٨٢﴾‏الکہف)
’’ پھر دونوں چلے ایک گاؤں والوں کے پاس آکر ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے مہمانداری سے صاف انکار کردیا، دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا ہی چاہتی تھی اس نے اسے ٹھیک اور درست کردیا، موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے،اس نے کہا بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان، اب میں تجھے ان باتوں کی اصلیت بھی بتا دوں گاجس پر تجھ سے صبر نہ ہوسکا، کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا ارادہ کرلیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کرلیتا تھا، اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے، ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انھیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کر دےاس لیے ہم نے چاہا کہ انھیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عنایت فرمائے، دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے، ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں، میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا یہ تھی اصل حقیقت اور ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا ۔‘‘

اورپھردونوں  نے اپناسفرجاری کر دیااورایک گاؤ ں  میں  پہنچے اور ان سے مہمان کے طورپرٹھہرنے کی استدعاکی مگریہ توبخیلوں  کی بستی تھی انہوں  نے مہمانوں  کی مہمان نوازی سے انکار کردیا،حالانکہ مسافروں  کوکھاناکھلانااورمہمان نوازی و عزت وتکریم کرناہرشریعت کی اخلاقی تعلیم کا اہم حصہ رہاہے،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: لَا خَیْرَ فِیمَنْ لَا یُضِیفُ

عقبہ بن عامرسے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایامہمان نوازی نہ کرنے والے شخص میں  کوئی بھلائی نہیں ۔[34]

وہاں  انہوں  نے دیکھاکہ ایک دیوارہے جوجھک کربس گراہی چاہتی تھی

فَقَامَ الخَضِرُ فَأَقَامَهُ بِیَدِهِ

خضر  علیہ السلام  نے اس دیوارکوہاتھ لگایااور اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیوارکاخم ٹھیک ہوگیااور وہ سیدھی کھڑی ہوگئی ۔[35]

موسٰی جوپہلے ہی بستی والوں  کے رویہ سے کبیدہ خاطرتھے خضر  علیہ السلام  کے اس بلامعاوضہ احسان پر پھر خاموش نہ رہ سکے اور صبرنہ کرتے ہوئے بول پڑے کہ جب ان بستی والوں  نے ہماری مسافرت ،ضرورت مندی اور شرف وفضل کسی چیزکابھی لحاظ نہیں  کیاتویہ لوگ کب اس لائق ہیں  کہ ان کے ساتھ احسان کیاجائے اوربلااجرت ان کاکام کیاجائے خضر  علیہ السلام  نے کہاکہ موسٰی یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں  کرسکااوراب خودتیرے کہنے کے مطابق میں  تجھے اپنے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں  مگر جدائی سے قبل ان تینوں  واقعات کی حقیقت سے تمہیں  آگاہ اور باخبر کرنا ضروری سمجھتا ہوں  جن کے بارے میں  آپ نے مجھ پرنکیرکی اورآپ کوبتاؤ ں  کہ ان تمام کاموں  کے پیچھے کچھ مقاصدتھے جن پرمعاملہ مبنی تھا، فرمایاوہ کشتی دراصل چندمسکینوں  کی تھی جودریامیں  کام کاج کرکے اپنی روزی کماتے تھے اوریہ کشتی جوان کے روزی کمانے کا واحد ذریعہ تھی، ان کے آگے ایک ظالم بادشاہ (هُدَدُ بْنُ بُدَدَ) تھاجوہرایک صحیح وسالم کشتی کوجبرا ًضبط کر لیتا تھا اب جب وہ اس کشتی کوعیب داردیکھے گاتواسے چھوڑدے گااس طرح وہ کشتی اس ظالم کی دست بردسے بچ جائے گی اور وہ مسکین اب اپنی روزی کرتے رہیں  گے،اوروہ لڑکا(جَیْسُورٌ) جسے میں  نے قتل کیاتھااس کے ماں  اورباپ دونوں   اللہ کے نیک بندے تھے اوروہ لڑکا اس کی جبلت ہی کفرتھی مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں  یہ لڑکا بڑا ہوکروالدین کانافرمان ہوتااوراپنے کفروسرکشی میں  ان دونوں  کوبھی کفروسرکشی پرمجبورکرتااوروہ ایساکرنے پرمجبورہوجاتے اس لئے میں  نے اس کے والدین کے دین کی حفاظت کے لئے اس کوقتل کردیا،اب  اللہ  انہیں  اس لڑکے کے بدلہ میں  ایسالڑکاعنایت کرے گا جوپاکباز، پرہیزگار ہو گا اور قرابت داری کا پاس ولحاظ کرے گااوراب اس کے والدین ہمیشہ کے رنج وعذاب سے بچ گئے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْغُلَامَ الَّذِی قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا، وَلَوْ عَاشَ لَأَرْهَقَ أَبَوَیْهِ طُغْیَانًا وَكُفْرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے ابی بن کعب سے روایت کیاہےرسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لڑکا جس کو خضر علیہ السلام  نے قتل کیا تھاوہ کافر پیدا ہوا تھااور اگروہ زندہ رہتا تو یقینا ً اپنے والدین کوکفرو سرکشی میں  مبتلا کردیتا۔[36]

عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ ذَكَرَ الْغُلَامَ الَّذِی قَتَلَهُ الْخَضِرُ، فَقَالَ: قَدْ فَرِحَ بِهِ أَبَوَاهُ حِینَ وُلِدَ وَحُزْنًا عَلَیْهِ حِینَ قُتِلَ، وَلَوْ بَقِیَ كَانَ فِیهِ هَلَاكُهُمَا. فَلْیَرْضَ امْرُؤٌ بِقَضَاءِ اللَّهِ، فَإِنَّ قَضَاءَ اللَّهِ لِلْمُؤْمِنِ فِیمَا یَكْرَهُ خَیْرٌ لَهُ مِنْ قَضَائِهِ فِیمَا یُحِبُّ

قتادہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں  جب یہ لڑکاپیداہواتواس کے ماں  باپ بہت خوش ہوئے اورجب قتل ہواتوبہت غمگین ہوگئے تھے اگریہ لڑکازندہ رہتاتواس میں  اس کے والدین کی تباہی و ہلاکت تھی،لہذاہرانسان کواللہ تعالیٰ کی رضاپرراضی رہناچاہیے،  مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کاوہ فیصلہ جسے وہ ناپسندکرے اس فیصلے سے بہترہے جسے وہ پسندکرے۔[37]

( لَا یَقْضِی اللَّهُ) لِلْمُؤْمِنِ( مِنْ قَضَاءً)  إِلَّا كَانَ خَیْرًا لَهُ

اللہ تعالیٰ مومن کے لیے جوفیصلہ بھی فرمائے وہ اس کے لیے بہترہے۔[38]

اوروہ دیواراس شہرکے دوبہت چھوٹے یتیم بچوں  کی تھی جن کاباپ بہت نیک آدمی تھااس کے نیچے ان کامال دفن تھا رب نے ان کے باپ کی نیکی کی بناپر چاہاکہ وہ خزانہ محفوظ رہے اوردونوں  یتیم بچے بڑے ہوکراپنامدفون خزانہ حاصل کرلیں  گے، میں  نے یہ کام رب کی رحمت اوراس کے حکم سے سرانجام دیئے ہیں  ان تمام امورمیں  میری اپنی مرضی یاارادے کاکوئی عمل دخل نہیں  ہے،یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی جن پرآپ سے صبرنہ ہوسکا،اس واقعہ میں  بھی اہل ایمان کویہی سبق دیاگیاکہ اللہ کی مشیت کاتمہیں  علم نہیں  ہے،اللہ کے ہرکام میں  کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں  ہوتی ہے ،آج یہ لوگ تمہیں  اپنی مشرکانہ ملت پرواپس لانے کے لئے تم پرظلم وستم کے پہاڑتوڑرہے ہیں ،اللہ چاہے تو فوراًان پرگرفت کرلے اورانہیں  مٹادے مگراللہ جانتاہے یہ جوکچھ بھی کررہے ہیں  اس کانتیجہ ان کے خلاف ہی نکلے گا،اس لئے ابھی صبروشکرسے ان کے ہرحربے کوبرداشت کرو۔

وَیَسْأَلُونَكَ عَن ذِی الْقَرْنَیْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَیْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا ‎﴿٨٣﴾‏إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِی الْأَرْضِ وَآتَیْنَاهُ مِن كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا ‎﴿٨٤﴾‏ فَأَتْبَعَ سَبَبًا ‎﴿٨٥﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِی عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا یَا ذَا الْقَرْنَیْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِیهِمْ حُسْنًا ‎﴿٨٦﴾‏ قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ یُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِ فَیُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا ‎﴿٨٧﴾‏ وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًا ‎﴿٨٨﴾ا (لکہف)
’’آپ سے ذوالقر نین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں، ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے سامان بھی عنایت کردیے تھے وہ ایک راہ کے پیچھے لگا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو پایا ہم نے فرمایادیا کہ اے ذوالقرنین ! یا تو انھیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے، اس نے کہا جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت تر عذاب دے گا ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لیے تو بدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی کا حکم دیں گے ۔‘‘

قصہ ذوالقرنین:

ذوالقرنین کے لفظی معنی دوسینگوں  والے ،یادولٹوں  یادومینڈھیوں  والاکے ہیں ،قدیم مفسرین نے بالعموم اس کامصداق سکندررومی کوقراردیاہے جس کی فتوحات کادائرہ مشرق ومغرب تک پھیلاہواتھا،لیکن جدیدمفسرین جدیدتاریخی معلومات کی روشنی میں  اس سے اتفاق نہیں  کرتے،کیونکہ

x  اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایساحکمران تھاجس کواللہ تعالیٰ نے اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازاتھا۔

x  وہ عادل وانصاف اورفیاضی کے اصولوں  پرعامل حکمران تھا۔

x  وہ اللہ تعالیٰ کوماننے والااورآخرت پرایمان رکھنے والاشخص تھا۔

x  وہ نفس پرست اورمال ودولت کاحریص نہیں  تھا۔

x  وہ مشرقی اورمغربی ممالک کوفتح کرتاہواایک ایسے پہاڑی درے پرپہنچاجس کی دوسری طرف یاجوج اورماجوج تھے۔

x  اس نے یاجوج ماجوج کاراستہ بندکرنے کے لئے وہاں  ایک نہایت محکم بندتعمیرکیا۔

ان تمام خصوصیات کاحامل صرف فارس کاوہ عظیم حکمران تھاجسے یونانی سائرس،عبرانی خورس اورعرب کحیزوکے نام سے پکارتے ہیں ،۱۸۳۸ء میں  سائرس کے ایک مجسمے کابھی انکشاف ہواجس میں  سائرس کاجسم اس طرح دکھایاگیاہے کہ اس کے دونوں  طرف عقاب کی طرح پرنکلے ہوئے ہیں  اورسرپرمینڈھے کی طرح دوسینگ ہیں ۔

ذوالقرنین کواللہ تعالیٰ نے بادشاہت عنایت کررکھی تھی اوراس سلطنت کومستحکم کرنے کے لئے ہرطرح کے دنیاوی سازوسامان اوروسائل یعنی قوت لشکر،آلات حرب وغیرہ مہیاکیے تھے ،اللہ تعالیٰ کے عطاکیے ہوئے وسائل کواس نے مزیدترقی دی اوران وسائل واسباب کوبروے کارلاکربڑی فتوحات حاصل کیں ،دشمنوں  کاغرورخاک میں  ملادیا اور ظالم،سرکش اورکافر حکمرانوں  کونیست ونابودکردیا۔

مغرب کی طرف مہم:

اوریہودی ذوالقرنین کے بارے میں  پوچھتے ہیں ، میں  تمہیں  اس کاکچھ حال جس میں  نہایت مفیدمگرتعجب انگیزخبر،نصیحت اورعبرت ہے بتاتاہوں ،اللہ تعالیٰ نے اسے وہ تمام اسباب و وسائل مہیاکئے جن کے ذریعہ سے وہ ہراس جگہ پہنچاجہاں  وہ پہنچناچاہتاتھا،ان اسباب ووسائل کے زریعہ سے اس نے بادشاہوں  کوشکست دے کر شہروں  اورعلاقوں  پرغلبہ حاصل کیااورنہایت سہولت کے ساتھ دوردرازعلاقوں  تک پہنچ گیا،اس کے پاس ایک عظیم فوج تیارہوگئی جواپنی عددی قوت ،سامان حرب اورنظم کے اعتبارسے ایک بہت بڑی فوج تھی ،اس فوج کی مددسے اس نے اپنے دشمنوں  پرغلبہ حاصل کیااورزمین کے مشرق ومغرب اوراس کے دوردرازگوشوں  تک پہنچنے کی سہولت حاصل ہوئی ،ایک مرتبہ اس نے اپنے ملک کے مغرب کی طرف ایک مہم کاسروسامان کیاجب وہ ملک پرملک فتح کرتاہوامغرب کی انتہائی سرحدتک جہاں  آخری آبادی تھی پہنچ گیاتووہاں  جھیل یاخلیج جونیچے سے سیاہ معلوم ہوتی تھی تو ایسا محسوس ہواکہ گویاسورج جھیل یاخلیج کے سیاہی مائل گدلے پانی میں  ڈوب رہاہے جیسے ڈوبتے شمس کانظارہ کرنے والوں  کوایساہی محسوس ہوتاہے کہ سورج سمندرمیں  یازمین میں  ڈوب رہاہے حالاں  کہ وہ اپنے مقام آسمان پرہی ہوتاہے ،وہاں  اس نے ایک کفاریافساق قوم کوپایا،یاان میں  کچھ کفراورفسق موجودتھاجوبات اس کے بس میں  تھی ، ان لوگوں  کی لاچارگی دیکھ کراس کے ضمیرنے کہااے ذوالقرنین !یہ قوم بے بس ولاچارہوکراب تیرے اختیارہے توظلم کرناچاہے توکر سکتاہے پھر توانہیں  موت کے گھات اتار دے ،اوراگرشرافت اوراحسان کاسلوک کرناچاہے تویہ بھی تیرے اختیارمیں  ہے توانہیں غلام بنالے یاپھرفدیہ لے کریابغیرفدیہ بطوراحسان چھوڑ دے ، ذوالقرنین نے عدل وایمان کاثبوت دیااور دوسرا راستہ اختیارکیااور سرکاری سرکلرجاری کیاکہ ہم تمہاری پچھلی غلطیوں  پرمواخذہ نہیں  کریں  گے،اس کا معاملہ رب کے اختیارمیں  ہے کہ وہ چاہے توتمہیں معاف فرما دے یا سزا دے ،ہاں  اب بھی جواپنے کفروشرک پرجمارہے گااورتوحیدکی راہ اختیارنہیں  کرے گااسے ہم ضرور بدترین سزادیں  گے ،اورپھرجب وہ لوگ موت کے بعددوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضورپیش ہوں  گے تووہ انہیں  غیض وغضب سے دہکتی جہنم میں  پھینک دے گاجس میں  وہ نہ جی سکے گااورنہ ہی اسے موت آئے گی اورجولوگ کفروشرک سے تائب ہوکر رب پرایمان لے آئیں  اوراس کے احکامات اور فرامین کے مطابق عمل صالحہ کریں  تواللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں  انہیں  بہترین اجردے گا اورساتھ ہم بھی ایمان لانے کے سبب اسکی عزت افزائی کریں  گے اور خراج وغیرہ میں  تخفیف کریں  گے۔

(ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ‎﴿٨٩﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا ‎﴿٩٠﴾‏ كَذَٰلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَیْهِ خُبْرًا ‎﴿٩١﴾‏ ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ‎﴿٩٢﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا یَكَادُونَ یَفْقَهُونَ قَوْلًا ‎﴿٩٣﴾‏ قَالُوا یَا ذَا الْقَرْنَیْنِ إِنَّ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ سَدًّا ‎﴿٩٤﴾‏ قَالَ مَا مَكَّنِّی فِیهِ رَبِّی خَیْرٌ فَأَعِینُونِی بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُمْ رَدْمًا ‎﴿٩٥﴾‏ آتُونِی زُبَرَ الْحَدِیدِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا سَاوَىٰ بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انفُخُوا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِی أُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًا ‎﴿٩٦﴾‏ فَمَا اسْطَاعُوا أَن یَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا ‎﴿٩٧﴾قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّی ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّی جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّی حَقًّا ‎﴿٩٨﴾‏ (لکہف)
’’پھر وہ اور راہ کے پیچھے لگا یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لیے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی  واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے، وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی انہوں نے کہا اے ذوالقر نین ! یاجوج ماجوج اس ملک میں (بڑے بھاری) فسادی ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ خرچ کا انتظام کردیں ؟ (اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں،اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو، میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنا دیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لا دو، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کردی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کردیا تو فرمایا میرے پاس لاؤ اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں، پس تو ان میں اس کے دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں کوئی سوراخ کرسکتے تھے،کہا یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گابیشک میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔‘‘

مشرق کی طرف مہم:

پھرذوالقرنین نے ایک دوسری مہم کی تیاری کی یہاں  تک کہ وہ فتوحات کرتے کرتے مغرب سے مشرق کی انتہائی سرحدتک جہاں  مہذب دنیاکی سرحد ختم ہو گئی تھی پہنچ گیاجہاں  اس نے ایسی وحشی قوم کو دیکھاجوسرخ رنگت اورپست قدتھے ،اورجن کے جسم ڈھانکنے کے بجائے کپڑوں  سے آزادتھے، جن کے پاس سورج کی تپش سے بچنے کے لئے ان کے پاس کوئی وسائل نہ تھے یاتواس بناپرکہ وہ مکان بنانے کی استعدادنہیں  رکھتے تھے یاپھریکسروحشی اورغیرمتمدن تھے ،یااس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس سورج غروب نہیں  ہوتاتھاہمیشہ نظرآتارہتاتھاجیساکہ جنوبی افریقہ کے مشرقی حصوں  میں  ہوتاہے ،اورسورج ان کے ننگے جسموں  پرطلوع ہوتاتھا،

وَقَالَ قَتَادَةُ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُمْ بِأَرْضٍ لَا تُنْبِتُ لَهُمْ شَیْئًا فَهُمْ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ دَخَلُوا فِی أَسْرَابٍ  حَتَّى إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ خَرَجُوا إِلَى حُرُوثِهِمْ وَمَعَایِشِهِمْ

قتادہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں  ہم سے ذکرکیاگیاہے کہ وہ لوگ ایک ایسی زمین میں  تھے جہاں  کچھ نہیں  اگتاتھاجب سورج طلوع ہوتاتووہ سرنگوں  میں  داخل ہوجاتے اورجب سورج غروب ہوجاتاتووہ سرنگوں  سے باہرآکراپنے کام کاج میں  مشغول ہوجاتے تھے۔[39]

اللہ تعالیٰ کو ذوالقرنین کی تمام صلاحیتوں  ، اسباب ووسائل اوردیگرتمام باتوں  کاپوراعلم تھا،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَخْفٰى عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۵ۭ [40]

ترجمہ:زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔

یاجوج وماجوج :

پھرذوالقرنین نے ایک اورمہم کاسامان کیااورمشرق سے شمال کی طرف روانہ ہوایہاں  تک کہ وہ دو مشہورومعروف پہاڑوں  (کاکیشیاکے پہاڑی سلسلے جو بحر کیسپین اوربحراسود کے درمیان واقع ہیں )کے درمیان پہنچاجوایک دوسرے کے مقابل تھے اوران کے درمیان کھائی تھی ،یہ دونوں  پہاڑیاجوج وماجوج اورلوگوں  کے درمیان رکاوٹ تھے وہاں  انہوں  نے ایسی سخت وحشی قوم پائی جودنیاکے دیگرلوگوں  سے دوری اوراپنی اجنبی زبان اوراذہان وقلوب میں  ابہام ہونے کی وجہ سے کوئی بات سمجھنے سے قاصر تھی ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذوالقرنین کوایسے علمی اسباب مہیاکررکھے تھے جن کی بناپروہ اس اجنبی قوم کی زبان سمجھ سکتاتھاان سے بات چیت کرسکتاتھااوروہ اس سے بات کرسکتے تھے ،اس قوم نے ذوالقرنین کی قوت وطاقت ،عقل وہنرکودیکھ کردرخواست کی ،اے ذوالقرنین !یاجوج وماجوج دومفسدقومیں  ہیں  جواس ملک میں  اکثروبیشتر قتل وغارت اور لوٹ مارکے ذریعے زمین میں  فسادپھیلاتے ہیں  (یاجوج ماجوج سے مرادایشیاکے شمال مشرقی علاقے کی وہ قومیں  ہیں  جوقدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں  اورجن کے سبب وفتاًفوقتاًاٹھ کرایشااوریورپ دونوں  طرف رخ کرتے رہے ہیں )توکیاہم تجھے اس کام کے لئے کچھ محصول یعنی خراج مہیاکر دیں  کہ توہمارے اوران کے درمیان ایک مضبوط بندتعمیرکردے(یعنی وہ خوددیواربنانے کی قدرت نہیں  رکھتے تھے) ذوالقرنین جونہ تو لالچی تھا،نہ ہی اسے دنیاکی کوئی رغبت تھی اورنہ وہ رعایا کی اصلاح احوال کے لئے کوشش ترک کرنے والاتھابلکہ اس کامقصدتومحض اصلاح تھا اس نے بغیرکسی اجرت ان لوگوں کامطالبہ مان لیااور کہامجھے تمہارے مال ودولت کی ضرورت نہیں  ،میرے رب نے مجھے جس بادشاہت واقتدارسے سرفرازکر رکھاہے وہ میرے لئے کافی ہےاورتمہارے مال سے بہترہے ، سلیمان  علیہ السلام نے بھی ملکہ سباکے ایلچی کوکہی بات فرمائی تھی۔

فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ۝۰ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللہُ خَیْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ۝۳۶ [41]

ترجمہ:جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمان  علیہ السلام  کے ہاں  پہنچا تو اس نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں  دیا ہے تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے۔

دیوارکی تعمیر:

میں  تمہارے اوریاجوج ماجوج کے درمیان ایک مضبوط موٹی دیوارتعمیرکردیتاہوں  جسے عبورکرکے وہ تم پرحملہ آورنہیں  ہوسکیں  گے ،تم بس افرادی قوت اورآلات تعمیر کے ذریعے سے میری مددکرو،تم مجھے لوہے کے ٹکڑے لادو،چنانچہ جب یہ ٹکڑے مہیاہوگئے توذوالقرنین نے لوہے کی ان چھوٹی چھوٹی چادروں  سے دونوں  پہاڑوں  کے درمیان خلاکوجو پچاس میل لمباتھاپاٹ دیا،دیوارکی بلندی دوسونوےفٹ اورچوڑائی دس فٹ رکھی اورلوگوں  سے کہاکہ اب بڑی بڑی دھونکنیاں  استعمال کرکے تیزآگ دہکاؤ ، ان لوگوں  نے حکم کی تعمیل میں  آگ دہکانی شروع کردی تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں  کوبالکل سرخ انگارے کی طرح کردیاتوحکم دیااب میرے پاس پگھلاہواسیسہ یا تانبا لاؤ  تاکہ میں  اسے گرم لوہے پرڈال دوں  چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی جس سے وہ پہاڑی درہ یاراستہ ایسامضبوط ہوگیاکہ اسے عبورکرکے یاتوڑکریاجوج ماجوج کا ادھر دوسری انسانی آبادیوں  میں  آناناممکن ہوگیا،

عَنْ زَیْنَبَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتِ: اسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمٍ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ وَهُوَ یَقُولُ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدْ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ (وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِی تَلِیهَا) قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ

ام المومنین زینب بنت جحش سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نیندسے بیدارہوئے تورخ انورسرخ تھااورآپ فرمارہے تھے  اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ، عربوں  کے لیے خرابی ہے اس شرکی وجہ سے جوقریب آچکاہے،آج دیواریاجوج وماجوج میں  اتناسوراخ کردیاگیاہے ،یہ فرماتے ہوئے آپ نے انگوٹھے اوراس کے ساتھ والی انگلی کاحلقہ بنایا،میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم ہلاک ہوجائیں  گے جبکہ ہم میں  نیک لوگ بھی ہوں  گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں ،جب برائی کی کثرت ہوجائے گی۔[42]

جب ذوالقرنین اس جلیل القدرکام سے فارغ ہواتو متکبر لوگوں  کی طرح اس کی گردن اکڑنہیں  گئی بلکہ اس نے انکساری سے سرجھکاکر کہایہ میرے رب کی رحمت اورفضل و احسان ہے کہ اس نے مجھے ایساکام کرنے کی توفیق عطافرمائی ، اگرچہ دیواربڑی مضبوط بنادی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کریااس میں  سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں  ہے لیکن جب میرے رب کاوعدہ آجائے گایعنی قرب قیامت آجائے گی اوریاجوج ماجوج کاظہورہوگاتوگویہ مضبوط اورمستحکم دیوارہے تاہم کچھ ایسی نہیں  کہ قدرتی حملوں  کوروک سکے ،پس جب میرے پروردگارکاحکم آجائے گا تو وہ اس دیوارکو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابرکردیں  گے،اورمیرے پروردگار کا حکم بیشک ہوکررہے گا ، جیسے فرمایا

حَتّٰٓی  اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۝۹۶وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا ہِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ۝۹۷ [43]

ترجمہ:یہاں  تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں  گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں  گے اور وعدہ بر حق کے پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا تو یکایک ان لوگوں  کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں  گے جنہوں  نے کفر کیا تھا کہیں  گے ہائے ہماری کم بختی!ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں  پڑے ہوئے تھےبلکہ ہم خطا کار تھے ۔

عَنْ حَدِیثِ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی السَّدِّ قَالَ: یَحْفِرُونَهُ كُلَّ یَوْمٍ، حَتَّى إِذَا كَادُوا یَخْرِقُونَهُ قَالَ الَّذِی عَلَیْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا، فَیُعِیدُهُ اللَّهُ كَأَشَدِّ مَا كَانَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مُدَّتَهُمْ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ یَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ. قَالَ الَّذِی عَلَیْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَاسْتَثْنَى، قَالَ: فَیَرْجِعُونَ فَیَجِدُونَهُ كَهَیْئَتِهِ حِینَ تَرَكُوهُ فَیَخْرِقُونَهُ، فَیَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ،فَیَعُمُّونَ الْأَرْضَ فَیَسْتَقُونَ الْمِیَاهَ،حَتَّى مَا یَذَرُونَ فِیهِ شَیْئًا، وَیَنْحَازُ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، حَتَّى تَصِیرَ بَقِیَّةُ الْمُسْلِمِینَ فِی مَدَائِنِهِمْ وَحُصُونِهِمْ، وَیَضُمُّونَ إِلَیْهِمْ مَوَاشِیَهُمْ، وَیَظْهَرُونَ عَلَى الْأَرْضِ فَیَقُولُ قَائِلُهُمْ: هَؤُلَاءِ أَهْلُ الْأَرْضِ، قَدْ فَرَغْنَا مِنْهُمْ، وَلَنُنَازِلَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ  ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَهُمْ لَیَهُزُّ حَرْبَتَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدَّمِ، فَیَقُولُونَ: قَدْ قَتَلْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،فَیَبْعَثُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ نَغَفًا فِی أَقْفَائِهِمْ فَیَهْلِكُونَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یاجوج ماجوج ہرروزاس دیوارکوکھودتے ہیں  اورقریب ہوتاہے کہ سورج کی شعاعیں  ان کو نظر آ جائیں کہ دن گزر جاتا ہےان کاجوحاکم ہوتاہے وہ کہتاہے چلواس دیوارکوکل گرادیں  گے لیکن جب وہ دوسرے دن کام پرآتے ہیں  تودیوارکوپہلے دن سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں ، لیکن قیامت کے قریب جب اللہ کی مشیت ان کے خروج کی ہوگی توپھروہ کہیں  گے کل ان شاء اللہ اس کوکھودیں  گے،پس ان شاء اللہ کہنے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ کام پر آئیں  گے تودیوارکوایسے پائیں  گے جیسے چھوڑ کر گئے تھے تواسے فوراًگرادیں  گے اور اس سے نکلنے میں  کامیاب ہوجائیں  گے،یہ مفسدین ساری زمین پرپھیل جائیں  گے (ہر بلندی اور پستی پرمتصرف اورقابض ہوجائیں  گے)اورتمام دریاؤ ں  کا پانی پی جائیں  گے یہاں  تک کہ ایک قطرہ پانی کانہ رہے گا جومسلمان باقی ہوں  گے وہ تنگ آکر قلعوں  میں  پناہ گزین ہوجائیں  گے اوراپنے چرنے والے جانوربھی ساتھ لے جائیں  گے،وہ زمین پرغالب ہوجائیں  گے یہاں  تک کہ ان میں  سے ایک کہے گااب زمین والوں  سے توہم فارغ ہوئے (ہماراکوئی مدمقابل نہ رہا)اب ہم آسمان والوں  سے لڑیں  گےآخران میں  سے ایک اپناتیر آسمانوں  کی طرف تیرپھینکیے گا جوخون آلودہوکرلوٹے گا  یہ دیکھ کروہ کہیں  گے ہم نے آسمان والوں  کوبھی مارڈالا،بالآخراللہ تعالیٰ ان کی گدیوں  پرایساکیڑاپیدافرمادے گاجس سے ان کی ہلاکت واقع ہوجائے گی۔ [44]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: یَا آدَمُ، فَیَقُولُ: لَبَّیْكَ وَسَعْدَیْكَ، وَالخَیْرُ فِی یَدَیْكَ، فَیَقُولُ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ، قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟، قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِینَ، فَعِنْدَهُ یَشِیبُ الصَّغِیرُ، وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى، وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِیدٌ  قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَیُّنَا ذَلِكَ الوَاحِدُ؟ قَالَ:أَبْشِرُوا، فَإِنَّ مِنْكُمْ رَجُلًا وَمِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفًا. ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنِّی أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ “ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ:أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ:أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ:مَا أَنْتُمْ فِی النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِی جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْیَضَ، أَوْ كَشَعَرَةٍ بَیْضَاءَ فِی جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روزاللہ تعالیٰ فرمائے گااے آدم! آدم  علیہ السلام  عرض کریں  گے میں  اطاعت کے لیے حاضرہوں ،مستعدہوں  ساری بھلائیاں  صرف تیرے ہی ہاتھ میں  ہیں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا  جہنم میں  جانے والوں  کو(لوگوں  میں  سے الگ)نکال لو آدم  علیہ السلام  عرض کریں  گے اے اللہ!جہنمیوں  کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا  ہر ایک ہزارمیں  سے نوسوننانوے’’اس وقت (کی ہولناکی اوروحشت سے) بچے بوڑھے ہو جائیں  گے اورہرحاملہ عورت اپناحمل گرادے گی، اس وقت تم (خوف ودہشت سے)لوگوں  کومدہوشی کے عالم میں  دیکھوگے حالانکہ وہ بے ہوش نہ ہوں  گے لیکن اللہ کاعذاب بڑاہی سخت ہوگا۔‘‘صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ ایک شخص ہم میں  سے کون ہوگا؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش ہوجاؤ کہ ایک آدمی تم میں  سے ہوگااور ایک ہزاردوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں  گے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے مجھے امیدہے کہ تم(امت مسلمہ)تمام جنت والوں  کے ایک چوتھائی ہوگے ہم نے اللہ اکبرکہا، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے امیدہے کہ تم تمام جنت والوں  کے ایک تہائی ہوگے، ہم نے اللہ اکبرکہا، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے امیدہے کہ تم تمام جنت والوں  کے نصف کے برابرہوگے، ہم نے اللہ اکبرکہا، پھرفرمایا(محشرمیں )تم لوگ تمام انسانوں  کے مقابلے میں  اتنے ہوگے جتنے کسی سفیدبیل کے جسم پرایک سیاہ بال یاجتنے کسی سیاہ بیل کے جسم میں  ایک سفیدبال ہوتا ہے۔[45]

اس حدیث سے امت محمدیہ کابکثرت جنتی ہوناثابت ہوامگرجولوگ کلمہ اسلام پڑھنے کے باوجودقبروں  کی پوجاپاٹ میں  مشغول ہیں  وہ کبھی جنت میں  نہیں  جائیں  گے اس لیے کہ وہ مشرک ہیں  اورمشرکوں  کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کوقطعاًحرام قراردیا ہے جیسے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۴۸ [46]

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو  معاف نہیں  کرتا اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔

اس واقعہ میں  بھی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کویہی سبق دیاکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ ہردورمیں  مجبوروبے بس لاچارانسانوں  کو ظالم وجابرلوگوں  سے بچانے کے لئے انسانوں  کوکھڑاکرتارہتاہے ،اوروہ ان لوگوں  کے خلاف تمہاری مددبھی کرے گا۔

(وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَمُوجُ فِی بَعْضٍ ۖ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا ‎﴿٩٩﴾‏ وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِینَ عَرْضًا ‎﴿١٠٠﴾‏ الَّذِینَ كَانَتْ أَعْیُنُهُمْ فِی غِطَاءٍ عَن ذِكْرِی وَكَانُوا لَا یَسْتَطِیعُونَ سَمْعًا ‎﴿١٠١﴾‏ أَفَحَسِبَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَن یَتَّخِذُوا عِبَادِی مِن دُونِی أَوْلِیَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِینَ نُزُلًا ‎﴿١٠٢﴾الکہف)
’’اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کرکے ہم جمع کرلیں گے، اس دن ہم جہنم (بھی) کافروں کے سامنے لا کھڑا کردیں گے جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور (امر حق) سن بھی نہیں سکتے تھے،کیا کافر یہ خیال کئے بیٹھے ہیں ؟ کہ میرے سوا وہ میرے بندوں کو اپنا حمایتی بنالیں گے ؟ (سنو) ہم نے تو ان کفار کی مہمانی کے لیے جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔‘‘

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الصُّورُ قَرْنٌ یُنْفَخُ فِیهِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاصورایک سینگ ہے جس میں  پھونکاجائے گا۔[47]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِی سَعِیدٍ مَرْفُوعًا:كَیْفَ أَنْعَمُ، وَصَاحِبُ القَرْن قَدِ الْتَقَمَ القَرْن، وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَاسْتَمَعَ مَتَى یُؤْمَرُ قَالُوا: كَیْفَ نَقُولُ؟ قَالَ: قُولُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِیلُ، عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  اورابوسعیدسے مرفوع روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  کیسے خوش رہوں  جبکہ سینگ والے فرشتے نے سینگ کومنہ سے تھام لیاہے اوراپنی پیشانی کوجھکادیاہے اورسننے کے لیے تیارہے کہ اسے کب پھونکنے کاحکم دیاجاتاہے، صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! (اس حالت میں )آپ کیاارشادفرماتے ہیں  ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم یہ کہو’’ہمیں  اللہ ہی کافی ہے اوروہ بہت اچھاکارسازہے ہم نے اللہ ہی پرتوکل کیا۔‘‘[48]

اس روزہم سب اگلے پچھلے انسانوں  کوان کی قبروں  سے زندہ کرکے حساب کے لیے ایک ساتھ میدان محشرمیں  جمع کریں  گے،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ  اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [49]

ترجمہ:اے نبی!ان سے کہویقیناًاگلے اورپچھلے سب ایک دن ضرورجمع کیے جانے والے ہیں  جس کاوقت مقررکیاجاچکاہے۔

اورسب انسان ایک دوسرے سے غلط ملط ہوجائیں  گے ، وہ دن ہوگاجب ہم دردناک عذابوں  سے بھری جہنم کومیدان محشر میں  کافروں  کے سامنے لائیں  گے تاکہ اس کے عذاب اورسزاؤ ں  کودیکھ لیں  ،جیسے فرمایا

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ۝۹۱ۙ [50]

ترجمہ: اور دوزخ گمراہوں  کے سامنے لائی جائے گی۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَجُرُّونَهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجہنم کوقیامت کے دن ستر ہزار لگاموں  میں  کس کر(میدان محشرمیں  )لایاجائے گا اورہرایک لگام کوسترستر ہزار فرشتے کھینچتے ہوں  گے۔[51]

ان کافروں  کے سامنے جودنیامیں  ذکرحکیم اورقرآن کریم سے روگردانی کیا کرتے تھے اورحق بات سننے کے لیے تیارہی نہ تھے بلکہ اہل حق کوگمراہ کہتے ،ان کامذاق اڑاتے ہوئے کہاکرتے تھے۔

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْهِ وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ۝۵ [52]

ترجمہ:کہتے ہیں  جس چیز کی طرف توہمیں  بلارہاہے اس کے لیے ہمارے دلوں  پرغلاف چڑھے ہوئے ہیں  ،ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں  اورہمارے اورتیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے تواپناکام کرہم اپناکام کیے جائیں  گے۔

اللہ تعالیٰ نے استفہام اورانکارکے پیرائے میں ،جس سے مشرکین کے عقیدے کاعقلی طورپربطلان ظاہر ہوتاہے فرمایاتوکیایہ لوگ جنہوں  نے کفراختیارکیاہے یہ خیال رکھتے ہیں  کہ مجھے چھوڑکرمیرے بندوں  کواپناکارسازبنالیں  ؟یعنی ایسانہیں  ہوسکتااورکوئی ولی اللہ ،اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کواپنادوست نہیں  بناسکتا،جیسےفرمایا

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۴۰قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ۔۔۔۝۰۝۴۱ [53]

ترجمہ:اورجس دن وہ تمام انسانوں  کوجمع کرے گاپھرفرشتوں  سے پوچھے گاکیایہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیاکرتے تھے ؟تووہ جواب دیں  گے کہ پاک ہے آپ کی ذات ، ہمارا تعلق توآپ سے ہے نہ ان لوگوں  سے۔

ایسے کافروں  کے لیے ہم نے جہنم کا دردناک عذاب تیار کررکھاہے،جس میں  جانے کووہ بندے نہیں  روک سکیں  گے جن کی یہ عبادت کرتے ہیں  اوران کواپنا حمایتی سمجھتے ہیں  بلکہ ان کے مخالف بن جائیں  گے،جیسے فرمایا

كَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [54]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں  گےاور الٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے۔

جہنم میں  انکی کھولتے ہوئے پانی اورتھور سے ضیافت کی جائے گی، پس کیابدترین قیام گاہ ان کامسکن ہے اور کیا بدترین جہنم ان کی مہمانی ہے۔

(قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِینَ أَعْمَالًا ‎﴿١٠٣﴾‏ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا ‎﴿١٠٤﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا ‎﴿١٠٥﴾‏ ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَرُسُلِی هُزُوًا ‎﴿١٠٦﴾‏الکہف)
’’کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتادوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ وہ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیااس لیے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے، حال یہ ہے کہ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑا یا۔‘‘

قیامت کامنظر:

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ جوآج چندٹکوں  اورمعمولی سی حیثیت پراچھل رہے ہیں  ،دعوت حق کوقبول کرنے کے بجائے اس کاراستہ روکنے کی ہرممکن جدوجہدکررہے ہیں ، ہرسو پھیلے ہوئے اللہ کی توحیدکے دلائل کاانکارکرتے ہیں ،اللہ کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں  کامقابلہ کرتے اوران کی تعلیمات کامذاق اڑاتے ہیں ، انہیں  جانوروں  کی طرح اچھلنے کودنے دیں ،جس طرح جانورکوعلم نہیں  ہوتاکہ چندلمحوں  بعداس کے گلے پرچھری آنے والی ہے اوروہ اپنی جگہ پراچھل رہاہوتاہے یہ بھی اسی کی طرح اچھل کود کر رہے ہیں  ،ان کوبھی علم نہیں  کہ عنقریب ان کے ساتھ کیاسلوک کیاجانے والاہے، ہم آپ کوبتاتے ہیں  کہ آخرت میں  ناکام ونامرادلوگ کون ہوں  گے ،کن کی تجارت میں  خسارہ ہے اوراس دنیاکی منڈی میں  اپنامال واسباب ضائع کرکے خالی ہاتھ کون جائیں  گے ،سنویہ وہ لوگ ہوں  گے جن کے سامنے اللہ کی الوہیت وربوبیت اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے تمام تردلائل وبراہین تھے لیکن انہوں  نے فخروغرور،ہٹ دھرمی اورباطل معبودوں  کی محبت میں  انہیں  تسلیم نہ کیاہوگا،یہ وہ لوگ ہوں  گے جنہوں  نے اس فانی دنیا کو ہی اصل زندگی سمجھ کرآخرت کے قول وفعل سے انکارکیاہوگا،یہ وہ لوگ ہوں  گے جن کی ساری سعی اورجدوجہددنیاکی زندگی ہی میں  گم ہو کر رہ گئی ہوگی ،یعنی انہوں  نے جوبھی اعمال کیے ہوں  گے اللہ تعالیٰ سے بے نیازاورآخرت سے بے فکرہوکر صرف دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لئے کیے ہوں  گے اورسمجھتے ہوں  گے کہ ہم بہت نیکیاں  کررہے ہیں  حالانکہ ان کی نیکیوں  کاپلڑاخالی ہوگا ،یہ وہ لوگ ہوں  گے جنہوں  نے اپنی آخروی زندگی کے حقیقی وابدی گھرکوبھول کردنیاکی کامیابیوں  اورخوشحالیوں  ہی کواپنی منزل ومقصود بنایا ہوگااورانہیں  حاصل کرنے کے لئے ہرجائز و ناجائزذرائع استعمال کیے ہوں  گے،یہ وہ لوگ ہوں  گے جواللہ تعالیٰ کی مقدس ہستی اوراس کی قدرتوں  کے اگر کچھ قائل ہوئے بھی ہوں  گے تواس بات کی کبھی فکرنہ کی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جوہماراخالق وپروردگارہے کی رضاوخوشنودی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے،یہ وہ لوگ ہوں  گے جو لوگوں  کو محض دھوکا دینے کے لئے اپنی زبان سے تواقرارکریں  گے کہ ہمیں  اللہ کی بارگاہ میں  جا کر اپنے اعمال کاحساب بھی دیناہے مگران کے اعمال،کرتوت ان کی زبان کی نفی کریں  گے ،یہ وہ لوگ ہوں  گے جو خود کومحض ایک خودمختاروغیرذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے ہوں  گے جس کے لئے دنیاکی اس چراگاہ سے تمتع کے سوااورکوئی کام نہیں  ہے، ایسے لوگوں نے دنیاوی زندگی میں  اپنی رہائش کے لئے آرام دہ ،پرسکون بڑے بڑے محل نمابنگلے تیارکیے ہوں  گے، غریبوں  کاخون چوس کراپنی تجوریاں  بھرنے کے لئے بڑے بڑے کارخانے اورفیکٹریاں  لگائی ہوں  گی،جیسے انہوں  نے اس دنیامیں  ہمیشہ ہی رہناہےمگرایک وقت مقررہ پرموت واردہوجائے گی اور ان کے مرنے کے ساتھ ہی دنیاکی یہ سب نعمتیں  ختم ہو جائیں  گے ، ان میں  سے کوئی مادی چیز لے کروہ اللہ کی بارگاہ میں  حاضرنہیں  ہوں  گے،اللہ کے ہاں  باقی رہنے والی چیزصرف مقاصدعمل اورنتائج عمل ہیں  ، اب اگرکسی شخص کے سارے مقاصددنیاکی زندگی تک محدودتھے اوراس کے نتائج بھی اس کودنیامیں  مطلوب تھے اوردنیامیں  وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکاتواس کے فوت ہونے کے ساتھ ہی اس کا سب کیاکرایافناہوگیا،اوروہ لوگ بھی خسارے میں  رہیں  گے جواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کادعویٰ کرتے ہیں  مگربعض انبیاء ے کرام،بزرگوں  اور اولیاء اللہ کواللہ تعالیٰ کاشریک بناتے ہیں  اوردین میں  اپنی طرف سے نئی نئی باتیں  داخل کرتے ہیں  ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ احْتَجَزَ التَّوْبَةَ عَنْ كُلِّ صَاحِبِ بِدْعَةٍ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ نے ہربدعتی  سے توبہ کوروک لیاہے۔[55]

اورگمان کرتے ہیں  کہ وہ بہت نیکیاں  کر رہے ہیں ،جواللہ کے ہاں  مقبول اورپسندیدہ ہیں ، حالانکہ اللہ ایسے لوگوں کے خودساختہ اعمال کووزن ہی نہیں  دے گااورپھرانہیں  جہنم رسیدکردیاجائے گا،جیسے فرمایا

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ۝۲ۙ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ۝۳ۙتَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً۝۴ۙ [56]

قیامت کے دن کچھ چہرے ذلیل وخوارہوں  گے جودنیامیں  بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں  اٹھائے ہوتے تھے ،آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں  گے اوربھڑکتی ہوئی آگ میں  ڈال دیے جائیں  گے ۔

 وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ [57]

ترجمہ:اورجوکچھ بھی ان کاکیادھراہے اسے لے کرہم غبارکی طرح اڑادیں  گے ۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚبِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَـیْــــًٔـا وَّوَجَدَ اللہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۳۹ۙ [58]

ترجمہ:جنہوں  نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں  سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں  پہنچا تو کچھ نہ پایا بلکہ وہاں  اس نے اللہ کو موجود پایاجس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں  لگتی ۔

روزمحشر میں  اگرکوئی شخص کچھ پیش کرکے کوئی وزن پا سکتا ہے،کوئی صلہ پاسکتے ہیں  توان کے پاس کوئی ایساعمل ہوناچاہے جواس نے اللہ کے احکام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرتے ہوئے خالص اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے کیاہو،اوران اعمال کا مقصوددکھلاوا،نمائش یابڑائی نہ ہوبلکہ صرف اخروی زندگی کی کامیابی ہو ، اگر ایسے کوئی اعمال اس نے سرانجام نہیں  دیئے تو اس کی دنیوی زندگی کی ساری بھاگ دوڑ اکارت گئی اوروہاں  وہ خالی ہاتھ ہی کھڑا ہو گا اور ان کی سزاجہنم کاہولناک عذاب ہی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّهُ لَیَأْتِی الرَّجُلُ العَظِیمُ السَّمِینُ یَوْمَ القِیَامَةِ، لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَقَالَ: اقْرَءُوا، {فَلاَ نُقِیمُ لَهُمْ یَوْمَ القِیَامَةِ وَزْنًا  [59]

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت ایک موٹاتازہ بڑابھاری بھر کم آدمی آئے گالیکن اللہ کے نزدیک اس کاوزن ایک مچھرکے پرکے برابربھی نہ ہو گا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرتم چاہوتواس آیت کی تلاوت کرلو’’قیامت کے روزہم انہیں  کوئی وزن نہ دیں  گے۔‘‘[60]

‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ‎﴿١٠٧﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا لَا یَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ‎﴿١٠٨﴾‏ قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ‎﴿١٠٩﴾‏ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوحَىٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ‎﴿١١٠﴾‏ (الکہف)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی اچھے کئے یقیناً ان کے لیے فردوس کے باغات کی مہمانی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہا کریں گے جس جگہ کو بدلنے کا کبھی بھی ان کا ارادہ ہی نہ ہوگا، کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لیے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں،آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘

البتہ وہ لوگ جو اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول سیدالمرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پرایمان لائے اورجنہوں  نے رسول کی اطاعت میں  نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے اعلیٰ ترین جنت،جنت الفردوس کے باغ ہوں  گے جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے، اور اس کی لازوال انواع و اقسام کی نعمتوں  سے اکتاکر کسی اورجگہ منتقل ہونے کی تمنانہیں  کریں  گے ،

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، هَاجَرَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِهِ، كُلُّ دَرَجَتَیْنِ مَا بَیْنَهُمَا كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص اللہ وحدہ لاشریک پر اور اس کے رسول پر ایمان لائےاور نماز پڑھےاور رمضان کے روزے رکھے َتو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں  داخل کر دے گا خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کرے یا جس سر زمین میں  پیدا ہوا ہو وہیں  جما رہے،صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم لوگوں  میں  اس بات کی بشارت نہ سنادیں  ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا جنت میں  سو درجے ہیں ، وہ اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں  کیلئے مقر کئے ہیں دونوں  درجوں  کے درمیان اتنا فصل ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان،پس جب تم اللہ سے دعا مانگو تو اس سے فردوس طلب کروکیونکہ وہ جنت کا افضل اور اعلیٰ حصہ ہے،مجھے خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپر صرف رحمن کا عرش ہے اور یہیں  سے جنت کی نہریں  جاری ہوئی ہیں ۔[61]

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی عظمت اوراس کی لامحدودصفات کو سمجھانے کے لیے دنیامیں  اعلان کردیجئے کہ اگر روئے زمین کے سمندرسیاہی بن جائیں  اورسارے درخت قلم بن جائیں  ، اورپھراللہ کے کلمات ،کمالات ،اس کے عجائب قدرت اوراس کی حکمتیں  لکھنی شروع کردی جائیں  توسیاہی ختم ہو جائے گی اورتمام قلم گھس جائیں  گے مگرمیرے رب کے کلمات ، کمالات ،اس کے عجائب قدرت اوراس کی حکمتیں  ضبط تحریرمیں  نہیں  آسکیں  گی گوان کی مثل اورسمندراورقلم ہی ہوں ،جیسے فرمایا

وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۲۷ [62]

ترجمہ:زمین میں  جتنے درخت ہیں  اگروہ سب کے سب قلم بن جائیں  اورسمندر(دوات بن جائے)جسے سات مزیدسمندرروشنائی مہیاکریں  تب بھی اللہ کی باتیں  (لکھنے سے ) ختم نہ ہوں  گی،بے شک اللہ زبردست اورحکیم ہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو کہ میں  اپنی خلقت اورجسمانی ہیئت وتخلیق کے اعتبارسے تم ہی جیساایک انسان ہوں  ،یعنی میں  معبودنہیں ،اقتدارالٰہی میں  میراکوئی حصہ ہے نہ میرے پاس کوئی علم غیب ہے اورنہ میرے قبضہ میں اللہ کے خزانے ہیں البتہ مجھے یہ امتیازحاصل ہے کہ مالک ارض وسماوات میری طرف وحی فرماتاہے کہ تمہاراالٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے ،اس کے سواکوئی اورمعبودنہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّـمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔۔۔۝۱۰۸ [63]

ترجمہ:ان سے کہو میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک الٰہ ہے ؟ ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔۔۔ ۝۶ۙ [64]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو میں  تو ایک بشرہوں  تم جیسا مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی الٰہ ہے۔

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔۔۔۝۵۰ۧ [65]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! ان سے کہومیں  تم سے یہ نہیں  کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ میں  غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں  کہ میں  فرشتہ ہوں میں  تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔

اس عظیم الشان کائنات پراسی کی حکومت اور اسی کاامرہے ،

۔۔۔اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ   [66]

ترجمہ: خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔

تمام قدرتوں ،قوتوں  اوراختیارات کاوہ تنہامالک ہے ،اس نے اپنی کوئی قدرت، اپناکوئی اختیارکسی مخلوق کوودیعت نہیں  فرمایا،دنیاکی چھوٹی بڑی تمام مخلوقات چاہے انبیاء ہوں  یابزرگ ہستیاں ،جن ہوں  یافرشتے سب کے سب اسی کے درکی فقیرہے ،پس جوکوئی اپنے رب کی ملاقات کایقین رکھتاہواسے چاہیے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کرے اوربندگی میں  اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے،اس لیے کہ بدعت اورشرک دونوں  ہی حبط اعمال کاسبب ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِیهِ مَعِی غَیْرِی، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے میں  تمام شرکاء سے بڑھ کرشرک سے مستغنی ہوں  جوشخص اپنے عمل میں  میرے ساتھ غیرکو شریک کرے تومیں  اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑدیتاہوں ۔[67]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَیْكُمْ عِنْدِی مِنَ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ؟ قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، فَقَالَ:الشِّرْكُ الْخَفِیُّ، أَنْ یَقُومَ الرَّجُلُ یُصَلِّی، فَیُزَیِّنُ صَلَاتَهُ، لِمَا یَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف گئے اورہم مسیح دجال کاذکرکررہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیامیں  تمہیں  وہ بات نہ بتاؤ ں  جس کامجھے تم پرمسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ہے ؟ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں  نہیں (ضروربتلائیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاشرک خفی کہ کوئی شخص نمازکے لیے کھڑاہواوروہ اپنی نمازکومحض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہاہے۔[68]

یعنی جوعبادت اورعمل دکھانے اورشہرت کے واسطے ہووہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں  بلکہ مردودہےاللہ تعالیٰ اسی عبادت اورعمل کوقبول کرتاہے جواللہ ہی کے واسطے خالص ہو،

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ:الرِّیَاءُ إِنَّ اللَّهَ یَقُولُ:یَوْمَ تُجَازَى الْعِبَادُ  بِأَعْمَالِهِمْ اذْهَبُوا إِلَى الَّذِینَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ بِأَعْمَالِكُمْ فِی الدُّنْیَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً

محمودبن لبیدسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے تمہارے بارے میں  سب سے زیادہ خوف شرک اصغرکے بارے میں  ہے،صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !شرک اصغرسے کیامرادہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ریاکاری،قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں  کوان کے اعمال کی جزادے گاتو(ریاکاری کرنے والوں  سے ) فرمائے گاتم ان لوگوں  کے پاس چلے جاؤ جن کودنیامیں  دکھانے کے لیے تم عمل کرتے تھے، بھلادیکھوتوسہی !کیاتم ان کے پاس کوئی جزاپاتے ہو؟۔[69]

عَنْ أَبِی سَعِیدِ بْنِ أَبِی فَضَالَةَ الْأَنْصَارِیِّ، وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِذَا جَمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأَوَّلِینَ، وَالْآخِرِینَ لِیَوْمٍ لَا رَیْبَ فِیهِ، نَادَى مُنَادٍ: مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِی عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ أَحَدًا، فَلْیَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ

ابوسعیدبن ابوفضالہ انصاری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ بیان فرماتے ہوئے سناجب اللہ تعالیٰ قیامت کے اس دن جس کے بارے میں  کوئی شک نہیں  اگلے پچھلے تمام لوگوں  کوجمع فرمائے گاتوایک اعلان کرنے والایہ اعلان کرے گاجس نے اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرتے ہوئے اس میں  کسی کوشریک بنالیاتووہ غیراللہ سے اپنا ثواب طلب کرے،بے شک اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شرکاء کی نسبت سب سے زیادہ بے نیازہے۔[70]

[1] الاعراف۳۰

[2] الحجر۲۸،۲۹

[3] بنی اسرائیل۶۱

[4] الاعراف۱۲

[5] تفسیرطبری۴۱؍۱۸

[6] الاعراف۱۲

[7] التحریم۶

[8]النحل ۴۹، ۵۰

[9] سبا۲۲،۲۳

[10] الاحقاف۴

[11]   صحیح مسلم  كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۳،جامع ترمذی  أَبْوَابُ صِفَةِ جَهَنَّمَ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ النَّارِ۲۵۷۳

[12] الاحزاب۴۴

[13] الواقعة۲۰،۲۱

[14] القصص۶۴

[15] الاحقاف۵،۶

[16] مریم۸۱،۸۲

[17] یونس۲۸تا۳۰

[18] مسنداحمد۱۱۷۱۴

[19]بنی اسرائیل۴۱

[20] یٰسین۷۷

[21] الكهف: 54

[22] مسند   احمد۹۰۰،صحیح بخاری كتاب التهجد بَابُ تَحْرِیضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّیْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَیْرِ إِیجَابٍ ۱۱۲۷، صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ  وَقَصْرِهَا بَابُ مَا رُوِیَ فِیمَنْ نَامَ اللَّیْلَ أَجَمْعَ حَتَّى أَصَبْحَ۱۸۱۸

[23] الانبیاء ۱۸

[24] بنی اسرائیل۸۱

[25] فاطر۴۵

[26] الرعد  ۶

[27] سبا۳۰

[28] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ کہف بَابُ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَیْنِ أَوْ أَمْضِیَ حُقُبًا۴۷۲۵

[29] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ۳۴۰۲

[30] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَیْنِ أَوْ أَمْضِیَ حُقُبًا۴۷۲۵

[31]صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَیْنِ أَوْ أَمْضِیَ حُقُبًا۴۷۲۵

[32]الكهف: 76

[33] تفسیرطبری۷۷؍۱۸،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَیْهِ السَّلَامُ۶۱۶۳،سنن ابوداودكِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ باب۳۹۸۴،مسنداحمد۲۱۱۲۶

[34] سلسلة الأحادیث الصحیحة۲۴۳۴

[35] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ۴۷۲۴

[36] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ۶۷۶۶،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۷۰۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الكَهْفِ۳۱۵۰،مسنداحمد۲۱۱۲۱

[37] تفسیر طبری۸۷؍۱۸

[38] مسنداحمد۱۲۹۰۶،صحیح ابن حبان۷۲۸،مسندابی یعلی الموصلی۴۲۱۷،۴۲۱۸

[39] تفسیرطبری۱۰۰؍۱۸،تفسیرابن ابی حاتم۲۳۸۶؍۷

[40] آل عمران۵

[41] النمل۳۶

[42] مسنداحمد۲۷۴۱۳،صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قِصَّةِ یَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ ۳۳۴۶، صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ  بَابُ اقْتِرَابِ الْفِتَنِ وَفَتْحِ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ۷۲۳۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا یَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ۳۹۵۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ   بَابُ مَا جَاءَ فِی خُرُوجِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ۲۱۸۷،تفسیرطبری ۴۰۵؍۱۷،الدر المنثور۴۵۸؍۵

[43] الانبیاء ۹۶،۹۷

[44] سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَخُرُوجِ یَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ ۴۰۷۹، جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الكَهْفِ  ۳۱۵۳،مستدرک حاکم۸۵۰۱

[45] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قِصَّةِ یَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ ۳۳۴۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ قَوْلِهِ یَقُولُ اللهُ لِآدَمَ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسَعَةٍ وَتِسْعِینَ ۵۳۲

[46] النساء ۴۸

[47]سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی ذِكْرِ الْبَعْثِ وَالصُّورِ۴۷۴۲،جامع ترمذی  أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الصُّورِ۲۴۳۰،مسنداحمد۶۵۰۷

[48] مسنداحمد۳۰۰۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ۲۴۳۱،۳۲۴۳،صحیح ابن حبان۸۲۳، مستدرک حاکم۸۶۷۸

[49] الواقعة۴۹،۵۰

[50] الشعراء ۹۱

[51] صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۴،جامع ترمذی ابواب الجھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ النَّارِ ۲۵۷۳،مستدرک حاکم۸۷۵۸،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۱۱۷

[52] حم السجدة۵

[53] سبا۴۰،۴۱

[54] مریم۸۲

[55] المجالسة وجواهر العلم۲۸۱۶، سلسلة الأحادیث الصحیحة ۱۶۲۰

[56] الغاشیة۲تا۴

[57] الفرقان۲۳

[58] النور۳۹

[59] الكهف: 105 

[60]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ الکہف بَابُ أُولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ  ۴۷۲۹ ،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۷۰۴۵

[61] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۳، وکتاب الجہادبَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، یُقَالُ: هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی ۲۷۹۰

[62] لقمان۲۷

[63] الانبیاء ۱۰۸

[64] حم السجدة۶

[65] الانعام۵۰

[66] الاعراف۵۴

[67] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِی عَمَلِهِ غَیْرَ اللهِ۷۴۷۵

[68] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ۴۲۰۴

[69] مسنداحمد۲۳۶۳۶

[70] مسنداحمد۱۵۸۳۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ  الكَهْفِ ۳۱۵۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ ۴۲۰۳

Related Articles