بعثت نبوی کا بارهواں سال

واقعہ معراج

رسول اللہ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی بارہ سال انتھک کوششوں  کے  نتیجے  میں  دعوت اسلام کی آوازعرب کے  گوشہ گوشہ میں  پہنچ چکی تھی ، مکہ مکرمہ میں  ایک مختصرجماعت کے  علاوہ مدینہ کے  دوبڑے  طاقتور قبائل اوس وخزرج کے  متعدد افرادبھی دعوت اسلام قبول کرچکے  تھے  اورایک اسلامی مملکت کے  لئے  حالات سازگارہورہے  تھے ،  ان حالات میں  رات کے  وقت آپ کو مسجدحرام(مکہ مکرمہ) سے  مسجداقصٰی(بیت المقدس) اورپھروہاں  سے  آسمانوں  پرلے  جایاگیا ،  اورآسمان پر ہی پانچ وقت نمازکاتحفہ دیاگیا ،  اس سے  بیشتراہل مکہ بھی قحط کی وجہ سے  ابتلاء کا شکارہوچکے  تھے ،  بنی اسرائیل جوکبھی رب کے  محبوب ہواکرتے  تھے  ان کے  عروج وزوال کی مثالوں  کو بیان کرکے  تنبیہ کی گئی کہ اب بھی تم نے  دعوت اسلام کو قبول نہ کیاتوبنی اسرائیل کی طرح تمہارانام ونشان تک مٹادیاجائے  گااورپھرکسی دوسری قوم کودین اسلام کی تعلیمات کا امین بنادیاجائے  گا،   اللہ   کی نازل کردہ کتاب پرتمہیں  ابھی تک شک وشبہ ہے  ، تمہیں  اپنی زبان دانی پر بڑا عبور اوربڑافخرہے  توقرآن جیسی کوئی سورت بناکر دکھا دو مگر ہم پیشگی بتادیتے  ہیں  تم ایساہرگزہرگزنہ کر سکو گے  ۔ اجتماعی زندگی کے  اسلامی آداب واخلاق بیان فرمائے  کہ   اللہ   کے  سواکسی کی عبادت نہ کی جائے  ، والدین کے  ساتھ احسان کرتے  رہواگریہ دونوں  یاان میں  سے  ایک کبرسنی میں  ہوں  توان کومت جھڑکوبلکہ اف تک نہ کرواوران سے  نرمی سے  بات کرو، قریبی رشتہ داروں  اور عزیزوں  ، مسکینوں  اورمسافروں  کوان کا حق دو،   اللہ   کے  عطاکردہ مال کوفضول خرچی میں  نہ اڑاؤاورمیانہ روی اختیارکرو، نہ بخل کرونہ ہاتھ اتناکشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے  ،  سائل سے  معذرت کرنی ہوتونرم لفظوں  میں  کرو، اپنی اولادکومفلسی کے  ڈرسے  قتل نہ کرو، زناکے  قریب نہ جاؤیہ بڑی بے  حیائی کاکام ہے ، کسی نفس کوحق کے  بغیرقتل نہ کرو، یتیم کے  مال میں  ناجائز تصرف نہ کرو، وعدہ کرو تواسے  پوراکرو، ناپ تول میں  کمی نہ کروبلکہ پوراپوراناپواورتولو،  جس چیزکے  بارے  میں  تحقیق نہ ہواس پرکج بحثی مت کرو ،   اللہ   کی زمین پراکڑکرنہ چلواورآخرمیں  دوبارہ فرمایا کہ   اللہ   وحدہ لاشریک کے  ساتھ غیر  اللہ   کو اس کاشریک نہ بناؤ، اس سورہ میں  توحید اورآخرت کے  برحق ہونے  کے  دلائل دئے  گئے  اور ان کے  نہ ماننے  والوں  کوجہنم کے  دردناک عذاب سے  ڈرایا گیا ،  ساتھ ہی رسول اللہ صلی   اللہ   علیہ وسلم اورصحابہ کرام کو کفارکے  ظلم وستم اوران کی کج بحثوں  اوران کے  طوفان کذب وافتراء کے  باوجوداپنے  موقف پرسختی سے  جمے  رہنے  اورمشرکین کی ہٹ دھرمی اورانکارکا ڈٹ کرمقابلہ کرنے  کو کہاگیا،  دعوت دین پیش کرنابڑاہی مشکل کام ہے  اس میں  مشکلات ہی مشکلات ہیں  مسلمانوں  کو بتایا گیا کہ ایسے  وقت میں  نماز کے  ذریعہ سے  جوتزکیہ نفس اوراصلاح نفس کا بہترین ذریعہ ہے  اپنے  کردارمیں  قوت وطاقت حاصل کرو۔

عَائِشَةَ تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: مَا یُرِیدُ أَنْ یُفْطِرَ،  وَیُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: مَا یُرِیدُ أَنْ یَصُومَ،  وَكَانَ یَقْرَأُ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ بِبَنِی إِسْرَائِیلَ،  وَالزُّمَرِ

اس سورت کی فضیلت میں  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم (اس قدرکثرت سے  نفلی)روزے  رکھتے  حتی کہ ہم کہتے  کہ آپ کاارادہ نہیں  کہ روزوں  کوچھوڑدیں  اور پھر آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم (نفل)روزے  رکھناچھوڑدیتے  حتی کہ ہم یہ کہتے  کہ اب آپ کاارادہ نہیں  کہ روزے  رکھیں  ،  اور آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم ہررات سورئہ بنی اسرائیل اورسورہ زمرکی تلاوت فرمایاکرتے  تھے ۔

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعراج پرلیجانا

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومنصب پیغمبری پرفائزہوئے  ۱۲سال گزرچکے  تھے  ، اوراب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی عمرمبارک ۵۲سال کی ہوچکی تھی،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فُرِجَ سَقْفُ بَیْتِی وَأَنَا بِمَكَّةَ،  فَنَزَلَ جِبْرِیلُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَفَرَجَ صَدْرِی، ا ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ،  ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِیمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِی صَدْرِی،  ثُمَّ أَطْبَقَهُ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  مکہ میں  ایک رات آرام کررہاتھا کہ گھرکی چھت پھٹی اورجبرائیل علیہ السلام تشریف لائے ، انہوں  نے  میراسینہ چیرپھراس کوزمزم کے  پانی سے  دھویا پھر ایک سونے  کاطشت لایاگیاجوایمان وحکمت سے  بھرا ہواتھا ،  اور اسے  اٹھا کر میرے  سینہ میں  انڈیل دیاگیااورپھرمیرے  سینے کو ملا دیاگیا۔ [1]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُتِیتُ بِالْبُرَاقِ،  وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْیَضُ طَوِیلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ،  وَدُونَ الْبَغْلِ ، یَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیرے  سامنے  سواری کے  لئے  براق لایاگیاوہ ایک طویل سفید رنگ کاجانورتھاجوگدھے  سے  بڑااورخچرسے  چھوٹاتھا (پھررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کواس پرسوارکیاگیا، اور جبرائیل علیہ السلام رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ چلے )یہ جانور اتنا تیز رفتار تھا کہ جہاں  تک نظرپڑتی تھی وہاں  اس کے  قدم پڑتے  تھے ۔ [2]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی عِنْدَ الْكَثِیبِ الْأَحْمَرِ،  وَهُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی قَبْرِهِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجس رات مجھے  معراج ہوامیں  نے (راستے  میں  ) ایک سرخ ٹیلے  کے  پاس موسیٰ علیہ السلام کودیکھاکہ وہ اپنی قبرمیں  کھڑے  نمازپڑھ رہے  ہیں  ۔ [3]

فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ،  فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِی یَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِیَاءُ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَفَصَلَّیْتُ فِیهِ رَكْعَتَیْنِ

پھرمیں  اس پرسوارہوکر بیت المقدس پہنچا اور اس جانورسے  اترکراس کواس حلقہ سے  باندھ دیاجس حلقہ سے  انبیاء علیہ السلام اپنی سواریاں  باندھاکرتے  تھے پھرمیں  مسجداقصیٰ (ہیکل سلیمانی )میں  داخل ہوا اوردورکعت نمازادا فرمائی (جو اس زمانے  میں  منہدم تھامگراس کی جگہ موجودتھی اور قیصر جسٹینسین نے  وہاں  ایک گرجا بنا رکھا تھا)۔ [4]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ،  فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ یُصَلِّی،  وَإِذَا عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ یُصَلِّی،  وَإِذَا إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ یُصَلِّی،  فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ،  فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ: یَا مُحَمَّدُ،  هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ،  فَسَلِّمْ عَلَیْهِ،  فَالْتَفَتُّ إِلَیْهِ،  فَبَدَأَنِی بِالسَّلَامِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  نے  اپنے آپ کو پیغمبروں  کی جماعت میں  پایادیکھاکہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے  نماز پڑھ رہے  ہیں  اوردیکھاکہ عیسیٰ علیہ السلام بن مریم بھی کھڑے  ہوکر نمازپڑھ رہے  ہیں  ، اوردیکھاکہ ابراہیم علیہ السلام کھڑے  نماز پڑھ رہے  ہیں  ،  پھرجب نمازکاوقت ہوا تو میں  نے  انبیاء علیہ السلام کی امامت فرمائی، جب میں  نمازسے  فارغ ہوا تو ایک کہنے  والے  نے  کہااے  محمد علیہ السلام !یہ دوزخ کے  دروغہ مالک ہیں  انہیں  سلام کہیں  ،  میں  نے  اس کی طرف دیکھا اورمالک نے  سلام میں  پہل کی۔ [5]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَأُتِیتُ بِإِنَاءَیْنِ فِی أَحَدِهِمَا لَبَنٌ،  وَفِی الْآخَرِ خَمْرٌفَقِیلَ لِی،  خُذْ أَیَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ،  فَشَرِبْتُهُ، فَقَالَ: هُدِیتَ الْفِطْرَةَ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَّا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب میں  بیت المقدس میں  انبیاء کی امامت کر کے  باہر نکلا تو میرے  سامنے  دو پیالے  لائے  گئے  ایک پیالہ میں  شراب تھی اورایک پیالہ میں  دودھ تھا مجھ سے  کہاگیاجس کو چاہو پسند کرلو، میں  نے  دودھ والے  پیالے  کواٹھالیااورپی لیا،  اس (فرشتے )نے  کہا آپ کوفطرت کی راہ ملی یاتم فطرت کوپہنچ گئے ، اگرتم شراب کواختیارکرتے  توتمہاری امت گمراہ ہوجاتی۔ [6]

اس کے  بعد جبرئیل علیہ السلام نے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کاہاتھ پکڑااور اوپرآسمان کی طرف چلے ۔

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم آسمان دنیاپر:

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِیلَ حَتَّى أَتَیْنَا السَّمَاءَ الدُّنْیَا،  قِیلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِیلُ: قِیلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ،  قِیلَ: مَرْحَبًا بِهِ،  وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى آدَمَ،  فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،  فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِیٍّ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے فرمایامیں  اس پرسوارہوکرجبریل علیہ السلام کے  ساتھ چلا، جب ہم آسمان دنیاپرپہنچے  توپوچھاگیاکون ہے ؟کہاجبریل علیہ السلام ،  پوچھاگیاآپ کے  ساتھ اورکون ہیں  ؟انہوں  نے  بتایاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )ہیں  ،  پوچھا گیا کیا انہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کوبھیجاگیاتھا؟انہوں  نے  کہاہاں  ، اس پرجواب آیاکہ اچھی کشادہ جگہ آنے  والے  کیاہی مبارک ہیں  ، پھرمیں  سیدنا آدم علیہ السلام کی خدمت میں  حاضرہوااورانہیں  سلام کیاانہوں  نے  فرمایاآؤ پیارے  بیٹے  اوراچھے  نبی۔ [7]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ،  یُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ: فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْیَا،  فَإِذَا رَجُلٌ عَنْ یَمِینِهِ أَسْوِدَةٌ،  وَعَنْ یَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ،  قَالَ: فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ یَمِینِهِ ضَحِكَ،  وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى،  قَالَ: فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ،  وَالِابْنِ الصَّالِحِ ،  قَالَ: قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ یَمِینِهِ،  وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِیهِ،  فَأَهْلُ الْیَمِینِ أَهْلُ الْجَنَّةِ،  وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِی عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ،  فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ یَمِینِهِ ضَحِكَ،  وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ ، ابوزر رضی   اللہ   عنہ سے  روایت کرتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب ہم آسمان کے  اوپرگئے  توایک شخص کودیکھاجس کی داہنی طرف بھی (روحوں  کی)جھنڈتھی اوربائیں  طرف بھی(روحوں  کی)جھنڈتھی،  جب وہ دائیں  طرف دیکھتے  تو ہنس دیتے  اور جب بائیں  طرف دیکھتے  تورودیتے  ، انہوں  نے  مجھے  دیکھ کرکہامرحبااے  نیک بخت نبی اورنیک بخت بیٹے ، فرمایامیں  نے  جبرئیل علیہ السلام سے پوچھایہ کون ہیں  ؟انہوں  نے  کہایہ آدم علیہ السلام ہیں  اوریہ جولوگوں  کے  جھنڈان کے  دائیں  اوربائیں  ہیں  یہ ان کی اولادہے ، داہنی طرف وہ لوگ ہیں  جو جنت میں  جائیں  گے اوربائیں  طرف وہ لوگ ہیں  جوجہنم میں  جائیں  گے ، اس لئے  جب دائیں  طرف دیکھتے  ہیں  تو(خوشی کے  مارے )ہنس دیتے  ہیں  اورجب بائیں  طرف دیکھتے  ہیں  تو(رنج کے  مارے )رودیتے  ہیں  ۔ [8]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم دوسرے  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا السَّمَاءَ الثَّانِیَةَ،  قِیلَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیلُ،  قِیلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: أُرْسِلَ إِلَیْهِ،  قَالَ: نَعَمْ،  قِیلَ: مَرْحَبًا بِهِ،  وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى عِیسَى،  وَیَحْیَى فَقَالاَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ،

اس کے  بعددوسرے  آسمان پرپہنچے  تویہاں  بھی وہی سوال ہواکون ہیں  ؟کہاکہ جبریل، سوال ہواآپ کے  ساتھ کوئی اورصاحب بھی آئے  ہیں  ؟کہاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )ہیں  ،  سوال ہواکیاانہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کو بھیجا گیاتھا؟ کہاکہ ہاں  ،  اب ادھرسے  جواب آیااچھی کشادہ جگہ آئے  ہیں  آنے  والے  کیاہی مبارک ہیں  ، اس کے  بعدمیں  عیسیٰ علیہ السلام اوریحییٰ علیہ السلام سے  ملا، ان حضرات نے  بھی خوش آمدیدکہااوراپنے  بھائی اورنبی کومرحباکہا۔  [9]

ابْنَ عَبَّاسٍ،  قَالَ:ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ أُسْرِیَ بِهِ ، فَقَالَ:مُوسَى آدَمُ،  طُوَالٌ،  كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ،  وَقَالَ:عِیسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  معراج کے  واقعہ میں  فرمایا موسیٰ علیہ السلام لمبے  قد کے  تھے  گویا کہ وہ قبیلہ شنوات کے  ایک آدمی ہیں  اور عیسیٰ علیہ السلام کے  بارے  میں  فرمایا کہ وہ درمیانہ قد اور گھنگریالے  بالوں  والے  ہیں  ۔ [10]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ:قَالَ:وَلَقِیتُ عِیسَى فَنَعَتَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا رَبْعَةٌ أَحْمَرُ،  كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِیمَاسٍ یَعْنِی حَمَّامًا

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیری ملاقات عیسیٰ بن مریم سے  ہوئی تو وہ درمیانہ قد سرخ رنگ والے  تھے  گو یا کہ ابھی ابھی حمام سے  نکلے  ہوں  (یعنی ایسے  تروتازہ اورخوش رنگ تھے )۔ [11]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم تیسرے  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ ،  قِیلَ: مَنْ هَذَا؟ قِیلَ: جِبْرِیلُ،  قِیلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِیلَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ،  قِیلَ: مَرْحَبًا بِهِ،  وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى یُوسُفَ،  فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ

پھرہم تیسرے  آسمان پرپہنچے ، یہاں  بھی سوال ہواکون صاحب ہیں  ؟جواب ملاجبریل، سوال ہواآپ کے  ساتھ بھی کوئی ہے ؟ کہاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )ہیں  ، سوال ہواانہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کوبھیجاگیاتھا؟انہوں  نے  بتایاکہ ہاں  ،  اب آوازآئی اچھی کشادہ جگہ آئے  آنے  والے ، کیاہی صالح ہیں  ، یہاں  یوسف علیہ السلام سے  ملااورانہیں  سلام کیا، انہوں  نے  فرمایا اچھی کشادہ جگہ آئے  ہومیرے  بھائی اورنبی ۔ [12]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا هُوَ قَدِ اُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ کی روایت میں  اتنااضافہ ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   نے  انہیں  حسن وجمال کاآدھاحصہ عطا کیا تھا۔  [13]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم چوتھے  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ،  قِیلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیلُ،  قِیلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِیلَ مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ؟ قِیلَ: نَعَمْ،  قِیلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى إِدْرِیسَ،  فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،  فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ

یہاں  سے  ہم چوتھے  آسمان پرپہنچے یہاں  بھی یہی سوال ہواکون صاحب ہیں  ؟ جواب دیاکہ جبریل ، سوال ہواآپ کے  ساتھ اورکون ہیں  ؟کہاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ہیں

پوچھاکیاانہیں  لانے  کے  لئے  آپ کوبھیجا گیا تھا؟ جواب دیاکہ ہاں  ،  پھرآوازآئی اچھی کشادہ جگہ آئے  کیاہی اچھے  آنے  والے  ہیں  ، یہاں  میں  ادریس علیہ السلام سے  ملااورانہیں  سلام کیا، انہوں  نے  فرمایا مرحبابھائی اورنبی۔ [14]

قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِیًّا} [15]

صحیح مسلم میں  اتنااضافہ ہے ’’جن کے  بارے  میں    اللہ   جل جلالہ نے  فرمایاتھااوراسے  ہم نے  بلندمقام پراٹھایاتھا۔ ‘‘[16]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم پانچویں  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا السَّمَاءَ الخَامِسَةَ،  قِیلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیلُ،  قِیلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قِیلَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ،  قِیلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،  فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ

یہاں  ہم پانچویں  آسمان پرپہنچے یہاں  بھی سوال ہواکہ کون صاحب ہیں  ؟جواب دیاکہ جبریل، پوچھاگیااورآپ کے  ساتھ اورکون صاحب آئے  ہیں  ؟جواب دیاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )ہیں  ، پوچھاگیاانہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کوبھیجاگیاہے  ؟ کہاکہ ہاں  ،  آوازآئی اچھی کشادہ جگہ آئے  ہیں  ، آنے  والے  کیاہی اچھے  ہیں  ، یہاں  ہم ہارون علیہ السلام سے  ملے  اورمیں  نے  انہیں  سلام کیا، انہوں  نے  فرمایامبارک میرے  بھائی اورنبی ، تم اچھی کشادہ جگہ آئے ۔ [17]

 رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم چھٹے  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ،  قِیلَ: مَنْ هَذَا؟ قِیلَ جِبْرِیلُ،  قِیلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِیلَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى مُوسَى،  فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،  فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ،  فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى،  فَقِیلَ: مَا أَبْكَاكَ: قَالَ: یَا رَبِّ هَذَا الغُلاَمُ الَّذِی بُعِثَ بَعْدِی یَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا یَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِی

فرمایایہاں  سے  ہم چھٹے  آسمان پرپہنچے یہاں  بھی سوال ہواکون صاحب ہیں  ؟جواب دیاکہ جبریل،  پوچھا گیاآپ کے  ساتھ اوربھی کوئی ہیں  ؟کہا محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ہیں  ،  پوچھاگیاانہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کوبھیجاگیاہے  ؟آوازآئی اچھی کشادہ جگہ آئے  ہیں  آنے  والے  کیاہی اچھے  ہیں  ،  یہاں  میں  موسیٰ علیہ السلام سے  ملااورانہیں  سلام کیاانہوں  نے  فرمایامیرے  بھائی اورنبی اچھی کشادہ جگہ آئے ،  جب میں  وہاں  سے  آگے  بڑھنے  لگاتووہ رونے  لگے ،  کسی نے  پوچھا، آپ کیوں  رورہے  ہیں  ؟انہوں  نے  فرمایاکہ اے    اللہ  !یہ نوجوان جسے  میرے  بعدنبوت دی گئی اس کی امت میں  سے  جنت میں  داخل ہونے  والے  ،  میری امت کے  جنت میں  داخل ہونے  والے  لوگوں  سے  زیادہ ہوں  گے ۔ [18]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ساتویں  آسمان پر:

فَأَتَیْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ،  قِیلَ مَنْ هَذَا؟ قِیلَ: جِبْرِیلُ،  قِیلَ مَنْ مَعَكَ؟ قِیلَ: مُحَمَّدٌ،  قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْهِ،  مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِیءُ جَاءَ،  فَأَتَیْتُ عَلَى إِبْرَاهِیمَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،  فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِیٍّ،  فَرُفِعَ لِی البَیْتُ المَعْمُورُ،  فَسَأَلْتُ جِبْرِیلَ،  فَقَالَ: هَذَا البَیْتُ المَعْمُورُ یُصَلِّی فِیهِ كُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ،  إِذَا خَرَجُوا لَمْ یَعُودُوا إِلَیْهِ آخِرَ مَا عَلَیْهِمْ

اس کے  بعدہم ساتویں  آسمان پرپہنچے یہاں  بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں  ؟جواب دیاکہ جبریل، سوال ہواکہ کوئی صاحب آپ کے  ساتھ بھی ہیں  ؟جواب دیاکہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ہیں  ، پوچھاانہیں  بلانے  کے  لئے  آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ آوازآئی اچھی کشادہ جگہ آئے  ہیں  آنے  والے  کیاہی اچھے  ہیں  ،  یہاں  میں  ابراہیم علیہ السلام سے  ملااورانہیں  سلام کیا، انہوں  نے  فرمایامیرے  بیٹے  اورنبی، مبارک اچھی کشادہ جگہ آئے  ہو، اس پھرمجھے  بیت المعمورلے  جایاگیا، میں  نے  جبریل علیہ السلام سے  اس کے  بارے  میں  پوچھاتوانہوں  نے  بتلایاکہ یہ بیت المعمورہے  ، اس میں  ستر ہزار فرشتے  روزانہ نمازپڑھتے  ہیں  اورایک مرتبہ پڑھ کر جواس سے  نکل جاتا ہے  توپھرکبھی داخل نہیں  ہوتا۔ [19]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیتُ إِبْرَاهِیمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّی السَّلاَمَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الجَنَّةَ طَیِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ،  وَأَنَّهَا قِیعَانٌ،  وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللهِ وَالحَمْدُ لِلَّهِ وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ.

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا معراج کی رات کومیری ابراہیم علیہ السلام سے  ملاقات ہوئی، انہوں  نے  فرمایااے  محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )اپنی امت کومیری طرف سے  سلام کہیے  اوران کوبتلائیے  کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے ، پانی میٹھاہے  لیکن وہ چٹیل میدان ہے (اس میں  کاشت کرنے  کی ضرورت ہے )اس کی کاشت کاری(یہ کلمات ہیں  )

سبحان   اللہ   والحمدللہ ولاالٰہ الا  اللہ   و  اللہ   اکبر۔ [20]

أَخْبَرَنِی أَبُو أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِهِ مَرَّ عَلَى إِبْرَاهِیمَ،  فَقَالَ: مَنْ مَعَكَ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَذَا مُحَمَّدٌ،  فَقَالَ لَهُ إِبْرَاهِیمُ: مُرْ أُمَّتَكَ فَلْیُكْثِرُوا مِنْ غِرَاسِ الْجَنَّةِ،  فَإِنَّ تُرْبَتَهَا طَیِّبَةٌ،  وَأَرْضَهَا وَاسِعَةٌ قَالَ: وَمَا غِرَاسُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

ابوایوب انصاری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے شب معراج نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم جب ابراہیم علیہ السلام کے  پاس سے  گذرے  تو انہوں  نے  جبرائیل علیہ السلام سے  پوچھا کہ تمہارے  ساتھ یہ کون ہیں  ؟ انہوں  نے  بتایا کہ یہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم ہیں  ، ابراہیم علیہ السلام نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  فرمایا کہ اپنی امت کو تلقین کیجئے  کہ وہ کثرت سے  جنت کے  پودے  لگائیں  کیونکہ جنت کی مٹی عمدہ اور زمین کشادہ ہے ، نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھا کہ جنت کے  پودوں  سے  کیا مراد ہے  ؟ توابراہیم علیہ السلام نے  فرمایا ولاحول ولاقوة الاباللہ  ۔ [21]

بعض روایات میں  ان پیغمبروں  کے  مقامات کچھ مختلف بھی بیان کیے  گئے  ہیں  ، سنن نسائی اورصحیح مسلم میں  انس رضی  اللہ   عنہ کی روایت چوتھے  آسمان پرہارون علیہ السلام اورپانچویں  پرادریس رضی  اللہ   عنہ کامقام بتاتی ہے ، تفسیرطبری، تفسیرابن ابی حا تم اوراب نمردویہ میں  ابوسعیدخدری رضی  اللہ   عنہ کی روایت دوسرے  آسمان پریوسف اورتیسرے  پریحییٰ وعیسیٰ علیہالسلام کامقام ظاہرکرتی ہے ۔

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سدرة المنتہیٰ پر:

عَنْ عَبْدِ اللهِ،  قَالَ: لَمَّا أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  انْتُهِیَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى،  وَهِیَ فِی السَّمَاءِ السَّادِسَةِ،  إِلَیْهَا یَنْتَهِی مَا یُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَیُقْبَضُ مِنْهَا،  وَإِلَیْهَا یَنْتَهِی مَا یُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَیُقْبَضُ مِنْهَا

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو معراج کے  لئے  سیر کرائی گئی تو آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کو سدرة المنتہی تک لے  جایا گیا جو کہ چھٹے  آسمان میں  واقع ہے ،  زمین سے  جوچڑھتاہے  وہ یہیں  آن کرٹھہرجاتاہے  پھرلے  لیاجاتاہے  اورجواوپرسے  اترتاہے  وہ بھی یہیں  ٹھہر جاتا ہے  پھرلے  لیاجاتاہے ۔ [22]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثُمَّ ذَهَبَ بِی إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى،  وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِیَلَةِ،  وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ ،  قَالَ: فَلَمَّا غَشِیَهَا مِنْ أَمْرِ اللهِ مَا غَشِیَ تَغَیَّرَتْ،  فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللهِ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا پھرجبرئیل علیہ السلام مجھے  سدرة المنتہیٰ کے  پاس لے  گئے ،  اس بیری کے  پتے  اتنے  بڑے  تھے  جیسے  ہاتھی کے  کان اوراس کے  بیرجیسے  قلہ(ایک بڑاگھڑاجس میں  دومشک یازیادہ پانی آتاہے ) پھرجب اس درخت کو  اللہ   کے  حکم نے  ڈھانکاتواس کاحال ایساہوگیاکہ کسی مخلوق میں  اتنی طاقت بیاں  نہیں  کہ اس کے  حسن ورعنائی کی منظرکشی کرسکے ۔ [23]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَحَدَّثَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَأَى أَرْبَعَةَ أَنْهَارٍ یَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ،  وَنَهْرَانِ بَاطِنَانِ،  فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَا هَذِهِ الْأَنْهَارُ؟ قَالَ: أَمَّا النَّهْرَانِ الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِی الْجَنَّةِ،  وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ: فَالنِّیلُ وَالْفُرَاتُ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے اورنبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  بیان فرمایا مجھے اس بیری کی جڑسے  چارنہریں  نکلتی ہوئی دکھائی دیں  ،  ان میں  سے  دو نہریں  (دنیاوالوں  سے  )پوشیدہ رکھی گئیں  ہیں  اوردونہریں  (دنیاوالوں  پر)ظاہرکردی گئیں  ہیں  ، میں  نے  کہااے  جبریل علیہ السلام !یہ نہریں  کیسی ہیں  ؟انہوں  نے  جواب دیادوپوشیدہ نہریں  (سَیْحَانُ،  وَجَیْحَانُ) توجنت میں  گئی ہیں  اور ظاہر نہریں  دریائے  نیل وفرات ہیں  (نہروں  کی یہ توجیہہ صرف سمجھانے  کے  لئے  ہے  ان کی حقیقت کاعلم   اللہ   ہی کوہے )۔ [24]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أُتِیتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ،  وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ،  وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ،  فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ: هِیَ الفِطْرَةُ الَّتِی أَنْتَ عَلَیْهَا وَأُمَّتُكَ

انس رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  بیان فرمایاپھرمجھے  بیت المعمورلے  جایاگیا پھر میرے پاس تین گلاس لائے  گئے ، ایک گلاس میں  شراب ، دوسرے  میں  دودھ اورتیسرے  میں  شہدتھامیں  نے  (اب کی باربھی)دودھ کاگلاس اٹھا لیا جبرائیل علیہ السلام نے  فرمایایہی فطرت ہے  اورآپ اس پرقائم ہیں  اورآپ کی امت بھی۔ [25]

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِیلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے جب جبرائیل کودیکھاان کے  چھ سو پرتھے ۔ [26]

بعدمیں  وہ انسانی شکل میں  وحی لاتے  رہے  ،  پھریہاں  سدرة المنتہیٰ پر آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبرائیل علیہ السلام کودوسری مرتبہ ان کی اصل شکل میں  سبزرنگ کے  ریشمی لباس میں  دیکھاجیسے  فرمایا

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى۝۱۳ۙعِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى۝۱۴عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى۝۱۵ۭاِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى۝۱۶ۙمَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۝۱۷لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى۝۱۸ [27]

ترجمہ: اورایک مرتبہ پھراس نے  سدرہ المنتہیٰ کے  پاس اس کواترتے  دیکھاجہاں  پاس ہی جنت الماویٰ ہے ، اس وقت سدرہ پرچھا رہا تھا جو کچھ کہ چھارہاتھا، نگاہ نہ چندھیائی، نہ حدسے  متجاوزہوئی اوراس نے  اپنے  رب کی بڑی بڑی نشانیاں  دیکھیں  ۔

ایک مقام پر فرمایا

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ۝۱۹ۙذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ۝۲۰ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۝۲۱ۭوَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ۝۲۲ۚوَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ۝۲۳ۚ           [28]

ترجمہ: یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام برکاقول ہے  جوبڑی توانائی رکھتاہے ، عرش والے  کے  ہاں  بلندمرتبہ ہے  ، وہاں  اس کاحکم ماناجاتاہے ، وہ بااعتمادہے  اور(اے  اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں  ہے  ، اس نے  اس پیغامبرکوروشن افق پردیکھاہے ۔

اسی معراج کے  موقع پررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبریل علیہ السلام کاایک اورمنظربھی ملاحظہ فرمایااوریہ وہ منظرتھاجب جبریل علیہ السلام پر  اللہ   کی خشیت طاری تھی ،  اس خشیت الٰہی نے  انہیں  ایسے  کردیاتھاجیسے  پرانابوسیدہ ٹاٹ ہوتاہے ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  شب معراج کوملااعلیٰ (فرشتوں  کی مجلس)میں  جبریل علیہ السلام کے  پاس سے  گزراتووہ   اللہ   عزوجل کے  خوف سے  ایسے  تھے  جیسے  پرانابوسیدہ ٹاٹ ہوتاہے ۔

 رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سدرة المنتہیٰ سے  آگے :

أَبُو ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یُحَدِّثُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثُمَّ عُرِجَ بِی حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوَى أَسْمَعُ فِیهِ صَرِیفَ الأَقْلاَمِ

ابوذرغفاری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاپھرمیں  ایک ہمواربلندمقام پرچڑھایاگیاوہاں  میں  نے  قلموں  کے  چلنے  کی آوازیں  سنیں  ۔ [29]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِینَ صَلَاةً فِی كُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ،  فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِینَ صَلَاةً ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِیفَ،  فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا یُطِیقُونَ ذَلِكَ فَإِنِّی قَدْ بَلَوْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَخَبَرْتُهُمْ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّی،  فَقُلْتُ: یَا رَبِّ،  خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِی،  فَحَطَّ عَنِّی خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى،  فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّی خَمْسًا

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاپھر  اللہ   تعالیٰ نے  میری امت پر(بطورتحفہ)ایک دن میں  پچاس وقت کی نمازفرض کیں  ، فرمایا(یہ عظیم تحفہ قبول کرکے  )میں  لوٹ کرآیاجب موسیٰ علیہ السلام کے  پاس پہنچاتو انہوں  نے  دریافت کیا  اللہ   نے  تمہاری امت پرکیافرض کیاہے ؟میں  نے  کہاایک دن میں  پچاس نمازیں  فرض کی گئی ہیں  ،  موسیٰ علیہ السلام نے  کہااپنے  پروردگارکی طرف پھرلوٹ جائیں  اورنمازمیں  تخفیف کی درخواست کریں  کیونکہ آپ کی امت کواتنی طاقت نہیں  ہوگی،  میں  نے  بنی اسرائیل کوآزمایا اور امتحان لیاہے ، میں  اپنے  پروردگارکے  پاس لوٹ گیا اورنمازوں  میں  تخفیف کی درخواست کی،   اللہ   تعالیٰ نے ( درخواست قبول فرمائی اور)پانچ نمازیں  گھٹادیں  ،  میں  لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے  پاس آیااورکہاکہ مجھے    اللہ   تعالیٰ نے  پانچ نمازیں  معاف فرمادی ہیں  ،

 قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا یُطِیقُونَ ذَلِكَ،  فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِیفَ، قَالَ:فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَیْنَ رَبِّی تَبَارَكَ وَتَعَالَى،  وَبَیْنَ مُوسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ،  حَتَّى قَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ،  لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَأَخْبَرْتُهُ،  فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِیفَ،  فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّی حَتَّى اسْتَحْیَیْتُ مِنْهُ

انہوں  نے  کہاآپ کی امت میں  یہ طاقت نہ ہوگی آپ پھراپنے  رب کے  پاس جائیں  اورمزیدتخفیف کرائیں  ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  اس طرح برابراپنے  پروردگار اور موسیٰ علیہ السلام کے  درمیان آتاجاتارہایہاں  تک کہ   اللہ   جل جلالہ نے  فرمایااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !ہردن اورہررات میں  پانچ نمازیں  ہیں  ، اورہرنمازمیں  دس نمازوں  کاثواب ہے ، پس اس طرح ثواب کے  اعتبار سے  پچاس نمازیں  ہوگئیں  ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاپھرمیں  اترااورموسیٰ علیہ السلام کے  پاس آیااورانہیں  خبردی، انہوں  نے  کہااپنے  پروردگارکے  پاس پھرجائیں  اورتخفیف کرائیں  ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  اپنے  پروردگار سے  کئی مرتبہ (تخفیف کی)درخواست کرچکاہوں  (اوراس نے  ہربارتخفیف فرمادی ہے  مگر)اب مجھے  جاتے  ہوئے  شرم آتی ہے ، اب میں  ان پانچ نمازوں  پرراضی ہوں  اورانہیں  تسلیم کرتاہوں  ۔ [30]

(اکثر روایات میں  ہرمرتبہ دس نمازوں  کی کمی کاذکرکیاگیاہے  اوربعض روایات میں  ہربارکچھ کم کردینے  کاذکر ہے  ،  اوربعض روایات میں  پانچ پانچ نمازیں  کم کرنے  کا ذکر ہے  )

واپسی اورسدرہ المنتہیٰ کی سیر:

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَنُودِیَ إِنِّی قَدْ أَمْضَیْتُ فَرِیضَتِی،  وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِی،  وَأَجْزِی الحَسَنَةَ عَشْرًا

سیدناانس رضی   اللہ   عنہ بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پانچ نمازوں  کوقبول کرلیاتو  اللہ   سبحانہ وتعالیٰ نے  فرمایامیں  نے  اپنافریضہ(پانچ نمازوں  کا)جاری کردیاہے  اپنے  بندوں  پرتخفیف کرچکااورمیں  ایک نیکی کا بدلہ دس گنادیتا ہوں  ۔ [31]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،  یَقُولُ:فَقَالَ الجَبَّارُ: یَا مُحَمَّدُ،  قَالَ: لَبَّیْكَ وَسَعْدَیْكَ،  قَالَ: إِنَّهُ لاَ یُبَدَّلُ القَوْلُ لَدَیَّ،  كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَیْكَ فِی أُمِّ الكِتَابِ،  قَالَ: فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِأَمْثَالِهَا،  فَهِیَ خَمْسُونَ فِی أُمِّ الكِتَابِ،  وَهِیَ خَمْسٌ عَلَیْك

اورانس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں    اللہ   تعالیٰ نے  فرمایا اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !میں  نے  کہا لَبَّیْكَ وَسَعْدَیْكَ  اللہ   تعالیٰ نے  ارشادفرمایا میرے  یہاں  وہ قول بدلانہیں  جاتا جیسا کہ میں  نے  تم پرام الکتاب میں  فرض کیاہے  اورفرمایاکہ ہرنیکی کاثواب دس گناہے  پس یہ ام الکتاب میں  پچاس نمازیں  ہیں  لیکن تم پرفرض پانچ ہی ہیں  ۔ [32]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً،  فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا،  وَمَنْ هَمَّ بِسَیِّئَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَیْئًا،  فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَیِّئَةً وَاحِدَةً

انس رضی   اللہ   عنہ بن مالک سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ نے  ارشادفرمایااور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے  مگر اس پر عمل نہ کرسکے  تو میں  اسے  ایک نیکی کا ثواب عطا کروں  گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے  تو میں  اسے  دس نیکیوں  کا ثواب عطا کروں  گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے  لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے  تو اس کے  نامہ اعمال میں  یہ برائی نہیں  لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے  سرزد ہو جائے  تو میں  اس کے  نامہ اعمال میں  ایک ہی برائی لکھوں  گا۔ [33]

وَأَعْطَیْتُكَ خَوَاتِیمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ أُعْطِهَا نَبِیًّا قَبْلَكَ

اور  اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  عرش کے  نیچے  سورۂ البقرہ کے  خاتمے  کی آیات دیں  جوپہلے  کسی نبی کونہیں  دی گئیں  ۔ [34]

عَنْ عَبْدِ اللهِ،  قَالَ: لَمَّا أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأُعْطِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِیَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ،  وَأُعْطِیَ خَوَاتِیمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ،  وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ یُشْرِكْ بِاللهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَیْئًا،  الْمُقْحِمَاتُ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعراج ہواتورسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کووہاں  تین چیزیں  دی گئیں  ، ایک توپانچ نمازیں  ، دوسری سورہ بقرہ کی اخیر آیتیں  ،  تیسرے    اللہ   نے  آپ کی امت کے  اس شخص کوبخش دیا جو   اللہ   کے  ساتھ شرک نہ کرے ، باقی تمام تباہ کرنے  والے  گناہوں  کو۔ [35]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْآیَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مَنْ قَرَأَهُمَا فِی لَیْلَةٍ كَفَتَاهُ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجورات کوسورہ البقرہ کی آخری دوآیتیں  پڑھتاہے  وہ اس کوکافی ہوجاتی ہیں  ۔  [36]

قِیلَ مَعْنَاهُ كَفَتَاهُ مِنْ قِیَامِ اللَّیْلِ وَقِیلَ مِنَ الشَّیْطَانِ وَقِیلَ مِنَ الْآفَاتِ وَیَحْتَمِلُ مِنَ الجمیع

کس سے  کافی ہوجاتی ہیں  ؟اس کی بابت امام نووی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  بعض کہتے  ہیں  قیام اللیل (نمازتہجد)سے  ، یعنی رات کو ان دو آیتوں  کاپڑھ لینانمازتہجدکاقائم مقام ہوجاتاہے  بعض کہتے  ہیں  شیطان سے  کافی ہوجاتی ہیں  ، یعنی ان کے  پڑھ لینے  سے شیطان سے  بچاؤ ہو جاتاہے  اوربعض کہتے  ہیں  تمام آفات سے  بچاؤکاسبب ہے ، امام نووی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ احتمال ہے  کہ یہ تمام ہی باتوں  کے  لئے  کافی ہوجاتی ہوں  ۔ [37]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: بَیْنَمَا جِبْرِیلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  سَمِعَ نَقِیضًا مِنْ فَوْقِهِ،  فَرَفَعَ رَأْسَهُ،  فَقَالَ: هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ،  فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ،  فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ،  فَسَلَّمَ،  وَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَیْنِ أُوتِیتَهُمَا لَمْ یُؤْتَهُمَا نَبِیٌّ قَبْلَكَ: فَاتِحَةُ الْكِتَابِ،  وَخَوَاتِیمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ،  لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِیتَهُ

ایک اورحدیث میں  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس بیٹھے  ہوئے  تھے  کہ آپ نے  اپنے  اوپربڑے  زورسے  دروازہ کھلنے  کی آوازسنی، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپناسرمبارک اوپراٹھایا، جبریل علیہ السلام نے  کہایہ آسمان کادروازہ ہے  جوآج کھولاگیاہے آج سے  پہلے  یہ کبھی نہیں  کھولاگیا، اس سے  ایک فرشتہ اتراہے  اورکہایہ وہ فرشتہ ہے  جو آج سے  پہلے  کبھی زمین پر نہیں  اترا، پس اس فرشتہ نے  سلام کیا اورکہاآپ کودونوروں  کی خوش خبری ہوجوآپ کوعطاکیے  گئے  ہیں  آپ سے  پہلے  یہ دونورکسی نبی کونہیں  دیے  گئے ، ایک سورۂ فاتحہ اور دوسرا سورہ بقرہ کی آخری آیتیں  ، ان میں  سے  جوحرف بھی آپ پڑھیں  گے  اس کااجرآپ کودیاجائے  گا۔ [38]

حَتَّى انْتَهَى بِی إِلَى سِدْرَةِ المُنْتَهَى،  وَغَشِیَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِی مَا هِیَ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ،  فَإِذَا فِیهَا حَبَایِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ

پھرجبرئیل علیہ السلام مجھے سدرة المنتیٰ کی طرف لے  چلے  ، اس پرایسے  رنگ چھارہے  تھے  جن کومیں  نہیں  سمجھتا،  پھرمجھے جنت میں  لیجایاگیا،  میں  نے  وہاں  دیکھاکہ موتیوں  کے  قبے  ہیں  اوراس کی مٹی کستوری ہے  ۔ [39]

جنت میں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  کوثرنہرکامشاہدہ فرمایا،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ،  قَالَ:أَتَیْتُ عَلَى نَهَرٍ،  حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا،  فَقُلْتُ: مَا هَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَذَا الكَوْثَرُ

انس رضی   اللہ   عنہ بن مالک فرماتے  ہیں  جب نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعراج کرائی گئی توآپ نے  فرمایامیں  ایک نہرکے  کنارے  پر پہنچا اس کے  دونوں  کناروں  پرخولدار موتیوں  کے  ڈیرے  لگے  ہوئے  تھے ، میں  نے  پوچھااے  جبریل علیہ السلام یہ نہرکیسی ہے ؟انہوں  نے  کہایہ حوض کوثرہے ۔ [40]

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ فِی الجَنَّةِ،  إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ،  حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ المُجَوَّفِ،  قُلْتُ: مَا هَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَذَا الكَوْثَرُ،  الَّذِی أَعْطَاكَ رَبُّكَ،  فَإِذَا طِینُهُ أَوْ طِیبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ

انس رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ایک دوسری روایت میں  ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  جنت کی سیر کررہاتھاکہ میں  ایک نہرپرپہنچا جس کے  دونوں  کناروں  پرخولدار موتیوں  کے  گنبدبنے  ہوئے  تھے ، میں  نے  پوچھاجبریل !یہ کیا ہے ؟ انہوں  نے  کہایہ کوثرہے  جوآپ کے  رب نے  آپ کو عطا کی ہے ،  میں  نے  دیکھاکہ اس کی خوشبویا مٹی تیز مشک جیسی تھی ۔ [41]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:حَوْضِی مَسِیرَةُ شَهْرٍ،  مَاؤُهُ أَبْیَضُ مِنَ اللَّبَنِ،  وَرِیحُهُ أَطْیَبُ مِنَ المِسْكِ،  وَكِیزَانُهُ كَنُجُومِ السَّمَاءِ،  مَنْ شَرِبَ مِنْهَا فَلاَ یَظْمَأُ أَبَدًا

عبد  اللہ   بن عمرو رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیراحوض ایک مہینے  کی مسافت کے  برابرہوگااس کاپانی دودھ سے  زیادہ سفیداوراس کی خوشبومشک سے  زیادہ اچھی ہوگی،  اوراس میں  رکھے  گئے  آبخورے  آسمان کے  ستاروں  کی تعدادکے  برابرہوں  گے جوشخص اس میں  سے  ایک مرتبہ پانی پی لے  گاوہ پھرکبھی بھی (میدان محشر میں  ) پیاسانہیں  ہوگا۔ [42]

الْكَوْثَرِ فِی الْحَوْضِ،  أَنَّ الْحَوْضَ بِجَانِبِ الْجَنَّةِ لِیَنْصَبَّ فِیهِ الْمَاءُ مِنَ النَّهر الَّذِی داخلها

اس حوض کوبھی حوض کوثر کہا جاتاہے  اس کی وجہ یہ ہے  کہ یہ حوض جنت سے  متصل جنت کے  ایک جانب ہوگااوراس میں  پانی جنت کے  اندر جو نہر کوثرہے  اس سے  آئے  گا۔ [43]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِنَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْجَنَّةَ،  فَسَمِعَ فِی جَانِبِهَا وَجْسًا فَقَالَ:یَا جِبْرِیلُ،  مَا هَذَا؟ قَالَ:هَذَا بِلَالٌ الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ جَاءَ إِلَى النَّاسِ: قَدْ أَفْلَحَ بِلَالٌ،  قَدْ رَأَیْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جب آپ معراج کی رات جنت میں  تشریف لے  گئے  توایک طرف سے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  قدموں  کی آہٹ سنی، میں  نے  پوچھاجبریل ! یہ کون ہیں  ؟ انہوں  نے  کہایہ بلال مؤذن کے  قدموں  کی آوازہے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  واپس آنے  کے  بعدلوگوں  کوبتلایابلال کامیاب ہوگیامیں  نے  اسے (جنت میں  )اس اس طرح دیکھا۔ [44]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الَّتِی أُسْرِیَ بِی فِیهَا،  أَتَتْ عَلَیَّ رَائِحَةٌ طَیِّبَةٌ،  فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّیِّبَةُ؟ فَقَالَ: هَذِهِ رَائِحَةُ مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ وَأَوْلادِهَا . قَالَ: قُلْتُ: وَمَا شَأْنُهَا؟ قَالَ: بَیْنَا هِیَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ ذَاتَ یَوْمٍ،  إِذْ سَقَطَتِ الْمِدْرَى مِنْ یَدَیْهَا،  فَقَالَتْ: بِسْمِ اللَّهِ. فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ فِرْعَوْنَ: أَبِی؟ قَالَتْ: لَا،  وَلَكِنْ رَبِّی وَرَبُّ أَبِیكِ اللَّهُ. قَالَتْ: أُخْبِرُهُ بِذَلِكَ قَالَتْ: نَعَمْ. فَأَخْبَرَتْهُ فَدَعَاهَا،  فَقَالَ: یَا فُلانَةُ،  وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَیْرِی؟ قَالَتْ: نَعَمْ،  رَبِّی وَرَبُّكَ اللَّهُ.

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب مجھے  اسراء کرایاگیاتومیرے  قریب سے  نہایت اچھی خوشبوکاگزرہوا، میں  نے  جبریل علیہ السلام سے  پوچھایہ خوشبوکیسی ہے ؟ جبریل علیہ السلام نے  کہایہ فرعون کی بیٹی کی مشاطہ اوراس کے  بچے  ہیں  ،  میں  نے  پوچھاان کے  ساتھ کیاہوا؟ جبریل علیہ السلام نے  کہاایک مرتبہ وہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کررہی تھی کہ کنگھی اس کے  ہاتھ سے  گرگئی تواس نے  بے  ساختہ بسم   اللہ   کہا، فرعون کی بیٹی نے  کہامیراباپ نا؟مشاطہ بولی میرارب ہی تمہارااورتمہارے  والدکارب ہے ،  فرعون کی بیٹی نے  کہاکیامیں  اپنے  باپ کواس کی خبردے  دوں  ؟ مشاطہ نے  کہاہاں  خبردے  دو، جب فرعون کوخبرہوئی تواس نے  مشاطہ کوبلابھیجااورکہااے  فلاں  !کیاتمہارامیرے  علاوہ بھی کوئی رب ہے ؟ مشاطہ نے  کہاہاں  میرااورتمہارارب   اللہ   ہے

فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِیَتْ،  ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ تُلْقَى هِیَ وَأَوْلادُهَا فِیهَا،  قَالَتْ لَهُ: إِنَّ لِی إِلَیْكَ حَاجَةً. قَالَ: وَمَا حَاجَتُكِ؟ قَالَتْ: أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِی وَعِظَامَ وَلَدِی فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ،  وَتَدْفِنَنَا. قَالَ: ذَلِكَ لَكِ عَلَیْنَا مِنَ الحَقِّ . قَالَ:فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَیْنَ یَدَیْهَا،  وَاحِدًا وَاحِدًا،  إِلَى أَنِ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِیٍّ لَهَا مُرْضَعٍ،  كَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ،  قَالَ: یَا أُمَّهْ،  اقْتَحِمِی،  فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ،  فَاقْتَحَمَتْ

فرعون نے  تانبے  کی ایک دیگ میں  تیل کھولانے  کاحکم دیاپھراس نے  حکم دیاکہ مشاطہ اوراس کے  بچوں  کواس کھولتے  ہوئے  تیل میں  پھینک دیاجائے ،  ان سب کوایک ایک کرکے  اس میں  پھینک دیاگیاان کے  ایک شیرخواربچے  کی باری آئی تومشاطہ ایک لمحے  کے  لئے  ٹھٹکی تووہ بچہ بول اٹھااے  امی جان!کودپڑیں  ، پیچھے  نہ ہٹیں  ، آخرت کے  عذاب کے  مقابلے  میں  دنیاکاعذاب کچھ بھی نہیں  ہے ، اوروہ کودگئی۔ [45]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،  یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مَرَرْتُ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی بِمَلَإٍ،  إِلَّا قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ،  مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  معراج کی رات فرشتوں  کے  جس گروہ کے  پاس سے  بھی گزرتاوہ یہی کہتااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم اپنی امت کوسینگی لگوانے  کاحکم دیں  ۔ [46]

(یہ ایک طریقہ علاج ہے  جس سے  فاسدخون نکل جاتاہے  اورفاسدخون کے  نکل جانے  سے  انسان صحت یاب ہوجاتاہے ، یہ بہت کامیاب طریقہ علاج تھااورنبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  زمانے  میں  یہ طریقہ رائج تھااورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  خودبھی کئی مرتبہ سینگی لگوائی ہے )

اس سلسلہ میں  صحیح بخاری وصحیح مسلم کے  علاوہ کچھ اورروایات بھی ہیں  ۔

 عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِالبُرَاقِ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا،  فَاسْتَصْعَبَ عَلَیْهِ،  فَقَالَ لَهُ جِبْرِیلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللهِ مِنْهُ،  قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا.

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے جس شب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعراج ہوئی تو آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  لئے کاٹھی ڈالاہوااورلگام لگا ہوابراق آیاجب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم اس پرسوارہونے  لگے  تواس نے  شوخی کی، جبرئیل علیہ السلام نے  کہاآج تومحمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ ایسی شوخی کرتاہے حالانکہ   اللہ   تعالیٰ کے  نزدیک ان سے  زیادہ بزرگ انسان تجھ پرسوارنہیں  ہواہے ،  انس رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایاپھربراق سے  پسینہ ٹپکنے  لگا۔ [47]

xمعراج کے  اس واقعہ میں  جبرئیل علیہ السلام برابرآپ کے  ساتھ ساتھ رہے  مگراس بات میں  اختلاف ہے  کہ کیارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کے  آگے  بیٹھے  تھے  یاپیچھے ،

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَى،  أَنَّ جِبْرِیلَ،  أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُرَاقِ،  فَحَمَلَهُ بَیْنَ یَدَیْه

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت ہے  جبرائیل علیہ السلام نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کواپنے  آگے  براق پرسوارکرلیا۔ [48]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: أُتِیتُ بِالْبُرَاقِ فَرَكِبْتُ خَلْفَ جِبْرِیلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما کی روایت میں  ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا براق کولایاگیااورجبرئیل علیہ السلام آگے  بیٹھے  اورانہوں  نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کواپنے  پیچھے  ردیف کے  طورپربٹھالیا ۔ [49]

لِحُذَیْفَةَ بْنِ الیَمَانِ: قَدْ أُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِیلَةِ الظَّهْرِ،  مَمْدُودَةٍ. هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ،  فَمَا زَایَلاَ ظَهْرَ البُرَاقِ حَتَّى رَأَیَا الجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الآخِرَةِ أَجْمَعَ

حذیفہ رضی   اللہ   عنہ کی روایت میں  ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس ایک لمبی پیٹھ والا جانور لایا گیا اس کا قدم وہاں  پڑتا جہاں  اس کی نظر ہوتی اور پھر وہ دونوں  جنت دوزخ اور آخرت کے  متعلق ہونے  والے  وعدوں  کی چیزیں  دیکھنے  تک اس کی پیٹھ سے  نہیں  اترے  پھر واپس ہوئے ۔ [50]

عَنْ حُذَیْفَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِالْبُرَاقِ،  وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْیَضُ طَوِیلٌ،  یَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ ،  قَالَ:فَلَمْ یُزَایِلْ ظَهْرَهُ هُوَ وَجِبْرِیلُ حَتَّى أَتَیَا بَیْتَ الْمَقْدِسِ

حذیفہ رضی   اللہ   عنہ فرماتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس ایک لمبی پیٹھ والا جانور لایا گیاوہ اپنا قدم وہاں  رکھتا تھا جہاں  تک اس کی نگاہ پڑتی تھی،  پھر وہ دونوں  جب تک بیت المقدس نہیں  پہنچ گئے  اس کی پیٹھ سے  نہیں  اترے ۔ [51]

یہ روایت صرف یہ بتاتی ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اور جبرائیل دونوں  براق پرسوارتھے  ، اس میں  یہ تصریح نہیں  ہے  کہ دونوں  میں  سے  کون آگے  تھااورکون پیچھے ۔

 حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثُمَّ دَخَلْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِیَ الْأَنْبِیَاءُ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ،  فَقَدَّمَنِی جِبْرِیلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا پھرمیں  بیت المقدس میں  پہنچاوہاں  تمام پیغمبراکٹھاکیے  گئے ، جبرئیل علیہ السلام نے  میراہاتھ پکڑکرمجھے  آگے  کردیامیں  سب کاامام بنا۔ [52]

بعض ائمہ کی رائے  میں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  بیت المقدس میں  نمازآسمان سے  واپسی پرپڑھی، انبیاء بھی آپ کے  ساتھ ہی آسمانوں  سے  اترے  اورآپ کی اقتدامیں  نمازپڑھی ،  حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   نے  اسی دوسری رائے  کوترجیح دی ہے ،  جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ   اللہ   کے  نزدیک آسمانوں  پرجانے  سے  پہلے  نماز پڑھائی، اوروہ اس کے  یہ دلائل پیش کرتے  ہیں

 قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ أَنَا وَجِبْرِیلُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَصلیت ثمَّ أتیت بالمعراج

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  اورجبریل علیہ السلام بیت المقدس میں  داخل ہوئے  وہاں  ہم نے  نمازپڑھی اورپھرمعراج پرگئے  ۔ [53]

وَفِی رِوَایَة بن إِسْحَاقَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَمَّا فَرَغْتُ مِمَّا كَانَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ أُتِیَ بِالْمِعْرَاجِ

اورابن اسحاق کی روایت میں  ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوفرماتے  ہوئے  سناجب ہم بیت المقدس میں  نمازسے  فارغ ہوئے  تو معراج پرگئے ۔ [54]

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِیهِ نَحْوَهُ وَزَادَثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَعَرَفْتُ النَّبِیِّینَ مِنْ بَیْنِ قَائِمٍ وَرَاكِعٍ وَسَاجِدٍ ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاہم مسجدبیت المقدس میں  داخل ہوئے میں  نے  دیکھاکہ انبیاء وہاں  جمع ہیں  اورقیام ، رکوع اور سجود میں  مصروف ہیں  پھرنمازکے  لیے  جماعت کھڑی کی گئی اورمیں  نے  امامت کرائی۔ [55]

حَدَّثَنَا أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى اجْتَمَعَ نَاسٌ كَثِیرٌ،  ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ وَأُقِیمَتِ الصَّلَاةُ. قَالَ:فَقُمْنَا صُفُوفًا نَنْتَظِرُ مَنْ یَؤُمُّنَا،  فَأَخَذَ بِیَدِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ،  فَقَدَّمَنِی فَصَلَّیْتُ بِهِمْ. فَلَمَّا انْصَرَفْتُ قَالَ جِبْرِیلُ: یَا مُحَمَّدُ،  أَتَدْرِی مَنْ صَلَّى خَلْفَكَ؟ قَالَ:قُلْتُ: لَا. قَالَ: صَلَّى خَلْفَكَ كُلُّ نَبِیٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.قَالَ:ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی جِبْرِیلُ فَصَعِدَ بِی إِلَى السَّمَاءِ،

انس رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا ہمیں  وہاں  پہنچے  تھوڑی ہی دیرہوئی تھی یہاں  تک کہ بہت لوگ جمع ہوگئے  پھرموذن نے  اذان دی اورسب لوگ صفیں  باندھ کر نمازکے  لیے  کھڑے  ہوئے  اوردیکھ رہے  تھے  کہ کون امامت کرائے  گاکہ جبرائیل علیہ السلام نے  میراہاتھ پکڑکرآگے  بڑھادیااورمیں  نے  نمازپڑھائی، جب میں  نمازسے  فارغ ہواتوجبریل علیہ السلام نے  پوچھااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !کیاآپ کومعلوم ہے  آپ کے  پیچھے  کن لوگوں  نے  نمازپڑھی ہے ؟ فرمایامیں  نے  کہانہیں  میں  نہیں  جانتا،  جبریل علیہ السلام نے  کہاآپ کے  پیچھے  ان تمام انبیاء نے  نمازاداکی ہے  جنہیں    اللہ   عزوجل نے  مبعوث فرمایاتھا،  فرمایاپھرجبریل علیہ السلام نے  میراہاتھ تھامااورہم آسمان کی طرف روانہ ہوئے ۔ [56]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ:لَمَّا أَتَى النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ یُصَلِّی فَإِذَا النَّبِیُّونَ أَجْمَعُونَ یُصَلُّونَ مَعَهُ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جب نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم مسجداقصی میں  پہنچے  تو نمازکے  لیے  کھڑے  ہوئے  اورتمام انبیاء نے  بھی آپ کے  ساتھ نمازپڑھی۔ [57]

قَالَ عِیَاضٌ یَحْتَمِلُ أَنْ یَكُونَ صَلَّى بِالْأَنْبِیَاءِ جَمِیعًا فِی بَیْتِ الْمُقَدّس ثمَّ صعد مِنْهُم إِلَى السَّمَاوَاتِ

قاضی عیاض رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ ممکن ہے  کہ تمام انبیاء نے  بیت المقدس میں  نمازاداکی ہواورپھرآپ آسمانوں  کی طرف تشریف لے  گئے  ہوں  ۔ [58]

وَأَمَّا الَّذِینَ صَلَّوْا مَعَهُ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیَحْتَمِلُ الْأَرْوَاحَ خَاصَّةً وَیَحْتَمِلُ الْأَجْسَادَ بِأَرْوَاحِهَا وَالْأَظْهَرُ أَنَّ صَلَاتَهُ

انبیاء نے  بیت المقدس میں  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کی اقتدامیں  نماز کس طرح پڑھی ان کی روحوں  نے  نمازپڑھی یا  اللہ   تعالیٰ نے  ارواح سمیت ان کے  اجسادکووہاں  حاضرکیاتھا؟دونوں  باتیں  ممکن ہیں  ،   اللہ   کے  لیے  کوئی بات مشکل نہیں  ۔ [59]

رُؤْیَةُ الْأَنْبِیَاءِ فِی السَّمَاوَاتِ مَعَ أَنَّ أَجْسَادَهُمْ مُسْتَقِرَّةٌ فِی قُبُورِهِمْ بِالْأَرْضِ وَأُجِیبَ بِأَنَّ أَرْوَاحَهُمْ تَشَكَّلَتْ بِصُوَرِ أَجْسَادِهِمْ أَوْ أُحْضِرَتْ أَجْسَادُهُمْ لِمُلَاقَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہی دونوں  باتیں  انبیاء کے  ساتھ آسمانی ملاقاتوں  میں  ممکن ہیں  کیونکہ   اللہ   کے  لیے  کوئی بات ناممکن نہیں  ، تاہم زیادہ واضح بات یہی ہے  کہ ملاقاتیں  صرف روحوں  کے  ساتھ نہیں  ہوئیں  بلکہ   اللہ   تعالیٰ نے  اپنی قدرت سے  مذکورہ انبیاء کوان کے  جسموں  سمیت حاضرکیاتھا، اسی طرح نمازبھی صرف روحوں  نے  نہیں  بلکہ ارواح سمیت ان کے  جسموں  نے  ہی پڑھی ہو گی۔ [60]

x انس رضی   اللہ   عنہ کہتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  سامنے  تین پیالے  لائے  گئے  ایک پیالہ میں  پانی، دوسرے  میں  شراب تھی جبکہ تیسرے  پیالے  میں  دودھ تھا۔

وَأُتِیتُ بِثَلَاثَةِ أَقْدَاحٍ: قَدَحٌ فِیهِ لَبَنٌ , وَقَدَحٌ فِیهِ عَسَلٌ , وَقَدَحٌ فِیهِ خَمْرٌ

میرے  پاس تین پیالے  لائے  گئے  ایک پیالے  میں  دودھ دوسرے  میں  شہداورتیسرے  میں  شراب تھی۔ [61]

ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ سے  جوروایت نقل کی ہے  اس میں  صرف دو برتنوں  کا ذکر ہے  ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، فَقَالَ نَبِیُّ اللَّهِ:ثُمَّ أُتِیتُ بإناءَیْنِ أحَدُهُما فِیهِ لبَنٌ،  والآخرُ فیه خَمْرٌ

ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے   اللہ   کے نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میرے  سامنے  دوپیالے  پیش کیے  گئے  ایک میں  دودھ جبکہ دوسرے  میں  پانی تھا۔ [62]

صحیح مسلم میں  انس رضی   اللہ   عنہ کی روایت ، مسنداحمداورصحیح بخاری میں  ابوہریرہ کی روایت میں  دوبرتنوں  کاذکرہے  مگروہ کہتے  ہیں  کہ ایک میں  دودھ تھااوردوسرے  میں  شراب تھی ۔

أُتِیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِهِ بِإِیلِیَاءَ بِقَدَحَیْنِ مِنْ خَمْرٍ،  وَلَبَنٍ

معراج کی رات کورسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس دوپیالے  لائے  گئے  ایک میں  شراب اوردوسرے  میں  دودھ تھا۔ [63]

شداد رضی   اللہ   عنہ بن اوس کی روایت میں  بھی دوبرتنوں  کی ہے  مگروہ کہتے  ہیں  کہ ایک میں  دودھ تھااوردوسرے  میں  شہد۔

ثُمَّ أُتِیتُ بِإِنَاءَیْنِ فِی أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِی الْآخَرِ عَسَلٌ

پھرمیرے  پاس دوبرتن لائے  گئے  ایک میں  دودھ تھااوردوسرے  میں  شہد۔ [64]

اس کے  بخلاف مسند احمد اورصحیح بخاری کی روایت ہے  کہ سدرہ المنتہیٰ کے  پاس یابیت المعمورکے  پاس رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  سامنے  تین برتن پیش کیے  گئے  جن میں  سے  ایک میں  شراب دوسرے  میں  دودھ اورتیسرے  میں  شہدتھا۔

ثُمَّ أُتِیتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ،  وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ،  وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ

پھرمیرے  پاس تین پیالے  لائے  گئے  ان میں  ایک میں  شراب، دوسرے  میں  دودھ اورتیسرے  میں  شہدتھا۔ [65]

لیکن تمام روایات اس پرمتفق ہیں  کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دودھ ہی کاانتخاب فرمایاتھا۔

وَلَمْ یَحِنْ وَقْتٌ إِذْ ذَاكَ إِلَّا صَلَاةُ الْفَجْرِ فَتَقَدَّمَهُمْ إِمَامًا بِهِمْ عَنْ أَمْرِ جِبْرِیلَ فِیمَا یَرْوِیهِ عَنْ رَبِّهِ عزوجل،  فَاسْتَفَادَ بَعْضُهُمْ مِنْ هَذَا أَنَّ الْإِمَامَ الْأَعْظَمَ یُقَدَّمُ فِی الْإِمَامَةِ عَلَى رَبِّ الْمَنْزِلِ حَیْثُ كَانَ بَیْتُ الْمَقْدِسِ مَحَلَّتَهُمْ وَدَارَ إِقَامَتِهِمْ،  ثُمَّ خَرَجَ مِنْهُ فَرَكِبَ الْبُرَاقَ وَعَادَ إِلَى مَكَّةَ فَأَصْبَحَ بِهَا وَهُوَ فِی غَایَةِ الثَّبَاتِ

حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  اس سے  ثابت ہواکہ آپ کے  بیت المقدس پہنچنے  پرانبیاء سے  پہلے  آپ کاتعارف کرایا گیا اوراس کے  بعدانہوں  نے  آپ کی اقتداء میں  نماز فجر ادا کی ، البتہ کچھ لوگ جن میں  امام اعظم(ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   )بھی شامل ہیں  کہتے  ہیں  کہ انبیاء نے  نمازفجرآپ کی اقتداء میں  اس وقت اداکی ہوگی جب آپ سیرسماوات سے  بیت المقدس واپس تشریف لے  آئے  ہوں  گے  کیونکہ نمازفجرکے  بعدہی آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم براق پرسوارہوکرواپس مکہ مکرمہ تشریف لائے  تھے جب صبح ہوگئی تھی، یہ بات واقعی بڑی مدلل اورزیادہ قرین قیاس ہے ۔ [66]


جہنم کے  چندمشاہدات

غیبت کرنے  والوں  کاانجام بد:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا عُرِجَ بِی مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ،  فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ،  قَالَ : هَؤُلَاءِ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ،  وَیَقَعُونَ فِی أَعْرَاضِهِمْ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب مجھے  معراج کرائی گئی تومیراگزرایک ایسی قوم پرہواجن کے  ناخن تانبے  کے  تھے  جواپنے  چہروں  اورسینوں  کو چھیل رہے  تھے ، میں  نے  پوچھااے جبریل !یہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے  کہایہ وہ لوگ ہیں  جولوگوں  کاگوشت کھاتے  اوران کی عزتوں  سے  کھیلتے  تھے ۔ [67]

لوگوں  کاگوشت کھانے  سے  مرادغیبت کرناہے  یعنی پیٹھ پیچھے  لوگوں  کے  عیوب بیان کرنا، اس غیبت کو قرآن کریم میں  اپنے  مرداربھائی کاگوشت کھانے  سے  تعبیر کیا گیا ہے  ،  جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا  ۭ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۔ ۔ ۔ [68]

ترجمہ: اورتم میں  سے  کوئی کسی کی غیبت نہ کرے  کیاتمہارے  اندرکوئی ایساہے  جواپنے  مرے  ہوئے  بھائی کاگوشت کھاناپسندکریگا؟دیکھوتم خوداس سے  گھن کھاتے  ہو۔

بے  عمل خطباء کاعبرت ناک انجام:

عَن انس ان النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم قَالَ لَیْلَة اسری بِی مَرَرْت بناس تقْرض شفاههم بمقاریض من نَار كلما قرضت عَادَتْ فَقلت من هَؤُلَاءِ یَا جبرئیل قَالَ هَؤُلَاءِ خطباء امتك یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ

انس رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  نے  معراج کی رات کچھ لوگوں  کودیکھاکہ ان کے  منہ آگ کی قینچیوں  سے  کاٹے  جارہے  ہیں  اورپھروہ ویسے  ہی ہوجاتے  ہیں  میں  نے  پوچھااے جبریل!یہ کون لوگ ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے  کہایہ آپ کی امت کے  وہ خطیب لوگ ہیں  جولوگوں  کوتوبھلائیوں  کاحکم دیتے  ہیں  اورخودان پرعمل نہیں  کرتے ، حالانکہ وہ کتاب بھی پڑھتے  ہیں  پس وہ نہیں  سمجھتے ۔ [69]

[1] صحیح مسلم کتان الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۱۵

[2] صحیح مسلم کتان الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱ ،مسنداحمد۱۲۵۰۵

[3] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۱۵۷

[4] صحیح مسلم کتان الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱ ،مسندابی یعلی ۳۳۷۵،شرح السنة للبغوی ۳۷۵۳

[5] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ ذِكْرِ الْمَسِیحِ ابْنِ مَرْیَمَ، وَالْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۴۳۰

[6] صحیح مسلم کتان الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[7] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷

[8] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۱۵،صحیح بخاری کتاب الصلوٰةبَابٌ: كَیْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِی الإِسْرَاءِ؟۳۴۹،مسنداحمد ۲۱۲۸۸ ، صحیح ابن حبان ۷۴۰۶،مسندابی یعلی ۳۶۱۶،شرح السنة للبغوی ۳۷۵۴

[9]صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷

[10] صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۸

[11] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۲۴

[12] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق باب ذکرالملائکة۳۲۰۷

[13] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[14] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷

[15] مریم: 57

[16] صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[17] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷

[18]صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۶

[19] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷، صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۱۶، مسنداحمد ۱۲۵۰۵

[20] جامع ترمذی کتاب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ التَّسْبِیحِ وَالتَّكْبِیرِ وَالتَّهْلِیلِ وَالتَّحْمِیدِ۳۴۶۲

[21] مسنداحمد۲۳۵۵۲

[22] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی ذِكْرِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى ۴۳۱،سنن نسائی کتاب الصلوٰة فَرْضُ الصَّلَاةِ , وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِینَ فِی إِسْنَادِ حَدِیثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ , وَاخْتِلَافِ أَلْفَاظِهِمْ فِیهِ ۴۵۲

[23] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱ ،مسند احمد ۱۲۵۰۵

[24] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۱۶

[25] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ المِعْرَاجِ۳۸۸۷، مسند احمد ۱۷۸۳۵،صحیح ابن حبان ۴۸،شرح السنة للبغوی ۳۷۵۲

[26] مسنداحمد۳۷۸۰

[27] النجم ۱۳تا۱۸

[28] التکویر۱۹تا۲۳

[29] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ ذِكْرِ إِدْرِیسَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ ۳۳۴۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ عن انس ۴۱۵

[30] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[31] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۷

[32] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِهِ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِیمًا ۷۵۱۷

[33] صحیح مسلم کتاب ایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[34] مسندالبزار۹۵۱۸،تفسیرابن کثیر۳۷؍۵

[35] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی ذِكْرِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى۴۳۱

[36] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ فَضْلِ الْفَاتِحَةِ، وَخَوَاتِیمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَالْحَثِّ عَلَى قِرَاءَةِ الْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ ۱۸۷۸

[37] شرح النووی علی مسلم ۹۱،۹۲؍۶

[38] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ فَضْلِ الْفَاتِحَةِ، وَخَوَاتِیمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَالْحَثِّ عَلَى قِرَاءَةِ الْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ۱۸۷۷

[39] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابٌ كَیْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِی الإِسْرَاءِ؟۳۴۹،صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ عن انس ۴۱۵

[40] صحیح بخاری کتاب التفسیر سُورَةُ إِنَّا أَعْطَیْنَاكَ الكَوْثَرَ ۴۹۶۴

[41] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ فِی الحَوْضِ ۶۵۸۱

[42] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ فِی الحَوْضِ ۶۵۷۹

[43] فتح الباری۴۶۶؍۱۱

[44] مسند احمد ۲۳۲۴،تفسیرابن کثیر ۲۷؍۵

[45] مسنداحمد۲۸۲۱

[46] سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْحِجَامَةُ ۳۴۷۹

[47]جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۱۳۱، مسند احمد ۱۲۶۷۲، مسندالبزار۷۲۵۵، صحیح ابن حبان۴۶،مسندابی یعلی ۳۱۸۴،تفسیرابن کثیر۹؍۵،تفسیرطبری۳۴۸؍۱۷

[48] المعجم الاوسط۳۸۷۹

[49] مستدرک حاکم۸۷۹۳، مسند ابی یعلی۵۰۳۶

[50]جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ۳۱۴۷

[51] مسنداحمد۲۳۳۴۳

[52] سنن نسائی کتاب الصلوٰة باب فَرْضُ الصَّلَاةِ , وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِینَ۴۵۴،تفسیرابن کثیر۱۲؍۵

[53] تفسیرابن کثیر۲۲؍۵

[54] فتح الباری باب المعراج ۲۰۴؍۷

[55]فتح الباری ۲۰۸؍۷

[56] تفسیرابن کثیر۱۳؍۵

[57] مسند احمد ۲۳۲۴

[58]فتح الباری۲۰۸؍۷

[59] فتح الباری باب المعراج۲۰۹؍۷

[60]فتح الباری باب المعراج ۲۱۰؍۷

[61] المعجم الصغیرللطبرانی۱۱۳۹

[62] تفسیرطبری۳۴۴؍۱۷

[63] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ المَسْجِدِ الحَرَامِ۴۷۰۹،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱،مسنداحمد۱۲۵۰۵،السنن الکبری للبیہقی۱۷۳۳۱

[64] مسندالبزار۳۴۸۴

[65] مسنداحمد۱۷۸۳۵،صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ المِعْرَاجِ ۳۸۸۷

[66] البدایة والنہایة۱۳۹؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۱۰۲؍۲

[67] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی الْغِیبَةِ ۴۸۷۸،مسنداحمد۱۳۳۴۰، الفتح الربانی من فتاوى الإمام الشوكانی ۸۷۰؍۲

[68] الحجرات۱۲

[69] الخصائص الکبری ۲۵۹؍۱،السیرة الحلبیة۵۴۶؍۱

Related Articles