بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ مریم

اس سورہ کے پہلے دورکوعوں  میں  زکریا  علیہ السلام ،یحییٰ   علیہ السلام ،عیسٰی  علیہ السلام  اوران کی والدہ مریم کے واقعات بتاکرمسلمانوں  کوحق کے برملااظہارکاکہاگیااورتیسرے رکوع میں  حالات زمانہ کی مناسبت سے اہل مکہ کو ابراہیم  علیہ السلام  کی توحیدپرستی کاتفصیلی واقعہ بتا کر سمجھایاگیاکہ تم بھی محمدرسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ویسے ہی دشمن ہوجیسے ابراہیم کی قوم ان کی دشمن تھی پھران کی دشمنی کا کیاانجام ہوا،انجام کارتو ابراہیم  علیہ السلام  ہی کوکامیابی اور غلبہ حاصل ہوا،اسی طرح تمہاری ہرطرح کی تدابیراوردشمنی کے باوجودغلبہ اورتسلط مسلمانوں  ہی کوملے گااورتم کف افسوس ہی ملتے رہ جاؤ گے،دوسری طرف مہاجرین کویہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم  علیہ السلام  ہجرت کرکے تباہ ہونے کے بجائے سربلندہوئے ایساہی نیک انجام تمہارا انتظار کررہا ہے ،چوتھے رکوع میں کئی انبیاء کا ذکر کرکے بتایا گیا کہ یہ کوئی نئے نبی نہیں  بلکہ جس تعلیمات کولے کرپہلے نبی مبعوث ہوتے رہے اوراس تعلیم کوان کے دنیا دارلوگوں  نے بگاڑ دیا یہ بھی اسی لڑی کے آخری موتی ہیں  اوروہی دین لائے ہیں  ،سورہ کے آخر ی دوکوعوں میں  کفارومشرکین مکہ کے اعتقادی ونظریاتی گمراہیوں  پراصلاحی اندازاختیارکرتے ہوئے سخت تنقیدکی گئی اورمسلمانوں  کوملت ابراہیمی ہونے کی نویدسنائی گئی ، آخرت کے ضمن میں  بتاگیاکہ قیامت کاایک وقت مقررہے جس میں  ہرانس و جن نے تنہارب کے حضور پیش ہوکراپنے اعمال کاخودہی جواب دیناہے ،رب کے مخلص بندے بھی تنہاہی آئیں  گے مگررب کریم ان کے دلوں  میں  محبت ویگانگت ڈال دے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:   إِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَقَالَ: إِنِّی أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَیُحِبُّهُ جِبْرِیلُ ،ثُمَّ یُنَادِی فِی السَّمَاءِ فَیَقُولُ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ،فَیُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، قَالَ ثُمَّ یُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِی الْأَرْضِ ،وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَیَقُولُ: إِنِّی أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ، قَالَ فَیُبْغِضُهُ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِی فِی أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللهَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ قَالَ: فَیُبْغِضُونَهُ ،ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِی الْأَرْضِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابیشک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتاہے توجبرائیل  علیہ السلام  کوبلاکراطلاع دیتاہے کہ میں  اپنے فلاں  بندے سے محبت کرتا ہوں  تم بھی اس سے محبت رکھو،  فرمایاجبرائیل   علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتاہے، پھرآسمانوں  میں  اعلان کردیتا ہے کہ اللہ فلاں  بندے سے محبت کرتاہے تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ آسمانوں  والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ،پھرزمین والوں  کے دلوں  میں  بھی اس کی قبولیت اور محبت رکھ دی جاتی ہے، اس کے برعکس جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے توجبرائیل  علیہ السلام  کوبلاکراطلاع دیتاہے کہ میں  فلاں  بندے سے نفرت کرتاہوں  تم بھی اس سے نفرت کرو فرمایاجبرائیل  علیہ السلام اس سے نفرت کرنے لگتاہے،پھرآسمانوں  میں  اعلان کر دیتا ہےکہ اللہ فلاں  بندے سے نفرت کرتاہےتم بھی اس سے نفرت کروچنانچہ وہ سب نفرت کرنے لگتے ہیں ،   پھر اس نفرت کا اثر زمین پربھی ہوتاہے اورزمین والے بھی اس سے نفرت شروع کردیتے ہیں ۔[1]

اپنی آخری کتاب قرآن مجیدکے بارے میں  فرمایاکہ ہم نے اسے مشکل نہیں  بلکہ بالکل آسان عام فہم بنا کر کہ ہرپڑھا لکھا اور جاہل شخص اسے سمجھ سکے اوراس پرعمل بھی کرسکے نازل کیاہے ،اوررب کے موحدبندوں  کوجنت کی خوشخبری دی گئی ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

كهیعص ‎﴿١﴾‏ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِیَّا ‎﴿٢﴾‏ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِیًّا ‎﴿٣﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِیًّا ‎﴿٤﴾‏ وَإِنِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَكَانَتِ امْرَأَتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْكَ وَلِیًّا ‎﴿٥﴾‏ یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ‎﴿٦﴾‏ یَا زَكَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ یَحْیَىٰ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ‎﴿٧﴾‏ (مریم)
’’کھیعص ،یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی کہ اے میرے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں رہا، مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرماجو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کا بھی جانشین اور میرے رب ! تو اسے مقبول بندہ بنالے،اے زکریا ! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا۔‘‘

زکریا علیہ السلام  کادعاکرنا:

ک،ہ،ی،ع، ص،زکریا  علیہ السلام ہارون  علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:كَانَ زَكَرِیَّا نَجَّارً

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایازکریا   علیہ السلام  بڑھئی تھے اوریہی ان کاذریعہ آمدنی تھا۔[2]

مریم زکریا  علیہ السلام کے قبیلہ سے ایک نیک کردار اور عبادت گزار لڑکی تھیں  اورہیکل کے ایک ہجرہ میں  اللہ کی عبادت میں  منہمک رہتی تھیں ،قبیلہ کے سردارکی حیثیت سے زکریا   علیہ السلام مریم کے کفیل تھےاور ان کی خیروعافیت وضروریات معلوم کرنے اورتربیت کے لیے وہاں  جاتے رہتے تھے ،وہ جب بھی ان کے پاس پہنچتے تویہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ ان کے پاس بے موسمی پھل وغیرہ موجودہوتے ،زکریا  علیہ السلام  مریم سے ازراہ تعجب وحیرت پوچھتے اے مریم! تیرے پاس یہ بے موسمی پھل وغیرہ کہاں  سے آئے ہیں  ؟ انہوں  نے مختصر جواب دیایہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں ،بیشک اللہ جسے چاہے بے شمارروزی اوررزق عطافرماتاہے۔

 وَّكَفَّلَهَا زَكَرِیَّا۝۰ۭۚ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ۝۰ۙ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا۝۰ۚ قَالَ یٰمَرْیَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا۝۰ۭ قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۳۷ [3]

ترجمہ: اور زکریا  علیہ السلام کواس کاسرپرست بنادیا،زکریاجب کبھی اس کے پاس محراب میں  جاتاتواس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کاسامان پاتا،پوچھتامریم!یہ تیرے پاس کہاں  سے آیا؟وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیاہےاللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتاہے۔

زکریا   علیہ السلام ابھی تک اولادکی نعمت سے محروم تھے ،مریم پراللہ کافضل وکرم دیکھ کرقدرتی طورپرانہیں  خیال ہواکہ جو رب بغیر کسی سبب کے بے موسمی پھل وغیرہ مریم کومہیاکرسکتاہے تو وہ مجھے اس بڑھاپے میں  اولادبھی عطاکرسکتاہے،اللہ کے لیے کوئی امرمحال نہیں ، چنانچہ زکریا  علیہ السلام  کے دست مبارک بے اختیاردعاکے لئے( جومومن کاایک ہتھیارہے) بارگاہ الہٰی میں  اٹھ گئے اور بڑی ہی خفیہ آوازسے(رب کریم ہر آواز کو سنتا ہے چاہے وہ بلندہویاسرگوشی میں  کی گئی ہو)رب کے حضورالتجافرمائی ایک تواس لئے کہ  اللہ تعالیٰ کوسرگوشی میں  دعامانگنا زیادہ پسندہے کیوں  کہ اس میں  تضرع اورخشوع وخضوع زیادہ ہوتاہے اس لیے قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے، دوسرے اس وجہ سے کہ لوگ انہیں  بیوقوف نہ قرار دے دیں کہ یہ بڈھااب بڑھاپے میں  اولادکی چاہت کر رہاہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہوچکے ہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِیًّا}أَیْ سِرًّا، وَإِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ الْقَلْبَ النَّقِیَّ،وَیَسْمَعُ الصَّوْتَ الْخَفِیَّ

قتادہ رحمہ اللہ  نے ’’جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعاکی تھی۔‘‘کے بارے میں  بیان کیاہے بے شک اللہ تعالیٰ تقوے والے دل کوجانتا  اورپوشیدہ آوازکوسنتاہے۔[4]

چنانچہ التجاکی اے میرے پروردگار!میں  بہت بوڑھاہوگیاہوں  ،بڑھاپا مجھ پرپوری طرح مسلط ہوچکاہے جس سے میری ہڈیاں  بھی کمزورپڑگئی ہیں  اوراسی طرح میراسربھی بالوں  کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے اوراس کے ساتھ میری بیوی بھی بانجھ ہے اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ،اس بڑھاپے میں  جبکہ کسی بھی لمحے مجھے موت آسکتی ہے ،اگر میراکوئی ولی ، وارث میری مسند وعظ و ارشاد نہیں  سنبھالے گاتو میرے قرابت داروں  میں  اور توکوئی دینی اوراخلاقی حیثیت سے اس مسندکااہل نہیں  ، کہیں میرے بعد میرے قرابت داربھی تیرے راستے سے گریزوانحراف نہ اختیار کر لیں  ، پھر پرامید ہو کر فرماتے ہیں میں  اس دنیا کے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولادمانگ رہا ہوں  توبغیرکسی مادی اسباب کے جو چاہے کرسکتاہے، پھررب کے حضور شکرگزاری اور بڑے ہی مان سے فرماتے ہیں اے میرے پروردگار! تیرے خزانوں  میں  کوئی کمی نہیں  ہے جن سے توہروقت اپنے سیدھے ہاتھ سے اپنی مخلوقات میں  بانٹارہتاہے اورمیں  تجھ سے کوئی بھی چیزمانگ کرکبھی خائب وخاسرنہیں  رہابلکہ تومجھے ہمیشہ عزت واکرام سے نوازتااورمیری دعاکوقبول فرماتارہاہے ،تیرالطف وکرم ہمیشہ مجھ پرسایہ فگن رہا اور تیرے احسانات مجھ تک پہنچتے رہے ،اب تواپنے فضل خاص سے مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ ،نیک اولاد عطا فرماجومیرابھی وارث ہو اور وہ آل یعقوب  علیہ السلام  کابھی جانشین بن کر دینی ذمہ داریوں  کابوجھ اٹھاسکے ،جیسے فرمایا

وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَوَ۔۔۔۝۱۶  [5]

ترجمہ:اور داؤد علیہ السلام  کا وارث سلیمان علیہ السلام  ہوا۔

اوراے میرے رب ! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو بہت ہی نیک وصالح ہو اورتیرے حضور محبت وعقیدت سے جھکارہے ،بیشک دعاؤ ں  ،فریادوں  اورالتجاؤ ں  کوسننے اور انہیں  پورا کرنے والا تیرے سوااورکوئی نہیں ، دعاکرنے کے بعد وہ اپنے حجرے میں  جاکرجس میں  وہ رب کی عبادت کرتے تھے رب کی یادکے لئے رب کے حضوراپنی پیشانی ٹیکنے لگے ،اللہ جوفریادوں ،پکاروں  اوردعاؤ ں  کوسنتااورقبول فرماتاہے اورجواس سے نہیں  مانگتااس سے ناراض ہوتاہےاس نے زکریا  علیہ السلام کی التجاکوبھی شرف قبولیت بخشاچنانچہ جب وہ اپنے ہجرے میں  نمازکی حالت میں  تھےاس وقت فرشتوں  نے انہیں  آوازدی اورکہااے زکریا علیہ السلام !تیرے پروردگارنے تجھے ایک لڑکے کی یقینی خوشخبری دی ہےاوراس کے ساتھ ان کانام بھی تجویزفرمادیاکہ اس کانام یحییٰ  علیہ السلام  ہوگااورمزیدمدح وفضیلت میں  کہاکہ اس نام کاکوئی شخص دنیامیں  پیدانہیں  ہوا،وہ نبوت سے سرفراز کیا جائے گاسرداری اور بزرگی کی شان والاہوگااوراللہ تعالیٰ کے کلمہ (عیسیٰ   علیہ السلام )کی تائیدوتصدیق کرے گا،گناہوں  سے پاک اوران کے قریب بھی نہیں  پھٹکے گا اور صالحین میں  شمارکیاجائے گا،جیسے فرمایا

ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ۝۰ۚ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً۝۰ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَاۗءِ۝۳۸فَنَادَتْہُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَھُوَقَاۗىِٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ۝۰ۙ اَنَّ اللہَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۳۹ [6]

ترجمہ: ( یہ دیکھ کر ) زکریا نے اپنے رب سے دعا کی اے میرے رب ! اپنی جناب سے مجھے نیک اولاد عنایت فرما، بلاشبہ تو دعاؤں  کا بڑا سننے والا ہے ،جواب میں  فرشتوں  نے آواز دی ، جب کہ وہ محراب میں  کھڑا نماز پڑھ رہا تھا کہ اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے ، وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا اس میں  سرداری و بزرگی کی شان ہوگی ،کمال درجہ کا ضابط ہوگا، نبّوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں  شمار کیا جائے گا۔

بھائیو! غورکرو پیرفقیر یااولیا  اللہ  تو کیاکسی کواولادبخشیں  گے نبی بھی دوسروں  کواولادبخشنے پرقادر نہ تھے بلکہ خود اللہ  قادر مطلق کے حضور اولادکے لئے ہاتھ پھیلانے والے تھے ۔

‏ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ یَكُونُ لِی غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِی عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا ‎﴿٨﴾‏ قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَیْئًا ‎﴿٩﴾‏ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِی آیَةً ۚ قَالَ آیَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ‎﴿١٠﴾‏ فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَیْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِیًّا ‎﴿١١﴾‏یَا یَحْیَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَیْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِیًّا ‎﴿١٢﴾‏ وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِیًّا ‎﴿١٣﴾‏ وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ وَلَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ‎﴿١٤﴾‏ وَسَلَامٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ‎﴿١٥﴾‏ (مریم)
’’زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگاجب کہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں ،ارشاد ہوا کہ وعدہ اسی طرح ہوچکا، تیرے رب نے فرما دیا کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کرچکا ہوں، کہنے لگے میرے پروردگار! میرے لیے کوئی علامت مقرر فرما دے، ارشاد ہوا کہ تیرے لیے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا، اب زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشارہ کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو ،اے یحیٰی ! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے، اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی، اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی، وہ پرہیزگار شخص تھا، اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا تھا وہ سرکش اور گناہ گار نہ تھا، اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے ۔‘‘

خوشخبری پرتعجب :

اتنی بڑی منہ مانگی خوشخبری سن کرزکریا  علیہ السلام  نے ازراہ فرح وتعجب اورخوشی کی ملی جلی کیفیت سے عرض کیااے میرے رب! اب اولادکیسے ممکن ہوسکتی ہے میری بیوی توبانجھ ہے اور بانجھ عورت بھلاکیسے بچہ پیدا کرے گی اس کے علاوہ میں  خودبھی بڑھاپے کی آخری حدودکوچھورہاہوں جس میں  بچے کی امیدکی ہی نہیں جاسکتی، فرشتوں  نے زکریا  علیہ السلام  کا تعجب دور کرنے کے لئے کہاکہ اے زکریا علیہ السلام !جب اللہ قادرمطلق نے جوبغیرکسی اسباب ووسائل کے مخلوق کوپیداکرتاہے تجھے بیٹادینے کافیصلہ فرمالیاہے تو تیرے بڑھاپے اورتیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یقیناً تجھے بیٹاملے گااوریہ کام  اللہ تعالیٰ کے لئے قطعی مشکل نہیں  ہے کیوں  کہ جب وہ تجھے نیست سے جب تمہارا ذکرتک نہیں  تھا ہست تک کرسکتا ہے توتجھے دنیاوی ظاہری اسباب سے ہٹ کربیٹادے دینااس کے لئے کیامشکل ہے۔جیسے فرمایا

قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِىَ الْكِبَرُ وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ۝۰ۭ قَالَ كَذٰلِكَ اللهُ یَفْعَلُ مَا یَشَاۗءُ۝۴۰ [7]

ترجمہ:زکریا  علیہ السلام نے کہاپروردگار!بھلامیرے ہاں  لڑکاکہاں  ہوگا؟میں  توبہت بوڑھاہوچکاہوں  اورمیری بیوی بانجھ ہے ، جواب ملاایساہی ہوگااللہ جوچاہتاہے کرتاہے۔

وَزَكَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ۝۸۹ۚۖفَاسْتَجَبْنَا لَهٗ۝۰ۡوَوَهَبْنَا لَهٗ یَحْــیٰى وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ۝۰ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَــیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا۝۰ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ۝۹۰ [8]

ترجمہ:اورزکریاکوجبکہ اس نے اپنے رب کوپکاراکہ اے پروردگارمجھے اکیلانہ چھوڑاوربہترین وارث توتوہی ہے ، پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اوراسے یحییٰ  علیہ السلام  عطاکیااوراس کی بیوی کواس کے لیے درست کردیا یہ لوگ نیکی کے کاموں  میں  دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں  رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھےاور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔

ایک مقام پرفرمایا

هَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱ [9]

ترجمہ: کیا انسان پر لامتناہی زمانے کاایک وقت ایسابھی گزراہے جب وہ کوئی قابل ذکرچیزنہ تھا۔

اس بڑھاپے میں  معجزانہ طورپراولادجیسی نعمت کی خوشخبری سن کرزکریا  علیہ السلام  کے اشتیاق میں  مزید اضافہ ہوااورتشفی قلب کے لیے نشانی معلوم کرنی چاہی کہ جس سے میں  جان جاؤ ں  کہ اب میرالڑکا پیدا ہونے والا ہے،جیسےابراہیم نے عرض کی تھی۔

 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰی وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۔۔۔۝۰۝۲۶۰ۧ [10]

ترجمہ:جب ابراہیم  علیہ السلام نے کہاتھاکہ میرے مالک !مجھے دکھادے تومردوں  کوکیسے زندہ کرتا ہے، فرمایا کیا تو ایمان نہیں  رکھتا؟اس نے عرض کیاایمان تورکھتاہوں  مگردل کااطمینان درکارہے۔

پروردگارنے فرمایا باوجود بالکل ٹھیک ٹھاک اور تندرست ہونے کے پیہم تین دن تک تیری زبان بندرہے گی جوہماری طرف سے بطورنشانی ہوگی، اس وقت سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آگئے ہیں تواس خاموشی میں  کثرت سے صبح وشام رب کی تسبیح وتحمید کا خصوصی اہتمام کرتے رہناتاکہ اس نعمت الہٰی کاجوتجھے ملنے والی ہے شکراداہوگویایہ سبق دیا گیا کہ  اللہ  تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں  مزیدنعمتوں  سے نوازے تو اسی حساب سے اس کاشکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو، اوراگرکسی ضرورت سے بات کرنی ہی پڑے تو اشارے سے کرنا پھر  اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہیں  فرزندسے نوازے گا،جیسے فرمایا

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰیَةً۝۰ۭ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰــثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا۝۰ۭ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْكَارِ۝۴۱ۧ [11]

ترجمہ: عرض کیا مالک!پھرکوئی نشانی میرے لیے مقررفرما دے ، کہا نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں  سے اشارہ کے سواکوئی بات چیت نہ کروگے(یانہ کر سکو گے)اس دوران میں  اپنے رب کوبہت یادکرنااورصبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہنا۔

زکریا  علیہ السلام  نے رب کی ہدایات کے مطابق عمل فرمایا اورقوم کے پاس آکرانہیں  بھی صبح وشام رب کی تسبیح وتحمیدکرنے کاحکم فرمایا اور جب لڑکا پیدا ہوا تو رب کے فرمان کے مطابق ان کانام یحییٰ رکھاگیا۔

قرآن مجیدمیں  یحییٰ   علیہ السلام کے اوصاف :

زکریا  علیہ السلام کی دعاکے مطابق اللہ نے انہیں  نیک اطوربنایا،جب وہ کچھ بڑے ہوئے گوابھی بچے ہی تھے انہیں  کتاب  اللہ کوپکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کاحکم دیااوربچپن ہی میں  عقل ودانائی ،شعور،کتاب  اللہ میں  درج احکام دینیہ کی سمجھ اورنبوت سے نوازاتھا،آپ  علیہ السلام  بہت نرم دل اورنرم مزاج تھے ،ان میں  سرداری و بزرگی کی شان تھی ، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ان کے دل میں  والدین کیلئے شفقت ومحبت کااور ان کی اطاعت وخدمت اورحسن سلوک کاجذبہ پیدافرمادیاتھا جس سے وہ ان کے لئے انتہائی ہی حلیم اور فرمانبردارتھے اورہروقت ان کی خدمت کے لئے کوشاں  رہتے تھے،اس کے علاوہ  اللہ تعالیٰ نے آپ  علیہ السلام  کو عزیزواقربا پر شفقت و مہربانی کرنے کا جذبہ اوراسے نفس کی الائشوں  اورگناہوں  سے پاکیزگی وطہارت بھی عطافرمائی تھی جب عیسیٰ  علیہ السلام  نبی بنائے گئے تویحییٰ   علیہ السلام نے ان کی نبوت کی تائیدوتصدیق فرمائی،اورفرمایاسلام اس پرجس روزکہ وہ پیدا ہوئے اورجس دن وہ فوت ہوئے اورجس روزانہیں  زندہ کرکے اٹھایاجائے گا،ان تینوں  احوال میں  شیطان ،اس کے شراوراللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامتی کا تقاضا کرتا ہے ، چنانچہ للہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ان تینوں  جگہوں  پراس کے لیے ہماری طرف سے سلامتی اورامان ہے،

ابْنَ عَطِیَّةَ یَقُولُ: أَوْحَشُ مَا یَكُونُ الْخَلْقُ فِی ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ: یَوْمَ یُولَدُ فَیَرَى نَفْسَهُ خَارِجًا مِمَّا كَانَ فِیهِ، وَیَوْمَ یَمُوتُ فَیَرَى قَوْمًا لَمْ یَكُنْ عَایَنَهُمْ، وَیَوْمَ یُبْعَثُ فَیَرَى نَفْسَهُ فِی مَحْشَرٍ عَظِیمٍ، قَالَ: فَأَكْرِمَ اللَّهُ فِیهَا یَحْیَى بْنَ زَكَرِیَّا، فَخَصَّهُ بِالسَّلَامِ عَلَیْهِ، فَقَالَ {وَسَلَامٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا}[12]

سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں تین دن ایسے ہیں  جن میں  آدمی پرسب سے زیادہ خوف وگھبراہٹ کی کیفیت طاری ہوتی ہے،ولادت کے دن کہ آدمی اپنے آپ کواس جگہ سے نکلتے ہوئے دیکھتاہے جس میں  وہ پہلے رہ رہاتھااور جب موت اسے اپنے آہنی شکنجے میں  جکڑتی ہے اس وقت وہ ایسے لوگوں (فرشتوں )کودیکھتاہے کہ جن کواس نے پہلے کبھی نہیں  دیکھاہوتا اورجب انسان قبرسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھایاجائے گااوروہ خودکومیدان محشرکی ہولناکیوں  میں  گھراہواپائے گا،اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبریحییٰ بن زکریا علیہ السلام کویہ اعزازبخشاکہ ان تینوں  دنوں  میں  انہیں  سلامتی اوررحمت سے نواز دیا اورفرمادیا’’سلام اس پرجس روزکہ وہ پیداہوااورجس دن وہ مرے اورجس روزوہ زندہ کرکے اٹھایا جائے ۔‘‘[13]

انجیلوں میں  یحییٰ کے اوصاف :

آپ عیسیٰ   علیہ السلام  سے چھ ماہ بڑے تھے،آپ کی والدہ اورعیسیٰ   علیہ السلام  کی والدہ آپس میں  رشتہ دارتھیں ،آپ تیس سال کی عمرمیں  منصب نبوت پرفائز ہوئے اورشرق اردن کے علاقہ میں  بنی اسرائیل کودعوت حق پہنچائی(لوقا)آپ لوگوں  کی روح اورجسم دونوں  کوپاک وصاف کرنے کے لئے گناہوں  سے توبہ کراتے اور پھر غسل (بپتسمہ) کراتے تھے،یہودیہ اوریروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہوگئے تھے ،اوران کے پاس جاکربپتسمہ لیتے تھے(مرقس ۱:۴،۵)اسی وجہ سے ان کانام یوحنابپتسمہ دینے والامشہورہوگیاتھا،عام طورپربنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کرچکے تھے(متی ۲۱:۲۶) عیسیٰ   علیہ السلام  کاقول ہے کہ جوعورتوں  سے پیداہوئے ہیں  ان میں  یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑاکوئی نہیں  ہوا (متی  ۱۱،۱۱)وہ اونٹ کے بالوں  سے بنالباس پہنتے اورچمڑے کاپٹکاکمرسے باندھے رہتے تھےاوران کی خوراک جنگلی شہد اور ٹڈیاں  تھیں (متی  ۳:۴)اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ توبہ کروکیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آگئی ہے(متی ۳:۲)یعنی مسیح علیہ السلام کی دعوت نبوت کاآغازہونے والا ہے،اسی بناپران کوعموما ًمسیح کاارہاص کہاجاتاہے،اوریہ بات ان کے متعلق قرآن میں  کہی گئی ہے

۔۔۔ مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ۔۔۔[14]

ترجمہ:وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والابن کرآئے گا۔

وہ لوگوں  کوروزے اورنمازکی تلقین کرتے تھے(متی ۹:۱۴،لوقا ۵:۳۳،لوقا ۱۱:۱)وہ لوگوں  سے کہتے تھے کہ جس کے پاس دو کرتے ہوں  وہ اس کوجس کے پاس نہ ہوبانٹ دے،اورجس کے پاس کھاناہووہ بھی ایساہی کرے،محصول لینے والوں  نے پوچھاکہ استادہم کیاکریں  توانہوں  نے فرمایا جو تمہارے لئے مقررہے اس سے زیادہ نہ لینا، سپاہیوں  نے پوچھاہمارے لئے کیاہدایت ہے توفرمایانہ کسی پرظلم کرواورنہ ناحق کسی سے کچھ لواوراپنی تنخواہ پرکفایت کرو(لوقا ۳:۱۰،۱۴)بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء ،فریسی اورصدوقی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے توڈانٹ کرفرمایااے سانپ کے بچو!تم کوکس نے جتادیاکہ آنے والے غضب سے بھاگو؟۔۔۔اپنے دلوں  میں  یہ کہنے کا خیال نہ کروکہ ابراہام ہماراباپ ہے۔۔۔اب درختوں  کی جڑوں  پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے پس جودرخت اچھاپھل نہیں  لاتاوہ کاٹااورآگ میں  ڈالاجاتاہے(متی ۳:۷،۱۰)

مگرہماری ایک گزارش ہے کہ یحییٰ   علیہ السلام کے دورنبوت میں  یہودیوں  کاچاہے وہ عام لوگ تھے یاان کے مذہبی پیشواتمام کااخلاقی اورمذہبی کردارانتہائی پستیوں  کوچھورہاتھا،حق کے مقابلہ میں  ان کی جسارتیں  اوربے باکیاں  تمام حدیں  توڑچکی تھیں  اوروہ دنیاپرستی میں  غرق ہوچکے تھے ،اس لئے یہ کہناکہ عام طورپربنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کرچکے تھے  اور یہودیہ اوریروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہوگئے تھےاس وقت کے یہودیوں  کے کردارسے مناسبت نہیں  رکھتا، اگراس بات کوتسلیم کرلیاجائے کہ بکثرت لوگ ان کے معتقد تھے جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت بھی ان سے خوف زدہ تھے، مگران کی راستبازی کی وجہ سے عزت واحترام بھی کرتے تھے توجب غیرملکی بادشاہ نے ان کے عزت واحترام کوبالائے طاق رکھ کر انہیں  گرفتارکرکے زنداں  میں  ڈال دیاتوکیابنی اسرائیل کی طرف سے کوئی احتجاج ہوا،اورپھرجشن کے موقعہ پر فورا ًبغیرسوچے سمجھے ایک رقاصہ کی فرمائش پرزنداں  سے اس پاکیزہ سیرت انسان کاسرمنگواکراسے پیش کردیاتوکیابنی اسرائیل نے اس ظلم عظیم کے خلاف آوازبلندکی یامکابی تحریک کی طرح متحد ہو کر حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے ، تاریخ میں  ایساکوئی واقعہ درج نہیں  ہے ،اس لئے ہم یہ لکھنے پرمجبورہیں  کہ بنی اسرائیل نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت کوٹھکرادیااوران کی رسالت کوتسلیم نہ کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عطاکردہ ایک اورموقعہ کوگنوادیا۔

أَنَّ الحَارِثَ الأَشْعَرِیَّ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَ یَحْیَى بْنَ زَكَرِیَّا بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ یَعْمَلَ بِهَا وَیَأْمُرَ بنی إسرائیل أَنْ یَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنَّهُ كَادَ أَنْ یُبْطِئَ بِهَا  فَقَالَ عِیسَى: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَكَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِهَا وَتَأْمُرَ بنی إسرائیل أَنْ یَعْمَلُوا بِهَا، فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَهُمْ ،وَإِمَّا أَنَا آمُرُهُمْ،فَقَالَ یَحْیَى: أَخْشَى إِنْ سَبَقْتَنِی بِهَا أَنْ یُخْسَفَ بِی أَوْ أُعَذَّبَ، فَجَمَعَ النَّاسَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَامْتَلأَ الْمَسْجِدُ وَقَعَدُوا عَلَى الشُّرَفِ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِی بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِهِنَّ، وَآمُرَكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِهِنَّ، أَوَّلُهُنَّ

حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ عزوجل نے یحییٰ  علیہ السلام  کوپانچ باتوں  کاحکم دیاتھاکہ وہ خودبھی ان پرعمل پیراہوں  اوربنی اسرائیل کوبھی اس پر عمل کرنے کا حکم کریں ،تو قریب تھاکہ آپ ان پرعمل میں  سستی کرتے مگر عیسٰی  علیہ السلام  نے آپ سے فرمایا آپ کوپانچ باتوں  پرعمل کرنے کاحکم ملاہے کہ خودبھی عمل کرواور بنی اسرائیل کوبھی ان باتوں  پرعمل پیرا رہنے کاحکم کرو تواب یاتو آپ ان کو یہ باتیں  پہنچائیں یامیں  پہنچاوں  گا،تویحییٰ   علیہ السلام  نے فرمایااے میرے بھائی! مجھے ڈرہے کہ کہیں  مجھے عذاب میں نہ پکڑلیا جائے یامجھے زمین میں نہ دھنسادیاجائے،پھر یحییٰ   علیہ السلام  نے سب بنی اسرائیل کوبیت المقدس میں  جمع کیاجب مسجدلوگوں  کے ازدحام سے بھرگئی توآپ شرف واعزازکے ساتھ منبر پرتشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کی پھرپانچ باتوں  کی تلقین فرمائی،فرمایا  اللہ  نے مجھے پانچ چیزوں  کا حکم دیاہے کہ میں  خودبھی ان پرعمل کروں  اورتم کوبھی حکم دوں ان پانچ باتوں  میں  سب سے پہلی بات یہ ہے ۔

أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَى عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِهِ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ، قَالَ: هَذِهِ دَارِی، وَهَذَا عَمَلِی فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَیَّ، فَجَعَلَ یَعْمَلُ وَیُؤَدِّی إِلَى غَیْرِ سَیِّدِهِ، فَأَیُّكُمْ یَسُرُّهُ أَنْ یَكُونَ عَبْدُهُ كَذَلِكَ؟ وَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَكُمْ وَرَزَقَكُمْ فَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا

x اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کروصرف اس تنہاکی عبادت کرواس کی مثال ایسی ہے گویاکسی نے کوئی غلام خریدااور اپنے مال سونے یاچاندی کے ساتھ خریدا پھروہ غلام کام کرکے محنت مزدوری کاپیسہ دوسرے کودے دیتاہے تم بتاؤ کہ کون ایسے غلام کوپسندکرتاہے اوربیشک  اللہ نے تم کوپیداکیاہے وہی تمہاراروزی رساں  ہے لہذااسی کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو ۔

وَأَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا

xاورمیں  تم کو نمازکاحکم کرتاہوں  جب تم نمازاداکرتے ہوتو  اللہ  عزوجل اپنارخ اس کی طرف متعین کرلیتاہے لہذاجب تم نمازپڑھوتونمازمیں کسی اورطرف دھیان مت لگاؤ ۔

وَأَمَرَكُمْ بِالصِّیَامِ، وَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ كَانَتْ مَعَهُ صُرَّةٌ، فِیهَا مِسْكٌ، وَمَعَهُ عِصَابَةٌ كُلُّهُمْ یُعْجِبُهُ أَنْ یَجِدَ رِیحَهَا، وَإِنَّ الصِّیَامَ أَطْیَبُ، عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِیحِ الْمِسْكِ

xاورمیں  تم کوروزوں  کاحکم کرتاہوں اور اللہ نے اس کی مثال یوں  دی ہے کہ کسی جماعت میں  ایک شخص کے پاس مشک کی پوٹلی ہے اوربے شک روزے دارکے منہ کی بو  اللہ  کے ہاں  مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَهُ الْعَدُوُّ وَقَامُوا إِلَیْهِ، فَأَوْثَقُوا یَدَهُ إِلَى، عَنْقِهِ، فَقَالَ: هَلْ لَكُمْ أَنْ أَفْدِیَ نَفْسِی مِنْكُمْ؟ قَالَ: فَجَعَلَ یُعْطِیَهُمُ الْقَلِیلَ وَالْكَثِیرَ لِیَفُكَّ نَفْسَهُ مِنْهُم

xاورمیں تم کو صدقہ کاحکم دیتاہوں  اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی شخص کواس کے دشمنوں  نے قیدکرلیاہے پھراس کے ہاتھ گردنوں  کے ساتھ باندھ دیئے اورپاؤ ں  بھی باندھ دیئے ہیں تاکہ اس کی گردن اڑادیں تووہ قیدی شخص کہتاہے کیاتمہیں مال کی ضرورت ہے جومیں  تم کودوں اورتم مجھے آذادکردو؟پھروہ مال دیتارہتاہے تھوڑابھی زیادہ بھی حتی ٰ کہ وہ اپنی جان کورہا کرالیتا ہے ۔

وَآمُرُكُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ كَثِیرًا، وَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ طَلَبَهُ الْعَدُوُّ سِرَاعًا فِی إِثْرِهِ حَتَّى أَتَى عَلَى حِصْنٍ حَصِینٍ، فَأَحْرَزَ نَفْسُهُ فِیهِ كَذَلِكَ الْعَبْدُ لَا یُحْرِزُ نَفْسَهُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَّا بِذِكْرِ اللَّهِ

xاور میں  تم کو اللہ عزوجل کے ذکرکی کثرت کاحکم کرتاہوں اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی شخص کے پیچھے اس کے دشمن تعاقب میں  ہیں اوربہت تیزہیں تووہ ایک انتہائی مضبوط قلعے میں  محفوظ ہوجاتاہے اس طرح بندہ ذکرکے ساتھ قلعہ سے زیادہ شیطان کے شرسے محفوظ رہتاہے۔[15]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب معراج پرجبرائیل  علیہ السلام  کے ہمراہ آسمانوں  پر تشریف لے گئے

لَقِیَ فِی السَّمَاءِ الثَّانِیَةِ عِیسَى، وَیَحْیَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ   مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِیٍّ

جب آپ دوسرے آسمان پر پہنچے تووہاں  آپ نے یحییٰ  علیہ السلام  اور عیسیٰ سے ملاقات فرمائی اورجبرائیل  علیہ السلام  کے کہنے پر سلام کہادونوں  نے جواب دیا اور کہانیک بھائی اور صالح پیغمبر کو خوش آمدیدہو۔[16]

وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّا ‎﴿١٦﴾‏ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ‎﴿١٧﴾‏ قَالَتْ إِنِّی أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِیًّا ‎﴿١٨﴾‏ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِیًّا ‎﴿١٩﴾‏ قَالَتْ أَنَّىٰ یَكُونُ لِی غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِیًّا ‎﴿٢٠﴾‏ قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا ‎﴿٢١﴾ (مریم)
’’اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کرجبکہ وہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب آئیں اور ان لوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا، پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا، یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو کچھ بھی اللہ سے ڈرنے والا ہے، اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں،کہنے لگیں بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہ لگا اور نہ میں بدکار ہوں،اس نے کہا بات تو یہی ہے لیکن تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ وہ مجھ پر بہت ہی آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنادیں گے اور اپنی خاص رحمت ، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے ۔‘‘

مشرکین مکہ نے اپنے بیٹوں ،بھائیوں  اوردوسرے رشتہ داروں  کواللہ کاپسندیدہ دین ،دین اسلام قبول کرنے کے جرم میں  اپناگھرباراوراپناوطن چھوڑنے پرمجبورکردیاتھااوروہ حبشہ ہجرت کرنے پرمجبورہوگئے تھے جوایک عیسائی حکومت تھی ،ہجرت کرنے والے مسلمانوں  کوعیسیٰ   علیہ السلام کی صحیح حیثیت بتلانابہت ضروری تھاتاکہ اگروہاں کوئی راہب ان سے عیسیٰ   علیہ السلام کی بابت معلوم کرے تووہ اس کاصحیح جواب دے کرعیسائیوں  کے غلط عقائدکی اصلاح کرسکیں ،چنانچہ ا للہ تعالیٰ نے اپنی عجیب نشانیوں  میں  سے یحییٰ   علیہ السلام کاواقعہ بیان کرنے کے بعدایک اورقصہ بیان فرمایاجواس سے بھی زیادہ عجیب ہے، مریم علیہاالسلام کی والدہ جوایک دین دارخاتون تھیں جب حاملہ ہوئیں  توپیٹ کے بچے کولڑکاسمجھ کر  اللہ  تعالیٰ کی محبت میں  اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے نذرکردیا ،جیسے فرمایا

 اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۳۵ [17]

ترجمہ: (وہ اس وقت سن رہاتھا)جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی اے میرے پروردگار! میں  اس بچے کوجو میرے پیٹ میں  ہے تیری رضا وخوشنودی کے لئے تیری راہ میں  تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف کرتی ہوں  تاکہ وہ تیرے دین کی خدمت کرے اورتیرا نام بلند کرے میری اس پیشکش کوقبول فرما توسننے اورجاننے والاہے۔

مریم علیہاالسلام کی والدہ نذرمانگ کرخوش وخرم تھیں  مگرامیدکے برعکس جب لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو بڑی مایوس ہوئیں  اوررب سے عذراورحسرت سے کہااے میرے رب !میری نذرسے مقصودتوتیری رضاکے لئے ایک خدمت گاروقف کرناتھااوریہ کام ایک مردہی زیادہ بہتر طریقے سرانجام دے سکتاہے اب اسے میں  کیسے نذر کروں  ،یہ کمزورلڑکی تیرے دین کی کیاخدمت کرے گی ،اگرلڑکاہوتاتوایساکمزورنہ ہوتا،ان کی والدہ نے اس لڑکی کا نام مریم علیہاالسلام رکھااوررب سے دعافرمائی کہ اے میرے پروردگار!اب میں  اس کواوراس کی ہونے والی اولادکوشیطان مردودسے تیری پناہ میں  (جودنیاوآخرت میں  سب سے مضبوط ومحفوظ پناہ گاہ ہے )دیتی ہوں ،جیسے فرمایا

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ وَضَعْتُهَآ اُنْثٰى۝۰ۭ وَاللهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ۝۰ۭ وَلَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى۝۰ۚ وَاِنِّىْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَاِنِّىْٓ اُعِیْذُھَا بِكَ وَذُرِّیَّــتَهَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۝۳۶فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَـنًا۔۔۔ ۝۳۷ [18]

ترجمہ: پھرجب وہ بچی اس کے ہاں  پیداہوئی تواس نے کہامالک! میرے ہاں  تو لڑکی پیداہوگئی ہےحلانکہ جوکچھ اس نے جناتھا اللہ کواسکی خبر تھی اور لڑکالڑکی کی طرح نہیں ہوتا، خیرمیں نے اس کانام مریم رکھ دیاہے اورمیں  اسے اوراسکی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں  دیتی ہوں  ،آخر کار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا اسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اٹھایا ۔

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَا مِنْ بَنِی آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا یَمَسُّهُ الشَّیْطَانُ حِینَ یُولَدُ،فَیَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّیْطَانِ، غَیْرَ مَرْیَمَ وَابْنِهَا

چنانچہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھےجو بھی بچہ پیداہوتاہے تو شیطان اس کومس کرتاہے جس سے بچہ چیختاہے لیکن  اللہ  تعالیٰ نے اس مس شیطان سے مریم علیہاالسلام اوران کے بیٹے (عیسیٰ  علیہ السلام  )کومحفوظ رکھا ۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَهَلَكَتْ أُمُّهَا فَضَمَّتْهَا إِلَى خَالَتِهَا أُمِّ یَحْیَى

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب وہ ابھی چھوٹی ہی تھیں  کہ ان کی والدہ وفات پاگئیں  تووہ اپنی خالہ جویحییٰ   علیہ السلام کی والدہ تھیں  کے پاس آگئیں ۔[20]

مریم علیہاالسلام بڑے نیک اعمال و اطوارکی حامل تھیں  وہ ہروقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں  منہمک رہتیں  جب وہ ذرابڑی ہوئیں  توان کے پاکیزہ کردارکودیکھ کرہیکل کے تمام خادموں  کی خواہش تھی کہ وہ ان کے کفیل بنیں  ،ہرایک کی خواہش کی وجہ سے اچھاخاصہ جھگڑابرپاہوگیااور ایک اختلافی فضاقائم ہوگئی چنانچہ اس جھگڑے کا حل قرعہ اندازی طے ہواکہ جس کے نام کاقرعہ نکل آئے وہ ان کاکفیل بنے ،جب باقاعدہ قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ میں  زکریا  علیہ السلام  کا نام نکلاجو مریم علیہاالسلام کے خالواورپیغمبربھی تھے ، اس طرح زکریا  علیہ السلام ، مریم علیہاالسلام کی حفاظت وکفالت کے ذمہ دار بن گئے ، زکریا  علیہ السلام  نے مریم علیہاالسلام کوہیکل(بیت المقدس) کے شرقی حصہ میں  ایک حجرہ دے دیاجہاں  انہوں  نے ایک پردہ لٹکاکراپنے آپ کودیکھنے والوں  کی نگاہوں  سے محفوظ کرلیا ، جیسے فرمایا

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ۝۰ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۝۰۠ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ۝۴۴ [21]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ غیب کی خبریں  ہیں  جو ہم تم کووحی کے ذریعہ سے بتارہے ہیں  ورنہ تم اس وقت وہاں  موجودنہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ مریم کا سر پرست کون ہواپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے اورنہ تم اس وقت حاضرتھے جب ان کے درمیان جھگڑابرپاتھا ۔

جب وہ کچھ بڑی ہوئیں  تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چندفرشتے ان کے پاس ایک بڑی خوشخبری لے کر حاضر ہوئے اورکہاکہ اے مریم علیہاالسلام!  اللہ تعالیٰ نے تم کو پاکیزہ بنایاہے اوردنیا کی تمام عورتوں  پرتجھے فضیلت عطافرماکربرگزیدہ فرمایاہے ،اے مریم علیہاالسلام! اپنے رحیم وکریم خالق کی اطاعت کرتی رہواورساتھ ہی رب کے ذکر کے لئے جماعت کے ساتھ رکوع وسجود یعنی نمازبھی پڑھتی رہو۔

وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰىكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰی نِسَاۗءِ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۲یٰمَرْیَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِیْ وَارْكَعِیْ مَعَ الرّٰكِعِیْنَ۝۴۳ [22]

ترجمہ: پھر وہ وقت آیا جب مریم رحمہ اللہ  سے فرشتوں  نے آکرکہااے مریم رحمہ اللہ  !  اللہ نے تجھے برگزیدہ کیااورپاکیزگی عطاکی اور تمام دنیاکی عورتوں  پرتجھ کو ترجیح دے کراپنی خدمت کے لئے چن لیا اے مریم رحمہ اللہ  !اپنے رب کی تابع فرمان بن کراس کے آگے سربسجود رہو اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں  ان کے ساتھ توبھی جھک جا۔

مریم علیہاالسلام  اللہ تعالیٰ کی کتابوں  کی تصدیق ،رب کے احکامات پراطاعت گزار، اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنے والی اوربڑی عبادت گزارخاتون تھیں  اور اکثر و بیشتر ہیکل میں گوشہ نشین ہوکررب کی عبادت کرنے کے لئے اعتکاف میں  بیٹھ جاتی تھیں

ولما بلغت مریم ابنة عمران سبع عشرة سنة، لأربع وعشرین لیلة خلت من كانون الأولى

جب مریم بنت عمران سترہ سال کی ہوئیں اورچوبیس راتیں  تنہاحرم بیت المقدس میں  گزارچکی تھیں ۔[23]

توایک دفعہ وہ اپنے گھرکے لوگوں  سے علیحدہ ہوکرتاکہ انہیں  کوئی نہ دیکھے اوریکسوئی بھی حاصل رہے بیت المقدس کے مشرقی گوشے میں  پردہ ڈال کراعتکاف میں  بیٹھ گئیں  اور خشوع وخضوع سے رب کی حمدوثنااوررکوع وسجودمیں  مصروف ہوگئیں  کہ اسی حالت میں  قادر کریم رب نے جبرائیل  علیہ السلام  کو مریم علیہاالسلام کے پاس بھیجا جو ان کے سامنے ایک خوبصورت اورحسین وجمیل مردکی شکل میں  ظاہرہوگئے ، مریم علیہا السلام نے جب دیکھاکہ ایک شخص بے دھڑک اندر آگیاہے توڈرگئیں کہ یہاں  میں  اعتکاف میں  بالکل اکیلی ہوں  کہیں یہ شخص کسی بری نیت سے اندرنہ آیاہوورنہ اس کایہاں  مجھ سے کیاکام،مریم علیہاالسلام نے کہا میں  اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتی ہوں  اوراس کی رحمت کے سائے میں  آتی ہوں  کہ کہیں  تومجھے نقصان نہ پہنچائے جبرائیل  علیہ السلام  امین نے ان کاخوف وہراس اورگھبراہٹ دورکرنے کے لیے کہامیں  وہ نہیں  جوتوگمان کررہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں  اور اس کے حکم سے تمہیں ایک پاک نفس فرزند دینے آیاہوں ،مریم علیہاالسلام نے پھرتعجب سے پوچھا بھلا میرے ہاں  لڑکاکیسے پیدا ہوگاجبکہ مجھے جائزطورپریا ناجائز طور پر کسی مردنے نہیں  چھوااورنہ ہی میں  کوئی بدکارعورت ہوں ،جبرائیل  علیہ السلام  نے جواب دیا یہ بات توٹھیک ہے کہ تجھے جائزیانہ ناجائز طریقے سے مردسے مقاربت کا کوئی موقعہ نہیں  ملا ہے جب کہ حمل کے لئے عادتہ یہ ضروری ہے مگر تیرا رب اسباب عادیہ کامحتاج نہیں اس کے لئے ایساکرناکچھ امر محال نہیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ۝۲۸فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ۝۲۹قَالُوْا كَذٰلِكِ۝۰ۙ قَالَ رَبُّكِ۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ۝۳۰ [24]

ترجمہ:اوراسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کامثردہ سنایا،یہ سن کراس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اوراس نے اپنامنہ پیٹ لیا اور کہنے لگی بوڑھی،بانجھ!انہوں  نے کہایہی کچھ فرمایاہے تیرے رب نے ،وہ حکیم ہے اورسب کچھ جانتا ہے۔

اوراس طرح بغیرباپ کے لڑکا پیداکر نے سے رب کی منشاء یہ ہے کہ وہ اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے دنیامیں  ایک نشانی،زندہ معجزہ اورسراپارحمت بنادیناچاہتے ہیں ،اس سے قبل اس نے تمہارے باپ آدم  علیہ السلام  کومرداورعورت کے بغیر اور تمہاری ماں  حواکوصرف مردسے پیدا کیا

۔۔۔الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا۔۔۔۝۱ [25]

ترجمہ:جس نے تم کوایک جان سے پیداکیااوراسی جان سے اس کاجوڑابنایا۔

عیسیٰ  علیہ السلام کے سواباقی تمام اولادآدم کومردوعورت سے پیدافرمایا اوراب عیسٰی  علیہ السلام  کوپیداکرکے چوتھی شکل میں  بھی پیدا کرنے پراپنی قدرت تخلیق کا اظہار کرناچاہتے ہیں اوروہ ہے صرف عورت کے بطن سے بغیر مردکے پیدا کر دینا ، وہ تخلیق کی چاروں  صورتوں  پرقادرہے  اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے اوریہ کام اسی طرح ہو کر رہے گا ۔

فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِیًّا ‎﴿٢٢﴾‏ فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَا لَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا ‎﴿٢٣﴾‏ فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِی قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا ‎﴿٢٤﴾‏ وَهُزِّی إِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا ‎﴿٢٥﴾‏فَكُلِی وَاشْرَبِی وَقَرِّی عَیْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِی إِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا ‎﴿٢٦﴾ (مریم)
’’پس وہ حمل سے ہوگئیں اور اسی وجہ سے وہ یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں، پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش ! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہوجاتی، اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزردہ خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا یہ تیرے سامنے ترو تازہ پکی کھجوریں گرا دے گا ،اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ ، اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑجائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ مان رکھا ہے، میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔‘‘

جبرائیل  علیہ السلام  نے  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے شکم مبارک میں  ایک روح پھونک دی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے مریم کودوشیزگی میں  عیسٰی  علیہ السلام  کاحمل قرارپایا ،جیسے فرمایا

وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۝۱۲ۧ  [26]

ترجمہ: اور  اللہ عمران کی بیٹی مریم رحمہ اللہ  کی مثال دیتاہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی،پھرہم نے اس کے اندراپنی طرف سے روح پھونک دی اوراس نے اپنے رب کے ارشادات اوراس کی کتابوں  کی تصدیق کی اوروہ اطاعت گزار لوگوں  میں  سے تھی۔

۔۔۔اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللهِ وَكَلِمَتُهٗ۝۰ۚ اَلْقٰىهَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ۔۔۔ ۝۱۷۱ۧ [27]

ترجمہ:مسیح ابن مریم رحمہ اللہ  اس کے سواکچھ نہ تھاکہ  اللہ کاایک رسول تھااورایک فرمان تھاجو اللہ نے مریم رحمہ اللہ  کی طرف بھیجا اورایک روح تھی  اللہ کی طرف سے۔

یکایک اس شدیدآزمائش میں  مبتلاہونے کے بعد مریم اس حمل کو جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی پوری ہوخاندان اورقوم کے دوسرے لوگوں  سے چھپانے ،خاندان اور قوم کی لعنت وملامت اوربدنامی سے بچنے کے لئے خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کاحجرہ چھوڑکر باہرنکل گئیں  اور بیت المقدس کے جنوب میں  آٹھ کلومیڑکے فاصلے پر بیت اللحم میں  جاکر رب کے ذکروعبادت میں  مصروف ہوگئیں ،

ولدت بقریة یقال لها بیت لحم على أمیال من بیت المقدس

مسودی کہتے ہیں وضع حمل کے وقت وہ بیت المقدس کے قریب ایک بستی میں  جو بیت اللحم سے موسوم تھی میں  تھیں ۔[28]

وَقَالَ وَهْبُ بْنُ مُنَبِّه: ذَهَبَتْ هَارِبَةً، فَلَمَّا كَانَتْ بَیْنَ الشَّامِ وَبِلَادِ مِصْرَ، ضَرَبَهَا الطَّلْقُ،وَفِی رِوَایَةٍ عَنْ وَهْبٍ: كَانَ ذَلِكَ عَلَى ثَمَانِیَةِ أَمْیَالٍ مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فِی قَرْیَةٍ هُنَاكَ یُقَالُ لَهَا:بَیْتُ لَحْمٍ

وہب بن منبہ کاقول ہے کہ حمل قرارپانے کے بعدبنی اسرائیل کی بہتان طرازی کی وجہ سے وہ بھاگ گئیں  اوربھاگتے بھاگتے جب شام اوربلادمصرکے درمیان پہنچیں  تودردزہ شروع ہوگیا،وہب کی ایک روایت میں  ہے اس جگہ بیت المقدس سے آٹھ میل دورایک بستی مرادہے جس کانام بیت لحم تھا۔[29]

جب بچے کی پیدائش کاوقت قریب ہواتودردزہ کی وجہ سے مجبورومضطرہوکروہ ایک کھجورکے سوکھے درخت کے نیچے پہنچ گئیں اوررنج وغم سے موت کی آرزوکی کہ اللہ عزوجل نے مجھے اس شدیدآزمائش میں  مبتلاکرڈالاہے ،حمل کی مدت تک تومیں  نے کسی نہ کسی طور پر خود کو لوگوں  کی نظروں  سے بچالیاہے مگراب بچہ کولے کرکہاں  جاؤ ں  اور لوگوں  کوکس طرح مطمئن کروں  جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیارہی نہ ہوگااوریہ تصوربھی روح فرسا تھاکہ کہاں  میری شہرت بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی ایک عابدہ وزاہدہ کے طورپرہےاور اس کے بعدلوگوں  کی نظروں  میں  بدکار ٹھیروں  گی،وہ اسی سوچ میں  گم تھیں  کہ اتنے میں  جبرائیل  علیہ السلام نے انہیں وادی کے نیچے سے آوازدے کرکہاآزردہ خاطرنہ ہوبچے کے مسئلہ پرتجھے کچھ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ،اس بچہ کی پیدائش پرجوشخص بھی انگلی اٹھائے گااس کاجواب ہم دیں  گے ،

بعض مفسرین اس آیت کایہ مطلب بھی بیان فرماتے ہیں  کہ پیداہونے کے بعدنیچے سے عیسیٰ   علیہ السلام  نے بطورتسلی اپنی والدہ سے فرمایاغم نہ کراگرکوئی شخص کوئی اعتراض کرے گا تو اس کا جواب میں  دوں  گاجس سے مریم کی دل جمعی بڑھ گئی ،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ:فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا، قَالَ: عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ

مجاہد رحمہ اللہ کاقول ہے ’’اتنے میں  اسے نیچے سے ہی آوازدی۔‘‘  نیچے سے آوازدینے والے سے مرادخودعیسیٰ ابن مریم ہیں ۔[30]

تیرے رب نے تیرے پاؤ ں  کے نیچے ایک چشمہ جاری کردیاہے اس میں  سے پانی پیواوراس سوکھے کھجورکے تنے کوجس کے نیچے تم بیٹھی ہواپنی طرف کھینچ کرہلاویہ تمہارے لئے تروتازہ پکی ہوئی لذیذ کھجوریں  گرادے گا اب تروتازہ پکی ہوئی کھجوریں  کھا، چشمے کاصاف پاکیزہ پانی پی اوربچے(عیسیٰ   علیہ السلام ) کودیکھ کراپنی آنکھیں  ٹھنڈی کر،اللہ تعالیٰ جس نے اپنی قدرت کاملہ سے مریم   علیہ السلام کے پاؤ ں  کے نیچے ایک چشمہ جاری فرمادیا،کھجورکے درخت کو پکادیاوہ چاہتا توپکی ہوئی کھجوریں  توڑکرمریم   علیہ السلام کے منہ میں  ڈال دی جاتیں  اور چشمے کاپانی انہیں  پلادیا جاتا، مگراللہ تعالیٰ نے ایساکچھ نہیں  کیابلکہ فرمایااس کھجورکے درخت کے تنے کو ہلاؤ اس کاجوتازہ پھل گرے اسے کھاؤ اورچشمے کاپانی پیواس لیے کہ درخت کے تنے کولیٹے لیٹے ہلا لینامریم   علیہ السلام کے بس میں  تھا اور جوکام انسان کے بس میں  ہوتاہے اللہ تعالیٰ اس سے وہی کرواتاہے اورجوانسان کے بس میں  نہیں  ،وہ معجزے کے طور پر خود کر دیتاہے اور یہی قانون فطرت ہے ،ا یساہر گز نہیں  کہ کوئی شخص نہ ہل چلائے،نہ زمین کونرم کرے،نہ اس میں  بیج ڈالے نہ کھاد،نہ کھیت کو پانی دے اوریہ کہے کہ اے اللہ! مجھے اس کھیت سے مالامال کردے ایساہرگزنہیں  ہوسکتا،اوراگرکوئی انسان نظرآئے اوروہ تم سے بات کرنا چا ہے توزبان سے نہیں اشارے سے جواب دینا(بنی اسرائیل میں  چپ کاروزہ رکھنے کاایک طریقہ رائج تھا)کہ کھانے اور بولنے سے میراپرہیزہے یعنی میں  نے رحمٰن کے نام کا روزہ مان رکھاہے ،میں  آج کسی بھی شخص سے بات چیت نہیں  کرسکتی،

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ لَمَّا قَالَ عِیسَى لِمَرْیَمَ {لَا تَحْزَنِی} [31]قَالَتْ:وَكَیْفَ لَا أَحْزَنُ وَأَنْتَ مَعِی، لَا ذَاتُ زَوْجٍ وَلَا مَمْلُوكَةٌ،

 أَیُّ شَیْءٍ عُذْرِی عِنْدَ النَّاسِ {یَا لَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا} [32]فَقَالَ لَهَا عِیسَى: أَنَا أَكْفِیكِ الْكَلَامَ {فَإِمَّا تَرَیِّنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِی إِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًا} [33]قَالَ: هَذَا كُلُّهُ كَلَامُ عِیسَى لِأُمِّهِ

عبدالرحمٰن بن زیدنے کہاہے جب عیسیٰ  علیہ السلام نے مریم  علیہ السلام سے کہا’’ غم ناک نہ ہو۔‘‘تومریم  علیہ السلام نے کہامیں  غم کیوں  نہ کروں  جبکہ تم میرے پاس ہواورمیں  نہ شادی شدہ ہوں  اورنہ باندی ؟ لوگوں  کومیں  کیامنہ دکھاؤ ں  گی ؟’’ کاش! میں  اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام ونشان نہ رہتا۔‘‘  عیسیٰ  علیہ السلام نے انہیں  جواب دیاکہ آپ کی طرف سے میں  بات کروں  گا ’’پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظرآے تواس سے کہہ دے کہ میں  نے رحمان کے لئے روزے کی نذرمانی ہے اس لئے آج میں  کسی سے نہ بولوں  گی۔‘‘ ان کے بقول یہ ساری گفتگو عیسیٰ  علیہ السلام کی ہے جوانہوں  نے اپنی والدہ سے کی تھی۔[34]

وہب بن منبہ بھی یہی کہتے ہیں ۔[35]

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ‎﴿٢٧﴾‏ یَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِیًّا ‎﴿٢٨﴾‏ فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ ۖ قَالُوا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا ‎﴿٢٩﴾‏ قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّهِ آتَانِیَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا ‎﴿٣٠﴾‏ وَجَعَلَنِی مُبَارَكًا أَیْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا ‎﴿٣١﴾‏ وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ‎﴿٣٢﴾‏ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا ‎﴿٣٣﴾ (مریم)
’’اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو لیے ہوئے وہ اپنی قوم کے پاس آئیں،سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی ،اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی ،مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں ؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیا اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔‘‘

مریم پرقوم کاتہمت لگانا:

مریم   علیہ السلام جب اپنے نفاس سے پاک ہوئیں  تواپنے نومولود بچے کولئے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس تشریف لائیں  ،قوم کوعلم تھاکہ آپ کی ابھی تک شادی بھی نہیں  ہوئی ہے، خانوادہ ہارون کی زاہدہ عابدہ لڑکی کی گودمیں  ایک معصوم بچے کو دیکھ کرکہ اس کے ہاں  بغیرباپ کے بچہ ہواہےپوری قوم انگشت بدنداں  رہ گئی اور چہ مگوئیاں  کرنے اورمریم  علیہ السلام  پر تہمت لگانے لگے ، کہنے لگے اے خاندان ہارون کی بیٹی مریم! تمہاراتوباپ بھی ایک نیک وپرہیزگار آدمی تھااورتمہاری ماں  بھی بڑی زہدوتقوی والی عورت تھی یہ تم نے کیا کیا ؟ تمہیں  اس نازیباحرکت کرتے ہوئے اپنے بزرگوں  کی عزت واحترام کاذرہ بھی خیال نہ آیاتم نے توان کے عزت ووقار کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیاہے اوربہت ہی نازیبا حرکت کی ہے،الغرض لوگ انہیں  اس طرح ملامت کرتے رہے مگر اللہ کے حکم کے مطابق انہوں  نے اپنی زبان بندرکھی اورزبان درازلوگوں  سے کچھ بھی نہ کہابس بچے کی طرف اشارہ کردیاکہ جوکچھ بھی پوچھناہواس بچے سے پوچھ لو،قوم کے لوگ ہنس کرکہنے لگے اے مریم ! ہم اس بچے سے کیابات کریں  کبھی گہوارے میں  جھولنے والے بچے بھی بولا کرتے ہیں ،جب پوری قوم کاہجوم مریم پرٹوٹ پڑرہا تھااس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت کے مطابق عیسیٰ   علیہ السلام  سے گہوارے میں  کلام کرایاچنانچہ نوزائیدہ عیسٰی  علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے کلام کرتے ہوئے اپنی الوہیت کااعلان نہیں  کیاکہ میں  الٰہ ہوں  اورمیری بندگی کرواورنہ یہ کہا کہ میں  اورمیری والدہ الٰہ ہیں  اوریہ بھی نہیں  کہا میں  تین میں  سے ایک ہوں  بلکہ پنگوڑے میں  اپنے وصف عبدیت سے آگاہ فرمایاکہ اے لوگو! میں  اللہ وحدہ لاشریک کابندہ ہوں  ، پھر اپنی نبوت کاظہارکرتے ہوئے کہاکہ  اللہ  نے میرے لئے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ مجھے کتاب(انجیل) اور نبوت سے نوازے گااور جہاں  کہیں  بھی میں  رہوں یعنی ہرجگہ اورہر زمانے میں  اللہ نے مجھے ثابت قدم اور لوگوں  کے لئے معروف کاحکم دینے والااوربرائی سے روکنے والابنایاہے ،رب نے مجھے زندگی بھر اپنے حقوق اداکرنے کی وصیت کی ہے جن میں  سب سے بڑاحق نمازہے اور بندوں  کے حقوق پوراکرنے کی وصیت کی ہے جن میں  سب سے زیادہ جلیل القدرحق زکواة اداکرناہے،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوحکم دیاگیا۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۝۹۹ۧ [36]

ترجمہ:اوراس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہوجس کاآنایقینی ہے۔

اوررب کی اطاعت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ وصیت بھی کی گئی ہے کہ میں اپنی والدہ کاحق اداکرنے والا ،ان سے حسن سلوک سے پیش آنے والااوراطاعت شعار بنوں ،جیسےاللہ نے تمام دنیاکے لوگوں  کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں  ایک مقام پر فرمایا

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ۔۔۔۝۲۴ [37]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کردیاہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرومگرصرف اس کی،والدین کے ساتھ نیک سلوک کرواگرتمہارے پاس ان میں  سے کوئی ایک یا دونوں  بوڑھے ہوکررہیں  توانہیں  اف تک نہ کہونہ انہیں  جھڑک کرجواب دوبلکہ اسے سے احترام کے ساتھ بات کرواورنرمی اوررحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کررہو۔

۔۔۔ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۝۰ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۝۰ ۡ وَّاتَّبِــعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ  ۔۔۔۝۱۵ [38]

ترجمہ: میرا شکر کر اوراپنے والدین کاشکربجالا،میری ہی طرف تجھے پلٹناہے لیکن اگروہ تجھ پردباؤ ڈالیں  کہ میرے ساتھ توکسی ایسے کوشریک کرے جسے تونہیں  جانتاتوان کی بات ہرگزنہ مان،دنیامیں  ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتارہ مگرپیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔

اللہ نے مجھے سرکش اوربدبخت نہیں  بنایاکہ میں  اللہ کے حضورتکبرکرنے والا اور بندوں  سے اپنے آپ کوبڑااوربلندسمجھنے والانہیں  ہوں ،اور میں  دنیاوآخرت میں  بدبخت نہیں  ہوں  بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنااطاعت شعار،اپنے سامنے جھکنے والا،عاجزی اورتذلل اختیارکرنے والا،اللہ کے بندوں  کے ساتھ تواضع اورانکساری سے پیش آنے والا اور دنیاوآخرت میں  سعادت سے بہرہ مندہونے والابنایااورمیرے رب کی فضل وکرم سے مجھ پرسلامتی ہی سلامتی ہے جس دن کہ میں  پیدا ہوا اور میری موت کے دن پراور جس دن کہ میں  دوبارہ زندہ کھڑاکیاجاؤ ں  گا۔

ذَٰلِكَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِی فِیهِ یَمْتَرُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ یَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ‎﴿٣٥﴾‏ وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ‎﴿٣٦﴾‏ (مریم)
’’یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا، یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک شبہ میں مبتلا ہیں ،اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا ہونا لائق نہیں، وہ بالکل پاک ذات ہے وہ تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا وہ اسی وقت ہوجاتا ہے، میرا اور تم سب کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے۔‘‘

شرک فی الذات کی نفی :

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی شرک فی الذات کی نفی فرمائی کہ یہ وہ صفات ہیں  جن سے عیسٰی  علیہ السلام  متصف تھے،جس میں  کوئی شک وشبہ نہیں نہ کہ ان صفات کے حامل جونصاریٰ نے غلوکرکے ان کے بارے میں  باور کرائیں ، عیسیٰ   علیہ السلام  جو اللہ تعالیٰ کے ایک معجزے سے بن باپ کے پیداہوئے تھےوہ اللہ کے بیٹے کیسے بن سکتے ہیں  ، اللہ ایسے تمام کاموں  سے بے نیازاورقابل ستائش ہے ،وہ ہرنقص اوربیٹے کی حاجت سے پاک اورمقدس ہے پس وہ اپنے بندوں  اور غلاموں کوکیسے اولادبناسکتاہے ،اس کی شان اور قدرت تویہ ہے کہ جب وہ کسی چھوٹے یابڑے معاملے کوکرنے کافیصلہ فرمالیتاہے تووہ معاملہ اس کے لئے مشکل نہیں  ہوتااورنہ ہی اسے مادی وسائل و اسباب کی ضرورت ہوتی ہے وہ توبس اپنی قدرت کالفظ کن فرماتاہے اورفوراًوہ کام ہوجاتاہے،جس اللہ کی قدرت اورمشیت تمام عالم پرنافذہواسے بھلااولادکی کیا ضرورت ہے؟اوراسی طرح اس کے لیے بغیر باپ کے پیداکردیناکونسامشکل کام ہے ،جب اللہ تعالیٰ نے آدم  علیہ السلام  کومٹی سے بناکرفرمایاکہ ہوجااوراسی وقت وہ جیتاجاگتاانسان بن گیا،جیسے فرمایا

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۵۹ [39]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک عیسیٰ  علیہ السلام کی مثال آدم  علیہ السلام کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیااورحکم دیا کہ ہوجااوروہ ہوگیا۔

اس طرح آدم  علیہ السلام  کانہ کوئی باپ ہے اورنہ ہی کوئی ماں تواس کے لئے عیسیٰ  علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سامشکل کام ہے جب آدم  علیہ السلام الٰہ نہیں  ہوسکتاتوعیسیٰ   علیہ السلام کیسے الٰہ بن سکتے ہیں  مگرتم نے اللہ کے بندے اوررسول عیسیٰ  علیہ السلام  کو(نعوذباللہ)اللہ کابیٹابنالیاہےجواپنی ماں  کے پیٹ سے پیدا ہواجو بھوک میں کھاناکھاتااورپیاس میں پانی پیتاتھا۔

مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَةٌ۝۰ۭ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ۔۔۔۝۷۵ [40]

ترجمہ:مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں  کہ بس ایک رسول تھا اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے ، اس کی ماں  ایک راستباز عورت تھی اور وہ دونوں  کھانا کھاتے تھے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔ ۝۲۰ۧ  [41]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں  میں  چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔

وہ بھی دنیاوی تمام تکالیف برداشت کرتاتھاجوتم کرتے ہو،اگروہ (نعوذباللہ)اللہ کابیٹاہوتا تو یقینا ً ٰ الٰہ ہوتا تو سوچوکیاکوئی الٰہ پیٹ بھرنے کامحتاج ہوتاہے؟کیاا لٰہ کوموت آ سکتی ہے؟ حالانکہ عیسیٰ  علیہ السلام کی دعوت بھی وہی تھی جوباقی پیغمبرلیکرآئے تھے کہ صر ف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروجو میرا اور تمہارارب ہے اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ،

نوح   علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی تھی،

 لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۔۔۔۝۰۝۵۹ [42]

ترجمہ: ہم نے نوح کواس کی قوم کی طرف بھیجااس نے کہااے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرواس کے سواتمہاراکوئی معبود نہیں  ہے۔

اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوْهُ وَاَطِیْعُوْنِ۝۳ۙ [43]

ترجمہ:اللہ کی بندگی کرواوراس سے ڈرواورمیری اطاعت کرو۔

ہود  علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کویہی دعوت دی۔

 وَاِلٰی عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰ [44]

ترجمہ:اورعادکی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودکوبھیجااس نے کہااے برادران قوم اللہ کی بندگی کروتمہاراکوئی الٰہ اس کے سوا نہیں  ہےتم نے محض جھوٹ گھڑرکھے ہیں ۔

صالح   علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کویہی دعوت پیش کی

 وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا۝۰ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ هُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا۔۔۔ ۝۶۱ [45]

ترجمہ:اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبودنہیں  ہے ،وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں  تم کو بسایا ہے۔

ابراہیم  علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کویہی دعوت پیش کی تھی

 وَاِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّــقُوْهُ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۶ [46]

ترجمہ: اورابراہیم  علیہ السلام کوبھیجاجب کہ اس نے اپنی قوم سے کہااللہ کی بندگی کرواوراس سے ڈرویہ تمہارے لیے بہترہے اگرتم جانو۔

اور اپنے والدکو دعوت پیش کرتے ہوئے فرمایاتھا

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۷۴ [47]

ترجمہ: ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرو جبکہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تو بتوں  کو الٰہ بناتا ہے ؟ میں  تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں  پاتا ہوں  ۔

لوط  علیہ السلام  نے بھی اپنی قوم کویہی دعوت پیش کی تھی

فَاتَّــقُوا اللهَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۶۳ۚ [48]

ترجمہ:پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

یوسف  علیہ السلام نے بھی زنداں  میں  اپنے ساتھیوں  کو یہی دعوت پیش کی تھی

 یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۝۳۹ۭمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۴۰ [49]

ترجمہ: اے زنداں  کے ساتھیو!تم خودہی سوچوکہ بہت سے متفرق رب بہترہیں  یاوہ ایک اللہ جوسب پرغالب ہے؟اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں  ہیں  کہ بس چند نام ہیں  جو تم نے اور تمہارے آباؤ  اجداد نے رکھ لیے ہیں  اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی،فرما نروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں  ہے ، اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرویہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ۔

فرمایااور جس نے ہمیں  پہلے مٹی سے اورپھربدبودارپانی کے ایک حقیر قطرے سے پیدا کیا اور ماں  کے پیٹ میں  جیسی چاہی ہماری صورت گری کی۔

ھُوَالَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَاۗءُ۔۔۔۝۶ [50]

ترجمہ:وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں  کے پیٹ میں  تمہاری صورتیں  جیسی چاہتا ہے بناتا ہے ۔

ہم میں  اس کی تدبیرنافذہوئی اورہم میں  اس کی تقدیرنے تصرف کیاپس عبادت کوصرف اسی کے لئے خالص کرو ، اظہاربندگی وشکرکے لئے اسی کے حضوراپناسرجھکاؤ جواس کا حق ہے ،اسی سے رزق میں  کشادگی چاہواس کے سواکوئی روزی رساں  نہیں  ،اپنی تکالیف و مشکلات وضروریات میں  اسی کو پکارواس کے سوا کوئی مشکل کشا،حاجت روانہیں  ، اسی سے اپنے گناہوں ،تقصیروں  کی بخشش چاہواس کے سواکوئی کوئی گناہوں  کی مغفرت فرمانے والانہیں اوروہی رب روز جزا کامالک ہے ، یہ ہے سیدھاراستہ جواللہ تعالیٰ تک پہنچتاہے ، یہی راستہ انبیاء ومرسلین اوران کے متبعین کاراستہ ہے ،صراط مستقیم کوچھوڑکرتم جو بھی راستہ اختیار کروگے وہ شیطانی راستہ ہوگا،اس راستے پرچل کرتم اپنی منزل کی طرف جانے کے بجائے اس سے دورہی ہوگےاورپھرپچھتاتے رہوگے مگراس وقت کا پچھتانا بے سودہوگا۔

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَیْنِهِمْ ۖ فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿٣٧﴾‏ أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْیَوْمَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿٣٨﴾‏ (مریم)
’’پھر یہ فرقے آپس میں اختلاف کرنے لگے، پس کافروں کے لیے ’’ ویل ‘‘ ہے ایک بڑے (سخت) دن کی حاضری سے ،کیا خوب دیکھنے سننے والے ہوں گے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘

مگراس طرح معجزانہ طورپرپیداہونے پربنی اسرائیل مختلف گروہوں  کی شکل میں  بٹ گئے یہودنے اللہ کے رسول پربدترین تہمت لگائی اور کہاوہ یوسف نجارکے بیٹے ہیں  یعنی نعوذباللہ وہ ولدالزناتھے ،اللہ تعالیٰ کی ان پربے شمارلعنتیں  ہوں ،اوراس کاکلام جادوکا کرشمہ تھا ،نصاریٰ کے نسطوریہ (پروٹسٹنٹ)فرقہ نے کہاکہ وہ ابن اللہ ہے،ملکیہ یا سلطانیہ یا اسرائیلیہ (کیتھولک) فرقہ نے کہا وہ تین خداؤ ں  میں  سے تیسرے ہیں  یعنی ایک تواللہ جومعبودہے ،دوسرے یہی جومعبودہیں  اورتیسرے ان کی والدہ جو معبود ہیں ، اور تیسرے فرقہ یعقوبیہ(آرتھوڈکس)نے کہاوہ خوداللہ ہیں وہ جب تک چاہازمین پر رہا جسے چاہاجلایاجسے چاہامارااورپھرآسمان پرواپس چلاگیا،چوتھے گروہ نے واقع کے مطابق کہاکہ آپ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ،وہ اللہ ہی کاکلمہ تھے اور اس کے پاس کی بھیجی ہوئی روح ۔پس یہودیوں  نے تفریط اورتقصیرکی اور عیسائیوں  نے افراط اور غلو کیا، پہلے تین گروہوں  کے اقوال باطل اوران کی آراء فاسدہیں  جوشک وعناد،بے بنیاد شبہات اورانتہائی بودے دلائل پرمبنی ہیں چنانچہ روزمحشر ان افراط وتفریط کرنے والوں  کے لئے ہلاکت ہےجواللہ اوراس کے رسول اوراس کی کتابوں  کا انکار کرتے ہیں ،

عَنْ عُبَادَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِیسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ العَمَلِ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ،وہی معبودحقیقی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کامستحق نہیں  اوریہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوررسول ہیں   اوریہ کہ عیسیٰ  علیہ السلام اللہ کے بندے اوراس کے پیغمبرہیں اوراس کاکلمہ ہیں  جسے مریم کی طرف ڈالا گیا تھا اور اس کے طرف سے بھیجی ہوئی روح ہیں اوریہ کہ جنت وجہنم حق ہے ،  اس کے خواہ کیسے ہی اعمال ہوں  اللہ اسے ضرورجنت میں  پہنچائے گا۔[51]

آج یہ لوگ افراط وتفریط کے اپنے اپنے عقائدمیں  بدمست ہیں  ،اپنے غلط عقائد کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں ،اللہ کے ساتھ شرک کرکے اپنی جانوں  پر خود ظلم ڈھارہے ہیں ،دعوت حق کا راستہ روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں دعوت حق کودیکھنے اورسننے سے اندھے اوربہرے بنے ہوئے ہیں  مگرقیامت کے دن جب اولین وآخرین سب حاضرہوں  گے اس دن یہ خوب سنیں  گے اورخوب دیکھیں  گے اوراپنے کفروشرک پرمبنی اقوال ونظریات کااقرارکرتے ہوئے کہیں  گے۔

 رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [52]

ترجمہ:اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیااب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں  اب یقین آگیاہے۔

مگراس دن کادیکھنا، سننا، اپنے اعمال پر حسرت وافسوس کرنااورواویلاکرناکچھ کام نہ آئے گا،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ أَحَدٌ، أَوْ: لَیْسَ شَیْءٌ أَصْبَرَ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ لَیَدْعُونَ لَهُ وَلَدًا، وَإِنَّهُ لَیُعَافِیهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ سے زیادہ ناپسندیدہ باتوں  پرصبرکرنے والاکوئی نہیں لوگ اس کی اولادٹھیراتے ہیں   اوروہ انہیں  تندرستی دیتا ہے بلکہ انہیں  روزی بھی دیتاہے۔[53]

وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَإِلَیْنَا یُرْجَعُونَ ‎﴿٤٠﴾(مریم)
’’تو انہیں اس رنج و افسوس کے دن کا ڈر سنا دے جبکہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت اور بےایمانی میں ہی رہ جائیں گے،خود زمین کے اور تمام زمین والوں کے وارث ہم ہی ہوں گے اور سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا کر لائے جائیں گے۔‘‘

قیامت کادن دوزخیوں  کے لیے یوم حسرت :

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آج یہ لوگ صریح گمراہی میں  پڑے ہوئے ہیں  اور حق کوتسلیم نہیں  کررہے مگرروزقیامت کوجب اللہ ہی ساری زمین اور تمام زمین والوں  کاوارث ہوگا،اور جب تمام جن وانس ایک ہی جگہ اکٹھے ہوں  گے اوران کے اعمال کے بارے میں  جواب طلب کیاجائے گا، ہرشخص کافر داً فرداًاعمال کاحساب کتاب کرکے صحیفے لپیٹ دیے جائیں  گے ،اللہ کے حکم سے جنتی ہری بھری ،بے شمارلازوال نعمتوں  سے بھری وسیع وعریض جنت میں  اورجہنمی غیض وغضب سے پھٹتی جہنم میں  داخل کردیے جائیں  گے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَیْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ، فَیُنَادِی مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ، فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ، فَیَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ یُنَادِی: یَا أَهْلَ النَّارِ، فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ، فَیَقُولُ: وهَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ  رَآهُ، فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُولُ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ، وَیَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الأَمْرُ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ} [54]

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قیامت کے دن موت ایک چتکبڑے مینڈھے کی شکل میں  لائی جائے گی،ایک آوازدینے والافرشتہ آوازدے گاکہ اے جنت والوں  !تمام جنتی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں  گےآوازدینے والافرشتہ پوچھے گاتم اس مینڈھے کوبھی پہچانتے ہو؟وہ بولیں  گے کہ ہاں ،یہ موت ہےاوران سے ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہے  پھراسے ذبح کردیاجائے گااورآوازدینے والاجنتیوں  سے کہے گاکہ ان تمہارے لئے ہمیشگی ہے ،موت تم پرکبھی نہ آئے گی،  اوراے جہنم والو!تمہیں  بھی ہمیشہ اسی طرح رہناہے ،تم پربھی موت کبھی نہیں  آئے گی،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت کی ’’اورانہیں  حسرت کے دن سے ڈراؤ جبکہ اخیرفیصلہ کردیاجائے گااوریہ لوگ غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘[55]

توکفارومشرکین کے دل حسرت وندامت سے پارہ پارہ ہوں  گے اوروہ حسرت سے کہیں  گے کہ کاش! انہوں  نے ابلیس کاساتھی بننے کے بجائے حق کوقبول کیا ہوتا اور حق ہی کا ساتھ دیاہوتاتوہم بھی جنتی ہوتے،ہم بھی رب کے بے بہا انعام واکرام کے مستحق بن جاتے،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ [56]

ترجمہ:ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں  نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا،ہائے میری کم بختی میں  نے فلاں  شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

اور بدکارکہیں  گے دنیامیں  ہم اس عظیم معاملے کے بارے میں  غفلت میں  پڑے رہے ،ہم پرمال ودولت ،بڑے جتھے ،حکومت و اختیارات کی مدہوشی غالب رہی کاش! ہم نے حقیقت حال پر غورفکر کیا ہوتا اوروہ  برائیاں  نہ کی ہوتیں جس کے صلے میں  جہنم کی سزاسنائی گئی ہے اورنیکوکاربھی حسرت کریں  گے کہ کاش! انہوں  نے اورزیادہ نیکیاں  کمائی ہوتیں ،رب کی اور زیادہ خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہوتی تاکہ ہمارے درجات اوربلند ہوجاتے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِی قِصَّةٍ ذَكَرَهَا، قَالَ: مَا مِنْ نَفْسٍ إِلَّا وَهِیَ تَنْظُرُ إِلَى بَیْتٍ فِی الْجَنَّةِ، وَبَیْتٍ فِی النَّارِ، وَهُوَ یَوْمُ الْحَسْرَةِ، فَیَرَى أَهْلُ النَّارِ الْبَیْتَ الَّذِی كَانَ قَدْ أَعَدَّهُ اللَّهُ لَهُمْ لَوْ آمَنُوا، فَیُقَالُ لَهُمْ: لَوْ آمَنْتُمْ وَعَمِلْتُمْ صَالِحًا كَانَ لَكُمْ هَذَا الَّذِی تَرَوْنَهُ فِی الْجَنَّةِ، فَتَأْخُذُهُمُ الْحَسْرَةُ، وَیَرَى أَهْلُ الْجَنَّةِ الْبَیْتَ الَّذِی فِی النَّارِ، فَیُقَالُ: لَوْلَا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْكُمْ …

عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ اس دن ہرانسان اپنے جنت کے گھراوردوزخ کے گھرکودیکھے گا اوروہی یوم حسرت ہےاہل دوزخ اپنے جنت کے اس گھرکودیکھیں  گے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیارکررکھاتھابشرطیکہ وہ ایمان لے آتے،اس لیے ان سے کہاجائے گاکہ اگرتم ایمان لاتے اورنیک عمل کرتے توجنت میں  یہ تمہاراگھرہوتاجسے تم دیکھ رہے ہو  تواس سے انہیں  بہت افسوس اورحسرت ہوگی،اسی طرح اہل جنت دوزخ میں  اپنے گھرکودیکھیں  گےتوان سے کہاجائے گاکہ اگراللہ تعالیٰ کاتم پراحسان نہ ہوتا تو ۔۔۔  [57]

مگرعمل کی مہلت ختم ہوچکی ہوگی اوراس وقت کاپچھتاواکچھ کام نہ آئے گا۔

وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِبْرَاهِیمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّیقًا نَبِیًّا ‎﴿٤١﴾‏ إِذْ قَالَ لِأَبِیهِ یَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِی عَنْكَ شَیْئًا ‎﴿٤٢﴾‏ یَا أَبَتِ إِنِّی قَدْ جَاءَنِی مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِی أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا ‎﴿٤٣﴾‏ یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّیْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِیًّا ‎﴿٤٤﴾‏ یَا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّیْطَانِ وَلِیًّا ‎﴿٤٥﴾(مریم)
’’اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے، جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان ! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں ؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں،میرے مہربان باپ ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا، میرے ابا جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے، ابا جان ! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔‘‘

اہل مکہ کوتنبیہ فرمائی کہ تم ابراہیم  علیہ السلام کواپناپیشواتسلیم کرتے ہواورانہی کی اولادہونے پرعرب میں  اپنافخرجتلاتے ہو،ہماراوہ بندہ توبتوں  کاپجاری نہیں بلکہ خالص توحیدپرست تھا، اس نے بھی جب اپنے والداوراپنی قوم کوطاغوت کی بندگی سے روکااوردعوت توحیدپیش کی تھی تواس جرم میں انہیں  بھی اپنا گھربار ، عزیزواقارب اوروطن کوچھوڑناپڑاتھا، اور مہاجرین کوتسلی فرمائی کہ جس طرح ابراہیم  علیہ السلام توحیدالٰہی کی خاطراپناگھربارچھوڑکر تباہ وبربادنہیں  ہوئے تھے بلکہ اللہ نے انہیں  سربلنداورسرفرازفرمایاتھااسی طرح تم لوگ بھی ہجرت کر کے تباہ وبربادنہیں  ہوگے بلکہ اللہ تعالیٰ تمہیں  ایسی عزتوں  سے سرفرازفرمائے گاجس کاکفارومشرکین تصوربھی نہیں  کرسکتے ،فرمایا اے نبی!ان مشرکین کے سامنے ابراہیم  علیہ السلام کا قصہ بیان کروجس کے قول وعمل میں  مطابقت اورراست بازی جس کاشعارتھااورایک سچا پیغمبر تھا،انہیں  ذرااس موقع کی یاددلاؤ جبکہ اس نے نہایت آداب اور شفقت وپیارسے اپنے باپ کودعوت توحیددیتے ہوئے کہاتھاکہ اباجان! آپ ان بے جان بتوں  کی پرستش کیوں  کرتے ہیں  جواپنی ذات اورافعال میں  ناقص ہیں ،جونہ سن سکتے ہیں  نہ دیکھ سکتے ہیں  اوراپنے عبادت گزاروں  کونہ نفع پہنچاسکتے ہیں  نہ نقصان،بلکہ وہ خوداپنے آپ کوکوئی نفع نہیں  پہنچاسکتے ،اورنہ اپنی ذات سے کوئی چیزدورہٹانے کی قدرت رکھتے ہیں ،اباجان!مجھے حقیرنہ جانیں  اوریہ نہ سمجھیں  کہ میں  آپ کابیٹاہوں  اوریہ کہ جوکچھ آپ کے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں  بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ  اللہ وحدہ لاشریک نے میری طرف ایک ایساعلم بھیجاہے جوآپ کے پاس نہیں  بھیجا،اس پاکیزہ علم سے مجھے اللہ کی معرفت، حیات بعد الموت،حساب کتاب اورغیراللہ کے پجاریوں  کے لیے دائمی عذاب کاعلم ہواہےاس لیے آپ میری پیروی کریں ،میں  آپ کوایساراستہ بتاؤ ں  گا جو آپ کوابدی سعادت اورنجات سے ہمکنارکردے گا ، اباجان! ان بتوں  کی پرستش تودراصل اپنے مالک حقیقی کوچھوڑکرشیطان کی پرستش ہے جو اللہ مالک کائنات کانافرمان اورراندہ درگاہ ہے، جیسے فرمایا

اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۝۱۱۷ۙلَّعَنَهُ اللهُ  ۔۔۔۝۱۱۸ۙ [58]

ترجمہ:وہ اللہ کوچھوڑکردیویوں  کومعبودبناتے ہیں وہ اس باغی شیطان کومعبودبناتے ہیں  جس کواللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔

جس نے انسانوں  کوگمراہ کرنے کے لیے بڑی جرات سے اللہ کی بارگاہ میں  دعوی ٰ کیاتھا

۔۔۔ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۱۱۸ۙوَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ۔۔۔  ۝۱۱۹ۭ [59]

ترجمہ میں  تیرے بندوں  سے ایک مقرر حصہ لے کررہوں  گامیں  انہیں  بہکاوں  گا میں  انہیں  آرزؤ ں  میں  الجھاؤ ں  گامیں  انہیں  حکم دوں  گااوروہ میرے حکم سے جانوروں  کے کان پھاڑیں  گے اور میں  انہیں  حکم دوں  گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں  ردو بدل کریں  گے۔

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷[60]

ترجمہ: ابلیس بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ  پر ان انسانوں  کی گھات میں  لگا رہوں  گا، آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں  ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۳۹ۙ [61]

ترجمہ:ابلیس بولا میرے رب! جیساتو نے مجھے بہکایا ہے اسی طرح اب میں  زمین میں  ان کے لئے دلفریبیاں  پیدا کرکے ان سب کو بہکا دوں  گا ۔

عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِی فَاكِهٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ، فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ لَهُ: أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِینَكَ، وَدِینَ آبَائِكَ، وَآبَاءِ أَبِیكَ؟  قَالَ:  فَعَصَاهُ، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: أَتُهَاجِرُ وَتَذَرُ أَرْضَكَ، وَسَمَاءَكَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی الطِّوَلِ  قَالَ:فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ

سبرہ بن ابی فاکہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف راستوں  میں  بیٹھا ہوتا ہےپہلے اسلام کے راستے میں  بیٹھتا ہے اور اس سے کہتا ہےکیا تواسلام قبول کرکے اپنا اور اپنے اباؤ اجداد کا دین ترک کردے گا؟وہ اس کی  نافرمانی کر کے اسلام قبول کر لیتاہے توشیطان ہجرت کے راستے میں  آکر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تو ہجرت کر کے اپنے زمین اور آسمان کو چھوڑ کر چلاجائے گامہاجر کی مثال تو لمبائی میں  گھوڑے جیسی ہےوہ پھر اس کی  نافرمانی کر کے ہجرت کر جاتا ہے،

قَالَ: ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْجِهَادِ، فَقَالَ: هُوَ جَهْدُ النَّفْسِ، وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَیُقَسَّمُ الْمَالُ  قَالَ:فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَمَاتَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ قُتِلَ  كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّةٌُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ

پھر شیطان جہاد کے راستے میں  بیٹھ جاتا ہےاور اس سے کہتا ہے کہ اس سے جان مال دونوں  کو خطرہ ہے  تو لڑائی میں  شرکت کرتا ہے اور ماراجائے گا تیری بیوی سے کوئی اور نکاح کرلے گا اور تیرے مال کا بٹوارہ ہوجائے گا لیکن وہ اس کی  نافرمانی کرکے اور جہاد کے لیے چلا جاتا ہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص یہ کام کر کے فوت ہوجائے تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں  داخل کرے اگر وہ شہید ہوجائے تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں  داخل کرے  یاسمندر میں  ڈوب جائے   تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں  داخل کرے  یا جانور سے گر کر فوت ہوجائے تب بھی اللہ کے ذمے حق ہے کہ اس کو جنت میں  داخل کرے۔ [62]

جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جن وانس کوشیطان کی بندگی سے روکااوراپنی بندگی کاحکم فرمایاہے

 اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [63]

ترجمہ:آد م کے بچو کیا میں  نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرووہ تمہاراکھلادشمن ہے۔

طاغوت کی پرستش کے انجام بدسے ڈراتے ہوئے کہا اباجان!اگرآپ کفروشرک سے تائب نہ ہوئے اور اسلام قبول نہ کیااوراسی کفروشرک کی حالت میں  آپ پرموت وارد ہوگئی تومجھے خوف ہے کہ آپ اللہ کے دردناک عذاب میں  گرفتارہوکر شیطان کے ہمراہ جہنم میں  داخل نہ کر دیے جائیں  جس سے کوئی آپ کو نجات نہ دلاسکے گا ۔

قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِی یَا إِبْرَاهِیمُ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِی مَلِیًّا ‎﴿٤٦﴾‏ قَالَ سَلَامٌ عَلَیْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّی ۖ إِنَّهُ كَانَ بِی حَفِیًّا ‎﴿٤٧﴾‏ وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّی عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا ‎﴿٤٨﴾‏ فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا ‎﴿٤٩﴾‏ وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا ‎﴿٥٠﴾ (مریم)
’’اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم ! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے،سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ، کہا اچھا تم پر سلام ہو میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے،میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں، صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا، جب ابراہیم (علیہ السلام) ان سب کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ چکے تو ہم نے انھیں اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا فرمائے اور دونوں کو نبی بنادیا، اور ان سب کو ہم نے اپنی بہت سی رحمتیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کے ذکر جمیل کو بلند درجے کا کردیا ۔‘‘

باپ کی دھمکی :

کلمہ توحیدکتنا ہی شیریں  اورنرم لہجے میں  بیان کیاجائے ایک مشرک کے لیے وہ ناقابل برداشت ہی ہوتاہے اورجب ان کے خودساختہ شریکوں  کے من گھڑت قدرتوں  اور اختیارات کاذکرکیاجائے توخوش ہوجاتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [64]

ترجمہ:جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں  کے دل کڑھنے لگتے ہیں  ، اور جب اس کے سوا دوسروں  کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں  ۔

چنانچہ باپ نے دعوت حق کوسمجھنے کے بجائے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے نہایت درشتی سے ملامت کرنے لگا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ ۔۔۔[65]

ترجمہ:پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا ۔

اور کہااے ابراہیم  علیہ السلام !کیاتومیرے معبودوں  کی پرستش سے اعراض کرتاہے ؟اگرتومیرے معبودوں  کوسب وشتم کرنے اورمجھے دعوت توحیددینے سے بازنہ آیا تومیں  تجھے پتھر مارمارکرہلاک کردوں  گا، تیرے لیے بہتریہی ہے کہ توہمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہوجا،  ابراہیم  علیہ السلام نے والدکے اس طرح جواب دینے پرصبرکیااور کہاآپ میرے خطاب میں  سب وشتم اورناگوارباتوں  سے محفوظ رہیں  گے ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳ [66]

ترجمہ:اور جاہل ان کے منہ آئیں  تو کہہ دیتے ہیں  کہ تم کو سلام۔

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۡسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۡلَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ۝۵۵ [67]

ترجمہ: اور جب انہوں  نے بےہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہےہم جاہلوں  کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں  چاہتے۔

البتہ میں  اپنے پروردگارسے آپ کی ہدایت اور بخشش ومغفرت کی دعامانگتارہوں  گا میرارب مجھ پربڑاہی لطف وکرم فرمانے والا ہے،جیسے فرمایا

 قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَـنَةٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْءٍ ۔ ۔ ۔ ۝۴ [68]

ترجمہ:تم لوگوں  کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں  میں  ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں  نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں  سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں  ، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اور پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ، مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اس سے مستثنی ہے ) کہ میں  آپ کے لئے مغفرت کی درخواست ضرور کروں  گا اور اللہ سے آپ کے لئے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں  نہیں  ہے۔

اوریہ اسی کالطف وکرم ہے کہ اس نے مجھے ایمان واخلاص اختیارکرنے کی ہدایت فرمائی ہے ،چنانچہ اپنے وعدے کے مطابق ابراہیم  علیہ السلام اپنے والدکے لیے ایک طویل مدت تک دعافرماتے رہے،جیسے فرمایا

رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۝۴۱ۧ  [69]

ترجمہ: پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں  کو اس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔

مگرجب انہیں  پر واضح ہوگیاکہ ان کاوالداللہ کادشمن ہے توآپ نے دعاکرناترک فرمادیا،جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ۝۰ۭ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ۝۱۱۴ [70]

ترجمہ: ابراہیم  علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے جودعائے مغفرت کی تھی وہ تواس وعدے کی وجہ سے تھی جواس نے اپنے باپ سے کیاتھامگرجب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کاباپ اللہ کا دشمن ہے تووہ اس سے بیزارہوگیا۔

میں  آپ لوگوں  کو اوران تمام ہستیوں  کوبھی جنہیں  آپ لوگ اللہ مالک الارض وسماوات کو چھوڑ کر پکاراکرتے ہیں چھوڑنے کااعلان کرتاہوں  اور اپنے وطن سے ہجرت کرتا ہوں  ،میں  توصرف اپنے پروردگار ہی کوپکارتارہوں  گااورمجھے یقین کامل ہے کہ میں  اپنے رب کوپکارکرمحروم ،نامرادنہیں  رہوں  گا،پس جب ابراہیم  علیہ السلام توحیدالٰہی کی خاطران مشرک لوگوں  اور ان کے باطل معبودوں  کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کرگیا توہم نے اس کواسحاق  علیہ السلام  اوریعقوب  علیہ السلام جیسی اولاددی اور ہرایک کونبی بنایا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ:أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ قَالُوا: لَیْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:فَأَكْرَمُ النَّاسِ یُوسُفُ نَبِیُّ اللَّهِ، ابْنُ نَبِیِّ اللَّهِ، ابْنِ نَبِیِّ اللَّهِ، ابْنِ خَلِیلِ اللَّهِ قَالُوا: لَیْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:فَعَنْ مَعَادِنِ العَرَبِ تَسْأَلُونِی؟ النَّاسُ مَعَادِنُ، خِیَارُهُمْ فِی الجَاهِلِیَّةِ خِیَارُهُمْ فِی الإِسْلاَمِ، إِذَا فَقُهُوا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا سب سے زیادہ بزرگ شخص کون ہے؟ فرمایاجواللہ کاخوف سب سے زیادہ رکھتاہو، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہمارے سوال کایہ مقصدنہیں  ہے، فرمایا پھرسب سے زیادہ شریف اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ہیں ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا ہمارے سوال کایہ مقصدیہ بھی نہیں  ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااچھاتم لوگ عرب کے خانوادوں  کے بارے میں  پوچھناچاہتے ہو؟دیکھو!لوگوں  کی مثال کانوں  کی سی ہے(کسی کان میں  سے اچھامال نکلتاہے اورکسی  سے برا)جولوگ تم میں  سے زمانہ جاہلیت میں  شریف اوربہتراخلاق کے تھے وہی اسلام کے بعدبھی اچھے اورشریف ہیں  بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں ۔[71]

اورنبوت کے علاوہ اوربھی بہت سی رحمتیں  نچھاور کیں  ، اوردنیامیں  ان کے ذکرجمیل کو بلندکردیا۔

وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِیًّا ‎﴿٥١﴾‏وَنَادَیْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَیْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِیًّا ‎﴿٥٢﴾‏ وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِیًّا ‎﴿٥٣﴾ (مریم)
’’ اس قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکربھی کر جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا ،ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا،اور اپنی خاص مہربانی سے اس کے بھائی کو نبی بنا کر عطا فرمایا۔‘‘

اوراس قرآن میں  اللہ کے برگزیدہ بندے موسیٰ بن عمران کا تعظیم وتوقیرکے طورپرذکرکروجسے اللہ تعالیٰ نے جہانوں  پرفضیلت دے کر رسالت وپیغمبری کے لیے منتخب کر لیا تھا اوروہ عالی مقام پیغمبر تھا،جیسے فرمایا

قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّى اصْطَفَیْتُكَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِكَلَامِیْ۔۔۔  ۝۱۴۴ [72]

ترجمہ:فرمایااے موسیٰ  علیہ السلام !میں  نے تمام لوگوں  پرترجیح دے کر تجھے منتخب کیاکہ میری پیغمبری کرے اورمجھ سے ہم کلام ہو۔

ہم نے اس کومدین سے مصرجاتے ہوئے رات کے وقت طورکے مشرقی دامن سے پکارااور راز کی گفتگوسے اس کوتقرب عطافرمایااوراسی موقع پر موسیٰ  علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنے اندیشوں  اور مددگارکے طورپربڑے بھائی کے لیے دعاکی

 قَالَ رَبِّ اِنِّىْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ۝۳۳وَاَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْٓ۝۰ۡاِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ۝۳۴  [73]

ترجمہ: موسیٰ  علیہ السلام  نے عرض کیا میرے آقا !میں  توان کاایک آدمی قتل کرچکاہوں ڈرتاہوں  کہ وہ مجھے مار ڈالیں  گے، اورمیرابھائی ہارون  علیہ السلام مجھ سے زیادہ زبان آورہے اسے میرے ساتھ مددگار کے طورپربھیج تاکہ وہ میری تائیدکرےمجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں  گے۔

وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى ہٰرُوْنَ۝۱۳ وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ۝۱۴ۚ [74]

ترجمہ:میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں  چلتی، آپ ہارون علیہ السلام  کی طرف رسالت بھیجیں اور میرے ذمے ان لوگوں  کا ایک گناہ بھی ہے جس کے باعث میں  ڈرتا ہوں  کہ کہیں  تبلیغ رسالت سے قبل ہی وہ مجھے قتل نہ کر دیں ۔

ایک مقام پرموسیٰ   علیہ السلام کی التجایوں  بیان کی گئی ہے

 قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۝۲۵ۙوَیَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۝۲۶ۙوَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ۝۲۷ۙیَفْقَـــهُوْا قَوْلِیْ۝۲۸۠وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ۝۲۹ۙهٰرُوْنَ اَخِی۝۳۰ۙاشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِیْ۝۳۱ۙوَاَشْرِكْهُ فِیْٓ اَمْرِیْ۝۳۲ۙكَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا۝۳۳ۙوَّنَذْكُرَكَ كَثِیْرًا۝۳۴ۭاِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا۝۳۵ [75]

ترجمہ: موسیٰ  علیہ السلام نے عرض کیا پروردگار! میراسینہ کھول دے اور میرے کام کومیرے لیے آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ سلجھادے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں  اورمیرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیرمقررکردے،ہارون ! جومیرابھائی ہےاس کے ذریعہ سے میراہاتھ مضبوط کر اور اس کومیرے کام میں  شریک کردےتاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں  اورخوب تیرا چرچا کریں توہمیشہ ہمارے حال پرنگران رہاہے۔

توہم نے اس کی دعاکوشرف قبولیت بخشااوراپنی رحمت و مہربانی سے اس کے بھائی ہارون  علیہ السلام کونبی بناکراسے مددگارکے طور پر دیا۔

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا۔۔۔۝۰۝۳۵[76]

ترجمہ:فرمایاہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں  گے اورتم دونوں  کوایسی سطوت بخشیں  گے کہ وہ تمہاراکچھ نہ بگاڑسکیں  گے۔

ایک مقام پرفرمایا

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى۝۳۶ [77]

ترجمہ: ارشاد ہوا اے موسیٰ! تمہاری سب درخواستیں  منظورکی گئیں ۔

وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِسْمَاعِیلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِیًّا ‎﴿٥٤﴾‏ وَكَانَ یَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِیًّا ‎﴿٥٥﴾ (مریم)
’’اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی، وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوة کا حکم دیتا تھا اور تھا بھی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول۔‘‘

اوراس کتاب میں  ابراہیم  علیہ السلام کے بیٹے اورعظیم نبی اسماعیل  علیہ السلام کاذکرکرو،جس سے افضل اورجلیل عربی قبیلے کی نسل چلی ،جس میں  اولادآدم کے سردارمحمدمصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے،اللہ تعالیٰ نے ان کے تین پسندیدہ اعمال کاذکرفرمایاوہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے اوربندوں  سے کیے ہوئے وعدوں  کو پوراکرتے تھے،

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَوْلُهُ: {إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ} قَالَ: لَمْ یَعِدْ رَبَّهُ عِدَّةً إِلَّا أَنْجَزَهَایَعْنِی: مَا الْتَزَمَ قَطُّ عِبَادَةً بِنَذْرٍ إِلَّا قَامَ بِهَا، وَوَفَّاهَا حَقَّهَا

ابن جریج’’ وہ وعدے کا سچا تھا ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں  انہوں  نے اپنے رب تعالیٰ سے جووعدہ کیااسے پورا کر دکھایا اورجس عبادت کے اداکرنے کی نذرمانی اسے بھی پوراکردیا ۔[78]

الفائے عہدصفات حمیدہ میں  سے ہے ،جبکہ وعدہ خلافی منافقین کی نشانی ہے،جیسے فرمایا

 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ [79]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہوتم کیوں  وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں  ہو ؟اللہ کے نزدیک یہ طریقہ بڑا ہی ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو کہ خود نہ کرو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آیَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامنافق کی تین نشانیاں  ہیں جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اورجب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرے۔[80]

اوروہ رسول نبی تھا ،

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِیمَ إِسْمَاعِیلَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِی إِسْمَاعِیلَ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِی كِنَانَةَ قُرَیْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِی مِنْ بَنِی هَاشِمٍ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے اولادابراہیم میں  سے اسماعیل  علیہ السلام کومنتخب فرمالیاتھا اوربنی اسماعیل میں  سے کنانہ کومنتخب فرمایا اور بنی کنانہ سے قریش کومنتخب فرمایا اوربنوقریش میں  سے بنوہاشم کومنتخب فرمایااوربنوہاشم میں  سے مجھے منتخب فرمایا۔[81]

وہ خودبھی حقوق اللہ کی ادائیگی نمازاورحقوق العبادزکوٰة کا پابندتھا اور اپنے گھروالوں  پربھی اللہ کاحکم نافذکرتے ہوئے ان کوبھی نمازکی پابندی اورزکوٰة کی ادائیگی کاحکم دیتاتھا ، مالک ارض وسماوات نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم فرمایا

وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا۔۔۔  ۝۱۳۲ [82]

ترجمہ: اپنے اہل وعیال کونمازکی تلقین کرواورخودبھی اس کے پابندرہو۔

ایک مقام پراہل ایمان کومخاطب کرکے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶ [83]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!بچاؤ اپنے آپ کواوراپنے اہل وعیال کواس آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھرہوں  گے جس پرنہایت تندخواورسخت گیرفرشتے مقرر ہوں  گے جوکبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اورجوحکم بھی انہیں  دیاجاتاہے اسے بجالاتے ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّى، وَأَیْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِی وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ، وَأَیْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِی وَجْهِهِ الْمَاءَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس مردپراللہ کارحم کرےجورات تہجدپڑھنے کے لیے اپنے بسترسے اٹھتاہے پھراپنی بیوی کو جگاتاہے اوروہ بھی نماز پڑھتی ہےاگروہ انکارکرتی ہے تواس کے چہرے پرپانی کے چھینٹے مارتاہے،اوررحم کرے اللہ تعالیٰ اس عورت پر اس عورت پرجورات کوتہجدپڑھنے کے لیے اٹھتی ہے پھراپنے خاوندکو جگاتی ہے اوروہ انکارکرتاہے تواس کے چہرے پرپانی کاچھینٹےمارتی ہے۔[84]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، وَأَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنِ اسْتَیْقَظَ مِنَ اللَّیْلِ وَأَیْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَصَلَّیَا رَكْعَتَیْنِ جَمِیعًا، كُتِبَا مِنَ الذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا، وَالذَّاكِرَاتِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  اور ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدکونین  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص رات کو جاگے اوراپنی بیوی کوبھی جگائے اوردونوں  دورکعتیں  نماز پڑھیں  توان کا شمار ذاکرین اور ذاکرات میں  ہوتا ہے جواللہ کوبہت زیادہ یادکرنے والے ہوتے ہیں ۔[85]

اسماعیل  علیہ السلام  نے اپنے رب کی مرضیات کے سامنے سرتسلیم کردیااورایسے امورسرانجام دینے میں  کوشاں  رہے جس سے اللہ راضی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے خاص بندوں  اوراولیائے مقربین میں  سے کردیا۔

وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِدْرِیسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّیقًا نَبِیًّا ‎﴿٥٦﴾‏ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِیًّا ‎﴿٥٧﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ مِنْ ذُرِّیَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّیَّةِ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْرَائِیلَ وَمِمَّنْ هَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِیًّا ۩ ‎﴿٥٨﴾‏(مریم)
’’اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا، ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا ،یہی وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کیا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نسل سے ہیں جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں چڑھا لیا تھا، اور اولاد ابراہیم و یعقوب سے اور ہماری طرف سے راہ یافتہ اور ہمارے پسندیدہ لوگوں میں سے، ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے اور روتے گڑ گڑاتے گرپڑتے تھے ۔‘‘

اوراس قرآن میں  ادریس  علیہ السلام  کاذکرکرووہ ایک راستبازانسان اورایک نبی تھااور ہم نے اسے نبوت سے سرفرازکرکے بلندمرتبہ عطاکیاتھا ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ إِدْرِیسَ كَانَ خَیَّاطًا، فَكَانَ  لَا یَغْرِزُ إِبْرَةً إِلَّا قَالَ:سُبْحَانَ اللَّهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےادریس علیہ السلام  درزی تھے   اورسوئی کے ایک ایک ٹانکے پرسبحان اللہ کہتے تھے۔[86]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب معراج پرتشریف لے گئے توچوتھے آسمان پرادریس  علیہ السلام سے ملاقات فرمائی تھی ،یہی وہ پیغمبرہیں  جن پراللہ نے فضل وکرم کیاجواولادآدم میں  سے ہیں  اور ان لوگوں  کی نسل سے ہیں  جنہیں  ہم نے نوح  علیہ السلام کے ساتھ کشتی پرسوارکیاتھااورابراہیم  علیہ السلام کی نسل سے یعنی اسحاق  علیہ السلام ،یعقوب  علیہ السلام ،اسماعیل  علیہ السلام اوراسرائیل(یعقوب  علیہ السلام ) کی نسل سے یعنی موسیٰ   علیہ السلام ، ہارون  علیہ السلام ،زکریا  علیہ السلام ،یحییٰ   علیہ السلام ،عیسیٰ   علیہ السلام ، اوریہ ان لوگوں  میں  سے تھے جن کوہم نے ہدایت بخشی اوربرگزیدہ کیاتھا،جیسےفرمایا

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا هَدَیْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَهٰرُوْنَ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۸۴ۙوَزَكَرِیَّا وَیَحْیٰى وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ۝۰ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۸۵ۙوَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا۝۰ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۸۶ۙ وَمِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ۝۰ۚ وَاجْتَبَیْنٰهُمْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ۝۸۷ [87]

ترجمہ:پھرہم نےابراہیم  علیہ السلام کواسحاق  علیہ السلام اوریعقوب جیسی اولاد دی اورہرایک کو راہ راست دکھائی (وہی راہ راست جو)اس سے پہلے نوح   علیہ السلام کودکھائی تھی،اوراس کی نسل سے ہم نے داود  علیہ السلام ،سلیمان  علیہ السلام ،ایوب  علیہ السلام ،یوسف  علیہ السلام ،موسیٰ   علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام  کو (ہدایت بخشی)اس طرح ہم نیکوکاروں  کوان کی نیکی کابدلہ دیتے ہیں (اسی کی اولادسے)زکریا  علیہ السلام ،یحییٰ  علیہ السلام ،عیسیٰ  علیہ السلام  اورالیاس  علیہ السلام  کو(راہ یاب کیا)ہرایک ان میں  سے صالح تھا(اسی کے خاندان سے)اسماعیل  علیہ السلام ،الیسع اوریونس  علیہ السلام  اورلوط  علیہ السلام  کوراستہ دکھایا)ان میں  سے ہرایک کوہم نے تمام دنیاوالوں  پرفضیلت عطاکی ، نیزان کے آباؤ اجداداوران کی اولاداوران کے بھائی بندوں  سے بہتوں  کوہم نے نوازا، انہیں  اپنی خدمت کے لیے چن لیااورسیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

اورفرمایا

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ۔۔۔ ۝۹۰ۧ [88]

ترجمہ:وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے انہی کے راستے پرتم چلو۔

ان کاحال یہ تھاکہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتوں  کی تلاوت کی جاتی تھی توغیب کی خبروں ،علام الغیوب کی صفات ،روزآخرت کی خبروں ،وعدووعیداوراس کے دلائل وبراہین سن کران کے دل ایمان اوررغبت سے لبریزہوجاتے تھے اور خشوع وخضوع کے ساتھ روتے اورگڑگڑاتے ہوئے سجدے میں  گرجاتے تھے۔

 كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّیْلِ، یَقُولُ فِی السَّجْدَةِ مِرَارًا:سَجَدَ وَجْهِی لِلَّذِی خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ سَجَدَ وَجْهِی لِلَّذِی خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  رات کوقرآن کے سجدے میں  دعاکہتے تھے’’میراچہرہ اس ذات کے لئے سجدہ ریزہے جس نے اس کوپیداکیاہے او راپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اورآنکھ بنائے۔‘‘[89]

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ‎﴿٥٩﴾‏ إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُونَ شَیْئًا ‎﴿٦٠﴾‏ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَیْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِیًّا ‎﴿٦١﴾‏ لَا یَسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیهَا بُكْرَةً وَعَشِیًّا ‎﴿٦٢﴾‏ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِی نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا ‎﴿٦٣﴾‏ (مریم)
’’ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئےسو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا بجز ان کے جو توبہ کرلیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں،ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی، ہمیشگی والی جنتوں میں جن کا غائبانہ وعدہ اللہ مہربان نے اپنے بندوں سے کیا ہے، بیشک اس کا وعدہ پورا ہونے والا ہی ہے، وہ لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے، ان کے لیے وہاں صبح شام ان کا رزق ہوگا، یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔‘‘

ترک نمازکانتیجہ شہوات کی پیروی :

پھران کے بعدوہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں  نے دین کے ستون،ایمان کی میزان اور رب العالمین کے لیے اخلاص نماز جیسے فریضے کوحقیرسمجھااوراسے بالکلیہ ضائع کیاجس کی حفاظت اوراس کوقائم کرنے کاانہیں  حکم دیاگیاتھااس طرح وہ کفرکے مرتکب ہوئے ،

جَابِرًا، یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ

جابر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھےبندے کے اورشرک کے درمیانی فاصلہ نمازکاچھوڑناہے۔[90]

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَیْدَةَ , عَنْ أَبِیهِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , یَقُولُ:  الْعَهْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ

اورعبداللہ بن بریدہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سنا ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے جس نے نمازچھوڑی وہ کافر ہو گیا ۔[91]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرًا غَیْرَ الصَّلَاةِ

اور ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےاصحاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی چیزکے ترک اعمال میں  سے کفرنہ جانتے تھے سوانمازکے۔[92]

عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ مُوسَى بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَةَ، فِی قَوْلِهِ:فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ،قَالَ: إِنَّمَا أَضَاعُوا الْمَوَاقِیتَ، وَلَوْ كَانَ تَرْكًا كَانَ كُفْرًا

اوزعی نے موسی بن سلیمان سے اور انہوں  نے قاسم بن مُخَیْمِرَةَ سے اس آیت کریمہ’’پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں  نے نماز کو ضائع کیا ۔‘‘ کے بارے میں  روایت کیاہے    انہوں  نے نمازوں  کے اوقات کوضائع کردیاتھااوراگراس سے مرادترک ہوتویادرہے ترک نمازکفرہے۔[93]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قِیلَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ یُكْثِرُ ذِكْرَ الصَّلَاةِ فِی الْقُرْآنِ {الَّذِینَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ}   وَ {عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ [94]  وَ {عَلَى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُونَ،[95]   فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: عَلَى مَوَاقِیتِهَا، قَالُوا: مَا كُنَّا نَرَى ذَلِكَ إِلَّا عَلَى التَّرْكِ، قَالَ: ذَاكَ الْكُفْرُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی خدمت میں  عرض کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں  نمازکاذکربکثرت فرمایاہے ،مثلاً ’’جواپنی نمازسے غافل رہتے ہیں ۔‘‘ ’’ جو نمازکاالتزام رکھتے ہیں ۔‘‘’’اورجواپنی نمازکی خبررکھتے ہیں ۔ ‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایاان آیات کاتعلق نمازکے اوقات سے ہے اورجہاں  تک نمازکے ترک کامعاملہ ہے توترک نمازکفرہے۔[96]

یااللہ کے مقررکردہ اوقات کوضائع کردیایعنی وقت پرنمازنہ پڑھی،جب جی چاہا نماز پڑھ لی اورکبھی بلاعذر اکٹھی کرکے پڑھ ھ لی ،کبھی دو،کبھی چار،کبھی ایک اورکبھی پانچوں  نمازیں  پڑھ لیں ،پھرجوں  جوں  غفلت اورلاپروائی بڑھتی گئی اسی طرح وہ خواہشات نفس کی دلدل میں  دھنستے ہی چلے گئے جس سے نکلنامحال ہوجاتاہے ، اوریوں  ایک گمراہی دوسری گمراہی کوجنم دیتی چلی گئی یہاں  تک کہ ان کے اخلاق اورمعاملات کا ہرگوشہ اللہ کے احکام کے بجائے اپنے من پسندطریقوں  کاپابندہوکررہ گیا پس قریب ہے کہ وہ اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں  گے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ:فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا، قَالَ: وَادٍ فِی جَهَنَّمَ، بَعِیدُ الْقَعْرِ، خَبِیثُ الطَّعْمِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  سے آیت کریمہ ’’سوان کانقصان ان کے آگے آئے گا۔‘‘کے بارے میں  روایت ہے غی جہنم کی ایک ایسی وادی ہے جس کی گہرائی بہت زیادہ اورجس کاکھانابہت خبیث ہو گا ۔[97]

وَقَالَ الْأَعْمَشُ، عَنْ زِیَادٍ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ فِی قَوْلِهِ: {فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا} قَالَ: وَادٍ فِی جَهَنَّمَ مِنْ قَیْحٍ وَدَمٍ،

اعمش نے زیادسے اورانہوں  نے ابوعیاض سے آیت کریمہ’’پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔ ‘‘کے بارے میں  روایت کیاہے غی جہنم کی خون اورپیپ سے بھری ہوئی ایک وادی کانام ہے۔ [98]

البتہ جولوگ توبہ کرکے شرک ، بدعات، ترک صلوٰة اورخواہش نفسانی سے بازآجائیں  اوراللہ تعالیٰ،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں  اور روز قیامت پرایمان لائیں  گے اور عمل صالحہ کے تقاضوں  کااہتمام کریں  گے وہی انجام بدسے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے،یہ لوگ جونیکیاں  کریں  گے ان کے اجرمیں  کوئی کمی نہیں  کی جائے گی بلکہ ان کوان کے اعمال کاکئی گنازیادہ اجردیاجائے گا ،ان کے لئے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری ہمیشہ رہنے والی وسیع وعریض جنتیں  ہیں  جن کا رحمان نے اپنے بندوں  سے غائبانہ وعدہ کررکھا ہے ، جن کاانہوں  نے مشاہدہ کیاہے نہ ان کودیکھاہے، یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے جویقینا ًپورا ہوکررہے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔كَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا۝۱۸ [99]

ترجمہ:اللہ کا وعدہ تو پور ا ہو کر ہی رہنا ہے۔

وہاں  وہ کوئی لغواورناپسندیدہ کلام نہ سنیں  گےاورجوکچھ بھی سنیں  گے بھلی اور معقول بات ہی سنیں  گے ، جیسےفرمایا

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۝۲۵ۙاِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ [100]

ترجمہ: وہاں  وہ کوئی بے ہودہ کلام یاگناہ کی بات نہ سنیں  گے ، بس ہر طرف سے سلام ہی سلام کی آوازیں  ہوں  گی۔

اوران کاعمدہ خوش ذائقہ رزق انہیں  بلا مشقت وزحمت صبح وشام یعنی جنتی جو چاہے گا ہر وقت ملتارہے گا،یہ ہے وہ جنت جس کاوارث ہم اپنے بندوں  میں  سے اس کوبنائیں  گے جوپرہیزگار رہاہو۔

اسی جنت کے حصول کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کوترغیب فرمائی۔

 وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ [101]

ترجمہ:دوڑکرچلواس راہ پر جوتمہارے رب کی بخشش اوراس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اورآسمانوں  جیسی ہے اورجوخداترس لوگوں  کے لیے مہیاکی گئی ہے ۔

‏ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَیْنَ أَیْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّا ‎﴿٦٤﴾رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِیًّا ‎﴿٦٥﴾(مریم)‏
’’ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے، ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں، آسمانوں کازمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا،کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے ؟۔‘‘

مشرکین مکہ نے مسلمانوں  کی زندگی اجیرن کررکھی تھی ، حالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام کے لیے بڑے وحشت ناک اور اضطراب انگیزتھے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ  رضی اللہ عنہم کو ہروقت وحی کاانتظاررہتاتھاتاکہ وحی کے ساتھ رہنمائی اور اطمینان قلب بھی حاصل ہو،ایک مرتبہ جبرائیل  علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس دیرسے نازل ہوئے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِیلَ: مَا یَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا، فَنَزَلَتْ: {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَیْنَ أَیْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا}  [102]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے احمدمجتبیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم نے(بڑے اشتیاق سے) جبرائیل امین سے کہا جیساکہ اب آپ ہماری ملاقات کوآیاکرتے ہیں اس سے زیادہ آپ ہم سے ملنے کیوں  نہیں  آیاکرتے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’ ہم فرشتے نازل نہیں  ہوتے بجزآپ کے پروردگارکے حکم کے،اسی کی ملک ہے جوکچھ ہمارے آگے ہے اورجوکچھ ہمارے پیچھے ہے۔‘‘[103]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ}قَالَ: احْتَبَسَ جَبْرَائِیلُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَحَزِنَ، فَأَتَاهُ جَبْرَائِیلُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے آیت کریمہ ’’ ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں  اترا کرتے۔‘‘کے بارے میں  روایت ہے  کئی دن تک جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس نہ آئے تواس سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوبہت حزن وملال ہوا،  پھرجب جبرائیل آئے تووہ یہ وحی لائے ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیرنہیں  اتراکرتے۔ ‘‘[104]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جبریل  علیہ السلام کی زبانی فرمایااے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم خود مختارنہیں  کہ اپنی من مرضی سے آپ کے پاس آیا جایا کریں ،ہم تو آپ کے رب کے مامور اورمحکوم بندے ہیں  جب رب العالمین اپنی حکمت ومشیت سے ہمیں  حکم فرمائے گاہم تب ہی آپ کی خدمت میں  حاضر ہوسکتے ہیں  ہم اس کے حکم کی نافرمانی نہیں  کر سکتے ،جیسے ارشاد فرمایا

۔۔۔لَّا یَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶ [105]

ترجمہ:جوکبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور جو حکم بھی انہیں  دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں ۔

وہی ہے جوہرزماں  ومکاں  میں  اور امورماضی ،حاضراورمستقبل کامالک ہے اورآپ کا رب آپ کو فراموش کرکے مہمل نہیں  چھوڑے گا، جیسے فرمایا

  وَالضُّحٰى۝۱ۙوَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰى۝۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۝۳ۭ [106]

ترجمہ:قسم ہے روزروشن کی اوررات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں  چھوڑااورنہ وہ ناراض ہوا۔

وہ آسمانوں  وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب کارب ہے ، پس تم اس قدرتوں  والے رب کی بندگی کے راستے پرمضبوطی کے ساتھ جمے رہو اورراہ حق میں  جومشکلات اور مصائب پیش آئیں  ان کاصبرکے ساتھ مقابلہ کرو،اگراللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے ہمیں دیرسے بھیجے تواس پرگھبرائیں  نہیں  بلکہ ایک فرمانبردار بندے کی طرح ہرحال میں  اس کی مشیت پرراضی رہیں اوراللہ نے جوکام آپ کے سپردکیا ہے اسے پوری دلجمعی کے ساتھ کرتے رہیں ،اللہ توبس ایک ہی الٰہ ہے ، کیاآپ تمام مخلوق میں  اس کی کوئی ہم نام ، کوئی مشابہت اورمماثلت رکھنے والی ہستی کوجانتے ہیں ؟ اورآپ خوب جانتے ہوکہ ایسی کوئی ہستی نہیں  جواللہ تعالیٰ کی برابری کرنے والی ،اس کے مشابہ اورمماثل ہو،جیسے فرمایا

۔۔۔لَیْسَ كَمِثْلِہٖ شَیْءٌ۔۔۔۝۱۱ [107]

ترجمہ: کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں  ۔

پس یہ اس حقیقت پربرہان قاطع ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلاعبودیت کامستحق ہے ،اس کی عبادت حق اورماسواکی عبادت باطل ہے،اس لیے اس نے صرف اپنی عبادت کرنے اور اس پر پابندرہنے کاحکم دیاہے ۔

وَیَقُولُ الْإِنْسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیًّا ‎﴿٦٦﴾‏ أَوَلَا یَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَیْئًا ‎﴿٦٧﴾‏ فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّیَاطِینَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا ‎﴿٦٨﴾(مریم)
’’انسان کہتاہے کہ جب میں مر جائوں گا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جائوں گا؟کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا، تیرے پروردگار کی قسم ! ہم انہیں اور شیطانوں کو جمع کر کے ضرور ضرور جہنم کے ارد گرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کردیں گے۔‘‘

قیامت یقیناًآئے گی :

اہل مکہ کوپچھلی قوموں  کی طرح حیات بعدازموت کایقین نہیں  تھاوہ بھی مرنے کے بعدزندہ کیے جانے کوبعیدسمجھتے تھے ، اس لئے وہ بھی پچھلی تباہ شدہ قوموں  کی طرح سخت تعجب اوراستہزاء کے اندازمیں  کہتے تھے کہ ہمارے مرنے کے بعدجب ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوکر مٹی میں  رل مل جائیں  گی توہمیں  دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کردیاجائے گا ،ایسا نہیں  ہوسکتایہ بعیدازامکان ہے جیسے فرمایا

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ۝۵ [108]

ترجمہ:اب اگر تمہیں  تعجب کرناہے توتعجب کے قابل لوگوں  کا یہ قول ہے کہ جب ہم مرکرمٹی ہوجائیں  گے توکیاہم نئے سرے سے پیداکیے جائیں  گے ۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [109]

ترجمہ:کیاانسان دیکھتانہیں  ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اورپھروہ صریح جھگڑالوبن کرکھڑا ہو گیا ؟اب وہ ہم پرمثالیں  چسپاں  کرتاہے اوراپنی پیدائش کوبھول جاتا ہے ،کہتاہے کون ان ہڈیوں  کوزندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں  گی؟۔

حالانکہ اگرانہوں  نے تھوڑاسابھی غوروفکرکیاہوتاتوانہیں  اچھی طرح معلوم ہوجاتاکہ اس کادوبارہ زندہ کیے جانے کومحال سمجھنابہت بڑی حماقت ہے ،اللہ تعالیٰ نے زندگی وموت کے امکان پرایسی قطعی برہان اورواضح دلیل بیان فرمائی ہے جسے ہرشخص جانتاہے ،اللہ تعالیٰ نے لطیف ترین پیرائے میں  عقلی دلیل کے ذریعے سے غوروفکرکرنے کی دعوت دی کہ جب ہم نے انسان کوپہلی مرتبہ جب وہ کچھ بھی نہ تھا بغیر کسی نمونے کے پیداکردیاہے تو کیا اللہ اسے اس کے ریزریزہ ہوجانے کے بعددوبارہ پیداکرنے کی اور اس کے بکھرجانے کے بعداس کودوبارہ اکٹھاکرنے کی قدرت نہیں  رکھتا ؟ ذراسوچوپہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ پیداکرنا،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔ [110]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتداکرتاہے پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لیے آسان ترہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِیبُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: لَنْ یُعِیدَنِی، كَمَا بَدَأَنِی، وَلَیْسَ أَوَّلُ الخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ یَكُنْ لِی كُفْئًا أَحَدٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہےابن آدم میری تکذیب کرتاہے حالاں  کہ یہ اس کے لائق نہیں ، ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتاہے حالاں  کہ اسے یہ زیب نہیں  دیتا،اس کامیری تکذیب کرناتویہ ہے کہ وہ میری بابت یہ کہتاہے کہ اللہ ہرگزمجھے اس طرح دوبارہ زندہ نہیں  کرے گاجس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا حالاں  کہ میرے لئے پہلی مرتبہ پیداکرنادوسری مرتبہ پیداکرنے سے زیادہ آسان نہیں  ہے، اوراس کامجھے ایذاپہنچانایہ ہے کہ وہ کہتاہے میری اولادہے’’حالاں  کہ میں  ایک ہوں ،بے نیازہوں  نہ میں  نے کسی کوجنااورنہ خود جنا گیا ہوں  اورمیراکوئی ہمسرنہیں ۔‘‘[111]

پھران سب کواس حال میں  جہنم کے گردجمع کردیں  گے کہ یہ محشرکی ہولناکیوں  اور حساب کے خوف سے گھٹنوں  کے بل بیٹھے ہوں  گے اوراللہ کے حکم کے منتظرہوں  گے ،جیسے فرمایا

وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً ۣ كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا  [112]

ترجمہ:اس وقت تم ہرگروہ کوگھٹنوں  کے بل گرادیکھوگےہرگروہ کوپکاراجائے گاکہ آئے اوراپنانامہ اعمال دیکھے ۔

اوراللہ تعالیٰ نےاپنی ربوبیت کی قسم کھاکر فرمایاکہ ہم ان تمام شیاطین کوبھی ایک مقررہ روز زندہ کریں  گے جن کی یہ عبادت کرتے تھے ،جن کے یہ چیلے بنے ہوئے ہیں  اور جن کے سکھائے پڑھائے میں  آکرانہوں  نے یہ سمجھ لیاہے کہ زندگی توبس یہی زندگی ہے اس کے بعدکوئی زندگی نہیں  ہے جہاں  ہمیں  اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دیناہوگا۔

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیعَةٍ أَیُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَٰنِ عِتِیًّا ‎﴿٦٩﴾‏ ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِینَ هُمْ أَوْلَىٰ بِهَا صِلِیًّا ‎﴿٧٠﴾‏ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِیًّا ‎﴿٧١﴾‏ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جِثِیًّا ‎﴿٧٢﴾(مریم)
’’ہم پھر ہر ہر گروہ سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمٰن سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے، پھر ہم انہیں بھی خوب جانتے ہیں جو جہنم کے داخلے کے زیادہ سزاوار ہیں، تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی،فیصل شدہ امر ہے، پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے اور نافرمانوں کو اسی میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے ۔‘‘

میدان محشرمیں  کفروشرک کی تعلیم دینے اورگناہوں  کی ترغیب دینے والے سرکش اورظالم پیشواؤ ں  اوران کے پیروکاروں  کوہم الگ الگ چھانٹ لیں  گے،اوریہ ہم خوب جانتے ہیں  کہ ان میں  سے کون سب سے بڑھ کرجہنم میں  جھونکے جانے کامستحق ہے یہ تواللہ کاحتمی فیصلہ ہے جسے وہ پوراکرکے رہے گا ،جب یہ سب گروہ جہنم میں  داخل کر دیے جائیں  گے توان کاآخری گروہ اولین گروہ سے کہے گا

۔۔۔ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [113]

ترجمہ:بعدوالاگروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گاکہ اے رب!یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کوگمراہ کیالہذاانہیں  آگ کادوہراعذاب دے،جواب میں  ارشادہوگاہرایک کے لیے دوہراعذاب ہی ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو۔

نیک ہویابد،مومن ہویاکافر ،تمام خلائق میں  کوئی شخص ایسانہیں  ہے جوجہنم پرواردنہ ہو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: یَرِدُ النَّاسُ جَمِیعًا الصِّرَاطَ، وَوُرُودُهُمْ قِیَامُهُمْ حَوْلَ النَّارِ، ثُمَّ یَصْدُرُونَ عَنِ الصِّرَاطِ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ مِثْلَ الْبَرْقِ  ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ مِثْلَ الرِّیحِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ مِثْلَ الطَّیْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ كَأَجْوَدِ الْخَیْلِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ كَأَجْوَدِ الْإِبِلِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَمُرُّ كَعَدْوِ الرَّجُلِ، حَتَّى إِنَّ آخِرَهُمْ مَرًّا رَجُلٌ نُورُهُ عَلَى مَوْضِعَیْ  إِبْهَامَیْ قَدَمَیْهِ، یَمُرُّ یَتَكَفَّأُ  بِهِ الصِّرَاطَ، وَالصِّرَاطُ دَحْضُ مَزَلّة، عَلَیْهِ حَسَك كَحَسك القَتَاد، حَافَّتَاهُ مَلَائِكَةٌ، مَعَهُمْ كَلَالِیبُ مِنْ نَارٍ، یَخْتَطِفُونَ بِهَا النَّاسَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  پل صراط سے ہرمومن اور کافر کوگزرناپڑے گایہی آگ کے پاس کھڑا ہوناہے،  متقی اورپرہیزگارلوگ اپنے تقویٰ اور اپنے اپنے اعمال صالحہ کے مطابق پلک جھپکتے ہی بجلی کی طرح گزرجائیں  گے،ان میں  بعض لوگ ہواکی ماننداس پرسےگزرجائیں  گےاور ان میں  سے بعض لوگ پرندوں  کی طرح  اس پر سے گزر جائیں  گےاوربعض لوگ عمدہ گھوڑوں  کی طرح دوڑتے ہوئے اس پرسے گزرجائیں  گے اوربعض لوگ تیزرفتار اونٹوں  کی طرح چلتے ہوئے اس پرسے گزرجائیں  گے اور بعض تیزرفتارپیدل چلنے والے انسان کی طرح اس چپرسے گزرجائیں  گےیہاں  تک کہ سب سے آخرمیں  جومسلمان اس پل پرسے گزرے گایہ وہ ہوگاجس کے صرف پیر کے انگوٹھے پرنورہوگااوروہ گرتاپڑتانجات پائے گا، پل صراط پھسلنی چیزہے جس پرببول جیسے اورگوگھروجیسے کانٹے ہیں ،دونوں  طرف فرشتوں  کی صفیں  ہوں  گے جن کے ہاتھوں  میں  جہنم کے اٹکس ہوں  گے جن سے پکڑپکڑکرلوگوں  کوجہنم میں  دھکیل دیں  گے،

ایک روایت میں  ہے

قَالَ: الصِّرَاطُ عَلَى جَهَنَّمَ مِثْلُ حَدِّ السَّیْفِ، فَتَمُرُّ الطَّبَقَةُ الْأُولَى كَالْبَرْقِ، وَالثَّانِیَةُ كَالرِّیحِ، وَالثَّالِثَةُ كَأَجْوَدِ الْخَیْلِ، وَالرَّابِعَةُ كَأَجْوَدِ الْبَهَائِمِ، ثُمَّ یَمُرُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ یَقُولُونَ: اللَّهُمَّ سَلّم سَلّم.

پل صراط تلوارکی دھارکی طرح تیزہوگا پہلاگروہ توبجلی کی طرح پلک جھپکتے ہی گزرجائے گااوردوسراگروہ ہواکی طرح گزرجائے گااورتیسراگروہ تیزرفتارگھوڑوں  کی طرح گزر جائے گااور چوتھاگروہ تیزرفتارجانوروں  کی طرح گزرجاےگا، فرشتے ہرطرف سے دعائیں  کررہے ہوں  گے اے اللہ! سلامت رکھ !اے اللہ سلامت رکھ۔[114]

بعض گنہگارجہنم میں  جاگریں  گےجنہیں  بعدمیں  نجات یافتہ لوگوں ،انبیاء اورملائکہ کی شفاعت کے ذریعے نکال لیا جائے گا،

عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ لَا  یَدْخُلَ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَیْبِیَةَ قَالَتْ: فَقُلْتُ أَلَیْسَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا}  [115] ؟ قَالَتْ: فَسَمِعَتْهُ یَقُولُ: {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جِثِیًّا} [116]

ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے اپنے رب کی ذات سے امیدہے کہ غزوہ بدراورغزوہ حدیبیہ میں  جوایمان دارموجودتھے ان میں  سے ایک بھی دوزخ میں  نہیں  جائے گا،یہ سن کرمیں  نے عرض کیاوہ کیسے،اللہ تعالیٰ نے تویہ فرمایاہے ’’  تم میں  سے ہرایک اس پر وارد ہونے والا ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بعدکی دوسری آیت پڑھ دی ،’’  متقی لوگ اس سے نجات پاجائیں  گے اورظالم لوگ اسی میں  رہ جائیں  گے۔‘‘[117]

لیکن کافراس پل کوعبورنہیں  کرسکیں  گے اورسب کے سب کٹ کٹ کر جہنم میں  گر پڑیں  گے اوراللہ ان کفراور معاصی کاارتکاب کرنے والوں  کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں  گراہ واچھوڑدے گا۔

‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَیُّ الْفَرِیقَیْنِ خَیْرٌ مَقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِیًّا ‎﴿٧٣﴾‏ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْیًا ‎﴿٧٤﴾(مریم)
’’ جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں بتاؤ ہم تم دونوں جماعتوں میں سے کس کا مرتبہ زیادہ ہے ؟ اور کس کی مجلس شاندار ہے؟ ہم تو ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو غارت کرچکے ہیں جو سازو سامان اور نام و نمود میں ان سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔‘‘

کثرت مال فریب زندگی:

صدیوں  کی تاریخ یہی ہے کہ دعوت حق کوپہلے پہل ہمیشہ غرباومساکین نے ہی قبول کیاہےیہی حال مکہ معظمہ میں  بھی تھا،ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ سابقون اولون کی اکثریت رؤساء کی تھی نہ کہ غرباء کی ان کے مطابق اگر روایات سیرت کو جمع کیاجائے تو 67 میں  سے53رؤساء تھے جبکہ چودہ غرباء۔مسلمانوں  کے مخالفین میں  ابوجہل ،نضربن حارث ، عتبہ، شیبہ وغیرہ رئیس تھے ،جن کے وسیع کاروبارتھے ،رہائش کے لئے عالی شان کوٹھیاں  اورمکانات تھے،دنیاوی کام کاج کے لئے خادم اورکنیزیں  تھیں ،خوراک کی کمی نہیں  تھی ، مسائل کی مشاورت کے لئے دارالشوریٰ تھاجبکہ ان کے مقابلے میں  مسلمانوں  میں   عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر، بلال  رضی اللہ عنہ بن رباح حبشی،صہیب رومی  رضی اللہ عنہ  وغیرہ جیسے مفلس لوگ تھے جوغلام تھےجن کا مرکزایک چھوٹاسامکان دارارقم تھااس لئے جب ان کفارکے سامنے اللہ کی آیات بینات کی تلاوت کی جاتی تھی جواللہ تعالیٰ کی وحدانیت اوراس کے رسولوں  کی صداقت پرواضح طورپردلالت کرتیں ہیں اورجوان کوسنتاہے اس کے لیے صدق ایمان اورشدت ایقان کاموجب بنتی ہیں ،مگرکفارومشرکین مکہ اپنی دولت وحشمت کومعیارحق بناکرغریب،تنگدست اوربدحال مسلمانوں  کوکہتے تھے کہ وہ اہل ایمان سے بہترہیں اورحق سے معارضہ کرتے ہوئے تمسخرانہ اندازسے کہتے تھے کہ اس بات پر ہی فیصلہ کرلو کہ اللہ کن لوگوں  کواپنی بے شمار نعمتوں  سے نوازرہاہے ، کس کے گھرزیادہ پرتکلف اورمعیارزندگی بلندہے ،کس کی محفلیں  اچھی اور زیادہ ٹھاٹھ باٹھ سے جمتی ہیں ؟ اگریہ سب کچھ ہمیں  میسرہے اورتم لوگ اس سے محروم ہوتوخودسوچ لوکہ آخریہ کیسے ممکن تھاکہ ہم باطل پرہوتے اوریوں  مال ودولت ،شان وشوکت ، عزت وآبرو میں  تم لوگوں  سے بڑھے ہوئے ہوتے اوریوں  مزے اڑاتے، اورتم لوگ حق پرہوتے اور اس طرح خستہ ودرماندہ رہتے،اورکھانے پینے تک کوترستے ،تم کہیں  ارقم بن ارقم کے گھر میں  چھپتے ہواورکہیں  ادھرادھربھاگتے پھرتے ہو،

قوم نوح   علیہ السلام  نے بھی اپنے پیغمبر سے یہی کہاتھا

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ [118]

ترجمہ: انہوں  نے جواب دیا ہم تجھے مان لیں  حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں  نے اختیار کی ہے؟۔

کفارمکہ بھی پچھلی اقوام کے قدم بقدم یہی کہتے تھے

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۱۱ [119]

ترجمہ:جن لوگوں  نے ماننے سے انکارکردیاہے وہ ایمان لانے والوں  کے متعلق کہتے ہیں  کہ اگراس کتاب کومان لیناکوئی اچھاکام ہوتاتویہ لوگ اس معاملے میں  ہم سے سبقت نہ لے جاسکتے۔

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا۝۰ۭ اَلَیْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ۝۵۳ [120]

ترجمہ:دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں  میں  سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں  ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں  دیکھ کر کہیں  کیا یہ ہیں  وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟ ہاں ! کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں  کو ان سے زیادہ نہیں  جانتا ہے ؟۔

ان کے اس موازنے پراللہ تعالیٰ نے فرمایادنیاکی ان عارضی چیزوں  پر فخروغرورکرنایاان کومعیاربناکرحق وباطل کا فیصلہ کرناکسی طوربھی مناسب نہیں  ہے یہ تواللہ کی حکمت ومشیت ہے کہ وہ کسی کوزیادہ دیتاہے اورکسی کوکم ، جیسے فرمایا

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۝۰ۭ وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۔۔۔۝۲۶ۧ [121]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے ۔

وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ۔۔۔۝۷۱  [122]

ترجمہ:اور دیکھو، اللہ نے تم میں  سے بعض کو بعض پر رزق میں  فضیلت عطا کی ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۰ۧ [123]

ترجمہ:تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ ۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۔۔۔۝۶۲  [124]

ترجمہ: اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں  میں  سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۳۷ [125]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہےجس کا چاہتا ہے۔

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۶ۧ [126]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا عطا کرتا ہے ۔

اَوَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۵۲ۧ [127]

ترجمہ:اور کیا انہیں  معلوم نہیں  ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ؟ ۔

یادرکھوجواللہ دینے پرقادرہے وہ واپس لینے پربھی قدرت رکھتاہے، اگر تمہیں  زیادہ عطا کر دیاگیاہے تویہ تمہاراکوئی استحقاق نہیں  تھااوراگراللہ نے اہل ایمان کونہیں  دیاتواس کا یہ ہرگزمطلب نہیں  کہ وہ اللہ کے مغضوب ہیں ،مگرتم لوگ اس تھوڑے سے مال واسباب پراتراگئے حالاں  کہ ان سے کہیں  بہتر سروسامان تم سے پہلی امتوں  کو عنایت کیاگیا تھا ، ان کی مجلسیں  بھی تم سے زیادہ شاندارتھیں ،ان کی طاقت وقوت اور ظاہری شان وشوکت بھی تم لوگوں  سے کہیں  زیادہ تھی،انہوں  نے بھی ان ظاہری،مادی چیزوں  کوحق وباطل کا معیاربنایاتھا لیکن تکبروعناداور تکذیب حق کی پاداش میں  انہیں  ہلاک کردیاگیا، دنیا کا مال ومتاع،ظاہری شان وشوکت انہیں  اللہ کے عذاب سے نہیں  بچاسکا  توکیا تمہیں  یہ اللہ کے عذاب سے بچاپائیں  گی،جیسے فرمایا:

اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَةٌ فِی الزُّبُرِ۝۴۳ۚ [128]

ترجمہ:کیاتمہارے کفارکچھ ان لوگوں  سے بہترہیں ؟یاآسمانی کتابوں  میں  تمہارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے۔

 قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلَالَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا یُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَیَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضْعَفُ جُنْدًا ‎﴿٧٥﴾(مریم)
’’کہہ دیجئے ! جو گمراہی میں ہوتا ہے اللہ رحمٰن اس کو خوب لمبی مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو دیکھ لیں جن کا وعدہ کیے جاتے ہیں یعنی عذاب یا قیامت کو، اس وقت ان کو صحیح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کون برے مرتبے والا اور کس کا جتھا کمزور ہے ۔‘‘

کافروں  کومہلت :

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی خوش حالی اورفارغ البالی پرمطمئن کفارومشرکین سے کہہ دیں  کہ اللہ کے خزانوں  میں  کسی چیزکی کمی نہیں  ہے وہ چاہے تومحتاجوں  ، مساکین کو بھی تم سے زیادہ عنایت کرسکتاہے ،مگراللہ رب العزت دنیاوی مادی چیزیں  کافروں  اورخواہشات نفس کے پیروکاروں  کوآزمائش کے طور پر وافر مقدارمیں دیتاہے ، اس طرح اللہ ان کی گمراہی کودراز کردیتاہے اورگمراہی کے لئے اس کی چاہت میں  اضافہ کردیتاہے،جیسے فرمایا

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [129]

ترجمہ:ہم اسی طرح ان کے دلوں  اورنگاہوں  کوپھیررہے ہیں  جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس(کتاب) پر ایمان نہیں  لائے تھے ، ہم انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں ۔

مگر جب اللہ کی بخشی ہوئی مہلت عمل ختم ہوجائے گی اوراللہ کاعذاب انہیں  آگھیرے گایاقیامت برپاہوجائے گی تب اپنی دولت وحشمت اورمجالس پراترانے والوں  پر حقیقت واضح ہوجائے گاکہ مقام اورجتھے کے لحاظ سے کون بدترتھااورکس نے گمراہی اختیارکی ہوئی تھی ، لیکن اس وقت کاعلم انہیں  کوئی فائدہ نہیں  دے گا کیونکہ وہاں  ازالے اورتدارک کی کوئی صورت نہیں  ہوگی۔

وَیَزِیدُ اللَّهُ الَّذِینَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ مَرَدًّا ‎﴿٧٦﴾‏(مریم)
’’اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں ۔‘‘

اہل ایمان کوتسلی:

جس طرح کلام اللہ سن کرکفروشرک اورضلالت کے مرتکب لوگوں  کے دلوں  میں  شقاوت اورضلالت میں  اضافہ ہوجاتاہے،اس کے برعکس اہل ایمان کے دل اللہ کی رحمت اور فضل وکرم سے کلام اللہ سن کرایمان وہدایت میں  اورپختہ ہوجاتے ہیں اوروہ بے خوف وخطر صراط مستقیم پربڑھتے چلے جاتے ہیں ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا۔۔۔[130]

ترجمہ:اورایمان لانے والوں  کاایمان بڑھے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا۔۔۔۝۲ۚۖ  [131]

ترجمہ:سچے اہل ایمان تووہ لوگ ہیں  جن کے دل اللہ کاذکرسن کرلرزجاتے ہیں  اورجب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں  توان کاایمان بڑھ جاتا ہے ۔

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ۝۱۲۵ [132]

ترجمہ:جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں  سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں  سے) پوچھتے ہیں  کہ کہو، تم میں  سے کس کے ایمان میں  اس سے اضافہ ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں  ان کے ایمان میں  تو فی الواقع(ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں البتہ جن لوگوں  کے دلوں  کو(نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اں  کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیاہے اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں  مبتلا رہے ۔

پھرفقرامسلمین کوتسلی فرمائی کہ کفارومشرکین جن مادی مال واسباب پرفخروغرورکرتے ہیں  وہ سب کے سب فناہوجانے والے ہیں اورجونیک اعمال مثلا ً نماز،زکوٰة، روزہ ، حج ، عمرہ،قراء ت قرآن،تسبیح وتکبیر،تحمیدوتہلیل،مخلوق کے ساتھ حسن سلوک تم کرتے ہووہ منقطع نہیں  ہوتے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں  ،جن کابہترین اجروثواب تمہیں  اپنے رب کے ہاں  ملے گااوران کابہترین صلہ اورنفع تمہاری طرف لوٹے گا،جیسے فرمایا

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلًا۝۴۶ [133]

ترجمہ:یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے اصل میں  تو باقی رہ جانے والی نیکیاں  ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں  اور انہی سے اچھی امیدیں  وابستہ کی جاسکتی ہیں  ۔

أَفَرَأَیْتَ الَّذِی كَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَیَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ‎﴿٧٧﴾‏ أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا ‎﴿٧٨﴾‏ كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا یَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا ‎﴿٧٩﴾‏ وَنَرِثُهُ مَا یَقُولُ وَیَأْتِینَا فَرْدًا ‎﴿٨٠﴾‏(مریم)
’’کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد ضرور ہی دی جائے گی،کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے ؟ ہرگز نہیں، یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم ضرور لکھ لیں گے اور اس کے لیے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے،یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے اسے ہم اس کے بعد لے لیں گےاور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہوگا ۔‘‘

عیارمقروض اورخباب  رضی اللہ عنہ بن ارت :

كُنْتُ قَیْنًا فِی الجَاهِلِیَّةِ، وَكَانَ لِی عَلَى العَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَیْنٌ، فَأَتَیْتُهُ أَتَقَاضَاهُ،قَالَ: لاَ أُعْطِیكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:لاَ أَكْفُرُ حَتَّى یُمِیتَكَ اللَّهُ، ثُمَّ تُبْعَثَ،قَالَ: دَعْنِی حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ، فَسَأُوتَى مَالًا وَوَلَدًا فَأَقْضِیكَ،فَنَزَلَتْ: أَفَرَأَیْتَ الَّذِی كَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَیَنَّ مَالًا وَوَلَدًا، أَطَّلَعَ الغَیْبَ أَمُ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاوالدعاص بن وائل اسلام کابدترین دشمن تھااس نے جاہلیت میں  خباب بن ارت سے جوآہن گری کرتے تھے تلواربنوائی تھی اوران کی مزدوری اس کے ذمہ واجب الاداتھی،جب خباب  رضی اللہ عنہ  اس سے اپنی مزدوری کاتقاضا کرنے کے لیے گئے تواس نے بڑی ڈھٹائی سے کہامیں  اس وقت تک تجھے رقم نہیں  دوں  گا جب تک تو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکارنہیں  کرتا ، خباب  رضی اللہ عنہ  نے کمزورہونے کے باوجودمنہ توڑجواب دیامیں  تب بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کاانکارنہیں  کروں  گایہاں  تک کہ اللہ تجھے موت دے دے اورپھر زندہ کردے ،عاص بن وائل نے تمسخرانہ اندازمیں  کہااچھاتوپھرمجھے بھی مہلت دے کہ میں  مرجاؤ ں  پھردوبارہ اٹھایاجاؤ ں  اورمجھے مال اور اولاد ملے اس وقت میں  بھی تمہاراقرض ادا کر دوں  گااس پریہ آیت نازل ہوئی ’’کیاتم نے اس شخص کو دیکھاجس نے ہماری آیات کونہ مانااورکہاکہ(آخرت میں )مجھے مال اور دولت دی جائے گی ،کیااسے غیب کی خبرہے ؟یااس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں  سے کوئی اقرارلے لیاہے۔‘‘[134]

اللہ تعالیٰ نے اس کے دعویٰ کے جواب میں  فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تونے اس شخص کو دیکھا جو دعوت حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اوردعویٰ کرتا ہے کہ میں  اہل جنت میں  سے ہوں  گااور اللہ اسے مال اوراولادسے نوازتاہی رہے گا؟کیااسے آخرت میں  اپنے انجام کی خبر ہو گئی ہے کہ میں  وہاں  بھی اس کو مال واولادسے نوازوں  گا یااس نے رحمان سے کوئی قول وقرارلے رکھاہےاوراللہ اس کے خلاف نہیں  کرے گا،

جیسے ایک مقام پریہودیوں  کے دعویٰ کی تردید میں  فرمایا

وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً۝۰ۭ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللهُ عَهْدَهٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸۰   [135]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  کہ دوزخ کی آگ ہمیں  ہرگزچھونے والی نہیں  الایہ کہ چندروزکی سزامل جائے تومل جائے،ان سے پوچھوکیاتم نے اللہ سے کوئی عہدلے لیاہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں  کرسکتا؟یابات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کرایسی باتیں  کہہ دیتے ہوجن کے متعلق تمہیں  علم نہیں  ہے کہ اس نے ان کاذمہ لیا ہے ۔

ہرگز نہیں ،نہ اسے غیب کاعلم ہوگیاہے اورنہ اللہ نے اس کے ساتھ کوئی عہدوپیمان باندھ رکھاہے ،آیات الٰہی کایہ جس طرح استہزاء اورتمسخراڑارہاہے اس کایہ غروربھراکلمہ بھی ہم اس کے نامہ اعمال میں  لکھ لیں  گے اورجس طرح یہ اپنی گمراہی میں  بڑھتاگیااسی طرح ہم اس کودیے جانے والے مختلف اقسام کے عذاب میں  اورزیادہ اضافہ کریں  گے ،جس مال واسباب،اولاد اور لاؤ لشکرکایہ ذکرکررہاہے،اس کے مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کاتعلق ختم ہوجائے گااور وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گااور اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے یہ اکیلاخالی ہاتھ ہماری بارگاہ میں  حاضرہوگااوربدترین عذاب کاسامناکرے گا۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِیَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ‎﴿٨١﴾‏ كَلَّا ۚ سَیَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُونُونَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا ‎﴿٨٢﴾‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّیَاطِینَ عَلَى الْكَافِرِینَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا ‎﴿٨٣﴾‏ فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ ۖ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا ‎﴿٨٤﴾(مریم)
’’انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں، لیکن ایسا ہرگزہونا نہیں، وہ تو پوجا سے منکر ہوجائیں گےاور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے،کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انہیں خوب اکساتے ہیں، تو ان کے بارے میں جلدی نہ کر، ہم تو خود ہی ان کے لیے مدت شمار کر رہے ہیں ۔‘‘

معبودوں  کااظہارلاتعلقی :

کفارومشرکین کاگمان ہے کہ ان کے معبودان باطل اللہ کے ہاں  ان کے حامی اورمددگارہوں  گےمگران کاخیال اس وقت خام ثابت ہوجائے گا اور یہ لوگ تنہابے یارومددگار رہ جائیں  گے ،جب ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے حضورسرجھکاکر عرض کریں  گے کہ اے اللہ!توعلام الغیوب ہے ،اورتیرے علم میں  ہر بات ہے،ہم توتیرے ناچیز بندے اور تیری ہی عبادت کرنے والے تھے، ہم خودہرضروریات کے لئے تیرے درکے سوالی تھے ،ہم نے انہیں  کبھی بھی یہ نہیں  کہاتھاکہ ہمارے لئے رسوم عبادت ادا کرنا یعنی ہمارے لئے نذرونیاز پیش کرنا،منتیں  ماننا،ہمارے نام کی قربانیاں  کرنا،دیگیں  چڑھانا،یا مشکل کشاسمجھ کرمشکلات وپریشانیوں  میں  ہمیں  پکارنا اور ہم تمہاری پکارکوسنیں  گے اورداررسی بھی کریں  گے ،تمہارے رزق میں  اضافہ کردیں  گے ،تمہیں  تمہارے دشمنوں  سے پناہ دیں  گے ،اولادیں  عطا کریں  گے اورنہ ہی ہمیں  یہ خبر تھی کہ یہ احمق اور گمراہ لوگ ہماری عبادت کررہے ہیں  ،اس طرح ان کے معبودان کی پرستش سے انکار کر دیں  گےاوران کے حمایتی،مددگار ہونے کے بجائے ان کے دشمن ، ان کو جھٹلانے والے اوران کے خلاف ہوں  گے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [136]

ترجمہ:آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتےبلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں  ،اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں  گے ۔

 اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ تَـــؤُزُّهُمْ اَزًّا۝۸۳ۙ فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا۝۸۴ۚ [137]

ترجمہ:کیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ ہم نے ان منکرین حق پرشیاطین چھوڑرکھے ہیں  جوانہیں  خوب خوب (مخالفت حق پر)اکسارہے ہیں ؟اچھاتواب ان پرعذاب کے لئے بیتاب نہ ہوہم ان کے دن گن رہے ہیں ۔

یہ کفارومشرکین جواللہ کی وحدانیت وربوبیت کے ہرطرح کے دلائل سن کر اوربے شمارنشانیاں  دیکھ کربھی محض تعصباتاورضدوہٹ دھرمی سے دعوت حق قبول نہیں  کرتے بلکہ اس کے برعکس انہوں  نے شرک کاارتکاب کیااوراللہ کے دشمن شیطان سے موالات رکھی تواللہ تعالیٰ نے شیاطین کوان پرمسلط کردیا،جیسے فرمایا

وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِیْنٌ۝۳۶ [138]

ترجمہ:جو شخص رحمان کے ذکرسے تغافل برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں  اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے ۔

اورشیاطین نے ان کوورغلاکرگناہوں  پرآمادہ ،ابھارناکرناشروع کردیا،وہ انہیں  کفروضلال کی ترغیب دیتے ہیں ،انہیں  وسوسوں  میں  مبتلاکرتے ہیں  اور ان کے سامنے باطل کو مزین کرکے اورحق کوبدنما بنا کر پیش کرتے ہیں ،پس باطل کی محبت ان کے دلوں  میں  داخل ہوکر جاگزیں  ہوجاتی ہے ،اوروہ باطل کی خاطراسی طرح کوشش کرتاہے جس طرح حق پرست حق کے لیے جدوجہدکرتاہے ، یہ سب کچھ اس کی سزاہے کہ اس نے اپنے حقیقی دوست اورسرپرست سے منہ موڑکراپنے واضح دشمن شیطان کواپنادوست بنایا اور اپنے آپ کواس کے تسلط میں  دیاورنہ اگروہ اللہ تعالیٰ پرایمان لے آتااوراپنے مالک پربھروسہ کرتاتوشیطان اس پرکبھی تسلط قائم نہ کرسکتا،جیسے فرمایا

اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ۝۹۹اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ۝۱۰۰ۧ [139]

ترجمہ:اسے ان لوگوں  پرتسلط حاصل نہیں  ہوتاجوایمان لاتے اور اپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں  اس کازورتوانہی لوگوں  پرچلتاہے جواس کواپناسرپرست بناتے اوراس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں ۔

اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی ظلم وزیادتیوں  اورحق سے انحراف پر بے صبرہوکران پرعذاب کے لئے بیتاب نہ ہوں  ،ان کے لئے کوئی بددعانہ کریں ،اللہ تعالیٰ نے عمداًانہیں  ڈھیل دے رکھی ہے تاکہ یہ گمراہی میں  اوربڑھ جائیں ،جیسے فرمایا

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۝۰ۥۭ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ۝۴۲ۙ [140]

ترجمہ:اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں  اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو انہیں  مہلت دے رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ(دہشت کے سبب) آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ جائیں  گی۔

وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۝۱۷۸ [141]

ترجمہ:یہ ڈھیل جو ہم انہیں  دیے جاتے ہیں  اس کو یہ کافر اپنے حق میں  بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انہیں  اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں  کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں  پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔

۔۔۔قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ۝۳۰  [142]

ترجمہ:ان سے کہو اچھا مزے کر لو آخرکار تمہیں  پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں  ہے۔

نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [143]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں  دنیا میں  مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں پھر ان کو بےبس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں  گے ۔

فَمَــہِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا۝۱۷ۧ [144]

ترجمہ:پس چھوڑ دو اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کافروں  کو اک ذرا کی ذرا ان کے حال پر چھوڑ دو۔

اللہ نے انہیں  زندگی کی جوسانسیں  عطافرمائی ہوئی ہیں ان میں  کچھ سانسیں  ابھی باقی ہے ،ایک وقت مقررہ پراللہ انہیں  دبوچ لے گا پھرروزمحشراپناانجام بددیکھ کر انہیں  معلوم ہو جائے گاکہ شیطان کے ہمراہی بن کر وہ کیاکرتے رہے تھے،مگر نتیجہ نکلنے کے بعدان کاپچھتاوا،پشیمانی وندامت ان کے کسی کام نہیں  آئے گااوریہ جہنم کے عذاب میں  مبتلا رہیں  گے ۔

یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا ‎﴿٨٥﴾‏ وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِینَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا ‎﴿٨٦﴾‏ لَا یَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا ‎﴿٨٧﴾‏(مریم)
’’جس دن ہم پرہیزگاروں کو اللہ رحمان کی طرف بطور مہمان جمع کریں گے اور گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے ، کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے ان کے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی قول قرار لے لیا ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے معززمہمان:

اللہ تعالیٰ نے متقین اورمجرمین کے درمیان تفاوت بیان فرمائی کہ محشرکاوہ دن جلد آنے والاہے جب کچھ لوگ توحساب دے رہے ہوں  گےمگر متقی و پرہیزگار لوگوں  کو مہمانوں  کی طرح اونٹوں  اورگھوڑوں  وغیرہ پرسوارکراکرنہایت اکرام وتعظیم کے ساتھ وفدکی شکل میں  رحمٰن کے حضورپیش کیاجائے گا، اوراس کے برعکس ان لوگوں  کوجنہوں  نے مجرمانہ زندگی گزاری ان کوزنجیروں  میں  جکڑکرانتہائی ذلت ورسوائی کے ساتھ پیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کے دردناک عذاب کی طرف ہانک دیا جائے گا ،اس روز کسی کواللہ کی بارگاہ میں سفارش کرنے کی مجال نہ ہوگی ،تمام ترسفارش کامالک اللہ تعالیٰ ہوگا۔

قُلْ لِّلهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًا۔۔۔  ۝۴۴ [145]

ترجمہ:شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں  ہے۔

اور اہل تقویٰ میں  سے وہی سفارش کرسکیں  گے جن کواللہ کسی کے حق میں  شفاعت کرنے کی اجازت دے دے،

۔۔۔ وَلَا یَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى۔۔۔ ۝۲۸ [146]

ترجمہ:وہ کسی کی سفارش نہیں  کرتے بجزاس کے جس کے حق میں  سفارش سننے پراللہ راضی ہو۔

مگر مجرمین کاکوئی سفارشی نہ ہوگااوریہ بڑی حسرت بھری زبان سے کہیں  گے

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ۝۱۰۰ۙ [147]

ترجمہ:اب ہماراکوئی سفارشی نہیں  ہے۔

‏ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ‎﴿٨٨﴾‏ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا ‎﴿٨٩﴾‏ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ‎﴿٩٠﴾‏ أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ‎﴿٩١﴾‏ وَمَا یَنْبَغِی لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا ‎﴿٩٢﴾‏ إِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا ‎﴿٩٣﴾‏ لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ‎﴿٩٤﴾‏ وَكُلُّهُمْ آتِیهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَرْدًا ‎﴿٩٥﴾‏ (مریم)
’’ ان کا قول یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے،یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ، شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے،آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ،ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پورے گن بھی رکھا ہے، یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں۔‘‘

شرک کی تردید:

یہودی اہل کتاب ہونے کے باوجود عزیر  علیہ السلام  کو(نعوذباللہ)اللہ کابیٹاکہتے ہیں ۔

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللهِ۔۔۔ ۝۳۰ [148]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں  عزیزاللہ کابیٹاہے۔

اسی طرح نصاریٰ بھی اہل کتاب ہونے کے باوجود عیسیٰ   علیہ السلام کو(نعوذباللہ)اللہ کابیٹاکہتے ہیں ۔

۔۔۔وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللهِ۔۔۔۝۰۝۳۰ [149]

ترجمہ:عیسائی کہتے ہیں  کہ مسیح اللہ کابیٹاہے۔

جواللہ کے معاملات میں  دخیل اورمختارہے اورکہتے ہیں  کہ روزمحشر عیسیٰ   علیہ السلام (نعوذباللہ)اللہ کے دائیں  طرف بیٹھ کر انصاف کریں  گے حالانکہ یہودونصاریٰ پرنازل کتابیں  تورات وانجیل صریح طورپر اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتی اورمعبودان باطل کی تردیدکرتی تھیں  ، اہل مکہ بھی جوخودکو ابراہیم   علیہ السلام کا پیروکار کہتے تھے فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  مانتے تھے اوران کی عبادت کرتے تھے،اس پراللہ تعالیٰ نے ان لوگوں  کوتنبیہ فرمائی کہ اس بدترین دعویٰ کی بناپرکائنات کاانتظام درہم برہم ہوجائے،جیسے فرمایا

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ ۔۔۔۝۵ [150]

ترجمہ:قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں ۔

زمین جواللہ کی وحدانیت کوجانتی ہے پھٹ کرریزہ ریزہ ہوجائے اوربے جان سخت پہاڑبھی جواپنے خالق کی وحدانیت کوپہچانتے ہیں پاش پاش ہوجائیں  ، الغرض کائنات کا ایک ایک ذرہ اللہ کی وحدانیت پردلالت کرتاہے ، یہ تو اللہ وحدہ لاشریک کی عظمت وشان ہی نہیں  کہ وہ کسی کو اپنا بیٹابنائے،اللہ تعالیٰ کااپنے لئے بیٹابنانااس میں  نقص اور احتیاج پردلالت کرتاہے جب کہ وہ بے نیاز اور حمید ہے ،نیزبیٹااپنے باپ کی جنس سے ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ کاکوئی شبیہ ہے نہ مثیل اورنہ اس کی نظیرہے ،اللہ نے اس کائنات میں  دوسری مخلوقات کے علاوہ جن وانس ا ورفرشتے وغیرہ پیدافرمائے ہیں  ،اورسب کے سب اللہ کے مملوک اوراس کے دست تصرف کے تحت ہیں ،اقتدارمیں  ان کا کوئی حصہ ہے نہ تدبیرکائنات میں  ان کاکوئی اختیارہے ،جب اس کی شان اوراس کے اقتدارکی عظمت یہ ہوتب اس کا بیٹا کیسے ہوسکتاہے ،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ أَحَدٌ أَوْ لَیْسَ شَیْئٌ أَصْبَرَ عَلَی أَذًی سَمِعَهُ مِنْ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَیَدْعُونَ لَهُ وَلَدًا وَإِنَّهُ لَیُعَافِیهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص تکلیف دینے والی بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں  ہے کہ لوگ اس کے لئے بیٹا بتاتے ہیں  اور وہ انہیں  معاف کر دیتا ہے اور انہیں  رزق دیتا ہے۔[151]

تمام جن وانس اس کے عاجز بندے ہیں  اورروزمحشراللہ کے بیٹے بن کرنہیں  بلکہ ذلیل اورمطیع بندوں  کی حیثیت سے ہی پیش ہوں  گے ،اور فرداًفرداًان کے اعمال کامحاسبہ کیا جائے گاجس کے مطابق ان کی جزاوسزامتعین کی جائے گی۔

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا ‎﴿٩٦﴾‏ فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِینَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا ‎﴿٩٧﴾‏ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا ‎﴿٩٨﴾‏(مریم)
’’بیشک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمٰن محبت پیدا کر دے گا، ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں بہت ہی آسان کردیا ہے کہ تو اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے اور جھگڑالولوگوں کو ڈرا دے،ہم نے اس سے پہلے بہت سی جماعتیں تباہ کردیں ہیں، کیا ان میں سے ایک کی بھی آہٹ تو پاتا ہے یا ان کی آواز کی بھنک بھی تیرے کان میں پڑتی ہے ؟ ۔‘‘

تباہ شدہ قوموں  سے عبرت :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جولوگ آج راہ راست اختیارکرنے کی پاداش میں  ذلیل ورسواکیے جارہے ہیں  عنقریب رحمان لوگوں  کے دلوں  میں  ان کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گاپھران کے اکثرمعاملات آسان ہوجائیں  گے اوران کوبھلائیاں ،دعائیں ،رہنمائی اورامامت حاصل ہوجائے گی،

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَقَالَ: إِنِّی أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَیُحِبُّهُ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِی فِی السَّمَاءِ فَیَقُولُ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، فَیُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، قَالَ ثُمَّ یُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِی الْأَرْضِ، وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَیَقُولُ: إِنِّی أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ، قَالَ فَیُبْغِضُهُ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِی فِی أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللهَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ، قَالَ: فَیُبْغِضُونَهُ، ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِی الْأَرْضِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ کسی (نیک)بندے کواپنامحبوب بنالیتاہے تواللہ جبرائیل  علیہ السلام کوفرماتاہے میں  فلاں  بندے سے محبت کرتاہوں  توبھی اس سے محبت کر پس جبرائیل   علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کردیتے ہیں ، پھرجبرائیل  علیہ السلام  آسمان میں  منادی کرتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ فلاں  آدمی سے محبت کرتاہے تم بھی اس سے محبت کرو پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھرزمین میں  اس کے لیے قبولیت اورپذیرائی رکھ دی جاتی ہے، اورجب کسی بندے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتاہے توجبرائیل  علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میں  فلاں  بندے سے ناخوش ہوں  توبھی اس سے عداوت رکھ ، جبرائیل  علیہ السلام بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں ، پھرآسمانوں  میں  منادی کردیتے ہیں  کہ فلاں  شخص سے اللہ ناخوش ہے تم بھی اس سے بیزاررہوچنانچہ آسمان والے اس سے بگڑبیٹھتے ہیں ،   پھروہی غضب اورناراضگی زمین پرنازل ہوتی ہے ۔[152]

پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس پاکیزہ کلام کوہم نے تمہاری زبان میں  آسان پیرائے اور آسان زبان میں  اسی لئے نازل کیاہے کہ لوگوں  کوسمجھنے اورعمل کرنے میں  آسانی ہو، تم اس عام فہم کلام کے ذریعے سے پرہیزگاروں  کولازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کی خوشخبری دے دواورہٹ دھرم لوگوں  کو عذاب جہنم سے ڈراو،اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کومخاطب ہوکرفرمایاکہ جس طرح کاتم لوگ شرک کررہے ہیں  ایساہی شرک قوم نوح،قوم عاد اورقوم ثمود بھی کرتی تھیں ،انہوں  نے بھی اللہ کے سوابے شمارمعبودبنارکھے تھے،وہ بھی انہیں  مشکل کشاوحاجت روا، روزی رساں  وغیرہ کامالک تصورکرتے تھے،ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رسوم عبادت بجالاتے تھے، اللہ کے پیغمبروں  نے ا پنی اپنی قوموں  کو اس بدترین گمراہی سے روکا،دلائل وبراہین سے معبودان باطلہ کی نفی کی اوراللہ کی وحدانیت وربوبیت کی نشانیاں  دکھلاکراس کی طرف دعوت دی مگران اقوام نے نبیوں  ورسولوں  کی پاکیزہ دعوت پرغوروفکرکرنے کے بجائے اپنے واضح ترین دشمن شیطان کے ساتھی بن گئیں  ،شیطان نے ان کی آنکھوں  پرگمراہی کی پٹی باندھ دی ، ان کے کانوں  کوبہرابنادیااوران کے اعمال کوخوشنمابناکردکھایاچنانچہ وہ اپنی آنکھوں  سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت وربوبیت کی ہوسوبکھری نشانیوں  کونہ دیکھ سکے ،اللہ کے رسولوں  کا پیغام ہدایت نہ سن سکے بلکہ اس دعوت کوروکنے کے لئے پیغمبروں  کے مدمقابل کھڑے ہوگئے ،انہوں  نے دعوت حقہ کامذاق اڑایااوراپنی سرکشی پرجمے رہے ، اپنے خالق و مالک رب کی پکڑسے بے خوف ہوکر مطالبہ عذاب کیااور پھر اسی جرم عظیم کی بدولت ہی صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے،کیاتم ان تباہ شدہ اقوام کاکہیں  نشان پاتے ہویاان کی دھیمی سی آوازبھی سنتے ہو؟بس ان کے قصے باقی رہ گئے جوعبرت حاصل کرنے والوں  کے لئے عبرت ہیں ،جونصیحت کے متلاشی لوگوں  کے لئے نصیحت ہیں ،توکیاوہ عذاب تم پر نازل نہیں  ہوسکتا؟کیاتم اللہ کی پکڑسے دورہو؟ یااللہ سے بخشش ومغفرت کی کوئی سندحاصل کی ہوئی ہے ؟لہذادعوت حق کوقبول کرو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کولازم جانو اور اپنے گناہوں  کی اللہ سے مغفرت چاہو،اسی میں  تمہاری دنیاوی وآخروی کامیابی وکامرانی ہے۔

[1] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ المِقَةِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى ۶۰۴۰،کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۹،مختصرا،کتاب التوحیدالجھمیة بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ مَعَ جِبْرِیلَ، وَنِدَاءِ اللَّهِ المَلاَئِكَةَ ۷۴۸۵،صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب  بَابُ إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا حَبَّبَهُ لِعَبَادِهِ۶۷۰۵، مسند احمد ۹۳۵۲

[2] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی فَضَائِلِ زَكَرِیَّاءَ عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۶۲، سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ الصِّنَاعَاتِ ۲۱۵۱،مسنداحمد۷۹۴۷،مستدرک حاکم ۴۱۴۵،صحیح ابن حبان ۵۱۴۲،مسندابی یعلی ۶۴۲۶

[3] آل عمران ۳۷

[4] تفسیرطبری۱۴۲؍۱۸

[5] النمل۱۶

[6] آل عمران ۳۸،۳۹

[7] آل عمران۴۰

[8] الانبیاء ۸۹،۹۰

[9] الدھر  ۱

[10] البقرة۲۶۰

[11] آل عمران۴۱

[12] [مریم: 15]

[13] تفسیرطبری۱۶۱؍۱۸

[14] آل عمران ۳۹

[15] جامع ترمذی ابواب الامثال  بَابُ مَا جَاءَ فِی مَثَلِ الصَّلاَةِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَةِ۲۸۶۳،۲۸۶۴،مسنداحمد۱۷۸۰۰،مسندابی یعلی ۱۵۷۱

[16] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷  ،صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱، مسنداحمد۱۲۵۰۵، مصنف ابن ابی شیبة۳۶۵۷۰

[17]آل عمران ۳۵

[18] آل عمران ۳۶ ، ۳۷

[19] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذْ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّا ٰ ۳۴۳۱ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۳۳،مسنداحمد۸۲۵۴

[20] مستدرک حاکم۴۱۵۸

[21] آل عمران ۴۴

[22] آل عمران ۴۲،۴۳

[23] مروج الذہب ومعادن الجوھر للمسعودی ۵۶؍۱

[24] الذاریات۲۸تا۳۰

[25] النساء  ۱

[26] التحریم۱۲

[27] النسائ۱۷۱

[28] مروج الذہب ومعادن الجوھر للمسعودی ۵۶؍۱

[29] تفسیرابن کثیر۲۲۳؍۵

[30] تفسیرطبری۱۷۴؍۱۸

[31] القصص: 7

[32] مریم: 23

[33] مریم: 26

[34] تفسیرطبری۱۸۳؍۱۸

[35] تفسیرطبری۱۸۴؍۱۸

[36] الحجر۹۹

[37] بنی اسرائیل ۲۳،۲۴

[38] لقمان۱۴،۱۵

[39] آل عمران۵۹

[40] المائدةہ۷۵

[41] الفرقان۲۰

[42]الاعراف ۵۹

[43] نوح۳

[44] ھود۵۰

[45] ھود۶۱

[46] العنکبوت۱۶

[47] الانعام۷۴

[48]الشعراء۱۶۳

[49] یوسف ۳۹،۴۰

[50] آل عمران۶

[51] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِهِ یَا أَهْلَ الكِتَابِ  لاَ تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ ۳۴۳۵، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَنْ لَقِی اللهَ بِالْإِیمَانِ وَهُو غَیْرُ شَاكٍّ فِیهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ۱۴۰،مسند احمد ۲۲۶۷۵، مسند البزار ۲۶۸۲،صحیح ابن حبان ۲۰۷، السنن الکبری للنسائی ۱۰۹۰۴،شرح السنة للبغوی ۵۵

[52] السجدة۱۲

[53] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى ۶۰۹۹،صحیح مسلم كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ  بَابُ لَا أَحَدَ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۷۰۸۰  ،مسنداحمد۱۹۵۸۹، مسند البزار ۳۰۰۶،السنن الکبری للنسائی ۷۶۶۱

[54] مریم: 39

[55] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ مریم بَابُ قَوْلِهِ وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ  ۴۷۳۰ ، صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ۷۱۸۱، مسنداحمد۱۱۰۶۶، شرح السنة للبغوی ۴۳۶۶، السنن الکبری للنسائی ۱۱۲۵۴

[56] الفرقان۲۷،۲۸

[57] تفسیر طبری ۲۰۰؍۱۸

[58] النسائ۱۱۷،۱۱۸

[59] النسائ۱۱۸،۱۱۹

[60] الاعراف۱۶،۱۷

[61] الحجر۳۹

[62] مسند احمد ۱۵۹۵۸، سنن نسائی  كِتَابُ الْجِهَادِ باب مَا لِمَنْ أَسْلَمَ وَهَاجَرَ وَجَاهَدَ۳۱۳۶

[63] یٰسین۶۰

[64] الزمر۴۵

[65] الجاثیة۲۳

[66] الفرقان۶۳

[67] القصص۵۵

[68] الممتحنة۴

[69] ابراہیم۴۱

[70] التوبة۱۱۴

[71] صحیح بخاری  کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى لَقَدْ كَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ ۳۳۸۳، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ یُوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَامُ  ۶۱۶۱، مسند احمد ۹۵۶۸،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۹۱۹

[72] الاعراف۱۴۴

[73] القصص۳۳،۳۴

[74] الشعراء ۱۳،۱۴

[75] طہ۲۵تا۳۵

[76]القصص۳۵

[77] طہ۳۶

[78] تفسیر طبری ۲۱۱؍۱۸،تفسیرابن کثیر۲۳۸؍۵

[79] الصف۲،۳

[80]۔صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ ۳۳،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ ۲۱۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ۲۶۳۱،مسنداحمد۸۶۸۵،السنن الکبری للنسائی۱۱۰۶۲

[81] مسنداحمد۱۶۹۸۷

[82] طہ۱۳۲

[83]التحریم۶

[84] سنن ابوداود کتاب الوتر بَابُ الْحَثِّ عَلَى قِیَامِ اللَّیْلِ ۱۴۵۰،سنن نسائی کتاب قیام اللیل بَابُ التَّرْغِیبِ فِی قِیَامِ اللَّیْلِ ۱۶۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰت بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ أَیْقَظَ أَهْلَهُ مِنَ اللَّیْلِ ۱۳۳۶،مسنداحمد۷۴۱۰،مسندالبزار۸۵۰۲،صحیح ابن خزیمة ۱۱۴۸، مستدرک حاکم ۱۱۶۴،صحیح ابن حبان ۲۵۶۷،السنن الکبری للنسائی ۱۳۰۲،السنن الکبری للبیہقی۴۳۱۴،شرح السنة للبغوی ۹۷۱

[85] سنن ابوداود کتاب الوتر بَابُ الْحَثِّ عَلَى قِیَامِ اللَّیْلِ ۱۴۵۱،مستدرک حاکم ۱۱۸۹،صحیح ابن حبان ۲۵۶۸، السنن الکبری للنسائی ۱۳۱۲،السنن الکبری للبیہقی ۴۳۱۵

[86] تفسیرابن کثیر۲۴۱؍۵

[87] الانعام۸۴تا۸۷

[88] الانعام۹۰

[89] سنن ابوداودابواب صلوٰة السفربَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَجَدَ۱۴۱۴،جامع ترمذی ابواب السفر بَابُ مَا یَقُولُ فِی سُجُودِ القُرْآنِ ۵۸۰،سنن نسائی کتاب الافتتاع بَابُ الدُّعَاءِ فِی السُّجُودِ۱۱۳۰، مسند احمد ۲۴۰۲۲، مستدرک حاکم۸۰۱،السنن الکبری للنسائی ۷۱۸،سنن الدارقطنی۱۵۱۴، مصنف ابن ابی شیبة ۴۳۷۲،شرح السنة للبغوی۷۷۰

[90] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ ۲۴۶،شعب الایمان ۲۵۳۶،السنن الکبری للبیہقی ۶۴۹۵

[91] سنن الدارقطنی۱۷۵۱،مصنف ابن ابی شیبة ۳۰۳۹۶

[92]مستدرک حاکم ۱۲،شرح السنة للبغوی ۳۴۷، جامع ترمذی کتاب الایمان  بَابُ مَا جَاءَ فِی تَرْكِ الصَّلاَةِ۲۶۲۲

[93] تفسیر طبری ۲۱۵؍۱۸

[94]المعارج: 23

[95] الأنعام: 92

[96] تفسیر طبری۲۱۶؍۱۸

[97] تفسیرطبری۲۱۸؍۱۸،تفسیرابن کثیر۲۴۵؍۵

[98] تفسیرابن کثیر۲۴۵؍۵

[99] المزمل۱۸

[100]الواقعة ۲۵، ۲۶

[101] آل عمران ۱۳۳

[102] مریم: 64

[103] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ مریم  بَابُ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَیْنَ أَیْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا ۴۷۳۱ ،مسنداحمد۲۰۴۳، مستدرک حاکم ۴۲۱۵، شرح السنة للبغوی ۳۷۴۰

[104] تفسیرطبری۲۲۲؍۱۸

[105] التحریم۶

[106] الضحیٰ۱تا۳

[107] الشوری۱۱

[108] الرعد۵

[109] یٰسین۷۷،۷۸

[110]الروم۲۷

[111] صحیح بخاری تفسیرسورہ اخلاص سُورَةُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ۴۹۷۴، صحیح ابن حبان ۲۶۷

[112] الجاثیة۲۸

[113] الاعراف۳۸

[114] تفسیرابن کثیر۲۵۴؍۵

[115] مریم: 71

[116] مریم: 72

[117] مسنداحمد۲۶۴۴۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْبَعْثِ۴۲۸۱

[118] الشعراء ۱۱۱

[119] الاحقاف ۱۱

[120] الانعام۵۳

[121] الرعد۲۶

[122] النحل۷۱

[123] بنی اسرائیل۳۰

[124] العنکبوت۶۲

[125] الروم۳۷

[126] سبا۳۶

[127] الزمر۵۲

[128] القمر۴۳

[129] الانعام۱۱۰

[130] المدثر۳۱

[131] الانفال۲

[132] التوبة۱۲۴،۱۲۵

[133] الکہف۴۶

[134] صحیح بخاری کتاب البیوع  بَابُ ذِكْرِ القَیْنِ وَالحَدَّادِعن خباب  ۲۰۹۱، وکتاب التفسیرسورۂ مریم  بَابُ قَوْلِهِ أَطَّلَعَ الغَیْبَ أَمُ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا ۴۷۳۳ ، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین   بَابُ سُؤَالِ الْیَهُودِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ وقَوْلِهِ تَعَالَى یَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۷۰۶۲، مسند احمد ۲۱۰۷۶،صحیح ابن حبان ۴۸۸۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۲۸۲

[135] البقرہ۸۰

[136] الاحقاف۵،۶

[137] مریم ۸۳،۸۴

[138] الزخرف۳۶

[139] النحل۹۹،۱۰۰

[140] ابراہیم۴۲

[141] آل عمران۱۷۸

[142] ابراہیم۳۰

[143] لقمان۲۴

[144] الطارق۱۷

[145] الزمر۴۴

[146]الانبیاء ۲۸

[147] الشعراء ۱۰۰

[148] التوبة۳۰

[149] التوبة۳۰

[150] الشوری۵

[151] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى۶۰۹۹

[152] صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا حَبَّبَهُ لِعَبَادِهِ۶۷۰۵،صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ المِقَةِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى ۶۰۴۰،کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۹،مختصرا، کتاب التوحیدالجھمیة بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ مَعَ جِبْرِیلَ، وَنِدَاءِ اللَّهِ المَلاَئِكَةَ  ۷۴۸۵

Related Articles