بعثت نبوی کا تیرهواں سال

مضامین سورۂ یوسف

اہل مکہ سمجھتے تھے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل آیات  اللہ کاکلام نہیں بلکہ ان کااپناتصنیف کردہ کلام ہے،فرمایاکہ یہ قرآن کوئی گھڑی ہوئی کہانی نہیں بلکہ پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ہرضروری بات کی تفصیل بیان کرنے والی کتاب ہے ،یہ مومنوں کے لیے ہدایت اوررحمت کاذریعہ ہے ،کفار مکہ کی فرمائش پر مدینہ کے یہودنے ان کو چند سوال بھیجے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں کہ بنی اسرائیل فلسطین سے مصرکیسے پہنچے اس کے جواب میں یہ سورہ نازل ہوئی جس میں صرف تاریخ یاقصہ گوئی کے اندازکونہیں اپنایا گیابلکہ پورے قصہ کے ساتھ ساتھ دعوت اسلام دی گئی اور کرداروں کاتقابلی مقابلہ کرکے بتایاگیاکہ رب پرایمان اورآخرت پر یقین رکھنے والوں کااوررب پرایمان نہ لانے والوں کفروجاہلیت میں مبتلا،دنیاپرست اور آخرت سے بے خوف لوگوں کاکیا کردار ہوتا ہے ، قرآن میں جوقصے بیان کئے گئے ہیں ان کا مقصد افسانہ گوئی ہرگز نہیں بلکہ ہرعقل مند کے لئے اس میں نصیحت کے پہلو ہیں چنانچہ اس قصہ میں مشرکین مکہ کو سمجھایا گیا کہ اللہ رب العالمین کی قدرت سے کوئی کام بعید نہیں جب وہ کسی کام کافیصلہ فرمادیتاہے تو انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کوروکنے اوربدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا،جیساکہ یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بڑے بھائیوں نے بغض و حسدمیں مبتلاہوکراپنے چھوٹے بھائی کے خلاف تدابیر اختیارکیں مگرانجام کارخودہی شرمندگی اور شرمساری سے سرجھکائے یوسف علیہ السلام کے دربار میں کھڑے تھے ، عزیزمصرکی اہلیہ نے اپنے مقصدبدمیں ناکام ہوکر انتقامی طورپر یوسف علیہ السلام کوزنداں میں پہنچادیا مگرپھر بھرے دربار میں خفت و ندامت سے خودہی اپنی خیانت کا اقرار کرکے شرمندگی اٹھائی،اسی طرح مصراوراحکام مصرکے کردارہیں ،اس سورہ میں یہ سبق ہے کہ مقصدکے حصول کے لئے غلط راستوں کے بجائے صحیح راستے کاانتخاب کرو اور پھرنتائج کے لئے رب کی رحمت پر بھروسہ کروکیونکہ کسی بھی کام کی کامیابی کا انحصاررب کی مرضی پرمنحصرہے ،پھر سیدھی راہ اختیارکرنے پر جو بھی آلام ومصائب درپیش ہوں انہیں عارضی سمجھو ، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے بیگانگی ،بے وطنی ،بے سروسامانی ، غلامی وکمزوری میں ہونے کے باوجودکس طرح بامرادہوکرمصر کا اقتدار حاصل کرلیااوراگرکوئی غلط راہ اختیار کرتا ہے تووہ رب کی گرفت سے نہیں بچ سکتا،اس طرح اہل مکہ کو بتایا گیا کہ ابھی سوچنے سنبھلنے کاوقت ہے، ابھی موقع تمہارے ہاتھ میں ہے یاد رکھو کوئی بھی مجرم ہمارے ہاتھوں کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتاہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جوبڑامہربان نہایت رحم والاہے

الر ۚ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِینِ ‎﴿١﴾‏ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٢﴾‏ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِینَ ‎﴿٣﴾‏(یوسف)
’’الر، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو ،ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبر وں میں سے تھے ۔‘‘

الر،یہ بکثرت پڑھی جانے والی کتاب کی آیات ہیں جواپنامدعاصاف صاف بیان کرتی ہیں ،ہم نے اس کو فصاحت وبلاغت والی عربی زبان میں نازل کیاہے تاکہ تم(اہل عرب) اس کواچھی طرح سمجھ سکو،آسمانی کتابوں کے نزول کامقصدلوگوں کی ہدایت ورہنمائی ہے اوریہ مقصداسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہوجس کو وہ سمجھ سکیں ،اس لئے ہر آسمانی کتاب اسی قومی زبان میں نازل ہوئی جس قوم کی ہدایت کے لئے وہ اتاری گئی تھی ،قرآن مجیدکے مخاطب اول چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اس قرآن کوتمہاری طرف وحی کرکے بہترین پیرایہ میں وا قعات اورحقائق تم سے بیان کرتے ہیں ،ورنہ اس سے پہلے تو ان چیزوں سے تم بالکل ہی بے خبرتھے ،یعنی نزول وحی سے قبل آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیاہوتی ہے اورایمان کیاچیزہے؟جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ۔۔۔۝۵۲ۙ       [1]

ترجمہ:اور اسی طرح( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔

قرآن مجیدکے ان الفاظ سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے ، علام الحیوب صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔

إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیهِ یَا أَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ ‎﴿٤﴾‏قَالَ یَا بُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْیَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَیَكِیدُوا لَكَ كَیْدًا ۖ إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِینٌ ‎﴿٥﴾‏ وَكَذَٰلِكَ یَجْتَبِیكَ رَبُّكَ وَیُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكَ وَعَلَىٰ آلِ یَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَیْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٦﴾‏(یوسف)
’’ جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں،یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے ! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے، اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی، جیسے کہ اس نے اس سےپہلے تیرے دادااور پردادا یعنی ابراہیم و اسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت دی، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم والا اور زبردست حکمت والا ہے۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی قوم کے سامنے یوسف علیہ السلام کاقصہ بیان کروجب یوسف علیہ السلام بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام نے کم سنی میں ایک خواب دیکھااوراس عجیب وغریب خواب کاذکر اپنے باپ یعقوب علیہ السلام سے کیا،

قَالَ ابْنُ جُرَیْج وَغَیْرُهُ: كَانُوا أَهْلَ بَادِیَةٍ وَمَاشِیَةٍ.

ابن جریج وغیرہ نے لکھاہے کہ یعقوب علیہ السلام کے خاندان کے لوگ بادیہ نشین تھے اورمال مویشی پاک کرگزارہ کیاکرتے تھے۔[2]

وَقَالَ: كَانُوا یَسْكُنُونَ بالعَربَات مِنْ أَرْضِ فِلَسْطِینَ، مِنْ غَوْرِ الشَّامِ

اورسرحدشام پرفلسطین کے علاقت عربات میں رہتے تھے۔[3]

کہا اباجان!میں نے خواب میں دیکھاہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اورچاندہیں اوروہ مجھے سجدہ کررہے ہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ:{إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیهِ یَا أَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا} إِخْوَتُهُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا، وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ، یَعْنِی بِذَلِكَ :أَبَوَیْهِ

قتادہ رحمہ اللہ آیت’’ جب یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا ابا جان!میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں گیارہ ستاروں سے مرادگیارہ بھائی اور سورج اورچاند سے مرادیعقوب علیہ السلام اوران کی سوتیلی والدہ ہیں ۔[4]

اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کو بہت علم عطا فرمایاتھابیٹے کاخواب سن کراس کی تہہ میں پہنچ گئے کہ ان کایہ چہیتابیٹاعظمت شان کاحامل ہوگا،یعقوب علیہ السلام کومعلوم تھاکہ سوتیلے بھائی یوسف علیہ السلام سے بغض وحسدرکھتے ہیں اوراخلاقی لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں کہ اپنامطلب نکالنے کے لئے کوئی نارواکاروائی کرنے میں انہیں کوئی تامل ہوگا،اس لئے انہیں اندیشہ ہوا کہ یہ خواب سن کراس کے سوتیلے بھائی اس کی عظمت کااندازہ کرکے کہیں اسے نقصان نہ پہنچا دیں اس لئے صالح بیٹے یوسف علیہ السلام کومتنبہ کر دیا کہ اپنے اس خواب کاذکراپنے دس سوتیلے بھائیوں سے ہرگزنہ کریں ورنہ شیطان ان کے دلوں کومزیدبغض وحسدمیں مبتلاکردے گا اور وہ کسی حیلے بہانے سے تجھے پست کرنے کی فکرکرنے لگ جائیں گے اور کوئی بڑی سازش کرکے کاری وار کر گزریں گے جس سے تمہاری جان کونقصان پہنچ سکتا ہے ،

أَبَا سَلَمَةَ، یَقُولُ: لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرُّؤْیَا فَتُمْرِضُنِی، حَتَّى سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، یَقُولُ: وَأَنَا كُنْتُ لَأَرَى الرُّؤْیَا تُمْرِضُنِی، حَتَّى سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:الرُّؤْیَا الحَسَنَةُ مِنَ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا یُحِبُّ فَلاَ یُحَدِّثْ بِهِ إِلَّا مَنْ یُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا یَكْرَهُ فَلْیَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ، وَلْیَتْفِلْ ثَلاَثًا، وَلاَ یُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب میں خواب دیکھتا تو بیمار پڑجاتا یہاں تک کہ میں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں خواب دیکھتا تو بیمار پڑجاتایہاں تک کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کوئی شخص ایسی بات دیکھے جوتواس کاذکرصرف اسی سے کرے جو اسے محبوب ہو اور جب براخواب دیکھے تواللہ کی اس کے شرسے پناہ مانگے اورشیطان کے شرسےاورتین مرتبہ تھتکاردے اوراس کاکسی سے ذکرنہ کرےپس وہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔[5]

عَنْ عَمِّهِ أَبِی رَزِینٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الرُّؤْیَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ، مَا لَمْ تُعَبَّرْ فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجب تک خواب کی تعبیربیان نہ کی جائے تووہ ایسے ہے جیسے پرندے کے پاؤں پرہو اورجب خواب کی تعبیربیان کردی جائے تووہ وقوع پذیرہوجاتی ہے۔[6]

اوربیٹاشیطان توازل سے ہی انسان کادشمن ہے ،اوروہ اپنے دعویٰ کے مطابق دن رات ،کھلے چھپے انسانوں کوگمراہ کرنے اورانہیں بغض وحسدمیں مبتلا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا ،اے بیٹا!تیرایہ خواب سچاہے اوراللہ کے حکم سے پوراہوکررہے گا،اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے تجھے برگزیدگی عطافرماکرمنصب نبوت سے سرفراز فرمائے گا اور ہرطرح کی باتوں کی معاملہ فہمی اورحقیقی رسی کی تعلیم عطافرمائے گا اور ایسی بصیرت عطافرمائے گاجس سے توہرمعاملہ کی گہرائی میں اترنے اوراس کی تہہ میں پہنچنے کے قابل ہو جائے گا،جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے دادا اسحاق  علیہ السلام اورپرداداابراہیم  علیہ السلام پراپنی نعمتیں پوری فرمائیں تھیں اسی طرح وہ تم پراورآل یعقوب پربھی اپنی نعمتیں پوری فرمائے گا ، یقینا ًتیرا رب علیم اورحکیم ہے،والدمحترم کی نصیحت سن کریوسف علیہ السلام نے اپنے خواب کاتذکرہ بھائیوں کے سامنے نہیں کیا۔

لَّقَدْ كَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِّلسَّائِلِینَ ‎﴿٧﴾‏ إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِینَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٨﴾‏ اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا یَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِیكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِینَ ‎﴿٩﴾‏ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا یُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِی غَیَابَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِینَ ‎﴿١٠﴾(یوسف)
’’ یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں، جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں، کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں، یوسف کوتو مار ہی ڈالویا اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہوجائے اس کے بعد تم نیک ہوجانا ،ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو ۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ یوسف اوراس کے قصہ میں ان پوچھنے والوں کے لئے بڑی عبرتیں ونصیحتیں ہیں ،اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی نشانیاں ہیں ،یہ قصہ یوں شروع ہوتاہے کہ اب یعقوب علیہ السلام کی محبت یوسف علیہ السلام سے دوچندہوگئی ،اب وہ یوسف علیہ السلام کوآنکھوں سے اوجھل ہی نہیں ہونے دیتے تھے ،یعقوب علیہ السلام کی یہ غیر معمولی محبت سوتیلے بھائیوں کوبری طرح کھٹکنے لگی اوروہ اپنے والدکی توجہ حاصل کرنے کے لئے منصوبے بنانے لگے ، اس کے بھائیوں نے آپس میں کہایہ یوسف اوراس کا حقیقی بھائی بن یمین یا بنیامین دونوں ہمارے والدکوہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم دس بھائی طاقتورجماعت اوراکثریت میں ہیں مگراس کے باوجودوہ اپنی محبت اور شفقت میں ان دونوں کو فضیلت دیتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان ان دونوں کی محبت میں بالکل ہی سٹھیا گئے ہیں ،اس لئے توہم جوان بیٹوں کے جتھے کوجوبرے وقت پران کے کام آسکتاہے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو جوان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خودہی حفاظت کے محتاج ہیں ہم پرترجیح دیتے ہیں ،بھائیوں کی آتش حسداتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ پہلے ان کی مشاورت میں یہ طے پایاکہ یوسف علیہ السلام کوقتل کردویااسے کسی دورعلاقہ میں پھینک دو،اگرتم نے ان دونوں امورمیں سے کسی ایک پرعمل کرلیا تو پھر لامحالہ والدکی محبت وشفقت ہمیں حاصل ہوجائے گی ،یوسف علیہ السلام سے اس طرح چھٹکاراحاصل کرنے کے بعدپھراللہ سے اس گناہ کی توبہ کرلیں گے اورنیک زندگی گزاریں گے ، مگرسب سے بڑے بھائی(روبیل یایہوذا یاشمعون) نے ڈرتے ڈرتے ازراہ شفقت کہانہیں صرف عداوت میں آکرخون ناحق اپنی گردن پرنہ ڈالوخون ناحق اللہ معاف نہیں کرتا ، اگرتم نے کچھ کرنے کافیصلہ کر ہی لیاہے تومیری رائے یہ ہے کہ اسے دورکسی بہت گہرے کنوئیں میں پھینک دواورجب کوئی قافلہ وہاں پڑاؤ کرے گااورکنوئیں سے پانی نکالے گا توان کے علم میں آجائے گا کہ کنوئیں کے اندرکوئی انسان گراہواہے ،اوروہ اسے باہرنکال کراپنے ہمراہ لے جائیں ،اس طرح ہم قتل کے جرم سے بھی بچ جائیں گے اوریوسف علیہ السلام سے بھی جان چھوٹ جائے گی ،نہ ہوگابانس اورنہ بجے کی بانسری۔

‏ قَالُوا یَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ یُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ ‎﴿١١﴾‏ أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‎﴿١٢﴾‏ قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی أَن تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَن یَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ ‎﴿١٣﴾‏ قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ ‎﴿١٤﴾‏فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن یَجْعَلُوهُ فِی غَیَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿١٥﴾(یوسف)
’’انہوں نے کہا ابا ! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں، کل آپ اسے ضرور ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب کھائے پیئے اور کھیلے، اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں،(یعقوب (علیہ السلام) نے )کہا اسے تمہارا لے جانا مجھے تو سخت صدمہ دے گا اور مجھے یہ بھی کھٹکا لگا رہے گا کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا کھاجائے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم جیسی (زور آور) جماعت کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھاجائے تو ہم بالکل نکمے ہی ہوئے،پھر جب اسے لے چلے اور سب نے مل کر ٹھان لیا اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں ۔‘‘

اس منصوبہ پراتفاق کرکے ایک دن وہ سب یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے اور کہااباجان !کل ہم سب بھائیوں نے شکارکاپروگرام بنایاہے ،ہم جانتے ہیں کہ آپ یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں ہم پربھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے بڑے بھائی ہونے کے ناطے سچے ہمدرداوربہی خواہ ہیں ؟مگرہماری خواہش ہے کہ آپ یوسف علیہ السلام کوبھی ہمارے ہمراہ روانہ کریں ، صحراکی کھلی ہوامیں بھاگ دوڑکرے گا،کچھ کھائے پیئے گاجس سے اس کاذہن اورصحت بہترہوگی ،اگرآپ اجازت عطاکرتے ہیں توپھرفکرمندنہ ہوں وہاں ہم اس کی اچھی طرح دیکھ بھال رکھیں گے ،کیونکہ میدانوں اورصحراؤں میں خونخواربھیڑیے عام تھے اس لئے یعقوب علیہ السلام باپ نے اپنا اندیشہ ظاہرکیاکہ تمہارایوسف علیہ السلام کو لیجانا مجھے فکر منداور شاق گزرتاہے کیونکہ میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتااورمجھے اندیشہ ہے کہ وہاں جاکرتم کھیل کودمیں مشغول ہوکرلاپرواہی کروگے اورکہیں جنگل سے بھیڑیا آکر یوسف کو نہ پھاڑکھائے اورتمہیں علم ہی نہ ہو ،بیٹوں نے جواب دیااباجان !آپ بالکل اندیشہ نہ کریں اوریوسف علیہ السلام کوہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں ہم اس کادھیان رکھیں گے اور ہر تکلیف دہ چیزسے اس کی حفاظت کریں گے ،ہم دس جوان مردوں کے ہوتے ہوئے بھیڑیایوسف علیہ السلام کوکھاجائے اورہم دیکھتے رہے جائیں توپھرہم کچھ کرنے کے قابل ہی نہ ہوئے ،جب سب بیٹوں نے ساتھ لے جانے پربہت اصرارکیاتویعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کوتفریح کے لئے بھائیوں کے ہمراہ جانے کی اجازت دے دی ،

فَیُقَالُ: إِنَّ یَعْقُوبَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، لَمَّا بَعَثَهُ مَعَهُمْ ضَمَّهُ إِلَیْهِ، وقَبَّله وَدَعَا لَهُ

جب یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کوان کے ساتھ روانہ کیاتواسے گلے لگایا،بوسہ دیااوراس کے لیے دعافرمائی۔[7]

یوسف علیہ السلام کے بھائی منصوبہ بندی توپہلے ہی کرچکے تھے کہ کیاکرناہے چنانچہ سخت دلی سے اپنے بھائی کی قمیص اتارکربیت المقدس کے کچھ فاصلے پرایک گہرے کنوئیں میں گرا کر مشفق ومہربان بوڑھے باپ کی نظروں سے اوجھل کردیا ،یوسف علیہ السلام اس وقت سخت خوف ذدہ تھے ،اس وقت اللہ علیم وبصیرنے اپنے لطف وکرم سے یوسف کوتسلی دینے کے لئے وحی کی کہ گھبراؤ نہیں ہم تمہاری حفاظت کریں گے اور ایک بلندمقام پرتجھے فائزکریں گے ،پھرایک وقت آئے گاجب تمہارے یہ بھائی ندامت سے سرجھکاکر بھیک مانگتے ہوئے تیرے حضورحاضرہوں گےاور توانہیں جتلائے گاکہ اپنے چھوٹے کم سن بھائی کے ساتھ تم نے کس طرح کاسنگدلانہ معاملہ کیاتھا،تمہارے بھائیوں کوعلم نہیں ہے کہ ان کے اس فعل کے کیا نتائج نکلیں گے ۔

وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً یَبْكُونَ ‎﴿١٦﴾‏ قَالُوا یَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا یُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِینَ ‎﴿١٧﴾‏ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِیصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِیلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ‎﴿١٨﴾‏ (یوسف)
’’اور عشاء کے وقت (وہ سب) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچےاور کہنے لگے ابا جان! ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا تھا پس اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گےگو ہم بالکل سچے ہی ہوں، اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر لائے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے، پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔

جب شکارکرنے کے بعدشام کوواپس گھرلوٹے توتمام بھائی بظاہرحز ن وملال اورغم کاتاثردینے کے لیے ٹسوئے بہاتے ہوئے یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اورپروگرام کے مطابق کہنے لگے اباجان !اگرہم آپ کے نزدیک ثقہ اوراہل صدق ہوتے تب بھی یوسف علیہ السلام کے معاملے میں ہماری بات کی تصدیق نہ کرتے اوراب توویسے ہی ہماری حیثیت متہم اورمشکوک افرادکی سی ہے ، اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصدیق کرلیں گے اوراس بات میں آپ حق بجانب ہیں ،مگرواقعہ یوں ہواہے کہ ہم جنگل میں جاکرایک دوسرے سے دوڑکایاتیراندازی یا نیزہ بازی کامقابلہ کرتے ہوئے کچھ دورنکل گئے تھے اوریوسف علیہ السلام کوآرام اورسازوسامان کی حفاظت کے لئے وہیں چھوڑگئے تھے ،جب ہم واپس لوٹے تودیکھاکہ اسی اثنامیں ایک بھیڑیا آیا اوریوسف علیہ السلام کو کھا گیا ،اور اپنی بات کایقین دلانے کے لئے انہوں نے فوراًہی یعقوب علیہ السلام کے سامنے یوسف علیہ السلام کی قمیص کورکھ دیاجس پروہ بکری کاخون لگاکر آئے تھے، یعقوب علیہ السلام نے ثابت سالم قمیص کودیکھ کر فرمایا یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیاجس طرح تم بیان کررہے بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک بڑے کام کوآسان بنادیا ، تاہم تم نے جوکرناتھا کر چکے میں اس آزمائش پرمخلوق کے پاس شکوہ شکایت کرنے کے بجائے ضبط وتحمل اورصبرجمیل سے کام لوں گا اور رب کریم سے مددکی درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے اس دکھ کوٹال دے ،وہی رب میرا مددگار ہے ،منافقین نے جب ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرتہمت لگائی تو

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ كُنْتِ بَرِیئَةً فَسَیُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِی اللَّهَ وَتُوبِی إِلَیْهِ، قُلْتُ: إِنِّی وَاللَّهِ لاَ أَجِدُ مَثَلًا، إِلَّا أَبَا یُوسُفَ {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللَّهُ المُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} ،[8]، وَأَنْزَلَ اللَّهُ: {إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ} العَشْرَ الآیَاتِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے عائشہ! اگر تم بے قصور ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری بریت کا اظہار کردے گا اور اگر تم سے یہ گناہ ہوگیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ اور معافی مانگنا چاہئے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے جواب میں فرمایا تھا و اللہ! مجھے اس کے لئے کوئی مثال نہیں ملتی ہے سوائے یعقوب علیہ السلام کے کہ انہوں نے یہ کہا تھا اور میں بھی وہی کہتی ہوں ’’ اچھاصبرکروں گااوربخوبی کروں گاجو بات تم بنارہے ہواس پراللہ ہی سے مددمانگی جاسکتی ہے۔‘‘ آخر اللہ نے میری بے قصوری کے سلسلہ میں  سورۂ  نورکی ابتدائی دس آیات نازل فرمائیں ۔[9]

وَجَاءَتْ سَیَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ یَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِیهِ مِنَ الزَّاهِدِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَیْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٢٢﴾‏(یوسف)
’’اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا واہ واہ خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے، انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپالیا اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بہت ہی ہلکی قیمت پر گنتی کے چند درہموں پر بیچ ڈالا، وہ تو یوسف کے بارے میں بہت ہی بےرغبت تھے ،مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنالیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا ، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں، اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں،اورجب (یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا، ہم نیکوں کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘

کنوئیں سے بازارمصرتک :

قادرکریم کی قدرتوں اورحکمتوں کوکون جان سکتاہے ،ادھربھائیوں نے کمرموڑی اوردوسری طرف سے اسماعیلیوں کاایک قافلہ جوجلعادسے گرم مصالحہ اورروغن بلسان وغیرہ لے کرمصرکے درالحکومت جارہاتھااس نے اسی کنوئیں کے قریب پڑاؤڈالااورپانی لینے کے لئے ہراول سقے کوکنوئیں پربھیجا،سقت نے پانی لینے کے لئے ڈول کنوئیں میں ڈالاتوڈول کے ہمراہ رسی پکڑکریوسف علیہ السلام باہرنکل آئے ،ڈول کے ہمراہ ایک خوبصورت کمسن لڑکے کودیکھ کرواردخوشی سے باآوابلندپکاراکہ اے قافلہ والو!یہاں کنوئیں سے ایک خوبصورت کمسن لڑکانکل آیاہے ،قافلہ والوں نے یہ سوچ کرکہ بچے کااس کنوئیں میں پایاجانااس بات کی علامت ہے کہ یہ بچہ یہیں قریب ہی کا ہے اور کھیلتے کودتے اس کنوئیں میں گر گیا ہے چنانچہ انہوں نے یوسف علیہ السلام کوسامان تجارت قراردے کرچھپالیاکہ کہیں اس کے عزیزواقارب اس کی تلاش میں نہ آپہنچیں اور یوں لینے کے دینے پڑجائیں ،مگراس علیم و بصیررب کہ جس کے حکم کے بغیرکچھ بھی نہیں ہوسکتاتوکوئی چیزپوشیدہ نہیں تھی ،مگررب کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں جس میں دیرتوہے مگر اندھیر نہیں اس نے یہ سب کچھ اس لئے ہونے دیا تاکہ تقدیرالٰہی بروے کارآئے ،آخرکارقافلہ مصرکے دارالحکومت افاریس (صان الحجر)پہنچ گیا،اہل قافلہ کویوسف علیہ السلام بغیرکسی تگ ودوکے مل گئے تھے اورانہیں آپ کی صحیح قدروقیمت کااندازہ ہی نہ تھا اس لئے انہوں نے یوسف علیہ السلام کوشاہ مصرریان بن ولیدکے دربارمیں اچھے منصب(وزارت خزانہ)پر فائز شخص (قطفیر یا مالک بن ذعربن قریب یاطیفار) جوعزیزمصر کہلاتاتھااوربڑادوربین اور رود رس تھاکے ہاتھوں چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا،اس طرح سارہ رحمہ اللہ کی اولادمصر میں غلام ہو کربکی ،یوسف علیہ السلام کے چہرے سے خیروصلاح جھلکتی تھی ،منصب دارتاڑگیاکہ یہ لڑکاغلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کاچشم وچراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں آپ کی عزت ووقعت بھی ڈال دی ،اس نے گھرجاکراپنی بیوی (راعیل یازلیخا)کووصیت کرتے ہوئے کہااس لڑکے کو اپنے ہاں عزت و احترام کے ساتھ رکھو بعیدنہیں کہ یہ ہمارے لئے مفیدثابت ہو یا ہم اسے بیٹاہی بنالیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:أَفْرَسُ النَّاسِ ثَلَاثَةٌ: الْعَزِیزُ حِینَ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ یَنْفَعَنَا أَوْ نَتِّخِذَهُ وَلَدًا، وَالَّتِی قَالَتْ {یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِینُ} ،[10] وَأَبُو بَكْرٍ حِینَ تَفَرَّسَ فِی عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا

عبداللہ بن مسعودسے مروی ہےتین شخص بہت ہی صاحب فراست تھے،عزیزمصرکہ اس نے اپنی بیوی سے کہا’’اس کو عزت واحترام سے رکھو،عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یاہم اسے بیٹابنالیں ۔‘‘وہ عورت جس نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنے باپ سے کہاتھا’’ابا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔‘‘اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنے بعدسیدناعمر رضی اللہ عنہ کوخلیفہ نامزدکیاتھا۔[11]

اس طرح اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کوبھائیوں کے بغض وحسد سے بچا کر مصر میں ایک معقول ٹھکانا عطاکیا ، ظاہرہے اس عہدے دارکے ہاں امورومسائل مملکت کے بارے میں بات چیت ہوتی ہوگی جس سے یوسف علیہ السلام کوسیاسی سمجھ بوجھ پیداہوئی ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے کمسنی سے ہی آپ کی آئندہ حکمرانی کے لئے معاملہ فہمی کی تربیت کابندوبست فرمایا،اللہ کی مشیت پوری ہو کررہتی ہےکوئی ہستی اسے باطل کرسکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر غالب آسکتی ہے مگر اکثرلوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں ،اورجب وہ اپنی پوری جوانی کوپہنچااوران میں یہ صلاحیت پیداہوگئی کہ وہ نبوت اوررسالت کابھاری بوجھ اٹھاسکتے ہیں توہم نے اسے نبوت اور سلطنت کانظم ونسق چلانے کے لئے قوت فیصلہ عطافرمائی،اوریہ کوئی نئی بات نہیں نیک لوگوں کوہم اس طرح اچھی جزادیتے ہیں ۔

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ ۖ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ‎﴿٢٤﴾(یوسف)
’’اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ، یوسف نے کہا اللہ کی پناہ ! وہ میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے،بےانصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا، اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اوریوسف اس کاقصدکرتےاگروہ اپنے پروردگارکی دلیل نہ دیکھتے ،یونہی ہوااس واسطے کہ ہم اس سے اس سے برائی اور بےحیائی دور کردیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔‘‘

آزمائش :

یوسف علیہ السلام کااب دوسراامتحان شروع ہوا،یوسف علیہ السلام حسین وجمیل توبچپن ہی سے تھے اس پرپاکیزہ جوانی بھی خوب نکلی ،نیکی وشرافت ان کے چہرے سے جھلکتی تھی مزیدیہ کہ ان کاچال چلن اورگفتاربھی دل آویزتھا،یہ سارے گن دیکھ کرعزیزمصرکی بیوی کی نیت میں کھوٹ بھرگیا ،اوروہ دفقتاًفوقتاآپ کوگناہ پرآمادہ کرنے کے لئے رجھانے اور پھسلانے کی کوشش کرنے لگی ،آخرایک دن جب عزیزمصرگھرپرنہیں تھااسے یوسف علیہ السلام کوقابوکرنے کاموقعہ حاصل ہوگیا،اس عورت نے سولہ سنگھارکرکے یوسف علیہ السلام کواپنی مطلب برداری کے لئے اپنے کمرہ خاص میں بلایااوران کے کمرے میں آنے پر دروازے کواندرسے چٹخنی لگادی اور یوسف کوبدکاری کی کھلی دعوت دیتے ہوئے کہنے لگی جلدی سے میرے قریب آجاؤ اورمیرے ساتھ یہ فعل بدسرانجام دو ،یوسف علیہ السلام ایک انسان تھے اور انسانی جذبات ،احساسات اورخواہشات رکھتے تھے،چنانچہ انسانی فطری تقاضے کے تحت ان کے نفس میں ہیجان اورتحریک پیداہوئی مگرانہوں نے وہاں اپنے رب کی برہان دیکھی(اس برہان کے بارے میں کئی اقوال ہیں ) تو اپنے نفس کے داعیے کو دبانے اوراسے ردکرنے میں کمال ضبط کابے مثال نمونہ پیش کیااورفوراًکہنے لگے میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں جس نے مجھے یہ قدرومنزلت بخشی اور کیامیں اپنے رب کے احسانات کی ناشکری کروں ، ایسے ظالموں کوتوکبھی بھی فلاح نصیب نہیں ہوتی ،اس طرح یوسف علیہ السلام جورب کے برگزیدہ بندے تھے اس بے حیائی کے کام سے صاف نکل گئے اوراس عورت کی دعوت گناہ کوردفرمادیا ،چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی برہان دیکھاکرانہیں برائی یااس کے ارادے سے بچالیااسی طرح اللہ تعالیٰ نے آئندہ بھی ان سے ہرمعاملے میں برائی اوربے حیائی کی باتوں سے دوررکھنے کااہتمام فرمایااوروہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب وکامران ہوئے ۔

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَن نَّفْسِی ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَإِن كَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِیصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَیْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَیْدَكُنَّ عَظِیمٌ ‎﴿٢٨﴾‏ یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِی لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِینَ ‎﴿٢٩﴾(یوسف)
’’دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور دروازے کے پاس اس کا شوہر دونوں کو مل گیا ، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کردیا جائے یا اور کوئی دردناک سزادی جائے، یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی ،اور عورت کے قبیلے کے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بو لنے والوں میں سے ہے، اور اگر اس کا کرتہ پیچھے کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچوں میں سے ہے، خاوند نے جو دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیٹھ کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو صاف کہہ دیا یہ تو عورتوں کی چال بازی ہے، بیشک تمہاری چال بازی بہت بڑی ہے ، یوسف اب اس بات کو آتی جاتی کرو اور (اے عورت) تو اپنے گناہ سے توبہ کر، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے ۔‘‘

عورت کی چالاکی :

اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ کریوسف علیہ السلام نے اسے صاف انکارکردیامگرجب انہوں نے دیکھاکہ عورت ہرحال میں برائی کے ارتکاب پرمصرہے توکمرے سے باہرجانے کے لئے دروزے کی طرف لپکے کہ کسی طرح ابلیس کے پھندے کوتوڑکرباہرنکل جائیں ،دوسری طرف ہاتھ میں آئے ہوئے شکارکوبھاگتادیکھ کرعورت بھی یوسف علیہ السلام کوپکڑنے کے لئے پیچھے بھاگی یوں دونوں ہی دروازے کی طرف دوڑے ،کیونکہ یوسف علیہ السلام باہرجانے کے لئے پہلے بھاگے تھے اوروہ بعدمیں بھاگی تھی اس لئے وہ یوسف علیہ السلام کو تو نہ پکڑسکی البتہ بھاگتے ہوئے ان کی قمیص کاپچھلادامن اس عورت کے ہاتھ لگ گیااورجھٹکے سے پھٹ گیا،یوسف علیہ السلام دروازہ کھول کرباہرلپکے اوران کے پیچھے عورت بھی نکل آئی ، وہاں انہوں نے گھر کے مالک منصب دارکوکھڑاہواپایا،خاوندکودیکھتے ہی وہ عورت فوراًمعصوم بن گئی اورچرب زبانی سے چالاکی دکھاتے ہوئے اپنی پاک دامنی کااظہار کرنے لگی اورساراالزام یوسف علیہ السلام کے سرتھوپ دیااورساتھ ہی سزابھی تجویزکردی ،اپنے شوہرسے کہنے لگی جس شخص کوتم نے اتنے عزت واحترام سے گھرمیں جگہ دی اسی نے میرے ساتھ بے حیائی کا ارادہ کیاجوآدمی تمہاری بیوی سے برے کام کاارادہ کرے اس کوزنداں کی تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیناچاہیے یا دردناک سزاملنی چاہیے ،جب یوسف علیہ السلام نے خود پرخیانت کی بدترین تہمت لگتے دیکھی تو سچی حقیقت کوظاہرکرنے کے لئے بولے میرااس معاملہ میں کوئی قصورنہیں ہے بلکہ اس نے مجھے کمرہ کے اندربلایا اور دروازہ بندکرکے مجھے گناہ پرمجبورکرنے لگی میں اس گناہ کے کام سے بچنے کے لئے کمرہ سے باہربھاگاتواس نے میری قمیص پکڑلی جومیرے نہ روکنے سے پھٹ گئی ،دونوں خود کوحق بجانب ظاہر کررہے تھے اس لئے قضیہ تحقیق طلب تھااس لئے فیصلے کے لئے پنچایت میں پہنچ گیا ، عورت کے ایک معاملہ فہم اورجہاندیدہ عزیزنے بڑے پتے کی بات کہی اس نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کی قمیص کومنگوایاجائے اوردیکھا جائے کہ قمیص کہاں سے پھٹی ہے تومعاملہ صاف ہوجائے گا،اگرقمیص سامنے سے پھٹی ہے تویہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اقدام یوسف کی جانب سے تھااور عورت اپنی مدافعت کررہی تھی اوراسی کش مکش میں قمیص سامنے سے پھٹ گئی اوریوسف علیہ السلام جھوٹاہے ،اوراگرقمیص پیچھے سے پھٹی ہے تواس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ عورت اس کی پیچھے پڑی ہوئی تھی اوریوسف اس سے بچ کرنکل جاناچاہتاتھاتووہ سچاہے اورعورت کی بات جھوٹی ہے ،چنانچہ قمیص کوپنچایت میں منگوایا گیا،جب سب نے قمیص کو دیکھا تووہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی جس سے معاملہ صاف ظاہرہوگیاکہ قصوروارعورت ہے ، پنچایت کافیصلہ سن کرعزیزمصر اپنی بیوی کوبولایہ سارامکروفریب تمہاراپھیلایاہواہے ،تم ہی اسے بدکاری پرمجبورکررہی تھی اورمجھے دیکھ کرتم اس پرتہمت باندرہی تھی واقعی تم عورتوں کامکروفریب اورچالاکیاں بڑی ہی غضب کی ہوتی ہیں ،اور یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی اورکردارکی پختگی کودیکھ کر بولااے یوسف !مجھے معلوم ہوگیاہے کہ تم سچے ہو،جوکچھ ہوا سوہوااب اس واقعہ کوبھول جاؤاوراس کاچرچانہ کرنا،پھربیوی سے مخاطب ہوکرکہااب جبکہ تم ہی گنہگارثابت ہوچکی ہو اس لئے تم اپنے گناہ سے توبہ واستغفارکرو ۔

وَقَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِینَةِ امْرَأَتُ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣٠﴾‏فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَیْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِیمٌ ‎﴿٣١﴾‏ قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِینَ ‎﴿٣٢﴾(یوسف)
’’اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے،ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے، اس نے جب ان کی اس پر فریب غیبت کا حال سنا تو انھیں بلوا بھیجااور ان کے لیے ایک مجلس مرتب کی اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی، اور کہا اے یوسف! ان کے سامنے چلے آؤ ، ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور زبان سے نکل گیا کہ حا شا اللہ ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے، اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا یہی ہیں جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں، میں نے ہرچند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا لیکن یہ بال بال بچا رہا، اور جو کچھ میں اسے کہہ رہی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو یقیناً یہ قید کردیا جائے گا اور بیشک یہ بہت ہی بےعزت ہوگا ۔‘‘

شہرمیں بازگشت :

یوسف علیہ السلام نے اس واقعہ کورفت گزشت کیااوراس کی کوئی تشہیرنہیں کی مگرجب معاملہ گھرسے پنچایت تک پہنچ چکاہوتوایسی خبریں چھپائے تھوڑی چھپتی ہیں ،عزیز مصرکی بیوی کے طورواطوارسے بھی آخربات باہرنکل گئی اورپورے شہرمیں یہ بات گردش کرنے لگی کہ انتہائی معززشخص کی بیوی اپنے جوان غلام کواپنے مطلب برداری کے لئے بہلانے اورپھسلانے میں لگی ہوئی ہے ،اس کے دل میں اپنے باعزت خاوندکی محبت کے بجائے اپنے غلام کی محبت گھرکرگئی ہے ،جواس کی شان کے لائق نہیں ،بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی کہ عشق کرنے کے لئے اسے ایک غلام ہی میسرہوااگراس نے عشق کرناہی تھاتوکسی باعزت دولت مندآدمی سے کیاہوتا،اس طرح امراوشرفاء کی شریف زادیوں نے نہایت تعجب وحقارت سے اس قصہ کودوہرایااورکہاکہ عزیزمصرکی بیوی کھلی گمراہی کی راہ اختیارکررہی ہے ،

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: لَمَّا أَظْهَرَ النِّسَاءُ ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ: تُرَاوِدُ عَبْدَهَا مَكْرًا بِهَا لِتُرِیَهُنَّ یُوسُفَ، وَكَانَ یُوصَفْ لَهُنَّ بِحُسْنِهِ وَجَمَالِهِ

محمدبن اسحاق نے ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کے بارے میں سن لیاتھااورآپ کادیدارکرناچاہتی تھیں اوریہ بات انہوں نے آپ کے دیدارکے حربے کے طور پر کہی تھی۔[12]

عزیزمصرکی بیوی کوبھی ان طعنوں کاعلم ہوگیااوروہ ان عورتوں کی چال کوسمجھ گئی کہ یوسف علیہ السلام کے بے مثال حسن وجمال کی اطلاعات ان تک پہنچ چکی ہیں اوروہ بھی اس پیکرحسن کودیکھناچاہتی ہیں ،اوراپنی معذوری کی مصلحت بھی دیکھی تواس نے یہ جتلانے کے لئے کہ میں جس پرفریفتہ ہوئی ہوں وہ محض ایک غلام یاعام آدمی نہیں ہے بلکہ ظاہروباطن کے ایسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے دیکھ کرنقددل وجاں ہارجاناکوئی انہونی بات نہیں ،اس لئے اس نے ایک بڑی ضیافت کااہتمام کیاجس میں ان کے بیٹھنے کے لئے ایسی نشست گائیں بنائیں جس میں تکیے لگے ہوئے تھے ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَالْحَسَنُ، وَالسُّدِّیُّ، وَغَیْرُهُمْ، هُوَ الْمَجْلِسُ الْمُعَدُّ، فِیهِ مَفَارِشُ وَمَخَادُّ وَطَعَامٌ، فِیهِ مَا یُقْطَعُ بِالسَّكَاكِینِ مَنْ أُتْرُجٍّ وَنَحْوِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ،مجاہد رحمہ اللہ ، حسن رحمہ اللہ اورسدی رحمہ اللہ وغیرہ نے کہاہے اس سے ایسی محفل مرادہے جس میں فرشی نشستوں کے لیے بچھونے بچھائے گئے ہوں گاؤتکیے لگائے گئے ہوں اورایسے کھانے سجائے گئے ہوں جنہیں چھریوں سے کاٹ کرکھایا جاتا ہو ، سنگترہ وغیرہ۔[13]

پھر انہیں دعوت طعام کی اطلاع دی جس میں پھل اورمیوہ جات وغیرہ بہت زیادہ مقدارمیں تھے ،وقت مقررہ پرامراء وروسا اور بڑے عہدہ داروں کی بیگمات بظاہرطعام کھانے مگرعزیزمصرکی بیوی کے غلام کودیکھنے کے لئے جمع ہوگئیں تومنصب دارکی بیوی نے کچھ پھل وغیرہ کاٹنے کے لئے ہرایک عورت کے ہاتھ میں چھری تھمادی ،عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھارہی تھیں اس نے یوسف علیہ السلام کومحفل میں حاضرہونے کاحکم دیا ، مالکہ کے حکم پرجب یوسف علیہ السلام محفل میں داخل ہوئے اور ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تووہ آپ کے بے پناہ حسن وجمال ، نورانیت اورمردانہ وجاہت کوٹکٹکی باندھ کر دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ،ان پر تحیرووارفتگی کی ایسی کیفت طاری ہوئی کہ وہ قطعاًبھول گئیں کہ چھریاں کہاں ہیں اور ہاتھ کس پرہے ، اسی عالم میں ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری سے پھل وغیرہ کاٹنے کے بجائے اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا هُوَ قَدِ اُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو حسن(خوبصورتی)کانصف عطا کیا تھا۔[14]

تمام عورتیں زخمی ہونے کے باوجود بے ساختہ پکاراٹھیں ،حاش للہ یعنی معاذاللہ ایسے پاکیزہ چہرے والا اور ایسے حسن وجمال والاکوئی انسان توہرگزنہیں ہوسکتا یہ تو کوئی ذی عزت فرشتہ ہے ، عورتوں کے منہ سے یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کے بارے میں تحسین آمیز گفتگو سن کرعزیزکی بیوی خوش ہوئی کہ اس کی چال کامیاب رہی ، وہ فوراًبولی اب تم سمجھیں کہ میں کیوں اس پرریجھ گئی،یہی وہ غلام ہے جس کے بارے میں تم مجھ پرطعنہ زنی اور ملامت کررہی تھیں ،

فَقَالَتْ: أَنْتُنَّ مِنْ نَظْرَةٍ وَاحِدَةٍ فَعَلْتُنَّ هَكَذَا، فَكَیْفَ أُلَامُ أَنَا؟

تم نے صرف ایک لمحہ یوسف علیہ السلام کودیکھ کریہ حال کر لیاہے میراحال کیاہواہوگامیں تو اپنے گھرمیں ہروقت اس کو دیکھتی تھی،کیااس کاحسن وجمال ایسانہیں کہ صبروبرداشت چھین لے ؟۔[15]

وَمَا نَرَى عَلَیْكِ مِنْ لَوْمٍ بَعْدَ الَّذِی رَأَیْنَا

ان عورتوں نے اس سے کہاکہ یہ منظردیکھنے کے بعدہم آئندہ تمہیں کبھی ملامت نہیں کریں گی۔[16]

پھراس نے بھری مجلس میں شرم وحیاکے سارے حجاب دورکرکے پوری ڈھٹائی سے دل میں سلگتی ہوئی حرص وہوس کی آگ کا اعلانیہ اظہارکرتے ہوئے بولی بے شک میں نے اسے اپنی ضرورت کے لئے مائل کرنے رجھانے اور پھسلانے کی ہر چند کوشش کیں مگریہ بچ نکلااگر ایک مرتبہ وہ میری گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیاہے توکیاہوامگریہ بھاگ کرجائے گاکہاں ؟کیامیں اسے ایسے ہی اپنی ضرورت پوری کیے بغیر چھوڑ دوں گی ، ہرگز نہیں ، اسے ہرصورت میری ضرورت کی تکمیل کرناپڑے گی ،اگریہ سیدھی طرح نہ ماناتومیں اسے زنداں کے ذلت آمیز عذاب میں ڈلوا دوں گی جہاں یہ بہت پچھتائے گا ، اس عزائم کے ساتھ محفل برخاست ہوگئی ۔

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّی كَیْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَیْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٣٤﴾‏ ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿٣٥﴾‏(یوسف)
’’یوسف نے دعا کی اے میرے پروردگار ! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہے اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا ، اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ اس سے پھیر دیئے، یقیناً وہ سننے والا جاننے والا ہے، پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انھیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لیے قید خانہ میں رکھیں ۔‘‘

اب ایک دوسری مصیبت شروع ہوگئی جوپہلی مصیبت سے زیادہ پریشان کن تھی ،عزیزمصرکی بیوی محفل میں کھلے عام اپنے مضبوط ارادے کااظہارکرہی چکی تھی ،اب مصرکی وہ شرفاء اورامراء کی عورتیں بھی جودعوت میں انہیں دیکھ کرہوش وحواس کھوبیٹھی تھیں یوسف علیہ السلام کودعوت گناہ کے نامے بھیجنے لگیں ،اب صورت حال انتہائی گھمبیرہوگئی ،پہلے توایک ہی عورت تھی اب پورے شہرکی عورتوں سے عزت وآبروبچنامشکل ہوگئی تویوسف علیہ السلام نے اپنے ایمان ویقین اورعزت وعفت کوبچانے کے لئے رب سے التجاکی اے میرے رب ! ہرطرح کی توفیق وقوتیں تیری طرف سے ہیں ،میں ایک عاجزاور کمزورخطاکاپتلاانسان ہوں میرااتنابل بوتاکہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کامقابلہ کرسکوں ،میں تجھ سے مدد طلب کرتاہوں کہ تومجھے میرے نفس کے حوالے نہ کرکہ میں ان عورتوں کی چالوں اور مکروفریب میں پھنس کربہک جاؤں اورجاہلوں میں جاملوں ،اس لئے تجھ سے التجا ہے کہ مجھے ان کے چنگل سے بچالے ،مجھے اس گناہ کی نسبت جس کی طرف وہ مجھے راغب کررہی ہیں ،میں اپنے دامن کوداغ معصیت سے بچانے کے لئے اس بات کوترجیح دیتا ہوں کہ آزادرہنے کے بجائے ان کی غلیظ نظروں کی دسترس سے دورہوکرزنداں میں چھپ جاؤں تاکہ مجھے اس عذاب سے چھٹکارانصیب ہو، رب کریم جودل سے نکلی ہوئی دعا قبول کرتاہے اس نے یوسف علیہ السلام کی دعا کوشرف قبولیت بخشااوریوسف علیہ السلام کوخوبصورت ومال داررئیس زادیوں کے چنگل سے بال بال بچالیا،بے شک وہی ہے جودعامانگنے والے کی دعاکوسنتا اوراس کی نیک نیت اورکمزورفطرت کوخوب جانتاہے سب کچھ جانتاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِی ظِلِّهِ، یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِی عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ یَمِینُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات آدمیوں کواللہ تعالیٰ قیامت والے دن عرش کاسایہ عطا فرمائے گاجس دن اس کے سواکوئی سایہ نہ ہوگا، عادل بادشاہ،اوروہ جوان( مردو عورت) جواپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہااورایسا شخص جس کادل ہروقت مسجدمیں لگارہتاہے اوردوایسےشخص جواللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہیں اوران کے ملنے اورجداہونے کی بنیادیہی للہی محبت ہے اور وہ شخص جسے کسی باعزت اورحسین عورت نے(برے ارادہ سے )بلایالیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں اوروہ شخص جس نے صدقہ کیامگراتنے پوشیدہ طورپرکہ بائیں ہاتھ کوبھی خبرنہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیاخرچ کیااوروہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کویاد کیااور(بے ساختہ)آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے۔ [17]

اللہ تعالیٰ کی تدبیرسے زیادہ کس کی تدبیرہوسکتی ہے ،عزیزمصرکی بیوی اوردوسری عورتوں کی وارفتگی دیکھ کران کوپابندکرنے کے بجائے ارباب اختیارکویہ تدبیرذہن میں آئی کہ یوسف علیہ السلام کوبے گناہ ہوتے ہوئے بھی کچھ مدت کے لے قیدکر دیا جائے تاکہ وہ ان کی عورتوں سے بھی دورہوجائے اورلوگوں کی نظرمیں وہ قصورواربھی ٹھہرے حالاں کہ وہ یوسف علیہ السلام کی نیکی وپارسائی اورپاکدامنی اور خوداپنی عورتوں کے برے اطوارکی صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے،چنانچہ یوسف علیہ السلام کوزنداں میں ڈال دیاگیا۔

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ قَالَ لَا یَأْتِیكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِیلِهِ قَبْلَ أَن یَأْتِیَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی ۚ إِنِّی تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَیْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَیْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ یَا صَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ‎﴿٣٩﴾‏ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّیْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٤٠﴾‏(یوسف)
’’اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں ، یوسف نے کہا تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا، یہ سب اس علم کی بدولت ہے جو میرے رب نے سکھایا ہے، میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ، میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا، ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں،اے میرے قید خانے کے ساتھیو ! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرماں روائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘

زنداں میں دعوت توحید:

زنداں میں دوغلام اوربھی یوسف علیہ السلام کے ساتھ داخل ہوئے،

عَنْ قَتَادَةَ{وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیَانِ } قَالَ: كَانَ أَحَدُهُمَا خَبَّازًا لِلْمَلِكِ عَلَى طَعَامِهِ، وَكَانَ الْآخَرُ سَاقِیهِ عَلَى شَرَابِهِ

قتادہ رحمہ اللہ آیت’’قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں ان میں سے ایک(جس کانام بحلث بیان کیاجاتاہے)نان بائی تھا جوبادشاہ کے کھانے کابندوبست کرتاتھااور دوسرا (جس کانام بندارکہاجاتاہے) شراب پلانے پرمامورتھا۔[18]

دوران قیدانہوں نے بچشم خودیوسف علیہ السلام کی نیکی وشرافت ،عبادت وریاضت ،تقوی وراست بازی اوراخلاق وکردار کاخوب مطالعہ کرلیاتھا،ایک رات دونوں نے خواب دیکھاتوقدرتی طورپرصبح اٹھ کر دونوں نے اپنے اپنے خوابوں کاتذکرہ یوسف علیہ السلام کے سامنے کیا اور کہا اے یوسف علیہ السلام !آپ ہمیں محسنین میں نظرآتے ہیں آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیربیان کریں ،چنانچہ ایک غلام نے خواب بیان کیاکہ وہ شراب تیارکرنے کے لئے انگوروں کو نچوڑرہاہے ، اور دوسرے غلام نے کہامیں اپنے سرپرروٹیاں اٹھائے ہوئے جارہاہوں اوراوپرسے پرندے آکرروٹیاں لئے جارہے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے فرمایاٹھیک ہے میں کھاناآنے سے قبل تم دونوں کو تمہارے خوابوں کی تعبیربتلادوں گاجوکاہنوں اورنجومیوں کی طرح ظن و تخمین پرمبنی نہیں ہوگی بلکہ میری بتلائی ہوئی تعبیریقینی علم پرمبنی ہوگی جس میں غلطی کاامکان نہیں کیونکہ میرے رب نے مجھے بہت سی باتوں کی تعلیم کے علاوہ خوابوں کی تعبیرکاعلم بھی عطا کر رکھاہے ، موقعہ اچھاتھااس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوسف علیہ السلام نے دونوں ساتھیوں کودعوت توحیددیناشروع کردی ، فرمایااے میرے ساتھیو!کیاہمارے لئے یہ مناسب ہے کہ جس بابرکت رب نے زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے تخلیق کیا،ہرطرح کی کجی سے پاک آسمانوں کوبلاستونوں کے خوب بلندکیا۔

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲ [19]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۔

اورزمین کوفرش کی طرح پھیلایا۔

 وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ۝۲۰۪ [20]

ترجمہ:اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟۔

وہ رب جس کو کسی چیزکووجودمیں لانے کے لئے نہ کسی طرح کے ذرائع ووسائل اورنہ کسی مددگارکی ضرورت ہے ،وہ رب جس کے پاس ہرطرح کے خزانے ہیں اوروہ اپنے دائیں ہاتھ سے انہیں اپنی مخلوق میں بانٹتارہتاہے ،وہ رب جوزمین پرچلنے والے اور سمندر کی گہرائیوں میں رہنے والوں کی روزیاں آسمانوں سے نازل کرتاہے ،وہ رب جس نے انسان کوبہترین طورپرتخلیق کیا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ [21]

ترجمہ:ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔

اوراسے عقل وتمیز،فہم وادراک ،قوت گویائی اورانگنت غیرمعمولی صلاحیتوں سے آراستہ اورتندرست وتوانا کیا اور تمام مخلوقات پرفضیلت بخشی اوراپنی تمام مخلوقات کوانسان کی خدمت کے لئے مسخرکردیا،وہ رب جس کی مشیت علم و حکمت پرمبنی ہے ،اپنی مشیت کے مطابق کسی انسان کا رزق اس کے علم وہنر،محنت و خواہش پرنہیں بلکہ اپنے فضل وکرم سے فراغ کردیتاہے اورجس کاچاہتاہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔

 اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ [22]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔

وہ جس کوچاہتاہے عزت دے کر اقتدار بخشتا اورجس کوچاہتاہے ذلیل کرکے چھین لیتاہے۔

 قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۲۶     [23]

ترجمہ:کہو! خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔

وہ جس کوچاہتاہے اولاددیتاہے اورجسے نہ چاہے نہیں دیتا۔

اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۝۰ۚ وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَاۗءُ عَــقِـیْمًا ۔۔۔ ۝۵۰    [24]

ترجمہ:جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔

وہی رب باربار پیغمبربھیج کرہمیں صراط مستقیم کی رہنمائی عطاکرتاہے تاکہ ہم ان کی اطاعت کرکے اس کی رضاحاصل کرلیں تاکہ آخرت میں ہمیں پروانہ نجات مل جائے ،کیایہ سب اس رب کافضل وکرم ورحمت نہیں ؟ تو پھر اس کی ذات ،صفات اورافعال میں کسی غیرکواس کا شریک کیوں ٹھیرایاجائے جوخوداس کی بے بس ولاچارمخلوق ہیں ،اس رب کوچھوڑکران انگنت خداؤں سے امیدیں کیوں وابستہ کی جائیں ،ان پربھروسہ کیوں کیاجائے جو امیدیں برنہیں لاسکتے ،اپنی مشکلات ومصائب میں انہیں پکارکررب کے عذاب کامستحق کیوں بناجائےجونداؤں کوسننے کی قدرت ہی نہیں رکھتے،کیااس سے بڑی بھی کوئی اورجہالت ہوسکتی ہے کہ ایسے زندہ جاوید،قوتوں اورصفتوں والے رب کوجس نے تمام نظام کائنات سنبھال رکھاہے کوچھوڑکران بے شمارخداؤں کی پرستش کی جائے جونہ تودیکھ ،بول اورنہ ہی سن سکتے ہیں ،جوکسی کوعطاکرسکتے ہیں نہ محروم کرسکتے ہیں ،اے میرے زنداں کے ساتھیو!اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں حق وباطل کی فطری تمیزرکھی ہے۔

 فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ [25]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

تم خود غوروفکر کروہرعلاقہ کے جداجدا،مختلف شکل وصورت اورمختلف صفات کے بہت سے الٰہ بہترہیں یاکمال صفات کاحامل اللہ،جواپنی ذات وصفات اورافعال میں یکتاہے ، ان تمام امورمیں اس کاکوئی شریک نہیں ،اس کے قہروتسلط کے سامنے تمام کائنات سرافگندہ ہے ،وہ جوچیزچاہتاہے ہوجاتی ہے جونہیں چاہتانہیں ہوتی ،جیسے فرمایا

۔۔۔مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا۔۔۔۝۰۝۵۶ [26]

ترجمہ:کوئی جاندارایسانہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔

وہ رب جواولادکے سہارے اورازواجی ضرورت سے بالاتراوربے نیازہے ،جوسراسر پاک ،ہرنقص سے سلامت ،بے مثل اورہرچیزپرغالب اور قوت والاہے ،جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ،جس کاعلم ہرچیزکوگھیرے ہوئے ہے۔

 ۔۔۔وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔۝۰۝۸۰ [27]

ترجمہ:میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔

۔۔۔وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔ ۝۸۹ [28]

ترجمہ: ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸  [29]

ترجمہ:لوگو! تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

وہی جانتاہے جوہم سے پہلے گزرچکے ہیں اورہمارے بعدآنے والے ہیں ،جودلوں کے چھپے بھید اور نیتوں کوخوب جانتاہے۔

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [30]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

کوئی بھی چیزچاہے وہ زمین میں ہویاآسمانوں میں اس سے پوشیدہ نہیں اور نہ اس کی قدرت سے باہرہے۔

 اِنَّ اللہَ لَا یَخْفٰى عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۵ۭ [31]

ترجمہ:زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ۝۰ۭ وَمَا یَخْفٰى عَلَی اللہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۳۸ [32]

ترجمہ:پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمانوں میں ۔

۔۔۔ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَـہْرَ وَمَا یَخْفٰى۝۷ۭ [33]

ترجمہ: وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو بھی۔

اسی وحدہ لاشریک قدرتوں والے رب نے آسمانوں زمین کوتھام رکھاہے۔

 اِنَّ اللہَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۝۰ۥۚ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۱  [34]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے، اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انہیں تھامنے والا نہیں ہے۔

وہ اپنی شان کے لائق اپنے تخت حکومت پربیٹھ کرحکمرانی کررہاہے کیونکہ بادشاہی اورغلبہ واقتدارواختیاراس برحق رب کاہے جس کے حکم کی پوری کائنات میں تعمیل کی جاتی ہے ، وہی رب عدل وانصاف سے فیصلے کرتاہے اورنیکی وبدی کے اعمال کے مطابق جزاوسزااورتوبہ قبول کرتاہے ،جس رب کی رحمت ہرچیزپرچھائی ہوئی ہے۔

 ۔۔۔قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُ۝۰ۚ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ ۔۔۔ ۝۱۵۶ۚ        [35]

ترجمہ:جواب میں ارشاد ہوا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے ۔

اے میرے زنداں کے ساتھیو! اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکرتم جن ہستیوں کی عبادت وپرستش کرتے ہوان میں الوہیت کی صفات میں سے کوئی صفت موجودنہیں ہے ، یہ تو پتھرکے چند خوبصورت ٹکڑے ہیں جنہیں تمہارے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر ،من مرضی کی شکل وصورت بنا کراور ان کے چندنام گھڑکران کی صفات مقررکردی ہیں ،ان کی صفات کے بارے میں صرف تمہاراوہم وگمان اورخوش گمانیاں ہیں جس سے خوداپنے آپ کو دھوکادیتے ہواوراپنے معبودحقیقی کوغضبناک کرتے ہواللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی کہ ان کی پرستش کرو،جیسے ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاتھا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ۝۰ۭ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَاۗءٍ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۔۔۔۝۷۱      [36]

ترجمہ:اس نے کہا تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟ ۔

بلکہ اس نے تواس کے برعکس یہ حکم فرمایا ہے کہ ہرطرف سے منہ موڑکرصرف اس اکیلے خالق ومالک رب کی عبادت کرو،اسی کی بارگاہ میں سجدہ کرو ، اللہ اکیلے کے سواکسی کاحکم نہیں ،وہی ہے جوحکم دیتاہے اورمنع فرماتاہے ،وہی ہے جوتمام شرائع اوراحکام کومشروع کرتاہے اوروہی ہے جس نے حکم دیاہے کہ عبادت صرف اسی کی کرو ،ہمیں ہرگزیہ سزاوارنہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوبھی اس کاشریک بنائیں اوراس کی عبادت کریں ، یہی صراط مستقیم ہے جو ہر بھلائی کی منزل تک پہنچاتاہے دیگر تمام ادیان اس سیدھی راہ سے محروم ہیں ،مگراکثرلوگ اشیاء کے حقائق کونہیں جانتے ورنہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اوراس کے ساتھ شرک میں فرق سب سے زیادہ واضح اور نمایاں چیزہے ،وہی اللہ ایک وقت مقررہ پرتمہیں موت دیتا ہے اورتم قبروں میں پہنچ جاتے ہو،کائنات کی کوئی بھی چیزدائمی نہیں ، ایک وقت مقررہ پرہرشے کوختم کردیا جائے گا۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۝۲۶وَّیَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚۚۖ [37]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے،اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

پھر وہ رب جب چاہے گاتمام انسانوں کودوبارہ زندہ کر کے عدل وانصاف کرنے کے لئے اپنے حضور لاکھڑاکرے گا اورتمہارے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل فرمائے گا، رب کے ساتھ جس کی میں نے چند صفات بیان کی ہیں کسی مخلوق کوجن کے پلے کچھ بھی نہ ہواس کاشریک بنانا سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے ،جس کی کوئی بنیادنہیں ، رب کی سیدھی راہ سے منحرف ہوکر ابلیس کی راہ کواپناناہے ، میں نے ایسے مشرک لوگوں کا طریقہ جونہ تو خالق کائنات پراس کی صفات و قدرتوں پراورنہ ہی دوبارہ زندہ ہو کر اس کی بارگاہ میں اپنے اعمال کی جواب دہی پریقین رکھتے ہیں چھوڑکررب کے برگزیدہ پیغمبراوراپنے آباؤاجد اد ابراہیم علیہ السلام ،اسحاق  علیہ السلام اوراپنے والدیعقوب علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کرتاہوں ۔

یَا صَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّیْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ ‎﴿٤١﴾‏ وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِی عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ ‎﴿٤٢﴾‏(یوسف)
’’اے میرے قید خانے کے رفیقو ! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہوجائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے، تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا ، اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کردینا، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قید خانے میں ہی کاٹے ۔‘‘

توحیدکاوعظ کرنے کے بعدیوسف علیہ السلام نے دونوں غلاموں کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیرفرمائی اوراے میرے زنداں کے رفیقو! اب اپنے خوابوں کی تعبیرسنوتم میں سے جس نے انگورکشیدکرنے کاخواب دیکھاہے وہ رہاہوجائے گااورملازمت پربحال ہو کر اپنے مالک کی بددستور خدمت کرتا رہے گا اور دوسرے کو رہاکرنے کے بجائے سولی پرلٹکا یا جائے گااوردفن کرنے کے بجائے اسے وہاں چھوڑدیاجائے گاجہاں پرندے اس کے سرکونوچ نوچ کرکھائیں گے ،جوبات تم نے مجھ سے دریافت کی تھی رب کی طرف سے اس کافیصلہ ہوچکاہے،

عَنْ عَمِّهِ أَبِی رَزِینٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الرُّؤْیَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ، مَا لَمْ تُعَبَّرْ، فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ

ابوزرین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواب جب تک اس کی تعبیرنہ کی جائے پرندے کے پاؤں پرہےجب اس کی تعبیرکردی جائے تووہ تعبیر وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔[38]

پھران میں سے جس کے متعلق گمان تھاکہ وہ رہاہوجائے گااس سے یوسف علیہ السلام نے کہاجب تم زنداں سے رہاہوکراپنی والی نعمت مالک کے پاس خدمت کے لئے جاؤتواس میرے قصے اورمیرے معاملے کاذکرکرناشایدوہ نرم پڑجائے اورمجھے قیدخانے سے نکال دے ،چنانچہ جیسی آپ علیہ السلام نے دونوں کی تعبیربتلائی تھی ، تحقیق وتفشیش کے بعدویساہی عمل ظہورپذیرہوا،مگرملازمت پربحال ہونے والاغلام جب شاہ مصرکے ہاں خدمت کے لئے حاضرہواتوشیطان نے اسے ایساغفلت میں ڈالا کہ وہ شاہ مصرسے یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنابھول گیا اوریوسف علیہ السلام تین سے نو سال تک قیدخانے میں پڑے رہے،

وَأَمَّاالْبِضْعُ،فَقَالَ مُجَاهِدٌ وَقَتَادَةُ: هُوَ مَا بَیْنَ الثَّلَاثِ إِلَى التسع

لفظ الْبِضْعُ کے بارے میں  مجاہد رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یہ تین سے نوتک کے عددکے لیے استعمال ہوتاہے۔[39]

وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّی أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ ۖ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُؤْیَایَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْیَا تَعْبُرُونَ ‎﴿٤٣﴾‏قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِیلِهِ فَأَرْسِلُونِ ‎﴿٤٥﴾(یوسف)
’’بادشاہ نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائے ہیں جن کو سات لاغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک،اے درباریو ! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو، انہوں نے جواب دیا یہ تو اڑتے اڑاتے پریشان خواب ہیں اور ایسے شوریدہ پریشان خوابوں کی تعبیر جاننے والے ہم نہیں ، ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہوا تھا اسے مدت کے بعد یاد آگیا اور کہنے لگا میں تمہیں اس کی تعبیر بتادوں گا، مجھے جانے کی اجازت دیجئے ۔‘‘

بادشاہ کاخواب :

جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہایوسف علیہ السلام قیدمیں رہے ،پھرجب اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کوزنداں سے نکالناچاہاتو عزیزمصرنے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا کہ سات موٹی تازہ گائیں ہیں جن کوسات دبلی پتلی گائیں کھارہی ہیں ،اوراناج کی سات سرسبزوشاداب بالیاں جن کو سات عدد سوکھی بالیاں کھارہی ہیں ،اس خواب سے وہ بڑا پریشان و متفکر ہوا ، صبح دربارمنعقدکیااورسرداروں ،امرائے سلطنت ،کاہنوں اورنجومیوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی ،تمام منصب داروں نے کہایہ توپریشان،پراگندہ خیالات خوابوں کی باتیں ہیں اورہم اس طرح کے خوابوں کی تعبیربیان نہیں کرسکتے،شاہ مصرکے خواب اوراہل دربارکی بات اس غلام کے کان میں بھی پڑگئی جویوسف علیہ السلام کے ہمراہ قید ہوا تھا اوررہاہونے کے بعددوبارہ ملازمت پربحال ہواتھااسے اتناعرصہ گزرنے کے بعدشاہ مصرکے خواب کی تعبیر کے لئے اچانک یوسف علیہ السلام یادآگئے،وہ شاہ مصرکی خدمت میں حاضر ہوااوراپنے ساتھی کے خواب اوران کی سچی تعبیرکاذکرکرکے بولاکہ اگرآپ مجھے زنداں میں یوسف علیہ السلام کے پاس جانیکی اجازت فرمادیں تومیں اس خواب کی سچی تعبیر پوچھ کر آتا ہوں ، عزیزمصرنے اسے زنداں میں جانے کی اجازت دے دی ۔

‏ یُوسُفُ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَّعَلِّی أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِی سُنبُلِهِ إِلَّا قَلِیلًا مِّمَّا تَأْكُلُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ ثُمَّ یَأْتِی مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِیلًا مِّمَّا تُحْصِنُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ ثُمَّ یَأْتِی مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِیهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیهِ یَعْصِرُونَ ‎﴿٤٩﴾(یوسف)
’’ اے یوسف ! اے بہت بڑے سچے یوسف ! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بھی بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جا کر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں، یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے، اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط کے آئیں گے وہ اس غلے کو کھا جائیں گےجو تم نے ان کے لیے ذخیرہ رکھ چھوڑا تھا، سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو، اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے۔‘‘

خواب کی تعبیر:

اجازت پاکروہ غلام دوڑادوڑازنداں میں یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوا،دوران قیدوہ یوسف علیہ السلام کی سچائی وراستبازی دیکھ کرآپ کی سیرت سے گہرااثرلے چکا تھا،آکرگویاہوا اے سراپاسچائی اورراستباز!شاہ مصرنے ایک خواب دیکھاہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جن کوسات دبلی پتلی گائیں کھارہی ہیں اورسات ہری بھری شاداب بالیں ہیں جنہیں سات سوکھی بالیاں کھارہی ہیں آپ مجھے اس خواب کی تعبیربتلائیں تاکہ میں واپس جاکرعزیزمصرکواس خواب کی صحیح تعبیربتلاؤں اوروہ جان لے کہ کس پایہ کے آدمی کوانہوں نے کہاں بندکررکھاہے اوراس طرح مجھے اپناوعدہ پوراکرنے کاموقعہ مل جائے گاجومیں نے قیدکے دوران آپ سے کیاتھا،اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو صحیح وجدان ذوق سلیم اور ملکہ راسخہ عطافرمایاتھاخواب سن کراس کی تہہ میں پہنچ گئے ،انہوں نے موٹی تازی سات گایوں سے ایسے سات سال مرادلئے جن میں خوب پیداوار ہو گی اور سات دبلی پتلی گایوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے ،اسی طرح سات ہری بھری شاداب بالیوں سے مرادلیاکہ زمین خوب پیداواردے گی اورسات خشک بالیوں سے مراد لیاکہ ان سات سالوں میں زمین پیداوارنہیں دے گی ،چنانچہ آپ علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیربیان فرمائی کہ تم سات سال تک لگاتارکاشتکاری کرتے رہو گے اور فصل بھی بہت اچھی پیدا ہو گی جس سے اناج اورغلہ کی بہتات ہوگی ،سات سال کی اس خوش حالی کے بعدمسلسل سات سال تک سخت قحط سالی ہوگی ،اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے یوسف علیہ السلام نے ازخودان کی رہنمائی بھی فرمائی کہ شادابی کے سالوں کے دوران قحط سالی کامقابلہ کرنے کے لئے تم یہ طریقہ اختیارکرناکہ غلے کواپنی کھیتی سے ضرورت سے کم کاٹنااورباقی غلے کواس کی بالیوں میں ہی رہنے دیناتاکہ وہ تلف ہونے سے محفوظ رہے اورزیادہ سے زیادہ خوراک کاذخیرہ ہوسکے ،شادابی کے ان سات سالوں کے بعدجب قحط سالی کے سات سال آئیں توخوشحالی کے سات سالوں سے غلے کابچاہواذخیرہ تمہارے کام آئے گاجس کاذخیرہ تم اب کروگے ،اس طرح تمہیں خوراک کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی،اورخوشخبری بھی سنائی کہ اس کے بعدسال میں رب اپنے فضل وکرم سے کثرت سے بارش برسائے گاجس سے تم بھرپور فائدہ اٹھاؤ گے ،اس بارش سے ہرپیداوار کثرت سے ہوگی یہانتک کہ انگوروں اورپھلوں کوتم کھاؤگے اورشراب کے لئے بھی نچوڑوگے،زیتون اوردوسرے تیل دینے والے بیجوں سے تیل نکالو گے اورجانوروں سے دودھ دوہوگے ،خدمت گارغلام نے واپس جاکرخواب کی تعبیرشاہ مصرکے گوش گزارکردی۔

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِی بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّی بِكَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ ‎﴿٥٠﴾‏ قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ یُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِیزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٥١﴾‏ ذَٰلِكَ لِیَعْلَمَ أَنِّی لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی كَیْدَ الْخَائِنِینَ ‎﴿٥٢﴾‏وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِی ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی ۚ إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٥٣﴾(یوسف)
’’ اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ، جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے، بادشاہ نے پوچھا اے عورتو ! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کرکے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانہ چاہتی تھیں، انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذاللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی میں نے ہی اسے ورغلایا تھا اس کے جی سے، اور یقیناً وہ سچوں میں سے ہے ، (یوسف (علیہ السلام) نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی ،اور یہ بھی کہ اللہ دغا بازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا،میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔‘‘

اپنے خواب کی تعبیرسن کرعزیزمصربہت متاثرہوااوراس نے کہاجس نے یہ تعبیربتلائی ہے اسے میرے حضورپیش کرو،مگرجب شاہی فرستادہ نے یوسف علیہ السلام کوبادشاہ کی طلبی کاپیغام پہنچایا تویوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے عنایت خسروانہ سے زنداں سے نکلنے کوپسندنہیں کیابلکہ اپنے کردارکی بلندی اوراپنی پاک دامنی کے اثبات کوترجیح دی تاکہ لوگوں کے سامنے آپ کی برات مکمل طورپرعیاں ہوجائے ،چنانچہ انہوں نے شاہی فرستادے سے کہامیرارب توعلام الغیوب ہے اورآسمان وزمین کی ہربات سے باخبرہے ،وہ توان عورتوں کی مکاریوں سے خوب واقف ہے تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤاوراس سے پوچھو کہ ان عورتوں کاکیامعاملہ ہے جنہوں نے دعوت میں اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ} ،[40] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ كُنْتُ أَنَا لَأَسْرَعْتُ الْإِجَابَةَ، وَمَا ابْتَغَیْتُ الْعُذْرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا’’ اوراس سے پوچھ کہ ان عورتوں کاکیامعاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں ہوتاتوجلدی سے اس پیشکش کوقبول کرلیتا اورعذرتلاش نہ کرتا۔[41]

شاہ مصراس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھامگر صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے اس نے تمام امرااورروساء کی عورتوں کوجنہوں نے دعوت میں اپنے ہاتھ کاٹ کر زخمی کرلئے تھے اپنے پاس بلایااوران سے پوچھا کہ جب تم نے یوسف علیہ السلام کواس کے نفس سےپھسلانے کی کوشش کی تھی تو کیا واقعہ پیش آیاتھا،عزیزمصرکے استفسارپرتمام عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کااعتراف کرتے ہوکہا سُبْحَانَ اللَّهِ ہم نے یوسف علیہ السلام میں کچھ بھی برائی نہیں پائی یہ اس پربے سروپاتہمت ہے ،اب عزیزمصرکی بیوی سمجھ گئی کہ اصل بات اب کھل گئی ہے اورچھپائے نہ چھپے گی توشرمندگی وخجالت سے منہ نیچاکرکے اس نے برملا صاف طورپراپنے جرم کا اقرارکرلیاکہ یوسف علیہ السلام نے کبھی بھی برے کام کاارادہ نہیں کیاتھابلکہ میں نے ہی یوسف علیہ السلام کوپھسلانے کی کوشش کی تھی ،یوسف علیہ السلام اپنے اقوال اوراپنی برات کے دعویٰ میں سچے ہیں ، ان گواہیوں سے یوسف علیہ السلام کی شخصیت زمانہ قیدکی طویل گمنامی سے نکل کر یکایک پھرسطح پرآگئی اور آپ کااخلاقی وقارقائم ہوگیا،جب زنداں میں یوسف علیہ السلام کویہ ساری تفصیل بتلائی گئی تواسے سن کر یوسف علیہ السلام نے کہاان باتوں سے میری مرادیہ تھی کہ عزیزیہ جان لے کہ میں نے در پردہ اس کی امانت میں خیانت نہیں کی تھی، جولوگ خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کواللہ کامیابی کی راہ پرنہیں لگاتا،بالآخرجیت حق اوراہل حق ہی کی ہوتی ہے گوعارضی طورپر اہل حق کوآزمائشوں سے گزرناپڑے ،یوسف علیہ السلام نے کہامیں کچھ اپنے نفس کی برات نہیں کررہاہوں نفس توبدی،بے حیائی اوردیگرگناہوں پراکساتاہی ہے، نفس شیطان کی سواری ہے اورشیطان نفس کے راستے انسان میں داخل ہوتاہے اس طرح نفس سے بچنابہت مشکل ہے ،ہاں وہ انسان بچ سکتاہے جس کومیرارب اپنے فضل وکرم سے ڈھانک لے اوربرائی سے بچالے بے شک میرارب بڑاغفورورحیم ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

كَانَ نفسا أَمارَة بالسوء، مهما كَانَ مترددا بَین البهیمیة والملكیة وَكَانَ الْأَمر سجالا ونوبا كَانَ نفسا لوامة، وَمهما تقیدت بِالشَّرْعِ وَلم تَبْغِ عَلَیْهِ وَلم تنبجس إِلَّا فِیمَا موافقه كَانَت نفسا مطمئنة.

النَّفْسُ امارہ :قرآن مجیدمیں نفس کالفظ تین مختلف معنوں میں آیاہے ،ایک تویہاں نفس امارہ کے معنوں میں یعنی وہ نفس جوبرائی پرابھارتاہے ،اور وہ اس کوحیوانیت کانام دیتے ہیں انسان کے اندرنفس امارہ ہے جوانسان کوجانوروں والی حیوانیت اورسفاکیت پرابھارتاہے ۔

النَّفْسُ لوامہ :انسان کے اندرایک اورنفس بھی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے ،وہ نفس لوامہ ہے یعنی انسان کوان سے ٹوکنے والا،ملامت کرنے والاجس کوہم ضمیرکہتے ہیں ،یہ امر ربی اورروح کامظہرہے شاہ والی اللہ دھلوی رحمہ اللہ اس کے لئے ملکیت کانام استعمال کرتے ہیں کہ یہ فرشتوں کی صفات رکھتاہے،اس طرح انسان بنیادی طورپردونفوس کاحامل ہے یعنی نفس امارہ اورنفس لوامہ،بھیمیت اوراول الذکرصفات جانوروں کی ہیں یعنی انسان زیادہ کھائے ،زیادہ پئے،زیادہ سوئے اورزیادہ لذت اٹھائے اوراس امرمیں اگر دوسروں کاحق مارناپڑے تواس سے گریزنہ کرے ،جبکہ موخرالذکرنفس لوامہ(ملکیت)کی صفات یہ ہیں کہ وہ کم کھاتا،کم پیتااورکم سوتاہے،ہروقت اللہ تعالیٰ کاذکرکرتا رہتا ہے ، اپنی ہرغرض سے بے نیازہوکردوسروں کی خدمت کرتاچلاجاتاہے۔

النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ:مذکورہ دونوں صفات انسان کے اندرموجودہیں اوران کی مسلسل کشمکش اورلڑائی جاری رہتی ہے ،اس لڑائی اوردنگل کے نتیجے میں یاتونفس امارہ مستقل طورپر غالب آجاتاہے جس سے انسا ن نراحیوان بن جاتاہے جسے آخرکاردوزخ کاایندھن بنناہوگایاپھرایساہوکہ نفس امارہ کونفس لوامہ رام کرلے اورنفس امارہ سے کہے کہ جناب ! تمام نعمتوں سے لطف اٹھائے لیکن تھوڑاساترتیب دے لیجئے،ہمارے ساتھ ساتھ چلئے،یوں ضمیرحیوان کورام کرلیتاہے اوران دونوں کے درمیان ایک صلح اورمعاہدہ ہو جاتا ہے اورپھراس کے نتیجے میں جواطمینان کی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے تواس کیفیت کے نتیجے میں دونوں نفس مل کرایک تیسری قسم کے نفس کاروپ دھارلیتے ہیں ،اس کو نَّفْسُ مُطْمَىِٕنَّةُ کہتے ہیں ،اورپھراطمینان سے منزل کی طرف رخ کیاجاتاہے اوروہ منزل اللہ کی ذات ہے۔[42]

جیسے فرمایا

یٰٓاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ۝۲۷ۤۖارْجِعِیْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۝۲۸ۚفَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۝۲۹ۙوَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۝۳۰ۧ [43]

ترجمہ:اے نفس مطمئن!چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو(اپنے انجام نیک سے) خوش (اوراپنے رب کے نزدیک)پسندیدہ ہے،شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اورداخل ہوجامیری جنت میں ۔

یعنی انسان کاسب سے بڑادشمن اس کااپنانفس ہی ہے جواسے نیکی سے روکتااور بدی،بے حیائی اوردیگر گناہوں پراکساتاہے ،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ میں یہ الفاظ شامل تھے

وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا

میں اپنے نفس کی شرارتوں سے اوراپنے اعملوں کے وبال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتاہوں ۔[44]

چنانچہ اسی نفس پرقابوپانے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک مہینہ کے روزے فرض کیے تاکہ انسان اپنے نفس پرقابوپانے کی طاقت حاصل کرلے ،مثلاًانسان روزے سے ہے اورافطارسے پہلےپیاس سے اس کابراحال ہے،اس کاحلق پیاس سے خشک ہوچکاہے، وہ سخت بھوکاہے اوربھوک سے اس کے پیٹ کابراحال ہے،اسے کوئی روکنے ٹوکنےوالانہیں مگروہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے نہ توپانی پیتاہے اوراپناپیٹ بھرنے کے لیےنہ ہی کھاناکھاتاہے کیونکہ اس کاایمان کہتاہے میرے رب نے مجھے روزے کی حالت میں پاکیزہ اورحلال چیزوں کوبھی کھانے اورپینے سے روکاہے جب اللہ کاحکم ہوگااوروقت افطارہوگاتومیں روزہ افطارکروں گا،وہ انسان اپنی آنکھوں کے سامنے برائی اوربے حیائی دیکھتاہے تو آنکھیں جھکالیتاہے کہ میرے رب نے مجھے برائی اوربے حیائی کودیکھنے سے منع فرمایاہے،اسی طرح اپنے ہاتھوں کوروکتاہے کہ اس سے کسی کونقصان نہ پہنچے،اپنی زبان کو قابومیں رکھتاہے کہ کوئی غلط لفظ اس سے نہ نکل جائے اورکانوں کی حفاظت کرتاہے کہ کوئی برائی کاکلمہ اس میں داخل نہ ہوچنانچہ ایک ماہ کی اس ریاضت میں انسان اپنے نفس پرقابوپانے کاکورس کرتاہےاورائندہ کے لئے اس راہ پرچلنے کی کوشش کرتاہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙوَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭ     [45]

ترجمہ: فلاح پاگیاوہ جس نے پاکیزگی اختیارکی(جنہوں نے اپنے نفس کواخلاق رزیلہ سے اوردلوں کوشرک ومعصیت کی آلودگیوں سے پاک کرلیا)اوراپنے رب کانام یاد رکھا اورپھرنمازپڑھتارہا۔

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى۝۴۰ۙفَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى۝۴۱ۭ        [46]

ترجمہ: اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کاخوف کیاتھااورنفس کوبری خواہشات سے بازرکھاتھا جنت اس کاٹھکاناہوگی۔

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِی بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِینٌ أَمِینٌ ‎﴿٥٤﴾‏ قَالَ اجْعَلْنِی عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ‎﴿٥٥﴾‏ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ ۚ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٥٦﴾‏ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِینَ آمَنُوا وَكَانُوا یَتَّقُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ (یوسف)
’’بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لیے مقرر کرلوں، پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں ذی عزت اور امانت دار ہیں (یوسف) نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں، اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے ، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں،ہم نیکوکاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے ، یقیناً ایمان داروں اور پرہیزگاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے۔‘‘

سچ کابول بالااورباطل سرنگوں ہوا،شاہ مصر(ریان بن ولید)پریوسف علیہ السلام کی کامل برات واضح ہوگئی ،وہ یوسف علیہ السلام کے پاکیزہ کرداراورذہانت سے بہت متاثرہوااورحکم جاری کیاکہ یوسف علیہ السلام کونہایت عزت واحترام کے ساتھ میرے پاس لے آؤ،ایسے نیک سیرت اورذہن وفطین شخص کومیں اپنے مقربین خاص میں شامل کرلوں گا ،شاہ مصرکافرمان یوسف علیہ السلام  علیہ السلام کوسنایاگیااورآپ کوزنداں سے رہا کر دیا گیا ،پھروہ بادشاہ کے پاس پہنچے ،جب بادشاہ نے یوسف علیہ السلام سے حکومت کے مختلف امورپر گفتگوکی توآپ کی ذہانت وفراست اورمعاملہ فہمی سے بہت متاثرہواجس سے ان کی وقعت اورزیادہ ہوگئی ااوراس نے بے ساختہ کہااب سے آپ ہمارے ہاں بڑی عزت ووقاررکھتے ہیں ہمیں آپکی امانت ودیانت پر مکمل بھروسہ واعتماد ہےاگرآپ چاہیں تو آپ کو رموزمملکت کا رازدان مقررکیاجاسکتاہے،جب بادشاہ نے عہدے کی پیشکش کی تو یوسف علیہ السلام نے مصلحت عامہ کی خاطربادشاہ سے مطالبہ کیاکہ مجھے ملک کے خزانہ کاقلمدان سپردکردیجئے تاکہ خواب کی روسے مستقبل قریب میں جوقحط سالی کے ایام آنے والے ہیں میں اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتظامات کر کے غیرضروری مصرف سے غلے کی معقول مقداربچاکررکھ سکوں میں اس کام کو بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے سکتاہوں ، بادشاہ نے یہ بات پسندکی اور یوسف علیہ السلام کو سلطنت مصرمیں مختارکل بنادیاگیااور ملک کا سیاہ وسپیدان کے اختیارمیں دے دیاگیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو مصر میں عزت ومنزلت اورقوت عطا کی اور آئندہ کے لئے اقتدارکی راہ ہموارکی،اب ساری مصرکی سرزمین ان کے زیر تسلط تھی ،اوران کوہمہ گیراقتدارحاصل تھاجہاں جوچاہتے کرسکتے تھے اورکسی گوشہ سے آپ کو روکا نہیں جا سکتا تھا،اللہ تعالیٰ نے ان کوایسی قدرت اورطاقت عطافرمائی کہ شاہ مصر بھی وہی کرتاجوآپ فرماتے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور نیکی وتقویٰ اورصبرکااجرہمارے ہاں مارانہیں جاتامگرکوئی شخص دنیاوی حکومت واقتدارکونیکی ونکوکاری کاصلہ اورحقیقی اجرمطلوب نہ سمجھ بیٹھے بلکہ خبردار رہے کہ اورآخرت کا اجر و ثواب ان لوگوں کے لئے زیادہ بہترہے جوایمان لے آئے اورتقویٰ کی روش اختیارکرے ،جیسے سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا

ھٰذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۳۹وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ۝۴۰ۧ [47]

ترجمہ:(ہم نے اس سے کہا)یہ ہماری بخشش ہے تجھے اختیارہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے کوئی حساب نہیں ،یقیناًاس کے لئے ہمارے ہاں تقرب کامقام اوربہترانجام ہے۔

وَجَاءَ إِخْوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِیكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْكَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ‎﴿٥٩﴾‏ فَإِن لَّمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِندِی وَلَا تَقْرَبُونِ ‎﴿٦٠﴾‏ قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ‎﴿٦١﴾‏ وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٦٢﴾‏(یوسف)
’’یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا، جب انہیں ان کا اسباب مہیا کردیا تو کہا کہ تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو تمہارے باپ سے ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں، پس اگر تم اسے لے کر نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی ناپ بھی نہ ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا، انہوں نے کہااچھا ہم اس کے باپ کو اس کی بابت پھسلائیں گے اور پوری کوشش کریں گے ،اپنے خدمت گاروں سے کہا کہ ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو کہ جب لوٹ کر اپنے اہل و عیال میں جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ پھر لوٹ کر آئیں۔‘‘

قحط سالی:

خوش حالی کے سات سالوں میں یوسف علیہ السلام نے غلے اوراناج کابہترین طورپرانتظام کیا،انہوں نے ان سالوں میں مصرکی تمام قابل کاشت زمین میں غلہ کاشت کردیا اوراس غلہ کوذخیرہ کرنے کے لئے بڑے بڑے گودام بنوائے ،خراج اورلگان میں بہت ساغلہ جمع کیااوراس کی حفاظت کابہترین انتظام کیا،اس کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اورشہروں کواپنی لپیٹ میں لے لیاحتی کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جاپہنچے ،یوسف علیہ السلام کی حسن تدبیروفراست سے مصرمیں غلے کی فراوانی تھی جس سے اردگردکے لوگ بھی مجبورہوکرغلہ لینے مصر چلے آتے تھے ،اس طرح یوسف علیہ السلام کے دس سوتیلے بھائی بھی باپ کے حکم پرپونجی لے کرغلہ حاصل کرنے کے لئے مصرپہنچ گئے اور غلہ کااجازت نامہ حاصل کرنے کے لئے دربار شاہی میں حاضرہوئے،ان لوگوں کے تووہم وگمان میں ہی نہیں تھا کہ جس بھائی کوانہوں نے کنوئیں میں پھینکا تھا وہ علیہ السلام مصر کا مختارمطلق ہوسکتاہے ،اورویسے بھی تقریباً بیس بائیس سال کے عرصہ میں شکل وصورت میں کافی تبدیلی آچکی تھی اس لئے وہ اپنے بھائی کونہ پہچان پائے مگریوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کوبہ یک نگاہ پہچان لیامگرکسی بناپران پرظاہرنہ ہونے دیااورانجان بن کراپنے بھائیوں سے ان کے گھرسے متعلق مختلف باتیں پوچھیں جوانہوں نے بتلا دیں ، پھر یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کی بڑی اچھی مہمان نوازی کی اورمقررہ ضابطہ کے مطابق ہرایک کوایک بارشترغلہ دے دیااوراپنے والداور بھائی کاحصہ بھی دے دیا، جب ان کا سامان اورغلہ اونٹوں پر لدوادیا تو چلتے وقت اپنے بھائیوں سے کہااس وقت توہم نے تمہاری زبان پراعتبارکرکے تمہیں پوراغلہ دے دیاہے ،پھرحاکمانہ دھمکی کے ساتھ کہا اگر تم اپنے بھائی کوساتھ نہ لاؤ گے توتمہارااعتبارجاتارہے گااورتمہیں ہمارے ہاں سے کوئی غلہ نہیں ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا، دیکھتے نہیں ہوکہ میں کس طرح پیمانہ بھرکردیتاہوں اورکیسا اچھا مہمان نواز ہوں ،بھائیوں نے کہا ہم کوشش کریں گے کہ والدصاحب ہمارے چھوٹے بھائی کوہمارے ساتھ بھیجنے پرراضی ہو جائیں اورہم اسے ضروریہاں پرلائیں گے،یوسف علیہ السلام نے اپنے چالاک کارندوں کو اشارہ کیا کہ ان لوگوں نے غلے کے عوض جومال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے کجاووں اوربوروں ہی میں رکھ دو ،یہ یوسف علیہ السلام نے اس امیدپرکیاکہ گھرپہنچ کر وہ اپناواپس پایاہوامال پہچان جائیں گے یااس فیاضی پراحسان مندہوں گے اورعجب نہیں کہ میرے بھائی کے ساتھ پھرپلٹیں اوراس سے ملاقات ہوجائے۔

فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَىٰ أَبِیهِمْ قَالُوا یَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‎﴿٦٣﴾‏قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَیْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِیهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَیْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ ۖ قَالُوا یَا أَبَانَا مَا نَبْغِی ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا ۖ وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَیْلَ بَعِیرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَیْلٌ یَسِیرٌ ‎﴿٦٥﴾(یوسف)
’’جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے تو غلہ کا ناپ روک لیا گیا، اب آپ ہمارے ساتھ بھائی کو بھیجئے کہ ہم پیمانہ بھر کر لائیں ہم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں،(یعقوب (علیہ السلام) نے) کہا مجھے تو اس کی بابت تمہارا بس ویسا ہی اعتبار ہےجیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا، بس اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے،جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو اپنا سرمایا موجود پایا جو ان کی جانب لوٹا دیا گیا تھا ،کہنے لگے اے ہمارے باپ! ہمیں اور کیا چاہیے دیکھئے تویہ ہمارا سرمایا بھی واپس لوٹا دیا گیا ہے، ہم اپنے خاندان کو رسد لا دیں گے اور اپنے بھائی کی نگرانی رکھیں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ زیادہ لائیں گے ،یہ ناپ تو بہت آسان ہے ۔‘‘

یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی مصرسے غلہ لے کرجب اپنے باپ کے پاس کنعان پہنچے اوریعقوب علیہ السلام کوساراماجراکہہ سنایاکہ کس طرح ان کی قدرومنزلت کی گئی تھی اورہماری زبان پراعتبارکرکے ہمیں آپ کا اور ہمارے بھائی کاحصہ بھی دے دیاگیامگراگرہم اپنے بھائی کے بغیر دوبارہ غلہ لینے وہاں جائیں گے توبے اعتباری کی وجہ سے ہمیں غلہ نہیں دیا جائے گا لہذاآپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ مصرجانے کی اجازت دے دیں تاکہ ہم دوبارہ غلہ لے کرآئیں اوربیٹوں نے دوبارہ وہی پرانی بات دہرائی کہ کسی ناخوشگوارصورت حال میں ہم اپنے چھوٹے بھائی کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں ،جس پریعقوب علیہ السلام نے جواب دیاکیامیں بنیامین کے معاملہ میں تم پرویساہی بھروسہ کروں جیسااس سے پہلے اس کے بھائی یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں تم پراعتبار کرچکا ہوں ؟مجھے توبس اللہ تعالیٰ پربھروسہ ہے سواللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے بڑھ کررحم فرمانے والا ہے،پھرجب بیٹوں نے اپناسامان اونٹوں سے اترواکر کھولاتودیکھاکہ ان کی پونجی بھی انہیں واپس کردی گئی ہے ،یہ دیکھ کرانہوں نے بھائی کوساتھ بھیجنے کے لئے ترغیب دیتے ہوئے باپ سے کہا اباجان !اس بہترین اکرام وتکریم کے بعدہمیں اور کیاچاہیے،جبکہ بادشاہ نے ہمیں اناج پورادیاہے اورنہایت خوبصورت طریقے سے ہمارامال بھی واپس لوٹادیاہے ،اب جبکہ ہمارے پاس پونجی بھی ہے توہم دوبارہ مصر جائیں گے اوراپنے اہل وعیال کے لئے رسدلے کرآئیں گے،اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور اپنے بھائی کاایک بارشتراورزیادہ بھی لے آئیں گےاتنے غلہ کااضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔

‏ قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِی بِهِ إِلَّا أَن یُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِیلٌ ‎﴿٦٦﴾‏ وَقَالَ یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِی عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَیْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ یُغْنِی عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَیْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ (یوسف)
’’ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول وقرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لیے جاؤ، جب انہوں نے پکا قول قرار دے دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے،اور (یعقوب علیہ السلام)) نے کہا اے میرے بچو ! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا ،حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے ،میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ، جب وہ انہی راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا گئے، کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کردی ہے وہ اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے، مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال( پیدا ہوا) جسے اس نے پورا کرلیا، بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘

آخرکارغلہ کی کمی اوربیٹوں کے اصرارپریعقوب علیہ السلام اس شرط پرراضی ہوگئے کہ سب بیٹے ان سے اللہ تعالیٰ کے نام پرپکاعہدکریں کہ وہ یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بنیامین کومصرسے ان کے پاس ضرورواپس لائیں گے ہاں اگرکوئی اجتماعی مصیبت پیش آجائے یاتم سب ہلاک یاگرفتارہوجاؤجس سے خلاصی پرتم قادرنہ ہوتواس صورت میں تم معذورتصورہو گے ، جب انہوں نے یعقوب علیہ السلام کواپنے عہدو پیمان دے دیے تو یعقوب نے کہادیکھوہمارے اس عہدوپیمان پراللہ نگہبان ہے،کنعان سلطنت مصرکی سرحدپرایک قبائلی علاقہ تھا، سیاسی حالات کی وجہ سے اہل مصراس علاقے کے لوگوں کوشک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،یعقوب علیہ السلام کے بیٹے قدوقامت اورشکل وصورت میں بڑے ہی دیدہ ور جوان تھے ، جب گیارہ بھائی اکٹھے سفرپرروانہ ہونے لگے تویعقوب علیہ السلام کوخطرہ محسوس ہواکہ اس قحط کے زمانے میں اگریہ لوگ ایک جتھے کی شکل میں مصرمیں داخل ہوئے توشایدانہیں مشتبہ سمجھا جائے اوریہ گمان کیاجائے کہ یہ یہاں لوٹ مارکی غرض سے داخل ہوئے ہیں اس لئے انہیں نصیحت کی کہ اے میرے بیٹو!جب تم مصرکے دارالسلطنت میں داخل ہونے لگنا تو شہرپناہ کے ایک دروازے سے اندرداخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہونا تاکہ تمہیں کوئی مشتبہ جتھانہ سمجھے ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَالضَّحَّاكُ، وَقَتَادَةُ، والسُّدِّی: إِنَّهُ خَشِیَ عَلَیْهِمُ الْعَیْنَ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا ذَوِی جَمَالٍ وَهَیْئَةٍ حَسَنَةٍ، وَمَنْظَرٍ وَبَهَاءٍ، فَخَشِیَ عَلَیْهِمْ أَنْ یُصِیبَهُمُ النَّاسُ بِعُیُونِهِمْ، فَإِنَّ الْعَیْنَ حَقٌّ تَسْتَنْزِلُ الْفَارِسَ عَنْ فَرَسِهِ

بعض مفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،محمدبن کعب،مجاہد رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ ،سدی رحمہ اللہ اوردیگرکئی ایک ائمہ تفسیرنے لکھاہےکہ آپ کایہ اقدام انہیں نظربدسے بچانے کے لیے تھااس وجہ سے کہ وہ سب کے سب بہت خوبصورت ،تندرست وتوانااورجوان رعناتھے،آپ نے خدشہ محسوس کیاکہ کہیں لوگ انہیں نظرہی نہ لگادیں کیونکہ نظربرحق ہے نظربدتو شہسوارکو گھوڑے سے نیچے گرادیتی ہے۔[48]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: العَیْنُ حَقٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانظرلگ جاناحق ہے۔[49]

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد سے بچنے کے لئے دعائیہ کلمات بتلائے ، فرمایاجب تمہیں کوئی چیزاچھی لگے تو بَارَكَ اللَّهُ کہو ۔[50]

جونظر لگائے اس کو کہاجائے کہ وہ غسل کرے اوراس کے غسل کایہ پانی اس شخص کے سراورجسم پرڈالاجائے جس کی نظرلگی ہو۔[51]

اسی طرح ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ پڑھناقرآن سے ثابت ہے

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ۔۔۔۝۰۝۳۹ۚ [52]

ترجمہ:اور جب تو اپنی جنت (باغ ) میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا ماشاء اللہ لاقوة الاباللہ؟۔

اسی طرح قل پڑھنا۔

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۝۱ۙمِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۝۲ۙ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۝۳ۙوَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ۝۴ۙوَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۝۵ۧ [53]

ترجمہ:کہو میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی ،ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے،اور رات کی تاریکی کے شر سے جبکہ وہ چھا جائے،اور گرہوں میں پُھونکنے والوں (یا والیوں ) کے شر سے (آفت سے )اور حاسد کے شر سے (آفت سے ) جب کہ وہ حسد کرے۔

 قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۝۱ۙمَلِكِ النَّاسِ۝۲ۙاِلٰهِ النَّاسِ۝۳ۙمِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ۝۰ۥۙ الْخَنَّاسِ۝۴۠ۙالَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۝۵ۙ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۝۶ۧ [54]

ترجمہ: کہو ، میں پناہ مانگتا ہوں ! انسانوں کے رب ، (لوگوں کے رب کی ! )،انسانوں کے بادشا ہ !انسانوں کے حقیقی معبود کی !جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا اِنسانوں میں سے۔ نظرکے لئے بطوردم پڑھنا چاہیے۔[55]

مگریہ میری ایک احتیاطی تدبیرہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوکچھ ہونے والاہے میں اس کوٹال نہیں سکتا، کائنات میں اس کے سواکسی کابھی حکم نہیں چلتا ، جب اسباب کو اختیار کرنے کی میں نے تمہیں وصیت کی ہے میں اس پر بھروسہ نہیں کرتابلکہ میں اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتاہوں اورجس کوبھی بھروسہ کرناہواسی پر کرے، بیٹوں نے والدمحترم کی نصیحت کے عین مطابق عمل کیا اور شہر پناہ کے ایک دروازے سے شہرمیں داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہوئے ، یعقوب علیہ السلام کے دل میں ایک کھٹکاتھاجس کو دورکرنے کی انہوں نے احتیاطی تدبیر کی لیکن یہ ضروری تونہیں کہ انسان کی اختیارکی ہوئی کسی تدبیر کی کامیابی یقینی ہوکیونکہ ہوتاوہی ہے جورب کی مرضی ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کوعلم سے بہت نوازا ہواتھا انہوں نے اس لئے نہ تدبیرکوچھوڑااورنہ ہی اپنی تدبیر پر بھروسہ کیامگراکثرنادان لوگ اس بات کو سمجھے بغیر اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرنے کے بجائے اپنی تدبیر پر بھروسہ کربیٹھتے ہیں اوراگراللہ تعالیٰ ان کوکامیابی سے ہمکنار کردے توپھر پھولے نہیں سماتے اوررب کو بھول کراپنی تدبیروں کاڈنکا بجانے لگتے ہیں اورکئی ایسے لوگ بھی ہیں جو محض تقدیرپربھروسہ کرکے ہاتھ پاؤں چھوڑبیٹھتے ہیں کہ جوتقدیرمیں لکھا ہے جب وہی ہوناہے تو خواہ مخواہ وسائل واسباب کوبروے کارلانے سے کیاحاصل ،یہ دونوں طریقے صحیح نہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ انسان کوکوشش ضرورکرنی چاہیے اورنتیجہ اللہ تعالیٰ پرچھوڑدینا چاہے ،مگر اکثر لوگ معاملات کے انجام اوراشیاء کی باریکیوں کونہیں جانتے ۔

‏ وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ یُوسُفَ آوَىٰ إِلَیْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٦٩﴾‏فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِی رَحْلِ أَخِیهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَیَّتُهَا الْعِیرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ ‎﴿٧١﴾‏ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ ‎﴿٧٢﴾(یوسف)
’’یہ سب جب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس یہ جو کچھ کرتے رہے اس کا کچھ رنج نہ کر ،پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ رکھ دیا، پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو ! تم لوگ تو چور ہو، انہوں نے ان کی طرف منہ پھیر کر کہا تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے ؟ جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا اس وعدے کا میں ضامن ہوں۔‘‘

سب بھائی جب یوسف علیہ السلام کے حضورپہنچے تویوسف علیہ السلام نے اپنے حقیقی بھائی کواپنے پاس الگ بلالیااورخلوت میں اسے بتادیاکہ میں تیرا کھویاہواحقیقی بھائی یوسف علیہ السلام ہوں اور حقیقت حال سے آگاہ کردیا کہ کس طرح سوتیلے بھائیوں نے انہیں کنوئیں میں ڈالااورپھران کے ساتھ کیاکیابیتی ،بنیامن نے بھی سوتیلے بھائیوں کااپنے ساتھ بدسلوکیوں کا ذکر کیا ، یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے کہاجوکچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں اب توان باتوں کاغم نہ کراب تم میرے ساتھ ہی رہوگے ،میں ان ظالموں کے پنجے میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا،چنانچہ یوسف علیہ السلام نے اپنے حقیقی بھائی کواپنے پاس رکھنے کے لئے ایک تدبیرکی جب یوسف علیہ السلام ان بھائیوں کاسامان اونٹوں یاگدھوں یاخچروں پر لدوانے لگا تو انہوں نے ہوشیاری سے سونے یاچاندی کاشاہی پیالہ جس سے پیمانے کابھی کام لیا جاتاتھا اپنے حقیقی بھائی بنیامن کے سامان میں رکھ دیاپھرانہیں کوچ کرنے کی اجازت دے دی،جب وہ ابھی کچھ ہی دورگئے تھے کہ دروغہ پولیس نے پکارکرکہااے قافلے والو!روک جاؤتم لوگ چورہو،یہ سن کربھائیوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے حیرانی سے پلٹ کر پوچھاہم نے تمہاری کیا چیزچرائی ہے جوتم ہمیں چور کہہ رہے ہو؟دروغہ پولیس نے کہابادشاہ کاپیمانہ ہم کونہیں ملتا اور کہاکہ میں اس بات کی ضمانت دیتاہوں  کہ تفشیش سے قبل ہی جوشخص یہ شاہی پیالہ ہمارے حوالے کردے گااس کوایک بارشترانعام دیاجائے گا۔

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِینَ ‎﴿٧٤﴾‏ قَالُوا جَزَاؤُهُ مَن وُجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِیهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِیُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ ‎﴿٧٦﴾‏ (یوسف)
’’انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! تم کو خوب علم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے کے لیے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں، انہوں نے کہا اچھا چور کی کیا سزا اگر تم جھوٹے ہو ؟ جواب دیا اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے وہی اس کا بدلہ ہے ،ہم تو ایسے ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں، پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا، ہم نے یوسف کے لیے اسی طرح یہ تدبیر کی ،اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو، ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیں، ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے۔‘‘

یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی منصوبہ سے لاعلم تھے اس لئے انہوں اللہ کی قسم کھاکرکہاتم لوگ خوب جانتے ہوکہ ہم اس ملک میں اناج لینے آئے ہیں فسادپھیلانے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے حرام خور لوگ نہیں ہیں ،دروغہ پولیس نے خلاف معمول ان مشتبہ لوگوں سے کہاٹھیک ہے ہم تمہاری زبان کایقین کرلیتے ہیں کہ تم چورنہیں ہولیکن اگر تلاشی میں پیالہ تم لوگوں سے برآمدہوگیا توتمہارے ہاں چورکی کیا سزامقررہے؟انہوں نے کہاہمارے ہاں توایسے ظالموں کوسزادینے کایہ طریقہ ہے کہ جس کے پاس سے چوری کی چیزنکلے اسے سزاکے طورپراس شخص کے حوالے کر دیا جاتا ہے ،جب چورکی سزامتعین ہوگئی تودروغہ انہیں یوسف علیہ السلام کے پاس لے آیا یوسف علیہ السلام نے شک وشبہ سے بچنے کے لئے اپنے حقیقی بھائی کی تلاشی سے پہلے سوتیلے بھائیوں کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی پھر آخر میں اپنے حقیقی بھائی کی خرجی سے گم شدہ پیالہ برآمدکرلیا،اس طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کی تائیداپنی تدبیرسے کی ،کیونکہ مصرمیں جوقانون اوردستوررائج تھااس کی روسے بنیامن کواس طرح روکنا ممکن نہ تھا،ہم جس کا چاہتے ہیں علم نافع اوراس راستے کی معرفت عطاکرکے بلندمرتبہ عطاکر دیتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۔۔۔ ۝۱۱ [56]

ترجمہ:اور جن کو علم بخشا گیا ہےاللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا۔

اورایک علم رکھنے والاایساہے جوہرصاحب علم سے بالاترہے۔

قَالُوا إِن یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ‎﴿٧٧﴾‏ قَالُوا یَا أَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَیْخًا كَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٧٨﴾‏قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ‎﴿٧٩﴾(یوسف)
’’انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) اس کا بھائی بھی پہلے چوری کرچکا ہے، یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا، کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، انہوں نے کہا اے عزیز مصر ! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں ،آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں ،یوسف (علیہ السلام) نے کہا ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ایسا کرنے سے تو ہم یقیناً ناانصافی کرنے والے ہوجائیں گے ۔‘‘

ان بھائیوں نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے یوسف علیہ السلام اوران کے بھائی کوکمزورکرداراور خودکونہایت بااخلاق اورباکردارباورکرانے کے لئے کہاہمارایہ بھائی چوری کرے تو کچھ انوکھی کی بات بھی نہیں اس سے پہلے اس کابڑابھائی یوسف علیہ السلام بھی چوری کرچکاہے،یوسف علیہ السلام ان کی یہ کذب بیانی سن کراپنے غصے کو ضبط کر گئے اوران پرحقیقت نہ کھولی کہ جس پرتم تہمت لگا رہے ہووہ تمہارے سامنے ایک باوقارحیثیت سے کھڑاہے بس زیرلب اتناکہہ کررہ گیاکہ بڑے ہی برے ہوتم لوگ میرے منہ درمنہ مجھ پرجوالزام تم لگارہے ہو ہم اس بہتان سے بری ہیں اوراللہ تعالیٰ اس حقیقت کو خوب جانتاہے،جب اپنے اقرارکے مطابق بنیامن شاہی قیدی بن چکے توبھائیوں نے کہااے سردارذی اقتدار!اس لڑکے کاباپ بہت بوڑھاآدمی ہے اوراس سے بہت محبت رکھتے ہیں وہ اس کونہیں دیکھیں گے توانہیں بہت صدمہ ہوگا اوراس کی جدائی برداشت نہیں کرسکیں گے اس لئے اس لڑکے کوچھوڑکراس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کورکھ لیجئے،اور ہم پراورہمارے باپ پراحسان فرمائیں ہم آپ کوبڑاہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ،یوسف علیہ السلام کااصل مقصد تو اپنے حقیقی بھائی کواپنے پاس روکناتھااس لئے اپنے بھائی کوچورکہنے کے بجائے انہوں نے کہاپناہ بخدا! دوسرے کسی بے گناہ شخص کوہم کیسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جس کے پاس ہم نے اپنامال پایاہے اس کوچھوڑکر اگر کسی دوسرے بے گناہ کواس کی جگہ رکھیں گے جوسزاکامستحق نہیں توہم بڑے ظالم ہوں گے ۔

‏ فَلَمَّا اسْتَیْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا ۖ قَالَ كَبِیرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْكُمَ اللَّهُ لِی ۖ وَهُوَ خَیْرُ الْحَاكِمِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِیكُمْ فَقُولُوا یَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ ‎﴿٨١﴾‏ وَاسْأَلِ الْقَرْیَةَ الَّتِی كُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ‎﴿٨٢﴾(یوسف)
 ’’جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے، ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کرچکے ہو،پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ ابا جی ! آپ کے صاحب زادے نے چوری کی اور ہم نے وہی گواہی دی تھی جو ہم جانتے تھے، ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے ، آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھےاور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں ۔‘‘

جب وہ یوسف علیہ السلام کے صاف جواب سے مایوس ہوگئے توشش وپنج میں پڑگئے اورایک گوشے میں جاکرسرگوشیوں میں باہم صلاح مشورہ کرنے لگے کہ اب اس کٹھن مرحلے میں وہ کیاکریں ،ان میں جو سب سے بڑاتھاوہ بولاتم خوب جانتے ہو کہ تمہارے والدبنیامین کی حفاظت کرنے اوربخیروعافیت ساتھ لانے کے لئے ہم سے اللہ کے نام پرمضبوط عہدو پیمان لے چکے ہیں اوراس سے پہلے اس کے بڑے بھائی یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں جوکوتاہی تم کرچکے ہووہ بھی تم کومعلوم ہے ،میں تواپنے باپ کومنہ دکھلانے کی اپنے اندر سکت اورہمت نہیں رکھتا اس لئے میں تواس سرزمین سے ہرگزنہ جاؤں گاجب تک کہ میرے والدتفشیش کرکے مجھے بے گناہ سمجھ کرواپس آنے کی اجازت نہ دیں یاپھر عزیز مصر بنیامن کوچھوڑکرمیرے ساتھ جانے کی اجازت نہ دے دے یااللہ مجھے اتنی قوت وطاقت عطافرمادے کہ میں تلوارکے زورپراسے چھڑواکرساتھ لے جاؤں اللہ ہی سب سے بہترفیصلہ کرنے والاہے،اوراپنے بھائیوں کووصیت کی کہ کہ تم سب جاکراپنے والد سے سچ سچ واقعہ بیان کر دو کہ اباجان!آپ کے بیٹے نے عزیز مصر کاپیالہ چوری کیا ہے، ہم نے اپنی آنکھوں سے اسے چوری کرتے ہوئے تو نہیں دیکھامگرتلاشی لینے پرچوری کامال اس کی خرجی سے برآمدہوگیاتھااس لئے ہماری اقراردارکے مطابق بنیامن کوچوری کے بدلے میں روک لیا گیا ہے، جوکچھ ہمیں معلوم ہواہے بس وہی ہم بیان کررہے ہیں اورمستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بے خبرتھے ،اگرآپ کو ہماری بات میں کوئی شک وشبہ ہے توہمارے اس بیان کی صداقت کے لئے آپ مصر جا کر وہاں کے لوگوں سے پوچھ لیجئے اور اہل قافلہ سے بھی ہمارے بیان کی تصدیق کرسکتے ہیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ،ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں اس میں جھوٹ کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِیلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَكِیمُ ‎﴿٨٣﴾‏ وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ یَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیمٌ ‎﴿٨٤﴾‏ قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ یُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٨٦﴾‏(یوسف)
’’(یعقوب علیہ السلام) نے کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی پس اب صبر ہی بہتر ہے،قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے، وہی علم و حکمت والا ہے، پھر ان سے منہ پھیرلیا اور کہا ہائے یوسف ! ان کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوچکی تھیں اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے، بیٹوں نے کہا واللہ ! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد ہی میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل جائیں یا ختم ہی ہوجائیں ،انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں ،مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے ۔‘‘

مگریعقوب علیہ السلام نے ساراقصہ سن کریقین ہی نہیں کیااورکہادراصل تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک اوربڑی بات کوسہل بنادیا،جس طرح میں نے پہلے یوسف علیہ السلام کے معاملے میں صبرسے کام لیاہے اب بھی میں اس المناک واقعہ پربھی صبرجمیل کروں گا ،

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: لَمَّا جَاءُوا بِذَلِكَ إِلَى یَعْقُوبَ، یَعْنِی بِقَوْلِ رُوبِیلَ لَهُمُ اتَّهَمَهُمْ،وَظَنَّ أَنَّ ذَلِكَ كَفِعْلَتِهِمْ بِیُوسُفَ، ثُمَّ قَالَ: {بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا، فَصَبْرٌ جَمِیلٌ، عَسَى اللَّهُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا

محمدبن اسحاق نے لکھاہے یہ لوگ جب یعقوب علیہ السلام کے پاس واپس آئے اورانہوں نے انہیں ساری صورت حال بتلائی توانہوں نے انہی کوموردالزام ٹھیرایااورگمان یہ کیاکہ انہوں نے بنیامین کے ساتھ بھی اسی طرح کیاہے جس طرح اس سے پہلے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیاتھا’’پھرفرمایا یہ تو نہیں بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی پس اب صبر ہی بہتر ہے،قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے۔‘‘ [57]

میں اپنے رب سے پرامیدہوں کہ وہ میرے دونوں بیٹوں کودوبارہ مجھ سے ملائے گا،وہ علام الغیوب ہے اورآسمان وزمین کی ہرچیزکو جانتاہے اوراس کے تمام افعال اورقضاوقدرکے فیصلے حکمت پرمبنی ہوتے ہیں ،پھروہ بیٹوں کی طرف سے منہ پھیرکربیٹھ گیااورچہیتے بیٹے کویادکرکے کہنے لگاکہ ہائے یوسف علیہ السلام !اور دل ہی دل میں وہ رنج وغم اورکرب سے گھٹا جارہاتھااوربیٹے کے فراق میں روتے روتے اس کی آنکھیں سفیدپڑگئی تھیں ،یوسف علیہ السلام کے ذکرسے بھائیوں کی آتش حسدپھربھڑک اٹھی اورانہوں نے کہا اباجان خدارا!اب بس بھی کیجئے آپ توہروقت بس یوسف علیہ السلام ہی کویادکرتے رہتے ہیں اور نوبت یہ آگئی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے غم میں اپنے آپ کوگھلادیں گے یااپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے،یعقوب علیہ السلام نے کہامیں اپنے حزن وغم کاشکوہ تمہارے یاکسی اورکے پاس نہیں کرتابلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس کرتا ہوں اورمیں جانتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرورانہیں میرے پاس لوٹائے گااوران سب کومیرے پاس اکٹھاکرکے میری آنکھیں ٹھنڈی فرمائے گا ۔

یَا بَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلَا تَیْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَا أَیُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ ‎﴿٨٨﴾‏ قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِیُوسُفَ وَأَخِیهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ ‎﴿٨٩﴾‏ قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ یُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِی ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْنَا ۖ إِنَّهُ مَن یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٩٠﴾‏(یوسف)
’’میرے پیارے بچو ! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو،یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں، پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز ! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے، ہم حقیر پونجی لائے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلے کا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے ،اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے، یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا ؟ انہوں نے کہا کیا (واقعی) تو ہی یوسف (علیہ السلام) ہے، جواب دیا کہ ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر فضل و کرم کیا ،بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔‘‘

پھرفرمایااے میرے بیٹو!مصرجاکریوسف علیہ السلام اوراس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ،اللہ کے رحم وکرم سے مایوس نہ ہویہ مسلمانوں کاشیوہ نہیں ،اللہ کی بے پایاں رحمت سے توبس کافرومشرک ہی نا امید ہواکرتے ہیں ،جیسے ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاتھا

قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶            [58]

ترجمہ:ابراہیم نے کہا ” اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ۔

یعقوب علیہ السلام کی کیفیت اورنصیحت سن کربیٹے تیسری مرتبہ مصرگئے اوریوسف علیہ السلام کے دربارمیں حاضرہوکرگزارش کی کہ اے سرداربااقتدار!ہم اورہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلاہیں ہم کچھ قلیل و حقیر سی پونجی لے کرآئے ہیں مگرآپ ہماری اس پونجی کونہ دیکھیں بلکہ آپ ہم پراحسان کریں اور صدقہ میں ہمیں بھرپورغلہ عنایت فرمائیں جوہماری ضروریات کے لئے کافی ہو،اللہ صدقہ و خیرات دینے والوں کودنیاوآخرت میں اجرعظیم عنایت فرماتاہے،بھائیوں کی اس طرح کی عاجزانہ گزارش سن کر یوسف علیہ السلام کادل بھر آیا اورآنکھیں نمناک ہوگئیں اورانکشاف حال پرمجبورہوکر کہاتمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ اپنی جہالت وناسمجھی میں تم نے یوسف علیہ السلام اوراس کے بھائی کے ساتھ کیا کیاتھا؟یہ سن کروہ ہک دک رہ گئے اور چونک کربولےہائیں !کیاتم یوسف  علیہ السلام ہو، اس نے کہاہاں میں یوسف علیہ السلام ہوں اوربنیامین کی طرف اشارہ کرکے فرمانے لگےیہ میراحقیقی بھائی ہے،اللہ نے ہمیں ایمان ، تقویٰ اور زمین میں اقتدار عطاکرکے ہم پر احسان فرمایا ، جو کوئی رب سے ڈرکرزندگی گزارے،اس کے احکام کی تعمیل کرے اورآلام ومصائب میں رب کے لئے صبرکرے توقدردان رب کے ہاں اس کے بڑے مرتبے ہیں ،اللہ کے ہاں ایسے نیکوکاروں کا اجر وثواب مارانہیں جاتا،اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال حسنہ کوضائع نہیں کرتا۔

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَیْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِینَ ‎﴿٩١﴾‏ قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ ۖ یَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿٩٢﴾‏ اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِی یَأْتِ بَصِیرًا وَأْتُونِی بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٩٣﴾‏ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ ‎﴿٩٤﴾‏ قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِی ضَلَالِكَ الْقَدِیمِ ‎﴿٩٥﴾‏(یوسف)
’’ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے، جواب دیا آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، اللہ تمہیں بخشےوہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے،میرا یہ کرتا تم لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منہ پر ڈال دو کہ وہ دیکھنے لگیں، اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لے آؤ، جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو ،وہ کہنے لگے کہ واللہ آپ اپنے اسی پرانے خبط میں مبتلا ہیں۔‘‘

علم غیب کامنبع ذات الٰہی ہے :

بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کی فضیلت وبزرگی اوراپنی غلطی وکوتاہی کااعتراف کرتے ہو کہابخدااللہ نے تم کوصورت وکردار ،ملک ومال اورنبوت عطاکرکے ہم پرفضیلت بخشی اور جو کچھ ہم نے کیااس میں واقعی ہم خطاکارتھے ،یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے گزشتہ جرائم پرعاردلائے بغیر پیغمبرانہ جودوکرم سے کام لیتے ہوئے فرمایاجوکچھ تم نےکیا سو کیا ، تم پر اس کا کوئی مواخذہ اورملامت نہیں میری دعاہے کہ جو کچھ تم نے کیااللہ اس کی پردہ پوشی کرے اور تمہاری لغزشوں کو معاف کرے وہ سب سے بڑھ کررحم فرمانے والا ہے، یہی الفاظ

 لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ

آج تم پرکوئی گرفت نہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر خون کے پیاسے قریش سے فرمائے تھے ، یوسف علیہ السلام نے حکم فرمایامیرایہ قمیص اپنے ساتھ لے کرکنعان واپس جاؤ،وہاں اس قمیص کو میرے والد کے منہ پرڈال دینااللہ کے حکم سے ان کی بینائی پلٹ آئے گی،پھر اپنے سب اہل وعیال کومیرے پاس مصرمیں لے آؤ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ جب یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو اللہ نے یوسف علیہ السلام کی خوشبوسینکڑوں میل دورسے کنعان میں یعقوب علیہ السلام تک پہنچا دی ، یعقوب علیہ السلام نے اپنے اہل وعیال سے کہاتم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگوکہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں مگرحقیقت یہ ہے کہ میں یوسف علیہ السلام کی خوشبومحسوس کررہاہوں ،

قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , یَقُولُ: {وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ} قَالَ: لَمَّا خَرَجَتِ الْعِیرُ هَاجَتْ رِیحٌ , فَجَاءَتْ یَعْقُوبَ بِرِیحِ قَمِیصِ یُوسُفَ ، فَقَالَ: {إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ}یَقُولُ: تُسَفِّهُونِ ، قَالَ: فَوَجَدَ رِیحَهُ مِنْ مَسِیرَةِ ثَمَانِیَةِ أَیَّامٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت ’’جب یہ قافلہ(مصر سے) روانہ ہوا۔‘‘کے بارے میں روایت ہے جب قافلہ روانہ ہواتوہواچل پڑی اوراس ہوانے یعقوب علیہ السلام تک یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبوکوپہنچادیاتو ان کے باپ نے (کنعان میں ) کہا’’ میں یوسف علیہ السلام کی خوشبومحسوس کررہاہوں تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگوکہ میں بڑھاپے میں سٹھیاگیاہوں ۔‘‘اوراس طرح انہوں نے آٹھ دن کی مسافت سے یوسف علیہ السلام کی خوشبوکومحسوس کر لیا ۔[59]

گھرکے ناقدرشناس افراد بولے ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم!اتناطویل عرصہ گزرنے کے باوجودآپ ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں حالاں کہ یوسف علیہ السلام کوتو بھیڑیا کھا چکا ہے ، اہل وعیال کی دل آزارباتیں سن کریعقوب علیہ السلام خاموش ہو گئے ۔

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّی أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ قَالُوا یَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِینَ ‎﴿٩٧﴾‏ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّی ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿٩٨﴾(یوسف)
’’جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا اسی وقت وہ پھر بینا ہوگئے، کہا ! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے، انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لیے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں، کہا اچھا میں جلد ہی تمہارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا، وہ بہت بڑا بخشنے والا اور نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

مصرسے جب بیٹوں کاقافلہ خوشخبری لے کرکنعان پہنچا توانہوں نے یوسف علیہ السلام کاقمیص یعقوب علیہ السلام کے منہ پرڈال دیاتومعجزانہ طور یعقوب علیہ السلام کی بنیائی عودکرآئی،یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمت پرخوش ہوکر فرمایا میں تم سے کہتانہیں رہاہوں کہ میں اللہ کارسول ہوں اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتاہوں جوتم نہیں جانتے ،سب بیٹوں نے اپنے گناہ کااقرارکرتے ہوئے کہا اباجان! واقعی ہم بہک گئے تھے، آپ رب سے ہمارے گناہوں کی بخشش ومغفرت کی دعافرمائیں ، یعقوب علیہ السلام نے فرمایابیشک میں رب سے تمہاری بخشش ومغفرت کی دعاکروں گاوہ تو غفورورحیم ہے اگرکوئی شخص اپنے گناہوں پرنادم ہوکراس کی طرف رجوع کرے تووہ پکڑنے کے بجائے بخش دینے کوپسندکرتاہے ۔

قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّهُ أَخَّرَ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى السَّحَرِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،ابراہیم تمیی،عمروبن قیس اورابن جریج وغیرہ نے کہاہےآپ نے سحری کے وقت تک ان کے لیے دعاکوموخرکردیاتھا۔[60]

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ یُوسُفَ آوَىٰ إِلَیْهِ أَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِینَ ‎﴿٩٩﴾‏ وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ یَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ۚ إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِّمَا یَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَكِیمُ ‎﴿١٠٠﴾‏ ۞ رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِی مِن تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ‎﴿١٠١﴾(یوسف)
’’جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ، اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدے میں گرگئے، تب کہا ابا جی ! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہےمیرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا ،میرا رب جو چاہے اس کے لیے بہترین تدبیر کرنے والا ہے، اور وہ بہت علم و حکمت والا ہے،اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے۔‘‘

سب اہل وعیال میں یوسف علیہ السلام کے زندہ سلامت اورصاحب اقتدارہونے کی خبرسن کرخوشی کی لہردوڑگئی اورسب یوسف علیہ السلام کے کہنے کے مطابق کنعان سے مصرروانہ ہوگئے ،جب یعقوب علیہ السلام اپنے تمام اہل اعیال کے ہمراہ مصر پہنچے تویوسف علیہ السلام نے امیرامرااورارکان دولت کے ہمراہ شہرسے باہرنکل کران کاپرجوش استقبال کیااورپورے تزک واحتشام کے ساتھ ان کوشہرمیں لائے اورکہا إِنْ شَاءِ اللَّه اب کوئی تکلیف وپریشانی نہیں ہوگی اورامن وچین سے زندگی بسرہوگی ،پھروہ انہیں اپنے محل میں لے گئے اوراپنے تخت شاہی پر اپنے والدین کوتعظیم وتکریم کے ساتھ اپنے ہمراہ جگہ دی توسب کے سب بھائی بے اختیاراس کے آگے تعظیمی طورپر سرنگوں ہو گئے،

وَقَدْ كَانَ هَذَا سَائِغًا فِی شَرَائِعِهِمْ إِذَا سلَّموا عَلَى الْكَبِیرِ یَسْجُدُونَ لَهُ، وَلَمْ یَزَلْ هَذَا جَائِزًا مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى شَرِیعَةِ عِیسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، فَحُرِّمَ هَذَا فِی هَذِهِ الْمِلَّةِ، وجُعل السُّجُودُ مُخْتَصًّا بِجَنَابِ الرَّبِّ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى،هَذَا مَضْمُونُ قَوْلِ قَتَادَةَ وَغَیْرِهِ

ان کی شریعت میں یہ بات جائزتھی کہ جب وہ کسی بڑے انسان کوسلام کرتے تواس کے لیے سجدہ تعظیمی بجالاتے تھے، آدم علیہ السلام سے لے کرعیسیٰ علیہ السلام کی شریعت تک یہ جائزتھالیکن ہماری شریعت میں اسے حرام قراردے دیاگیاہے اورسجدے کوصرف اورصرف رب سبحانہ وتعالیٰ کی ذات گرامی کے لیے خاص قراردے دیاگیاہے،امام قتادہ رحمہ اللہ اوردیگرائمہ تفسیر رحمہ اللہ کے اقوال کابھی یہی خلاصہ ہے۔[61]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى، قَالَ:أَنَّ مُعَاذًا قَدِمَ الشَّامَ، فَوَجَدَهُمْ یَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ، فَلَمَّا رَجَعَ سَجَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ:مَا هَذَا یَا مُعَاذُ؟ فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُهُمْ یَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ یُسْجَدَ لَكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الزَّوْجَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَامِنْ عِظم حَقِّهِ عَلَیْهَا

عبداللہ بن ابواوفی سے مروی ہے معاذ رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے توانہوں نے دیکھاکہ وہاں کے لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کوسجدہ کرتے ہیں جب وہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسجدہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے معاذ رضی اللہ عنہ !یہ کیاہے؟انہوں نے عرض کی میں نے شام کے لوگوں کودیکھاکہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں کوسجدہ کرتے ہیں توآپ اس بات کے زیادہ حق دارہیں کہ آپ کوسجدہ کیاجائے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں کسی کویہ حکم دیتاکہ وہ کسی دوسرے انسان کوسجدہ کرے تومیں بیوی کو حکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کیاکرےکیونکہ شوہرکااپنی بیوی پربہت زیادہ حق ہے۔[62]

یوسف علیہ السلام نے یعقوب علیہ السلام کی طرف ہوکر کہااباجان!یہ تعبیرہے میرے اس خواب کی جومیں نے بچپن میں دیکھاتھااورآپ کوگوش گزار کیا تھا، میرے رب نے اس خواب کو حقیقت بنادیاہے ،اللہ قادرمطلق کااحسان عظیم ہے کہ اس نے مجھے ایسی قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں زنداں میں سڑنے کے بجائے آج دنیاکی سب سے بڑی سلطنت پرفرماں روائی کررہاہوں ، اورآپ لوگوں کو کنعان کے صحراسے لا کرمجھ سے ملادیا حالاں کہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان بغض وحسد کا فساد کھڑا کر چکاتھاجس کی وجہ سے ایسے حالات پیداہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ شیطان کی تدبیروں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ کی قدرت ہرچیزپرحاوی ہے ، اس کی مشیت وحکمت سے وہی ہوتاہے جووہ چاہتاہے ، بیشک وہ علیم اورحکیم ہے،پھراللہ تعالیٰ کی نعمت کااقرارکرتے ہوئے دعافرمائی اے میرے رب!تونے مجھے ملک مصرکی فرمانروائی عطافرمائی اورمجھ کو آسمانی کتابوں کی تفسیراورخوابوں کی تعبیرکاعلم عطاکیا زمین وآسمان کے بنانے والے توہی دنیااور آخرت میں میراسرپرست ہے، میراخاتمہ اسلام پرکراورانجام کارمجھے صالحین کے ساتھ ملا۔

‏ ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْكُرُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٠٣﴾‏وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِینَ ‎﴿١٠٤﴾‏ وَكَأَیِّن مِّنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ ‎﴿١٠٥﴾‏ وَمَا یُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ‎﴿١٠٦﴾‏ أَفَأَمِنُوا أَن تَأْتِیَهُمْ غَاشِیَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿١٠٧﴾‏ قُلْ هَٰذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏ (یوسف)
’’ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں،آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے، گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایماندار نہ ہیں نہ ہوں گے ،آپ ان سے اس پر کوئی اجرت طلب نہیں کر رہے ہیں یہ تو تمام دنیا کے لیے نری نصیحت ہی نصیحت ہے، آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیںجن سے یہ منہ موڑے گزر جاتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ،کیا وہ اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے عذابوں میں سے کوئی عام عذاب آجائے یا ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے اور وہ بے خبری میں ہوں، آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے، میں اورمیرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔‘‘

اہل مکہ مکرمہ کوان کے سوال کاجواب دے کرمطمئن کرادیااورپھرتدبرکی دعوت دی فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یوسف علیہ السلام کایہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جوہم تم پروحی کررہے ہیں ورنہ تم اس وقت موجودنہ تھے جب یوسف کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے باپ بیٹے کوجداکرنے کی سازش کی تھی ،جیسے ایک اورمقام پراحوال غیب کے بارے میں فرمایا

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْكَ۝۰ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۝۰۠ وَمَا كُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ۝۴۴ [63]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھےاور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ۝۴۴ۙوَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ۝۰ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا۝۰ۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ۝۴۵وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۝۴۶     [64]

ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)تم اس وقت مغربی گوشے میں موجودنہ تھے جب ہم نے موسیٰ کویہ فرمان شریعت عطاکیااورنہ تم شاہدین میں شامل تھے ،بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک)ہم بہت سی نسلیں اٹھاچکے ہیں اوران پربہت زمانہ گزرچکاہے،تم اہل مدین کے درمیان بھی موجودنہ تھے کہ ان کوہماری آیات سنارہے ہوتے ،مگر (اس وقت کی یہ خبریں )بھیجنے والے ہم ہیں ،اورتم طورکے دامن میں بھی اس وقت موجودنہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کوپہلی مرتبہ)پکاراتھامگریہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کویہ معلومات دی جارہی ہیں )تاکہ تم ان لوگوں کومتنبہ کروجن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والانہیں آیا،شایدکہ وہ ہوش میں آئیں ۔

مگرتم خواہ کتنے ہی دلائل وبراہین پیش کروان میں سے اکثر لوگ مان کردینے والے نہیں ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً۝۰ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۸ [65]

ترجمہ:یقینا اس میں ایک نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔

حالانکہ تم اس خدمت پران سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہوجس سے ان کوشبہ ہوکہ یہ دعویٰ نبوت توصرف مال جمع کرنے کاایک بہانہ ہے ، یہ دعوت یہ تو دنیا کے تمام لوگوں کے لئے ایک عام نصیحت ہے تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کرکے دنیا وآخرت سنوارلیں ،لوگوں کی غفلت کاذکرکرتے ہوئے فرمایااورزمین اورآسمانوں میں اللہ کی وحدانیت کی کتنی ہی نشانیاں ہیں جواس بات پردلالت کرتی ہیں کہ اس عظیم الشان کائنات کا خالق وصانع ایک ہی ہے، جس نے ان چیزوں کووجودبخشاہے اوران کورزق بہم پہنچا رہا ہے، ایک ہی مدبر ہے جواس کائنات کاایساانتظام کررہاہے کہ صدیوں پرمحیط اس نظام میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے ،لیکن ان لوگوں کی غفلت کایہ حال ہے کہ اللہ کی ہرسو بکھری نشانیوں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے یوں ہی گزرجاتے اور حقیقت جاننے کی جستجونہیں کرتے ،ان لوگوں کی ذہنیت اس قدربگڑچکی ہے کہ ان میں سے اکثراللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ،وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آسمان وزمین کا خالق،مالک،رزاق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس کے باوجوداس کی لاچاراورمحتاج مخلوق کو اس کی ذات ، صفات ،اختیارات اورحقوق میں شریک ٹھیراتے ہیں ، یعنی توحیدربوبیت کے توقائل ہیں لیکن توحیدالوہیت کوتسلیم کرنے کوتیارنہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{وَمَا یُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ} الْآیَةَ، قَالَ: مِنْ إِیمَانِهِمْ إِذَا قِیلَ لَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟وَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ وَمَنْ خَلَقَ الْجِبَالَ؟ قَالُوا: اللَّهُ،وَهُمْ مُشْرِكُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں ان کا ایمان یہ ہے کہ جب ان سے پوچھاجاتاہے کہ آسمانوں کوکس نے پیداکیا؟ زمین کوکس نے پیداکیا؟پہاڑوں کوکس نے پیدا کیا؟ توجواب دیتے ہیں کہ اللہ نے پیداکیاہےاس کے باوجوداللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔ [66]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وَهُوَ خَلَقَكَ، قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِیمٌ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ:ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ یَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَةِ جَارِكَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑاگناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ حالاں کہ اسی نے تمہیں پیداکیاہے، میں نے کہایہ توبہت بڑاگناہ ہے،میں نے عرض کیا پھر کونسا؟فرمایایہ کہ تم اپنے بچے کواس خطرہ کی وجہ سے قتل کردوکہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا،میں نے عرض کیاپھرکونسا؟فرمایایہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زناکرو۔[67]

عَنْ عُرْوَة قَالَ: دَخَلَ حُذَیْفَةُ عَلَى مَرِیضٍ، فَرَأَى فِی عَضُدِهِ سَیْرًا فَقَطَعَهُ -أَوِ: انْتَزَعَهُ -ثُمَّ قَالَ: {وَمَا یُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ

عروہ سے مروی ہے حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمارکی عیادت کے لئے گئے دیکھاکہ اس کے بازوپرایک دھاگابندھاہواہے ،یہ دیکھ کرآپ رضی اللہ عنہ نے اس دھاگے کوتوڑ دیا اورپھر یہی آیت پڑھی  ’’ان میں سے اکثراللہ کومانتے ہیں مگراس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کوشریک ٹھیراتے ہیں ۔ ‘‘یعنی تم ایماندارہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو۔[68]

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَةَ، قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ، رَجُلًا یَحْلِفُ: لَا وَالْكَعْبَةِ،فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ

سعدبن عبادہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کوقسم اٹھاتے ہوئے سنا نہیں کعبہ کی قسم ! عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے جس نے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی قسم کھائی وہ مشرک ہوگیا۔[69]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سناہے جھاڑپھونک ،ڈورے دھاگے اورجھوٹے تعویذشرک ہیں ۔ [70]

عَنْ زَیْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهَى إِلَى الْبَابِ تَنَحْنَحَ وَبَزَقَ كَرَاهِیَةَ أَنْ یَهْجُمَ مِنَّا عَلَى أَمْرٍ یَكْرَهُهُ، قَالَتْ: وَإِنَّهُ جَاءَ ذَاتَ یَوْمٍ فَتَنَحْنَحَ وَعِنْدِی عَجُوزٌ تَرْقِینِی مِنَ الحُمْرَة فَأَدْخَلْتُهَا تَحْتَ السَّرِیرِ،قَالَتْ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ إِلَى جَانِبِی، فَرَأَى فِی عُنُقِی خَیْطًا، قَالَ: مَا هَذَا الْخَیْطُ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: خَیْطٌ رُقِى لِی فِیهِ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ فَقَطَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ لأغنیاءٌ عَنِ الشِّرْكِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ والتِّوَلة شِرْكٌ، قَالَتْ، قُلْتُ لَهُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا وَقَدْ كَانَتْ عَیْنِی تَقْذِفُ، فَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْیَهُودِیِّ یَرْقِیهَا، فَكَانَ إِذَا رَقَاهَا سَكَنَتْ؟قَالَ: إِنَّمَا ذَاكَ مِنَ الشَّیْطَانِ. كَانَ یَنْخُسُهَا بِیَدِهِ، فَإِذَا رَقَیْتِهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ یَكْفِیكِ أَنْ تَقُولِی كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ کی عادت تھی جب کبھی باہرسے آتے ،زورسے کھنکھارتے ،تھوکتے کہ گھروالے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برالگے،ایک دن اسی طرح آپ آئے ،اس وقت میرے پاس ایک بڑھیاتھی جوبوجہ بیماری کے مجھ پردم جھاڑاکرنے کوآئی تھی ،میں نے آپ کی کھنکھارکی آوازسنتے ہی اسے چارپائی کے نیچے چھپا دیا،آپ آئے ،میرے پاس میری چارپائی پربیٹھ گئے اورمیرے گلے میں دھاگادیکھ کرپوچھایہ کیا ہے ؟میں نے کہااس میں دم کراکے میں باندھ لیاہے،آپ نے اسے پکڑکر توڑد یا اور فرمایاعبداللہ کاگھرشرک سے بے نیازہے،میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ جھاڑ پھونک ،تعویذات اورڈورے دھاگے شرک ہیں ،میں نے کہایہ آپ کیسے فرماتے ہیں ،میری آنکھ دیکھ رہی تھی میں فلاں یہودی کے پاس جایاکرتی تھی وہ دم جھاڑاکر دیتاتھا تو سکون ہو جاتا تھا ،آپ نے فرمایاتیری آنکھ میں شیطان چوکامارا کرتا تھا اوراس کی پھونک سے وہ رک جاتاتھا،تجھے یہ کافی تھاکہ وہ کہتی جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایاہے’’ اے اللہ! لوگوں کے معبود، سختی دور کرنے والے شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے ایسی شفا دے جو بیماری کو نہ چھوڑے۔‘‘[71]

عِیسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَیْمٍ وَهُوَ مَرِیضٌ نَعُودُهُ فَقِیلَ لَهُ: لَوْ تَعَلَّقْتَ شَیْئًا، فَقَالَ: أَتَعَلَّقُ شَیْئًا، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُكِلَ إِلَیْهِ

عیسیٰ بن عبدالرحمٰن سے مروی ہےعبداللہ بن حکیم بیمار ہوئے ہم ان کی عیادت کے لئے گئےاوران سے کہاکہ آپ کوئی ڈورادھاگالٹکالیں تواچھاہو آپ نے فرمایامیں ڈوردھاگالٹکاؤں ؟حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے جوشخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ [72]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَیْهِ رَهْطٌ، فَبَایَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بَایَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ:إِنَّ عَلَیْهِ تَمِیمَةً فَأَدْخَلَ یَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَایَعَهُ، وَقَالَ: مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (دس آدمیوں کا) ایک وفد حاضر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے نو آدمیوں کو بیعت کرلیا اور ایک سے ہاتھ روک لیا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نوافرادکی تو بیعت کرلی اور اس شخص کو چھوڑ دیا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تعویذ پہن رکھا ہے، یہ سن کر اس شخص نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا جو شخص تعویذ لٹکاتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔

عبداللہ بن عکیم سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کوئی ڈورادھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا۔[73]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِیهِ مَعِی غَیْرِی، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بے نیازاوربے پرواہ ہوں ،جوشخص اپنے کسی کام میں میراکوئی شریک ٹھیرائے میں اسے اوراس کے شریک کوچھوڑ دیتا ہوں ۔[74]

عَنْ أَبِی سَعِیدِ بْنِ أَبِی فَضَالَةَ الْأَنْصَارِیِّ، وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِذَا جَمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأَوَّلِینَ، وَالْآخِرِینَ لِیَوْمٍ لَا رَیْبَ فِیهِ، نَادَى مُنَادٍ: مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِی عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ أَحَدًا، فَلْیَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ

ابوسعیدبن فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھےجب اللہ تعالیٰ اول وآخرسب جمع کر ے گااس دن جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی نداکرے گاکہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیاہے وہ اس کاثواب اپنے شریک سے طلب کرے،اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کرشرک سے بے نیازہے۔[75]

کیاان مشرکوں کواس بات کا خوف نہیں کہ اللہ کے عذاب کی کوئی بلا اچانک انہیں دبوچ نہ لے گی ،جس سے ان کی جڑکٹ جائے یا رات ودن کی بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پرنہ آجائے گی ؟جیسے فرمایا

اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَہُمْ بَاْسُـنَا بَیَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۹۷اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ یَلْعَبُوْنَ۝۹۸اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝۰ۚ فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹۹ۭۧ [76]

ترجمہ:پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں ؟یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں ؟کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بےخوف ہیں ؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بےخوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو ۔

 اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۴۵ۙاَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۴۶ۙاَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰی تَخَــوُّفٍ۔۔۔ ۝۴۷ [77]

ترجمہ:پھرکیاوہ لوگ جو(دعوت پیغمبرکی مخالفت میں )بدترسے بدترچالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ ان کوزمین میں دھنسادے یا ایسے گوشے سے ان پرعذاب لے آئے جدھرسے اس کے آنے کاان کووہم وگمان تک نہ ہویااچانک چلتے پھرتے ان کوپکڑلے یاایسی حالت میں انہیں پکڑے جب کہ انہیں خودآنے والی مصیبت کاکھٹکالگاہواہواوروہ اس سے بچنے کی فکرمیں چوکنے ہوں ؟وہ جوکچھ بھی کرناچاہے یہ لوگ اس کوعاجزکرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

تم ان مشرکین سے صاف کہہ دوکہ میراراستہ تویہ ہے،میں کامل علم و یقین اورپوری بصیرت کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتاہوں ،اوران تمام امورسے ڈراتا ہوں جواللہ تعالیٰ سے دورکرتے ہیں ، اور میں خوداورمیرے ساتھی بھی توحیدکی پوری روشنی میں اپنا صاف اور ہرکجی سے پاک سیدھا راستہ دیکھ رہے ہیں جوسیدھااللہ کی طرف جاتا ہے ، اوراللہ تعالیٰ کی طرف جوباتیں منسوب کی جاتی ہیں وہ ان نقائص اورکمزوریوں سے پاک ہے۔

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴        [78]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے ۔

اورشرک کرنے والوں سے میراکوئی تعلق واسطہ نہیں ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِی إِلَیْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِینَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿١٠٩﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا یُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿١١٠﴾‏ لَقَدْ كَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ كُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿١١١﴾‏(یوسف)
’’آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے، کیا زمین میں چل پھر کر انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا کچھ انجام ہوا ؟ یقیناً آخرت کا گھر پر ہیزگاروں کے لیے بہت ہی بہتر ہے، کیا پھر تم نہیں سمجھتے،یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور وہ (قوم کے لوگ) خیال کرنے لگے کہ انھیں جھوٹا کہا گیا فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی ،جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی ، بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناہ گاروں سے واپس نہیں کیا جاتا، ان کے بیان میں عقل والوں کے لیے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں، کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے ہر چیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لیے ۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے ہم نے جوپیغمبربھیجے تھے وہ سب فرشتے یاکوئی اورمخلوق نہیں بلکہ مرد ہی تھے ،اوروہ بادیہ نشین نہیں بلکہ انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔ [79]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے جورسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھاناکھانے والے اوربازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے ۔

وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ۝۸ثُمَّ صَدَقْنٰہُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰہُمْ وَمَنْ نَّشَاۗءُ وَاَہْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ۝۹ [80]

ترجمہ:ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں ، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے،پھر دیکھ لو کہ آخرکار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کیے اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ۔۔۔۝۹       [81]

ترجمہ:ان سے کہومیں کوئی نرالارسول تونہیں ہوں ۔

پھرکیایہ جھٹلانے والے لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کاانجام انہیں نظر نہ آیا جوان سے پہلے گزرچکی ہیں ؟جنہوں نے دعوت حق کوقبول نہ کیااوراپنے بے بنیادتخیلات اوربے لگام خواہشات کے پیچھے چلتی رہیں جیسے فرمایا

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۝۴۶ [82]

ترجمہ:کیایہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یاان کے کان سننے والے ہوتے ؟حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگروہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔

یقیناًجنت اورجنت کی نعمتیں ان لوگوں کے لئے اور زیادہ بہترہے جنہوں نے پیغمبروں کی بات مان کرتقویٰ کی روش اختیار کی اوراس پرقائم رہےکیااب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتارہاہے کہ وہ مدتوں اپنی اپنی قوموں کو دعوت حق پیش کرتے رہے مگرلوگوں نے دعوت حق کو قبول نہ کیا یہاں تک کہ جب پیغمبراپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو گئے اورقوموں نے بھی گمان کر لیا کہ پیغمبروں نے ان سے عذاب کا جھوٹا وعدہ کیا گیاتھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کوپہنچ گئی ، جیسے فرمایا

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ     [83]

ترجمہ: یقین جانوکہ ہم اپنے رسولوں اورایمان لانے والوں کی مدداس دنیا کی زندگی میں بھی لازماًکرتے ہیں اوراس روزبھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

پھرجب ایساموقع آ جاتاہے تو ہماراقاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں یعنی اہل ایمان کو عذاب سے بچالیتے ہیں اور مجرموں پرسے توہماراعذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا،قریش مکہ کوانجام بدسے خبردار کرتے ہوئے فرمایا اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل وہوش رکھنے والوں کے لئے عبرت ہے ، یہ جوکچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف کردہ خودساختہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی گئی ہیں انہی کی تصدیق کرتی ہے اور ہر اس چیزکی تفصیل جوانسان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ضروری ہے کوکھول کھول کربیان کرتا ہے اورایمان لانے والوں کے لئے یہ کتاب ہدایت اوررحمت ہے۔

[1] الشوری ۵۲

[2] تفسیرطبری۲۷۶؍۱۶

[3] تفسیرطبری۲۷۵؍۱۶

[4] تفسیرطبری۵۵۷؍۱۵

[5] صحیح بخاری کتاب التفسیر بَابُ إِذَا رَأَى مَا یَكْرَهُ فَلاَ یُخْبِرْ بِهَا وَلاَ یَذْكُرْهَا۷۰۴۴، صحیح مسلم كتاب الرُّؤْیَاباب فی کون الرویامن اللہ وانھاجزء من النبوة۵۸۹۷،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّؤْیَا۵۰۲۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْرُّؤْیَا بَابُ إِذَا رَأَى فِی الْمَنَامِ مَا یَكْرَهُ مَا یَصْنَعُ۲۲۷۷

[6] مسنداحمد۱۶۱۸۲

[7] تفسیرابن کثیر۳۷۴؍۴

[8]یوسف: 18

[9] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورة یوسف بَابُ قَوْلِهِ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ ۴۶۹۰

[10] القصص: 26

[11] مستدرک حاکم۳۳۲۰

[12] تفسیرطبری۶۹؍۱۶،تفسیر البغوی۲۳۷؍۴

[13] تفسیرابن کثیر۲۶۵؍۴

[14] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[15] تفسیرابن کثیر۲۶۵؍۴

[16] تفسیرابن ابی حاتم۲۱۳۷؍۷

[17]صحیح بخاری کتاب الاذان بابُ مَنْ جَلَسَ فِی المَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ۶۶۰ ،وکتاب الزکوٰة بَابُ الصَّدَقَةِ بِالیَمِینِ۱۴۲۳،وکتاب المحاربین بَابُ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ الفَوَاحِشَ۶۸۰۶ ،صحیح مسلم کتاب الزکوٰةبَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ ۲۳۸۰

[18] تفسیرطبری۹۵؍۱۶

[19] الرعد۲

[20] الغاشیة۲۰

[21] التین۴

[22] الرعد۲۶

[23] آل عمران۲۶

[24] الشوری۵۰

[25] الشمس۸

[26] ھود۵۶

[27] الانعام۸۰

[28] الاعراف۸۹

[29] طہ۹۸

[30] المومن۱۹

[31] آل عمران۵

[32] ابراہیم۳۸

[33] الاعلی۷

[34] فاطر۴۱

[35] الاعراف۱۵۶

[36] الاعراف۷۱

[37] الرحمن۲۶،۲۷

[38] مسند احمد ۱۶۱۸۲، سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّؤْیَا۵۰۲۰،جامع ترمذی کتاب الرویابَاب مَا جَاءَ فِی تَعْبِیرِ الرُّؤْیَا۲۲۷۹،سنن ابن ماجہ کتاب تعبیر الرویابَابُ الرُّؤْیَا إِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ، فَلَا یَقُصُّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ۳۹۱۴

[39] تفسیر طبری ۱۱۴؍۱۶

[40]یوسف: 50

[41] مسنداحمد۸۵۵۴

[42] حجتہ البالغة۳۲۸؍۲

[43] الفجر۲۷تا۳۰

[44] مسندالشافعی۶۷؍۱،مسندابی یعلی ۷۲۲۱،معرفة السنن والآثار۶۴۹۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ خُطْبَةِ النِّكَاحِ ۱۸۹۲

[45] الاعلی۱۴،۱۵

[46] النازعات۴۰،۴۱

[47] ص۳۹،۴۰

[48] تفسیرابن کثیر۴۰۰؍۴

[49] صحیح بخاری کتاب الطب بَابٌ العَیْنُ حَقٌّ ۵۷۴۰، وکتاب اللباس بَابُ الوَاشِمَةِ ۵۹۴۴، صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطِّبِّ وَالْمَرَضِ وَالرُّقَى۵۷۰۱،مسنداحمد۹۶۶۸

[50] موطاامام مالک باب الْوُضُوءُ مِنَ الْعَیْنِ۱۲۰

[51] موطاامام مالک باب الْوُضُوءُ مِنَ الْعَیْنِ۱۲۱

[52] الکہف۳۹

[53] الفلق۱تا۵

[54] الناس۱تا۶

[55] جامع ترمذی ابواب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّقْیَةِ بِالمُعَوِّذَتَیْنِ عن ابوسعیدخدری۲۰۵۸

[56] المجادلة۱۱

[57] تفسیرطبری۲۱۴؍۱۶

[58] الحجر۵۶

[59] تفسیرعبدالرزاق۱۳۴۳

[60] تفسیر طبری۲۶۱؍۱۶

[61] تفسیرابن کثیر۴۱۲؍۴

[62] سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ۱۸۵۳، جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ ۱۱۵۹،مجمع الزوائد۱۴۱۵۳

[63] آل عمران۴۴

[64] القصص۴۴تا۴۶

[65] الشعرائ۸

[66] تفسیرطبری۲۸۶؍۱۶

[67] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا۷۵۲۰، وکتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ۴۴۷۷،وکتاب الادب بَابُ قَتْلِ الوَلَدِ خَشْیَةَ أَنْ یَأْكُلَ مَعَهُ۶۰۰۱،وکتاب الحاربین بَابُ إِثْمِ الزُّنَاةِ۶۸۱۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ، وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ۲۵۷

[68] تفسیرابن کثیر ۴۱۸؍۴، تفسیرابن ابی حاتم۲۲۰۸؍۷

[69]۔سنن ابوداودکتاب الایمان والنذوربَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْحَلْفِ بِالْآبَاءِ۳۲۵۱،جامع ترمذی کتاب النذور والایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الحَلِفِ بِغَیْرِ اللَّهِ ۱۵۳۵

[70] سنن ابوداودکتاب الطب بَابٌ فِی تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ ۳۸۸۳،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ ۳۵۳۰

[71] مسند احمد۳۶۱۵،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ ۳۵۳۰

[72]مسنداحمد۱۸۷۸۱

[73] مسنداحمد۱۷۴۲۲

[74] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِی عَمَلِهِ غَیْرَ اللهِ۷۴۷۵

[75] مسنداحمد ۱۵۸۳۸ ،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقران ٓ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الكَهْفِ ۳۱۵۴،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ۴۲۰۳

[76] الاعراف۹۷تا۹۹

[77]النحل۴۵تا ۴۷

[78] بنی اسرائیل۴۴

[79] الفرقان۲۰

[80] الانبیائ۸،۹

[81] الاحقاف۹

[82] الحج۴۶

[83] المومن۵۱

Related Articles