ہجرت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ البقرة ۲۸تا۲۸۶

اس سورہ کے شروع میں مسلمانوں کے اوصاف ،کفارومشرکین کے اعتقادات ونظریات،اورگروہ منافقین( جوہجرت مدینہ کے بعدنمایاں ہوا) ان کے نفاق کی علامات بیان کی گئی ہیں ،اس کے بعدموسٰی کے حوالے سے مدینہ کے یہودیوں پران کی زبوں حالی ،گزشتہ اقوام کی طرح باطل روایات پرستی اورباطل نظریات کے ذکر پر تنقیدکرتے ہوئے حقیقی دین فطرت کی حقیقی نوعیت وکیفیت بیان کرکے ان کو کئی رکوع میں دعوت اسلامی دی گئی، اس سورہ میں قتال کی فرضیت،اس سلسلے میں تیاریاں ، انفاق فی سبیل الله کی ترغیب اوردوران جہاد( مسلمانوں کی عددی طاقت ،سامان جنگ کی کمی یاعدم دستیابی کے باعث وہ خوف وہراس کاشکارنہ ہوں ) مصائب وتکالیف کو صبرو استقامت سے برداشت کرنے کاحکم دیاگیا ،اوراس دین کوپوری دنیامیں پھیلانے کے احکامات ، اوراس اسلامی دنیامیں مسلمانوں کے اعتقادی،عملی،معاشرتی اور معاشی میدان میں جس لائحہ عمل کی ضرورت ہوگی اس کے لئے بے شمار قوانین وضوابط کے نفاذ کا آغازکردیاگیا،سودکی حرمت کاواضع حکم ،رب کی قدرتوں ،روزجزاوسزا اور سب سے آخرمیں رب پرکامل یقین رکھنے والوں کے لئے عقائداور اپنی عملی کوتاہیوں پراستغفارکے مقابلے میں نصرت کے حصول کی عاجزانہ دعاہے۔

كَیْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاكُمْ ۖ ثُمَّ یُمِیتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیكُمْ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَكُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٢٩﴾‏(البقرة)
 ’’تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، وہ اللہ جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔‘‘

تم اللہ کے ساتھ کفرکارویہ کیسے اختیارکرتے ہویااس کے ساتھ کسی اورکی کس طرح عبادت کرسکتے ہوحالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کوزندگی عطاکی،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ۝۳۵ۭاَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ۝۳۶ۭ [1]

ترجمہ:کیایہ کسی خالق کے بغیرخودپیداہوگئے ہیں ؟یایہ خوداپنے خالق ہیں ؟یا زمین اورآسمانوں کوانہوں نے پیداکیاہے ؟اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔

هَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱ [2]

ترجمہ:کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟ ۔

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {كُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاكُمْ}فِی أَصْلَابِ آبَائِكُمْ لَمْ تَكُونُوا شَیْئًا حَتَّى خَلَقَكُمْ، ثُمَّ یُمِیتُكُمْ مَوْتَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ یُحْیِیِكُمْ حِینَ یَبْعَثُكُمْ، قَالَ: وَهِیَ مِثْلُ قَوْلِهِ: {أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ{

ابن جریج نے عطاء سے اورانہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے ’’حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ تم مردہ تھے اوراپنے آباء واجدادکی پشتوں میں تھے اورتم کچھ نہ تھے کہ اس نے تمہیں زندگی بخشی پھرتمہیں موت دے گاپھربعث کے وقت زندہ کرے گا،یہ آیت ایسے ہی ہے جس طرح یہ آیت کریمہ ہے ’’اے ہمارے رب!تونے واقعی ہمیں دودفعہ موت اوردودفعہ زندگی دے دی۔‘‘[3]

اس نے تمہیں انواع واقسام کی نعمتوں سے نوازا،پھرایک وقت مقررہ پروہی تمہاری جان سلب کرے گا،پھروہی تمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا،پھرمیدان محشرمیں اسی کی باگاہ میں تمہیں اعمال کی جوابدہی کے لئےپیش کیاجائے گااوروہ تمہیں تمہارے اعمال کاپوراپورابدلہ دے گا،وہی توہے جس نے تم پراحسان اوررحم کرتے ہوئےتمہارے فائدے کے لیے زمین کی ساری چیزیں پیداکیں ،پھراوپرکی طرف توجہ فرمائی اورسات آسمان استوارکیے،جیسے فرمایا

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۹ۚوَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَفِیْهَا وَقَدَّرَ فِیْهَآ اَقْوَاتَهَا فِیْٓ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ۝۰ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِیْنَ۝۱۰ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا۝۰ۭ قَالَتَآ اَتَیْنَا طَاۗىِٕعِیْنَ۝۱۱فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰى فِیْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا۝۰ۭ وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۝۱۲ [4]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو!کیاتم اس اللہ سے کفرکرتے ہواوردوسروں کواس کاہمسرٹھیراتے ہوجس نے زمین کودودنوں میں بنادیا؟وہی توسارے جہان والوں کارب ہے،اس نے (زمین کووجودمیں لانے کے بعد)اوپرسے اس پرپہاڑجمادیے اوراس میں برکتیں رکھ دیں اوراس کے اندرسب مانگنے والوں کے لیے ہرایک کی طلب وحاجت کے مطابق ٹھیک اندازسے خوراک کاسامان مہیاکردیا،یہ سب چاردن میں ہوگئے،پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہواجواس وقت محض دھواں تھا،اس نے آسمان اورزمین سے کہاوجودمیں آجاؤخواہ تم چاہویانہ چاہو،دونوں نے کہاہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح،تب اس نے دودن کے اندرآسمان بنادیے اورہرآسمان میں اس کاقانون وحی کردیا،اورآسمان دنیاکوہم نے چراغوں سے آراستہ کیااوراسے خوب محفوظ کردیا،یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کامنصوبہ ہے۔

اس تخلیق کے بعداللہ تعالیٰ نے زمین کوپھیلایاجیسے فرمایا

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا۝۳۰ۭاَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا۝۳۱۠وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا۝۳۲ۙ [5]

ترجمہ:اس کے بعداس نے زمین کوپھیلادیا،اس کے اندرسے اس کاپانی اورچارہ نکالااورپہاڑاس میں گاڑدیے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: بَیْنَمَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَیْهِمْ سَحَابٌ، فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: هَذَا العَنَانُ هَذِهِ رَوَایَا الأَرْضِ یَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لاَ یَشْكُرُونَهُ وَلاَ یَدْعُونَهُ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهَا الرَّقِیعُ، سَقْفٌ مَحْفُوظٌ، وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهَا مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ بادل آگئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں کی طرف ہانکتے ہیں جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اسے پکارتے نہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رقیع یعنی اونچی چھت ہے جس سے حفاظت کی گئی اور یہ موج کی طرح ہے جو بغیر ستون کے ہے،پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اوراس کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے،

ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَیْنِ، مَا بَیْنَهُمَا مَسِیرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ، مَا بَیْنَ كُلِّ سَمَاءَیْنِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ،ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ العَرْشَ وَبَیْنَهُ وَبَیْنَ السَّمَاءِ بُعْدُ مَا بَیْنَ السَّمَاءَیْنِ.

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے اوپر دو آسمان ہیں جن کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سات آسمان گنوائے اور بتایا ہر دو آسمانوں کے درمیان آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلے کے برابر فاصلہ ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے اوپر عرش ہے اور وہ آسمان سے اتنا دور ہے جتنا زمین سے آسمان،

ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِی تَحْتَكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهَا الأَرْضُ. ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِی تَحْتَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ تَحْتَهَا أَرْضًا أُخْرَى، بَیْنَهُمَا مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِینَ، بَیْنَ كُلِّ أَرْضَیْنِ مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ. ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ إِلَى الأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ. ثُمَّ قَرَأَ {هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ،

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے نیچے کیا ہے،

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتا ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ زمین ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے پہلی زمین اور دوسری زمین کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات زمینیں گنوائیں اور بتایا کہ ہر دو کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اگر تم لوگ نیچے زمین کی طرف رسی پھینکو گے تو وہ اللہ تک پہنچے گی،اور پھر یہ آیت پڑھی ’’ وہی ہے سب سے پہلا اور سب سے پچھلا اور باہر اور اندر اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘[6]

هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ،وَیُرْوَى عَنْ أَیُّوبَ، وَیُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ، وَعَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، قَالُوا: لَمْ یَسْمَعِ الحَسَنُ مِنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِیثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِی كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِی كِتَابهِ.

یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے منقول ہے کہ حسن نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنی،بعض اہل علم اس حدیث کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد اس رسی کا اللہ کے علم، اسکی قدرت اور حکومت تک پہنچنا ہے کیونکہ اللہ کا علم، اس کی قدرت اور اس کی حکومت ہر جگہ ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا کہ اس نے خود اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے۔

عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ، فَمَرَّتْ سَحَابَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟ قَالَ: قُلْنَا: السَّحَابُ، قَالَ:وَالْمُزْنُ قُلْنَا: وَالْمُزْنُ، قَالَ:وَالْعَنَانُ، قَالَ: فَسَكَتْنَا، فَقَالَ:هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟ قَالَ: قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:بَیْنَهُمَا مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَمِنْ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَكِثَفُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ ہم لوگ وادی بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے ایک بادل گذرارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے؟قَالَ: قُلْنَا: السَّحَابُ،ہم نے کہا اسے سحاب (بادل) کہتے ہیں ، فرمایا مزن بھی کہتے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں ! مزن بھی کہتے ہیں ، پھر فرمایا اسے عنان بھی کہتے ہیں ،اس پر ہم خاموش رہے، پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ،فرمایا آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی کثافت پانچ سو سال کی ہے،

وَفَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَیْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِیَةُ أَوْعَالٍ بَیْنَ رُكَبِهِنَّ وَأَظْلافِهِنَّ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ بَیْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ وَلَیْسَ یَخْفَى عَلَیْهِ مِنْ أَعْمَالِ بَنِی آدَمَ شَیْءٌ

پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس سمندر کی سطح اور گہرائی میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے،پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں جن کے گھٹنوں اور کھروں کے درمیان زمین وآسمان جتنا فاصلہ ہے،پھر اس کے اوپر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین وآسمان جتنا فاصہ ہےاور سب سے اوپر اللہ تبارک وتعالی ہے جس سے بنی آدم کا کوئی عمل بھی مخفی نہیں ۔[7]

قَالَ: بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهَا مَسِیرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوآسمانوں کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت ہے۔[8]

اوراللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرح تہہ بہ تہہ سات زمینیں بنائیں ،

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ۔۔۔۝۰۝۱۲ۧ [9]

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انہی کے مانند۔

فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ ظَلَمَ قِیدَ شِبْرٍ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِینَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے ظلماًکسی کی ایک بالشت زمین لے لی تواللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کاطوق پہنائے گا۔[10]

اوروہ ہرچیزکاعلم رکھنے والاہے،یعنی

 هُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۭ یَعْلَمُ مَا یَـلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا۔۔۔۝۰۝۴ [11]

ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔

وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۱۹ [12]

ترجمہ:حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی۔

۔۔۔ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی(طہ۷)

ترجمہ:وہ تمام بھیدوں اورچھپی ہوئی چیزوں کاعلم رکھتاہے۔

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ۝۰ۭ وَهُوَاللطِیْفُ الْخَبِیْرُ۝۱۴ۧ [13]

ترجمہ: کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ:فَقَالَ:یُرْفَعُ إِلَیْهِ عَمَلُ اللیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللیْلِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارات کاعمل دن کے عمل سے پہلے اوردن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچادیا جاتا ہے ۔[14]

فرشتے نمازفجراورنمازعصر کے وقت اعمال لے کرجاتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتَعَاقَبُونَ فِیكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللیْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فِیكُمْ،فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَیْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِی؟ فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ، وَأَتَیْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارات اوردن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اورفجراورعصرکی نمازوں میں (ڈیوٹی پرآنے والوں اوررخصت پانے والوں کا)اجتماع ہوتاہے ، پھرتمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب(اعمال لے کر) اوپرچڑھتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان سے پوچھتاہے حالانکہ وہ خوب جانتاہے کہ تم نے میرے بندوں کوکس حال میں چھوڑا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ ہم جب ان کے پاس سے آئے ہیں تواس وقت بھی وہ نمازپڑھ رہے تھے اورجب ان کے پاس گئے تھے تووہ نمازپڑھ رہے تھے۔[15]

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیهَا مَن یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِیمُ الْحَكِیمُ ‎﴿٣٢﴾‏ قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ‎﴿٣٣﴾(البقرة)
 ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟اور ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ،ان سب نے کہا اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے، اللہ تعالیٰ نے(حضرت) آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو، جب انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا کہ کیامیں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے ۔‘‘

پھرذرااس وقت کاتصورکروجب ابوالبشر آدم کی تخلیق کے وقت تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاتھاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں ،خلیفہ سے مرادیہ ہے کہ ان کے یکے بعددیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے۔

 وَهُوَالَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ۔۔۔۝۱۶۵ۧ [16]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا۔

۔۔۔وَیَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۔۔۔۝۰۝۶۲ۭ [17]

ترجمہ: اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ ۔

یہ کہناکہ یہ خاکی انسان زمین پراللہ کا خلیفہ اورنائب ہے غلط ہے ۔

اورمیں نے جنوں کی طرح اسے بھی اپنی عبادت کے لئے تخلیق کیاہے، وہ اپنے اختیاروارادہ کامالک ہوگا محکوم ومجبورنہ ہوگا،اسےحق وباطل کی پہچان کی تمیز ہو گی،وہ زمین پر جوتصرف کرناچاہے گا کر سکے گا ،فرشتوں نے عرض کی اے مالک!اگر انسان کو پیدا کرنے کی حکمت ومقصود یہ ہے کہ وہ آپکی عبادت میں مصروف رہے، آپ کی تقدیس و بزرگی کے گن گائے تو اے ہمارےرب! ہم اس منصب کے لئے حاضرہیں اورہم ہروقت،ہرلمحہ تیری حمدوثنا ،تحمیدوتقدیس میں مصروف رہتے ہیں اورتیری عبادت سے تھکتے نہیں اورکسی بھی طرح کی نافرمانی کاسوچے بغیر تیرا ہرحکم بے چوں چرا بجا لاتے ہیں ،اوراے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ جنوں کی طرح ان میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تیری زمین میں فتنہ وفساد برپا کریں گے اورخون ریزی کریں گے ، الله تعالیٰ نے ان کی سب باتیں توجہ سے سنیں اورفرمایاآدم علیہ السلام کوجن مصلحتوں اورحکمتوں کی بناپرمیں تخلیق کررہاہوں انہیں میں ہی جانتاہوں تمہارامحدودعلم ان تک نہیں پہنچ سکتا،ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے،ان میں صدیق اورشہیدہوں گے،ان میں عابد،زاہداور پرہیزگار ہوں گے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتَعَاقَبُونَ فِیكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللیْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِوَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فِیكُمْ، فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ ،كَیْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِی؟ فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ، وَأَتَیْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارات اوردن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اورفجراورعصرکی نمازوں میں (ڈیوٹی پرآنے والوں اوررخصت پانے والوں کا)اجتماع ہوتاہے،پھرتمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپرچڑھتے ہیں تواللہ تعالیٰ پوچھتاہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتاہے کہ میرے بندوں کوتم نے کس حال میں چھوڑا؟وہ جواب دیتے ہی جب ہم گئے تھے توانہیں نماز(فجر)میں مصروف پایااورجب آئے توتب بھی نماز(عصر) کی حالت میں چھوڑکرآئے۔[18]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَیُّ الْكَلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَا اصْطَفَى اللهُ لِمَلَائِكَتِهِ أَوْ لِعِبَادِهِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکونساکلام افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاوہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا ہے’’پاک ہے رب میرااورتعریف اسی کوہے۔‘‘[19]

الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت فرشتوں کے سوال کے جوبظاہرآدم علیہ السلام کی تحقیر پر مبنی ہے عمل وفعل سے اس کاجواب دیاکہ انکو خود بخود آدم علیہ السلام کی برتری اور حکمت الٰہی کی بلندی ورفعت کا نہ صرف اعتراف کرناپڑے بلکہ اپنی درماندگی اور عجزکابھی مشاہدہ ہوجائے ، لہذا آدم علیہ السلام کی بڑائی اورشرف کوظاہرکرنے کے لئےاپنی عظیم المرتبت صفت علم سے نوازا اورالقاوالہام کے ذریعے آدم علیہ السلام کوتمام اشیاکے نام اوران کے خواص وفوائدکاعلم عطافرمایااس لئے انسان کا علم فرشتوں ،جنوں اورتمام مخلوقات سے زیادہ ہے،

عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: عَلَّمَ اللهُ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَهِیَ هَذِهِ الْأَسْمَاءُ الَّتِی یَتَعَارَفُ بِهَا النَّاسُ: إِنْسَانٌ وَدَابَّةٌ، وَأَرْضٌ، وَسَهْلٌ، وَبَحْرٌ، وَجَبَلٌ، وَحِمَارٌ، وَأَشْبَاهُ ذَلِكَ مِنَ الْأُمَمِ وَغَیْرِهَا

ضحاک رحمہ اللہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ’’ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا دیئے۔‘‘سے مرادیہی نام ہیں جولوگوں میں متعارف ہیں مثلاً انسان، حیوان، زمین، خشکی، تری، پہاڑ، گدھا اوراس طرح کے دوسرے نام۔[20]

وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {وَعَلَّمَ آدَمَ الأسْمَاءَ كُلَّهَا} قَالَ: عَلَّمَهُ اسْمَ كُلِّ دَابَّةٍ، وَكُلِّ طَیْرٍ، وَكُلِّ شَیْءٍ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا دیئے۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوتمام جانوروں ،تمام پرندوں اورتمام اشیاء کے نام سکھائے۔[21]

 وَالصَّحِیحُ أَنَّهُ عَلَّمَهُ أَسْمَاءَ الْأَشْیَاءِ كُلِّهَا: ذَوَاتَهَا وَأَفْعَالَهَا؛ كَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَتَّى الْفَسْوَةَ والفُسَیة. یَعْنِی أَسْمَاءَ الذَّوَاتِ وَالْأَفْعَالِ الْمُكَبَّرُ وَالْمُصَغَّرُ

صحیح بات یہی ہے کہ آدم علیہ السلام کوتمام اشیاء کے نام اوران کی صفات اورافعال سکھادیے گئے تھے جیساکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے آدم علیہ السلام کوتمام اشیاء کے نام اوران کے چھوٹے بڑے تمام افعال سکھادیے گئے تھے[22]

قَالَ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ. قَالَ: أَنْتَ جِبْرِیلُ، أَنْتَ مِیكَائِیلُ، أَنْتَ إِسْرَافِیلُ، حَتَّى عَدَّدَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، حَتَّى بَلَغَ الْغُرَابَ

زیدبن اسلم بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاکہ آدم !تم ان چیزوں کے نام بتاؤتوآدم علیہ السلام نے انہیں بتادیاکہ تم جبریل ہو،تم میکائیل ہو،تم اسرافیل ہوحتی کہ اس طرح تمام چیزوں کے ایک ایک کرکے نام بتادیے حتی کہ کوئے تک کانام بھی بتادیا۔[23]

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: {یَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ} قَالَ:اسْمُ الْحَمَامَةِ وَالْغُرَابِ، وَاسْمُ كُلِّ شَیْءٍ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اےآدم علیہ السلام تم ان کے نام بتادو۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں آپ نے کبوتر،کوئے اورہرچیزکانام بتادیا۔[24]

اس کے بعد الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوفرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے ان کی غلط فہمی دورکرنے کے لئے کائنات کی چند چیزوں کے نام دریافت کیے اورکہااگرتم اپنے خیال میں سچے ہو کہ آدم زمین پرفسادپھیلائے گاکشت وخون کرے گاتوان چیزوں کے نام بتاؤ؟اب فرشتے جودینوی خواہشوں اورضرورتوں سے بے نیاز ہیں انکا علم تو یقینا ًمحدود تھاوہ الله کے علم سے زرہ برابربھی احاطہ نہیں کرسکتے مگرجتنارب چاہئے ،وہ اشیاء کے علم سے ناآشناتھے جب یہ صورت بنی کہ ان چیزوں کے نام بتاؤ توفوراً اپنی کم علمی،عاجزی ودرماندگی کا اعتراف کرلیا اوراپنے سروں کورب کے حضورجھکاکرعرض کی اے ہمارے پروردگار!توپاک ہے ہمیں ان چیزوں کے نام کا کوئی علم نہیں ہے ، ہماراعلم تواسی شعبے تک محدودہے جس سے ہماراتعلق ہے ،بے شک آپ علم وحکمت والے ہیں ، سب کچھ جاننے اورسمجھنے والاآپ کے سواکوئی نہیں ،جب فرشتوں نے اپنی کم مائیگی اورعاجزی کا مکمل اظہار کردیاتو الله تعالیٰ نے بات ختم نہیں کردی بلکہ آدم علیہ السلام کی فضیلت بھی ظاہر کی کہ انکوآخر زمین پر خلافت ونیابت کے لئے کیوں نامزد کیاجارہاہے چنانچہ الله تعالیٰ نے فرشتوں کے ہجوم میں آدم علیہ السلام کوحکم دیاکہ وہ ان چیزوں کے نام بتلائیں الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام میں علم کی لامحدود صلاحیت رکھی تھی چنانچہ آدم علیہ السلام نے الله تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق فوراًہی سب چیزوں کے نام گنوادیئے ، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آدم علیہ السلام فرشتوں کے سامنے علمی امتحان میں سرخ روہوئے تو الله تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایاکہ کیا میں نے تم کونہ کہاتھاکہ میں آسمانوں اورزمینوں کی تمام غائب باتوں کو جانتا ہوں ، آدم علیہ السلام کوجوعلم ہے وہ میراہی عطاکردہ ہے اورمیں وہ سب جانتاہوں جوتم ظاہرکرتے ہو اور جوتم چھپا کر کرتے ہو ،

 عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ} یَقُولُ: مَا تُظْهِرُونَ {وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ} یَقُولُ: أَعْلَمُ السِّرَّ كَمَا أَعْلَمُ الْعَلَانِیَةَ. یَعْنِی مَا كَتَمَ إِبْلِیسُ فِی نَفْسِهِ مِنَ الْكِبْرِ وَالِاغْتِرَارِ

ضحاک نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’ اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں محفی چیزوں کوبھی اسی طرح جانتاہوں جس طرح ظاہرچیزوں کوجانتاہوں یعنی مجھے اس کبروغرورکابھی علم ہے جسے ابلیس نے اپنے دل میں چھپایاہواہے۔[25]

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ: {وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ} فَكَانَ الَّذِی أَبَدَوْا حِینَ قَالُوا: {أَتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا} وَكَانَ الَّذِی كَتَمُوا بَیْنَهُمْ قَوْلَهُمْ: لَنْ یَخْلُقَ رَبُّنَا خَلْقًا إِلَّا كُنَّا نَحْنُ أَعْلَمَ مِنْهُ وَأَكْرَمَ، فَعَرَفُوا أَنَّ اللهَ فَضَّلَ عَلَیْهِمْ آدَمَ فِی الْعِلْمِ وَالْكَرَمِ

ابوجعفررازی نے ربیع بن انس سے روایت کیاہے کہ فرشتوں نے جس بات کوظاہرکیاوہ تویہ تھی’’ کیاتواس ایسے شخص کونائب بناناچاہتاہے جوخرابیاں کرے اورکشت وخون کرتاپھرے۔‘‘اورجس بات کوانہوں نے اپنے دل میں چھپالیاتھاوہ یہ تھی کہ ہمارارب کوئی ایسی مخلوق پیدانہیں فرمائے گاجوعلم اورعزت وتوقیرمیں ہم سے بڑھ کرہو لیکن اب انہیں معلوم ہوگیاکہ آدم علیہ السلام علم اورعزت وتکریم کے اعتبارسے ان پرفضیلت رکھتے ہیں ۔[26]

اب فرشتوں کو آدم علیہ السلام کی علمی برتری اورا ستحقاق خلافت کے اقرار کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا اور ساتھ ہی انہوں نے الله تعالیٰ کی حکمت کو بھی تسلیم کرلیا۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٣٥﴾‏ فَأَزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿٣٦﴾‏ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿٣٧﴾‏قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعًا ۖ فَإِمَّا یَأْتِیَنَّكُم مِّنِّی هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٣٩﴾(البقرة)
 ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا،اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا،اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہوجاؤ گے، لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے،(حضرت)آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا اوررحم کرنے والاہے،ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤجب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیںاور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‘‘

پھرجب ہم نے فرشتوں کوحکم دیاکہ اکرام وتعظیم کے طورپر آدم کے آگے جھک جاؤتوتعمیل حکم میں سب فرشتے جھک گئے مگرابلیس

اسْمُهُ عَزَازِیلُ

جس کانام عزازیل تھااورجس کاشمارمعصیت کے ارتکاب سے قبل فرشتوں میں تھا ۔

نے انکارکیا

فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ۝۳۰ۙاِلَّآ اِبْلِیْسَ۔۔۔۝۰۝۳۱ [27]

ترجمہ:چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔

عَنْ قَتَادَةَ: قَوْلُهُ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِینَ حَسَدَ عَدُوُّ اللهِ إِبْلِیسُ آدَمَ عَلَى مَا أَعْطَاهُ اللهُ مِنَ الْكَرَامَةِ،وَقَالَ: أَنَا نَارِیٌّ وَهَذَا طِینِیٌّ، فَكَانَ بَدْءُ الذُّنُوبِ الْكِبْرَاسْتَكْبَرَ عَدُوُّ اللهِ أَنْ یَسْجُدَ لآدَمَ

قتادہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوجوعزت عطافرمائی تواس کی وجہ سے اللہ کے دشمن ابلیس نے آدم علیہ السلام سے حسدکیااورکہامیں آگ سے بناہوں اوریہ مٹی سے،گناہوں کاآغازتکبرسے ہوا،اللہ کے دشمن نے تکبرکیاکہ وہ آدم علیہ السلام کوکیوں سجدہ کرے۔[28]

وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈمیں پڑگیااورنافرمانوں میں شامل ہو گیا ، پھرہم نے آدم سے کہاکہ تم اورتمہاری بیوی دونوں جنت میں رہواوریہاں وسیع وپاک نعمتوں میں سے جو چاہو بے روک ٹوک کھاؤپیو،یہاں تمہیں ہرطرح کاآرام وسکون حاصل ہے۔

اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَلَا تَعْرٰى۝۱۱۸ۙوَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَلَا تَضْحٰی۝۱۱۹ [29]

ترجمہ:یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو،نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے۔

مگراس درخت کارخ نہ کرناورنہ ظالموں میں شمار ہو گے،آدم علیہ السلام اور اماں حوّا جنت الماویٰ میں بڑے آرام وسکون سے رہ رہے تھے ہم جنس ساتھی بھی تھے اب تنہائی بھی نہیں تھی ، شاہی خلعت فاخرہ بھی زیب تن تھی جو نہ تو میلی ہوتی تھی اورنہ ہی بوسیدہ ،انہیں جنت میں کسی چیز کی کمی اورکسی قسم کارنج وخوف ،فکرلاحق نہ تھا رب کریم کاقرب حاصل تھا،باری تعالیٰ کی انگنت نعمتوں سے فیض یاب تھے اور یقینا ً ہمیشہ وہاں رہنے کے خواہشمند تھے اوربھلا الله کی ایسی بہشت میں کون نہیں رہناچاہے گا،اسی خواہش کی آڑ لیکر شیطان جس کاآناجاناابھی بندنہیں ہواتھا آدم علیہ السلام کی گھات میں لگا ہوا تھا ،موقعہ محل کاجائزہ لے رہاتھا خیرخواہ بن کر آدم علیہ السلام اور انکی زوجہ کے دلوں میں آہستہ آہستہ وسوسے ڈالنے لگاکہ جنت کی یہ نعمتیں تمہیں ہمیشہ کے لئے نہیں مل گئیں بلکہ بہت جلد تم ان سے محروم ہو جاوگے اس لئے تواس درخت(شجر خلد) سے تمہیں کوروکاگیاہے اگر تم ایسی نعمتوں میں ہمیشہ رہنے کے آرزومند ہو تو اس کا علاج یہ درخت ہے جس سے تمہیں روکا جارہا ہے،اگرتم اس درخت کا پھل کھالوگے تو یہ پھرہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہارے آرام وسکون اورقرب الہٰی کابھی ضامن ہو گا۔

فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا یَبْلٰى۝۱۲۰ [30]

ترجمہ:لیکن شیطان نے اس کو پھسلایا کہنے لگا آدم! بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے۔

ایک عرصہ تک وہ ایسی باتیں بناتارہااورآدم علیہ السلام اوراماں حوااس کے جھانسے میں نہ آئے تو پھر مزیدیقین دلانے کے لئے اس نے الله پاک کی بابرکت ذات کی قسم بھی اٹھائی۔

۔۔۔وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ۝۲۰وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ۝۲۱ۙ [31]

ترجمہ:تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے،اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔

ناتجربہ کارسادہ لوح آدم علیہ السلام شیطان لعین کی ترغیبات کی وجہ سے رفتہ رفتہ خلقی اور طبعی کمزوری جوانسان میں موجود ہے غفلت ، بھول اور عزم وارادے کی کمزوری میں مبتلا ہو گئےاور ہرنیک شریف آدمی کی طرح الله کی قسم اٹھانے پر شیطان جس کاہر وعدہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتاہے پر اعتبار کر بیٹھے،اورجس درخت کے پھل کھانے سے منع فرمایاگیاتھادونوں اسے کھابیٹھے، ہم نے حکم دیاکہ اب تم سب یہاں سے زمین پر اترجاؤ،تم ایک دوسرے کے دشمن ہواورتمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنااوروہیں گزربسرکرناہے،اس وقت آدم نے اپنے رب سے چندکلمات سیکھ کرتوبہ واستغفار کی۔

 قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [32]

ترجمہ:دونوں بول اٹھے اے ربّ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔

ان دونوں کے توبہ واستغفار پراللہ تعالیٰ نےانہیں معاف فرمادیاکیونکہ وہ بڑامعاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ ،[33] قَالَ: قَالَ آدَمُ: یَا رَبِّ، أَلَمْ تَخْلُقْنِی بِیَدِكَ؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى، وَنَفَخْتَ فِیَّ مِنْ رُوحِكَ؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى، وَعَطَسْتُ فَقُلْتَ: یَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَسَبَقَتْ رَحْمَتُكَ غَضَبَكَ؟ قِیلَ: بَلَى، وَكَتَبْتَ عَلَیَّ أَنْ أَعْمَلَ هَذَا؟ قِیلَ: بَلَى، قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ تُبْتُ هَلْ أَنْتَ رَاجِعِی إِلَى الْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمان باری’’اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی ۔‘‘کے بارے میں روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرض کی اے اللہ!کیاتونے مجھے اپنے ہاتھوں سے پیدانہیں فرمایا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیوں نہیں ! عرض کی کیاتونے مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیوں نہیں ، عرض کی جب مجھے چھینک آئی توکیاتونے یہ نہیں کہاتھااللہ تجھ پررحم فرمائےاورتیری رحمت توتیرے غضب پرغالب ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیوں نہیں ،عرض کی کیاتونے یہ نہیں لکھ رکھاتھاکہ میں یہ کام کروں گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیوں نہیں ،عرض کیااے اللہ!اگرمیں توبہ کرلوں توکیاتومجھے جنت میں لوٹادے گے،اللہ تعالیٰ نے فرمایاہاں ۔ [34]

وقت رخصت باری تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! ہماری خاکی زمین پر ہمیشہ کی زندگی نہیں کہ ابلیس جو تمہاراکھلادشمن ہے کے بہکاوے میں آکر اس میں گم ہوجاؤ،ہماری یاد سے غافل ہوجاؤ بلکہ عارضی ، چندگنے چنے سانسوں سے عبارت ،بہت ہی مختصرہوگی ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا نہیں کردیا اور نہ ہی ہم بے مقصد کام کرتے ہیں ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کرہم خو دہی کھیل لیتے،ہم نے خامخواہ ایک ذی حس ،ذی شعور،ذمہ دار مخلوق کوپیدا نہیں کرڈالا کہ اس کے درمیان حق وباطل کی کشمکش اورکھنچا تانیاں کرائیں اورمحض اپنے لطف وتفریح کے لئے نیک بندوں کو بلاوجہ تکلیف میں ڈالیں ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایاہے، تمہارا کام صرف میری بندگی کرناہے اوراسی مقصد کے لئے تمہیں اور جنوں کو پیدا کیا گیاہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ [35]

ترجمہ:میں نے جن اور انسانوں کواس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری ہی بندگی کریں ۔

میری یادکے لئے نمازکوقائم کرنااورروزے رکھنا ،ہمارے جو بندے محروم ہیں ہماری خوشنودی اوررضاحاصل کرنے کے لئے اپنی پاک کمائی سے ان پرخرچ کرتے رہناچاہئے وہ کھجورکاایک دانہ ہی کیوں نہ ہو،اس کوہم اتنابڑھائیں گے کہ روزمحشروہ ایک دانہ احد پہاڑ کے برابرہوچکاہوگا،زمین میں تم آزاد نہیں چھوڑ دیے جاؤ گے بلکہ تمہاری آزمائش کی جائے گی، یہ نہ بھولناکہ میں تمہارا رب ہوں میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے جس کا اقرار تم کر چکے ہو۔

 وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّــتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۝۰ۚۛ شَهِدْنَا۔۔۔۝۰۝۱۷۲ۙ [36]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔

شیطان کے بہکاوے میں آکرمیرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا میرا کو ئی شریک نہیں ہے نہ میری کوئی اولاد ہے اورنہ ہی میں کسی کی اولاد ہوں میرا ہمسرکوئی نہیں ۔

قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللهُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [37]

ترجمہ:کہو ! وہ اللہ ہے یکتا،اللہ سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج ہیں ،نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد،اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

زمین و آسمانوں میں ملکیت اوربادشاہی صرف میری ہے ساری قوتیں وسائل تدابیر کا میں مالک ہوں جس کوچاہوں گا ملک و عزت دوں گا اور جس سے چاہوں گا چھین لوں گا ہمارے فیصلوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ،اپنی تمام آس اورا میدیں میر ے ساتھ وابستہ کرنا میر ے سوا کسی کونہ پکارنا اور نہ ہی کوئی تمہاری پکار سن کر داد رسی کر سکتا ہے اورنہ ہی ہم نے کسی کوایسی طاقت عطاکی ہے، ہمارے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہم ہی آسمانوں سے تمہیں رزق بھیجیں گے اور اس میں برکت ڈالیں گے لہذا جو تمہارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے وہی تمہیں ملے گا چاہے جائز طریقے سے حاصل کرو چاہے ناجائز طریقے سے، اگر میں کسی کافرکو بے بہا دولت دے بھی دوں تویہ نہ سمجھنا کہ میں اس سے راضی ہوں اور اگراپنے کسی نیک بندے کو نہ دوں تویہ نہ کہنا کہ وہ ہماری عنایت فضل وکرم رحمت سے محروم ہے دولت ہمارا پیمانہ نہیں ہے، یہ دنیا ہمارے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی ،اچھایابراجو کچھ بھی تم عمل کرو گے ہمارے فرشتے کراماًکاتبین لکھتے رہیں گے اورہم بھی تمہارے عمل چاہئے چھپ کر کروگے یا ظاہر،رات کوکروگے یادن میں ہم دیکھ رہے ہوں گے خبردار! فرعون وہامان ونمرود بن کر زمین میں اکڑ کرنہ چلنا،نہ تم ہماری ہمواربچھائی ہوئی زمین پھاڑ سکوگے اور نہ ہمارے بلندوبالاپہاڑوں سے اونچے ہو جاؤگے، اپنے بد ترین ازلی دشمن شیطان سے ہوشیارچوکناخبردار رہناوہ بڑا ہوشیار اور تجربہ کارہے وہ تمہیں ہرراستے سے گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا تمہارا مخلص ساتھی بن کر تمہیں دھوکا دے گاجیسے پہلے تمہیں دھوکا دے کربہشتی پوشاک اتروا کر بہشت سے نکلوا چکا ہے۔

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا۔۔۔۝۰۝۲۷ [38]

ترجمہ:اے بنی آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکولایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اُتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔

وہ اور اس کے بیشمار جنوں اور انسانوں میں چیلے تمہیں گمراہ کرنے کے لئے خفیہ منصوبہ بندی کرتے رہیں گے وہ اپنے خاص ہتھیار شہوت پرستی،دولت کی کبھی ختم ہونے والی حرس وہوس،دنیاکی رنگینیوں کی طرف دعوت دے گا وہ توچاہتاہی یہی ہے کہ تم فسق وفجور میں مبتلا ہوکرمادرپدر آزاد ہوجاؤ،یہ اسکابڑا خطرناک داؤہے اس داؤ سے ہوشیار رہنا اس کے وعدوں کے دلفریب جال میں نہ پھنس جانا شیطان کے وعدے دھوکے فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں ،وہ ہمارے نام پر بھی تمہیں دھوکا دینے کی کوشش کرے گا کہ ہم غفورورحیم ہیں سب بخش دیں گے چاہئے ہمارے احکامات اورقائم کردہ حدودکے خلاف کچھ بھی کرتے رہو،ایسانہیں ہے ہمارا ایک طریقہ کار ہے جوبدلہ نہیں جاتا۔

۔۔۔لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللهِ۔۔۔۝۰۝۶۴ۭ [39]

ترجمہ:اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ۔

نیک وبد،رات ودن ،پستی وبلندی برابر نہیں ہوسکتے یہ توپھر ہمارا عدل و انصاف نہ ہوا کہ نیک وبددونوں کوبرابرکر دیں لہذا پاکیزہ صاف ستھری،سادہ زندگی گزارنا، میں اپنی رحمت سے ہی جومیں اپنے اوپر ازخود واجب کرچکا ہوں اپنے ہدایت یافتہ منتخب پیغمبرجو تم میں سے انسان ہی ہوں گے بھیجوں گا میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ ا ن کی پیروی، تقلید،اتباع کرنا، سرتسلیم خم کردینا ،یہی ہماراسیدھا راستہ ہے میں ان پر اپنی کتابیں نازل کروں گاجن کےذ ریعہ سے وہ تمہیں صراط مستقیم اور ظلمت و گمراہی ، نیکی و بدی ،حق و باطل ، اعمال بدو صالح دونوں ہدایت کریں گے۔

 یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَـقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۵وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْهَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۶ [40]

ترجمہ:(اور یہ بات اللہ نے آغازِ تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ) اے بنی آدم ! یاد رکھو اگر تمہاے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے روّیہ کی اصلاح کر لے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ،اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اپنے نیک اعمال پر نظررکھنا اوران پر بھی مغرور نہ ہوجانا،اگرتم نیک اعمال کروگے تووہ ہماری ہی عطاکردہ توفیق ہوگئی،مگر ابلیس اس کوبطور پھندہ استعمال کرے گاتاکہ تم اپنے اعمال سے غافل ہوجاؤ،ہم تمہاری چندسانسوں سے عبارت طبعی زندگی کے بعد تم پرموت طاری کریں گے ،زمین وآسمان کا نظام اورجوکچھ اس کے درمیان ہے کی ایک خاص وقت تک کے لئے تقدیربنائی گئی ہے ، پھر ہم صور پھونکیں گے،ہمارے حکم کی تعمیل کے لئے ایک فرشتہ صورکومنہ سے لگائے تیارکھڑاہے،صورکی آوازسے سورج اور چاندلپیٹ کرڈال دیے جائیں گے اور پہاڑتک روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے،اس طرح تمام کائنات کانظام درہم برہم ہوجائے گا،پھرہم جب چاہیں گے تمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ زندہ کرکے ننگے پاؤں ننگے بدن اور بغیر ختنہ سفیدسرخی مائل ہموار زمین پرجمع کریں گے،اپنی طبعی زندگی میں تم نے جوکچھ بھی نیکی یابدی کی ہوگی تمہارے نامہ اعمال میں درج ہوگی جس کا وزن کرنے کے لئے ہم ترازو قائم کریں گے ،بروزحشرنامہ اعمال کے علاوہ بطورشہادت زمین اور تمہارے اعضاء بھی تمہارے خلاف گواہی دیں گے،ہم تمہارے نامہ ہائے اعمال کے مطابق پورا پورا انصاف کریں گے اورکسی کی حق تلفی نہیں ہوگی ،اس دن صرف نیکی یابرائی تمہارا سرمایہ ہوگا جوہم حاضر کر دیں گے اور اسی کے مطابق تمہارا مقام طے کیا جائے گا،تم میں سے ہر شخص سے میں بلا واسطہ بات کروں گا اور کسی کومجال نہیں ہوسکے گی کہ وہ ہمارے درمیان کچھ بول سکے گا، روز محشر ایماندار اشخاس پرجس کوہماری ملاقات کایقین کامل ہوگا کھڑا ہونا ہلکا پھلکا کردیا جائے گااور گمراہوں پر جواس دنیاکی عارضی زندگی میں ہی الجھ کررہے جائیں گے ،ابلیس کے ساتھ چلناپسندکریں گے اورآخرت کومحض ایک دھوکا فریب سمجھیں گے بوجھل کردیں گے، یادرکھنا کسی غلط فہمی میں نہ پڑجانا میرے حضور کسی کوکلام کرنے سفارش کرنے یاکھڑا ہونے کی کہ وہ اپنا کوئی حق،استحقاق جتلاسکے جرأت نہیں اس لئے کسی اورکا دامن نہ تھام لینا، شیطان کی چال میں نہ آجاناورنہ ظالموں میں سے ہو جاوگے، صراط مستقیم ہم نے تمہیں دکھادی ہے، اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ جنت خلدمیں جاناہے یاابلیس کے ہمراہ جہنم میں ،اگرتم نے ہماری ہدایات کے مطابق عمل کیا ہوگا تو اس کا انعام جنت ہوگا جوسونے اور چاندی کی اینٹوں سے تیار کی گئی ہے جس کی مٹی خوشبودار ہے جس میں ہر طرح کی نعمتیں یعنی جواہرات سے مزین کئی کئی منزلوں پر مشتمل محلات ، سرسبز سایہ دار شجرجس میں طرح طرح کے انوکھے ذائقوں والے پھل جن کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑی ہوں گی، فواروں کی طرح ابلتے ہوئے چشمے ہوں گے ،نفیس ونادرفرشوں پر سبز قالین بچھے ہوں گے جہاں تم مسند پر جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے تکیے لگاکر سونے چاندی کے کنگن پہن کربیٹھو گے ،پاکیزہ زندگی گزارنے کا انعام ہیرے اور موتیوں جیسی خوبصورت شرمیلی نگاہوں والی حوریں جن کونہ کسی انسان نے چھوا ہے نہ جن نے اور اس کے ساتھ مزید خوبصورت ہم سن بیویاں بھی ہوں گی، خوبصورت موتیوں اور ستاروں کی چمکتے ہوئے ہزاروں غلام جوخدمت کے لئے شیشے جیسے چمکدار چاندی کے آب خورے لئے ہوئے ہوں گے عطاکی جائیں گی ،ایسے مدہوش کرنے والے نظاروں میں تمہاری مسندوں کے چاروں طرف دودھ و شہد اورانواع واقسام کے ذائقوں والی میٹھے پانی کی نہریں ہوں گی،ہم تمہیں ایسی ایسی نعمتیں عطاکریں گے کہ تم ان سے عاجزہوجاؤگے ،اس کے علاوہ ہر وہ خواہش جو تم چاہوگے پوری کی جائے گی اورتمہاری ہرتمنادم توڑدے گی، موت کوایک دنبے کی شکل میں ذبح کردیاجائے گااورموت کاخوف نہ ہوگاپھرہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کادورشروع ہوگا ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ میری رضا، خوشنودی حاصل ہوگی اور ان سب نعمتوں سے بڑی نعمت تم لوگ ہمارا دیدار کرو گے،جس کے آگے ہرنعمت ہیچ ہوگی۔

۔۔۔فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی۝۱۲۳ [41]

ترجمہ:جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔

اور اگرہماری بتلائی ہوئی راہ سے اعراض کروگے اوراپنی من مانے طریقے سے زندگی گزارنے کی کوشش کرو گے توابلیس جس نے تمہیں بھٹکانے کے لئے ہم سے مہلت چاہی ہے وہ تمہیں راہ راست سے دورلے جاکرپھنکے گا اور اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم جو کافروں مشرکوں سرکشوں نافرمانوں کا ٹھکانہ ہوگی داخل کئے جاؤگے ، پاؤں کے بجائے منہ کے بل چل کر میدان حشرمیں آؤگے اس جہنم میں ایسی آگ ہوگی جو ہزاروں سال دھکاتے ہوئے سیاہ و تاریک ہوچکی ہوگی جس کا ایندھن انسان جنات اور پتھر ہوں گے، گلے میں طوق ڈال کر منہ کے بل سترسال کی بلندی سے گرادیاجائے گا اسی آگ میں تیرتے رہو گے جس میں نہ تم جی سکوگے نہ مر سکو گے تمہارے سروں پر گرم کھولتا ہو پانی گرایا جائے گاتمہیں پینے کے لئے ایسا پانی دیا جائے گا جو بدبودار ہوگا اور پیپ اور لہو کے مشابہ اور تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا جس سے تمہارا چہرہ جل جائے گااور سرکی کھال گر جائے گی ،یہ کھولتاہواپانی تمہاری انتڑیوں کوٹکڑے ٹکڑے کردے گا حتی کہ پشت سے نکل جائے گا ، کھانے کے لئے تھوہر ہوگا جسے نہ کھا سکو گے اور نہ اگل سکوگے یہ مہمانی تمہاری کی جائے گی کیاتم ایسی ضیافت کھاناپسندکروگے،صرف یہی نہیں بلکہ ہرلمحہ ایک نیا عذاب ہوگا اوروہ بڑھتا ہی رہے گا،اس کے علاوہ میں نے اپنے بندوں کے جو حقوق تمہارے ذمہ ڈالے ہیں ان پر خاص توجہ رکھنا ان کو غصب نہ کر نا وہ میں معاف نہیں کروں گاہاں اگرتم نے میری ذات و صفات میں سانجھی شرک نہ بنایا یا پھر بشری کمزوریوں سے جو گناہ، کوتاہیاں ، لغرشیں کروگے اورشرمندہ ہوکر عاجزی سے بخشش چاہو گے تو تمہارے تمام قصور چاہئے وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں اپنی رحمت سے معاف کردوں گا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللهَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱۰۴ [42]

ترجمہ:کیاان لوگوں کومعلوم نہیں کہ وہ اللہ ہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کوقبولیت عطافرماتاہے اوریہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والااوررحیم ہے۔ایک مقام پرفرمایا

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [43]

ترجمہ:اگرکوئی شخص برافعل کرگزرے یااپنے نفس پرظلم کرجائے اوراس کے بعداللہ سے درگزرکی درخواست کرےتواللہ کودرگزرکرنے والااوررحیم پائے گا۔

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللهِ مَتَابًا۝۷۱ [44]

ترجمہ:جوشخص توبہ کرکے نیک عملی اختیارکرتاہے وہ تواللہ کی طرف پلٹ آتاہےجیساکہ پلٹنے کاحق ہے۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [45]

ترجمہ:اےنبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دوکہ اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پرزیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤیقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے ،وہ توغفوررحیم ہے۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ،إِنَّ إِبْلِیسَ لَمَّا أُنْزِلَ إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: یَا رَبِّ أَنْزَلْتَنِی إِلَى الْأَرْضِ، وَجَعَلْتَنِی رَجِیمًا فَاجْعَلْ لِی بَیْتًا قَالَ: الْحَمَّامُ، قَالَ: فَاجْعَلْ لِی مَجْلِسًا؟ قَالَ: الْأَسْوَاقُ، وَمَجَامِعُ الطُّرُقِ، قَالَ: اجْعَلْ لِی طَعَامًا قَالَ: مَا لَا یُذْكَرُ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ، قَالَ: اجْعَلْ لِی شَرَابًا قَالَ: كُلُّ مُسْكِرٍ، قَالَ: اجْعَلْ لِی مُؤَذِّنًا؟قَالَ: الْمَزَامِیرُ، قَالَ: اجْعَلْ لِی قُرْآنًا قَالَ: الشِّعْرُ، قَالَ: اجْعَلْ لِی كِتَابًا قَالَ: الْوَسْمُ، قَالَ: اجْعَلْ لِی حَدِیثًا قَالَ: الْكَذِبُ،قال: اجعل لی رسولا ، قال: الكهانة، قَالَ: اجْعَلْ لِی مَصَایِدَ قَالَ: النِّسَاءُ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےجب شیطان زمین پراتراتواس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی اے میرے رب!تونے مجھے زمین پراتاردیاہے اورمجھے مردودٹھیرایاہے میراکوئی گھرمقررکر، فرمایا غسل خانہ،بولامیرے بیٹھنے کی جگہ کون سی ہوگی؟ فرمایابازاراورچوک،کہنے لگامیراکھاناکیاہوگا؟ فرمایاہروہ کھاناجسے کھاتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی جائے،بولااورمیرے پینے کی چیز کیاہوگی؟فرمایاہرنشہ آورچیز،کہنے لگااورمیراڈھنڈورچی (اعلان کرنے والا)کون ہوگا؟فرمایاسازباجے،بولامیری تلاوت مقررفرما؟ فرمایا(برے)شعر،شیطان نے کہامیری تحریرکیاہوگی ؟فرمایا انسانی جسم میں گودکراس میں سرمہ بھرنا، بولااورمیری باتیں کیاہوں گی؟فرمایاجھوٹ ، اور کہا میراپیغام رساں کون ہوگا؟فرمایانجومی،اورکہامیراجال کون ساہوگا؟ فرمایاعورتیں ۔[46]

یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِی أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِیَّایَ فَارْهَبُونِ ‎﴿٤٠﴾‏ وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ ‎﴿٤١﴾‏ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِینَ ‎﴿٤٣﴾‏ ۞ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَیْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿٤٦﴾‏(البقرة)
’’اےبنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو،اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو،اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے، اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو،کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ؟اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہےمگر ڈر رکھنے والوں پر جو جانتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

یہودکوعرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اورعلم ومذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھااس لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان پرجو انعامات کیے تھے ان کے بارے میں فرمایااے میرے صالح اورفرمانبرداربندے یعقوب علیہ السلام کی اولاد!میری اس نعمت کاخیال کروجومیں نے تم کوعطاکی تھی،

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ: فِی قَوْلِهِ: {اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ}قَالَ: نِعْمَتُهُ أَنْ جَعَلَ مِنْهُمُ الْأَنْبِیَاءَ وَالرُّسُلَ، وَأَنْزَلَ عَلَیْهِمُ الْكُتُبَ

ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ان پراللہ تعالیٰ کی نعمت یہ تھی کہ اس نے ان میں سے انبیاء اور رسول بنائے اوران پرکتابیں نازل فرمائیں ۔ [47]

عَنْ مُجَاهِدٍ: {اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ} یَعْنِی نِعْمَتَهُ الَّتِی أَنْعَمَ عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ فِیمَا سَمَّى وَفِیمَا سِوَى ذَلِكَ، فَجَّرَ لَهُمُ الْحَجَرَ، وَأَنْزَلَ عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى، وَأَنْجَاهُمْ عَنْ عُبُودِیَّةِ آلِ فِرْعَوْنَ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان پرایک نعمت تویہ کی تھی جس کایہاں ذکرکیاہے اوراس کے علاوہ ان پریہ احسان فرمایاکہ ان کے لیے پتھرسے پانی نکال دیاآسمان سے من وسلوی نازل کیااورآل فرعون کی غلامی سے انہیں نجات بخشی۔[48]

جیسے موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں فرمایاتھا

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝۰ۤۖ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۰ [49]

ترجمہ:یادکروجب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاتھاکہ اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی اس نعمت کاخیال کروجواس نے تمہیں عطاکی تھی،اس نے تم میں نبی پیداکیے ،تم کوفرماں روابنایااورتم کووہ کچھ دیاجودنیامیں کسی کونہ دیاتھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ}أَیْ آلَائِی عِنْدَكُمْ وَعِنْدَ آبَائِكُمْ لِمَا كَانَ نَجَّاهُمْ بِهِ مِنْ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ

محمدبن اسحاق نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت ’’میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے کہ جب میں نے تمہیں اورتمہارے آباء واجدادکوفرعون اوراس کی قوم سے نجات دی توتم پرمیرایہ ایک بڑا احسان تھا۔[50]

تم میراوہ عہدپوراکرو تو میں بھی اپناعہدپوراکروں گا اس عہدسے مرادوہ عہدہے جس کااللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکرفرمایاہے

وَلَقَدْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا۝۰ۭ وَقَالَ اللهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ۝۰ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِیْلِ۝۱۲ [51]

ترجمہ: اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰة دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری بُرائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کر دی۔

اورمجھ ہی سے تم ڈروکہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت وادبارمیں مبتلارکھ سکتاہوں جس میں تم بھی مبتلاہواورتمہارے آباؤاجدادبھی مبتلارہے تھے، اورخاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران پر جو کتاب نازل کی ہے اس پرایمان لاؤاوراس کااتباع کرو،میری اس آخری کتاب قرآن مجیدسے نصیحت حاصل کروجس سے وہ تمہیں منع کرے اس سے اجتناب کرواورجن باتوں کاحکم دے انہیں صدق دل سے بجالاؤ،یہ جلیل القدرقرآن پہلی منزل کتابوں تورات وانجیل ،زبور اورصحف ابراہیم کی تائیداور تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہارے اس پرایمان لانے سے کوئی چیزمانع نہیں ہےاگراس پرایمان نہیں لاؤگے تو بعدمیں آنے والے ان لوگوں کے کفرکاوبال تم پرپڑے گا،اوراحکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کواہمیت نہ دواورمیرے غضب سے بچو،باطل کارنگ چڑھاکرحق کومشتبہ نہ بناؤاور جانتے بوجھتے حق کوچھپانے کی کوشش نہ کرو،اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اورشریرانہ شبہات واعتراضات سے حق کودبانے اورچھپانے کی کوشش نہ کرواورحق وباطل کوسچ اورجھوٹ کوغلط ملط کرکے دنیاکودھوکانہ دو،اللہ کی یادکے لئےنمازکانظام قائم کرو،اپنے پاکیزہ اموال سے مستحقین کوزکوٰة دواورامت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےجولوگ میری بارگاہ میں قیام ، رکوع وسجودکر رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ نمازپڑھو،تم دوسروں کوتوتقویٰ ، طہارت اورپاکیزگی کا راستہ اختیارکرنے کے لیے کہتے ہومگرخوداعمال صالحہ اختیارنہیں کرتےحالانکہ تم تورات وانجیل کی تلاوت کرتے ہو ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ [52]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ , فِی قَوْلِهِ تَعَالَى {أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ , وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ} قَالَ:كَانَ بَنُو إِسْرَائِیلَ یَأْمُرُونَ النَّاسَ بِطَاعَةِ اللهِ وَبِتَقْوَاهُ بِالْبِرِّ , وَهُمْ مُخَالِفُونَ ذَلِكَ , فَعَیَّرَهُمُ اللهُ بِهِ

عبدالرزاق نے معمرکے واسطے سے قتادہ رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان’’کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے کہ نبی اسرائیل لوگوں کوتواللہ کی اطاعت،تقویٰ اورنیکی اختیارکرنے کاحکم دیتے تھے اورخوداس کی مخالفت کرتے تھے،اس پراللہ تعالیٰ نے انہیں عاردلائی۔[53]

 قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: {أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ} أَهْلُ الْكِتَابِ وَالْمُنَافِقُونَ كَانُوا یَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ، وَیَدْعُونَ الْعَمَلَ بِمَا یَأْمُرُونَ بِهِ النَّاسَ، فَعَیَّرَهُمُ اللهُ بِذَلِكَ، فَمَنْ أَمَرَ بِخَیْرٍ فَلْیَكُنْ أَشَدَّ النَّاسِ فِیهِ مُسَارَعَةً

ابن جریج رحمہ اللہ نے اس آیت’’کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو۔‘‘ کی تفسیرمیں کہاہے کہ اہل کتاب اورمنافقین لوگوں کوتونما،روزے کاحکم دیتے تھے مگرخودعمل نہیں کرتے تھے ،اس پراللہ تعالیٰ نے انہیں عاردلائی ہے لہذاجوشخص نیکی کاحکم دے اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خوداس پرعمل کرے۔[54]

جیسے شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاتھا

۔۔۔وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰی مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ۝۰ۭ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۝۰ۭ وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللهِ۝۰ۭ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ۝۸۸ [55]

ترجمہ:اورمیں ہرگزیہ نہیں چاہتاکہ جن باتوں سے میں تم کوروکتاہوں ان کاخودارتکاب کروں ،میں تواصلاح کرناچاہتاہوں جہاں تک میرابس چلے اورجوکچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کاساراانحصاراللہ کی توفیق پرہے،اسی پرمیں نے بھروسہ کیااورہرمعاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتاہوں ۔

یُجَاءُ بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُلْقَى فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ بِهِ أَقْتَابُهُ، فَیَدُورُ بِهَا فِی النَّارِ كَمَا یَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ،فَیُطِیفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ فَیَقُولُونَ: یَا فُلَانُ مَا لَكَ؟ مَا أَصَابَكَ؟ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ؟فَقَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِیهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِیهِ

اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روزایک شخص کولا کر جہنم میں ڈالاجائے گااس کی آنتیں نکل آئیں گی اوروہ اس کے اردگردچکرکھاتارہے گاجیسے گدھا چکی کے اردگرد چکر لگاتا ہے،جہنمی جمع ہو کر اس سے کہیں گے کہ آپ توہمیں اچھی باتوں کاحکم کرنے والے اوربرائیوں سے روکنے والے تھے،یہ آپ کی کیاحالت ہے ؟ وہ کہے گاافسوس! میں تمہیں نیکی کا کہہ کر خودنہیں کرتاتھامیں تمہیں برائی سے روک کرخودکیا کرتاتھا۔[56]

کیاتم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟اپنی مشکلات ومصائب میں صبراورنمازسے مددلو،

عَنْ حُذَیْفَةَ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ، صَلَّى

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی مشکل آن پڑتی توآپ فوراًنمازمیں لگ جاتے۔[57]

بیشک نمازکی پابندی ایک سخت مشکل کام ہے مگران فرماں بردار بندوں کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے جوسمجھتے ہیں کہ آخرکارانہیں اپنے رب سے ملناہے اوراسی کی طرف پلٹ کرجاناہے۔جیسے ایک مقام پراس شخص کاقول بیان فرمایاگیاہے جسے اس کانامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیاجائے گاتووہ خوشی سے پکارکر کہے گا

اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ۝۲۰ۚ [58]

ترجمہ:میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ:فَیَلْقَى الْعَبْدَ، فَیَقُولُ: أَیْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَیْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟ فَیَقُولُ: بَلَى،قَالَ: فَیَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِیَّ؟فَیَقُولُ: لَا، فَیَقُولُ:فَإِنِّی أَنْسَاكَ كَمَا نَسِیتَنِی، ثُمَّ یَلْقَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن ایک گنہگاربندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گااے فلاں ! بھلامیں نے تجھ کوعزت نہیں دی اورتجھ کو سردار نہیں بنایااورتجھ کوتیراجوڑانہیں دیااورگھوڑوں اوراونٹوں کوتیراتابع نہیں کیااورتجھ کوچھوڑا کہ تواپنی قوم کی ریاست کرے اور چوتھائی حصہ لے،توبندہ کہے گاسچ ہے اے میرے رب!پھراللہ تعالیٰ فرمائے گابھلاتجھ کومعلوم تھاکہ تومجھ سے ملے گا؟توبندہ کہے گاکہ نہیں ،پھراللہ تعالیٰ فرمائے گاپس جس طرح تو دنیامیں مجھے بھول گیاتھاآج میں بھی جہنم میں ڈال کرتجھے بھلادیتا ہوں ۔[59]

‏ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَأَنِّی فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَاتَّقُوا یَوْمًا لَّا تَجْزِی نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْئًا وَلَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ یُنصَرُونَ ‎﴿٤٨﴾‏(البقرة)
 ’’اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ، اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اس کی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔‘‘

اے بنی اسرائیل!یادکرومیری اس نعمت کوجس سے میں نے تمہیں نوازاتھااوراس بات کوکہ میں نے تمہیں اس زمانےکی ساری قوموں پرفضیلت عطاکی تھی تاکہ تم اللہ تعالیٰ کاپیغام دنیامیں پھیلاؤ۔

وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۳۲ۚ [60]

ترجمہ:اور ان کی حالت جانتے ہوئے ان کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝۰ۤۖ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۰ [61]

ترجمہ:یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی، اس نے تم میں نبی پیدا کیے ، تم کو فرماں روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔

نعمتوں کوبیان کرنے کے بعدعذابوں سے ڈرایاکہ اس بڑے اورسخت دن سے ڈرو جب نفسانفسی کاعالم ہوگااورباپ بیٹے کواوربیٹاباپ کوکچھ فائدہ نہیں پہنچاسکے گااگرچہ یہ انبیائے کرام اورصالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں ،جیسے فرمایا

 لِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ [62]

ترجمہ:اِن میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا۔

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔۔۔ ۝۱۶۴ [63]

ترجمہ:کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ۝۰ۡوَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـیْـــــًٔا۔ ۝۳۳ [64]

ترجمہ: لوگو!بچواپنے رب کے غضب سے اورڈرواس دن سے جب کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گااورنہ کوئی بیٹاہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والاہوگا۔

نہ ان کی کوئی سفارش کرے گااورنہ اس کی سفارش قبول ہوگی،جیسے جہنمیوں کے بارے میں فرمایا

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ۝۱۰۰ۙوَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ۝۱۰۱ [65]

ترجمہ:اب نہ ہماراکوئی سفارشی ہے اورنہ کوئی جگری دوست۔

ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہوگی جس کواللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گااورجس کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی اس کوبھی پسندکرتاہوگا،اوراگرمجرم زمین بھرکاسونافدیہ میں دے کر عذابوں سے چھٹکاراحاصل کرچاہیں گے توقبول نہیں کیاجائے گا۔

وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۔۔۔۝۴۷ [66]

ترجمہ:اگر اِن ظالموں کے پاس زمین کی ساری دولت بھی ہو اور اتنی ہی اور بھی ، تو یہ ر وزِ قیامت کے بُرے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیے میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔

مگرفدیہ قبول نہیں کیاجائے گا اور یہ دردناک عذابوں میں مبتلارہیں گے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ۝۰ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۳۶ [67]

ترجمہ:خوب جان لوکہ جن لوگوں نے کفرکارویہ اختیارکیاہے اگران کے قبضہ میں ساری زمین کی دولت ہواوراتنی ہی اوراس کے ساتھ ،اوروہ چاہیں کہ اسے فدیہ میں دے کرروزقیامت کے عذاب سے بچ جائیں ،تب بھی وہ ان سے قبول نہ کی جائے گی اورانہیں دردناک سزامل کررہے گی ۔

۔۔۔وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَا۔۔۔۝۰۝۷۰ۧ [68]

ترجمہ:اوراگروہ ہرممکن چیزفدیہ میں دے کرچھوٹناچاہے تووہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے۔

فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ۝۰ۭ هِىَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۱۵ [69]

ترجمہ:لہذاآج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیاجائے گااورنہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلاکفرکیاتھا،تمہاراٹھکاناجہنم ہے ،وہی تمہاری خبرگیری کرنے والی ہے اوریہ بدترین انجام ہے۔

قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خِلٰلٌ۝۳۱ [70]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ان سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں ) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہو سکے گی۔

اورنہ مجرموں کوکہیں سے کسی طرح سے مدد مل سکے گی۔جیسے فرمایا

فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ [71]

ترجمہ:اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا۔

پس یہ چیز بندے پرواجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اورامیدکومنقطع کردےکیونکہ مخلوق اسے ذرہ بھرنفع پہنچانے پرقادرنہیں اوراللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کوجوڑے جونفع پہنچانے والااورتکالیف کودورکرنے والاہے ،پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کاکوئی شریک نہیں اوراس کی عبادت پراسی سے مددطلب کرے۔

وَإِذْ نَجَّیْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِی ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِیمٌ ‎﴿٤٩﴾‏ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَیْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏(البقرة)
’’اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی ،اور جب ہم نے تمہارے لیے دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کردیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔‘‘

احسانات کی یاددہانی :

یادکرووہ وقت جب ہم نے تم کوسرکش فرعون اوراس کے ظالم سرداروں کی غلامی سے موسی علیہ السلام کے رفاقت میں ان کے ہاتھوں سے نجات بخشی جو تمہیں ذلت آمیز عذاب میں مبتلاکررکھتے تھے،وہ تمہارے لڑکوں کوذبح کرتے تھے اورتمہاری لڑکیوں کوزندہ رہنے دیتے تھے تاکہ تم قوت حاصل نہ کرسکواوراس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔یَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ویُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِیْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۝۶ۧ [72]

ترجمہ:تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔

اس کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے

وَذَلِكَ أَنَّ فِرْعَوْنَ -لَعَنَهُ اللهُ-كَانَ قَدْ رَأَى رُؤْیَا هَالَتْهُ، رَأَى نَارًا خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَدَخَلَتْ دُورَ الْقِبْطِ بِبِلَادِ مِصْرَ، إِلَّا بُیُوتَ بَنِی إِسْرَائِیلَ، مَضْمُونُهَا أَنَّ زَوَالَ مُلْكِهِ یَكُونُ عَلَى یَدَیْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ،وَیُقَالُ: بَلْ تَحْدَّثَ سُمَّارُهُ عِنْدَهُ بِأَنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ یَتَوَقَّعُونَ خُرُوجَ رَجُلٍ مِنْهُمْ، یَكُونُ لَهُمْ بِهِ دَوْلَةٌ وَرِفْعَةٌ، فَعِنْدَ ذَلِكَ أَمْرَ فِرْعَوْنُ -لَعَنَهُ اللهُ-بِقَتْلِ كُلِّ [ذِی] ذَكر یُولَدُ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَأَنْ تُتْرَكَ الْبَنَاتُ، وَأَمَرَ بِاسْتِعْمَالِ بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی مَشَاقِّ الْأَعْمَالِ وَأَرَاذِلِهَا

فرعون لَعَنَهُ اللهُ نے ایک خواب دیکھاجس سے وہ ڈرگیاکہ بیت المقدس سے ایک آگ نکل کرمصرپہنچی اورقبطیوں کے گھروں میں توداخل ہوگئی مگربنی اسرائیل کے گھروں میں داخل نہ ہوئی، جس کی تعبیرتھی کہ اس کی حکومت کازوال بنی اسرائیل کے ایک شخص کے ہاتھوں ہوگا، یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ قصہ گولوگوں نے اسے بتایاکہ بنی اسرائیل اپنے ہاں ایک ایسے شخص کے پیداہونے کاانتظارکررہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں حکومت اورعظمت وشوکت حاصل ہوگی، اس موقع پرفرعون ے یہ حکم دیاکہ آج کے بعدبنی اسرائیل میں جولڑکابھی پیداہواسے قتل کردیاجائے اورلڑکیوں کوچھوڑدیاجائے،اوریہ بھی حکم دیاکہ بنی اسرائیل کومشقت والے اوررزیل کاموں میں استعمال کیا جائے ۔ [73]

یادکرووہ وقت جب ہم نے سمندرپھاڑکر تمہارے لیے خشک راستہ بنایاپھراس میں سے تمہیں بخیرت گزروادیاپھرجب تم کنارے پر پہنچ گئے توتمہاری آنکھوں کے سامنے فرعون اوراس کے سرداروں کوغرقاب کیا۔تاکہ اس سے تمہارے سینوں کوزیادہ تسکین حاصل ہواورتمہارے دشمن کے لیے یہ صورت حال زیادہ توہین آمیزہو، اس واقعہ کو ایک مقام پریوں بیان فرمایا

فَاَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۝۰ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۝۶۳ۚوَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ۝۶۴ۚوَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗٓ اَجْمَعِیْنَ۝۶۵ۚثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ۝۶۶ۭ [74]

ترجمہ:ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ مار اپنا عصا سمند پر، یکا یک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا،اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے،موسیٰ اور ان سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیااور دوسروں کو غرق کر دیا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ فَرَأَى الیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ،فَقَالَ:مَا هَذَا؟قَالُوا: هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللهُ بَنِی إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ،فَصَامَهُ مُوسَى،قَالَ:فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ،فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے تو(دوسرے سال)دیکھاکہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کیسادن ہے جس کاتم روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے بتایاکہ یہ ایک مبارک دن ہے،اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کوان کے دشمن ( فرعون کے ظلم سے) نجات دلائی تھی،اوراسے غرق کردیاتھااس لئےشکریہ میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر موسیٰ علیہ السلام کے(شریک مسرت ہونے میں )ہم تم سے زیادہ حقدارہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی روزہ رکھنے کاحکم دیا۔[75]

‏ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿٥١﴾‏ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ (البقرة(
’’ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کردیا اور ظالم بن گئے لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کردیا تاکہ تم شکر کرو، اور ہم نے(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کو تمہاری ہدایت کے لیے کتاب اور معجزے عطا فرمائے۔‘‘

یادکروجب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد ہم نے موسیٰ کوچالیس شبانہ روزکے لئے کوہ طور پربلایا،جیسے فرمایا

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً۔۔۔۝۰۝۱۴۲ [76]

ترجمہ:ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہِ سینا پر ) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدّت پورے چالیس دن ہوگئی۔

بحیرہ قلزم کوعبورکرنے کے بعدجب بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سیناپہنچے تواللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوبنی اسرائیل کے لئےقوانین شریعت اورعملی زندگی کی ہدایات عطاکرنے کے لئے چالیس شب وروز کے لئےکوہ طورپرطلب کیا جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۝۴۳ [77]

ترجمہ:پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی ، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بنا کر ، ہدایت اور رحمت بنا کر تاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں ۔

توہارون علیہ السلام کی موجودگی کے باوجود تم سامری کے پیچھے لگ کربچھڑے کواپنامعبودبنابیٹھے،اس وقت تم نے ظلم عظیم کیاتھا مگراس پر بھی ہم نے تمہارے کفرکوبخش دیاکہ شایداب تم اپنے رب کے شکرگزار بندےبنو، یادکروکہ ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھےہم نے موسیٰ کوتورات عطاکی جوحق وباطل اورہدایت وضلالت میں فرق کونمایاں کرنے والی تھی تاکہ تم اس کے ذریعے سے راہ راست اختیارکرسکو۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ یَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿٥٤﴾‏ وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ (البقرة)
’’جب(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے،اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے دیکھتے ہوئے بجلی گری لیکن پھر اس لیے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کردیا ۔‘‘

یادکروجب موسیٰ(یہ عظیم نعمت لیے ہوئے واپس پلٹاتواس) نے اپنی قوم سے کہاکہ لوگو!تم نے بچھڑے کومعبودبناکراپنی جانوں پرسخت ظلم کیاہے لہذاتم لوگ اپنے خالق کے حضورتوبہ واستغفار کرواورشرک کاارتکاب کرنے والوں کوقتل کردو اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے،

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِهِ: {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ یَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظُلِمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ} [78] فَقَالَ ذَلِكَ حِینَ وَقَعَ فِی قُلُوبِهِمْ مِنْ شَأْنِ عِبَادَتِهِمُ الْعِجْلَ مَا وَقَعَ، وَحِینَ قَالَ اللَّهُ: {وَلَمَّا سُقِطَ فِی أَیْدِیهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِنْ لَمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا}[79] قَالَ: فَذَلِكَ حِینَ قَالَ مُوسَى: {یَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ}            [80]

حسن بصری رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ موسیٰ نے یہ ان سے اس وقت فرمایا تھاجب ان کے دلوں میں یہ احساس پیداہواکہ بچھڑے کی عبادت کرکے وہ سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ،جیسے اللہ تعالیٰ کافرمانا ہے’’پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلِسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے۔‘‘ تواس موقع پرموسی علیہ السلام نے ان سے کہا’’اے قوم کے لوگو!تم نے بچھڑے کومعبودبناکراپنے اوپرسخت ظلم کیاہے۔‘‘[81]

چنانچہ شرک سے محفوظ رہنے والوں نے مشرکوں کوقتل کردیا،

وَقَامَ الَّذِینَ لَمْ یَعْكُفُوا عَلَى الْعِجْلِ، فَأَخَذُوا الْخَنَاجِرَ بِأَیْدِیهِمْ، وَأَصَابَتْهُمْ ظُلَّة شَدِیدَةٌ، فَجَعَلَ یَقْتُلُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَانْجَلَتِ الظلَّة عَنْهُمْ، وَقَدْ أَجْلَوْا عَنْ سَبْعِینَ أَلْفَ قَتِیل

مروی ہےجن جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی انہیں بٹھادیاگیااوردوسرے لوگ کھڑے ہوگئے اور شرک کرنے والوں کوقتل کرناشروع کردیا،قدرتی طور پر اندھیراچھایاہواتھاجب ختم ہواتوقتل کرنے والوں کو قتل کرنے سے روک دیاگیا،جب مقتولوں کو شمار کیا گیا تو ستر ہزار آدمی قتل ہوچکے ہیں ۔[82]

پھراس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑامعاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے،یادکروجب موسیٰ علیہ السلام وعدے کے مطابق قوم کےستربرگزیدہ آدمیوں کوساتھ لے کرکوہ طورپرتورات لینے کے لئے گئے،تورات لینے کے بعدجب موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو تم نے موسیٰ سے نیا مطالبہ کردیاکہ جب تک کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کوتم سے کلام کرتےنہ دیکھ لیں ہم تیری بات کاہرگزیقین نہ کریں گے،اس گستاخانہ سوال پر تمہارے دیکھتے دیکھتے بطورعذاب آسمان سے بجلی تم پرآگری اورتم سب موت کی آغوش میں چلےگئے،موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے کہ واپس جاکرقوم کوکیاجواب دیں گے،چنانچہ موسیٰ علیہ السلام خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی زندگی کے لئے گریہ وزاری کرنے لگے۔

 فَلَمَّآ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ۝۰ۭ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ مِنَّا۝۰ۚ اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ۝۰ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِیْ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ۝۱۵۵وَاكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَـنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَآ اِلَیْكَ۝۰ۭ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ۝۰ۚ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ۚ [83]

ترجمہ: جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آپکڑا تو موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار! آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے ،کیا آپ اس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے ؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ،ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں ،اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی ، ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا ،جواب میں ارشاد ہواسزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہےاور اُسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے ، زکوٰة دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعاکوقبول فرمایا اور تم کودوبارہ زندگی بخش دی شایدکہ اس احسان کے بعدتم شکرگزاربن جاؤ۔

وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٥٧﴾‏وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَایَاكُمْ ۚ وَسَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا یَفْسُقُونَ ‎﴿٥٩﴾(البقرة)
’’اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلوا اتارا (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھا ؤ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے، اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو اور زبان سے حِطَّةٌ حِطَّةٌ کہو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے، پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔‘‘

جب سفرکرتے ہوئے بنی اسرائیل صحرائے سینا(جسے آجکل جبل موسیٰ کہتے ہیں )میں اترے تووہاں ان کوصحراکی چلچلاتی دھوپ سے بچاؤ ،خوراک اورپانی کامسئلہ پیدا ہوا، ان شدیدحالات میں جہاں دھوپ سے بچاؤکے لئے کوئی جائے پناہ تمہیں میسرنہ تھی ہم نے تم پرسایہ کرنے کے لئے آسمان کوابرالودرکھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ثُمَّ ظَلَّلَ عَلَیْهِمْ فِی التِّیهِ بِالْغَمَامِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پھراللہ تعالیٰ نے ان پرتیہ میں بادلوں کاسایہ کردیا۔[84]

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ} قَالَ:كَانَ هَذَا فِی الْبَرِیَّةِ، ظُلَلُ الْغَمَامِ مِنَ الشَّمْسِ

قتادہ رحمہ اللہ آیت’’ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا ۔‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پرجنگل میں بادل کاسایہ کردیاتاکہ دھوپ سے بچ سکیں ۔[85]

قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: قَالَ آخَرُونَ:هُوَ غَمَامٌ أَبْرَدُ مِنْ هَذَا وَأَطْیَبُ

ابن جریج بعض دیگرمفسرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ ایک بہت ہی ٹھنڈااورپاکیزہ بادل تھا۔[86]

اس صحرامیں جہاں کوکوئی خوراک میسرنہیں تھی تمہاری خوراک کے لئے چالیس برس تک من وسلویٰ فراہم کیاجوبغیرکسی دقت کے تم تک پہنچ جاتاتھا ،من دھنیے کے بیج جیسی ایک چیزتھی جواوس کی طرح گرتی اورزمین پرجم جاتی تھی ،

عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ الْمَنُّ یَنْزِلُ عَلَیْهِمْ بِاللیْلِ عَلَى الْأَشْجَارِ فَیَغْدُونَ إِلَیْهِ فَیَأْكُلُونَ مِنْهُ مَا شَاءُوا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان کے لیے مَنَّ درختوں پررات کے وقت نازل ہوتاتھا،وہ صبح کے وقت جاتے اورجس قدرچاہتے کھالیتے تھے ۔[87]

عَنْ قَتَادَةَ، فِی قَوْلِ اللهِ {وَأَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ}قَالَ: كَانَ الْمَنُّ یَسْقُطُ عَلَیْهِمْ فِی مَحِلَّتِهِمُ، سُقُوطُ الثَّلْجِ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، یَسْقُطُ عَلَیْهِمْ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ، إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، یَأْخُذُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ قَدْرَ مَا یَكْفِیهِ یَوْمَهُ ذَلِكَ، فَإِذَا تَعَدَّى ذَلِكَ فَسَدَ وَلَمْ یَبْقَ، حَتَّى إِذَا كَانَ یَوْمُ سَادِسِهِ لِیَوْمِ جِمْعَتِهِ أَخَذَ مَا یَكْفِیهِ لِیَوْمِ سَادِسِهِ وَیَوْمِ سَابِعِهِ؛ لِأَنَّهُ كَانَ یَوْمَ عِیدٍ لَا یَشْخَصُ فِیهِ لِأَمْرِ مَعِیشَتِهِ، وَلَا لِشَیْءٍ یَطْلُبُهُ، وَهَذَا كُلُّهُ فِی الْبَرِیَّةِ

قتادہ رحمہ اللہ آیت ’’اورتمہارے لیےمن وسلویٰ کی غذا فراہم کی ۔‘‘کی بارے میں فرماتے ہیں کہ مَنَّ ان کے گھروں ہی میں اس طرح نازل ہوتاتھاجس طرح برف باری ہوتی ہے،یہ دودھ سے زیادہ سفیداورشہدسے زیادہ میٹھاتھااورطلوع فجرسے طلوع آفتاب تک نازل ہوتاتھا اوران میں سے ہرشخص دن بھرکی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیتاتھا اگرکوئی اس سے زیادہ لے لیتاتویہ خراب ہوجاتااورکھانے کے قابل نہ رہتاتھا،ہاں البتہ چھٹے دن یعنی جمعے کے دن وہ اس قدرلے سکتے تھے جوچھٹے اورساتویں یعنی جمعے اورہفتے کے دونوں دنوں کے لیے کافی ہوتاکیونکہ ہفتے کادن ان کی عیدکا دن تھااوراس دن سب کاموں کی چھٹی ہوتی تھی،یہ سارے انعامات جنگل ہی میں پیش آتے تھے۔[88]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الكَمْأَةُ مِنَ المَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکھنبی ،من کی قسم سے ہے اوراس کاپانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔[89]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ، وَالعَجْوَةُ مِنَ الجَنَّةِ وَهِیَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکھنبی ، من،میں سے ہے اوراس کا پانی آنکھ کے دردکی دواہے،اورعجوہ جومدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہےوہ جنتی چیزہے اوراس میں زہرکاتریاق ہے ۔[90]

اورسلویٰ ایک چھوٹاساپرندہ تھا جسے سمانی(ایک قسم کی بٹیر) کہاجاتاہےاس کاگوشت بہت لذیذہوتاہے،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:السَّلْوَى طَائِرٌ شَیْبِهٌ بِالسُّمَانَى، كَانُوا یَأْكُلُونَ مِنْهُ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ سلوی بٹیرکے مشابہ ایک پرندہ تھاجسے وہ کھاتے تھے۔ [91]

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {وَالسَّلْوَى} قَالَ: كَانَ السَّلْوَى مِنْ طَیْرٍ إِلَى الْحُمْرَةِ یَحْشُرُهَا عَلَیْهِمُ الرِّیحُ الْجَنُوبُ، فَكَانَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ یَذْبَحُ مِنْهَا قَدْرَ مَا یَكْفِیهِ یَوْمَهُ ذَلِكَ، فَإِذَا تَعَدَّى فَسَدَ وَلَمْ یَبْقَ عِنْدَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ یَوْمُ سَادِسِهِ لِیَوْمِ جُمْعَتِهِ أَخَذَ مَا یَكْفِیهِ لِیَوْمِ سَادِسِهِ وَیَوْمِ سَابِعِهِ؛ لِأَنَّهُ كَانَ یَوْمَ عِبَادَةٍ لَا یَشْخَصُ فِیهِ لِشَیْءٍ وَلَا یَطْلُبُهُ

قتادہ رحمہ اللہ کاقول ہے سلوی، چنڈول (چڑیا)کی طرح کاایک سرخی مائل رنگ کا پرندہ تھا ، جنوب کی طرف سے ہواچلتی تووہ ڈھیرلگادیتی، آدمی اپنی دن بھرکی ضرورت کے مطابق ذبح کرلیتاتھااوراگروہ ضرورت سے زیادہ جمع کرتاتوخراب ہوجاتاتھااورکھانے کے قابل نہیں رہتاتھا،ہاں البتہ چھٹے دن یعنی جمعے کے دن وہ اس قدرذبح کرسکتے تھے جوچھٹے اور ساتویں یعنی جمعے اورہفتے کے دونوں دنوں کے لیے کافی ہوں کیونکہ ہفتے کادن عبادت کادن تھااوراس دن عبادت کے سوادیگرتمام کاموں کی چھٹی ہوتی تھی۔[92]

پس یہ من اورسلویٰ اس مقدارمیں ان پراترتے کہ ان کی خوراک کے لئے کافی ہوتے اورتم سے کہاکہ جوپاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں کھاؤاورحرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوزمت کرومگرتمہارے اسلاف نے جوکچھ کیاوہ ہم پرظلم نہ تھابلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپرظلم کیا،مگریہودان کمال مہربانیوں کے باوجوداللہ کا شکر کرنے کے بجائے خوش نہیں تھے،پھراللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ یہ بستی جوتمہارے سامنے ہے اس میں داخل ہوجاؤ،یہ بستی تمہارے لئے باعث عزت اورمسکن ہوگی ،اوراس کی پیداوارجس طرح چاہومزے سے کھاؤ،مگربستی کے دروازے میں سجدہ ریزہوتے ہوئے داخل ہونااورکہتے جانا حِطَّةٌ حِطَّةٌ (اس لفظ کے دومعنی ٰ ہیں ایک یہ کہ اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے جانا،دوسرے یہ کہ لوٹ ماراورقتل عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگزراورعام معافی کااعلان کرتے جانا)یعنی بارگاہ الٰہی میں عجزوانکساری کااظہارکرتے ،اپنے پرانے گناہوں سے مغفرت چاہتے، اعتراف شکرکرتے اوراللہ کی حمدوثنابیان کرتے ہوئے داخل ہونا،تمہارے مغفرت کے سوال پرہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گے اورنیکوکاروں کودنیاوآخرت میں مزید فضل وکرم سے نوازیں گے، مگریہاں بھی بنی اسرائیل نفس کے بندے نکلے،ان کے اخلاق وکرداراپنے زوال پذیرہوچکے تھے ،ان کی سرتابی اورسرکشی اتنی بڑھ چکی تھی کہ اتنے احسانات اوررحم وکرم کرنے پربھی انہوں نے احکام الٰہی سے تمسخرواستہزاکامظاہرہ کرتےہوئےحِطَّةٌ حِطَّةٌ کا جولفظ انہیں بولنے کوکہاگیاتھااسے بدل کرحَبَّةٌ فِی شَعْرَةٍ(دانہ بالی کے اندر ہوناچاہیے)کہنے لگے اور سجدہ کرتے ہوئے اندرداخل ہونے کے بجائے فرعونیوں کی طرح شورشرابہ،نعرے بازی،گانے بجاے الغرض ہرطرح کی نامعقولات حرکتیں کرتے ہوئے

فَدَخَلُوا یَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ

سرینوں کوزمین پرگھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے۔[93]

قَالَ عِكْرِمَةُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَدَخَلُوا عَلَى شِقٍّ

عکرمہ رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اس حکم پرعمل کے بجائے وہ کروٹ کے بل داخل ہوئے۔[94]

عَنِ السُّدِّیِّ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْأَزْدِیِّ، عَنْ أَبِی الْكَنُودِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قِیلَ لَهُمْ:ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا، فَدَخَلُوا مُقْنِعِی رُءُوسِهِمْ

سدی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ انہیں حکم تویہ تھاکہ وہ اپنے سروں کوعاجزی وانکساری کااظہارکرتے ہوئےجھکائے دروازے سے داخل ہوں مگروہ اس کے برعکس سروں کواوپراٹھائے ہوئے داخل ہوئے۔[95]

بنی اسرائیل متواترگناہ گاراورنافرمان توتھے ہی لیکن رب نے انہیں پھربھی نعمتوں اورفضل سے نوازتا رہا ، انہیں راہ راست پرلانے کے لئے کبھی ان پرسختی کرتااورکبھی نرمی،یوں حالات میں اتارچڑھاؤآتا رہا اور رب کریم ان کوشکراداکرنے کاموقعہ فراہم کرتارہالیکن اب انہوں نے نافرمانیوں کی انتہاکرتے ہوئے رب کے غضب کو دعوت دی ،چنانچہ ان کی نافرمانیوں کی سزامیں رب نے طاعون کی شکل میں ان پراپناعذاب نازل فرمایا،

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ أَوِ السَّقَمَ رِجْزٌ عُذِّبَ بِهِ بَعْضُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ، ثُمَّ بَقِیَ بَعْدُ بِالْأَرْضِ،فَمَنْ سَمِعَ بِهِ بِأَرْضٍ، فَلَا یَقْدَمَنَّ عَلَیْهِ، وَمَنْ وَقَعَ بِأَرْضٍ وَهُوَ بِهَا فَلَا یُخْرِجَنَّهُ الْفِرَارُ مِنْهُ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ طاعون اسی رجزاورعذاب کاحصہ ہے جوتم سے پہلے بعض لوگوں پرنازل ہوا،تمہاری موجودگی میں یہ کسی جگہ پھیل جائے تووہاں مت جاؤ اوراگرکسی اورعلاقے کی بابت تمہیں معلوم ہوکہ وہاں طاعون ہےتوڈرکروہاں سے مت بھاگو۔ [96]

وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ‎﴿٦٠﴾‏ وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِی هُوَ خَیْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا یَكْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا یَعْتَدُونَ ‎﴿٦١﴾‏(البقرہ)
’’جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا، (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو،اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے ،آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو ! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی ، ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے ۔‘‘

یادکرواس صحرامیں جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعاکی توہم نے کہافلاں چٹان پراپناعصاماروچنانچہ اس چٹان پر عصامارتےہی معجزانہ طورپر اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اورہرقبیلے نے اپنے لئے ایک ایک چشمہ بانٹ لیا،اس وقت یہ ہدایت کردی گئی تھی کہ اللہ کادیامن وسلویٰ کھاؤاوران چشموں کاپانی پیتے رہو،بے محنت کی روزی کھاپی کرہماری عبادت میں لگے رہواورنافرمانی کرکےزمین میں فسادنہ پھیلاتے پھروورنہ یہ نعمتیں تم سے چھن جائیں گی ،یادکروجب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کوحقیرجانتے ہوئےکہاتھاکہ اے موسیٰ! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پرصبرنہیں کرسکتے،اپنے رب سے دعاکروکہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گہیوں ، لہسن،پیاز،دال وغیرہ پیداکرے،

عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: فَبَطَرُوا ذَلِكَ وَلَمْ یَصْبِرُوا عَلَیْهِ، وَذَكَرُوا عَیْشَهُمُ الَّذِی كَانُوا یَعِیشُونَ فِیهِ، وَكَانُوا قَوْمًا أَهْلَ أَعْدَاسٍ وَبَصَلٍ وَبُقُولٍ وَفُومٍ، فَذَكَرُوا عَیْشَهُمْ مِنْ ذَلِكَ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے سرکشی اختیارکی من اورسلوی پرصبرنہ کرسکے اوراپنی پہلی زندگی کویادکرنے لگے جب وہ مسور،پیاز،ترکاریاں اورگندم استعمال کرتے تھے[97]

توموسیٰ علیہ السلام نے کہاکیاتم من وسلویٰ جیسی عمدہ اورخوش ذائقہ چیزوں کوچھوڑکرجوتمہیں بغیرمشقت مل رہی ہیں ایک ادنیٰ،کمتر درجے کی چیزوں کی طلب کررہے ہو ،اچھاکسی شہری آبادی میں جارہوجوکچھ تم مانگتے ہووہاں تمہیں مل جائے گا،آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت وخواری اورپستی وبدحالی مسلط کردی اوروہ اللہ کے غضب میں گھر گئے،

 سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ قَوْلِهِ: {وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ} قَالَ:أَذَلَّهُمُ اللهُ فَلَا مَنَعَةَ لَهُمْ، وَجَعَلَهُمُ اللهُ أَقْدَامَ الْمُسْلِمِینَ

حسن بصری رحمہ اللہ سے’’ ذلت و خواری ان پر مسلط ہوگئی ۔‘‘کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے فرمایااللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل ورسواکیاہے لہذاان کے لیے کوئی عزت نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں کے پاؤں تلے ذلیل ورسواکردیاہے ،مسلمانوں نے ان سے جزیہ بھی وصول کیا۔[98]

اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت وخواری اورپستی وبدحالی اس لئےمسلط کی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی منزل آیات کو جوحق پردلالت کرتی تھیں مگر ان کے خیالات یاخواہشات کے خلاف ہوتی تھیں تسلیم کرنے سے صاف انکاردیتے اور پوری ڈھٹائی اورسرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کرتے تھےاوراللہ کے کلام کوجانتے بوجھتے اپنی خواہشات کے مطابق بدل ڈالتے تھے اورپیغمبروں کوناحق قتل کرنے لگے تھے،

عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ فِی الْیَوْمِ تَقْتُلُ ثَلَاثَمِائَةِ نَبِیٍّ، ثُمَّ یُقِیمُونَ سُوقَ بَقْلِهِمْ فِی آخِرِ النَّهَارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک ایک بنی اسرائیل ان میں سے تین تین سونبیوں کوقتل کرڈالتے تھے ،پھربازاروں میں جاکراپنے لین دین میں مشغول ہوجاتے ۔[99]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ قَتَلَهُ نَبِیٌّ، أَوْ قَتَلَ نَبِیًّاوَإِمَامُ ضَلَالَةٍ وَمُمَثِّلٌ مِنَ الْمُمَثِّلِینَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کوہوگاجسے کسی نبی نے قتل کیاہویااس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اورگمراہی کاوہ امام جو تصویریں بنانے والایعنی مصورہوگا۔[100]

اوروہ مغضوب اورذلیل ورسوااس لئے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہرفرمان کی نافرمانی کرتے تھے اور اللہ نے شرع میں جو حدودمقررکی ہیں ان سے نکل نکل جاتے تھے۔

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِینَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٦٢﴾‏(البقرة)
’’ مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاری ہوں یا صابی ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ ‘‘

یہودی اس زعم باطل میں مبتلاتھے کہ وہ اللہ کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ۔۔۔[101]

ترجمہ:ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔

اس لئےیہودیوں کے اعمال وعقائدچاہے کیسے ہی ہوں بہرحال نجات صرف وہی ہی پانے والاہےاورباقی تمام انسان جویہودی نہیں ہیں وہ صرف جہنم کاایندھن بننے کے لئے پیداہوئے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی تردیدفرمائی کہ یقین جانوکہ نبی عربی کوماننے والے مسلمان ہوں ہوں یاموسیٰ علیہ السلام کے ماننے والےیہودی ہوں یاعیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والےعیسائی ہوں یاصابی ہوں ،صائبین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کاایک فرقہ ہے،

عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:الصَّابِئُونَ لَیْسُوا بِیَهُودَ وَلَا نَصَارَى وَلَا دِینَ لَهُمْ

سفیان ثوری رحمہ اللہ نے لیث بن ابوسلیم کے حوالے سےمجاہد رحمہ اللہ کاقول نقل کیاہے کہ صابی ایک ایسی قوم تھی جو مجوسیوں ،یہودیوں اورعیسائیوں کے بین بین تھی اوراس کاکوئی خاص دین نہ تھا۔[102]

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِیُّ:بَلَغَنِی أَنَّ الصَّابِئِینَ یَعْبُدُونَ الْمَلَائِكَةَ وَیَقْرَءُونَ الزَّبُورَ

ابوجعفرزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے معلوم ہواہے کہ صابئیں فرشتوں کی عبادت کرتے اورزبورپڑھتےتھے۔[103]

اپنے اپنے وقت میں جو اللہ وحدہ لاشریک پراورروزآخرپرایمان لائے گا،اپنے رسولوں کی تصدیق کرے گااوررسول کی اتباع میں اعمال صالحہ اختیار کرے گااس کااجراس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ہے۔جیسے فرمایا

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاۗءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ۚۖ [104]

ترجمہ:سنو ! جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، ۔

اورفرشتےروح قبض کرتے وقت مومنین کویہی بشارت دیتے ہیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ [105]

ترجمہ:جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرواور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔

فَكَانَ إِیمَانُ الْیَهُودِ أَنَّهُ مَنْ تَمَسَّكَ بِالتَّوْرَاةِ وَسُنَّةِ مُوسَى حَتَّى جَاءَ عِیسَى، فَلَمَّا جَاءَ عِیسَى كَانَ مَنْ تَمَسَّكَ بِالإِنْجِیلِ مِنْهُمْ وَشَرَائِعِ عِیسَى كَانَ مُؤْمِنًا مَقْبُولا مِنْهُ، حَتَّى جَاءَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ لَمْ یَتَّبِعْ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ وَیَدَعْ مَا كَانَ عَلَیْهِ مِنْ سُنَّةِ عِیسَى وَالإِنْجِیلِ كَانَ هَالِكًا

لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں ایمان داروہ ہے جوتورات کومانتاہو اورسنت موسیٰ علیہ السلام کاعامل ہولیکن جب عیسیٰ علیہ السلام آجائیں توان کی نبوت کوبرحق سمجھے اوران کی پیروی کرے،اگروہ پھربھی تورات اورسنت موسیٰ علیہ السلام پرجمارہے گااورعیسیٰ علیہ السلام کاانکارکردے گااوران کی پیروی نہیں کرے گاتوپھروہ بے دین ہوجائے گا،اسی طرح نصاریٰ میں ایمانداروہ ہے جوانجیل کوکلام اللہ مانے ،شریعت عیسوی پرعمل کرے، اوراگراپنے زمانے میں پیغمبرآخرالزمان محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوپالے توآپ کی تابعداری اورآپ کی نبوت کی تصدیق کرے، اگراب بھی وہ انجیل کواوراتباع عیسوی کونہ چھوڑے گا اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوتسلیم نہ کرے گاتوہلاک ہوگا۔[106]

جیسے متعددمقامات پر فرمایا

 اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۔۔۔۝۰۝۱۹ [107]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک دین صرف الاسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ۔۔۔۝۰۝۸۵ [108]

ترجمہ: اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جوشخص بھی میری بابت سن لے ،وہ یہودی ہویاعیسائی،پھروہ ایمان نہ لائے اس پرجس کومیں دے کر بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن) تووہ جہنم میں جائے گا۔[109]

وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ ثُمَّ تَوَلَّیْتُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِینَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ ‎﴿٦٥﴾‏ فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِینَ ‎﴿٦٦﴾‏ (البقرة)
 ’’جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کردیا (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکولیکن تم اس کے بعد بھی پھرگئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہوجاتے،اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ، اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لیے عبرت کا سبب بنادیا اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ و نصیحت کا۔‘‘

جب تورات کے احکام کے متعلق یہودنے ازراہ شرارت کہاکہ ہم سے ان احکام پرعمل نہیں ہوسکے گاتوہم نے کوہ طورکواٹھاکرسائبان کی طرح تمہارے اوپرمعلق کردیااورتم سے پختہ عہدلیاتھااورکہاتھاکہ جوکتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے صبرواستقامت کے ساتھ پکڑے رہواور جو احکام وہدایات اس میں درج ہیں انہیں سیکھواوراس کی تلاوت کرو،تاکہ تم تقویٰ کی روش پرچل سکو،جیسے فرمایا

وَاِذْ نَـتَقْنَا الْجَــبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ۝۰ۚ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۱ۧ [110]

ترجمہ:انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے ۔

اس نہایت بلیغ تاکیدکے بعدفرمایااس خوفناک صورت حال میں خوف زدہ ہوکرتم نے عمل کرنے کاوعدہ کرلیامگراس کے بعدتم اپنے عہدسے پھرگئے،تمہاری اس وعدہ خلافی پربھی اللہ کے فضل اوراس کی رحمت نے تمہاراساتھ نہ چھوڑاورنہ تم کبھی کے تباہ ہوچکے ہوتے،پھرتمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کاقصہ تومعلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کاقانون توڑاتھا، قصہ یوں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی امت میں عبادت الہٰی کے لئے جمعہ کادن مقرر فرمایاتھاجب موسی علیہ السلام کا دور آیا تو یہودیوں نے اپنی فطری کج روی کے باعث موسٰی سے اصرارکیاکہ ان کے لئے جمعہ کے بجائے ہفتہ کادن عبادت کے لئے مقررکردیں ،موسٰی نے قوم کواس غلط مطالبے سے بازرکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر انہوں نے ایک نہ سنی اوراپنے مطالبے پراصرارکرتے رہے ،چنانچہ رب کریم نے موسیٰ علیہ السلام کووحی فرمائی کہ بنی اسرائیل کے مطالبے پرہم نے جمعہ کی سعادت و برکت بنی اسرائیل سے واپس لے لی ہے اوران کے مطالبے کے مطابق ان کے لئے ہفتہ کادن عبادت کے لئے مقررکردیاہے،اب وہ اس دن کی عظمت کالحاظ کرتے ہوئے اس کی حرمت کوقائم رکھیں اورہرطرح کے کام ترک کر کے اس دن صرف عبادت الہٰی میں مشغول رہیں ۔

اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ۔۔۔۝۰۝۱۲۴ [111]

ترجمہ:رہا سبت تو وہ ہم نے ان لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا ۔

ہفتہ کے دن کی حرمت قائم ہونے کے بعدموسٰی نے بنی اسرائیل سے اس دن کی حرمت قائم رکھنے کاپختہ عہدلیاکہ وہ اس دن کوصرف عبادت الٰہی کے لئے مخصوص کریں گے اورکسی قسم کا اور کوئی کام نہیں کریں گے اوربنی اسرائیل نے اس کاعہدبھی کیا۔

۔۔۔وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا۝۱۵۴ [112]

ترجمہ:ہم نے ان سے کہا کہ سبت کا قانون نہ توڑو اور اس پر ان سے پختہ عہد لیا۔

ایک عرصہ تک بنی اسرائیل ہفتہ کے دن کی حرمت کے رب سے کئے ہوئے عہدوپیمان پرقائم رہے اوراس دن جن کاموں سے روکاگیاتھااس سے بچتے رہےمگررفتہ رفتہ ان کی فطری کج روی اورسرکشی عودکرآئی اور وہ اپنے اس عہدکوبھی کاروباری اوردنیاوی مصروفیات میں الجھ کرنباہ نہ سکے اورکھلم کھلا اس عہدکی خلاف ورزیاں شروع کردیں اوربڑی بے باکی سے اپنی بدعملیوں پرفخر کرنے لگے،سبت کے واقع کوایک مقام پرتفصیل کے ساتھ بیان فرمایا

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ۝۰ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ۝۰ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۳وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨاۙ اللهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا۝۰ۭ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۝۱۶۴فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕیْــسٍؚبِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـِٕـیْنَ۝۱۶۶ [113]

ترجمہ:اور ذرا اِن سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن اُبھراُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ،یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے،اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس اُمید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں ،آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا،پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا ، تو ہم نے کہا بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار۔

جب انسان آخری حدتک دنیاداری میں پھنس جاتاہے تووہ انسانیت کے درجے سے بہت نیچے گرجاتاہے اوراسے مقصدانسانیت سے دور دورکابھی واسطہ نہیں رہتا الله تعالیٰ نے یہودیوں کوان کی بے حکمی کی سزادینے کے لئے ہفتے والے دن ہرطرح کے کاموں سے منع فرمایاتھااوراس حکم میں مچھلیوں کاشکارکرنے سے منع کردیاگیاتھاجوان کاقدرتی شکارتھالیکن الله تعالیٰ کی طرف سے بطورآزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اورپانی کے اوپر ظاہرہو ہوکر انہیں دعوت شکار دیتیں اور جب یہ دن گزرجاتاتوہفتہ کے باقی دنوں میں پانی کی تہہ میں چلی جاتیں اورہفتہ کے دن کی طرح نہ آتیں ،کچھ عرصہ تک تویہودی بڑے صبرسے صورت حال کو دیکھتے رہے اوررب کی طرف سے اس آزمائش کونہ سمجھ سکے بالاخر انہوں نے ایک حیلہ کرکے حکم الہٰی سے تجاوز کیاکہ بحرقلزم کے کنارے گڑھے کھودلئے تاکہ ہفتہ کے روز پانی کی لہروں کے ساتھ مچھلیاں اس میں آکر پھنسی رہیں اورجب ہفتہ کادن گزر جاتا توپھرانہیں پکڑلیتے، کچھ لوگ جمعہ کے روزجال سمندرمیں ڈال جاتے اورہفتہ کے روزجال پڑارہنے دیتے اس طرح ہفتہ کے روز جومچھلیاں جال میں پھنس جاتیں اسے اتوارکوباآسانی پکڑ لیتے ،صالحین کی ایک جماعت جواس حیلے کاارتکاب نہیں بلکہ اجتناب کرتی تھی حیلہ گروں کوسمجھاسمجھاکران کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی تاہم کچھ اورلوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ،صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کووعظ ونصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت وعذاب الہٰی ہے ،نافرمان اورتجاوزکرنے والے کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یاعذاب الہٰی ہمارامقدرہے تو پھرہمیں کیوں وعظ ونصیحت کرتے ہوتو وہ جواب دیتے کہ ایک تواپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لئے تاکہ ہم تو الله کی گرفت سے محفوظ رہیں کیونکہ معصیت الہٰی کاارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنااورپھراسے روکنے کی کوشش نہ کرنابھی جرم ہے جس پر الله کی گرفت ہوسکتی ہے ،اور دوسرایہ کہ شایدیہ لوگ حکم الہٰی سے تجاوز کرنے سے بازہی آ جائیں ، اس طرح اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجودتھے ایک وہ جودھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کررہے تھے ،جنہوں نے وعظ ونصیحت کی کوئی پرواہ نہ کی اورنافرمانی پراڑے رہےاور الله کے حکموں سے سرتابی کو انہوں نے اپناشیوہ اوروطیرہ بنالیا،دوسرے وہ جوخودتوخلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگراس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اورناصحوں سے کہتے تھے ان کم بختوں کونصیحت کرنے سے کیاحاصل ہے انہوں نے سمجھناتھوڑی ہے ،تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود الله کی اس کھلم کھلابے حرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی اوروہ اس خیال سے نیکی کاحکم کرنے اوربدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید یہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پرآجائیں اوراگروہ راہ راست نہ اختیارنہ کریں تب بھی ہم اپنی حدتک تواپنافرض اداکرکے الله تعالیٰ کے سامنے اپنی برات کا ثبوت پیش کرہی دیں ، اس صورت حال میں جب اس بستی پر الله کا عذاب آیاتوان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچالیاگیاکیونکہ اسی نے الله کے حضوراپنی معذرت پیش کرنے کی فکرکی تھی اوروہی تھاجس نے اپنی برات کاثبوت فراہم کررکھا تھا باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوااوروہ اپنے جرم کی حدتک مبتلائے عذاب ہوئے ،حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کے مطابق ہی انسان کی شخصیت بنتی ہے ، الله نے ان لوگوں کو جوپوری سرکشی کے ساتھ حکم کی خلاف ورزی کرتے چلے گئے تھے ،ان کی چالاکی ،حجت بازی اورڈھٹائی کی وجہ سے حکم فرمایاکہ بندربن جاؤاوراس حال میں رہوکہ ہرطرف سے تم پردھتکارپھٹکارپڑے۔

موجودہ بندراورخنزیران کی مسخ شدہ نسل سے نہیں :

 ثنا شَیْبَانُ النَّحْوِیُّ، عَنْ قَتَادَةَ:فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ، فَصَارَ الْقَوْمُ قُرُودًا تَعَاوَى، لَهَا أَذْنَابٌ، بَعْدَ مَا كَانُوا رِجَالًا وَنِسَاءً

شیبان نحوی نے قتادہ سے آیت کریمہ’’ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے ۔‘‘ کے بارے میں روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مردوں اورعورتوں کوبندروں کی شکل میں مسخ کردیاجوبندروں ہی کی طرح آوازیں نکالتے تھے اوربندروں ہی کی طرح ان کی دمیں بھی تھیں ۔[114]

عَنِ ابن عباس، قَالَ: إِنَّمَا كَانَ الَّذِینَ اعْتَدَوْا فِی السَّبْتِ فَجُعِلُوا قِرَدَةً فُوَاقا ثُمَّ هَلَكُوا. مَا كَانَ لِلْمَسْخِ نَسْلٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جولوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حدسے تجاوزکرگئے اوراس کی وجہ سے انہیں بندراورخنزیربنادیاگیاتووہ اس کے بعدہلاک ہوگئے تھے ،جن لوگوں کومسخ کردیاگیاہوان کی نسل آگے نہیں چلتی۔[115]

وَقَالَ الضَّحَّاكُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فَمَسَخَهُمُ اللهُ قِرَدَةً بِمَعْصِیَتِهِمْ، یَقُولُ: إِذْ لَا یَحْیَوْنَ فِی الْأَرْضِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ، قَالَ: وَلَمْ یَعِشْ مَسْخٌ قَطُّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ، وَلَمْ یَأْكُلْ وَلَمْ یَشْرَبْ وَلَمْ یَنْسَلْ، وَقَدْ خَلَقَ اللهُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ وَسَائِرَ الْخَلْقِ فِی الستة أیام الَّتِی ذَكَرَهَا اللهُ فِی كِتَابِهِ

ضحاک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے بندروں کی صورت میں مسخ کردیاتھااوراس کے بعدوہ زمین پرتین دن تک زندہ رہے،جسے بھی مسخ کیاگیاہے وہ تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہا، نہ وہ کھاتا پیتا تھا اورنہ اس کی نسل ہی آگے چلتی تھی، باقی رہے دنیاکے یہ بندر اورخنزیراوردیگرتمام مخلوق تواسے اللہ تعالیٰ نے انہی چھ دنوں میں پیدافرمایاہے جن کااس نے اپنی کتاب مقدس میں ذکر فرمایاہے۔[116]

ابْنُ عَبَّاسٍ: یَعْنِی جَعَلْنَاهَا بِمَا أَحْلَلْنَا بِهَا مِنَ الْعُقُوبَةِ عِبْرَةً لِمَا حَوْلَهَا مِنَ الْقُرَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی اسے (اس عہدکی)بستیوں کے لیے عبرت بنادیا۔[117]

الله تبارک وتعالیٰ نے ان کوان کے اعمال کے سبب عبرت ناک سزادی تاکہ بعدمیں آنے والی نسلیں رب کے پاکیزہ فرامین کومذاق نہ سمجھیں اور اپنادامن ایسے اعمال سے بچائے رکھیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله علیه وسلم قال:لَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَ الْیَهُودُ، فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللهِ بِأَدْنَى الْحِیَلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ان امورکاارتکاب نہ کروجن کایہودیوں نے ارتکاب کیاتھاکہ معمولی حیلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امورکوحلال قراردینے لگ جاؤ۔[118]

‏ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِینَ ‎﴿٦٧﴾‏ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّن لَّنَا مَا هِیَ ۚ قَالَ إِنَّهُ یَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ یَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِینَ ‎﴿٦٩﴾‏قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّن لَّنَا مَا هِیَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَیْنَا وَإِنَّا إِن شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ قَالَ إِنَّهُ یَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِیرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا یَفْعَلُونَ ‎﴿٧١﴾‏(البقرة)
 ’’اور(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں، انہوں نے کہا اے موسیٰ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس کی ماہیت بیان کر دے، آپ نے فرمایا سنو !وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو نہ بچہ بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ،وہ پھر کہنے لگے کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ فرمایا وہ کہتا ہے وہ گائے زرد رنگ کی ہے، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہے، وہ کہنے لگے اپنے رب سے اور دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی مزید ماہیت بتلائے اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے، آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں، وہ تندرست اور بےداغ ہے،انہوں نے کہا اب آپ نے حق واضح کردیا گو وہ حکم برادری کے قریب نہ تھے، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کردی ۔ ‘‘

فرعونیوں کی ایک عرصہ تک غلامی کرنے پربنی اسرائیل کوگائے کی عظمت وتقدس اورگاؤپرستی کے مرض کی چھوت لگ گئی تھی ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کاامتحان لینے کے لئے موسیٰ پروحی بھیجی کہ قوم سے کہوکہ وہ ایک گائے ذبح کریں ،جس کاآپ نے اعلان فرمادیا،چاہیے تویہ تھاکہ بنی اسرائیل بلاچوں وچرارب کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے کوئی سی گائے فوراًذبح کردیتے لیکن قوم ابھی تک پرانے آقاؤں کے رسم ورواج اورمذہب کواپنے دل سے نکال نہیں سکی تھی اوریہ اعلان سن کرگائے ذبح نہیں کرناچاہتی تھی ،چنانچہ قوم کے لوگ انکارکی ہمت تونہ کرسکے اورحجت بازی شروع کرتے ہوئے فضول قوم کے سوالوں کی بوچھاڑکردی (جوان لوگوں کاشیوہ ہے جوحکم پرعمل سے جی چراتے ہیں ،دین میں موشگافیاں ڈھونڈتے رہتے ہیں )موسیٰ علیہ السلام ان کی نیتوں کافتورسمجھتے تھے مگربڑے صبروتحمل اوربردباری کے ساتھ ان کی ہربات کاجواب دیتے رہے،کہنے لگے اے موسی!گائے کی قبربانی کاکہہ کر کیاتم ہم سے مذاق کرتاہے؟موسیٰ علیہ السلام نے کہامیں اس سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ،پھر انہوں نےمین میخ نکالنااورپے درپے سوالات کرنے شروع کردیئے،بولے اچھااپنے رب سے درخواست کروکہ وہ ہمیں اس گائے کی ماہیت بتلادے،موسیٰ نے کہااللہ کاارشادہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیےجونہ بوڑھی ہونہ بچھیابلکہ اوسط عمرکی ہوں

قَالَ الضَّحَّاكُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {عَوَانٌ بَیْنَ ذَلِكَ، یَقُولُ: نَصِفٌ بَیْنَ الْكَبِیرَةِ وَالصَّغِیرَةِ، وَهِیَ أَقْوَى مَا یَكُونُ مِنَ الدَّوَابِّ وَالْبَقَرِ وَأَحْسَنُ مَا تَكُونُ

ضحاک رحمہ اللہ کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بڑی اورچھوٹی عمرکے بین بین ہو،اس عمرکے جانوراورگائیں طاقتواربھی ہوتی ہیں اورخوب صورت بھی۔[119]

لہذاجوحکم دیاجاتاہے فوراً اس کی تعمیل کرو،جب پہلے سوال کاجواب مل گیاتوپھراورسوال کردیاکہ اس گائے کارنگ کیاہوناچاہیے،موسیٰ علیہ السلام نے کہااللہ فرماتاہے زردرنگ کی گائے ہونی چاہیے جس کارنگ ایساشوخ ہوکہ دیکھنے والوں کاجی خوش ہو جائے ،

عَنِ السُّدِّیِّ: تَسُرُّ النَّاظِرِینَ قَالَ تُعْجِبُ النَّاظِرِینَ.وَرُوِیَ عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ وَقَتَادَةَ وَالرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ مِثْلُ ذَلِكَ

سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’بھلالگنے والااس کارنگ ہے۔‘‘کے معنی یہ ہیں کہ وہ دیکھنے والوں کوخوش کردیتی ہو ابوالعالیہ،قتادہ اورربیع بن انس کابھی یہی قول ہے۔[120]

إِذَا نَظَرْتَ إِلَى جِلْدِهَا یُخَیَّلُ إِلَیْكَ أَنَّ شُعَاعَ الشَّمْسِ یَخْرُجُ مِنْ جِلْدِهَا

وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں جب آپ اس کی جلدکی طرف طرف دیکھیں تویہ خیال کریں کہ سورج کی شعاع گویااس کی جلدمیں سے نکل رہی ہے۔[121]

اب وہ کہنے لگے کہ اس طرح کی توبہت سی گائیں ہیں ،اس لیےہمیں اس کی تعیین میں اشتباہ ہوگیاہےاللہ ہمیں اس کی مزیدماہیت بتلادے توانشاء اللہ ہم اس کاپتہ پالیں گے ، موسیٰ نے جواب دیا اللہ کہتاہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی،نہ وہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھنچتی ہے،صحیح سالم اوربے داغ ہے،

عَنْ قَتَادَةَ:مُسَلَّمَةٌ، یَقُولُ: لَا عَیْبَ فِیهَا،وَكَذَا قَالَ أَبُو الْعَالِیَةِ وَالرَّبِیعُ

قتادہ رحمہ اللہ آیت’’صحیح سالم ہو۔ ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں جس میں کوئی عیب نہ ہو،ابوالعالیہ رحمہ اللہ اورربیع رحمہ اللہ کابھی یہی قول ہے۔[122]

وَقَالَ مُجَاهِدٌ :مُسَلَّمَةٌ، مِنَ الشِّیَةِ

جبکہ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’صحیح سالم ہو۔ ‘‘ اس کے معنی یہ ہیں اس میں داغٖ دھبہ نہ ہو۔[123]

بالآخرجب ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ رہاتوگائے ذبح کرنے کوتیارہوئے،چنانچہ وہ پکارکرکہنے لگے ہاں اب تم نے صحیح نشان بیان کیاہے،اس طرح انہوں نے گائے کوذبح کردیاحالانکہ ان کے تشدداورتکلف کی وجہ سےجس کاوہ اظہارکررہے تھے نظرنہیں آتاتھاکہ وہ گائے ذبح کریں گے۔

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِیهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ یُحْیِی اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَیُرِیكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ (البقرة)
’’جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالاپھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا ، ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ( وہ جی اٹھے گا) اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقل مندی کے لیے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے، بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گرپڑتے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔‘‘

عَنْ عَبِیدَةَ السَّلْمَانِیِّ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ عَقِیمٌ لَا یُولَدُ لَهُ، وَكَانَ لَهُ مَالٌ كَثِیرٌ، وَكَانَ ابْنُ أَخِیهِ وَارِثَهُ، فَقَتَلَهُ ثُمَّ احْتَمَلَهُ لَیْلا فَوَضَعَهُ عَلَى بَابِ رَجُلٍ مِنْهُمْ، ثُمَّ أَصْبَحَ یَدَّعِیهِ عَلَیْهِمْ،حَتَّى تَسَلَّحُوا وَرَكِبَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ

عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بے اولاد مالدارشخص تھاجس کاوارث صرف اس کابھتیجاتھاایک رات تاریکی میں اس نے اپنے چچاکوقتل کرکے اس کی لاش کسی دوسرے آدمی کے دروازے پر ڈال دی، پھردعوی کردیاکہ اس نے اسے قتل کردیاہے،اس کے نتیجے میں وہ سب مسلح ہوکرآپس میں برسرپیکارہونے لگے۔[124]

منافقت کی بناپرانہوں نے باہمی جھگڑے،فساداورایک دوسرے پراس قتل کے الزام تراشی سے معاملہ اس قدرالجھادیاکہ قاتل کوڈھونڈناناممکن ہوگیاکیونکہ قتل کاکوئی عینی شاہدنہ تھامگراللہ تبارک وتعالیٰ اپنے قانون عدل سے اس رازکوفاش کردیناچاہتاتھاتاکہ مجرم کوسزاملے اور لوگوں کوعلم ہوجائے کہ اللہ کے علم سے کوئی شئے مخفی نہیں ،اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پروحی بھیجی کہ قوم سے کہوکہ وہ اس ذبح کی ہوئی گائے کے کسی حصہ کولے کراس مردے پرضرب لگائیں اورہماری قدرت کاتماشہ دیکھیں کہ ہم کس طرح مردوں کوزندہ کرتے ہیں تاکہ تمہیں زندگی کی رنگینیاں کسی دھوکے میں نہ ڈال دیں کہ مرنے کے بعدجب ہماری ہڈیاں بھی مٹی بن جائیں گی توبھلاہم کیسے زندہ ہوں گے ، یادرکھواوربھولنانہیں ،حیات بعدالموت ایک کھلی حقیقت ہے ،وجودباری تعالیٰ پرکائنات کازرہ زرہ گواہ ہے،وہ اللہ جس نے تم کوپہلی باربغیرکسی نمونے کے پیداکیاتھاکیاوہ دوبارہ تمہیں پیداکرنے کی قدرت نہیں رکھتابلکہ یہ تواس کے لئے پہلے سے زیادہ آسان ہے اورابلیس یہی چاہتاہے کہ تم اس کوبھول جاؤاورگمراہیوں میں گم ہوجاؤاورجہنم میں اس کے ساتھی بن کے رہو،

فَضَرَبُوهُ بِبَعْضِهَا فَقَامَ،فَقَالُوا: مَنْ قَتَلَكَ؟ فَقَالَ: هَذَا. لابْنِ أَخِیهِ، ثُمَّ مَالَ مَیِّتًافَلَمْ یُعْطَ مِنْ مَالِهِ شَیْءٌ، وَلَمْ یُوَرَّثْ قَاتَلٌ بَعْدُ

چنانچہ گائے کے کسی حصہ کے گوشت کولے کراس مردہ پرماراگیاجس سے زندہ ہوکربیٹھ گیا اس سے پوچھاگیاتمہیں کس نے قتل کیاتھا؟ اس نے اپنے بھتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہااس نے،بیان دینے کے بعدوہ پھرمرگیا اس طرح قاتل کواس کے مال میں سے کچھ بھی نہ دیاگیااوربعدمیں ہمیشہ یہی اصول رہاکہ قاتل مقتول کاوارث نہیں ہوسکتا۔[125]

مگراس قدرزبردست معجزے اورقدرت کی نشانیاں دیکھنے کے بعدبھی تمہارے دلوں کے اندرتوبہ واستغفارکاجذبہ پیدانہیں ہوابلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھروں کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے،

قَالَ ابْنُ جَرِیرٍ: وَمَعْنَى ذَلِكَ عَلَى هَذَا التَّأْوِیلِ: فَبَعْضُهَا كَالْحِجَارَةِ قَسْوَةً، وَبَعْضُهَا أَشَدُّ قَسْوَةً مِنَ الْحِجَارَةِ

ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس تفسیرکے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ بعض دل پتھروں کی طرح ہیں اوربعض پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔[126]

اسی لئے اہل ایمان کو خاص طورپرتاکیدکی گئی ہے۔

 ۔۔۔وَلَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۶ [127]

ترجمہ:اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔

کیونکہ پتھروں میں سے توکوئی ایسابھی ہوتاہے جس سے پانی کے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ،کوئی پتھر پھٹتاہے اوراس میں سے پانی نکل آتاہے اورکوئی پتھر اللہ کی خوف سے لرز کر گر بھی پڑتاہے،لیکن ان کے دل کسی وعظ ونصیحت سے ،کسی پندوموعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے،اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبرنہیں ہے بلکہ تمہارے اعمال کوپوری طرح جانتاہے،وہ تمہارے ہرچھوٹے بڑے عمل کویادرکھنے والاہے اورعنقریب تمہیں تمہارے ان اعمال کاپوراپورابدلہ دے گا۔

أَفَتَطْمَعُونَ أَن یُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِیقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ یُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٧٦﴾‏أَوَلَا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ‎﴿٧٧﴾‏(البقرة)
’’(مسلمانوں!) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں، جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وہ باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس تم پر ان کی حجت ہوجائے گی، کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہر داری سب کو جانتا ہے؟ ۔‘‘

یہودی کردارکاتجزیہ :

یہودی اہل کتاب تھے اوروہ اپنے ہمسایہ قبائل اوس وخزرج کو نبوت،کتاب،ملائکہ ،آخرت اورشریعت کی باتیں بتلاتے رہتے تھے،اوربڑی شدومدسےکہتے تھے کہ دنیامیں ایک اورپیغمبرآنے والاہے،جولوگ اس کاساتھ دیں گے وہ ساری دنیاپرچھاجائیں گےاورہم ان کے ساتھ مل کرکفارکاقلع قمع کریں گے ، اس بناپر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے توقبائل اوس وخزرج جوق درجوق دعوت حق پر ایمان لائے،ان نومسلم مسلمانوں کوامیدتھی کہ یہودبھی حق کی آوا ز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن پرایمان لے آئیں گے،مگریہودیوں نے ایمان کیالاناتھاوہ توجانتے بوجھتے اس تعصب میں گرفتارہوگئے کہ نبوت بنواسحاق کے گھرسے بنواسماعیل میں کیسے چلی گئی ،حالانکہ اسحاق علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام دونوں ہی ابراہیم علیہ السلام کی اولادہیں اورپھرنبوت کسی کوکسی کی مرضی سے تونہیں ملتی یہ تواللہ کی مرضی ہے کہ جس کوچاہےرسالت عطافرمائے،چنانچہ اللہ تعا لی نے مسلمانوں کودل شکستگی سے بچانے کے لئے فرمایااے مسلمانو!اب کیاان پتھردل اور متعصب لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہوکہ یہ تمہاری اس پاکیزہ دعوت پرایمان لے آئیں گے حالانکہ ان کےعلماء اورحاملین شریعت کایہ شیوہ رہاہے کہ یہ اللہ کے کلام( زبور ، تورات اورانجیل) کوسنتے ہیں اورپھراپنی خواہشات ،دنیاوی مفادات یاحزبی تعصبات کی وجہ سےخوب سمجھ بوجھ کردانستہ اس میں لفظی ومعنوی تحریف کرتے ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلاہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں حالانکہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ۔۔۔ ۝۱۳ [128]

ترجمہ: اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ۔

عَنْ قَتَادَةَ: {ثُمَّ یُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ یَعْلَمُونَ} قَالَ: هُمُ الْیَهُودُ، وَكَانُوا یَسْمَعُونَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِّفُونَهُ بَعْدَمَا سَمِعُوهُ وَوَعَوْهُ

قتادہ رحمہ اللہ آیت ’’حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہودہیں جواللہ کے کلام کوسننے اورسمجھنے اوریادرکھنے کے باوجوداس کوبدل دیتے تھے۔[129]

عَنْ مُجَاهِدٍ: فَالَّذِینَ یُحَرِّفُونَهُ وَالَّذِینَ یَكْتُمُونَهُ: هُمُ الْعُلَمَاءُ مِنْهُمْ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ان کے علماء تھے جوکتاب الٰہی میں تحریف کرتے اوراسے چھپاتے تھے۔[130]

وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: قَالَ ابْنُ زَیْدٍ فِی قَوْلِهِ: {یَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ یُحَرِّفُونَهُ} قَالَ: التَّوْرَاةُ التِی أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَلَیْهِمْ یُحَرِّفُونَهَا یَجْعَلُونَ الْحَلَالَ فِیهَا حَرَامًا، وَالْحَرَامَ فِیهَا حَلَالًا وَالْحَقَّ فِیهَا بَاطِلًا وَالْبَاطِلَ فِیهَا حَقًا؛ إِذَا جَاءَهُمُ الْمُحِقُّ بِرِشْوَةٍ أَخْرَجُوا لَهُ كِتَابَ اللَّهِ، وَإِذَا جَاءَهُمُ الْمُبْطِلُ بِرِشْوَةٍ أَخْرَجُوا لَهُ ذَلِكَ الْكِتَابَ، فَهُوَ فِیهِ مُحِقٌّ، وَإِنْ جَاءَهُمْ أَحَدٌ یَسْأَلُهُمْ شَیْئًا لَیْسَ فِیهِ حَقٌّ، وَلَا رِشْوَةٌ، وَلَا شَیْءَ، أَمَرُوهُ بِالْحَقِّ، فَقَالَ اللَّهُ لَهُمْ: {أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ} [131]

ابن وہب نے ابن زیدکاآیت’’ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ ‘‘کے بارے میں قول نقل کیاہے کہ یہ لوگ اس تورات میں تحریف کردیتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نازل فرمایاتھا اوروہ اس طرح کہ یہ لوگ حلال کوحرام اورحرام کوحلال،حق کوباطل اورباطل کوحق بنادیتے تھےاوراگرکوئی باطل شخص انہیں رشوت دے دیتاتوکتاب الٰہی نکال کراسے حق ثابت کردیتے اوراگرکوئی ان سے کسی ایسی چیزکے بارے میں پوچھتاجس سے حق یارشوت یاکسی اورچیزکاتعلق نہ ہوتاتواسے حق بات بتادیتے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا’’تم دوسروں کوتونیکی کا راستہ اختیارکرنے کے لیے کہتے ہومگراپنے آپ کوبھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہوکیاتم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟۔‘‘[132]

پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لئے باعث شرف اوراپنادین قراردیتے ہیں اوراس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کواللہ کے راستے سے روکتے ہیں تب ان سے کیونکریہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس دعوت پر ایمان لے آئیں گے،یہ توبعیدترین چیزہے،ان کامنافقانہ کردارتویہ ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں اللہ کاسچارسول مانتے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے خلوت میں گفتگوکرتے ہیں توایک دوسرے کو ملامت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کواپنی مقدس کتابوں تورات وانجیل میں پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیوں کے بارے میں کیوں بتاتے ہوجس سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صداقت واضح ہوتی ہےاس طرح تم خودہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہوجووہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کریں گے،

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: هَؤُلَاءِ الْیَهُودُ، كَانُوا إِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضِهِمْ قَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تُحَدِّثُوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَیْكُمْ مِمَّا فِی كِتَابِكُمْ لِیُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ فَیَخْصِمُونَكُمْ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ یہودجب مومنوں سے ملتے توکہتے ہم ایمان لے آئے ہیں اورجب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے توکہتے کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات نہ بتاؤ جو اللہ نے تم پرظاہرکردی ہے اورجوتمہاری کتاب میں موجودہے تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہیں الزام دے کرتم پرغالب نہ آجائیں ۔[133]

اللہ تعالیٰ نے فرمایاتم بتلاؤیانہ بتلاؤاللہ کوتوہربات کی خبرہے،اوروہ ان باتوں کوتمہارے بتلائے بغیربھی مسلمانوں پرظاہرکرسکتاہے۔

وَمِنْهُمْ أُمِّیُّونَ لَا یَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِیَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ ‎﴿٧٨﴾‏ فَوَیْلٌ لِّلَّذِینَ یَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَیْدِیهِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِیَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا ۖ فَوَیْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَیْدِیهِمْ وَوَیْلٌ لَّهُم مِّمَّا یَكْسِبُونَ ‎﴿٧٩﴾(البقرة)
 ’’ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں، ان لوگوں کے لیے ـ ” ویل ” ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کوویل( ہلاکت )اور افسوس ہے ۔ ‘‘

ان میں ایک دوسراگروہ ان پڑھ لوگوں کاہے جویہ نہیں جانتے کہ تورات میں اللہ نے دین کے کیااصول فرمائے ہیں ،اخلاق اورشرع کے کیاقواعدسکھائے ہیں اورانسان کی فلاح وخسران کامدارکن چیزوں پرہے ،مگروہ اپنے مفروضات اوراپنی خواہشات کےمطابق گھڑی ہوئی باتوں کودین سمجھے بیٹھے ہیں اور اپنی بے بنیادامیدوں اورآرزوؤں کولیے بیٹھے ہیں جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلاکیاہواہے،مثلاً

۔۔۔ نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۔۔۔[134]

ترجمہ:ہم تواللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں ۔

وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً ۔۔۔ ۝۸۰ [135]

ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰۠ وَغَرَّھُمْ فِیْ دِیْــنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۴ [136]

ترجمہ: ان کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں آتش دوزخ تو ہمیں مَس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز،ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔

اورہمیں ہمارے بزرگ بخشوالیں گےوغیرہ، جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کوبھی خودساختہ علماؤمشائخ نے ایسے ہی حسین جالوں اورپرفریب وعدوں میں پھنسارکھاہے، اوریہ لوگ محض وہم وگمان پرچلے جارہے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کوسخت وعیدسنائی جواللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں ، فرمایاپس ہلاکت اورتباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اوربہ بانگ دہل یہ باورکراتے ہیں کہ یہ اللہ کے طرف سے ہیں تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑاسادنیاوی فائدہ حاصل کرلیں ،

سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ قَوْلِهِ: {ثَمَنًا قَلِیلًا}قَالَ: الثَّمَنُ الْقَلِیلُ: الدُّنْیَا بِحَذَافِیرِهَا

حسن بن ابوالحسن بصری رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کافرمان’’تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں ۔‘‘کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں فرمایاتمام کی تمام دنیاہی ثمن قلیل(تھوڑی قیمت)ہے۔[137]

اس پربھی ہلاکت ہے جوانہوں نے اپنے ہاتھوں سے جھوٹ ، بہتان، اور افترا پر مبنی باتیں لکھیں اوراس پربھی ہلاکت ہے جوانہوں نے ان جھوٹی باتوں سے حرام کماکرکھایا ۔

عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {فَوَیْلٌ لَهُمْ}یَقُولُ: فَالْعَذَابُ عَلَیْهِمْ قَالَ: یَقُولُ مِنَ الَّذِی كَتَبُوا بِأَیْدِیهِمْ مِنْ ذَلِكَ الْكَذِبِ، {وَوَیْلٌ لَهُمْ مَا یَكْسِبُونَ} یَقُولُ: مِمَّا یَأْكُلُونَ بِهِ مِنَ السِّفْلَةِ وَغَیْرِهِمْ

ضحاک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت’’ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے ۔‘‘ کی یہ تفسیربیان کی ہےانہوں نے اپنے ہاتھوں سے جوجھوٹ لکھااس کی وجہ سے انہیں عذاب ہوگا’’اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔ ‘‘ فرمایاجویہ لوگوں کامال کھاتے ہیں اس کی وجہ سے بھی یہ عذاب الٰہی میں گرفتارہوں گے۔[138]

‏ وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن یُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَیِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٨١﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ (البقرة)
 ’’ یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے؟ اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا(ہرگزنہیں) بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے،یقیناً جس نے برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہےاور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَنَّ الْیَهُودَ كَانُوا یَقُولُونَ: هَذِهِ الدُّنْیَا سَبْعَةُ آلَافِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا نُعَذَّب بِكُلِّ أَلْفِ سَنَةٍ یَوْمًا فِی النَّارِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہودی کاخیال ہے کہ دنیاکی کل عمرسات ہزارسال ہے اورہم ہزارسال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گےیعنی ہم صرف سات دن جہنم میں جائیں گے۔

لن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَرْبَعِینَ لَیْلَةً، زَادَ غَیْرُهُ: هِیَ مُدَّةُ عِبَادَتِهِمُ الْعَجَلَ

کچھ یہودیوں کا خیال ہے کہ ہم چالیس دن جہنم میں رہیں گے کیونکہ ہم نےچالیس دن بچھڑے کی پوجاکی تھی ۔(تفسیرابن کثیر۳۱۴؍۱)

چونکہ یہ ان کامحض دعویٰ ہے اس لئےاللہ تعالیٰ نے ان کی تردیدفرمائی کہ یہودی کہتے ہیں کہ ہم انبیاء کی اولادہیں اوراللہ کے چہیتے ہیں اس لئے ہم خواہ کچھ کریں دوزخ کی آگ ہمیں ہرگزنہیں چھوئے گی اوربالفرض محال اگرہمیں سزاہوئی بھی تو چندروزکی ہوگی اورپھرہم سیدھے جنت میں داخل کردیئے جائیں گے،اللہ تعالیٰ نےفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھو کیاتم نے اللہ سے کوئی عہدوپیمان لیاہواہے جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرسکتا؟یعنی اللہ کے ساتھ ان کااس طرح کاکوئی عہدوپیمان نہیں ہے، یہ محض اللہ پربہتان باندھ رہے ہیں ،اوریہ بہتان ان کی رسوائی اورعذاب کے لئے کافی ہے،یابات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کرایسی باتیں کہہ دیتے ہوجن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کاذمہ لیاہے؟آخرکیاوجہ سے کہ دوزخ کی آگ تمہیں نہ چھوئے گی؟جبکہ اللہ کاقانون تویہ ہے کہ جوبھی بدی کمائے گایعنی شرک کرے گااوراس کے نامہ اعمال میں کفروشرک ہی لکھاہواہوگا، انہیں سترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑکر،گلے میں طوق ڈال کر،منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئےدوزخ میں ڈال دیاجائے گا ، اورجولوگ اللہ،اس کے رسولوں ،فرشتوں ،منزل کتابوں ،حیات بعدالموت ،یوم آخرت،جنت وجہنم اوراچھی بری تقدیرپر ایمان لائیں گے اورخالص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئےسنت نبوی کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کریں گے انہیں انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری ہوئی جنت میں عزت وتکریم کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کر دیا جائے گا۔جیسے فرمایا

لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ۝۰ۭ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا یُّجْزَ بِهٖ۝۰ۙ وَلَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا۝۱۲۳ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا۝۱۲۴ [139]

ترجمہ:انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا،اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن تو ایسے ہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصغیرہ گناہوں سے بھی خودکوبچاؤوہ بھی اکٹھے ہوکرانسان کوہلاک کردیتے ہیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِیَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَإِنَّهُنَّ یَجْتَمِعْنَ عَلَى الرَّجُلِ حَتَّى یُهْلِكْنَهُ ،وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ لَهُنَّ مَثَلًا: كَمَثَلِ قَوْمٍ نَزَلُوا أَرْضَ فَلَاةٍ، فَحَضَرَ صَنِیعُ الْقَوْمِ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْطَلِقُ، فَیَجِیءُ بِالْعُودِ، وَالرَّجُلُ یَجِیءُ بِالْعُودِ، حَتَّى جَمَعُوا سَوَادًا، فَأَجَّجُوا نَارًا، وَأَنْضَجُوا مَا قَذَفُوا فِیهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھوٹے گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بعض اوقات بہت سے چھوٹے گناہ بھی اکٹھے ہو کر انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال اس قوم سے دی جنہوں نے کسی جنگل میں پڑاؤ ڈالا، کھانے کا وقت آیا تو ایک آدمی جا کر ایک لکڑی لے آیا، دوسرا جا کر دوسری لکڑی لے آیا یہاں تک کہ بہت سی لکڑیاں جمع ہوگئیں اور انہوں نے آگ جلا کر جو اس میں ڈالا تھا وہ پکا لیا۔[140]

‏ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٨٣﴾‏وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِیَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ‎﴿٨٤﴾(البقرة)
’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوة دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھرگئے اور منہ موڑ لیا، اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے ۔‘‘

یادکروبنی اسرائیل سے ہی ہم نے پختہ عہدلیاتھاکہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواکسی کی عبادت نہ کرنا،دعوت توحیدہرنبی کی بنیادی دعوت رہی ہےجیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [141]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۰۝۳۶ [142]

ترجمہ:ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

اللہ کے حق کے بعدحقوق العباد بیان فرمائے اوربندوں کے حقوق میں والدین کاحق سب سے زیادہ ہے،اس لئے پہلے ان کاحق بیان فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا،جیسے فرمایا

۔۔۔ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۔۔۔۝۰۝۱۴ [143]

ترجمہ: میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ۔

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳ [144]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔

عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟قَالَ:الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَاقَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟قَالَ: بِرُّ الوَالِدَیْنِ،قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: الجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ

عبداللہ بن مسعودکہتے ہیں میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااللہ تعالیٰ کے نزدیک کونساعمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانمازکووقت پر ادا کرنا میں نے پھرپوچھااس کے بعدکون ساعمل افضل ہے؟ فرمایاماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا،میں نے پھر پوچھا پھر کونسا عمل افضل ہے؟فرمایااللہ کی راہ میں جہادکرنا۔[145]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟ قَالَ:أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااوراس نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھ پرنیک سکوک کازیادہ حق دارکون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری ماں کا،وہ بولاپھرکون؟ فرمایاتمہاری ماں کا،وہ بولاپھرکون ؟ فرمایاتمہاری ماں کا،وہ بولاپھرکون ؟فرمایاتمہارے باپ کا۔[146]

اوراپنےرشتے داروں کے ساتھ نرم کلامی اورکشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا،ان کے ساتھ بردباری ،درگزراورخطاؤں کی معافی کواپناشیوہ بنالینا،ان کونیکی کاحکم کرنااوربری باتوں سے روکنا،انہیں علم سکھانااوران میں سلام پھیلاناوغیرہ ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ، فَالْقَ أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااحسان اورنیکی کوکم مت سمجھ،یہ بھی ایک احسان ہے کہ اپنے بھائی سے ملے توکشادہ پیشانی کے ساتھ ملے۔[147]

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أُبَایِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ، أَبْتَغِی الْأَجْرَ مِنَ اللهِ ، قَالَ:فَهَلْ مِنْ وَالِدَیْكَ أَحَدٌ حَیٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا،قَالَ:فَتَبْتَغِی الْأَجْرَ مِنَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ:فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَیْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیامیں ہجرت اورجہادپر آپ سے بیعت کرتاہوں اوراللہ سے اس کاثواب چاہتا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟وہ بولاہاں دونوں زندہ ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتواللہ سے ثواب چاہتاہے؟وہ بولاہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتواپنے ماں باپ کی طرف لوٹ جا اور ان سے نیک سکوک کر۔[148]

یتیموں (جن کاکمانے والاباپ نہ ہو) اور مسکینوں (وہ لوگ جن کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال پرخرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو) کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے گالی گلوچ اورسب وشتم کرنے اورلڑائی جھگڑے کے بجائےحسن خلق ،بے پایاں حلم سے پیش آنا،

عَنِ الْحَسَنِ فِی قَوْلِهِ:{وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}فَالْحُسْنُ مِنَ الْقَوْلِ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَتَحْلُمُ وَتَعْفُو وَتَصْفَحُ، وَتَقُولُ لِلنَّاسِ حُسْنًا كَمَا قَالَ اللهُ، وَهُوَ كُلُّ خُلُقٍ حَسَنٌ رَضِیَهُ اللهُ

حسن بصری رحمہ اللہ آیت’’لوگوں سے بھلی بات کہنا۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اچھی بات یہ بھی ہے کہ انسان نیکی کاحکم دے اوربرائی سے منع کرے،حلم ودرگزرسے کام لے،لوگوں کومعاف کر دیا جائےاورجیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے لوگوں سے اچھی بات کہواوروہ حسن خلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسندفرمایاہے۔[149]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ، فَالْقَ أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ

ابوزر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر کچھ اور نہ کر سکو تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ہی مل لیا کرو۔[150]

اورمخلوق کی ایذارسانی پر صبرکرنا،اپنے رب کی یادکے لئےنمازقائم کرنااوراپنے پاکیزہ اموال سے مستحقین کوزکوٰة دینا،اللہ تعالیٰ نے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کوبھی یہی حکم فرمایاہے۔

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـیْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰى وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰكِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ۔۔۔۝۰۝۳۶ۙ [151]

ترجمہ:اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہاے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔

مگرتم میں تھوڑے آدمیوں نے استقامت اورثابت قدمی کامظاہرہ کیااوراکثراس عہد سے پھرگئے اوراب تک پھرے ہوئے ہو ، پھرذرایادکروہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کاخون نہ بہانااورنہ ایک دوسرے کوگھرسے بے گھرکرنااورتم نے ان باتوں کا اقرار کیا تھاتم خوداس پرگواہ ہو۔

ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیقًا مِّنكُم مِّن دِیَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَیْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن یَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن یَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوُا الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنصَرُونَ ‎﴿٨٦﴾(البقرة)
’’لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلاوطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا( اس کا کچھ خیال نہ کیا) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہوں گے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔‘‘

تورات کے احکام کے مطابق ایک دوسرے کاقتل کرناان کے لئے حرام تھامگریہودی قبائل بنوقینقاع ،بنونضیراوربنوقریظہ آپس میں لڑتے رہتے تھے ،اوراپنے اپنے حلیفوں کی مددسے اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کوقتل کرتے ،ان کے اموال کولوٹتے اوران کے گھروں کوآگ لگاکرانہیں جلاوطن کردیتے تھے،مگرجب یہی یہودی مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے توانہیں فدیہ دے کرچھڑاتے،

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَرَى المُؤْمِنِینَ فِی تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمام مومنین دوستی ،اخوت ،صلہ رحمی اوررحم وکرم میں ایک جسم کی مثل ہیں ، کسی ایک عضو کے دردسے تمام جسم بے تاب ہوجاتاہےبخارچڑھ جاتاہےراتوں کی نینداچاٹ ہوجاتی ہے۔[152]

فرمایااللہ سے پختہ عہدکرنے کے باوجود تم اپنے بھائی بندوں کوقتل کرتے ہو،اپنی برادری کے کچھ لوگوں کوجلاوطن کردیتے ہو،ظلم وزیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہومگرجب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں توان کی رہائی کے لیے فدیہ کالین دین کرتے ہواورکہتے ہوکہ تورات میں یہی حکم لکھاہواہےحالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالناہی سرے سے تم پرحرام تھا،توکیاتم کتاب کے ایک حصے پرایمان لاتے ہویعنی تورات کے حکم کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ تو دیتے ہواوردوسرے حصے کے ساتھ کفرکرتے ہو؟یعنی ایک دوسرے کوقتل کرنااورایک دوسرے کوگھروں سے نکالناکی کچھ پرواہ نہیں کرتے،پھرتم میں سے جولوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت اوراس کے حکم کی مخالفت کریں ان کی سزااس کے سوااورکیاہے کہ دنیاکی زندگی میں ذلیل وخوارہوکررہیں اورآخرت میں شدیدترین عذاب کی طرف پھیردیے جائیں ؟اللہ ان حرکات سے بے خبرنہیں ہے جوتم کررہے ہو،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کردنیاکی زندگی خریدلی ہےلہذانہ ان کی سزامیں کوئی تخفیف ہوگی اورنہ انہیں کوئی مددپہنچ سکے گی۔

‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَیْنَا عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِیقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیلًا مَّا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٨٨﴾‏(البقرة)
 ’’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے(حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا، یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں، نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے ملعون کردیاہے، ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پراپنے احسانات کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایاہم نے موسیٰ کلیم اللہ کومبعوث فرمایااوربنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کےان پرتورات نازل کی ، پھراس کے بعدبنی اسرائیل میں پے درپے رسول بھیجے،جیسے فرمایا

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا۔۔۔ ۝۴۴ [153]

ترجمہ:پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے۔

جوتورات کےمطابق فیصلے کرتے تھے،جیسے فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللهِ وَكَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَاۗءَ۔۔۔ۚ ۝۴۴ [154]

ترجمہ: ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ،سارے نبی جو مسلم تھے اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے اور اسی طرح ربّانی اور احبار بھی اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔

یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی عیسیٰ ابن مریم کوواضح معجزات دے کر بھیجا،جیسے ایک مقام پران معجزات کاذکرفرمایا

۔۔۔اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــــَٔــةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۴۹ۚ [155]

ترجمہ:(اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تو اس نے کہا) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں ، میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے،میں اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اس کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرتا ہوں ، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر کے رکھتے ہو، اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔

اوراللہ کےمقرب فرشتہ جبرائیل کے ذریعے تقویت دی ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِی الْمَسْجِدِ فَیَقُومُ عَلَیْهِ یَهْجُو مَنْ قَالَ فِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان بن ثابت کے لیے مسجد نبوی میں منبررکھوادیاکرتے تھے،پس وہ اس پرکھڑے ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت کرنے والوں کی ہجوکیاکرتے تھے،آپ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحسان رضی اللہ عنہ کی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دفاع کریں روح القدس(جبریل امین) ان کے ساتھ ہیں ۔[156]

پھریہ تمہارا کیاڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیزلے کرتمہارے پاس آیاتوتم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی،کسی کو جھٹلایا ، جیسے عیسیٰ علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلایااورکسی کوقتل کرڈالا!جیسے ذکریا علیہ السلام اوریحییٰ کوناحق قتل کردیا،اس طرح تم نے اپنی خواہشات نفس کومقدم رکھااوردنیاکوآخرت پرترجیح دی ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ انہیں اس پاکیزہ دعوت کی طرف بلاتے ہوتووہ اپنی سرکشی میں معذرت کرتے ہوئےکہتے ہیں اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے دلوں پرپردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے ہم تمہاری بات کوسمجھنے سے قاصرہیں ، جیسے فرمایا

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْهِ ۔۔۔۝۵ [157]

ترجمہ:کہتے ہیں جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ۔

۔۔۔وَّقَوْلِـهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ۔۔۔۝۰۝۱۵۵۠ [158]

ترجمہ:اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں ۔

حقیقت یہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفروشرک کی وجہ سے ان پراللہ کی پھٹکار(لعنت)پڑی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں ہرخیروبھلائی سے دورہٹاکرمحروم کردیا ہے ، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِینَ ‎﴿٨٩﴾‏ بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن یَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْیًا أَن یُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿٩٠﴾(البقرة)
 ’’اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود( اس کے ذریعہ) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آجانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر، بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا، وہ انکا کفر کرنا ہے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور ان کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘

اوراب اللہ نے خیرالخلائق،خاتم الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے یہ جلیل القدر کتاب نازل فرمائی ہے،جوان تعلیمات کی تصدیق کرتی ہے جنہیں تورات نے پیش کیاجس کاان کوعلم ویقین ہے، اورعلاوہ ازیں جاہلیت کے زمانے میں جب کبھی ان کے اور مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تویہ دعاکیاکرتے تھے کہ اےاللہ !آخری نبی جلدمبعوث فرماجس کی صفتیں ہم تورات میں پڑھتے ہیں ،اورمشرکین کوڈرایاکرتے تھے کہ پیغمبرآخرالزمان کاظہورہونے والاہے اورہم اس نبی کے ساتھ مل کرمشرکین کے خلاف جنگ کریں گے،

فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَبِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ أَخُو بَنِی سَلِمَةَ: یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، اتَّقُوا اللهَ وَأَسْلِمُوا فَقَدْ كُنْتُمْ تَسْتَفْتِحُونَ عَلَیْنَا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ أَهْلُ شِرْكٍ، وَتُخْبِرُونَنَا أَنَّهُ مَبْعُوثٌ،وَتَصِفُونَهُ لَنَا بِصِفَتِهِ، فَقَالَ سَلَّامُ بْنُ مِشْكَمٍ أَخُو بَنِی النَّضِیرِ: مَا جَاءَنَا بِشَیْءٍ نَعْرِفُهُ، وَمَا هُوَ بِالَّذِی كُنَّا نَذْكُرُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِ: {وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ۝۰ۙ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚۖ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ۝۰ۡفَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اورخاندان بنوسلمہ کے بشربن براء بن معرورنے ان سے کہااے گروہ یہود!اللہ سے ڈرواوراسلام قبول کرلو تم تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے خلاف مددمانگاکرتے تھے جبکہ ہم مشرک تھے اورتمہیں بتایاکرتے تھے کہ اس نبی کی بعثت ہونے ہی والی ہے اورتم توان کی نشانیاں بھی بیان کیاکرتے تھے، اس کے جواب میں بنونضیرکے سلام بن مشکم نے کہاآپ ہمارے پاس کوئی ایسی چیزنہیں لائے جسے ہم پہچانتے ہوں ، یہ وہ نبی نہیں ہیں جن کاہم تمہارے سامنے ذکرکیاکرتے تھے،توان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود( اس کے ذریعہ) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آجانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر۔‘‘[159]

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ، قَالَ:كَانَتِ الْیَهُودُ تَسْتَنْصِرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُشْرِكِی الْعَرَبِ، یَقُولُونَ: اللَّهُمَّ ابْعَثْ هَذَا النَّبِیَّ الَّذِی نَجِدُهُ مَكْتُوبًا عِنْدَنَا حَتَّى یُعَذِّبَ الْمُشْرِكِینَ وَیَقْتُلُهُمْ. فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا وَرَأَوْا أَنَّهُ مِنْ غَیْرِهِمْ كَفَرُوا بِهِ حَسَدًا لِلْعَرَبِ، وَهُمْ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؛ فَقَالَ اللَّهُ: {فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِینَ} [160]

ابوالعالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہودمشرکین عرب کے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکے ساتھ فتح طلب کرتے ہوئے کہاکرتے تھے کہ اے اللہ!اس نبی کو اب مبعوث فرمادے جس کے بارے میں ہم اپنے ہاں لکھاہواپاتے ہیں تاکہ وہ مشرکوں کو(ان کی حرکات کا)مزہ چکھائیں اورانہیں قتل کردیں ، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرما دیا اوریہودیوں نے دیکھاکہ آپ کاتعلق ان سے نہیں ہے تو انہوں نے عربوں سے حسدکرتے ہوئے آپ کے ساتھ کفرکیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،اسی کاذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود( اس کے ذریعہ) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آجانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر۔‘‘[161]

مگرجب وہ نبی مبعوث ہوگیا اور تورات وانجیل میں لکھے ہوئے اوصاف کوپڑھ کر جسے وہ اچھی پہچان بھی گئے اوران کے دل بھی قائل ہوگئے،

عَنْ صَفِیَّةَ بِنْتِ حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ أَنَّهَا قَالَتْ: كُنْتُ أَحَبَّ وَلَدِ أَبِی إلَیْهِ، وَإِلَى عَمِّی أَبِی یَاسِرٍ، لَمْ أَلْقَهُمَا قَطُّ مَعَ وَلَدٍ لَهُمَا إلَّا أَخَذَانِی دُونَهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، وَنَزَلَ قُبَاءَ، فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، غَدَا عَلَیْهِ أَبِی، حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ، وَعَمِّی أَبُو یَاسِرِ بْنِ أَخْطَبَ، مُغَلِّسَیْنِ قَالَتْ: فَلَمْ یَرْجِعَا حَتَّى كَانَا مَعَ غُرُوبِ الشَّمْسِ،قَالَتْ: فَأَتَیَا كَالَّیْنِ كَسْلَانَیْنِ سَاقِطَیْنِ یَمْشِیَانِ الْهُوَیْنَى، قَالَتْ: فَهَشِشْتُ إلَیْهِمَا كَمَا كنت أصنع، فو الله مَا الْتَفَتَ إلَیَّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا، مَعَ مَا بِهِمَا مِنْ الْغَمِّ. قَالَتْ: وَسَمِعْتُ عَمِّی أَبَا یَاسِرٍ، وَهُوَ یَقُولُ لِأَبِی حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ وَاللّهِ،قَالَ: أَتَعْرِفُهُ وَتُثْبِتُهُ؟قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: فَمَا فِی نَفْسِكَ مِنْهُ؟ قَالَ: عَدَاوَتُهُ وَاللّهِ مَا بَقِیتُ

ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا جوایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اورایک دوسرے عالم کی بھتیجی تھیں فرماتی ہیں میں اپنے باپ اورچچاابویاسرکوان کی سب اولادسے زیادی پیاری تھی جس وقت مجھے دیکھتے تھے توسب اولادکوچھوڑکرمجھ کوپیارکرتے تھے،فرماتی ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اورقباکے اندربنی عمروبن عوف میں ٹھیرے، صبح اندھیرے میرے باپ اور چچادونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے گئے اورشام کوغروب کے بہت بعدتھکے ہوئے گھرواپس آئے، میں حسب سابق ان کے پاس گئی مگروہ میری طرف ملتفت نہ ہوئے،اور میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگوکرتے سنا،میرے چچا ابویاسرنے میرے باپ حی بن اخطب سے پوچھاکیاواقعی یہ وہی نبی ہے جس کی پیشین گوئیاں ہماری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں ؟ میرےوالدنے جواب دیااللہ کی قسم!ہاں ،یہ وہی نبی ہیں ، میرے چچا نےکہاکیاتم کواس بات کامکمل یقین ہے؟ میرےوالدنے جواب دیاہاں ،میرےچچانے پوچھاپھرکیاارادہ ہے؟ میرےوالدنے جواب دیاجب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گااوراس کی بات چلنے نہ دوں گا۔[162]

بن عَائِذٍ مِنْ طَرِیقِ عُرْوَةَ أَنَّ أَوَّلَ مَنْ أَتَاهُ مِنْهُمْ أَبُو یَاسِرِ بْنِ أَخْطَبَ أَخُو حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ فَسَمِعَ مِنْهُ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ لِقَوْمِهِ أَطِیعُونِی فَإِنَّ هَذَا النَّبِیُّ الَّذِی كُنَّا نَنْتَظِرُ فَعَصَاهُ أَخُوهُ وَكَانَ مُطَاعًا فِیهِمْ فَاسْتَحْوَذَ عَلَیْهِ الشَّیْطَانُ فَأَطَاعُوهُ عَلَى مَا قَالَ وَرَوَى

ابن عائذبطریق عروة بن زبیرسے مروی ہے کہ حیی بن اخطب یہودی کابھائی یاسربن اخطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعوت اسلام دی اورقرآن مجیدسے چندآیات بھی تلاوت فرمائیں ،کلام اللہ سن کروہ اپنی قوم میں گیااورکہامیراکہامانویہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے وہ آگئے ہیں لہذاان پرایمان لاؤ،لیکن حیی بن اخطب نے جوقوم میں بڑاتھا اور سردار مانا جاتا تھا اوراس کی قوم اس کی اطاعت کرتی تھی شیطان اس پرغالب ہوگیا اور اسے حق قبول کرنے سے روکا، اس نے اپنے بھائی کی پرزوردلیل کوردکردیا،قوم نے بھی اپنے سردارکی اطاعت کی اوریاسر بن اخطب کی سچی بات کوقبول کرنے سے انکار کر دیا۔ [163]

مگرمحض تعصب اورحسدکی وجہ سےانہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اوران پرمنزل کلام قرآن کریم کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا،ان منکریں حق پراللہ کی لعنت ہے ،کیسی بری چیزہے جس کی خاطرانہوں نے اپنی فلاح وسعادت اوراپنی نجات کوقربان کردیا کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے اس کوقبول کرنے سے صرف اس تعصب کی بنا پر انکار کررہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سےبنی اسرائیل کے بجائے بنواسماعیل میں سے اپنے جس بندے کو چاہاوحی ورسالت سےنوازدیا! لہذاعیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبرتسلیم نہ کرنے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کے بدلے تکذیب اورآپ کی نصرت وامدادکے بدلے مخالفت اوردشمنی کی وجہ سےاب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ، فَالْغَضَبُ عَلَى غَضَبٍ بِغَضَبِهِ عَلَیْهِمْ فِیمَا كَانُوا ضَیَّعُوا مِنَ التَّوْرَاةِ وَهِیَ مَعَهُمْ، وَغَضَبٌ بِكُفْرِهِمْ بِهَذَا النَّبِیِّ الَّذِی أَحْدَثَ اللهُ عَلَیْهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ’’اس کے باعث یہ لوگ غضب پرغضب کے مستحق ہوگئے۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ غضب بالائے غضب میں مبتلاہوگئے ،پہلاغضب توانہوں نے یہ کیاکہ تورات کوضائع کردیاحالانکہ یہ ان کے پاس موجودتھی،اوردوسراغضب یہ ڈھایاکہ اس نبی کابھی انکارکردیاجسے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث فرمایاتھا۔ [164]

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ قَالَ: یَقُولُ اللهُ:فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ، یَقُولُ: غَضِبَ اللهُ عَلَیْهِمْ بِكُفْرِهِمْ بِالْإِنْجِیلِ وَعِیسَى،ثُمَّ غَضِبَ عَلَیْهِمْ بِكُفْرِهِمْ بِمُحَمَّدٍ وَبِالْقُرَآنِ

ابوالعالیہ رحمہ اللہ آیت کریمہ’’لہٰذا اب یہ غضب با لائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل اورعیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفرکی وجہ سے غضب کامستوجب قراردیا پھروہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن مجیدکے ساتھ کفرکی وجہ سے غضب کے مستحق ٹھیرے۔[165]

اورایسے کافروں کے لیے دنیاوآخرت میں سخت ذلت آمیزسزامقررہے۔ جیسے فرمایا

۔۔۔الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۝۶۰ۧ [166]

ترجمہ:جولوگ گھمنڈمیں آکرمیری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضروروہ ذلیل وخوارہوکرجہنم میں داخل ہوں گے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، أَمْثَالَ الذَّرِّ، فِی صُوَرِ النَّاسِ، یَعْلُوهُمْ كُلُّ شَیْءٍ مِنَ الصَّغَارِ حَتَّى یَدْخُلُوا سِجْنًا فِی جَهَنَّمَ، یُقَالُ لَهُ: بُولَسُ، فَتَعْلُوَهُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ طِینَةِ الْخَبَالِ، عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ

عمروبن شعیب سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، پھر وہ لوگ جہنم کے ایک قید خانے کی طرف دھکیلے جائیں گے جس کا نام بولس ہے،ان پر آگ

چھا جائے گی،اور انہیں دوزخیوں کی پیپ پلائی جائے گی جو سڑا ہوا بدبودار کیچڑ ہے ۔[167]

وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَاءَ اللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٩١﴾‏(البقرة )
 ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے کفر کرتے ہیں، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا ؟ ۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہودیوں کو دعوت اسلام پیش کرتے رہتے تھے مگرانہوں نے پہچاننے کے باوجود اپنے بغض وعناداورتعصبات میں مبتلاہوکر پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم پراوران پرمنزل کتاب قرآن پرایمان لانے کومسترد کر دیا ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَـمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَهُمْ۔۔۔۝۲۰ۧ [168]

ترجمہ:جن لوگوں کوہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کواس طرح غیرمشتبہ طورپرپہچانتے ہیں جیسے ان کواپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔

اورتکبروسرکشی سےکہاکہ وہ صرف اپنی طرف نازل شدہ کتابوں کوہی مانیں گے اوراس پرعمل کریں گےاس کے علاوہ ہم نہ کسی رسول کومانیں گے اورنہ کسی کتاب کو،حالانکہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ یہ قرآن حق ہے لہذایہ معلوم ہوجانے کے بعداس کاانکارکرنادرحقیقت اللہ تعالیٰ کاانکارکرناہے اورحق کاانکارکرناہے جواللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے،اوریہ قرآن اس سے پہلے مبعوث تمام انبیاء اور نازل شدہ تمام کتابوں کی تصدیق وتائید کرتاہے،اس لئے ان پرفرض تھاکہ اللہ تعالیٰ کی ان منزل تمام کتابوں کے ساتھ اس کتاب قرآن مجیدپربھی ایمان لائیں مگرانہوں نے تورات کے علاوہ اللہ کی اورنازل کردہ کتابوں کاانکارکردیااوراللہ کے رسولوں اورکتابوں میں تفریق کی اوریہ عین کفر ہے ،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا۝۱۵۰ۙاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۔۔۔۝۰۝۱۵۱ [169]

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفرو ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ سب پکے کافر ہیں ۔

اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اگرتم اپنی بات میں سچے ہوکہ تم صرف اپنی کتاب تورات پر ہی ایمان رکھوگے اوراس پرہی عمل کروگے توپھرتم لوگوں نے اپنے انبیاء کو کیوں قتل کیاتھا،اس سے معلوم ہواکہ اب بھی تمہاراانکارمحض حسدوعناداورتعصب پرمبنی ہے۔

وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُكُم بِهِ إِیمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٩٣﴾‏(البقرة)
’’تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا تم ہو ہی ظالم، جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کردیا( اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو! تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی، اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گویا) پلا دی گئی بسبب ان کے کفر کے ،ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں بڑا حکم دے رہا ہے اگر تم مومن ہو۔ ‘‘

موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس حق کوبیان کرنے والے واضح دلائل لے کرآئے مثلالکڑی کاسانپ بن جانا،ہاتھ کاچاندکی طرح روشن ہوجانا،اوربطوربددعاجومعجزے ظاہر ہوئے مثلاًطوفان،ٹڈیاں ،جوئیں ،مینڈک اورخون وغیرہ اورجب تم بحرقلزم کوعبورکررہے تھے اس وقت سمندرکوچیردینااورپانی کوپتھرکی دیوارکی طرح بنادینا،پھرجب تم صحرائے سینامیں پہنچے اس وقت لق ودق صحرامیں دھوپ سے بچاؤکے لیے بادلوں کاسایہ ہونا،خوراک کے لئے من وسلویٰ اتارنا،صحرامیں پتھرکی چٹان سے تمہارےبارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری کرنایہ تمام بڑے بڑے معجزات جوان کی نبوت کی اوراللہ کی توحیدکی روشن دلیلں تھیں مگراس کے باوجودجب وہ اپنی قوم کے ستربرگزیدہ آدمیوں کے ساتھ تورات لینے کوہ طورپرگئے تو تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکر بچھڑے کواپنامعبودبنابیٹھے،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِـیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ۔۔۔۝۰۝۱۴۸ [170]

ترجمہ:موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔

پھرذرااس میثاق کویاد کروجوہم نے کوہ طورکوتمہارے اوپرسائبان کی طرح اٹھاکر تم سے لیاتھا،اس وقت ہم نے تمہیں سختی کے ساتھ تاکیدکی تھی کہ جوہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگاکرسنو۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَخُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۶۳ [171]

ترجمہ:یاد کرو وہ وقت جب ہم نے طور کو تم پر اُٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اسی ذریعے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے۔

مگر تمہارے اسلاف کے کفرکی یہ انتہاہے کہ انہوں نے کہاکہ ہم نے ان ہدایات کو سن لیا مگرہم اس پرعمل نہیں کریں گے ،اوران کی باطل پرستی کایہ حال تھاکہ ان کےدلوں میں بچھڑاہی بساہواتھا،

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:حُبُّكَ الشَّیْءَ یُعْمِی وَیُصِمُّ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی چیزکی (اندھی )محبت تمہیں اندھااوربہراکردیتی ہے۔[172]

یہ الفاظ مرفوعاً ثابت نہیں البتہ ابودرداء کاقول ہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہواگرتم مومن ہونے کادعویٰ کرتے ہوتوتمہارایہ عجیب ایمان ہے جوتمہیں کفروشرک پرمبنی اعمال کا حکم دیتاہے۔

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٩٤﴾‏ وَلَن یَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ ‎﴿٩٥﴾‏ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَیَاةٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا ۚ یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ‎﴿٩٦﴾‏(البقرة)
 ’’آپ کہہ دیجئے اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لیے ہے، اللہ کے نزدیک اور کسی کے لیے نہیںتو آؤ اپنی سچائی کے ثبوت میں موت طلب کرو، لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے، اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے،بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی!آپ انہیں کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواگرتمہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پرپورایقین ہےکہ ہم اللہ کے محبوب اورچہیتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۔۔۔۝۱۸ [173]

ترجمہ:ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔

اس لئےیہ جنت کے مستحق ہیں اورباقی لوگ جہنم میں جائیں گے۔

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۔۔۔۝۰۝۱۱۱ [174]

ترجمہ:ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو ۔

اور آگ تمہیں چندروزسے زیادہ نہیں چھوئے گی تب توتمہیں چاہیے کہ موت کی تمناکروتاکہ اس دنیاکے مصائب والام سے چھٹکاراپاکر جلدازجلداللہ کی نعمتوں بھری جنتوں میں پہنچ جاؤ،مگریقین جانوکہ یہ اپنے کفرومعاصی کے اعمال کے باعث کبھی موت کی تمنانہ کریں گے،اس لیے کہ جس کفرومعاصی کایہ ارتکاب کررہے ہیں اس کااقضایہی ہے کہ یہ وہاں جانے کی تمنانہ کریں ،اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ هَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِیَاۗءُ لِلهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۶وَلَا یَتَمَنَّوْنَهٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ۝۷قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِیْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۸ۧ [175]

ترجمہ:ان سے کہو، اے لوگوں جو یہودی بن گئے ہواگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے،ان سے کہوجس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آ کر رہے گی پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے اور تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو ۔

موت کی آرزوتوکجایہ تودنیاوی زندگی کے تمام لوگوں حتی کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں جورسولوں ،کتابوں اورکسی چیز پر ایمان نہیں رکھتے،ان کی دنیاسے محبت کایہ حال ہے کہ ان میں سے ہر ایک شخص کی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح ہزاربرس کی زندگی گزارے،

عَنْ مُجَاهِدٍ فِی قَوْلِهِ: یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ: حُبِّبَتْ إِلَیْهِمُ الْخَطِیئَةُ طُولَ الْعُمُرِ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے۔‘‘ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ گناہوں نے ان میں طویل عمرکی خواہش پیداکررکھی ہے ۔[176]

چاہے یہ زندگی عزت وشرافت کی ہو یاذلت اورکمینہ پن کی ہو ،حالانکہ لمبی عمربہرحال اسے عذاب جہنم سے تودورنہیں پھینک سکتی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ}أَیْ مَا هُوَ بِمُنْجِیهِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْمُشْرِكَ لَا یَرْجُو بَعْثًا بَعْدَ الْمَوْتِ، فَهُوَ یُحِبُّ طُولَ الْحَیَاةِ، وَأَنَّ الْیَهُودِیَّ قَدْ عَرَفَ مَالَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخِزْیِ بِمَا ضَیَّعَ مَا عِنْدَهُ مِنَ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے’’حالانکہ لمبی عمر بہرحال اسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔‘‘ کی تفسیرمیں روایت ہے کہ طویل عمربھی انہیں اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دلاسکتی کیونکہ مشرک بعث بعدالموت کی امیدنہیں رکھتااسی لیے وہ طویل زندگی کوپسندکرتاہے،اورہریہودی کوبھی معلوم ہے کہ اسے آخرت میں کس قدرذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گااس سبب سے کہ اس نے اس علم کو ضائع کردیاجواس کے پاس تھا۔[177]

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ: {یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ یُعَمَّرَ} وَیَهُودُ أَحْرَصُ عَلَى الْحَیَاةِ مِنْ هَؤُلَاءِ، وَقَدْ وَدَّ هَؤُلَاءِ لَوْ یُعَمَّرُ أَحَدُهُمْ أَلْفَ سَنَةٍ،وَلَیْسَ ذَلِكَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ لَوْ عُمِّرَ كَمَا عُمِّرَ إِبْلِیسُ لَمْ یَنْفَعْهُ ذَلِكَ، إِذْ كَانَ كَافِرًا وَلَمْ یُزَحْزِحْهُ ذَلِكَ عَنِ الْعَذَابِ

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم نے اس آیت’’ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔‘‘ کے بارے میں لکھاہے کہ یہودتوان لوگوں یعنی مشرکوں سے بھی زندگی کے زیادہ حریص ہیں ان میں سے ہرایک کی خواہش ہے کہ کاش!اسے ہزاربرس عمرمل جائے اوراگراسے یہ عمرمل بھی جائے تووہ عذاب سے بچ نہیں سکتاجیساکہ کافرہونے کی وجہ سے ابلیس کی طویل عمراس کے لیے قطعا ً فائدہ مندنہیں ہے۔[178]

جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں اللہ توانہیں دیکھ ہی رہاہےاوراسی کے مطابق ہی جزا دے گا۔

[1] الطور۳۵،۳۶

[2] الدھر۱

[3] تفسیرابن ابی حاتم۷۳؍۱

[4] حم السجدة۹تا۱۲

[5] النازعات۳۰تا۳۲

[6]جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الحَدِیدِ۳۲۹۸

[7] مسنداحمد۱۷۷۰،مستدرک حاکم۳۱۳۷،مسندابی یعلی۶۷۱۳

[8] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الحَدِیدِ۳۲۹۸

[9] الطلاق۱۲

[10] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی سَبْعِ أَرَضِینَ۳۱۹۵،وکتاب المظالم بَابُ إِثْمِ مَنْ ظَلَمَ شَیْئًا مِنَ الأَرْضِ ۲۴۵۳

[11] الحدید۴

[12] النحل۱۹

[13] الملک۱۴

[14] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ: حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵

[15] صحیح بخاری كِتَابُ مَوَاقِیتِ الصَّلاَةِ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ۵۵۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۲

[16] الانعام۱۶۵

[17] النمل۶۲

[18] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوٰة بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ۵۵۵،وکتاب التوحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى تَعْرُجُ المَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْهِ۷۴۲۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۲، مسنداحمد۱۰۳۰۹، مسند البزار۹۱۱۸،السنن الکبریٰ للنسائی ۴۵۹،صحیح ابن حبان ۱۷۳۶،السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۱۸۲

[19] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ۶۹۲۵،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَابُ أَیُّ الكَلاَمِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ ۳۵۹۳

[20] تفسیر طبری۴۸۲؍۱

[21] تفسیرابن کثیر۲۲۳؍۱

[22] تفسیرابن کثیر۲۲۳؍۱

[23] تفسیرابن ابی حاتم۸۲؍۱

[24] تفسیرابن ابی حاتم۸۲؍۱، تفسیر ابن کثیر۲۲۵؍۱

[25] تفسیر طبری ۴۹۸؍۱

[26] تفسیرطبری۵۰۰؍۱، تفسیرابن کثیر۲۲۶؍۱

[27] الحجر۳۰،۳۱

[28] تفسیرابن ابی حاتم۸۴؍۱

[29] طہ۱۱۸،۱۱۹

[30] طہ۱۲۰

[31] الاعراف۲۰،۲۱

[32] الاعراف۲۳

[33] البقرة: ۳۷

[34] تفسیرابن ابی حاتم۹۰؍۱

[35] الذاریات۵۶

[36] الاعراف۱۷۲

[37] اخلاص۱تا۴

[38] الاعراف۲۷

[39] یونس۶۴

[40] الاعراف ۳۵،۳۶

[41] طہ۱۲۳

[42] التوبة۱۰۴

[43] النساء ۱۱۰

[44] الفرقان۷۱

[45] الزمر ۵۳

[46] کنز العمال ۴۴۰۵۵، المعجم الکبیرللطبرانی۷۸۳۷،تفسیرروح البیان ۱۸۱؍۵

[47] تفسیرطبری۵۵۵؍۱

[48]تفسیرطبری۵۵۶؍

[49] المائدة۲۰

[50] تفسیرطبری ۵۵۵؍۱

[51] المائدة۱۲

[52] الصف۳

[53] تفسیر عبد الرزاق۲۶۸؍۱، تفسیر طبری ۸؍۱

[54] تفسیرطبری۸؍۱

[55] ھود۸۸

[56] صحیح بخاری کتاب بدالخلق بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۶۷،وکتاب الفتن بَابُ الفِتْنَةِ الَّتِی تَمُوجُ كَمَوْجِ البَحْرِ۷۰۹۸،صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ عُقُوبَةِ مَنْ یَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا یَفْعَلُهُ، وَیَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَیَفْعَلُهُ ۷۴۸۳، مسنداحمد ۲۱۷۸۴

[57] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ وَقْتِ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللیْلِ۱۳۱۹، مسنداحمد۲۳۲۹۹

[58] الحاقة۲۰

[59] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن المومن وجنة للکافر۷۴۳۸،صحیح ابن حبان۴۶۴۲،شرح السنة للبغوی ۳۴۲۸

[60] الدخان۳۲

[61] المائدة۲۰

[62] عبس۳۷

[63] الانعام۱۶۴

[64] لقمان۳۳

[65] الشعرائ۱۰۰،۱۰۱

[66] الزمر۴۷

[67] المائدة۳۶

[68] الانعام۷۰

[69] الحدید۱۵

[70] ابراہیم۳۱

[71] الطارق۱۰

[72] ابراہیم۶

[73] تفسیرابن کثیر۲۵۸؍۱

[74] الشعراء ۶۳تا۶۶

[75] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ ۲۰۰۴،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۶۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۱۷۳۴، مسند احمد ۲۶۴۴، ۳۱۱۲

[76] الاعراف۱۴۲

[77] القصص۴۳

[78] البقرة: 54

[79] الاعراف: 149

[80] البقرة: 54

[81] تفسیرابن ابی حاتم۱۰۹؍۱

[82] تفسیرابن کثیر۲۶۲؍۱

[83] الاعراف۱۵۵،۱۵۶

[84] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۳؍۱

[85] تفسیرابن ابی حاتم ۱۱۳؍۱

[86] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۳؍۱

[87] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۴؍۱

[88] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۴؍۱،تفسیرعبدالرزاق۲۷۱؍۱

[89] صحیح بخاری کتاب الطب بَابٌ المَنُّ شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ ۵۷۰۸،وکتاب تفسیر بَابٌ وَقَوْلُهُ تَعَالَى وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ المَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ۴۴۷۸،وبَابُ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِیقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ، قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْكَ ۴۶۳۹،صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ فَضْلِ الْكَمْأَةِ، وَمُدَاوَاةِ الْعَیْنِ بِهَا۵۳۴۲،مصنف ابن ابی شیبة۲۳۶۹۳،مسنداحمد۱۶۲۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۹۵۶۸

[90] جامع ترمذی کتاب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی الكَمْأَةِ وَالعَجْوَةِ۲۰۶۸،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْكَمْأَةِ وَالْعَجْوَةِ۳۴۵۵، مسنداحمد ۸۰۰۲، مسند البزار ۷۹۴۹، السنن الکبری للنسائی۶۶۳۶

[91] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۵؍۱

[92] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۵؍۱

[93] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ بقرہ بَابُ وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ القَرْیَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَایَاكُمْ وَسَنَزِیدُ المُحْسِنِینَ ۴۴۷۹

[94] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۸؍۱

[95] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۸؍۱

[96] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطَّاعُونِ وَالطِّیَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا ۵۷۷۷ ، المعجم الکبیرللطبرانی۲۷۴،السنن الکبری للبیہقی۱۴۲۴۱

[97]۔تفسیرابن ابی حاتم۱۲۳؍۱

[98] تفسیرابن ابی حاتم ۱۲۵؍۱

[99] تفسیرابن ابی حاتم۶۲۱۷،تفسیرابن کثیر۱۰۴؍۲

[100] مسند احمد ۳۸۶۸

[101] المائدة۱۸

[102] تفسیرطبری۱۴۶؍۲

[103] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸؍۱

[104] یونس۶۲

[105] حم السجدة۳۰

[106] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۷؍۱

[107] آل عمران۱۹

[108] آل عمران۸۵

[109] مسنداحمد۸۶۰۹،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ ۳۸۶، تفسیر القرطبی ۲۳؍۳،تفسیرابن کثیر۲۶؍۲

[110] الاعراف۱۷۱

[111] النحل۱۲۴

[112] النساء ۱۵۴

[113] الاعراف۱۶۳تا۱۶۶

[114] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۳؍۱،تفسیرابن کثیر۲۸۹؍۱

[115] تفسیرابن کثیر۲۸۹؍۱

[116] تفسیرابن کثیر۲۸۹؍۱

[117] تفسیرابن کثیر۲۹۲؍۱

[118] إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل۳۷۵؍۵،ح ۱۵۳۵،تفسیرابن ابی حاتم محققا ۴۴۲؍۱۲،تفسیرابن کثیر۲۹۳؍۱

[119] تفسیرابن ابی حاتم محققا۱۳۸؍۱،تفسیرابن کثیر۲۹۹؍۱

[120] تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۰؍۱

[121] تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۰؍۱

[122] تفسیرطبری۲۱۴؍۲،تفسیرابن کثیر ۳۰۰؍۱

[123] تفسیرابن کثیر۳۰۰؍۱

[124] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۶؍۱

[125] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۶؍۱

[126] تفسیر طبری۲۳۶؍۲،تفسیرابن کثیر۳۰۶؍۱

[127] الحدید۱۶

[128] المائدة۱۳

[129] تفسیرابن ابی حاتم۱۴۹؍۱

[130] تفسیر طبری ۲۴۵؍۲

[131]الْبَقَرَةِ: 44 .

[132] تفسیرطبری۲۴۶؍۲

[133] تفسیرابن ابی حاتم۱۵۱؍۱

[134] المائدة۱۸

[135] البقرة۸۰

[136] آل عمران۲۴

[137] تفسیرابن ابی حاتم۹۸؍۱

[138] تفسیرطبری۲۷۳؍۲

[139] النساء ۱۲۳،۱۲۴

[140] مسنداحمد۳۸۱۸

[141] الانبیائ۲۵

[142] النحل۳۶

[143] لقمان۱۴

[144] بنی اسرائیل۲۳

[145] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا۵۹۷۰، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ الْإِیمَانِ بِاللهِ تَعَالَى أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ۲۵۲

[146] صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ ۵۹۷۱،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ۶۵۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِمْسَاكِ فِی الْحَیَاةِ وَالتَّبْذِیرِ عِنْدَ الْمَوْتِ۲۷۰۷

[147] مسند احمد ۲۱۵۱۹، صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ اسْتِحْبَابِ طَلَاقَةِ الْوَجْهِ عِنْدَ اللِّقَاءِ۶۶۹۰

[148] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ۶۵۰۷، السنن الکبری للبیہقی ۱۷۸۲۹،شعب الایمان ۷۴۴۳

[149] تفسیرابن ابی حاتم۱۶۱؍۱

[150] مسنداحمد۲۱۵۱۹

[151] النساء ۳۶

[152] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ۶۰۱۱، صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ۶۵۸۶،شعب الایمان ۱۰۶۲۷، مسنداحمد۱۸۳۸۰

[153] المومنون۴۴

[154] المائدة۴۴

[155]آل عمران۴۹

[156] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الشِّعْرِ۵۰۱۵

[157] حم السجدة۵

[158] النساء ۱۵۵

[159] تفسیرطبری۳۳۳؍۲

[160] البقرة: 89

[161] تفسیرطبری ۳۳۵؍۲

[162] ابن ہشام۵۱۸؍۱، الروض الانف ۲۰۷؍۴،البدایة والنہایة۲۵۸؍۳،دلائل النبوة لابی نعیم ۳۷،۷۷؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۵۳۳؍۲

[163] فتح الباری ۲۷۵؍۷

[164] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۳؍۱

[165] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۳؍۱

[166]المومن۶۰

[167] مسنداحمد۶۶۷۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب باب ۲۴۹۲

[168] الانعام۲۰

[169] النساء ۱۵۱

[170] الاعراف ۱۴۸

[171] البقرة۶۳

[172] مسنداحمد۲۱۶۹۴،سنن ابوداود أَبْوَابُ النَّوْمِ بَابٌ فِی الْهَوَى ۵۱۳۰

[173] المائدة۱۸

[174] البقرة۱۱۱

[175] الجمعة ۶تا۸

[176] تفسیرابن ابی حاتم ۱۷۹؍۱

[177] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۹؍۱

[178] تفسیرطبری۲۸۲؍۲

Related Articles