ہجرت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ التغابن

اس سورہ کی ابتدامیں فرمایاکہ کائنات کی ہرچیزاللہ کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ہے ،پھراللہ تعالیٰ کی قدرت تخلیق اورعلم کے ذکرکے بعد کفاراوراہل ایمان سے خطاب کیاگیاہے۔

کفارسے خطاب میں اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کے دلائل اورکائنات کی تخلیق کامقصدبیان کرتے ہوئے یہ حقائق بیان فرمائے گئے۔

xاس کائنات کاخالق،ما لک اورمختار اللہ وحدہ لاشریک ہے،وہ قادرمطلق اورہرعیب وکمزوری سے پاک ہے ،کائنات کی ہرچیزاس کے کامل اوربے عیب ہونے کی شہادت دے رہی ہے ۔

xاللہ تعالیٰ نے اس نظام کائنات کوبلاوجہ اوربلامقصدپیدانہیں کیا، بلکہ اس کائنات کی تخلیق حکمت الٰہی کاعظیم مظہرہے۔

xاللہ تعالیٰ نے انسانوں کوبہترین شکل وصورت کے ساتھ پیداکیا،اس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے انبیاء ورسل بھیجے اورکتابیں نازل کیں جن کے ذریعے سے حق وباطل کی پہچان کرائی گئی اورپھرانسان کواختیاردے دیاگیاکہ چاہوتوایمان وایقان کاراستہ اختیارکرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کامیاب وکامران ہوجاؤاورہمیشہ ہمیشہ جنت میں عیش و آرام کی زندگی گزارو،اور اگرچاہوتوسرکشی وعصیان کی زندگی گزارکرغیض وغضب سے دہکتی اورپھٹتی ہوئی جہنم کاایندھن بن جاؤ۔

x انسان کوغیرذمہ داراورمطلقاً آزاد نہیں پیداکیاگیابلکہ قیامت کے روزاس کے ہرقول وفعل کامحاسبہ ہوگااوراللہ کی عطاکردہ بے شمارنعمتوں کے بارے میں پوچھاجائے گا۔

اس بنیادی حقیقتوں کے اظہارکے بعدفرمایاکہ انسانوں کی ہلاکت وبربادی کی ہمیشہ دووجوہات رہی ہیں ۔

عقیدے کی گمراہی:اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی تعلیمات کے مقابل رسم ورواج، من گھڑت عقائدو نظریات اوروہم وگمان کوعقیدے کی شکل دی جاتی رہی جس کے باعث لوگ ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتے رہے۔

عقیدہ آخرت کاانکار:جب یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ یہ دنیاہی سب کچھ ہے اس کے بعداس زندگی کے بارے میں کوئی بازپرس نہ ہوگی اورنہ ہی جزاوسزاکے مراحل ہوں گے تویہ عقیدہ ونظریہ انسان کوبرائی کرنے کی جرات دلاتاہے،جب کوئی قوم ان دونوں خرابیوں پراصرارکرتی ہے اورانبیاء کی تکذیب اس کاطرہ امتیازبن جاتی ہے توایسی قوم کواللہ تعالیٰ حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹادیاکرتاہے۔

xجب ایسے مجرموں کوقیامت کے دن جہنم میں یکجاکیاجائے گاتوہرشخص حقیقت سے آگاہ ہوگااورسب ایک دوسرے کے کفریہ نظریات کوخوب جان لیں گے ۔

اہل ایمان سے خطاب میں اہل ایمان کوہدایت دی گئی کہ تم ہرحال میں اللہ کی رضاپرشاکررہوکیونکہ کوئی بھی مصیبت اللہ کے حکم اوراجازت کے بغیرنہیں آسکتی ہے اورنہ جاسکتی ہے،ایسے میں بہترین راستہ صبرواستقامت ہی ہے،جوشخص صبرواستقامت کی راہ اختیارکرتاہے اللہ اس کے دل کوہدایت بخش دیتاہے،اورجوشخص مصائب ومشکلات سے گھبرا کرایمان کی راہ سے ہٹ جائےپھراس کادل اللہ کی ہدایت سے محروم ہوجاتاہے ۔

xاہل ایمان کے بعدمومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعمال صالحہ یعنی اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کوزندگی میں لازم حیثیت دے ورنہ وہ اپنے اخروی نقصان کاخودذمہ دار ہو گاکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق پہنچاکربری الذمہ ہوچکے ہیں ۔

xاہل ایمان کواللہ پرکامل اعتمادوتوکل ہوناچاہیے،مال واولاداوراسباب دنیاکی آزمائش کے لیے ہیں ان کے ذریعے سے اللہ کاقرب حاصل ہوتویہ نعمت ہے اوراگریہ اسباب زندگی اللہ کی نافرمانی کاسبب بن جائیں تودونوں جہاں میں زحمت وعذاب ہیں ۔

xنفس پرستی سے فخروغرورپیداہوتاہے اورزرپرستی فتنوں کاباعث بنتی ہے اس لیے نفس پرستی سے اجتناب اور بخل کرنے کے بجائے اللہ کے عطاکیے ہوئے مال کواللہ کی راہ میں خرچ کرناچاہیے۔

xاللہ تعالیٰ نے انسان کواسی قدراعمال کامکلف بنایاہے جس قدراس میں عمل کی صلاحیت رکھی گئی ہے اس لیے انسان کواللہ تعالیٰ کے احکام پرپوراعمل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے تاکہ اس کے اعمال کاکوئی حصہ بھی حدودالٰہی سے متجاوزنہ ہو۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۖ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١﴾‏ هُوَ الَّذِی خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٢﴾‏ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۖ وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ ‎﴿٣﴾‏ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٤﴾(التغابن)
’’(تمام چیزیں) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں، اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر ہر چیز پر قادر ہے، اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے، اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا، اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اوربہت اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے، وہ آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو وہ (سب کو) جانتا ہے، اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے ۔‘‘

آسمانوں اورزمین میں بحروبرکی ہرچھوٹی بڑی مخلوق اورکائنات کاذرہ ذرہ اپنے خالق اللہ وحدہ لاشریک کی ذات وصفات،ہرکمزوری وغلطی، ہرنقص وعیب سے پاک ہونے کی تسبیح وتقدیس بیان کررہی ہے ،جیسے فرمایا

سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱ [1]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اورو ہی زبر دست دانا ہے۔

اوراللہ تعالیٰ ہی ازل سے ابدتک حمدوثناکامستحق ہے،جیسے فرمایا

دَعْوٰىھُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ۝۰ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰ۧ [2]

ترجمہ:وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اے پروردگار! ان کی یہ دعا ہوگی کہ سلامتی ہو اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔

اس عظیم الشان کائنات کاوہی خالق،مالک اور فرمانرواہے،اورتمام تراقتدار اللہ وحدہ لاشریک کاہے اوراس کے اقتدارسے کوئی چیزباہرنہیں ، وہی وحدہ لاشریک ہی ہرطرح کی تعریف کامستحق ہے،موجودات میں کوئی چیزاس کی قدرت سے باہرنہیں ،اسی خالق نے تم کوعدم سے وجودمیں لانے کے لئےپہلے مٹی سے اور پھرنطفہ سے فطرت سلیمہ پر پیدا کیا،

فَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ ، كَانَ یُحَدِّثُ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ أَوْ یُنَصِّرَانِهِ، أَوْ یُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ البَهِیمَةُ بَهِیمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِیهَا مِنْ جَدْعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے جانور کے یہاں جانور پیدا ہوتا ہے کیا تم اس میں کوئی نکٹا محسوس کرتے ہو؟۔[3]

اورانسان کوپیداکرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیابلکہ صحیح وغلط میں فیصلہ کرنے کی قوت تمیزبخشی، جیسے فرمایا

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ [4]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

پھراسی نے اپنی رحمت سے تم میں خیروشر،نیکی وبدی ، اور کفروایمان کے راستوں کی وضاحت کی ہے ،جیسے فرمایا

وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [5]

ترجمہ:اور دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں ) دکھا دیے ؟۔

اور تمہاری آزمائش کے لئے تمہیں ارادہ واختیارکی آزادی بخشی ہے جس کی وجہ سے پھر تم میں سے کسی نے کفروبغاوت اور کسی نے اطاعت کاراستہ اختیارکیاہے ،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ وَهُوَالْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ۙ [6]

ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون عمل میں بہتر ہے اور وہ زبردست اورمغفرت فرمانے والا ہے۔

اوراللہ اپنے بندوں کے چھوٹے بڑے،کھلے اورچھپے سب اعمال دیکھ رہاہے ، اورروزقیامت ان اعمال کے مطابق انہیں اس کی جزادے گا، اس نے یہ کائنات کچھ کھیل تماشے کے طور پر تخلیق نہیں کی ہے بلکہ اسے حکمت کے ساتھ ایک مقصدعظیم کے لئے تخلیق کیا ہے، اس نے بہترین انداز پر تمہاری شکل و صورت،قدوقامت اورجسمانی خدوخال بنائے اوربہترین قوتیں اورصلاحیتیں بخشیں ،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ۝۶ۙالَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [7]

ترجمہ:اے انسان ! کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا تجھے متناسب بنایااور جس صورت میں چاہاتجھ کو جوڑکرتیارکیا؟ ۔

اَللهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۔۔۔ ۝۶۴ [8]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو آرام گاہ بنایا اور آسمان کو چھت اور تمہاری صورتیں بنائیں اور پاکیزہ چیزوں سے تمہیں رزق دیا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [9]

ترجمہ: بلاشبہ ہم نے انسان کو بڑی ہی عمدہ ساخت پر بنایا۔

اور آخرکار ایک وقت مقررہ پرتمہیں اسی کی بارگاہ میں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے پیش ہوناہے اوروہ تمہیں ایمان وکفرکی جزاوسزادے گا ، وہ علام الغیوب ہے اوروہ زمین اور آسمانوں کے ظاہر و باطن اورغیب وحاضرسب کاعلم رکھتاہے ، جوکچھ تم اپنے دلوں میں چھپاتے ہو اورجوکچھ تم علانیہ کرتے ہواورکونساعمل کس مقصداورنیت سے کرتے ہوسب اس کو معلوم ہے ،جیسے فرمایا

وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۱۹ [10]

ترجمہ:حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی۔

۔۔۔وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۲۵ [11]

ترجمہ:اور سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو۔

۔۔۔یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵ [12]

ترجمہ: اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں ۔

اور وہ دلوں کے بھید اورآنکھوں کی خیانت تک جانتاہے،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [13]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

‏ أَلَمْ یَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٥﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِیهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ یَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِیٌّ حَمِیدٌ ‎﴿٦﴾(التغابن)
’’کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی؟ جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا اور جن کے لیے دردناک عذاب ہے ،یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا؟ پس انکار کردیا اور منہ پھیرلیا اور اللہ نے بھی بےنیازی کی ،اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز سب خوبیوں والا۔‘‘

کیاان لوگوں کوقوم نوح،عادوثموداورقوم فرعون وغیرہ کے عبرت ناک انجام کی کوئی خبرنہیں پہنچی جن کے پاس ان کے رسول دعوت حق لے کرآئے مگرانہوں نے اللہ کی دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیا اوررسولوں کی بھرپور مخالفت کی اور آخرایک وقت مقررہ پراللہ نے حق کی تکذیب اور کفرومعصیت پرقائم رہنے کی وجہ سے ان اقوام پر عذاب نازل کیااوررہتی دنیاتک انہیں نشان عبرت بنادیا ،جب انہوں نے عذاب کامزہ چکھ لیاتواس دنیاوی عذاب پران کا معاملہ ختم نہیں ہوگیا بلکہ قیامت کے روزبھی ان کے لئے دردناک عذاب تیار ہے ،اس عبرت ناک انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول ظاہرو واضح دلائل وبراہین اورروشن نشانیاں لے کرآتے رہے جوان کے مامورمن اللہ ہونے کی کھلی کھلی شہادت دیتی تھیں ،ان کی تعلیمات میں بھی کوئی ابہام نہیں تھا مگرانہوں نے بغض وعنادکی بناپر کہاکیاہمارے جیسےانسان ہمیں ہدایت دیں گے؟ایک بشرہونے کی بناپر انہوں نے اللہ کے رسولوں کوپیغمبرماننے اوران پرایمان لانے سےانکارکردیا اوردعوت حق پرغوروتدبرہی نہ کیا،جیسے فرمایا

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللهَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۭ وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۱ [14]

ترجمہ:ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ بیشک ہم تمہاری ہی طرح کے آدمی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور ہمارے بس میں نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر تمہیں کوئی سند لا دیں اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

جب انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے استغنابرتااورراہ راست اختیارنہ کی توپھراللہ نے بھی ان کی کچھ پرواہ نہ کی کہ وہ کس اندھے گڑھے میں گرتے ہیں اوراللہ توہے ہی بے نیاز،اس کوکسی کی عبادت سے کیافائدہ اورکسی کی عبادت سے انکارکرنے سے کیانقصان ہوسکتا ہے ، وہ تواپنے اقوال ،افعال اوراوصاف میں قابل تعریف ہے۔

زَعَمَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرٌ ‎﴿٧﴾‏ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِی أَنزَلْنَا ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿٨﴾‏ یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّهِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّئَاتِهِ وَیُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٩﴾‏وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِینَ فِیهَا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿١٠﴾(التغابن)
’’ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے، آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بلکہ آسان ہے، سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے، جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا وہی دن ہے ہار جیت کا، اور جو شخص اللہ پر ایمان لا کر نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،یہی بہت بڑی کامیابی ہے،اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری ّآیتوں کو جھٹلایا وہی (سب) جہنمی ہیں (جو) جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘

حیات بعدالموت کے منکرین بغیرکسی عقلی یاعلمی دلیل کے بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر قیامت کے واقع ہونے پرقسم کھا کرفرمایا

وَیَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ۝۰ۭؔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ۝۰ۭۚؔ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۵۳ۧ [15]

ترجمہ:پھر پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو کہو میرے رب کی قسم!یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو ۔

ایک اورمقام پرقسم کھاکرفرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَةُ۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّكُمْ۔۔۔۝۰۝۳ۤۙ [16]

ترجمہ:اور کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی کہہ دو ہاں (آئے گی) قسم ہے میرے رب کی البتہ تم پر ضرور آئے گی ۔

اوراب یہاں تیسری مرتبہ قسم کھاکرفرمایااے پیغمبر!ان سے کہو میرے رب کی قسم!ایک وقت مقررہ پر تم یقیناًاپنی قبروں سے اُٹھائے جاؤ گے،اس وقت تمہارانامہ اعمال تمہارے ہاتھوں میں تھماکر تمہیں بتادیا جائے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو، تمہارے اعمال کاٹھیک ٹھیک حساب تیارکرنا،محاسبے کے لئےتمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ زندہ کرنا اور اعمال کے مطابق جزاوسزادینا تمہیں کتنا ہی مشکل اورناممکن نظرآتا ہومگر اللہ کے لیےیہ بالکل آسان ہے،پس لوگو!تم ان اقوام کی طرح نہ ہوجاؤجن کی طرف رسول آئے مگرانہوں نے دعوت حق کوجھٹلایا،رسولوں کی دعوت کامذاق اڑایااورمعبودان باطلہ کی پرستش میں لگے رہےجس کے سبب ایک وقت مقررہ پران پراللہ کا غضب نازل ہوا،بلکہ تم اللہ وحدہ لاشریک ،اس کے آخری رسول اوراس آخری کتاب مبین پرجوہم نے تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کی ہے ایمان لاؤاوراعمال الح ،یاد رکھو جو پوشیدہ اور ظاہر اعمال تم کرتے ہواللہ اس سے خوب باخبر ہے، قیامت کے روزجب وہ سب اولین وآخرین کومیدان محشرمیں جمع کرے گااس روز تمہیں پتاچل جائے گاکہ کون خسارے میں رہا اور کون نفع کماکرلایا،جیسے فرمایا

 ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝۰ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ۝۱۰۳ [17]

ترجمہ:وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔

اَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸ قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [18]

ترجمہ:اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی جو ہم سے بھی کہیں پہلے گزر چکے ہیں ؟(اے پیغمبر ان لوگوں سے) کہو کہ اگلے اور پچھلے (سب)ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے۔

وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہارجیت کا دن ہوگاجو اللہ وحدہ لاشریک پرکامل ایمان لایا اور اس پر استقامت اختیار کی اورسنت رسول کے مطابق فرائض ونوافل، حقوق اللہ اورحقوق العبادادا کرتا رہا ، اللہ اس کے گناہ جھاڑکر اعلیٰ علیین کے درجے پرفائزکرکے اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے گھنے درختوں کے نیچے انواع واقسام کی نہریں بہتی ہوں گی،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۔۔۔۝۱۵ [19]

ترجمہ:پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ۔

ان جنتوں میں ہروہ چیزہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَلَكُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ [20]

ترجمہ:وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔

جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی ،جیسے فرمایا

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [21]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔

یہ لوگ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گےحقیقت میں یہی بڑی کامیابی ہے ،جیسے فرمایا

وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۳ [22]

ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

۔۔۔فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۔۔ [23]

ترجمہ:کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ

اے اللہ! ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمانا! ۔

اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کاکسی شرعی یاعقلی دلیل کے بغیرانکار کیا اورحق کے دلائل وبراہین کوجھٹلایا اور اس سے بغض وعنادرکھا وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوروہ بدترین ٹھکاناہے۔

مَا أَصَابَ مِن مُّصِیبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّهِ یَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١١﴾‏ وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ ۚ فَإِن تَوَلَّیْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿١٢﴾‏ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٣﴾(التغابن)
’’کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،( لوگو) اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو، پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمے صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل رکھنا چاہیے۔‘‘

جب یہ سورت نازل ہوئی وہ مسلمانوں کے لئے سخت مصائب کازمانہ تھا،اہل ایمان مکہ مکرمہ میں اپناگھربار،عزیزواقارب وغیرہ چھوڑکر ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے ، ان حالات میں اہل مدینہ پردوہری مصیبت پڑگئی تھی ،ایک طرف توو ہ عرب کے مختلف حصوں سے ہجرت کرکے آنے والے سینکڑوں مہاجرین کوپناہ دے رہے تھے اور دوسری طرف عرب میں چاروں طرف پھیلے دشمنان اسلام ان کے درپے آزارتھے،ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کویہ بات ذہن نشین کرائی کہ روئے زمین پر یا خود تم پرجان ،مال،اولاداوراحباب کی کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگراللہ کی حکمت ومشیت سے ہی اس کاظہورہوتا ہے،جوشخص اللہ پرایمان رکھتاہووہ جان لیتاہے کہ جو کچھ بھی مصیبت اس پرآئی ہے وہ اللہ کی مشیت اوراس کے حکم سے ہی پہنچی ہے ،جیسے فرمایا

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۲۲ۚۖ [24]

ترجمہ: کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یاتمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کوپیداکرنے سے پہلے ایک کتاب(یعنی نوشتہ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو،ایسا کرنا اللہ کے لیےبہت آسان کام ہے ۔

پس وہ صابرانسان اس مصیبت پر آہ وزاری کرنے کے بجائے رضا بالقضا کامظاہرہ کرتاہے ،اوراللہ تعالیٰ بھی اس کوصبرپرقائم رہنے کی توفیق سے نوازتا ہے ،اس کودنیاوی ثواب عطا فرماتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جزاوسزاکے دن کے لئے ثواب کاذخیرہ کردیتاہے ،جیسےفرمایا

۔۔۔اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۱۰ [25]

ترجمہ: اور صبر کرنے والوں کو تو ان کا صلہ (آخرت میں ) بےحساب دیا جائے گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَمَنْ یُؤْمِنْ بِاللهِ یَهْدِ قَلْبَهُ} یَعْنِی: یَهْدِ قَلْبَهُ لِلْیَقِینِ، فَیَعْلَمْ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ یَكُنْ لِیُخْطِئَهُ،وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ یَكُنْ لِیُصِیبَهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ’’جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘ کی تفسیرمیں روایت ہےاللہ تعالیٰ اس کے دل کویقین کے لیے ہدایت عطافرمادیتاہےاوراسے معلوم ہوجاتاہے کہ اسے جوپہنچاہے وہ اس سے خطاہوہی نہیں سکتاتھا اورجوخطاہوگیاہے وہ اسے مل ہی نہیں سکتاتھا۔[26]

عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَلْقَمَةَ، فَقُرِئَ عِنْدَهُ هَذِهِ الْآیَةُ: {وَمَنْ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ یَهْدِ قَلْبَهُ} [27] فَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: هُوَ الرَّجُلُ تُصِیبُهُ الْمُصِیبَةُ، فَیَعْلَمُ أَنَّهَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، فَیُسَلِّمُ ذَلِكَ وَیَرْضَى.

اورعلقمہ رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ’’جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں اس سے مرادوہ شخص ہے جسے کوئی تکلیف پہنچے تووہ اسے اللہ تعالیٰ کافیصلہ سمجھ کراس پرراضی ہواوردل سے اسے تسلیم کرے[28]

عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ:قال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَجَبًا لِلْمُؤْمِنِ، لَا یَقْضِی اللهُ لَهُ قَضَاءً إِلَّا كَانَ خَیْرًا لَهُ، إِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاء صَبَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاء شَكَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ ،وَلَیْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کامعاملہ بھی عجب ہے ،اللہ اس کے حق میں جوفیصلہ بھی کرتاہے وہ اس کے لئے اچھاہی ہوتا ہے مصیبت پڑے توصبرکرتاہے اوروہ اس کے لیےاچھاہوتاہے،خوشحالی میسر آئے توشکرکرتاہے اوروہ بھی اس کے لئے اچھاہی ہوتاہے ، یہ بات مومن کے سواکسی کونصیب نہیں ہوتی۔[29]

جُنَادَةَ بْنَ أَبِی أُمَیَّةَ یَقُولُ سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ یَقُولُ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:إِیمَانٌ بِاللهِ، وَتَصْدِیقٌ بِهِ، وَجِهَادٌ فِی سَبِیلِهِ، قَالَ: أُرِیدُ أهونَ مِنْ هَذَا یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:لَا تَتَّهِمِ اللهَ فِی شَیْءٍ، قَضَى لَكَ بِهِ

جنادہ بن ابی امیہ سے مروی ہےمیں نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااور دریافت کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پرایمان لانا،اس کی تصدیق کرنااوراس کی راہ میں جہاد کرنا،اس شخص نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے کوئی آسان کام چاہتاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاتقدیر کا جوفیصلہ تجھ پرجاری ہوتو اس پر اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کراوراس کی رضاپرراضی رہ ، یہ اس سے ہلکا کام ہے۔[30]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الخَیْرَ عَجَّلَ لَهُ العُقُوبَةَ فِی الدُّنْیَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى یُوَافِیَ بِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ, وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلاَءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیرخواہی کرناچاہتاہے تواسے اس کے گناہوں کی سزادنیاہی میں جلددے دیتاہے اورجب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ سختی کرناکاارادہ کرتا ہے تواس سے اس کے گناہ کی سزاکوروک لیتاہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزادے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزیدفرمایابڑی آزمائش کی جزابھی بڑی ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ کوجن لوگوں سے محبت ہووہ انہیں آزماتاہے جوشخص اس آزمائش پرراضی ہواللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتاہے اورجوشخص اس آزمائش پرناخوش ہواللہ تعالیٰ اس سے ناخوش اوراس پرناراض ہوتاہے۔ [31]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوراللہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے بے خبرنہیں ہے ، لوگو!ہرحال میں اپنے خالق اور رازق اللہ کی اطاعت کرو اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اللہ کارسول جس بات سے رک جانے کاحکم دے تو رک جاؤ اورجس بات کاحکم دے اس سے سرموتجاوزنہ کرو ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ [32]

ترجمہ:جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

لیکن اگرمصائب کے ہجوم سے گھبراکراس کی اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو اپناہی نقصان کرو گے ،ہمارے رسول پرصاف صاف حق پہنچادینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے،اوراس نے یہ ذمہ داری پوری کردی ہے،

وَقَالَ الزُّهْرِیُّ: مِنَ اللهِ الرِّسَالَةُ،وَعَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ البَلاَغُ، وَعَلَیْنَا التَّسْلِیمُ

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکام اسے پہنچادیناہے اورہمارافرض اسے تسلیم کرلیناہے[33]

اللہ وہ ہے جس کے سواکوئی الٰہ نہیں ،اس نے کسی کو کوئی قدرت یااختیارنہیں بخشا ہے،کائنات کی ہر مخلوق اپنے خالق کے درکی فقیرہے اوراسی کی حمدوثنابیان کررہی ہے،اس کے سواکوئی پکارکو سننے والااور مشکلات ومصائب سے بچانے والانہیں ہے، لہذا ایمان لانے والوں کواخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کرنی چاہیے اوراپنے تمام معاملات میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے، جیسےفرمایا

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَفَاتَّخِذْهُ وَكِیْلًا۝۹ [34]

ترجمہ:وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں پس اسی کو کار ساز بنا لو ۔

اس کے سواکوئی مشکل کشااورحاجت روانہیں ہے اس لئےاسی سے دعا والتجا کرنی چاہیے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٥﴾‏(التغابن)
’’ اے ایمان والو ! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں، اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!دنیاوی رشتے کے لحاظ سے بیوی بچے اگرچہ تمہیں بہت محبوب ہیں مگران کی محبت میں غافل نہ ہوجاؤاوریادرکھوکہ تمہاری بیویوں اورتمہاری اولاد میں سے جوتمہیں اطاعت الٰہی اورعمل صالحہ سے روکیں وہ دین کے لحاظ سےتمہارے دشمن ہیں ،لہذاجائزوناجائزطریقے سے ان کی ضروریات اورخواہشات کے پوراکرنے کے مقابلے میں اپنے دین کو مقدم رکھو، اوراگران کی باتوں پرتم عفو و درگزراورلوگوں کے گناہوں سے چشم پوشی کروتو اللہ تعالیٰ بھی بخشے والامہربان ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ هَذِهِ الآیَةِ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ،قَالَ: فَهُؤُلاءِ رِجَالٌ أَسْلَمُوا مِنْ مَكَّةَ فَأَرَادُوا أَنْ یَأْتُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَزْوَاجُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ أَنْ یَدَعُوهُمْ، فَلَمَّا أَتَوْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَوُا النَّاسَ قَدْ فَقِهُوا فِی الدِّینِ، فَهَمُّوا أَنْ یُعَاقِبُوهُمْ،فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ

ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ’’ اے ایمان والو ! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا۔‘‘کے بارے میں سوال کیا انہوں نے فرمایااس سے مرادوہ لوگ ہیں جومکہ مکرمہ میں مسلمان ہوگئے تھے انہوں نے مدینہ منورہ جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کاارادہ کیامگران کے بیوی بچوں نے اصرارکیاکہ وہ انہیں چھوڑکرنہ جائیں ، بہرحال جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے توانہوں نے دیکھاکہ لوگوں نے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہے، توانہوں نے بیوی بچوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے پرانہیں سزادینے کاارادہ کیا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ اوراگرتم عفو و درگزرسے کام لو اور معاف کردوتواللہ غفورورحیم ہے۔‘‘ نازل فرمادی۔[35]

تمہارے مال اورتمہاری اولادجہاں اللہ کی نعمت ہیں وہاں سراسرایک آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں ،جیسےفرمایا

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ [36]

ترجمہ: لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیندہ بنا دی گئی ہیں مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں ،حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔

عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَیْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی بُرَیْدَةَ، یَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الحَسَنُ وَالحُسَیْنُ عَلَیْهِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا وَوَضَعَهُمَا بَیْنَ یَدَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ {إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ} نَظَرْتُ إِلَى هَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُهُمَا.

ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آگئے انہوں نے دو سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں چلتے تولڑکھڑانے لگتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ ان پرپڑیں تو منبرسے اترکرانہیں اٹھا لیااورواپس منبر پر آ کر انہیں اپنے سامنے بیٹھا لیا اورپھر فرمایاسچ فرمایا اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول نے بلاشبہ ’’تمہارے مال واولادفتنہ(آزمائش) ہیں ۔‘‘میں نے جب ان دوبچوں کی طرف دیکھاکہ چلتے ہوئے لڑکھڑارہے ہیں تومیں صبرنہ کرسکا حتی کہ میں نےاپنی گفتگوکومنقطع کرکے ان کواٹھالیا۔[37]

پس اس آزمائش میں تم اس وقت سرخ روہوسکتے ہو جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو، جو شخص مال واولادکی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کوترجیح دیتاہے اور اس کی معصیت سے اجتناب کرتاہے تو اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ، جیسے فرمایا

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۝۰ۙ وَّاَنَّ اللهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۲۸ۧ [38]

ترجمہ:اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامان آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِیعُوا وَأَنفِقُوا خَیْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٦﴾‏ إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِیمٌ ‎﴿١٧﴾‏ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١٨﴾‏(التغابن)
’’پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لیے بہتر ہے، اورجو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے، اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے) تو وہ اسے بڑھاتا جائے گااور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا، اللہ بڑا قدردان اور بڑا بردبار ہے، وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے زبردست حکمت والا (ہے) ۔‘‘

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کاحکم دیتے ہوئے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ۔۔۔ ۝۱۰۲ [39]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

مگراب کچھ تخفیف کرکے فرمایالہذاجہاں تک تمہارے بس میں ہواللہ سے ڈرتے رہو،جیسےفرمایا

لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔۔۔۝۰۝۲۸۶ۧ [40]

ترجمہ:اللہ کسی شخص کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

اوراللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی باتوں کو توجہ سے سنو اوراپنے تمام معاملات میں ان پرعمل کرو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:دَعُونِی مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَیْتُكُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مجھے چھوڑ دو جب تک کہ میں تم کو چھوڑ دوں (یعنی بغیر ضرورت کے مجھ سے سوال نہ کرو) تم سے پہلے کی قومیں کثرت سوال اور انبیاء سے اختلاف کے سبب ہلاک ہو گئیں ، میں تمہیں جوحکم دوں اسے مقدور بھربجالاؤاورجس سے روک دوں اس سے رک جاؤ۔[41]

جیسےفرمایا

۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ۝۰ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ [42]

ترجمہ: جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ، اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اوراپنے دل پسند مال رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکنوں ، بیواؤں ، مسافروں ، اسیروں اور حاجت مندوں پرخرچ کرو،یہ دنیاوآخرت میں تمہارے ہی لئے بہترہے،جواپنے نفس کی حرص سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں ، جیسےفرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ [43]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔

اگرتم اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں خرچ کرو گے تووہ تمہیں اس کااجر کئی کئی گناہ بڑھا کر دے گا، جیسے فرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۔۔۔۝۰۝۲۴۵ [44]

ترجمہ: کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے بڑھا چڑھا کر اس کے لئے کئی گنا کردے؟۔

أَنَّ اللهَ تَعَالَى یَقُولُ:مَنْ یُقْرِضُ غَیْرَ ظَلُومٍ وَلَا عَدِیمٍ

اللہ تعالیٰ فرماتاہے کون ہے جوایسے کو قرض دے جونہ توظالم ہے ،نہ مفلس اورنہ نادہندہ ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَیْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقَى ثُلُثُ اللیْلِ الآخِرُ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی، فَأَسْتَجِیبَ لَهُ ،مَنْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ، مَنْ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرَ لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ برکت والاآدھی رات کو آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورفرماتاہے کون مجھ سے دعاکرتاہے کہ میں قبول کروں ، کون مجھ سے سوال کرتاہے کہ میں اسے دوں ،کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے اورمیں اسے بخش دوں ۔[45]

اور تمہارے گناہوں سے بھی در گزر فرمائے گا،اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تھوڑے سے عمل کوبھی قبول فرماتا ہے اوروہ بڑا بردبارہے ، وہ اپنے اطاعت گزاروں کوبڑھاچڑھاکراجروثواب سے نوازتاہے اور معصیت کاروں کافوری مواخذہ نہیں فرماتا ، جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۰۝۴۵ۧ [46]

ترجمہ:اور اگر اللہ لوگوں سے ان کے اعمال پر گرفت کرتا تو سطح زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے۔

وہ علام الغیوب ہے اورحاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے ،وہ ہرچیزپر غالب ہے،اس کے مقابلے میں کوئی غالب آسکتاہے نہ رکاوٹ بن سکتاہے اوروہ اپنے خلق وامر میں حکمت والاہے،اورتمام اشیاکوان کے اپنے اپنے مقام پر رکھتاہے۔

حارث رضی اللہ عنہ بن ربعی انصاری

ان کے نام میں اختلاف ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الحارث بن ربعى بن رافع الانصاری السلمی من بنى سلمة بن سعد، وَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ الْأَنْصَارِیُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ: اسْمُهُ النُّعْمَانُ بْنُ رِبْعِیٍّ، وَقَالَ غَیْرُهُمَا: عَمْرُو بْنُ رِبْعِیٍّ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں ان کانام حارث بن ربعی بن رافع انصاری تھااوریہ بنوسلمہ بن سعدسے تعلق رکھتے تھے، بعض کہتے ہیں ان کانام عبداللہ بن محمد بن عمارہ انصاری تھا اورمحمدبن عمرواقدی کہتے ہیں ان کانام نعمان بن ربعی تھا، بعض ان کانام عمروبن ربعی بیان کرتے ہیں ۔

مگریہ اپنی کنیت ابوقتادہ کے نام سے مشہورہیں ۔

اختلف فی شهوده بدرا

ان کے غزوہ بدرمیں شرکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ [47]

أَنَّهُ حَرَسَ النَّبِیَّ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ بَدْرٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ احْفَظْ أَبَا قَتَادَةَ كَمَا حَفِظَ نَبِیَّكَ هَذِهِ اللیْلَةَ

ایک روایت میں ہےانہوں غزوہ بدرکی رات کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرہ داری کی ،صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ!ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حفاظت فرماجس طرح اس نے اس رات تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے۔[48]

واتفقوا على أنه شَهِدَ أُحُدًا وما بعدها، وكان یقال له فارس رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس بات پراتفاق ہے کہ نہوں نے غزوہ احداوربعدکے دوسرے غزوات میں شرکت کی،اوریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ [49]

شَهِدَ صِفِّینَ مَعَ عَلِیِّ رَضِی الله عَنهُ

جنگ صفین میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے۔[50]

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشِیَّةً فَقَالَ:إِنَّكُمْ تَسْرُونَ عَشِیَّتَكُمْ هَذِهِ وَلَیْلَتَكُمْ وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللهُ غَدَا، فَانْطَلَقَ النَّاسُ لا یَلْوِی بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ،فَإِنِّی لأَسِیرُ إِلَى جَنْبِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ ابْهَارَّ اللیْلُ إِذْ نَعَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَالَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَدَعَمْتُهُ. یَعْنِی أَسْنَدْتُهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، فَاعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ ثُمَّ سِرْنَا

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ ارشادفرمایاکہ تم لوگ اسی شب کورات بھرچلوگے اورصبح کوانشااللہ پانی منزل پرپہنچوگے،لوگ اسی کیفیت سے روانہ ہوئے کہ کوئی کسی کی طرف رخ نہ کرتاتھا (یعنی منتشرہوگئے)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے ساتھ ساتھ رہا،آدھی رات گزرگئی کہ یکایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی اورآپ اپنی سواری پرجھک گئےمیں برق رفتاری سے آگے بڑھااورآپ کو بیدار کیے بغیرآپ کوسہارادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پردرست ہوکربیٹھ گئے اورپھرہم روانہ ہوئے،

ثُمَّ تَهَوَّرَ اللیْلُ فَنَعَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَالَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مَیْلَةً أُخْرَى فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ أُوقِظَهُ.فَاعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ ثُمَّ سِرْنَاحَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ مَالَ مَیْلَةً هِیَ أَشَدُّ مِنَ الْمَیْلَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ حَتَّى كَادَ أَنْ یَنْجَفِلَ فَدَعَمْتُهُ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟فَقُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ؟فَقَالَ: مَتَى كَانَ هَذَا مِنْ مَسِیرِكَ مِنِّی؟قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِیرِی مِنْكَ مُنْذُ اللیْلَةِ،قَالَ:حَفِظَكَ اللهُ بِمَا حَفِظْتَ نَبِیَّهُ بِهِ

جب رات کچھ گہری ہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپھراونگھ آگئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پرجھک گئے میں نے پھرآپ کوبیدارکیے بغیرسہارادیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پردرست ہوکربیٹھ گئے اورپھرہم روانہ ہوئے، جب پچھلی شب کاآخری حصہ ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ زیادہ گہری ہوگئی اورآپ اس قدرجھک گئے جوپہلی دومرتبہ جھکنے سے زیادہ تھااورخطرہ پیداہواکہ نصیب دشمناں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گرنہ پڑیں تومیں نے آگے بڑھ کرپوری قوت کے ساتھ سہارادیا،معاًآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدارہوگئے اورسر اٹھا کرفرمایاتم کون ہو؟ انہوں میں نے عرض کیاابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکب سے میرے ساتھ ہو؟عرض کی غروب آفتاب کے وقت سے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم ان کاجواب سن کرخوش ہوئے اوردعادی اللہ تمہارانگہبان رہے جس طرح تم نے اس کے رسول کی نگہبانی کی۔[51]

وَكَانَ قَدْ نَزَلَ الْكُوفَةَ وَمَاتَ بِهَا , وَعَلِیٌّ بِهَا وَهُوَ صَلَّى عَلَیْهِ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کوفہ میں قیام پذیرہوگئے تھے اوروہیں انہوں نے وفات پائی ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس وقت وہیں موجودتھے انہوں نے ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔[52]

ہجرت کے بعدقریش کادرعمل اورسازشیں

وَتَلَاحَقَ الْمُهَاجِرُونَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَبْقَ بِمَكَّةَ مِنْهُمْ أَحَدٌ، إلَّا مَفْتُونٌ أَوْ مَحْبُوسٌ وَلَمْ یُوعَبْ أَهْلُ هِجْرَةٍ مِنْ مَكَّةَ بِأَهْلِیهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ إلَى اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَإِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَّا أَهْلُ دُورٍ مُسَمَّوْنَ: بَنُو مَظْعُونٍ مِنْ بَنِی جُمَحٍ، وَبَنُو جَحْشِ بْنِ رِئَابٍ، حُلَفَاءُ بَنِی أُمَیَّةَ، وَبَنُو الْبُكَیْرِ، مِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ لَیْثٍ، حُلَفَاءُ بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ، فَإِنَّ دُورَهُمْ غُلِّقَتْ بِمَكَّةَ هِجْرَةً، لَیْسَ فِیهَا سَاكِنٌ

جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے اورسوائے ان لوگوں کے جوکفارکی قیدمیں تھےکوئی باقی نہ رہا توقریش جھنجھلاکرمجبوراوربے بس مسلمانوں پرمزیدمظالم ڈھانے اورہجرت کرنے والوں کے عزیزواقارب اوراپنے حلیفوں کی جائیدادوں پرقبضہ کرنے لگے، بنی مظعون بنی جمح میں سے اوربنوجحش بن رئاب جوبنی امیہ کے حلیف تھے اوربنی بکیرجوبنی سعدمیں سے تھے اوربنی عدی بن کعب کے حلیف تھے یہ لوگ تومع اپنے اہل وعیال کے آگئے تھے اوران کے مکانات مکہ مکرمہ میں سنسان خالی پڑے تھے،

وَلَمَّا خَرَجَ بَنُو جَحْشِ بْنِ رِئَابٍ مِنْ دَارِهِمْ، عَدَا عَلَیْهَا أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَبَاعَهَا مِنْ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، أَخِی بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ،فَلَمّا بَلَغَ بَنِی جَحْشٍ. مَا صَنَعَ أَبُو سُفْیَانَ بِدَارِهِمْ ذَكَرَ ذَلِكَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَرْضَى یَا عَبْدَ اللهِ أَنْ یُعْطِیَكَ اللهُ بِهَا دَارًا خَیْرًا مِنْهَا فِی الْجَنَّةِ؟ قَالَ: بَلَى،قَالَ: فَذَلِكَ لَكَ

بنی جحش نے جب ہجرت کی توابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے ان کے مکان کوعمروبن علقمہ کے ہاتھ جوبنی عامربن لوئی میں سے ایک شخص تھافروخت کردیا،جب یہ خبرمدینہ منورہ میں عبداللہ بن جحش کوہوئی توابو سفیان نے ان کے گھر میں جو کچھ کیاانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عبداللہ رضی اللہ عنہ !کیاتم اس بات سے راضی نہیں ہوکہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تم کوجنت میں ایک محل عنایت فرمائے،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہاں میں راضی ہوں ، فرمایابس وہ محل تمہارے لئے ہے۔[53]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمکان پرجوامال مومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سےملا تھا عقیل بن ابوطالب نےقبضہ کرلیا،

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ، أَیْنَ تَنْزِلُ فِی دَارِكَ بِمَكَّةَ؟یَا رَسُولَ اللهِ، أَیْنَ تَنْزِلُ فِی دَارِكَ بِمَكَّةَ؟فَقَالَ:وَهَلْ تَرَكَ عَقِیلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفتح مکہ کے روزمیں نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مکہ مکرمہ میں ہم کہاں قیام کریں گے؟ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مکہ مکرمہ میں کیااپنے گھرمیں قیام فرمائیں گے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعقیل نے ہمارے لئے محلہ یامکان چھوڑاہی کب ہے۔[54]

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا:

فَلَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ،كَلَّمَهُ أَبُو أَحْمَدَ فِی دَارِهِمْ،فَأَبْطَأَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِی أَحْمَدَ: یَا أَبَا أَحْمَدَ، إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَكْرَهُ أَنْ تَرْجِعُوا فِی شَیْءٍ مِنْ أَمْوَالِكُمْ أُصِیبَ مِنْكُمْ فِی اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،فَأَمْسَكَ عَنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیاتوایک صحابی ابواحمد رضی اللہ عنہ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مکان کے سلسلہ میں عرض کیاجس کوابوسفیان رضی اللہ عنہ نے فروخت کردیاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا تودیگراصحاب رضی اللہ عنہم نے ابواحمد رضی اللہ عنہ کوسمجھایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کے بارے میں جو(دوران ہجرت) کفار کے تصرف میں چلی گئیں کلام کرناپسندنہیں فرماتے،پس ابواحمد رضی اللہ عنہ بھی خاموش رہے۔[55]

دوسری طرف وہ کمزور اور مجبور مسلمان مرد وعورت اوربچوں تھے جوعرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کرچکے تھے مگرغربت وافلاس کی وجہ سے یاقریش کے ہاتھوں گرفتارہونے کی وجہ سے ہجرت پرقادرنہ تھے اورنہ اپنے آپ کوظلم سے بچاسکتے تھے،یہ غریب طرح طرح سے تختہ مشق بنائے جارہے تھے اوروہ دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم وبربریت سے بچائے،ان غریب ، ضعیف اورمجبورمسلمانوں کی مظلومیت کی کیفیت کوقرآن مجیدنے یوں بیان فرمایاہے

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا۝۷۵ۭ [56]

ترجمہ:آخرکیاوجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ،عورتوں اوربچوں کی خاطرنہ لڑو جو کمزور پاکردبالئے گئے ہیں اورفریادکررہے ہیں کہ اللہ ہم کواس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اوراپنی طرف سے ہماراکوئی حامی ومددگار پیدا کر دے۔

کفارقریش نے دین اسلام کومٹانے ،اس کے ماننے والوں کوراہ راست سے ہٹانے کے لئے تیرہ سال تک مسلمانوں کوایسی ایسی وحشانہ،سنگدلانہ ایذائیں دیں جسے سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،آخرمجبورہوکرمسلمانوں نے اس آفاقی دین کودنیامیں پھیلانے اوراس پرمن وعن عمل کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینہ منورہ ہجرت کرگئے اوربالآخررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت فرماکروہیں تشریف لے آےمگرکفارکاجوش کفروشرک اب بھی ٹھنڈانہ ہوا،قریش نے مسلمانوں کی جائیدادوں پرقبضہ کرنے اورمجبوروبے کس مسلمانوں پرظلم کرنے پرہی اکتفانہیں کیابلکہ اسلام اورمسلمانوں کوصفہ ہستی سے مٹادینے کے منصوبے تیارکرنے لگے،مذہب میں کسی شخص پرزورزبردستی نہیں ٹھونسی جاسکتی،مسلمانوں نے اللہ کی وحدانیت وربوبیت کااعلان کیاتوقریش سے مکہ مکرمہ میں ان کی علمبرداری سے دستبردارہونے کامطالبہ نہیں کیاتھا،ان کے مال ودولت ،حیثیت ومرتبہ میں بھی شراکت کامطالبہ نہیں کیاتھا،ان کے تجارتی قافلوں کونہیں روکاتھا، ان کے خلاف کسی قبیلے سے بھی کوئی عہدوپیمان نہیں باندھے تھےمگرقریش اپنے جاہلانہ تعصب ،غروروتکبرمیں اندھے ہوکرمسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے، مسلمانوں نے پھر بھی ان کے خلاف کوئی محاذنہیں کھولابلکہ اپنی ایمانی دولت کوبچانے کے لئے اپناگھربار،عزیزواقارب ،مال ومتاع سب کچھ چھوڑکر خاموشی سے حبشہ ہجرت کرگئےجہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی حکمران تھا اور اپنے دین کے بارے میں اچھاعلم رکھتاتھا،قریش کے دلوں کو پھربھی چین نہ ملااورانہوں نے مسلمانوں کوحبشہ میں بھی امن وسکون سے نہ رہنے دیااوران کوواپس لانے کی کوششیں کیں مگراللہ کی رحمت سےان کایہ وارخالی گیااب ایک بارپھرمسلمان ان کاعلاقہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ سے تین سو میل دورمدینہ منورہ چلے گئےتاکہ وہاں وہ دلجمعی اورسکون قلب سے اپنے رب وحدہ لاشریک کی عبادت کرکے اپنی دنیاوآخرت کوسنوارسکیں اوراس طرح رب کی خوشنودی حاصل کر کے اس کی بے بہا رحمت وکرم کے امیدواربن جائیں ،اپنی کھوئی ہوئی جنت الفردوس کے وارث بن جائیں ،وہاں بھی مسلمانوں نے قریش کے خلاف کوئی محاذ نہیں کھولامگر پھربھی قریش کے سینے بغض وعنادسے بھرے ہوئے تھے،جب اللہ کے فضل اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتمادعلی اللہ اورحسن تدبیرسے کفارمکہ کی سازش ناکام ہوگئی اور آپ بخیریت مدینہ منورہ پہنچ گئے توقریش نے اپنے جوش انتقام میں مدینہ منورہ کے قبائل اوس وخررج (جواب آپس میں متفق ہوگئے تھے )کے ہجرت سے پہلے متوقعہ سردار عبداللہ بن ابی جوبڑامال دار اوربااثرشخص تھا اوروہ ابھی تک اپنے آبائی دین شرک پرقائم تھااورجس کی تاجپوشی کامنصوبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں آنے کی وجہ سے پورانہ ہو سکا تھا ،جس کے بادشاہ بننے کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ،مکہ معظمہ کے سیاستدان اس سے بے خبرنہیں ہوسکتے تھے انہوں نے سب سے پہلے عبداللہ کو اپنی سیاست کے مہرے کے طورپراستعمال کرناچاہا،

أَنَّ كُفَّارَ قُرَیْشٍ كَتَبُوا إِلَى ابْنِ أُبَیٍّ، وَمَنْ كَانَ یَعْبُدُ مَعَهُ الْأَوْثَانَ مِنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ بِالْمَدِینَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ: إِنَّكُمْ آوَیْتُمْ صَاحِبَنَا، وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ، أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِیرَنَّ إِلَیْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ، وَنَسْتَبِیحَ نِسَاءَكُمْ

قریش کے کافروں نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ان ساتھیوں کو جو بت پرستی میں اس کے شریک تھےاور اوس وخزرج سے تعلق رکھتے تھے دھمکی آمیزخط لکھا اور اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں قیام فرما تھے کہ جنگ بدر سے پہلے کہ تم نے ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جگہ دی ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان سے لڑو یا اپنی سر زمین سے نکال دو ورنہ ہم سب مل کر تم پر حملہ کریں گے اور تم میں سے جو لوگ لڑ سکنے والے ہوں گے ان سب کو قتل کر ڈالیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے تصرف میں لے آئیں گے۔

اس دھمکی آمیزخط نے ثابت کردیاکہ قریش کسی صلح جوئی اورصلح پسندی کے لئے تیارنہیں بلکہ اس نئے خطرے کی وجہ سے اسلام اورشرک کے درمیان بڑھ جانے والی کشیدگی کو بزور شمشیر حل کرنے پرآمادہ ہے

فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَیٍّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَهُمْ، فَقَالَ:لَقَدْ بَلَغَ وَعِیدُ قُرَیْشٍ مِنْكُمُ الْمَبَالِغَ، مَا كَانَتْ تَكِیدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِیدُونَ أَنْ تَكِیدُوا بِهِ أَنْفُسَكُمْ، تُرِیدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَاءَكُمْ، وَإِخْوَانَكُمْ فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَفَرَّقُوا

یثرب کابادشاہ نہ بننے کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے سینے پرتو پہلے ہی سانپ لوٹ رہے تھے،سرداران قریش کی ترغیب وترہیب سے انہوں نے اپنے بت پرست رفقاء کوجمع کیا اور باہم مشورہ سے طے کیاکہ ہمیں کفارمکہ جن کے ساتھ ہماری رشتہ داریاں اورمعاہدے بھی ہیں کاساتھ دینا چاہیے اوران کاکہامان لینا چاہیے،چنانچہ انہوں نے اپنے بغض وحسد کااظہارکرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعبداللہ بن ابی اوراس کے رفقاء کے عزائم بد کی خبرہوگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محفل میں بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اورارشاد فرمایاکہ اے عبداللہ بن ابی !قریش کی دھمکی نے تمہارے ہوش وہواس کھودیئے ہیں ،تمہیں جتنی ایذاوہ پہنچا سکتے ہیں اس سے بہت زیادہ ایذا خودتم اپنے آپ پہنچانے کے لئے تیارہوگئے ،قریش نے تم سے ایک ایسی چال چلی ہے کہ اگرتم ان کی دھمکیوں میں دب کر ہمارے خلاف کھڑے ہوگئے تو زیادہ نقصان تو خودتمہاراہی ہوگااور اگران کی دھمکیوں سے انکارکردو گے توتمہارا نقصان کم ہوگا،کیونکہ اگرتم مسلمانوں سے لڑنے کاعزم کرو گے تواپنے ہی ہاتھوں اپنے بیٹوں ، بھائیوں اورعزیزواقارب کا قتل کروگے لیکن اگرتم قریش کے متحدہ جتھے سے لڑو گے توتم غیروں سے مقابلہ کررہے ہوگے،چونکہ قبائل اوس وخزرج کے اکثرلوگ مسلمان ہو گئے تھے اس لئے عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارے کوسمجھ گیا اس کی آنکھیں کھل گئیں اور قریش کی دھمکی اوراپنی خواہش کے باوجود کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہا اوروہ مسلمانوں سے نہ لڑنے کا فیصلہ کرکے منتشرہوگئے(یعنی جنگ کا ارادہ ختم کر دیا)۔[57]

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت سے قریشیوں کے دباؤ کوبڑے تدبرسے خودقریشیوں کے خلاف پلٹ دیا،جب قریش کی یہ سفارتی چال بھی ناکام ہوگئی تو انہوں نے عبداللہ بن ابی کوچھوڑکرمدینہ منورہ کے یہودیوں سے خفیہ سازبازکرنی شروع کر دی ،یہودیوں کو اہل کتاب ہونے کے باوجودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب سے اللہ واسطے کا بیر تھا ، وہ توپہلے ہی اس دعوت حق کوروکنے کے لئے کمربستہ تھے ،چنانچہ جب قریش کی طرف سے تحریک شروع ہوئی تووہ (مسلمانوں کے خلاف ) ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو گئے ، جب سارے معاملات طے پاگئے اورقریش کو اپنی کامیابی کایقین کامل ہوگیاتو انہوں نے مسلمانوں کودھمکی آمیزپیغام بھیجا کہ تم اس بات پرخوش نہ جاناکہ مکہ مکرمہ سے بخیریت وخوبی نکل کرمدینہ منورہ میں چین وسکون سے رہ سکوگے ہم بہت جلد مدینہ پہنچ کرتمہاراقلع قمع کردیں گے ، اس پیغام نے مدینہ منورہ میں رہنے والوں کوچوکس اورمستعدکردیا،مکہ کی سردجنگ قصہ پارینہ بن گئی تھی اوراب گرم جنگ کی دھمک صاف سنائی دے رہی تھی۔

[1] الحدید۱

[2] یونس۱۰

[3] صحیح بخاری كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ۱۳۵۸ ،صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ۶۷۵۵

[4] الشمس۸

[5] البلد۱۰

[6] الملک۲

[7] الانفطار۶تا۸

[8] المومن ۶۴

[9] التین۴

[10] النحل۱۹

[11] النمل۲۵

[12] ھود۵

[13] المومن۱۹

[14] ابراہیم۱۱

[15] یونس۵۳

[16] سبا۳

[17] ھود۱۰۳

[18] الواقعة ۴۸ تا۵۰

[19] محمد۱۵

[20] حم السجدة۳۱

[21] السجدة۱۷

[22] النساء ۱۳

[23]۔آل عمران۱۸۵

[24] الحدید۲۲

[25] الزمر ۱۰

[26] تفسیرطبری۴۲۱؍۲۳

[27] التغابن: 11

[28]۔تفسیرطبری۴۲۱؍۲۳

[29] صحیح مسلم کتاب الزھدباب المومن امرہ کلہ خیر۷۵۰۰

[30] مسنداحمد ۲۲۷۱۷

[31] جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّبْرِ عَلَى البَلاَءِ ۲۳۹۶

[32] الحشر۷

[33] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ،قبل الحدیث ۷۵۳۰

[34] المزمل ۹

[35] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۵۸؍۱۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّغَابُنِ ۳۳۱۷

[36] آل عمران۱۴

[37] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ الْإِمَامِ یَقْطَعُ الْخُطْبَةَ لِلْأَمْرِ یَحْدُثُ۱۱۰۹،جامع ترمذی کتاب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَالْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۳۷۷۴، سنن نسائی كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَابُ نُزُولِ الْإِمَامِ عَنِ الْمِنْبَرِ قَبْلَ فَرَاغِهِ مِنَ الْخُطْبَةِ، وَقَطْعِهِ كَلَامَهُ وَرُجُوعِهِ إِلَیْهِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۴۱۴،سنن ابن ماجہ کتاب اللباس بَابُ لُبْسِ الْأَحْمَرِ لِلرِّجَالِ ۳۶۰۰،مسنداحمد۲۲۹۹۵

[38] الانفال۲۸

[39] آل عمران۱۰۲

[40] البقرة۲۸۶

[41] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۷۲۸۸،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ۳۲۵۷،مسنداحمد۷۵۰۱

[42] الحشر۷

[43] الحشر۹

[44] البقرة ۲۴۵

[45] صحیح بخاری کتاب التھجد بَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللیْلِ ۱۱۴۵، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ التَّرْغِیبِ فِی الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِی آخِرِ اللیْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِیهِ ۱۷۷۵

[46] فاطر۴۵

[47] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۷۲؍۷

[48]الإصابة فی تمییز الصحابة۲۷۲؍۷،تاریخ بغداد۶۲۷؍۱۶

[49] ابن سعد۹۴؍۶

[50] بغیة الطلب فی تاریخ حلب۴۵۹۶؍۱۰

[51] ابن سعد۱۴۲؍۱،معجم الصحابة للبغوی۳۳؍۲

[52] ابن سعد۹۴؍۶،رجل صحیح البخاری۔الهدایة والإرشاد فی معرفة أهل الثقة والسداد۱۸۸؍۱،تاریخ بغداد۵۰۵؍۱

[53] ابن ہشام۴۹۶؍۱، الروض الانف۱۶۶؍۴

[54] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ تَوْرِیثِ دُورِ مَكَّةَ، وَبَیْعِهَا وَشِرَائِهَا، وَأَنَّ النَّاسَ فِی المَسْجِدِ الحَرَامِ سَوَاءٌ خَاصَّةً۱۵۸۸

[55] ابن ہشام۴۹۹؍۱،الروض الانف ۱۶۶؍۴

[56] النساء ۷۵

[57] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابٌ فِی خَبَرِ النَّضِیرِ۳۰۰۴

Related Articles