بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ بنی اسرائیل(حصہ دوم)

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ‎﴿٣٦﴾‏ وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا ‎﴿٣٧﴾‏ كُلُّ ذَٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا ‎﴿٣٨﴾‏ ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتُلْقَىٰ فِی جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا ‎﴿٣٩﴾(بنی اسرائیل)
’’ اور زمین میں  اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے  اور نہ لمبائی میں  پہاڑوں  کو پہنچ سکتا ہے  ، ان سب کاموں  کی برائی تیرے  رب کے  نزدیک (سخت) ناپسند ہے ،  یہ بھی منجملہ اس وحی کے  ہے  جو تیری جانب تیرے  رب نے  حکمت سے  اتاری ہے  تو   اللہ   کے  ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں  ڈال دیا جائے ۔ ‘‘

 جباروں  اورمتکبروں  کی چال:

اللہ   تعالیٰ انسانوں  میں  فخروغروراور متکبرانہ چال ڈھال کوپسندنہیں  فرماتا، حکم فرمایا  اللہ   کی زمین میں  اکڑکرنہ چلوتم اپنی متکبرانہ چال سے  نہ زمین کوپھاڑسکتے  ہونہ پہاڑوں  کی بلندی کوپہنچ سکتے  ہو، اگرمتکبرانہ چال ڈھال اختیارکروگے  تو  اللہ   تعالیٰ کے  سامنے  بہت حقیرہوگے  اورمخلوق کے  نزدیک بھی بہت ذلیل ، ناپسندیدہ اورمذموم ہوگے  ، جیسے  لقمان نے  اپنے  بچوں  کونصیحت کی تھی۔

 وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚ [1]

ترجمہ:اورلوگوں  سے  منہ پھیرکربات نہ کرنہ زمین میں  اکڑکرچل،   اللہ   کسی خودپسنداورفخرجتانے  والے  شخص کوپسندنہیں  کرتا۔

اسی متکبرابہ چال کی وجہ سے  ہی   اللہ   نے  قارون کواس کے  خزانوں  سمیت زمین میں  دھنسادیا، جیسے  فرمایا

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ۝۰ۣ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ۝۸۱ [2]

ترجمہ:آخرکارہم نے  اسے  اوراس کے  گھرکوزمین میں  دھنسادیاپھرکوئی اس کے  حامیوں  کاگروہ نہ تھاجو  اللہ   کے  مقابلے  میں  اس کی مدد کو آتا اورنہ وہ خوداپنی مددآپ کرسکا۔

أَبَا هُرَیْرَةَ،  یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّةٍ،  تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ،  مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ،  إِذْ خَسَفَ اللَّهُ بِهِ،  فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا(بنی اسرائیل میں  )ایک شخص ایک جوڑاپہن کرکبروغرورمیں  سرمست، سرکے  بالوں  میں  کنگھی کئے  ہوئے  اکڑکر اتراتا جا رہاتھا  اللہ   تعالیٰ نے  اسے  زمین میں  دھنسا دیا اب وہ قیامت تک اس میں  تڑپتارہے  گایا دھنستا چلا جائے  گا۔ [3]

اللہ   تعالیٰ کوتواضع، فروتنی اور عاجزی وانکساری پسند ہے  ،   اللہ   چاہتاہے  کہ روزمرہ زندگی میں  مسلمانوں  کی نشست وبرخاست ،  چال ڈھال ، ان کالباس وپوشاک ، سواری ،  مکان اور عام برتاؤوغیرہ الغرض ہرشے  میں  انکساری اورعاجزی ہونی چاہیے  ،  اگر ان کے  ہاتھ میں  کوئی طاقت وحکومت آجائے  تواس وقت بھی ان کے  کردارواحکامات میں  ظلم وجبراور تکبرکاادنیٰ سا بھی شائبہ بھی نہ پایا جائے بلکہ اس وقت   اللہ   کے  خوف اور احساس ذمہ داری سے  اورزیادہ سر جھک جاناچاہیے  کہ کہیں  جوذمہ داری ان پرعائدکی گئی ہے  اس کو بجا طور پرادابھی کیا گیا ہے  کہ نہیں  ، کیونکہ طاقت وحکومت ایک امانت ہے  جس کے  بارے  میں  جواب طلبی کی جائے  گی، بیان کیے  گئے  منشورمیں  ہرایک کابراپہلوتیرے  رب کے  نزدیک ناپسند ہے  ، یہ انسانیت کومعراج تک پہنچانی والی حکمت کی وہ باتیں  ہیں  جوتیرے  رب نے  تجھ پروحی کی ہیں  تاکہ تولوگوں  کواس پرعمل کرنے  کاحکم دے  اورمنع کرے ، اورجیساکہ غیر  اللہ   کی عبادت کی ممانعت سے  اس کی ابتداکی گئی تھی اسی پرختم کرتے  ہوئے  عام مسلمانوں  کوتنبیہ فرمائی کہ یاد رکھو   اللہ   کے  سواکوئی معبودبرحق نہیں  ، اس کی ذات ، صفات اورافعال میں  کوئی اس کاشریک نہیں  ، کائنات کی ہرچیزاس کی مخلوق اوراس کے  درکی فقیرہے  ، کسی بڑے  چھوٹے  کے  قبضہ قدرت میں  کچھ نہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  کسی کوبھی کوئی اختیارنہیں  سونپاہے ، اس لئے  شیطان کے  خوبصورت جال میں  پھنس کر، اس کے  دلفریب وعدوں  میں  الجھ کر، اس کی پرفریب دلاسوں  سے  بہل کر   اللہ   کے  ساتھ کوئی دوسرا معبودنہ بنابیٹھنا ،   اللہ   کاشریک نہ بنانا جو کوئی   اللہ   تعالیٰ کے  ساتھ شرک کرتاہے    اللہ   تعالیٰ نے  اس پرجنت کوحرام کردیاہے ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲ [4]

ترجمہ:جس نے    اللہ   کے  ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر   اللہ   نے  جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے  اور ایسے  ظالموں  کا کوئی مدد گار نہیں  ۔

پھرمشرک کو   اللہ   تعالیٰ، فرشتوں  اورتمام مخلوق کی طرف سے  ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے  محروم ہوکر ابدالآبادتک جہنم کے  دردناک عذاب میں  داخل کردے  گا ، اوپربیان کردہ منشورکوایک مقام پر یوں  ارشاد فرمایا

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـیْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۚ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِیَّاهُمْ۝۰ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ۝۰ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۵۱وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ۝۰ۚ وَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۝۰ۚ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی۝۰ۚ وَبِعَهْدِ اللهِ اَوْفُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۲ۙ [5]

ترجمہ:اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !ان سے  کہوکہ آؤمیں  تمہیں  سناؤں  تمہارے  رب نے  تم پرکیاپابندیاں  عائدکی ہیں  یہ کہ اس کے  ساتھ کسی کوشریک نہ کرواور والدین کے  ساتھ نیک سلوک کرواوراپنی اولادکومفلسی کے  ڈرسے  قتل نہ کروہم تمہیں  بھی رزق دیتے  ہیں  اوران کوبھی دیں  گے ،  اوربے  شرمی کی باتوں  کے  قریب بھی نہ جاؤخواہ وہ کھلی ہوں  یاچھپی، اورکسی جان کوجسے    اللہ   نے  محترم ٹھہرایاہے  ہلاک نہ کرومگرحق کے  ساتھ، یہ باتیں  ہیں  جن کی ہدایت اس نے  تمہیں  کی ہے  شایدکہ تم سمجھ بوجھ سے  کام لو، اوریہ کہ مال یتیم کے  قریب نہ جاؤمگرایسے  طریقے  سے  جوبہترین ہویہاں  تک کہ وہ اپنے  سن رشدکوپہنچ جائے  ، اورناپ تول میں  پوراانصاف کروہم ہرشخص پرذمہ داری کااتناہی باررکھتے  ہیں  جتنااس کے  امکان میں  ہے  ، اورجب بات کہوانصاف کی کہوخواہ معاملہ اپنے  رشتہ دارہی کاکیوں  نہ ہواور  اللہ   کے  عہدکوپوراکروان باتوں  کی ہدایت   اللہ   نے  تمہیں  کی ہے  شایدکہ تم نصیحت قبول کرو۔

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اسی منشورکے  مطابق مدینہ منورہ کامعاشرہ قائم فرمایا۔

أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِینَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا ‎﴿٤٠﴾‏ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی هَٰذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّكَّرُوا وَمَا یَزِیدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا ‎﴿٤١﴾‏(بنی اسرائیل)
کیا بیٹوں  کے  لیے  تو   اللہ   نے  تمہیں  چھانٹ لیا اور خود اپنے  لیے  فرشتوں  کو لڑکیاں  بنالیں  ؟ بیشک تم بہت بڑا بول بول رہے  ہو،  ہم نے  اس قرآن میں  ہر ہر طرح بیان فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں  لیکن اس سے  انہیں  تو نفرت ہی بڑھتی ہے ۔

 شرک کی تردید:

اہل عرب کاعقیدہ تھاکہ فرشتے    اللہ   کی بیٹیاں  ہیں  اس لئے    اللہ   تعالیٰ کی خوشنودی کے  لئے  وہ ان کی مورتیاں  بناتے  اورخوبصورت کپڑے  پہناکران کی عبادت کرتے  تھے ،    اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  اس شرک کی تردیدفرمائی اورانہیں  اپنے  احمقانہ خیال پرسوچنے  کے  لئے  ایک نکتہ بیان فرمایا کہ سوچوتم لوگ اپنی افرادی قوت وطاقت کے  اظہارکے  لئے  لڑکوں  کوپسندکرتے  ہو، اگرتمہارے  ہاں  لڑکی پیداہوجائے  توتمہارے  سرشرمندگی سے  جھک جاتے  ہیں  اور چہرے  سیاہ پڑجاتے  ہیں  توکیا  اللہ   جوتمام کائنات اوراس کے  اندر جوکچھ ہے  سب کاخالق ومالک ہے اس نے  اپنے  لئے  لڑکوں  کے  بجائے  ملائکہ کوجنہیں  تم لڑکیاں  سمجھتے  ہوپسندفرمایا، کیاوہ تمہیں  لڑکیاں  دے  کرخودلڑکے  اپنے  پاس نہیں  رکھ سکتاتھا؟  اللہ   تعالیٰ نے  ارشادفرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸لَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۝۹۰ۭۙ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭ لَقَدْ اَحْصٰىہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا۝۹۴ۭوَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [6]

ترجمہ:وہ کہتے  ہیں  کہ رحمان نے  کسی کو بیٹا بنایا ہے ، سخت بے ہودہ بات ہے  جو تم لوگ گھڑ لائے  ہو، قریب ہے  کہ آسمان پھٹ پڑیں  ،  زمین شق ہو جائے  اور پہاڑ گر جائیں  اس بات پر کہ لوگوں  نے  رحمان کے  لیے  اولاد ہونے  کا دعوی کیا! رحمان کی یہ شان نہیں  ہے  کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ، زمین اور آسمانوں  کے  اندر جو بھی ہیں  سب اس کے  حضور بندوں  کی حیثیت سے  پیش ہونے  والے  ہیں  ، سب پر وہ محیط ہے  اور اس نے  ان کو شمار کر رکھا ہے ، سب قیامت کے  روز فردا فردا اس کے  سامنے  حاضر ہوں  گے ۔

حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   تعالیٰ نے  کائنات میں  خشکی وتری میں  طرح طرح کی چھوٹی بڑی مخلوقات تخلیق کی ہیں  ، اسی طرح ملائکہ   اللہ   کی ایک مقرب مخلوق ہے  ،  جن میں    اللہ   تعالیٰ نے  شرکامادہ ہی نہیں  رکھا، یہ   اللہ   کے  جاہ وجلال اورہیبت سے  لرزاں  رہتے  اور ہروقت   اللہ   کی حمدوتقدیس بیان کرتے  رہتے  ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  کائنات کا نظام چلانے  کے  لئے  مختلف ملائکہ کومختلف خدمات سونپ رکھی ہیں  ، جیسے  جبرائیل علیہ السلام ہیں  جن کے  چھ سو بازو ہیں  ،  یہ فرشتوں  میں  سب سے  زیادہ برگزیدہ ہیں  اور  اللہ   تعالیٰ کاکلام واحکامات اس کے  منتخب نبیوں  ، رسولوں  پراس کے  حکم سے  نازل کرتے  ہیں  ،   اللہ   نے  ان کی قوت وامانت کی تعریف فرمائی۔

 وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙ [7]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے  ، اسے  لے  کرتیرے  دل پرامانت دارروح اتری ہے ۔

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ۝۱۹ۙذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ۝۲۰ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۝۲۱ۭ [8]

ترجمہ:یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام برکاقول ہے  جوبڑی توانائی رکھتاہے  ،  عرش والے  کے  ہاں  بلندمرتبہ ہے وہاں  اس کاحکم ماناجاتاہے وہ بااعتمادہے ۔

معراج میں  یہی فرشتہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ہمراہ تھا ، مالک الموت (عزرائیل علیہ السلام )کاکام وقت مقررہ پر ہر جاندارکی روح قبض کرناہے ۔

قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۝۱۱ۧ [9]

ترجمہ:ان سے  کہو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے  تم کو پورا کا پورا اپنے  قبضے  میں  لے  لے  گا اور پھر تم اپنے  رب کی طرف پلٹا لائے  جاؤ گے ۔

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٍ وَغَیْرِ وَاحِدٍ أَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّ الْأَرْضَ بَیْنَ یَدَیْ مَلَكِ الْمَوْتِ مِثْلُ الطَّسْتِ، یَتَنَاوَلُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما ، مجاہد رحمہ   اللہ   اورمتعدددوسرے  راویوں  نے  بیان کیاہے  کہ ساری زمین ملک الموت کے  سامنے  ایسی ہے  جس طرح کسی کے  سامنے  کھانے  کاطشت رکھاہو اوروہ یعنی ملک الموت اس طشت میں  سے  حسب منشاکھاتارہتاہے ۔ [10]

مالک الموت کے  دوخصوصی معاونین فرشتے  ہیں  ، ایک آسانی سے  جان نکالنے  والافرشتہ جسے’’ النّٰشِطٰتِ ‘‘ کہا جاتا ہے  اوردوسرا سختی سے  جان نکالنے  والا فرشتہ جسے’’النّٰزِعٰتِ ‘‘ کہا جاتاہے ۔

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۝۱ۙوَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۝۲ۙ [11]

ترجمہ:قسم ہے  ان (فرشتوں  ) کی ! جو ڈوب کر کھینچتے  ہیں  اور آہستگی سے  نکال لے  جاتے  ہیں  ۔

کچھ فرشتے  کائنات میں  تیزی کے  ساتھ حرکت کرتے  ہیں  ۔

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۝۳ۙ [12]

ترجمہ:ا ور قسم ہے  ! (ان فرشتوں  کی جو کائنات میں  ) تیزی سے  تیرتے  پھرتے  ہیں  ۔

میکائیل علیہ السلام کے  ذمہ بارش اورروزی پہنچاناہے  ، ایک فرشتہ اسرافیل علیہ السلام ہے  جب سے  کائنات وجودمیں  آئی ہے  صورکواپنے  منہ سے  لگائے  اپنے  رب کے  حکم کے  منتظرہیں  ، جس دن صورپھونکاجائے  گااس دن کائنات کاسارانظام درہم برہم ہوجائے  گا، آسمان پھٹ جائے  گا، پہاڑروئی کے  گالوں  کی طرح اڑتے  پھریں  گے  ،  ہرذی روح سوائے  میرے  رب کے  موت کی آغوش میں  چلاجائے  گااورقیامت قائم ہوجائے  گی ، چارفرشتے  حاملین عرش ہیں  روزقیامت   اللہ   چاراور فرشتوں  کااضافہ فرمائیں  گے  اس طرح اس روزآٹھ فرشتے  رب کاعرش تھامے  ہوئے  ہوں  گے  اورباقی فرشتے  صف باندھے  کھڑے  ہوں  گے ۔

 وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِیَ یَوْمَىِٕذٍ وَّاهِیَةٌ۝۱۶ۙوَّالْمَلَكُ عَلٰٓی اَرْجَاۗىِٕهَا۝۰ۭ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ۝۱۷ۭ [13]

ترجمہ:اس دن آسمان پھٹے  گااوراس کی بندش ڈھیلی پڑجائے  گی ، فرشتے  اس کے  اطراف وجوانب میں  ہوں  گے  اورآٹھ فرشتے  اس روزتیرے  رب کاعرش اپنے  اوپراٹھائے  ہوئے  ہوں  گے ۔

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ۔ ۔ ۔ ۝۷ [14]

ترجمہ: عرش الٰہی کے  حامل فرشتے  اوروہ جوعرش کے  گردوپیش حاضررہتے  ہیں  سب اپنے  رب کی حمدکے  ساتھ اس کی تسبیح کررہے  ہیں  ۔

رضوان جنت ہیں  جن کے  ذمہ حوروغلمان اورخدام کی نگرانی ہے  ، خدام جنت ہیں  جن کی گنتی   اللہ   تعالیٰ کے  سواکسی کومعلوم نہیں  ۔

۔ ۔ ۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ۝۲۲ۙجَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۝۲۳ۚسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۝۲۴ۭ [15]

ترجمہ:آخرت کاگھرانہی لوگوں  کے  لیے  ہے  یعنی ایسے  باغ جوان کی ابدی قیامگاہ ہوں  گے  ، وہ خودبھی ان میں  داخل ہوں  گے  اوران کے  آباؤاجداد اور ان کی بیویوں  اوران کی اولادمیں  سے  جوصالح ہیں  وہ بھی ان کے  ساتھ وہاں  جائیں  گے  ، ملائکہ ہرطرف سے  ان کے  استقبال کے  لیے  آئیں  گے  اوران سے  کہیں  گے  تم پر سلامتی ہے  تم نے  دنیا میں  جس طرح صبرسے  کام لیااس کی بدولت آج تم اس کے  مستحق ہوئے  ہو۔

اور دوزخ پرانیس(۱۹)تندخوفرشتے  مقرر ہیں  جن کاکام جہنم کے  انتظام کرنے  اوردوزخیوں  کوعذاب دینا ہے ۔

 وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ۝۲۷ۭلَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ۝۲۸ۚلَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ۝۲۹ۚۖ عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ۝۳۰ۭ [16]

ترجمہ:اورتم کیاجانوکہ کیا ہے  وہ دوزخ؟نہ باقی رکھے  نہ چھوڑے ، کھال جھلس دینے  والی ، انیس کارکن اس پرمقرر ہیں  ۔

شیطانوں  اورجنوں  کوآسمان پرجانے  سے  روکنے  کے  لیے  بھی فرشتے  مقرر ہیں  ۔

 وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُهُبًا۝۸ۙوَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ۝۰ۭ فَمَنْ یَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا۝۹ۙ [17]

ترجمہ:اوریہ کہ ہم نے  آسمان کو ٹٹولا تو دیکھاکہ وہ پہریداروں  سے  پٹاپڑاہے  اورشہابوں  کی بارش ہورہی ہے  ، اوریہ کہ پہلے  ہم سن گن لینے  کے  لیے  آسمان میں  بیٹھنے  کی جگہ پا لیتے  تھے  مگراب جوچوری چھپے  سننے  کی کوشش کرتا ہے  وہ اپنے  لیے  گھات میں  ایک شہاب ثاقب پاتاہے ۔

ہرانسان کے  ساتھ دوفرشتے  کراماکاتبین ہیں  جو اس کے  چھوٹے  یابڑے  افعال جوکچھ انہوں  نے  کیے  ہیں  اور جو کچھ آثارانہوں  نے  پیچھے  چھوڑے  ہیں  لکھتے  رہتے  ہیں  ۔

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ۝۹ۙوَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [18]

ترجمہ:بلکہ (اصل بات یہ ہے  کہ)تم لوگ جزاوسزاکوجھٹلاتے  ہوحالانکہ تم پرنگران مقررہیں  ، ایسے  معزز کاتب جوتمہارے  ہرفعل کوجانتے  ہیں  ۔

کچھ پہریدارفرشتے  ہیں  جوانسانوں  اوران کے  اعمال کی نگرانی وحفاظت پرمامورہیں  ۔

لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللهِ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۱۱ [19]

ترجمہ:ہرشخص کے  آگے  اورپیچھے  اس کے  مقررکیے  ہوئے  نگران لگے  ہوئے  ہیں  جو  اللہ   کے  حکم سے  اس کی دیکھ بھال کررہے  ہیں  ۔

کچھ فرشتے  انسانوں  کے  روزانہ کے  اعمال بارگاہ الٰہی میں  پیش کرتے  ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: المَلاَئِكَةُ یَتَعَاقَبُونَ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّیْلِ،  وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ،  وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ،  وَصَلاَةِ العَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْهِ الَّذِینَ بَاتُوا فِیكُمْ،  فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ،  فَیَقُولُ: كَیْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِی،  فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ یُصَلُّونَ،  وَأَتَیْنَاهُمْ یُصَلُّونَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایافرشتے  آگے  پیچھے  زمین پرآتے  جاتے  رہتے  ہیں  ،  کچھ فرشتے  رات کے  ہیں  اورکچھ دن کے  اوریہ سب فجراورعصرکی نمازمیں  جمع ہوتے  ہیں  ، پھروہ فرشتے  تمہارے  یہاں  رات میں  رہے    اللہ   کے  حضورمیں  جاتے  ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ ان سے  دریافت فرماتاہے حالانکہ وہ سب سے  زیادہ جاننے  والاہے  کہ تم نے  میرے  بندوں  کوکس حال میں  چھوڑا، وہ فرشتے  عرض کرتے  ہیں  کہ جب ہم نے  انہیں  چھوڑاتووہ (فجرکی)نمازپڑھ رہے  تھے  اوراسی طرح جب ہم ان کے  یہاں  گئے  تھے  جب بھی وہ(عصرکی)نمازپڑھ رہے  تھے ۔ [20]

فرشتہ تقدیرمقررہے  ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا ،  یَقُولُ: یَا رَبِّ نُطْفَةٌ،  یَا رَبِّ عَلَقَةٌ،  یَا رَبِّ مُضْغَةٌ،  فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقَهُ قَالَ: أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى،  شَقِیٌّ أَمْ سَعِیدٌ،  فَمَا الرِّزْقُ وَالأَجَلُ،  فَیُكْتَبُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ بیان کرتے  ہیں  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ نے  رحم پرجس فرشتہ کو مقرر کر رکھاہے وہ عرض کرتاہے  پروردگار! نطفہ (بناؤں  )پروردگار!بستہ خون (بناؤں  پروردگار! لوتھڑا (بناؤں  ) اس کے  بعدجب باری تعالیٰ اس کی بناوٹ مکمل کرنی چاہتا ہے  توفرشتہ عرض کرتاہے  پروردگاریہ لڑکاہے  یا لڑکی؟ یہ نیک بخت ہے  یابدبخت ؟ اس کارزق کیاہے ؟اس کی عمرکیاہے ؟ اس طرح (یہ سب باتیں  ) ماں  کے  پیٹ کے  اندرلکھ دی جاتی ہیں  ۔ [21]

ایک فرشتہ پہاڑوں  پرمقرر ہے  ،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ أَتَى عَلَیْكَ یَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ،  قَالَ: لَقَدْ لَقِیتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِیتُ،  وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِیتُ مِنْهُمْ یَوْمَ العَقَبَةِ،  إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِی عَلَى ابْنِ عَبْدِ یَالِیلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ،  فَلَمْ یُجِبْنِی إِلَى مَا أَرَدْتُ،  فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِی،  فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِی،  فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِی،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے  میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  پوچھاکیاآپ پراحدکے  دن سے  بھی زیادہ کوئی سخت دن گزراہے ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکہ تمہاری قوم (قریش)کی طرف سے  میں  نے  کتنی مصیبتیں  اٹھائی ہیں  لیکن اس سارے  دورمیں  عقبہ کادن مجھ پرسب سے  زیادہ سخت تھایہ وہ موقع تھاجب میں  نے  (طائف کے  سردار)کنانہ ابن عبدیالیل بن عبدکلال کے  ہاں  اپنے  آپ کوپیش کیاتھا، لیکن اس نے (اسلام کوقبول نہیں  کیااور)میری دعوت کوردکر دیا میں  وہاں  سے  انتہائی رنجیدہ ہوکرواپس ہوپھرجب میں  قرن الثعالب پہنچاتب مجھے  کچھ ہوش آیا، میں  نے  اپناسراٹھایاتوکیادیکھتاہوں  کہ بدلی کاایک ٹکڑامیرے  اوپرسایہ کئے  ہوئے  ہے

فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِیهَا جِبْرِیلُ،  فَنَادَانِی فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ،  وَمَا رَدُّوا عَلَیْكَ،  وَقَدْ بَعَثَ إِلَیْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِیهِمْ،  فَنَادَانِی مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَیَّ،  ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  فَقَالَ،  ذَلِكَ فِیمَا شِئْتَ،  إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْهِمُ الأَخْشَبَیْنِ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ،  لاَ یُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا

اورمیں  نے  دیکھاکہ جبریل علیہ السلام اس میں  موجودہیں  ، انہوں  نے  مجھے  آوازدی اورکہاکہ   اللہ   تعالیٰ آپ کے  بارے  میں  آپ کی قوم کی باتیں  سن چکاہے  اورجوانہوں  نے  ردکیاہے  وہ بھی سن چکاہے ، آپ کے  پاس   اللہ   تعالیٰ نے  پہاڑوں  کافرشتہ بھیجاہے  آپ ان کے  بارے  میں  جوچاہیں  اس کااسے  حکم دے  دیں  ، اس کے  بعدمجھے  پہاڑوں  کے  فرشتے  نے  آوازدی انہوں  نے  مجھے  سلام کیااورکہاکہ اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم ! پھرانہوں  نے  بھی وہی بات کہی آپ جوچاہیں  (اس کامجھے  حکم فرمائیں  )اگرآپ چاہیں  تومیں  دونوں  طرف کے  پہاڑان پر لاکر ملا دوں  (جن میں  وہ پس جائیں  )رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامجھے  تواس کی امیدہے  کہ   اللہ   تعالیٰ ان کی نسل سے  ایسی اولادپیداکرے  گاجواکیلے    اللہ   کی عبادت کرے  گی اوراس کے  ساتھ کسی کوشریک نہیں  ٹھہرائے  گی۔ [22]

بادلوں  پربھی فرشتہ مقررہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ،  فَسَمِعَ صَوْتًا فِی سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِیقَةَ فُلَانٍ،  فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ،  فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِی حَرَّةٍ،

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاایک مرتبہ ایک شخص جنگل میں  جارہاتھاکہ اچانک اس کے  کانوں  سے  یہ آوازٹکرائی کہ کوئی بادلوں  کوحکم دے  رہاہے  فلاں  آدمی کے  باغ کوسیراب کرو(وہ آدمی بادلوں  سے اس آوازکوسن کرحیران ومتعجب ہوا) اوراس نے  دیکھاکہ اس بادل نے  وہاں  سے  ہٹ کرایک پتھریلی زمین پرخوب پانی برسایا۔ [23]

کچھ فرشتے  زمین میں  گشت کرتے  رہتے  ہیں  اور جو کوئی رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھتاہے  اس کاہدیہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم تک پہنچاتے  ہیں  ۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَیَّاحِینَ فِی الْأَرْضِ یُبَلِّغُونِی مِنْ أُمَّتِی السَّلَامَ

عبد  اللہ   مسعود رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ارشاد فرمایا بلاشبہ   اللہ   تعالیٰ کے  فرشتے  زمین میں  گھومتے  رہتے  ہیں  اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے  ہیں  ۔ [24]

کچھ فرشتوں  کی یہ ڈیوٹی ہے  کہ ایک مومن جب کسی دوسرے  مومن کے  لیے  اس کی غیرموجودگی میں  دعا کرتا ہے  توفرشتہ کہتاہے  خدایاقبول فرمااوردعاکرنے  والے  کوبھی وہی رحمت مرحمت فرما۔

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ،  قَالَ: وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ،  قَالَ: أَتَیْتُ الشَّامَ فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِی الدَّرْدَاءِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ،  فَقَالَتْ: تُرِیدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ،  فَقَالَتْ: فَادْعُ لَنَا بِخَیْرٍ،  فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ: إِنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِیهِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ،  عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ،  كُلَّمَا دَعَا لِأَخِیهِ بِخَیْرٍ قَالَ: آمِینَ،  وَلَكَ بِمِثْلٍ

صفوان بن عبد  اللہ   جن کے  نکاح میں  درداء رضی   اللہ   عنہ تھیں  کہتے  ہیں  ایک مرتبہ میں  شام آیا اور ابودرداء رضی   اللہ   عنہ کی خدمت میں  حاضر ہوا لیکن وہ گھر پر نہیں  ملے  البتہ ان کی اہلیہ موجود تھیں  انہوں  نے  مجھ سے  پوچھا کہ کیا اس سال تمہارا حج کا ارادہ ہے ؟ میں  نے  اثبات میں  جواب دیا انہوں  نے  فرمایا کہ ہمارے  لیے  بھی خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم فرمایا کرتے  تھے  کہ مسلمان اپنے  بھائی کی غیر موجودگی میں  اس کی پیٹھ پیچھے  جو دعاء کرتا ہے  وہ قبول ہوتی ہے  اور اس کے  سر کے  پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے  لئے  مقرر ہوتا ہے  کہ جب بھی وہ اپنے  بھائی کے  لئے  خیر کی دعاء مانگے  تو وہ اس پر آمین کہتا ہے  اور یہ کہتا ہے  کہ تمہیں  بھی یہی نصیب ہو۔ [25]

قبرمیں  سوال جواب کے  فرشتے  مقررہیں  جنہیں  منکرنکیرکہاجاتاہے  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قُبِرَ الْمَیِّتُ،  أَوْ قَالَ: أَحَدُكُمْ،  أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ،  یُقَالُ لأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ،  وَلِلآخَرِ: النَّكِیر

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب میت کوقبرمیں  دفن کردیاجاتاہے  تواس کے  پاس دوفرشتے  آتے  ہیں  جن کے  رنگ سیاہ اورآنکھیں  نیلی ہوتی ہیں  ان میں  سے  ایک کومنکر اوردوسرے  کونکیرکہاجاتاہے ۔ [26]

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،  قَالَ:قَالَ:وَیَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَیَقُولُ: رَبِّیَ اللَّهُ، فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: دِینِیَ الْإِسْلَامُ، فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیكُمْ؟ قَالَ: فَیَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَقُولَانِ: وَمَا یُدْرِیكَ؟فَیَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ

براء بن عازب رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  قبرمیں  مومن میت کی حالت کا ذکر کرتے  ہوئے  فرمایااس مومن کے  پاس دوفرشتے  آتے  ہیں  اوراسے  بٹھاکردونوں  اس سے  پوچھتے  ہیں  تیرارب کون ہے ؟مومن جواب دیتاہے  میرارب   اللہ   تعالیٰ ہے ، دونوں  فرشتے  دوسرا سوال کرتے  ہیں  تیرادین کیاہے ؟وہ جواب دیتاہے  کہ میرادین اسلام ہے ، وہ پھردریافت کرتے  ہیں  جوشخص تم میں  (نبی بنا کر ) بھیجا گیااس کے  بارے  میں  تمہاراکیاخیال ہے ؟مومن آدمی کہتاہے  کہ وہ   اللہ   تعالیٰ کے  رسول ہیں  ،  فرشتے  پھرپوچھتے  ہیں  تمہیں  ان باتوں  کاعلم کیسے  ہوا؟وہ آدمی جواب دیتاہے  کہ میں  نے    اللہ   کی کتاب پڑھی ، اس پر ایمان لایااوراس کی تصدیق کی۔ [27]

جب مومن ان چارسوالات کے  صحیح جوابات دے  دیتاہے  تواس پر نوازشات کانزول شروع ہوجاتاہے  اورقیامت تک کے  لیے  اس کی قبر کو راحتوں  اور روشنی سے  بھر دیا جاتا ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ،  فَقُلْتُ مِثْلَهُ،  لَا أَدْرِی،  فَیَقُولَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ، فَیُقَالُ لِلأَرْضِ: التَئِمِی عَلَیْهِ،  فَتَخْتَلِفُ فِیهَا أَضْلَاعُهُ،  فَلَا یَزَالُ فِیهَا مُعَذَّبًا حَتَّى یَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااوراگرمرنے  والامنافق ہوتاہے  تووہ ہرسوال پر شور مچاتاہے  اورکہتاہے  لوگ جوکچھ کہتے  تھے  میں  بھی وہی کہا کرتا تھا ہائے  مجھے  نہیں  معلوم، فرشتے  کہیں  گے  ہمیں  علم تھاکہ تو یہی کہے  گا، پھرزمین سے  کہاجائے  گااس پرتنگ ہوجا(مل جا)زمین باہم مل جائے  گی اوراس کے  سبب اس کی دائیں  پسلیاں  بائیں  میں  اور بائیں  پسلیاں  دائیں  میں  پیوست ہوجائیں  گی اور تاقیامت اسے  یونہی عذاب ہوتارہے  گا۔  [28]

کچھ فرشتے  آسمانوں  کے  دروازے  کھولنے  پرمقررہیں  ، جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم معراج پر تشریف لے  گئے  توآسمان دنیاکے  فرشتوں  نے  پوچھاکہ کون آئے  ہیں  ؟ جب انہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  آنے  کا کہا گیا توپھرانہوں  نے  دروازہ کھولااس طرح ہرآسمان کے  فرشتے  نے  سوال کیااوردروازہ کھولا۔ [29]

کچھ فرشتے  نیک اوربدلوگوں  کی روحیں  لے  کر  اللہ   کی بارگاہ میں  پیش کرنے  کے  لئے  مقررہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ:إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ یُصْعِدَانِهَاوَیَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَیِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ،  صَلَّى الله عَلَیْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِینَهُ،  فَیُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ،  ثُمَّ یَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ،  وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وَیَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِیثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ،  قَالَ فَیُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامومن کی روح جب نکلتی ہے  تو دو فرشتے  اس کولے  کراوپرچڑھتے  ہیں  آسمان والے  کہتے  ہیں  کیسی پاک روح ہے  جوزمین کی طرف سے  آئی ہے  ،   اللہ   تجھ پراوراس بدن پررحمت کرے  جس کوتوآبادرکھتی تھی، اس کے  بعدپروردگارکے  سامنے  اس کولے  جایا جاتا ہے  ،   اللہ   تعالیٰ فرماتاہے  قیامت ہونے  تک اس کولے  جاؤ(اپنے  مقام علیین میں  جہاں  مومنوں  کی ارواح رہتی ہیں  )اورجب کافرکی روح جب نکلتی ہے  اورآسمان کی طرف جاتی ہے  توآسمان والے  کہتے  ہیں  کیسی خبیث روح زمین کی طرف سے  آئی ہے ، اورحکم ہوتاہے  کہ قیامت ہونے  تک اس کولے  جاؤ(اپنے  مقام سجین میں  جہاں  کفارکی ارواح رہتی ہیں  )۔ [30]

کچھ مقرب فرشتے  ہیں  جوعرش کے  گردوپیش حاضر رہتے  ہیں  اورشب وروزاپنے  رب کی حمدکے  ساتھ اس کی تسبیح کررہے  ہیں  ، وہ اس پرایمان رکھتے  ہیں  اورایمان لانے  والوں  کے  حق میں  دعائے  مغفرت کرتے  ہیں  ،  زمین والوں  کے  حق میں  درگزرکی درخواستیں  کیے  جاتے  ہیں  ۔

 تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ ۔ ۔ ۔  ۝۵ [31]

ترجمہ:قریب ہے  کہ آسمان اوپرسے  پھٹ پڑیں  ، فرشتے  اپنے  رب کی حمدکے  ساتھ تسبیح کررہے  ہیں  اورزمین والوں  کے  حق میں  درگزرکی درخواستیں  کیے  جاتے  ہیں  ۔

ہرشخص کے  دائیں  اوربائیں  دوفرشتے  مقررہیں  جواس کااعمال لکھتے  رہتے  ہیں  ۔

اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱۷مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸ [32]

ترجمہ:(اور ہمارے  اس براہِ راست علم کے  علاوہ) دو کاتب اس کے  دائیں  اور بائیں  بیٹھے  ہر چیز ثبت کر رہے  ہیں  ، کوئی لفظ اس کی زبان سے  نہیں  نکلتا جسے  محفوظ کرنے  کے  لیے  ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔

کچھ فرشتے  مسجدمیں  جلدی آنے  والوں  کے  نام لکھتے  ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إِذَا كَانَ یَوْمُ الجُمُعَةِ،  كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ المَسْجِدِ المَلاَئِكَةُ،  یَكْتُبُونَ الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ،  فَإِذَا جَلَسَ الإِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ،  وَجَاءُوا یَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب جمعہ کادن آتاہے  تومسجدکے  دروازے  پرفرشتے  کھڑے  ہوجاتے  ہیں  اورسب سے  پہلے  آنے  والے  اوراس کے  بعدآنے  والوں  کونمبروارلکھتے  جاتے  ہیں  ، پھرجب امام(خطبے  کے  منبرپر)بیٹھ جاتاہے  تویہ فرشتے  اپنے  رجسٹربندکرلیتے  ہیں  اورذکرسننے  لگ جاتے  ہیں  ۔ [33]

یہ مخلوق ہمیں  نظرنہیں  آتی مگران پرایمان رکھنا اوران کے  کوائف اوران کے  کاموں  کی تصدیق ایمان کاجزوہے ، قرآن مجیدمیں  ملائکہ کاذکر۸۶آیات میں  ۸۸مرتبہ آیاہے ،  چنانچہ   اللہ   تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے  تحت انہیں  جوبھی حکم فرماتاہے  وہ اس کی سرتابی کی جرات کرنے  کی بجائے  حکم کی تعمیل میں  سرگرداں  ہوجاتے  ہیں  ، ملائکہ کو  اللہ   کی بیٹیاں  اور  اللہ   کے  بندے  اوررسول عزیر علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام کو   اللہ   کابیٹا قراردے  کر تم لوگ ظلم عظیم کے  مرتکب ہوتے  ہو جس کی معافی نہیں  ، ہم نے  اس قرآن میں  اپنی دعوت کی حقانیت پر مختلف مثالوں  ، دلائل وبینات ، ترغیب وترہیب سے  لوگوں  کوباربارسمجھایاکہ   اللہ   کی نافرمانیوں  سے  بچیں  اور اس ظلم عظیم سے  بازآجائیں  اوردعوت حق پرایمان لے  آئیں  جس میں  رب کی رضا و خوشنودی اور ابدی زندگی کی نعمتیں  ہیں  ، لیکن اکثرلوگ باطل سے  محبت اورحق کے  خلاف بغض رکھنے  کی وجہ سے  حق پرغوروتدبرنہیں  کرتے  اور اس کتاب مبین کوجوسراسرہدایت ہے ، جس پرعمل کرنے  سے  عزت ومرتبہ ملتا ہے  ، جوقیامت کے  روزباعث نجات ہے ،  جادو، کہانت اورشاعری سمجھ کر اورزیادہ دورہی بھاگتے  جارہے  ہیں  ۔

قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا یَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیلًا ‎﴿٤٢﴾‏ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِیرًا ‎﴿٤٣﴾‏ تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِیهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِیمًا غَفُورًا ‎﴿٤٤﴾(بنی اسرائیؒ)
’’کہہ دیجئے  ! کہ اگر   اللہ   کے  ساتھ اور معبود بھی ہوتے  جیسے  کہ یہ لوگ کہتے  ہیں  تو ضرور وہ اب تک مالک عرش کی جانب راہ ڈھونڈ نکالتے ،  جو کچھ یہ کہتے  ہیں  اس سے  پاک اور بالا تر،  بہت دور اور بہت بلند ہے  ،  ساتوں  آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں  ہے  اسی کی تسبیح کر رہے  ہیں ،  ایسی کوئی چیز نہیں  جو اسے  پاکیزگی اور تعریف کے  ساتھ یاد نہ کرتی ہو، ہاں  یہ صحیح ہے  کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں  سکتے ،  وہ بڑا بردبار اور بخشنے  والا ہے ۔ ‘‘

کائنات کی تسبیح وتحمید:

پھرمشرکین کودوسرانکتہ بیان فرمایاکہ اگرتمہارے  زعم اورافتراپردازی کے  مطابق   اللہ   کے  دوسرے  شریک بھی ہوتے ، کوئی دن کادیوتاہوتاتوکوئی رات کا ،  کوئی رزق کا مالک ہوتااورکوئی زندگی وموت کا، کوئی میدانوں  کادیوتاہوتااورکوئی پہاڑوں  کا، کوئی دریاؤں  کا دیوتا ہوتااورکوئی سمندروں  کاکوئی ہواؤں  کادیوتاہوتااورکوئی بارش کا،  توکیاوہ خاموشی سے  ایک   اللہ   کی حاکمیت برداشت کرتے  رہتے ؟ کیاان شریکوں  کی اپنی کوئی طاقت اورذمہ داری نہ ہوتی اور وہ   اللہ   کے  ہرحکم کوبرداشت کرتے  رہتے ؟ کیاوہ اپنی طاقت وقوت کااظہارنہ کرتے  ؟کیاوہ غلبہ اورقوت حاصل کرنے  کے  لئے    اللہ   کی حکومت اوراس کے  جاری وساری قوانین میں  مداخلت نہ کرتے ؟کیاوہ خودمالک عرش بننے  کی کوشش نہ کرتے  ؟مگرتم دیکھتے  ہو  اللہ   وحدہ لاشریک کے  قوانین میں  کوئی ردوبدل نہیں  ہوتا ، سورج ، چاند،  ستارے ،  دریا،  سمندر، ہوائیں  ، بارش ، پہاڑوغیرہ سب کے  سب صدیوں  سے  اپنی اپنی مقرر شدہ ڈیوٹی سرانجام دے  رہے  ہیں  اور  اللہ   کے  حکم سے  زرہ برابر سرتابی نہیں  کرتے ،   اللہ   تعالیٰ مشرکین کے  شرک سے  اوران کے  اس کا ہمسر بنا لینے  سے  پاک اوربالاوبرترہے  ،  جیسے  فرمایا

مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۹۱ۙ [34]

ترجمہ:  اللہ   نے  کسی کواپنی اولادنہیں  بنایاہے  اورکوئی دوسراالٰہ اس کے  ساتھ نہیں  ہے  اگرایساہوتاتوہرالٰہ اپنی خلق کولے  کرالگ ہوجاتااورپھروہ ایک دوسرے  پرچڑھ دوڑتے  ،  پاک ہے    اللہ   ان باتوں  سے  جویہ لوگ بناتے  ہیں  ۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَیَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ۝۱۷ۭقَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَآ اَنْ نَّــتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَاۗءَ ۔ ۔ ۔ ۝۱۸ [35]

ترجمہ:اوروہی دن ہوگاجب کہ (تمہارارب)ان لوگوں  کوبھی گھیرلائے  گا اور ان کے  ان معبودوں  کوبھی بلالے  گاجنہیں  آج یہ   اللہ   کوچھوڑکرپوج رہے  ہیں  پھروہ ان سے  پوچھے  گاکیاتم نے  میرے  ان بندوں  کوگمراہ کیاتھایایہ خودراہ راست سے  بھٹک گئے  تھے ؟وہ عرض کریں  گے  پاک ہے  آپ کی ذات!ہماری تویہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے  سواکسی کواپنامولیٰ بنائیں  ۔

سورج ، چاند،  ستارے ،  دریا،  سمندر، ہوائیں  ، بارش ،  پہاڑوغیرہ کی طرح کائنات کی ہرجان داراوربے  جان شئے  اپنی مقررہ ڈیوٹی سرانجام دے  رہی ہے ،  ہرچیز   اللہ   کی الوہیت اورربوبیت میں  اسے  واحدلاشریک مانتی ہے  اور اپنے  اپنے  اندازمیں  رب کی تسبیح وتحمید بیان کرتی رہتی ہے  مگرتم ان کی تسبیح سمجھتے  نہیں  ہو،  جیسے  داود علیہ السلام کے  بارے  میں  فرمایا

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ۝۱۸ۙ [36]

ترجمہ: ہم نے  پہاڑوں  کواس کے  ساتھ مسخرکررکھاتھاکہ صبح وشام وہ اس کے  ساتھ تسبیح کرتے  تھے ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔ ۔ ۔ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْـیَةِ اللهِ ۔ ۔ ۔  ۝۷۴ [37]

ترجمہ:کیونکہ پتھروں  میں  سے  توکوئی ایسا بھی ہوتاہے  جس سے چشمے  پھوٹ بہتے  ہیں  ، کوئی پھٹتا ہے  اوراس میں  سے  پانی نکل آتاہے  اورکوئی   اللہ   کے  خوف سے  لرزکرگربھی پڑتا ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،  قَالَ: وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیحَ الطَّعَامِ وَهُوَ یُؤْكَلُ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما فرماتے  ہیں  ہم تو رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  زمانے  میں  کھاتے  وقت کھانے  کی تسبیح (بطور معجزہ کبھی کبھی ) سنتے  تھے ۔ [38]

کائنات کی دوسری مخلوقات کی طرح چیونٹیاں  بھی   اللہ   کی تسبیح کرتی ہیں  ۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  یَقُولُ:قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَاءِ،  فَأَمَرَ بِقَرْیَةِ النَّمْلِ،  فَأُحْرِقَتْ،  فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ: أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  سناآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم فرمارہے  تھے  ایک چیونٹی نے  ایک نبی (عزیریاموسیٰ علیہ السلام )کوکاٹ لیاتھاتوان کے  حکم سے  چیونٹیوں  کے  سارے  گھرجلادیئے  گئے ،  اس پر  اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  پاس وحی بھیجی کہ اگرتمہیں  ایک چیونٹی نے  کاٹ لیاتھاتوتم نے  ایک ایسی خلقت کو جلاکرخاک کردیاجو  اللہ   کی تسبیح بیان کرتی تھی۔ [39]

لکڑی بھی   اللہ   کاذکرسنتی ہے ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ یَقُومُ یَوْمَ الجُمُعَةِ إِلَى شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ،  فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ،  أَوْ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ،  أَلاَ نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا؟ قَالَ:إِنْ شِئْتُمْ،  فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا فَلَمَّا كَانَ یَوْمَ الجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَى المِنْبَرِ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ صِیَاحَ الصَّبِیِّ،  ثُمَّ نَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَیْهِ،  تَئِنُّ أَنِینَ الصَّبِیِّ الَّذِی یُسَكَّنُ، قَالَ:كَانَتْ تَبْكِی عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ عِنْدَهَا

جابرعبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم جمعہ کے  دن خطبہ کے  لئے  ایک درخت (کے  تنے )لے  پاس کھڑے  ہوتے ، یا(بیان کیاکہ) کھجورکے  ایک تنے  کے  پاس ،  پھرایک انصاری عورت نے  یاکسی صحابی نے  کہااے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !کیوں  نے  ہم آپ کے  لئے  ایک منبر تیارکردیں  ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااگرتمہاراجی چاہے  توتیارکردو، چنانچہ انہوں  نے  آپ کے  لئے  منبرتیارکردیاجب جمعہ کادن ہواتوآپ اس منبر پرتشریف لے  گئے ، اس پراس کھجورکے  تنے  سے  بچے  کی طرح رونے  کی آواز آنے  لگی،  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم منبرسے  اترے  اور اسے  اپنے  گلے  سے  لگالیاجس طرح بچوں  کوچپ کرنے  کے  لئے  لوریاں  دیتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  بھی اسی طرح اسے  چپ کرایا، پھرآپ نے  فرمایایہ تنااس لئے  رو رہاتھاکہ وہ   اللہ   کے  ذکرکوسناکرتاتھاجواس کے  قریب ہوتاتھا۔ [40]

پتھربھی حق کوپہچانتے  ہیں  ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ بِمَكَّةَ حَجَرًا كَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ لَیَالِیَ بُعِثْتُ،  إِنِّی لَأَعْرِفُهُ الآنَ

جابربن سمرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامکہ مکرمہ میں  ایک پتھرتھاجومجھ کوسلام کیاکرتاتھامیں  اب بھی اسے  پہچانتا ہوں  ۔ [41] کنکرپتھربھی   اللہ   وحدہ لاشریک کی تسبیح بیان کرتے  ہیں  ۔

وَفِی حَدِیثِ أَبِی ذَرٍّ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ فِی یَدِهِ حَصَیَاتٍ،  فَسُمِعَ لَهُنَّ تَسْبِیحٌ كَحَنِینِ النَّحْلِ

ابوذر رضی   اللہ   عنہ فرماتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  چندکنکریاں  اپنی مٹھی میں  لیں  میں  نے  خودسناکہ وہ شہدکی مکھیوں  کی بھنبھناہٹ کی طرح   اللہ   کی تسبیح کررہی تھی۔ [42]

عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ،  عَنْ أَبِیهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرّ عَلَى قَوْمٍ وَهُمْ وُقُوفٌ عَلَى دَوَابٍّ لَهُمْ وَرَوَاحِلَ،  فَقَالَ لَهُمْ:ارْكَبُوهَا سَالِمَةً،  وَدَعُوهَا سَالِمَةً،  وَلَا تَتَّخِذُوهَا كَرَاسِیَّ لِأَحَادِیثِكُمْ فِی الطُّرُقِ وَالْأَسْوَاقِ ،  فَرُبَّ مَرْكُوبَةٍ خَیْرٌ مِنْ رَاكِبِهَا،  وَأَكْثَرُ ذِكْرًا لِلَّهِ مِنْهُ

سہل بن معاذاپنے  والدسے  روایت کرتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کچھ لوگوں  کے  پاس گئے  جواپنے  جانوروں  اورسواریوں  پرتھے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاان پرسواری کرو جبکہ یہ صحیح سلامت ہوں  اورصحت وسلامتی کی حالت میں  انہیں  چھوڑدواورراستوں  اوربازاروں  میں  اپنی باتوں  کے  لیے  انہیں  کرسیاں  نہ بناؤ کیونکہ ہوسکتاہے  کہ سواری اپنے  سوارسے  بڑھ کر اور اس سے  بہتر  اللہ   تعالیٰ کاذکرکرنے  والی ہو۔ [43]

مینڈک بھی   اللہ   کی تسبیح بیان کرتاہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الضُّفْدَعِ،  وَقَالَ:نَقِیقُهَا تَسْبِیحٌ

عبد  اللہ   بن عمرو رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مینڈک کے  مارڈالنے  کو منع فرمایا اور فرمایااس کاٹرانا  اللہ   کی تسبیح ہے ۔ [44]

فَفی كُلّ شَیءٍ لَهُ آیَةٌ ، تَدُلُّ عَلى أنَّه وَاحِدٌ

ہرچیزمیں  اس کے  لیے  نشانی ہے ، جواس بات کی دلیل ہے  کہ اس کی ذات پاک واحدہے

اس لئے  ان نشانیوں  سے  سبق حاصل کرواورباطل معبودوں  سے  تائب ہو کراپنی فخر و غرو ر سے  تنی ہوئی گردنیں  عاجزی کے  ساتھ   اللہ   وحدہ لاشریک کے  آگے  جھکادو،  وہ بڑاہی بردبار اور درگزرفرمانے  والاہے ، وہ تمہارے  گناہوں  کومعاف فرمادے  گاپھرتم اس عارضی زندگی میں  بھی سرخرورہوگے  اوراخروی ہمیشہ کی زندگی میں  بھی   اللہ   کی خوشنودی ورضاتمہارے  شامل حال رہے  گی۔

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ   اللہ   یَجِدِ   اللہ   غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [45]

ترجمہ: اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے  یا اپنے  نفس پر ظلم کر جائے  اور اس کے  بعد   اللہ   سے  درگزر کی درخواست کرے  تو   اللہ   کو درگزر کرنے  والا اور رحیم پائے  گا ۔

اِنَّ   اللہ   یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۝۰ۥۚ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۱ [46]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   ہی ہے  جو آسمانوں  اور زمین کو ٹل جانے  سے  روکے  ہوئے  ہے ،  اور اگر وہ ٹل جائیں  تو   اللہ   کے  بعد کوئی دوسرا انہیں  تھامنے  والا نہیں  ہے ،  بے شک   اللہ   بڑا حلیم اور درگزر فرمانے  والا ہے ۔

اوراگراپنے  کفروعنادپربددستورقائم رہوگے  توایک مقررہ مہلت کے  بعدتمہیں  پکڑلے  گا ،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [47]

ابوموسیٰ اشعری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ ظالم کومہلت دیے  رکھتاہے  حتی کہ جب اسے  پکڑتاہے  توپھراسے  نہیں  چھوڑتاپھررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے  تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے ،  فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے ۔ ‘‘[48]

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا۝۰ۚ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۴۸ۧ [49]

ترجمہ:کتنی ہی بستیاں  ہیں  جو ظالم تھیں  ،  میں  نے  ان کو پہلے  مہلت دی پھر پکڑ لیااورسب کوواپس تومیرے  ہی پاس آناہے ۔

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا ‎﴿٤٥﴾‏ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا ‎﴿٤٦﴾(بنی اسرائیل)
تو جب قرآن پڑھتا ہے  ہم تیرے  اور ان لوگوں  کے  درمیان جو آخرت پر یقین نہیں  رکھتے  ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے  ہیں  ،  اور ان کے  دلوں  پر ہم نے  پردے  ڈال دیئے  ہیں  کہ وہ اسے  سمجھیں  اور ان کے  کانوں  میں  بوجھ اور جب تو صرف   اللہ   ہی کا ذکر اس کی توحید کے  ساتھ اس قرآن میں  کرتا ہے  تو وہ روگردانی کرتے  پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے  ہوتے  ہیں  ۔

کفارکاایک نفسیاتی تجزیہ :

جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم مشرکین مکہ کودعوت حق پیش کرتے  تواس کے  جواب میں  وہ کہتے  تھے ۔

 وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْهِ وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ۝۵ [50]

ترجمہ:کہتے  ہیں  جس چیزکی طرف توہمیں  بلارہاہے  اس کے  لئے  ہمارے  دلوں  پرغلاف چڑھے  ہوئے  ہیں  ، ہمارے  کان بہرے  ہوگئے  ہیں  اورہمارے  اورتیرے  درمیان ایک حجاب حائل ہوگیاہے تواپناکام کرہم اپناکام کیے  جائیں  گے  ۔

اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  قول کوانہی پرالٹ کرفرمایاکہ ان کفارومشرکین نے  رب کی نشانیوں  کوکیادیکھناہے  یہ تواپنے  کفروشرک میں  اتنے  اندھے  بن چکے  ہیں  کہ جب آپ انہیں  دلائل وبراہین کے  ساتھ   اللہ   وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتے  ہیں  ، رب کی ہرسوبکھری نشانیوں  ، انگنت نعمتوں  ورحمتوں  کی طرف متوجہ کرتے  ہیں  ، اورباطل معبودوں  کی بے  بسی کے  دلائل دیتے  ہیں  ، اپنے  عقائدواعمال کے  سبب تباہ شدہ مشرک اقوام کاذکرکرتے  ہیں  توان کے  عقائدو اعمال کے  سبب ہم تمہارے  اورکفارومشرکین کے  درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے  ہیں  ، جوانہیں  اس کے  حقیقی فہم ، اس کے  حقائق کے  تحقق اورجس بھلائی کی طرف یہ دعوت دیتاہے  اس کی اطاعت سے  آڑکردیتاہے  ، اوران کے  دلوں  پرایساغلاف چڑھا دیتے  ہیں  جس کے  سبب یہ اس قرآن کوسمجھنے  سے  عاری ہیں  ،

عَنْ أَسْمَاءَ،  قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ جَاءَتِ الْعَوْرَاءُ أُمُّ جَمِیلٍ،  وَلَهَا وَلْوَلَةٌ،  وَفِی یَدِهَا فِهْرٌ،  وَهِیَ تَقُولُ: مُذَمَّمٌ أَبَیْنَا،  أَوْ أَتَیْنَا – الشَّكُّ مِنْ أَبِی مُوسَى – وَدِینُهُ قَلَیْنَا،  وَأَمْرُهُ عَصَیْنَا،  وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ،  وَأَبُو بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ،  أَوْ قَالَ مَعَهُ،  قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَقَدْ أَقْبَلَتْ هَذِهِ،  وَأَنَا أَخَافُ أَنْ تَرَاكَ.

اسماء بنت ابوبکر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  جب سورہ اللھب نازل ہوئی توبھینگی ام جمیل بڑے  جوش وخروش سے  آئی، اس نے  ہاتھ میں  پتھر پکڑا ہوا تھااورکہہ رہی تھی ہم نے  (ان کا) انکارکیاہے  یایہ کہاکہ مذمم ہمارے  پاس آئے ،  یہ ابوموسیٰ کوشک ہے  کہ اس نے  کیاکہااس کے  دین سے  ہم بیزارومتنفرہیں  اوراس کی حکم کی نافرمانی کرتے  ہیں  ، اوررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اس وقت جلوہ افروزتھے اورسیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ بھی ایک طرف بیٹھے  ہوئے  تھے  یایہ کہاکہ ساتھ تھے ، انہوں  نے  عرض کی اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !یہ آرہی ہے  اورمجھے  ڈرہے  کہ آپ کودیکھ نہ لے ،

فَقَالَ: إِنَّهَا لَنْ تَرَانِی وَقَرَأَ قُرْآنًا اعْتَصَمَ بِهِ: {وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا} [51] قَالَ: فَجَاءَتْ حَتَّى قَامَتْ عَلَى أَبِی بَكْرٍ،  وَلَمْ تَرَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَتْ: یَا أَبَا بَكْرٍ،  بَلَغَنِی أَنَّ صَاحِبَكَ هَجَانِی،  قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَرَبِّ هَذَا الْبَیْتِ مَا هَجَاكِ،  فَانْصَرَفَتْ وَهِیَ تَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی بِنْتُ سَیِّدِهَا

آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایایقیناًیہ مجھے  ہرگزنہیں  دیکھ سکے  گی، اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اس وقت قرآن پڑھ کراپنے  آپ کواس کے  شرسے  محفوظ کرلیا کیونکہ   اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاہے ’’جب تم قرآن پڑھتے  ہوتوہم تمہارے  اورآخرت پرایمان نہ لانے  والوں  کے  درمیان ایک پردہ حائل کردیتے  ہیں  ، اوران کے  دلوں  پرایساغلاف چڑھا دیتے  ہیں  کہ وہ کچھ نہیں  سمجھتے ۔ ‘‘ راوی کابیان ہے  کہ یہ عورت آئی اور سیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ کے  پاس کھڑی ہوگئی مگرنبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کونہ دیکھ سکی، اور سیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ سے  مخاطب ہوکرکہنے  لگی اے  ابوبکر رضی   اللہ   عنہ !مجھے  یہ بات پہنچی ہے  کہ تیرے  ساتھی نے  میری مذمت کی ہے ، سیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ نے  جواب دیانہیں  اس گھرکے  رب کی قسم!انہوں  نے  تیری مذمت نہیں  کی، تووہ یہ کہتی ہوئی واپس چلی گئی کہ قریش کومعلوم ہے  کہ میں  اس کے  سردارکی بیٹی ہوں  ۔ [52]

اوران کے  کانوں  میں  گرانی پیداکردیتے  ہیں  جس سے  وہ کچھ نہیں  سنتے ، دعوت حق سے  بغض ونفرت کے  باعث وہ جاننے  اورتسلیم کرنے  کے  باوجودکہ زمین وآسمانوں  کا سارانظام   اللہ   وحدہ لاشریک ہی کے  ہاتھ میں  ہے  ان کے  دلوں  میں  شدید نفرت بھرجاتی ہے  اوریہ باطل معبودوں  کی محبت میں  حق کی طرف سے  اپنا منہ پھیرلیتے  ہیں  ، جیسے  فرمایا

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [53]

ترجمہ:جب اکیلے    اللہ   کاذکرکیاجاتاہے  توآخرت پرایمان نہ رکھنے  والوں  کے  دل کڑھنے  لگتے  ہیں  اور جب اس کے  سوادوسروں  کاذکر ہوتا ہے  تو یکایک وہ خوشی سے  کھل اٹھتے  ہیں  ۔

عَنْ قَتَادَةَ،  قَوْلِهِ: {وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا} وَإِنَّ الْمُسْلِمِینَ لَمَّا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَنْكَرَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ وَكَبُرَتْ عَلَیْهِمْ،  فَصَافَّهَا إِبْلِیسُ وَجُنُودُهُ ،  فَأَبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ یُمْضِیَهَا وَیَنْصُرَهَا وَیُفْلِجَهَا وَیُظْهِرُهَا عَلَى مَنْ نَاوَأَهَا إِنَّهَا كَلِمَةٌ مَنْ خَاصَمَ بِهَا فُلِجَ،  وَمَنْ قَاتَلَ بِهَا نُصِرَ إِنَّمَا یَعْرِفُهَا أَهْلُ هَذِهِ الْجَزِیرَةِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ،  الَّتِی یَقْطَعُهَا الرَّاكِبُ فِی لَیَالٍ،  قَلَائِلَ وَیَسِیرُ الدَّهْرُ فِی فِئَامٍ مِنَ النَّاسِ،  لَا یَعْرِفُونَهَا وَلَا یُقِرُّونَ بِهَا

قتادہ رحمہ   اللہ   نے آیت کریمہ’’اورجب توصرف   اللہ   ہی کاذکراس کی توحیدکے  ساتھ اس قرآن میں  کرتاہے تووہ روگردانی کرتے  پیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے  ہوتے  ہیں  ۔ ‘‘ کی تفسیرمیں  فرمایاہے  مسلمان جب الاالٰہ الا  اللہ   کہتے  ہیں  تومشرکین اس کاانکارکرتے اوریہ بات انہیں  بہت گراں  محسوس ہوتی اورابلیس اوراس کے  لشکروں  کوتواس سے  بہت ہی تنگی ہوئی، مگر  اللہ   تعالیٰ کی مرضی اورمشیت یہی ہے  کہ اس کلمے  کوجاری کردے  اسے  بلندکردے  اسے  فتح ونصرت سے  نوازے اورمخالفت کرنے  والوں  پراسے  غالب کردے ، یہ ایساکلمہ ہے  جواس کے  لیے  جھگڑے  گاوہ کامیاب ہوگاجواس کے  ساتھ لڑے  گافتح یاب ہوگااس جزیرے  کے  مسلمان اسے  پہچانتے  ہیں  جسے  اونٹ سوارچندراتوں  میں  طے  کرسکتاہے  اوراگروہ زمانہ بھرلوگوں  کے  گروہوں  میں  گھومتارہے تونہ وہ اس کلمے  کوپہچانیں  گے  اورنہ اس کااقرارہی کریں  گے ۔ [54]

حالانکہ جب یہی لوگ سمندروں  ، دریاؤں  اورصحراؤں  میں  مشکلات میں  گھرجاتے  ہیں  تو اپنے  باطل معبودوں  کوبھول کر، ان کی بے  بسی وبے  چارگی کو محسوس کرکے  خالص   اللہ   ہی کومددکے  لئے  پکارتے  ہیں  ، کیاوہ اس سے  نصیحت حاصل نہیں  کرتے ۔

‏ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ یَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا ‎﴿٤٧﴾‏ انْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا یَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا ‎﴿٤٨﴾‏(بنی اسرائیل)
’’جس غرض سے  وہ لوگ اسے  سنتے  ہیں  ان (کی نیتوں ) سے  ہم خوب آگاہ ہیں ،  جب یہ آپ کی طرف کان لگائے  ہوئے  ہوتے  ہیں  تب بھی اور جب مشورہ کرتے  ہیں  تب بھی ، جب کہ یہ ظالم کہتے  ہیں  کہ تم اس کی تابعداری میں  لگے  ہوئے  ہو جن پر جادو کردیا گیا ہے ، دیکھیں  تو سہی،  آپ کے  لیے  کیا کیا مثالیں  بیان کرتے  ہیں ،  پس وہ بہک رہے  ہیں  اب تو راہ پانا ان کے  بس میں  نہیں  رہا۔ ‘‘

اہل عرب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاکیزہ کردارپرکوئی الزام تونہ لگاسکے  ہاں  اپنی خفت مٹانے  کے  لئے  مختلف اورمتضادالزامات لگاتے ، وہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو کبھی ساحرکہتے  ،

۔ ۔ ۔ وَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۴ۖۚ [55]

ترجمہ:منکرین کہنے  لگے  کہ یہ ساحرہے  ،  سخت جھوٹا ہے  ۔

مگرجب دیکھتے  کہ آپ میں  ساحروں  جیسااندازنہیں  تو دوسرا الزام لگادیتے  کہ آپ مسحورہیں  ، جب خودہی یہ محسوس کرتے  کہ یہ الزام بھی آپ پرپورانہیں  اترتاتو مجنون کاالزام لگادیتے ۔

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۝۱۴ۘ [56]

ترجمہ:پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے  اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے ۔

اوراسی طرح کبھی کاہن کاالزام لگادیتے  تھے ۔

فَذَكِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاہِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ۝۲۹ۭ [57]

ترجمہ:پس اے  نبی ( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ! تم نصیحت کیے  جاؤ،  اپنے  رب کے  فضل سے  نہ تم کاہن ہو اور نہ مجنون۔

یہ لوگ راتوں  کو چھپ چھپ کرقرآن کو سنتے  ،  قرآن کااسلوب بیان، مضامین کی گہرائی اورشیرینی ان کے  دلوں  میں  اترجاتی مگراپنی بے  جاضدوگھمنڈاورتعصبات کی وجہ سے  اسلام قبول نہ کرتے  ،  مگرجولوگ فطرت سلیمہ کے  مالک ہوتے  وہ ان کے  ہرظلم وجبرکے  باوجوداسلام قبول کرلیتے ، یہ دیکھ کرسرداران مکہ آپس میں  مشورہ کرتے  کہ ہم نے  ظلم وستم،  مال ودولت ، عورت اور امارت کالالچ وغیرہ کا ہروہ حربہ اختیارکرکے  دیکھ لیاجواسلام کاراستہ روک سکتاتھامگر اس کے  باوجوداسلام قبول کرنے  والوں  کی تعدادکم ہونے  کے  اوربڑھ ہی رہی ہے  آخر اس کاکیاتوڑہوناچاہیے ؟مگراب ان کے  پاس کوئی جواب نہ ہوتا، بسااوقات انہیں  اپنے  ہی آدمیوں  میں  کسی پرشبہ بھی ہوجاتاکہ شایدیہ شخص قرآن سن کرکچھ متاثرہوگیاہے  ، اس لئے  سب مل کراس کوسمجھاتے  کہ بھائی !اپنے  آباؤاجدادکے  دین کو چھوڑ کر کس کے  دھوکے  میں  آرہے  ہو، یہ تومحض ایک سحرزدہ شخص ہے اس لئے  ایسی بہکی بہکی باتیں  کرتا ہے  ،  حقیقت سے  اس کاکوئی تعلق نہیں  ،

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ فِی السِّیرَةِ: حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِیُّ،  أَنَّهُ حُدث أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ،  وَأَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ،  وَالْأَخْنَسَ بْنَ شَرِیق بْنِ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ الثَّقَفِیَّ،  حَلِیفَ ابْنِ زُهْرَةَ خَرَجُوا لَیْلَةً لِیَسْتَمِعُوا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یُصَلِّی بِاللَّیْلِ فِی بَیْتِهِ،  فأخذ كل واحد مِنْهُمْ مَجْلِسًا یَسْتَمِعُ فِیهِ وكلُّ لَا یَعْلَمُ بِمَكَانِ صَاحِبِهِ

محمدبن اسحاق نے  سیرت میں  بیان کیاہے  کہ مجھ سے  محمدبن مسلم بن شہاب زہری نے  بیان کیاہے  ابوسفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام اوراخنس بن شریق بن عمروبن وہب ثقفی جوبنی زیرہ کاحلیف تھا ایک رات کونکلے  تاکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  قرآن سنیں  ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم اس وقت اپنے  حجرہ مبارک میں  رات کونمازمیں  قرآن مجیدکی تلاوت فرمارہے  تھے ، ان میں  سے  ہرایک اپنی جگہ پرآکرقرآن سننے  کے  لیے  بیٹھ گیااوران میں  سے  کسی کودوسرے  کے  بارے  میں  کوئی علم نہ تھا

فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَهُ،  حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرَّقُوا حَتَّى إِذَا جَمَعَتْهُمُ الطَّرِیقُ،  فَتَلَاوَمُوا وَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: لَا تَعُودُوا،  فَلَوْ رَآكُمْ بَعْضُ سُفَهَائِكُمْ لَأَوْقَعْتُمْ فِی نَفْسِهِ شَیْئًاثُمَّ انْصَرَفُوا

یہ لوگ ساری رات طلوع فجرتک بیٹھے  قرآن سنتے  رہے  اورجب صبح ہوئی تواٹھ کراپنے  اپنے  گھروں  کوچل پڑے  حتی کہ راستے  میں  ایک جگہ جمع ہوگئے  اورایک دوسرے  کوملامت کرنے  لگے اوریہ لوگ ایک دوسرے  کوکہنے  لگے آئندہ ایسانہ کرنااگربعض بے  وقوفوں  نے  تمہیں  دیکھ لیاتوان کے  دلوں  میں  طرح طرح کے  خیالات آنے  لگیں  گے ،  یہ عہدوپیمان کرنے  کے  بعدوہ اپنے  گھروں  کوچلے  گئے

حَتَّى إِذَا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الثَّانِیَةُ عَادَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ إِلَى مَجْلِسِهِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَهُ، حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرَّقُوا حَتَّى إِذَا جَمَعَتْهُمُ الطَّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ مِثْلَ مَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، ثُمَّ انْصَرَفُوا

اسی طرح جب دوسری رات ہوئی توپھراٹھ کراپنی اپنی جگہ پرآکربیٹھ گئے اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی زبان سے  قرآن سننے  لگے  جب صبح ہوئی تواٹھ کراپنے  اپنے  گھروں  کوچل پڑے  اورپھرراستے  میں  ایک جگہ جمع ہوگئے  توپھرایک دوسرے  نے  باہم وہی کہاجوپہلی مرتبہ کہاتھا اورپھراپنے  اپنے  گھروں  کوچل دیے

حَتَّى إِذَا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الثَّالِثَةُ،  أَخَذَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَجْلِسَهُ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَهُ حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرَّقُوافجَمعهم الطَّرِیقُ،  فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: لَا نَبْرَحُ حَتَّى نَتَعَاهَدَ لَا نَعُودُفَتَعَاهَدُوا عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ تَفَرَّقُوا

جب تیسری رات ہوئی توپھرہرایک اپنی اپنی جگہ پرآکربیٹھ گیا اورساری رات آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی زبان مبارک سے  قرآن سنتے  رہے جب طلوع فجرہوئی تواپنے  گھروں  کی طرف چل دیے  توپھرراستے  میں  ایک مقام پرجمع ہوگئے  پھرایک دوسرے  سے  کہنے  لگے  کہ آج ہمیں  یہ پختہ عہدوپیمان کرکے  جاناہے  کہ آئندہ ہم ایسانہ کریں  گے  انہوں  نے  پختہ عہدکیااوراپنے  اپنے  گھروں  کی طرف چل دیے

فَلَمَّا أَصْبَحَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَریق أَخَذَ عَصَاهُ ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ فِی بَیْتِهِ فَقَالَ: أَخْبِرْنِی یَا أَبَا حَنْظَلَةَ عَنْ رَأْیِكَ فِیمَا سَمِعْتَ مِنْ مُحَمَّدٍ؟ قَالَ: یَا أَبَا ثَعْلَبَةَ،  وَاللَّهِ لَقَدْ سمعتُ أَشْیَاءَ أَعْرِفُهَا وَأَعْرِفُ مَا یُراد بِهَا،  وسمعتُ أَشْیَاءَ مَا عرفتُ مَعْنَاهَا،  وَلَا مَا یُرَادُ بِهَا قَالَ الْأَخْنَسُ: وَأَنَا وَالَّذِی حَلفت بِهِ

صبح ہوئی تواخنس بن شریق نے  اپنی لاٹھی پکڑی پھرگھرسے  نکل کرابوسفیان بن حرب کے  گھرآیااورکہنے  لگااے ابوحنظلہ!محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )سے  جوتم نے  سناہے  اس کے  بارے  میں  تمہاری کیارائے  ہے ؟اس نے  جواب دیااے  ابوثعلبہ!  اللہ   کی قسم !میں  نے  کچھ باتیں  ایسی بھی سنی ہیں  جن کومیں  نہیں  جانتااورنہیں  جانتاکہ ان سے  کیامرادہے ، اخنس نے  جواب دیاکہ اس ذات کی قسم جس کی تم نے  قسم کھائی ہے  !میرابھی یہی حال ہے ،

قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى أَتَى أَبَا جَهْلٍ فَدَخَلَ عَلَیْهِ بَیْتِهِ فَقَالَ: یَا أَبَا الْحَكَمِ،  مَا رَأْیُكَ فِیمَا سَمِعْتَ مِنْ مُحَمَّدٍ؟ قَالَ: مَاذَا سمعتُ؟! تَنَازَعْنَا نَحْنُ وَبَنُو عَبْدِ مَنَافٍ الشَّرَفَ،  أَطْعَمُوا فَأَطْعَمْنَاوَحَمَلُوا فَحَمَلْنَا وَأَعْطَوْا فَأَعْطَیْنَاحَتَّى إِذَا تَجَاثَیْنَا عَلَى الرُّكب،  وَكُنَّا كفَرَسی رِهان،  قَالُوا: مِنَّا نَبِیٌّ یَأْتِیهِ الْوَحْیُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَتَى نُدْرِكُ هَذِهِ؟وَاللَّهِ لَا نُؤْمِنُ بِهِ أَبَدًا وَلَا نُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَامَ عَنْهُ الْأَخْنَسُ وَتَرَكَهُ

پھراخنس وہاں  سے  نکل کر ابوجہل کے  گھرمیں  داخل ہوااوراس سے  کہنے  لگااے  ابوالحکم!محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )سے  رات کوتم نے  جوکچھ سناہے  اس کے  بارے  میں  تمہاری کیارائے  ہے ؟اس نے  جواب دیاکہ میں  نے  کیاسنناتھابات یہ ہے  کہ ہمارااورعبدمناف کاشرف وبرتری کے  حصول میں  ہمیشہ مقابلہ رہتاتھاوہ لوگوں  کوکھاناکھلاتے  توہم بھی کھلادیتے  اوروہ مسافروں  کوسواریاں  دیتے  توہم بھی دے  دیتے  اوروہ مال ودولت خرچ کرتے  توہم ان سے  بھی زیادہ خرچ کردیتے  حتی کہ گھڑدوڑکے  دونوں  گھوڑوں  کی طرح ہم ایک دوسرے  کے  بالمقابل صف آراتھے ، توعبدمناف کے  لوگوں  نے  کہاکہ ہم میں    اللہ   کے  ایک نبی ہیں  جن پرآسمان سے  وحی نازل ہوتی ہے توہم اس شرف کوبھلاکس طرح حاصل کرسکتے  ہیں  ؟لہذاہم توان پرایمان نہیں  لائیں  گے  اورنہ ان کی تصدیق کریں  گے ،  اخنس ابوجہل کویہ جواب سن کراٹھ کھڑاہوااوراس کے  گھرسے  نکل گیا۔  [58]

انہی کے  بارے  میں  فرمایاکہ اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! ہمیں  معلوم ہے  کہ جب یہ کفارومشرکین کان لگاکرقرآن کریم کو سنتے  ہیں  تو ان کاقرآن سنناطلب ہدایت اورقبول حق کے  لئے  نہیں  ہوتابلکہ اس کے  برعکس ان کی غرض یہ ہوتی ہے  کہ کوئی چھوٹی سی بات ہی ہاتھ آئے  تاکہ اس کے  ذریعے  سے  اس میں  عیب جوئی کریں  ،  اورجب بیٹھ کرباہم مشاورت کرتے  ہیں  توکیافیصلے  کرتے  ہیں  ،   اللہ   سے  بے  خوف ہو کریہ لوگ اپنے  بغض وعناد میں  تم پرکیسی باتیں  چھانٹتے  ہیں  ، یہ لوگ راہ راست سے  بھٹک گئے  ہیں  ، راہ ہدایت انہیں  کس طرح مل سکتی ہے ، ان کے  نصیب میں  محض گمراہی اور صرف ظلم ہے  ۔

وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا ‎﴿٤٩﴾‏ ۞ قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِیدًا ‎﴿٥٠﴾‏ أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَكْبُرُ فِی صُدُورِكُمْ ۚ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا ۖ قُلِ الَّذِی فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَیُنْغِضُونَ إِلَیْكَ رُءُوسَهُمْ وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَنْ یَكُونَ قَرِیبًا ‎﴿٥١﴾‏ یَوْمَ یَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٥٢﴾(بنی اسرائیل)
’’انہوں  نے  کہا کہ جب ہم ہڈیاں  اور (مٹی ہو کر) ریزہ ریزہ ہوجائیں  گے  تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے  پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے  کردیئے  جائیں  گے  ، جواب دیجئے  کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے  دلوں  میں  بہت ہی سخت معلوم ہو،  پھر وہ یہ پوچھیں  کہ کون ہے  جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے  ؟ جواب دیں  کہ وہی   اللہ   جس نے  تمہیں  اول بار پیدا کیا،  اس پر وہ اپنے  سر ہلا ہلا کر آپ سے  دریافت کریں  گے  کہ اچھا یہ ہے  کب ؟ تو آپ جواب دے  دیں  کہ کیا عجب کہ وہ (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو ،  جس دن وہ تمہیں  بلائے  گا تم اس کی تعریف کرتے  ہوئے  تعمیل ارشاد کرو گے  اور گمان کرو گے  کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے  ۔ ‘‘

حیات بعدالموت:

اہل عرب مرنے  کے  بعدجواب طلبی کے  لئے  دوبارہ زندہ ہونے  کے  قائل نہ تھے  ، جب   اللہ   تعالیٰ اپنی کتاب میں  اوررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اپنے  وعظ وتبلیغ میں  انہیں  سمجھاتے  کہ حیات بعدالموت حق ہے  اوراس پردلائل بھی دیتے  مگریہ بات ان کے  حلق سے  نیچے  نہ اترتی اوروہ حیرت سے  کہتے  کیا جب ہماری ہڈیاں  بھی وقت کے  ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوکرذرات میں  بکھرجائیں  گی توپھرہمیں  نئے  سرے  سے  پیداکیاجائے  گا ، جیسے  فرمایا

یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ۝۱۰ۭ ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۝۱۱ [59]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے  ہیں  کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے  جائیں  گے ؟کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں  بن چکے  ہوں  گے ؟ ۔

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ۙ [60]

ترجمہ:اب وہ ہم پر مثالیں  چسپاں  کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے  کہتا ہے  کون ان ہڈیوں  کو زندہ کرے  گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں  ؟ ۔

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاتم کہتے  ہوکہ جب ہماری ہڈیوں  کے  زرات بھی منتشرہوجائیں  توہم دوبارہ کیسے  پیداکیے  جائیں  گے  حالانکہ اگرتم کوایک مخصوص درجہ حرارت پرمدت دراز تک رکھاجائے  جس کی وجہ سے  تم پتھراورلوہے  جیسے  سخت بھی ہوجاؤیااس سے  بھی اگرکوئی سخت ترین چیزبن جاؤجوتمہارے  علم میں  ہوتب بھی اعمال کی جزاکے  لیے  یقیناً کھڑے  کیے  جاؤگے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَیْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ،  فَیُنَادِی مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ،  فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ،  فَیَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ،  هَذَا المَوْتُ،  وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ،  ثُمَّ یُنَادِی: یَا أَهْلَ النَّارِ،  فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ،  فَیَقُولُ: وهَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ،  هَذَا المَوْتُ،  وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ،

ابوسعیدخدری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاقیامت کے  روز موت کوایک چتکبڑے  مینڈھے  کی صورت میں  لایاجائے  گاایک آوازدینے  والا فرشتہ آوازدے  گا کہ اے  جنت والو!تمام جنتی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں  گے  آوازدینے  والافرشتہ پوچھے  گاتم اس مینڈھے  کوبھی پہچانتے  ہو؟ وہ بولیں  گے  کہ ہاں  ، یہ موت ہے  اوران سے  ہر شخص اس کاذائقہ چکھ چکاہوہے ، ایک آوازدینے  والا فرشتہ آوازدے  گاکہ اے  اہل النار!تمام دوزخی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں  گے آوازدینے  والافرشتہ پوچھے  گاتم اس مینڈھے  کوبھی پہچانتے  ہو؟وہ بولیں  گے  کہ ہاں  ، یہ موت ہے  اوران سے  ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہوہے ،

 فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُولُ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ،  وَیَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ،  ثُمَّ قَرَأَ: {وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الأَمْرُ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ}[61]،  وَهَؤُلاَءِ فِی غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْیَا {وَهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ} [62]

پھرموت کو ذبح کردیاجائے  گا، اورآوازدینے  والاجنتیوں  سے کہے  گاکہ اب تمہارے  لئے  ہمیشگی ہے ، موت تم پرکبھی نہ آئے  گی ،  اوراے  جہنمیو!تمہیں  بھی ہمیشہ اسی طرح رہناہے  ، تم پربھی موت کبھی نہیں  آئے  گی، پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  یہ آیت تلاوت فرمائی’’ اے  نبی ! اس حالت میں  جب کہ یہ لوگ غافل ہیں  اور ایمان نہیں  لا رہے  ہیں  ،  انہیں  اس دن سے  ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے  گا اور پچھتاوے  کے  سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا یہ دنیادارلوگ غفلت میں  پڑے  ہوئے  ہیں  اورایمان نہیں  لاتے ۔ ‘‘[63]

اللہ   تعالیٰ کے  اس ارشادپرمشرکین استہزاء کے  طورپرکہتے  اورہمیں  دوبارہ زندگی کی طرف کون پلٹائے  گا اور یہ دوبارہ زندگی کب ہو گی ؟  اللہ   تعالیٰ نے  فرمایا بہت جلدوہی   اللہ   تمہیں  دوبارہ جسم وجان کے  ساتھ تمہیں  تمہاری قبروں  سے  نکال باہرکھڑاکرکے  اپنی بارگاہ میں  حاضرکرے  گاجس نے  تمہیں  پہلی بار پیدا کیا تھاجب تمہاراوجودہی نہ تھا ، جیسے  فرمایا

 ۔ ۔ ۔ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ۔ ۔ ۔  ۝۱۰۴ [64]

ترجمہ: جس طرح پہلے  ہم نے  تخلیق کی ابتداکی تھی اسی طرح ہم پھراس کااعادہ کریں  گے ۔

وَہُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَیْہِ۔ ۔ ۔ ۝۲۷ۧ [65]

ترجمہ:وہی ہے  جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے ،  پھر وہی اس کا اعادہ کرے  گا اور یہ اس کے  لیے  آسان تر ہے ۔

وہ اس کے  وقوع کوبعیدسمجھتے  ہوئے  سر ہلاہلا کر پوچھیں  گے  اچھاتویہ ہوگاکب ؟جیسے  فرمایا

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵ [66]

ترجمہ:یہ کہتے  ہیں  اگر تم سچے  ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟۔

تم کہوکیاعجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگاہو، جس روزوہ تمہیں  پکارے  گا، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً۝۰ۤۖ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰ۤۖ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ۝۲۵ [67]

ترجمہ:پھر جو نہی کہ اس نے  تمہیں  زمین سے  پکارا بس ایک ہی پکار میں  اچانک تم نکل آؤ گے ۔

فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙفَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَةِ۝۱۴ۭ [68]

ترجمہ:حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے  کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے  گی اور یکایک یہ کھلے  میدان میں  موجود ہوں  گے ۔

اس وقت تم اپنی قبروں  سے  نکل کر خالق کائنات کی حمدوتقدیس بیان کرتے  ہوئے  اس کے  حضورپیش ہوجاؤگے  ،  اس وقت تمہیں  یہی محسوس ہو گا کہ بس ایک صبح یاایک شام یاچندگھنٹوں  ہی سوئے  تھے  کہ یکایک اس شورمحشرنے  ہمیں  جگادیا،  اسی مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا

كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا۝۴۶ۧ [69]

ترجمہ:جس روز یہ لوگ اسے  دیکھ لیں  گے  تو انہیں  یوں  محسوس ہو گا کہ (دنیا میں  یا حالتِ موت میں  ) بس ایک دن کے  پچھلے  پہر یا اگلے  پہر تک ٹھیرے  ہیں  ۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝۱۰۲ۚۖیَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا۝۱۰۳نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا۝۱۰۴ۧ [70]

ترجمہ:اس دن جبکہ صورپھونکاجائے  گااورہم مجرموں  کواس حال میں  گھیرلائیں  گے  کہ ان کی آنکھیں  (دہشت کے  مارے )پتھرائی ہوئی ہوں  گی، آپس میں  چپکے  چپکے  کہیں  گے  کہ دنیامیں  مشکل ہی سے  تم نے  کوئی دس دن گزارے  ہوں  گے ، ہمیں  خوب معلوم ہے  کہ وہ کیا باتیں  کررہے  ہوں  گے  (ہم یہ بھی جانتے  ہیں  کہ )اس وقت ان میں  سے  جوزیادہ سے  زیادہ محتاط اندازہ لگانے  والاہوگاوہ کہے  گاکہ نہیں  تمہاری دنیاکی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ ۔ ۔ ۔ ۝۵۵ [71]

ترجمہ:اورجب وہ ساعت برپاہوگی تومجرم قسمیں  کھاکھا کر کہیں  گے  کہ ہم ایک گھڑی بھر سے  زیادہ نہیں  ٹھیرے  ہیں  ۔

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّیْنَ۝۱۱۳قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱۴ [72]

ترجمہ: پھر   اللہ   تعالیٰ ان سے  پوچھے  گابتاؤزمین میں  تم کتنے  سال رہے ؟وہ کہیں  گے  ایک دن یادن کابھی کچھ حصہ ہم وہاں  ٹھیرے  ہیں  شمار کرنے  والوں  سے  پوچھ لیجئے ،  ارشاد ہوگا ،  تھوڑی ہی دیرٹھیرے  ہوناکاش تم نے  یہ اس وقت جاناہوتا ۔

اور  اللہ   تعالیٰ فرمائے  گا

ثُمَّ یُقَالُ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۱۷ۭ [73]

ترجمہ:پھران سے  کہاجائے  گاکہ یہ وہی چیز ہے  جسے  تم جھٹلایاکرتے  تھے ۔

وَقُلْ لِعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی هِیَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّیْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا ‎﴿٥٣﴾(بنی اسرائیل)
اور میرے  بندوں  سے  کہہ دیجئے  کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے  نکالا کریں  کیونکہ شیطان آپس میں  فساد ڈلواتا ہے ،  بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔

اخلاقی تعلیم:

محاورہ ہے  کہ زبان کی شیرینی تخت پربٹھاتی ہے  اورزبان ہی کی تلخی، بے  اعتدالی تختہ پرچڑھاتی ہے ، ایک اورمحاورہ ہے  کہ تلوارکازخم تو بھر جاتاہے  لیکن زبان کا گھاؤ نہیں  بھرتا، کیونکہ زبان کی تلخی ، لفظوں  کی سختی اورلہجہ کی ادائیگی ایسی چیزہے  جودلوں  سے  نہیں  نکلتی، جس سے  دشمنی اورتفریق پیداہوتی ہے  اس لئے  مسلمانوں  کے  دلوں  میں  محبت والفت اوربھائی چارہ قائم کرنے  اورکفار ومشرکین پرمسلمانوں  کے  اخلاقی کردارکی برتری کے  لئے  فرمایاکہ آپس میں  گفتگوکرتے  ہوئے  زبان کواحتیاط سے  استعمال کریں  ،  مشفقانہ اورنرم لہجے  میں  اچھے  کلمات بولیں  تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں  کاقلع قمع ہوجوبندوں  کے  درمیان فسادکابیج بوتارہتاہے  ، اوراس کی اولین خواہش یہی ہے  کہ زیادہ سے  زیادہ انسان جہنمی بن جائیں  ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ [74]

ترجمہ:وہ تواپنے  پیرووں  کواپنی راہ پراس لئے  بلارہاہے  کہ وہ دوزخیوں  میں  شامل ہوجائیں  ۔

اسی طرح کفار ومشرکین اوراہل کتاب سے  بھی تیزکلامی اورمبالغے  اورغلوسے  گفتگوکرنے  کی بجائے  ٹھنڈے  دل ودماغ سے  جچی تلی ، برحق اور دعوت کے  وقارکے  مطابق گفتگوکریں  ، تمہاری زبان کی ذراسی بے  اعتدالی، تلخی سے  شیطان جوتمہارا کھلا دشمن ہے  تمہیں  آپس میں  اورکفار و مشرکین کے  دلوں  میں  بغض وعناد کی آگ بھڑکا کر فساد برپا کرا سکتاہے  ،

أَبَا هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: لاَ یُشِیرُ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِیهِ بِالسِّلاَحِ،  فَإِنَّهُ لاَ یَدْرِی لَعَلَّ الشَّیْطَانَ یَنْزِعُ فِی یَدِهِ،  فَیَقَعُ فِی حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاتم میں  سے  کوئی شخص اپنے  بھائی (مسلمان)کی طرف ہتھیارکے  ساتھ اشارہ نہ کرے ، اس لئے  کہ وہ نہیں  جانتاکہ شیطان شایداس کے  ہاتھ سے  وہ ہتھیارچلوادے (اوروہ اس مسلمان کوجالگے  جس سے  اس کی موت واقع ہوجائے ) پس وہ جہنم کے  گڑھے  میں  جا گرے ۔ [75]

رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِنْ یَشَأْ یَرْحَمْكُمْ أَوْ إِنْ یَشَأْ یُعَذِّبْكُمْ ۚ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَیْهِمْ وَكِیلًا ‎﴿٥٤﴾‏ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ‎﴿٥٥﴾(بنی اسرائیل)
’’تمہارا رب تم سے  بہ نسبت تمہارے  بہت زیادہ جاننے  والا ہے ،  وہ اگر چاہے  تو تم پر رحم کر دے  یا اگر چاہے  تو تمہیں  عذاب دے ،  ہم نے  آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں  بھیجا،  آسمانوں  و زمین میں  جو بھی ہے  آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے ، ہم نے  بعض پیغمبروں  کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے ،  اور داوٗد کو زبور ہم نے  عطا فرمائی ہے ۔ ‘‘

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ہرممکن کوشش ہوتی تھی کہ مشرکین دعوت اسلام قبول کرلیں  ، آپ بڑے  مشفقانہ اورہمدردانہ اندازسے  انہیں  سمجھاتے  ، ان کے  دل ودماغ میں  بھرے  کفر کو دلائل وبراہین سے  نکالنے  کی کوشش کرتے  مگران کے  دل اتنے  سخت ہوچکے  تھے  کہ وہ آپ کے  وعظ ونصیحت کوایک کان سے  سنتے  اوردوسرے  سے  نکال دیتے  اوراسلامی تعلیمات کامذاق اڑاتے  ،  رحمت العالمین کے  علاوہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کامشرکین کے  ہرقبیلے  سے  تعلق بنتاتھا، اس طرح وہ آپ کے  عزیزبھی تھے  ، ان کی ہٹ دھرمی اوردین سے  دوری کودیکھ کرآپ کوبڑا دکھ اورملال ہوتا، اس پر  اللہ   تعالیٰ نے  آپ کوتسلی فرمائی کہ اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !مشرکین کادعوت اسلام قبول نہ کرنے  سے  آپ اپنے  دل میں  ملول نہ ہواکریں  ، آپ کو جو کچھ وحی کی جاتی ہے  اس کے  ساتھ انہیں  اچھے  پیرائے  اورنرم اندازسے  دعوت دیں  اس دعوت کوقبول کرنایانہ کرناان کاکام ہے  ، آپ کایہ کام نہیں  ہے  کہ آپ ضروربالضرور انہیں  کفرکی دلدل سے  نکالیں  ، تمہارارب تم سے  بہ نسبت تمہارے  بہت زیادہ جاننے  والاہے  ، اس لئے  تمہارے  لئے  وہی چاہتاہے  جس میں  تمہاری بھلائی ہے  اورتمہیں  اسی چیزکاحکم دیتاہے  جس میں  تمہاری کوئی مصلحت ہے  ، بسااوقات تم ایک چیزکاارادہ کرتے  ہومگربھلائی اس کے  برعکس کسی اورچیزمیں  ہوتی ہے  ،    اللہ   تعالیٰ چاہے  تو(ان کے  دلوں  کارجحان دیکھ کر)انہیں  قبول اسلام کی توفیق عطافرمادے  گا یا(رجحان نہ دیکھ کر)حالت کفروشرک پرہی موت دے  دے  گا ، اور اگروہ اپنی مشرکانہ ومخالفانہ ڈگر سے  بازنہ آئیں  تو اگر  اللہ   تعالیٰ آپ سے  بازپرس نہیں  کرے  گا، تیرارب زمین اورآسمانوں  کی مخلوقات کوزیادہ جانتاہے  ، پس ان میں  سے  جوکوئی جس چیزکامستحق ہے  اوراس کی حکمت جس کاتقاضاکرتی ہے  اسے  وہی عطاکرتاہے  اوروہ تمام خصائل میں  ان کوایک دوسرے  پرفضیلت عطاکرتاہے  جیسے  اس نے  بعض انبیاء کووحی میں  ان کے  اشتراک کے  باوجودبعض فضائل اور خصائص میں  بعض پرفضیلت دی ہے  ، جیسے  فرمایا

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ ۔ ۔ ۝۲۵۳ۧ [76]

ترجمہ: ان پیغمبروں  میں  سے  ہم نے  بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔

اورہم نے  ہی(فضیلت اورشرف کی بناپر) داود کو زبور دی تھی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ القُرْآنُ فَكَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ،  فَیَقْرَأُ القُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاداود علیہ السلام پرقرآن(یعنی زبور)کی قرات بہت آسان کردی گئی تھی چنانچہ وہ اپنی سواری پرزین کسنے  کاحکم دیتے اورزین کسی جانے  سے  پہلے  ہی آپ پوری زبور پڑھ لیا کرتے  تھے ۔ [77]

قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا یَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِیلًا ‎﴿٥٦﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِیلَةَ أَیُّهُمْ أَقْرَبُ وَیَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَیَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ‎﴿٥٧﴾‏ وَإِنْ مِنْ قَرْیَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِیدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِی الْكِتَابِ مَسْطُورًا ‎﴿٥٨﴾‏(بنی اسرائیل)
’’ کہہ دیجئے  کہ   اللہ   کے  سوا جنہیں  تم معبود سمجھ رہے  ہو انھیں  پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے  کسی تکلیف کو دور کرسکتے  ہیں  اور نہ بدل سکتے  ہیں ، جنہیں  یہ لوگ پکارتے  ہیں  خود وہ اپنے  رب کے  تقرب کی جستجو میں  رہتے  ہیں  کہ ان میں  سے  کون زیادہ نزدیک ہوجائے ،  وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے  اور اس کے  عذاب سے  خوف زدہ رہتے  ہیں ،  (بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے  رب کا عذاب ڈرنے  کی چیز ہی ہے ،  جتنی بھی بستیاں  ہیں  ہم قیامت کے  دن سے  پہلے  پہلے  یا تو انھیں  ہلاک کردینے  والے  ہیں  یا سخت تر سزا دینے  والے  ہیں یہ کتاب میں  لکھا جا چکا ہے ۔ ‘‘

وسیلہ یاقرب الٰہی:

اہل عرب   اللہ   کی مقرب نورانی مخلوق فرشتوں  ، آتشی مخلوق جنات اوراجرام فلکی (سورج ، چاند، ستارہ زہرہ وغیرہ)سے  مشابہ مجسمے  بناکراورکچھ صالحین وانبیاء کی تصاویرلگاکران کی عبادت کرتے  تھے  ، جبکہ یہودی عزیر علیہ السلام کواورنصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کوابن   اللہ   کہہ کران کی عبادت کرتے  تھے  اورانہیں  الوہی صفات کاحامل مانتے  تھے ، اوران کی خوشنودی کے  لئے  نذرونیازپیش کرتے  ، چڑھاوے  چڑھاتے ، ان کے  آستانوں  پرجانورذبح کرتے ،  جانوروں  کوان کے  نام پرآزاد کرکے  چھوڑ دیتے  ، اپنی آمدنی کاایک حصہ ان کے  نام مختص کرتے  اور دوسری رسومات عبودیت بجالاتے ، ان کے  جلالت ومرتبہ سے  خوف ذدہ رہتے  ،  ان سے  رزق طلب کرتے  ، مشکلات وتکالیف میں  انہیں  مدد کے  لئے  پکارتے  وغیرہ،    اللہ   تعالیٰ نے  چیلنج کے  طورپر فرمایاکہ انبیاء ہوں  یاصالحین ،  فرشتے  ہوں  یاجنات یہ تو  اللہ   کی مخلوق ہیں  اور ہر مخلوق اپنی بقااوررزق کے  لئے  اپنے  رب کی محتاج ہے  ،   اللہ   نے  کسی مخلوق کے  قبضہ میں  کوئی طاقت وقوت عطا نہیں  کی،  کسی کورزق ، اولاد، عزت ومرتبہ اورمشکل کشائی کاکوئی اختیار نہیں  بخشا، قدرت وطاقت اوراختیارات کاسرچشمہ تو   اللہ   وحدہ لاشریک کی ذات ہے  اور وہی جوچاہے  کرسکتاہے  ، جب انبیاء ، صالحین ،  فرشتے  اورجنات کے  پاس کوئی طاقت ، قوت واختیارنہیں  توتمہارے  یہ خودساختہ معبودکسی سے  اس کی تکلیف کیسے  دور کر سکتے  ہیں  ،  یہ تو خود اپنی تکلیف ہٹانے  پرقادر نہیں  چہ جائیکہ تمہاری فریادرسی کریں  ،  تب ان بے  بس اوربے  اختیارہستیوں  کومعبودبناناعقل ودین کی کمی اوررائے  کی سفاہت ہے  ،  جیسے  مشرکین کاقول ہے ۔

 اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [78]

ترجمہ:کیا اس نے  سارے  معبودوں  کی جگہ بس ایک معبود بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَوْلُهُ: قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا یَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِیلًا، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الشِّرْكِ یَقُولُونَ: نَعْبُدُ الْمَلَائِكَةَ وَعُزَیْرًا،  وَهُمُ الَّذِینَ یَدْعُونَ،  یَعْنِی الْمَلَائِكَةَ وَالْمَسِیحَ وَعُزَیْرًا

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  اس آیت کریمہ’’کہہ دیجئے کہ   اللہ   کے  سواجنہیں  تم معبودسمجھ رہے  ہوانہیں  پکارولیکن نہ تووہ تم سے  کسی تکلیف کودورکرسکتے  ہیں  اورنہ بدل سکتے  ہیں  ۔ ‘‘ کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  مشرکین کہاکرتے  تھے  کہ ہم فرشتوں  ، مسیح اورعزیرکی عبادت کرتے  ہیں  اوروہ انہی کویعنی فرشتوں  ، مسیح اورعزیرکوہی پکاراکرتے  تھے ۔ [79]

بلکہ انبیائ، صالحین، فرشتے  اورجنات کی اپنی کیفیت یہ ہے  کہ اعمال صالحہ کے  ذریعے  اپنے  رب کاتقرب حاصل کرنے  کی جستجومیں  رہتے  اوراس کی رحمت کی امید رکھتے  اور  اللہ   کے  عذاب سے  لرزاں  وترساں  رہتے  ہیں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ {إِلَى رَبِّهِمُ الوَسِیلَةَ} [80]قَالَ:كَانَ نَاسٌ مِنَ الإِنْسِ یَعْبُدُونَ نَاسًا مِنَ الجِنِّ،  فَأَسْلَمَ الجِنُّ وَتَمَسَّكَ هَؤُلاَءِ بِدِینِهِمْ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما نے  فرمایا آیت’’ان میں  سے  کون رب کے  نزدیک ہوجائے ۔ ‘‘ کاشان نزول یہ ہے  کچھ لوگ جنات کی پرستش کرتے  تھے  لیکن وہ جن بعدمیں  مسلمان ہوگئے  تھے  اور یہ مشرک ان ہی کی پرستش کرتے  اور جاہلی شریعت پرقائم رہے ۔ [81]

حقیقت یہ ہے  کہ تیرے  رب کاعذاب ہے  ہی ڈرنے  کے  لائق، اس لئے  ضروی ہے  کہ ان تمام اسباب سے  بچاجائے  جو  اللہ   تعالیٰ کے  عذاب کے  موجب ہیں  ، اورکوئی بستی ایسی نہیں  جسے  ہم قیامت سے  پہلے  ان کے  کفروشرک اورظلم وطغیان کے  سبب ہلاک نہ کردیں  یادردناک عذاب نہ دیں  ، یہ نوشتہ الٰہی(لوح محفوظ) میں  لکھاہواہے ،  جس کاوقوع لازمی ہے  ، لہذااس سے  قبل کہ عذاب کاحکم آجائے  تکذیب کرنے  والوں  کو  اللہ   کی طرف رجوع کرناچاہیے  اور اپنی تکالیف وپریشانیوں  میں  صرف اپنے  خالق ورب   اللہ   ہی کوپکارناچاہیے جس کے  پاس ہرطرح کی طاقت ، قوت اوراختیارہے  ، جس کے  پاس ہر طرح کے  خزانے  ہیں  ،  جواپنی مخلوق کورزق بہم پہنچاتاہے ،  جودیکھتا اورسنتاہے  ، جودکھی دلوں  کی پکارکوسنتااوران سے  مشکلات کو دورکرتاہے ، ، عزت ومرتبہ عطافرماتاہے ، برکتیں  نازل فرماتا ہے ۔

وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا ‎﴿٥٩﴾‏ وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا یَزِیدُهُمْ إِلَّا طُغْیَانًا كَبِیرًا ‎﴿٦٠﴾‏ (بنی اسرائیل )
’’ ہمیں  نشانات (معجزات) کے  نازل کرنے  سے  روک صرف اسی کی ہے  کہ اگلے  لوگ انہیں  جھٹلا چکے  ہیں  ، ہم نے  ثمودیوں  کو بطور بصیرت کے  اونٹنی دی لیکن انہوں  نے  اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں  کو دھمکانے  کے  لیے  ہی نشانیاں  بھیجتے  ہیں ، اور یاد کرو جب کہ ہم نے  آپ سے  فرما دیا کے  آپ کے  رب نے  لوگوں  کو گھیر لیا ہے ،  جو رویا (عینی روئیت) ہم نے  آپ کو دکھا دی تھی وہ لوگوں  کے  لیے  صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وہ درخت بھی جس سے  قرآن میں  اظہار نفرت کیا گیا ہے ،  ہم انھیں  ڈرا رہے  ہیں  لیکن یہ انہیں  اور بڑی سرکشی میں  بڑھا رہا ہے  ۔ ‘‘

مشرکین کامطالبہ :

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ،  قَالَ:قَالَ الْمُشْرِكُونَ: یَا مُحَمَّدُ،  إِنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّهُ كَانَ قَبْلَكَ أَنْبِیَاءُ،  فَمِنْهُمْ مَنْ سُخّرت لَهُ الرِّیحُ، وَمِنْهُمْ مَنْ كَانَ یُحْیِی الْمَوْتَ،  فَإِنْ سَرّك أَنْ نُؤْمِنَ بِكَ وَنُصَدِّقَكَ،  فَادْعُ رَبَّكَ أَنْ یَكُونَ لَنَا الصَّفَا ذَهَبًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ:إِنِّی قَدْ سَمِعْتُ الَّذِی قَالُوا،  فَإِنْ شِئْتَ أَنْ نَفْعَلَ الَّذِی قَالُوا فَإِنْ لَمْ یُؤْمِنُوا نَزَلَ الْعَذَابُ؛ فَإِنَّهُ لَیْسَ بَعْدَ نُزُولِ الْآیَةِ مُنَاظَرَةٌ،  وَإِنْ شِئْتَ أَنْ نَستأنی بِقَوْمِكَ استأنیتُ بِهِمْ؟قَالَ: یَا رَبِّ،  اسْتَأْنِ بِهِمْ

سعیدبن جبیر رضی   اللہ   عنہ سے  ایک مروی ہے  مشرکین نے  کہااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !آپ سے  پہلے  کے  انبیاء میں  سے  بعض(سلیمان علیہ السلام ) کے  ہواکو تابع کردیاگیاتھا بعض انبیاء (عیسیٰ علیہ السلام )مردوں  کوزندہ کردیاکرتے  تھے ،  اگر آپ چاہتے  ہیں  کہ ہم بھی آپ پرایمان لے  آئیں  تواپنے  رب سے  دعاکریں  کہ وہ کوہ صفاکوسونے  کابنادے ،   اللہ   تعالیٰ نے  وحی فرمائی کہ جوکچھ انہوں  نے  مطالبہ کیاہے  وہ ہم نے  سن لیاہے اگرآپ کی یہی خواہش ہے  تومیں  صفاپہاڑکوسونے  کابنادیتاہوں  ، لیکن یہ خیال رہے  کہ اگریہ پھربھی ایمان نہ لائے  توانہیں  مہلت نہیں  ملے  گی بلکہ فی الفورعذاب نازل ہوجائے  گااوریہ تباہ کردیے  جائیں  گے ، اوراگرآپ کوانہیں  تاخیردینے  اورسوچنے  کاموقع دینامنظورہے  تومیں  ایساکروں  ؟ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاالٰہی !میں  مہلت مانگتا ہوں  ۔ [82]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجْعَلَ لَهُمُ الصَّفَا ذَهَبًا،  وَأَنْ یُنَحِّیَ الْجِبَالَ عَنْهُمْ فَیَزْرَعُوا،  فَقِیلَ لَهُ: إِنْ شِئْتَ أَنْ نَسْتَأْنِیَ بِهِمْ،  وَإِنْ شِئْتَ أَنْ نُؤتیهم الَّذِی سَأَلُوا،  فَإِنْ كَفَرُوا أُهْلِكُوا كَمَا أهلكتُ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ مِنَ الْأُمَمِ،  قَالَ:لَا بَلِ اسْتَأْنِ بِهِم

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے  اہل مکہ نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  مطالبہ کیاکہ صفاپہاڑی کوسونے  کابنادیاجائے اوردوسرے  پہاڑیہاں  سے  ہٹادیئے  جائیں  تاکہ ہم یہاں  کھیتی باڑی کر سکیں  ،    اللہ   تعالیٰ نے  فرمایااگرآپ کی یہی خواہش ہے  تومیں  صفاپہاڑکوسونے  کابنادیتاہوں  اورپہاڑوں  کوبھی یہاں  سے  ہٹادیتاہوں  لیکن یہ خیال رہے  کہ اگریہ پھربھی ایمان نہ لائے  توانہیں  مہلت نہیں  ملے  گی بلکہ فی الفور عذاب نازل ہوجائے  گااوریہ بھی پہلی امتوں  کی طرح تباہ کردیے  جائیں  گے ، اوراگرآپ کوانہیں  تاخیردینے  اورسوچنے  کاموقع دینامنظورہے  تومیں  ایساکروں  ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاالٰہی!نہیں  ، بلکہ میں  ان کے  لیے  مہلت مانگتا ہوں  ۔ [83]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: قَالَتْ قُرَیْشٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ادْعُ لَنَا رَبَّكَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَهَبًا،  وَنُؤْمِنُ بِكَ،  قَالَ: وَتَفْعَلُونَ؟ قَالُوا: نَعَمْ،  قَالَ: فَدَعَا،  فَأَتَاهُ جِبْرِیلُ فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ یَقْرَأُ عَلَیْكَ السَّلامَ،  وَیَقُولُ: إِنْ شِئْتَ أَصْبَحَ لَهُمُ الصَّفَا ذَهَبًا،  فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْهُمْ عَذَّبْتُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ العَالَمِینَ،  وَإِنْ شِئْتَ فَتَحْتُ لَهُمْ بَابَ التَّوْبَةِ وَالرَّحْمَةِ ،  قَالَ:بَلْ بَابُ التَّوْبَةِ وَالرَّحْمَةِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  ایک اورروایت ہے قریش نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم سے کہااپنے  رب سے  دعاکریں  کہ وہ کوہ صفاکوسونے  کابنادے  توہم آپ پرایمان لے  آئیں  گے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا اگر ایسا ہو گیا تو کیاتم ایمان لے  آؤگے ؟قریش نے  کہاہاں  ہم آپ کی رسالت پرایمان لے  آئیں  گے ، چنانچہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دعافرمائی، جبرائیل علیہ السلام آئے  اورکہاآپ کاپروردگارآپ کوسلام کہتا ہے  اورفرماتاہے  کہ اگرآپ چاہیں  توصبح کوہی یہ پہاڑسونے  کا ہو جائے  گا لیکن اگرپھربھی ان میں  سے  کوئی ایمان نہ لایاتواسے  وہ سزاہوگی جواس سے  پہلے  دنیامیں  کسی کونہ ہوئی ہو اوراگرآپ کاارادہ ہوتومیں  ان پرتوبہ اوررحمت کے  دروازے  کھلے  چھوڑ دوں  ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ توبہ اوررحمت کے  دروازے  کھلے  رکھے ۔ [84]

جیسے  حواریوں  نے  عیسیٰ علیہ السلام سے  کہا تھا

اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ قَالَ اتَّقُوا اللهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱۱۲قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ۝۱۱۳قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّنْكَ۝۰ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۱۱۴ قَالَ اللهُ اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ۝۰ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۱۵ۧ [85]

ترجمہ:( حواریوں  کے  سلسلہ میں  ) یہ واقعہ بھی یاد رہے  کہ جب حواریوں  نے  کہا کہ اے  عیسیٰ ابن مریم ! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے  کھانے  کا ایک خوان اتار سکتا ہے  ؟ تو عیسیٰ نے  کہا   اللہ   سے  ڈرو اگر تم مومن ہو، انہوں  نے  کہا ہم بس یہ چاہتے  ہیں  کہ اس خوان سے  کھانا کھائیں  اور ہمارے  دل مطمئن ہوں  اور ہمیں  معلوم ہوجائے  کہ آپ نے  جو کچھ ہم سے  کہا ہے  وہ سچ ہے  اور ہم اس پر گواہ ہوں  ، اس پر عیسیٰ ابن مریم نے  دعا کی خدایا ! ہمارے  رب ! ہم پر آسمان سے  ایک خوان نازل کر جو ہمارے  لیے  اور ہمارے  اگلوں  پچھلوں  کے  لیے  خوشی کا موقع قرار پائے  اور تیری طرف سے  ایک نشانی ہو،  ہم کو رزق دے  اور تو بہترین رازق ہے  ،    اللہ   نے  جواب دیا میں  اس کو تم پر نازل کرنے  والا ہوں  مگر اس کے  بعد جو تم میں  سے  کفر کرے  گا اسے  میں  ایسی سزا دوں  گا جو دنیا میں  کسی کو نہ دی ہوگی ۔

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاان کی خواہش کے  مطابق محسوس معجزات کودلیل نبوت میں  پیش کردیناہمارے  لئے  ناممکن نہیں  ، لیکن ہم نشانیاں  اس لئے  نہیں  اتاررہے  کیونکہ پہلی اقوام نے  بھی نشانیوں  کامطالبہ کیاتھاجنہیں  ہم نے  پوراکردیاتھا، لیکن واضح نشانیاں  دیکھ کربھی ان اقوام نے  تکذیب کی اوردعوت حق پرایمان نہ لائیں  ، جس کے  نتیجے  میں  انہیں  ہلاک کردیاگیا، چنانچہ دیکھ لوقوم ثمودکے  مطالبہ پرصالح علیہ السلام نے  دعامانگی اورہم نے  ان کی خواہش کے  مطابق علانیہ پتھرکی چٹان سے  اونٹنی ظاہرکرکے  دکھادی جوصالح علیہ السلام کی صداقت کی واضح نشانی تھی لیکن مشرکین نے  ایمان لانے  کی بجائے  اس کی تکذیب کی اور  اللہ   کی نشانی اس اونٹنی ہی کوہلاک کرڈالا،  جس کے  نتیجے  میں  تین دن کے  بعدان پر  اللہ   کا دردناک عذاب ٹوٹ پڑا اوروہ کفروشرک سے  محبت اوردعوت حق سے  بغض وعنادکے  سبب ہلاک وبربادہوکررہ گئے ، اگران لوگوں  کی خواہش پرہم نشانیاں  دکھادیں  اورپھریہ لوگ ایمان نہ لائے  توبغیرکسی تاخیرکے  فوراًعذاب نازل ہوجائے  گا،  ہم نشانیاں  اسی لئے  توبھیجتے  ہیں  کہ لوگ انہیں  دیکھ کرعبرت ونصیحت حاصل کریں  ،

عَنْ قَتَادَةَ،  قَوْلُهُ: {وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا،  ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْكُوفَةَ رَجَفَتْ عَلَى عَهْدِ ابْنِ مَسْعُودٍ،  فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَبَّكُمْ یَسْتَعْتِبُكُمْ فَاعْتِبُوهُ

قتادہ رحمہ   اللہ   آیت کریمہ’’ہم تولوگوں  کودھمکانے  کے  لیے  ہی نشانیاں  بھیجتے  ہیں  ۔ ‘‘ کے  بارے  میں  کہتے  ہیں  بیان کیاجاتاہے  کہ عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہ کے  دورمیں  ایک بارکوفے  میں  زلزلہ آیاتوانہوں  نے  فرمایا لوگو! تمہارارب چاہتاہے  کہ تم توبہ کرولہذاتم توبہ کرکے  اسے  راضی کرو۔ [86]

وَهَكَذَا رُوی أَنَّ الْمَدِینَةَ زُلزلت عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَرَّاتٍ،  فَقَالَ عُمَرُ: أَحْدَثْتُمْ،  وَاللَّهِ لَئِنْ عَادَتْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ

اسی طرح یہ بھی روایت ہے سیدناعمر رضی   اللہ   عنہ بن خطاب کے  دورمیں  مدینہ منورہ میں  کئی بارزلزلہ آیا تو انہوں  نے  فرمایالوگو!  اللہ   کی قسم !تم نے  گناہ شروع کردیے  ہیں  لہذااگردوبارہ زلزلہ آیاتومیں  یہ کروں  گا، یہ کروں  گا۔ [87]

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ(وَإِنَّهُمَا لَا یَنْخَسِفَانِ) لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ(وَلَكِنَّ یُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ) فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا أَحَدٌ أَغْیَرُ مِنَ اللَّهِ ،  أَنْ یَزْنِیَ عَبْدَهُ أَوْ تَزْنِیَ أَمَتَهُ،  یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ،  لَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا وَلَبَكَیْتُمْ كَثِیرًا

بے  شک شمس وقمر  اللہ   تعالیٰ کی نشانیوں  میں  سے  دونشانیاں  ہیں  انہیں  کسی کی موت وحیات کی وجہ سے  گرہن نہیں  لگتالیکن   اللہ   تعالیٰ ان کے  ساتھ اپنے  بندوں  کوڈراتاہے ، جب تم یہ دیکھوتو  اللہ   تعالیٰ کے  ذکر، دعااوراستغفاراختیارکرلو پھرفرمایااے  امت محمد!  اللہ   کی قسم !  اللہ   تعالیٰ سے  بڑھ کرکوئی زیادہ غیرت والانہیں  ہے  اسے  اس بات سے  بڑی غیرت آتی ہے  کہ اس کاکوئی بندہ یابندی زناکرے ، اے  امت محمد!   اللہ   کی قسم !اگرتم وہ جان لوجومیں  جانتاہوں  توتم کم ہنسواورزیادہ روؤ۔ [88]

احادیث کویکجاکیاگیاہے ۔

یادکرواے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !ہم نے  تم سے  کہہ دیاتھاکہ   اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  علم وقدرت سے  لوگوں  کو گھیر رکھا ہے  ،  لوگ   اللہ   کے  غلبہ وتصرف میں  ہیں  اورجو  اللہ   چاہے  گاوہی ہوگانہ کہ وہ جوچاہیں  گے  ، اورابھی جومعراج میں  ہم نے  تمہیں  اپنی نشانیوں  کامشاہدہ کرایاہے  اس کو اورجہنم کے  اس درخت کوجوجہنم کی تہہ سے  اگتاہے  جس پرقرآن میں  لعنت کی گئی ہے  ،  جیسے  فرمایا

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُهْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙ كَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶ [89]

ترجمہ:زقوم کادرخت گناہ گارکاکھاناہوگا، تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں  وہ اس طرح جوش کھائے  گاجیسے  کھولتاہواپانی جوش کھاتاہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:{وَالشَّجَرَةَ المَلْعُونَةَ} [90]: شَجَرَةُ الزَّقُّومِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے  وَالشَّجَرَةَ المَلْعُونَةَ سے  مرادتھوہر(زقوم) کادرخت ہے ۔ [91]

ہم نے  واقعہ معراج اورزقوم کے  درخت کوتکذیب کرنے  والے  لوگوں  کے  لئے  بس ایک فتنہ بناکررکھ دیا،

كَمَا أَخْبَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ،  وَرَأَى شَجَرَةَ الزَّقُّومِ فَكَذَّبُوا بِذَلِكَ،  حَتَّى قَالَ أَبُو جَهْلٍ لَعَنَهُ اللَّهُ [بِقَوْلِهِ] هَاتُوا لَنَا تَمْرًا وَزُبْدًاوَجَعَلَ یَأْكُلُ هَذَا بِهَذَاوَیَقُولُ: تَزَقَّموا،  فَلَا نَعْلَمُ الزَّقُّومَ غَیْرَ هَذَا

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جب انہیں  یہ خبردی کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جنت وجہنم اورتھوہرکے  درخت کودیکھاہے  تو انہوں  نے  اس کی تکذیب کی،  حتی کہ ابوجہل لَعَنَهُ اللَّهُ کہنے  لگامیرے  پاس کھجور اور پنیرلاؤاورپھروہ دونوں  کوملاکرکھانے  لگا اورکہنے  لگاکھاؤ!کہ ہم اس کے  سوااورکسی زقوم کونہیں  جانتے ۔ [92]

ہم اپنے  رحم وکرم کی بناپر انہیں  تنبیہ پرتنبیہ کیے  جارہے  ہیں  مگرحق سے  بغض وعنادکی بناپرہرتنبیہ ان کی سرکشی وطغیانی میں  اضافہ کاباعث بن جاتی ہے ۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِینًا ‎﴿٦١﴾‏ قَالَ أَرَأَیْتَكَ هَٰذَا الَّذِی كَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهُ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٦٢﴾‏ قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا ‎﴿٦٣﴾‏ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‎﴿٦٤﴾‏ إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِیلًا ‎﴿٦٥﴾‏(بنی اسرائیل )
’’جب ہم نے  فرشتوں  کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے  سوا سب نے  کیا،  اس نے  کہا کہ کیا میں  اسے  سجدہ کروں  جسے  تو نے  مٹی سے  پیدا کیا ہے ، اچھا دیکھ لے  اسے  تو نے  مجھ پر بزرگی تو دی ہے ،  لیکن اگر مجھے  بھی قیامت تک تو نے  ڈھیل دی تو میں  اس کی اولاد کو بجز تھوڑے  لوگوں  کے  اپنے  بس میں  کرلوں  گا،  ارشاد ہوا کہ جا ان میں  سے  جو بھی تیرا تابعدار ہوجائے  گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے  جو پورا پورا بدلہ ہے  ،  ان میں  سے  تو جسے  بھی اپنی آواز سے  بہکا سکے  گا بہکا لے  اور ان پر اپنے  سوار اور پیادے  چڑھالا اور ان کے  مال اور اولاد میں  سے  اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں  (جھوٹے ) وعدے  دے  لے ،  ان سے  جتنے  بھی وعدے  شیطان کے  ہوتے  ہیں  سب کے  سب سراسر فریب ہیں ،  میرے  سچے  بندوں  پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں ،  تیرا رب کارسازی کرنے  والا کافی ہے ۔ ‘‘

ابلیس کی قدیمی دشمنی :

اللہ   تعالیٰ نے  شیطان مردودکی آدم علیہ السلام اوراس کی اولادسے  قدیمی عداوت کاذکرفرمایااوریادکروجب کہ ہم نے  اپنے  دونوں  ہاتھوں  سے  آدم علیہ السلام کوتخلیق کرنے  کے  بعد ملائکہ سے  کہاکہ آدم کواعزازی سجدہ کروتوابلیس کے  سواسب ملائکہ نے  سجدہ کیا، اس نے    اللہ   تعالیٰ کے  حکم کی پرواہ نہ کرتے  ہوئے  فخروغروراورآدم علیہ السلام کوحقیرسمجھتے  ہوئے  جرات اور کفر کا اظہارکرتے  ہوئے کہاکیامیں  اس کوسجدہ کروں  جسے  تونے  مٹی کے  بدبودارگارے  سے  بنایاہے  ؟یعنی خودکوآتشی مخلوق ہونے  کی بناپراعلیٰ اورمٹی سے  تخلیق کیے  ہوئے  انسان کوحقیرسمجھا، جیسے  فرمایا

قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ۝۰ۭ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۝۷۶ [93]

ترجمہ:اس نے  جواب دیا میں  اس سے  بہتر ہوں  آپ نے  مجھ کو آگ سے  پیدا کیا ہے  اور اس کو مٹی سے  ۔

شیطان مردود کویہ تو اندازہ ہو گیا تھاکہ یہ زمین و آسمان کایہ عظیم الشان نظام ، دل آویز بہشت وہولناک جہنم کو بے  مقصد ، بے  کاریا کسی لایعنی کھیل تماشا کے  طورپر نہیں  بنایا گیا ہے  اورنہ ہی رب بے  مقصد کام کرتاہے  تو یقیناً آدم علیہ السلام کو خلافت کااتنابڑامنصب ، مرتبہ دے  کراس میں  بسایا جائے  گا پھر اس کاکوئی انجام بھی ہوگا، انسانوں  کے  اعمالوں  کی کچھ جزاوسزابھی ضرورہوگی ، اب میں  رب پر یہ ثابت کروں  گا کہ اس ادنیٰ مٹی کے  جوہر سے  بنائے  ہوئے  انسان کوہر مخلوق پر ترجیح دے  کر اس کو جومنصب تو نے  عطاکیا وہ صحیح نہیں  اس منصب کاصحیح حق دار میں  تھا، اس طرح ابلیس اپنے  راندہ درگاہ ایزدی ہونے  پر جو اسے  قلق اورمایوسی ہوئی اسے  بھی اس نے  آدم علیہ السلام کے  کھاتے  میں  ڈال دیا اس طرح سجدہ اعزاز کے  ساتھ ہی آدم علیہ السلام کوایک بہت بڑے  خطرناک ، چالاک دشمن سے  پالاپڑ گیاجس نے  آدم علیہ السلام اوراس کی اولادکورب العزت کی نگاہ سے  گراناہی اپنا مقصد حیات بنالیا اس لئے  اس نے  بڑی جرت وبیباکی سے  رب سے  کہا اگرتومجھے  قیامت کے  دن تک زندگی دے  دے  تومیں  آدم علیہ السلام کی پوری نسل پرغلبہ حاصل کرکے  ان کے  قدم سلامتی کی راہ سے  جڑسے  اکھاڑپھینکوں  گا بس تھوڑے  ہی لوگ میرے  پھندوں  سے  بچ سکیں  گے  ، شیطان لعین کا یہ چیلنج سن کر رب کریم نے  فرمایا ٹھیک ہے  تجھے  قیامت کے  دن تک مہلت دی جاتی ہے ۔

قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ۝۳۷ۙاِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۝۳۸ [94]

ترجمہ:فرمایااچھا تجھے  مہلت ہے ، اس دن تک جس کا وقت ہمیں  معلوم ہے ۔

ہمارا قانون اٹل ہے  جو جیسا کرے  گاویساہی بھرے  گا ہم نے  انسان کوکامل بنایاہے  اوراس میں  خیرو شر،  حق وباطل،  کھرے  اور کھوٹے  کی تمیزکے  دونوں  مادے  رکھ چھوڑے  ہیں  ۔

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [95]

ترجمہ:پھرہم نے  (نیکی اوربدی کے )دونوں  نمایاں  راستے  اسے (نہیں  ) دکھا دیے ؟ ۔

 فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۝۸۠ۙ [96]

ترجمہ: پھر اس کو بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں  ) کی سمجھ دی ۔

وہ اپنے  ارادہ اورعمل دونوں  میں  بالکل خودمختارہے  تاکہ وہ محکومانہ ومجبورانہ انداز سے  مجبورہوکر نہیں  بلکہ خود اختیار نہ اطاعت سے  نفس کی برائی کے  پہلوکو دبائے  اورتقویٰ کے  پہلو کو اختیار کرے  اگراپنی آنکھیں  کھلی رکھے  گاتو سیدھا راستہ دیکھنے  میں  اسے  کوئی رکاوٹ نہیں  ہوگی ،  جیسے  فرمایا

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۝۹۠ۙوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىهَا۝۱۰ۭ [97]

ترجمہ:یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے  نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہواوہ جس نے  اس کو دبا دیا۔

تو خود اور تیرا ہرطرح کا لشکرہرممکن ذرائع سے  آدم علیہ السلام اور اسکی زریت کو گمراہ کرنے  کے  لئے  استعمال کرلے  ،  ان پرانسانوں  اورجنوں  میں  سے  اپنے  سوار اور پیادے  چڑھالا، ان کے  مال اوراولادکے  ساتھ ساجھا لگا ،

عَنْ قَتَادَةَ،  عَنِ الْحَسَنِ،  {وَشَارِكْهُمْ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ} قَالَ:قَدْ وَاللَّهِ شَارَكَهُمْ فِی أَمْوَالِهِمْ وَأَوْلَادِهِمْ،  فَمُجِّسُوا وَهُوِّدُوا وَنُصِّرُوا وَصُبِغُوا غَیْرَ صِبْغَةٍ الْإِسْلَامِ، وَجَزَّءُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ جُزْءًا لِلشَّیْطَانِ

قتادہ رحمہ   اللہ   نے  حسن بصری رحمہ   اللہ   سے  آیت کریمہ ’’اوران کے  مال اوراولادمیں  اپنابھی ساجھالگا۔ ‘‘کے  بارے  میں  روایت کیاہے    اللہ   کی قسم !شیطان ان کے  ساتھ مال واولادمیں  شریک ہوگیاجس کی وجہ سے  انہوں  نے  اپنی اولادکومجوسی ، یہودی اورعیسائی بنادیا اورانہیں  اسلام کے  رنگ کے  سوادوسرے  رنگ میں  رنگ دیا اورمالوں  میں  سے  ایک حصہ شیطان کے  لیے  وقف کردیا۔ [98]

 فَكُلُّ مَا عُصِیَ اللَّهُ فِیهِ أَوْ بِهِ،  وَأُطِیعَ بِهِ الشَّیْطَانُ أَوْ فِیهِ،  فَهُوَ مُشَارَكَةُ

یعنی ہروہ کام جس میں  یاجس کے  ساتھ   اللہ   تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے  یاجس کام میں  یاجس کے  ساتھ شیطان کی اطاعت کی جائے  تووہ شیطان کی طرف سے  مشارکت ہے  ۔ [99]

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنفاء،  فَجَاءَتْهُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِینِهِمْ،  وحَرّمت عَلَیْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ

عیاض بن حمار رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   عزوجل ارشادفرماتاہے  بے  شک میں  نے  اپنے  سب کے  سب بندوں  کویک سوہوکرعبادت کرنے  والے  پیداکیاتھامگرشیطانوں  نے  ان کے  پاس آکرانہیں  ان کے  دین سے  بہکادیااورانہوں  نے  ان کے  لیے  ان چیزوں  کوحرام قراردے  دیاجومیں  نے  ان کے  لیے  حلال قراردی تھیں  ۔ [100]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَ أَهْلَهُ قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ،  اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ،  وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا،  فَإِنَّهُ إِنْ یُقَدَّرْ بَیْنَهُمَا وَلَدٌ فِی ذَلِكَ لَمْ یَضُرَّهُ شَیْطَانٌ أَبَدًا

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااگرکوئی ایک اس وقت جب وہ اپنی بیوی کے  پاس جانے  کاارادہ کرے  یہ دعاپڑھ لے ’’   اللہ   کے  نام سے  اے    اللہ  !توہم کوشیطان سے  بچااورجو اولاد توہم کوعطافرمائے  اسے  بھی شیطان سے  بچا۔ ‘‘ اس صحبت کے  نتیجے  میں  اگردونوں  کے  مقدرمیں  اولادلکھ دی گئی توشیطان اسے  کبھی بھی نقصان نہیں  پہنچاسکے  گا۔ [101]

اور ان کوسبزباغ دکھا، جھوٹی توقعات ، گانے  ،  موسیقی اورلہوولعب کے  مختلف جال میں  پھانس ،

عَنْ مُجَاهِدٍ،  فِی قَوْلِهِ {وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ} قَالَ: بِاللَّهْوِ وَالْغِنَاءِ

مجاہدؒکہتے  ہیں  ’’ان میں  سے  توجسے  بھی اپنی آوازسے  بہکاسکے  گابہکالے ۔ ‘‘سے  مرادلہوولعب اورموسیقی ہے ۔ [102]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ} قَالَ: صَوْتُهُ كُلُّ دَاعٍ دَعَا إِلَى مَعْصِیَةِ اللَّهِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما ’’ان میں  سے  توجسے  بھی اپنی آوازسے  بہکاسکے  گابہکالے ۔ ‘‘ کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  ہراس شخص کی آوازجو  اللہ   تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بلائے  شیطان کی آواز ہے ۔ [103]

اور شیطان کے  پر فریب وعدے  ایک دھوکے  کے  سوااورکچھ بھی نہیں  ، اور بروز قیامت یہ خودجہنم میں  آگ کے  منبر پر کھڑے  ہوکرکہے  گاکہ   اللہ   کے  وعدے  سچے  تھے  اورمیں  نے  جو وعدے  کیے  تھے  سب جھوٹ اورفریب کے  سواکچھ نہیں  تھے  ، جیسے  فرمایا

 وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰۝۲۲ [104]

ترجمہ:اور جب فیصلہ چکا دیا جائے  گا تو شیطان کہے  گا حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   نے  جو وعدے  تم سے  کیے  تھے  وہ سب سچے  تھے  اور میں  نے  جتنے  وعدے  کیے  ان میں  سے  کوئی بھی پورا نہ کیا ،  میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں  ،  میں  نے  اس کے  سوا کچھ نہیں  کیا کہ اپنے  راستے  کی طرف تمہیں  دعوت دی اور تم نے  میری دعوت پر لبّیک کہا اب مجھے  ملامت نہ کرو اپنے  آپ ہی کو ملامت کرو،  یہاں  نہ میں  تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں  اور نہ تم میری،  اس سے  پہلے  جو تم نے  مجھے  خدائی میں  شریک بنا رکھا تھا میں  اس سے  بری الذمہ ہوں  ،  ایسے  ظالموں  کے  لیے  تو دردناک سزا یقینی ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

 اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ وَاللهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا۔ ۔ ۔ ۝۰۝۲۶۸ۖۙ [105]

ترجمہ:شیطان تم کو مفلسی سے  ڈراتا ہے  اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے  مگر   اللہ   تمہیں  اپنی طرف سے  مغفرت اور فضل (و کرم) کا وعدہ کرتا ہے  ۔

۔ ۔ ۔ حَتّٰى جَاۗءَ اَمْرُ   اللہ   وَغَرَّكُمْ بِ  اللہ   الْغَرُوْرُ۝۱۴ [106]

ترجمہ:اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز(شیطان) تمہیں    اللہ   کے  معاملہ میں  دھوکہ دیتا رہا ۔

مگرجومیرے  مخلص بندے  ہوں  گے  انہیں  میں  اپنی تائیدوحمایت سے  سرفرازکروں  گا اوران پر تجھے  کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تو انہیں  زبردستی میرا نافرمان بنادے  البتہ وہ جو خودہی بہکے  ہوئے  ہوں  اور تیری پیروی کرنا چاہیں  انہیں  تیر اساتھ دینے  کے  لئے  چھوڑ دیا جائے  گا،  جیسے  فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ تَـــؤُزُّہُمْ اَزًّا۝۸۳ۙ [107]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے  نہیں  ہو کہ ہم نے  ان منکرین حق پر شیاطین چھوڑ رکھے  ہیں  جو انہیں  خوب خوب (مخالفت حق پر) اکسا رہے  ہیں  ؟ ۔

ہم زبردستی انہیں  اس سے  باز رکھنے  کی کوشش نہیں  کریں  گے  اور زبردستی توہم کسی کے  ساتھ بھی نہیں  کریں  گے ،  ہماراکام توحید کا سیدھا راستہ بتلادینا ہے  جس میں  کوئی کجی یا الجھاؤنہیں  ہے  ، جو آسان،  صاف اور روشن راستہ ہے ، اس شاہراہ پرکوئی ڈاکولٹیرانہیں  ، کسی قسم کاکوئی خطرہ نہیں  اور سیدھا مجھ تک پہنچ جاتا ہے ، مزیداصلاح کے  لئے  میں  ہر بستی میں  اپنے  پیغمبر بھیجتا رہوں  گا،  پھربھی یہ میری قدرت کی نشانیوں  سے  آنکھیں  بندکرکے  میری رحمت اور فضل وکرم سے  مایوس ہوکر تیرے  جیسے  اپنے  رب کے  نافرمان،  اور حاسد شیخی خورے  کے  پیچھے  چل پڑیں  گے ،  تجھے  اپنا ازلی اورخطرناک دشمن سمجھنے  کے  بجائے  اپنادوست بنائیں  گے ،  تجھ جیسے  جھوٹے  کی شعبدہ بازیوں  پر اعتبار اور میری جنتوں  میں  جانے  سے  انکار کریں  گے  تو پھروہ میرے  بندے  نہ ہوئے  چنانچہ جوتیری دعوت کولبیک کہہ کرتیرابندہ بنے  گاتو جہنم کے  سات دروازوں  سے  ہر اس انسان کوجو دہریت ،  شرک،  نفاق، نفس پرستی، فسق وفجور، ظلم وستم ،  خلق آزاری،  تبلیغ ضلالت اور اقامت کفر کے  راستہ سے ،  اورکوئی اشاعت فحشاومنکرکے  راستہ سے  داخل ہونا چاہے  گا اس کا راستہ متعین کردیں  گے جس سے  گزرکرتم اور تمہارا گروہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں  جاگریں  گے ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۱۸ [108]

ترجمہ:یقین رکھ کہ ان میں  سے  جو تیری پیروی کریں  گے تجھ سمیت ان سب سے  جہنم کو بھر دوں  گا۔

اور وہاں  ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  اس میں  جلتے  رہیں  گے ،  جس میں  نہ تم جی سکوگے  نہ مرسکوگے  ، جیسے  فرمایا

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [109]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے  کہ جو مجرم بن کر اپنے  رب کے  حضور حاضر ہوگا اس کے  لیے  جہنم ہے  جس میں  وہ نہ جیے  گا نہ مرے  گا۔

الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [110]

ترجمہ:جو بڑی آگ میں  جائے  گاپھر نہ اس میں  مرے  گا اور نہ جیے  گا۔

اورنہ ہی کوئی باہر نکل سکے گا، جیسے  فرمایا

كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَا۔ ۔ ۔ ۝۲۲ۧ [111]

ترجمہ:جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے  نکلنے  کی کوشش کریں  گے  پھر اسی میں  دھکیل دیے  جائیں  گے ۔

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝۰ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْـرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا۔ ۔ ۔ ۝۲۰ [112]

ترجمہ:اور جنہوں  نے  فسق اختیار کیا ہے  ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ،  جب کبھی وہ اس سے  نکلنا چاہیں  گے  اسی میں  دھکیل دیے  جائیں  گے ۔

جس کا عذاب ہر لمحہ نیا ہوگااور بڑھتاہی رہے  گا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا۝۰ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ۔ ۔ ۔ ۝۵۶ [113]

ترجمہ:جن لوگوں  نے  ہماری آیات کو ماننے  سے  انکار کر دیا انہیں  بایقین ہم آگ میں  جھونکیں  گے  اور جب ان کے  بدن کی کھال گل جائے  گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں  گے  تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں  ۔

میں  ایسے  باغیوں  سے  بات کرناتودرکنار انکی طرف دیکھنا بھی پسندنہ کروں  گا۔

۔ ۔ ۔ وَلَا یُكَلِّمُھُمُ   اللہ   وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَلَا یُزَكِّـیْہِمْ۔ ۔ ۔ ۝۷۷ [114]

ترجمہ:   اللہ   قیامت کے  روز نہ ان سے  بات کرے  گا نہ ان کی طرف دیکھے  گا اور نہ انہیں  پاک کرے  گا۔

اورجوکوئی اس پربھروسہ کرتاہے  اور اس کے  حکم کی تعمیل کرتا ہے  توآپ کارب اس کاکارسازہے  اوراس کے  لئے  کافی ہے ۔

وَّتَوَكَّلْ عَلَی   اللہ  ۝۰ۭ وَكَفٰی بِ  اللہ   وَكِیْلًا۝۳ [115]

ترجمہ:  اللہ   پر توکل کرو  اللہ   ہی وکیل ہونے  کے  لیے  کافی ہے  ۔

رَبُّكُمُ الَّذِی یُزْجِی لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِیمًا ‎﴿٦٦﴾‏وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا ‎﴿٦٧﴾(بنی اسرائیل)
’’تمہارا پروردگار وہ ہے  جو تمہارے  لیے  دریا میں  کشتیاں  چلاتاہے  تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو،  وہ تمہارے  اوپر بہت مہربان ہے ،  اور سمندروں  میں  مصیبت پہنچتے  ہی جنہیں  تم پکارتے  تھے  سب گم ہوجاتے  ہیں  صرف وہی   اللہ   باقی رہ جاتا ہے ،  پھر جب تمہیں  خشکی کی طرف بچا لاتا ہے  تو تم منہ پھیر لیتے  ہو،  اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے  ۔ ‘‘

تمہاراحقیقی رب تووہ ہے  جس نے  اپنے  فضل وکرم سے  کشتیوں  ، سفینوں  اوردیگرسواریوں  کوتمہارے  لئے  مسخرکردیاہے  تاکہ تم ان کے  ذریعے  تجارت اوردوسرے  کاموں  کے  لئے  دوردرازجگہوں  پر سفر کرواور معاشی ، تمدنی ، علمی اورذہنی فوائدحاصل کرنے  کی کوشش کروحقیقت یہ ہے  کہ وہ تمہارے  حال پرنہایت مہربان ہے  ، جب تم سمندر میں  اپنی کشتیوں  پرہوتے  ہواور   اللہ   تم پرکوئی مصیبت بھیج دیتاہے  تواس وقت تم اپنے  بچاؤکے  لئے  ان بے  شمار دیوی دیوتاؤں  کوبھول کر جن کی طاقت ورسائی کاتم لوہامانتے  ہو،  جن کومشکل کشا و حاجت رواجانتے  ہو ، جن کی رضاوخوشنودی کے  لئے  وہ نذرونیازپیش کرتے  ہو، اوراپنی اصلی فطرت کے  مطابق خالص   اللہ   کواپنی مددکے  لئے  پکارتے  ہو ، مگر جب   اللہ   تمہیں  اپنی رحمت سے  اس مصیبت سے  بچاکر صحیح سلامت خشکی پرپہنچادیتاہے  توتم لوگ   اللہ   کوبھول کراپنے  باطل معبودوں  کے  آستانوں  پر سر جھکانے  اوررسوم عبودیت ادا کرنے  کے  لئے  پہنچ جاتے  ہوجوکوئی نفع دے  سکتی ہیں  نہ نقصان، جوکسی کوعطاکرسکتی ہیں  نہ محروم کرسکتی ہیں  ، انسان واقعی بڑاناشکراہے  جو  اللہ   کی رحمت اوراس کی نعمتوں  کوبھول جاتاہے ۔

[1] لقمان۱۸

[2] القصص ۸۱

[3] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الخُیَلاَءِ ۵۷۸۹، صحیح مسلم کتاب اللباس بَابُ تَحْرِیمِ التَّبَخْتُرِ فِی الْمَشْیِ مَعَ إِعْجَابِهِ بِثِیَابِهِ۵۴۶۷،مسنداحمد۹۰۶۵،المعجم الاوسط ۹۱۷۶،شعب الایمان ۵۷۱۶

[4] المائدة۷۲

[5] الانعام۱۵۱،۱۵۲

[6] مریم۸۸تا۹۵

[7] الشعرائ۱۹۲،۱۹۳

[8] التکویر۱۹تا۲۱

[9] السجدة۱۱

[10] البدایة والنہایة ۴۷؍۱

[11] النازعات۱،۲

[12] النازعات۳

[13] الحاقة۱۶،۱۷

[14] المومن۷

[15] الرعد۲۲تا۲۴

[16] المدثر۲۷تا۳۰

[17] الجن۸،۹

[18] الانفطار۹تا۱۲

[19] الرعد۱۱

[20] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۲۳

[21] صحیح بخاری كِتَابُ الحَیْض بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ ۳۱۸

[22] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۳۱

[23]صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ الصَّدَقَةِ فِی الْمَسَاكِینِ۷۴۷۳

[24] صحیح ابن حبان۹۱۴،سنن نسائی كِتَابُ السَّهْوِ بَابُ السَّلَامِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۲۸۳،مسنداحمد۴۳۲۰

[25] مسنداحمد ۲۱۷۰۷،صحیح مسلم کتاب الذکرعالدعاء بَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ لِلْمُسْلِمِینَ بِظَهْرِ الْغَیْبِ۶۹۲۹،سنن ابن ماجہ کتاب کتاب المناسک بَابُ فَضْلِ دُعَاءِ الْحَاجِّ۲۸۹۶

[26] جامع ترمذی کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱،اثبات عذاب القبرللبیہقی۵۶

[27]سنن ابوداود کتاب السنة بَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۴۷۵۳

[28]جامع ترمذی کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِعن ابی ہریرہؓ۱۰۷۱

[29]صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[30] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۲۱

[31] الشوری ۵

[32] ق۱۷،۱۸

[33] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۱۱

[34] المومنون۹۱

[35] الفرقان ۱۷،۱۸

[36] ص۱۸

[37] البقرة۷۴

[38] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۵۷۹

[39] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ إِذَا حَرَّقَ المُشْرِكُ المُسْلِمَ هَلْ یُحَرَّقُ۳۰۱۹، صحیح مسلم كتاب السَّلَامِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ قَتْلِ النَّمْلِ۵۸۴۹،سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ مَا یُنْهَى، عَنْ قَتْلِهِ ۳۲۲۵،سنن نسائی کتاب الصید باب قَتْلُ النَّمْلِ۴۳۶۳، مسنداحمد۹۲۲۹

[40] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۵۸۴،دلائل النبوة للبیہقی ۶۴؍۶

[41] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی آیَاتِ نُبُوَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدْ خَصَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ ۳۶۲۴،مسنداحمد۲۱۰۰۵

[42] تفسیرابن کثیر۷۹؍۵

[43] مسنداحمد۱۵۶۲۹

[44] المعجم الاوسط۳۷۱۶

[45] النسائ۱۱۰

[46] فاطر۴۱

[47] هود: 102

[48] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ۴۶۸۶،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ۳۱۱۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْعُقُوبَاتِ۴۰۱۸

[49] الحج۴۸

[50] حم السجدة۵

[51] الإسراء: ۴۵

[52] مسندابی یعلی الموصلی۵۳، مستدرک حاکم۳۳۷۶

[53] الزمر۴۵

[54] تفسیرطبری۴۵۸؍۱۷

[55] ص۴

[56] الدخان۱۴

[57] الطور۲۹

[58] سیرة ابن إسحاق كتاب السیر والمغازی۱۸۹؍۱،ابن ہشام۳۱۵؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۲۰۶؍۲

[59] النازعات۱۰

[60] یٰسین۷۸

[61] مریم: 39

[62] مریم: 39

[63] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة کھیعص بَابُ قَوْلِهِ وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ ۴۷۳۰،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ ۷۱۸۱

[64] الانبیائ۱۰۴

[65] الروم۲۷

[66] الملک۲۵

[67] الروم۲۵

[68] النازعات۱۳،۱۴

[69] النازعات ۴۶

[70] طہٰ۱۰۲تا۱۰۴

[71] الروم ۵۵

[72] المومنون۱۱۲تا۱۱۴

[73]المطففین ۱۷

[74] فاطر۶

[75] صحیح بخاری کتاب الفتن بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلاَحَ فَلَیْسَ مِنَّا۷۰۷۲،صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالسِّلَاحِ إِلَى مُسْلِمٍ ۶۶۶۸

[76] البقرة۲۵۳

[77] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَآتَیْنَا دَاوُدَ زَبُورًا ۳۴۱۷،صحیح ابن حبان۶۲۲۵، السنن الکبری للبیہقی۱۱۶۹۲،شرح السنة للبغوی۲۰۲۷

[78] ص۵

[79] تفسیرطبری۴۷۱؍۱۷

[80] الإسراء: 57

[81] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ قُلْ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلاَ یَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلاَ تَحْوِیلًا ۴۷۱۴، صحیح مسلم کتاب التفسیربَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى أُولَئِكَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِیلَةَ ۷۵۵۴

[82] تفسیرطبری ۴۷۷؍۱۷،تفسیرابن کثیر۸۹،۹۰؍۵

[83] مسنداحمد۲۳۳۳

[84] مسند احمد ۲۱۶۶

[85] المائدة۱۱۲تا۱۱۵

[86] تفسیرطبری۴۷۸؍۱۷

[87] تفسیرابن کثیر۹۱؍۵

[88] صحیح مسلم كِتَابُ الْكُسُوفِ بَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۲۰۸۹،صحیح بخاری أَبْوَابُ الكُسُوفِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَوِّفُ اللَّهُ عِبَادَهُ بِالكُسُوفِ ۱۰۴۸،۱۰۴۴، وبَابُ الذِّكْرِ فِی الكُسُوفِ ۱۰۵۹

[89] الدخان۴۳تا۴۶

[90] الإسراء: 60

[91] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل باب وما جعلنا الرویا التی اریناک الافتنة للناس۴۷۱۶

[92] تفسیرابن کثیر۹۲؍۵

[93] ص۷۶

[94] الحجر۳۷،۳۸

[95] البلد۱۰

[96] الشمس ۸

[97] الشمس۹،۱۰

[98] تفسیرطبری۴۹۵؍۱۷

[99] تفسیرطبری۴۹۵؍۱۷

[100]صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ الصِّفَاتِ الَّتِی یُعْرَفُ بِهَا فِی الدُّنْیَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ۷۲۰۷،مسنداحمد۱۷۴۸۴

[101] صحیح بخاری كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ ۶۳۸۸،صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یَقُولَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ۳۵۳۳،سنن ابوداود كِتَاب النِّكَاحِ بَابٌ فِی جَامِعِ النِّكَاحِ ۲۱۶۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ۱۰۹۲،صحیح ابن حبان۹۸۳،السنن الکبری للنسائی۱۰۰۲۴

[102] تفسیر طبری ۴۹۰؍۱۷

[103] تفسیر طبری ۴۹۱؍۱۷

[104]ابراہیم۲۲

[105] البقرة۲۶۸

[106] الحدید۱۴

[107] مریم۸۳

[108] الاعراف۱۸

[109] طہ۷۴

[110] الاعلی۱۳

[111] الحج۲۲

[112] السجدة۲۰

[113] النسائ۵۶

[114] آل عمران۷۷

[115] الاحزاب۳

Related Articles