ہجرت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورة محمد

ماہ حرام ذی الحجہ اورمحرم گزرچکے تھے،جزیرة العرب کی سب سے بڑی طاقت اورجاہلیت کے علم برداروں  نے مدینہ منورہ کے خلاف اعلان جنگ کرکے لشکر کشی کی تیاریاں  شروع کردی تھیں ،اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی مسلمانوں  کو مقابلہ کرنے کی اجازت مل چکی تھی مگرابھی تک کوئی معرکہ برپانہیں  ہواتھا، چنانچہ کوئی معرکہ برپاہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے سورۂ محمدنازل فرمائی جس میں  جنگ کے متعلق مزیدہدایات فرمائیں ۔

مضامین سورةمحمد:مہاجرین مکہ مصائب وآلام سے پرزندگی سے نکل کردارالامان مدینہ منورہ میں  قدرے عافیت کی زندگی کاآغازکررہے تھے مگرکفارمکہ مسلمانوں  کومٹادینے والی پالیسی سے اب تک دستبردارنہ ہوئے تھے بلکہ ان کی دشمنی اورزیادہ شدت اختیارکرگئی تھی،سورۂ کی ابتدامیں  کفاراورمومنین کے درمیان فرق بیان کیاگیاہےکفارباطل کا اتباع کرتے ہیں  اوراہل ایمان حق کی اتباع کرتے ہیں ،جب انسانوں  میں  ان دوگروہوں  کاوجودہوگاتوان کے درمیان کشمکش بھی ہوگی ،ٹکراؤبھی ہوگا،معرکہ کارزاربھی گرم ہوگااس لیے فرمایاکہ جب تم کفارسے ٹکراؤتوان کی گردنیں  اڑادویہاں  تک کہ جب ان کوخوب قتل کرچکوتوجوباقی بچیں  انہیں  مضبوطی سے قیدکرلو،ان قیدیوں  کوبطوراحسان بھی آزادکیاجاسکتاہے اورفدیہ لے کربھی چھوڑاجاسکتاہے،تیسری صورت یہ ہے کہ اپنے قیدیوں  کے ساتھ تبادلہ کیاجاسکتاہے اورچوتھی امکانی صورت یہ ہے کہ انہیں  غلام اور لونڈی بنالیاجائے،اس وقت پوری دنیامیں  نہ صرف یہ کہ جنگی قیدیوں  کوغلام بنالینے کارواج تھابلکہ ظالم لوگ ایسے آزادانسانوں  کوبھی غلام بنالیتے تھے جن کاکوئی وارث یا طاقتوارخاندان یاقبیلہ نہیں  ہوتاتھا،یہ مطلوم طبقہ کسی بھی قسم کے انسانی حقوق سے محروم تھا،اسلام نے ان کے حقوق متعین کیے،انہیں  آزادکرنے کے فضائل بتلائے اوران  کے خون کوحرمت بخشی۔

xکفارکے بارے میں  فرمایاکہ وہ اللہ کی تائیدورہنمائی سے محروم ہیں  اس لیے اہل ایمان کے مقابلے میں  ان کی کوئی تدبیرکارگرنہیں  ہوگی اوروہ دنیاوآخرت میں  برے انجام سے دوچارہوں  گے،انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے پیروکاروں  کومکہ سے ہجرت پرمجبورکرکے یہ سمجھاکہ انہیں  بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے حالانکہ ان کایہ عمل خودان کی اپنی تباہی وبربادی کے مترادف ہے۔

xمنافقین کوتنبیہ کی گئی کہ ایمان واسلام کے بلندبانگ دعوؤں  کے بجائے اب عملی جدوجہدکاوقت آچکاہے ،قتال کے حکم سے تمہارے حوصلے پست اورہوش وحواس کیوں  اڑ گئے ہیں ؟دنیاکی چندروزہ زندگی کی خاطرکفارسے سازبازکرنے یادنیاوی عافیت کی کسی دوسری راہ کی تلاش میں  کیوں  سرگرداں  ہورہے ہو؟یہی وہ وقت ہے جب اللہ تعالیٰ مخلص اورمنافق کے دعوے کی حقیقت کوکائنات کے لوگوں  کے سامنے ظاہرکرے گااوراس موقع پراگرکوئی شخص اپنے مفادات کی خاطرمیدان میں  اترنے سے گریزکرے گاتواس کے تمام اعمال کوآخرت میں  بے اجرکردیاجائے گا۔

xاہل ایمان کوہمت دلانے کے لیے فرمایاکہ مومن کااصل ہتھیاراللہ پرغیرمتزلزل اعتماداوراخلاص کے ساتھ جدوجہدکرناہے،اس لیے افرادی تعدادکی قلت،جنگی ومالی بے سروسامانی اوراس کے مقابل کفارکی عددی کثرت اورجنگی سازوسامان اورمالی بہتات کے باعث قطعافکرمندنہ ہوں ، کفارکے آگے صلح کی پیش کش کرکے کمزوری کااظہارنہ کریں  بلکہ اللہ کے دین پراستقامت دکھائیں  اور اس کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں  اور اس سلسلے میں اپنے مقدور بھر وسائل کواللہ کی راہ میں  خرچ کرنے سے گریزنہ کریں  ،اللہ تعالیٰ راہ حق میں  ان کی کوششوں  کو رائیگاں  نہیں  کرے گا بلکہ دنیاوآخرت میں  وہ ان کابہترین صلہ پائیں  گے ،اگراس موقع پربخل اورکنجوسی سے کام لیاگیا یا اللہ کی راہ میں  قربانی سے گریزوفرارکی راہ تلاش کی گئی تواللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اورکوکھڑا کر دے گااوروہ تمہاری طرح کے نہیں  ہوں  گے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿١﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ‎﴿٢﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِینَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ یَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ‎﴿٣﴾‏(محمد)
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے،اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اتاری گئی ہے، اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا (دین) بھی وہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کے حال کی اصلاح کردی، یہ اس لیے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے اس دین حق کی اتباع کی جو ان کے اللہ کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے احوال اسی طرح بتاتا ہے ۔‘‘

جن رؤسائے اورائمہ ضلالت نے اس تعلیم وہدایت کوتسلیم کرنے سےانکار کیاجومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کررہے ہیں اورجنہوں  محض تکبروغروراورتعصبات میں  مبتلاہوکراللہ کے بندوں  کومختلف طریقوں  سےاپنے معبودحقیقی کی بندگی سے روکا،اس گناہ عظیم کے سبب اللہ نے ان کے ہرطرح کے نیک اعمال کورائیگاں  کر دیا ہے ،جیسے فرمایا

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ [1]

ترجمہ:اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں  گے۔

اوراس سبب سے ان کوبدبختی میں  مبتلاکردیاہے چنانچہ آخرت میں  جب نیک اعمال کی اشدضرورت ہوگی اس وقت وہ تہی دامن ہوں  گے،اورجولوگ خلوص نیت سےدعوت حق پر ایمان لائے اورجنہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کیے اوراس جلیل القدرکتاب قرآن کریم پرایمان لے آئےجواللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءورسل پرعموماًنازل کی اور جو خصوصاً پیغمبرآخرالزمان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی ہے،اور جوفی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور سراسر حق وصداقت ہے،اللہ نے ان کے ایمان لانے سے قبل دورجاہلیت کی غلطیاں  اورکوتاہیوں  کومعاف فرمادیا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْیَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ، وَلْیَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: یَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ: یَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَلْیَقُلْ: یَهْدِیكُمُ اللَّهُ وَیُصْلِحُ بَالَكُمْ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی چھینکے توالحمدللہ کہے اوراس کابھائی یااس کاساتھی یرحمک اللہ کہے، جب ساتھی یرحمک اللہ کہے تواس کے جواب میں  چھینکنے والاکہے اللہ تمہیں  ہدایت دے اورتمہاری حالت سنواردے۔[2]

اورا نہیں  باطل عقائدونظریات ،اوراخلاق واعمال سے نکال کرآئندہ کے لئےن کی زندگیاں  سنواردیں  ،یہ اس لیے کہ کفر و شرک کرنے والوں  نے طاغوت کی پیروی کی اورایمان لانے والوں  نے رب کی طرف سے نازل حق کی پیروی کی ،اس طرح اللہ لوگوں  کوان کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتاہے تاکہ طاغوت کی پرستش کرنے والے اس دردناک انجام سے بچ جائیں  جوکفارومشرکین کامقدرہے،اورجولوگ راہ حق کواختیارکریں  وہ اس پرچل کرابدی فوزوفلاح سے ہمکنارہوں  گے،جیسےفرمایا:

۔۔۔لِّـیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ۔۔۔  ۝۴۲ۙ [3]

ترجمہ: تا کہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے ۔

فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ یَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٤﴾‏ سَیَهْدِیهِمْ وَیُصْلِحُ بَالَهُمْ ‎﴿٥﴾‏ وَیُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ‎﴿٦﴾‏(محمد)
’’ تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو، جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کرتاوقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیاررکھ دے، یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا، لیکن( اس کا منشا یہ ہے) کہ تم میں سے ایک کاامتحان دوسرے کے ذریعہ سے لے لے، جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیںاللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا، انہیں راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے، اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کردیا ہے۔‘‘

سورۂ حج میں  جنگ کی اجازت دی گئی تھی،

  اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا۝۰ۭ وَاِنَّ اللهَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۨ۝۳۹ۙ     [4]

ترجمہ:اجازت دے دی گئی ان لوگوں  کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں  اور اللہ یقینا ً ان کی مدد پر قادر ہے۔

پھرجب کفارنے مسلمانوں  کومٹانے کی ٹھان لی تومسلمانوں  کوان کے مقابلے میں  لڑنے کاحکم فرمایا،

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۝۱۹۰ [5]

ترجمہ:اور تم اللہ کی راہ میں  ان لوگوں  سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں  مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں  کو پسند نہیں  کرتا۔

کیونکہ ابھی کوئی جنگ نہیں  ہوئی تھی اس لئےاس آیت میں  قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئیں ، فرمایاکہ جب ان کافروں  سے تمہاری مڈبھیڑہوتوبہادری اورپامردی لڑواورتمہاراپہلااوراہم ترین کام یہ ہوناچاہیے کہ تلواروں  سے ان کی فخرو غرورسے تنی گردنوں  کوتن سے جدا کر دو ، جب تم ان کی قوت و طاقت کواچھی طرح کچل دواوردشمن شکست کھاکریاصلح کرکے ہتھیاررکھ دے،جیسےفرمایا

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلهِ۔۔۔۝۰۝۱۹۳        [6]

ترجمہ:تم ان سے لڑتے رہو یہاں  تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔

یعنی اسلامی قتال کافلسفہ اورروح فتنے کاخاتمہ ہے،اورتم سمجھوکہ اب ان کوقیدی بنانازیادہ بہترہےتب جوآدمی تمہارے قابومیں  آجائیں انہیں  مضبوطی سے باندھ لوتاکہ یہ فرارنہ ہوسکیں  ، اس کے بعدحالات کے مطابق تمہیں  اختیارہے کہ فدیہ (معاوضہ)لیے بغیربطور احسان یافدیہ لے کرآزادکردو ،یہ ہے تمہارے کرنے کاکام،اگراللہ کی مشیت ہوتی تووہ کفارکوکسی متعدی بیماری سے یاانہیں  کسی ناگہانی آفت زلزلہ یاطوفان عذاب میں  مبتلاکرکے ہلاک کردیتااورتمہیں  ان سے معرکہ آرائی کی ضرورت پیش نہ آتی ، مگراس نے تمہیں  ایک دوسرے کے مدمقابل اس لئے کھڑاکیاہےتاکہ تم لوگوں  کوایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے کہ اللہ کی راہ میں  لڑنے والے کون ہیں  تاکہ ان کوبہترین اجروثواب سے نوازے اوران کے ہاتھوں  سے کفارومشرکین کوذلت ورسوائی سے دوچارکرے، اسی مضمون کوایک مقام پریوں  بیان فرمایا

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۴۲    [7]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں  چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں  کہ تم میں  کون وہ لوگ ہیں  جو اس کی راہ میں  جانیں  لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں ۔

ایک اورمقام پرفرمایا

قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَیُخْزِهِمْ وَیَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱۴ۙ [8]

ترجمہ:ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں  سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں  ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں  تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں  کے دل ٹھنڈے کرے گا۔

اورجولوگ اللہ کے دین کی سربلندی کی کوشش میں  مارے جائیں  اللہ ان کے اجروثواب کو ہرگزضائع نہ کرے گابلکہ ان کااجروثواب بڑھاچڑھاکرعطافرمائے گا،

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِلشَّهِیدِ عِنْدَ اللهِ سِتُّ خِصَالٍ: یُغْفَرُ لَهُ فِی أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَیَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَیَأْمَنُ مِنَ الفَزَعِ الأَكْبَرِ، وَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الوَقَارِ، الیَاقُوتَةُ مِنْهَا خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا، وَیُزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ الحُورِ العِینِ، وَیُشَفَّعُ فِی سَبْعِینَ مِنْ أَقَارِبِهِ.

مقدام بن معدیکرب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشہیدکواللہ تعالیٰ کے پاس چھ باتیں  ملتی ہیں اس کاخون نکلتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے اوروہ اپناٹھکاناجنت میں  دیکھ لیتاہے،اوروہ عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے،اوروہ حشرکے دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گااوراس کے سرپروقارکاتاج رکھاجاتاہے اوراس کاایک یاقوت دنیاوما فیہا سے بہترہے،اوراسے بڑی آنکھ والی بہتر حوروں  سے اس کانکاح باندھاجاتاہےاوراس کے عزیزوں  میں  سےسترآدمی اس کی شفاعت سے بخشے جاتے ہیں ۔[9]

أَبَا الدَّرْدَاءَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُشَفَّعُ الشَّهِیدُ فِی سَبْعِینَ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ

ابودرداء رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاشہیدکی سفارش اپنے گھرکے سترآدمیوں  کے بارے میں  قبول کی جائے گی۔[10]

وہ ان کونیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے گااوران کے حالات کی اصلاح کردے گا،اوران کو لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل فرمائے گا،جیسےفرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّھُمْ بِـاِیْمَانِهِمْ۝۰ۚ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۝۹ [11]

ترجمہ:اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں  نے ان صداقتوں  کو قبول کرلیا جو اس کتاب میں  پیش کی گئی ہیں ) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں  کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں  میں  جن کے نیچے نہریں  بہیں  گی۔

اللہ تعالیٰ لازوال نعمتوں  سے بھری ان جنتوں  سے ان کوواقف کراچکاہے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَیُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ} قَالَ:یَهْتَدِی أَهْلُهَا إِلَى بُیُوتِهِمْ وَمَسَاكِنِهِمْ،وَحَیْثُ قَسَمَ اللهُ لَهُمْ لَا یُخْطِئُونَ، كَأَنَّهُمْ سُكَّانُهَا مُنْذُ خُلِقُوا لَا یَسْتَدِلُّونَ عَلَیْهَا أَحَدًا

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’اور ان کو اس جنت میں  داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے۔ ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اہل جنت اس کے مکانات ومحلات کی طرف رستہ پالیں  گے، یہ مکانات ومحلات اللہ تعالیٰ نے انہی کے مقدرمیں  کررکھے ہیں  اس لیے وہ ان تک پہنچنے میں  کوئی غلطی نہیں  کریں  گےگویاوہ اپنی ولادت ہی کے وقت سے یہاں  کے باشندے ہیں  اس لیے یہاں  تک پہنچنے کے لیے انہیں  کسی سے رستہ معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔[12]

أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَخْلُصُ المُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَیُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَیْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَیُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَیْنَهُمْ فِی الدُّنْیَا، حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِی دُخُولِ الجَنَّةِ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِی الجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِی الدُّنْیَا

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومنین جہنم سے چھٹکاراپاجائیں  گے لیکن وہ دوزخ وجنت کے درمیان ایک پل پرانہیں  روک لیا جائے گااورپھرایک کے دوسرے پران مظالم کابدلہ لیاجائے گاجودنیامیں  ان کے درمیان آپس میں  ہوئے تھے اورجب کانٹ چھانٹ کرلی جائے گی اورصفائی ہوجائے گی تب انہیں  جنت میں  داخل ہونے کی اجازت ملے گی،پس قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے!جنتیوں  میں  سے ہرکوئی جنت میں  اپنے گھرکودنیاکے اپنے گھرکے مقابلہ میں  زیادہ بہترطریقے پرپہچان لے گا۔[13]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ یُغْفَرُ لِلشَّهِیدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّیْنَ

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ شہیدکاہرگناہ بخش دے گالیکن قرض نہیں  بخشے گا۔[14]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ یَنصُرْكُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ‎﴿٧﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٨﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٩﴾‏ ۞ أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِینَ أَمْثَالُهَا ‎﴿١٠﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِینَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ ‎﴿١١﴾إِنَّ اللَّهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِینَ كَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَیَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ‎﴿١٢﴾‏(محمد)
’’اے ایمان والو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا،اور جو لوگ کافر ہوئے انہیں ہلاکی ہو اللہ ان کے اعمال غارت کر دے گا، یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے، پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کردیئے، کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر اس کا معائنہ نہیں کیا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا نتیجہ ہوا ؟ اللہ نے انہیں ہلاک کردیا اور کافروں کے لیے اسی طرح کی سزائیں ہیں،وہ اس لیے کہ ایمان والوں کاکارسازخوداللہ تعالیٰ ہے اوراس لیے کہ کافروں کاکوئی کارسازنہیں،جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انہیں اللہ تعالیٰ یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ (دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں، ان کا اصل ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘

اورمسلمانوں  کوخوشخبری سنائی گئی کہ اگرتم اللہ کاکلمہ بلندکرنے اورحق کوسربلند کرنے کے کاموں  میں  ثابت قدم رہوگے تواللہ تعالیٰ بھی تمہاری مددکرے گاتمہیں  ثابت قدم رکھے گا،جیسےفرمایا

۔۔۔وَلَیَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ۔۔۔۝۰۝۴۰   [15]

ترجمہ: اللہ ضرور ان لوگوں  کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں  گے ۔

اورتمہارے دشمنوں  کوہلاک وبربادکردے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِیصَةِ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِیكَ فَلَا انْتَقَشَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایادینارکابندہ ہلاک ہو،درہم کابندہ ہلاک ہواورچادرکابندہ ہلاک ہو،وہ ہلاک ہو،ناکام ونامرادہواورجب اسے کانٹاچھبے تووہ اسے نکال نہ سکے(یعنی اللہ تعالیٰ اسے شفانہ بخشے)۔[16]

اور وہ لوگ جنہوں  نے دعوت حق اوررسالت کی تکذیب اورباطل کی مددکی ہے وہ ٹھوکرکھاکرمنہ کے بل جہنم میں گرنے والے ہیں ،اوراللہ ان کے اعمال کوغارت کردے گا کیونکہ انہوں  نے جاہلیت کے اوہام وتخیلات اوررسم ورواج کوترجیح دی اورآسمانی تعلیمات کوناپسندکیاجسے اللہ نے تمام انسانوں  کی فوزوفلاح کے لئےنازل کیاہےلہذااللہ بھی انہیں عدم ایمان کے سبب کسی نیک عمل کا اجروثواب نہیں  دے گا، پھر کفار و مشرکین کو تنبیہ فرمائی کہ اگرتم نے حق کو قبول نہ کیااورمسلمانوں  کے خلاف اپنی ریشہ دانیوں  سے بازنہ آئے توزرااپنے چاروں  طرف پھیلی طاقتوراقوام کی تباہ شدہ بستیوں  کے آثاروکھنڈرات کی طرف ایک نظر ڈال لو،ان لوگوں  نے بھی دعوت حق کی تکذیب کی تھی اور تمہاری طرح ہمارے رسولوں  کے خلاف اپنی سرکشیوں  میں  حدسے باہرنکل رہے تھے،مگرانجام یہ ہواکہ اللہ وحدہ لاشریک نے دعوت حق ماننے والوں  کوتو بچا لیا اورسرکشیوں  میں  بدمست قوموں  کوصفحہ ہستی سے مٹاکرباعث عبرت بنادیا،ان عبرت گاہوں  سے سبق حاصل کرو اور دعوت کوحق قبول کرلویہی تمہارے حق میں  بہترہے ورنہ دنیاوآخرت میں  تباہی تمہارامقدرہے،یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں  کاوالی ومددگاراللہ ہےجوانہیں  اندھیروں  سے نکال کر روشنی میں  لایا اورجن لوگوں  نے اللہ تعالیٰ کاانکارکرکے اپنے آپ پراس کی رحمت کے دروازے بندکرلئےان کاکوئی والی ومددگار نہیں  ہے،جوانہیں  سلامتی کے راستوں  کی طرف ان کی رہنمائی کرے،غزوہ احدمیں  ابوسفیان نے کہاتھا

أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ تُجِیبُوا لَهُ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ: إِنَّ لَنَا العُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ تُجِیبُوا لَهُ؟، قَالَ: قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ:قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا، وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ

حبل (بت کانام)بلندرہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ اس کاجواب کیوں  نہیں  دیتے،صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہم اس کے جواب میں  کیاکہیں  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہواللہ سب سے بلنداورسب سے بڑابزرگ ہے،ابوسفیان نے کہاہمارامددگارعزیٰ(بت)ہے اور تمہاراکوئی نہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجواب کیوں  نہیں  دیتے، صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کاکیاجواب دیاجائے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہواللہ ہمارا حامی ہے اور تمہاراحامی کوئی نہیں  ۔[17]

دعوت حق قبول کرنے والوں  اوراعمال صالحہ اختیار کرنے والوں  کواللہ ان جنتوں  میں  داخل کرے گاجن کے نیچے انواع واقسام کی نہریں  بہتی ہیں  اورکفرکرنے والےآخرت کی دائمی زندگی سے غافل ہوکردنیاکی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ،جن کا مقصدحیات جانوروں  کی طرح کھانے پینے کے سوااورکچھ نہیں ہے اوران کاآخری ٹھکانہ جہنم ہے،

كَانَ ابْنُ عُمَرَ، لاَ یَأْكُلُ حَتَّى یُؤْتَى بِمِسْكِینٍ یَأْكُلُ مَعَهُ، فَأَدْخَلْتُ رَجُلًا یَأْكُلُ مَعَهُ فَأَكَلَ كَثِیرًا فَقَالَ: یَا نَافِعُ، لاَ تُدْخِلْ هَذَا عَلَیَّ، سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:المُؤْمِنُ یَأْكُلُ فِی مِعًى وَاحِدٍ، وَالكَافِرُ یَأْكُلُ فِی سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ،

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ ،نافع  رضی اللہ عنہ ، جابر  رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  اس وقت تک کھانا نہیں  کھاتے تھے جب تک کہ ایک مسکین ان کے پاس نہیں  لایا جاتا تھاجو ان کے ساتھ کھائے،میں  ایک شخص کو ان کے پاس لے آیا جو ان کے ساتھ کھانا کھائے چنانچہ وہ شخص آیا اور بہت زیادہ کھا گیا، عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ نے کہا اے نافع! اب تو میرے پاس اس کو نہ لانا ، میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ مومن ایک آنت میں  کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں  میں ۔[18]

وَكَأَیِّن مِّن قَرْیَةٍ هِیَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْیَتِكَ الَّتِی أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ‎﴿١٣﴾‏ أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُیِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم ‎﴿١٤﴾‏ مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِیهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَیْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِینَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِیهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ ‎﴿١٥﴾‏(محمد)
’’ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا ہم نے انہیں ہلاک کردیا ،جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا،کیا پس وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کے لیے اس کا برا کام مزین کردیا گیا ہو، اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو ،اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے والا نہیں، اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلہ، اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لیے بڑی لذت ہے ،اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں، ان کے لیے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ مثل اس کے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے ؟ اور جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَّةَ: مَا أَطْیَبَكِ مِنْ بَلَدٍ، وَأَحَبَّكِ إِلَیَّ، وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمِی أَخْرَجُونِی مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَیْرَكِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت پرمجبورہوئے توشہرسے باہرنکل کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرف رخ کرکے مکہ مکرمہ سے مخاطب ہوکرفرمایا تو کیا اچھاشہرہے اورمجھ کوسب سے زیادہ پیاراہے،اگرمیری قوم مجھے نہ نکالتی تومیں  تیرے سواکہیں  نہ رہتا۔[19]

اس پراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کتنی ہی بستیاں  ایسی گزرچکی ہیں  جوتمہاری اس بستی سے اموال واولاد،اعون وانصاراورعمارات وآلات کے لحاظ سے بہت زیادہ طاقتور تھیں  جس نے تمہیں  نکال دیاہے،جب انہوں  نے دعوت حق کی تکذیب کی ،ہمارے پیغمبرکامذاق اڑایااوراللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکرمطالبہ عذاب کردیاتوانہیں  ہم نے اس طرح ہلاک کردیا کہ ان کاکوئی معبوداورنہ کوئی قوت انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانہ سکی،بھلایہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ پیغمبراوراس کے پیروکاروں  کوجب ایک سیدھاصاف راستہ مل گیاہے اوروہ وہ پوری بصیرت کی روشنی میں  اس پرقائم ہوچکے ہیں تواب وہ ان لوگوں  کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں  جو جاہلیت کی بناپراپنی ضلالتوں  کوہدایت اوراپنی بدکاریوں  کوخوبی سمجھ رہے ہیں  اورجوبغیرکسی دلیل کے محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں ،اوراس زعم میں  مبتلاہیں  کہ وہ حق پرہیں ،ان دونوں  گروہوں  یعنی اہل حق اوراہل باطل میں  بڑاتفاوت ہے لہذا ان دونوں  گروہوں  کی زندگی نہ دنیامیں  ایک جیسی ہوسکتی ہے اورنہ آخرت میں انجام ایک جیساہوسکتاہے،جیسےفرمایا

اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَاَعْمٰى۝۰ۭ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۱۹ۙ [20]

ترجمہ:بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے ، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ، دونوں  یکساں  ہو جائیں  ؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ [21]

ترجمہ:دوزخ میں  جانے والے اور جنت میں  جانے کبھی یکساں  نہیں  ہو سکتے ،جنّت میں  جانے والے ہی اصل میں  کامیاب ہیں ۔

جنت کاشوق دلانے کے لئے جنت کی منظرکشی کرتے ہوئے فرمایااللہ تعالیٰ نےپرہیزکاروں  کے لیے جس جنت کاوعدہ کیاگیاہے اس کی شان تویہ ہے کہ اس کے گھنے سایہ دار درختوں  کے نیچےنتھرے ہوئے پانی اور ایسے دودھ کی نہریں  بہہ رہی ہوں  گی جس کے مزے میں  ذرافرق نہ آیاہوگا، ایسی شراب کی نہریں  بہ رہی ہوں  گی جودنیاکی شرابوں  کی طرح تلخ اوربدبودارنہ ہوگی بلکہ پینے والوں  کے لیے لذیذہوگی،اوراس کے پینے سے عقل خراب نہیں  ہوگی،جیسے فرمایا

لَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ  [22]

ترجمہ:نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہوگا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی۔

لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ [23]

ترجمہ:جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں  فتور آئے گا۔

بَیْضَاۗءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۴۶ۚۖ [24]

ترجمہ:چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں  کے لیے لذت ہوگی۔

اورصاف شفاف شہدکی نہریں  بہ رہی ہوں  گی ،

عَنْ حَكِیمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ أَبِی بَهْزٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:فِی الْجَنَّةِ بَحْرُ اللَّبَنِ، وَبَحْرُ الْمَاءِ، وَبَحْرُ الْعَسَلِ، وَبَحْرُ الْخَمْرِ، ثُمَّ تَشَقَّقُ الْأَنْهَارُ مِنْهَا بَعْدُ

حکیم بن معاویہ نے اپنے والدمعاویہ بن حیدہ قشیری سے روایت کیاہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناہے جنت میں  دودھ کادریا اورپانی کادریا اور شہد کا دریااورشراب کادریاہے، پھربعدمیں  ان سے نہریں  نکلتی ہیں ۔[25]

اس میں  جنتیوں  کے لیے کھجور،انگور، سیب، انار، لیموں  ، انجیر اوران کے علاوہ دیگربہت سے پھل ہوں  گے،جن کی دنیامیں  کوئی نظیرنہیں  ہے جیسے فرمایا

 یَدْعُوْنَ فِیْهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ اٰمِنِیْنَ۝۵۵ۙ [26]

ترجمہ:وہاں  وہ اطمینان سے ہر طرح کے میوے منگا (منگا کر کھا) رہے ہوں  گے۔

ایک مقام پرفرمایا

فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ۝۵۲ۚ  [27]

ترجمہ:ان دونوں  جنتوں  میں  ہر پھل کی دو دو قسمیں  ہوں  گی۔

اورسب سے بڑھ کریہ نعمت ہے کہ دنیامیں  ان سے جوکوتاہیاں  ہوئی ہوں  گی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمادے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، جَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا ،  فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلاَ نُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ  أُرَاهُ  فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں  داخل کر دے گا خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کرے یا جس سر زمین میں  پیدا ہوا ہو وہیں  جما رہے، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم لوگوں  میں  اس بات کی بشارت نہ سنادیں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں  سو درجے ہیں  وہ اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں  کیلئے مقر کئے ہیں  دونوں  درجوں  کے درمیان اتنا فصل ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان، پس جب تم اللہ سے دعا مانگو تو اس سے فردوس طلب کرو کیونکہ وہ جنت کا افضل اور اعلیٰ حصہ ہے مجھے خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپر صرف رحمن کا عرش ہے اور یہیں  سے جنت کی نہریں  جاری ہوئی ہیں ۔[28]

کیاوہ شخص جس کے حصہ میں  یہ جنت آنے والی ہےان لوگوں  کی طرح ہوسکتاہے جوجہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے اورجنہیں  ایساگرم پانی پلایا جائے گاجوان کی آنتیں  تک کاٹ دے گا ، عِیَاذًا بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ۔

‏ وَمِنْهُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ‎﴿١٦﴾‏ وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ‎﴿١٧﴾‏ فَهَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِیَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ ‎﴿١٨﴾‏(محمد)
’’اور ان میں بعض( ایسے بھی ہیں کہ) تیری طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب تیرے پاس سے جاتے ہیں تو اہل علم(بوجہ کندذہنی ولاپرواہی کے)  پوچھتے ہیں کہ اس نے ابھی کیا کہا تھا ؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کردی اور وہ اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں،اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیزگاری عطا فرمائی ہے، تو کیا یہ قیامت کا انتطار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا۔‘‘

کفارومشرکین کوان کے انجام سے ڈراکرمنافقین اوراہل کتاب کوبھی تنبیہ فرمائی جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں  آکربیٹھتے تھے اورآپ کی پرحکمت باتیں  یاآیات قرانی سنتے تھے مگرکیونکہ وہ اپنی خواہش نفس کے بندے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جوپاکیزہ تعلیمات پیش فرمارہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں  اس لئے اگروہ کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں  آکربتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے توان کے پلے کچھ نہیں  پڑتاتھا ،اس لئے سب کچھ سن لینے کے بعدمجلس سےباہرنکل کراہل علم صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے استفہام کے اندازمیں پوچھتے ہیں  کہ ابھی ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیافرمایاتھا،کیونکہ یہ اپنی خواہش نفس کے بندےبنے ہوئے ہیں  اس لئے اللہ تعالیٰ نےان کے دلوں  پر مہر لگادی ہے ،اب ان پربھلائی کے تمام دروازے بندہوگئے ہیں ،جیسے فرمایا

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۰۸  [29]

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  اور کانوں  اور آنکھوں  پر اللہ نے مہر لگا دی ہے یہ غفلت میں  ڈوب چکے ہیں ۔

ان کے برعکس جن لوگوں  نے دعوت حق کودل سے قبول کرلیا ہے ان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں  علم وعرفان کاخزانہ ہوتی ہیں  جس سے وہ مزیدہدایت حاصل کرتے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں  رشدوبھلائی اور مزیدپرہیزگاری کی توفیق عطافرمادیتاہے،منافقین کومزیدتنبیہ فرمائی کہ ان لوگوں  کووعظ ونصیحت کرتے ایک عرصہ بیت گیاہے،جہاں  تک حق واضح کرنے کاتعلق ہے وہ تودلائل وبراہین سے، قرآن کے معجزانہ بیان سے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت پاک سے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی زندگیوں  کے انقلاب سے انتہائی روشن طریقے پرواضح کیا جا چکا ہے اب کیاایمان لانے کے لئے اہل تکذیب اس بات کا انتظار کر رہے ہیں  کہ قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہواورانہیں  شعوربھی نہ ہو،جس کی علامات توظاہرہوچکی ہیں  اورسب سے بڑی نشانی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں  جن کے بعداللہ نے کوئی رسول نہیں  بھیجنا ، جیسےفرمایا

ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى۝۵۶اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ۝۵۷لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللهِ كَاشِفَةٌ۝۵۸ۭ    [30]

ترجمہ:یہ ایک تبنیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں  سے ،آنے والی گھڑی قریب آ لگی ہے ، اللہ کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں  ۔

 اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ۔۔۔ ۝۱ [31]

ترجمہ:قیامت کی گھڑی قریب آ گئی۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ [32]

ترجمہ:قریب آگیا ہے لوگوں  کے حساب کا وقت اور وہ ہیں  کہ غفلت میں  منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بِإِصْبَعَیْهِ هَكَذَا، بِالوُسْطَى وَالَّتِی تَلِی الإِبْهَامَ بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ كَهَاتَیْنِ

سہل بن سعدسےمروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےاپنی انگشت شہادت اوربیچ کی انگلی کھڑی کرکے فرمایامیری بعثت اورقیامت ان دوانگلیوں  کی طرح ہے۔[33]

اس لئے ابھی وقت ہے کہ اپنی روش بدل کر دعوت حق کوقبول کرلو ورنہ جب قیامت اچانک آجائے گی توتم کس طرح نصیحت حاصل کرسکو گے،جیسے فرمایا

ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۶۶ [34]

ترجمہ:کیا یہ لوگ اب بس اسی چیز کے منتظر ہیں  کہ اچانک ان پر قیامت آ جائے اور انہیں  خبر بھی نہ ہو ؟۔

س وقت توتوبہ بھی قبول نہیں  کی جائے گی،جیسےفرمایا

یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭ [35]

ترجمہ:اس دن انسان کو سمجھ آئے گی (مگر) اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟۔

وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ۝۰ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ۝۵۲ۚۖ [36]

ترجمہ: اس وقت یہ کہیں  گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں  ہاتھ آسکتی ہے۔

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ‎﴿١٩﴾‏وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِیهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ ‎﴿٢٠﴾‏ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ‎﴿٢١﴾‏(محمد)
’’ سو (اے نبی ! ) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی، اللہ تم لوگوں کے آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے،اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی ؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لئےفرمان کا بجا لانا اور اچھی بات کا کہنا، پھر جب کام مقرر ہوجائے تو اگر اللہ کے ساتھ سچے رہیں تو ان کے لیے بہتری ہے ۔‘‘

منافقین کاکردار:پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس عقیدے پرقائم رہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں  ہے ، اوراپنے قصوروں  اور مومن مردوں  اور عورتوں  کے لیے بخشش طلب کرتے رہا کرو،

عَنِ ابْنِ أَبِی مُوسَى، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ یَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی  وَجَهْلِی، وَإِسْرَافِی فِی أَمْرِی كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّی، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی خَطَایَایَ، وَعَمْدِی وَجَهْلِی وَهَزْلِی، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِی، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعافرمایاکرتے تھے’’اے میرے رب!میری خطا،میری نادانی اورتمام معاملات میں  میرے حدسے تجاوز کرنے میں  میری مغفرت فرمااوروہ گناہ بھی جن کوتومجھ سے زیادہ جاننے والاہے،  اے اللہ!میری مغفرت کر، میری خطاؤں  میں ،میرے بلاارادہ کاموں  میں  اورمیرے ہنسی مذاح کے کاموں  میں  اوریہ سب میری ہی طرف سے ہیں ،اے اللہ!میری مغفرت کران کاموں  میں  جومیں  کرچکاہوں  اورانہیں  جوکروں  گااورجنہیں  میں  نے چھپایا اور جنہیں  میں نے ظاہرکیاہے، تو ہی سب سے پہلے ہے اورتوہی سب سے بعدمیں  ہے اور تو ہر چیز پرقدرت رکھنے والاہے۔‘‘

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ،ثُمَّ یَكُونُ مِنْ آخِرِ مَا یَقُولُ بَیْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِیمِ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّی، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی نمازکے آخرمیں  یہ دعافرماتے تھے’’ اے اللہ!بخش مجھ کوجومیں  نے آگے کیا اورجومیں  نے پیچھے کیااور جو چھپایا اور جو ظاہر کیا اور جو حدسے زیادہ کیااورجوتوجانتاہے مجھ سے بڑھ کر،توسب سے پہلے تھااورسب کے بعدرہے گاتیرے سواکوئی معبود نہیں ۔‘‘[37]

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَاللهِ إِنِّی لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَیْهِ فِی الیَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّةً

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایالوگو!اللہ کی قسم میں  دن میں  سترمرتبہ سے زیادہ اللہ سے توبہ واستغفارکرتاہوں  ۔[38]

اوراللہ وحدہ لاشریک جس نے اپنے علم سے ہرچیزکااحاطہ کیاہواہے تمہاری شب وروزکی سرگرمیوں  کو خوب جانتا ہے،جیسےفرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ۔۔۔۝۶۰ۧ           [39]

ترجمہ:وہی ہے جو رات کو تمہاری رُوحیں  قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [40]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں  ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں  وہ رہتا ہے اور کہاں  وہ سونپا جاتا ہے ، سب کچھ ایک صاف دفتر میں  درج ہے۔

مومنین جوجذبہ جہادسے سرشارتھےوہ جہادکی اجازت کے خواہش مندتھے اوران کی شدیدتمناتھی کہ اللہ جہاد کے بارے میں  کوئی سورت نازل فرمائے مگرجب اللہ تعالیٰ نے قتال کے بارے میں  ایک صاف مطلب والی سورت نازل کردی گئی اور اسلام کی سربلندی کے لئے جان کی بازی لگانے کاوقت آیاتومنافقین کے نفاق کاحال کھل گیااورنمائشی ایمان کاوہ لبادہ اترگیاجوانہوں  نے اوپرسے اوڑھ رکھاتھا،اورجان کے خوف ،ایمان کی کمزوری اورنفاق کی بزدلی کی وجہ سے ان کے چہروں  پرموت کی زردی چھاگئی ،اس مضمون کوایک مقام پریوں  بیان فرمایا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَیْدِیَكُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ۝۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـیَةِ اللهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَةً۝۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۔۔۔۝۰۝۷۷          [41]

ترجمہ:تم نے ان لوگوں  کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دو ؟ اب جو انہیں  لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں  سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں  سے ایسا ڈر رہے ہیں  جیسا اللہ سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ،کہتے ہیں  پروردگار!یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں  لکھ دیا ؟ کیوں  نہ ہمیں  ابھی کچھ اور مہلت دی ہوتی۔

منافقین کوہدایت فرمائی کہ تم اپنی زبانوں  سے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کادعویٰ کرتے ہواوربظاہربڑی اچھی اچھی میٹھی باتیں  کرتے ہومگرجب جنگ کاقطعی حکم دے دیاگیاہے تواپنی تباہی وبربادی سے بچنے کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرواوراللہ سے کیے ہوئے اپنے وعدے کوپوراکرویہی تمہارے حق میں  بہترہے ۔

فَهَلْ عَسَیْتُمْ إِن تَوَلَّیْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ‎﴿٢٢﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ‎﴿٢٣﴾‏ أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ‎﴿٢٤﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّیْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ ‎﴿٢٥﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِینَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِیعُكُمْ فِی بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّهُ یَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ ‎﴿٢٦﴾‏(محمد)
’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردواور رشتے ناتے توڑ ڈالو، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے، کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں، جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھرگئے اس کے بعد کہ ان کے لیے ہدایت واضح ہوچکی یقیناً شیطان نے ان کے لیے (ان کے فعل کو) مزین کردیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے،یہ اس لیے کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا یہ کہاکہ ہم بھی عنقریب بعض کاموں میں تمہارا کہا مانیں گے، اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہے۔‘‘

اورتم سے یہ بھی بعیدنہیں  کہ اگرتم الٹے منہ پھرگئے یاتمہیں  اقتدارمل جائے تونظام جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤگے اوراللہ کی زمین پرباہم خون ریزی کروگے اوررشتے ناتے توڑڈالو گے،اسلام میں  قطع رحمی حرام ہے،اوراس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے ارشادات منقول ہیں ،

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ یُعَجِّلَ اللهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِی الدُّنْیَا، مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْیِ وَقَطِیعَةِ الرَّحِمِ

ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی گناہ اس لائق نہیں  کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزادنیامیں  بھی جلدی دے دے اوراس کے ساتھ ساتھ آخرت میں  بھی اس کی سزا جمع رکھے جیسے کہ ظلم وزیادتی اورقطع رحمی ہے۔[42]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یُبْسَطَ لَهُ فِی رِزْقِهِ، وَأَنْ یُنْسَأَ لَهُ فِی أَثَرِهِ، فَلْیَصِلْ رَحِمَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناجوشخص پسندکرے کہ اس کی روزی میں  فراخی ہواوراس کی عمردرازکی جائے تووہ صلہ رحمی کیا کرے۔[43]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِلُ الَّذِی إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی کام کابدلہ دیناصلہ رحمی نہیں  ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والاوہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کامعاملہ نہ کیا جارہاہوتب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔[44]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تُوضَعُ الرَّحِمُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَهَا حُجْنَةٌ كَحُجْنَةِ الْمِغْزَلِ، تَتَكَلَّمُ بِأَلْسِنَةٍ طُلْقٍ ذُلْقٍ، فَتَصِلُ مَنْ وَصَلَهَا، وَتَقْطَعُ مَنْ قَطَعَهَا

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایارحم کوقیامت کے دن اس طرح رکھاجائے گاکہ اس کے لیے چرغے کے تکلے کی طرح تکلاہوگا،اوروہ فصیح وبلیغ زبان سے گفتگوکرے گاتوجس نے اسے ملایاوہ اسے ملائے گا اورجس نے اسے کاٹاوہ بھی اسے کاٹ دے گا۔[45]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ یَرْحَمْكُمْ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَالرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، مَنْ وَصَلَهَا، وَصَلَتْهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا، بَتَّتْهُ

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارحم کرنے والوں  پررحمٰن رحم فرمائے گا،تم اہل زمین پررحم کروآسمان والاتم پررحم کرے گا، رحم رحمان کی شاخ ہےجواسے ملائےمیں  اسے ملاؤں  گااورجواسے کاٹے میں  اسے کاٹ ڈالوں  گا۔[46]

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ یَرْحَمُ اللهُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ

جریربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجولوگوں  پررحم نہیں  کھاتااللہ بھی اس پررحم نہیں  کھاتا۔[47]

إِنَّ جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ، أَخْبَرَهُ:أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ یَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعٌ

جبیربن مطعم  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےقطع رحمی کرنے والاجنت میں  نہیں  جائے گا۔[48]

جن لوگوں  نے اللہ کی زمین میں  فسادپھیلایااورقطع رحمی کی ان کے اعمال سیئہ کے سبب اللہ نے انہیں  اپنی رحمت سے دورکردیااور اوران کوحق کے دلائل وبراہین کو دیکھنے سےاندھااورحق کی آواز سننے سےبہرابنادیا،پھراللہ تعالیٰ نے فرمایاکیایہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن مجیدکے مضامین ،اس کے بیان کردہ دلائل اورپاکیزہ اخلاقی تعلیمات پرغوروتدبرنہیں  کرتے ،یا ان کے دلوں  روگردانی ،غفلت اوراعتراضات کے سبب وہ قفل چڑھے ہوئے ہیں  جوایسے حق ناشناسوں  کے دلوں  کے لئے مخصوص ہیں  ، حقیقت یہ ہے کہ منافقین جنہوں  نے جہادسے گریزکرکے اپنے کفروارتدادکاظاہرکردیاہے ان کے لیے شیطان نے اس روش کوسہل بنادیاہے اورلمبی آرزوؤں  اوردھوکے میں  مبتلاکردیاہے،جیسےفرمایا

یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲۰    [49]

ترجمہ: وہ اِن لوگوں  سے وعدے کرتا ہے اور انہیں  امیدیں  دلاتا ہے ، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں  ہیں ۔

اسی لیے منافقین نے دشمنان اسلام سے سازبازکرکے کہہ دیاکہ دعوت حق کی مخالفت میں  بعض معاملات میں  ہم تمہاراساتھ دیں  گے،اللہ ان کی یہ پوشیدہ اوررازکی باتیں  خوب جانتاہے،جیسےفرمایا

۔۔۔ وَاللهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ۔۔۔  ۝۸۱ [50]

ترجمہ: اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں  لکھ رہا ہے۔

فَكَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ‎﴿٢٧﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٢٨﴾‏(محمد)
’’ پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سروں پر ماریں گے، یہ اس بنا پر کہ یہ وہ راہ چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کردیا اور انہوں نے اس کی رضامندی کو برا جانا، تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیئے۔‘‘

منافقین کاطرزعمل :اللہ تبارک وتعالیٰ کی تنبیہات کے باوجودمنافقین پرکوئی اثرنہیں  پڑا،ان کے دل اللہ کے خوف سے دھڑکے نہ پسیجے،وہ اندرہی اندر برابر دشمنان اسلام کے ساتھ ریشہ دانیوں  میں  مصروف عمل رہے ، اپنے مفادات کی حفاظت اورکفرواسلام کی جنگ کے خطرات سے اپنے آپ کوبچائے رکھنے کے لئے وہ دشمنان اسلام سے ساز باز کرتے رہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاجب ان کی ہمدردیاں  اسلام کے بجائے کفریاکفارکے ساتھ ہیں  توان کاایمان کیسے معتبرہوسکتاہے ،اس لئے ان کی وہ تمام عبادتیں  اوروہ ساری نیکیاں  جواپنی ظاہری شکل کے اعتبارسے اعمال خیرمیں  شمارہوتی تھیں  ضائع ہوگئیں  اورآخرت میں  ان کوکوئی اجرنہیں  ملے گا،اوران کے اس طرزعمل سے ہو سکتا ہے کچھ دن ان کی چال کامیاب رہے لیکن اس وقت ان کی کیادرگت ہوگی جب ملک الموت اپنے معاون ملائکہ کے ساتھ ان کی روحیں  قبض کرنے کوآئیں  گے اوران کی روحیں  جسموں  میں  چھپتی پھریں  گی اورملائکہ ان کے منہ اورپیٹھوں  پرمارتے ہوئے ان کی روحوں  کو باہرنکال کر لے جائیں  گے؟ جیسےفرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْهِمْ۝۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳  [51]

ترجمہ:کاش! تم ظالموں  کو اس حالت میں  دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں  ڈبکیاں  کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں  کہ لاؤ نکالو اپنی جان ، آج تمہیں  ان باتوں  کی پاداش میں  ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں  سرکشی دکھاتے تھے۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ۝۰ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۵۰ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۵۱ۙ               [52]

ترجمہ: کاش! تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں  کی رُوحیں  قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں  اور ان کے کولہوں  پر ضربیں  لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھےلو اب جلنے کی سزا بھگتو، یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں  نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا ورنہ اللہ تو اپنے بندوں  پر ظلم کرنے والا نہیں  ہے۔

یہ اسی لیے توہوگاکہ انہوں  نے کفروفسق اورگناہ کی پیروی کی جواللہ کوناراض کرنے والاہے،اوراس کی رضا وخوشنودی کا راستہ اختیارکرناپسندنہ کیا، اسی بناپراللہ نے ان کے سب نیک اعمال جووہ مسلمان بن کرانجام دیتے رہے ضائع کر دیے  ۔

‏ أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن یُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ ‎﴿٢٩﴾‏وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَیْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِیمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ وَاللَّهُ یَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ ‎﴿٣٠﴾‏ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِینَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِینَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ‎﴿٣١﴾‏(محمد)
 ’’کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے حسد اور کینوں کو ظاہر ہی نہ کر ے گا ، اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتا، اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا، تمہارے سب کام اللہ کو معلوم ہیں،یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کردیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں ۔‘‘

منافق کواس کے چہرے کی زبان سے پہچانو:اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیامنافقین کاخیال ہے کہ ان کی مکاری وعیاری کااظہاراللہ تعالیٰ مسلمانوں  پرنہیں  کرے گا؟یہ بالکل غلط خیال ہے ،اللہ چاہئے تو ان کے چہرے تمہارے سامنے لا سکتاہے مگراس نے ان کاپردہ رکھاہے البتہ منافقین کے طرزعمل اور گفتگو میں ان کی لفاظی ،جھوٹی قسمیں  کھانا،نماز اوردوسری عبادات میں  سستی ،راہ للہ میں  خرچ کرنے میں  بخیلی ،ان کی حرکات وسکنات اورمخصوص کیفیات سے آپ خودہی انہیں  پہچان جائیں  گے،

قَالَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: مَا أَسَرَّ أَحَدٌ سَرِیرَةً إِلَّا أَبْدَاهَا اللهُ عَلَى صَفَحَاتِ وَجْهِهِ، وَفَلَتَاتِ لِسَانِهِ

امیرالمومنین سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی انسان کسی مخفی عمل کوچھپائے تواللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے کے نقوش اورزبان کی لغزشوں  سے ظاہر فرما دیتا ہے ۔[53]

اللہ علام الغیوب تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے،ہم ضرورجہادفی سبیل اللہ کے ذریعے تمہارے ایمان اور صبر کا امتحان لیں  گے تاکہ دیکھ لیں  کہ تم میں  مجاہداورمعرکہ میں ثابت قدم رہنے والے کون ہیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدَىٰ لَن یَضُرُّوا اللَّهَ شَیْئًا وَسَیُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٣٢﴾‏ ۞ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ‎﴿٣٣﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ‎﴿٣٤﴾‏ فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن یَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ‎﴿٣٥﴾‏(محمد)
’’یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکا اور رسول کی مخالفت کی اس کے بعد ان کے لیے ہدایت ظاہر ہوچکی ،یہ ہرگز ہرگز اللہ کا کچھ نقصان نہ کریں گے، عنقریب ان کے اعمال وہ غارت کر دے گا، اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو، جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے اوروں کو روکا پھر کفر کی حالت میں ہی مرگئے (یقین کرلو) کہ اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا،پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلندو غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کر دے ۔‘‘

مسلمانوں  کواللہ اوررسول کی اطاعت کاحکم:جن لوگوں  نے دعوت حق پرایمان لانے سے انکارکیااوراللہ کے بندوں  پرظلم وستم ڈھاکران کوراہ راست پرچلنے سے روکنے کے جتن کیےاوراللہ کےرسول کی مخالفت کی حالانکہ اللہ کی منزل کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ ونصیحت کے ذریعے ان پرراہ راست واضح ہوچکی تھی اپنے اس طرزعمل سے وہ اللہ کاکوئی نقصان نہیں  کرسکتے یعنی اس سے اللہ کے اقتدارمیں  کوئی کمی واقع نہیں  ہوگی بلکہ ایمان واخلاص نہ ہونے کے سبب اللہ ہی ان کاسب کیاکرایاغارت کردے گااور آخرت میں  یہ ان کاکوئی اجروثواب بھی نہ پاسکیں  گے،اعمال کاتمام تر دارومدارکیونکہ

 ۔۔۔اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ۔۔۔[54]

ترجمہ:اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو۔

پرہے اس لئے مسلمانوں  کوتاکیدکرکے فرمایاگیا تمہارے اعمال کانفع بخش اورنتیجہ خیزہونے کاتمام تردارومدار اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول کی اطاعت پرمنحصرہے ،اس لئے اللہ کارسول جس کام کاتمہیں  حکم دیں اسے شوق ورغبت کے ساتھ تسلیم کرو اور جس چیزسے روکے اس سے روک جاؤ ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔۔۔۝۷ۘ  [55]

ترجمہ: جو کچھ رسول تمہیں  دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ ۔

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرَوْنَ أَنَّهُ لَا یَضُرُّ مَعَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ذَنْبٌ، كَمَا لَا یَنْفَعُ مَعَ الشِّرْكِ عَمَلٌ، فَنَزَلَتْ: أَطِیعُوا اللهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ،  فَخَافُوا أَنْ یُبْطِلَ الذَّنْبُ الْعَمَلَ

ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کاخیال تھاکہ  لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں  پہنچاسکتا جس طرح شرک کے ساتھ کوئی عمل نفع نہیں  پہنچاسکتا،تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی’’ تم اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرواوراپنے اعمال کوبربادنہ کرلو۔‘‘ تووہ ڈرنے لگے کہ گناہ سے عمل باطل بھی ہو جاتا ہے۔[56]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَرَى أَنَّهُ لَیْسَ شَیْءٌ مِنْ حَسَنَاتِنَا إِلَّا مَقْبُولٌ، حَتَّى نَزَلَتْ:  اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ،فَقُلْنَا: مَا هَذَا الَّذِی یُبْطِلُ أَعْمَالَنَا؟فَقُلْنَا: الْكَبَائِرُ الْمُوجِبَاتُ، وَالْفَوَاحِشُ،حَتَّى نَزَلَتْ:اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ،فَلَمَّا نَزَلَتْ كَفَفْنَا عَنِ الْقَوْلِ فِی ذَلِكَ،  فَكُنَّا نَخَافُ عَلَى مَنْ أَصَابَ الْكَبَائِرَ وَالْفَوَاحِشَ،وَنَرْجُو لِمَنْ لَمْ یُصِبْهَا

اورعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ یہ سمجھتے تھے کہ ہرنیک عمل مقبول ہے حتی کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی’’ تم اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرواوراپنے اعمال کوبربادنہ کرلو۔‘‘توہم نے کہایہ کون سی چیزہے جوہمارے اعمال کوضائع کردیتی ہے؟  پھرہم نے کہاجہنم کوواجب کردینے والے کبیرہ گناہ اورفواحش،  حتی کہ اللہ تعالیٰ نےیہ ارشادنازل فرمایا’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں  کرتا اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔‘‘ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توہم اس بارے میں  گفتگوسے رک گئے، ہم کبیرہ گناہوں  اورفواحش ومنکرات کاارتکاب کرنے والے کے بارے میں  ڈرتے تھے اوران کاارتکاب نہ کرنے والے کے لیے پرامیدتھے۔[57]

اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین،دین اسلام کومکمل کردیاہے،جیسے فرمایا

اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۝۳   [58]

ترجمہ: آج کافروں  کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ،آج میں  نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں  ان کی پابندی کرو )۔

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوری امانت ویانت کے ساتھ اللہ کے پسندیدہ دین کوتم تک پہنچادیاہےلہذا اپنی طرف سے اس میں  نئی نئی بدعات پیداکرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرتہمت مت لگاؤ،نیکی کرنے کے بعدکسی پراحسان مت جتلاؤ،فخروتکبرنہ کرویہ شیطان کاوصف ہے،اپنے نیک اعمال پرشہرت کی خواہش نہ کرواس طرح تم اپنے تمام اعمال بربادکرلوگے اور آخرت میں  خسارہ پانے والوں  میں  شامل ہوجاؤگے،جیسےفرمایا

 وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷               [59]

ترجمہ:(اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں  سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں  جان دے گا اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں  میں  ضائع ہو جائیں  گے، ایسے سب لوگ جہنمی ہیں  اور ہمیشہ جہنم ہی میں  رہیں  گے۔

بے شک وہ لوگ جنہوں  نے اللہ تعالیٰ ،اس کے فرشتوں  ، اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں  اورروزآخرت کاانکارکیا اورباطل کی طرف دعوت دینے اورباطل کو مزین کرکے اللہ کے بندوں  کوراہ راست سے روکنے والوں  اور مرتے دم تک کفرپرجمے رہنے والوں  کوتواللہ تعالیٰ ہرگزمعاف نہ کرے گا، مدینہ منورہ میں  مسلمانوں  کی اولین چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کے لئے چندسومہاجرین وانصارکی ایک بے سروساماں  مٹھی بھر جماعت تھی جبکہ اس کا مقابلہ محض قریش مکہ سے ہی نہیں  بلکہ پورے عرب کے کفارو مشرکین کے ساتھ تھا،غزوہ بدر اور غزوہ احداس پرشاہدہیں  کہ کس طرح قریش اوردوسرے قبائل اسلام کی دعوت کوروکنے کے لئے باہم متحدہوگئے تھے، ان حالات میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا دشمنوں  کی قوت و طاقت اور حوصلوں کودیکھ کر ہمت مت ہارو،قتال کرنے میں  کمزوری نہ دکھاؤبلکہ اپنے دین کی سربلندی کے لئے سردھڑکی بازی لگادواور عاجزی سےصلح کی درخواست نہ کرو،ان حالات میں  اگران کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاؤگے تودشمن تمہیں  کمزورسمجھ کراوردلیرہوجائے گا،اگرصلح کرنی ہے توپہلے اپنی طاقت کا لوہا منواؤپھرصلح کاہاتھ بڑھاؤ،تم ہی حق پر ہواس لئے غالب رہوگے، اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اس لئے فتح ونصرت تمہاری ہی ہوگی اوراللہ تمہارے اعمال کوہرگزضائع نہ کرے گابلکہ اس پرپورا پورا اجروثواب عطا فرمائے گا،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا یُصِیْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا یَطَــــُٔـــوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۲۰ۙوَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً وَّلَا یَـقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ لِیَجْزِیَھُمُ اللهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۲۱      [60]

ترجمہ: اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کہ اللہ کی راہ میں  بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں  ، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے اس پر کوئی قدم وہ اٹھائیں  ، اور کسی دشمن سے (عداوتِ حق کا ) کوئی انتقام وہ لیں  ، اور اس کے بدلے ان کے حق میں  ایک عمل صالح نہ لکھا جائے یقینا اللہ کے ہاں  محسنوں  کا حق الخدمت مارا نہیں  جاتا ہے،اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہوگا کہ وہ (اللہ کی راہ میں  ) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ اٹھائیں  اور (سعی و جہاد میں  ) کوئی وادی وہ پار کریں  اور ان کے حق میں  اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں  عطا کرے۔

إِنَّمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا یُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا یَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ‎﴿٣٦﴾‏ إِن یَسْأَلْكُمُوهَا فَیُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَیُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ ‎﴿٣٧﴾‏ هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن یَبْخَلُ ۖ وَمَن یَبْخَلْ فَإِنَّمَا یَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِیُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُونُوا أَمْثَالَكُم ‎﴿٣٨﴾‏‏(محمد)
’’واقعی زندگانی دنیا صرف کھیل کود ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقوٰی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا اگر وہ تم سے تمہارا مال مانگے اور زور دے کر مانگے تو تم اس سے بخیلی کرنے لگو گے اوروہ تمہارے کینے ظاہر کر دے گا، خبردار ! تم وہ لوگ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بلائے جاتے ہو توتم میں سے بعض بخیلی کرنے لگتے ہو اور جو بخل کرتا ہے وہ تو دراصل اپنی جان سے بخیلی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ غنی ہے اور تم فقیر( اور محتاج) ہو اور اگر تم روگردان ہوجاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘

لوگو!آخرت کے مقابلے میں یہ دنیاچندروزہ کھیل اورتماشہ کے سواکچھ نہیں ہے،جیسے فرمایا

وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ۝۰ۭ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ۔۔۔۝۳۲ [61]

ترجمہ:دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے،حقیقت میں  آخرت ہی کا مقام ان لوگوں  کے لیے بہتر ہے جو زیاں  کاری سے بچنا چاہتے ہیں  ۔

 اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۔۔۔۝۲۰    [62]

ترجمہ:خوب جان لو کہ یہ دینا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں  کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں  ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں  ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے ۔

اگرتم اللہ وحدہ لاشریک  پر،اس کے فرشتوں  پر،اس کی منزل کتابوں  پر،اس کے تمام رسولوں  پراورروزآخرت پرایمان لاؤاورتقویٰ کی روش پرچلتے رہوگےتواللہ تمہیں  بے پایاں  اجروثواب سے نوازےگااوروہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا، اس نے تمہیں  جوخیرات کاحکم دیاہے وہ صرف اس لئے ہے کہ تمہارے ہی غرباءاورفقراءکی پرورش ہو اور پھرتم دارآخرت میں  مستحق ثواب بنو،اگرکہیں  وہ تمہارے کل مال تم سے مانگ لے توتم بخل کروگے اوراسلام کے خلاف اپنے بغض وعنادکااظہاربھی کروگے،دیکھواللہ تم لوگوں  کو دعوت دے رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں  کچھ مال خرچ کروجس میں  تمہاری دینی اوردنیاوی مصلحت ہے،مگرتم میں  سے کچھ لوگ ہیں  جوبخل کررہے ہیں  حالانکہ جوبخل کرتاہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی نفس کوانفاق فی سبیل اللہ کے اجروثواب سے محروم رکھتاہے ،اللہ تمہارے مال کاحاجت مندنہیں  ہے،اللہ توغنی ہے،وہ تمام معاملات میں  بے نیازہے تم ہی اپنی ہرضرورت کے لئے اس کے درکے محتاج ہو ،اوراگراللہ کی اطاعت سے روگرانی کروگےیعنی اسلام سے کفرکی طرف پھرجاؤگےتودین کوکوئی نقصان نہ ہوگاکیونکہ اللہ نے دین کی حفاظت کاخودذمہ لیاہواہے،ہاں  دین کی حفاظت میں  اگرتم بھی جدوجہدکروگے توتمہاری حفاظت بھی ہوجائے گی ،ورنہ وہ تمہیں  ہٹاکردوسری قوم لے آئے گا جو تمہارے جیسی نافرمان نہیں  ہوگی بلکہ وہ تم سے زیادہ اللہ اوررسول کے اطاعت گزاراوراللہ کی راہ میں  خوب خرچ کرنے والے اوردین کے لئے قربانیاں  دینے والے ہوں  گے ،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۰ۡیُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ۝۰۝۵۴ [63]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تم میں  سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں  گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں  پر نرم اور کفار پر سخت ہوں  گے ، جو اللہ کی راہ میں  جدوجہد کریں  گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں  گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَیْهِ سُورَةُ الجُمُعَةِ:وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ،قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ فَلَمْ یُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلاَثًاوَفِینَا سَلْمَانُ الفَارِسِیُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ:لَوْ كَانَ الإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ  أَوْ رَجُلٌ  مِنْ هَؤُلاَءِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۂ الجمعہ کی یہ آیتیں  نازل ہوئیں ’’ اوردوسروں  کے لئے بھی جوابھی ان میں  شامل نہیں  ہوئے ہیں ۔‘‘ بیان کیامیں  نے عرض کی اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کون لوگ ہیں ؟آپ نے اس کوجواب نہ دیایہاں  تک کہ اس نے تین بارپوچھااس وقت ہم لوگوں  میں  سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپناہاتھ ان پررکھا اور فرمایااگرایمان ثریاپرہوتاتوبھی ان کی قوم میں  سے کچھ لوگ اس تک پہنچ جاتے۔[64]

کفارکے اعلان جنگ کے بعدمسلمانوں  کے مسائل اورتیاریاں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بے پناہ مسائل تھے ،ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں  پوری فرما رہے تھے تودوسری طرف قانون الٰہی کی ترجمانی فرمارہے ہوتے تھے ،ایک لمحہ قاضی القضاة کے فرائض انجام دیئے جارہے تھے تو دوسرے لمحہ باہرسے آئے ہوئے سفارتی وفود کی پذیرائی ہورہی تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں  جنگ سے زیادہ ناپسندیدہ اورمکروہ کوئی چیزنہ تھی مگراب جبکہ جہادفی سبیل اللہ کاحکم آچکاتھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت کی عظیم ذمہ داریوں  کے علاوہ سربراہ ریاست اور کمانڈرانچیف کے فرائض ایک ہی وقت میں  اداکرنے تھے ، جنگ کی ذمہ داریاں  لمحہ بھرکامسئلہ نہیں  ہوتیں ان کوپورا کرنے کے لئے باقاعدہ طورپرمنصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے ،دشمن کی افرادی اوراسلحہ کی قوت کااندازہ لگانا ہوتا ہے ،اس کے علاوہ افرادکی تربیت اور ان کی ہمت واستقلال اورجرات ودلیری اوران کی ذہنی وبدنی اورنفسیاتی قابلیت کا موازنہ اپنے لشکرکے افرادکی تربیت اورکارکردگی کی صلاحیتوں  کے ساتھ کرناہوتاہے تب جا کرلشکرکی ضروری تناسب کااندازہ لگایا جا سکتا ہے ،اس کے علاوہ لشکرکی عسکری تعلیم اور اخلاقی تربیت بھی کمانڈرانچیف کی ذمہ داری ہے ۔

جبکہ اندرونی طورپرمعاملہ بہت گھمبیرتھا،مثلاً

x  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوافرادی قوت موجودتھی اس کاتربیت یافتہ حصہ (مہاجرین)پچاس ساٹھ سے زیادہ نہ تھا،اورانصارکی ابھی تربیت نہیں  ہوئی تھی اس لئے انہیں  جنگ کے لئے استعمال نہیں  کیاجاسکتاتھا۔

x  صف کے سپاہیوں  کی تربیت سے زیادہ کمانڈروں  کی تربیت اہم تھی اورمہاجرین یاانصارمیں  کوئی قابل ذکر کماندارموجودنہیں  تھا۔

x  مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام کوزیادہ عرصہ نہیں  گزراتھااوراس نئی ریاست کوبے شمارمادی مسائل کاسامناتھا،اس کامالی نظام بھی مکمل نہیں  ہواتھا ، مہاجرین اپناسب کچھ مکہ مکرمہ میں  چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے تھے اس لئے وہ معاشی طورپر بہت ہی کمزورتھے،اسی طرح قبائل اوس وخزرج بھی یہودیوں  کی سازشوں  میں  الجھ کر آپس کی لڑئیوں  میں  اپناسب کچھ گنوا کربے انتہاکمزورہوچکے تھے،اس لئےیہ دونوں  گروہ ہی جنگی اخراجات کابوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ تھے ۔

x  یہودی اپنی فطرت کے تحت مخالفت پرآمادہ تھے،وہ ریاست کے اندرونی معاملات میں  الجھنیں  پیداکرنے کے لئے پرامن شہریوں کو بہکاتے رہتے جس سے کچھ نہ کچھ دشواریاں  پیداہوتی رہتی تھیں ۔

x  منافقین جو بظاہرمسلمان تھےوہ مسلمانوں  کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور نمازپڑھتے تھے مگران کے دل دشمنوں  کے ساتھ دھڑکتے تھے،اس لئے ریاست مدینہ منورہ کی دفاعی انتظامات کی تفاصیل کادشمن تک پہنچنے کاہروقت خطرہ موجود رہتاتھا ۔

x  مہاجرین مدینہ منورہ کی آب وہواکے عادی نہ تھے اس لئے ان میں  سے اکثربخارمیں  مبتلارہتے تھےجس سے ان کی جسمانی طاقت کمزورہورہی تھی اور کمزورآدمی جنگ کی صعوبتوں  کوبرداشت نہیں  کرسکتا اس لئے انہیں  ذہنی اوربدنی طورپراس آب وہواسے اہم آہنگ کرنے کی ضرورت تھی۔

x  جنگ میں  سپاہ کااردگردکے جغرافیہ سے واقف ہوناانتہائی ضروری تھاجبکہ مہاجرین مدینہ منورہ اوراس کے اطراف کے علاقہ کے جغرافیہ سے ناواقف تھے انہیں  جلد ازجلد اس علاقہ کے جغرافیہ سے روشناس کراناتھا۔

x  قریش مکہ نے بڑی شدومدسے یہ پروپیگنڈاکررکھاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں  صدیوں  سے رائج آباؤاجدادکے نظام حیات کویکسرتہہ وبالاکر دینا چاہتے ہیں ،چونکہ یہ مشرکانہ نظام قبائل کے رگ وخون میں  شامل ہوچکاتھااس لئے اکثرقبائل مدینہ کی اس ریاست کواچھی نگاہ سے نہیں  دیکھتے تھے ۔

x  دشمن کے اعلان جنگ کے بعدجوابی تیاریوں  کے لئے وقت بہت ہی کم تھا،مشرکین مکہ کسی وقت بھی منظم ہوکرمدینہ منورہ پر حملہ آورہوسکتے تھے،اس کے علاوہ اہل مکہ کے حلیف قبائل پورے جزیرة العرب میں  پھیلے ہوئے تھے ،مثلاًبنوغطفان،بنوسلیم،بنوثعلبہ،بنوفزارہ اوربنوہوزان وغیرہ جن کے ساتھ ان کی رشتہ داریاں  بھی تھیں ، وہ ان قبائل کے ذریعہ بھی مدینہ پرلشکرکشی کرسکتے تھےاوریہ خطرہ چاروں  اطراف سے موجودتھا۔

x  میدان بدرسے کچھ ہی دورتک اہل مکہ کااثرورسوخ رہ چکاتھا،دوسری طرف نجدی قبائل بھی مکہ کے ہم خیال تھے ،مکہ معظمہ کاممتازمقام مشرکین مکہ کوحسب ضرورت افرادی اورمالی مدد دلوا سکتاتھا۔

x  ویسے تومکہ مکرمہ کے حلیف اورہمدردپورے جزیرة العرب میں  پھیلے ہوئے تھے مگرشاہراہ شام کی سمت سے حملہ کاامکان زیادہ تھااس سمت کوخاص طور پرنگاہ میں  رکھنابہت ضروری تھا۔

x  چنانچہ مشرکین مکہ کے حملہ کرنے سے قبل ہی ریاست مدینہ منورہ کے اردگردبسنے والے قبائل کواسلام سے روشناس کرانے اور امن وامان کے قیام کی اہمیت سمجھا کر دوستانہ معاہدے طے کرلیناضروری ہوگیا تاکہ مکہ کواپنی جارحانہ پالیسی پرمزیدغوروفکرکرنے کی ضرورت محسوس ہو،اور اس مقصد کے لئے بیرون مدینہ سفراختیارکرناضروری تھا۔

[1] الفرقان۲۳

[2] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ إِذَا عَطَسَ كَیْفَ یُشَمَّتُ۶۲۲۴،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی تَشْمِیتِ الْعَاطِسِ ۵۰۳۳،مسنداحمد۹۷۲

[3] الانفال۴۲

[4] الحج۳۹

[5] البقرة۱۹۰

[6] البقرة۱۹۳

[7] آل عمران۱۴۲

[8] التوبة۱۴

[9] جامع ترمذی کتاب فضائل الجہادبَابٌ فِی ثَوَابِ الشَّهِیدِ۱۶۶۱،۱۶۶۲، مسند احمد ۱۷۱۸۲

[10]  سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُشَفَّعُ۲۵۲۲

[11] یونس۹

[12] تفسیرطبری۱۶۰؍۲۲

[13] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القِصَاصِ یَوْمَ القِیَامَةِ۶۵۳۵

[14] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ كُفِّرَتْ خَطَایَاهُ إِلَّا الدَّیْنَ۴۸۸۳، مسنداحمد۷۰۵۱

[15] الحج۴۰

[16] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابٌ فِی الْمُكْثِرِینَ ۴۱۳۶،صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۸۷

[17] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ ۳۰۳۹، مسند احمد ۱۸۵۹۳، صحیح ابن حبان ۴۷۳۸

[18] صحیح بخاری کتاب الاطعمة بَابٌ المُؤْمِنُ یَأْكُلُ فِی مِعًى وَاحِدٍ ۵۳۹۳، صحیح مسلم کتاب الاشربةبَابُ الْمُؤْمِنُ یَأْكُلُ فِی مِعًى وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ یَأْكُلُ فِی سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ ۵۳۷۲، مسند احمد ۴۷۱۸،سنن الدارمی ۲۰۸۳،صحیح ابن حبان۵۲۳۹

[19] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ مَكَّةَ۳۹۲۶

[20]لرعد۱۹

[21] الحشر۲۰

[22] الصافات۴۷

[23] الواقعة۱۹

[24] الصافات۴۶

[25] مسنداحمد۲۰۰۵۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ أَنْهَارِ الجَنَّةِ ۲۵۷۱

[26] الدخان۵۵

[27] الرحمٰن۵۲

[28] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، یُقَالُ هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی۲۷۹۰ ، مسنداحمد۸۴۷۴،صحیح ابن حبان۴۶۱۱، مستدرک حاکم ۲۶۷

[29] النحل۱۰۸

[30] النجم۵۶تا۵۸

[31] القمر۱

[32] الانبیائ۱

[33] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سُورَةُ وَالنَّازِعَاتِ ۴۹۳۶،صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۰۳،مسنداحمد۲۲۸۶۲،سنن الدارمی ۲۸۰۱،صحیح ابن حبان ۱۰

[34] الزخرف۶۶

[35] الفجر۲۳

[36] سبا۵۲

[37] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ۱۸۱۲

[38] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ اسْتِغْفَارِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الیَوْمِ وَاللیْلَةِ ۶۳۰۷، مسنداحمد۸۴۹۳

[39] الانعام۶۰

[40] ھود۶

[41] النسائ۷۷

[42] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ البَغْیِ۴۹۰۲،جامع ترمذی  أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب فی عظم الوعیدعلی البغی وقطیعة الرحم۲۵۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْبَغْیِ۴۲۱۱، مسند احمد ۲۰۳۹۸، صحیح ابن حبان ۴۵۵،مستدرک حاکم ۳۳۵۹

[43] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَنْ بُسِطَ لَهُ فِی الرِّزْقِ بِصِلَةِ الرَّحِمِ۵۹۸۵، مسند احمد ۲۲۴۰۰،مستدرک حاکم ۷۲۸۱،صحیح ابن حبان ۴۳۸

[44] صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ لَیْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ۵۹۹۱،مسنداحمد۶۷۸۵

[45] مسنداحمد۶۹۵۰

[46] مسند احمد۶۴۹۴،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الرَّحْمَةِ۴۹۴۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی رَحْمَةِ الْمُسْلِمِینَ۱۹۲۴،مستدرک حاکم ۷۲۷۴

[47] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قُلِ ادْعُوا اللهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الأَسْمَاءُ الحُسْنَى۷۳۷۶

[48] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ إِثْمِ القَاطِعِ۵۹۸۴،مسنداحمد۱۶۷۳۲،صحیح ابن حبان ۴۵۴

[49] النسائ۱۲۰

[50] النسائ۸۱

[51] الانعام۹۳

[52] الانفال۵۰،۵۱

[53] تفسیرابن کثیر۳۲۱؍۷

[54] محمد۳۳

[55] الحشر۷

[56] تعظیم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزی۶۴۵؍۲،رقم۶۹۸

[57] تعظیم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزی۶۴۶؍۲،رقم۶۹۹

[58] المائدة۳

[59] البقرة۲۱۷

[60] التوبة۱۲۰،۱۲۱

[61] الانعام۳۲

[62] الحدید۲۰

[63] المائدة۵۴

[64]صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن سورة الجمعة بَابُ قَوْلِهِ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ ۴۸۹۷، صحیح مسلم کتاب  الفضائل بَابُ فَضْلِ فَارِسَ۶۴۹۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْجُمُعَةِ ۳۳۱۰  

Related Articles