ہجرت نبوی کا پہلا سال

مہاجرین وانصارکابھائی چارہ

آخر یہ معاہدہ طے پایاکہ زائرین اس سال بغیرعمرہ کیے واپس چلے جائیں اوردوسرے سال آکرعمرہ کریں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ فرماکرواپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور اس معاہدے کوفتح عظیم سے تعبیرفرمایا،جب آپ عمرہ کے لئے جانے لگے تواللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہو گا لہذااگروہ اس حرمت والے مہینے کاخیال رکھیں توتم بھی اس کی حرمت کاخیال کرولیکن اگروہ اس حرمت والے مہینے میں اور گزشتہ سال کے معاہدہ کے بعدبھی کوئی جو تم پر دست درازی کرے توتم بھی اس مہینے کی حرمت کونظراندازکرکے ان کابھرپورمقابلہ کرو، البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت انہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کی مقررکی ہوئی حدوں کو توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تومدینہ کے محدودذرائع ووسائل پرمہاجرین کی روزانہ بڑھتی ہوئی آبادی کابوجھ پڑنے لگا چونکہ یہ تمام حضرات اپنامال ومتاع اورہرقسم کاسازوسامان چھوڑکرمدینہ آئے تھے اورسب بے سروسامانی کی حالت میں تھے،ان پرآسمان کے علاوہ کوئی سایہ نہ تھااورپیٹ بھرنے کے لئے ان کے پاس ایک دانہ نہ تھا،یہ لٹے پٹے وبے سہارالوگ اپنی معاشی حالت کوبہتربنانے کی کوشش میں لگ گئے ،اکثرمسلمانوں کی غربت کایہ عالم تھاکہ انہیں کھانے کوبھی کچھ میسرنہ تھا،آزمائش کی اس گھڑی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ بھی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ برابرکے شریک تھے ،غربت اوربھوک کے اس دورمیں رہی سہی کسربیماری نے پوری کردی ، بخارکی ایک وباپھیل گئی اوریہ بخاربڑاہٹیلااورموذی ثابت ہوا،ایک تولوگوں کومدینے کی نئی آب وہواراس نہ آئی تھی اوران کی طبیعت پہلے سے ہی خراب تھی اوپرسے بخارکی وبانے آلیااورساتھ ہی فاقے ،کچھ غذاملتی بھی تھی تووہ ناقص ہوتی ،چنانچہ اکثرمسلمان ہڈیوں کاڈھانچہ بن کررہ گئے ،ایک طرف اسلامی تحریک کی کشتی مشکلات اورمخالفتوں کے طوفان میں پھنسی ہوئی تھی اورنئی ابھرنے والی اسلامی ریاست ہرپہلوسے اپنی تکمیل کے لئے محتاج تھی ، مدینہ کے اندر اور باہردشمنوں ،منافقوں سے بڑے خطرات تھے ،تحریک کے ہراول دستے کوبیماری نے آلیااورفاقوں کے ساتھ ساتھ تن ڈھانکنے کوکپڑے کابھی پوراانتظام نہیں ہوپارہاتھا ، اس مرحلے کوچھوٹی سی انقلابی جماعت نے جس قوت اورجذبہ کے ساتھ پارکیا،وہ اللہ پرایمان ،مقصدکی محبت اورآپس میں بے پناہ اخوت کے جذبے کی طاقت تھی ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مصیبت وآزمائش کے اس دورکے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ بھوک کی مصیبت میں گھل گھل کرجب تنگ آگئے توسہاراحاصل کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اپناحال بیان کیااورپیٹ کھول کردکھائے،روزکے فاقے کی وجہ سے (معدے میں ہونے والی ایک خاص جلن کوروکنے کے لئے) پتھرباندھ رکھے تھے ، اس پرتاریخ کی اس عظیم ترین ہستی نے اپنے پیٹ سے کپڑااٹھاکردکھایاکہ جس پرایک نہیں دودوپتھربندھے ہوئے تھے ،اس منظرکودیکھ کراپنا دکھڑا بیان کرنے والوں کی تسلی ہو گئی ۔

ایک مرتبہ اسی حال میں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بے وقت آئے اورخواہش تھی کہ ذرادل کی تسلی کے لئے اپنی تکلیف بیان کریں مگرپھرخیال ہواکہ اس سے سیدالامم محمدﷺکوخوامخواہ مزیدپریشانی ہوگی ،تھوڑی دیرمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آپہنچے وہ بھی اسی امتحان کاشکارتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے کی وجہ پوچھی توانہوں نے صاف صاف عرض کیا کہ بھوک کے مارے بے تاب ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سناتوفرمایاکہ میرابھی حال کچھ ایساہی ہے،چنا نچہ أَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ جن کانام مالک تھا کے ہاں چلنے کافیصلہ کیاگیا،أَبُو الْهَیْثَمِ رضی اللہ عنہ باغات کے مالک اور خوشحال تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دواصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے ہاں پہنچے تووہ خادم نہ ہونے کے سبب خودہی زنینوں کو سیراب کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے ،جب واپس آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کرفرط مسرت سے لپٹ گئے ، پھر باغ میں لے جاکرکپڑابچھایااورکھجوریں توڑکرحاضرکیں ،کھجوریں کھاکران فاقہ کشان راہ حق نے ٹھنڈاپانی پیااوراللہ کا شکراداکرتے اورأَبُو الْهَیْثَمِ کے لئے دعائے خیرکرتے واپس ہوئے۔

سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ یَقُولُ وَاللهِ إِنِّی لأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ. وَلَقَدْ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلا وَرَقَ الْحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرُ. حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَیَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا لَهُ خِلْطٌ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پربیان کیاکہ میں وہ پہلاآدمی ہوں جس نے اسلام کی خاطر پہلا تیرچلایاتھاجس سے ایک دشمن حق کاخون گراتھا،ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی حالت میں جہادکیاکہ ہم درختوں کے پتے اورکیکرکی پھلیاں کھایاکرتے تھے اور اس وجہ سے منہ کے کنارے زخمی ہوجاتے تھے اوراگرہم میں سے کوئی قضاءحاجت کے لیے جاتاتوبکریوں کی طرح منگنیاں کرتاتھا۔[1]

اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پانچ ماہ یا آٹھ ماہ بعدانس رضی اللہ عنہ کے گھر پینتالیس مہاجرین کا پینتالیس انصارسے دونوں جانب کی طبیعتوں اورمزاج کومدنظررکھ کرجاہلی تعصبات ختم کرنے ،رنگ ونسب اوروطن کے امتیازات یکسرختم کرنے اور ہمدردی وغمگساری کی بنیادپر بھائی چارہ کرایا تاکہ ان مہاجرین کے دلوں سے پردیس کی وحشت دورہوجائے اوراپنے کنبہ وبرادری سے جدائی کاغم زائل ہوجائے ،ان کے پاس سر چھپانے کوجگہ ہوجائے اور جب تک یہ لوگ اپنے قدموں پرنہ کھڑے ہوجائیں اس وقت تک ان کے پیٹ بھرنے کابھی کوئی ذریعہ ہو اوریہ حضرات اطمینان سے اپنے معاشی حالات درست کر سکیں ،اور تاریخ شاہدہے کہ انصارنے مہاجرین کے ساتھ وہ حسن سلوک کیاجس کی نظیر ملنا مشکل ہے، انہوں نے مہاجرین کے تمام مصارف وضروریات اپنے ذمہ لے لیں ،انہوں نے خوش دلی سے مہاجرین کواپنے کاروبارمیں ساجھی بنایا، اپنی زمینیں ، باغات وغیرہ ان کے حوالے کر دیئےاورتواوراپنی بیویوں کو طلاق دینے کوتیارہوگئے تاکہ مہاجربھائی ان سے نکاح کرکے اپنا گھر بسا سکے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بِأَحَقِّ بِدِینَارِهِ وَدِرْهَمِهِ مِنْ أَخِیهِ الْمُسْلِمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کوئی انصاری اپنے درہم ودینار کا اپنے مہاجربھائی سے زیادہ خود کومستحق نہیں سمجھتاتھا۔[2]

الغرض جوکچھ ان کے بس میں تھااپنے بھائیوں کے لئے کیااوریہ رشتہ مواخات اس قدر محکم اورمضبوط تھا کہ بمنزلہ قرابت ونسب سمجھا جاتاتھاجب کوئی انصاری فوت ہوتا تو مہاجرہی اس کا وارث بنتا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ ۔۔۔۝۷۲         [3]

ترجمہ:جن لوگوں نے ایمان قبول کیااورہجرت کی اوراللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اوراپنے مال کھپائےاورجن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کوجگہ دی اوران کی مددکی وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔

چنددنوں بعداللہ تعالیٰ نے یہ حکم منسوخ فرمادیااورآیت

 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ۔۔۔       [4]

ترجمہ:مومن توایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔

نازل فرماکرتمام مسلمانوں کو بھائی بنادیا۔

قال السهیلی آخَى بَیْنَ أَصْحَابِهِ لِیُذْهِبَ عَنْهُمْ وَحْشَةَ الْغُرْبَةِ وَیَتَأَنَّسُوا مِنْ مُفَارَقَةِ الْأَهْلِ وَالْعَشِیرَةِ وَیَشُدُّ بَعْضُهُمْ أَزْرَ بَعْضٍ فَلَمَّا عَزَّ الْإِسْلَامُ وَاجْتَمَعَ الشَّمْلُ وَذَهَبَتِ الْوَحْشَةُ أَبْطَلَ الْمَوَارِیثَ وَجَعَلَ الْمُؤْمِنِینَ كلهم إخْوَة

امام سہیلی رحمہ اللہ نے فرمایا اب مواخات کارشتہ فقط ہمدردی وغمخواری،نصرت وحمایت کے لئے رہ گیا اور میراث نسبی رشتہ داروں کے لئے خاص کردی گئی اب سارے آپس میں مؤمن بھائی بھائی ہیں ۔[5]

  کس مہاجرکاکس انصارسے بھائی چارہ قائم ہوا

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑااورفرمایایہ میرے بھائی ہیں ۔

اس سلسلہ میں ابن اسحاق کی روایت پرغورکریں جوحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایة والنہایة میں نقل کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ بھائی چارہ تومہاجروانصارمیں ہواتھااوریہ مہاجرین میں شامل تھے۔

حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اورزید رضی اللہ عنہ بن حارثہ تودونوں مہاجرتھے اوردونوں ہی ضرورت مندپھران کابھائی چارہ کیسے ہوسکتاہے۔

زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود کابھائی چارہ کرادیاگیاجبکہ یہ دونوں حضرات بھی مہاجرتھے اوردونوں سخت ضرورت مندتھے۔

عمار رضی اللہ عنہ اورحذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ قائم کردیاگیاجبکہ یہ دونوں حضرات بھی مہاجرتھے اورپیٹ بھرنے کے محتاج ہورہے تھے۔

جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب پانچ ہجری میں مکہ سے ہجرت فرماکرحبشہ چلے گئے تھے اوروہاں سے ان کی واپسی سات ہجری میں فتح خیبرکے موقعہ پرہوئی تھی جبکہ بھائی چارہ ہجرت کے آٹھ ماہ کے بعدہواتھاجب وہ مدینہ میں موجودہی نہ تھے توان کابھائی چارہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے کس طرح ہوگیا ۔

سلمان رضی اللہ عنہ فارسی ہجرت کے وقت ایک یہودی کے غلام تھے،اسلام لانے کے بعدانہوں نے اس یہودی سے اپنی آزادی کے لئے کہاتواس نے بڑی کڑی شرائط لگائیں جن کی تکمیل میں چارسال کاعرصہ لگ گیااوروہ پانچ ہجری میں آزادہوئے،پھران کابھائی چارہ ابوالدرداء سے کیسے ہوا،یہ بھائی چارہ تومہاجرین وانصارمیں محبت پیداکرنے کے لئے قائم کیاگیاتھا ۔

حافظ ابن کثیراس بھائی چارے پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن اسحاق کی بعض باتوں پراعتراض ہے

أَمَّا مُؤَاخَاةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلِیٍّ فَإِنَّ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ یُنْكِرُ ذَلِكَ وَیَمْنَعُ صِحَّتَهُ وَمُسْتَنَدُهُ فِی ذَلِكَ أَنَّ هَذِهِ الْمُؤَاخَاةَ إِنَّمَا شُرِعَتْ لِأَجْلِ ارْتِفَاقِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ وَلِیَتَأَلَّفَ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ، فَلَا مَعْنَى لِمُؤَاخَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ، وَلَا مُهَاجِرِیٍّ لِمُهَاجِرِیٍّ آخَرَ كَمَا ذَكَرَهُ مِنْ مُؤَاخَاةِ حَمْزَةَ وَزَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ، لِمُؤَاخَاةِ جَعْفَرٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ فِیهِ نَظَرٌ،فَإِنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ إِنَّمَا قَدِمَ فِی فَتْحِ خَیْبَرَ فِی أَوَّلِ سَنَةِ سَبْعٍ

جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی چارے کاتعلق ہے توعلماء نے اس کاانکارکیاہے اوروہ اس کی صحت کے منکرہیں کیونکہ یہ بھائی چارہ تواس لئے ہواتھاکہ مہاجرین وانصارمیں محبت قائم ہو،لہذانبی کریم ﷺکاسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ ،اسی طرح ایک مہاجرکادوسرے مہاجرسے بھائی چارہ جیسے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اور زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کابھائی چارہ ایک لایعنی شئے ہے،اسی طرح جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے بھائی چارے پربھی اعتراض ہے، ابن ہشام نے بھی اس پر اعتراض کیا ہےکیونکہ جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب تومدینہ میں سات ہجری کوفتح خیبرکے موقعہ پرآئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آتے ہی ان کا بھائی چارہ کیسے کرادیا۔[6]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِیٌّ تَدْمَعُ عَیْنَاهُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ آخَیْتَ بَیْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَیْنِی وَبَیْنَ أَحَدٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ أَخِی فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ

اس بھائی چارے کی ایک روایت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس طرح نقل ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے صحابہ کابھائی چارہ کرایاتوسیدنا علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ! آپ نے اپنے ساتھیوں کابھائی چارہ کرایالیکن میرابھائی چارہ کسی سے نہیں کرایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتودنیاوآخرت میں میرابھائی ہے[7]

حکیم بن جبیر:

علامہ عبدالرحمان مبارک پوری العرف الشذی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں اس روایت میں ایک راوی حکیم بن جبیر ضعیف ہے اورشیعہ ہے،

قال البخاری: كان شعبة یتكلم فیه.قال أحمد: ضعیف منكر الحدیث.وقال النسائی: لیس بالقوى.وقال الدارقطنی: متروك. وقال معاذ: قلت لشعبة: حدثنی بحدیث حكیم بن جبیر.قال: أخاف النار إن أحدث عنه. وقال الفلاس:وكان عبد الرحمن لا یحدث عنه قال: إنما روى أحادیث یسیرة، وفیها منكراًت،وقال الجوزجانی: حكیم بن جبیر كذاب.

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں امام شعبہ رحمہ اللہ کواس پراعتراض ہے ۔امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں حکیم بن جبیرضعیف ہےمنکرالحدیث ہے۔امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں قوی نہیں ۔امام دارقطنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں متروک الحدیث ہے ۔معاذکابیان ہے ہم نے امام شعبہ رحمہ اللہ سے عرض کیاکہ آپ ہم سے حکیم بن جبیرکی احادیث بیان کیجئے،انہوں نے جواباًفرمایااس کی احادیث بیان کرنے سے مجھے جہنم میں جانے کاخوف پیداہو جاتا ہے۔فلاس کابیان ہےعبدالرحمان بن مہدی اس کی روایت قبول نہ کرتے تھے اورفرماتے تھے اس سے اگرچہ بہت کم روایات مروی ہیں لیکن ان میں سے اکثرمنکرہیں ۔جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں حکیم بن جبیرکذاب ہے۔ [8]

علی بن قادم:

اس روایت کی سندکاایک اورراوی علی بن قادم ابوالحسن الخزاعی الکوفی ہے ،

وقال یحیى: ضعیف.وقال ابن سعد: منكر الحدیث، شدید التشیع.وقال ابن عدی: نقمت علیه أحادیث تفرد بها.

یحییٰ بن معین کہتے ہیں ضعیف ہے۔بن سعدکاقول ہے منکرالحدیث ہےپکاشیعہ تھا۔ابن عدی لکھتے ہیں میرے نزدیک اس کی بہت سی روایات منکرہیں ۔[9]

جمیع بن عمیرالیمی:

قال الخبارى:سمع من ابن عمر، وعائشة.وعنه العلاء بن صالح، وصدقة بن المثنى.فیه نظر .وقال ابن حبان: رافضی یضع الحدیث.وقال ابن نمیر: كان من أكذب الناس.وقال ابن عدی: عامة ما یرویه لا یتابع علیه.

امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس نے اگرچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے احادیث سنی ہیں علاء بن صالح اور صدقہ بن مثنیٰ نے ان سے روایت کیاہے لیکن محدثین کواس کی روایات پراعتراض ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ بدبودار رافضی ہے،یہ اپنے دل سے روایات وضع کیاکرتاتھا۔ابن نمیرکہتے ہیں اس کاشمارتوسب سے جھوٹے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ابن عدی لکھتے ہیں اس کی یہ کہانی منکرہے اوراس کی عام روایات ایسی ہوتی ہیں جنہیں کوئی روایت نہیں کرتا۔[10]

مستدرک حاکم میں یہ داستان اسحاق بن بشیرالکاہلی کے ذریعہ سالم بن ابی حفصہ سے نقل کی ہے،ان دونوں کایہ حال ہے۔

اسحاق بن بشیر:

وقال الفلاس وغیره: متروك.قال الدارقطنی: هو فی عداد من یضع الحدیث.

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ابوبکربن ابی شیبہ،موسی بن ہارون ،ابوزرعہ رازی اور فلاس کہتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس کاشماران لوگوں میں ہوتاہے جو روایات وضع کیاکرتاتھا۔[11]

سالم بن ابی حفصہ العجلی الکوفی:

قال الفلاس: ضعیف مفرط فی التشیع.وقال النسائی:لیس بثقة.وقال ابن عدی: عیب علیه الغلو، وأرجو أنه لا بأس به.وقال محمد ابن بشر العبدی: رأیت سالم بن أبی حفصة ذا لحیة طویلة أحمق بها من لحیة، وهو یقول: وددت أنى كنت شریك علی علیه السلام فی كل ما كان فیه.جریر بن عبد الحمید، قال: رأیت سالم بن أبی حفصة وهو یطوف بالبیت، وهو یقول: لبیك مهلك بنى أمیة، فأجازه داود بن علی بألف دینار. قال عمر بن ذر لسالم بن أبی حفصة: أنت قتلت عثمان، فحرج لذلك، وقال: أنا؟ قال نعم، أنت ترضى بقتله. وقال حسین بن علی الجعفی:رأیت سالم بن أبی حفصة طویل اللحیة أحمق، وهو یقول: لبیك قاتل نعثل ! لبیك مهلك بنى أمیة! لبیك!وقال علی بن المدینی: سمعت جریرا یقول: تركت سالم بن أبی حفصة لانه كان خصما للشیعة.وقال علی: فما ظنك بمن تركه جریر.عن خلف بن حوشب، عن سالم بن أبی حفصة، وكان من رءوس من یتنقص أبا بكر وعمر.

فلاس کہتے ہیں ضعیف ہے،غالی قسم کاشیعہ تھا۔امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں ثقہ نہیں ۔ابن عدی کہتے ہیں اس پرتشیع میں غلوکاالزام ہےاور امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ محمدبن بشیر العبدی کابیان ہےمیں نے سالم بن ابی حفصہ کودیکھااس کی داڑھی بہت لمبی تھی اوریہ اپنی داڑھی سے بھی زیادہ احمق تھااورکہاکرتاتھاکہ میرادل تویہ چاہتاہے کہ میں علی علیہ السلام کے ساتھ ہرجنگ میں ان کاشریک ہوتا۔جریربن عبدالمجیدکہتے ہیں میں نے سالم کوطواف کعبہ کرتے دیکھاوہ تلبیہ پڑھ رہاتھااے بنی امیہ کوتباہ کرنے والے میں حاضرہوں ،اس پرداودبن علی العباسی نے اسے ایک ہزار اشرفیاں عطاکیں ۔ ایک بار عمر بن ذرنے سالم بن ابی حفصہ سے کہاتونے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کوقتل کیاہے، اس نے کہا یہ کیسے ؟ عمربن ذرنے جواب دیاکہ جب توان کے قتل پرراضی ہے توتونے ہی قتل کیاہے۔حسین بن علی الجعفی کابیان ہےمیں نے سالم بن ابی حفصہ کودیکھااس کی داڑھی بہت لمبی تھی اور یہ احمق لگتاتھااوریہ تلبیہ میں کہا کرتا تھااے بنی امیہ کوتباہ کرنے والے میں حاضرہوں ،اے نعثل کے قاتل میں حاضرہوں (نعثل مدینہ کے ایک یہودی کانام تھا، سبائی سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کانام لینے کے بجائے انہیں نعثل کہتے تھے)علی بن المدینی کہتے ہیں میں نے جریربن عبدالمجیدکویہ کہتے ہوئے سناہے کہ میں نے سالم کی روایات کوترک کردی ہیں کیونکہ وہ شیعوں کی طرف سے سنیوں سے جھگڑتا تھا،علی بن المدینی کہتے ہیں جس کی روایت کوجریرجیسے شیعہ نے ترک کردیاہووہ کتناغالی رافضی ہوگا۔امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ثقہ نہیں ۔خلف بن حوشب کابیان ہے یہ ان لوگوں کاسرغنہ تھاجوسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ کوبراکہتے ہیں ۔[12]

آخَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا وَشَارَكَهُ فِی الْعلم وكل مَا ورد فِی أخوة عَلیّ ضَعِیف وَالتِّرْمِذِیّ

علامہ محمد طاہرپٹنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ کیااورسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھائی چارے کی تمام روایات اورترمذی کی روایات سب ضعیف ہیں ۔[13]

فقال ابن تیمیة فی الرد علیه فی منهاج السنة وتبعه الذهبی

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنةمیں لکھاہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی چارے کی جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں اورحافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی مختصر منہاج السنة میں یہی کچھ تحریرکیاہے۔[14]

وقال ابن حبان: رافضی یضع الحدیث ،وقال ابن نمیر: كان من أكذب الناس

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جمیع بن عمیر رافضی تھااوراحادیث گھڑا کرتا تھا۔اورابن نمیر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جھوٹے لوگوں میں سے تھا۔[15]

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں جمیع بن عمیر کے ترجمہ میں اس روایت کو منکر قرار دیا ہے اورتخریج مستدرک میں لکھتے ہیں

جمیع بن عمیر أتهم وإسحاق بن بشر الكاهلی هالك

جمیع نامی راوی مہتم ہے اوراسحاق بن بشیرالکاہلی ایک آفت ہے اوریہ کہانی موضوع ہے۔[16]

حقیقت یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ سہل بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوا،

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِیُّ هَاجَرَ عَلِیٌّ بَعْدَ خُرُوجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ وَكَانَ قَدْ أَمَرَهُ بِقَضَاءِ دُیُونِهِ وَرَدِّ وَدَائِعِهِ، ثُمَّ یَلْحَقُ بِهِ، فَامْتَثَلَ مَا أَمَرَهُ بِهِ، ثُمَّ هَاجَرَ وَآخَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ

حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں محمدبن کعب القرظی کا بیان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت فرمانے کے بعدمکہ سے ہجرت کی کیونکہ آپ نے انہیں قرضوں کی ادائیگی اور امانتوں کی واپسی کے بعدمدینہ آنے کا حکم دیاتھاسیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ حکم بجالانے کے بعدہجرت کرکے مدینہ پہنچےاورنبی کریم ﷺنے ان کے اورسہل بن حنیف کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔[17]

كانت المؤاخاة مرتین: الأولى قبل الهجرة بمكة بین المهاجرین، فاخى بین أبی بكر وعمر، وهكذا حتى بقی علی رضی الله عنها

ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں مواخاة دومرتبہ ہوا ہجرت سے قبل مکہ میں جس میں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ کرایا اور مدینہ میں جوبھائی چارہ ہوااس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھائی چارہ کیا ۔[18]

وَقَدْ قِیلَ: إِنَّهُ آخَى بَیْنَ الْمُهَاجِرِینَ بَعْضِهِمْ مَعَ بَعْضٍ مُؤَاخَاةً ثَانِیَةً، وَاِتَّخَذَ فِیهَا علیا أَخًا لِنَفْسِهِ وَالثَّبْتُ الْأَوَّلُ، وَالْمُهَاجِرُونَ كَانُوا مُسْتَغْنِینَ بِأُخُوَّةِ الْإِسْلَامِ،وَأُخُوَّةِ الدَّارِ، وَقَرَابَةِ النَّسَبِ عَنْ عَقْدِ مُؤَاخَاةٍ بِخِلَافِ الْمُهَاجِرِینَ مَعَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ آخَى بَیْنَ الْمُهَاجِرِینَ كَانَ أَحَقَّ النَّاسِ بِأُخُوَّتِهِ أَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَیْهِ، وَرَفِیقُهُ فِی الْهِجْرَةِ، وَأَنِیسُهُ فِی الْغَارِ، وَأَفْضَلُ الصَّحَابَةِ وَأَكْرَمُهُمْ عَلَیْهِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ ، وَقَدْ قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ خَلِیلًا، لَاتَّخَذْتُ أبا بكر خَلِیلًا، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ، وَفِی لَفْظٍ:وَلَكِنْ أَخِی وَصَاحِبِی) وَهَذِهِ الْأُخُوَّةُ فِی الْإِسْلَامِ وَإِنْ كَانَتْ عَامَّةً كَمَا قَالَ:وَدِدْتُ أَنْ قَدْ رَأَیْنَا إِخْوَانَنَا، قَالُوا: أَلَسْنَا إِخْوَانَكَ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِی، وَإِخْوَانِی قَوْمٌ یَأْتُونَ مِنْ بَعْدِی یُؤْمِنُونَ بِی وَلَمْ یَرَوْنِی، فَلِلصِّدِّیقِ مِنْ هَذِهِ الْأُخُوَّةِ أَعْلَى مَرَاتِبِهَا

ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ مہاجرین اورانصارکے درمیان مواخات قائم کی اور اس دوسری مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی بنایا لیکن پہلا قول زیادہ درست ہے کیونکہ اگرآپ کسی مہاجرسےاپنی اخوت قائم فرماتےتوآپ کی اخوت کے سب سے زیادہ مستحق وہ تھے جوآپ کوتمام مخلوق سے زیادہ محبوب ، ہجرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصاحب ، غار میں آپ کے انیس اورتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل واکرام تھےیعنی سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں آپ نے فرمایا تھاکہ اگر زمین والوں میں سے کسی کومیں دوست بناتا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کوبناتالیکن وہ میرے بھائی اورساتھی ہیں اوراسلام کی بنیاداخوت پرہے،یہ اخوت اگرچہ عام تھی جیساکہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بھائیوں کودیکھنے کا خواہشمند ہوں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھاکہ کیاہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے فرمایاتم میرے ساتھی ہومیرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اورمجھ پر بغیر دیکھے ایمان رکھیں گے لیکن اس عمومیت کے باوجودسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اس اعلی مقام پرفائزتھے ،اس طرح مصاحبت کابھی اعلی مرتبہ آپ کوحاصل تھا۔[19]

انصارکاجذبہ ایثاروقربانی :

قبائل اوس وخزرج یہودیوں سے برسرپیکاررہنے کی وجہ سے بعض ہتھیارمدینہ میں تیارکرتے تھے اورتیزسازی میں بہت مہارت رکھتے تھے۔[20]

مگر حقیقتاًانصارزراعت کے خوگرتھے، جب مہاجرین کاانصارسے بھائی چارہ قائم کردیاگیاتو

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتِ الأَنْصَارُ: اقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمُ النَّخْلَ، قَالَ:لاَ قَالَ:یَكْفُونَنَا المَئُونَةَ وَیُشْرِكُونَنَا فِی التَّمْرِ قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصار نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کہ (ہمارے) کھجوروں کے تنوں کوہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرما دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں ایسانہیں کروں گا،اس پرانصارنے (مہاجرین سے ) کہا پھر آپ ایسا کر لیں کہ کام ہماری طرف سے آپ انجام دیا کریں اورکھجوروں میں آپ ہمارے ساتھی ہوجائیں ، مہاجرین نے کہاہم نے آپ لوگوں کی یہ بات سنی اورہم ایسا ہی کریں گے۔[21]

مہاجرین کا مخصوص پیشہ اگرچہ تجارت تھاجس میں بہت ماہرتھے تاہم جب انصارنے اپنے کھیت بٹائی پردینے شروع کئے توبہت سے مہاجرین نے زراعت کواپناپیشہ بنالیا

مَا بِالْمَدِینَةِ أَهْلُ بَیْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا یَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ ،وَزَارَعَ عَلِیٌّ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ

اور مدینہ منورہ میں مہاجرین کا کوئی گھرایسانہیں تھاجوتہائی یاچوتھائی پیداوارپرکھیتی نہ کرتاہوجن میں سیدنا علی، سعدبن مالک اور عبداللہ بن مسعودوغیرہ شامل تھے۔[22]

مگرزیادہ ترمہاجرین نے جن میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ عطاردتیمی، صخرالغامدی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے حسب سابق تجارت میں ہی قدم رکھا ،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَإِنَّ إِخْوَتِی مِنَ المُهَاجِرِینَ كَانَ یَشْغَلُهُمْ صَفْقٌ بِالأَسْوَاقِ،وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِی ،فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا، وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا،وَكَانَ یَشْغَلُ إِخْوَتِی مِنَ الأَنْصَارِ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ،وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِینًا مِنْ مَسَاكِینِ الصُّفَّةِ،أَعِی حِینَ یَنْسَوْنَ

جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیرے مہاجرین بھائی بازارکی خریدوفروخت میں مشغول رہاکرتے تھےاور میں اپناپیٹ بھرنے کے بعدہمہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں موجود رہتاتھااس لئے جب یہ بھائی غیرحاضر ہوتے تو میں اس وقت بھی حاضررہتااورمیں (وہ باتیں آپ سے سن کر) یاد کرلیتاجسے ان حضرات کو(اپنے کاروبارکی مشغولیت کی وجہ سے یاتوسننے کاموقعہ نہیں ملتاتھایا)وہ بھول جایاکرتے تھے،اسی طرح میرے انصاری بھائی اپنے اموال( کھیتی اورباغوں )میں مشغول رہتے لیکن میں مساکین صفہ میں سے ایک مسکین آدمی تھااس لئے جب یہ حضرات انصاربھولتے تومیں اسے یادرکھتاتھا۔[23]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِینَ كَانَ یَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ یَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِی أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ كَانَ یَلْزَمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَیَحْضُرُ مَا لاَ یَحْضُرُونَ، وَیَحْفَظُ مَا لاَ یَحْفَظُونَ

ایک دوسری روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(واقعہ یہ ہے کہ)ہمارے مہاجرین بھائی توبازارکی خریدوفروخت میں لگے رہتے تھے اورانصاراپنی جائیدادودں میں مشغول رہتے اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھرکررہتا(تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بے فکررہے)اور(ان مجلسوں میں )حاضررہتاجن (مجلسوں ) میں دوسرے حاضرنہ ہوتے اوروہ (باتیں )محفوظ رکھتاجودوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔[24]

یَعْنِی أَنه كَانَ یلازم قانعا بالقوت لَا مشتغلاً بِالتِّجَارَة وَلَا بالزارعة

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی کھانے کے لیے جومل جاتا اسی پرقناعت کرتے ہوئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہتے تھے ،نہ کھیتی کرتے نہ تجارت۔[25]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معاش صرف زراعت وتجارت ہی پر موقوف ومنحصرنہیں تھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کسب حلال کی توفیق عطا فرمائی ، انہوں نے جس پیشہ سے رزق طیب حاصل ہو سکتاتھااسے اختیار کرلینے میں کسی قسم کاننگ و عار محسوس نہ کیا،کوئی محنت مزدوری میں مصروف ہے ،کوئی شہدکی مکھیوں کی نگہداشت کررہاہے اور کوئی چٹائیاں بن کر رزق حلال حاصل کررہا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کو فروغ دینے کی خاطر مدینہ منورہ میں جدید تجارتی منڈیاں قائم کیں جن میں کوئی محصول نہیں لیا جاتا تھا،

أَنَّ أَبَا أَسِیدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ إِلَى سُوقِ النَّبِیطِ، فَنَظَرَ إِلَیْهِ، فَقَالَ:لَیْسَ هَذَا لَكُمْ بِسُوقٍ ، ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى سُوقٍ فَنَظَرَ إِلَیْهِ، فَقَالَ:لَیْسَ هَذَا لَكُمْ بِسُوقٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى هَذَا السُّوقِ فَطَافَ فِیهِ ثُمَّ قَالَ: هَذَا سُوقُكُمْ، فَلَا یُنْتَقَصَنَّ، وَلَا یُضْرَبَنَّ عَلَیْهِ خَرَاجٌ

ابواسید سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق النبیط (نامی بازار) میں گئے اور اس میں خریداری کو (حال) دیکھا تو فرمایا یہ بازار تمہارے لئے (موزوں نہیں ) کیونکہ (یہاں دھوکہ بہت ہوتا ہے) پھر ایک اور بازار میں گئے اور وہاں بھی دیکھ بھال کی اور فرمایا یہ بازار بھی تمہارے لئے (موزوں ) نہیں ،پھر اس بازار میں آئے اور چکر لگایا پھر فرمایا یہ ہے تمہارا بازار (یہاں خرید و فروخت کرو) یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول مقرر نہ کیا جائے گا۔[26]

اورزریں اصولوں سے مسلمانوں کی تجارت میں تربیت فرمائی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا یَبِیعُ الرَّجُلُ عَلَى بَیْعِ أَخِیهِ، وَلَا یَسُومُ عَلَى سَوْمِ أَخِیهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پربیع نہ کرے اوراپنے بھائی کے نرخ چکانے پرنرخ نہ چکائے۔ [27]

عرب تاجرآگے بڑھ کربازارپہنچنے سے قبل ہی قافلہ والوں کاسامان خرید لیا کرتے تھے،بعض اوقات قافلہ والوں کواس سے نقصان پہنچ جاتااوربعض دفعہ اس سے شہروالوں کونقصان پہنچتااس کی وجہ یہ تھی کہ قافلہ والے توشہرپہنچ کرفوراً سامان فروخت کردیاکرتے تھے لیکن جولوگ آگے بڑھ کرسوداخریدلیتے تھے وہ جلدی فروخت نہیں کرتے تھے بلکہ سامان کی گرانی کے منتظررہاکرتے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:نَهَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّلَقِّی، وَأَنْ یَبِیعَ حَاضِرٌ لِبَادٍلَا یَبِیعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ

اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(تجارتی قافلوں سے)آگے بڑھ کرملنے سے(مال خریدنے سے) منع فرمایاہے(یہاں تک کہ وہ بازارمیں آئیں اورانہیں بازارکابھاؤمعلوم ہو) اوربستی والوں کوباہروالوں کامال بیچنے سے بھی منع فرمایا(یعنی اس کادلال نہ بنے)۔[28]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا یَبِیعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےشہروالاباہروالے کامال مت بیچے بلکہ اسے خودبیچنے دواگروہ سستابیچ ڈالے تواس کومنع نہ کرو۔[29]

عن ابن عباس قال: قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فإن الرزق عشرون بابا، تسعة عشر منها للتاجر، وباب واحد للصانع،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارزق بیس حصوں میں تقسیم کیا گیاجن میں سے انیس تجارت میں اور صرف ایک حصہ دوسری دستکاری اور صناعت میں ہے۔[30]

عن ابن عمر قال: سئل رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْكَسْبِ أَطْیَبُ؟ قَالَ: عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِهِ وَكُلُّ بَیْعٍ مَبْرُورٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ سے دریافت کیاکونسی کمائی زیادہ پاک اوراچھی ہے فریایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہرتجارت جوپاک بازی کے ساتھ ہو۔[31]

معاذ بن جبل:قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إنَّ أَطْیَبَ الكَسْبِ كَسْبُ التُّجارِ؛ الَّذینَ إذا حدَّثوا لَمْ یَكْذِبُوا، وإذا ائتُمِنوا لَمْ یَخُونوا، وإذا وَعَدوا لَمْ یُخْلفِوا، وإذا اشْتَرَوْا لَمْ یَذُمُّوا، وإذا باعوا لَمْ یَمْدَحوا، وإذا كان عَلَیْهِمْ لَمْ یَمْطُلوا، وإذا كان لَهُمْ لم یُعسِّروا

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابہترین کمائی ان تاجروں کی ہے جوجھوٹ نہیں بولتے ، امانت میں خیانت نہیں کرتے،وعدہ خلافی نہیں کرتے اورخریدتے وقت اس چیز کی برائیاں بیان نہیں کرتے (تاکہ بیچنے والاقیمت کم کر دے)جب خودبیچتے ہیں تو (بہت زیادہ ) تعریف نہیں کرتے اوراگران کے ذمہ کسی کاکچھ نکلتاہوتوٹال مٹول نہیں کرتے اوراگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتاہوتووصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔ [32]

حَكِیمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَفْتَرِقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِكَ فِی بَیْعِهِمَا وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَ بَرَكَةُ بَیْعِهِمَا

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیچنے والے اورخریدنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدانہ ہوں ،اگرسچ بولیں گے اورجوکچھ عیب ہواس کوبیان کردیں گے توان کے بیچنے میں برکت ہوگی، اور (قیمت میں )جوجھوٹ بولیں گے اورعیب چھپادیں گے توان کے بیچنے کی برکت جاتی رہے گی۔[33]

وَعَن عقبَة بن عَامر رَضِی الله عَنهُ عَن النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم قَالَ:الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیهِ بَیْعًا فِیهِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَهُ لَهُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے اورکسی مسلمان کودرست نہیں کہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی عیب دارچیزبیچے جب تک کہ اس کاعیب بیان نہ کردے۔[34]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:ثَلَاثَةٌ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَلَا یُزَكِّیهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ،فَقُلْتُ: مَنْ هُمْ؟ یَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا،قَالَ:الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ،وَالْمَنَّانُ عَطَاءَهُ،وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے بات نہیں کرے گانہ ان کی طرف دیکھے گانہ ان کوپاک کرے گااوران کے لئے دردناک عذاب ہے،میں نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جونقصان میں پڑے اورتباہ ہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ لوگ یہ ہیں جوکوئی اپنے ازارکو(ٹخنوں سے)نیچے لٹکائےاوروہ جوکسی کودے کراحسان جتلائے اورجوکوئی اپنے مال کوجھوٹی قسم کھاکرفروخت کرے۔[35]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والاتاجر نبیوں ، صدیقوں اورشہیدوں کے ساتھ ہو گا،

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِطَعَامٍ بِسُوقِ الْمَدِینَةِ فَأَعْجَبَهُ حُسْنُهُ، فَأَدْخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ فِی جَوْفِهِ، فَأَخْرَجَ شَیْئًا لَیْسَ كَالظَّاهِرِ، ثُمَّ قَالَ:لَا غِشَّ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی بازار کے پاس سے گزرے وہاں آپ نے غلہ پایا وہ آپ کو بہت پسند آیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے اندر داخل کیا تو اندر سے کچھ اناج نکلا جو باہر والے کی مانند نہیں تھا فَأَفَّفَ لِصَاحِبِ الطَّعَامِ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اناج کے مالک سے فرمایا تم پر افسوس ہے،پھر فرمایا مسلمانوں کے درمیان دھوکہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو شخص ہمیں دھوکہ دے گا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔[36]

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت، مقدس دعاؤں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راست شعاری اورمحنت کے باعث مہاجرین نے بہت جلد نجی معیشت کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کوبھی ترقی کی بام عروج تک پہنچا دیا ۔

وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ،قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنِّی أَكْثَرُ الأَنْصَارِ مَالًا، فَأَقْسِمُ مَالِی نِصْفَیْنِ، وَلِی امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَیْكَ فَسَمِّهَا لِی أُطَلِّقْهَافَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا، قَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِی أَهْلِكَ وَمَالِكَ، أَیْنَ سُوقُكُمْ؟ فَدَلُّوهُ عَلَى سُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعَ،فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، ثُمَّ تَابَعَ الغُدُوَّ،ثُمَّ جَاءَ یَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَهْیَمْ؟ قَالَ: تَزَوَّجْتُ،قَالَ:كَمْ سُقْتَ إِلَیْهَا؟ قَالَ: نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ،فَقَالَ:أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف سے کہامیں انصارمیں سب سے زیادہ مال دارہوں میں اپنے مال کے دوحصے کرتاہوں (ایک حصہ آپ لے لیں )میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھیں جوآپ کوپسندہواسے طلاق دے دوں پھرجب اس کی عدت پوری ہوجائے توآپ اس سے نکاح کرلیں ،سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کے ایثارو قربانی کاسن کر عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف بولےاے میرے بھائی اللہ تمہیں تمہارے اہل اورمال ودولت میں برکت عطافرمائے تمہارابازار کدھرہے ؟( مدینہ منورہ میں دو بازارتھے ایک بسوق زبالہ اوردوسراسوق بنی قینقاع )چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع نے انہیں سوق بنوقینقاع کا بازار(جووادی لبطحان میں بہت بڑابازارتھا) بتلادیا،پھروہ بازار سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک کچھ گھی اورپنیربطورنفع بچا نہیں لیا،تھوڑے ہی دنوں کے بعدوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے توان کے جسم پر (خوشبوکی ) زردی کا نشان تھا، نبی کریم ﷺنے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے عرض کیا میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کرلی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتم نے کتناحق مہراداکیاہے؟عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے عرض کیاسونے کی ایک گھٹلی یا(یہ کہاکہ)ایک گھٹلی کے وزن برابر سونا ادا کیا ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاولیمہ کرواگرچہ ایک ہی بکری ہو۔[37]

اسی ایثاروقربانی کامظاہرہ دوسرے انصاریوں نے بھی دکھایا ،بہرحال مہاجرین بازارمیں تجارت کرتے تھے اور انصار کھیتی باڑی وغیرہ کرتے تھے۔

چنانچہ انصارکی یہ بے مثال ہمدردی اورجذبہ ایثار دیکھ کر مہاجرین کوخوداندیشہ لاحق ہوگیاکہ ساراکاساراثواب انصارہی حاصل کرلیں گے،انہوں نے اپناخدشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیااورکہااے اللہ کےرسولﷺ!جس قوم پرہم آکراترے ہیں ان سے بڑھ کرکسی قوم کوہم نے ہمدرد،غمگسار،مخلص ،وفاشعاراورتنگی وفراغی ہرحال میں مددگار نہیں دیکھا ،ہمیں اندیشہ لاحق ہوگیاہے کہ سب اجرانہیں کومل جائے اورہم محروم رہے جائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسانہیں ہوگاان کے حسن سلوک کی بدولت تمہارا ان کے حق میں دعاکرناکسی قدرتلافی کردے گا(یعنی دعاکااحسان درہم ودینارکے احسان سے کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّضِیرِ لِلْأَنْصَارِ:إِنْ شِئْتُمْ قَسَمْتُمْ لِلْمُهَاجِرِینَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ وَدِیَارِكُمْ وَتُشَارِكُونَهُمْ فِی هَذِهِ الْغَنِیمَةِ، وَإِنْ شِئْتُمْ كَانَتْ لَكُمْ دِیَارُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ وَلَمْ یُقَسَمْ لَكُمْ شَیْءٌ مِنَ الْغَنِیمَةِ ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: بَلْ نَقْسِمُ لَهُمْ مِنْ أَمْوَالِنَا وَدِیَارِنَا وَنُؤْثِرُهُمْ بِالْغَنِیمَةِ وَلَا نُشَارِكُهُمْ فِیهَا،فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۸ۚوَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنی نضیرکے موقع پر انصار سے فرمایااگرتم چاہوتومہاجرین میں اپنے گھروں اورمالوں کوتقسیم کردواورمیں اس کے عوض جومال غنیمت مہاجرین میں تقسیم کرتاوہ تم میں تقسیم کردوں گا اور اگرتم پسندکروتو مہاجرین کومال غنیمت مل جائے اورتمہارے گھرباراورمال ودولت تمہارے پاس رہیں ،انصارنے عرض کیا ایسانہیں بلکہ ہم اپنے مہاجربھائیوں میں اپنے گھر اور اپنے اموال بھی تقسیم کردیں گے اورمال غنیمت میں بھی ان کے حصہ داربنیں گے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انصارکے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی،’’(نیز وہ مال) ان غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں (اور وہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دار الہجرت میں مقیم تھے یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دُوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘[38]

مہاجروانصارمیں میراث کاحکم غزوہ بدرکے بعدختم کردیاگیا اورحق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اورسابق حکم کومنسوخ کردیااوراس کے بعدمیراث کی حدتک بھائی چارہ کا تعلق منقطع ہوگیااورمیراث میں ہرشخص اپنے نسبی رشتہ تک محدود ہوگیا اور صرف اس کے ذوی الارحام ہی اس کے وارث قرارپائے۔

۔۔۔وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۷۵ۧ   [39]

ترجمہ: اورقرابت داراللہ کی کتاب کے مطابق باہم ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدارہیں ،بیشک اللہ ہرچیزکوخوب جانتاہے۔

وَأَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٩٥﴾‏ (البقرہ)
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالواورسلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کودوست رکھتاہے۔

لوگو!اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئےاپنے پاکیزہ مال اللہ کی راہ میں ضرورت مندرشتہ داروں ، مسکینوں ،یتیموں ،بیواؤں ،محتاجوں ،مسافروں اوراسیروں اوراللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جہادفی سبیل اللہ میں خرچ کرو اوردولت کی محبت میں مبتلاہوکراپنے ہاتھوں کومت روکواور اپنے آپ کو دنیاوآخرت میں خسارے میں نہ ڈالوبلکہ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے،اللہ تعالیٰ کی عبادت کواحسن طریقے سے اداکرنابھی احسان میں داخل ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:قَالَ:أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَاكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس نے پوچھااحسان کیاہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااحسان یہ ہے کہ تواس طرح اللہ کی عبادت کرے گویاتواسے دیکھ رہاہے اوراگریہ کیفیت پیدانہ ہوکہ تواسے دیکھ رہاہے تب وہ توتجھے دیکھ رہاہے۔[40]

جوکوئی ان صفات سے متصف ہوجاتاہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتاہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ۔۔۔[41]

ترجمہ:جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہو اور مزید فضل ۔

[1]صحیح بخاری کتاب أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ الزُّهْرِیِّ وَبَنُو زُهْرَةَ أَخْوَالُ ۳۷۲۸، صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب ، ابن سعد۱۰۴؍۳

[2]عیون الآثر۲۳۱؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۹۳؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۶۴؍۳

[3] الانفال ۷۲

[4] الحجرات۱۰

[5] فتح الباری ۲۷۰؍۷، شرح زرقانی علی المواہب ۱۹۲؍۲

[6] البدایة والنہایة ۲۷۸؍۳

[7] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، یُقَالُ وَلَهُ كُنْیَتَانِ: أَبُو تُرَابٍ، وَأَبُو الْحَسَنِ۳۷۲۰ ، مستدرک حاکم۴۲۸۹ ، البدایة والنہایة ۳۷۱؍۷

[8]میزان الاعتدال۵۸۳؍۱

[9] میزان الاعتدال۱۵۰؍۳

[10] میزان الاعتدال ۴۲۱؍۱

[11] میزان الاعتدال ۱۸۶؍۱

[12]میزان الاعتدال ۱۱۰؍۲

[13] تذکرة الموضوعات ۹۷

[14] السلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ۵۹۱؍۱۰

[15] میزان الاعتدال۴۲۱؍۱

[16] مستدرک حاکم۴۲۸۹

[17] البدایة والنہایة ۲۵۰؍۷

[18] وفاالوفائ۲۰۷؍۱

[19] زادالمعاد۵۹؍۳

[20] تاریخ مکة والمدینة ۳۴۹

[21] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ إِخَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ المُهَاجِرِینَ، وَالأَنْصَارِ ۳۷۸۲

[22] صحیح بخاری كِتَاب المُزَارَعَةِ بَابُ المُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ

[23] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِی الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ۲۰۴۷

[24] صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابُ حِفْظِ العِلْمِ۱۱۸

[25] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۸۲؍۲،شرح القسطلانی ۔إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری ۲۱۰؍۱، كوثَر المَعَانی الدَّرَارِی فی كَشْفِ خَبَایا صَحِیحْ البُخَاری۶۶؍۴

[26]سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ الْأَسْوَاقِ وَدُخُولِهَا۲۲۳۴

[27]سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ لَا یَبِیعُ الرَّجُلُ عَلَى بَیْعِ أَخِیهِ، وَلَا یَسُومُ عَلَى سَوْمِهِ۲۱۷۳

[28]صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ النَّهْیِ عَنْ تَلَقِّی الرُّكْبَانِ وَأَنَّ بَیْعَهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ صَاحِبَهُ عَاصٍ آثِمٌ إِذَا كَانَ بِهِ عَالِمًا وَهُوَ خِدَاعٌ فِی البَیْعِ، وَالخِدَاعُ لاَ یَجُوزُ۲۱۶۲،صحیح مسلم کتاب البیوع بَابُ تَحْرِیمِ بَیْعِ الرَّجُلِ عَلَى بَیْعِ أَخِیهِ، وَسَوْمِهِ عَلَى سَوْمِهِ، وَتَحْرِیمِ النَّجْشِ، وَتَحْرِیمِ التَّصْرِیَةِ ۳۸۱۵،سنن نسائی كِتَابُ الْبُیُوعِ بَیْعُ الْحَاضِرِ لِلْبَادِی۴۵۰۱

[29] سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ النَّهْیِ أَنْ یَبِیعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ۲۱۷۶

[30] کنزالعمال ۱۲۸؍۴

[31] کنز العمال ۱۲۴؍۴

[32] ضَعیفُ التَّرْغِیب وَالتَّرْهِیب۱۱۱۱

[33] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ إِذَا بَیَّنَ البَیِّعَانِ وَلَمْ یَكْتُمَا وَنَصَحَا ۲۰۷۹،سنن نسائی کتاب البیوع باب مَا یَجِبُ عَلَى التُّجَّارِ مِنَ التَّوْقِیَةِ فِی مُبَایَعَتِهِمْ۴۴۶۲، مسند احمد ۱۵۳۱۴،سنن الدارمی۲۵۸۹

[34] صَحِیحُ التَّرْغِیب وَالتَّرْهِیب۱۷۷۵،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَنْ بَاعَ عَیْبًا فَلْیُبَیِّنْهُ۲۲۴۷

[35] سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب ماجاءفی کراھیة الایمان فی الشراءوالبیع۲۲۰۹

[36] سنن الدارمی ۲۵۸۳، سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْغِشِّ ۲۲۲۶

[37]صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ إِخَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ المُهَاجِرِینَ، وَالأَنْصَارِ۳۷۸۰ ، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ، وَجَوَازِ كَوْنِهِ تَعْلِیمَ قُرْآنٍ، وَخَاتَمَ حَدِیدٍ، وَغَیْرَ ذَلِكَ مِنْ قَلِیلٍ وَكَثِیرٍ، وَاسْتِحْبَابِ كَوْنِهِ خَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَنْ لَا یُجْحِفُ بِهِ۳۴۹۰

[38] تفسیر الثعلبی۲۸۰؍۹، تفسیرالبغوی۷۷؍۸، تفسیرالزمحشری۵۰۵؍۴، تفسیرالرازی۵۰۸؍۲۹

[39]الانفال ۷۵

[40] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ۵۰

[41] یونس۲۶

Related Articles