ہجرت نبوی کا پہلا سال

میثاق مدینہ منورہ

مدینہ منورہ میں مختلف النسل لوگ آبادتھے،ان کے مذاہب بھی جداجداتھے،یہودی ایک عرصہ درازسے یہاں آباد تھے مگراوس وخزرج کے مقابلے میں اقلیت میں تھے مگران کے متعدد قبائل جومدینہ وخیبرمیں رہتے تھے بہت طاقتوارتھے اورمتعدد جداگانہ قلعوں میں رہا کرتے تھے،یہودی اہل کتاب تھے ،خیبرمیں ان کے مدرسے اورعلمی مراکزتھے جن کوبیت المدارس کہا جاتا تھاجن میں ابوسفیان بن امیہ بن عبدالشمس ،بشیربن عبدالملک السکونی ،ابی قیس بن عبدمناف بن زہرہ اورعمروبن زرارہ المعروف الکاتب جیسے مشہور ،تجربہ کاراوربلندپایہ اساتذہ تعلیم پرمامورتھے۔ان کی تعلیمی درگاہوں میں تورات کی تعلیم کے علاوہ لکھنے پڑھنے کی تربیت کا بھی انتظام تھا

كان الكتاب بالعربیة فی الأوس والخزرج قلیلا، وكان بعض الیهود قَدْ علم كتاب العربیة، وكان تعلمه الصبیان بالمدینة فی الزمن الأول فجاء الإسلام وفی الأوس والخزرج عدة یكتبون وهم سَعْد بْن عبادة بْن دلیم والمنذر بْن عَمْرو وأبی بْن كعب وزید بْن ثابت، فكان یكتب العربیة والعبرانیة ورافع بْن مَالِك وأسید بْن حضیر ومعن بْن عدی البلوى حلیف الأنصار وبشیر بْن سَعْد وسعد بْن الربیع وأوس بْن خولى وعبد الله بن أبى المنافق.سوید بْن الصامت

جبکہ انصار میں تحریر و کتابت اورعلم وادب کارواج مکہ والوں سے بھی کم تھاالبتہ اسلام سے کچھ پہلے مدینہ منورہ کے بچے تحریرواملاء کافن سیکھتے تھے،اس لئے جب اسلام آیاتواوس وخزرج کے متعدد لوگ لکھاپڑھناجانتے تھے،جیسے سعدبن عبادہ،منذربن عمرو،ابی بن کعب،زیدبن ثابت عربی اور عبرانی کی کتابت کیا کرتے تھے،رافع بن مالک،اسیدبن حضیر،معین بن عدی انصار کے حلیف، بشیر بن سعد،سعدبن ربیع،اوس بن خولی،عبداللہ بن ابی منافق، سوید بن الصامت۔[1]

رسول اللہ ﷺماہ ربیع الاول سے ماہ صفرتک مسجدنبوی کی تعمیر میں مصروف رہے،پھرآپ ﷺنے یثرب کے حالات کے پیش نظر یہ مناسب خیال فرمایاکہ

۱۔اپنے اورمقامی باشندوں کے حقوق وفرائض کاتعین کیاجائے۔

۲۔شہرکے غیرمسلم عربوں اورخاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ کیاجائے ۔

۳۔شہرکی سیاسی تنظیم اورفوجی مدافعت کااہتمام کیاجائے۔

تاکہ یثرب کوشہری مملکت قراردے کراس کے انتظام کادستورمرتب کیاجائے جس کی روشنی میں مختلف نسلوں اوران کے جداگانہ مذاہب کے اختلاف میں کوئی فتنہ وفسادنہ پھیلا سکے اور قومیت کی وحدت قائم رہے اورسب کوتہذیب وتمدن میں ایک دوسرے کی مددواعانت حاصل رہے۔

کیونکہ اسلام ابھی کمزورتھااس لئے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے مذہبی وسیاسی اقتدارکوتسلیم نہیں کیامگر اوس وخزرج کے اشخاص متعلقہ سے گفت وشنیدکے بعدیہ معاہدہ لکھاگیا ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبیّ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ مِنْ قُرَیْشٍ وَیَثْرِبَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ فَلَحِقَ بِهِمْ وَجَاهَدَ مَعَهُمْ

یہ تحریرنبی امی محمد(ﷺ)نے مدینے کے مومن ومسلم انصاراورمکے کے مسلم ومومن مہاجرین کے لئے بطورشرائط مواخاة اسلامی یادداشت کی صورت میں لکھائی ہے۔

 إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ

xتمام(دنیاکے)لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت(امت )ہوگی۔

 الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَى رِبْعَتِهِمْ یَتَعَاقَلُونَ بینهم، وهم یفدون عانیهم بالمعروف والقسط بین المؤمنین

xقریش سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اوراپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے اوراپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائیں گے تاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کاہو۔

وبنو عوف على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی عوف اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو الحرث على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی الحارث بن خزرج اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کر چھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو ساعدة على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

x اوربنی ساعدہ اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو جشم على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی جشم اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو النجار على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

x اوربنوالنجار اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو عمرو بن عوف على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی عمروبن عوف اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو النبیت على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی النبیت اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کا ہو۔

وبنو أوس على ربعتهم یتعاقبون مَعَاقِلَهُمُ الْأَوْلَى، وَكُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِی عَانِیَهَا بِالْمَعْرُوفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ

xاوربنی الاوس اپنے محلے پر(ذمہ دار)ہوں گے اورحسب سابق اپنے خون بہاباہم مل کردیاکریں گے،اورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخودفدیہ دے کرچھڑائے گاتاکہ

ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف ہو۔

وَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ لَا یَتْرُكُونَ مفرحا بینهم وان یعطوه بالمعروف فی فداء أو عقل

xاورایمان والے کسی قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے کومدددیئے بغیرچھوڑنہ دیں گے تاکہ ایمان والوں کاباہمی برتاؤنیکی اورانصاف کاہو۔

وَلَا یُحَالِفُ مُؤْمِنٌ مَوْلَى مُؤْمِنٍ دُونَهُ

xاوریہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولا(معاہداتی بھائی)سے خودمعاہدہ برادری نہیں پیداکرے گا۔

وَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ الْمُتَّقِینَ عَلَى مَنْ بَغَى مِنْهُمْ أَوِ ابْتَغَى، دَسِیعَةَ ظُلْمٍ أَوْ إِثْمٍ أَوْ عُدْوَانٍ أَوْ فَسَادٍ بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ وَإِنَّ أَیْدِیَهُمْ عَلَیْهِ جمیعاً وَلَوْ كَانَ وَلَدَ أَحَدِهِمْ

x اورمتقی ایمان والوں کے ہاتھ ہراس شخص کے خلاف اٹھیں گے جوان میں سرکشی کرے یااستحصال بالجبرکرناچاہے یاگناہ یاتعدی کاارتکاب کرے،یاایمان والوں میں فسادپھیلاناچاہے اوران کے ہاتھ سب مل کرایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے ،خواہ وہ ان میں سے کسی کابیٹاہی کیوں نہ ہو۔

وَلَا یَقْتُلُ مُؤْمِنٌ مؤمناً فی كافر ولا ینصر كافرا عَلَى مُؤْمِنٍ

xاورکوئی ایمان والاکسی ایمان والے کوکسی کافرکے بدلے قتل نہ کرے گااورنہ کسی کافرکی کسی ایمان والے کے خلاف مددکرے گا۔

وَإِنَّ ذِمَّةَ اللهِ وَاحِدَةٌ: یُجِیرُ عَلَیْهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ بَعْضُهُمْ مَوَالِی بَعْضٍ دون الناس

xاوراللہ کاذمہ ایک ہی ہے،ان(مسلمانوں )کاادنیٰ ترین فردبھی کسی کوپناہ دے کرسب پرپابندی عائدکرسکے گا،اورایمان والے باہم بھائی بھائی ہیں (ساری دنیا کے ) لوگوں کے مقابل۔

وإن مَنْ تَبِعَنَا مِنْ یَهُودَ فَإِنَّ لَهُ النَّصْرَ والأسوة غیر مظلومین ولا تناصر عَلَیْهِمْ

xاوریہ کہ یہودیوں میں سے جوہماری اتباع کرے گاتواسے مدداورمساوات حاصل ہوگی،نہ ان پرظلم کیاجائے گااورنہ ان کے خلاف کسی کومدددی جائے گی۔

وَإِنَّ سِلْمَ الْمُؤْمِنِینَ وَاحِدَةٌ: لَا یُسَالِمُ مُؤْمِنٌ دُونَ مُؤْمِنٍ فِی قِتَالٍ فِی سَبِیلِ اللهِ إِلَّا عَلَى سَوَاءٍ وَعَدْلٍ بَیْنَهُمْ

xاورایمان والوں کی صلح ایک ہی ہوگی،اللہ کی راہ میں لڑائی ہوتوکوئی ایمان والاکسی دوسرے ایمان والے کوچھوڑکر(دشمن سے)صلح نہیں کرے گا،جب تک کہ(یہ صلح)ان سب کے لئے برابراوریکساں نہ ہو۔

وَإِنَّ كُلَّ غَازِیَةٍ غَزَتْ مَعَنَا یُعْقِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا

xاوران تمام ٹکڑیوں کوجوہمارے ہمراہ جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت چھٹی دلائی جائے گی۔

وإن المؤمنین یبئ بعضهم على بعض بِمَا نَالَ دِمَاءَهُمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ الْمُتَّقِینَ عَلَى أَحْسَنِ هُدًى وَأَقْوَمِهِ

xاورایمان والے باہم اس چیزکاانتقام لیں گے جواللہ کی راہ میں ان کے خون کوپہنچے،اوربے شبہ متقی ایمان والے سب سے اچھے اورسب سے سیدھے راستے پرہیں ۔

وَإِنَّهُ لا یجبر مُشْرِكٌ مَالًا لِقُرَیْشٍ وَلَا نَفْسًا وَلَا یَحُولُ دُونَهُ عَلَى مُؤْمِنٍ

xاوریہ کہ کوئی مشرک(غیرمسلم رعیت)قریش کی جان اورمال کوکوئی پناہ نہ دے گااورنہ اس سلسلے میں کسی مومن کے آڑے آئے گا۔

وَإِنَّهُ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَیِّنَةٍ فَإِنَّهُ قَوَدٌ بِهِ إِلَّا أن یرضى ولی القتول، وَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیْهِ كَافَّةً وَلَا یَحِلُّ لَهُمْ إِلَّا قِیَامٌ عَلَیْهِ

xاورجوشخص کسی مومن کوعمداقتل کرے اورثبوت پیش ہوتواس سے قصاص لیاجائے گابجزاس کے کہ مقتول کاولی خون بہاپرراضی ہوجائے ،اورتمام ایمان والے اس کی تعمیل کے لئے اٹھیں گے،اوراس کے سوائے انہیں کوئی اورچیزجائزنہ ہوگی۔

وَإِنَّهُ لَا یَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ أَقَرَّ بِمَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ وَآمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أن ینصر محدثا ولایأویه وَإِنَّهُ مَنْ نَصَرَهُ أَوْ آوَاهُ فَإِنَّ عَلَیْهِ لَعْنَةَ اللهِ وَغَضَبَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ

xاورکسی ایسے ایمان والے کے لئے جواس دستورالعمل (صحیفہ)کے مندرجات (کی تعمیل)کااقرارکرچکااوراللہ اوریوم آخرت پرایمان لاچکاہو،یہ بات جائزنہ ہوگی کہ کسی بدعتی کومددیاپناہ دے،اورجواسے مددیاپناہ دے گاتوقیامت کے دن اس پراللہ کی لعنت اورغضب نازل ہوں گے اوراس سے کوئی رقم یامعاوضہ قبول نہ ہوگا۔

وَإِنَّكُمْ مَهْمَا اخْتَلَفْتُمْ فیه من شئ فإن مرده إلى الله عزوجل وَإِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

xاوریہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیزکے متعلق اختلاف ہوتواسے اللہ اورمحمد ﷺسے رجوع کیاجائے گا۔

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِیهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ یَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ ‎﴿١٩٧﴾‏(البقرہ)
حج کے مہینے مقرر ہیں اس لیے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے، اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔

وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا: أَشْهُرُ الحَجِّ: شَوَّالٌ، وَذُو القَعْدَةِ، وَعَشْرٌ مِنْ ذِی الحَجَّةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج کے لئے معلوم ومعروف مہینے شوال،ذوالقعدہ اورذوالحجہ کے پہلے دس دن مقرر ہیں ۔[2]

اس لئے اس کااحرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھناجائزنہیں ہے ،چونکہ ایام جاہلیت میں عرب کسب معاش کودنیاداری کافعل تصورکرتے تھے اس لئے دوران سفر حج کسب معاش کاارتکاب مذموم سمجھتے تھےجس کی وجہ سے حج کی حیثیت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے بجائے ایک میلہ سے زیادہ نہیں رہی تھی،جس میں مختلف جگہوں سے بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوجاتے ،بعض لوگ عکاظ اور ذوالمجار میلوں میں تجارت کے لئے آتے تھے ،کیونکہ حج اورتجارت کا الگ الگ سلسلہ تھااس لئے ان بیوپاری حضرات کو حج سے کوئی سروکارنہ ہوتاتھابس ان کی آمدسے ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ،ان لوگوں کی وجہ سے حج میں ننگی ہوکرطواف کرنے والی عورتوں سے چھڑخانی ہوتی ، لوگوں کابے ہنگم شوروغل،دھکم پھیلی اورلڑائی جھگڑے ہوتے،مگراسلام نے کسب معاش اورحج کو یکجا کردیااورتمام بیہودہ افعال کی سخت ممانعت فرمادی ،فرمایاجو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کااحرام باندھے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کسی طرح کی کوئی شہوانی فعل ، کوئی بد عملی ، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سر زرد نہ ہواور جو نیک کام تم کرو گے وہ اللہ کے علم میں ہو گا،باالفاظ دیگرحج میں شہوت پرستی اورگناہ وفساد جیسے واقعات رونماہوں گے توپھرحج حج نہیں رہے گا،

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ یَرْفُثْ، وَلَمْ یَفْسُقْ، رَجَعَ كَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناجس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اورفسق وفجور سے بچاوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھاجب اسے اس کی ماں نے جناتھا۔[3]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الیَمَنِ یَحُجُّونَ وَلاَ یَتَزَوَّدُونَ، وَیَقُولُونَ: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى:وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےاہل یمن کاایک نرالادستورتھاکہ جب وہ حج کی نیت سے بیت اللہ کی طرف سفرکرتے توسفرکے لئے کوئی زادراہ لے کرنہیں چلتے تھے ،زادراہ کوساتھ لے کرچلنے کووہ دنیادرانہ فعل تصورکرتے تھے، ان کا خیال تھاکہ وہ متوکل علی اللہ ہیں ، اللہ کے گھرکی طرف جارہے ہیں پھردنیاوی سامان ساتھ کیوں لیں چنانچہ مکہ میں پہنچ جاتے توبھیگ مانگ کرگزارہ کرتے،اللہ نے ان کے اس طریقہ کی نفی فرمائی اور تعلیم فرمائی ’’ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زادِ راہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اورپاکیزہ زندگی ہے۔‘‘[4]

پس اے ہوشمندو ! اللہ کے عذابوں اوراس کی گرفت سے ڈرو اور اس کے احکامات کی نافرمانی سے پرہیز کرو۔

لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّینَ ‎﴿١٩٨﴾‏ ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٩٩﴾‏ فَإِذَا قَضَیْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ‎﴿٢٠٠﴾‏ وَمِنْهُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿٢٠١﴾‏ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿٢٠٢﴾‏(البقرة)
’’تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے،پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے،پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھےبلکہ اس سے بھی زیادہ ، بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے، ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں، اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے،یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ ‘‘

اہل عرب کاایک جاہلانہ عقیدہ یہ تھاکہ وہ سفرحج کے دوران تجارت کومذموم سمجھتے تھے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَتْ عُكَاظُ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ أَسْوَاقًا فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ یَتَّجِرُوا فِی المَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ}[5]. فِی مَوَاسِمِ الحَجِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےعکاظ،مجنہ اورذوالمجاززمانہ جاہلیت کے بازارتھے،لوگوں نے موسم حج میں تجارت کرنے کوگناہ سمجھاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ نازل فرمائی۔[6]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ: كَانُوا یَتَّقُونَ الْبُیُوعَ، وَالتِّجَارَةَ أَیَّامَ الْمَوْسِمِ، یَقُولُونَ أَیَّامَ ذِكْرٍ، فَأَنْزَلَ اللهُ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} فَحُجُّوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک اورروایت میں ہے لوگ موسم حج میں خریدوفروخت اورتجارت سے اجتناب کیاکرتے تھے کہ یہ ذکرالٰہی کے دن ہیں تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔‘‘نازل فرمائی۔[7]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ التَّیْمِیِّ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: أِنَّا نُكْرِی، فَهَلْ لَنَا مِنْ حَجٍّ؟ قَالَ: أَلَیْسَ تَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ؟ وَتَأْتُونَ الْمُعَرَّفَ؟ وَتَرْمُونَ الْجِمَارَ وَتَحْلِقُونَ رُءُوسَكُمْ؟ قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الَّذِی سَأَلْتَنِی، فَلَمْ یُجِبْهُ حَتَّى نَزَلَ عَلَیْهِ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِهَذِهِ الْآیَةِ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} فَدَعَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:أَنْتُمْ حُجَّاجٌ

ابوامامہ تیمی سے مروی ہےمیں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ہم لوگ کرایہ پر چیزیں لیتے دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہو جائے گا؟ انہوں نے فرمایا کیا تم بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے؟ کیا تم میدان عرفات نہیں جاتے؟کیا تم جمرات کی رمی اور حلق نہیں کرتے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ! عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ایک آدمی نے آ کر یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہ دیا یہاں تک کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے کہ’’ تم پر کوئی حرج نہیں ہے اس بات میں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ نبی کریم ﷺنے اسے بلا کر جواب دیا کہ تم حاجی ہو۔[8]

عَنْ أَبِی صَالِحٍ، مَوْلَى عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، كُنْتُمْ تَتَّجِرُونَ فِی الْحَجِّ؟ قَالَ: وَهَلْ كَانَتْ مَعَایِشُهُمْ إِلَّا فِی الْحَجِّ

ابوصالح مولیٰ سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیااے امیرالمومنین!کیاآپ حضرات حج میں تجارت کیاکرتے تھے؟ آپ نے فرمایاکہ لوگوں کی معیشت کاانحصارحج کی تجارت ہی پرتوتھا[9]

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی تردید فرمائی کہ اگر حج کے ساتھ ساتھ تم تجارت بھی کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،اور نوذوالحجہ کوزوال آفتاب سے غروب شمس تک جب عرفات سے چلو تو مشعر حرام ( مزدلفہ ) کے پاس ٹھیر کر مغرب کی تین رکعات اورعشاکی دورکعت (قصر)جمع کرکے ایک اذان اوردواقامت کے ساتھ نمازپڑھو اوررات یہاں گزارکرفجرکی نمازاول وقت میں پڑھ کرطلوع آفتاب تک اللہ کے ذکرمیں مصروف رہو،

ابْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِیِّ فِی اسْتِغْفَارِهِ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، لِأُمَّتِهِ عَشِیَّةَ عَرَفَةَ

عبداللہ بن عباس بن مرداس سلمی سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے عرفہ کے دن شام کے وقت اپنی امت کے لئے استغفارکیا۔[10]

اورطلوع آفتاب کے بعدمنی ٰجاؤ،مذکورہ بالاترتیب کے مطابق عرفات جانااوروہاں وقوف کرکے واپس آناضروری ہے ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:كَانَتْ قُرَیْشٌ وَمَنْ دَانَ دِینَهَا یَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا یُسَمَّوْنَ الحُمْسَ، وَكَانَ سَائِرُ العَرَبِ یَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ أَمَرَ اللهُ نَبِیَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْتِیَ عَرَفَاتٍ، ثُمَّ یَقِفَ بِهَا، ثُمَّ یُفِیضَ مِنْهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکیونکہ عرفات حرم سے باہرہے اس لئے قریش اوران کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب(بنی خزاعہ ،بنی کنانہ اورقریش کے دوسرے حلیف فخروتکبراورنشان امتیازکے طورپر عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ) مزدلفہ میں ہی وقوف کیاکرتے تھے اس کانام انہوں نے الحمس رکھاتھا(یعنی کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں ،اسی کے شہرکے رئیس ہیں اوراس کے گھرکے مجاورہیں )جب اسلام آیاتواللہ تعالیٰ نے فخروغرورکے اس بت کوتوڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرمایاتم میں اوردوسرے لوگوں میں کوئی امتیازنہیں ،مناسک حج سب لوگوں کے لئے یکساں ہےلہذاجیسے دوسرے لوگ عرفات سے لوٹ کر آتے ہیں تم بھی وہیں سے لوٹ کر آؤ ۔[11]

جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:قَالَ: أَضْلَلْتُ بَعِیرًا لِی فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ یَوْمَ عَرَفَةَ، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفَةَ، فَقُلْتُ:هَذَا وَاللهِ مِنَ الحُمْسِ فَمَا شَأْنُهُ هَا هُنَا

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرا اونٹ گم ہوگیا تھامیں نے عرفہ کے دن اس کو ڈھونڈنے نکلا، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں کھڑے ہوئے دیکھامیں نے کہا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو واللہ قریش میں سے ہیں پھر ان کا یہاں کیا کام ہے ۔[12]

(اور سنت ابراہیمی کی جوتم خلاف ورزی کرتے رہے ہو)اس پراللہ غفورورحیم سے معافی مانگو ، یقیناً وہ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے،

 شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَیِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی، فَإِنَّهُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، قَالَ:وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ یَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ یُمْسِیَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّیْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ یُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ

شدادبن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم ﷺکاارشاد ہے کہ تمام استغفاروں کا سرداریہ استغفارہےاے اللہ!تومیرارب ہے ،تیرے سواکوئی معبودنہیں ، تونے ہی مجھے پیدا کیا اورمیں تیراہی بندہ ہوں ، میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدہ پرقائم ہوں ، ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں ،مجھ پرنعمتیں تیری ہیں اس کااقرارکرتاہوں ، میری مغفرت کردے کہ تیرے سوا اورکوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا،اور فرمایاجوشخص اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو دن کے وقت پڑھ لے اگراسی دن فوت ہوجائے توقطعاًجنتی ہوگااورجوشخص اسے رات کے وقت پڑھے گااوراسی رات فوت ہوگاتوبھی وہ جنتی ہے۔[13]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِی دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِی صَلاَتِی، قَالَ:قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا كَثِیرًا، وَلاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِی إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺسے عرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!مجھے کوئی دعاسکھائیں جو میں نمازمیں پڑھا کروں ، آپ ﷺنے فرمایا پڑھو’’اے اللہ!میں نے اپنی جان پر(گناہ کرکے)بہت زیادہ ظلم کیاہے پس گناہوں کو تیرے سواکوئی دوسرامعاف کرنے والا نہیں مجھے اپنے پاس سے بھرپورمغفرت عطافرمااورمجھ پررحم کرکہ مغفرت کرنے والااوررحم کرنے والابے شک وشبہ توہی ہے۔‘‘ [14]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ یَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ:اللهُمَّ فَإِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، اللهُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِی مِنَ الْخَطَایَا، كَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللهُمَّ فَإِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْمَأْثَمِ، وَالْمَغْرَمِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ ﷺیہ دعاکیاکرتے تھے’’اےاللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے فتنہ سے،جہنم کے عذاب سےاورقبرکے فتنہ سے اورقبرکے عذاب سے اورامیری کے فتنہ سے اورفقیری کے فتنہ سے اورمیں تیری پناہ مانگتاہوں دجال مسیح کے فتنہ شرسے،اےاللہ !میرے گناہوں کودھودے برف سے اوراولے کے پانی سے اورمیرادل گناہوں سے پاک کردے جیسے تونے سفیدکپڑے کومیل کچیل سےپاک کردیااورمجھ سے گناہوں کو دور کردے جیسے تونے مشرق کومغرب کو(پورب کوپچھم سے)دورکیا، یااللہ!میں تجھ سے پناہ مانگتاہوں سستی،بڑھاپے،گناہ اورقرضداری سے۔‘‘[15]

وَقَالَ الْأَوْزَاعِیُّ: قَالَ إِبْلِیسُ لِأَوْلِیَائِهِ مِنْ أی شی تأتون بنى آدم؟ فقالوا: من كل شی، قَالَ: فَهَلْ تَأْتُونَهُمْ مِنْ قِبَلِ الِاسْتِغْفَارِ؟ قَالُوا: هیهات! ذلك شی قُرِنَ بِالتَّوْحِیدِ، قَالَ: لَأَبُثَّنَّ فِیهِمْ شَیْئًا لَا یَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ مِنْهُ، قَالَ: فَبَثَّ فِیهِمُ الْأَهْوَاءَ

امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایاابلیس نے اپنے دوستوں سے کہاتم کس راستے سے ابن آدم کے پاس جاتے ہو؟ انہوں نے کہاہرراستے سے،ابلیس نے کہاکیاتم ان کے پاس استغفارکی طرف سے بھی جاتے ہو؟ انہوں نے کہا افسوس ہے کہ یہ ایسی چیزہے جوتوحیدکے ساتھ ہی ملائی ہوئی ہے، ابلیس نے کہامیں لوگوں کے درمیان ایسی چیزپھیلاؤں گاجس کی وجہ سے وہ اللہ سے استغفارنہیں کریں گے، راوی کہتے ہیں پھراس نے لوگوں میں خواہشات کو پھیلا دیا۔[16]

عن الاعمش عن مجاہدقال مااردی ای النعمتین علی اعظم ان ھدانی للاسلام اوعافانی من ھذاالاھواء

اعمش بیان کرتے ہیں کہ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا میں نہیں جانتاکہ مجھ پردونعمتوں میں سے کون سی نعمت بڑی ہے ؟اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی یاان خواہشات سے نجات دی۔[17]

اہل عرب حج سے فراغت کے بعدمنیٰ میں میلہ لگاتے اوراپنے آباؤاجدادکے کارناموں کاذکر کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوحکم فرمایاکہ جب تم دس ذوالحجہ کوکنکریاں مارنے ، قربانی کرنے ، سرمنڈانے ،طواف کعبہ اورسعی صفاومروہ سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے بعدجوتین دن منیٰ میں قیام کرتے ہو تویہاں اپنے آباؤاجدادکے فخروامتیازکی جاہلانہ باتیں کرنے کے بجائےاللہ تعالیٰ کی بزرگیاں ، بڑائیاں ، عظمتیں اورعزتیں بیان کرو کیونکہ یہ دعاکی قبولیت کا موقعہ ہے اس لئے بکثرت اللہ کاذکرکرو،مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہےان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے ،کیونکہ ایسے شخص کوآخرت سے کوئی رغبت نہیں ہے اس لئے ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ قَوْمٌ مِنَ الْأَعْرَابِ یَجِیئُونَ إِلَى الْمَوْقِفِ، فَیَقُولُونَ: اللهُمَّ اجْعَلْهُ عَامَ غَیث وَعَامَ خصْب وَعَامَ وَلَادٍ حَسَنٍ. لَا یَذْكُرُونَ مِنْ أَمْرِ الْآخِرَةِ شَیْئًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بعض اعراب یہاں ٹھیرکرصرف یہی دائیں مانگتے تھے کہ الٰہی اس سال بارشیں اچھی برساتاکہ غلے اچھے پیدا ہوں ، اولادیں بکثرت ہوں مگرآخرت کی بھلائی کے لئے کوئی دعا نہیں کرتے تھے۔[18]

اور کوئی دنیاطلب کرنے کے بجائے دونوں جہانوں کی بھلائی طلب کرتاہے اور کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلا ئی دے اور آخرت میں بھی بھلائی نصیب فرما اورجہنم کی آگ کے عذاب سے ہمیں بچا،یعنی ’’حَسَنَةً ‘‘میں دنیاکے اعتبارسے نیک عمل ،نیک اولاد،وسعت رزق ،علم نافع اورصحت وعافیت وغیرہ سب شامل ہیں صرف ایک لفظ ’’حَسَنَةً ‘‘کہہ کردنیاکی تمام بھلائیاں طلب کرلیں اورآخرت کے لیے یہی لفظ بول کرجنت طلب کرلی اورآخرت کی گھبراہٹ سے امن وسلامتی اورحساب وکتاب کی آسانی بھی طلب کرلی نیزآگ کے عذاب یعنی جہنم کے عذاب سے پناہ کی درخواست بھی کردی گویااس مختصرمگرجامع دعامیں دنیاوآخرت کی ساری نعمتیں مانگ لیں اوردوزخ کے عذاب سے پناہ ونجات طلب کرلی ۔

حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ یَعْنِی أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ:مَنْ أُعْطِیَ قَلْبًا شَاكِرًا وَلِسَانًا ذَاكِرًا وَجَسَدًا صَابِرًا، فَقَدْ أُوتِیَ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً، وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَوُقِیَ عَذَابَ النَّارِ

قاسم بن عبدالرحمٰن جن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے نے کہاہے کہ جسے شکرکرنے والادل،ذکرکرنے والی زبان اورصبرکرنے والاجسم مل گیاتواسے دنیاوآخرت کی بہتری وبھلائی مل گئی اوروہ جہنم کے عذاب سے بھی بچالیاجائے گا۔[19]

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اگرآخرت کو سنوارناہے تودنیاکاستیاناس کرناپڑے گااور اگردنیاکو سنوارنا ہے توآخرت کوفراموش کرناپڑے گا،لیکن یہ مفروضہ ایک بہت بڑا دھوکا ہےکیونکہ وہ دنیادنیاہی نہیں جس میں دین نہیں اوراسی طرح وہ دین دین نہیں جودنیاسے کٹا ہوا ہو،وہ رہبانیت ہوگالہذا سچی بات یہ ہے کہ آخرت اسی دنیاکے ذریعے سے ہی بنتی ہے،جیسے ارشادباری تعالیٰ ہے

وَابْتَغِ فِــیْمَآ اٰتٰىكَ اللهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا۔۔۔ ۝۷۷ [20]

ترجمہ:جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔

طواف کے دوران لوگ ہر چکر کی الگ الگ خودساختہ دعاپڑھتے ہیں جبکہ طواف کے وقت رکن یمانی اورحجراسودکے درمیان یہی دعا

۔۔۔رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۲۰۱ [21]

ترجمہ: اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

مسنون عمل ہے،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ(بکثرت یہ) دعاکرتے تھے’’ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلا ئی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘[22]

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ قَدْ خَفَتَ فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ كُنْتَ تَدْعُو بِشَیْءٍ أَوْ تَسْأَلُهُ إِیَّاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أَقُولُ: اللهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِی بِهِ فِی الْآخِرَةِ، فَعَجِّلْهُ لِی فِی الدُّنْیَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللهِ لَا تُطِیقُهُ – أَوْ لَا تَسْتَطِیعُهُ – أَفَلَا قُلْتَ: اللهُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالَ: فَدَعَا اللهَ لَهُ، فَشَفَاهُ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی عیادت کی جوبیماری سے چوزے کی طرح ( بہت ضعیف وناتواں ) ہوگیاتھا،رسول اللہ ﷺنے اس سے فرمایا تو کیا دعا کیا کرتا تھا یااللہ تعالیٰ سے سوال کیا کرتا تھا؟وہ بولاہاں میں یہ کہاکرتاتھااےاللہ!جوکچھ تونے مجھ کوآخرت میں عذاب کرنے والاہے وہ دنیاہی میں کر لے،رسول اللہ ﷺنے فرمایاسبحان اللہ !تجھے اتنی طاقت کہاں ہے کہ اللہ کا عذاب اٹھاسکے،تونے یہ کیوں نہیں کہااللہ مجھ کودنیامیں بھی بھلائی دے اورآخرت میں بھی بھلائی دے اورمجھ کوجہنم کے عذاب سے بچالے،پھرآپ ﷺنے اللہ عزوجل سے اس کے لئے دعا کی اور اللہ نے اسے اچھاکردیا۔[23]

ایسے لو گ اپنی کمائی کے مطابق دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَجَرْتُ نَفْسِی مِنْ قَوْمٍ فَتَرَكْتُ لَهُمْ بَعْضَ أَجْرِیَ لِیُخَلُّوا بَیْنِی، وَبَیْنَ الْمَنَاسِكِ، فَهَلْ یُجْزِئُ ذَلِكَ عَنِّی، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذَا مِنَ الَّذِینَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِیبٌ مِمَّا كَسَبُوا، وَاللَّهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ} [24]

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ سے روایت ہےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آکرکہنے لگامیں نے کچھ لوگوں کاکام اس اجرت پرکیاہے کہ وہ مجھے سوارکرکے ساتھ لے جائیں گے ، پھراجرت میں سے کچھ کم کردیاتاکہ وہ مجھے حج کرنے دیں توکیامیراحج ہوجائے گا؟آپ نے فرمایاتم توان لوگوں میں سے ہوجن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ’’ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ‘‘[25]

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِی أَیَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٢٠٣﴾‏(البقرة)
’’اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند ایام (ایام تشریق) میں کرو، دو دن کی جلدی کرنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں یہ پرہیزگار کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو تم سب اس کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔‘‘

شرف وفضیلت کےیہ ایام تشریق یعنی گیارہ،بارہ اورتیرہ ذوالحجہ گنتی کے چنددن ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلِهِ:{وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِی أَیَّامٍ مَعْدُودَاتٍ} [26]یَعْنِی الْأَیَّامَ الْمَعْدُودَاتِ: أَیَّامِ التَّشْرِیقِ، وَهِیَ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ بَعْدَ النَّحْرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت ’’ یہ گنتی کے چند روز ہیں ، جو تمہیں اللہ کے یاد میں بسر کرنے چاہئیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں ایام معدودات ایام تشریق ہیں ( اوریہ چاردن ہیں )دسویں ذوالحجہ اور اس کے تین دن بعد یعنی دس سے تیرہ تاریخ تک۔[27]

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَوْمُ عَرَفَةَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأَیَّامُ التَّشْرِیقِ، عِیدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَهُنَّ أَیَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایوم عرفہ،یوم قربانی اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عیدکے دن ہیں اورکھانے پینے کے دن ہیں ۔[28]

عَنْ نُبَیْشَةَ الْهُذَلِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیَّامُ التَّشْرِیقِ أَیَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللهِِ

نبیشہ الھذلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکرکرنے کے ہیں ۔[29]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَبْدَ اللهِ بْنَ حُذَافَةَ، یَطُوفُ فِی مِنًى:لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَیَّامَ، فَإِنَّهَا أَیَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کوبھیجاتاکہ وہ منیٰ میں یہ اعلان کردیں کہ ان دنوں میں روزے نہ رکھوکیونکہ یہ کھانے پینے اوراللہ عزوجل کا ذکرکرنے کے دن ہیں ۔[30]

ان دنوں میں ہر وقت تمہیں بہ آوازبلندتکبیرات کہنی چاہئیں ،

عَنْ عِكْرِمَةَ، فِی قَوْلِهِ {وَاذْكُرُوا اللهَ فِی أَیَّامٍ مَعْدُودَاتٍ} قَالَ: التَّكْبِیرُ أَیَّامَ التَّشْرِیقِ، یَقُولُ فِی دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ یہ گنتی کے چند روز ہیں ، جو تمہیں اللہ کے یاد میں بسر کرنے چاہئیں ۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعدتکبیرپڑھی جائے ،اللہ اکبر، اللہ اکبر،اللہ اکبر۔[31]

رمی جمار(جمرات کو کنکریاں مارنا)تین دن افضل ہیں لیکن اگرکوئی دودن (گیارہ اوربارہ ذوالحجہ) کو کنکریاں مارکرغروب آفتاب سے قبل منیٰ سے واپس آجائے تو اس کی اجازت ہے اور جو کوئی تین دن کے بعد پلٹ آئے تواس پرکوئی گناہ نہیں بشرطیکہ یہ دن اس نے میلوں ٹھیلوں میں بسرکرنے کے بجائےتقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں ،اللہ کے احکامات پرعمل اوراس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور خوب جان رکھو کہ ایک مقررہ روزاس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَهُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹     [32]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایااوراسی کی طرف تم سمیٹے جاؤگے۔

قُلْ هُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [33]

ترجمہ:ان سے کہواللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایااوراسی کی طرف تم سمیٹے جاؤگے۔

اوروہ تمہیں تمہارے اعمال کابدلہ دے گا،جس کسی نے تقویٰ اختیارکیااللہ اسے انعام واکرام سے نوازے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرکرگناہوں سے بازنہ آیاتووہ اسے دردناک سزادے گا ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِی قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ‎﴿٢٠٤﴾‏ وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیهَا وَیُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ ‎﴿٢٠٥﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ‎﴿٢٠٦﴾‏ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ‎﴿٢٠٧﴾‏(البقرة)
’’بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے ،جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے،اور جب اسے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کردیتا ہے ، ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے،اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ ‘‘

انسانی کھالوں میں بھیڑئے: منافقین اور متکبرین کے بارے میں فرمایا انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ جب وہ گفتگو کرتاہے تواس کی باتیں سننے والے کوبہت دلکش معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کااظہارکرتاہے تواس پرقسم کھاتاہے اوراپنی نیک نیتی پر اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھیراتا ہے کہ جواس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان کے مطابق ہے مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پرمنافقین کے بارے میں فرمایا

 اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللهِ۝۰ۘ وَاللهُ یَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ۝۰ۭ وَاللهُ یَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَكٰذِبُوْنَ۝۱ۚ           [34]

ترجمہ:اے نبی ! جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں ہاں ، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں ۔

جب ایسے لوگوں کو اقتدار حاصل ہو جاتا ہے توان کی ساری قوتیں اورصلاحیتیں اللہ کی زمین میں اللہ کے دین کونافذکرنے کے بجائے کفروشرک اورفتنہ انگیزی پھیلانے کے لئے ہوتی ہیں ،ان کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زمین کی پیداوار کو غارت کریں اور نسل ِ انسانی وحیوانی کو تباہ وبربادکردیں ،

عَنْ مُجَاهِدٍ:وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیهَا وَیُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ، قَالَ: إِذَا تَوَلَّى سَعَى فِی الْأَرْضِ بِالْعُدْوَانِ وَالظُّلْمِ، فَیَحْبِسُ اللهُ بِذَلِكَ الْقَطْرَ، فَیُهْلِكُ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ، وَاللهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں جب زمین میں فتنہ وفسادبرپاکیاجائے تواللہ تعالیٰ کی باران رحمت سے محروم کردیتاہےتواس سے کھیتی اورنسل ہلاک ہوجاتی ہے اوراللہ فتنہ انگیزی کوپسندنہیں کرتا۔[35]

حالانکہ اللہ جسے وہ باربار گواہ بنا تےہیں کفروشرک کو ہر گز پسند نہیں کرتا،اور جب ان فاجروں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ اپنے عقائدو نظریات اوراپنے اطوار کواسلام کے تابع کرلوتوبھڑک اٹھتے ہیں اور اپنےتکبروغروراور اپنے جھوٹے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے،جیسے فرمایا

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ۝۰ۭ یَكَادُوْنَ یَسْطُوْنَ بِالَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا۝۰ۭ قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ اَلنَّارُ۝۰ۭ وَعَدَهَا اللهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۷۲ۧ [36]

ترجمہ: اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکر ین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں ، ان سے کہو میں بتاؤں تمہیں کہ اس سے بدتر چیز کیا ہے؟ آگ ، اللہ نے اسی کا وعدہ ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبولِ حق سے انکار کریں اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

یہاں بھی فرمایاایسے کافروں اورمشرکوں کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے، دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے ، جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ۔۔۔۝۰۝۱۱۱

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ ‎﴿٢٠٨﴾‏ فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٠٩﴾‏ هَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا أَن یَأْتِیَهُمُ اللَّهُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿٢١٠﴾‏(البقرة)
’’ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،اگر تم باوجود تمہارے پاس دلیل آجانے کے بھی پھسل جاؤ تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے ،کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔ ‘‘

مکمل اطاعت ہی مقصودہے:اے ایمان لانے والو ! تم اپنی پوری زندگی کواللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے تابع کرلواوراسلام کے تمام احکامات پرعمل کرو،

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِهِ: ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ كَافَّةً} قَالَ: فِی أَنْوَاعِ الْبِرِّ كُلِّهَا

مجاہد رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام اعمال صالحہ بجا لاؤ اورنیکی کی تمام صورتوں کو اپنالو۔[37]

اورمقدوربھرکوشش کرکے تمام منہیات کوترک کردواور یہودونصاریٰ طرح نہ ہوجاؤکہ جو باتیں تمہارے عقائدونظریات اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پرتوعمل کر لو اوردوسرے حکموں کونظراندازکردو،اسی طرح جومشرکانہ دین تم چھوڑآئے ہواس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کروبلکہ صرف دین اسلام کومکمل طورپراپناؤ اوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو کہ وہ توتمہارا کھلا دشمن ہے،اس لئے وہ تمہیں برائیوں اوربدکاریوں کواوراللہ پربہتان باندھنے کو کہتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف صاف صاف دلائل وبراہین کے آجانے کے بعد بھی تم نے لغزش کھائی تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والوں کوسرزنش کرتے ہوئے فرمایاان ساری نصیحتوں او ر ہدایتوں کے بعد بھی لوگ راہ راست اختیار نہ کریں تو کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ قیامت برپا کر دےاور بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خودمیدان محشرمیں جلوہ گرہوجائے اورترازوعدل قائم کرکے تمہارے اعمال کا فیصلہ ہی کر ڈالے؟جیسےفرمایا

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِـیَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ۔۔۔۝۰۝۱۵۸ [38]

ترجمہ:کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آکھڑے ہوں یا تمہارا رب خود آجائے یا تمہارے رب کی بعض صریح نشانیاں نمودار ہو جائیں ؟۔

وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِیْلًا۝۲۵      [39]

ترجمہ:آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہوگا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیے جائیں گے۔

عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ، قَالَ: فِی قِرَاءَةِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ:هَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ یَأْتِیَهُمُ اللهُ وَالْمَلَائِكَةُ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ قَالَ: تَأْتِی الْمَلَائِكَةُ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ، وَیَأْتِی اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیمَا شَاءَ

ابوجعفررازی نے ربیع بن انس سے اورانہوں نے ابوالعالیہ سے’’ کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آموجود ہو ۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے کہ فرشتے توبادلوں کے سائبانوں میں آئیں گے اوراللہ عزوجل جس طرح چاہے گاجلوہ افروز ہوگا۔ [40]

آخر کارایک مقررہ وقت پر سارے معاملات اللہ ہی کی بارگاہ میں پیش ہونے والے ہیں ۔

سَلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ كَمْ آتَیْنَاهُم مِّنْ آیَةٍ بَیِّنَةٍ ۗ وَمَن یُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٢١١﴾‏ زُیِّنَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَیَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِینَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ وَاللَّهُ یَرْزُقُ مَن یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٢١٢﴾‏(البقرة)
’’بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) کہ اللہ تعالیٰ بھی سخت عذابوں والا ہے، کافروں کے لیے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے، وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہونگے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے ۔‘‘

اے نبیﷺ!بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں اپنی قدرت کی کیسی کھلی کھلی نشانیاں دکھائی تھیں جوموسیٰ کی صداقت کی قطعی دلیل تھے اورجن کی حقانیت کاانہیں یقین بھی ہوگیاتھامگراس کے باوجودبنی اسرائیل کی اکثریت نےاللہ تعالیٰ کی اس نعمت پراس کاشکربجالانے کے بجائے اس نعمت کوکفران نعمت سے بدل ڈالا،یعنی ایمان سے اعراض کرکے کفرکوقبول کرلیا،جو قوم اللہ کی نعمت کواپنے پاس آنےسے بدل دیتی ہے اسے اللہ سخت سزا دیتا ہے،جیسے اللہ تعالیٰ نے قریش کے سرداروں کے بارے میں فرمایا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ۝۲۸ۙجَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلَوْنَهَا۝۰ۭ وَبِئْسَ الْقَرَارُ۝۲۹         [41]

ترجمہ:تم نے دیکھاان لوگوں کوجنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اوراسے کفران نعمت سے بدل ڈالااور(اپنے ساتھ)اپنی قوم کوبھی ہلاکت کے گھرمیں جھونک دیایعنی جہنم میں وہ جھلسے جائیں گے اوروہ بدترین جائے قرارہے۔

جولوگ اللہ تعالیٰ،اس کی آیات اوراس کے رسولوں کاانکارکرتے ہیں اورشریعت کے مطابق زندگی بسرنہیں کرتےاللہ تعالیٰ ان کے سامنے دنیاوی زندگی کومزین اورآراستہ کردیتاہے اوروہ اس دنیامیں مگن اوراس پرمطمئن ہوجاتے ہیں اوران کی خواہشات ،ان کے ارادے اور ان کاعمل سب اس دنیافانی کے لئے ہو جاتے ہیں ، ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں سے حقارت سے پیش آتے ہیں اوران کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پراللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی اپنے تقویٰ کی بدولت کفار کے مقابلے میں اپنے مقام اورٹھکانے کے اعتبارسےبلندوبالااورارفع واعلیٰ درجات پرفائز ہوں گے ، اللہ تعالیٰ کی انواع واقسام کی نعمتوں سے لطف اندوزہوں گےاورسعادتوں اورکامرانیوں سے فیض یاب ہوں گے اورکفارجہنم کی اتھاہ گہرائیوں ،انتہائی نچلے درجوں میں مختلف عذابوں میں مبتلا رہیں گے ،چونکہ دنیاوی اوراخروی رزق صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اوراس کی مشیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں اس لئے فرمایا رہا دنیا کا رزق ! تو اللہ یہ تومومن وکافرسب کو عطا فرماتاہے،رہاعلم وایمان ،محبت الٰہی،اللہ کا ڈر اور اس پر امید تو یہ دلوں کارزق ہے جواللہ تعالیٰ صرف اسے عطافرماتاہے جس سے وہ محبت کرتاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللهُ: أَنْفِقْ یَا ابْنَ آدَمَ أُنْفِقْ عَلَیْكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم!توخرچ کرمیں تجھ پرخرچ کروں گا۔[42]

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: أَنْفِقْ یَا بِلَالُ، وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ إِقْلَالًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بلال رضی اللہ عنہ !خوب خوب خرچ کرواوراس بات کاخوف نہ کھاؤکہ عرش والاتمہیں محتاج کردے گا۔[43]

اوراللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَیُخْلِفُهٗ۝۰ۚ وَهُوَخَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۳۹        [44]

ترجمہ:جوکچھ تم خرچ کردیتے ہواس کی جگہ وہی تم کواوردیتاہے وہ سب رازقوں سے بہتررزاق ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ العِبَادُ فِیهِ، إِلَّا مَلَكَانِ یَنْزِلاَنِ، فَیَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًاوَیَقُولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرروزصبح کے وقت دوفرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں اوران میں سے ایک کہتاہے اے اللہ!خرچ کرنے والے کواس کاعوض عطافرمااوردوسراکہتاہے اے اللہ! بخل کرنے والے کے مال کوتباہ وبربادکردے۔[45]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الدُّنْیَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، وَلَهَا یَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ

اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا گھر ہے اس شخص کا جس کا کوئی گھر نہ ہو اور مال ہے اس شخص کا جس کا کوئی مال نہ ہو اور دنیا کے لئے وہی جمع کر تا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔[46]

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِیهِ إِلَّا الَّذِینَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیًا بَیْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ یَهْدِی مَن یَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٢١٣﴾(البقرة)
’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیںتاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے،اور صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض وعناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا اس لیے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔ ‘‘

آدم علیہ السلام سے لے کرنوح علیہ السلام تک ان دس صدیوں میں سب لوگ اللہ کی توحیدپرقائم رہے، پھراس کے بعدشیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلافات پیدا ہو گئے اور شرک ومظاہرپرستی عام ہوگئی تب اللہ نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نبیوں کومبعوث کیا جو راہ راست اختیارکرنے والوں کو اللہ کی خوشنودی اوراس کی نعمتوں بھری جنتوں کی بشارت دینے والے اور تکذیب کرنے والوں کواللہ کے عذابوں سے ڈرانے والے تھے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ بَیْنَ نُوحٍ وَآدَمَ عَشَرَةُ قُرُونٍ، كُلُّهُمْ عَلَى شَرِیعَةٍ مِنَ الْحَقِّ، فَاخْتَلَفُوا، فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نوح علیہ السلام اورآدم علیہ السلام کے درمیان دس صدیاں تھیں ،ان میں سب لوگ شریعت حق کے مطابق عمل پیراتھے لیکن پھربعدمیں یہ لوگ اختلاف میں مبتلاہوگئے تواللہ تعالیٰ نے خوش خریاں سنانے اوراس کے عذاب سے ڈرانے کے لیے انبیائے کرام کومبعوث فرمایا۔[47]

اللہ تعالیٰ نے ان پر کتابیں نازل کیں تاکہ وہ قانون الٰہی کے مطابق لوگوں کے درمیان اختلافات کافیصلہ کریں اورراہ حق کوواضح کرکے انہیں پھرسے ایک امت بنادیں ،اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا،ایسانہیں ہےدراصل اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جا چکا تھامگر انہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ بعض لوگ اپنے جائزحق سے بڑھ کرامتیازات،فوائداورمنافع حاصل کرناچاہتے تھے ،پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے اللہ نے انہیں اپنے اذن سے اس حق کاراستہ دکھا دیاجس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ الآخِرُونَ الأَوَّلُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، نَحْنُ أَوَّلُ النَّاسِ دُخُولا الْجَنَّةَ، بَیْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِینَا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَدَانَا اللهُ لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ، فَهَذَا الْیَوْمُ الَّذِی هَدَانَا اللهُ لَهُ، وَالنَّاسُ لَنَا تَبَعٌ فِیهِ،غَدًا لِلْیَهُودِ وَبَعْدَ غَدٍ للنصارى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اگرچہ آخرمیں آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن ہم پہلے ہوں گے،جنت میں ہم دوسرے لوگوں سے پہلے داخل ہوں گے، گوانہیں کتاب ہم سے پہلے ملی ہے اورہمیں ان کے بعدملی ہے، انہوں نے جس امرحق میں اختلاف کیاتھااللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ہمیں اس کی راہ دکھادی،(مثلاً)اس دن میں انہوں نے اختلاف کیااللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بارے میں ہدایت فرمادی ہے چنانچہ لوگ اس دن(جمعے کے حوالے)سے ہم سے پیچھے ہیں ، اس کے بعدکادن(ہفتہ)یہودیوں کادن ہےاوراس کے بعدوالادن(اتوار)عیسائیوں کاہے۔[48]

وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیهِ فِی قَوْلِهِ: {فَهَدَى اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ} فَاخْتَلَفُوا فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ ، فَاتَّخَذَ الْیَهُودُ یَوْمَ السَّبْتِ، وَالنَّصَارَى یَوْمَ الْأَحَدِ، فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ،

ابن وہب نے عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم سے اورانہوں نے اپنے والدزیدبن اسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان’’پس جو لوگ انبیاء (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے کہ لوگوں نے جمعے کے دن کے بارے میں اختلاف کیا تو یہودیوں نے ہفتے کے دن کواختیارکرلیا اورعیسائیوں نے اتوارکے دن کو، مگراللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کوجمعے کے دن کے اختیارکرنے کی ہدایت عطافرمادی،

وَاخْتَلَفُوا فِی الْقِبْلَةِ؛ فَاسْتَقْبَلَتِ النَّصَارَى الْمَشْرِقَ، وَالْیَهُودُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ، فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لِلْقِبْلَةِ

اسی طرح لوگوں نے قبلے کے بارے میں اختلاف کیاتوعیسائیوں نے مشرق کواوریہودیوں نے بیت المقدس کوقبلہ بنالیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کوبطورقبلہ کعبة اللہ کی طرف رہنمائی فرمادی،

وَاخْتَلَفُوا فِی الصَّلَاةِ ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَرْكَعُ وَلَا یَسْجُدُوَمِنْهُمْ مَنْ یَسْجُدُ وَلَا یَرْكَعُ ،وَمِنْهُمْ مَنْ یُصَلِّی وَهُوَ یَتَكَلَّمُ، وَمِنْهُمْ مَنْ یُصَلِّی وَهُوَ یَمْشِی، فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لِلْحَقِّ مِنْ ذَلِكَ

اسی طرح لوگوں نے نمازکے بارے میں اختلاف کیا توان میں سے کچھ لوگ اپنی نمازمیں رکوع توکرتے ہیں مگرسجدہ نہیں کرتےاورکچھ سجدہ کرتے ہیں مگررکوع نہیں کرتے ، کچھ لوگ نمازپڑھتے ہوئے باتیں بھی کرتے ہیں اورکچھ نمازپڑھتے ہوئے چلتے پھرتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کوصحیح طریقے سے نمازاداکرنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے

وَاخْتَلَفُوا فِی الصِّیَامِ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَصُومُ بَعْضَ النَّهَارِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَصُومُ عَنْ بَعْضِ الطَّعَامِ، فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لِلْحَقِّ مِنْ ذَلِكَ

اسی طرح لوگوں نے روزے کے بارے میں اختلاف کیا کچھ لوگ دن کے صرف کچھ حصے کاروزہ رکھتے ہیں اورکچھ لوگ کھانے پینے کی تمام نہیں بلکہ صرف کچھ چیزوں سے روزے رکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کوصحیح صحیح روزے رکھنے کی ہدایت فرمادی ہے

وَاخْتَلَفُوا فِی إِبْرَاهِیمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، فَقَالَتِ الْیَهُودُ: كَانَ یَهُودِیًّا وَقَالَتِ النَّصَارَى: كَانَ نَصْرَانِیًّا وَجَعَلَهُ اللهُ حَنِیفًا مُسْلِمًا فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لِلْحَقِّ مِنْ ذَلِكَ

اسی طرح لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کیا یہودیوں نے کہاکہ وہ یہودی تھےاورعیسائیوں نے کہاکہ وہ عیسائی تھے مگراللہ تعالیٰ نے انہیں سب سے بے تعلق ہوکرایک(اللہ)کے ہورہنے والے اوراسی کے فرماں بردارقراردیاہے،اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں صحیح موقف اختیارکرنے کی بھی امت محمدیہ ہی کوہدایت عطافرمائی ہے،

 وَاخْتَلَفُوا فِی عِیسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، فَكَذَّبَتْ بِهِ الْیَهُودُ، وَقَالُوا لِأُمِّهِ بُهْتَانًا عَظِیمًا وَجَعَلَتْهُ النَّصَارَى إِلَهًا وَوَلَدًا، وَجَعَلَهُ اللهُ رُوحَهُ، وَكَلِمَتُهُ، فَهَدَى اللهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَقِّ مِنْ ذَلِكَ

اسی طرح لوگوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں میں بھی اختلاف کیا یہودیوں نے آپ کی تکذیب کی اورآپ کی والدہ پربہت بڑابہتان لگایااورعیسائیوں نے آپ ہی کومعبوداوراللہ کابیٹاقراردیااوراللہ تعالیٰ نے آپ کواپنی طرف سے روح اوراپناکلمہ قراردیا،اورآپ کے بارے میں اس صحیح صحیح موقف اختیارکرنے کی بھی صرف امت محمدیہ ہی کوہدایت عطافرمائی ہے۔[49]

تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والانہیں آیاتھا

 اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ[50]

ترجمہ: تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا ۔

اللہ جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھا دیتا ہے،

أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ:سَأَلْتُ عَائِشَةَ، أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ: بِأَیِّ شَیْءٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنَ اللیْلِ؟قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ كَبَّرَ، وَیَقُولُ:اللهُمَّ رَبَّ جِبْرِیلَ وَمِیكَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِی لِمَا اخْتَلَفْتُ فِیهِ مَنِ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِی مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہوتے تو نماز کا آغاز کس طرح فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے تو تکبیر کہتے اور فرماتے’’ اے اللہ! اے جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے! پوشیدہ ظاہر چیزوں کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کر سکتا ہے، ان اختلافی معاملات میں مجھے اپنے حکم سے صحیح راستے پر چلا کیونکہ تو جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دے دیتا ہے۔‘[51]

اورایک دعائے ماثورمیں یہ الفاظ ہیں

اللهُمَّ، أَرِنَا الْحَقَّ حَقّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَوَفِّقْنَا لِاجْتِنَابِهِ، وَلَا تَجْعَلْه مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ، وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا

’’اے اللہ!ہمیں حق کی راہ دکھااوراس کی اتباع کی توفیق عطافرمااورباطل کوباطل دکھااوراس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمااورباطل میں ہمارے لیے التباس پیدانہ فرماکہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں اورہمیں پرہیزگاروں کاامام بنا۔‘‘[52]

 أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیبٌ ‎﴿٢١٤﴾(البقرة)
’’کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے ، انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ وہ خوشحالی ،بدحالی،صحت اوربیماری اورمختلف تکالیف کے ذریعے سے ضروراپنے بندوں کاامتحان لیتاہے جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا ،مسلمان ابھی نئے نئے مدینہ منورہ میں آئے تھےان کے پاس نہ کھانے کوکچھ تھااورنہ پہننے کے لئے کپڑاتھاہرطرح کی بے سروسامانی کاعالم تھاان حالات میں مسلمانوں کو تسلی دینے اوران کے اندرحوصلہ اوراستقامت پیداکرنے کے لئے فرمایا پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہیں یوں ہی جنت کا داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ جیسے فرمایا

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ۝۳   [53]

ترجمہ:کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ، اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔

 اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۴۲    [54]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں ۔

ان لوگوں پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں اورقتل ،جلاوطنی ،مال لوٹ لینے اورعزیزواقارب کوقتل کی دھمکی کے خوف اوردیگرنقصانات کے ذریعے سے ان کوہلا ڈالاگیا حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اہل ایمان کے لئے اللہ کی مددیقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے ۔

عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِی ظِلِّ الكَعْبَةِ ،قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا؟ أَلَا تَدْعُو اللهَ لَنَا؟فَقَالَ:إِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانَ أَحَدُهُمْ یُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَى مفْرَق رَأْسِهِ فَیَخْلُصُ إِلَى قَدَمَیْهِ، لَا یَصْرفه ذَلِكَ عَنْ دِینِهِ، ویُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مَا بَیْنَ لَحْمِهِ وَعَظْمِهِ، لَا یَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِینِه، ثُمَّ قَالَ:وَاللهِ لَیُتِمَّنَّ اللهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى یَسِیرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا یَخَافُ إِلَّا اللهَ وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ قَوْمٌ تَسْتَعْجِلُونَ

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کعبہ کے سائے تلے چادر مبارک پرٹیک لگائے بیٹھے تھے،(ہم مشرکین سے انتہائی تکالیف اٹھا رہے تھے ) ہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!آپ ہمارے لیے(اللہ سے) مدد طلب کیوں نہیں کرتے آپ ہمارے لئے اللہ سے دعا کیوں نہیں فرماتے؟(اس پر آپ سیدھے بیٹھ گئے،چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا)اورفرمایا (ایمان لانے کی سزامیں )تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لئے گڑھا کھودا جاتااورانہیں اس میں ڈال دیا جاتاپھر ان کے سرپرآرارکھ کران کے دوٹکڑے کر دیئے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے،لوہے کے کنگھے ان کےگوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اورپٹھوں میں پھیرے جاتے پھربھی وہ اپناایمان نہ چھوڑتے،پھرفرمایااللہ کی قسم !اللہ تعالیٰ اسلام کوغالب فرمائے گااورایک زمانہ آئے گاکہ ایک سوارمقام صنعاءسے حضرموت تک تنہاسفرکرے گا (لیکن راستوں کے پرامن ہونے کی وجہ سے ) اسے اللہ کے سواکسی کاڈر نہ ہو گا یا صرف بھیڑیئے کاخوف ہوگاکہ کہیں اس کی بکریوں کونہ کھاجائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔[55]

یَسْأَلُونَكَ مَاذَا یُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ ‎﴿٢١٥﴾‏(البقرة)
 ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔ ‘‘

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسارکیاکہ ہم اپنے اموال کہاں خرچ کریں ،

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ، قَوْلُهُ: وَیَسْأَلُونَكَ مَاذَا یُنْفِقُونَ} وَهِیَ: النَّفَقَةُ فِی التَّطَوُّعِ

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ آیت کریمہ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں ؟۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں یہ آیت نفلی صدقے کے بارے میں ہے۔[56]

اللہ تعالیٰ نے فرمایالوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں ؟اے نبیﷺ!آپ انہیں جواب دیں کہ تمہارے مال کے سب سے زیادہ مستحق تمہارے والدین ہیں ،والدین کے بعدقریبی رشتے داروں پر اس کے بعداور قریبی رشتہ داروں پر اوریتیموں پرجن کا کوئی کمانے والانہیں اور مسکینوں پرجنہیں ضرورتوں اورحاجتوں نے غریب ومسکین بنادیاہو اور مسافروں پرجو زاد سفرختم ہوجانے کی وجہ سےدیار غیر میں پھنس کررہ گیاہو خرچ کرو ،ایک حدیث میں ہے

أُمَّكَ وَأَبَاكَ، أُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ

اپنی ماں ،اپنے باپ،اپنی بہن ،اپنے بھائی ،پھردرجہ بدرجہ قریبی رشتے داروں پرخرچ کرو۔[57]

عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ {یَسْأَلُونَكَ مَاذَا یُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامَى وَالْمَسَاكِینَ وَابْنِ السَّبِیلِ} ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ مَوَاضِعُ النَّفَقَةِ مَا ذُكِرَ فِیهَا طَبْلٌ وَلَا مِزْمَارٌ وَلَا تَصَاوِیرُ الْخَشَبِ وَلَا كِسْوَةُ الْحِیطَانِ

میمون بن مہران نے اس آیت’’ لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔‘‘ کی تلاوت کی توفرمایاکہ یہ ہیں خرچ کرنے کے مقامات اوران میں کسی طبلے،بانسری ،لکڑی کی تصویروں اوردیواروں کے پردوں وغیرہ پرخرچ کرنے کا ذکر نہیں ہے۔[58]

اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہو گااوروہ تمہیں اس کی پوری پوری جزاعطافرمائے گا۔

كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَیْئًا وَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَیْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٢١٦﴾‏(البقرہ)
 ’’تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھوحالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو ۔‘‘

تمہیں کفارسےجنگ کاحکم دیا گیا ہے اور تمہیں اس میں مشقت اورتکلیف نظرآتی ہےاوریہ بھی ممکن کہ تم زخمی ہوجاؤیاقتل کردیئے جاؤ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ، وَلَمْ یُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ، مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص مرجائے اورجہادنہ کرے نہ جہادکرنے کی نیت کرے وہ منافقوں کےطورپرمرا۔[59]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِیَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے (فتح مکہ کے دن)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی، ہاں جہاد اور نیک نیتی کا ثواب ملتا ہے، اگر تم جہاد کیلئے طلب کئے جاؤ تو فورا کمر بستہ ہو جاؤ۔[60]

وَقَالَ الزُّهْرِیُّ: الجهادُ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، غَزَا أَوْ قَعَدَ؛ فَالْقَاعِدُ عَلَیْهِ إذَا اسْتُعِینَ أَنْ یَعینَ، وَإِذَا استُغیثَ أَنْ یُغیثَ، وَإِذَا استُنْفرَ أَنْ یَنْفِرَ، وَإِنْ لَمْ یُحتَجْ إِلَیْهِ قَعَدَ

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہادہرمسلمان پرواجب ہے خواہ وہ جہادکرے یابیٹھ رہے،بیٹھ رہنے والے پرواجب ہے کہ جب اس سے مدد طلب کی جائے تومددکرے جب اس سے فریادرسی کی جائے توفریادرسی کرے جب اس سے جہادکے نکلنے کامطالبہ کیاجائے تووہ جہادکے لیے نکلےاوراس کی جہادکے لیے ضرورت نہ ہوتوپھربے شک بیٹھ رہے۔[61]

اس سے جہادکی اہمیت واضح ہے نیزاس سے یہ بھی معلوم ہواکہ مسلمان کوکفراورکفارکے خلاف دل میں بغض رکھنا اوریہ جذبہ رکھناچاہیے کہ جب بھی جہادکامرحلہ پیش آیاتومیں جان ومال کی قربانی سے گریزنہیں کروں گا۔اس لئے ممکن ہے تمہیں جہاد ناگوار ہو اور وہی تمہارے حق میں بہتر ہوکیونکہ اسی سے تمہاراغلبہ اوردشمن کی پامالی ہے، اور ہوسکتا ہے کہ تم جہادنہ کرنے میں اچھائی سمجھودراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گااورتمہیں دنیامیں قدم ٹکانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ، تمام کاموں کے انجام اورنتیجے کوصرف اللہ جانتا ہے وہ جانتاہے کہ کونساکام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھاہے اورکونسابراہے،وہی اسی کام کاحکم دیتاہے جس میں تمہارے لئے دنوں جہانوں کہ بہتری ہے، اس لئے اللہ کے ہر حکم پرعمل کروچاہئے وہ تمہیں گراں اور ناگوار لگے۔

یَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِیهِ كَبِیرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ یَرُدُّوكُمْ عَن دِینِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن یَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِینِهِ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢١٧﴾(البقرة)
’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا، اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے،یہ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے، یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اسی کفر کی حالت میں مریں ان کے اعمال دنیاوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے، یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔‘‘

دورجاہلیت میں قماربازی اورشراب عام سی بات تھی ،جوئہ جیت کر اورشراب میں مست ہوکرلوگ اپنی سخاوت کامظاہرہ کرتے اورجانورپرجانورذبح کرڈالتے،مدینہ منورہ میں اب اسلامی ریاست قائم ہوچکی تھی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ،معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اوربعض انصارنے قماربازی اورشراب کے بارے میں استفسار کیا تو دوسرے احکامات کی طرح ان کے بارے میں ابتدائی حکم نازل ہواکہ اگرچہ دنیاوی طورپران میں کچھ فائدے ہیں مثلاًشراب پی کروقتی طورپربدن میں چستی ومستعدی اوربعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے،شراب کھانے کوہضم کرتی ہے،شراب پینے سےجنسی قوت میں اضافہ ہوجاتاہے،اس کی خریدوفروخت نفع بخش کاروبارہے،اسی طرح بعض دفعہ کوئی جواجیت جاتاہے تواسے کچھ مال مل جاتاہے مگردین کے اعتبارسے یہ بڑے گناہ کے کام ہیں ،اس ابتدائی حکم کے بعدپھرحکم نازل ہوا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ [62]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو !یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے ، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔

اورآخرمیں فرمایا

اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ۝۰ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱ [63]

ترجمہ:شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے ؟۔

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی

فَقَالَ:انْتَهَیْنَا انْتَهَیْنَا

توسیدناعمر رضی اللہ عنہ پکاراٹھےاے رب ہم بازآئے ، ہم بازآئے۔[64]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سخاوت کاایک جوش وجذبہ پیداہوگیاتھا،وہ خودتنگی کی حالت میں ہوتے اوراپنی ضرورت سے زیادہ دوسرے کی ضرورت کاخیال رکھتے،اپنے بیوی بچوں کو بھوکارکھتے اوران کی ضروریات کو موخرکردیتے لیکن ہمسائے ،اقارب اوردوستوں کی ضروریات کاخیال اولاکرتے،چنانچہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اورثعلبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوردریافت کیاکہ حضور ہمارے غلام بھی ہیں اور بال بچے بھی ہیں اورہم مال داربھی ہیں ہم کتنی مقدار اللہ کی راہ میں خرچ کریں ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی ﷺ!ان سے کہو جو کچھ تمہاری ضروریات سے زیادہ ہووہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{وَیَسْأَلُونَكَ مَاذَا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ} [65]] قَالَ: مَا یَفْضُلُ عَنْ أَهْلِكِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’پوچھتے ہیں ہم اللہ کی راہ میں کیاخرچ کریں ؟کہوجوکچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘ کے بارے میں پوچھاگیا توانہوں نے فرمایااس کے معنی یہ ہیں جوتمہارے اہل وعیال کی ضرورت سے زیادہ ہو ۔[66]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ یَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِی دِینَارٌ قَالَ:أَنْفِقْهُ عَلَى نَفْسِكَ؟ قَالَ: عِنْدِی آخَرُ قَالَ:أَنْفِقْهُ عَلَى أَهْلِكَ قَالَ: عِنْدِی آخَرُ قَالَ:أَنْفِقْهُ عَلَى وَلَدِكَ قَالَ: عِنْدِی آخَرُ قَالَ:فَأَنْتَ أَبْصَرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے پاس ایک دینارہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے اپنے آپ پرخرچ کرلو،اس نے عرض کی کہ میرے پاس ایک اوردینارہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے اپنے اہل پرخرچ کرلو،اس نے عرض کی میرے پاس ایک اوربھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے اپنی اولادپرخرچ کرلو،اس نے عرض کی میرے پاس ایک اوربھی ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے بارے میں تم ہی زیادہ بہتر جانتے ہو۔[67]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عُذْرَةَ عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَلَكَ مَالٌ غَیْرُهُ؟فَقَالَ: لَا، فَقَالَ:مَنْ یَشْتَرِیهِ مِنِّی؟ فَاشْتَرَاهُ نُعَیْمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْعَدَوِیُّ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَجَاءَ بِهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهَا إِلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:ابْدَأْ بِنَفْسِكَ فَتَصَدَّقْ عَلَیْهَا، فَإِنْ فَضَلَ شَیْءٌ فَلِأَهْلِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ أَهْلِكَ شَیْءٌ فَلِذِی قَرَابَتِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ ذِی قَرَابَتِكَ شَیْءٌ فَهَكَذَا وَهَكَذَا یَقُولُ: فَبَیْنَ یَدَیْكَ وَعَنْ یَمِینِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبنی عذرہ میں سے ایک آدمی نے اپنا غلام اپنے مرنے کے بعد آزاد کیا یعنی اس نے یہ کہا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے، اس بات کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا تیرے پاس اس کے علاوہ مال ہے؟ اس نے کہا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو مجھ سے کون خریدے گا؟ تو اس کو نعیم بن عبداللہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیااور وہ دراہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کے مالک کو دے دیئےپھر فرمایا اپنی ذات سے ابتداء کرو اور اپنے اوپر خرچ کرو اگر اس سے کچھ بچ جائے تو اپنے اہل وعیال پرخرچ کرو اگر تیرے اہل وعیال پرخرچ کرنے کے بعدکچھ بچ جائے تو اپنے رشتہ داروں پرخرچ کرواور اگر تیرے رشتہ داروں پرخرچ کرنے کے بعدبھی کچھ بچ جائے تو ادھرادھرخرچ کردواور اپنے ہاتھوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے تھے۔[68]

أَبَا أُمَامَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَیْرٌ لَكَ، وَأَنْ تُمْسِكَهُ شَرٌّ لَكَ، وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ، وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَى

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابن آدم! جوتیرے پاس اپنی ضرورت سے زائدہواسے اللہ کی راہ میں دے ڈالناہی تیرے لئے بہترہےاور اس کاروک رکھناتیرے لئے براہے، ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پرکوئی ملامت نہیں اورصدقہ پہلے اس کودے جس کاخرچہ تیرے ذمہ ہواوراوپرکاہاتھ بہترہے نیچے کے ہاتھ سے۔[69]

أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَالیَدُ العُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الیَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کردینے والامالدارہی رہےاورہرحال میں اوپر والاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہےاور (خرچ )کی ابتداان سے کروجوتمہاری نگہبانی میں ہیں ۔ [70]

اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔

عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {كَذَلِكَ یُبَیِّنُ اللهُ لَكُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ}قَالَ: یَعْنِی فِی زَوَالِ الدُّنْیَا وَفَنَائِهَا، وَإِقْبَالِ الْآخِرَةِ، وَبَقَائِهَا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتاہے شایدکہ تم دنیااورآخرت دونوں کی فکرکرو۔ ‘‘کے بارے میں روایت کیاہے تاکہ تم یہ سوچوکہ دنیازوال پذیرہوجانے والی اورفانی ہے اور آخرت ابدی وسرمدی اورباقی رہنے والی ہے۔[71]

دورجاہلیت میں یتیم کوکوئی پوچھتاہی نہ تھا،باپ کاسایہ سر سے اٹھنے کے بعد اس کے عزیزواقارب اس یتیم کامال ہضم کرجاتے اور انہیں اس کے حال پررحم نہ آتااورنہ کوئی شرم ، اس میں صرف نیچے کے لوگ ہی شامل نہ تھے بلکہ بڑے بڑے سرداراس میں سبقت رکھتے تھے، اس طرح کمزوریتیم بدترین حالت میں زندگی گزارتااوراگرلڑکی ہوتی تواوربھی فائدے تھے جب وہ جوان ہوتی تومال کے ساتھ اسے گھرمیں ڈال لیتےاوراسے پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہوتا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ} [72]وَ {إِنَّ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا}[73] انْطَلَقَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ یَتِیمٌ فَعَزَلَ طَعَامَهُ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرَابَهُ مِنْ شَرَابِهِ، فَجَعَلَ یَفْضُلُ الشَّیْءُ مِنْ طَعَامِهِ، فَیُحْبَسُ لَهُ حَتَّى یَأْكُلَهُ أَوْ یَفْسُدَ. فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَیْهِمْ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْیَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَیْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ[74]فَخَلَطُوا طَعَامَهُمْ بِطَعَامِهِمْ، وَشَرَابَهُمْ بِشَرَابِهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں پہلے یہ حکم ہواتھا’’یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگراس طریقہ سے جوبہترین طریقہ ہو۔‘‘اورفرمایاگیا’’جولوگ ظلم سے یتیموں کامال کھاجاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اوروہ عنقریب بھڑکتی ہوئی جہنم میں داخل ہوں گے ۔‘‘ توجن لوگوں کے پاس یتیم رہاکرتے تھے اوروہ ان کواپنے کھانے پینے میں کسی قدرخرچ لے کر شامل کرلیتے تھے انہوں نے یہ سمجھاکہ ایسانہ ہوکہ ہم غلطی سے ان کاکچھ کھالیں چنانچہ انہوں نےیتیموں کے کھانے کاعلیحدہ بندوبست کر دیا ، اس علیحدگی میں یتیموں کاخرچہ زائدہونے لگا دوسری جانب والیان یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھرمیں اس طرح رکھ رکھاؤکیا کریں توان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااللہ تعالیٰ نے جواب فرمایا’’ اے نبی ﷺ!ان سےکہو جس طرزِ عمل میں یتیموں کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے، اوراگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں ۔‘‘اس کے بعدانہوں نے کھاناپینااکٹھاکرلیا۔[75]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:إِنَّى لَأَكْرَهُ أَنْ یَكُونَ مَالُ الْیُتْمِ عِنْدِی عَلَى حِدَةٍ، حَتَّى أَخْلِطَ طَعَامَهُ بِطَعَامِی، وَشَرَابَهُ بِشَرَابِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اس بات کوپسندکرتی ہوں کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو اپنی چیزوں کے ساتھ ملاکراکٹھارکھوں ۔[76]

بُرائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے دونوں کا حال اللہ پرخوب روشن ہے ، اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے اس نے توسع اورتخفیف سے کام لیاہے اوراحسن اندازمیں یتیموں کے ساتھ مل جل کررہنے اورخرچ اکٹھارکھنے کوجائزقراردے دیاہے،جیسے فرمایا

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ ۔۔۔۝۱۵۲ۙ        [77]

ترجمہ:مال یتیم کے قریب نہ جاؤمگرایسے طریقہ سے جوبہترین ہو۔

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ یُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِینَ حَتَّىٰ یُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ یَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ یَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَیُبَیِّنُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٢١﴾(البقرة)
’’اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو ،اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گو مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

پاک دامن عورتیں :اے مومنو!تم بت پرست مشرک عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ،یہ حکم ہرمشرک عورت کے لیے ہے خواہ وہ اہل کتاب ہویابت پرست،لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی عورتوں کو اس سے متثنی قراردیاہے

 وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ۝۰۝۵ۧ [78]

ترجمہ:اورمحفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یاان قوموں میں سے جن کوتم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم ان کے مہراداکرکے نکاح میں ان کے محافظ بنونہ یہ کہ آزادشہوت رانی کرنے لگویاچوری چھپے آشنائیاں کرو۔

قَالَ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ، رَحِمَهُ اللهُ،بَعْدَ حِكَایَتِهِ الْإِجْمَاعَ عَلَى إِبَاحَةِ تَزْوِیجِ الْكِتَابِیَّاتِ: وَإِنَّمَا كَرِهَ عُمَرُ ذَلِكَ، لِئَلَّا یَزْهَدَ النَّاسُ فِی الْمُسَلَّمَاتِ، أَوْ لِغَیْرِ ذَلِكَ مِنَ الْمَعَانِی

ابوجعفربن جریرنے یہ بیان فرمانے کے بعدکہ اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے جوازپراجماع ہے مگرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسے مکروہ سمجھاہے تاکہ لوگوں کی مسلمان عورتوں سے دلچسپی ختم نہ ہوجائے نیزکچھ دیگرمصلحتوں کی وجہ سے انہوں نے اسے مکروہ سمجھا ہے۔[79]

عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ:تَزَوَّجَ حُذَیْفَةُ یَهُودِیَّةً، فَكَتَبَ إِلَیْهِ عُمَرُ: خَل سَبِیلَهَا فَكَتَبَ إِلَیْهِ: أَتَزْعُمُ أَنَّهَا حَرَامٌ فأخَلی سَبِیلَهَا؟ فَقَالَ: لَا أَزْعُمُ أَنَّهَا حَرَامٌ،وَلَكِنِّی أَخَافُ أَنْ تَعَاطَوُا الْمُومِسَاتِ مِنْهُنَّ

جیسےابوکریب نے شفیق سے روایت کیاہےحذیفہ رضی اللہ عنہ نے جب ایک یہودی عورت سے شادی کرلی،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھاکہ اس عورت کوالگ کردو،حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے الگ تو کر دیا مگرانہوں نے آپ سے پوچھاکیاآپ کے خیال میں یہ حرام ہے؟آپ نے فرمایانہیں میرے خیال میں یہ حرام تونہیں ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہیں تم ان کی بدکار عورتوں سے شادی نہ کرنے لگ جاؤ۔[80]

عَنْ زَیْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ:قَالَ [لِی] عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: الْمُسْلِمُ یَتَزَوَّجُ النَّصْرَانِیَّةَ، وَلَا یَتَزَوَّجُ النَّصْرَانِیَّ الْمُسْلِمَةَ

زیدبن وہب سے روایت ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے فرمایامسلمان تونصرانی عورت سے شادی کرسکتاہے لیکن کوئی نصرانی مردکسی مسلمان عورت سے شادی نہیں کر سکتا ۔[81]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَرِهَ نِكَاحَ أَهْلِ الْكِتَابِ وَیَتَأَوَّلُ {وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى یُؤْمِنَّ}

امام ابن ابوحاتم رحمہ اللہ نےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کومکروہ سمجھااورآیت’’اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو۔‘‘ کی انہوں نے یہی تفسیرکی ہے۔[82]

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ نِكَاحِ النَّصْرَانِیَّةِ وَالیَهُودِیَّةِ، قَالَ: إِنَّ اللهَ حَرَّمَ المُشْرِكَاتِ عَلَى المُؤْمِنِینَ، وَلاَ أَعْلَمُ مِنَ الإِشْرَاكِ شَیْئًا أَكْبَرَ مِنْ أَنْ تَقُولَ المَرْأَةُ: رَبُّهَا عِیسَى، وَهُوَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللهِ

نافع سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اگریہودی یانصرانی عورتوں سے نکاح کے متعلق سوال کیاجاتاتووہ کہتےکہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح مومنوں کے لیے حرام قراردیاہے اورمیں نہیں سمجھتاکہ اس سے بڑھ کراورشرک کیاہوسکتاہے کہ عیسائی عورت یہ کہے میرارب عیسیٰ ہے حالانکہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے ایک مقبول بندے ہیں ۔[83]

ایک مومن لونڈی خواہ کتنی ہی بدصورت ہو مشرک آزادعورت سے ہزارہادرجہ بہتر ہے خواہ وہ کتنی ہی حسین وجمیل ہو، اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ، ایک مومن غلام مشرک مردسے بڑھ چڑھ کر ہے اگرچہ وہ حسن وجمال اوردولت کی وجہ سےتمہیں بہت پسند ہو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِینِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ، تَرِبَتْ یَدَاكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم ﷺنے فرمایاعورتوں سے چارباتوں کی بناپر نکاح کیاجاتا ہے مال ، حسب و نسب ، حسن وجمال یادین کی وجہ سے،تم دین دارعورت کا انتخاب کرواگرایسانہ کروگے توتمہارے ہاتھوں کومٹی لگے گی(یعنی اخیرمیں تمہیں ندامت ہوگی)۔[84]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروسے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایادنیاساری کی ساری سازوسامان ہے اور دنیا کا بہترین سازوسامان نیک عورت کا ہونا ہے۔[85]

اس کی علت ومصلحت یہ ہے کہ مشرکین تواپنے اقوال،افعال اوراحوال میں تمہیں عذاب جہنم کی طرف بلاتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ اختلاط میں سخت خطرہ ہے، اور اللہ اپنی شریعت اوراپنے احکام ونواہی کے ذریعے سے تم کولازوال نعمتوں سے مزین جنت اوربخشش و مغفرت کی طرف بلاتا ہے ، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔

[1] فتوح البلدان ۴۵۵

[2] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ

[3] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ فَضْلِ الحَجِّ المَبْرُورِ ۱۵۲۱،وکتاب العمرٰة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَلاَ رَفَثَ ۱۸۱۹، ۱۸۲۰

[4]صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۱۵۲۳

[5] البقرة: 198

[6] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ۴۵۱۹

[7] تفسیر طبری۱۶۸؍۴،الدر المنثور۵۳۴؍۱

[8] مسنداحمد۶۴۳۴

[9] تفسیرطبری۱۶۸؍۴

[10] تفسیرابن کثیر۵۵۶؍۱،تفسیر القرطبی۴۲۰؍۲

[11] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرة بَابُ ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ۴۵۲۰،صحیح مسلم کتاب الحج بَابٌ فِی الْوُقُوفِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۲۹۵۴

[12] مسنداحمد ۱۶۷۳۷،صحیح بخاری كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الوُقُوفِ بِعَرَفَةَ۱۶۶۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابٌ فِی الْوُقُوفِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۲۹۵۶

[13] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ۶۳۰۶

[14] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ ۸۳۴، صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ۶۸۶۹

[15] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ الْفِتَنِ وَغَیْرِهَا۶۸۷۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ مَا تَعَوَّذَ مِنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۸۳۸

[16] تفسیر القرطبی۱۴۰؍۷،التفسیر المظهری۲۳۴؍۷

[17] الدارمی المقدمہ۳۱۷

[18] تفسیرابن ابی حاتم۳۶۷؍۲

[19] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۹؍۲

[20] القصص۷۷

[21] البقرة۲۰۱

[22]‘صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن باب قولہ ومنھم من یقول رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار۴۵۲۲

[23] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ كَرَاهَةِ الدُّعَاءِ بِتَعْجِیلِ الْعُقُوبَةِ فِی الدُّنْیَا۶۸۳۵، مسند احمد ۱۲۰۴۹، صحیح ابن حبان۹۴۱

[24] البقرة: 202

[25] مستدرک حاکم۱۷۷۰

[26] البقرة: 203

[27] تفسیرطبری ۲۰۸؍۴

[28] مسند احمد ۱۷۳۷۹

[29] مسند احمد ۲۰۷۲۲، صحیح ابن حبان ۲۰۷۲۲، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ تَحْرِیمِ صَوْمِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ۲۶۷۸

[30] تفسیرطبری۲۱۲؍۴

[31] تفسیرابن ابی حاتم۳۶۰؍۲

[32] المومنون۷۹

[33] الملک۲۴

[34] المنافقون۱

[35] تفسیرطبری۲۴۰؍۴

[36]الحج۷۲

[37] تفسیرابن ابی حاتم۳۷۰؍۲

[38] الانعام۱۵۸

[39] الفرقان۲۵

[40]تفسیرطبری۲۶۱؍۴

[41] ابراہیم۲۸،۲۹

[42] صحیح بخاری كِتَابُ النَّفَقَاتِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ۵۳۵۲

[43] المعجم الكبیر للطبرانی۱۰۲۰

[44] سبا۳۹

[45] صحیح بخاری كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى۱۴۴۲

[46] مسنداحمد۲۴۴۱۹

[47] تفسیرطبری۲۷۵؍۴

[48] صحیح مسلم كِتَابُ الْجُمُعَةِ بَابُ هِدَایَةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۸۰، صحیح بخاری كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ فَرْضِ الجُمُعَةِ ۸۷۶،تفسیرابن ابی حاتم۳۷۷؍۲

[49] تفسیرابن ابی حاتم۳۷۸؍۲

[50] المائدة۱۹

[51]‘سنن ابوداودکتاب بَابُ مَا یُسْتَفْتَحُ بِهِ الصَّلَاةُ مِنَ الدُّعَاءِ۷۶۷، مسنداحمد ۲۵۲۲۵، صحیح ابن حبان۲۶۰۰

[52] زهرة التفاسیر۶۷۱؍۲

[53] العنکبوت۲،۳

[54] آل عمران۱۴۲

[55] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۶۱۲، وکتاب مناقب الانصاربَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ المُشْرِكِینَ بِمكَّةَ۳۸۵۲،وکتاب الاکراہ بَابُ مَنِ اخْتَارَ الضَّرْبَ وَالقَتْلَ وَالهَوَانَ عَلَى الكُفْرِ۶۹۴۳

[56] تفسیرابن ابی حاتم۳۸۱؍۲

[57] صحیح ابن حبان۶۵۶۲

[58] تفسیر ابن ابی حاتم۳۸۱؍۲

[59] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ ذَمِّ مَنْ مَاتَ، وَلَمْ یَغْزُ، وَلَمْ یُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِالْغَزْوِ۴۹۳۱،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابُ كَرَاهِیَةِ تَرْكِ الْغَزْوِ ۲۵۰۲،سنن نسائی کتاب الجہاد باب التَّشْدِیدُ فِی تَرْكِ الْجِهَادِ۳۰۹۹

[60] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ فَضْلِ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ۲۷۸۳

[61] تفسیرابن کثیر۵۷۲؍۱

[62] المائدة۹۰

[63] المائدة۹۱

[64]جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ ۳۰۴۹

[65] البقرة: 219

[66] تفسیرابن ابی حاتم۳۹۳؍۲

[67] تفسیرطبری ۳۴۰؍۴

[68] صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ الِابْتِدَاءِ فِی النَّفَقَةِ بِالنَّفْسِ ثُمَّ أَهْلِهِ ثُمَّ الْقَرَابَةِ۲۳۱۳

[69] صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ بَیَانِ أَنَّ الْیَدَ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَى، وَأَنَّ الْیَدَ الْعُلْیَا هِیَ الْمُنْفِقَةُ وَأَنَّ السُّفْلَى هِیَ الْآخِذَةُ۲۳۸۸،جامع ترمذی ابواب الزھدبَابُ مَا جَاءَ فِی الزَّهَادَةِ فِی الدُّنْیَا ۲۳۴۳،مسنداحمد۲۲۲۶۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۷۶۲۵،السنن الکبریٰ للبیہقی ۷۷۸۱،شعب الایمان ۳۱۱۴

[70] صحیح بخاری کتاب النفقات بَابُ وُجُوبِ النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ وَالعِیَالِ۵۳۵۵، صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ بَیَانِ أَنَّ الْیَدَ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَى، وَأَنَّ الْیَدَ الْعُلْیَا هِیَ الْمُنْفِقَةُ وَأَنَّ السُّفْلَى هِیَ الْآخِذَةُ عن حکیم بن حزام۲۳۸۶،مسنداحمد۹۶۱۳،السنن الکبریٰ للنسائی ۲۳۳۵،السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۵۷۱۱

[71] تفسیرطبری۳۴۸؍۴

[72] الأنعام: 152

[73] النساء: 10

[74] البقرة: 220

[75] تفسیرطبری۳۵۰؍۴

[76] تفسیرطبری۳۵۵؍۴

[77] الانعام۱۵۲

[78] المائدة۵

[79] تفسیرابن کثیر۵۸۳؍۱

[80] تفسیرطبری ۳۶۶؍۴

[81] تفسیرطبری ۳۶۶؍۴

[82] تفسیرابن ابی حاتم۳۹۸؍۲

[83] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَلاَ تَنْكِحُوا المُشْرِكَاتِ حَتَّى یُؤْمِنَّ، وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ۵۲۸۵

[84] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ الأَكْفَاءِ فِی الدِّینِ۵۰۹۰، صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ ذَاتِ الدِّینِ۳۶۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ تَزْوِیجِ ذَاتِ الدِّینِ ۱۸۵۸،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ مَا یُؤْمَرُ بِهِ مِنْ تَزْوِیجِ ذَاتِ الدِّینِ ۲۰۴۷،السنن الکبری للنسائی ۵۳۱۸،صحیح ابن حبان ۴۰۳۶، مسنداحمد۹۵۲۱،سنن الدارمی ۲۲۱۶

[85] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ۳۶۴۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۴۹،شعب الایمان ۴۲۹۹

Related Articles