بعثت نبوی کا پہلا سال

نزول سورۂ العلق ۶تا۱۹

سورۂ العلق کی پہلی چندآیات کی وحی کے کچھ عرصہ بعداس سورۂ کی دوسری آیات نازل ہوئیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

 كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَىٰ ‎﴿٦﴾‏ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ ‎﴿٨﴾ (العلق)

سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتا ہےاس لیے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ (یا تونگر) سمجھتا ہے،یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے۔

آخرت کے منکرین کوسرزنش فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثنااوراس کااحسان ہے کہ اس نے اپنی حکمت ومشیّت کے مطابق کسی انسان کوکم اورکسی کو زیادہ مال و دولت،جاہ وحشم ، اولاداورخدام عطافرمائے ،مگر وقت کی قومیں بغیرکسی استحقاق کے عطا کردہ نعمتوں پر اپنے باعظمت رب کی شکرگزارہونے کی بجائے اس کے احکام،عبادات ،حقوق و فرائض سے انکار ،سرکشی وبغاوت پراترآئیں اوراپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہوئے حدبندگی سے تجاوز کرنے لگیں ، انہوں نے ان پاکیزہ احکام پرغوروفکر ہی نہ کیا جوسراسرخود انسانوں کے اپنے فائدے کے لئے ہی نازل ہوئے تھے ، ہر قوم نے شدومد کے ساتھ رب کی بے پناہ قدرتوں ،اختیارات اور روزآخرت کاانکارکرکے درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ اوراس کے علم وحکمت کے منکرہوئے ،خوداہل عرب بھی جونام کی حد تک اللہ کومانتے تھے مگراس کے حضورپیشی کے تصور اوربازپرس کے خوف سے بیگانہ تھے ، جیسے متعددمقامات پرفرمایا:

اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْــرَجُوْنَ۝۳۵۠ۙهَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۝۳۶۠ۙۙ [1]

ترجمہ:یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اس وقت تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے؟بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۸۳ [2]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں ۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸ [3]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟۔

اس لئے حق کی دعوت پرکان نہیں دھرتے تھے ،وہ اس بے بنیادخوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم جن ہستیوں کی پرستش کررہے ہیں وہ روزآخرت شفاعت کرکے ہمیں بخشوالیں گی، اوراب جبکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اسلام( جو ہر نبی کادین تھا) مکمل ہوچکا،جیسے فرمایا

اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۝۰ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳ [4]

ترجمہ: آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

نبوت ختم فرمادی گئی ،

قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَإِنَّهُ سَیَكُونُ فِی أُمَّتِی كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب آئیں گے جن میں سے ہر ایک بزعم خویش اپنے آپ کو نبی قرار دیتا ہوگا ، حالانکہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔[5]

عَنْ حُذَیْفَةَ،أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِی أُمَّتِی كَذَّابُونَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُونَ: مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ، وَإِنِّی خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی

حدیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایامیری امت میں ستائیس کذاب اور دجال آئیں گے جن میں چار عورتیں بھی شامل ہوں گی حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔[6]

مسلمان اپنی مقدس کتاب قرآن مجیدمیں باربارروزآخرت کاعقیدہ تلاوت کرتے ہیں ، محفلوں میں روز آخرت کازبانی اقرارکرتے ہیں مگر ان کے اعمال( جھوٹ فریب ، دغابازی، سودخوری،رشوت ستانی ،حق تلفی ،قتل وغارت،زناکاری ،فرائض وعبادات سے لاتعلقی وغیرہ )گواہی ہیں کہ وہ اس دن پریقین نہیں رکھتے، کیونکہ اگرانہیں اس دن کاخوف ہوتاتوان کے کردار یقیناًموجودہ اعمال سے مختلف ہوتے (جب آخرت کے منکروں نے اس سخت ترین دن کے لئے کچھ کیاہی نہیں ہوگاتووہاں کس چیزکی جزاپائیں گے ) چنانچہ اس پہلی وحی میں ہی روزآخرت کا ذکرکرکے واضح کیا گیاکہ اے انسانو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تخلیق کے بعد تمہیں اس زمین پرایسے ہی چھوڑدیاگیا ہے کہ تم اس چند روزہ زندگی کی رنگینیوں میں ڈوب کرتمرداورسرکشی کرتے پھرو ،اپنے خالق ومالک کے فرامین کوپس پشت ڈال کر اپنی من مرضی کے قاعدے قانون و اصول وضع کرو اوران خود ساختہ اصول وقانون کے مطابق زندگی گزارتے پھرو ، جب تم زندگی کی یہ چندسانسیں گزار کر مر جاوگے اورمٹی کے ساتھ مٹی ہو جاو گے تو کیا تمہاراقصہ ہمیشہ کے لئے تمام ہوجائے گا،جیسے فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [7]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟۔

جس قدرتوں والے رب نے تمہیں تخلیق فرماکراس زمین میں پھیلایاہے ،کیاوہ دوبارہ تمہیں اپنے حضورجمع نہیں کرے گا۔

وَهُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹ [8]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

قُلْ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ۝۲۴ [9]

ترجمہ:ان سے کہو!اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے تم اپنے رب کے حضوردوبارہ پیش نہیں ہو گے، کیاوہ تم سے تمہاری روش کی بازپرس نہیں کرے گا،اے غافل انسانوں ! ایسا ہرگز ہرگزنہیں ہے، ہمارا ایک قانون جزاوسزاہے ، تمہاری تخلیق ایک متعین مقصدکے تحت ہوئی ہے ، تمہیں زندگی بسرکرنے کا ایک مکمل ہدایت نامہ دے کر پیدا کیا گیا ہے جس کے مطابق زندگی بسرکرناہی حق اورنیکی ہے، دنیا کی یہ زندگی توآزمائش کاایک وقفہ ہے ،عمل کرنے کی ایک مختصرسی مہلت ہے ،اصل زندگی توموت کے بعدشروع ہوگی جب تمہارا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکاہوگا،تمہیں اپنی قبروں سے دوبارہ جسم وجان کے ساتھ زندہ کیاجائے گااوریقیناًذرا ذرا سی نیکی اوربدی کے محاسبہ کے لئے اپنے رب کے حضور پیش کیے جاؤ گے ، جیسے فرمایا

یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [10]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا!کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا،وہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [11]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگاجس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں گےاور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [12]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

جس مال ودولت پرتمہار ا فخروغرورہے اس مال کی بابت سوال کیاجائے گاکہ اسے کیسے کمایاتھا،صرف بات یہیں پرختم نہیں ہوجائے گی یہ بھی جواب دہی کرنی پڑے گی اس مال کوکس راہ میں خرچ کیا تھا؟ کیااس مال کواپنی عیش وعشرت،نمودونمائش ،ظلم وجبراوراللہ کے بندوں کوراہ حق سے روکنے کے لئے خرچ کیاتھایاغریبوں ، محتاجوں ، یتیموں ، بیواوں ،ضرورت مندوں ، لْعَامِلِینَ عَلَیْهَا،الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُ ،فِی الرِّقَابِ ،الْغَارِمِینَ ،فِی سَبِیلِ اللَّهِ ،ابْنَ السَّبِیلِ اور دوسرے دینی مصارف پرخرچ کرکے اللہ کوکچھ قرض حسنہ بھی دیاتھا، جوانی کی طاقت کیسے لٹائی؟ پھر ہر ایک کواپنے اعمال کے مطابق جنت کی دائمی لازوال نعمتیں ملیں گی یا وہ دائمی جہنم کی ہولناک سزاکا حق داربنے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَیْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا، وَلاَ مِثْلَ الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ میں نے جہنم کی آگ سے زیادہ خطرناک چیز کوئی نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والاسورہاہے اورجنت سے زیادہ عمدہ چیزنہیں دیکھی کہ جس کا چاہنے والاسورہاہے۔[13]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ حَاسِبْنِی حِسَابًا یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ؟ قَالَ: أَنْ یَنْظُرَ فِی كِتَابِهِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْهُ، إِنَّهُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَئِذٍ یَا عَائِشَةُ هَلَكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کوبعض نمازوں میں یہ دعاکرتے سنااے اللہ! مجھ سے آسان محاسبہ کرنا، تومیں نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آسان محاسبہ کا کیا مطلب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسان محاسبہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کانامہ اعمال دیکھے اوراس کی برائیوں سے درگزر کرے ، پھر فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !جس کا حساب لیتے وقت ایک ایک چیزکی کریدکی گئی تواس کی خیرنہیں ۔[14]

(بھلا) اسے بھی تو نے دیکھا جو بندے کو روکتا ہے جبکہ وہ بندہ نماز ادا کرتا ہے، بھلا بتلا تو اگر وہ ہدایت پر ہو یاپرہیزگاری

کا حکم دیتا ہو،بھلا دیکھو تو اگر یہ جھٹلاتا ہو اور منہ پھیرتا ہو تو کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

کیونکہ وہ دین ہی نہیں جس میں نمازنہ ہو،

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا دِینَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ دین ہی نہیں جس میں نمازنہ ہو ۔[15]

اس لئے سب سے پہلے نمازجیسی عبادت ہی ہرپیغمبرپرفرض قراردی جاتی رہی ہے ، جس کاقیام پورے دین کاقیام ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنصب رسالت کے ساتھ ہی کسی طریقہ(وحی غیرمتلو) سے نمازکاطریقہ سمجھادیاتھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے راستے پرچلنے کااظہارنمازہی سے کیا تھا ، مشرکین مکہ کے لئے یہ ایک بڑے خطرے کی نشانی تھی ان کواندازہ ہوچلاتھاکہ ان کے سینکڑوں باطل معبودوں کے دن گنے جاچکے ہیں ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا ور مشرکین مکہ میں محاذ آرائی شروع ہوگئی ، مشرکین مکہ کے پاس مال ودولت،جاہ وحشم اورافرادی قوت مال تھی،جس کی بدمستی میں یہ لوگ بھی پہلی قوموں کی طرح اپنے خالق کوبھول چکے تھے،اب نہ اسے اپنامعبود سمجھتے تھے اورنہ ہی اس کے حضور اپنی پیشانی ٹیکتے تھے، اس لئے جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پرنمازپڑھنی،تقویٰ کی تعلیم دینی شروع فرمائی کفارمکہ نے انہیں ڈرانا دھمکانا شروع کردیا ،وہ یہ بھول گئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو علام الغیوب ہے،جسے نیندیااونگھ نہیں ،جیسے فرمایا

اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ۝۰ۥۚ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ۔۔۔۝۲۵۵ [16]

ترجمہ:اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ،نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے ۔

جو اپنے عرش کے اوپرکرسی پربیٹھا زمین پرظالم کا ظلم اورمظلوم کی مظلومی دیکھ رہاہے ،اس طرح کی ہرکاروائی میں ابوجہل ہمیشہ پیش پیش رہا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ:لَئِنْ رَأَیْتُ مُحَمَّدًا یُصَلِّی عِنْدَ الكَعْبَةِ لَأَطَأَنَّ عَلَى عُنُقِهِ،فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَوْ فَعَلَهُ لَأَخَذَتْهُ المَلاَئِكَةُ عِیَانًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوجہل نے بنوقریش سے پوچھا کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )بیت اللہ میں تمہارے سامنے زمین پراپنامنہ ٹکاتے ہیں ؟انہوں نے اثبات میں جواب دیا، یہ جواب سن کروہ اپنے معبودوں لات وعزی ٰ کی قسم کھاکربولا اگرمیں نے ان کوکعبہ میں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھاتوان کی گردن پراپناپاوں رکھ کران کامنہ زمین پررگڑدوں گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبرپہنچ گئی توحبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراس نے ایساکیاتوملائکہ اعلانیہ اسے آ پکڑیں گے۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَلْ یُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْهَهُ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ قَالَ فَقِیلَ: نَعَمْ،فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَئِنْ رَأَیْتُهُ یَفْعَلُ ذَلِكَ لَأَطَأَنَّ عَلَى رَقَبَتِهِ، أَوْ لَأُعَفِّرَنَّ وَجْهَهُ فِی التُّرَابِ، قَالَ: فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یُصَلِّی زَعَمَ لِیَطَأَ عَلَى رَقَبَتِهِ قَالَ: فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ یَنْكُصُ عَلَى عَقِبَیْهِ وَیَتَّقِی بِیَدَیْهِ ، قَالَ: فَقِیلَ لَهُ: مَا لَكَ؟ فَقَالَ: إِنَّ بَیْنِی وَبَیْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَأَجْنِحَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ دَنَا مِنِّی لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْوًا عُضْوًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ابوجہل نے بنوقریش سے پوچھا کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے سامنے زمین پراپنامنہ ٹکاتے ہیں ؟انہوں نے اثبات میں جواب دیا ،یہ جواب سن کروہ اپنے معبودوں لات وعزی ٰ کی قسم کھاکربولااگرمیں نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاتوان کی گردن روندڈالوں گااوران کے چہرے کومٹی میں ملادوں گاپھروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقام ابراہیم پر وقت نمازپڑھ رہے تھے،اس امت کے فرعون ابوجہل نے آگے بڑھ کرآپ کی گردن مبارک پراپنے پیر رکھنے کاارادہ کیاکہ بدحواسی میں یک دم واپس پلٹا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کابچاؤ کرنے لگااس کے ساتھیوں نے پوچھاکہ کیابات ہے ؟ابوجہل نے جواب دیامیرے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان آگ کی خندق ،خوف ورعب اوربہت سارے پرحائل ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگریہ میرے ذرا قریب ہوتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے۔[18]

فَلَمَّا قام رسول الله قَالَ أَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ أَبَى إِلَّا مَا تَرَوْنَ مِنْ عَیْبِ دِینِنَا، وَشَتْمِ آبَائِنَا وَتَسْفِیهِ أَحْلَامِنَا وَسَبِّ آلِهَتِنَاوَإِنِّی أُعَاهِدُ اللَّهَ لَأَجْلِسُ لَهُ غَدًا بحجرٍ فَإِذَا سَجَدَ فِی صَلَاتِهِ فَضَخْتُ بِهِ رَأْسَهُ فَلْیَصْنَعْ بَعْدَ ذَلِكَ بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ مَا بَدَا لَهُمْ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبُو جَهْلٍ لَعَنَهُ اللَّهُ أَخَذَ حَجَرًا ثُمَّ جَلَسَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ینتظره ، وغدارَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كان یغدو، وكان قِبْلَتُهُ الشَّامَ . فَكَانَ إِذَا صلَّى صلَّى بَیْنَ الرُّكْنَیْنِ الْأَسْوَدِ وَالْیَمَانِیِّ ، وَجَعَلَ الْكَعْبَةَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الشَّامِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی وَقَدْ غَدَتْ قُرَیْشٌ فَجَلَسُوا فِی أَنْدِیَتِهِمْ یَنْتَظِرُونَ

ایک روایت میں ہےجب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کااعلان فرمایاتوابوجہل بن ہشام نے قریش مکہ کوجمع کرکے ان سے کہاتھااے قریش کے گروہ!تم دیکھ رہے ہوکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے دین ہی کونہیں بلکہ ہمارے بزرگوں کوبرابھلاکہتا اورہمارے دیوتاؤ ں کوبھی گالیاں دیتاہے چنانچہ آج میں نے یہ پختہ ارادہ کیاہے کہ کل صبح ہوتے ہی ایک بڑا پتھر لے کراس کی تاک میں بیٹھ جاؤ ں گااوروہ جیسے ہی حرم میں نمازپڑھتے ہوئے سجدے میں جائے گامیں اس کاسراس بڑے پتھرسے پاش پاش کردوں گاتاکہ بنوعبدمناف پہلے کی طرح اپنے دیوتاؤ ں کی پرستش سکون واطمینان سے کرتے رہیں ،دوسری صبح کوابوجہل اللہ اس پرلعنت کرے ایک بڑا پتھر اٹھا کرایک طرف چھپ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتظارمیں بیٹھ گیاچنانچہ اگلی صبح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لیے حسب معمول خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے اورنمازپڑھنے لگے تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسوداورحجریمانی کے درمیان قیام میں کھڑے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کارخ شام کی طرف تھاجب کہ خانہ کعبہ درمیان میں تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے اور کچھ دوسرے مشرکین قریش بھی ایک گوشے میں چھپے ہوئے یہ ماجرادیکھ رہے تھے،

فَلَمَّا سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ احْتَمَلَ أَبُو جَهْلٍ الْحَجَرَ ثُمَّ أَقْبَلَ نَحْوَهُ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُ رَجَعَ مُنْبَهِتًا مُمْتَقِعًا لَوْنُهُ مَرْعُوبًا قَدْ یَبِسَتْ یَدَاهُ عَلَى حِجْرِهِ، حَتَّى قَذَفَ الْحَجَرَ مِنْ یَدِهِ، وَقَامَتْ إِلَیْهِ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ. فَقَالُوا لَهُ: مَا بِكَ یَا أَبَا الْحَكَمِ؟فَقَالَ قُمْتُ إِلَیْهِ لِأَفْعَلَ مَا قَلْتُ لَكُمُ الْبَارِحَةَ فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْهُ عَرَضَ لِی دُونَهُ فَحْلٌ مِنَ الْإِبِلِ وَاللَّهِ مَا رَأَیْتُ مِثْلَ هَامَتِهِ، وَلَا قَصَرَتِهِ ، وَلَا أَنْیَابِهِ لِفَحْلٍ قَطُّ فَهَمَّ أَنْ یَأْكُلَنِی

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے توابوجہل پتھرلے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا لیکن جب ابوجہل نے پتھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پرمارناچاہاتووہ پتھراس کے ہاتھوں سے ایساچپکاکہ وہ اسے بصدہزارکوشش پھینکنےپرقادرنہ ہوسکابلکہ خوف سے کانپتاہواالٹے پاؤ ں بھاگاتودوسرے لوگوں نے آگے بڑھ کراس سے پوچھااے ابوالحکم کیاہواہے؟ان کے اس سوال پراس نے پتھرکااپنے ہاتھ سے چپک جانے کاماجرابیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایاکہ ایک لحیم شحیم اونٹ اس کی طرف لپکاتھااوراگروہ بھاگ کرنہ آتا تووہ خوف ناک اونٹ اسے اپنے کھلے ہوئے منہ میں اس کاسرلے کراسے ضرورچباڈالتا،اس نے یہ بھی کہاکہ اس ہیئت کااونٹ اس نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔[19]

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کومخاطب کرکے فرمایاکہ تم لوگوں نے اس شخص کی حرکت دیکھی جواللہ کے بندے کواپنے رب کی بندگی سے روکتا ہے؟اللہ تعالیٰ نے اس متکبراورسرکش ابوجہل لعنہ اللہ سے فرمایامیرے بندے کونمازسے روکنے والے مجھے بتا،اگرحق کاعلم رکھنے والااوراس پرعمل کرنے والاہویادوسروں کوبھی تقویٰ اور عمل صالح کی تلقین کرنے والا ہوجس سے انسان جہنم کی آگ سے بچ سکتاہے توکیایہ مناسب ہے کہ ایسے شخص کواپنے رب کی بندگی سے روکاجائے ،ان کی مخالفت کی جائے اور ان کودھمکیاں دی جائیں ، کیااس کوروکنااللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی اورحق کے خلاف جنگ نہیں ؟کیادعوت حق سے اعراض اورپیغمبرکوجھٹلانے والے کو یہ علم نہیں اللہ اس کے فعل کودیکھ اورکلام کوسن رہاہے اورعنقریب اسے اس کے ہرعمل کاپوراپورابدلہ دے گا۔

 كَلَّا لَئِن لَّمْ یَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَةِ ‎﴿١٥﴾‏ نَاصِیَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ‎﴿١٦﴾‏ فَلْیَدْعُ نَادِیَهُ ‎﴿١٧﴾‏ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَةَ ‎﴿١٨﴾(العلق)

یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے، ایسی پیشانی جو جھوٹی خطا کار ہے،یہ اپنی مجلس والوں کو بلا لےہم بھی (دوزخ کے) پیادوں کو بلا لیں گے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ: أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا؟ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا؟ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا؟ فَانْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّی، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {فَلْیَدْعُ نَادِیَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَةَ}

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پرنمازادافرمارہے تھے کہ ابوجہل کااس طرف گزرہوا، یہ دیکھ کراس نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب ہو کر بولا اے محمد! کیامیں نے تم کواس سے(نمازپڑھنے سے) منع نہیں کیاتھا،کیامیں نے تم کواس سے(نمازپڑھنے سے ) منع نہیں کیاتھا،اورپھر دھمکیاں دیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھنے سے بازنہ آئے تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر پاوں رکھ دے گا(یعنی گردن روند کر ذلیل کرے گا) محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کے اس اعتراض پرسختی سے اسے جھڑک دیاتوابوجہل جسے اپنی افرادی طاقت پربڑاگھمنڈ تھاکہنے لگااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تومجھے کس چیز سے ڈراتا ہے؟ اللہ کی قسم! توجانتاہے اس وادی میں میری مجلس میں بیٹھنے والے اورمیرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں ،میری ایک آوازپریہ ساری وادی آدمیوں سے بھرجائے گی،اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کی اس بات پر وعیدنازل ہوئی کہ اللہ کادشمن ملعون ابوجہل اللہ کے رسول کو اس بات کی دھمکی دیتاہے کہ وہ ان کی گردن پراپناپاوں رکھ کران کا چہرہ مبارک روندڈالے گااوراس طرح انہیں ذلیل کرے گا وہ اپنے جن حمایتیوں ،مددگاروں ، قرابت داروں اورکنبے قبیلے کی دھمکی دیتاہے ان سب کوجمع کرکے ہرطرح کا جتن کرڈالے ،اس نے ہمارے پیغمبر کو جو دھمکی دی ہے ، وہ ایسا ہرگز ہرگزنہیں کر سکے گااور خودہی ذلیل ورسواہوکررہے جائے گااور اگروہ ہمارے رسول کے ساتھ اپنی مخالفت ، سرکشی اورایذادہی سے بازنہ آیاتوبلالے اپنے حمایتیوں کوہم بھی عذاب کے فرشتے بلالیں گے، پھر اسے معلوم ہوجائے گاکہ کون جیتا اور کون ہارااورانجام کار اسے خطاکارپیشانی کے بالوں سے پکڑکر گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں ڈال دیاجائے گا۔[20]

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِیَهُ، لَأَخَذَتْهُ زَبَانِیَةُ الْعَذَابِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم !اگروہ اپنے حمایتیوں کو بلاتا تو اسی وقت عذاب کے فرشتے اسے پکڑلیتے ۔[21]

 كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ۩ ‎﴿١٩﴾‏(العلق )

خبردار ! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔

آخر آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بڑااہم نکتہ بیان فرمایاکہ اپنے رب کاقرب حاصل کرنے کے لئے بے خوف وخطرجہاں دل چاہئے عبادت میں مشغول رہیں اور کافروں ومشرکوں کی مطلق پرواہ نہ کریں ،ہم خودتمہارے محافظ وناصرہیں ،ہم تمہیں دشمنوں کی شرارتوں ،سازشوں سے محفوظ رکھیں گے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَقْرَبُ مَا یَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اپنے رب کے اس وقت سب سے زیادہ قریب ہوتاہے جب وہ حالت سجدہ میں ہوتاہے،پس تم کثرت سے سجدوں میں دعائیں کیاکرو۔[22]

رَبِیعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِیُّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِی:سَلْ فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِی الْجَنَّةِ. قَالَ:أَوْ غَیْرَ ذَلِكَ قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ:فَأَعِنِّی عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ

ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں رات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہاکرتااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو اور حاجت کاپانی لایاکرتاتھاایک بارآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ سے کچھ مانگومیں نے عرض کیا میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے علاوہ کچھ اور،میں نے عرض کیابس یہی گزارش ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاکثرت سجود سے تومیری مددکر(یعنی توسجدہ بہت کیاکراس لئے کہ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کوبہت پسندہے ،پس شایدمجھے تیرے لئے سفارش کرنے اوراپنے ساتھ جنت میں لے جانے کاموقع مل جائے ) ۔ [23]

سلف صالحین کی فضیلت کہ وہ حصول جنت کے لیے کس قدرکوشاں اورحریص تھے کہ اکثروبیشتران کے سوالات کامحورآخرت ہوتی تھی ،

حَدَّثَنِی مَعْدَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ الْیَعْمُرِیُّ قَالَ:لَقِیتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ یُدْخِلُنِی اللهُ بِهِ الْجَنَّةَ؟ أَوْ قَالَ قُلْتُ: بِأَحَبِّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ ،ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَسَكَتَ ثُمَّ سَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ: سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:عَلَیْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِیئَةً

معدان بن ابی طلحہ یعمری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمولیٰ( آزادکردہ غلام)تھےاورکہا مجھے کوئی ایساکام بتلاؤ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے یایوں کہاکہ مجھے وہ کام بتلاؤ جواللہ کوسب کاموں سے زیادہ پسندیدہ ہو،یہ سن کرثوبان رضی اللہ عنہ چپ ہورہے،پھرمیں نے ان سے پوچھاتوچپ رہے،پھرتیسری بارپوچھاتوکہامیں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوسجدہ بہت کیاکر،اس واسطے کہ ہرایک سجدہ سے اللہ تعالیٰ تیراایک درجہ بلندکرے گااورتیراایک گناہ معاف کرے گا۔[24]

نمازکااصل مقصودسجدہ ہے باقی تمہیداورخاتمہ ہے لہذاسجدے میں مکمل سکون واطمینان ہوناچاہیےکیونکہ شیطان سجدے سے انکارکرکے ذلیل ورسواہواورانسان شیطان کی مخالفت یعنی سجدہ کرکے عزت ورتبہ حاصل کر سکتا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَجَدْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورہ الانشقاق اورسورہ العلق میں سجدہ کیا۔[25]

اس حکم کے ساتھ ہی وحی کالگاتارسلسلہ شروع ہوگیا۔[26]

خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص

ان کاتعلق بنوعبدشمس سے تھا،یہ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے یاپانچویں مسلمان ہیں ،ان کے اسلام قبول کرنے کاواقعہ یوں ہے۔

وَیَرَى فِی النَّوْمِ كأن آت أَتَاهُ یَدْفَعُهُ فِیهَا وَیَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِحَقْوَیْهِ لَا یَقَعُ، فَفَزِعَ مِنْ نَوْمِهِ، فَقَالَ أَحَلِفُ بِاللَّهِ إِنَّ هَذِهِ لِرُؤْیَا حَقٍّ، فَلَقِیَ أَبَا بَكْرِ بْنَ أبی قحافة فذكر ذلك له، فقال [أبو بكر] أُرید بِكَ خَیْرًا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّبِعْهُ فَإِنَّكَ سَتَتَّبِعُهُ وَتَدْخُلُ مَعَهُ فِی الْإِسْلَامِ، وَالْإِسْلَامُ یَحْجِزُكَ أَنْ تَدْخُلَ فِیهَا وَأَبُوكَ وَاقِعٌ فِیهَا.فَلَقِیَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بأجیادٍ، فَقَالَ یا رسول الله یا محمد إلى ما تدعو؟ قال: أَدْعُوكَ إِلَى اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ وأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَتَخْلَعُ مَا أَنْتَ عَلَیْهِ مِنْ عِبَادَةِ حَجَرٍ لَا یَسْمَعُ، وَلَا یضر، وَلَا یُبْصِرُ، وَلَا یَنْفَعُ، وَلَا یَدْرِی مَنْ عَبَدَهُ مِمَّنْ لَا یَعْبُدُهُ .قَالَ خَالِدٌ: فَإِنِّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ.فسرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْلَامِهِ، وَتَغَیَّبَ خَالِدٌ وَعَلِمَأَبُوهُ بِإِسْلَامِهِ، فَأَرْسَلَ فِی طَلَبِهِ فَأُتِی بِهِ.فأنَّبه وَضَرَبَهُ بِمِقْرَعَةٍ فِی یَدِهِ حَتَّى كَسَرَهَا عَلَى رَأْسِهِ وقال: والله لأمنعنك القوت: فقال خالد: إن مَنَعْتَنِی فَإِنَّ اللَّهَ یَرْزُقُنِی مَا أَعِیشُ بِهِ، وَانْصَرَفَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فكان یكرمه ویكون معه

اسلام قبول کرنے سے پہلے انہوں نے ایک خواب دیکھاکہ وہ ایک نہایت گہری اوروسیع آگ کی خندق کے کنارے پرکھڑے ہوئے ہیں اوران کاباپ سعیدبن العاص انہیں اس آگ کی طرف دھکیلنے کاارادہ کررہا ہےکہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے اورخالد کو کمر سے پکڑکرکھینچ لیا،جب خالدنیندسے بیدارہوئے توان کے ذہن پراس خواب کاگہرااثرتھا،جس پرانہوں نے قسم کھا کرکہایہ خواب سچاہےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کیونکہ کپڑے کاکاروبارکرتے تھے ،طبیعت میں بھی نرمی تھی،صائب الرائے تھے اس لئے اکثراہل مکہ کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے ، جس کی وجہ سے لوگ ان کے پاس اپنے مسائل بیان کرنے چلے آتے تھےخالدبن سعیدبھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بن ابی قحافہ کے پاس آئے اوراپنے خواب کاذکرکیاسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاتمہاراخواب حق ہے ،اللہ نے تمہارے ساتھ کچھ خیرو بھلائی کا ارادہ فرمایاہے،پھرانہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تم اسلام کی دعوت قبول کرواوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کروجب تو اسلام میں داخل ہوکراتباع رسول کرے گاتواسلام ہی تجھے آگ میں گرنے سے بچالے گا مگرمجھے تمہاراوالداس ہولناک آگ میں گرتا نظر آ رہا ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر خالدخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول !اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ہمیں کس چیزکی طرف دعوت دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتاہوں جوواحدہے اورکوئی اس کاشریک نہیں ،اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ،اوراس بات کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ بتوں کی پرستش کوترک کردوجونہ کچھ نقصان پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی کچھ فائدہ ،اورنہ ہی انہیں کچھ علم ہے کہ کس نے ان کی پرستش کی اورکس نے نہیں کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پرخالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں گواہی دیتاہوں اللہ وحدہ لاشریک ہے اورآپ اللہ کے سچے رسول ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اسلام قبول کرنے سے خوش ہوئے لیکن انہوں نے اپنے والدسے اپنے مسلمان ہونے کاذکرنہیں کیابلکہ اس سے چھپتے پھرے،جب ان کے والدکو اپنے بیٹے کے آبائی دین کوترک کرنے اوراسلام قبول کرنے کاعلم ہواتوانہیں بلابھیجاجب وہ آئےاس نے کہاتونے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کااتباع کیاجس نے ساری قوم کے خلاف کیااورہمارے معبودوں کو برا اورہمارے آباواجدادکوجاہل اوراحمق قراردیتاہے تواپنی چھڑی ان کے ہاتھ پرماری اور پھران کے سرپراس سے ایسی سخت ضرب لگائی کہ وہ ٹوٹ گئی اور سرزخمی ہوگیا،خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے کہااللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل صحیح دعوت دے رہے ہیں ،یہ سن کران کے باپ کومزیدغصہ چڑھ گیااورانہیں سخت سست کہااورنظروں سے دورچلے جانے کاکہااورکہاکہ میں تیراکھاناپینابندکردوں گاخالد رضی اللہ عنہ نے کہاآپ میراکھاناپینابندکردیں گے تواللہ رب العالمین جوتمام مخلوقات کورزق پہنچاتا ہے وہ مجھے بھی رزق عطافرمادے گا،ایساکڑاجواب سن کر سعیدبن العاص نے اپنے بیٹے کوگھرسے ہی نکال باہرکیااوردوسرے بیٹوں سے کہاکہ کوئی اس سے تعلق نہ رکھے اگر کسی نے اس کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ رکھاتومیں اسے بھی گھرسے نکال دوں گا، یہ کہہ کرخالد رضی اللہ عنہ اپنے والدکے گھر کو چھوڑکررحمت رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اورآپ نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایاتووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ رہنے لگے۔[27]

عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیداموی

ابوعقبہ عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیدالسابقون الاولون کی مقدس جماعت کے ایک رکن تھے،

عمرو بن سعید بن العاص یكنى أبا أمیة

عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص کی کنیت ابوامیہ تھی۔[28]

 وأمه صفیة بِنْت المغیرة بْن عَبْد الله بْن عُمَر بْن مخزوم

ان کی والدہ نام صفیہ بنت مغیرہ تھاجوبنومخزوم سے تھیں ۔

اورخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکی پھوپھی تھیں ،عمرو رضی اللہ عنہ کے والداورداداسخت مشرک تھے لیکن ان کے بڑے بھائی خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدنہایت نیک فطرت تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو انہوں نے بلاتامل اس پرلبیک کہا

كَانَ أَبِی خَامِسًا فِی الإِسْلامِ

اوراسلام قبول کرنے والوں میں وہ پانچویں نمبرپرہیں ۔[29]

قلت: من تقدّمه؟ قالت: على ابن أَبِی طَالِبٍ، وَابْنُ أَبِی قُحَافَةَ، وَزَیْدُ بْنُ حارثة، وسعد بن أبى وقّاص

ان سے پوچھاگیاآپ سے پہلے کون لوگ اسلام قبول کرچکے تھےتوانہوں نے کہاسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص۔[30]

أسلم عَمْرُو بْنُ سَعِیدٍ بَعْدَ خَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ بِیَسِیرٍ

عمرو رضی اللہ عنہ بھی سعیدفطرت تھے انہوں نے بھی بھائی کی پیروی کی اوران کے قبول اسلام کے چنددن بعدوہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔[31]

باپ اوردوسرے اہل خاندان نے ان پرقبول اسلام کے جرم میں بے پناہ سختیاں کیں لیکن نشہ توحیدایسانہیں تھاجوسختیوں کی ترشی سے اترجاتا،اسی زمانے میں ان کے بھائی ابان بن سعید(جواس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے)دونوں بھائیوں کی ہجوکہی جس کاایک شعریہ تھا۔

أَلَا لَیْتَ مَیْتًا بِالظُّرَیْبَةِ شَاهِدُ ، لِمَا یَفْتَرِی فِی الدِّینِ عَمْرٌو وَخَالِدُ

کاش ظریبہ میں موت کی نیندسونے والا(سعیدبن عاص)دیکھتا۔کہ عمرو رضی اللہ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ نے دین میں کیاافتراکیاہے

عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیدبھی شعروشاعری میں ورک رکھتے تھے انہوں نے یہ ہجوسنی توانہوں نے بھی اس کاجواب نظلم میں دیاجس کامقطع یہ تھا۔

فدع عنك میتا قد مضى لسبیله ، وأقبل على الحقّ الّذی هو أظهر

اب اس موت کی نیندسونے والے کاذکرچھوڑووہ اپناسفرلے چکا۔اوراس حق کی طرف آؤ جس کاحق ہونابالکل ظاہرہے

وَكَانَ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْحَبَشَةِ فِی الْهِجْرَةِ الثَّانِیَةِ مَعَهُ امْرَأَتُهُ فَاطِمَةُ بنت صفوان الْكِنَانِیَةُ

جب مشرکین کاظم وستم حدسے بڑھ گیاتودوسری ہجرت حبشہ میں عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیداپنی اہلیہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت صفوان کنانیہ اور خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدبھی اپنی اہلیہ کے ساتھ اس میں شامل ہوگئے ۔

قَدِمَ عَلَیْنَا عَمِّی عَمْرُو بْنُ سَعِیدٍ أرض الْحَبَشَةِ بَعْدَ مَقْدَمِ أَبِی بِسَنَتَیْنِ فَلَمْ یَزَلْ هُنَاكَ حَتَّى حُمِلَ فِی السَّفِینَتَیْنِ مَعَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمُوا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بخیر سَنَةَ سَبْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ، فَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِینَ فَأَسْهَمُوا لَنَا

عمرو رضی اللہ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ اپنے اہل خاندان سمیت تیرہ برس تک حبش میں غریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے ،غزوہ خیبرکے زمانہ میں دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ دوکشتیوں میں حبش سے مدینہ منورہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے گفتگوفرمائی اورگووہ اس غزوہ میں شریک نہ تھے مگر مال غنیمت میں ان کاحصہ بھی لگایا گیا۔[32]

فَشَهِدَ عَمْرٌو مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْفَتْحَ وحنین وَالطَّائِفَ وَتَبُوكَ

عمرو رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ،غزوہ طائف اورغزوہ تبوک (جیش عسرة)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب ہونے کاشرف حاصل کیا۔[33]

وكان رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قد استعمل عمرو بن سعید على خیبر ووادی القرى وتیماء وتبوك

غزوہ تبوک سے واپسی پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ کے مغربی علاقوں خیبر،وادی القری ،تیماء اورتبوک کاعامل مقرر کیا اوراپنی دعاؤ ں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ فرمایا۔[34]

وعمرا بنی سعید بن العاص لما بلغتهم وفاة النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رجعوا عن أعمالهم ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:ما لكم رجعتم عن عمالتكم،فقالوا:لا نعمل لأحد بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أبدا

جب عمروبن سعیدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی روح فرساخبرسنی توفرط الم سے نڈھال ہوگئے اورسب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ منورہ واپس آگئے، جہاں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسندنشین خلافت ہوچکے تھے ،خلیفہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھر عہد رسالت کے عہدے پرواپس بھیجناچاہااوران سے فرمایاتم سے بڑھ کراس عہدے کامستحق کون ہوسکتاہے؟ مگرانہوں نے یہ کہہ کرواپس جانے سے معذرت کی کہ اے خلیفة الرسول،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمیں اس قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔[35]

فَلَمَّا خَرَجَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى الشَّامِ فَكَانَ فِیمَنْ خَرَجَ فَقُتِلَ یَوْمَ أَجْنَادِینَ شَهِیدًا فِی خِلافَةِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ فِی جُمَادَى الأُولَى سَنَةَ ثَلاثَ عَشْرَةَ

ابھی واپس آئے تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ سلطنت روم سے معرکہ آرائی کاآغازہوگیاشام اس زمانے میں رومی سلطنت کاحصہ تھا،جمادی الاول تیرہ ہجری میں خلیفة الرسول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے شام پرفوج کشی کی توعمرو رضی اللہ عنہ بن سعیدشام جانے والے مجاہدین میں ایک معمولی سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوگئے،دوتین معرکوں کے بعدمسلمانوں اوررومیوں کے درمیان اجنادین کے مقام پرنہایت سخت لڑائی ہوئی،عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیداس معرکے میں بڑی بے جگری سے لڑے اوراسی میں ہی جام شہادت پی کرخلدبریں میں پہنچ گئے۔[36]

 وبه أكثر من ثلاثین ضربة

ان کے جسم پرتیس سے زیادہ زخم شمارکیے گئے۔[37]

عمرو رضی اللہ عنہ بن سعیداوران جیسے دوسرے شہدوں کاخون رائگاں نہ گیارومیوں کوعبرتناک شکست ہوئی اوروہ اپنے ہزاروں آدمی کٹواکربھاگ کھڑے ہوئے۔[38]

[1] المومنون۳۵،۳۶

[2] المومنون۸۲تا۸۳

[3] الواقعة۴۷،۴۸

[4] المائدة۳

[5] مسنداحمد۲۲۳۹۵

[6] مسنداحمد۲۳۳۵۸

[7] المومنون۱۱۵

[8] المومنون۷۹

[9] الملک۲۴

[10] لقمان۱۶

[11] الانبیاء ۴۷

[12] الزلزالة۷،۸

[13] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ جَهَنَّمَ بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَیْنِ، وَمَا ذُكِرَ مَنْ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِیدِ۲۶۰۱

[14] مسند احمد ۲۴۲۱۵، صحیح ابن خزیمہ۸۴۹، مستدرک حاکم۱۹۰،صحیح ابن حبان۷۳۷۲

[15] تعظیم قدر الصلاة۱۰۷۸

[16] البقرة۲۵۵

[17]صحیح بخاری کتاب تفسیرسورۂ العلق بَابُ كَلَّا لَئِنْ لَمْ یَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِیَةِ نَاصِیَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ۴۹۵۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ۳۳۴۸

[18] صحیح مسلم کتاب صفة القیامة بَابُ قَوْلِهِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ۷۰۶۵ ، مسنداحمد۸۸۳۱

[19]البدایة والنہایة۴۳؍۳

[20] جامع ترمذی کتاب تفسیرسورہ بَاب وَمِنْ سُورَةِ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ۳۳۴۹

[21] جامع ترمذی کتاب تفسیرسورہ بَاب وَمِنْ سُورَةِ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ۳۳۴۹، مسنداحمد ۲۳۲۱

[22] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۱۰۸۳،سنن نسائی کتاب الافتتاع باب أَقْرَبُ مَا یَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۱۱۳۸،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی الدُّعَاءِ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۸۷۵،مسنداحمد۹۴۶۱،صحیح ابن حبان ۱۹۲۸

[23] سنن نسائی کتاب الافتتاح باب فَضْلُ السُّجُودِ۱۱۳۹،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْهِ۱۰۹۴، سنن ابوداودکتاب التطوع بَابُ وَقْتِ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّیْلِ ۱۳۲۰

[24] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْهِ۱۰۹۳ ،سنن نسائی کتاب الافتتاح بَابُ ثَوَابِ مَنْ سَجَدَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سَجْدَةً ۱۱۴۰،مسنداحمد۲۲۳۷۷

[25] صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ سُجُودٍ التِّلَاوَةِ۱۳۰۱،مسند احمد۹۹۳۹

[26] صحیح بخاری کتاب الوحی باب كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۰۶

[27] البدایة والنہایة ۴۴؍۳،حیاة الصحابة۸۴؍۱

[28] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۳؍۴۶

[29] ابن سعد۷۵؍۴

[30] الاستیعاب فی معرفة اصحاب۴۲۱؍۲

[31] ابن سعد۷۵؍۴

[32] ابن سعد۷۵؍۴

[33] الاصابة فی تمیزالصحابة۵۲۷؍۴

[34] تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۰؍۴۶

[35] الاستیعاب فی معرفة اصحاب۴۲۲؍۲

[36] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۱؍۴۶

[37] الاصابة فی تمیزالصحابة۵۲۷؍۴،تاریخ دمشق لابن عساکر۲۶؍۴۶

[38] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۵؍۴۶

Related Articles