ہجرت نبوی کا دوسرا سال

نزول سورۂ المزمل آیت ۲۰

نمازتہجدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرفرض تھی اورصحابہ کرام   رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی میں  تہجداداکرتے تھے،ان حالات میں  اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرمائی اورتہجدکی فرضیت کوختم فرما دیا چنانچہ یہ حکم نازل فرمایا۔

إِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِینَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ یُقَدِّرُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَیْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَن سَیَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢٠﴾‏(المزمل )
 ’’ آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے، اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ تعالیٰ کو ہی ہےوہ( خوب) جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سکو گے پس تم پر مہربانی کی لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہواتناہی پڑھو، وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی روزی بھی) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو، اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اورنیکیاں  کمانے کاغیرمعمولی جذبہ پایاجاتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قیام الیل کرتادیکھ کرانہوں نے بھی قیام لیل شروع کردیا،انہوں  نے بھی اپنے بستروں  کوخیربادکہہ دیااورخوف وطمع سے اپنے رب سے توبہ واستغفارکرنے لگے،انہی لوگوں  کے بارے میں  فرمایا

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۱۶       [1]

ترجمہ:اُن کی پیٹھیں  بستروں  سے الگ رہتی ہیں  ، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں  ، اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں  دیا ہے اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ۔

لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی جس سے ان کی پنڈلیوں  اورقدموں  پرورم آگیا ،تہجدفرض نہیں نفل نمازہے،

طَلْحَةَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّهِ، یَقُولُ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ، یُسْمَعُ دَوِیُّ صَوْتِهِ وَلاَ یُفْقَهُ مَا یَقُولُ، حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ یَسْأَلُ عَنِ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِی الیَوْمِ وَاللیْلَةِ، فَقَالَ: هَلْ عَلَیَّ غَیْرُهَا؟ قَالَ:لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ

طلحہ بن عبیداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نجد کا رہنے والا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جارہی تھی لیکن یہ سمجھ میں  نہیں  آتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن جب قریب ہوا تو معلوم ہوا (کہ) وہ اسلام کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھتا ہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ دن رات میں  پانچ نمازیں  ہیں ،  وہ شخص بولا کہ کیا ان کی علاوہ (بھی کوئی نماز) میرے اوپر (فرض) ہے؟آپ نے فرمایا نہیں  مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے پڑھے۔[2]

یعنی ان پانچ نمازوں  کے اورکوئی نمازفرض نہیں  بلکہ سنت ہے یا مستحب ، وترکی نمازاورعیدکی نمازاورگہن کی نمازیہ سب سنت ہیں اورجوکوئی ان کوواجب کہتاہے اس پریہ حدیث حجت ہے ۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا ، عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ، ابوعبدالرحمٰن،حسن بصری  رحمہ اللہ کے مطابق تقریباایک سال بعد۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، أَنْبِئِینِی عَنْ قِیَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ: یَا أَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:فَإِنَّ أَوَّلَ هَذِهِ السُّورَةِ نَزَلَتْ، فَقَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ خَاتِمَتُهَا فِی السَّمَاءِ اثْنَیْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ نَزَلَ آخِرُهَا، فَصَارَ قِیَامُ اللیْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِیضَة

سعد بن ہشام  سے مروی ہےمیں  نےام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے عرض کیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز تہجد کا حال بیان فرمایئے، پوچھا کیا تو نے سورت مزمل نہیں  پڑھی؟ میں  نے کہا کیوں  نہیں  ضرور پڑھی ہے،فرمایا جب اس صورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونے لگے یہاں  تک کہ (دیر دیر تک کھڑے رہنے کی بنا پر) ان کے پاؤں  میں  ورم آگیا اور اس سورت کی آخری آیتیں  بارہ مہینے تک آسمان پر رکی رہیں ۔ پھر اس کی آخری آیتیں  نازل ہوئیں  تو رات میں  تہجد پڑھنا فرض نہ رہا بلکہ نفل ہو گیا۔[3]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے مطابق

فَمَكَثُوا بِذَلِكَ ثَمَانِیَةَ أَشْهُرٍ

آٹھ ماہ بعد۔[4]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے مطابق سولہ ماہ۔

عَنْ قَتَادَةَ، قَامُوا حَوْلًا أَوْ حَوْلَی

قتادہ  رحمہ اللہ  کے مطابق ا یک سال یادوسال۔

عَنْ سَعِیدٍ، قَالَ:فَخَفَّفَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَعْدَ عَشْرِ سِنِینَ

اور سعیدبن جبیر رحمہ اللہ  کے مطابق دس سال کے بعد۔[5]

اللہ تعالیٰ نے تنگی کے بجائے وسعت کردی اورقیام الیل میں  تخفیف کی آیات نازل ہوئیں ، ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ پہلارکوع نبوت کے چوتھے سال نازل ہوا اور دوسرا رکوع مدینہ طیبہ میں  نازل ہواجب زکواة کی فرضیت کاحکم بھی نازل ہوچکاتھاان دونوں  کے درمیان دس برس کافاصلہ ہی ہوناچاہیے ۔

فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اورآپ کے ساتھ اہل ایمان کی ایک جماعت نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی ،چونکہ ماموربہ وقت کاتعین کرنالوگوں  کے لئے مشکل تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایاکہ اس نے ان کے لئے انتہائی آسانی پیداکردی ہے،اللہ تعالیٰ دن اوررات کی مقدارکوجانتاہے اوروہ یہ بھی جانتاہے کہ کتناوقت گزرگیاہے اورکتناباقی ہے ،وہ جانتاہے کہ کمی بیشی کے بغیرتم اس کی مقدارمعلوم نہیں  کوسکوگے،کیونکہ اس کی مقدارکی معرفت کاحصول ،واقفیت اورمزیدمشقت کا تقاضا کرتا ہے تواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمہارے لئے تخفیف کردی ہے اور تمہیں  صرف اسی چیزکاحکم دیاہے جوتمہارے لئے آسان ہے خواہ وہ مقدارسے زیادہ ہویاکم،لہذانمازمیں  جتنی طمانیت اورراحت کے ساتھ قرآن مجیدکی قرات کرسکتے ہو ، جس کی قرات تم پرشاق نہیں  گزرتی پڑھ لیا کرو، مگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کاجوش وخروش دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوڈرمحسوس ہوا کہ یہ نمازامت پرفرض نہ ہوجائے توباہرنکل کران لوگوں  سے فرمایاان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤجن کی تم میں  طاقت ہو،اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گاالبتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤگے ،سب سے بہترعمل وہ ہے جس پردوام ہوسکے۔

ؕ عَلِمَ أَن سَیَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ ۚ (المزمل)
کریں  گے، اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں  جہاد بھی کریں  گے سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو ۔

پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض ایسے اسباب ذکرفرمائے جوتخفیف سے مناسبت رکھتے ہیں ،چنانچہ فرمایاوہ جانتاہے تم میں  سے بیماربھی ہوں  گےاوردوتہائی شب ،نصف شب یا ایک تہائی شب کی نمازان پرشاق گزرے گی،پس مریض اتنی ہی نمازپڑھے جواس کے لئے آسان ہے،نیزوہ مشقت کی صورت میں  کھڑے ہوکرنمازپڑھنے پربھی مامور نہیں  بلکہ اگرنفل نمازپڑھنے میں  اس کے لئے مشقت ہے تووہ اسے چھوڑدے اوراسے اسی طرح نمازکااجرملے گاجس طرح صحت مندہونے کی حالت میں  پڑھتا رہا ہے ، اللہ یہ بھی جانتاہے کہ تم میں  مسافربھی ہیں جوجائزاورحلال طریقوں  سے رزق کمانے کے لئے سفرکرتے ہیں ،پس مسافرکے احوال سے تخفیف مناسبت رکھتی ہے ،اسی لئے اس میں  اس کے لئے فرض نمازمیں  بھی تخفیف کردی گئی ہے،اوراس کے لئے ایک وقت میں  دونمازوں  کاجمع کرنااور چار رکعتوں  والی نمازمیں  قصرکرنامباح کردیا گیا ہے ، کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہادبھی کرتے ہیں  لہذاتم بآسانی جتناقرآن پڑھ سکوپڑھو۔

ۚ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢٠﴾‏(المزمل )
اور نماز کی پابندی رکھواور زکوة دیتے رہا کرواور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دواور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں  بہتر سے بہتر اور ثواب میں  بہت زیادہ پاؤ گے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہا کرو،  یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

پھراللہ تعالیٰ نے دوعبادتوں  کاذکرفرمایاجوام العبادات اوران کاستون ہیں ،یعنی پانچوں  نمازوں کواس کے ارکان ،اس کی حدود،اس کی شرائط اوراس کی تکمیل کرنے والے تمام امورکے ساتھ قائم کرناجس کے بغیردین درست نہیں  رہتا۔

بعض لوگ نمازکوسکون کے ساتھ اداکرنے کے بجائے جلدی جلدی اداکرتے ہیں  جیسے سر سے بوجھ اتاراجا رہا ہو ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ وَقَالَ:ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ یُصَلِّی كَمَا صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلاَثًا، فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَیْرَهُ، فَعَلِّمْنِی، فَقَالَ:إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِی صَلاَتِكَ كُلِّهَا

ایسے لوگوں  کے بارے میں  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ایک آدمی مسجدمیں  آیااس نے نمازپڑھی پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوسلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دے کرفرمایا واپس جااورنمازپڑھ کیونکہ تونے نمازنہیں  پڑھی،وہ شخص واپس گیااورپہلے کی طرح نمازپڑھی اورپھرآکرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوسلام کیالیکن آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا واپس جااوردوبارہ نمازپڑھ کیونکہ تونے نمازنہیں  پڑھی ،آپ نے اس طرح تین مرتبہ کیاآخراس شخص نے کہا اس ذات کی قسم !جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث کیاہے ،میں  اس کے علاوہ اورکوئی اچھاطریقہ نہیں  جانتا،اس لئے آپ مجھے نمازسکھادیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نمازکے لئے کھڑے ہوتوپہلے تکبیر کہہ ، پھر آسانی کے ساتھ جتناقرآن تجھ کویادہواس کی تلاوت کر،اس کے بعدرکوع کر اچھی طرح سے،رکوع ہولے توپھرسراٹھاکرپوری طرح کھڑاہوجا ، اس کے بعدسجدہ کرپورے اطمینان کے ساتھ ،پھرسراٹھااوراچھی طرح بیٹھ جا،اسی طرح اپنی تمام نمازپوری کر۔[6]

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نمازنہیں ۔[7]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ یَقْرَأْ فِیهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِیَ خِدَاجٌ،ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس شخص نے نمازاداکی اوراس میں  ام القران نہ پڑھی تواس کی نمازناقص ہے،آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایااورناتمام ہے۔[8]

اور زکوٰاة (صدقات واجبہ اور صدقات مستحبہ ) کوسچی نیت اورثبات نفس سے،خالص اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضاکے لیے پاک مال سے خرچ کرناجوایمان کی دلیل ہے اوراس سے حاجت مندوں  اورمساکین کے لیے ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ پھرعام بھلائی اوربھلائی کے کاموں  کی ترغیب دلائی کہ جونیک عمل تم اپنے لئے آگے بھیجو گے (ابن زید کہتے ہیں  اس سے مرادزکواة کے علاوہ اپنامال اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرناخواہ وہ جہادفی سبیل اللہ ہویااللہ کے بندوں  کی مددہویارفاہ عام ہویادوسرے بھلائی کے کام) اس کواللہ کے ہاں  بہتراورثواب میں  بہت زیادہ پاوگے،ایک نیکی کااجردس گناہ سے لیکرسات سوگناتک بلکہ بے شمارگناملتاہے،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنْ مَالِهِ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَیْهِ،قَالَ:اعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ،قَالُوا: مَا نَعْلَمُ إِلَّا ذَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:إِنَّمَا مَالُ أَحَدِكُمْ مَا قَدَّمَ، وَمَالُ وَارِثِهِ مَا أَخَّرَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں  سے کون ہے جسےاپنےمال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیاراہو ؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں  سے کوئی بھی ایسانہیں  جسے اپنامال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو، فرمایا سوچ لوتم کیاکہہ رہے ہو،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماراحال واقعی یہی ہے،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھراس کامال وہ ہے جواس نے(موت سے )پہلے(اللہ کے راستہ میں  خرچ)کیااوراس کے وارث کامال وہ ہے جووہ چھوڑکرمرا۔[9]

یعنی آدمی اپنی زندگی میں  جوکچھ بھلائی اورنیکی کے کاموں  میں  خرچ کرے گاوہی آخرت میں  اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوگا،موت کے بعدورثے میں  سے اگرکوئی خرچ کرے گاتواسے اس خرچ کااجرنہیں  ملے گاکیونکہ اب مال ورثاءکاہے نہ کہ میت کا۔بھلائی اورنیکی کے کاموں  کی ترغیب دینے کے بعداستغفار کا حکم دیا جس میں  بہت بڑا فائدہ ہے،اس کاسبب یہ ہے کہ بندہ ان کاموں  میں  کوتاہی سے پاک نہیں  جن کا اسے حکم دیاگیاہے یاتووہ ان کاموں  کوسرے سے کرتاہی نہیں  یا انہیں  ناقص طریقہ سے کرتا ہے،پس اسے استغفارکے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کاحکم دیا گیاہے،کیونکہ بندہ دن رات گناہ کرتاہے اگراللہ  تبارک وتعالیٰ اسے اپنی رحمت اورمغفرت سے ڈھانپ نہ لے تووہ ہلاک ہوجائے گا۔

غزوہ ودان (ابواء )صفر۲ہجری

وَاسْتَخْلَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَغَازِیهِ عَلَى الْمَدِینَةِ: فِی غَزْوَةِ وَدّانَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ

چنانچہ ماہ صفر دوہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد  رضی اللہ عنہ  بن عبادہ کومدینہ میں  اپنانائب بنایااورپہلی مرتبہ بنفس نفیس اقتصادی اورعسکری نکتہ نظرکے حامل علاقہ دوان کے ساحلی علاقہ کی طرف ستر یادوسومہاجرین کاایک دستہ لیکرروانہ ہوئے۔

(مواخات میں  مہاجرین کی تعدادپینتالیس تھی،غزوہ بدرمیں  نوخیز نوجوانوں  سمیت صرف ساٹھ مہاجرین ہتھیار بند مہیا ہو سکے تھے ،بعض میں  ستربیان کی گئی ہے تواس سے چندماہ قبل اس سفارتی سفرمیں  دوسو کا مہاجر لشکر کس طرح مرتب ہوسکتاتھاان اعدادوشمارکے کی روشنی میں  جن میں  غزوہ ودان کے دوران مہاجرین کی تعداددوسوبیان کی گئی ہے وہ غلط اندازوں  پرمبنی ہے،مولاناشبلی نعمانی اس غزہ میں  لشکراسلام کی تعدادساٹھ بیان کرتے ہیں  )

وَدفع لِوَاءُهُ إِلَى حَمْزَة

اس دستہ کاسفیدجھنڈا اپنے چچاسیدالشہداءحمزہ  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب کوعطافرمایا۔

یہ پہلاموقعہ تھاجب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم منظم لشکرکی شکل میں  مدینہ سے باہرگئے تھے ،دوران سفرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبارصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو لشکرکشی کے طور طریقوں  ،موزوں حرب وضرب اوردوران جنگ صبرواستقامت کی تربیت فرمائی ہوگی اورانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کچھ سیکھاہوگا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ودان سے تیرہ کلومیڑ دور مقام ابواء پر پڑاو ڈالا جہاں  بنوضمرہ ، بنوغفار اور کنانہ آبادتھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی والدہ ماجدہ کی قبر بھی یہیں  ہے)اس غزوہ کامقصد اس اہم علاقہ کے قبائل کو دشمن سے توڑنا اوران کیساتھ امان وتعاون کا معاہدہ طے کرناتھاجس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکامیابی حاصل ہوئی ،اور قبیلہ بنوضمرہ کے سردار مخشی بن عمرو ضمری جو بنو کنانہ سے تعلق رکھتے تھے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ طے پایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بنوضمرہ پرحملہ نہیں  کریں  گے اوربنوضمرہ مسلمانوں  کے خلاف نہ توکوئی کاروائی کریں  گے اورنہ کسی کاروائی میں  حصہ لیں  گےاوران کے کسی دشمن کی مددبھی نہیں  کریں  گے اورضرورت کے وقت مسلمانوں  کی اعانت اور امداد کریں  گے،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپہلامعاہدہ تھا،اس معاہدہ کی باقاعدہ دستاویز تیارکی گئی جویوں  تھی۔

بِسْمِ اللهِ الرّحْمَنِ الرّحِیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمّدٍ رَسُولِ اللهِ لِبَنِی ضَمْرَةَ فَإِنّهُمْ آمِنُونَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرمحمدرسول اللہ کی طرف سے بنوضمرہ کے لئے ہے ،ان کوجان ومال کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے،اورجب پیغمبرانہیں  مددکے لئے بلائیں  گے تویہ مسلمانوں  کی اعانت اور امداد کریں  گے۔[10]

ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْمَدِینَةِ، وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا،وَهِیَ أَوَّلُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بلا قتال واپس مدینہ پہنچ گئے،یہ پہلا غزوہ تھا جس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بذات خودمدینہ سے باہرنکلے۔[11]

وَكَانَتْ غَیْبَتُهُ خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پندرہ دن مدینہ منورہ سے باہررہے[12]

اس غزوہ نے مدینہ کی سرحدوں  کووسعت دینے کے علاوہ اہم علاقہ میں  طاقت ورحلیف مہیاکئے تھے،یہی نہیں  بلکہ ریاست مدینہ منورہ کی بین الاقوامی حیثیت کومنظرعام پر لانے میں  مدددی تھی،اہل مکہ جوشروع سے مدینہ میں  اسلام کی نشوونماحاصل کرنے سے خائف تھے اس غزوہ نے انہیں  چونکادیا،وہ طاقت جسے وہ مدینہ منورہ کے اندر برداشت نہ کرسکتے تھے اب ان کے اثرورسوخ کی سرحدوں  تک پہنچ چکی تھی ،چنانچہ ان کے لئے ضروری ہوگیاکہ وہ مدینہ کوختم کرنے کے لئے عملی اقدامات شروع کریں ، انہوں  نے اپنے اعلان جنگ اوراس غزوہ کے پیداکردہ خدشات کے علاج کولشکرکشی کی شکل دی اورابن حزم رحمہ اللہ  ،ابن اسحاق رحمہ اللہ  اورابن ہشام رحمہ اللہ  کے مطابق عکرمہ بن ابوجہل کوتین سو سواردے کرمدینہ کے خلاف روانہ کیا،ابن اثیرکے مطابق اس مکی مہم کاکماندارابوجہل تھا۔

واقدی کے مطابق غزوہ دوان سے قبل سریہ حمزہ  رضی اللہ عنہ ،سریہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ  ،سریہ سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  عمل میں  آچکے تھے ،مگرہمارے نزدیک یہ درست نہیں ،اس لئے کہ

x  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک خودبیرون مدینہ جاکرمدینہ میں  ریاست کے قیام اوروجودسے لوگوں  کوآگاہ نہ کرلیتے اپنے سپہ سالاروں  کوروانہ نہ فرماتے،چنانچہ اس غزوہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمانداروں  کے لئے ممکن ہوگیاکہ وہ بھی بے روک ٹوک اس علاقہ میں  مہموں  پرجائیں  اورریاست کی دفاعی ضروریات کوپوراکریں ۔

x  غزوہ دوران یاابواء سے قبل کے یہ سرایاصرف واقدی بیان کرتاہے ،ابن اسحاق اورابن ہشام ان سرایاکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غزوہ کے بعدبتاتے ہیں ۔

x   احادیث صحیحہ کے مطابق بھی اس غزوہ سے قبل کسی طرح کی فوجی نقل وحرکت کاپتہ نہیں  چلتا،یہی نہیں  بلکہ پہلے سال ہجری میں  مہاجرین کی تعدادبھی فوجی کاروائیوں  کی متحمل نہیں  ہوسکتی تھی۔

x  مسجدنبوی کی تعمیرکے بعدمہاجرین کی تعدادپینتالیس بیان کی جاتی ہے،تعمیرمسجدہجرت کے چندماہ بعدمکمل ہوئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ایک ہجری میں  زید  رضی اللہ عنہ  کوگھرکی مستورات کولانے کے لئے مکہ روانہ کیا،مہاجرین وانصارکے درمیان مواخات کافیصلہ بھی ہجرت سے چندماہ بعدعمل میں  آیا،اگراس وقت مہاجرین کی تعدادپچاس کے قریب تھی توظاہرہے کہ اولین سرایاجن میں  صرف مہاجراصحاب نے شرکت فرمائی وہ ہجرت کے پہلے سال عمل میں  نہیں  لائے گئے۔

x  قرآن مجیدکی سندسے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ ہجرت کے پہلے سال کسی قسم کی فوجی کاروائی عمل میں  نہیں  لائی گئی ہوگی،جہادکے متعلق اس آیہ کریمہ

 اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا۔۔۔  ۝۳۹ۙ         [13]

ترجمہ: اجازت دے دی گئی ان لوگوں  کوجن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ۔

کواولیت کامقام دیاجاتاہے اس کے متعلق کتب احادیث میں  اتفاق رائے سے یہ بتایا گیاہے کہ یہ ذوالحجہ ایک ہجری میں  نازل ہوئی۔

تفسیرجریرمیں  جہادکی اجازت کی بجائے جہادکے حکم والی آیت

 وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۝۱۹۰         [14]

ترجمہ :اورتم اللہ کی راہ میں  ان لوگوں  سے لڑوجوتم سے لڑتے ہیں  مگر زیادتی نہ کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوں  کوپسندنہیں  کرتا۔

کواولیت کامقام دیاگیاہے ،دونوں  آیات میں  لڑائی کی پہل دوسری جانب سے بتائی گئی ہے،یہ درست ہے کہ اہل مکہ نے عبداللہ بن ابی کوجودھمکی انگیزخط لکھاتھاوہ اعلان جنگ کے مترادف تھامگراس وقت تک صبرکاحکم تھاجہادکانہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاتدارک میثاق مدینہ کے ذریعہ کیاتھا۔

x  یہ سمجھناکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہادکی اجازت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ بصیرت نے مکہ کے ناگزیرحملے کااندازہ کرلیاتھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایکہجری میں دفاعی جنگ کی تیاریاں  میں  مصروف ہوگئے تھےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سریہ حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب،سریہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ  ،سریہ سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  روانہ فرمائے مناسب نہیں  ، ہمارے خیال میں جب تک مکہ مکرمہ یاکسی اورقبیلہ کی جانب سے باقاعدہ آغازجنگ نہ ہوجاتااوراللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے لڑائی کی اجازت نہ مل جاتی یاجہادکاحکم نہ مل جاتایہ تصوربھی نہیں  کیاجاسکتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادکی اجازت سے قبل جہادکی طرف عملی قدم اٹھایاہوگا۔اس لئے جن ارباب سیرنے ہجرت کے پہلے سال کے سرایاکاروانہ بیان کیاہے وہ غلطی پرہیں بلکہ جو معاملات ہوئے وہ حربی یاعسکری نوعیت کے نہ تھے بلکہ دعوتی وفود تھے جنہیں  غیر متوقع طور پر لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔

بہرحال دشمن کے مقابلے کے لئے تیاریاں  ضروری تھیں  جوآپ نے کوئی وقت ضائع کیے بغیرشروع کردیں ،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاع جنگ کے لئے جوتیاریاں  فرمائیں  ان کی تفصیلات پڑھنے سے پہلے دفاع کے اصولوں  کوپڑھنامفیدہوگا۔

میجرجنرل اکبرخاں  (سابق کرنل کمانڈنٹ رائل آرمی سروس کور)نے ایک عمومی قومی پالیسی کے متعلق جنرل برڈ کاایک مفید تبصرہ نقل کیاہے۔جوملک ،جوقوم وحکومت اپنے مفاد کی حفاظت جنگ کے ذریعے کرناچاہتی ہے اسے اس بات کاخاص خیال رکھناچاہیے کہ کوئی کاروائی ہمسایہ حکومتوں  کے نظریوں  کی پاسداری کے خلاف نہ ہوجس سے وہ خوامخواہ ناراض ہوکراپنے خلاف دشمن کے ساتھ صف آراہوجائے۔

اس خارجی حکمت عملی کاانحصارتین باتوں  پرہے۔

x  اپنے ملک کی جغرافیائی پوزیشن۔

x  ا پنے قومی مفاداور

x  اپنے حقوق ومفادکے لئے قوم کا عزم ۔

پہلی دوباتیں  اس کافیصلہ کرتی ہیں  کہ کن کن حکومتوں  سے کس قسم کے تعلقات اورکیابرتاؤہوناچاہیے ،تیسری بات کی مطابق دشمن کے خلاف اپنے نرم ،گرم،سخت بے باکانہ یامصالحانہ طرزعمل کاتعین ہوتاہے ،مجموعی طورپران تینوں  کے مطابق اس کی فوج مضبوط یاکمزورہوگی لہذاجنگ کی تیاری تین قسم کی ہوتی ہے۔

سیاسی:سیاسی تیاری کے وقت حکومت پر ملک کے باشندوں  کاکامل اعتماد ضروری ہے،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہمسایہ حکومتوں  کے ساتھ دوستی وحمایت اوراعتمادکارشتہ قائم ہوتاکہ یہ بات واضح طورپرمعلوم رہے کہ خطرات کااعلان کس کس طرف سے ہے اوران کاتدارک کیاکیاجاسکتاہے۔

اخلاقی اورمادی:جب ملک کی اخلاقی حالت مستحکم ہوکرنظم ونسق کی بنیاد بن جائےتوجنگ میں  کامیابی یقینی ہوتی ہے،نپولین کاقول ہے کہ اخلاقی طاقت جسمانی طاقت سے کم ازکم تین گنازیادہ اہم ہے،چونکہ فوج ہرلحاظ سے اپنے ملک وقوم کی علم بردارہوتی ہے اس لئے جس فوج میں  سچائی،بردباری،ایثاروجاں  نثاری اورصلاحیت واستعداد کی خوبیاں  اورعشرت رانی کے بجائے نفس کشی کے اوصاف ہوں  گے وہ ہرجدوجہدمیں  کامیاب رہے گی۔

آلات حرب وضرب:فوج کاجدیدآلات سے مسلح ہوناضروری ہے،اس سے اپنی فوج پراپنے باشندوں  کااعتمادبڑھتاہے اوراس اعتمادسے تجارت فروغ پاتی ہے، دوسری قومیں  اس زبردست فوج کے باعث اس ملک کے حقوق ومفاداس کی حکومت اوراس کی تجارت کااحترام کرتی ہیں ۔

حکومت کافرض ہے کہ اعلان جنگ کے وقت ملکی مفادکومدنظررکھتے ہوئے فوج کے اپنے دفاعی مقاصدسے واضح طورپرآگاہ کردیاجائے۔

لیکن میدان جنگ میں  جانے سے پہلے جوتیاریاں  ہونی چائیں  ان کے متعلق میجرجنرل اکبرخاں ،جنرل ہیملے اورجنرل کیگل کی کتاب آپریشن آف وار(Opertion of War)کے اقتباسات لکھتے ہیں ۔

xجنگ شروع کرنے سے پہلے یہ معلوم کرلیناضروری ہے کہ لڑائی کن کن حالات اورکن کن اثرات کے تحت لڑی جائے گی،میدان جنگ کس قسم کاہے،فوج کے ہتھیارخواہ کیسے ہی کیوں  نہ ہوں بدلتے رہیں  گے،میدان جنگ میں  کامیابی کے لئے فوج میں  عزم واخلاق ،نظم وضبط،عقل وفہم،جسمانی طاقت اورتحمل مصائب کی قوت کاہوناضروری ہے،لڑائی کے میدان میں  اخلاق قوتوں  کی خاص آزمائش ہوتی ہے۔

xکامیابی کے لئے ضروری ہے کہ جنگ کاآغازاچھاہواورآغازاسی وقت اچھاہوسکتاہے جب آغازجنگ سے پہلے زمانہ امن میں  لڑائی کی پوری تیاری کرلی جائے،لیکن یہ تیاری بے کارمحض ہے اگرفوج کواس زمانہ میں  عمدہ تربیت دے کرسخت جان نہ بنایاگیاہو،پھرمصائب کے خنداں  اورفرحاں  برداشت کرنے کاانحصارجسمانی قوت سے زیادہ اخلاقی قوت پرہے،اس لئے سپہ سالارپرلازم ہے کہ وہ فوج کی اخلاقی تعلیم کابہت زیادہ خیال رکھےکیونکہ دفاعی منصوبوں  کی کامیابی کادارومداراخلاقی حالت کے اچھے یابرے ہونے پرہوتاہے۔

ان شہرہ آفاق ماہرین فن کے افکارپیش کرنے کے بعدمیجرجنرل اکبرخاں  دنیاکی دوبڑی فوجوں  کی شکست کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اکثردفاعی مبصرین کی رائے ہے کہ فرانس ۴۵۔۱۹۳۹ء کی جنگ عظیم میں  محض اس لئے شکست کھاگیاکہ فرانسیسی سپاہی آرام طلب،عیش پسنداورپست حوصلہ تھے اورخوداعتمادی کے جوہرسے تہی مایہ۔ گومیسولینی نے اٹلی والوں  کوجسمانی اورتعلیمی اعتبارسے فائق بنادیاتھامگراخلاقی مضبوطی کی طرف توجہ نہ کی اس لئے میدان میں  وہ بھی بہت جلدجی چھوڑبیٹھے۔

یہ دنیاکے ان ماہرین جنگ کے مطالعہ اورتجربات کانچوڑہیں جوجنگی فنون کے ایک تربیت یافتہ ،تجربہ کاراورسوچنے سمجھنے کی اہلیت سے بہرہ ورافسرکی زبانی پیش ہوئے،اب اس کے مقابلے میں  ان دفاعی تیاریوں  کامطالعہ فرمائیں  جومدینہ منورہ میں  آج سے چودہ سوبرس قبل ہوئیں  اورپھراندازہ فرمائیں  کہ پیغمبرانہ بصیرت صدیوں  کے جنگی تجربات اورآلات جنگ سے کلی انقلاب کے باوجودکتنی مکمل اورکتنی نتیجہ خیزتھیں ،اس بصیرت نے جوجنگی اصول وقوانین وضع فرمائے ان کے مقابلے میں  جدیدترین افکاروآراکتنی تشنہ اور کم سوادہیں  اوراس نقطہ نظرسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کامطالعہ ہمارے لئے من حیث القوم کتناضروری اوراہم ہے۔

اخلاقی تربیت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سرتاسرمعلم اخلاق کی زندگی تھی،اس زمانے میں  جتنی آیات نازل ہوئیں  اورجتنے قوانین نافذہوئے اس کامقصدیہ تھاکہ:

x  اس تحریک میں  شامل ہونے والوں  کوایک مرکزاورایک عالمگیرقانون کے تحت اس طرح جمع کردیاجائے کہ وہ ملت واحدہ بن جائیں ۔

x  ان کواخلاق کاایسامعیاردیاجائے کہ ان کی انسانی کمزوریاں  ،توانائیوں  میں  بدل جائیں  اوران کی جبلی عظمتیں  ان نئی توانائیوں  کے ساتھ مل کرمرکزکے حقیقی مقصدکے لئے وقف ہوجائیں ۔

x  دینوی زندگی کی کوئی حقیقت کسی کی نظرمیں  باقی نہ رہے اورحیات بعدالموت کواتنی اہمیت حاصل ہوجائے کہ دینوی زندگی کوآخرت کی بہترین زندگی کے حصول کے لئے جدوجہدکامیدان سمجھ لیاجائے۔

x  ہرقسم کے مصائب اورشدائدکوبرداشت کرنے اوربڑی سے بڑی آفت کوخندہ پیشانی سے جھیل جانے کی ایسی ہمت وجرات پیداہوجائے کہ مخالفت کتنی بھی شدید،کتنی بھی کڑی اورکتنی بھی ناقابل برداشت ہوجائے ثبات میں  لغزش نہ آئے۔

یہ وہ عظیم تربیت تھی جس میں  سے مسلمان مکی زندگی کے تیرہ سال تک گزرتے رہے،ان میں  ایسے لوگ بھی تھے جنہوں  نے بڑی سے بڑی آزمائش میں  صبرکرنے اورمشکلات کو نمازاورصبرکے ذریعہ عبورکرجانے کے ناقابل یقین کمالات دکھائے تھے، لَا رَیْبَ    اس قسم کی اخلاقی تربیت کسی قوم اورکسی فوج کواس سے پہلے نہیں  دی گئی اورمسلمانوں  نے جب تک اخلاق کے اس معیارکوقائم رکھااورزمانہ امن میں  اس تربیت کواپنے وظیفہ حیات کے طورپراختیارکیااس وقت تک دنیاکی کوئی قوم ان پرغالب نہیں  آسکی،اس ساری تربیت ،ریاضت،مشقت اورقوت برداشت کوجہادکے وسیع معنوں  میں  لیاجاتاہے اوریورپ ،امریکہ کے وہ تمام بڑے بڑے جرنیل جن کے حوالے میجرجنرل اکبر خاں  نے دیئے ،اسی کوامن کے زمانے کی تربیت کانام دیتے ہیں ،مغربی جرنیلوں  کے تصورتربیت اوراسلام کے تصورجہادمیں  ایک بنیادی اوراہم فرق یہ ہے کہ یہ جرنیل اس تربیت کو صرف فوج تک محدودرکھتے ہیں  جبکہ اسلام اس کادائرہ پوری قوم پروسیع کردیتاہے ،اس فرق کاعملی زندگی میں  جواثرہوگاوہ مغربی قوموں  اوراس تصورپرپوری طرح عامل مسلمان قوم میں  بالکل واضح اورتاریخی طورپرثابت ہے،مغرب کی افواج اپنی قومی روایات کومیدان جنگ میں  بھی ساتھ لاتی ہیں  اورانہیں  ان اخلاقی اقدارکی تربیت حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے،جہاں  یہ تربیت ذراکمزوراورڈھیلی ہووہاں  فرانس اوراٹلی کی فوجوں  کانقشہ سامنے آجاتاہے،اس کے مقابلے میں  مسلمان افواج اپنی قومی روایات کوساتھ لے کرمیدان قتال میں  اترتی ہیں ،ان کی اخلاقی تربیت نسبتاًآسان ہے اورفوج کے میدان میں  اترتے ہی پوری قوم اس جنگ کاجزوبن جاتی ہے ،اس کی لاتعدادمثالیں  اسلام میں  موجودہیں ۔

سیاسی تیاری:

دفاع کی سیاسی تیاریوں  میں  ملک کی جغرافیائی پوزیشن،قومی مفاد اوران مفادات کے تحفظ کے لئے قوم کے عزم کوخاص اہمیت دی جاتی ہے ،قدوسیوں  کی یہ مختصرجماعت جواپنے گھربارکوچھوڑکرمدینہ منورہ آئی تھی وہی نصب العین رکھتی تھی جومکہ مکرمہ میں  مدتوں  ظاہرہوتارہا،یعنی یہ کہ دنیالامرکزیت اورلاقانونیت کے چنگل میں  گرفتارہے اور اس کی وجہ سے اولادآدم ہزاردرہزارمصائب کاشکارہوگئی ہے،اس کاعلاج یہی ہے کہ دنیاکومرکزیت اورقانونیت کی نعمتوں  سے مالامال کیاجائے،ایک اللہ،ایک قانون اور اس قانون کاایک مفسر صلی اللہ علیہ وسلم اولادآدم کوہزاردرہزارمصائب سے نجات دلائے گااوردنیاوآخرت کی نعمتوں  سے مالامال کردے گا،اس جماعت کا مفاد مکہ مکرمہ میں  بھی یہی تھا کہ یہ نصب العین دنیامیں  قائم ہوجائے اوراس کی ترویج واشاعت کے راستے ہموارہوجائیں ،مکہ نے اسی مفادکوتباہ کردینے کی لاتعدادکوششیں  کیں  اور اس جماعت کوگھروں  سے نکلناپڑا،مدینہ منورہ میں  بھی یہی مفادتھااوراس کے تحفظ کے لئے قوم کے عزم کااس سے بڑاکوئی ثبوت نہیں  دیاجاسکتاکہ اسی تحفظ کی ظاطر اپنا گھر بار ، اپنا مال ، اپنی املاک اوراپنی جائیدادیں  یہاں  تک کہ بعض صورتوں  میں  اپنی محبوب بیویاں  اورپیارے بچے بھی تج دیئے گئے ،اس کے بعدکون سی قوم اپنے مفادکے تحفظ کے لئے آمادہ ہو سکتی تھی ؟ اس نقطہ نظرسے جوبات سمجھنے والی رہ جاتی ہے وہ مدینہ کی جغرافیائی پوزیشن ہے۔

مدینہ کاجغرافیہ اورمعاشرہ:

دس ہزارآبادی پرمشتمل تقریباًدس ساڑھے دس میل لمبے اوردس میل چوڑے چٹیل میدان میں  ایک دوسرے سے ایک ایک دودوفرلانگ کے فاصلے پرنبی ہوئی چند بستیوں  کامجموعہ عہدنبوی کایثرب تھا،اس میں  جوبستی ان تمام بستیوں  کے ٹھیک درمیان میں  آبادتھی اسے یثرب کہاجاتاتھااوراسی نسبت سے اس پورے مجموعے کویثرب کہتے تھے،ان دوسری بستیوں  کے اپنے اپنے الگ الگ نام بھی تھے ،بستیوں  کایہ مجموعہ تین طرف سے پہاڑیوں  میں  گھراہواتھا،شمال میں  جبل احدہے جو شرقاًغرباًپھیلاہواہے اور جس کی چوٹی جبل نورکہلاتی ہے،جنوب میں  جبل عیرہے،اس وقت کی یہ متفرق آبادی جبل ثورسے جبل عیرتک پھیلی ہوئی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یثرب میں  ہجرت فرمائی توپہاڑیوں  کے اس طویل وعریض سلسلے میں  گھرے ہوئے میدان کوجوجوف یثرب کہلاتاتھاحرم کے لفظ سے یادفرمایااورآہستہ آہستہ حرم مدینہ کہلانے لگا،اس علاقہ کی زمین ہموارنہیں  ہے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ٹیلے ہیں  جوبقول میجرجبرل اکبرخاں  کے ہجوم اوردفاع کے اعتبارسے بہت زیادہ اہم ہیں ،اسی بستی کے مغرب جنوب اورشمال مشرق میں  متعددباغات اورگنجان آبادیاں  واقع تھیں ،مشرق میں  طرف قباسے احدکے قریب تک شمالاًجنوباًزیادہ تریہودی آبادتھے جن کے محلے گنجان اوردوردورتک چلے گئے تھے،یثرب کے شمال مغرب میں  برے رومہ سے وادی العقیق کے کناروں  تک بہت سے باغات تھے ،بئررومہ کایہ علاقہ بھی یہودیوں  کے قبضے میں  تھا،شمالی علاقہ کھلا ہوا تھا ، اس میدان کی زمین شورہونے کی وجہ سے ناقابل کاشت تھی،جنوب کی طرف دشوارگزاروادیاں  اورگھاٹیاں  ہیں  ،قدم قدم پرلاوے کے پتھرحائل ہیں ،پانی کی شدیدقلت ہے،پتھروں  کے تپ جانے سے گرمی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بستی کوآج کی زبان میں  اسلامی ریاست کے صدر یامرکزی مقام کی حیثیت سے پسندفرمایااوراس میں  مسجداورازواج مطہرات کے حجرے تعمیرکرکے اسلامی ریاست کی پہلی اسمبلی قائم فرمائی وہ دفاعی اعتبارسے بستیوں  کے اس مجموعے کا بہترین حصہ تھا۔اس اسلامی ریاست کے قریب ترین ہمسائے یہودیوں  کے تین قبیلے بنوقیفقاع،بنونضیراوربنوقریظہ تھے،ان بستیوں  کی غیریہودی آبادی دوہرے قبیلوں  اوس وخزرج پرمشتمل تھی جوعرب کے عام دستورکے مطابق خاندانوں  کی تقسیم درتقسیم میں  بٹی ہوئی تھی،ہجرت کے بعدمکہ مکرمہ سے مہاجرین تشریف لائے اوراس معاشرے کاتیسراحصہ بن گئے،یہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تووہ اپناسب کچھ مکہ مکرمہ میں  چھوڑآئے تھے ،مدینہ منورہ کے انصارنے ان کی خدمت میں  کوئی کسراٹھانہیں  رکھی تاہم مہاجرین کی آبادکاری ایک اہم مسئلہ تھی جس کی طرف اگرفوری توجہ نہ دی جاتی تواس کی اقتصادی بنیادیں  سیاست کومتاثرکرسکتی تھیں ،ان سب پر مستزادبستیوں  کے اس مجموعے سے باہر وہ چھوٹے چھوٹے دیہات تھے جنہیں  مدینہ کے نواحی دیہات کہاجاسکتاہے،یہ ساٹھ سترمیل کادائرہ تھاجس میں  مختلف قبائل آبادتھے،ان قبائل کے ساتھ مکہ اورمدینہ دونوں  کے قبائل کے حلیفانہ تعلقات تھے اوریہ تعلقات کسی وقت بھی سیاسی مسائل پیداکرسکتے تھےاور آنے والے دونوں  میں  کچھ مسائل پیدا بھی ہوئے۔

مدینہ معظمہ پرحکمران ہونے کے لحاظ سے مدینہ منورہ اوراس کے باشندوں  کی حفاظت کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرہی تھی اس لئے مدینہ منورہ پہنچتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی ہوش مندی اور دوررس بصیرت سے نوخیز اسلامی ریاست کی حالت درست کی اورانصارومہاجرین میں  بھائی بھائی کارشتہ پیداکرکے معاشرے کے ان گروہوں  کو جو مختلف گروہ بن سکتے تھے ایک جان دوقالب کردیااسے مواخاة کے نام سے یادکیاجاتاہے ،یہ بات نوٹ کرلینے کی ہے کہ مسلمان مہاجرہوں  یاانصار،ارشادنبوی کی پابندی کرنے کی سعادت سے اس حدتک بہرہ یاب ہوئے کہ ان کے درمیان یہودہوں  یامکہ کے مشرک ذراسافرق پیداکرنے میں  ناکام رہے ،یہ ان قابل احترام بزرگوں  کاعمل تھاجس نے ملت اسلامیہ کی بنیادوں  کوچٹان کی طرح مضبوط اورمتحدبنادیا۔

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکی طرف توجہ فرمائی ،قرآن مجیدیہودہوں  یانصاریٰ دونوں  کااحترام کرتاہے اورمشرکین کے مقابلے میں  انہیں  اہل کتاب کے معزز لقب سے یادفرماتاہے ،چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں  کے ساتھ معاملہ باہمی امن ورواداری اورحسن سلوک کیے۔

دوسرے اقدامات :

جب یہ ہوچکاتودفاعی سیاست کے دوسرے اقدامات کئے گئے،دفاعی اصولوں  میں  سے ایک اہم اصول ریاست کے نواحی آبادیوں  کے متعلق مکمل اوردرست رپورٹیں  حاصل کرنااوران کی طاقت اوردشمنی یادوستی کاصحیح اندازہ کرناہے ، چنانچہ سب سے پہلے جس چیزپرتوجہ منعطف فرمائی وہ شاہراہ شام کامسئلہ تھااس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تدابیر اختیار فرمائیں ۔

x  ایک تویہ کہ مدینہ منورہ اور ساحل بحراحمر کے درمیان شاہراہ شام(مکہ کے ان تجارتی قافلوں  کوجوشام جایااورآیاکرتے تھے مدینہ اوربندرگاہ ینبوع کے درمیان سے گزرناپڑتاتھا ) سے متصل جوقبائل آباد تھے ان کے اوراہل مدینہ میں  ابتداہی سے معاہدات تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ساتھ گفت وشنید شروع فرمائی تاکہ وہ حلیفانہ اتحادیاکم ازکم نہ طرف داری کے معاہدے کرلیں  جب ان قبائل سے یہ معاہدہ امن وبھائی چارہ تحریرہوجائے گا تو قریش مکہ ان قبائل کو مسلمانوں  کے خلاف استعمال نہیں  کر سکیں  گے،تاکہ مختلف قبائل کے درمیان معمولی معمولی باتوں  پرسالوں  پرمحیط جو خانہ جنگی جاری رہتی تھی جس میں دونوں  جانب سے انسانی جانوں  کا بے دریغ ضائع ہوتا رہتا تھا اس کاسدباب ہو جائے چنانچہ اس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ان معاہدات کی تجدیدفرمائی بلکہ ان میں  جنگی امدادکی شق کا بھی اضافہ فرمایا۔[15]

سب سے پہلے قبیلہ جہینہ سے جوساحل کے قریب پہاڑی علاقے میں  ایک اہم قبیلہ تھامعاہدہ نہ طرفداری طے پاگیا،پھر بنی ضمرہ سے جن کا علاقہ ینبع اورذوالعشیرہ سے متصل تھادفاعی معاونت کی قراردارہوئی،اسی مقصد امن وبھائی چارہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضوی کی طرف تشریف لے گئے اورکوہ بواط کے لوگوں  کوبھی خوش اسلوبی سے اس معاہدہ میں  شریک کرلیا ،دوہجری کے وسط میں  بنی مدلج بھی اس قرار داد میں  شریک ہوگئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اورحلیف تھے، مزید برآں  تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں  اسلام کے حامیوں  اور پیرووں  کا بھی ایک اچھاخاصا عنصر پیدا کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی حمزہ بن بکر بن عبدمناف کوجوودان (مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان ) میں  آبادتھااس معاہدہ میں  شامل کرنے کے لئے تشریف لے گئےاورخوش اسلوبی سے معاملہ طے پا گیا ، معاہدہ پران کے سردارعمروبن فحشی الضمری نے دستخط کیے۔[16]

x  دوسری احتیاطی تدبیرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اختیارفرمائی کہ قریشی دستوں  کی صحیح نقل وحرکت ،قافلوں  کے سازوسامان جوقافلوں  کے ذریعہ لایایالے جایاجارہاتھامقامی حالات ، باشندوں ،نامانوس راستوں  سے متعارف ہونے،پانی کے حصول کے مقامات نیزجغرافیائی تفصیلات سے متعلق معلومات اور مدینہ منورہ کی مدافعت کے لئے شاہراہ شام پرپیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اوربعض دستوں  کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خودبھی تشریف لے گئے گویااردگردکے علاقوں  کاایک جنگی نقشہ تیارکیاگیا،اس سے کئی صدیوں  بعدجرمنی کے شہرہ آفاق جرنیل فیلڈمارشل ہنڈنبرگ نے ٹینبرگ نامی ایک مقام پرروسی فوجوں  کوگھیرکردلدلوں  میں  پھنساکرفناکردیاتھااس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہنڈنبرگ نے اس سارے علاقے کاچپہ چپہ اپنی آنکھوں  سے دیکھااوراپنے پیروں  سے رونداتھا،اس طرح مستقبل کے ممکن میدان جنگ کاچپہ چپہ صرف جرنیل ہی نہیں  بلکہ فوج کے ایک بڑے حصے کے زیرمطالعہ رہا،غیبی نصرت کے غیرمتبدل وعدوں  پرنے مثال حدتک کامل ایمان کے ساتھ ساتھ جہاں  علت ومعلول کی باریک ترین مادی جزئیات کامطالعہ کرنااوراس کے نتائج کااپنے مقاصدکے حصول کے لئے استعمال کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرعمل کانمایاں  پہلوہے۔

مہماتی سفر:

دفاعی مقاصدکے حصول کے لئے فوج کواقدام اوردفاع کی مختلف مشقیں  کراتے رہنادفاع کی بہت بڑی ضرورت ہے،آج کی دنیامیں  چھوٹے بڑے ممالک کی فوجی اکیڈمیاں  اسی مقصدکے تحت اپنے ہرکیڈٹس کواس قسم کی مشقت طلب مشقیں  کراتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں  ایک نئی نظریاتی ریاست کی بنیادیں  مستحکم کر رہے تھے اس معاشرے کاہرفردتلوارکادھنی اورلڑائی کامردمیدان تھا،انصارکی کئی پشتیں  میدان جنگ میں  لڑرہی تھیں ،مکہ کے مہاجرگوتجارت کرتے تھے اورسپاہیانہ زندگی ان کا پیشہ نہ تھاتاہم تجارتی کاروانوں  کی حفاظت اوراس سے بڑھ کرمعاشرے میں  باعزت زندگی گزارنے کے لئے تلوارکاسہارالیناان کے لئے ناگزیرتھااس لئے پیشہ ورسپاہی نہ ہونے کے باوجودان کی زندگی سپاہیانہ تھی،اس کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کواقدام اوردفاع کی متعددمشقیں  کرائیں ۔

اکثراہل رائے یہ کہتے ہیں  کہ مسلمانوں  نے قریش کی طرف سے کی جانے والی ناانصافیوں  کوختم کرنے اوردشمن پردباؤڈالنے کے لئے جوطریقے استعمال کیے تھے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ قریش کے تجارتی کاروانوں  کواپنے زیراثر علاقہ سے وقت ضرورت گزرنے سے روکنے اورمعاشی دباؤڈالنے کامنصوبہ تھاکہ اس طرح قریش کی شام سے ہونے والی تجارت متاثر ہوتی تواسی تناسب سے قریش کی حربی طاقت میں  کمی ہوجاتی ،ہوسکتاہے یہ بھی مقصدرہاہومگرواقعات پرغورکرنے سے یہ واضح ہوتاہے کہ معاشی دباؤڈالنے سے زیادہ مدینہ منورہ کی مدافعت کے لئے یہ دستے روانہ کیے گئے تھے ،ان تمام سرایامیں  بھیجے جانے والے افرادعموماًتعدادمیں  کم ہواکرتے تھے جبکہ اس کے برخلاف قریش کے مسلح افراداوراگرقافلہ کی صورت ہوتواس کے مسلح ہم راہی یامحافظ زیادہ ہواکرتے تھے ،ایسی صورت میں  یہ تصوربھی نہیں  کیاجاسکتاکہ یہ حفاظتی دستے صرف قافلوں  کودھمکانے یالوٹنے ہی کے لئے جایاکرتے تھے ،اگرقافلوں  کولوٹناہی ہوتاتوحورہ وحیران کے مالدارقافلے جوعرب کے میلوں  میں  آیاکرتے تھے اورمدینہ منورہ سے گزرتے تھے ان کی طرف مسلمانوں  نے کبھی توجہ ہی نہیں  کی اورنہ ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذی العشیرہ سے قبل ایساکوئی اقدام فرمایا،اگرمقصدلوٹ مارہی ہوتاتو مہاجرین انصار مدینہ کے بجائے قبیلہ غفارکے مسلمانوں  سے بخوبی لیاجاسکتاتھامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرصہ تک غفاریوں  سے جن کااسلام سے قبل پیشہ لوٹ مارہی تھا اوروہ مکہ مکرمہ اورمیدان بدرکے درمیان آبادتھے مددنہیں  لی ،اس سے ثابت ہوتاہے کہ ان مہموں  کامقصداپنی حفاظت کے لئے صرف دشمن کی نقل وحرکت سے باخبررہناتھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں  بیٹھ کرقریش کے دستوں  کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے سریہ حمزہ  رضی اللہ عنہ ،سریہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ  ،سریہ سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ روانہ کیے گئے۔

سریہ حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب(سیف البحر)

وَبَعَثَ فِی مَقَامِهِ ذَلِكَ، حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ، إلَى سَیْفِ الْبَحْرِ، مِنْ نَاحِیَةِ الْعِیصِ، فِی ثَلَاثِینَ رَاكِبًا مِنْ الْمُهَاجِرِینَ، لَیْسَ فِیهِمْ مِنْ الْأَنْصَارِ أَحَدٌ،قَالَ وَكَانَ الَّذِی یَحْمِلُ لِوَاءَ حَمْزَةَ أَبُو مَرْثَدٍ الغنوی،فَلَقِیَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ بِذَلِكَ السَّاحِلِ فِی ثَلَاثِ ماِئَةِ رَاكِبٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَحَجَزَ بَیْنَهُمْ مَجْدِیُّ بْنُ عَمْرٍو الْجُهَنِیُّ. وَكَانَ مُوَادِعًا لِلْفَرِیقَیْنِ جَمِیعًا، فَانْصَرَفَ بَعْضُ الْقَوْمِ عَنْ بَعْضٍ، وَلَمْ یَكُنْ بَیْنَهُمْ قِتَالٌ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غزوہ ابواءسے واپس ہوئے تومدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے ہی اپنے دلیراورجانباز چچااوررضاعی بھائی سیدالشہداءحمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کوتیس مہاجرین شترسواروں  کے ہمراہ سیف البحرکی طرف عیص کی جانب سے ساحل سمندرکی طرف روانہ فرمایاجہاں  بنوسلیم آبادتھے ،ان میں  کوئی انصاری شامل نہ تھاتاکہ وہ قریش مکہ کے قافلوں  پرنظررکھیں ، حمزہ  رضی اللہ عنہ کے دستے کاعلمبردارابو مرثدغنوی  رضی اللہ عنہ  تھے،یہ دستہ عیص کے اطراف میں  بحیرہ احمرکے ساحل تک چلاگیا،شام جانے والے قریش کے تجارتی کارواں  اسی راستہ سے گزرتے تھے، سیف البحر کے قریب جہاں ابوجہل کی سرکردگی میں  ایک تجارتی قافلہ جوشام سے واپس آرہا تھاسے آمنا سامنا ہوگیا، ابوجہل کے ہمراہ تین سوافراد تھے،دونوں  گروپ مقابلے کے لئے صف آرا ہو گئے قریب تھاکہ جنگ شروع ہوجاتی کہ مجدی بن وعمروالجہنی نے جو ریاست مدینہ کاحلیف تھا درمیان میں  پڑ کر بیچ بچاوکرادیااورحمزہ  رضی اللہ عنہ بغیرجنگ کے واپس آگئے۔[17]

الجہنی کاقبیلہ ممکن ہے کہ اہل مکہ کے مقابلہ میں  کمزورہومگروہ تجارتی شاہراہ پرقابض قبیلہ تھااس کے سردارکی درخواست ردنہیں  کی جاسکتی تھی چونکہ اگروہ ناراض ہوجاتاتوتجارتی قافلوں  کے لئے شام کا سفر ناممکن بن جاتا،طاقت کے ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سفارتی اقدامات نے مکہ کوکمزوربناڈالاتھا، بہرحال اس کے بعد دونوں  گروپ اپنے اپنے راستہ پرروانہ ہوگئے۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ مکی دستہ مدینہ منورہ پرحملہ آورہونے کی غرض سے میدان میں  آیاتھااوراسلامی دستہ کامقصددشمن کے ارادوں  سے باخبررہناتھاتاکہ مدینہ پرحملہ ہونے کا قرینہ پائیں  تواہل مدینہ کومطلع کریں  اورجان کی بازی لگاکردشمن کوروکے رکھیں  تاکہ مسلمانوں  کومدافعت کی تیاری کاوقت مل سکے۔

سریہ عبیدہ بن حارث  رضی اللہ عنہ (ثنیة المرة)

ثُمَّ بَعَثَ عُبَیْدَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ الْمُطَّلِبِ فِی سَرِیَّةٍ إِلَى بَطْنِ رَابِغٍ  وَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً أَبْیَضَ، وَحَمَلَهُ مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ، وَكَانُوا فِی سِتِّینَ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ، لَیْسَ فِیهِمْ أَنْصَارِیٌّ،  وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ مِائَتَیْنِ عَلَیْهِمْ أَبُو سُفْیَانَ صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ وَهُوَ الْمُثْبَتُ عِنْدَنَا،وَكَانَ عَلَى الْقَوْمِ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ، وَقِیلَ كَانَ عَلَیْهِمْ مِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ، وَكَانَ بَیْنَهُمُ الرَّمْیُ، وَلَمْ یَسُلُّوا السُّیُوفَ، وَلَمْ یَصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ، وَكَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ فِیهِمْ، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ،فَكَانَ أَوَّلَ سَهْمٍ رُمِیَ بِهِ فِی الْإِسْلَامِ،قال أَنَا أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن حارث کو جو نسبتاًمحتاط آدمی تھے اورعبداللہ بن سلمہ عجلانی  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ قیام پذیرتھے ، انہیں ساٹھ یاستریااسی مہاجر مجاہدین کادستہ جوسب شتر سوارتھے اسلام کا پہلاسفید جھنڈادے کررابغ کے قریب ثنیة المرة کی جانب روانہ فرمایاجومدینہ سے تقریبا ًدوسوکلومیڑکے فاصلے پرتھااس دستہ کے پرچم بردارمسطح بن اثاثہ تھے،اس دستہ میں  بھی کوئی انصا ری شامل نہیں  تھا ،قریش سے پہلی جھڑپ میں  اندازہ ہوگیاتھاکہ مکی دستہ تعدادمیں  زیادہ ہوتاہے اس لئے اس مہم میں  زیادہ مجاہدین روانہ کیے گئے، عبیدہ بن حارث  رضی اللہ عنہ  کوحکم تھا کہ وہ ریاست مدینہ سے دورثنیة المرة  پر مکی دستہ کاراستہ روکیں  اور اگر ضرورت ہوتو مقابلہ کریں ، عبیدہ بن حارث  رضی اللہ عنہ  مرہ نامی گھاٹی کے نیچے پانی کے ایک جوہڑتک گئے،جب یہ لوگ مقام ثنیة المراء پر پہنچے جوقافلوں  کے ٹھیرنے اورپانی حاصل کرنے کے لئے استعمال ہواکرتاتھا تواس دستہ کا سامنا ابوسفیان بن حرب  یادستہ کے سردارعکرمہ بن ابی جہل(یہ دونوں فتح مکہ کے روزمسلمان ہوئے) یا مکرز بن حفص (یہ مسلمان نہیں  ہوا) سے ہواجس کے ساتھ دو سو مسلح آفراد تھے، یہ ریاست مدینہ کے حلیف قبیلہ کاعلاقہ تھا،مجاہدین کونفسیاتی برتری حاصل تھا مگر صف بندی یا شمشیر زنی تونہ ہوئی البتہ تھوڑی بہت تیراندازی ضرورہوئی،مجاہدین کی طرف سے سب سے پہلا تیر سعدبن ابی وقاص نے چلایا، یہ تیراسلام کی جانب سے ہتھیاروں  کاپہلااستعمال تھاجس پرسعدبن ابی وقاص فخر فرمایاکرتے تھے ،فرماتے تھے میں پہلاشخص ہوں  جس نے جہادفی سبیل اللہ میں  پہلاتیرچلایاتھا۔[18]

اس سریہ میں  پہلی مرتبہ تیراندازی ہوئی جس سے فریقین میں نہ توکوئی زخمی ہوا اور نہ کسی طرح کامال لوٹا گیا اورنہ ہی مسلمانوں  کو اس کی اجازت ہی تھی ،

ثُمَّ انْصَرَفَ الْقَوْمُ عَنِ الْقَوْمِ، وَلِلْمُسْلِمِینَ حَامِیَة

کفار نے مدینہ کی جانب رخ نہ کیا تو معمولی تیراندازی کے بعددونوں  فریق واپس اپنے اپنے علاقوں  میں  چلے گئے ۔[19]

وَفَرَّ مِنْ الْمُشْرِكِینَ (إلَى)  الْمُسْلِمِینَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرِو الْبَهْرَانِیُّ، حَلِیفُ بَنِی زُهْرَةَ، وَعُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ ابْن جَابِرٍ الْمَازِنِیُّ، حَلِیفُ بَنِی نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَا مُسْلِمَیْنِ، وَلَكِنَّهُمَا خَرَجَا لِیَتَوَصَّلَا بِالْكُفَّارِ

اس سریہ کااہم واقعہ یہ ہواکہ دونہایت بااثراوربارسوخ افراد مقداد رضی اللہ عنہ  بن عمرو بہرانی( حلیف بنی زہرہ) اورعتبہ  رضی اللہ عنہ  بن غزوان بن جابرمازنی( حلیف بنونوفل )جومسلمان ہوچکے تھے مگر قریش کے پنجے میں  پھنسے ہونے کی وجہ سے ہجرت نہیں  کر سکے تھے یہ قریش کے قافلہ کے ساتھ چل دیئے تھے تاکہ اگرموقعہ ملے تو مسلمانوں  میں  جاملیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موقعہ دے دیااوروہ مشرکوں  کی قیدسے بھاگ کرمسلمانوں  سے آ ملے۔[20]

ان کے جانے سے مکی لشکرمیں  فطری طورپرخوف وہراس کی لہردوڑگئی ہو گی،خطرہ تھاکہ دوطاقتوارقبیلوں  کے حلیف افرادکے مکی لشکر سے نکل جانے کے بعدکہیں  اورلوگ بھی اسلامی لشکرمیں  شامل نہ ہوجائیں ،نوجوان عکرمہ بن ابوجہل دلیر ضرور تھا مگر سمجھداربھی تھااس نے فوراًاپنے لشکرکوپس قدمی کے احکام دیئے اور بیشتر اس کے اسلامی لشکرکی طرف سے مزیدتیراندازی ہوتی یاحملہ ہوتامکی لشکرمیدان چھوڑکرمکہ روانہ ہوچکاتھا،عبیدہ بن الحارث  رضی اللہ عنہ  اپنے مقصدمیں  کامیاب ہوچکے تھے،چنانچہ مکی دستے کے جانے کے بعد وہ بھی مدینہ کی جانب گامزن ہوگئے۔

سریہ سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ (خرارکی جانب)

وَبَعْثَهُ فِی عِشْرِینَ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِینِ یَعْتَرِضُ لِعِیرِ قُرَیْشٍ تَمُرُّ بِهِ، وَعُهِدَ إِلَیْهِ أَنْ لَا یُجَاوِزَ الْخَرَّارَ، وَالْخَرَّارُ حِینَ تَرُوحُ مِنَ الْجُحْفَةِ إِلَى مَكَّةَ آبَارٌ عَنْ یَسَارِ الْمَحَجَّةِ قَرِیبٌ مِنْ خُمٍّ،قَالَ سَعْدٌ فَخَرَجْنَا عَلَى أَقْدَامِنَا فَكُنَّا نَكْمُنُ النَّهَارَ وَنَسِیرُ اللَّیْلَ حَتَّى صَبَّحْنَاهَا صُبْحَ خَمْسٍ، فَنَجِدُ الْعِیرَ قَدْ مَرَّتْ بِالْأَمْسِ فَانْصَرَفْنَا إِلَى الْمَدِینَةِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  کوبیس مہاجرشترسواروں  کے ہمراہ (بعض روائتوں  میں  ہے کہ یہ لوگ پیدل ہی روانہ کیے گئے تھے)جن کے علم بردارمقدادبن عمروتھے قریش کی ایک اورجماعت کی طرف خرار(بعض جگہوں  پرضرارلکھاہواہے)کی سمت روانہ فرمایا،خرارخم کے قریب جحفہ کے بائیں  جانب ایک مقام کانام ہے،اورانہیں  تاکیدفرمائی کہ وہ رات میں  سفرکریں (تاکہ راتوں  کے اندھیرے میں  نظم وضبط کے ساتھ چلنے کی مشق ہوجائے) اوردن میں  چھپ جایاکریں اورخرارسے آگے نہ بڑھیں ،چنانچہ حکم کے مطابق یہ دستہ رات میں  سفرکرتا اوردن میں  آرام کرتا ہوا پانچویں  دن خرارپہنچا،وہاں  معلوم ہواکہ قریش کی ایک جماعت ایک روزپہلے ہی یہاں  سے گزرچکی ہے ،اس مرتبہ کیوں  کہ حملہ کا زیادہ امکان نہ تھااس لئے صرف بیس افراد کو ہی روانہ کیاگیااورخرارسے آگے نہ بڑھنے کاحکم فرمایاگیا،اوریہ بیس افراداس اندازسے روانہ کیے گئے کہ جماعت قریش یاقافلہ آگے نکل جائے اوریہ دستہ بعدمیں  پہنچے مگران کے درمیان وقفہ زیادہ نہ ہو، غالباسابق دوتجربات سے اندازہ لگا لیا گیا ہو گا کہ بجائے مقابلہ کرنے کے ان سے پوشیدہ رہ کر معلومات حاصل کرنازیادہ بہترہے،اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ تاکہ دشمن ہراساں  رہے اورشب خون کے خوف سے رات کوآرام نہ کرسکے۔

غزوہ بواط

ربیع الاول ۲ہجری

پہلی مہموں  کی ناکامی کے بعداہل مکہ نے ایک بارپھرمدینہ منورہ کی حدودمیں  داخل ہونے کی کوشش کی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوامیہ بن خلف  کے متعلق خبرملی کہ وہ ایک سوسواروں  اورایک ہزار،یاڈھائی ہزاراونٹوں  کے ساتھ ساحلی علاقہ میں  گشت کررہاہے ،ان قبائل کے ساتھ حال ہی میں  ریاست مدینہ کے معاہدے ہوئے تھے اس لئے ضروری تھاکہ اپنے حلیفوں  کی مددکی جائے

ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم فِی شَهْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ  یَعْنِی مِنَ السَّنَةِ الثَّانِیَةِ  یُرِیدُ قُرَیْشًا قَالَ ابْنُ هِشَامٍ:  وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ السَّائِبَ بْنَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَقَالَ الْوَاقِدِیُّ: اسْتَخْلَفَ عَلَیْهَا سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍوَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مِائَتَیْ  رَاكِبٍ، وَكَانَ لِوَاؤُهُ مَعَ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ وَكَانَ مَقْصِدُهُ أَنْ یَعْتَرِضَ لِعِیرِ قُرَیْشٍ وَكَانَ فِیهِ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ وَمِائَةُ رَجُلٍ وَأَلْفَانِ وَخَمْسُمِائَةِ بَعِیرٍ  حَتَّى بَلَغَ بُوَاطَ مِنْ نَاحِیَةِ رَضْوَى، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا

چنانچہ ربیع الاول دوہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائب بن عثمان بن مظعون  رضی اللہ عنہ کویاسعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کومدینہ منورہ پرامیرمقرر فرمایا اور دو سو مہاجرین (ہمارے نزدیک ساٹھ یاسترمہاجرین کیونکہ اتنی بڑی تعدادمیں  مہاجرین مدینہ میں  موجودہی نہ تھے ) کاایک دستہ لیکر جس میں  سعد  رضی اللہ عنہ  بن ابی وقاص سفیدرنگ کے جھنڈے کے علم بردارتھے،جس میں  امیہ بن خلف اور سو آدمی اور پچیس سو اونٹوں  کے ساتھ مکہ کی برتری جتانے کے لئے قبائل کے خلاف لوٹ مارکررہاتھاکواس زیادتی سے بازرکھنے کے لئے سو کلومیڑ کافاصلہ طے فرماکررضوی (مشہورپہاڑ)کے نواح میں  بواط(ایک پہاڑکانام ہے) پہنچے(یہ جگہ جہنیہ کے پہاڑی سلسلہ میں  علاقہ رضوی اورشام کے راستے کے متصل ذی خشب کے قریب ہے)سیدھے راستے کوچھوڑنے کامقصدیہ تھاکہ دشمن کوپتہ نہ چلے کہ مسلمان ان کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں یاان کی منزل سفرکیاہے ؟خودمسلمانوں  کوبھی یہ علم نہیں  تھاکہ ان کی اصلی منزل کونسی ہے ؟ وہاں  پہنچ کرمعلوم ہواکہ امیہ بن خلف پہلے ہی نکل چکاہے ،اس طرح کسی سے مڈبھیڑ نہ ہوئی ، راہ میں  آپ نے بنوضمرہ کے حلیف بنومدلج سے معاہدہ کیا اس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بالاقتال وجدال مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔[21]

ثُمَّ رَجَعَ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بالاقتال وجدال واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔[22]

اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں  پرقریش کے حلیفوں  اور دوستوں  سے معاہدے فرمائے جن کے نتیجے میں  ان کی طاقت کمزورہوناشروع ہوگئی اورمسلمان طاقت ورہونے لگے،اس کی رفتار اگرچہ دھمی رہی مگربالآخریہ تدبیرکامیاب ثابت ہوئی۔

غزوة  صفوان (بدراولیٰ) ربیع الاول ۲ہجری

ادھرسے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گردستے بھیجتے رہے ، اس بارقریش نے مصمم ارادہ کرلیاکہ جس طرح بھی ممکن ہومدینہ منورہ پرسریع رفتارچھاپہ مارقسم کاحملہ کرکے اردگردکے قبائل کواپنی برتری کاثبوت پیش کیاجائے،اس مقصدکے لئے کرزبن جابر الفہری کوجورہنمائے قریش میں  سے ایک تھے چھوٹاسادستہ دیاگیا

أَغَارَ كُرْزُ بْنُ جَابِرٍ الْفِهْرِیُّ عَلَى سَرْحِ الْمَدِینَةِ،

ماہ ربیع الاول کے شروع میں کرزبن جابر الفہری اپنے دستہ کے ہمراہ غیرمعروف راستوں  سے ہوتاہوارات کے وقت مدینہ کی چراگاہوں  تک پہنچااوراہل مدینہ کے مویشی ہانک کرلے گیا،لوٹ کرکچھ جانورلے جانے سے اہل مکہ یہ توکہہ سکتے تھے کہ انہوں  نے عرب کے رواج کے مطابق بدوؤں  کے لئے زندگی کے روح فرساشغل میں  کامیابی حاصل کرلی ہے مگرجس جنگ کاانہوں  نے اعلان کیاتھااس میں  ایک چھاپہ مارنے سے کسی طرح بھی کامیابی نہیں  ہوسکتی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوجیسے ہی چھاپہ زنی کی اطلاع ملی،

وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ کی امارت زید  رضی اللہ عنہ  بن حارثہ کوسونپی۔[23]

اورمویشیوں  کوچھڑانے کے لئے فوراًسترمہاجرین مجاہدین کاایک دستہ ترتیب دیا،

وَكَانَ لؤلؤه مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ

دستہ کاجھنڈاعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کوسونپا۔[24]

وكان لواء أبیض

جھنڈاسفیدرنگ کاتھا۔[25]

فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی طَلَبِهِ حَتَّى بَلَغَ وَادِیًا یُقَالُ لَهُ سَفَوَانَ مِنْ نَاحِیَةِ بَدْرٍ، وَفَاتَهُ كُرْزٌ فَلَمْ یُدْرِكْهُ. فرجع من دون حرب

اور کرزبن جابر الفہری کاتعاقب کیااس دستے کاتعاقب کرتے ہوئے آپ بدرکے قریب وادی صفوان تک پہنچ گئے، مکہ اورمدینہ کے درمیان جوپہاڑی سلسلے واقع ہیں  وہ ازحدبے ترتیبی سے بکھری ہوئی پہاڑیوں  پرمشتمل ہے، ان چھوٹی سی چھاپہ مارجماعت کاتعاقب کرکے اسے ڈھونڈ نکالنا قریب قریب ناممکن امرہے اس لئے کرزبن جابر الفہری جس طرح غیرمعروف راستوں  سے آیاتھااسی طرح انہی راستوں  سے ہوتاہوا اپنے دستہ کے ساتھ نکل جانے میں  کامیاب ہوچکا تھا،پھرآپ واپس تشریف لے آئے۔[26]

ربیع الاول ۲ہجری

اسی مقصد امن وبھائی چارہ کے لئے ربیع الاول دوہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضوی کی طرف تشریف لے گئے اورکوہ بواط کے لوگوں  کوبھی خوش اسلوبی سے اس معاہدہ میں  شریک کرلیا۔

غزوہ ذی العشیرہ

جمادی الآخر۲ہجری(بمطابق نومبر،دسمبر۶۲۳ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوررس نگاہوں  کی وجہ سے جب قریش ان چھوٹی چھوٹی جھڑپوں  سے مدینہ منورہ یامسلمانوں  کے خلاف کوئی قابل ذکرمعرکہ سرانجام نہ کرپائے توقریش نے یہ فیصلہ کرلیاکہ مسلمانوں  کونیست ونابودکرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ شام کی تجارت پرلگادیاجائے اوراس سے حاصل ہونے والے منافع کولوگوں  میں  تقسیم کرنے کے بجائے مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے اسلحہ اور دوسری جنگی ضروریات کے لئے خرچ کیاجائےاورسب لوگوں  کی رضامندی سے ایساکیاگیا،

 وَاللهِ مَا بِمَكَّةَ مِنْ قُرَشِیٍّ وَلَا قُرَشِیَّةٍ لَهُ نَشٌّ فَصَاعِدًا إِلَّا قَدْ بَعَثَ بِهِ مَعَنَا

بقول ابوسفیان، واللہ !قریش میں  کوئی مردوزن ایسانہ تھاجس کے پاس نصف اوقیہ یا چالیس درہم یااس سے زائدرقم ہواوراس نے اس کاروبارمیں  نہ لگائی ہو۔[27]

دوسرے معنوں  میں  مکہ مکرمہ کے مردوزن مسلمانوں  کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے یک جان ہوچکے تھے ،اس قافلہ میں  سرمائے کی مجموعی مالیت پانچ لاکھ درہم تھی

 وَكَانَ فِی الْعِیرِ أَلْفُ بَعِیرٍ تَحْمِلُ أَمْوَالَ قُرَیْشٍ ،وَفِیهَا ثَلَاثُونَ رَجُلًا – أَوْ أَرْبَعُونَ،

اوراس سرمائے سے خریداہواقریش کامال ایک ہزار اونٹوں  پر لدا ہواتھااورقافلہ کے مسلح محافظ صرف تیس یاچالیس افرادہی تھے،

كان قد جاء الخبر بفصولها من مكة فیها أموال قریش

غالباًمکہ مکرمہ میں  موجودجاسوسوں  یامخبروں  کے زریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کےاس قافلہ کے روانہ ہونے کی خبرملی۔[28]

فَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الْأَسَدِ،

اتنی اہم اطلاع ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہجرت کے سولھویں  مہینے جمادی الآخردوہجری( دسمبر۶۲۳ئ) کو مدینہ پراپنے رضاعی بھائی ابوسلمہ بن عبدالاسدمخزومی  رضی اللہ عنہ  کونائب مقررفرمایا

وخرج فی خمسین ومائة، وقیل: فی مائتین من المهاجرین ، ممن انتدب، ولم یكره أحدا على الخروج، وخرجوا على ثلاثین بعیرا یعتقبونها،كان حمل لواءه حمزة بن عبد المطلب، وكان لواء أبیض

اور قریش کے اس بڑے اوراہم تجارتی قافلے کو روکنے کے لئے ڈیڑھ یا دوسومہاجرین کے ایک دستہ کولیکرروانہ ہوئے،اس سفرمیں  کسی کونکلنے پر مجبورنہیں  کیاگیا، دستہ میں  تیس اونٹ تھے جن پرسب باری باری سوارہوتے تھے، حمزہ  رضی اللہ عنہ  بن عبدالطلب نے علم تھام رکھاتھااورعلم سفیدرنگ کاتھا۔[29]

اس غزوہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمعروف راستہ اختیار فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانگی کے بعدبنی دینارکے راستہ ہوتے ہوئے فئی فالخبہرسے ہوکر گزرے ، پھرذات الساق کی وادی کارخ کیااورالخلائق کواپنی بائیں  جانب چھوڑتے ہوئے پلیل پہنچے،وہاں  سے ملال کے میدان کوعبورکرنے کے بعد جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ سے تقریباً ایک سوتیس کلومیڑ دوریَنْبُعَ کے قریب ایک مقام ذوالْعُشَیْرَةِ تک پہنچے

فوجد العیر التی خرج لها قد مضت قبل ذلك بأیام

تومعلوم ہواکہ جس قافلہ کوروکنے کے لیے نکلے تھے وہ کئی دن پہلے ہی نکل چکا ہے۔[30]

(بعدمیں  اسی قافلے کوروکنے کے لئے آپ نکلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس پریافوج پرغلبہ دینے کاوعدہ فرمایا تھااوراللہ تعالیٰ نے اپناوعدہ پورا فرمایا )قافلہ توہاتھ نہ آیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ یہاں  قیام فرمایااس دوران جس طرح بنی ضمرہ سے معاہدہ فرمایاتھااسی طرح بنی مدلج جن کاعلاقہ یَنْبُعَ   اور ذوالْعُشَیْرَةِ سے متصل تھااور وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اورحلیف تھے اور تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں  اسلام کے حامیوں  اورپیرووں  کا بھی ایک اچھا خاصا عنصرپیدا کر دیا تھا سے بھی انہیں  شرائط کے ساتھ اس معاہدے میں  شامل ہو گئے۔[31]

وادع فِیهَا بَنِی مُدْلِجٍ وَحُلَفَاءَهُمْ مِنْ بَنِی ضَمْرَةَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بنی مدلج اوران کے حلفاءبنی ضمرہ سے معاہدہ کرکے مدینہ منورہ واپس تشریف لائے۔[32]

معاہدہ کی یہ شقیں  تھیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمّدٍ رَسُولِ اللهِ لِبَنِی ضَمْرَةَ فَإِنّهُمْ آمِنُونَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأَنّ لَهُمْ النّصْرَ عَلَى مَنْ رَامَهُمْ إلّا أَنْ یُحَارِبُوا فِی دِینِ اللهِ مَا بَلّ بَحْرٌ صُوفَةً وَإِنّ النّبِیّ إذَا دَعَاهُمْ لِنَصْرِهِ أَجَابُوهُ عَلَیْهِمْ بِذَلِكَ ذِمّةُ اللهِ وَذِمّةُ رَسُولِهِ وَلَهُمْ النّصْرُ عَلَى مَنْ بَرّ مِنْهُمْ وَاتّقَى

یہ ایک تحریرہے محمدرسول اللہ کی طرف سے بنوضمرہ کے لئے کہ ان کے جان ومال سب محفوظ رہیں  گے اورجوشخص بنوضمرہ سے جنگ کاارادہ کرے گاتواس کے مقابلہ بنوضمرہ کی مددکی جائے گی بشرطیکہ بنوضمرہ اللہ کے دین میں  کوئی مزاحمت نہ کریں  ،جب تک دریاصوف کوترکرے یعنی یہ شرط ہمیشہ کے لئے ہے ،نبی کریم جب انکومددکے لئے بلائیں  توحاضرہوں  گے ،یہ ان پراللہ اوراس کے رسول کاعہدہے اورجوشخص ان میں  نیک اورپرہیزگاررہے گااس کی مددکی جائے گی۔

اس کے بعدآپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ [33]

تحویل قبلہ( رجب یاشعبان۲ ہجری)

جب تک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں  رہے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے رہے مگراس طرح کہ بیت اللہ بھی سامنے رہے جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ رونق افروزہوئے تویہ صورت نہ ہوسکی کہ دونوں کوجمع فرماسکیں  ،چنانچہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدقبا،مسجدجمعہ اورمسجدبنوی کی تعمیرفرمائی توان کاقبلہ بیت المقدس کی طرف ہی رکھا

 صَلَّى قِبَلَ بَیْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًاوَكَانَ یُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ البَیْتِ، وَكَانَتِ الیَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ كَانَ یُصَلِّی قِبَلَ بَیْتِ المَقْدِسِ، وَأَهْلُ الكِتَابِ،فَلَمَّا وَلَّى وَجْهَهُ قِبَلَ البَیْتِ، أَنْكَرُوا ذَلِكَ

اورسولہ سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف ہی منہ کرکے نمازپڑھتے رہے،مگر آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے، بیت المقدس یہودونصاریٰ کابھی قبلہ تھا جب آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے، یہود اور جملہ اہل کتاب بہت خوش تھےمگرجب آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیرلیاتوانہیں  یہ امرناگوارہوا۔[34]

کیونکہ یہودی اہل کتاب تھے ،اس لئے شروع میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت کوبہت زیادہ پسندفرماتے تھےتاکہ ان کی تالیف قلوب ہو،لیکن یہودونصاریٰ نے محض حسداورتعصب کی بناپردعوت اسلام کوقبول نہیں  کیا جس کے بعدآہستہ آہستہ ان کی مخالفت شروع ہوئی ، اگرچہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اس تمام عرصہ میں  بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے رہے، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں ،جوقبلہ ابراہیمی ہے ،

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:  كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى نَحْوَ بَیْتِ المَقْدِسِ، سِتَّةَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ أَنْ یُوَجَّهَ إِلَى الكَعْبَةِ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےنبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں  ، اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم (دل سے)چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازپڑھیں  ۔[35]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  جبریل  علیہ السلام  سے یہ فرمایاتھاکہ میری تمناہے کہ اللہ تعالیٰ میرے رخ کویہودکے قبلہ سے پھیردے ،انہوں  نے کہامیں  توبندہ ہوں  آپ اپنے رب سے دعاکیجئے اور اس کاسوال کیجئے ، یہ سن کرآپ امید باندھے وحی کے شوق اور انتظار میں  باربار آسمان کی طرف اپنا چہرہ مبارک اٹھاتے اوردعابھی فرماتے تھےبالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کے پسندیدہ امرکے مطابق حکم نازل کرنے میں  جلدی فرمائی ،اورغزوہ بدرسے دوماہ قبل آپ کو استقبال کعبہ کا صراحتاً حکم فرمایا۔

نزول سورۂ البقرة آیت ۱۴۲تا۱۵۲

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَیْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٤٤﴾(البقرہ)
’’  ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں، آپ اپنا منھ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منھ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں ‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! استقبال کعبہ کے بارے میں  نزول وحی کے شوق میں  تمہارے منہ کاباربارآسمان کی طرف اٹھناہم دیکھ رہے ہیں  ،اچھاہم اسی قبلے کی طرف تمہیں  پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو ،اب بحروبر،مشرق ومغرب اورشمال وجنوب جہاں  کہیں  ہواپنے چہروں  کواس جہت کی طرف پھیرلو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابی  رضی اللہ عنہ  رسول بشربن برابن معرورکی دعوت پر ان کے ہاں  گئے ہوئے تھےکہ نمازظہریاعصرکاوقت ہوگیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں  کونمازپڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے ابھی دورکعتیں  ہی پڑھی گئیں  تھیں  کہ تیسری رکعت میں  یکایک وحی کے ذریعہ تحویل کعبہ کا حکم نازل ہوااورخصوصی طورپررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورامت محمدیہ کوذہنی خلجان کو دور کرنے ،تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے تین مرتبہ دیاگیاجبکہ صرف ایک مرتبہ ہی کافی تھا ،چنانچہ اسی تیسری رکعت میں  ہی آپ اورآپ کی اقتدامیں  جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے مسجدحرام کے رخ پھرگئے،اس کے بعدمدینہ منورہ اوراطراف مدینہ میں  اس حکم کی عام منادی کی گئی، جب بیت المقدس کا قبلہ ہونامنسوخ ہوکرخانہ کعبہ کی طرف نمازپڑھنے کا حکم نازل ہوا توآپ نے مسجدنبوی کا جنوب والا دروازہ بندکرکے اس کے برابرمیں  شمال کی طرف دروازہ بنایا،دوسرے دونوں  دروازے اپنی جگہ قائم رہے۔

اس آیت نے خانہ کعبہ کی مرکزیت کواسماعیل علیہ السلام  کے صحیح وارثوں  یعنی مسلمانوں  میں  بحال کردیااورکعبہ کومشرکین کے تغلب سے واگزارکرانامسلمانوں  کادینی فریضہ بن گیا ، ابوجہل نے سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کے سامنے مسلمانوں  کے اسی حق سے انکارکیاتھااورمشرکین مکہ کے رئیس جنگ کی حیثیت سے یہ اعلان کیاتھاکہ مسلمانوں  کویہ حق نہیں  دیاجائے گا،اس طرح مسلمانوں  اورمشرکین مکہ کے درمیان وہ نظریاتی جنگ جواس وقت سردجنگ کی شکل میں  لڑی گئی تھی کعبہ کے سمبل کے حصول کی جنگ پرمرکوزہوگئی اورصورت یہ قرارپاگئی کہ یہ جنگ اس وقت تک کسی فیصلہ کن نتیجے پرنہیں  پہنچ سکتی جب تک کعبہ کی مرکزیت کے متعلق مسلمانوں  کے حقوق کاکوئی دوٹوک فیصلہ نہ ہو جائے ۔

سَیَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِی كَانُوا عَلَیْهَا ۚ ۔۔۔۔۔۔ ‎﴿١٤٢﴾ (البقرہ)
عنقریب یہ لوگ کہیں  گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں  کس چیز نے ہٹایا ؟

نمازاللہ کی ایک عبادت ہے اورعبادت میں  عابدکوجس طرح حکم ہوتاہے اسی طرح کرنے کاوہ پابندہوتاہے ،اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیرنے کاحکم فرمایااس طرف پھرجانا ضروری تھا،مسلمانوں  کے لئے تویہ چیزمشکل نہ تھی ،اللہ کی ہدایت کی وجہ سے انہوں  نے یہ کہاکہ ہم ایمان لے آئے سب کچھ ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے مگر قلیل العقل لوگوں  ،جاہلوں  ،منافقین اوریہودیوں  کوتوبات کرنے کاموقعہ مل گیاانہوں  نے خوب شور مچایا ، مشرکین یہ کہنے لگے کہ جس طرح ہمارے قبلہ کی طرف لوٹے ہیں  اسی طرح جلدہی ہمارے مذہب کوبھی اختیارکرلیں  گے اورہمارے قبلہ کی طرف واپس اس کے برحق ہونے کی دلیل ہے ،یہودنے یہ کہناشروع کیاکہ بیت المقدس یہودو نصاریٰ اورمسلمانوں  کابھی اب تک یہی قبلہ تھااب آخرمسجد حرام کوکیوں  قبلہ بنایاگیاہے ،انہوں  نے سابقہ انبیاء کے قبلہ کی مخالفت کی ہے،منافقین کا کہنا تھا کہ ہم نہیں  جانتے کہ کدھررخ کرتے ہیں  اگر پہلا حق تھاتواسے توانہوں  نے چھوڑدیااوراگردوسراحق ہے تواب تک یہ باطل پرتھے اس طرح انہوں  نے اللہ کے حکم اس کی شریعت اوراس  کے فضل واحسان پراعتراض کرناشروع کردیا،مگرمومنین کایہ وطیرہ نہیں ،مومن تواپنے رب کے احکام اطاعت اورتسلیم ورضاکے جذبے سے قبول کرتاہے،

 وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ۔۔۔۝۰۝۳۶ۭ [36]

ترجمہ:کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں  ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے معاملے میں  خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔

فَلَا وَرَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَــرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا۝۶۵ [37]

ترجمہ:نہیں  ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں  ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں  یہ تم کو فیصلہ کرنے والا  نہ مان لیں  ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں  میں  بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں  ، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ [38]

ترجمہ: ایمان لانے والوں  کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف بلائے جائیں  تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں  کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٤٤﴾ (البقرہ)
اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالی ٰ ان اعمال سے غافل نہیں  جو یہ کرتے ہیں ۔

اللہ نے یہودیوں  کے جواب میں  فرمایاکہ اہل کتاب کے مختلف صحیفوں  میں  خانہ کعبہ کے قبلہ آخرالانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجودہیں اس لئے اس کابرحق ہوناانہیں  یقینی طورپرمعلوم ہے مگر یہ اپنے نسلی غرور، بغض وعناد اور سرکشی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں  ،ان کااعتراض غیرمعقول ہے آپ ان کے اعتراضات کی کچھ پرواہ نہ کریں  ہم ان کے اعمالوں  کولکھ رہے ہیں  اوران کوان کے اعمالوں  کی پوری پوری جزادیں  گے۔

قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ یَهْدِی مَن یَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿١٤٢﴾ (البقرہ)
آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوجواب دینے کافرمایاگیاکہ ان سے کہوبات مشرق یامغرب کی سمتوں  کی نہیں  ہے،یہ بے حدوحساب پھیلی ہوئی کائنات اللہ ہی کی ہے اورتمام سمتوں  میں  کوئی سمت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہرنہیں ،بیت المقدس کوبھی رب کائنات نے قبلہ ٹھیرایاتھااوراب بھی اسی نے ہمیشہ کے لئے مسجدحرام کوقبلہ قرار دے دیاہے جوملت ابراہیم کاحصہ ہے ،وہ اپنی شہنشاہی میں  حکمت ومشیت سے جوچاہئے فیصلہ کرے اسے کوئی روکنے یاٹوکنے والانہیں  ہے،اس لئے اے اہل کتاب! گمراہی میں  بھٹکتے نہ پھیرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل کرنے والے اسباب اختیارکرواورسیدھی جرنیلی راہ اختیاکرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرو۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی كُنتَ عَلَیْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَیْهِ ۚ ۔۔۔۔۔۔۔ ‎﴿١٤٣﴾ (البقرة)
جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں  کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں  کے بل پلٹ جاتا ہے ۔

اللہ نے تحویل قبلہ کی ایک غرض بھی بیان فرمائی(حالانکہ اللہ تعالیٰ تمام امورکوان کے وجودمیں  آنے سے قبل جانتاہے)کہ ہم اہل یقین کوجن کے ایمان کامعیاریہ ہے کہ دل وجاں سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواپناہادی ورہنما تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ہرحکم کوبغیرچوں  وچرا تسلیم کرتے ہیں  کواہل شک سے جو اپنی عقل وشعور اور دنیاوی مصلحتوں  کوپیش نظر رکھتے ہیں  سے علیحدہ کردیں  تاکہ لوگوں  کے سامنے بھی دونوں  قسم کے لوگ واضح ہوجائیں ۔

وَإِن كَانَتْ لَكَبِیرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٤٣﴾‏ (البقرة)
گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں  اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں  اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال ضائع نہیں  کرے گا اللہ تعالیٰ لوگوں  کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالت نمازمیں تحویل قبلہ کے زریعہ ہم نے بڑاسخت امتحان لیا تھااوربالاشبہ عام لوگوں  کے لئے آپ کابیت المقدس سے منہ پھیرنابہت شاق ہے سوائے ان لوگوں  کے جنہیں  اللہ نے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی تھی ،اورانہوں  نے اس کی وجہ سے اللہ کی نعمتوں  کوپہچان لیااوراللہ کے اس احسان کااقرارکرکے شکرگزارہوئے کہ اس نے ان کارخ اس عظیم گھرکی طرف پھیردیاجسے اس نے روئے زمین کے تمام خطوں  پرفضیلت عطاکی ہے، ان کے لئے یہ کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہوا،ہمارے رسول کے اس عمل سے نہ توان کے قدم ڈگمگائے اورنہ ان کاایمان متزلزل ہوا اور وہ اس سخت امتحان میں  کامیاب ہو گئے ہیں  تواللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے لائق نہیں  کہ وہ تمہارے اور تحویل قبلہ سے قبل جولوگ فوت ہوچکے ہیں  ان کے ایمان کوضائع کردے بلکہ وہ تمہارے ایمان کی نشونماکے لئے تم کوایسے اعمال کی توفیق عطافرمائے گاجس سے تمہارے ایمان میں  مزیداضافہ ہوگااور تمہارے درجات بلندہوں  گے ،بیشک اللہ اپنے بندوں  پرروف الرحیم ہے۔

وَلَئِنْ أَتَیْتَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آیَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٤٥﴾‏(البقرة)
اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں  دے دیں  لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں  کریں  گے اور نہ آپ کے  قبلے کو ماننے والے ہیں  اور نہ یہ آپس میں  ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں ، اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے اس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں  کے پیچھے لگ جائیں  تو بالیقین آپ بھی ظالموں  میں  ہوجائیں  گے ۔

اوراے ہمارے رسول !آپ ان اہل کتاب کے سامنے ہرقسم کی دلیل وبرہان پیش کردیں جوآپ کی بات اوردعوت حق کوواضح کردیں تب بھی یہ اپنے بغض وعناد  میں  آپ کی اتباع نہیں  کریں  گےکیونکہ وہ حق کے ساتھ عنادرکھتے ہیں  ،انہوں  نے حق کوپہچانالیاہےمگراسے تعصبات کی بناپر تسلیم کرنے سے انکار کردیاہے،جبکہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  سے صرف وہی شخص فائدہ اٹھاسکتاہے جوحق کامتلاشی ہواورحق اس پرظاہرہوگیاہو،اورجوکوئی اس بات پراڑجائے کہ وہ حق کی اتباع نہیں  کرے گاتوپھراسے حق کی طرف لاناناممکن ہے ، نیزان میں  آپس میں  بھی اختلاف پایاجاتاہے اوروہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں  کرتے،یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم یہ کوئی تعجب خیزبات نہیں  کہ وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں  کرتےکیونکہ وہ دشمن اورحاسدہیں ،یہ لوگ اپنے دین کی نہیں  بلکہ محض اپنی خواہشات نفسی کی پیروی کررہے ہیں  اوراس بات کوخوب جانتے بھی ہیں ،چنانچہ اب جبکہ آپ جان چکے ہیں  کہ آپ حق پرہیں  اوروہ باطل پراڑے ہوئے ہیں  ،اگرآپ نے ان کی اتباع کی خواہ وہ افہام ہی میں  کیوں  نہ ہو توتم ظالموں  میں  شامل ہوجاوگے،اوراس شخص کے ظلم سے بڑھ کرکون ساظلم ہے جس نے حق وباطل کوپہچان کرباطل کوحق پرترجیح دی،یہ خطاب اگرچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تاہم آپ کی امت اس میں  داخل ہے۔

الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یَعْرِفُونَهُ كَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِیقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿١٤٦﴾‏ (البقرة)
جنہیں  ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں  جیسے کوئی اپنے بچوں  کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل کتاب کومعلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں  اورجوکتاب لے کرمبعوث ہوئے ہیں  وہ حق وسچ ہے اورانہیں  اس بات کاپورایقین ہے جس طرح اپنے بیٹوں  کے بارے میں  یقین ہوتاہے کہ وہ ان کے بیٹے ہیں اورانہیں  ان کے بارے میں  کوئی شک وشبہ نہیں  ہوتا،اس کے علاوہ اہل کتاب کے علماء یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں  کہ بیت اللہ کو ابراہیم   علیہ السلام  نے اوراس کے برعکس بیت المقدس کواس کے تیرہ سوبرس بعد سلیمان  علیہ السلام  نے تعمیرکرایاتھامگرایک فریق جوتعدادمیں  زیادہ ہے اس نے انکارکیا اورآپ کے بارے میں  یقینی شہادت کوچھپالیا۔

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ ‎﴿١٤٧﴾ (البقرة )
 آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے، خبردار آپ شک کرنے والوں  میں  نہ ہونا ۔

ایک عظیم سچے شخص کاکسی خبرکادیناہی کافی ہوتاہے مگراللہ تعالیٰ نے فرمایایہ حکم آپ کے رب کی طرف سے صادرہواہے اورقطعی طورپرحق ہے اس لئے اس حق کے بارے میں  آپ کومعمولی سے شک وشبہ میں  بھی مبتلانہیں  ہوناچاہیے،بلکہ اس حق پرغوروفکرکریں  تاکہ آپ یقین کی منزل کوپہنچ جائیں ۔

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ۚ أَیْنَ مَا تَكُونُوا یَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِیعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٤٨﴾‏ (البقرة)
ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم اپنی نیکیوں  کی طرف دوڑو،جہاں  کہیں  بھی تم ہو گےاللہ تمہیں  لے آئے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

ہرملت اورہردین والوں  کے لئے ایک جہت مقررہے ،یہودکاقبلہ صخرہ بیت المقدس اورعیسائیوں  کابیت المقدس کی شرقی جانب ہے ،وہ اپنی عبادت میں  اس کی طرف منہ کرتے ہیں  ،جب اہل کتاب کے یہ دوگروہ بھی ایک قبلے پرمتفق نہیں  تومسلمانوں  سے کیوں  توقع کرتے ہیں  کہ وہ اس معاملے میں  ان کی موافقت کریں  گے ،استقبال کعبہ کوئی بڑامعاملہ نہیں  ،اس لئے کہ یہ ان شریعتوں  میں  سے ہے جواحوال وزمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہے ،لیکن اصل اوراہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ،اس کاتقرب اوراس کے قرب میں  حصول درجات ہے ،یہی سعادت کاعنوان اورولایت کامنشورہے ،یہی وہ وصف ہے کہ اگرلوگ اس کوتسلیم نہ کریں  تودنیاوآخرت کے خسارے میں  پڑجاتے ہیں  اوراگرتسلیم کرلیں  تویہی حقیقی منافع ہے تمام شریعتوں  میں  یہ متفق علیہ امرہے،اسی کی خاطراللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کوتخلیق فرمایااوراسی کااللہ تعالیٰ نے سب کوحکم دیا،جوکوئی اس دنیامیں نیکیوں  کی طرف سبقت کرتاہے وہ آخرت میں  جنت کی طرف سبقت لے جائے گااورسبقت کرنے والے تمام مخلوق میں  بلندترین درجے پرفائزہوں  گے،اللہ روزقیامت اپنی قدرت سے تمہیں اکٹھاکرے گاپھرہرشخص کواس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا۔

‏ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٤٩﴾‏ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَیْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا یَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ ۔۔۔۔۔‎﴿١٥٠﴾(البقرة)
آپ جہاں  سے نکلیں  اپنا منہ (نماز کے لئے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں ، یعنی یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بےخبر نہیں ،اور جس جگہ سے آپ نکلیں  اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں  اور جہاں  کہیں  تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں  کی کوئی حجت باقی نہ رہ جائے

پھراللہ تعالیٰ نے ان تمام باطل دلائل کاردکیاجوکہ معاندین نے پیش کیے تھے اورایک ایک شبہ کاابطال کیااور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایاکہ اپنے سفروغیرہ میں  جہاں  سے بھی آپ نکلیں  اپنامنہ مسجدحرام کی طرف پھیرلیں ،پھراللہ تعالیٰ نے تمام امت کوعمومی طورپرخطاب کرتے ہوئے فرمایااورتم جہاں  بھی ہوتواپنامنہ مسجدحرام کی طرف کرلواورتمہیں  کوئی شک وشبہ نہیں  رہناچاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اورکوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ محض خواہش ہے اس میں  اطاعت مطلوب نہیں ،اس لئے اس کاادب کرواوراس سےڈرتے ہوئے اس کے احکامات پرعمل کرواوراس کی نواہی سے اجتناب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبرنہیں ،ہم نے کعبہ کواس لئے قبلہ مقررقراردیاہے تاکہ اہل کتاب اورمشرکین عرب کے لئے تم پرکوئی حجت نہ رہے ،کیونکہ اگربیت المقدس کوقبلہ کے طورپرباقی رکھاہوتاتویہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی ،کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں  پڑھتے ہیں  کہ نبی اخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کامستقل قبلہ کعبہ یعنی بیت الحرام ہوگااور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھران کے مفاخرمیں  شمارہوتاہے اوریہ ملت ابراہیم  علیہ السلام  کامرکزہے اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کعبہ کوقبلہ نہیں  بنائیں  گے تومشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہوگی وہ کہیں  گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ملت ابراہیم پرہونے کاکیسے دعویٰ کرتاہے جبکہ اس نے ابراہیم  علیہ السلام  کی اولادہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کوقبلہ نہیں  بنایا،پس بیت اللہ کوقبلہ بنانے سے اہل کتاب اورمشرکین دونوں  پرحجت قائم ہوگی،اورآپ پروہ جوحجت قائم کرسکتے تھے وہ منقطع ہوگئی۔

۔۔۔إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِی وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٥٠﴾‏ كَمَا أَرْسَلْنَا فِیكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ یَتْلُو عَلَیْكُمْ آیَاتِنَا وَیُزَكِّیكُمْ وَیُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَیُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٥١﴾‏ فَاذْكُرُونِی أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِی وَلَا تَكْفُرُونِ ‎﴿١٥٢﴾(البقرة)
سوائے ان لوگوں  کے جنہوں  نے ان میں  سے ظلم کیا ہے، تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو تاکہ میں  اپنی نعمت تم پر پوری کروں  اور اس لیے بھی کہ تم راہ راست پاؤ ،جس طرح ہم نے تم میں  تمہیں  سے رسول بھیجا اور ہماری آیتیں  تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں  پاک کرتا ہے اور تمہیں  کتاب و حکمت اور وہ چیزیں  سکھاتا ہے جس سے تم بےعلم تھے،اس لیے تم میرا ذکر کرو میں  بھی تمہیں  یاد کروں  گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو ۔

ان میں  سے کوئی دلیل دیتاہے تووہ اس بارے میں  ظلم کاارتکاب کرتاہے ،ان کے پاس سوائے ظلم اورخواہشات نفس کی پیروی کے سواکوئی سنداورکوئی دلیل نہیں کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اس لئے مشرکین کے شبہ کی پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں  ،آپ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیں ،یہ تحویل کاحکم اس لئے دیاگیاہے تاکہ جس طرح اس سے پہلے تمہارے اندرتمہیں  میں  سے ایک رسول بھیجاجوتمہاراتزکیہ کرتا،کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا اور جن کاتمہیں  علم نہیں  سکھاتاہے، اوراس کے بعددیگرنعمتوں  سے اس نعمت(دین کی ہدایت) کوتکمیل تک پہنچادوں ،اوریہ نعمتیں  اس قدرزیادہ ہیں  کہ ان کاشمارممکن نہیں شایدکہ تم حق کوجانواورپھراس پرعمل کرو،لہذاتم مجھے یادرکھومیں  تمہیں  یادرکھوں  گااور میری ان بے بہانعمتوں  پرکفران نعمت کرنے کے بجائے اعتراف نعمت میں میراشکراداکروگے تومیں  تمہیں  اورزیادہ عطا فرماؤں  گا،تمہارے راستوں  کو خودبخودآسان کرتاچلاجاؤں  گا اور اگرکفران نعمت کروتوسخت سزادوں  گا،

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ [39]

ترجمہ:اور یاد رکھو ، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگرشکر گذار بنو گے تو میں  تم کو اور زیادہ نوازوں  گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ:  أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی، وَأَنَا مَعَهُ حِینَ یَذْكُرُنِی ، إِنْ ذَكَرَنِی فِی نَفْسِهِ، ذَكَرْتُهُ فِی نَفْسِی، وَإِنْ ذَكَرَنِی فِی مَلَإٍ، ذَكَرْتُهُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْ مَلَئِهِ الَّذِینَ یَذْكُرُنِی فِیهِمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ الْعَبْدُ مِنِّی شِبْرًا، تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا  وَإِنْ تَقَرَّبَ مِنِّی ذِرَاعًا، تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا،  وَإِذَا جَاءَنِی یَمْشِی، جِئْتُهُ أُهَرْوِلُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزوجل فرماتاہےمیں  اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں  اور میں  اس کے ساتھ ہوں  جب وہ مجھے یاد کرے ، جو شخص مجھے اپنے دل میں  یادکرتاہے میں  اسے اپنے دل میں  یادکرتاہوں  اورجومجھے کسی جماعت میں  یادکرتاہے میں  بھی اسے اس سے بہترجماعت(فرشتوں  کی جماعت) میں  یادکرتاہوں ،اگر وہ ایک بالشت کے برابر میرے قریب آتا ہے تو میں  ایک گز کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں ، اگر وہ ایک گز کے برابر میرے قریب آتا ہے تو میں  پورے ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں ،اورجب وہ میرے پاس پیدل چل کرآتاہےتومیں  اس کی طرف دوڑکرآتاہوں ۔ [40]

مسجدالحرام کی طرف پہلی نماز:

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،وَأَنَّهُ صَلَّى أَوَّلَ صَلاَةٍ صَلَّاهَا صَلاَةَ العَصْرِ، وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ

چنانچہ براءبن عازب  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےتحویل قبلہ کے بعدسب سے پہلی نمازجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ادافرمائی وہ نمازعصرتھی،وہاں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ لوگوں  نے بھی نمازپڑھی۔[41]

مسجدقبلتین میں  تحویل کعبہ:

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: فَصَلَّى مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَا صَلَّى، فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ فِی صَلاَةِ العَصْرِ نَحْوَ بَیْتِ المَقْدِسِ،فَقَالَ: هُوَ یَشْهَدُ: أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ تَوَجَّهَ نَحْوَ الكَعْبَةِ، فَتَحَرَّفَ القَوْمُ، حَتَّى تَوَجَّهُوا نَحْوَ الكَعْبَةِ

براءبن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاسی دن ایک صحابی رسول نے عصرکی نمازمسجدنبوی میں  بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اداکی پھروہ انصارکی ایک جماعت کے پاس سے گزرا،یہ لوگ (اپنی گاوں  کی مسجدمیں جوبعدمیں مسجدقبلتین کہلائی)بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازعصراداکررہے تھے،(اوررکوع کی حالت میں  تھے)اس شخص نے کہامیں  گواہی دیتاہوں  کہ میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نمازپڑھی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کعبہ کی طرف منہ کر کے نمازپڑھی ہے، (یہ گواہی سن کر)تمام نمازیوں  نے اپنا رخ بیت اللہ کی طرف پھیردیا۔[42]

 مسجدقبامیں  تحویل قبلہ:

مسجدقبامدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پرہے اس لئے یہاں  مسلمانوں  کوتحویل قبلہ کی خبردوسرے دن صبح کی نمازمیں  ہوئی ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَیْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِی صَلاَةِ الصُّبْحِ، إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَیْهِ اللیْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ یَسْتَقْبِلَ الكَعْبَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ، فَاسْتَدَارُوا إِلَى الكَعْبَةِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگ قبامیں  نمازفجراداکررہے تھے کہ اتنے میں  ایک آنے والاآیا،اس نے بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرکل وحی نازل ہوئی ہے اورانہیں کعبہ کی طرف (نمازمیں )منہ کرنے کاحکم دیاگیاہے ،یہ خبرسنتے ہی ان لوگوں  نے بھی بیت اللہ کی طرف منہ کرلیاجبکہ اس وقت وہ شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے ،اس لئے وہ سب کعبہ کی جانب گھوم گئے۔[43]

نزول سورۂ البقرة آیت۱۷۷

لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ‎﴿١٧٧﴾(البقرہ)
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں  ہی نہیں  بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ،قیامت کے دن پر، فرشتوں  پر، کتاب اللہ اور نبیوں  پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں  اور سوال کرنے والوں  کو دے، غلاموں  کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوة کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگ دستی، دکھ درد  اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں  اور یہی پرہیزگار ہیں ۔

اللہ کومطلوب ایمان وعمل :یہوداللہ کاحکم ماننے کوکب تیارتھے،اپنی فطری سرکشی ،بغض وحسدمیں  تحویل قبلہ پربارباربے سروپااعتراض کرتے رہے،جس پر اللہ نے ایمان واعمال کے بارے میں  مفصل جواب دیاکہ ہمیں  یہ نیکی مطلوب نہیں  کہ تم مشرق یامغرب کی طرف رخ کرلوبلکہ نیکی تویہ ہے تم اس بات پرایمان لاؤکہ اللہ تعالیٰ ہی معبود واحدہے،اس کاکوئی شریک یاہمسرنہیں ،وہ تمام صفات کمال سے متصف اورہرطرح کے نقص سے پاک اورمنزہ ہے،اور ان تمام باتوں  پرایمان رکھو جوانسان کوموت کے بعدپیش آئیں  گی ،جس کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  یااس کے رسول نے خبردی ہے ، اورفرشتوں  پرکہ فرشتے وہ ہستیاں  ہیں  جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں  بیان کیاہے ،نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایا ہے،اوران تمام کتابوں  پرایمان لاؤ جواللہ نے اپنے رسولوں  پرنازل فرمائی ہیں  ،اور ان تمام اخبارواحکام پرایمان لاؤ جن پریہ کتابیں  مشتمل ہیں ،اورتمام انبیاء  علیہ السلام  پرعام طورپراوران میں  سب سے افضل اور خاتم الانبیاءمحمدمصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم پرخاص طورپرایمان لاؤ ، اور مال کی محبت کے باوجود اپنے بہترین مال کواللہ تعالیٰ کے تقرب کے لئے اس کے راستے میں  خرچ کرو ،اورتیری نیکی اوراحسان کے سب سے زیادہ مستحق تیرے قریبی رشتہ دارہیں  کہ جن کے مصائب پرتوتکلیف اوران کی خوشی پرخوشی محسوس کرے ،اوران یتیموں  پرجن کاکوئی کمانے والانہ ہواورنہ خودان میں  اتنی قوت ہوکہ وہ کماکرمستغنی ہوجائیں  ، اور مسکینوں  پرجن کو حاجت نے بے دست وپااورفقرنے ذلیل کردیاہواوراجنبی مسافرپراس گمان پرکہ وہ حاجت مندہے اوراس کے سفرکے مصارف بہت زیادہ ہیں ،اسے اتنامال عطا کرے جوسفرمیں  اس کامددگارہو،اورسائلین پرجن پرکوئی ایسی ضرورت آن پڑے جوان کوسوال کرنے پرمجبور کر دے ، اور غلاموں کوآزادکرنااورآزادی پر اعانت کرنا،مکاتب کو آزادی کے لئے مالی مدددیناتاکہ وہ اپنے مالک کوادائیگی کرسکے،اورنمازوزکوٰة اداکرو جو افضل عبادت اورتقرب الیٰ کاکامل ترین ذریعہ ہیں  ، نماز اور زکوٰة ہی کے ذریعہ سے ایمان کاوزن ہوتاہے اورانہی سے معلوم کیاجاتاہے کہ صاحب ایمان کتنے یقین کامالک ہے،اورجب وہ کوئی عہدکرلوتو اپنے عہدوں  کوپوراکرو، اس میں  تمام حقوق اللہ اورحقوق العبادبھی داخل ہوجاتے ہیں ،اوراس میں  وہ حقوق بھی شامل ہیں  جن کوبندے اپنے اوپرلازم قراردے لیتے ہیں  مثلاً قسم اورنذروغیرہ،اورسختی ، تکلیف اورلڑائی کے وقت صبرواستقلال سے جواں  مردی کامظاہرہ کرنے والے ہو،جو ان عقائدحسنہ اوراعمال صالحہ سے متصف ہیں اپنے ایمان میں  سچے ہیں کیونکہ ان کے اعمال ان کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں  ،اوریہی لوگ متقی ہیں ۔

[1] السجدة۱۶

[2] صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابٌ الزَّكَاةُ مِنَ الإِسْلاَمِ۴۶ ،وكِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابٌ كَیْفَ یُسْتَحْلَفُ ۲۶۷۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الصَّلَوَاتِ الَّتِی هِیَ أَحَدُ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ ۱۰۰،سنن ابوداودکتاب باب۳۹۱،سنن نسائی كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ كَمْ فُرِضَتْ فِی الْیَوْمِ وَاللیْلةِ۴۵۸

[3] مسنداحمد۲۴۲۶۹،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللیْلِ، وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ۱۷۳۹،سنن ابوداودکتاب التطوع بَابُ نَسْخِ قِیَامِ اللیْلِ وَالتَّیْسِیرِ فِیهِ ۱۳۰۵،تفسیرطبری ۶۷۸؍۲۳

[4] تفسیرطبری۶۶۷؍۲۳ ،تفسیرابن ابی حاتم۳۳۸۰؍۱۰

[5] تفسیرطبری۶۷۹؍۲۳ ،تفسیرابن ابی حاتم ۳۳۷۹؍ ۱۰

[6] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ ۷۵۷ ،صحیح مسلم   کتاب الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَا ۸۸۵،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ صَلَاةِ مَنْ لَا یُقِیمُ صُلْبَهُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۸۵۶،مسنداحمد۹۶۳۵، صحیح ابن حبان ۱۸۹۰،سنن الدارقطنی ۳۱۹

[7] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ ۷۵۶

[8] صحیح مسلم   کتاب الصلوٰة  بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَا۸۷۸

[9] صحیح بخاری کتاب  الرقاق  بَابُ مَا قَدَّمَ مِنْ مَالِهِ فَهُوَ لَهُ ۶۴۴۲ ،سنن نسائی کتاب الوصایا باب الْكَرَاهِیَةُ فِی تَأْخِیرِ الْوَصِیَّةِ۳۶۴۲ ، مسنداحمد ۳۶۲۶، صحیح ابن حبان ۳۳۳۰،مسندابویعلیٰ ۵۱۶۳

[10] الروض الانف۵۱؍۵

[11] ابن ہشام۵۹۱؍۱،عیون الاثر ۲۵۸؍۱،فتح الباری ۲۷۹؍۷،البدایة والنھایة ۲۴۳؍۳،ابن سعد۵؍۲

[12] زادالمعاد۱۴۸؍۳

[13] الحج۳۹

[14]البقرة ۱۹۰

[15] عہدنبوی کے میدان جنگ ۱۳،۱۴ ڈاکٹر حمیداللہ

[16] زادالمعاد۱۴۸؍۳

[17] البدایة والنھایة ۳۰۰؍۳،ابن ہشام ۵۹۵؍۱،ابن سعد۴؍۲ ،تاریخ ابن خلدون ۴۲۵؍۲، تاریخ طبری۴۰۲؍۲، زادالمعاد۱۴۷؍۳

[18] المسند للشافی۱۶۰

[19] ابن سعد۴؍۲،ابن ہشام ۵۹۱؍۱، تاریخ طبری ۴۰۴؍۲ ،  زادالمعاد۱۴۷؍۳

[20] ابن ہشام ۵۹۲؍۱

[21] البدایة والنہایة۳۰۱؍۳،تاریخ طبری۴۰۵؍۲

[22] دلائل النبوة للبیہقی۱۰؍۳

[23] ابن ہشام۶۰۱؍۱ ، الروض الانف۵۱؍۵،تاریخ طبری۴۰۷؍۲، البدایة والنهایة۳۰۳؍۳

[24] مغازی واقدی۳۰۲؍۳، دلائل النبوة للبیہقی۱۵؍۳،تاریخ طبری۴۰۷؍۲، البدایة والنهایة۳۰۳؍۳

[25] ابن سعد۶؍۲

[26] ابن سعد۷۱؍۲،ابن ہشام۶۰۱؍۱،تاریخ طبری۴۰۶؍۲، البدایة والنہایة ۳۰۳؍۳

[27] ابن سعد۹؍۲

[28] غزوات النبی صلى الله علیه وآله وسلم۲۴؍۱،السیرة النبویة والتاریخ الإسلامی۹۶؍۱،ابن سعد۶؍۲

[29]غزوات النبی صلى الله علیه وآله وسلم۲۴؍۱،الأساس فی السنة وفقهها – السیرة النبویة۴۲۹؍۱،ابن سعد۶؍۲

[30] السیرة النبویة   والتاریخ الإسلامی۹۶؍۱

[31] زادالمعاد ۱۴۹؍۳

[32] ابن ہشام۵۹۹؍۱،الروض الأنف۴۹؍۵،البدایة والنهایة ۳۰۲؍۳، دلائل النبوة للبیہقی۱۰؍۳

[33] الروض الانف ۵۲؍۵،ابن سعد۲۱۰؍۱

[34] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ الصَّلاَةُ مِنَ الإِیمَانِ عن براء ۴۰،مسنداحمد۱۸۴۹۶

[35] صحیح بخاری کتاب الصلوة بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَیْثُ كَانَ۳۹۹

[36] الاحزاب۳۶

[37] النسائ۶۵

[38]  النور۵۱

[39] ابراہیم۷

[40]مسنداحمد ۱۰۲۵۳، صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ ذِكْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرِوَایَتِهِ عَنْ رَبِّهِ عن انس۷۵۳۶

[41] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ الصَّلاَةُ مِنَ الإِیمَانِ۴۰

[42] صحیح بخاری کتاب الصلوة بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَیْثُ كَانَ ۳۹۹،وکتاب التفسیرسورہ البقرہ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {سَیَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِی كَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ المَشْرِقُ وَالمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۴۴۸۶، صحیحمسلم کتاب الصلوة  بَابُ تَحْوِیلِ الْقِبْلَةِ مِنَ الْقُدْسِ إِلَى الْكَعْبَةِ۱۱۷۶

[43] صحیح بخاری کتاب الصلوةبَابُ مَا جَاءَ فِی القِبْلَةِ، وَمَنْ لَمْ یَرَ الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا، فَصَلَّى إِلَى غَیْرِ القِبْلَةِ۴۰۳ ، وکتاب التفسیرسورہ البقرہ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى سَیَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِی كَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ المَشْرِقُ وَالمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۴۴۸۶،صحیحمسلم کتاب الصلوة  بَابُ تَحْوِیلِ الْقِبْلَةِ مِنَ الْقُدْسِ إِلَى الْكَعْبَةِ۱۱۷۸

Related Articles