ہجرت نبوی کا تیسرا سال

نزول سورۂ آل عمران آیات 64تا120

قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِیلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِیمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِیمَا لَیْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٦٦﴾‏(آل عمران)
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں ، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں ،اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کی بابت جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے، سنو ! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ، اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

یہودونصاریٰ سے خطاب :یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کواورنصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کابیٹابنالیاتھا،اس کے علاوہ انہوں نے کتاب اللہ کوچھوڑکراپنے احبارورہبان کوحلال وحرام کرنے کا اختیاردے رکھاتھایعنی شریعت سازی کاخدائی مقام ان کودے رکھاتھا، جیسے ایک مقام پرفرمایا

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۝۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۳۱ [1]

ترجمہ:انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی ، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔

اسی بات کی طرف اشارہ کر فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اہل کتاب سےکہو!ایک ایسی عدل و انصاف والی بات کی طرف آؤ جوہمارے اورتمہارے درمیان مشترک ہےیہ کہ تمام انبیاء کرام کی دعوت کے مطابق ہم صرف اللہ وحدہ لاشریک کے سواکسی اورچیز کی بندگی نہ کریں ،اپنی محبت ،خوف اورامیدکاتعلق صرف اللہ وحدہ لاشریک سے رکھیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [2]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

ایک مقام پرفرمایا

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ۝۰ۭ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۝۳۶ [3]

ترجمہ: ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو،اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی،پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔

اور اس کے ساتھ نہ کسی نبی کوشریک ٹھہرائیں ،نہ ولی کو،نہ صنم کونہ وثن کو،نہ حیوان کونہ جمادات کو، اورنہ اللہ تعالیٰ کوچھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کوہی اپنارب بنائیں ،بلکہ صرف اللہ کی اوراس کے رسولوں کی اطاعت کریں ، کسی مخلوق کی بات مان کراپنے خالق،مالک اوررازق کی نافرمانی نہ کریں کیونکہ یہ کام مخلوق کوخالق کامقام دینے کے مترادف ہے۔

وَقَالَ ابْنُ جُرَیْج: یَعْنِی: یُطِیعُ بَعْضُنَا بَعْضًا فِی مَعْصِیَةِ اللهِ

ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ہم میں سے کوئی کسی کی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اطاعت نہ کرے۔[4]

اگر یہ لوگ اس حق وانصاف کی دعوت کوقبول نہ کریں توصاف کہہ دوکہ گواہ رہوہم تو صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی واطاعت کرنے والے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم ہرقل کوجوخط بھیجاتھااس کے آخرمیں یہی آیت

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍؚبَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَـیْـــًٔـا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰۝۶۴

کہواے اہل کتاب!آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے،یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی کی بندگی نہ کریں ،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اورہم میں سے کوئی اللہ کے سواکسی کواپنا رب نہ بنالے۔

لکھی تھی۔ [5]

مگر جنہیں علم دیاگیاہے وہ اللہ کے اس پاکیزہ کلام کوسن کرسجدے میں گرجاتے ہیں جیسے فرمایا

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙ [6]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانویا نہ مانوجن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ۔

یہودی کہتے تھے ابراہیم خلیل اللہ یہودی تھے، اورنصاریٰ کہتے تھے نہیں وہ توعیسائی تھے،اس سلسلہ میں ان دونوں گروہوں کے درمیان بحث ومباحثہ ہوتارہتاتھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:اجْتَمَعَتْ نَصَارَى نَجْرَانَ وَأَحْبَارُ یَهُودَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَازَعُوا عِنْدَهُ، فَقَالَتِ الْأَحْبَارُ: مَا كَانَ إِبْرَاهِیمُ إِلَّا یَهُودِیًّا، وَقَالَتِ النَّصَارَى: مَا كَانَ إِبْرَاهِیمُ إِلَّا نَصْرَانِیًّا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیهِمْ: {یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِیلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ} [7]قَالَتِ النَّصَارَى: كَانَ نَصْرَانِیًّا، وَقَالَتِ الْیَهُودُ: كَانَ یَهُودِیًّا، فَأَخْبِرْهُمُ اللَّهُ أَنَّ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ مَا أُنْزِلَا إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ، وَبَعْدَهُ كَانَتِ الْیَهُودِیَّةُ وَالنَّصْرَانِیَّةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےنجران عیسائی اوریہودی علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے اورآپس میں جھگڑنے لگے،یہودی علماء نے کہاابراہیم علیہ السلام یہودی تھے، عیسائیوں نے کہانہیں ابراہیم علیہ السلام توعیسائی ہی تھے،اس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ’’اے اہل کتاب ! تم ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑاکرتے ہو؟تورات اورانجیل تو ابراہیم علیہ السلام کے بعدہی نازل ہوئی ہیں پھرکیاتم اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے ۔‘‘[8]

اللہ تعالیٰ نے ان کےاس دعویٰ کی تردیدمیں فرمایااے یہودونصاریٰ!تم ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑاکرتے ہوکہ وہ یہودی تھے یا عیسائی تھے حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام ان کے صدیوں بعدمبعوث ہوئے تھے،اس لئے یہودیت اور نصرانیت بہرحال تورات وانجیل کے نزول کے بعدپیدا ہوئی ہیں ، یعنی نہ وہ یہودی تھے اورنہ نصاریٰ تھےپھرکیاتم اتنی موٹی سی بات سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے،تم لوگ جن چیزوں کاعلم رکھتے ہوان میں توخوب بحثیں کرچکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہوجن کاتمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں ،اللہ ہی چھپی کھلی تمام چیزوں کاعلم رکھتا ہے تم نہیں جانتے۔

‏ مَا كَانَ إِبْرَاهِیمُ یَهُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِیفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٦٧﴾‏ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٦٨﴾‏(آل عمران)
ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وہ مشرک بھی نہ تھے،سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہنا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے ،مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔

فرمایاحقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ توموسیٰ علیہ السلام پرنازل توراة کاپیروکارتھاکہ تم انہیں یہودی کہو،اورنہ عیسیٰ علیہ السلام پرنازل انجیل کاپیروکارتھاکہ تم اسے عیسائی کہو،بلکہ وہ توہرطرح کے شرک سے بیزارصرف اللہ وحدہ لاشریک کاپرستارتھا،اس لئے یہود کایہ کہناکہ اگرہدایت حاصل کرنی ہے تو یہودیت اختیارکرلو،اورنصاریٰ کایہ کہناکہ ہدایت حاصل کرنی ہے تونصرانیت اختیارکرلو غلط ہے ،اس لئے اگر راہ راست اختیارکرنی ہے تو ابراہیم خلیل اللہ کے طریقے کی پیروی کروجومشرکوں میں سے نہ تھے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۳۵ [9]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں یہودی ہو تو راہِ راست پاؤ گے، عیسائی کہتے ہیں عیسائی ہو تو ہدایت ملے گی، ان سے کہو نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم کا طریقہ،اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھا ۔

تمہاراتواس کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہےاس لئے تمہیں اس سے نسبت رکھنے کابھی کوئی حق نہیں ہے،ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کاسب سے زیادہ حق اگرکسی کو پہنچتا ہے توان لوگوں کوپہنچتاہے جنہوں نے اس کے زمانے میں اس کے طریقے کی پیروی کی، اوراب یہ پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے پیروکار اس سے نسبت رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ یہ اس کے طریقے کی پیروی کرتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۲۳ [10]

ترجمہ:پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیم کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔

اللہ صرف انہی کاحامی و مددگار ہے جوایمان رکھتے ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِكُلِّ نَبِیٍّ وُلاَةً مِنَ النَّبِیِّینَ، وَإِنَّ وَلِیِّی أَبِی وَخَلِیلُ رَبِّی، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ}.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنبی نبیوں میں سے قریبی دوست ہوتے ہیں اوران میں سے میرے قریبی دوست میرے باپ اورمیرے رب کے قریبی دوست ابراہیم علیہ السلام ہیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ ’’سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کاکہنامانااوریہ نبی اورجولوگ ایمان لائے ،مومنوں کاولی اورسہارااللہ ہی ہے۔‘‘ کی تلاوت فرمائی۔[11]

‏ وَدَّت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ یُضِلُّونَكُمْ وَمَا یُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ‎﴿٧٠﴾‏یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٧١﴾‏(آل عمران)
اہل کتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کہ تمہیں گمراہ کردیں دراصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور سمجھتے نہیں ، اے اہل کتاب تم (باوجود قائل ہونے کے پھر بھی) دانستہ اللہ کی آیات کا کیوں کفر کر رہے ہو، اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو ۔

یہودونصاریٰ کاحسد:اے ایمان لانے والو!اہل کتاب میں سے ایک گروہ اپنے بغض وعناداورتعصبات میں مبتلاہوکرچاہتاہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹادے ، اس لئے وہ تمہیں گمراہ کرنے کے لئے خفیہ سازشیں کرتے رہتے ہیں ،مکروفریب کے جال بچھاتے رہتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا۝۰ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [12]

ترجمہ:اہلِ کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بناء پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے ۔

حالانکہ اس طرزعمل سےدرحقیقت وہ تمہیں نہیں بلکہ بے شعوری میں اپنے کو گمراہی میں ڈال رہے ہیں ،اورخوددعوت حق کی تکذیب کرنااورلوگوں کوراہ راست سے روکنے کی کوشش کرناعذاب میں اضافت کاباعث بنتی ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

 اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸ [13]

ترجمہ:جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے اس فساد کے بدلے جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔

اے یہودونصاریٰ! تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی صداقت وحقانیت اوران کی پاکیزہ زندگی کاخوب علم ہے،ان پرمنزل کلام قرآن مجید کوبھی تم خوب پہچانتے ہو ،تمہاری کتابوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جوصفات لکھی ہوئی ہیں تم انہیں خوب جانتے ہو،پھرکیوں جان بوجھ کر دعوت حق کا انکار کرتے ہو،اے اہل کتاب! تم خوب جانتے ہوکہ سیدالانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جودعوت پیش کررہے ہیں وہ حق وسچ ہے، پھراس دعوت حقہ کوباطل کارنگ چڑھاکرلوگوں کی نظروں میں کیوں مشتبہ بناتے ہو؟حالانکہ تم نے حق بیان کرنے کااللہ عہدکیاتھا،جیسے فرمایا

وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ۝۰ۡفَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ۝۱۸۷ [14]

ترجمہ: ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا، مگر انہوں نے کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا ، کتنا بُرا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں ۔

اور جانتے بوجھتے حق کوکیوں چھپاتے ہو،جیسے فرمایا

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴۲ [15]

ترجمہ: باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ۔

وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِی أُنزِلَ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِینَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن یُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِیتُمْ أَوْ یُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٧٣﴾‏ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿٧٤﴾(آل عمران)
اور اہل کتاب کی ایک اور جماعت نے کہا جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ تاکہ یہ لوگ بھی پلٹ جائیں ، اور سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو، آپ کہہ دیجئے کہ بیشک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی یقین نہ کرو) کہ کوئی اس جیسا دیا جائے جیسا تم دیئے گئے ہو یا یہ کہ تم سے تمہارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے، آپ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہےوہ جسے چاہے اسے دے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور جاننے والا ہے، وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔

یہودونصاریٰ کی سازشیں :چنانچہ یہودیوں کے مکروفریب کوبیان فرمایاکہ اہل کتاب کے لیڈروں اورمذہبی پیشواؤں نے دعوت اسلام کوکمزورکرنے کے لئے طے کیا کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں پرجوقرآن نازل ہواہے اس پردن چڑھے علانیہ ایمان لاؤ، اورشام کواس سے کھلم کھلا انکارکردو،اوراس بات کومشہورکروتاکہ مسلمانوں لوگوں کے دل میں شک وشبہ پیداہوجائے،ان کااعتمادوایمان متزلزل ہوجائے کہ آخراہل کتاب جواللہ کی کتاب کوجانتے ہیں انہیں اسلام اورپیغمبراسلام میں ایسے کیاعیوب اور خامیاں نظر آئیں کہ وہ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین کی طرف پلٹ گئے ہیں ،شایداس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں ۔

قَالَ ابْنُ أَبِی نَجِیح، عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِهِ تَعَالَى إِخْبَارًا عَنِ الْیَهُودِ بِهَذِهِ الْآیَةِ: یَعْنِی یَهُودَ، صَلَّت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ وَكَفَرُوا آخِرَ النَّهَارِ، مَكْرًا مِنْهُمْ، لیُرُوا النَّاسَ أَنَّ قَدْ بَدَتْ لَهُمْ مِنْهُ الضَّلَالَةُ، بَعْدَ أَنْ كَانُوا اتَّبِعُوهُ

ابن ابونجیح نے مجاہد رحمہ اللہ سے اس آیت کریمہ کے بارے میں روایت کیاہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازفجراداکی لیکن مکروفریب کی وجہ سے دن کے آخری حصے میں پھرکافرہوگئے تاکہ لوگوں کویہ تاثرملے کہ اسلام کوقبول کرنے کے بعدانہیں کوئی خامی نظرآئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اسلام کوترک کردیاہے ۔[16]

نیزیہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ تم ظاہری طورپرتواسلام کااظہارکرولیکن اپنے مذہب (یہود) کے سواکسی کی بات پریقین نہ کرنا،یعنی حقیقتاًاورواقعتاً مسلمان نہ ہوجانابلکہ اپنے دین پرجمے رہنا،اورجوتمہارے پاس ہے اسے مسلمانوں پربھی ظاہرنہ کرنا، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سازشی لوگوں سے کہہ دوکہ تمہارے مکروفریب سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ہدایت توکلی طوراللہ کے اختیارمیں ہے،وہ جس کوچاہے بخش دے اورجس کونہ چاہے نہ دے، اوریہ اسی کافضل وکرم اوررحمت ہے کہ کسی کووہی کچھ دے دیاجائے جوکبھی تم کودیاگیاتھا،یایہ کہ مسلمانوں کوتمہارے رب کے حضورپیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجت مل جائے،اے نبی!ان سے کہوکہ فضل و شرف اللہ عزوجل کے اختیارمیں ہےوہ جسے چاہے ایمان وعمل اورعلم وفضل کی دولت سے مالامال کردے، اور جسے چاہے راہ راست سے اندھااورکلمہ اسلام سے بہرا اورصحیح سمجھ بوجھ سے محروم کردے،اس کے تمام امورحکمت سے بھرپورہوتے ہیں ، وہ وسیع النظرہے، اورآسمان وزمین کی تمام حقیقتوں کو جانتاہے،وہ اپنی رسالت اوررحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتاہے اوراس کافضل بہت بڑاہے۔

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ یُؤَدِّهِ إِلَیْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِینَارٍ لَّا یُؤَدِّهِ إِلَیْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٧٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ وَلَا یُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا یَنظُرُ إِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٧٧﴾‏(آل عمران)
بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر تو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ واپس کردیں ،اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں (غیر یہودی) کے حق کا کوئی گناہ نہیں ، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کہتے ہیں ، کیوں نہیں (مواخذہ ہوگا) البتہ جو شخص اپنا قرار پورا کرےاور پرہیزگاری کرے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ،بیشک جو لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ، اللہ تعالیٰ نہ ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔

یہودکی اخلاقی حالت :اللہ تعالیٰ نے یہودکی اخلاقی حالت کے بارے میں فرمایاکہ اہل کتاب کے کچھ لوگوں کی اخلاقی حالت تویہ ہے کہ اگرتم اس کے اعتمادپرمال ودولت کاایک ڈھیربھی ان کے پاس امانت رکھ دے دوتوجب تم چاہوگےوہ تمہیں تمہاری امانت فوراً واپس کر دے گا ،اوربعض ایسے بددیانت ہیں کہ اگرتم اس پربھروسہ کرکےایک دیناربھی اس کے پاس امانت رکھ دوتووہ امانت ادانہ کرے گاالایہ کہ تم اس کے سرپرسوار ہو جاؤ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ” أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنْ یُسْلِفَهُ أَلْفَ دِینَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِی بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِیدًا، قَالَ: فَأْتِنِی بِالكَفِیلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِیلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَیْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِی البَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ التَمَسَ مَرْكَبًا یَرْكَبُهَا یَقْدَمُ عَلَیْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِی أَجَّلَهُ، فَلَمْ یَجِدْ مَرْكَبًا،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کاذکرفرمایاکہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزاردینارقرض مانگے ، انہوں نے کہاکہ پہلے ایسے گواہ لاؤجن کی گواہی پرمجھے اعتبارہوقرض مانگنے والابولاکہ گواہ توبس اللہ ہی کافی ہے،پھرانہوں نے کہاکہ اچھاکوئی ضامن لا،قرض مانگنے والابولاکہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے،انہوں نے کہاکہ تونے سچی بات کہی،چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لئے اس کوقرض دے دیا،یہ صاحب قرض لے کردریائی سفرپرروانہ ہوئے اورپھراپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری (کشتی وغیرہ)کی تلاش کی تاکہ اس سے دریاپارکرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جواس سے طے پائی تھی(اوراس کاقرض اداکردے)،لیکن کوئی سواری نہیں ملی،

فَأَخَذَ خَشَبَةً فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِیهَا أَلْفَ دِینَارٍ وَصَحِیفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى البَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّی كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلاَنًا أَلْفَ دِینَارٍ، فَسَأَلَنِی كَفِیلاَ، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِیلًا، فَرَضِیَ بِكَ، وَسَأَلَنِی شَهِیدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِیدًا، فَرَضِیَ بِكَ، وَأَنِّی جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَیْهِ الَّذِی لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّی أَسْتَوْدِعُكَهَا، فَرَمَى بِهَا فِی البَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِیهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِی ذَلِكَ یَلْتَمِسُ مَرْكَبًا یَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِی كَانَ أَسْلَفَهُ، یَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالخَشَبَةِ الَّتِی فِیهَا المَالُ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ المَالَ وَالصَّحِیفَةَ،

آخراس نے ایک لکڑی لی اوراس میں سوراخ کیاپھرایک ہزاردیناراورایک (اس مضمون کا)خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دیناربھیجے جارہے ہیں )اوراس کامنہ بندکردیااوراسے دریا پر لے آیا،پھرکہااے اللہ!توخوب جانتاہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزاردینارقرض لئے تھے ،اس نے مجھ سے ضامن مانگاتومیں نے کہہ دیاکہ میراضامن اللہ ہے اور وہ بھی تجھ پرراضی ہوا،اس نے مجھ سے گواہ مانگاتواس کاجواب بھی میں نے یہی دیاکہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تووہ مجھ پرراضی ہوگیااور(توجانتا ہے کہ)میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کاقرض اس تک (مدت مقررہ میں )پہنچاسکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی، اس لئے اب میں اس کوتیرے ہی حوالے کرتاہوں (کہ تواس تک پہنچا دے)چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریامیں بہادی اب وہ دریامیں تھی، اوروہ صاحب (قرض دار)واپس ہوچکے تھے،اگرچہ فکر اب بھی یہی تھاکہ کسی طرح کوئی جہازملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہرمیں جاسکیں ،دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیاتھااسی تلاش میں (بندرگاہ)آئے کہ ممکن ہے کوئی جہازان کامال لے کرآیاہولیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی جس میں مال تھاانہوں نے وہ لکڑی اپنے گھرکے ایندھن کے لئے لے لی،لیکن جب اسے چیراتواس میں سے دینارنکلے اورایک خط بھی نکلا،

 ثُمَّ قَدِمَ الَّذِی كَانَ أَسْلَفَهُ، فَأَتَى بِالأَلْفِ دِینَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِی طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِیَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِی أَتَیْتُ فِیهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَیَّ بِشَیْءٍ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّی لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِی جِئْتُ فِیهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِی بَعَثْتَ فِی الخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالأَلْفِ الدِّینَارِ رَاشِدًا

(کچھ دنوں کے بعدجب وہ صاحب اپنے شہرآئے)توقرض خواہ کے گھرآئے اور(یہ خیال کرکے کہ شایدوہ لکڑی نہ مل سکی ہودوبارہ)ایک ہزار دیناران کی خدمت میں پیش کردیئے، اورکہاقسم اللہ کی!میں توبرابراسی کوشش میں رہاکہ کوئی جہازملے توتمہارے پاس تمہارامال لے کرپہنچوں ، لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لئے سوارہوامجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی،پھرانہوں نے پوچھااچھایہ بتاؤکہ کوئی چیزکبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی ؟مقروض نے جواب دیا بتاتورہاہوں آپ کوکہ کوئی جہازمجھے اس جہازسے پہلے نہیں ملا،جس سے آج پہنچاہوں ،اس پرقرض خواہ نے کہاکہ پھراللہ نے بھی آپ کاوہ قرض اداکردیاجسے آپ نے لکڑی میں بھیجاتھا،چنانچہ وہ صاحب اپناہزار دینار لے کرخوش خوش واپس لوٹ گئے۔[17]

یہودکے خائن لوگوں کی بددیانتی کاسبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں (غیریہودی لوگوں )کامال اگرہم ہڑپ کرجائیں تواس سلسلہ میں ہم پرکوئی مواخذہ نہیں ہوگا،اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ بات وہ محض جھوٹ گھڑکراللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے توناحق مال کھانے کوحرام قراردیاہے۔

عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِیَةَ , أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: إِنَّا نُصِیبُ فِی الْغَزْوِ مِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الذِّمَّةِ: الدَّجَاجَةَ وَالشَّاةَ ” قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَتَقُولُونَ مَاذَا؟قَالُوا: نَقُولُ:لَیْسَ عَلَیْنَا بَأْسٌ فِی ذَلِكَ هَذَا كَمَا قَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ:لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ , إِنَّهُمْ إِذَا أَدُّوا الْجِزْیَةَ لَمْ تَحْلِلْ لَكُمْ أَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِطِیبِ أَنْفُسِهِمْ

صعصعہ بن معاویہ سے روایت ہے ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھاکہ ہمیں بسااوقات میدان جنگ میں اہل ذمہ مال میں سے مرغی اوربکری وغیرہ مل جاتی ہے ؟عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایااس کے بارے میں پھرتم کیاکہتے ہو؟ اس نے کہاہم کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں کوئی حرج نہیں ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایایہ تووہی بات ہوئی جواہل کتاب نے کہی تھی کہ امیوں کے بارے میں ہم پرکوئی گناہ نہیں ہوگا، وہ جب تمہیں جزیہ اداکریں توان کامال ان کی رضامندی کے بغیرتمہارے لیے حلال نہیں ہے۔[18]

اس دلیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوتنبیہ فرمائی کہ جب ان یہودونصاریٰ کی دشمنی اورحسداس حدتک بڑھاہواہے توان سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں اپنی زبان سے کوئی سچی بات نکالیں گے، یا پھران کی خیرخواہی کے لئے کوئی مشورہ دیں گے،اگرکبھی ان کے مشوروں میں کوئی خیرخواہی نکل آئے تودراصل ان کے اندرمسلمانوں کے لئے کوئی نقصان ضرور پوشیدہ ہوگا۔

عَنِ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: لَمَّا قَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ:{ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ} [19]قَالَ نَبِیُّ اللَّه ِ:كَذَبَ أَعْدَاءُ اللَّهِ مَا مِنْ شَیْءٍ كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ إِلَّا وَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ، إِلَّا الْأَمَانَةَ فَإِنَّهَا مُؤَدَّاةٌ إِلَى الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کی اس اخلاقی حالت کاسبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں (غیریہودی لوگوں ) معاملہ میں ہم پرکوئی مواخذہ نہیں ہے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا،زمانہ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں ،سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں اداکی جائے گی چاہے کسی نیکوکار کی ہو یابدکارکی۔[20]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا قیامت کے روزجب تمام انسانوں کے اعمال کی بازپرس ہوگی توآخرکس وجہ سے ان کے اعمال کامواخذہ نہ ہوگا؟حقیقت یہ ہے کہ جوبھی اللہ سےاپنے وعدہ الست کو پورا کرے گا،اوراللہ کاتقویٰ اختیارکرے گا،اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکرے گا،ایسے لوگ یقینا ًمواخذہ الٰہی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے، بلکہ وہ محبوب باری تعالیٰ بھی ہوں گے کیونکہ متقی، پرہیزگارلوگ اللہ کوپسندہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ [21]

ترجمہ: اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کوپسند کرتا ۔

ان لوگوں کے برعکس وہ لوگ جواللہ سے کیے ہوئے وعدہ الست اور اپنی قسموں کوپس پشت ڈال کر تھوڑے سے دنیاوی مفادات کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے،اوروہ لوگ جوجھوٹی قسمیں کھاکراپناسودابیچتے یاکسی کامال ہڑپ کرجاتے ہیں ، توان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ،یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہو گی ،قیامت کے روزاللہ تعالیٰ ان پرغضب ناک ہوگااس لئے نہ ان سے کلام کرے گا،اورنہ ان کی طرف نظررحمت سے دیکھے گا، کیونکہ انہوں نے اپنی خواہش نفس کورب کی رضا سے مقدم سمجھاہے،اورنہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا،بلکہ ان کے لیے توسخت دردناک سزاہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ یَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، هُوَ عَلَیْهَا فَاجِرٌ، لَقِیَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَیْهِ غَضْبَانُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کوئی ایسی جھوٹی قسم کھائے جس کے ذریعے وہ کسی مسلمان کے مال پرناحق قبضہ کرلے تووہ اللہ سے اس حال میں ملے گاکہ اللہ تعالیٰ اس پربہت زیادہ غضب ناک ہوگا۔ [22]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یُزَكِّیهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ،قُلْتُ: مَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَأَعَادَهَا ثَلَاثًا، فَقَالَ: الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ أَوِ الْفَاجِرِ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین قسم لوگ ہیں جن سے نہ اللہ جل شانہ کلام کرے گا، اورنہ ان کی طرف قیامت کے دن نظررحمت سے دیکھے گا،اورنہ انہیں پاک کرے گا، میں نے یہ سن کرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کون لوگ ہیں ؟یہ توبڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا،پھرجواب دیاکہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا،جھوٹی قسم سے اپناسودابیچنے والا ،دے کراحسان جتلانے والا۔[23]

 عَنْ أَبِیهِ عَدِیٍّ، قَالَ: خَاصَمَ رَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ یُقَالُ لَهُ: امْرُؤُ الْقَیْسِ بْنُ عَابِسٍ، رَجُلًا مِنْ حَضَرَمَوْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَرْضٍ، فَقَضَى عَلَى الْحَضْرَمِیِّ بِالْبَیِّنَةِ، فَلَمْ تَكُنْ لَهُ بَیِّنَةٌ، فَقَضَى عَلَى امْرِئِ الْقَیْسِ بِالْیَمِینِ، فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ: إِنْ أَمْكَنْتَهُ مِنَ الْیَمِینِ یَا رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَتْ وَاللَّهِ – أَوْ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ – أَرْضِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ كَاذِبَةٍ لِیَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ أَخِیهِ لَقِیَ اللَّهَ، وَهُوَ عَلَیْهِ غَضْبَانُ قَالَ رَجَاءُ: وَتَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا}[24] فَقَالَ امْرُؤُ الْقَیْسِ: مَاذَا لِمَنْ تَرَكَهَا یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الْجَنَّةُ،قَالَ: فَاشْهَدْ أَنِّی قَدْ تَرَكْتُهَا لَهُ كُلَّهَا

عدی بن عمیرہ کندی سے مروی ہے قبیلہ کندہ امرؤ القیس بن عابس نامی ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک زمین کے متعلق حضرت موت کے ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی کو گواہ پیش کرنے کی تلقین کی لیکن اس کے پاس گواہ نہیں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرؤ القیس کو قسم کھانے کے لئے فرمایا، حضرمی کہنے لگا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ نے اسے قسم اٹھانے کی اجازت دے دی تو رب کعبہ کی قسم! یہ میری زمین لے جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس مقصد کے لئے جھوٹی قسم کھائے اس کے ذریعے اپنے بھائی کا مال ہتھیا لے، تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہوگا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا تلاوت فرمائی، بیشک وہ لوگ جو اللہ کے وعدے اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ۔امرؤ القیس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو شخص اپنے حق کو چھوڑ دے اسے کیا ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت، امرؤ القیس نے کہا تو پھر آپ گواہ رہئے، میں نے ساری زمین اس کے حق میں چھوڑ دی ۔[25]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثَلَاثَةٌ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، رَجُلٌ مَنَعَ ابْنَ السَّبِیلِ فَضْلَ مَاءٍ عِنْدَهُ، وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ یَعْنِی كَاذِبًا، وَرَجُلٌ بَایَعَ إِمَامًا فَإِنْ أَعْطَاهُ وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ یُعْطِهِ لَمْ یَفِ لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین قسم آدمیوں سے اللہ عزوجل قیامت کے روزکلام نہیں فرمائے گاایک وہ آدمی جس نے کسی مسافرسے اپنابقیہ پانی روک لیاہو،دوسراوہ جس نے عصرکے بعدکسی سودے پرجھوٹی قسم کھائی ہو، اورتیسراوہ جس نے امام(اعلیٰ)سے بیعت کی ہو ، اگروہ اسے(دنیاکامال )دیتارہے تواس کا وفاداررہے اوراگرنہ دے تووفانہ کرے۔[26]

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیقًا یَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَیَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَیَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿٧٨﴾‏ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِیِّینَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ وَلَا یَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِیِّینَ أَرْبَابًا ۗ أَیَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿٨٠﴾‏(آل عمران)
یقیناً ان میں ایسا گروہ بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں ، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں وہ تو دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں ، کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت اور نبوت دےیہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤبلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہوجاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب،اور یہ نہیں (ہوسکتا) کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنانے کا حکم کرے، کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔

غلط تاویل اورتحریف کرنے والے لوگ :یہودی جنہوں نے اللہ کی کتاب تورات میں تحریف وتبدیلی تو کی ہی ہے،اس کے علاوہ کتاب کوپڑھتے ہوئے کسی خاص لفظ یا فقرے کو جو ان کے مفادیاان کے خودساختہ عقائدونظریات کے خلاف ہوتاہے زبان کومڑوڑکراس طرح پڑھتے ہیں کہ اس کامعنی کچھ کاکچھ بن جاتا ہے ، جیسے امت مسلمہ میں جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منکرہیں وہ آیت کریمہ

 قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۔۔۔۝۱۱۰ۧ [27]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا ۔

میں إِنَّمَا کو إِنَّ مَا پڑھتے ہیں اوراس کاترجمہ یوں کرتے ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دوکہ تحقیق نہیں ہوں بشرتم جیسا۔اورکہتے ہیں کہ یہ جوکچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا،وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں ۔

وَقَالَ مُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِیُّ، وَالْحَسَنُ، وَقَتَادَةُ، وَالرَّبِیعُ بْنُ أَنَسٍ: یَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ قَالَ: یُحَرِّفُونَهُ،

مجاہد رحمہ اللہ ،شعبی رحمہ اللہ ،حسن رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ اورربیع بن انس رحمہ اللہ ’’کتاب (تورات) کوزبان مروڑمروڑکرپڑھتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تورات میں تحریف کرتے ہیں ۔[28]

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:{یُحَرِّفُونَ}یُزِیلُونَ ، وَلَیْسَ أَحَدٌ یُزِیلُ لَفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَكِنَّهُمْ یُحَرِّفُونَهُ یَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَیْرِ تَأْوِیلہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے’’وہ تحریف کرتے ہیں ۔‘‘اوراس کوزائل کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی نہیں جواللہ تعالیٰ کی کتابوں میں کسی کتاب ایک لفظ کوبھی زائل کر سکے لیکن یہ لوگ تحریف کرتے اوراس کی غلط تاویل کرتے ہیں ۔[29]

وَقَالَ وَهَبْ بْنُ مُنَبِّه: إِنَّ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ كَمَا أَنْزَلَهُمَا اللَّهُ لَمْ یُغَیَّرْ مِنْهُمَا حَرْفٌ، وَلَكِنَّهُمْ یُضِلّونَ بِالتَّحْرِیفِ وَالتَّأْوِیلِ، وَكُتُبٍ كَانُوا یَكْتُبُونَهَا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ، {وَیَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ} فَأَمَّا كُتُبُ اللَّهِ فَإِنَّهَا مَحْفُوظَةٌ وَلَا تُحَوَّلُ.

اوروہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تورات وانجیل کواللہ تعالیٰ نے جس طرح نازل فرمایاتھاان میں سے کسی ایک حرف کوبھی بدلانہیں جاسکالیکن یہ لوگ اپنی تحریف وتاویل کے ذریعے سے لوگوں کوگمراہ کرتے تھے، اوراپنی طرف سے کتابیں لکھ کرکہتے تھے وہ اللہ کی طرف سے(نازل ہوا) ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا،جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کتابوں کاتعلق ہے تووہ محفوظ ہیں انہیں بدلانہیں جا سکتا۔[30]

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں

رَوَاهُ ابْنُ أَبِی حَاتِمٍ، فَإِنْ عَنَى وَهْب مَا بِأَیْدِیهِمْ مِنْ ذَلِكَ، فَلَا شَكَّ أَنَّهُ قَدْ دَخَلَهَا التَّبْدِیلُ وَالتَّحْرِیفُ وَالزِّیَادَةُ وَالنَّقْصُ، وَأَمَّا تَعْرِیبُ ذَلِكَ الْمُشَاهَدِ بِالْعَرَبِیَّةِ فَفِیهِ خَطَأٌ كَبِیرٌ، وَزِیَادَاتٌ كَثِیرَةٌ وَنُقْصَانٌ، ووَهْم فَاحِشٌ. وَهُوَ مِنْ بَابِ تَفْسِیرِ الْمُعَبَّرِ الْمُعْرَبِ، وفَهْم كَثِیرٍ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ، بَلْ جَمِیعُهُمْ فَاسِدٌ. وَأَمَّا إِنْ عَنَى كُتُبَ اللَّهِ الَّتِی هِیَ كُتُبُهُ مِنْ عِنْدِهِ، فَتِلْكَ كَمَا قَالَ مَحْفُوظَةٌ لَمْ یَدْخُلْهَا شَیْءٌ.

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگروہب رحمہ اللہ کی مرادان کتابوں سے ہے جواس وقت اہل کتاب پاس موجودہیں توبلاشک وشبہ ان میں تبدیلی ،تحریف اورکمی بیشی ہوچکی ہے،اورجہاں تک ان کے عربی تراجم کاتعلق ہے ان میں بھی بہت بڑی غلطیاں ،بہت کمی بیشی اوربہت نمایاں اوہام ہیں ،بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ عربی میں ترجمہ کرنے والوں نے ازخوداپنی طرف سے تفسیرہی کوکتابوں میں داخل کرکے انہیں اصل باورکرانے کی کوشش کی ہے، جبکہ ان سب ترجمہ کرنے والوں کافہم ہی فاسدہے ، اور اگر وہب کامقصدان کتابوں کی طرف اشارہ کرناہے جواللہ تعالیٰ کے پاس ہیں تووہ واقعی محفوظ ہیں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے۔[31]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو رَافِعٍ الْقُرَظِیُّ حِینَ اجْتَمَعَتِ الْأَحْبَارُ مِنَ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ: أَتُرِیدُ یَا مُحَمَّدُ أَنْ نعَبُدَكَ كَمَا تَعْبُدُ النَّصَارَى عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ نَصْرَانِیُّ، یُقَالُ لَهُ الرَّئِیسُ أَوَذَاكَ تُرِیدُ مِنَّا یَا مُحَمَّدُ وَإِلَیْهِ تَدْعُونَا؟ أَوْ كَمَا قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَعْبُدَ غَیْرَ اللَّهِ، أَوْ نَأْمُرَ بِعِبَادَةِ غَیْرِهِ، مَا بِذَلِكَ بَعَثنی، وَلَا بِذَلِكَ أَمَرَنِی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےابو رافع قرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس جب یہودیوں اور نجرانی نصرانیوں کے علماءجمع ہوئے اورآپ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی، توابورافع قرظی کہنے لگاکہ کیاآپ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح نصرانیوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی عبادت کی ہم بھی آپ کی عبادت کریں ؟تونجران کے ایک نصرانی نے بھی جسے رئیس کہاجاتاتھایہی کہاکہ کیاآپ کی یہی خواہش ہے؟اوریہی دعوت ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامعاذاللہ، نہ ہم خوداللہ وحدہ لاشریک کے سوادوسرے کی پوجاکریں نہ کسی اورکواللہ کے سوادوسرے کی عبادت کی تعلیم دیں ، نہ میری پیغمبری کایہ مقصد ہے اورنہ مجھے اللہ حاکم اعلیٰ کایہ حکم ہے ،اس پریہ آیتیں نازل ہوئیں کہ کسی انسان کایہ کام نہیں کہ اللہ تعالیٰ تواس کوکتاب وحکمت اورنبوت سے سرفرازفرمائے اوروہ لوگوں سے یہ کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ ۔[32]

بلکہ وہ تویہی کہے گاکہ سچے ربانی بنو جیساکہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضاہے جسے تم پڑھتے اورپڑھاتے ہو۔

الضَّحَّاكَ، یَقُولُ فِی قَوْلِهِ: {كُونُوا رَبَّانِیِّینَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ} [33]قَالَ: حَقٌّ عَلَى مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَنْ یَكُونَ فَقِیهًا

امام ضحاک رحمہ اللہ ’’تم سب رب کے ہوجاؤ،تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اورتمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں جوشخص قرآن کاعلم حاصل کرے تواس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فقیہ بھی ہو۔ [34]

وہ تم سے ہرگزیہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کویاپیغمبروں کواپنارب بنالو،کیایہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفرکاحکم دے جب کہ تم مسلم ہو،انبیائے کرام توصرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کی طرف دعوت دیتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [35]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو ۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَى اللہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَةُ۝۰ۭ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۝۳۶ [36]

ترجمہ:ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ،اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی ،پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے ۔

وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَةً یُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ [37]

ترجمہ:اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی، تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے؟۔

اورفرشتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا

وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّىْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۲۹ۧ [38]

ترجمہ:اور جو ان میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک الٰہ ہوں تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں ، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِی ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿٨١﴾‏ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٨٢﴾‏(آل عمران)
جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے، فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ،پس اس کے بعد بھی جو پلٹ جائیں وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں ۔

انبیاء عہدومیثاق :یادکرو جب اللہ تعالیٰ نے ارواح بنی آدم سے اپنی ربوبیت اورالوہیت کاحلف لیاتھاکہ کیامیرتمہارارب نہیں ہوں ،اس وقت سب نے اقرارکیاتھاکہ آپ ہی ہمارے رب ہیں ،جیسے فرمایا

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّــتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۝۰ۚۛ شَهِدْنَا۝۰ۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَ۝۱۷۲ۙ [39]

ترجمہ:اور اے نبی ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ،یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

بنی آدم سے عہدلینے کے بعداللہ تعالیٰ نے جو پیغمبربھیجنے تھے ان سے بھی پختہ عہدوپیمان لیا تھا کہ ہم نے تمہیں کتاب،اس کی عملی تشریح اورنبوت سے نوازاہےاورحکمت کے بارے میں فرمایا

یُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا۔۔۔۝۰۝۲۶۹ [40]

ترجمہ:جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی ۔

اگر تمہاری زندگی اوردورنبوت میں کوئی دوسرارسول اس دین کی تبلیغ واقامت بھیجاجائے جس کی تبلیغ واقامت پرتم مامورہو تو تم کواس پرایمان لاناہوگا،اوراس کی مددکرنی ہو گی ، یعنی تمام انبیاء کرام کاراستہ ایک ہی راستہ ہے،سب کے عقائدایک ہی ہیں ،اس لئے کہ سب عقائدکا مصدر و منبع اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ہے،اسی نے سب کوایک جیسی تعلیم دی ہیں ،بعدمیں لوگوں نے ان کوبدل ڈالااوران میں تحریف کرڈالی، یہ ارشاد فرما کراللہ تعالیٰ نے پوچھاکیاتم اس کااقرار کرتے ہواوراس پرمیری طرف سے عہدومیثاق کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟۔

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَالرَّبِیعُ، وَقَتَادَةُ، وَالسُّدِّیُّ: یَعْنِی عَهْدِی.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،مجاہد رحمہ اللہ ،ربیع رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ اورسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں إِصْرِی مرادمیراعہدہے۔[41]

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَوْلُهُ {أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِی} أَیْ ثَقُلَ مَا حُمِّلْتُمْ مِنْ عَهْدِی

محمدبن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’تم اس کے اقراری ہواوراس پرمیراذمہ لے رہے ہو۔‘‘اس کے معنی یہ ہیں کہ کیاتم نے میرے شدیدتاکیدوالے اس عہدوقرارکوتسلیم کیا؟۔[42]

انہوں نے کہا ہاں ،ہم اقرارکرتے ہیں ،اللہ نے فرمایا اچھا تو گواہ رہواورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَابْنُ عَمِّهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا: مَا بَعَثَ اللهُ نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ إِلَّا أُخِذَ عَلَیْهِ الْمِیثَاقُ، لئن بَعَث محمدًا وَهُوَ حَیّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ وَلَیَنْصُرَنَّهُ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب اوران کے عم زادعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدربھی انبیائے کرام مبعوث فرمائے ان میں سے ہرہرنبی سے یہ عہدوپیمان لیا تھاکہ اگران کی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کر دیاگیاتوانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضرورایمان لاناہوگااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورمددکرنی ہوگی ۔ [43]

چنانچہ اسی عہدکی بناپرہرپیغمبراپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی کی خبر دیتا رہا ہے اوراس کاساتھ دینے کی تلقین کرتارہاہے،

وَإِذْ قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِینٌ [44]

ترجمہ: اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہوگا،مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ صریح دھوکا ہے ۔

لیکن قرآن وحدیث میں یہ کہیں ثابت نہیں کہ سیدکونین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوبعدمیں کسی نبی یارسول کی خبردی ہو اور اس کی مددکی ہدایت فرمائی ہو، اہل کتاب کوتنبیہ فرمائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر تم اللہ کے عہدکوتوڑرہے ہوجوانبیاء سے لیاگیا تھا لہذا تم اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہو،جس کی سزاجہنم کادردناک عذاب ہے۔

أَفَغَیْرَ دِینِ اللَّهِ یَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَیْهِ یُرْجَعُونَ ‎﴿٨٣﴾‏قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَىٰ وَعِیسَىٰ وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٨٥﴾‏(آل عمران)
کیا وہ اللہ کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں ؟ حالانکہ تمام آسمانوں اور سب زمین والے اللہ تعالیٰ ہی کے فرماں بردار ہیں خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے،آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) پر اور یعقوب (علیہ السلام) پر اور ان کی اولاد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) پر اور دوسرے (انبیاء علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے ان سب پر ایمان لائے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہیں ، جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرےاس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔

اب کیایہ لوگ اللہ کے دین کوچھوڑکرکسی اوردین کی تلاش میں ہیں ،حالانکہ آسمان وزمین کی ساری چیزیں اللہ کی مخلوق اوراس کی محکوم ہیں ،اورانہوں نے اپنی خوشی سے اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے ،جیسے فرمایا

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵۞ [45]

ترجمہ:وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ۝۴۸ [46]

ترجمہ:اور کیایہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے ؟ سب کی سب اس طرح اظہارِ عجز کر رہے ہیں ۔

یعنی اس عظیم الشان کائنات کی ہرچیزتواللہ کی اطاعت وبندگی کررہی ہےتم اسلام کوچھوڑکرکس دین کے خواہش منداورطالب ہو؟۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:عَجِبَ اللَّهُ مِنْ قَوْمٍ یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ فِی السَّلاَسِلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسے لوگوں پراللہ کوتعجب ہوگاجوجنت میں داخل ہوں گے حالانکہ دنیامیں اپنے کفرکی وجہ سے وہ بیڑیوں میں تھے ۔[47]

یعنی مسلمانوں نے کافروں کوپکڑکربیڑیوں میں قیدکردیاپھروہ مسلمان ہوگئے تواللہ تعالیٰ ان کواسلام کی وجہ سے جنت میں داخل کردے گاتواللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پرتعجب کرے گاکہ یہ لوگ اپنے کفرکی وجہ سے پابہ زنجیرہوئے اورپھرخوشی سےاسلام لاکرفوراًہی شہیدہوکرجنت میں داخل ہوگئے۔

اور ایک وقت مقررہ پراسی وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں ہم نے پیش ہونا ہے؟اے نبی !کہوکہ ہم اپنے خالق،مالک اوررازق اللہ وحدہ لاشریک کومانتے ہیں ،اس کتاب قرآن مجید کومانتے ہیں جوہماری ہدایت ورہنمائی کے لئے پیغمبرآخرالزمان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کی گئی ہے ،اور ان کتابوں اور صحیفوں کوبھی مانتے ہیں جوابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اوراولادیعقوب علیہ السلام پرنازل ہوئی تھیں ،اوران ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جوموسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام اوردوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں ،ہم تمام رسولوں پرایمان رکھتے ہیں اوران کے درمیان فرق نہیں کرتے، یعنی کسی نبی کومانیں اورکسی کونہ مانیں ،کسی کوجھوٹاکہیں اورکسی کوسچا، اورہم تعصبات اورحمیت جاہلیہ سے پاک اللہ کے تابع فرمان ہیں ،اس فرماں برداری یعنی اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے سواجوشخص کوئی اوردین پرچلےگا اس کاوہ دین ہرگزقبول نہ کیا جائے گااورآخرت میں وہ ناکام ونامرادرہے گا۔

أَخْبَرَتْنِی عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ایساکام کرے جس کے لئے ہماراحکم نہ ہو (یعنی دین میں ایساعمل نکالے)تووہ مردودہے ۔[48]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ فِیهِ، فَهُوَ رَدٌّ

ایک روایت میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے ہمارے دین میں ازخودکوئی ایسی چیزنکالی جواس میں نہیں تھی تو وہ ردہے۔[49]

كَیْفَ یَهْدِی اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَیِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنظَرُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٨٩﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہوجائیں ، اللہ تعالیٰ ایسے بےانصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا، ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی، مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اللہ ان لوگوں کوہدایت بخش دے جنہوں نے نعمت ایمان پالینے بعدپھرکفراختیارکیا،حالانکہ وہ خودان کے علماء اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ خاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق ہیں ، اورجوتعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جوپچھلے انبیاء لاتے رہے ہیں ، مگرانہوں نے محض تعصبات،ہٹ دھرمی ،فطری دشمنی حق اورخواہش نفس میں مبتلا ہوکر تکذیب کی راہ اختیارکی ،اور ظالموں کو ہدایت دے دنیااللہ کی سنت نہیں ہے،ان کے اس کفروگمراہی کاصحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پراللہ اورفرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے،یہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے،اللہ تعالیٰ لحظہ بھر نہ ان کی سزامیں تخفیف کرے گا اورنہ انہیں مہلت دی جائے گی۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ، ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ، سَلُوا لِی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لِی مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ: هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَنَزَلَتْ:{كَیْفَ یَهْدِی اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ} [50]إِلَى قَوْلِهِ {غَفُورٌ رَحِیمٌ} [51]

 فَأَرْسَلَ إِلَیْهِ فَأَسْلَمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہےانصارکاایک شخص ( حارث بن سوید ) مسلمان ہوا اور پھر مرتدہوگیااورمشرکوں سے جاملا،لیکن جلدہی اسے اپنے اس عمل پرندامت ہوئی تواس نے لوگوں  ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام پہنچایا کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟اس پریہ آیات نازل ہوئی

’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہوجائیں ، اللہ تعالیٰ ایسے بےانصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا، ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی، مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘اس کی قوم نے اسے کہلوابھیجااوروہ شخص مسلمان ہوگیا۔[52]

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: جَاءَ الْحَارِثُ بْنُ سُوَید فَأَسْلَمَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ كَفَرَ الْحَارِثُ فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِیهِ:{كَیْفَ یَهْدِی اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ} إِلَى قَوْلِهِ: { [إِلا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ] غَفُورٌ رَحِیمٌ} قَالَ:فَحَمَلَهَا إِلَیْهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَقَرَأَهَا عَلَیْهِ. فَقَالَ الْحَارِثُ: إِنَّكَ وَاللَّهِ مَا علمتُ لَصَدُوقٌ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَأَصْدَقُ مِنْكَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَأَصْدَقُ الثَّلَاثَةِ. قَالَ: فَرَجَعَ الْحَارِثُ فَأَسْلَمَ فحَسُنَ إِسْلَامُهُ .

اورمسندعبدالرزاق میں ہےحارث بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر اسلام قبول کیا،پھرقوم میں مل گیااوراسلام سے پھرگیا، اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ’’کیسے ہوسکتاہے کہ اللہ ان لوگوں کوہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پالینے بعدپھرکفراختیارکیا۔ ‘‘اس کی قوم کے ایک شخص نے یہ آیتیں اسے پڑھ کرسنائیں ،توحارث نے کہاجہاں تک میراخیال ہے اللہ کی قسم توسچاہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم توتجھ سے بہت ہی زیادہ سچے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچاہے،پھرحارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے ،اسلام لائے اوربہت اچھی طرح اسلام کو نبھایا۔[53]

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ ‎﴿٩٠﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن یُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِینَ ‎﴿٩١﴾‏(آل عمران)
بیشک جو لوگ اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی یہی گمراہ لوگ ہیں ،ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر رر زمین بھر سونا دے گو فدیے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گایہی لوگ ہیں جن کے لیے تکلیف دینے والا عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں ۔

جب سانس ختم ہونے کوہوں توتوبہ قبول نہیں ہوگی :اللہ تعالیٰ نےوعیداورخوف دلاتے ہوئے فرمایامگرجن لوگوں نے ایمان لانے کے بعدکفراختیارکیا،پھردعوت حق کی عملاًمخالفت ومزاحمت کی ،اللہ کے بندوں کوراہ راست سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگایا،دعوت حق کاراستہ روکنے کے لئےلوگوں کے دلوں میں دین حق کے بارے میں شکوک وشہبات پیداکیے،بدگمانیاں پھیلائیں ، اگر وہ موت کے وقت توبہ کریں گے توان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی،اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں باربارتوبہ کی اہمیت اورقبولیت کوبیان فرمایا۔

وَهُوَالَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَعْفُوْا عَنِ السَّـیِّاٰتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۲۵ۙ [54]

ترجمہ:وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے در گزر فرماتا ہے حالانکہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُسے علم ہے ۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللهَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱۰۴ [55]

ترجمہ:کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے ، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے؟۔

مگر جب سکرات موت کاوقت آجائے تو پھرتوبہ قبول نہیں کی جاتی۔

 وَلَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ۝۰ۚ حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۸ [56]

ترجمہ:مگر توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی، اور اسی طرح توبہ ان لوگوں کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ،ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک اسے موت کااچھونہ لگے۔[57]

ایسے لوگ توپکے گمراہ ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ قَوْمًا أَسْلَمُوا ثُمَّ ارْتَدُّوا، ثُمَّ أَسْلَمُوا ثُمَّ ارْتَدُّوا، فَأَرْسَلُوا إِلَى قَوْمِهِمْ یَسْأَلُونَ لَهُمْ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:{إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ}

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھرمرتدہوگئے ،پھرمسلمان ہوگئے پھرمرتدہوگئے،توانہوں نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیج کراپنے بارے میں پوچھا،چنانچہ انہوں نے اس کاذکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاتوآیت کریمہ ’’ بیشک جو لوگ اپنے ایمان لانے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی یہی گمراہ لوگ ہیں ۔ ‘‘نازل ہو گئی۔ [58]

یقین رکھو جن لوگوں نے دعوت حق کی تکذیب کی اوراسی حالت میں جان دی، ان میں سے کوئی اگراپنے آپ کوعذاب جہنم سے بچانے کے لیے روئے زمین بھرکا بھی سونافدیہ میں دے تواسے قبول نہ کیاجائے گا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۝۱۲۳ [59]

ترجمہ:اور ڈرو اس دن سے ،جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی ، اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔

قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خِلٰلٌ۝۳۱ [60]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ان سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں ) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہو سکے گی۔

عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَصِلُ الرَّحِمَ، وَیُطْعِمُ الْمِسْكِینَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:لَا یَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جدعان کابیٹاجاہلیت کے زمانہ میں ناتے جوڑتاتھا(یعنی ناتے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرتاتھا)اورمسکینوں کو کھانا کھلاتا تھاکیایہ کام اس کو (قیامت کے دن) فائدہ دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !کچھ فائدہ نہ دیں گے اس نے کبھی یوں نہ کہاکہ اے پروردگار!میرے گناہوں کو قیامت کے دن بخش دے۔[61]

عَنْ أَنَسٍ، یَرْفَعُهُ: إِنَّ اللَّهَ یَقُولُ لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا: لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِی الأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ كُنْتَ تَفْتَدِی بِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدْ سَأَلْتُكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ آدَمَ، أَنْ لاَ تُشْرِكَ بِی، فَأَبَیْتَ إِلَّا الشِّرْكَ

انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ(قیامت کے دن)اس شخص سے پوچھے گاجسے دوزخ کاسب سے ہلکاعذاب دیا گیا ہوگااگردنیامیں تمہاری کوئی چیزہوتی توکیاتواس عذاب سے نجات پانے کے لئے اسے بدلے میں دے سکتاتھا؟وہ شخص کہے گاجی ہاں ! اس پراللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھاتومیں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیزکامطالبہ کیاتھا(روزازل میں )کہ میراکسی کوبھی شریک نہ ٹھہرانا،لیکن (جب تودنیامیں آیاتو)اسی شرک کاعمل اختیارکیا۔[62]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِالرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیَقُولُ لَهُ: یَا ابْنَ آدَمَ كَیْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَكَ؟ فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ خَیْرُ مَنْزِلٍ، فَیَقُولُ: سَلْ وَتَمَنَّ، فَیَقُولُ: مَا أَسْأَلُ وَأَتَمَنَّى إِلَّا أَنْ تَرُدَّنِی إِلَى الدُّنْیَا، فَأُقْتَلَ فِی سَبِیلِكَ عَشْرَ مَرَّاتٍ، لِمَا یَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ، وَیُؤْتَى بِالرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَیَقُولُ لَهُ: یَا ابْنَ آدَمَ، كَیْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَكَ؟ فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ، شَرُّ مَنْزِلٍ، فَیَقُولُ لَهُ: أَتَفْتَدِی مِنْهُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَهَبًا؟ فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ، نَعَمْ، فَیَقُولُ: كَذَبْتَ، قَدْ سَأَلْتُكَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ وَأَیْسَرَ، فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَى النَّارِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک ایسے جنتی کولایاجائے گاجس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہوتم نے کیسی جگہ پائی؟ وہ جواب دے گااللہ بہت ہی بہتر ، اللہ تعالیٰ فرمائے گااچھااورکچھ مانگناہوتومانگو،دل میں جوتمناہوکہو،تویہ کہے گاباری تعالیٰ میری صرف یہی تمناہے اورمیرایہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیامیں پھربھیج دے ،میں تیری راہ میں جہادکروں اورپھرشہیدکیاجاؤں ،پھرزندہ ہوجاؤں ،پھرشہیدکیاجاؤں ،دس مرتبہ ایساہی ہوکیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید مرتبے دیکھ چکاہوگا،اسی طرح ایک جہنمی کوبلایاجائے گااوراس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گااے ابن آدم !تونے اپنی جگہ کیسے پائی ؟ وہ کہے گااللہ بہت ہی بری،اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاساری زمین بھرکرسونادے کران عذابوں سے چھوٹناتجھے پسندہے؟ وہ کہے گاہاں اے باری تعالیٰ،اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گاتو جھوٹا ہے،میں نے تواس سے بہت ہی کم اوربالکل آسان چیزتجھ سے طلب کی تھی لیکن تونے اسے بھی نہ کیا ،چنانچہ وہ جہنم میں بھیج دیاجائے گا۔[63]ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیارہے اوروہ اپناکوئی مددگارنہ پائیں گے۔

لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَیْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ ‎﴿٩٢﴾‏ ۞ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٩٣﴾‏ فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٩٤﴾‏ قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٩٥﴾‏(آل عمران)
جب تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ، تورات کے نزول سے پہلے (حضرت)یعقوب (علیہ السلام) نے جس چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اس کے سوا تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے، آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو تورات لے آؤ اور پڑھ کر سناؤ، اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھیں وہ ہی ظالم ہیں ، کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے تم سب ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کرو جو مشرک نہ تھے۔

سب سے زیادہ محبوب چیزاورصدقہ :نیکی کے بارے میں یہودکے جوتصورات تھے ان کاردکرتے ہوئے فرمایاتم لوگ اس وقت تک بھلائی کونہیں پہنچ سکتے،یعنی جنت میں داخل نہیں ہوسکتے۔

قَالَ كَثِیرٌ مِنْ أَهْلِ التَّأْوِیلِ: الْبِرُّ الْجَنَّةُ؛

اکثراہل تاویل الْبِرّ جنت مرادلیتے ہیں ۔[64]

جب تک کہ اپنی وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کروجنہیں تم محبوب رکھتے ہو،اللہ تمہیں تنگی میں نہیں ڈالتااس لئےجواچھی یابری چیز تم خرچ کروگے اللہ اس سے بے خبرنہ ہوگا اوروہ اس کے مطابق تمہیں جزاعطافرمائےگا۔

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِینَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَیْهِ بَیْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُهَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِیهَا طَیِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}[65] قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى یَقُولُ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} [66]وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِی إِلَیَّ بَیْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا یَا رَسُولَ اللَّهِ حَیْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَخٍ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّی أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِی الأَقْرَبِینَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِی أَقَارِبِهِ وَبَنِی عَمِّهِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں اپنے کھجور باغات کی وجہ سے انصارمیں سب سے زیادہ مالدار تھے اوراپنے باغات میں سب سے زیادہ پسندانہیں بیرحاء کاباغ تھا،یہ باغ مسجدنبوی کے بالکل سامنے تھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایاکرتے اوراس کامیٹھاپانی پیاکرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب یہ آیت کریمہ ’’ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی محبوب چیزخرچ نہ کرو۔‘‘نازل ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تبارک وتعالیٰ فر تاہے’’ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی محبوب چیزخرچ نہ کرو۔‘‘اورمجھے بیرحاء کاباغ سب سے زیادہ محبوب ہے،اس لئے میں اسے اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے صدقہ کرتاہوں ،اوراس کی نیکی اوراس کے ذخیرہ آخرت ہونے کاامیدوارہوں ،اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں ،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخوب! یہ توبڑاہی آمدنی کامال ہے،یہ توبہت ہی نفع بخش مال ہے،اورجوبات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اورمیں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں میں تقسیم کردو،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ایساہی کروں گا،چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں میں تقسیم کردیا ۔[67]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ بِخَیْبَرَ أَرْضًا، فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَیْفَ تَأْمُرُنِی بِهِ؟ قَالَ:إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لاَ یُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ یُوهَبُ وَلاَ یُورَثُ فِی الفُقَرَاءِ، وَالقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَالضَّیْفِ وَابْنِ السَّبِیلِ، لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِیَهَا أَنْ یَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ یُطْعِمَ صَدِیقًا غَیْرَ مُتَمَوِّلٍ فِیهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کوخیبرمیں ایک زمین ملی(جس کانام ثمغ تھا)توآپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایک زمین ملی ہے اوراس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملاتھا ،میں اسے اللہ کی راہ میں دیناچاہتاہوں اس کے بارے میں آپ مجھے مشورہ دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہے تواصل جائداداپنے قبضے میں رکھ لواوراس کے منافع کوخیرات کر دوچنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ(وقف)کیاکہ اصل زمین نہ بیچی جائے ،نہ ہبہ کی جائے اورنہ وراثت میں کسی کوملے، اورفقرائ،رشتہ دار،غلام آزاد کرانے، اللہ کی راہ میں (مجاہدوں )مہمانوں اورمسافروں کے لئے(وقف ہے)جوشخص بھی اس کامتولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یااپنے کسی دوست کوکھلائے توکوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کاارادہ نہ ہو ۔[68]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَضَرَتْنِی هَذِهِ الْآیَةُ: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} فذكرتُ مَا أَعْطَانِی اللَّهُ، فَلَمْ أَجِدْ شَیْئًا أحبَّ إِلَیَّ مِنْ جَارِیَةٍ رُومیَّة، فقلتُ، هِیَ حُرَّة لِوَجْهِ اللَّهِ. فَلَوْ أنِّی أَعُودُ فِی شَیْءٍ جَعَلْتُهُ لِلَّهِ لنكَحْتُها، یَعْنِی تَزوَّجتُها .

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کرکے سوچا تو مجھے کوئی چیزایک کنیزسے زیادہ پیاری نہ تھی میں نے اس لونڈی کواللہ کی راہ میں آزادکردیا،اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگرکسی چیزکواللہ تعالیٰ کے نام پردے کرپھرلوٹالینا جائزہو تو میں کم ازکم اس سے نکاح کرلیتا۔[69]

جب علماء یہودکوئی اصولی اعتراض نہ کرس توانہوں نے فقہی اعتراضات شروع کردیے ،یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعتراض کیاکہ آپ دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کادعویٰ کرتے ہیں اور اونٹ کاگوشت بھی کھاتے ہیں ،جبکہ اونٹ کاگوشت اوراس کادودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا،اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس دعویٰ کو غلط بتلایا اور اعتراض کاجواب فرمایاکہ کھانے کی یہ ساری چیزیں جوشریعت محمدی میں حلال ہیں بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں توراة کے نازل کیے جانے سے پہلے یعقوب علیہ السلام نے خود(ایک نذریابیماری کی وجہ سے)اپنے اوپراونٹ کاگوشت اوراس کادودھ حرام کرلیاتھا،اوران کے بعدان کی اولادنے بھی (آپ کے احترام میں ) اس سے اجتناب کیا ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلَتْ یَهُودُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّا نَسْأَلُكَ عَنْ خَمْسَةِ أَشْیَاءَ، فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِهِنَّ، عَرَفْنَا أَنَّكَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاكَ، فَأَخَذَ عَلَیْهِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِیلُ عَلَى بَنِیهِ، إِذْ قَالُوا: اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِیلٌ، قَالَ:هَاتُوا قَالُوا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَلامَةِ النَّبِیِّ، قَالَ:تَنَامُ عَیْنَاهُ، وَلا یَنَامُ قَلْبُهُ قَالُوا: أَخْبِرْنَا كَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَةُ، وَكَیْفَ تُذْكِرُ؟ قَالَ:یَلْتَقِی الْمَاءَانِ، فَإِذَا عَلَا مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ أَذْكَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَاءُ الْمَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ آنَثَتْ قَالُوا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَى نَفْسِهِ؟ قَالَ:كَانَ یَشْتَكِی عِرْقَ النَّسَا، فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یُلائِمُهُ إِلا أَلْبَانَ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبِی:قَالَ بَعْضُهُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَهَا، قَالُوا: صَدَقْتَ،

اس سلسلہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس آئی اورکہنے لگے اے ابوالقاسم ! ہم آپ سے پانچ سوال کرناچاہتے ہیں اگر آپ صحیح جواب دے دیں تو آپ جان جائیں گے کہ آپ نبی ہیں اور ہم آپ کی پیروی کریں گے تو اس پر آپ نے ان سے عہد لیا جیسا کہ اسرائیل نے اپنے بیٹوں سے لیا تھا جب انہوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ اللہ ہی ہماری باتوں کا ضامن ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب اپنے سوالات پیش کرو، فرمایانبی کی علامت کیاہیں ؟ فرمایا نبی کی نیندمیں آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتاہے ، انہوں نے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ یہ بتائیے کہ بچہ مؤنث اور مذکر کس طرح بنتا ہے؟ فرمایامرد کا پانی سفیدرنگ اورگاڑھاہوتاہے اورعورت کاپانی زردی مائل پتلاہوتاہے،دونوں میں سے جواوپرآجائے اس پرنرمادہ ہوتی ہے، اور شکل وشباہت میں بھی اسی پرجاتی ہے، پھر تیسرا سوال پوچھاکہ بتلائیں اسرائیل علیہ السلام نے کیاچیزاپنے اوپرحرام کی تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اسرائیل علیہ السلام سخت بیمار ہوئے تونذرمانی کہ اگراللہ تعالیٰ مجھے شفادے گا تومیں کھانے پینے کی سب سے پیاری چیزچھوڑدوں گا،جب شفا یاب ہوگئے تو اونٹ کاگوشت اوردودھ چھوڑدیا،

قَالُوا: أَخْبِرْنَا مَا هَذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ:مَلَكٌ مِنْ مَلائِكَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِهِ أَوْ فِی یَدِهِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِهِ السَّحَابَ، یَسُوقُهُ حَیْثُ أَمَرَ اللَّهُ قَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِی نَسْمَعُ؟ قَالَ:صَوْتُهُ قَالُوا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَةٌ وَهِیَ الَّتِی نُبَایِعُكَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِهَا، فَإِنَّهُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلا لَهُ مَلَكٌ یَأْتِیهِ بِالْخَبَرِ، فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبكَ؟ قَالَ: جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلامُ، قَالُوا: جِبْرِیلُ ذَاكَ الَّذِی یَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا، لَوْ قُلْتَ: مِیكَائِیلَ الَّذِی یَنْزِلُ بِالرَّحْمَةِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ، لَكَانَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} [70]إِلَى آخِرِ الْآیَةَ

انہوں نے کہاآپ نے سچ کہا، پھر انہوں نے چوتھا سوال یہ پوچھا کہ یہ رعد (بادلوں کی گرج چمک) کیا چیز ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو بادلوں  ہانکنے پرمقرر ہے ، اس کے ہاتھ میں آگ کاکوڑاہے جس سے بادلوں کوجہاں اللہ تعالیٰ کاحکم ہولے جاتاہے،انہوں نے عرض کی کہ یہ آوازکس کی ہے جوہم سنتے ہیں ؟ فرمایا یہ گرج کی آوازاسی کی آواز ہے،انہوں نے کہاآپ نے سچ کہا باقی ایک سوال رہ گیا ہے اگر آپ صحیح بتا دیں تو ہم آپ کی بیعت کرلیں گے، کیونکہ اس سوال کا جواب سوائے نبی کے کوئی نہیں بتا سکتا، وہ یہ کہ فرشتوں میں سے کون سافرشتہ اس کے پاس وحی لے کر آتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل! وہ کہنے لگے کہ وہی جبرئیل جو جنگ لڑائی اور سزا لے کرآ تا ہے، وہ تو ہمارا دشمن ہےاگر آپ میکائیل کا نام لیتے جو رحمت، نباتات اور بارش لے کر آتا ہے تب بات بن جاتی، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ کی یہ آیت’’ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔‘‘نازل فرمائی ۔[71]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان اعتراض کرنے والوں سے کہو،اگرتم اپنے اس اعتراض میں سچے ہو توتوراة کی کوئی عبارت پیش کروجس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں یہ چیزیں حلال تھیں ، البتہ تمہارے ظلم و سرکشی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تورات میں بعض چیزیں تم یہودیوں پرحرام کردی تھیں ،جیسے فرمایا

وَعَلَی الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ۝۰ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ

ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَــوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ۝۰ۡۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۱۴۶ [72]

ترجمہ: اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے ، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے، یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں ۔

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ كَثِیْرًا۝۱۶۰ۙ [73]

ترجمہ:الغرض یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے (کئی ایک) اچھی چیزیں ان پرحرام کردیں جو (پہلے) حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کواللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔

لیکن یہوداس کے بعدبھی ظلم وعنادکی روش پرقائم رہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایااس کے بعدبھی جولوگ اللہ کے بندوں کوگمراہ کرنے کے لئے اپنی جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں اللہ کی طرف منسوب کرتے رہیں وہی درحقیقت ظالم ہیں ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو!اللہ تعالیٰ نے جوکچھ فرمایاہے سچ فرمایاہے،اس لئےتم فقہی جزئیات میں پھنسنےکے بجائےیکسوہوکر ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے توحیدکو اختیارکرو، اوریادرکھوابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جسے تم اپناپیشواسمجھتے ہو اللہ وحدہ لاشریک کاپرستار اورشرک سے بیزار تھا۔جیسے ایک مقام پرفرمایا

ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۲۳ [74]

ترجمہ:پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یکسو ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔

إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِینَ ‎﴿٩٦﴾‏ فِیهِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِیمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ ‎﴿٩٧﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت اور ہدایت والا ہے،جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں ،مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سےبلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے ۔

یہود کہتے تھے کہ مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) سب سے پہلی عبادت گاہ ہے، محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد اقصیٰ کو چھوڑکر اپنا قبلہ بیت اللہ کوکیوں قرار دیا ہے؟حالانکہ پچھلے انبیاء کا قبلہ بیت المقدس ہی تھا، اللہ تعالیٰ نے ان اس اعتراض کے جواب میں فرمایاکہ تمہارایہ دعویٰ بھی غلط ہے، اورکعبہ کی پانچ صفات بیان فرمائیں ، فرمایاحقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلی عبادت گاہ جوانسانوں کے لیے تعمیرہوئی وہ مسجداقصیٰ (بیت المقدس) نہیں بلکہ بیت اللہ ہے جومکہ میں واقع ہے۔

أَبَا ذَرٍّرَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ:المَسْجِدُ الحَرَامُ قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ المَسْجِدُ الأَقْصَى قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَیْنَهُمَا؟ قَالَ:أَرْبَعُونَ سَنَةً، ثُمَّ أَیْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلاَةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ، فَإِنَّ الفَضْلَ فِیهِ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجدبنائی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسجدحرام ،میں نے عرض کیااور اس کے بعد ؟فرمایامسجداقصیٰ (مسجد بیت المقدس)،میں نے عرض کیاان دونوں کی تعمیرکے درمیان کتنافاصلہ رہا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاچالیس سال ، پھرفرمایااب جہاں بھی تجھ کو نمازکاوقت ہوجائے نمازپڑھ لیاکرو،بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے۔ [75]

ان دونوں مساجد بارے میں مشہوریہ ہے کہ بیت اللہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایااوربیت المقدس سلیمان علیہ السلام نے بنایا،اوران دونوں انبیاء کے درمیان ایک ہزارسال سے زائدفاصلہ ہے ، اس حدیث کی روسے دونوں مساجدکی تعمیرمیں چالیس سال کافاصلہ ہے ،اس لیے کہاگیاکہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بناکاذکرہے، انہوں نے پہلے بیت اللہ بنایاپھرچالیس سال بعدبیت المقدس بنایا ،اورقرآن کریم میں جوتعمیرکعبہ اوراس کی بنادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام کی طرف ہے، تواس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنواٹھانااوراس کی تعمیر کرنا مرادہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس یعقوب علیہ السلام نے بنایا،اگریہ قول صحیح ہوتوپھرکوئی اشکال نہیں رہتا ، کیونکہ یعقوب علیہ السلام ،ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیداہوچکے تھے ۔

اس کوخیروبرکت دی گئی تھی اوراس میں دینی ودنیاوی فوائدموجودہیں ۔جیسے ایک مقام پرفرمایا

لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔۔۔۝۰۝۲۸ۡ [76]

ترجمہ:تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ۱ن کے لیے رکھے گئے ہیں ، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۔

اورتمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا،اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جواس کی عظمت وشرافت کی دلیل ہیں ،اورجن سے ظاہرہے کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی بنایہی ہے،اوراس کی نشانی یہ ہے کہ وہاں پرابراہیم علیہ السلام کامقام عبادت ہے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ (فِیهِ آیَةٌ بَیِّنَةٌ مَقَامُ إِبْرَاهِیمَ) قَالَ:أَثَرُ قَدَمَیْهِ فِی الْمَقَامِ آیَةٌ بَیِّنَةٌ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں ،مقام ابراہیم ہے۔‘‘َ بارے میں فرماتے ہیں اس مقام میں آپ کے قدموں کے نشان بھی ایک کھلی نشانی ہے۔ [77]

وَلِهَذَا قَالَ أَبُو طَالِبٍ فِی قَصِیدَتِهِ الْمَعْرُوفَةِ اللامِیَّةِ:

ابوطالب نے اپنے مشہورقصیدہ لامیہ میں کہاہے۔

ومَوطئُ إِبْرَاهِیمَ فِی الصَّخْرِ رَطْبَةٌ ، عَلَى قَدَمَیْهِ حَافِیًا غَیْرَ نَاعِلِ

اس پتھرپرابراہیم علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان تازہ ہیں            اورصاف نظرآرہاہے کہ آپ برہنہ پاہیں پاؤں میں جوتے نہیں ہیں

اوربیت اللہ کاحال یہ ہے کہ جواس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔

عَنِ الْحَسَنِ فِی قَوْلِهِ: {وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا} [78]قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَقْتُلُ الرَّجُلَ فَیُعَلِّقُ فِی رَقَبَتِهِ الصُّوفَةَ، ثُمَّ یَدْخُلُ الْحَرَمَ فَیَلْقَاهُ ابْنُ الْمَقْتُولِ، أَوْ أَبُوهُ فَلَا یُحَرِّكُهُ

امام حسن بصری رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’اس میں جوآجائے امن والاہوجاتاہے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی قتل کرتاتووہ اپنی گردن پراون کاایک ٹکڑارکھ لیتااورحرم میں داخل ہوجاتا،اس حالت میں مقتول کابیٹایاباپ بھی ملتاتواسے کچھ نہ کہتاحتی کہ وہ حرم سے نکل جاتا۔[79]

جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى۔۔۔۝۰۝۱۲۵ [80]

ترجمہ:اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۔۔۔ ۝۶۷ [81]

ترجمہ:کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پُر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گردو پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں ؟۔

اوراللہ تعالیٰ نے اپنے نام کومقدم رکھ کرحج کی فرضیت میں فرمایالوگوں پراللہ کا یہ حق ہے کہ جواس گھرتک پہنچنے کے لئے زادراہ کی استطاعت رکھتا ہو ، صحت وتندرستی کے لحاظ سے سفرکے قابل ہو،وہ زندگی میں کم ازکم ایک بار اس کاحج کرے۔

عَنْ أَنَسٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حَجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلًا} [آل عمران: 97] قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا السَّبِیلُ؟ قَالَ:الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کافرمان’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پرجواس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھرکاحج فرض کردیاہے۔‘‘ بارے میں پوچھاگیا ،اورعرض کی گئی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سبیل سے کیامرادہے؟فرمایازادراہ اورسواری۔[82]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: خَطَبَنَا وَقَالَ مَرَّةً: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَیْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ: أَكُلَّ عَامٍ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ، حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ “ ثُمَّ قَالَ:ذَرُونِی مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَیْءٍ، فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَیْتُكُمْ عَنْ شَیْءٍ، فَدَعُوهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو! تم پراللہ تعالیٰ نے حج فرض کیاہے ،تم حج کروایک شخص (اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ ) نے پوچھا کیا ہر سال اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں ہاں کہہ دیتاتوفرض ہوجاتاپھرتم بجانہ لاسکتے،میں خاموش رہوں توتم کریدکرنہ پوچھا کرو،تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھر مار اور نبیوں پراختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، لہٰذا اگر کسی حکم کے کرنے کا کہہ دوں تومیرے حکموں کوطاقت بھربجالاؤاورجس چیز سے منع کروں اس سے رک جاؤ۔[83]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ – یَعْنِی: الْفَرِیضَةَ – فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا یَدْرِی مَا یَعْرِضُ لَهُ

عبداللہ بن عباس مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرض حج جلدی اداکرلیا کروتم میں سے کوئی نہیں جانتانہ معلوم کل کیاپیش آئے۔[84]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو حج کرناچاہے توچاہیے کہ جلدی ہی کرلے۔[85]

اوربے اعتنائی وناراضگی کے اظہارکے لئے فرمایاجوکوئی اس حکم کی پیروی سے انکارکرے تو اسے معلوم ہوجاناچاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے مستغنیٰ ہے،اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں ۔

وَقَوْلُهُ:{وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ وَغَیْرُ وَاحِدٍ: أَیْ وَمَنْ جَحَد فَرِیضَةَ الْحَجِّ فَقَدْ كَفَرَ، وَاللَّهُ غَنِیٌّ عَنْهُ.

اللہ تعالیٰ کافرمان’’اورجوکوئی کفرکرے تواللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ)تمام دنیاسے بے پرواہ ہے۔‘‘ کی تفسیرمیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،امام مجاہد رحمہ اللہ اوردیگرکئی ائمہ تفسیر فرماتے ہیں جوشخص فریضہ حج کاانکارکرے وہ کافرہے، اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے مستغنیٰ ہےاسے کسی حج کی ضرورت نہیں ۔ [86]

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ مَاتَ وَهُوَ مُوسِرٌ لَمْ یَحُجَّ، فَلْیَمُتْ عَلَى أَیِّ حَالٍ شَاءَ یَهُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے فرمایاجس شخص کوحج کی طاقت ہواوروہ حج نہ کرے توبرابرہے خواہ وہ یہودی ہوکرمرے یاعیسائی۔[87]

کسی شاعرنے کہا

أطوف به والنفس بعد مشوقة، إلیه وهل بعد الطواف تدانی

میں اس کاطواف کرتاہوں اوردل پھربھی شوق سے بھرپورہے،کیاطواف کے بعدمزیدقریب بھی ہوسکتاہے؟

وألثم منه الركن أطلب برد ما ، بقلبی من شوق ومن هیمان

میں اس کے حجراسودکوچومتاہوں اوراس طرح دل میں موج زن،محبت اورپیاس کوٹھنڈک پہنچاتاہوں

فوالله ما ازداد إلا صبابة، ولا القلب إلا كثرة الخفقان

قسم اللہ کی!میری محبت ہی میں اضافہ ہوتاہے،اوردل اورزیادہ دھڑکنے لگتاہے

فیا جنة المأوى ویا غایة المنى،ویا منیتی من دون كل أمان

اے جنت ماویٰ!اے مقصودتمنا! اوراے میری آرزو!ہرامان سے قریب تر!

أبت غلبات الشوق إلا تقربا ،إلیك فما لی بالبعاد یدان

غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پراصرارکرتے ہیں ،تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں

وما كان صدى عنك صد ملالة ، ولی شاهد من مقلتی ولسان

میں اگرتجھ سے دورہواتواس کی وجہ بے اعتنائی نہیں ،اس کاگواہ میری(اشک بار)آنکھیں اور(نالہ وشیون کرتی)زبان ہے

دعوت اصطباری عنك بعدك والبكا ،فلبى البكا والصبر عنك عصانی

تجھ سے دورہونے کے بعدمیں نے صبرکوبھی آوازدی اورگریہ کوبھی،گریہ نے(فوراً)لبیک کہا(اورآگیا)اورصبرنے میری بات نہ مانی(صبرنہ آیا)

وقد زعموا أن المحب إذا نأى،سیبلى هواه بعد طول زمان

لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محب دورچلاجائے    ،تولمباعرصہ گزرنے کے بعداس کی محبت کمزورہوجاتی ہے

ولو كان هذا الزعم حقا لكان ذا ، دواء الهوى فی الناس كل زمان

اگریہ خیال درست ہوتاتویقیناًہرزمانے کے لوگوں کے لئے محبت کاعلاج ہوتا۔ہر زمانے کے لوگوں میں محبت کی دواء ہوتی ہے

بلى إنه یبلى والهوى على ، حاله لم یبله الملوان

ہاں ہاں محب کمزورہوجائے گااورمحبت،اسی حال میں ہوگی،اسے رات دن کے گزرنے نے کمزورنہیں کیاہوگا

وهذا محب قاده الشوق والهوى، بغیر زمام قائد وعنان

یہ محبت کرنے والاہے،جسے شوق اورعشق لے جاتاہے،بغیرکسی لگام اورباگ کے جواسے کھینچے لیے جاتی ہو

أتاك على بعد المزار ولو ونت ،مطیته جاءت به القدمان

زیارت گاہ دورہونے کے باوجودوہ تیرے درپرآپہنچاہے،اگراس کی سواری کمزورہوجاتی تواس کے قدم ہی اسے لے آتے۔[88]

قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِیدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٨﴾‏ قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٩﴾(آل عمران)
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہے،ان اہل کتاب سے کہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو کیوں روکتے ہو ؟ اور اس میں عیب ٹٹولتے ہو حالانکہ تم خود شاہد ہو، اللہ تعالیٰ مہارے اعمال سے بےخبر نہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے کفاراہل کتاب کی ملامت کی اورفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہودونصاریٰ سے کہو!تم دعوت اسلام ماننے سے کیوں انکارکرتے ہو؟حالانکہ تم خوب جانتے ہوکہ دین اسلام حق ہے ،اوراس کے داعی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے پیغمبرہیں اورجوکتاب ان پرنازل ہورہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے،لیکن اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے دین اسلام کاراستہ روکنے کے لئےجومذموم سازشیں تم کر رہے ہواللہ انہیں دیکھ رہاہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہودونصاریٰ سے کہو ! یہ تمہاری کیا روش ہے کہ تم خودتودعوت حق قبول نہیں کرتے، اور جواللہ کابندہ اس دعوت کوقبول کرلیتاہے اسے بھی تم پروپیگنڈے،غلط تاویلات اورمختلف طریقوں سے راہ راست سے روکتے ہو ، اور تمہاری شدید خواہش ہوتی ہےکہ وہ سیدھی راہ چھوڑ کر گمراہی اختیارکرلے، حالانکہ تم خوداس کے راہ راست ہونے پر گواہ ہو ، تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں ہے، بلکہ تمہارے اعمال ، تمہاری نیتوں ، اورتمہاری تدبیروں سے پوری طرح باخبرہے،وہ تمہیں اس کی سخت سزادے گا،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸ [89]

ترجمہ:جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے، اس فساد کے بدلے جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔

یعنی روزقیامت انہیں دردناک عذاب دیاجائے گا۔

 یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ [90]

ترجمہ:جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گااورنہ اولاد۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تُطِیعُوا فَرِیقًا مِّنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ یَرُدُّوكُم بَعْدَ إِیمَانِكُمْ كَافِرِینَ ‎﴿١٠٠﴾‏وَكَیْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ آیَاتُ اللَّهِ وَفِیكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَن یَعْتَصِم بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِیَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٠٣﴾‏(آل عمران)
اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد مرتد و کافر بنادیں گے،(گویا یہ ظاہر ہے کہ) تم کیسے کفر کرسکتے ہو ؟ باوجودیکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود ہیں ،جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین )کو مضبوط تھام لے تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی، اے ایمان والو ! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا ، اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

وَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسار وَغَیْرُهُ: أَنَّ هَذِهِ الْآیَةَ نَزَلَتْ فِی شَأْنِ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْیَهُودِ مَرَّ بِمَلَأٍ مِنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، فَسَاءَهُ مَا هُمْ عَلَیْهِ مِنَ الِاتِّفَاقِ والألْفَة، فَبَعَثَ رَجُلًا مَعَهُ وَأَمَرَهُ أَنْ یَجْلِسَ بَیْنَهُمْ وَیُذَكِّرَهُمْ مَا كَانَ مِنْ حُرُوبِهِمْ یَوْمَ بُعَاث وَتِلْكَ الْحُرُوبِ، فَفَعَلَ، فَلَمْ یَزَلْ ذَلِكَ دأبُه حَتَّى حَمِیَتْ نُفُوسُ الْقَوْمِ وَغَضِبَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَتَثَاوَرُوا، وَنَادَوْا بِشِعَارِهِمْ وَطَلَبُوا أَسْلِحَتَهُمْ، وَتَوَاعَدُوا إِلَى الْحَرَّةِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُمْ فَجَعَلَ یُسكِّنهم وَیَقُولُ: أبِدَعْوَى الجَاهِلِیَّةِ وأَنَا بَیْنَ أظْهُرِكُمْ؟ وَتَلَا عَلَیْهِمْ هَذِهِ الْآیَةَ، فَنَدِمُوا عَلَى مَا كَانَ مِنْهُمْ، وَاصْطَلَحُوا وَتَعَانَقُوا، وَأَلْقَوُا السِّلَاحَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ

محمدبن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت اوس وخزرج کے بارے اتری ہے، وہ یہ کہ انصارکے دونوں قبیلے اوس وخزرج ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھے باہم گفتگوکررہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرااوردونوں قبائل کاباہمی پیاردیکھ کرجل بھن گیاکہ پہلے یہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، اوراب اسلام کی برکت سے باہم شیروشکرہوگئے ہیں ،اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایاکہ وہ ان کے درمیان جاکرجنگ بعاث کاتذکرہ کرے جوہجرت سے کچھ پہلے ان کے درمیان برپاہوئی تھی اورانہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جورزمیہ اشعارکہے تھے وہ ان کو سنائے،چنانچہ اس نوجوان نے جاکرایساہی کیا،جس پران دونوں قبائل کے پرانے جذبات پھر بھڑک اٹھے اورایک دوسرے کوبرابھلاکہنے لگے، یہاں تک کہ ہتھیاراٹھانے کے لئے للکاراورپکارشروع ہوگئی ،قریب تھاکہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہوجائے اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوگئی، آپ جلدی سےتشریف لے آئے، اورفرمایاکیاتم جاہلیت کی پکارکرتے ہواورمیں تم میں موجودہوں ، اوریہ آیات ’’اے ایمان والو!اگرتم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانوگے تووہ تمہارے ایمان لانے کے بعدمرتدوکافربنادیں گے۔‘‘ پڑھ کرسنائیں ،توسب نادم ہوئے اورآپس میں نئے سرے سے معانقہ مصافحہ کیااوربھائیوں کی طرح گلے مل گئے،ہتھیارڈال دیئے اورصلح صفائی ہوگئی۔[91]

جس میں مسلمانوں کوتنبیہ فرمائی اے لوگوجوایمان لائے ہو!اگرتم نے ان یہودونصاریٰ کی بات مانی تویہ اپنے بغض وعناداورتعصبات کی وجہ سے تمہیں ایمان سے پھرکفرکی طرف پھیرلے جائیں گے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا۝۰ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۝۱۰۹ [92]

ترجمہ:اہلِ کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بناء پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔

اوراب تمہارے لئے کفرکی طرف جانے کا کیاموقع باقی ہے جب کہ ہروقت تم کواللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اورتمہارے درمیان اس کارسول موجودہے؟جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ۝۰ۚ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۸ [93]

ترجمہ:تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمًا لِأَصْحَابِهِ:أیُّ الْمُؤمِنِینَ أعْجَبُ إلَیْكُمْ إیمَانًا؟ قَالُوا: الْمَلَائِكَةُ. قَالَ:وَكَیْفَ لَا یُؤْمِنُونَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟!وَذَكَرُوا الْأَنْبِیَاءَقَالَ:وَكَیْفَ لَا یُؤْمِنُونَ وَالْوَحْیُ یَنزلُ عَلَیْهِمْ؟قَالُوا: فَنَحْنُ. قَالَ:وَكَیْفَ لَا تُؤْمِنُونَ وأنَا بَیْنَ أظْهُرِكُمْ؟!قَالُوا: فَأَیُّ النَّاسِ أَعْجَبُ إِیمَانًا؟ قَالَ:قَوْمٌ یَجِیؤُونَ مِنْ بَعْدِكُمْ یَجِدونَ صُحُفًا یُؤْمِنُونَ بِمَا فِیهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھاتمہارے نزدیک سب سے بڑاایمان والاکون ہے؟ انہوں نے جواب دیافرشتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابھلاوہ ایمان کیوں نہ لاتے وہ تورب پاس ہیں ،انہوں نے کہاانبیاء ،فرمایاوہ ایمان کیوں نہ لاتےانہیں تواللہ تعالیٰ کی وحی سے براہ راست تعلق ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاپھرہم ، فرمایاتم ایمان کیوں نہ لاتے، تم میں تومیں خودموجودہوں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خودہی ارشادفرمائیں ،فرمایاکہ تمام لوگوں سے زیادہ عجیب ایمان والے وہ ہوں گے جوتمہارے بعدآئیں گے،وہ کتابوں میں لکھاپائیں گے اوراس پرایمان لائیں گے۔[94]

جواللہ کے دین کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گااوراطاعت میں کوتاہی نہیں کرے گاوہ ضرورراہ راست پالے گا،اے لوگوجوایمان لائے ہو! اللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت قرآن مجیدپرپوراعمل کرواوراس کی نافرمانی نہ کرو،اس کا شکر بجا لاؤ اور کفرنہ کرو،اسی طرح اپنی تمام زندگی بسرکرو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: {اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ} [95]قَالَ: أَنْ یُطَاعَ فَلَا یُعْصَى، وَأَنْ یُذْكَرَ فَلَا یُنْسَى، وَأَنْ یُشْكَرَ فَلَا یُكْفَرَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ بارے میں فرمایااللہ سے ڈرنے کاحق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اورنافرمانی نہ کی جائے، اسے یادرکھاجائے اوربھولانہ جائے، اوراس کاشکراداکیاجائے اورکفرنہ کیاجائے۔[96]

اورجب تمہیں موت آئے تواطاعت گزاراور فرمانبرداربندے کی صورت میں آئے ، جس کی جس طرح موت آئے گی اسی پرقیامت کے روزاٹھایاجائے گا، تم کوموت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو،یعنی تمہاری زندگی کاخاتمہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین سلام پرہی ہو،اللہ کےاطاعت گزاراور فرمانبرداربندے کی صورت میں آئےکیونکہ جس شخص کی جس حالت میں موت واقع ہوگی اسے اسی کے مطابق قبرسے اٹھایاجائے گا۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ النَّاسَ كَانُوا یَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، جَالِسٌ مَعَهُ مِحْجَنٌ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:{یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [97] ، وَلَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ، لَأَمَرَّتْ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ عَیْشَهُمْ، فَكَیْفَ مَنْ لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا الزَّقُّومُ

مجاہد رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ لوگ بیت اللہ کاطواف کررہے تھے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اورآپ پاس ایک چھڑی بھی تھی، آپ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ ’’اے ایمان والو!اللہ سے اتناڈروجتنااس سے ڈرناچاہئے اوردیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘ کی تلاوت کی اورفرمایااوراگر(جہنم کے) تھوہرکے درخت کاایک قطرہ گرادیا جائے تووہ تمام روئے زمین کے لوگوں کی زندگی تلخ کردے توان لوگوں کاکیاحال ہوگاجن کاکھاناہی تھوہرہوگا۔[98]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَیَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَنِیَّتُهُ وَهُوَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَیَأْتِی إِلَى النَّاسِ مَا یُحِبُّ أَنْ یُؤْتَى إِلَیْهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص جہنم سے الگ ہونااورجنت میں جاناچاہتاہواسے چاہئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن پرایمان رکھے ،اورلوگوں سے وہ برتاؤکرے جسے وہ خوداپنے لئے چاہتاہو۔[99]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَبْلَ وَفَاتِهِ بِثَلَاثٍ، یَقُولُ:لَا یَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ یُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ کے انتقال سے تین روزپہلے سناکہ تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ نیک گمان رکھتاہو۔[100]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ:أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی، إِنْ ظَنَّ بِی خَیْرًا فَلَهُ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کافرمان ہےمیرابندہ میرے ساتھ جیساگمان رکھے میں اس کے گمان کے پاس ہی ہوں ،اگراس کامیرے ساتھ حسن ظن ہے تومیں اس کے ساتھ اچھائی کروں گا،اوراگروہ میرے ساتھ بدگمانی کرے گاتومیں اس سے اسی طرح پیش آؤں گا۔[101]

فرمایاسب مل کراللہ کی رسی کویعنی دین کی اساسی تعلیمات کومضبوطی سےپکڑلو،اورتوجہات ،جزئیات اورفروعی مسائل میں الجھ کرتفرقہ میں نہ پڑو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ یَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا، وَیَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا، فَیَرْضَى لَكُمْ: أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وَیَكْرَهُ لَكُمْ: قِیلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تین باتوں سے خوش ہوتاہے اورتین باتوں سے ناخوش ہوتاہے،اس بات سے خوش ہوتاہے کہ تم اس کی عبادت کرواوراس ساتھ کسی کوشریک نہ کرو،اس کی رسی سب مل کرتھامے رہواورپھوٹ مت ڈالو، اور جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارا ولی مقرر کردے تو اس سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ،اوراللہ تعالیٰ تین باتوں سے ناخوش ہوتاہے،بے فائدہ گفتگوسے، اوربہت پوچھنے سے(یعنی اس مسائل کاپوچھناجن کی ضرورت نہ ہویاان باتوں کاجن کی حاجت نہ ہواورجن کاپوچھنادوسرے کوناگوارگزرے)،اورمال کے تباہ کرنے سے(یعنی بے فائدہ اٹھانے سے جونہ دنیامیں کام آئے نہ عقبیٰ میں ،جیسے پتنگ بازی،آتش بازی میں )۔[102]

اورقبیلہ اوس وخزرج جن میں سوبرس سے برابرلڑائی چلی آتی تھی کے بارے میں فرمایااللہ کے اس احسان کویادرکھوجواس نے تم پرکیاہے،تم ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے اس نے اپنی رحمت سے تمہارے دل جوڑدیئے، اوراس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۝۶۲ۙوَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۶۳ [103]

ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے، تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔

تم اپنے عقائدواعمال کے سبب عذاب جہنم کے مستحق ہوچکے تھے،اللہ نے تم کواسلام کی توفیق عطافرماکرجہنم کےہولناک گڑھےمیں گرنے سے بچالیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کامال غنیمت تقسیم فرمایا، اورکچھ لوگوں کواللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت کے مطابق کچھ زیادہ عطافرمادیا،تو توکچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔

فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللَّهُ بِی، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فَأَلَّفَكُمُ اللَّهُ بِی، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللَّهُ بِی كُلَّمَا قَالَ شَیْئًا قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ

اے گروہ انصار! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا؟ تو اللہ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت بخشی،اور تم میں نا اتفاقی تھی تو اللہ نے میری وجہ سے تم میں الفت پیدا کردی، کیا تم فقیر نہیں تھے؟ تو اللہ نے میری وجہ سے تمہیں مالدار بنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کچھ فرماتے تو انصار عرض کرتے کہ اللہ اور اس رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے۔[104]

اس طرح اللہ تمہارے لئے حق وباطل اورہدایت وگمراہی الگ الگ کرکے واضح کردیتاہے تاکہ تم حق کوپہچان کراوراس پرعمل پیراہوکرہدایت پاؤ۔

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٠٤﴾‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَیِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٠٥﴾‏ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِینَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِیمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَأَمَّا الَّذِینَ ابْیَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِی رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿١٠٧﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ۗ وَمَا اللَّهُ یُرِیدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿١٠٩﴾(آل عمران)
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ،تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے، جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ ،سیاہ چہروں والوں (سے کہا جائے گا) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو، اور سفید چہرے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے، اے نبی ! ہم ان حقانی آیتوں کی تلاوت آپ پر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں ،اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں ۔

یوم آخرت اہل بدعت اورمومن کی پہچان :اے مومنو!جن پراللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اوراپنی رسی کومضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کراحسان فرمایاہےویسے توہرمتنفس پرتبلیغ حق فرض ہے، تاہم تم میں سے ایک جماعت توخاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیے جواللہ کے بندوں کودین کی طرف رہنمائی کرے ،اوربھلائی کاحکم دے اوربرائیوں سے روکتی رہے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ یُغَیِّرَهُ بِیَدِهِ فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِهِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھےتم میں جوکوئی کسی برائی کودیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے دورکرسکتاہوتو ہاتھ سے دور کرے ،اگراس کی استطاعت نہ ہوتوزبان سے رو ،اگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتواپنے دل سے نفرت کرے،اوریہ سب سے کم درجہ کاایمان ہے۔[105]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِی أُمَّةٍ قَبْلِی إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِیُّونَ، وَأَصْحَابٌ یَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَیَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ، وَیَفْعَلُونَ مَا لَا یُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِیَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَیْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِیمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو رہے ہیں ، لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا قول فعل کے خلاف اور فعل حکم نبی کے خلاف ہوا ہے ، جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا،جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا،جس نے دل میں انہیں براجاناوہ بھی مومن تھا، اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ نہیں ۔[106]

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ الیَمَانِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَیُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلاَ یُسْتَجَابُ لَكُمْ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،تم اچھائی کاحکم اوربرائیوں سے مخالفت کرتے رہو،ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پراپناعذاب نازل فرمادے گا،پھرتم دعائیں کروگے لیکن قبول نہ ہوں گی۔[107]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا یُسْتَجَابَ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو قبل ازیں کہ تم دعائیں مانگو اور تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں (امربالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے کیوجہ سے)[108]

وَقَالَ عَمْرٌو: عَنْ هُشَیْمٍ، وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیهِمْ بِالْمَعَاصِی، ثُمَّ یَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ یُغَیِّرُوا، ثُمَّ لَا یُغَیِّرُوا، إِلَّا یُوشِكُ أَنْ یَعُمَّهُمُ اللَّهُ مِنْهُ بِعِقَاب

عمرو(بن عون)نے ہشیم سے روایت کرتے ہوئے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناجس قوم میں اللہ کی نافرمانی کے کام ہوں ، اوروہ انہیں روکنے پر قادر ہوں مگرمنع نہ کرتے ہوں ، توقریب ہوتاہے کہ اللہ اس سبب سے ان سب کواپنے عقاب کی لپیٹ میں لے لے۔[109]

عَنِ الْعُرْسِ ابْنِ عَمِیرَةَ الْكِنْدِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِیئَةُ فِی الْأَرْضِ، كَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا وَقَالَ مَرَّةً: أَنْكَرَهَا – كَانَ كَمَنْ غَابَ عَنْهَا، وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِیَهَا، كَانَ كَمَنْ شَهِدَهَا

عرس بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجب زمین میں کوئی خطااورنافرمانی کی جائے، تواس میں حاضراورموجودشخص نے اس کوبرا جانا ، اورایک بار فرمایا اوراس کاانکارکیا،تووہ ایسے ہوگاجیسے اس معصیت سے غائب اوردوررہا،لیکن جوغائب اوردورتھامگراس نافرمانی کواس نے پسندکیا،تووہ ایسے ہوگاجیسے کہ اس میں حاضر اور موجود تھا۔[110]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِیبًا، فَكَانَ فِیمَا قَالَ:أَلَا لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِیدٍ، وَقَالَ:قَدْ وَاللَّهِ رَأَیْنَا أَشْیَاءَ فَهِبْنَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے لیے کھڑے ہوئے توجوباتیں کہیں اس میں یہ بات بھی تھی آگاہ رہو!کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے جب وہ حق کو جانتا ہو،یہ حدیث بیان کرکے ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ رونے لگے، اورفرمایااللہ کی قسم!ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع)دیکھیں لیکن ہم ڈراورہیبت کاشکارہوگے۔[111]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَوْ أَمِیرٍ جَائِرٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاسب سے افضل جہادیہ ہے کہ انسان جابرحاکم یاظالم امیرکے سامنے حق وانصاف کاکلمہ کہہ گزرے ۔[112]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَحْقِرْ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ كَیْفَ یَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ: یَرَى أَمْرًا لِلَّهِ عَلَیْهِ فِیهِ مَقَالٌ، ثُمَّ لَا یَقُولُ فِیهِ ،فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَ فِی كَذَا وَكَذَا؟ فَیَقُولُ: خَشْیَةُ النَّاسِ، فَیَقُولُ: فَإِیَّایَ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَى

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتم میں سے کوئی خودکوحقیرنہ سمجھے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کوئی خودکوکیسے حقیربناسکتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی شخص خلاف شرع امردیکھے اورکچھ نہ کہے، توقیامت کے روزاللہ تعالیٰ اسے فرمائے گاکہ فلاں موقع پرحق بات کہنے سے تمہیں کون سی چیز مانع ہوئی، وہ عرض کرے گاکہ لوگوں کا خوف، تواللہ تعالیٰ فرمائے گامیں اس بات کازیادہ مستحق تھاکہ تو مجھ سے ڈرتا۔[113]

سَمِعَ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ لَیَسْأَلُ الْعَبْدَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، حَتَّى یَقُولَ: مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَیْتَ الْمُنْكَرَ أَنْ تُنْكِرَهُ؟ فَإِذَا لَقَّنَ اللَّهُ عَبْدًا حُجَّتَهُ، قَالَ: یَا رَبِّ رَجَوْتُكَ، وَفَرِقْتُ مِنَ النَّاسِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ قیامت دن اپنے بندے سے ضروربازپرس کرے گا،یہاں تک کہ وہ فرمائے گا جب تونے برائی (خلاف شرع بات) دیکھی تواس پراظہارنفرت سے کونسی چیزمانع تھی،اگراللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کوحجت سکھادی تووہ عرض کرے گااے میرے رب!میں نے تجھ سے امیدوابستہ کی اور لوگوں سے ڈرگیا۔[114]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى نَتْرُكُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ:إِذَا ظَهَرَ فِیكُمْ مَا ظَهَرَ فِی الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا ظَهَرَ فِی الْأُمَمِ قَبْلَنَا؟ قَالَ:الْمُلْكُ فِی صِغَارِكُمْ، وَالْفَاحِشَةُ فِی كِبَارِكُمْ، وَالْعِلْمُ فِی رُذَالَتِكُمْ قَالَ زَیْدٌ: تَفْسِیرُ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالْعِلْمُ فِی رُذَالَتِكُمْ، إِذَا كَانَ الْعِلْمُ فِی الْفُسَّاقِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ کوکب ترک کیاجائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں بھی وہی ظاہرہوجائے جوتم سے پہلی امتوں میں ظاہرہواتھا،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے پہلی امتوں میں کیا ظاہر ہوا تھا؟فرمایا گھٹیا لوگوں کے پاس اقتدارآجائے ،بڑے لوگوں میں بدکاری عام ہوجائے، اوررزیل لوگوں کے پاس علم آجائے،زیدفرماتے ہیں رذیلوں میں علم کے آنے کامقصدیہ ہے کہ وپ فاسقوں کے پاس چلاآئے۔[115]

عَدِیَّ بْنَ عَدِیٍّ الْكِنْدِیَّ، یُحَدِّثُ عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی مَوْلًى لَنَا، أَنَّهُ سَمِعَ جَدِّی، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ، حَتَّى یَرَوْا الْمُنْكَرَ بَیْنَ ظَهْرَانَیْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ یُنْكِرُوهُ فَلَا یُنْكِرُوهُ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ، عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ

عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ خاص لوگوں  گناہوں کی وجہ سے عوام الناس کواس وقت مبتلائے عذاب کرتاہے جب وہ اپنے سامنے برائیاں ہوتے دیکھیں لیکن قدرت کے باوجودنفرت کااظہارنہ کریں ،اس وقت اللہ تعالیٰ سب عام وخاص کوعذاب میں گرفتارکردیتاہے۔[116]

جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے،کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاناجودنیاوی مفادات اورنفسانی اغراض کے باعث فرقوں میں بٹ گئے اورکھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھرغیرمتعلق ، ضمنی وفروعی مسائل کی بنیادپرالگ الگ فرقے بنانے لگ گئے۔

عَنْ أَبِی عَامِرٍ الْهَوْزَنِیِّ، عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ، أَنَّهُ قَامَ فِینَا فَقَالَ: أَلَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِینَا فَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ: ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِی الْجَنَّةِ، وَهِیَ الْجَمَاعَةُ زَادَ ابْنُ یَحْیَى، وَعَمْرٌو فِی حَدِیثَیْهِمَا وَإِنَّهُ سَیَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ، كَمَا یَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ وَقَالَ عَمْرٌو:الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا یَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهُ

ابوعامرہوزنی سے مروی ہے معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ ہم میں خطبہ دینے لئے کھڑے ہوئے اورکہا،تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اورفرمایا خبردار!تم سے پہلے اہل کتاب بہتر(۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے،اوریہ ملت تہترفرقوں میں تقسیم ہوگی ،بہترآگ میں جائیں گے اورایک فرقہ جنت میں جائے گااوریہی الجماعة ہوگا،ابن یحییٰ اورعمرونے اپنی روایتوں میں مزیدکہابلاشبہ میری امت میں سے کچھ قومیں نکلیں گی ان میں من پسندنظریات اوراعمال کودین میں داخل کرناایسے سرایت کرجائیں گے جیسے کہ باولے پن کی بیماری اپنے بیمارمیں سرایت کرجاتی ہے ،عمرونے کہاباولےپن کے بیمارکی کوئی رگ اورکوئی جوڑباقی نہیں رہتاجس میں اس بیماری کااثرنہ ہو۔[117]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَى أُمَّتِی مَا أَتَى عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ مِثْلًا بِمِثْلٍ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى لَوْ كَانَ فِیهِمْ مَنْ نَكَحَ أُمَّهُ عَلَانِیَةً كَانَ فِی أُمَّتِی مِثْلَهُ، إِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ افْتَرَقُوا عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً كُلُّهَا فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً فَقِیلَ لَهُ: مَا الْوَاحِدَةُ؟ قَالَ:مَا أَنَا عَلَیْهِ الْیَوْمَ وَأَصْحَابِی

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت پرایک زمانہ آئے گاجیسابنی اسرائیل پرآیاتھااوردونوں کے زمانے مطابق ہوں گے جیسے ایک نعل دوسرے نعل کے مطابق ہوتی ہے،حتی کہ اگران میں کوئی شخص ایساہوگاجواپنی ماں سے زناکرےتومیری امت میں سے بھی ایساشخص ہوگاجواس امرشنیع کامرتکب ہوگا،اوربنی اسرائیل متفرق ہوئے بہترفرقوں پراورمیری امت متفرق ہوگی تہترفرقوں پر،سب فرقے دوزخی ہیں ، مگرایک فرقہ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس پرمیں ہوں اورمیرے صحابی یعنی کتاب وسنت پر ۔[118]

جنہوں نے یہ روش اختیارکی وہ قیامت کے روزسخت سزاپائیں گے ،قیامت کے روز کچھ خوش نصیبوں اورنیکی کرنے والوں کے چہرے سفیدنورانی ہوں گے ،اوربدنصیبوں اوربدکاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے، جو اختلاف و افتراق پیداکرنے والے تھے،ذلت ورسوائی کی وجہ سے ان کے دلوں کی جوکیفیت ہوگی ،اس کے نتیجے میں ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے،اورنیک لوگوں کونعمتیں اورخوشیاں نصیب ہوں گی،ان کے اثرات ان کے چہروں پرظاہرہوں گے،اوران کے چہرے سفیداورروشن ہوں گے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ} قَالَ: تَبْیَضُّ وُجُوهُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، تَسْوَدُّ أَهْلُ الْبِدَعِ وَالضَّلَالَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ قول یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں گے اورکچھ لوگوں کا منہ کالاہوگاکے بارے میں فرماتے ہیں قیامت کے دن اہل سنت والجماعت کے چہرے سفیدہوں گے اوراہل بدعت وفرقت کے چہرے سیاہ ہوں گے۔[119]

جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

فَوَقٰىهُمُ اللهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا۝۱۱ۚ [120]

ترجمہ:پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔

دوسرے مقام پرفرمایا

وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـیِّئَةٍؚبِمِثْلِهَا۝۰ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ۝۰ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ۝۰ۚ كَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷ [121]

ترجمہ:اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی بُرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے ، ذلت ان پر مسلط ہوگی کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہوگا ، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں ، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

عَنْ أَبِی غَالِبٍ، قَالَ: رَأَى أَبُو أُمَامَةَ رُءُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَى دَرَجِ دِمَشْقَ، فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: كِلاَبُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَاءِ، خَیْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوهُ، ثُمَّ قَرَأَ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ} إِلَى آخِرِ الآیَةِ، قُلْتُ لأَبِی أُمَامَةَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلاَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّى عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُكُمُوهُ.

ابی غالب سے مروی ہےابوامامہ رضی اللہ عنہ نے جب خارجیوں  سردمشق کی مسجدکے زینوں پرلٹکے ہوئے دیکھے توفرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ،ان سے بدترمقتول روئے زمین پرکوئی نہیں ،انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہدہیں ،پھرآیت یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ تلاوت فرمائی ،ابوغالب نے کہاکیاآپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سناہے؟فرمایاایک دودفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ ، اگرایسانہ ہوتاتومیں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتاہی نہیں ۔[122]

عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْخَوَارِجُ كِلَابُ النَّارِ

ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخوارج جہنم کے کتے ہیں ۔[123]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَخْرُجُ قَوْمٌ فِی آخِرِ الزَّمَانِ، أَوْ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ، یَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهُمْ، أَوْ حُلُوقَهُمْ، سِیمَاهُمُ التَّحْلِیقُ، إِذَا رَأَیْتُمُوهُمْ، أَوْ إِذَا لَقِیتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر زمانہ میں یا یوں فرمایا کہ اس امت میں ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے، یہ قرآن ان کے نرخرے یا یوں فرمایا کہ حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، ان کی علامت سر کے بال منڈانا ہوگی ،جب تم ان کو دیکھو یا یوں فرمایا کہ جب تم ان سے ملو (جنگ میں ) تو ان کو قتل کر ڈالو۔[124]

جن کامنہ کالاہوگاانہیں ڈانٹ ڈپٹ اورزجروتوبیخ کے اندازمیں کہاجائے گاکہ تم نے نعمت ایمان پانے کے بعدبھی کافرانہ رویہ اختیارکیا؟ہدایت اورایمان کے بجائے کفروضلالت کوکیوں ترجیح دی ؟تم نے ہدایت والاراستہ چھوڑکرگمراہی کاراستہ کیوں اختیار کیا ؟۔

عَنِ الْحَسَنِ قَوْلُهُ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ} قَالَ: هُمُ الْمُنَافِقُونَ

حسن بصری رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’جس دن بعض چہرے سفیدہوں گے اوربعض سیاہ۔‘‘ بارے میں فرماتے ہیں کہتے ہیں ان سے مراد منافق ہیں [125]

اچھاتواب اس کفران نعمت کے صلہ میں جہنم کے دردناک عذاب کامزہ چکھو،اور وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے توانہیں لازوال انواع واقسام کی نعمتوں سے بھری جنت میں داخلے،رب کی خوشنودی اوراس کی رحمت کی خوش خبری دی جائے گی ،اوروہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے،یہ اللہ کے ارشادات،اس کے روشن اورواضح دلائل وبراہین ہیں جواے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنارہے ہیں ، کیونکہ اللہ دنیاوالوں پرظلم کرنے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتا،جیسے متعددمقامات پر فرمایا

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۱۸۲ۚ [126]

ترجمہ:یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہےاللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔

 ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۵۱ۙ [127]

ترجمہ: یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۱۰ۧ [128]

ترجمہ:یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہےورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [129]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا، اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔

مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۲۹ۧ [130]

ترجمہ:میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں ۔

زمین وآسمان کی ساری چیزوں کامالک اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اورکائنات کےسارے معاملات اللہ ہی کے حضورپیش ہوتے ہیں ، اورقیامت کے دن وہ اسی کے مطابق جزادے گا۔

كُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿١١٠﴾‏ لَن یَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن یُقَاتِلُوكُمْ یُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنصَرُونَ ‎﴿١١١﴾‏ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا یَكْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا یَعْتَدُونَ ‎﴿١١٢﴾(آل عمران)
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں ،یہ تمہیں ستانے کے سوا اور زیادہ کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے، اگر لڑائی کا موقع آجائے تو پیٹھ موڑ لیں گے پھر مدد نہ کئے جائیں گے، ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں ، یہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر فقیری ڈال دی گئی یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے تھے اور بےوجہ انبیاء کو قتل کرتے تھے، یہ بدلہ ہے ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا ۔

مسلمانوں پرخلافت کی ذمہ داری :اے امت محمدیہ !دنیاکی امامت ورہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نااہلی کے باعث معزول کیے جاچکے ہیں اب تم اس منصب پرمامورکیے گئے ہو،اخلاق واعمال کے لحاظ سےاب دنیامیں تم بہترین امت ہوجسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایاگیاہے۔ ایک مقام پرفرمایا۔

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۔۔۔۝۰۝۱۴۳ [131]

ترجمہ:اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، كُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، قَالَ:خَیْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ تَأْتُونَ بِهِمْ فِی السَّلاَسِلِ فِی أَعْنَاقِهِمْ، حَتَّى یَدْخُلُوا فِی الإِسْلاَمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’اب دنیامیں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانوں کی ہدایت واصلاح لیے میدان میں لایاگیاہے۔‘‘فرمایاتم لوگوں میں سے لوگوں کے لیے سب سے بہترہوکہ تم ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کرلاؤگے حتی کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔[132]

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کوبہت سی فضیلتیں بخشی ہیں ،ان میں سے چندروایات پیش ہیں ۔

عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِیمٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {كُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} قَالَ: أَنْتُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِینَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَیْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللهِ

بہزبن حکیم رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کریمہ ’’اب دنیامیں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانوں کی ہدایت واصلاح لیے میدان میں لایاگیاہے۔‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہوئے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا تم لوگ ستر امتوں کو پورا کرنے والے ہو(یعنی سترہویں امت تم ہو)اورتم ان سب میں اللہ تعالیٰ کے آگے بہتراورزیادہ عزت رکھتےہو۔[133]

عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «أُعْطِیتُ مَا لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِفَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هُوَ قَالَ؟:نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْأَرْضِ، وَسُمِّیتُ أَحْمَدَ، وَجُعِلَ التُّرَابُ لِی طَهُورًا، وَجُعِلَتْ أُمَّتِی خَیْرَ الْأُمَمِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں وہ وہ نعمتیں دیاگیاہوں جومجھ سے پہلے کسی انبیاء کونہیں دی گئیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیانعمتیں ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مددرعب سے کی گئی ہے،اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں ،میرانام احمدرکھاگیاہے،میرے لئے مٹی پاک کی گئی ہے،میری امت سب امتوں سے بہتربنائی گئی ہے۔[134]

قَالَ: شُرَیْحُ بْنُ عُبَیْدٍ: مَرِضَ ثَوْبَانُ بِحِمْصَ وَعَلَیْهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُرْطٍ الْأَزْدِیُّ، فَلَمْ یَعُدْهُ فَدَخَلَ عَلَى ثَوْبَانَ رَجُلٌ مِنَ الْكَلَاعِیِّینَ عَائِدًا. فَقَالَ لَهُ ثَوْبَانُ: أَتَكْتُبُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ: اكْتُبْ. فَكَتَبَ لِلْأَمِیرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ مِنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ لِمُوسَى وعِیسَى مَوْلًى بِحَضْرَتِكَ لَعُدْتَهُ، ثُمَّ طَوَى الْكِتَابَ وَقَالَ لَهُ: أَتُبَلِّغُهُ إِیَّاهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ بِكِتَابِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى ابْنِ قُرْطٍ، فَلَمَّا قَرَأَهُ قَامَ فَزِعًا فَقَالَ النَّاسُ: مَا شَأْنُهُ أَحَدَثَ أَمْرٌ، فَأَتَى ثَوْبَانَ حَتَّى دَخَلَ عَلَیْهِ، فَعَادَهُ وَجَلَسَ عِنْدَهُ سَاعَةً، ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ ثَوْبَانُ بِرِدَائِهِ وَقَالَ: اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ:لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْهِمْ، وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا

شریح بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک مرتبہ شہرحمص میں ثوبان رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، اس زمانے میں حمص گورنر عبداللہ بن قرط ازدی رضی اللہ عنہ تھے، وہ ثوبان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے نہیں آئے، اسی دوران کلاعیین کا ایک آدمی ثوبان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا کیا تم لکھناجانتے ہو؟اس نے کہا جی ہاں !ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا لکھو، چنانچہ اس نے گورنرحمص عبداللہ بن قرط ازدی رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کی طرف سے امابعد!

اگر تمہارے علاقے میں موسیٰ علیہ السلام یا عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی غلام ہوتا تو تم اس کی عیادت کو ضرورجاتے۔

پھر خط لپیٹ کر فرمایا کیا تم یہ خط انہیں پہنچادوگے ؟ اس نے حامی بھرلی اور وہ خط لے جا کر عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کردیا،وہ خط پڑھتے ہی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے، لوگ جسے دیکھ کر حیرانگی سے کہنے لگے کہ انہیں کیا ہوا ،کیاکوئی عجیب واقعہ پیش آیاہے؟ وہ وہاں سے سیدھے ثوبان رضی اللہ عنہ ہاں پہنچے گھر میں داخل ہوئے ان کی عیادت کی اور تھوڑی دیربیٹھ کر اٹھ کھڑے ہوئے، ثوبان رضی اللہ عنہ نے ان کی چادرپکڑ کر فرمایا بیٹھ جائیے تاکہ میں آپ کو ایک حدیث سنادوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ میری امت کے سترہزارایسے آدمی جنت میں ضرورداخل ہوں گے جن کا کوئی حساب ہوگا اور نہ عذاب اور ہرہزار کے ساتھ سترہزارافرادمزید ہوں گے۔[135]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَكْثَرْنَا الْحَدِیثَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ لَیْلَةٍ، ثُمَّ غَدَوْنَا إِلَیْهِ، فَقَالَ:عُرِضَتْ عَلَیَّ الْأَنْبِیَاءُ اللَّیْلَةَ بِأُمَمِهَا، فَجَعَلَ النَّبِیُّ یَمُرُّ، وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِیُّ لَیْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى مَرَّ عَلَیَّ مُوسَى، مَعَهُ كَبْكَبَةٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَأَعْجَبُونِی، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ فَقِیلَ لِی: هَذَا أَخُوكَ مُوسَى، مَعَهُ بَنُو إِسْرَائِیلَ . قَالَ:قُلْتُ: فَأَیْنَ أُمَّتِی؟ فَقِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَمِینِكَ. فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الظِّرَابُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَسَارِكَ. فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، فَقِیلَ لِی: أَرَضِیتَ؟ فَقُلْتُ: رَضِیتُ یَا رَبِّ، رَضِیتُ یَا رَبِّ . قَالَ: فَقِیلَ لِی: إِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِینَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فِدًا لَكُمْ أَبِی وَأُمِّی، إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِنَ السَّبْعِینَ الْأَلْفِ، فَافْعَلُوا، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الظِّرَابِ، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الْأُفُقِ، فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ ثَمَّ نَاسًا یَتَهَاوَشُونَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک مرتبہ رات وقت ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے،پھرصبح جب حاضرخدمت ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاسنو!آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے، بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے ،بعض کے ساتھ مختصرساگروہ،بعض کے ساتھ ایک جماعت ،کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا،حتی کہ میرے پاس سے موسی علیہ السلام کا گذر ہوا جن کے ساتھ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد تھی، جسے دیکھ کرمجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کے بھائی موسی ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے لوگ ہیں ،میں نے پوچھا کہ پھر میری امت کہاں ہے؟ مجھ سے کہا گیا کہ اپنی دائیں جانب دیکھئے، تو ایک ٹیلہ لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا،پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی بائیں جانب دیکھئے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو افق لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا،اب مجھ سے پوچھاگیاکیاخوش ہو؟میں نے کہامیرے رب! میں راضی ہو گیا ،یارب !میں راضی ہوگیا،پھر مجھ سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ستر ہزار ایسے بھی ہوں گے جو بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےفرمایاتم پرمیرے ماں باپ فداہوں اگرہوسکے توان ستر ہزار میں سے ہی ہونا، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو ٹیلے والوں میں شامل ہو جاؤ،اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو افق والوں میں شامل ہو جاؤ کیونکہ میں نے وہاں بہت سے لوگوں کو ملتے ہوئے دیکھا ہے،

فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِی، یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ یَجْعَلَنِی مِنَ السَّبْعِینَ، فَدَعَا لَهُ، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ، یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْهُمْ، فَقَالَ:قَدْ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ. قَالَ: ثُمَّ تَحَدَّثْنَا، فَقُلْنَا: مَنْ تَرَوْنَ هَؤُلَاءِ السَّبْعُونَ الْأَلْفُ؟ قَوْمٌ وُلِدُوا فِی الْإِسْلَامِ، لَمْ یُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَیْئًا حَتَّى مَاتُوا؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:هُمُ الَّذِینَ لَا یَكْتَوُونَ، وَلَا یَسْتَرْقُونَ، وَلَا یَتَطَیَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ

عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے لئے دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان سترہزارمیں سے کرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی، توایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی اٹھ کرگزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم دعافرمائیں میں بھی ان میں سے ہوں ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعکاشہ رضی اللہ عنہ تم پرسبقت کرگئے،ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شایدیہ سترہزاروہ لوگ ہوں گے جواسلام پرہی پیداہوئے ہوں ، اورپوری عمرمیں کبھی اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک کیاہی نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب یہ معلوم ہواتوفرمایایہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑانہیں کراتے،آگ کے داغ نہیں لگواتے،شگون نہیں لیتے ،اوراپنے رب پرپورابھروسہ رکھتے ہیں ۔[136]

ایک اورروایت میں اتنی زیادتی ہے

قُلْتُ: رَضِیتُ رَبِّ، قَالَ: أَرَضِیتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرْ عَنْ یَسَارِكَ ، قَالَ:فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، فَقَالَ: رَضِیتَ؟ قُلْتُ: رَضِیتُ،

جب میں نے کہا اے رب میں راضی ہوگیا،تومجھ سے کہاگیاکیاآپ راضی ہوگئے؟میں نے عرض کیاہاں میں راضی ہوگیا،تومجھ سے کہاگیااب اپنی بائیں جانب دیکھیں ، میں نے دیکھاتوبے شمارمجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کوبھی ڈھک لیاہے،کہاگیاکیاآپ راضی ہوگئے،میں نے عرض کیامیں راضی ہوگیا۔[137]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیَدْخُلَنَّ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا، أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ – شَكَّ فِی أَحَدِهِمَا – مُتَمَاسِكِینَ، آخِذٌ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، حَتَّى یَدْخُلَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمُ الجَنَّةَ، وَوُجُوهُهُمْ عَلَى ضَوْءِ القَمَرِ لَیْلَةَ البَدْرِ

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں میری امت کے سترہزاریاسات لاکھ (راوی کوان میں سے کسی ایک تعدادمیں شک تھا)آدمی اس طرح داخل ہوں گے کہ بعض بعض کوپکڑے ہوئے ہوں گے، اوراس طرح ان میں اگلے پچھلے سب جنت میں داخل ہوجائیں گے،اوران کے چہرے چودھویں رات کے چاندکی طرح روشن ہوں گے۔[138]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ وَعَدَنِی أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِی أَرْبَعَمِائَةِ أَلْفٍ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: زِدْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:وَهَكَذَاوَجَمَعَ كَفَّهُ، قَالَ: زِدْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:وَهَكَذَا، فَقَالَ عُمَرُ حَسْبُكَ یَا أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: دَعْنِی یَا عُمَرُ، وَمَا عَلَیْكَ أَنْ یُدْخِلَنَا اللَّهُ الْجَنَّةَ كُلَّنَا فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ إِنْ شَاءَ أَدْخَلَ خَلْقَهُ الْجَنَّةَ بِكَفٍّ وَاحِدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صَدَقَ عُمَرُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کاوعدہ ہے کہ میری امت میں سے چارلاکھ آدمی جنت میں جائیں گے، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کچھ اورزیادہ کیجئے ،اسے سن کرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بس کرو،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکیوں جناب اگرہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے توآپ کوکیانقصان ہے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایااگراللہ چاہے توایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کوجنت میں ڈال دے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں ۔ [139]

عَنْ أَبِی مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَیُبْعَثَنَّ مِنْكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ مِثْلُ اللَّیْلِ الْأَسْوَدِ زُمْرَةٌ جَمِیعُهَا یُحِیطُونَ الْأَرْضَ، تَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: لَمَا جَاءَ مَعَ مُحَمَّدٍ أَكْثَرُ مِمَّا جَاءَ مَعَ الْأَنْبِیَاءِ

ابومالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہےتم ایک اندھیری رات کی طرح بے شمارایک ساتھ جنت کی طرف بڑھوگے، زمین تم سے پرہوجائے گی، تمام فرشتے پکاراٹھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جوجماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے۔[140]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:أَرْجُو أَنْ یَكُونَ مَنْ یَتَّبِعُنِی مِنْ أُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ:أَرْجُو أَنْ یَكُونُوا ثُلُثَ النَّاسِ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ:أَرْجُو أَنْ یَكُونُوا الشَّطْرَ

جابر رضی اللہ عنہ مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے فرمایاصرف میری تابعدارامت اہل جنت کی چوتھائی ہوگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خوش ہوکرنعرہ تکبیربلندکیا، پھرفرمایاکہ مجھے توامیدہے کہ تم اہل جنت کاتیسراحصہ ہوجاؤ،ہم نے پھرتکبیرکہی،پھرفرمایامیں امیدکرتاہوں کہ تم آدھوں آدھ ہوجاؤ۔[141]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ فِی قُبَّةٍ، فَقَالَ:أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الجَنَّةِقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّ الجَنَّةَ لاَ یَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِی أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ البَیْضَاءِ فِی جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِی جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ایک خیمہ میں تھے، جس میں تقریباًچالیس آدمی تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اس پر راضی ہوکہ اہل جنت کاایک چوتھائی رہو؟ہم نے کہاکہ جی ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اس پرراضی ہوکہ اہل جنت کاتم ایک تہائی رہو؟ہم نے کہاجی ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اس پرراضی ہوکہ اہل جنت کاتم نصف رہو؟ہم نے کہاجی ہاں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے مجھے امیدہے کہ تم لوگ(امت مسلمہ)اہل جنت کاآدھاحصہ ہوگے،اورایسااس لئے ہوگاکہ جنت میں فرمانبردارنفس کے علاوہ اورکوئی داخل نہ ہوگا،اورتم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں )اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پرسفیدبال ہوتے ہیں ، یاجیسے سرخ رنگ کے جسم پرایک سیاہ بال ہو۔[142]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَهْلُ الْجَنَّةِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ صَفٍّ، هَذِهِ الْأُمَّةُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَانُونَ صَفًّا

سلیمان بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت کے لوگوں کی ایک سوبیس صفیں ہیں ،اسی صفیں اس امت کی اورچالیس دوسری امتوں کی ہیں ۔[143]

مَوْلَى رَبِیعَةَ بْنِ الحَارِثِ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ القِیَامَةِ، بَیْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هَذَا یَوْمُهُمُ الَّذِی فُرِضَ عَلَیْهِمْ، فَاخْتَلَفُوا فِیهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِیهِ تَبَعٌ الیَهُودُ غَدًا، وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ

ربیعہ بن حارث سے روایت ہے میں نےابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم دنیامیں تمام امتوں کے بعدہونے کے باوجودقیامت میں سب سے آگے رہیں گے،فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی،یہی (جمعہ)ان کابھی دن تھاجوتم پرفرض ہواہے،لیکن ان کااس کے بارے میں اختلاف ہوااوراللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتادیا،اس لئے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے ،یہوددوسرے دن ہوں گے، اورنصاریٰ تیسرے دن۔ [144]

امت مسلمہ کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں کہ تم لوگوں کو نیکی کاحکم دیتے ہو،برائی سے روکتے ہواور اللہ وحدہ لاشریک پر اعقاداًوعملاًغیرمتزلزل ایمان رکھتے ہو۔

قَالَ قَتَادَةُ: بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی حَجَّةٍ حَجَّهَا رَأَى مِنَ النَّاسِ سُرْعة فَقَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ:كُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ سَرَّه أَنْ یَكُونَ مِنْ تِلْكَ الْأُمَّةِ فَلْیؤدّ شَرْط اللهِ فِیهَا

امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے ایک حج موقع پرلوگوں کوجلدبازی کودیکھاتوانہوں نے اس آیت کریمہ كُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کی تلاوت کی، اورفرمایاکہ جس شخص کویہ بات پسندہوکہ وہ اس بہترین امت میں سے بن جائے تواسے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی عائدکردہ شرط کوبھی پوراکرناچاہیے۔[145]

لہذااپنی ان ذمہ داریوں کوسمجھواوران غلطیوں سے بچوجوبنی اسرائیل کرچکے ہیں ، جو امربالمعروف ونہی المنکرکافریضہ ادانہیں کرے گاوہ اہل کتاب کے مشابہ قرارپائے گا،اوراہل کتاب کی صفت یہ ہے۔

كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ۔۔۔۝۰۝۷۹ [146]

ترجمہ: انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ۔

اگر یہودونصاریٰ دعوت اسلام پر ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہترتھا،اگرچہ ان میں قلیل التعداد لوگ ایمان داربھی پائے جاتے ہیں ، مگران کی اکثریت ضلالت وکفراورفسق ومعصیت کواختیارکیے ہوئے ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کواہل کتاب کے مقابلے میں فتح ونصرت کی بشارت فرمائی،فرمایاان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں یہ تمہاراکچھ بگاڑنہیں سکتے،زیادہ سے زیادہ یہ جھوٹاپروپیگنڈااوربہتان تراشی کرکے تمہیں وقتی طورپرخفیف سی تکلیف پہنچا سکتے ہیں ،اگریہ تمہارے مقابلہ میں میدان میں اتریں گے توجم کرمقابلہ نہیں کرسکیں گے بلکہ بزدلوں کی طرح پیٹھ دکھاکربھاگ کھڑے ہوں گے،پھرایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے ان کومددنہ ملے گی،یہ جہاں بھی پائے گئے ان پرذلت کی مار ہی پڑی، اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن وامان اورعزت نہیں ، یعنی یاتو ذمی بن کرمسلم حکومتوں کی اطاعت قبول کرلیں گےیانصاریٰ کے ماتحت ہوں گے۔

وَهَكَذَا وَقَعَ، فَإِنَّهُمْ یَوْمَ خَیْبَر أَذَلَّهُمُ اللَّهُ وأرْغَم آنَافَهُمْ وَكَذَلِكَ مَنْ قَبْلَهُمْ مِنْ یَهُودِ الْمَدِینَةِ بَنِی قَیْنُقَاع وَبَنِی النَّضِیر وَبَنِی قُرَیْظَةكُلُّهُمْ أَذَلَّهُمُ اللَّهُ، وَكَذَلِكَ النَّصَارَى بِالشَّامِ كَسَرهم الصَّحَابَةُ فِی غَیْرِ مَا مَوْطِنٍ، وسَلَبوهم مُلْك الشَّامِ أَبَدَ الْآبِدِینَ وَدَهْرَ الدَّاهِرِینَ، وَلَا تَزَالُ عِصَابة الإسلام قائمة بالشام حتى ینزل عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ [عَلَیْهِ السَّلَامُ] وَهُمْ كَذَلِكَ، وَیَحْكُمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ فیَكْسر الصَّلِیب، وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ، ویَضَع الجزْیة، وَلَا یَقْبَلُ إِلَّا الْإِسْلَامَ.

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں چنانچہ ایساہی ہوااللہ تعالیٰ نے خیبر دن انہیں ذلیل ورسواکرکے ان کی ناک کوخاک آلودکردیا،اوراسی طرح اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے تمام یہودیوں بنوقینقاع،بنونضیراوربنوقریظہ کوبھی ذلیل ورسواکردیاتھا،اسی طرح شام کے عیسائیوں کی شان وشوکت کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاک میں ملادیاتھاانہیں ملک شام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کردیاتھا،اسلام کی ایک جماعت ہمیشہ شام میں رہے گی،حتی کہ عیسیٰ ابن مریم iنازل ہوں گے،اوروہ اسی طرح اسلام پرہوں گے اوران میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کوتوڑدیں گے، خنزیرکوقتل کردیں گے،اورجزیہ کوختم کردیں گے،اورصرف اورصرف اسلام ہی کوقبول فرمائیں گے۔[147]

یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئےان پرذلت ومسکنت،محتاجی ومغلوبی مسلط کردی گئی ہے اوریہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہواہے کہ وہ تکبر،بغاوت وسرکشی اورحسدکی وجہ سے اللہ کی آیات سے کفرکرتے رہے ،اورانہوں نے بےشمار پیغمبروں کوناحق قتل کیا،یہ ان کی نافرمانیوں اورزیادیتوں کاانجام ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ فِی الْیَوْمِ تَقْتُلُ ثَلَاثَمِائَةِ نَبِیٍّ، ثُمَّ یُقِیمُونَ سُوقَ بَقْلِهِمْ فِی آخِرِ النَّهَارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےبنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سونبیوں کوقتل کرڈالتے تھے اوردن کے آخری حصہ میں بازاروں میں اپنے اپنے کاموں پر لگ جاتے تھے[148]

لَیْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُونَ ‎﴿١١٣﴾‏ یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَیُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١١٤﴾‏ وَمَا یَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَلَن یُكْفَرُوهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ ‎﴿١١٥﴾‏(آّل عمران)
یہ سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت (حق پر) قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں ،یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں ، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں ، یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں ، یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هَذِهِ الْآیَاتِ نَزَلَتْ فِیمَنْ آمَنَ مِنْ أَحْبَارِ أَهْلِ الْكِتَابِ، كَعَبْدِ اللهِ بْنِ سَلام وأسَد بْنِ عُبَیْد وَثَعْلَبَةَ بْنِ سَعْیة وأسَید بْنِ سعْیة وَغَیْرِهِمْ

محمدبن اسحاق وغیرہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ یہ آیات یہود ان علماء کے بارے میں نازل ہوئی ہے جوایمان لے آئے تھے مثلاً عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ، اسدبن عبید رضی اللہ عنہ ،ثعلبہ بن سعیہ رضی اللہ عنہ اوراسدبن سعیہ رضی اللہ عنہ وغیرہ۔[149]

مگرسارے یہودونصاریٰ ایک جیسے نہیں ہیں ،ان میں قلیل التعدادلوگ ایسے بھی ہیں جوراہ راست پرقائم ہیں ،نمازوں میں کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں ،اوراس کے آگے سجدہ ریزہوتے ہیں ،یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ نمازتہجدپڑھتے ہیں ،اللہ وحدہ لاشریک اورروزآخرت،اعمال کی جزاوسزا،جنت وجہنم پرایمان رکھتے ہیں ،لوگوں کونیکی کاحکم دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں ، اوربھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ،یہی نیک بخت لوگ ہیں ، اورجونیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہ کی جائے گی بلکہ انہیں پوراپوراصلہ دیاجائے گا۔جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۲۷ [150]

ترجمہ:اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔

اللہ پرہیزگار لوگوں کوخوب جانتاہے۔

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا لَن تُغْنِیَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَیْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿١١٦﴾‏ مَثَلُ مَا یُنفِقُونَ فِی هَٰذِهِ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیحٍ فِیهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿١١٧﴾‏(آل عمران)
کافروں کو ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی ،یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے،یہ کفار جو خرچ اخراجات کریں اس کی مثال یہ ہے ایک تند ہوا چلی جس میں پالا تھا جو ظالموں کی کھیتی پر پڑا اور اسے تہس نہس کردیا ،اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

پھراللہ تعالیٰ نے کافروں اورمشرکوں کے بارے میں فرمایااور وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کوقبول کرنے کے بجائے سرکشی وبغاوت کارویہ اختیارکیا ہے تواللہ کے مقابلہ میں ان کونہ ان کامال کچھ کام دے گانہ اولاد،بلکہ یہ جہنم کی طرف سفرمیں ان کازادراہ ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ [151]

ترجمہ:یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے عمل کی دُہری جزا ہے ، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔

وہ توآگ میں جانے والے لوگ ہیں اوردائمی طورپر آگ ہی میں رہیں گے،یہ کفاراپنے مال خرچ کرکے اللہ کے نورکوبجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،اورلوگوں کوراہ راست پر چلنے سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ، لیکن اپنی تمام ترکوششوں کے باوجودیہ ناکام ونامرادہی رہیں گے،جیسے کوئی شخص فصل بوئے اوراسے اس کی پیداوارکی امیدہو، کہ اچانک ایک سخت ٹھنڈی ہواچلے جس سے تمام کھیت جل کرخاکسترہوجائے،یاآگ کابگولاآئے اوراسے جلادے،اوراس کے حصہ میں سوائے محنت،مشقت اورحسرت وافسوس کے کچھ نہ آئے،کفارکابھی یہی حال ہے،ان کے ہاتھ میں بھی حسرت وپشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا،جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۭ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْــرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ۝۰ۥۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَــرُوْنَ۝۳۶ۙ [152]

ترجمہ: جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے، مگر آخرکار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گےپھر یہ کافر جہنّم کی طرف گھیر لائے جائیں گے۔

اللہ رحیم اورودودہے۔جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ۝۹۰ [153]

ترجمہ:بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔

وہ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [154]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا ، جو بدی کرے گا اس کا وبال اُسی پر ہوگااور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۵۱ۙ [155]

ترجمہ: یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۱۰ۧ [156]

ترجمہ:یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۲۹ۧ [157]

ترجمہ:میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں ۔

اور اللہ نے ان پرظلم نہیں کیاکہ ان کے اعمال ضائع کر دےبلکہ یہ خوددعوت حق کی تکذیب کرکے،اللہ کے رسولوں کوجھٹلاکراوراللہ کے نورکوبجھانے کی کوشش کرکےاپنے اوپرظلم کررہے ہیں ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا یَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِی صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْآیَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿١١٨﴾‏ هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا یُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَیْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَیْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿١١٩﴾‏ إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ ‎﴿١٢٠﴾(آل عمران)
اے ایمان والو ! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ (تم تو) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے وہ چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو، ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہوچکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کردیں ، اگر عقلمند ہو (تو غور کرو) ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے ،تم پوری کتاب کو مانتے ہو ( وہ نہیں مانتے، پھر محبت کیسی ؟) یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مرجاؤ اللہ دلوں کے راز کو بخوبی جانتا ہے،تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں ہاں ! اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں ، تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے۔

مسلمانوں کوہدایات:یہودونصاریٰ اورمنافقین اپنے تعصبات اور بغض وعنادمیں مسلمانوں کے خلاف ریشہ دانیوں میں مصروف تھے ،بعض مسلمانوں کاان کے ساتھ میل جول تھا، وہ ان لوگوں کی ظاہری باتوں سے متاثرہوکر ان کواپناخیرخواہ جانتے تھے اوربعض رازکی باتیں کہہ ڈالتے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کواس بات سے منع فرمایا کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا یہودونصاریٰ یادوسرے مذاہب کے لوگوں اور منافقین کے ساتھ محبت کی پینگیں نہ بڑھاؤ اورنہ انہیں اپنے رازبتاؤ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِیٍّ، وَلاَ اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِیفَةٍ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ بِطَانَتَانِ:بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَحُضُّهُ عَلَیْهِ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّهُ عَلَیْهِ، فَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ تَعَالَى

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جوبھی نبی مبعوث فرمایااورجوبھی خلیفہ مقررفرمایاتواس صلاح کاراورمشیر دوطرح کے ہوتے تھے،ایک تو وہ جونیکی اوربھلائی کاحکم دیتے تھے اوراس کی ترغیب دیتے رہتے تھے ، اوردوسرے وہ جواسے برائی کاحکم دیتے رہتے تھے، اوراس کی ترغیب دیتے رہتے تھے،اورمعصوم تووہ ہے جسے اللہ تعالیٰ گناہ سے بچالے۔[158]مسنداحمداورجامع ترمذی کے الفاظ مختلف ہیں ۔

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک ذمی کوکاتب رکھ لیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی توآپ نے انہیں سختی سے ڈانٹااورفرمایا

لَا تُدْنِهِمْ وَقَدْ أَقْصَاهُمُ اللَّهُ، وَلَا تُكْرِمْهُمْ وَقَدْ أَهَانَهُمُ اللَّهُ، وَلَا تَأْمَنْهُمْ وَقَدْ خَوَّنَهُمُ اللَّهُ

تم انہیں اپنے قریب نہ کروجب کہ اللہ نے انہیں دورکردیاہے،ان کوعزت نہ بخشوجب کہ اللہ نے انہیں ذلیل کردیاہے، اورانہیں امین وراز دار مت بناؤجب کہ اللہ نے انہیں خائن قرار دیا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔[159]

عَنْ أَبِی دُهْقَانَةَ، قَالَ: قِیلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ هَاهُنَا غُلَامًا مِنْ أَهْلِ الْحِیرَةِ حَافِظًا كَاتِبًا فَلَوَ اتَّخَذْتَهُ كَاتِبًا قَالَ: قَدِ اتَّخَذْتُ إِذًَا بِطَانَةً مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ

ابودہقانہ سے روایت ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی خدمت میں عرض کی گئی کہ یہاں اہل حیرہ کاایک ماہرکاتب ہے اسے آپ اپنے ہاں بطورکاتب مقررفرمالیں ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اس معنی تویہ ہوں گے کہ میں مومنوں کے علاوہ کسی دوسرے کواپنارازداربنالوں ۔[160]

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمہارے کھلے دشمن ہیں ،ان جن دل بغض وعداوت سے بھرے ہوئے ہیں حتی کہ یہ عداوت ان کی زبان سے بلاارادہ ظاہرہوجاتی ہے ،اورجوان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ ظاہر ہو جانے والی دشمنی سے بہت زیادہ ہے ،اللہ نے تمہارے لئے آیتیں بیان کردی ہیں جن میں تمہاری دینی اور دنیاوی مصلحتیں اور فوائد موجود ہیں ،اگرتم عقل مندہوتوان نشانیوں کوپہچان کردوستوں اوردشمنوں کی پہچان کرو،کیونکہ ہرشخص اس قابل نہیں ہوتاکہ اسے ہم رازبنایاجائے ،عقل مندوہ ہوتاہے جسے اگر دشمن سے میل جول رکھنے کی ضرورت پیش آجائے تواس سے میل جول صرف ظاہری معاملات میں ہو،اوراپنے اندرونی معاملات اسے نہ بتائے اگرچہ دشمن کتنی ہی چاپلوسی کرے اورقسمیں کھائے کہ وہ تمہارا دوست ہے،اس کے بعداللہ تعالیٰ نے مومنوں کویہودونصاریٰ اور منافقین سے احتیاط کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کی شدیددشمنی کو واضح کیا،کہ ہاں تم یہودونصاریٰ کواہل کتاب سمجھ کر ان کے بارے میں دھوکاکھاتے ہواوران سے محبت رکھتے ہو،جبکہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے،تم ان تمام کتابوں پرایمان رکھتے ہوجواللہ نے اپنے نبیوں پرنازل کی ہیں حالانکہ وہ تمہاری کتاب قرآن پر ایمان نہیں رکھتے ،جب وہ تم سے ملتے ہیں تواوپراوپرسے ایمان کااظہارکرتے ہیں ، لیکن تنہائی میں تم پرغیض وغضب اورحسد کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہہ دوکہ اپنے غیض وغضب میں آپ جل مرو،اللہ اپنے پسندیدہ دین اسلام اور مسلمانوں کوترقی سے ہمکنارفرماتارہے گا۔

۔۔۔ وَكَلِمَةُ اللهِ هِىَ الْعُلْیَا۔۔۔۝۰۝۴۰ [161]

ترجمہ: اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے ۔

اللہ تمہارے دلوں کے چھپے ہوئے رازوں کوخوب جانتا ہے ،وہ تمہارے تمام منصوبوں کوخاک میں ملادے گا، اگراللہ کی تائیدو نصرت سےتمہیں دشمنوں پرفتح نصیب ہویامال غنیمت حاصل ہوجائےجس سے تم میں خوشحالی میسرآجائے تویہ ناخوش ہوتے ہیں ، اوراگر تمہیں برائی پہنچے مثلاً قحط سالی یاتنگدستی میں مبتلاہوجاؤ یااللہ کی مشیت سے دشمن وقتی طورپرتم پرغالب آجائےتوخوشی کے شادیانے بجاتے ہیں ،اگرتم صبراورپرہیزگاری اختیارکروگے توان کا مکروفریب تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا،بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے مکر وفریب کوانہی پرالٹ دے گا ،کیونکہ اس کاعلم اوراس کی قدرت ان کوگھیرے ہوئے ہے، وہ اس کی قدرت کے دائرے سے باہرنہیں نکل سکتے ،اوراس کی کوئی بات اللہ سے چھپی نہیں رہ سکتی۔

[1] التوبة۳۱

[2] الانبیائ۲۵

[3] النحل۳۶

[4] تفسیرابن کثیر۵۶؍۲

[5]صحیح بخاری کتاب الجہادباب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الاسلام والنبوة۲۹۴۱،عیون الاثر۳۲۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۶؍۵،البدایة والنہایة۳۰۲؍۴

[6] بنی اسرائیل ۱۰۷

[7] آل عمران: ۶۵

[8] تفسیرطبری۴۹۰؍۶

[9] البقرة۱۳۵

[10] النحل۱۲۳

[11] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ۲۹۹۵،مستدرک حاکم ۳۱۵۱،تفسیرطبری۴۹۸؍۶

[12] البقرة۱۰۹

[13] النحل۸۸

[14] آل عمران۱۸۷

[15] البقرة۴۲

[16] تفسیرطبری۵۰۸؍۶

[17] صحیح بخاری کتاب الکفالة بَابُ الكَفَالَةِ فِی القَرْضِ وَالدُّیُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَیْرِهَا۲۲۹۱

[18] تفسیرعبدالرزاق۳۹۸؍۱،تفسیرطبری۵۲۴؍۶

[19] آل عمران: 75

[20] تفسیرابن ابی حاتم۶۸۴؍۲،تفسیرابن کثیر۵۳؍۲ ،تفسیر البیضاوی ۲۴؍۲

[21] التوبة۴

[22]صحیح بخاری کتاب المساقاة بَابُ الخُصُومَةِ فِی البِئْرِ وَالقَضَاءِ فِیهَا۲۳۵۶،۲۳۵۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وَعِیدِ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ مُسْلِمٍ بِیَمِینٍ فَاجِرَةٍ بِالنَّارِ ۳۵۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام بَابُ مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ فَاجِرَةٍ لِیَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا۲۳۲۳،سنن ابوداودکتاب الایمان والنذور بَابٌ فِیمَنْ حَلَفَ یَمِینًا لِیَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ ۳۲۴۳،جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی الیَمِینِ الفَاجِرَةِ یُقْتَطَعُ بِهَا مَالُ الْمُسْلِمِ۱۲۶۹، مصنف ابن ابی شیبہ۲۰۸۳۰، مسند احمد ۴۲۱۲

[23] مسند احمد ۲۱۳۱۸،سنن الدارمی ۲۶۴۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ غِلَظِ تَحْرِیمِ إِسْبَالِ الْإِزَارِ، وَالْمَنِّ بِالْعَطِیَّةِ، وَتَنْفِیقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ، وَبَیَانِ الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَلَا یُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ۲۹۳،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی إِسْبَالِ الْإِزَارِ ۴۰۸۷، جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ كَاذِبًا ۱۲۱۱،سنن نسائی کتاب الزکوٰةباب الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى۲۵۶۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ التِّجَارَاتِ باب بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْأَیْمَانِ فِی الشِّرَاءِ وَالْبَیْعِ۲۲۰۹

[24] ص:255 , آل عمران: 77

[25]مسنداحمد۱۷۷۱۶

[26] سنن ابوداود کتاب البیوع بَابٌ فِی مَنْعِ الْمَاءِ۳۴۷۴،جامع ترمذی ابواب السیربَابُ مَا جَاءَ فِی نَكْثِ البَیْعَةِ۱۵۹۵، مسند احمد۱۰۲۲۶

[27] الکہف۱۱۰

[28] تفسیرابن ابی حاتم۶۹۹؍۲

[29] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِیدٌ فِی لَوْحٍ مَحْفُوظٍ قبل الحدیث ۷۵۵۳

[30] تفسیرابن ابی حاتم۶۹۹؍۲

[31] تفسیر ابن کثیر۶۵؍۲

[32] تفسیرطبری۵۲۱؍۵

[33] آل عمران: 79

[34] تفسیرابن ابی حاتم۶۹۲؍۲

[35] الانبیائ۲۵

[36] النحل۳۶

[37] الزخرف۴۵

[38] الانبیائ۲۹

[39] الاعراف۱۷۲

[40] البقرة۲۶۹

[41] تفسیرابن ابی حاتم۶۹۵؍۲

[42] تفسیرابن ابی حاتم۶۹۵؍۲

[43] تفسیر طبری ۵۵۵؍۶

[44] الصف۶

[45] الرعد۱۵

[46] النحل ۴۸

[47] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الأُسَارَى فِی السَّلاَسِلِ۳۰۱۰

[48] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ إِذَا اجْتَهَدَ العَامِلُ أَوِ الحَاكِمُ، فَأَخْطَأَ خِلاَفَ الرَّسُولِ مِنْ غَیْرِ عِلْمٍ، فَحُكْمُهُ مَرْدُودٌ،صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ نَقْضِ الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ، وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ۴۴۹۳، مسند احمد۲۵۴۷۲

[49] صحیح بخاری کتاب الصلح بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ۲۶۹۷، صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ نَقْضِ الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ، وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ۴۴۹۲،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ ۴۶۰۶،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ تَعْظِیمِ حَدِیثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّغْلِیظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ ۱۴،مسنداحمد۲۶۰۳۳،صحیح ابن حبان۲۶

[50] آل عمران: 86

[51] البقرة: 173

[52] سنن نسائی کتاب المحاربہ باب تَوْبَةُ الْمُرْتَدِّ۴۰۷۳، صحیح ابن حبان۴۴۷۷، مستدرک حاکم۸۰۹۲،تفسیرابن کثیر۷۰؍۲

[53] تفسیرابن کثیر۶۱؍۲، تفسیر طبری۵۷۶؍۶

[54] الشوریٰ۲۵

[55] التوبة۱۰۴

[56] النسائ۱۸

[57] مسنداحمد۶۱۶۰، جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب فِی فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ بِعِبَادِهِ ۳۵۳۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ۴۲۵۳،صحیح ابن حبان۶۲۸،مستدرک حاکم۷۶۵۹،شعب الایمان۶۶۶۱،شرح السنة للبغوی۱۳۰۶

[58] الدر المنثور ۲۵۸؍۲

[59] البقرة۱۲۳

[60] ابراہیم۳۱

[61] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ لَا یَنْفَعُهُ عَمَلٌ۵۱۸، صحیح ابن حبان ۳۳۱،مسنداحمد۲۴۶۲۱،مستدرک حاکم ۳۵۲۶

[62]صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۳۴، مسنداحمد ۱۲۳۱۲

[63] مسنداحمد۱۳۱۶۲

[64] تفسیرطبری۵۸۷؍۶

[65] آل عمران: 92

[66] آل عمران: 92

[67] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ۱۴۶۱،صحیح مسلم کتاب الزکاةبَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقْرَبِینَ وَالزَّوْجِ وَالْأَوْلَادِ، وَالْوَالِدَیْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِینَ۲۳۱۵، مسند احمد۱۲۴۳۸،سنن الدارمی۱۶۹۵،السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۰۰،صحیح ابن حبان ۳۳۴۰، تفسیرابن کثیر۷۳؍۲،تفسیرابن ابی حاتم۷۰۳؍۳، تفسیر البغوی ۶۷؍۲

[68] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَقْفِ كَیْفَ یُكْتَبُ؟۲۷۷۲، صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ الْوَقْفِ۴۲۲۴،سنن ابوداودکتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یُوقِفُ الْوَقْفَ ۲۸۷۸ ،جامع ترمذی ابواب الاحکام بَابٌ فِی الوَقْفِ ۱۳۷۵،سنن نسائی كِتَابُ الْأَحْبَاسِ باب الْأَحْبَاسُ كَیْفَ یُكْتَبُ الْحَبْسُ، وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى ابْنِ عَوْنٍ فِی خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِیهِ۳۶۲۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ مَنْ وَقَفَ۲۳۹۷، مسنداحمد۴۶۰۸، ۵۱۷۹، صحیح ابن حبان۴۹۰۱

[69] تفسیر ابن کثیر۷۴؍۲بحوالہ مسندالبزار

[70] البقرة: 97

[71] مسنداحمد۲۴۸۳، جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرَّعْدِ۷۳۱۱

[72] الانعام۱۴۶

[73] النسائ۱۶۰

[74] النحل۱۲۳

[75]صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا۳۳۶۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ باب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۱،سنن نسائی كِتَابُ الْمَسَاجِدِ باب ذِكْرُ أَیُّ مَسْجِدٍ وُضعَ أَوَّلًا۶۹۱ ، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلُ ۷۵۳، مسند احمد ۲۱۳۳۳،صحیح ابن حبان۱۵۹۸

[76] الحج ۲۸

[77] تفسیرطبری۲۸؍۶

[78] آل عمران: 97

[79] تفسیرابن ابی حاتم۷۱۲؍۳

[80] البقرة۱۲۵

[81] العنکبوت۶۷

[82] مستدرک حاکم۱۶۱۳

[83] مسنداحمد۱۰۶۰۷، صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ ۳۲۵۷،سنن نسائی کتاب الحج بَابُ وُجُوبِ الْحَجِّ۲۶۲۰

[84] مسند احمد ۲۸۶۷،اخبارمکة للفاکھی۸۱۲

[85] سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ التِّجَارَةِ فِی الْحَجِّ۱۷۳۲، مسنداحمد ۱۹۷۳،سنن الدارمی۱۸۲۵

[86] تفسیرابن کثیر۸۴؍۲

[87] مصنف ابن ابی شیبہ۱۴۴۵۵

[88] بدائع الفوائد۴۶؍۲

[89] النحل۸۸

[90] الشعرائ۸۸

[91] تفسیرابن کثیر۹۱؍۲،تفسیرالبغوی۷۵؍۲

[92] البقرة۱۰۹

[93] الحدید۸

[94] تفسیرابن کثیر۸۶؍۲

[95] آل عمران: 102

[96] تفسیرابن ابی حاتم ۷۲۲؍۳

[97] آل عمران: 102

[98] مسند احمد ۲۷۳۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ جَهَنَّمَ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ۲۵۸۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۲۵،صحیح ابن حبان۷۴۷۰، مستدرک حاکم۳۱۵۸،سنن الکبری للنسائی ۱۱۰۰۴

[99] مسنداحمد۶۸۰۷

[100] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ الْأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ تَعَالَى عِنْدَ الْمَوْتِ۷۲۲۹، سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ حُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ عِنْدَ الْمَوْتِ ۳۱۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ التَّوَكُّلِ وَالْیَقِینِ ۴۱۶۷، مسنداحمد۱۴۱۲۵،صحیح ابن حبان۶۳۸

[101] مسنداحمد۹۰۷۶،صحیح ابن حبان۶۳۹

[102] صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ النَّهْیِ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ، وَالنَّهْیِ عَنْ مَنْعٍ وَهَاتِ، وَهُوَ الِامْتِنَاعُ مِنْ أَدَاءِ حَقٍّ لَزِمَهُ، أَوْ طَلَبِ مَا لَا یَسْتَحِقُّهُ۴۴۸۱، مسند احمد ۸۷۹۹، صحیح ابن حبان ۳۳۸۸

[103] الانفال۶۲،۶۳

[104] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۳۳۰،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۶

[105]صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِیمَانِ، وَأَنَّ الْإِیمَانَ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ، وَأَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ۱۷۷،سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابُ الْخُطْبَةِ یَوْمَ الْعِیدِ ۱۱۴۰،جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی تَغْیِیرِ الْمُنْكَرِ بِالیَدِ أَوْ بِاللِّسَانِ أَوْ بِالقَلْبِ ۲۱۷۲،سنن نسائی كِتَابُ الْإِیمَانِ وَشَرَائِعِهِ باب تَفَاضُلُ أَهْلِ الْإِیمَانِ۵۰۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۱۲۷۵،وکتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۱۳

[106] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِیمَانِ، وَأَنَّ الْإِیمَانَ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ، وَأَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ۱۷۹

[107] جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَمْرِ بِالمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۲۱۶۹،مسند احمد ۲۳۳۲۷

[108] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۰۴

[109] سنن ابوداودكِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ ۴۳۳۸

[110] سنن ابوداودكِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ۴۳۴۵

[111] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَر ِ۴۰۰۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ۲۱۹۱، شرح السنة للبغوی۴۰۳۹، المسند الموضوعی الجامع للكتب العشرة۱۱

[112] سنن ابوداود كِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ۴۳۴۴

[113] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَ۴۰۰۸

[114] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ}۴۰۱۷

[115] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ}۴۰۱۵حكم الألبانی :ضعیف الإسناد لعنعنة مكحول

[116] مسنداحمد۱۷۷۲۰

[117] مسنداحمد۱۶۹۳۷، سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ شَرْحِ السُّنَّةِ۴۵۹۷،سنن الدارمی ۲۵۶۰،مستدرک حاکم۴۴۳

[118] مستدرک حاکم۴۴۴،جامع ترمذی ابواب الایمان باب مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۱

[119] تفسیرابن ابی حاتم۷۲۹؍۳

[120] الدھر۱۱

[121] یونس۲۷

[122] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۰، سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِی ذِكْرِ الْخَوَارِجِ ۱۷۶

[123] سنن ابن ماجہ کتاب فِی فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابٌ فِی ذِكْرِ الْخَوَارِجِ۱۷۳

[124] سنن ابن ماجہ کتاب فِی فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابٌ فِی ذِكْرِ الْخَوَارِجِ۱۷۶

[125] تفسیر ابن ابی حاتم۷۲۹؍۳

[126] آل عمران۱۸۲

[127] الانفال۵۱

[128] الحج۱۰

[129] حم السجدة۴۶

[130] ق۲۹

[131] البقرة۱۴۳

[132] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ كُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ۴۵۵۷

[133] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۲۸۸

[134] مسنداحمد۷۶۳

[135] مسنداحمد۲۲۴۱۸

[136] مسنداحمد۳۸۰۶

[137] مسنداحمد۳۹۸۷

[138] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ یَدْخُلُ الجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ ۶۵۴۳، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى دُخُولِ طَوَائِفَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ۵۲۶،المعجم الکبیرللطبرانی ۵۷۸۲

[139] مسنداحمد۱۲۶۹۵،المعجم الکبیر للطبرانی ۳۴۲

[140] المعجم الکبیرللطبرانی۳۴۵۵

[141] مسنداحمد۱۴۷۲۴

[142] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ۶۵۲۸، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ۵۳۰،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَفِّ أَهْلِ الجَنَّةِ۲۵۴۷،صحیح ابن حبان۷۴۵۸، مسنداحمد۳۶۶۱

[143] مسنداحمد۲۳۰۶۱،سنن الدارمی۲۸۷۷،صحیح ابن حبان ۷۴۶۰ ، جامع ترمذی ابواب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَفِّ أَهْلِ الجَنَّةِ۲۵۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الْبَعْثِ۴۲۸۹

[144] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ فَرْضِ الجُمُعَةِ ۸۷۶ ، صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ هِدَایَةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۷۸،مسنداحمد۷۷۰۷

[145] تفسیرطبری۱۰۲؍۷

[146] المائدة ۷۹

[147] تفسیرابن کثیر۱۰۳؍۲

[148] تفسیرابن کثیر ۱۰۴؍۲،بحوالہ ابوداودالطیالسی

[149] تفسیرابن کثیر۱۰۵؍۲

[150] المائدة۲۷

[151] سبا۳۷

[152]الانفال۳۶

[153] ھود۹۰

[154] حم السجدة۴۶

[155] الانفال۵۱

[156] الحج۱۰

[157] ق۲۹

[158] صحیح بخاری كِتَابُ القَدَرِ بَابٌ المَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللهُ ۶۶۱۱،وكِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ بِطَانَةِ الإِمَامِ وَأَهْلِ مَشُورَتِهِ ۷۱۹۸،سنن نسائی كِتَابُ الْبَیْعَةِ باب بِطَانَةُ الْإِمَامِ۴۲۰۷ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی مَعِیشَةِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۲۳۶۹ عن ابوہریرہ ، مسنداحمد۱۱۳۴۲عن ابوہریرہ

[159] تفسیرالقرطبی۱۷۹؍۴

[160] تفسیرابن ابی حاتم۷۴۳؍۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲۵۸۷۲

[161] التوبة۴۰

Related Articles