ہجرت نبوی کا پہلا سال

 نمازجمعہ کی فرضیت

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجُمُعَةُ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاجمعہ ہراس شخص پرفرض ہے جواس کی اذان سنے۔[1]

 عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِی جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِیٌّ، أَوْ مَرِیضٌ

طارق بن شہاب سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجمعہ ہرمسلمان پرجماعت کے ساتھ لازماً فرض ہے،مگرچارآدمی جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ ہیں ایک غلام ،دوسرے عورت،تیسرے نابالغ لڑکے اورچوتھے بیمارپر (اگر چاہیں توپڑھ لیں ورنہ ظہرکی نمازاداکریں )۔[2]

 جمعہ کے دن کی فضیلت :

جمعہ کے دن کی بڑی فضیلتیں ہیں ۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ فِیهِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِیهِ خُلِقَ آدَمُ،وَفِیهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ،وَفِیهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَفِیهِ تَقُومُ السَّاعَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابہترین دن جس میں سورج نکلتاہے وہ جمعہ کادن ہے (یعنی جمعہ کادن سب سے افضل ہے)اسی دن آدم علیہ السلام پیداکیے گئے اور اسی دن ان کوجنت میں داخل کیاگیا اوراسی دن ان کوجنت سے نکالاگیا اوراسی دن قیامت قائم ہوگی[3]

جمعہ کادن افضل ہے یا عرفے کادن؟علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ ہفتے کے دنوں میں سے جمعہ افضل ہے اورسال کے دنوں میں عرفے کادن افضل ہے۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، بَیْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِینَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا یَوْمُهُمُ الَّذِی فُرِضَ عَلَیْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِیهِ، فَهَدَانَا اللهُ لَهُ، فَهُمْ لَنَا فِیهِ تَبَعٌ، فَالْیَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جمعہ کے بارے میں ) فرمایاہم دنیامیں تمام امتوں کے بعدہونے کے باوجودقیامت میں سب سے آگے رہیں گے ،فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی،اورہمیں بعدمیں دی گئی،یہی(جمعہ) ان کابھی دن تھاجوتم پرفرض ہواہے لیکن ان کااس کے بارے میں اختلاف ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دن ہم پرفرض کیا ،اس لئے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے ، یہوددوسرے دن ہوں گے(یعنی ہفتہ) اورنصاریٰ تیسرے دن(یعنی اتوار)۔ [4]

x جمعہ کے دن کے کی ایک فضیلت ہے کہ ہرروزکی طرح اس روزجہنم کی آگ بھڑکائی نہیں جاتی جو رب کی بے بہارحمت ومغفرت کامنہ بولتاثبوت ہے،ہفتہ کے باقی دنوں میں زوال کے وقت نمازپڑھنا ممنوع ہے مگراس روززوال کے وقت نمازپڑھناممنوع نہیں ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُمْ لَا یَحْسُدُونَا عَلَى شَیْءٍ كَمَا یَحْسُدُونَا عَلَى یَوْمِ الْجُمُعَةِ الَّتِی هَدَانَا اللهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا، وَعَلَى الْقِبْلَةِ الَّتِی هَدَانَا اللهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا، وَعَلَى قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ: آمِینَ

اس قیمتی دن کے بارے میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہودی کسی چیزپراتناحسدنہیں کرتے جتناجمعہ کے دن پرکرتے ہیں جس کی اللہ نے ہمیں ہدایت دی اورانہیں گمراہ کردیااور خانہ کعبہ کے قبلہ ہونے پرجس کی اللہ نے ہمیں ہدایت بخشی اورانہیں گمراہ کردیااورامام کے پیچھے(الحمدکے بعد) آمین کہنے پر ۔[5]

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص جمعہ کے دن کاقصداروزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

عَنْ جُنَادَةَ الْأَزْدِیِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمِ جُمُعَةٍ، فِی سَبْعَةٍ مِنَ الْأَزْدِ، أَنَا ثَامِنُهُمْ، وَهُوَ یَتَغَدَّى، فَقَالَ:هَلُمُّوا إِلَى الْغَدَاءِ .قَالَ: فَقُلْنَا: یَا رَسُول اللَّه، إِنَّا صِیَام. قَالَ:أَصُمْتُم أَمْس؟قَالَ: قُلْنَا: لَا. قَالَ:فَتَصُومُونَ غَدًا؟ قَالَ: قُلْنَا: لَا. قَالَ:فَأَفْطِرُوا.قَالَ: فَأَكَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ وَجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ، فَشَرِبَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ، یُرِیَهُمْ أَنَّهُ لَا یَصُومُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

جنادہ ازدی رضی اللہ عنہ سےمروی ہےمیں اپنی قوم کے سات اورآدمیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جمعہ والے دن حاضرہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناشتہ فرما رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی ناشتہ کے لئے بلایا،ہم نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم توروزے سے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکل کاروزہ رکھاتھا؟ہم نےکہانہیں ، فرمایاآنے والے کل کاروزہ رکھوگے ؟ہم نے کہانہیں ،فرمایاپھراس جمعہ کے روزے کوبھی افطارکرلوچنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے اورروزہ توڑدیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نمازکے لئے مسجدمیں آئے،منبرپربیٹھے اور پانی منگواکرسب کے دیکھتے ہوئے نوش فرمایاتاکہ سب لوگ معلوم کرلیں کہ جمعہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھاکرتے۔[6]

اورآخرت میں بھی اس دن کی بڑی فضیلت ہے،فرشتوں میں اس دن کانام یَوْمُ الْمَزِیدِ ہےیعنی اللہ کے انعام واکرام کادن،یوم المزیدکوجنتیوں کے لئے جنت میں اللہ کا دربارعام منعقدہواکرے گا،جہاں جنتیوں کے لئے بہت سی نعمتیں بڑھادی جائیں گی،وہ رب کاکلام سنیں گیاوراللہ کے دیدار سے لطف اندوزہوں گے، وغیرہ[7]

 جمعہ میں جلدی آنے کاثواب:

اللہ تعالیٰ کے ساتھ انتہائی قرب پردلالت کرنے والے اعمال میں جمعہ کے دن مساجد میں حاضری میں پہل کرنااوراللہ تعالیٰ کی طرف اظہار نیاز مندی کرنابھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ،مساجدمیں فرشتے حاضرہوتے ہیں اوررحمت الہٰی نازل ہوتی ہے ،جمعہ میں حاضری کاوقت صبح ہی سے شروع ہوجاتاہے ، اورسب سے پہلاثواب اسی کوملے گا جو اول وقت جمعہ کے لئے مسجدمیں آجائے۔

  عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كَانَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ یَعْنِی مَلَائِكَةً یَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى مَنْازِلِهِمُ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طُوِیَتِ الصُّحُفُ، وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلَاةِ كَالْمُهْدِی بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِی یَلِیهِ كَالْمُهْدِی بَقَرَةً، ثُمَّ الَّذِی یَلِیهِ كَالْمُهْدِی كَبْشًا حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ، وَالْبَیْضَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب جمعہ کادن ہوتاہے فرشتے مسجدکے تمام دروازوں پربیٹھ جاتے ہیں اورپہلے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں ،جب امام خطبہ دینے کے لئے آتاہے توصحف لپیٹ لیتے ہیں اورخطبہ سننے لگتے ہیں ،پھرجواول ساعت میں جمعہ کے لئے آتاہے اسےایک اونٹ قربان کرنے کے برابرثواب ملتاہے، بعدمیں آنے والے کوگائے قربان کرنے کے برابرثواب ملتاہے،اس کےبعدمیں پہنچنے والے کوسینگوں والا مینڈھا قربان کرنے کاثواب ملتاہے اوراس کےبعدوالےکومرغی اوراس کے بعدوالے کوانڈاکے برابرثواب ملتا ہے۔ [8]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الجُمُعَةِ غُسْلَ الجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَةِ الثَّانِیَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَةِ الخَامِسَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَضَرَتِ المَلاَئِكَةُ یَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ

ایک اورروایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے جمعہ کے دن غسل جنابت (یاجنابت جیساغسل)کیاپھر(اول ساعت میں )جمعہ کے لئے آیاتواس نے گویاایک اونٹ کی قربان کیا اورجودوسری ساعت میں آیا اس نے گویاگائے قربان کی،اورجوتیسری ساعت میں پہنچااس نے گویاسینگوں والامینڈھاقربان کیا،جوچوتھی ساعت میں آیااس نے گویامرغی تقرب کے لئےپیش کی،اورجوپانچویں ساعت میں آیااس نے گویا انڈا تقرب کے لئے پیش کیا،پھرجب امام نکل آتاہے توفرشتے بھی ذکرسننے کے لئے حاضرہوجاتے ہیں ۔[9]

ان ساعات یاواقات سے مرادقبل اززوال کی وہ گھڑیاں ہیں جن کاآغازسورج چڑھنے کے بعدہوتاہے۔

 عَلِیًّا، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ یَقُولُ:إِذَا كَانَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، غَدَتِ الشَّیَاطِینُ بِرَایَاتِهَا إِلَى الْأَسْوَاقِ، فَیَرْمُونَ النَّاسَ بِالتَّرَابِیثِ، أَوِ الرَّبَائِثِ، وَیُثَبِّطُونَهُمْ عَنِ الْجُمُعَةِ، وَتَغْدُو الْمَلَائِكَةُ فَیَجْلِسُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ، فَیَكْتُبُونَ الرَّجُلَ مِنْ سَاعَةٍ، وَالرَّجُلَ مِنْ سَاعَتَیْنِ، حَتَّى یَخْرُجَ الْإِمَامُ، فَإِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ مَجْلِسًا یَسْتَمْكِنُ فِیهِ مِنَ الِاسْتِمَاعِ وَالنَّظَرِ، فَأَنْصَتَ وَلَمْ یَلْغُ كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنْ أَجْرٍ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں منبر پرفرمایاجب جمعہ کادن ہوتاہے توشیطان اپنے جھنڈے لے کربازاروں میں جاتے ہیں اورلوگوں کومختلف مشاغل میں الجھادیتے ہیں اورانہیں جمعے سے تاخیر کرا دیتے ہیں اورفرشتے (سویرے سے) مساجد کے دروازوں پرآکربیٹھ جاتے ہیں اور پہلی ساعت میں پہنچنے والوں کے نام لکھتے ہیں اوردوسری ساعت میں آنے والوں کے نام لکھتے ہیں حتی کہ امام( خطبہ دینے کے لئے) آجاتا ہے ، پس جب کوئی شخص کسی مناسب جگہ پر بیٹھ جاتاہے جہاں سے امام کودیکھ اور خطبہ سن سکتاہے اورچپ رہتاہے(یعنی دل جمعی سے خطبہ سنتاہے)اورکوئی بیہودہ بات نہیں کرتا(جس سے جمعہ کے ثواب سے محرومی ہو)تواس کودوہراثواب ملتاہے۔[10]

جمعہ کے روزدعاقبول ہونے کی مختصر ساعت:

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ یَوْمَ الجُمُعَةِ، فَقَالَ:فِیهِ سَاعَةٌ، لاَ یُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ، وَهُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی، یَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى شَیْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِیَّاهُ،وَأَشَارَ بِیَدِهِ یُقَلِّلُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے ذکرمیں ایک دفعہ فرمایاکہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگرکوئی مسلمان بندہ کھڑانمازپڑھ رہاہواور اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے جو بھلائی بھی مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزضرور عطافرمادیتاہے، ہاتھ کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایاکہ وہ گھڑی بہت تھوڑی دیررہتی ہے ۔[11]

اس مختصرساعت کی تعین میں بڑااختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے،اس سلسلہ میں کچھ اقوال یہ ہیں ۔

قَالَ ابن المنذر: رُوِّینَا عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: هِیَ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَبَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ.

الثَّانِی: أَنَّهَا عِنْدَ الزَّوَالِ، ذَكَرَهُ ابن المنذر عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ وأبی العالیة.

الثَّالِثُ: أَنَّهَا إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِصَلَاةِ الْجُمُعَةِ، قَالَ ابن المنذر: رُوِّینَا ذَلِكَ عَنْ عائشة رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا.

الرَّابِعُ: أَنَّهَا إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ حَتَّى یَفْرُغَ، قَالَ ابن المنذر رُوِّینَاهُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ.

ابن منذرکہتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ یہ ساعت طلوع فجرسے لے کرطلوع شمس تک اورنمازعصرسے لے کرنمازمغرب تک رہتی ہے۔

دوسرے قول کے مطابق یہ زوال کے قریب ہوتی ہے جسے ابن منذر رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ اورابوعالیہ رحمہ اللہ سے نقل کیاہے۔

تیسراقول یہ ہے کہ جب موذن جمعہ کی اذان دے ،ابن منذرکہتے ہیں کہ یہ قول ہمیں عائشہ رضی اللہ عنہ سے پہنچاہے۔

چوتھاقول یہ ہے کہ جب امام خطبہ دینے کے لئے منبرپربیٹھتاہے اس کے فارغ ہونے تک کے درمیانی عرصہ میں یہ ساعت آتی ہے،ابن منذرکہتے ہیں ہمیں یہ روایت حسن بصری رحمہ اللہ سے پہنچی ہے۔

پانچواں قول ابوبردہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ یہ وہ ساعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نمازکے لئے منتخب فرمایاہے۔

السَّادِسُ: قَالَهُ أبو السوار العدوی وَقَالَ: كَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ الدَّعَاءَ مُسْتَجَابٌ مَا بَیْنَ زَوَالِ الشَّمْسِ إِلَى أَنْ تَدْخُلَ الصَّلَاةُ.

السَّابِعُ: قَالَهُ أبو ذر: إِنِّهَا مَا بَیْنَ أَنْ تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ شِبْرًا إِلَى ذِرَاعٍ

الثَّامِنُ: أَنَّهَا مَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، قَالَهُ أَبُو هُرَیْرَةَ، وعطاء وَعَبْدُ اللهِ بْنُ سَلَامٍ وَطَاوُسٌ، حَكَى ذَلِكَ كُلَّهُ ابن المنذر

چھٹاقول ابوسوارعدی کاہے انہوں نے بتایاکہ سلف کاخیال ہے زوال شمس سے لے کرنمازکے وقت تک دعاقبول ہوتی ہے۔

ساتواں قول ابوذر رضی اللہ عنہ کاہے کہ یہ ساعت ایک بالشت طلوع شمس سے لے کربقدرایک گزطلوع تک ہوتی ہے۔

آٹھواں قول یہ ہے کہ یہ عصراورمغرب کے درمیان ہوتی ہے،اس کے قائل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عطاء رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن سلام اور طاوس رضی اللہ عنہ ہیں ،یہ تمام اقوال ابن منذر رحمہ اللہ نے نقل کئے ہیں ۔

التَّاسِعُ: أَنَّهَا آخِرُ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أحمد وَجُمْهُورِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِینَ

الْعَاشِرُ: أَنَّهَا مِنْ حِینِ خُرُوجِ الْإِمَامِ إِلَى فَرَاغِ الصَّلَاةِ، حَكَاهُ النووی وَغَیْرُهُ

نواں قول یہ ہے کہ یہ ساعت عصرکے بعدآخری وقت میں ہوتی ہے،امام احمد رحمہ اللہ ،جمہورصحابہ رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمہ اللہ کایہی مذہب ہے۔

دسواں قول ہے یہ ساعت خروج امام سے لے کرنمازسے فارغ ہونے تک کے درمیانی عرصہ میں ہوتی ہے ،اسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے نقل کیاہے۔

عَنْ أَبِی بُرْدَةَ بْنِ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: أَسَمِعْتَ أَبَاكَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شَأْنِ سَاعَةِ الْجُمُعَةِ؟قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ،سَمِعْتُهُ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:هِیَ مَا بَیْنَ أَنْ یَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلَى أَنْ تُقْضَى الصَّلَاةُ

ابو بردہ بن ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاتونے اپنے باپ سے جمعہ کی گھڑی کی شان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایاکہ میں نے کہاہاں ، وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ وہ گھڑی امام کے(منبرپربرائے خطبہ) بیٹھنے سے لے کرنمازکے پوری ہونے تک ہے۔[12]

الْحَادِیَ عَشَرَ: أَنَّهَا السَّاعَةُ الثَّالِثَةُ مِنَ النَّهَارِ، حَكَاهُ صَاحِبُ الْمُغْنِی فِیهِ. وَقَالَ كعب: لَوْ قَسَّمَ الْإِنْسَانُ جُمُعَةً فِی جُمَعٍ، أَتَى عَلَى تِلْكَ السَّاعَةِ.

گیارھواں قول صاحب مغنی کاہے کہ یہ ساعت دن کی تیسری گھڑی میں آتی ہے اورکعب فرماتے ہیں کہ اگرانسان جمعہ کادن (تین)برابرحصوں میں تقسیم کرلے تویہ ساعت مل سکتی ہے۔

وَقَالَ عمر: إِنَّ طَلَبَ حَاجَةٍ فِی یَوْمٍ لَیَسِیرٌ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صرف ایک دن کوطلب حاجت کے لئے خاص کرلینابہت آسان ہے۔[13]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بہت تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پرروشنی ڈالی ہے اوراس بارے میں علمائے اسلام وفقہائے عظام کے۴۳ اقوال نقل کئے ہیں ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نے علامہ ابن منیرکاخیال ان لفظوں میں نقل فرمایاہے

قَالَ ابْنُ الْمُنِیرِ: إذَا عُلِمَ أَنَّ فَائِدَة الْإِبْهَام لِهَذِهِ السَّاعَة وَلِلَیْلَةِ الْقَدْر بَعْثَ الدَّوَاعِی عَلَى الْإِكْثَار مِنْ الصَّلَاة وَالدُّعَاءِ، وَلَوْ وَقَعَ الْبَیَان لَهَا لَاتَّكَلَ النَّاس عَلَى ذَلِكَ وَتَرَكُوا مَا عَدَاهَا، فَالْعَجَب بَعَدَ ذَلِكَ مِمَّنْ یَتَّكِل فِی طَلَب تَحْدِیدهَا. وَقَالَ فِی مَوْضِع آخَر: یَحْسُن جَمْع الْأَقْوَال فَتَكُون سَاعَة الْإِجَابَة وَاحِدَة مِنْهَا لَا بِعَیْنِهَا، فَیُصَادِفهَا مَنْ اجْتَهَدَ فِی الدُّعَاء فِی جَمِیعهَا

ابن منیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں اوراسی طرح لیلة القدرکے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لئے بکثرت نفل اداکی جائے اور دعائیں کی جائیں ،اس صورت میں ضرورضروروہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں اسے حاصل ہوگی اگران کوظاہرکردیاجاتاتولوگ بھروسہ کرکے بیٹھ جاتے اورصرف اس گھڑی میں عبادت کرتے،پس تعجب ہے اس شخص پرجواسے محدودوقت میں پالینے پربھروسہ کئے ہوئے ہے،بہترہے کہ مذکورہ بالااقوال کوبایں صورت جمع کیاجائے کہ اجابت گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیاجاسکتاپس جوتمام اوقات میں اس کے لئے کوشش کرے گاوہ ضروراسے کسی نہ کسی وقت میں پالے گا۔[14]

امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنافیصلہ ان لفظوں میں دیاہے

وَالْقَوْل بِأَنَّهَا آخِر سَاعَة مِنْ الْیَوْم هُوَ أَرْجَحُ الْأَقْوَال، وَإِلَیْهِ ذَهَبَ الْجُمْهُور مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِینَ وَالْأَئِمَّة

اس بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ گھڑی آخردن میں بعدعصرآتی ہے اورجمہورصحابہ وتابعین وائمہ دین کایہی خیال ہے۔[15]

 نمازجمعہ چھوڑنے کی وعید:

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نمازجمعہ کی ادائیگی سنت مؤکدہ ہے فرض یاواجب نہیں ،حالانکہ یہ گمان غلط ہے،اس کی تردیداللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ہوجاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے کہ جب جمعہ کے دن (جمعہ کی)نمازکے لئے ندائ(یعنی اذان)دی جائے تواللہ کے ذکر(نمازوخطبہ)کی طرف دوڑ پڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔

 یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْن [16]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذِکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔

وَقَالَ الشَّیْخُ الْمُوَفَّقُ الْأَمْرُ بِالسَّعْیِ یَدُلُّ عَلَى الْوُجُوبِ إِذْ لَا یَجِبُ السَّعْیُ إِلَّا إِلَى وَاجِبٍ

امام موفق الدین (ابن قدامہ رحمہ اللہ ) المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت کریمہ میں دوڑنے کاحکم اس کے وجوب کی دلیل ہے کیونکہ دوڑنا صرف اس صورت میں واجب ہوتاہے جب وہ (نمازجمعہ بذات خود)واجب ہو۔[17]

حَدَّثَنِی الْحَكَمُ بْنُ مِینَاءَ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، وَأَبَا هُرَیْرَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیَنْتَهِیَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدَعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَیَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَیَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِینَ

حکیم بن میناء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنبرکی سیڑھیوں پرفرماتے ہوئے سناکہ لوگ جمعہ(کی نماز) چھوڑنے سے بازآجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر(نفاق کی)مہرلگادے گا پھروہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔[18]

اس حدیث کی تشریح میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ

أَنَّ الْجُمُعَةَ فَرْضُ عَیْنٍ

نمازجمعہ فرض عین ہے۔[19]

 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا، وَبَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوا، وَصِلُوا الَّذِی بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ رَبِّكُمْ بِكَثْرَةِ ذِكْرِكُمْ لَهُ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَةِ، تُرْزَقُوا وَتُنْصَرُوا وَتُجْبَرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْكُمُ الْجُمُعَةَ فِی مَقَامِی هَذَا، فِی یَوْمِی هَذَا، فِی شَهْرِی هَذَا، مِنْ عَامِی هَذَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ،

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! موت سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور مشغولیت سے قبل اعمال صالح کی طرف سبقت کرواور اپنے اور اپنے ربّ کے درمیان تعلق قائم کرلو اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کر کے پو شیدہ اور ظاہراً صدقہ دے کر اس کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور تمہاری مدد کی جائے اور تمہارے نقصان کی تلافی ہوگی،اورجان لوکہ اللہ جل جلالہ نے تم پرجمعہ فرض کیاہے،اس میری جگہ میں اوراس دن میں اس مہینہ میں اس سال سے لے کرقیامت تک،

فَمَنْ تَرَكَهَا فِی حَیَاتِی أَوْ بَعْدِی، وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، اسْتِخْفَافًا بِهَا، أَوْ جُحُودًا لَهَا، فَلَا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ شَمْلَهُ، وَلَا بَارَكَ لَهُ فِی أَمْرِهِ، أَلَا وَلَا صَلَاةَ لَهُ، وَلَا زَكَاةَ لَهُ، وَلَا حَجَّ لَهُ، وَلَا صَوْمَ لَهُ، وَلَا بِرَّ لَهُ حَتَّى یَتُوبَ، فَمَنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَیْهِ، أَلَا لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا، وَلَا یَؤُمَّ أَعْرَابِیٌّ مُهَاجِرًا، وَلَا یَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا، إِلَّا أَنْ یَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ، یَخَافُ سَیْفَهُ وَسَوْطَهُ ، أَلَا لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا، وَلَا یَؤُمَّ أَعْرَابِیٌّ مُهَاجِرًا، وَلَا یَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا، إِلَّا أَنْ یَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ، یَخَافُ سَیْفَهُ وَسَوْطَهُ

جوشخص اسے چھوڑ دے،میری زندگی میں یامیرے بعداوراس کاکوئی امام ہوعادل یاظالم اب ترک کرے خواہ جمعہ کو ایک معمولی چیزسمجھ کریا اس کاانکارکرے تواللہ اس کاحال درست نہ کرے،نہ اسے برکت دے،خوب سن رکھواس کی نمازنمازنہیں ،اس کی زکوٰة زکوٰة نہیں ،اس کاحج حج نہیں ،اس کاروزہ روزہ نہیں ،اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرےپھرجوتوبہ کر لےاللہ اسے معاف فرمانے والاہے،غور سے سنو کوئی عورت کسی مرد کی امام نہیں بن سکتی اور نہ دیہات والا مہاجر کا امام بنے اور نہ فاسق (دیندار) مؤمن کا امام بنے الا کہ وہ مومن پر غلبہ حاصل کر لے اور مومن کو اس فاسق کے کوڑے یا تلوار کا خوف ہو۔[20]

x نمازجمعہ چھوڑناکتنابڑاگناہ ہے اوراس کی کیسی وعیدفرمائی گئی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِقَوْمٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ،لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَى رِجَالٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُیُوتَهُمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جولوگ جمعہ(کی نماز)میں حاضرنہیں ہوتے ہیں ان کے حق میں ارادہ کرتاہوں کہ میں ایک آدمی کوحکم دوں کہ وہ لوگوں کونمازپڑھائے پھرمیں ایسے آدمیوں کے گھروں کوآگ لگادوں جوجمعہ(کی نماز ) میں نہیں آتے۔[21]

ابوالجعد رضی اللہ عنہ ضمری، جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفیٰ کی روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوارشادات منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے

مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا، طَبَعَ اللهُ عَلَى قَلْبِهِ

( جو شخص کسی حقیقی ضرورت اورجائزعذرکے بغیر)غفلت اورسستی سےمسلسل تین جمعے چھوڑدےاللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔[22]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھااس شخص کے بارے میں جودن کوروزہ دارہواوررات بھرعبادت کرتاہولیکن جمعہ اورجماعت میں شریک نہ ہوکیاکہتے ہو؟انہوں نے کہاوہ جہنمی ہے تین باریہی جواب دیا۔

مگراس کے برعکس کچھ لوگ اس ضعیف روایت سے استدال کرتے ہیں

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ، فَلْیَتَصَدَّقْ بِدِینَارٍ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِنِصْفِ دِینَارٍ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص بغیرکسی عذرکے جمعہ نہ پڑھے توایک دینارصدقہ کرے،اگراس کے پاس ایک دینارنہ ہوتو آدھا دینار (ہی) صدقہ کردے۔[23]

منقطع روایت ہے ،اس کی سندراوی قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ، دوسرے راوی قدامہ بن وبرہ نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا ۔

حكم الألبانی]: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ضعیف روایت ہے۔

جمعہ کاوقت:

انس رضی اللہ عنہ ، سلمہ رضی اللہ عنہ بن اکوع ، جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام ، سہل رضی اللہ عنہ بن سعد، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر اور بلال رضی اللہ عنہ سے روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُصَلِّی الجُمُعَةَ حِینَ تَمِیلُ الشَّمْسُ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نمازاس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔[24]

 إِیَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، قَالَ:كُنَّا نُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الجُمُعَةَ ثُمَّ نَنْصَرِفُ، وَلَیْسَ لِلْحِیطَانِ ظِلٌّ نَسْتَظِلُّ فِیهِ

ایاس بن سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نمازپڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتاپھرہم سایہ تلاش کرتے ہوئے واپس آتے تھے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعدنمازجمعہ پڑھتے تھے)۔[25]

نو افل کی تعداد:

جمعہ سے پہلے نوافل کی تعدادمقررنہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ جتنے باآسانی پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیں ۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ اغْتَسَلَ؟ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ، ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى یَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ،ثُمَّ یُصَلِّی مَعَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوآدمی غسل کرے،پھرجمعہ(کی نماز)پڑھنے کے لئے آئے توجتنی نمازاس کے لئے مقدرتھی (خطبہ سے پہلے جتنی نوافل اداکرتاہے،جس کی کوئی تعدادمقرر نہیں ہے ) پڑھی تھی ،پھروہ خاموش رہایہاں تک کہ امام اپنے خطبہ سے فارغ ہوگیاپھرامام کے ساتھ نمازپڑھی تواس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کے درمیان کے سارے گناہ معاف کردیئے گئے اورمزیدتین دنوں کے گناہ بھی معاف کردیئے گئے۔[26]

 أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، یَعْنِی الجُمُعَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدت کی سردی میں جمعہ کی نماز سویرے پڑھتے اورشدت کی گرمی میں ٹھنڈے وقت پڑھتے تھے۔[27]

 کھڑے ہوکربلندآوازسے خطبہ دینا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادہ طریقہ پرخطبہ ارشادفرماتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے حجرے سے نکلتے تھے توسلاطین کی طرح نہ آپ کے ساتھ نقیب ہوتے تھے نہ خطباء کالباس پہنتے تھے ہاتھ میں صرف ایک عصاہوتاتھا،جب ضرورت پیش آتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے تیارہوجاتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین یااونٹ پر الغرض جس جگہ جیسا موقع پیش آیاخطبہ دیاہے ،ضرورت کے لحاظ سے اگرچہ آپ کوکبھی کبھی طویل خطبہ دیناپڑتاتھاتاہم آپ کے خطبے مختصرہوتے تھے ، ایک مرتبہ آپ نے خطبہ ارشادفرمایا

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ:إِنَّ اللَّهَ لَا یَنَامُ، وَلَا یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یَنَامَ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُهُ، یُرْفَعُ إِلَیْهِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ

ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئےجس میں صرف پانچ باتیں کیں ہاں اللہ سوتانہیں اورنہ سونااس کی ذات کے شایان شان ہے، وہی ترازوکوجھکاتاہے اوربلندکرتاہے،یعنی کسی کورزق زیادہ دیتاہے اورکسی کوکم،رات کے اعمال اس کودن سے پہلے پہنچ جاتے ہیں اوردن کے اعمال رات سے پہلے،اللہ کاپردہ نورہےاگروہ حجاب کھول دے تواس کے مبارک چہرہ کی شعاعیں مخلوق کو جلادیں جہاں تک اس کی نظرپہنچے۔ [28]

رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کوخودبارگاہ الٰہی سے بھی یہ وصف کامل عطا کیا گیا تھا چنانچہ آپ نے تحدیث نعمت کے طورپر فرمایا میں فصیح ترین عرب ہوں ،میں کلمات جامع لے کرمبعوث ہواہوں ۔

 خَطَبَنَا عَمَّارٌ،فَقَالَ:إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِیلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ وَإِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا

عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآدمی(یعنی امام وخطیب)کالمبی نمازپڑھانااورمختصرخطبہ دینااس کے فقہ(یعنی فقیہ ہونے)کی علامت ہے،لہذااپنی نمازیں لمبی کرواورخطبے چھوٹے (اورمختصر)کرو بیشک بعض بیان(خطبے اورتقریریں )جادو(کی طرح اثرکرتے) ہیں [29]

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ یَقْعُدُ، ثُمَّ یَقُومُ كَمَا تَفْعَلُونَ الآنَ

عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوکرخطبہ جمعہ ارشادفرماتےپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے پھر کھڑے ہوتےجیساکہ آج تم کرتے ہو۔[30]

 جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ یَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ یَجْلِسُ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَخْطُبُ قَائِمًا، فَمَنْ نَبَّأَكَ أَنَّهُ كَانَ یَخْطُبُ جَالِسًا فَقَدْ كَذَبَ، فَقَدْ وَاللهِ صَلَّیْتُ مَعَهُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفَیْ صَلَاةٍ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوکرخطبہ دیاکرتے تھے پھرآپ بیٹھتے پھرکھڑے ہوتے اوردوسراخطبہ دیتے، جوشخص تمہیں یہ بتائے کہ آپ بیٹھ کرخطبہ دیتے تھے اس نے جھوٹ بولا،اللہ کی قسم !میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوہزارسے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں ۔[31]

  عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّی مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا، وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں درمیانی ہوتی تھیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخطبہ بھی درمیانہ ہوتاتھا(یعنی نہ بہت درازاورنہ بہت کم)۔[32]

یعنی نمازنہ بہت طویل ہوتی کہ لوگ اکتاجائیں اورنہ بہت مختصرکہ لوگ ساتھ نہ مل سکیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر،اونٹ یااونٹنی پرخطبہ دیتے ہوئے لوگوں کی طرف رخ کرکے پہلے السلام علیکم کہتے، عصا ، کمان یاتلوار پرٹیک لگاکرپہلے اللہ کی حمدوثنا بیان فرماتے،خطبہ جس میں قرانی آیات بیان ہوتیں بیا ن فرماتے ہوئے آواز بلند ہو جاتی جیسے آپ کسی کوپیش آنے والے خطرات سے ڈرارہے ہوں اور غصہ سے آنکھیں سرخ ہو جاتیں اورخطبہ کااختتام استغفارپرکرتے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامسنون خطبہ یہ ہوتاتھا۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِینُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا هَادِیَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُفَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَیْرَ الْهَدْیِ هَدْیُ مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ [33]یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً  ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا[34] یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا oیُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمً[35]ا أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ،بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(کوئی قرآنی آیت)وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ [36]۔[37]

’’بلاشبہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ،اس سے مددمانگتے ہیں اوراسی سے بخشش مانگتے ہیں ،ہم اپنے نفوس کے شراوراپنی بداعمالیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتااورجسے اپنے درسے دھتکاردے اس کے لئے کوئی رہبرنہیں ہوسکتا،اورمیں گواہی دیتاہوں کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔حمدوصلوٰة کے بعدیقیناًتمام باتوں سے بہتربات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اورتمام طریقوں سے بہترطریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اورتمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جو(اللہ کے دین میں )اپنی طرف سے نکالے جائیں ، دین میں ہرنیاکام بدعت ہے اورہربدعت گمراہی اورہرگمراہی کاانجام جہنم کی آگ ہے،’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے اورتمہیں موت نہ آئے مگراس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔‘‘اے لوگو!اپنے رب سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیااور(پھر)اس جان سے اس کی بیوی کو بنایا اور (پھر)ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیداکیں اورانہیں (زمین پر)پھیلایا،اللہ سے ڈرتے رہوجس کے ذریعے (جس کے نام پر)تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواور رشتوں ( کوقطع کرنے)سے ڈرو(بچو)بیشک اللہ تمہاری نگرانی کررہاہے۔‘‘ ’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواورایسی بات کہوجومحکم(سیدھی اورسچی)ہو،اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح اورتمہارے گناہوں کومعاف فرمائے گااورجس شخص نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی تواس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘تعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر کوئی قرآنی آیت تلاوت فرماتے ہیں اورآخر میں ’’اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ کہے دیتے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے خطبہ میں منبرپرمسنون خطبہ کے بعدسورہ ق پڑھاکرتے تھے۔

 عَنْ بِنْتٍ لِحَارِثَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَتْ:مَا حَفِظْتُ ق، إِلَّا مِنْ فِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ یَخْطُبُ بِهَا كُلَّ جُمُعَةٍ

حارث بن نعمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے مروی ہے میں نے سورہ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہی جمعہ کے دن سن کریادکی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سورۂ کوہرجمعہ میں منبرپرپڑھاکرتے تھے۔[38]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یااکثرجمعے کے دن خطبے میں یہ سورت مکمل پڑھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں بعث بعدالموت ،ذکرموت اوروعظ وزجربڑے موثرپیرائے میں بیان کیے گئے ہیں ۔

  عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَیْنَاهُ،وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ،حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَیْشٍ یَقُولُ:صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ ،وَیَقُولُ:بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَیْنِ، وَیَقْرُنُ بَیْنَ إِصْبَعَیْهِ السَّبَّابَةِ، وَالْوُسْطَى، وَیَقُولُ:أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَیْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشادفرماتے توآپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور آوازبلندہوجاتی،اورغصہ شدید ہوجاتا(اوریوں معلوم ہوتا )گویاکہ آپ کسی ایسے لشکرسے ڈرارہے ہوں کہ صبح یاشام حملہ کرنے والاہے،اورفرماتے تھے میں اورقیامت ساتھ ساتھ اس طرح بھیجے گئے ہیں ،آپ اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی کوملاتےاورکہتے اللہ کی حمدکے بعدجانوکہ ہربات سے بہتراللہ کی کتاب ہے اورتمام طریقوں سے بہترطریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اورتمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جو(اللہ کے دین میں )اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔[39]

x سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم ممبربننے سے پہلے موجودہ محراب کے قریب غربی جانب کھڑے ہوکرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوخطبہ سے مشرف فرماتے تھے ،جب طویل قیام کے باعث تھکان محسوس ہوتی تو وہاں نصب شدہ کھجورکے تنے کے ساتھ سہارالیتے ۔

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:كَانَ جِذْعٌ یَقُومُ إِلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دینے کے لئے کھڑے ہوتے توایک کھجورکے تنے کے سہارے ٹیک لگاکر کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔[40]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًاپنے ہرخطبہ میں موت،سفرآخرت،احوال قیامت کونہایت رقت انگیزپیرائے میں بیان فرماتے تھے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ كَأَنَّ الْمَوْتَ فِیهَا عَلَى غَیْرِنَا كُتِبَ، وَكَأَنَّ الْحَقَّ فِیهَا عَلَى غَیْرِنَا وَجَبَ، وَكَأَنَّا سَفَرٌ عَمَّا قَلِیلٍ إِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ، نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ وَنَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ، كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ، قَدْ نَسِینَا كُلَّ وَاعِظَةٍ، وَأَمِنَّا كُلَّ جَائِحَةٍ، أَیُّهَا النَّاسُ طُوبَى لِمَنْ شَغَلَهُ عَیْبُهُ عَنْ عَیْبِ النَّاسِ وَتَوَاضَعَ فِی غَیْرِ مَنْقَصَةٍ، وَذَلَّ فِی غَیْرِ مَسْكَنَةٍ، وَرَحِمَ أَهْلَ الذُّلِّ وَالْمَسْكَنَةِ، طُوبَى لِمَنْ أَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ وَأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِهِ، وَوَسِعَتْهُ السُّنَّةُ وَلَمْ یَتَعَدَّهَا إِلَى بِدْعَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری قصویٰ پربیٹھ کرایک خطبہ میں فرمایالوگو!کیوں ایسے بیٹھے ہوکہ موت گویا دوسروں کے لئے ہے ہمارے لئے موت ہی نہیں گویاکہ اوروں کے ذمے حقوق کی ادائیگی لکھی گئی ہے لیکن ہم اس حکم سے یکسرمستثنیٰ ہیں ،جن مردوں کوہم رخصت کر آئے ہیں کیاہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تھوڑی سی مدت کے سفرکے بعدوہ ہم میں واپس آنے والے ہیں ؟آہ کیابات ہے کہ انہیں قبرمیں دفن کرکے ان کی میراث کامال پاکرہم بد مست ہوجاتے ہیں ؟نہیں سمجھتے کہ اسی طرح جوہماراہے دوسروں کودے کرہم بھی اسی مٹی کے ڈھیرتلے ہمیشہ کے لئے سونے والے ہیں بلکہ ہم توگویایہ جان چکے ہیں کہ یہ تو مرگئے لیکن ہم توہمیشہ زندہ ہی رہیں گے،آہ!نصیحت کی باتیں ایک ایک کرکے ہم اپنے دماغوں سے نکال دیاکرتے ہیں اورہرآفت ومصیبت سے بے فکرہوکربیٹھ جاتے ہیں ، سنو!مستحق مبارکبادوہ ہے جواپنے عیب کی اصلاح میں لگ کردوسروں کی عیب جوئی سے بازآگیا،خوش نصیب ہے وہ جوحلال طریق پرمال حاصل کرے پھراللہ کی راہ میں خرچ کرے،علماء اورصلحاء کی مجلس میں بیٹھے ،غریبوں اورمسکینوں کے ساتھ میل جول رکھے(بھلاانسان وہ ہے جس کے اخلاق بلندپایہ اوربہترہوں ،جس کادل پاک ہواور جو باطن کاصاف اورسچاہو،جوکسی کوایذا،تکلیف،رنج اوردکھ نہ پہنچاتاہو) مبارکباد ہواسے جواپنافاضل مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے ،بکواس اورفضول گوئی سے بچے، سنت کو کافی سمجھے،اسی کوشرع سمجھ کرہمیشہ اسی کے عمل میں عمر گزارے ، اور بدعتوں سے کنارہ کش رہے بلکہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہ دیکھے۔[41]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُصَلاَّهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ یَكْتَشِرُونَ قَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ، فَإِنَّهُ لَمْ یَأْتِ عَلَى القَبْرِ یَوْمٌ إِلاَّ تَكَلَّمَ فِیهِ فَیَقُولُ: أَنَا بَیْتُ الغُرْبَةِ وَأَنَا بَیْتُ الوَحْدَةِ، وَأَنَا بَیْتُ التُّرَابِ، وَأَنَا بَیْتُ الدُّودِ، فَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ القَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَحَبَّ مَنْ یَمْشِی عَلَى ظَهْرِی إِلَیَّ، فَإِذْ وُلِّیتُكَ الیَوْمَ وَصِرْتَ إِلَیَّ فَسَتَرَى صَنِیعِیَ بِكَ قَالَ: فَیَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَیُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الجَنَّةِ.

ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لئے آئے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہنستے ہوئے دیکھا تو فرمایا اے لوگو! اگرتم لذتوں کوفنا کردینے والی موت کو یادرکھتے تو تمہیں یہ ہنسیاں نہ آتیں ، لوگو ! راحت ولذت شکن موت کویاد کیا کرو دیکھو تم میں سے ہرایک کی ہونے والی قبرمیں سے ہرروزیہ صدآتی ہے کہ میں اجنان جگہ ہوں ،میں تنہائی کاگڑھاہوں ،میں مٹی کا مکان ہوں ،مجھ میں سانپ،بچھواورکیڑے مکوڑے بھرے پڑے ہیں ،مسلمانوں !جب مومن بندے کوتم دفن کرتے ہوتوقبراسے خوش آمدیداورمرحباکہتی ہے اورکہتی ہے کہ میری پیٹھ پرجتنے لوگ چل رہے ہیں ان سب سے زیادہ میرامحبوب توتھا،اب آج میں تیری دوست بنی ہوں اورتومیرے بس میں ہے ،اب تودیکھے گاکہ میں تیرے ساتھ کتنااچھا سلوک کرتی ہوں ،پھروہ کشادہ ہوجاتی ہے ،جہاں تک مسلمان میت کی نظرپہنچتی ہے وہاں تک کشادگی اس میں ہوجاتی ہے اورجنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے

وَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الفَاجِرُ أَوِ الكَافِرُ قَالَ لَهُ القَبْرُ: لاَ مَرْحَبًا وَلاَ أَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَبْغَضَ مَنْ یَمْشِی عَلَى ظَهْرِی إِلَیَّ، فَإِذْ وُلِّیتُكَ الیَوْمَ وَصِرْتَ إِلَیَّ فَسَتَرَى صَنِیعِیَ بِكَ قَالَ: فَیَلْتَئِمُ عَلَیْهِ حَتَّى تَلْتَقِیَ عَلَیْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلاَعُهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بِأَصَابِعِهِ، فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِی جَوْفِ بَعْضٍ قَالَ: وَیُقَیِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِینَ تِنِّینًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِی الأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَیْئًا مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا فَیَنْهَشْنَهُ وَیَخْدِشْنَهُ حَتَّى یُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ

اورجب فاجریاکافربندہ مرتاہے توقبراسے کہتی ہے توبراآیا،نہایت بری گھڑی آیانہ میں تجھے خوش آمدیدکہوں نہ تجھے مرحباکہوں ،جتنے لوگ آج میری پیٹھ پرچل پھر رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ میں تیری دشمن تھی ،آج تومیرے بس میں آیاہے اورمجھ میں سمایاہے دیکھ کہ آج میں تجھ سے اپنے مدتوں کے بدلے کس طرح لیتی ہوں ؟یہ کہہ کرچاروں طرف سے سکڑنے اورسمٹنے لگتی ہے اوراسے دبوچنے لگتی ہے ، یہاں تک کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں پسلیوں میں اوربائیں جانب کی پسلیاں داہنی طرف کی پسلیوں میں گھس جاتی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کرفرمایااس طرح،اوراس کی قبرمیں ستراژدہے مقررکردیئے جاتے ہیں جواس قدرزہریلے ہوتے ہیں کہ اگران میں سے ایک بھی زمین پرپھنکاردے توزمین سے کوئی چیزپیدانہ ہوسکے،رہتی دنیاتک کوئی ہریالی زمین پردکھائی نہ دے ،یہ سب سانپ اسے ڈستے اورکاٹتے رہتے ہیں ،قیامت تک یہ اسی کرب وبلامیں رہتاہے،پھرآخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسن لویاتوقبرجنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یاجہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔[42]

اس لئے میرے بھائیونہیں معلوم کہ میری اورآپ کی موت کب آنی ہے ؟موت جونہ جوان کوچھوڑتی ہے نہ بڈھے کالحاظ کرتی ہے اورنہ بچے پر ترس کھاتی ہے اس لئے موت کے لئے اورموت کے بعدکے لئے تیاررہیں اوروہ اعمال کرلیں جوبعدازموت کام آئیں ،یادرکھیں سب سے بڑاعمل اللہ کاخوف ہے جس کا دوسرانام تقویٰ ہے۔

وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمْعَةِ یَخْطُبُ فَیَقُولُ بَعْدَ أَنْ یَحْمَدَ اللهَ وَیُصَلِّیَ عَلَى أَنْبِیَائِهِ: (أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ لَكُمْ مَعَالِمَ فَانْتَهُوا إِلَى مَعَالِمِكُمْ، وَإِنَّ لَكُمْ نِهَایَةً فَانْتَهُوا إِلَى نِهَایَتِكُمْ، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ بَیْنَ مَخَافَتَیْنِ بَیْنَ أَجَلٍ قَدْ مَضَى لَا یَدْرِی مَا اللهُ قَاضٍ فِیهِ، وَبَیْنَ أَجَلٍ قَدْ بَقِیَ لَا یَدْرِی مَا اللهُ صَانِعٌ فِیهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کی حمدوثناکے بعد ایک خطبہ ارشادفرمایااے لوگو!تمہارے لئے نشانات لگ چکے ہیں پس وہاں تک پہنچ کررک جایاکرویعنی حدودشرع سے تجاوزنہ کرواورتمہارے لئے ایک حدانتہاہے وہاں جاکررک جاؤیعنی جس کام کی جہاں تک اجازت ہوکروآگے مت بڑھواوریہ کہ آخرت آرہی ہےوہاں کے نیک اعمال کاتوشہ لے کرپہنچومومن تودوخوفناک حالتوں کے درمیان ہے ،جوعمرگزرچکی نہ معلوم اس کانتیجہ عنداللہ کیاہواہے؟اورجوعمرباقی ہے اللہ ہی کوعلم ہے کہ اس میں وہ کیاکرنے والاہے؟

فَلْیَأْخُذِ الْعَبْدُ مِنْ نَفْسِهِ لِنَفْسِهِ، وَمِنْ دُنْیَاهُ لِآخِرَتِهِ، وَمِنَ الشَّبِیبَةِ قَبْلَ الْكِبَرِ، وَمِنَ الْحَیَاةِ قَبْلَ الْمَمَاتِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ مُسْتَعْتَبٍ، وَمَا بَعْدَ الدُّنْیَا مِنْ دَارٍ إِلَّا الْجَنَّةَ أَوِ النَّارَ أَقُولُ قَوْلِی هَذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ لِی وَلَكُمْ

پس انسان کوچاہئے کہ ایسے اعمال کرے جوخوداسی کے کام آنے والے ہیں ،اسے لائق ہے کہ دنیامیں سے آخرت سنوارنے کاحصہ مہیاکرلے اوربڑھاپاآنے سے پہلے اپنی جوانی سے فائدہ اٹھاکرطاقت بھر نیکیاں جمع کرلے ،زندگی سے موت کوتوشہ موت کے آنے سے پہلے اکٹھاکرلے،اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے کہ موت کے بعدشرمندگی دفع کرنے کاکوئی موقع نہ رہے گا،اس وقت پچھتانابے سودہوگا،اس دنیاکے اجڑنے اوراسے چھوڑنے کے بعددوہی گھرہیں یاجنت یادورخ،أَقُولُ قَوْلِی هَذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ لِی وَلَكُمْ۔[43]

 سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِیَّ،فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَیْهَا وَكَبَّرَ عَلَیْهَا، ثُمَّ رَكَعَ وَهُوَ عَلَیْهَا،ثُمَّ نَزَلَ القَهْقَرَى فَسَجَدَ فِی أَصْلِ المِنْبَرِ ثُمَّ عَادَفَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ،فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِی، وَلِتَعْلَمُوا صَلَاتِی

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منبرپرکھڑے ہوکرنمازپڑھی ،اس پرکھڑے ہوکرتکبیرتحریمہ کہی ،پھررکوع کیااورآپ اسی کے اوپرتھے، پھرآپ الٹے پاوں منبرسے اترے اورمنبرکی جڑمیں سجدہ فرمایا(سجدوں کے بعد)پھردوبارہ منبرپرتشریف لے گئے اورپہلی رکعت کی طرح قیام اوررکوع کیا پھرجب نمازسے فارغ ہوگئے تو لوگوں کی طرف منہ کیااورارشادفرمایااے لوگو!میں نے یہ کام صرف اس لئے کیاہے تاکہ تم میری پیروی کرواورمیری نمازسیکھ لو۔[44]

 تحیتہ المسجد:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:جَاءَ سُلَیْكٌ الْغَطَفَانِیُّ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ:یَا سُلَیْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَیْنِ،وَتَجَوَّزْ فِیهِمَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسلیک غطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشادفرمارہے تھےوہ آکربیٹھ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا اے سلیک!کھڑے ہوکردورکعتیں (تحیتہ مسجد) پڑھو اوراس میں اختصارکرو[45]

جَابِرًا، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ یَوْمَ الجُمُعَةِ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ، فَقَالَ: أَصَلَّیْتَ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ:قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَیْنِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص جمعہ کے دن مسجدمیں آیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادفرمارہے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھاکہ کیاتم نے(تحیة المسجدکی)نمازپڑھ لی ہے؟آنے والے نے جواب دیاکہ نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اٹھواوردورکعت نماز(تحیة المسجد)پڑھ لو۔[46]

xپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ساری امت کے لئے)حکم دے دیا۔

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ، فَقَالَ:إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَدْ خَرَجَ الْإِمَامُ، فَلْیُصَلِّ رَكْعَتَیْنِ،وَلْیَتَجَوَّزْ فِیهِمَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن(جمعہ کی نمازپڑھنے کے لئے)آئے اورامام خطبہ دے رہاہوتواسے چاہیے کہ دورکعتیں پڑھے اوران دونوں میں اختصار کرے[47]

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ السَّلَمِیِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْیَرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی مسجدمیں داخل ہواسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز(تحیة مسجد)پڑھ لے۔[48]

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ.وَبِهِ یَقُولُ الشَّافِعِیُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا دَخَلَ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ فَإِنَّهُ یَجْلِسُ وَلاَ یُصَلِّی.وَهُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ.وَالقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ

امام ترمذی فرماتے ہیں بعض اہل علم اورامام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ اوراسحاق رحمہ اللہ کایہی فتویٰ ہے مگربعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نمازنہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے ،سفیان ثوری رحمہ اللہ اوراہل کوفہ کابھی یہی قول ہےمگرپہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کاقول صحیح نہیں ہے۔[49]

مگرہمارے زمانے میں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجدمیں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھرکھڑے ہوکرنمازپڑھتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے ،سنت یہی ہے کہ مسجدمیں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے اس کے بعدبیٹھے۔

 خطبہ سننے کے آداب:

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، أَخْبَرَهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ یَوْمَ الجُمُعَةِ: أَنْصِتْ، وَالإِمَامُ یَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب توجمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی (اپنے پاس بیٹھے ہوئے کسی دوسرے نمازی)سے کہے کہ خاموش ہو جا تو تو نے لغوکام کیا(یعنی اس کاجمعہ نہیں ،یہ محرومی اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے خطبے کی پیروی سے غفلت اختیارکی اوراس سے استفادہ کرنے میں کوتاہی کی)۔[50]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْجُمُعَةِ، وَزِیَادَةُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے( دوران خطبہ خاموش رہنے اورتوجہ سے خطبہ سننے کے بارے میں ) فرمایاجوشخص وضو کرے اورخوب اچھی طرح وضو کرے ، پھرجمعہ کی نمازپڑھنے کے لئے آئے اورخطبہ سنے اورخاموش رہے تواس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے درمیان کے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور مزید تین دن کے بھی گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اورجوآدمی(خطبے کے دوران) کنکریوں کوچھوئے(یعنی کھیلے)تواس نے لغوکام کیا۔[51]

جمعے میں کثیرتعدادہوتی ہے اگرمعمولی بات کرنے کی بھی اجازت ہوتی تب بھی شوروشغب پڑجاتااس لیے مطلقاًکلام سے روک دیاگیاحتی کہ زبان سے کسی کوچپ بھی نہ کرائے کیونکہ بسااوقات چپ کرانے والوں کاشورباتیں کرنے والوں سے بڑھ جاتاہے اوریک نہ شددوشدوالامعاملہ بن جاتاہے۔

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ یَرْكَبْ،وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِیَامِهَا وَقِیَامِهَا

اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے جمعہ کے روزغسل کیااورخوب اچھی طرح کیااورجلدی آیااور(خطبہ میں )اول وقت پہنچا،مسجدمیں پیدل چل کرآیااورسوارنہ ہوا،امام کے نزدیک ہوکربیٹھااوردل جمعی سے خطبہ سنا اور لغوسے بچاتو اس کوہرقدم پرایک برس کے روزوں کااوراس کی راتوں کے قیام کاثواب ہوگا۔[52]

 گردنیں پھلانگنےسے منع کرنا:

آداب جمعہ میں ضروری ہے کہ آنے والانہایت ہی ادب ومتانت کے ساتھ جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے کسی کی گردن پھلانگ کرآگے نہ بڑھے۔

 فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ:جَاءَ رَجُلٌ یَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ،فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْلِسْ فَقَدْ آذَیْتَ، وَآنَیْتَ

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیاجب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھےتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایابیٹھ جاؤ! تم نے (لوگوں کو)ایذادی اوردیرلگائی ہے۔[53]

جمعہ کے روزاچھے کپڑے پہننا:

مُحَمَّدَ بْنَ یَحْیَى بْنِ حَبَّانَ، حَدَّثَهُ أَنَّمَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ أَوْ مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدْتُمْ أَنْ یَتَّخِذَ ثَوْبَیْنِ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ، سِوَى ثَوْبَیْ مِهْنَتِهِ

محمدبن یحییٰ(تابعی)سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایااے مسلمانوں !اگرکسی کوگنجائش ہوتوجمعہ کے لئے روزانہ استعمال ہونے والے کپڑوں کے علاوہ دوکپڑے اوربنارکھنے میں کیاحرج ہے؟۔ [54]

 مسجدمیں حلقہ باندھ کربیٹھنا:

بعض علماء خطبہ جمعہ سے پہلے تقریر ،شعروشاعری وغیرہ کرتے ہیں اس سے منع فرمایاگیا۔

 عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّرَاءِ وَالْبَیْعِ فِی الْمَسْجِدِوَأَنْ تُنْشَدَ فِیهِ ضَالَّةٌ،وَأَنْ یُنْشَدَ فِیهِ شِعْرٌوَنَهَى عَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدمیں خرید و فروخت سے منع فرمایاہےاوراس سے بھی کہ گمشدہ چیزکااس میں اعلان کیاجائے یاشعرپڑھے جائیں اوراس سے بھی منع فرمایاہے کہ جمعہ کے دن مسجدمیں نمازجمعہ سے پہلے حلقہ باندھ کربیٹھاجائے[55]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےویسے بھی مساجدمیں حلقے بناکربیٹھنے سے منع فرمایاہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَیَكُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ یَجْلِسُونَ فِی الْمَسَاجِدِ حِلَقًا حِلَقًا، إِمَامُهُمُ الدُّنْیَا، فَلَا تُجَالِسُوهُمْ؛ فَإِنَّهُ لَیْسَ لِلَّهِ فِیهِمْ حَاجَةٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادنیاکے آخردورمیں لوگ مساجدمیں حلقے حلقے بناکربیٹھیں گے اوردنیاداری کی باتیں کریں گے تم ان کے ساتھ مت بیٹھنا اللہ کوان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[56]

جمعہ کی رات کوخاص طورپرقیام کرنا:

بہت سے لوگوں میں یہ بدعت ہے کہ وہ جمعہ کی رات کوخاص اہمیت دیتے ہیں اورخاص طورپراس رات کوقیام کرتے ہیں ،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، لَا تَخْتَصُّوا لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِیَامٍ مِنْ بَیْنِ اللیَالِی،وَلَا تَخُصُّوا یَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِیَامٍ مِنْ بَیْنِ الْأَیَّامِ، إِلَّا أَنْ یَكُونَ فِی صَوْمٍ یَصُومُهُ أَحَدُكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی جمعہ کی رات کوجاگنے اورقیام کے لئےسب راتوں میں خاص نہ کرےاوراس کے دن کوسب دنوں میں روزے کے لئے مخصوص نہ کرومگریہ کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھتاہواوراس میں جمعہ آجائے۔[57]

پہلے خطبہ کے بعددورکعتیں پڑھنا:

بعض لوگ پہلے خطبہ کے بعدجب خطیب کچھ سانس لینے کے لئے منبرپربیٹھتاہے دورکعت نمازپڑھتے ہیں حالانکہ یہ مختصر وقفہ دو رکعتوں کے پڑھنے کے لئے کافی نہیں ،یہ ایسی منکربدعت ہے کہ اس کے مستحب ہونے پرکوئی دلیل نہیں ہے ،کجایہ کہ یہ سنت سے ثابت ہو؟

نمازسے فراغت کے بعدذکراوردعاپراجتماع کرنا:

ابن الحاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمام لوگوں کواونچی آوازسے ذکرودعااورنمازکے بعداجتماعی طورپرہاتھ اٹھانے سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ بدعت ہے۔

جمعہ کے دن غسل کی ابتدا:

اللہ رب العزت نے جمعہ کے دن جوآداب اورفضائل مقررفرمائے ہیں ان سے حفظان صحت کے اصول اوراجتماعی زندگی کی بہترین اقدار ظاہر ہوتی ہیں ،ان میں ایک ادب یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کوغسل کی ترغیب دی گئی ،انصار کھیتی باڑی میں اورمہاجرین بازاروں میں تجارتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے ، ان کے پاس کوئی ملازم وغیرہ نہیں تھے اس لئے خودسخت محنت کرتے ہوئےسخت گرمی میں خوب پسینہ بہتا جس سے جسم میں پسینہ کی بوپیدا ہو جاتی پھراسی حالت میں وہ جمعہ کی نماز پڑھنے چلے آتےجس سے مسجدمیں سخت بدبوپیداہوجاتی چنانچہ پہلے پہل غسل جمعہ کے بارے میں ترغیب دی گئی۔

 عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:كَانَ النَّاسُ یَنْتَابُونَ یَوْمَ الجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالعَوَالِیِّ، فَیَأْتُونَ فِی الغُبَارِ یُصِیبُهُمُ الغُبَارُ وَالعَرَقُ، فَیَخْرُجُ مِنْهُمُ العَرَقُ،فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِی،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِیَوْمِكُمْ هَذَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجمعہ کی نماز(پڑھنے کے لئے)لوگ اپنے گھروں اوراطراف مدینہ گاوں سے (مسجدنبوی میں )باری باری آیاکرتے تھے ، لوگ گردوغبار میں چلے آتے ،گردمیں اٹے ہوئے اورپسینہ میں شرابور،اس قدرپسینہ ہوتاکہ تھمتانہیں تھااسی حالت میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیاحالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(غسل کی ترغیب دیتے ہوئے) فرمایا تم لوگ اس دن(جمعہ میں ) غسل کرلیاکرتے توبہترہوتا۔[58]

عَنْ عِكْرِمَةَ، كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِینَ یَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَیَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ، وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَیِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ – إِنَّمَا هُوَ عَرِیشٌ،فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِی ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِیَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًافَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرِّیحَ قَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْیَوْمَ فَاغْتَسِلُوا، وَلْیَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا یَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِیبِهِ

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ محنت ومشقت کیاکرتے تھے،لباس اون کاہوتاتھا،اپنی پیٹھوں پرسامان ڈھوتے تھےاوران کی مسجدبھی تنگ اورنیچی چھت والی تھی گویا چھپڑتھاتوایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،دن گرم تھااورلوگوں کوان کے اونی لباسوں میں پسینہ آیاحتی کہ ان سے نامناسب بوئیں نکلیں اورانہیں ایک دوسرے سے بہت اذیت ہوئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بومحسوس کی توفرمایالوگو!جب یہ (جمعہ کا)ہواکرے توغسل کیاکرواورجسے جوعمدہ تیل اورخوشبو مہیا ہو استعمال کیاکرے۔[59]

 عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ

سمرہ بن جندب الفزاری جن کی کنیت ابوعبداللہ تھی سے مرو ی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص جمعہ کے دن وضوکرے توٹھیک ہے اوراچھاہے اورجوغسل کرے توغسل افضل ہے۔[60]

 عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِیِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الجُمُعَةِ، وَیَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَیَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ یَمَسُّ مِنْ طِیبِ بَیْتِهِ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ، ثُمَّ یُصَلِّی مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الإِمَامُ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى

چنانچہ سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص جمعہ کے دن غسل کرے اورخوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے (مونچھیں کترائے ،ناخن کٹائے ، زیر ناف بال مونڈے اوربغلوں کے بال دورکرے وغیرہ) اورتیل استعمال کرے یاگھرمیں جو خوشبومیسرہواستعمال کرے، پھر نمازجمعہ کے لئے نکلے اورمسجدمیں پہنچ کردوآدمیوں کے درمیان نہ گھسے(بلکہ یہ آداب ملحوظ رکھے کہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے)پھرجتنی اس کے مقدر میں ہو نمازپڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے توخاموش (دل جمعی سے)سنتارہے ( تاکہ ہفتہ واری اجتماعی مشکلات اوران کا حل ، لوگوں کی دینی امورمیں راہنمائی اوربصیرت کے لئے جومضامین خطبہ میں بیان کیے جائیں ان کوسمجھنااورسیکھناآسان ہوجائے) توایسے شخص کے وہ گناہ جواس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ہوں معاف کردیئے جاتے ہیں ۔[61]

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکماًفرمایاکہ مسلمانوں کوجمعہ کے دن غسل کرکے مسجدمیں آناچاہیے۔

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ:مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْیَغْتَسِلْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس منبرپرکھڑے ہوکر فرماتے ہوئے سناتم میں سےجوشخص جمعہ( کی نماز)کے لئے آناچاہےتو اسےغسل کرلینا چاہیے۔[62]

اس طرح ہروقت خوش نمااورباوقاررہنے کی ترغیب فرماتے ہوئے آخری حکم فرمایاکہ جمعہ کے دن ہرجوان پرغسل کرناتاکہ جسم کی طہارت حاصل ہو اورمسواک کرناتاکہ منہ کی پاکیزگی حاصل ہواورجواسے میسرہواچھی خوشبولگائے تاکہ ماحول خوبصورت بن جائے اوراچھے کپڑے پہنے کہ وہ شخص اللہ کے دربارمیں حاضرہورہاہے ۔

 أَبِی سَعِیدٍ قَالَ:أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الغُسْلُ یَوْمَ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، وَأَنْ یَسْتَنَّ، وَأَنْ یَمَسَّ طِیبًا إِنْ وَجَدَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہ ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجمعہ کے دن ہرجوان پرغسل کرنا،مسواک کرنا اوراگرمیسرہوتو خوشبولگاناضروری ہے۔[63]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ۔۔۔ وَلَوْ مِنْ طِیبِ الْمَرْأَةِ

اورعبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے اپنے والدابوسعدخدری سےروایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ وہ خوشبوعورت کی خوشبوسے ہو(یعنی ضروراستعمال کرے)۔[64]

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، أَنْ یَغْتَسِلَ فِی كُلِّ سَبْعَةِ أَیَّامٍ یَوْمًا یَغْسِلُ فِیهِ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ

ایک اورروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرمسلمان پرلازم ہے کہ وہ سات دنوں میں سے ایک دن غسل کرے اوراپناسراورجسم دھوئے۔[65]

 غسل جنابت کاطریقہ:

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۂ المائدة اورسورۂ النساء میں غسل جنابت کرنافرض قراردیا ہے،غسل جنابت کاطریقہ یوں ہے۔

 عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صلّى الله علیه وسلم أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، بَدَأَ فَغَسَلَ یَدَیْهِ، ثُمَّ یَتَوَضَّأُ كَمَا یَتَوَضَّأُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ یُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِی المَاءِ، فَیُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ یَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ غُرَفٍ بِیَدَیْهِ، ثُمَّ یُفِیضُ المَاءَ عَلَى جِلْدِهِ كُلِّهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت فرماتے توآپ پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے،پھراسی طرح وضوکرتے جیسانمازکے لئے آپ وضوکیاکرتے تھے،پھرپانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اوران سے بالوں کی جڑوں کاخلال کرتےیہاں تک کہ جب آپ دیکھتے کہ وہ صاف ہوگیاہے توپھراپنے ہاتھوں سے تین چلوسرپرڈالتےپھرتمام بدن پرپانی بہالیتےپھراپنے دونوں پاؤں دھوتے۔[66]

 عَنْ مَیْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:وَضَعْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَاءً لِلْغُسْلِ، فَغَسَلَ یَدَیْهِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا ثُمَّ أَفْرَغَ بِیَمِینِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ مَذَاكِیرَهُ، ثُمَّ دَلَكَ یَدَهُ بِالأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَیَدَیْهِ، ثُمَّ یُدْخِلُ یَدَیْهِ فِی الْإِنَاءِ، فَیُخَلِّلُ شَعْرَهُ، حَتَّى إِذَا رَأَى أَنَّهُ قَدْ أَصَابَ الْبَشْرَةَ، أَوْ أَنْقَى الْبَشْرَةَ أَفْرَغَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًاثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَحَوَّلَ مِنْ مَكَانِهِ فَغَسَلَ قَدَمَیْهِ،فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ یَأْخُذْهُ، فَانْطَلَقَ وَهُوَ یَنْفُضُ یَدَیْهِ

ا م المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل کاپانی رکھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسب سے پہلے دونوں ہاتھ دومرتبہ یاتین مرتبہ دھوئے،پھرداہنے ہاتھ سے بائیں پرپانی ڈالااوراپنی شرمگاہ کودھویا،پھر زمین پرہاتھ رگڑا اورپھراس کودھویا،اس کے بعدکلی کی اورناک میں پانی ڈالااوراپنےچہرے اور کہنیوں تک ہاتھ دھوئے ، پھراپنے ہاتھ پانی میں ڈالتے اوراپنے بالوں کاخلال کرتےجب سمجھتے کہ جلدترہوگئی ہے یاصاف ہوگئی ہے تواپنے سرپرتین لپ پانی ڈالتے،پھراپنے سراور سارے بدن پرپانی ڈالتے،پھرجہاں آپ نے غسل کیاتھااس جگہ سے ہٹ کرپاوں دھوئے،اس کے بعدمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑادیناچاہاتوآپ نے اسے نہیں لیااورہاتھوں سے ہی پانی جھاڑنے لگے(غسل کامکمل طریقہ سمجھانے کے لئےان تمام روایتوں کواکٹھاکیاگیاہے)۔[67]

اس حدیث سے ثابت ہواکہ جنابت کے غسل میں انگلیاں بھگوکربالوں کی جڑوں میں خلال کرے جب یقین ہوجائے کہ سراورڈاڑھی کے بال اوراندرکاچمڑابھیگ گئے ہیں تب بالوں پرپانی بہائے یہ خلال بھی آداب غسل سے ہے ،جوامام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک واجب اورجمہورکے نزدیک سنت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے شروع میں وضوفرماتے تھے اوراسی کوکافی جانتے تھے اورنمازکے لئے دوبارہ وضونہیں فرماتے تھے ۔

 عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ یَتَوَضَّأُ بَعْدَ الغُسْلِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل(جنابت)کے بعدوضونہیں فرماتے تھے۔[68]

یعنی غسل کے شروع میں وضوفرماتے تھے اوراسی کوکافی جانتے تھے اورنمازکے لئے دوبارہ وضونہیں فرماتے تھے لیکن اس میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ دوران غسل شرم گاہ کوآگے یاپیچھے ہاتھ نہ لگے ورنہ دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ، حَدَّثَنِی الْحَارِثُ بْنُ وَجِیهٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِینَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ،عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةً فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ، وَأَنْقُوا الْبَشَرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہربال کے نیچے جنابت کااثرہوتاہے اس لیے بالوں کو(اچھی طرح)دھویاکرواورجسم کواچھی طرح(مل کر)صاف کیاکرو۔[69]

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: الْحَارِثُ بْنُ وَجِیهٍ حَدِیثُهُ مُنْكَرٌ، وَهُوَ ضَعِیفٌ

امام ابوداود رحمہ اللہ اورامام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں حارث بن وجیہ منکرحدیث ہےاورضعیف ہے۔

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:أَجْمَرْتُ شَعْرِی إِجْمَارًا شَدِیدًا، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَائِشَةُ أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلَى كُلِّ شَعَرَةٍ جَنَابَةً

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ میں نے اپنے سر کے بالوں کا بڑا مضبوط جوڑا باندھ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے جنابت کا اثر ہر بال تک پہنچتا ہے۔[70]

اس روایت میں بھی ایک راوی مجہول الحال ہے۔

یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن یہی بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ غسل جنابت میں ساراجسم دھونافرض ہے البتہ کلی کرنے اورناک میں پانی چڑھانے میں فقہاء کی آرامختلف ہے ،احناف کے نزدیک یہ بھی فرضیت کے حکم میں شامل ہے امام احمد رحمہ اللہ کابھی مشہورقول یہی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ مسنون ہے بہرحال احادیث کی روشنی میں واضح ہے کہ غسل جنابت میں سارابدن حتی کہ بالوں کوخوب اچھی طرح مل کردھوناچاہیے ایسانہ ہوکہ بلاکسی اشدمجبوری کے جسم کاکوئی حصہ بال برابر یا بالوں کے نیچے جگہ خشک رہ جائے۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِی فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟وفی روایة :لِلْحَیْضَةِ، قَالَ:لَا. إِنَّمَا یَكْفِیكِ أَنْ تَحْثِی عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَیَاتٍ ثُمَّ تُفِیضِینَ عَلَیْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِینَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے سرکے بال (مینڈھیوں کی شکل میں )مضبوطی سے باندھ لیتی ہوں کیاغسل جنابت کے موقع پران کوکھولوں ؟اورایک روایت میں حیض سے فارغ ہوکرغسل کے وقت کے الفاظ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں !(کھولنے کی ضرورت نہیں )بس تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تواپنے سرپرتین لپ پانی بہادیاکرے پھرسارے بدن پرپانی بہانا تو پاک ہو جائے گی۔[71]

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جسے جنابت لاحق ہوجائے اس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کاکھولناضروری نہیں البتہ ایک روایت میں ہے

عَنْ عَائِشَةَأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا، وَكَانَتْ حَائِضًا:انْقُضِی شَعْرَكِ، وَاغْتَسِلِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا درآنحالیکہ وہ حائضہ تھیں کہ بال کھول کر نہانا۔[72]

مگر یہ دونوں روایتیں باہم متعارض نہیں کیونکہ بال کھولنے کاحکم اس وقت ہے جب عورت حیض سے غسل کرے لیکن غسل جنابت میں عورت پرواجب نہیں کہ وہ سرکے بال کھولے بلکہ صرف بالوں کی جڑیاسرکاچمڑاترہوناچاہیےسارے بال ترہوناضروری نہیں ۔

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: بَلَغَ عَائِشَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو یَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ یَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ،فَقَالَتْ: یَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو هَذَا یَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ یَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ. أَفَلَا یَأْمُرُهُنَّ أَنْ یَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ ، لَقَدْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ. وَلَا أَزِیدُ عَلَى أَنْ أُفْرِغَ عَلَى رَأْسِی ثَلَاثَ إِفْرَاغَاتٍ

عبیدبن عمیرسے مروی ہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کسی ذریعے سے اطلاع ملی کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کوغسل جنابت وحیض کے وقت سرکے بال کھولنے کاحکم دیتے ہیں ،اس پرعائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاابن عمرو رضی اللہ عنہ پرتعجب ہے کہ وہ غسل کے وقت عورتوں کوبال کھولنے کاحکم دیتے ہیں تووہ ان کومنڈوانے کاحکم کیوں نہیں دیتے (اس سے تو بہتر ہے کہ وہ عورتوں کوسرمنڈوانے کاحکم ہی دے دیں )میں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ٹب نمابرتن میں غسل کرلیاکرتے تھے اورمیں سرمیں صرف تین بارپانی ڈال لیتی تھی اور(غسل جنابت میں )سرکے بال کھولنے کی ضرورت نہیں سمجھتی تھی۔[73]

وفی روایة :لِلْحَیْضَةِ کے الفاظ شاذہیں جیسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحة (۱۸۹)میں وضاحت کی ہے۔

میاں بیوی دونوں اکٹھے ایک برتن سے غسل کرسکتے ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، تَخْتَلِفُ أَیْدِینَا فِیهِ،مِنَ الجَنَابَةِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرلیاکرتے تھے،اس برتن میں ہمارے ہاتھ یکے بعددیگرے داخل ہوتے تھے۔[74]

اورابن حبان نے یہ اضافہ مزیدنقل کیاہے

تَخْتَلِفُ أَیْدِینَا فِیهِ وَتَلْتَقِی

بسااوقات دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے سے چھوجاتے تھے۔[75]

بعض عورتیں حماموں میں غسل فرماتی ہیں ،ان بے پردہ حماموں میں جانے کی ممانعت کی ایک صحیح حدیث ہے ۔

عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ، قَالَ: دَخَلَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ عَلَى عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَافَقَالَتْ: مِمَّنْ أَنْتُنَّ قُلْنَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ،قَالَتْ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ الْكُورَةِ الَّتِی تَدْخُلُ نِسَاؤُهَا الْحَمَّامَاتِ، قُلْنَ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَمَا إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنَ امْرَأَةٍ تَخْلَعُ ثِیَابَهَا فِی غَیْرِ بَیْتِهَا إِلَّا هَتَكَتْ، مَا بَیْنَهَا وَبَیْنَ اللهِ تَعَالَى

ابوالملیح (عامربن اسامہ)سےمروی ہےشام کی کچھ عورتیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں ،انہوں نے پوچھاتم کن لوگوں میں سے ہو؟انہوں نے کہا ہم شام کی عورتیں ہیں ،فرمایاشایدتم اس علاقے سے تعلق رکھتی ہو جہاں کی عورتیں حمامات میں جاتی ہیں ؟عورتوں نے کہاجی ہاں !عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاآگاہ رہو! بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سناہے جوکوئی عورت اپنے گھرکے علاوہ (بغیرشرعی عذرکے)کہیں اوراپنے کپڑے اتارتی ہے تو وہ اپنے اوراللہ تعالیٰ کے مابین جو(عزت وکرامت کا)پردہ ہے اس کوپھاڑدیتی ہے۔[76]

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہاہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا یَخْلُوَنَّ بِامْرَأَةٍ لَیْسَ مَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّیْطَانُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اللہ اور روزِ آخرت پرایمان رکھتاہے تو وہ اپنی بیوی کو بغیر محرم کے خلوت و تنہائی میں نہ بھیجے کیونکہ اس کے ساتھ تیسراشیطان ہوتاہے ۔ [77]

مساجدمیں دورسے آنا:

قبیلہ بنوسلمہ کے مکانات مسجدنبوی سے کافی فاصلہ پرتھے اورانہیں اتنی دورسے مسجدمیں پانچ وقت نمازکے لئے حاضرہونے سے تکلیف ہوتی تھی ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ، فَأَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ یَنْتَقِلُوا إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ:إِنَّهُ بَلَغَنِی أَنَّكُمْ تُرِیدُونَ أَنْ تَنْتَقِلُوا قُرْبَ الْمَسْجِدِقَالُوا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ أَرَدْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ:یَا بَنِی سَلِمَةَ دِیَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ، دِیَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ

چنانچہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مسجدکے گردکچھ جگہیں خالی ہوئیں تو قبیلہ بنوسلمہ نے ارادہ کیاکہ مسجدکے قریب منتقل ہو جائیں ،یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے تمہاری یہ بات پہنچی ہے کہ تم مسجدکے قریب منتقل ہوناچاہتے ہو،انہوں نے عرض کیاجی ہاں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے یہ ارادہ کیاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنی سلمہ !اپنے گھروں میں رہوتمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا)اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں ۔[78]

قَالَ: فَأَقَامُوا وَقَالُوا: مَا یَسُرُّنَا أَنَّا كُنَّا تَحَوَّلْنَا

توبنوسلمہ نے کہاہم اس فرمان سے ایسے خوش ہوئے کہ وہاں سے اٹھ آنے سے اتنی خوشی نہ ہوتی۔[79]

اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ سے اجرعظیم حاصل کرنے کے لئے چاہتے تھے کہ ان کاگھرمسجدسے دورہواوروہ اس تک پیدل چل کرآئیں اوران کے آنے اورمسجدسے جانے کے قدموں کے نشان لکھے جائیں ۔

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ یُصَلِّی الْقِبْلَةَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ أَبْعَدَ مَنْزِلًا مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ، وَكَانَ لَا تُخْطِئُهُ صَلَاةٌ فِی الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ: لَوِ اشْتَرَیْتَ حِمَارًا تَرْكَبُهُ فِی الرَّمْضَاءِ وَالظُّلْمَةِ، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ مَنْزِلِی إِلَى جَنْبِ الْمَسْجِدِفَنُمِیَ الْحَدِیثُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ ذَلِكَ،فَقَالَ: أَرَدْتُ یَا رَسُولَ اللهِ أَنْ یُكْتَبَ لِی إِقْبَالِی إِلَى الْمَسْجِدِ وَرُجُوعِی إِلَى أَهْلِی إِذَا رَجَعْتُ، فَقَالَ:أَعْطَاكَ اللهُ ذَلِكَ كُلَّهُ، أَنْطَاكَ اللهُ جَلَّ وَعَزَّ مَا احْتَسَبْتَ كُلَّهُ أَجْمَعَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک (انصارکا)آدمی تھاجہاں تک میں جانتاہوں اہل مدینہ میں قبلہ روہوکرنمازپڑھنے والوں میں اس کاگھرسب سے دورتھا اور مسجدمیں کوئی نمازبھی اس سے نہ چوکتی تھی،میں نے اس سے کہااگرتو ایک گدھاخریدلے جس پر تو سوارہوکراندھیرے میں اورگرمیوں میں آیاکرے،اس نے کہاکہ میرے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کہ میرا گھر مسجد کے قریب ہو، اس کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتائی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تواس نے کہااے اللہ کے رسول!میری نیت یہ ہے کہ میرامسجدکی طرف چل کرآنااوریہاں سے اپنے گھر واپس جاناسب ہی لکھاجائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے تمہیں یہ سب عطافرمادیاجس اجروثواب کی تونے امیدکی ہے اللہ نے وہ سب عنایت فرمادیا۔[80]

عورتوں پراگرچہ جمعہ فرض نہیں ہے تاہم صحابیات رضی اللہ عنہن اس دن کی بہت عزت کرتی تھیں اوراس دن کی برکتوں میں عمدہ طریقوں سے شرکت فرماتی تھیں ۔

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ:كُنَّا نَفْرَحُ یَوْمَ الجُمُعَةِ قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ، تُرْسِلُ إِلَى بُضَاعَةَ – قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: نَخْلٍ بِالْمَدِینَةِ فَتَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ السِّلْقِ، فَتَطْرَحُهُ فِی قِدْرٍ، وَتُكَرْكِرُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِیرٍ، فَإِذَا صَلَّیْنَا الجُمُعَةَ انْصَرَفْنَا، وَنُسَلِّمُ عَلَیْهَا فَتُقَدِّمُهُ إِلَیْنَا، فَنَفْرَحُ مِنْ أَجْلِهِ، وَمَا كُنَّا نَقِیلُ وَلاَ نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الجُمُعَةِ

سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم جمعہ کے دن خوش ہواکرتے تھے،میں نے عرض کیاکس لئے؟ فرمایاکہ ایک بوڑھی صحابیہ رضی اللہ عنہن تھیں جومقام بضاعہ جایاکرتی تھیں ،ابن مسلمہ نے کہا بضاعہ مدینہ منورہ کاایک باغ تھاپھروہ وہاں سے چقندرلاکرہانڈی میں ڈالتی اورجوکے کچھ دانے پیس کر(اس میں ملاتی تھیں )جب ہم جمعہ کی نمازپڑھ کرواپس ہوتے توانہیں سلام کرنے آتے اوروہ یہ چقندرکی جڑمیں آٹاملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ،ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہواکرتے تھے، قیلولہ اور دوپہرکاکھاناہم جمعہ کے بعدتناول فرماتے تھے۔[81]

اسی طرح اگرچہ عورتوں پرجماعت کی پابندی فرض نہیں ہے اوراس بناپربعض صحابہ رضی اللہ عنہم جماعت میں اپنی عورتوں کی شرکت کوپسندبھی نہیں کرتے تھے تاہم بعض صحابیات رضی اللہ عنہن پراس کاکچھ اثر نہیں پڑتاتھااوروہ مناسب اوقات میں نماز باجماعت ادافرماتی تھیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَتِ امْرَأَةٌ لِعُمَرَ تَشْهَدُ صَلاَةَ الصُّبْحِ وَالعِشَاءِ فِی الجَمَاعَةِ فِی المَسْجِدِ، فَقِیلَ لَهَا: لِمَ تَخْرُجِینَ وَقَدْ تَعْلَمِینَ أَنَّ عُمَرَ یَكْرَهُ ذَلِكَ وَیَغَارُ؟ قَالَتْ: وَمَا یَمْنَعُهُ أَنْ یَنْهَانِی؟ قَالَ: یَمْنَعُهُ قَوْلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک عورت فجر اور عشاء کی نماز کیلئے مسجد میں جماعت میں شریک ہوتی تھی تو اس سے کہا گیا کہ تم کیوں باہر نکلتی ہوجب کہ تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو برا سمجھتے ہیں اور انہیں اس پر غیرت دلائی جاتی ہے،تو اس عورت نے کہا کہ پھر انہیں کون سی چیز اس بات سے روکتی ہے کہ وہ مجھے اس منع کریں ؟ لوگوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان انہیں اس سے مانع ہے کہ اللہ کی لونڈیوں کی مسجدوں سے نہ روکو۔[82]


نزول سور ة الجمعة ۹تا۱۱

اذان کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادفرماتے اورنمازخطبہ کے بعدادافرماتے تھے ،ابھی لوگوں کوجمعہ کے بارے میں ابھی تربیت لیتے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک واقعہ پیش آیا۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:قَالَ: بَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ، إِذْ قَدِمَتْ عِیرٌ إِلَى الْمَدِینَةِ،فَابْتَدَرَهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَمْ یَبْقَ مَعَهُ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًافِیهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھےاچانک ایک تجارتی قافلہ( اموال تجارت لے کر)مدینہ میں آگیا(اوراس وقت مدینہ میں غلہ کی شدیدکمی تھی) قافلہ کی اطلاع پاکرلوگ مال خریدنے کے لئے جمعہ کاخطبہ ونماز چھوڑکرچلے گئےحتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے،نہ جانے والوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔[83]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَدِمَتْ عِیرٌ إِلَى الْمَدِینَةِ فَابْتَدَرَهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى لَمْ یُبْقَ مَعَهُ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ تَتَابَعْتُمْ حَتَّى لَا یَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ لَسَالَ بِكُمُ الْوَادِی النَّارَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَیْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا} [الجمعة: 11]، وَقَالَ فِی الِاثْنَیْ عَشَرَ الَّذِینَ ثَبَتُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوکرہمیں بیان فرمارہے تھے کہ شام سےمدینہ منورہ کی طرف ایک تجارتی قافلہ آیاتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑکر اس کی طرف بڑھے یہاں تک کہ بارہ آدمیوں کے سواان میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ باقی نہ رہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم !جس کے قبضہ میں میری جان ہےاگریہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تومدینہ والوں پریہ وادی آگ بن کربھڑک اٹھتی،اس وقت اللہ تعالیٰ نے عتاب کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ’’اورجب انہوں نے تجارت اورکھیل تماشاہوتے دیکھاتواس کی طرف لپک گئے اورتمہیں کھڑا چھوڑدیا۔‘‘ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ بارہ آدمی جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے گئے ان میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ شامل تھے۔[84]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاةِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٩﴾‏ فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿١٠﴾‏ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَیْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ‎﴿١١﴾‏(الجمعہ)
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو، پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو،اورجب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے ،اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے ۔

چنانچہ فرمایاگیااے لوگوجوایمان لائے ہو!جب جمعہ کے دن نمازکے لئے اذان ہوجائے تواللہ کے ذکر(نماز)کی طرف دوڑواورخریدوفروخت چھوڑدو، اس سے مراد تیز تیز چلنانہیں ہے بلکہ خاص اہتمام کرناہے ،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹ [85]

ترجمہ:اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیےاور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے لیے تیزچل کرجانے سے منع فرمایاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَةَ، فَامْشُوا إِلَى الصَّلاَةِ وَعَلَیْكُمْ بِالسَّكِینَةِ وَالوَقَارِ وَلاَ تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّواوَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جب اقامت کوسنوتونمازکی طرف چل پڑواورسکینت اوروقارکواختیارکرواور تیز تیزنہ چلو،نمازکاجوحصہ پالواسے پڑھو اورجوحصہ تم سے نکل جائے اسے مکمل کرلو۔[86]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی قَتَادَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ جَلَبَةَ رِجَالٍ،فَلَمَّا صَلَّى قَالَ:مَا شَأْنُكُمْ؟قَالُوا: اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلاَةِ؟ قَالَ:فَلاَ تَفْعَلُوا إِذَا أَتَیْتُمُ الصَّلاَةَ فَعَلَیْكُمْ بِالسَّكِینَةِ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی آوازوں کوسنا جب آپ نمازسے فارغ ہوگئے توفرمایاکیابات ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ہم نے نمازکے لیے جلدی کی ہے،فرمایااس طرح نہ کروجب نماز کے لیے آؤتوسکینت کواختیارکرو،جوحصہ پالواسے پڑھ لواورجوتم سے نکل جائے اسے پوراکرلو۔[87]

یہ تمہارے لئے زیادہ بہترہے اگرتم جانوکہ جمعہ کی اذان ہونے کے بعدہرقسم کی خریدوفروخت اورہردوسری مصروفیت حرام ہے(فقہاء اسلام کااس پراتفاق ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعدبیع اورہرقسم کاکاروبارحرام ہے،ہاں بچوں ،عورتوں ،غلاموں ،بیماروں اورمسافروں کوجمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ رکھا گیاہے)ہاں نمازختم ہوجانے کے بعدتمہیں اجازت ہے کہ اللہ کی زمین پر منتشرہوجاؤاوراپنے جوکاروباربھی کرناچاہوکرو،

كَانَ عَرَّاكُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ إِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ انْصَرَفَ فَوَقَفَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ:اللهُمَّ، أَجَبْتُ دَعْوَتَكَ وَصَلَّیْتُ فَرِیضَتَكَ وَانْتَشَرْتُ كَمَا أَمَرْتَنِی، فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِكَ، وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ

عراک بن مالک رضی اللہ عنہ نمازجمعہ سے فراغت کے بعدمسجدکے دروازے پرکھڑے ہوکرکہاکرتے تھے اے اللہ!میں نے تیری دعوت کوقبول کیاتیرے عائدکردہ فریضہ نماز کواداکیا اورجیسے تونے حکم دیامیں زمین میں اپنی راہ لے رہاہوں پس اپنے فضل وکرم سے تومجھے رزق عطافرماکہ توسب سے بہتررزق عطافرمانے والاہے۔[88]

پھرشاہانہ اندازسے فرمایااگرتم اللہ وحدہ لاشریک کوکثرت سے یادرکھوگے تودنیا وآخرت کی فلاح وکامرانی تمہارامقدرہوگے ۔

[1] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ مَنْ تَجِبُ عَلَیْهِ الْجُمُعَةُ۱۰۵۶،سنن دارقطنی۱۵۹۰،السنن الصغیرللبیہقی۶۱۲،السنن الکبریٰ للبیہقی ۵۵۸۱، معرفة السنن والآثار۶۲۹۱،فتح الباری۱۵۸؍۸

[2] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ۱۰۶۷

[3] مسند احمد۱۰۹۷۰،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۷۶،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ فَضْلِ یَوْمِ الجُمُعَةِ۴۸۸،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ ذِكْرِ فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۳۷۴، مسند البزار ۸۵۹۵،السنن الکبریٰ للنسائی۱۶۷۵،صحیح ابن خزیمة۱۷۲۹،المعجم الاوسط۴۳۳۵،السنن الکبریٰ للبیہقی۶۰۰۳،شعب الایمان۲۷۰۹

[4] مسند احمد۷۴۰۱،صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ فَرْضِ الجُمُعَةِ ۸۷۶،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ هِدَایَةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ ۱۹۷۸،سنن نسائی کتاب الجمعة باب إِیجَابُ الْجُمْعَةِ ۱۳۶۸، مسند البزار ۸۷۱۶،السنن الکبریٰ للنسائی۱۶۶۶،صحیح ابن خزیمة۱۷۲۰،سنن الدارقطنی۱۵۷۸،السنن الصغیرللبیہقی۵۹۸،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۵۶۶،معرفة السنن والآثار ۶۲۷۱ ، فتح الباری۸۷۶،۳۴۵؍۲

[5] مسنداحمد۲۵۰۲۹،السنن الکبریٰ للبیہقی۲۴۴۲،شعب الایمان۲۷۰۷

[6] مسنداحمدحدیث جنادة بن امیة الاذدی۴۳۸؍۳۹

[7] مسند البزار ۲۸۸۱،المعجم الاوسط۲۰۸۴،۶۷۱۷،معرفة السنن والآثار۶۶۹۰

[8] السنن الکبریٰ للنسائی ۱۷۰۵، مسندابی یعلی۶۱۵۸،صحیح ابن خزیمة۱۷۶۹،السنن الصغیرللبیہقی۶۱۸،شرح السنة للبغوی۱۰۶۱

[9] صحیح بخاری کتاب الجمعہ بَابُ فَضْلِ الجُمُعَةِ۸۸۱، صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ الطِّیبِ وَالسِّوَاكِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۹۶۴،جامع ترمذی کتاب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّبْكِیرِ إِلَى الجُمُعَةِ۴۹۹،سنن نسائی کتاب الجمعہ باب وَقْتُ الْجُمُعَةِ۱۳۸۹،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۳۵۱، مسنداحمد۹۹۲۶،صحیح ابن حبان ۲۷۷۵،السنن الکبری للبیہقی۵۸۶۳،شعب الایمان۲۷۳۳،معرفة السنن والآثار۶۵۸۸،شرح السنة للبغوی۱۰۶۳

[10] سنن ابوداودکتاب الصوٰة بَابُ فَضْلِ الْجُمُعَةِ ۱۰۵۱،مسنداحمد۷۱۹،السنن الکبریٰ للبیہقی۳۸۳۴

[11] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ السَّاعَةِ الَّتِی فِی یَوْمِ الجُمُعَةِ۹۳۵،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابٌ فِی السَّاعَةِ الَّتِی فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۷۳،مسنداحمد۱۰۳۰۲،السنن الکبری للنسائی۱۷۶۰،۱۰۲۳۰،۵۹۹۸،شعب الایمان۲۷۱۱

[12] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابٌ فِی السَّاعَةِ الَّتِی فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۷۵،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ الْإِجَابَةِ أَیَّةُ سَاعَةٍ هِیَ فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۰۴۹،صحیح ابن خزیمة۱۷۳۹،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۹۹۹،شعب الایمان۲۷۲۰

[13] زادالمعاد۳۷۶؍۱

[14] نیل الاوطار ۲۹۰؍۳

[15] نیل الاوطار۳۹۳؍۳

[16] الجمعة ۹

[17] فتح الباری۳۵۴؍۲

[18] صحیح مسلم کتاب الجمعةبَابُ التَّغْلِیظِ فِی تَرْكِ الْجُمُعَةِ۲۰۰۲، مسنداحمد۲۲۹۰،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ التَّشْدِیدِ فِی التَّخَلُّفِ عَنِ الْجُمْعَةِ عن ابن عباس ۱۳۷۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ التَّغْلِیظِ فِی التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ ۷۹۴،سنن الدارمی ۱۶۱۱،مسندابی یعلی ۵۷۴۲،صحیح ابن حبان ۲۷۸۵،السنن الصغیرللبیہقی ۵۹۹،السنن الکبریٰ للبیہقی ۵۵۷۱، شعب الایمان ۲۷۴۸،شرح السنة للبغوی ۱۰۵۴،فتح الباری ۶۰؍۸

[19] شرح النووی علی مسلم ۱۵۲؍۶

[20] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابٌ فِی فَرْضِ الْجُمُعَةِ ۱۰۸۱،مسندابی یعلی ۱۸۵۶،المعجم الاوسط ۱۲۶۱،شعب الایمان ۲۷۵۴،فتح الباری ۱۹۵؍۶

[21] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ، وَبَیَانِ التَّشْدِیدِ فِی التَّخَلُّفِ عَنْهَا۱۴۸۵،مسنداحمد۳۸۱۶،مسندابی یعلی۵۳۳۵، صحیح ابن خزیمة۱۸۵۳،المعجم الاوسط ۳۶۳۳،المعجم الصغیر للطبرانی ۴۷۹،مستدرک حاکم۱۰۸۰،السنن الکبری للبیہقی۵۵۷۵

[22] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ التَّشْدِیدِ فِی تَرْكِ الْجُمُعَةِ ۱۰۵۲،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ التَّشْدِیدِ فِی التَّخَلُّفِ عَنِ الْجُمْعَةِ۱۳۷۰،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی تَرْكِ الجُمُعَةِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ۵۰۰،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابٌ فِیمَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ۱۱۲۵، مسنداحمد۱۵۴۹۸،سنن الدارمی ۱۶۱۲،مسندابی یعلی۱۶۰۰،صحیح ابن خزیمة۱۸۵۸،صحیح ابن حبان۲۷۸۶،المعجم الکبیرللطبرانی۹۱۸،مستدرک حاکم۱۰۳۴،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۵۷۶،شعب الایمان ۲۷۴۳،معرفة السنن والآثار۶۶۶۷،شرح السنة للبغوی ۱۰۵۳

[23] سنن ابو داودکتاب الجمعہ بَابُ كَفَّارَةِ مَنْ تَرَكَهَا۱۰۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابٌ فِیمَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ ۱۱۲۸،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ كَفَّارَةِ مَنْ تَرَكَ الْجُمْعَةَ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ ۱۳۷۳،مسنداحمد۲۰۰۸۷،سنن الدارمی ۱۱۵۱،صحیح ابن خزیمة۱۸۶۱،صحیح ابن حبان ۲۷۸۹،مستدرک حاکم ۱۰۳۵،شعب الایمان ۲۷۵۶

[24] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ۹۰۴ ،صحیح مسلم کتاب الجمعة باب صلوٰة الجمعة حین تزول الشمس۱۹۹۲،سنن ابوداود کتاب الصلوٰة بَابٌ فِی وَقْتِ الْجُمُعَةِ۱۰۸۴،سنن نسائی کتاب الجمعة باب وَقْتُ الْجُمُعَةِ ۱۳۹۲ ،جامع ترمذی کتاب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی وَقْتِ الجُمُعَةِ۵۰۳، مسنداحمد۱۲۲۹۹، مسند البزار ۶۱۸۶، السنن الصغیرللبیہقی ۶۱۹،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۶۶۹،شرح السنة للبغوی۱۰۶۶

[25] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ۴۱۶۸،صحیح مسلم کتاب العمعة بَابُ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ حِینَ تَزُولُ الشَّمْسُ ۱۹۹۲،سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابٌ فِی وَقْتِ الْجُمُعَةِ۱۰۸۵،سنن نسائی کتاب الجمعة باب وَقْتُ الْجُمُعَةِ۱۳۹۲،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی وَقْتِ الْجُمُعَةِ۱۱۰۰،مسنداحمد۱۶۴۹۶،سنن الدارمی۱۵۸۷،صحیح ابن حبان۱۵۱۱،السنن الکبری للبیہقی۵۶۷۴

[26] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِی الْخُطْبَةِ۱۹۸۷

[27] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۹۰۶، صحیح ابن خزیمة۱۸۴۲،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۶۷۷

[28] سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۹۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵،مسندابی یعلی ۷۲۶۲، صحیح ابن حبان ۲۶۶،شرح السنة للبغوی ۹۱

[29] صحیح مسلم کتاب الجمعہ بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۲۰۰۹،مسندابی یعلی ۱۶۴۲، صحیح ابن حبان۲۷۹۱

[30] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الخُطْبَةِ قَائِمًا۹۲۰، صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ ذِكْرِ الْخُطْبَتَیْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِیهِمَا مِنَ الْجَلْسَةِ۱۹۹۴

[31] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ ذِكْرِ الْخُطْبَتَیْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِیهِمَا مِنَ الْجَلْسَةِ۱۹۹۶،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ الْخُطْبَةِ قَائِمًا۱۰۹۳، مسند احمد۲۰۸۵۱،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۷۰۶

[32] صحیح مسلم کتاب الجمعہ بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۲۰۰۴،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی الجُلُوسِ بَیْنَ الخُطْبَتَیْنِ۵۰۷،سنن نسائی کتاب صلاة العیدین الْقَصْدُ فِی الْخُطْبَةِ ۱۵۸۳، المعجم الکبیرللطبرانی ۱۹۲۸،السنن الکبریٰ للبیہقی ۵۷۶۱،مسنداحمد۲۰۸۸۵،سنن الدارمی۱۵۹۸،مسند البزار ۴۲۵۳،السنن الکبریٰ للنسائی۱۸۰۰،شرح السنة للبغوی۱۰۷۷

[33] آل عمران۱۰۲

[34] النساء ۱

[35] الاحزاب ۷۰،۷۱

[36] یونس۱۰

[37] صحیح مسلم کتاب الجمعةبَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۲۰۰۵،۲۰۰۸ ، سنن نسائی کتاب صلاة العیدین باب كَیْفَ الْخُطْبَةُ۱۵۷۹ ،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ خُطْبَةِ النِّكَاحِ ۱۸۹۳،وکتاب السنةبَابُ اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ۴۵،سنن الدارمی ۹۶،صحیح ابن خزیمة۱۷۸۵، السنن الکبریٰ للنسائی ۱۷۹۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۸۵۲۱،مسند احمد۴۱۱۵،۱۴۳۳۴، مسند ابی یعلی ۲۱۱۱

[38] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ۲۰۱۴،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ الرَّجُلِ یَخْطُبُ عَلَى قَوْسٍ۱۱۰۰،سنن نسائی کتاب الجمعة بَاب الْقِرَاءَةِ فِی الْخُطْبَةِ ۱۴۱۲

[39] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ۲۰۰۵،سنن نسائی کتاب صلاة العیدین باب كَیْفَ الْخُطْبَةُ۱۵۷۹،سنن ابن ماجہ کتاب السنةبَابُ اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ۴۵،مسندابی یعلی۲۱۱۱،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۷۵۳،شرح السنة للبغوی۱۰۷۸،معجم ابن عساکر۵۳۴

[40] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ۹۱۸

[41] فوائدتمام ۴۹۱،معجم ابن عساکر۱۳۵۸،المجالسةوجواھرالعلم ۱۲۸۸،۱۰۸؍۴

[42] جامع ترمذی ابواب القیامة باب ۱۵۱۴ح۲۴۶۰

[43] المواھب الدینة۲۷۹؍۳،تفسیرقرطبی۱۱۶؍۱۸

[44] صحیح بخاری کتابالصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی السُّطُوحِ وَالمِنْبَرِ وَالخَشَبِ۳۷۷،کتاب الجمعةبَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ۹۱۷،صحیح مسلم بَابُ جَوَازِ الْخُطْوَةِ وَالْخُطْوَتَیْنِ فِی الصَّلَاةِ ۱۲۱۶،سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابٌ فِی اتِّخَاذِ الْمِنْبَرِ۱۰۸۰، مسنداحمد۲۲۸۷۱،السنن الکبریٰ للنسائی۸۲۰،المعجم الکبیرللطبرانی۵۹۹۲

[45] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ التَّحِیَّةُ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ۲۰۲۴

[46] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ مَنْ جَاءَ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ۹۳۱

[47] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ التَّحِیَّةُ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ۲۰۲۴،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ ۱۱۱۷، صحیح ابن خزیمة۱۸۳۵،صحیح ابن حبان۲۵۰۲،السنن الصغیرللبیہقی۶۳۲

[48] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْیَرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ ۴۴۴،جامع ترمذی ابواب الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ۳۱۶،سنن نسائی کتاب المساجدالْأَمْرُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْجُلُوسِ فِیهِ۷۳۱،مسنداحمد۲۲۵۲۳،سنن الدارمی۱۴۳۳، السنن الکبری للنسائی۸۱۱،السنن الکبری للبیہقی۴۹۲۲،معرفة السنن والآثار ۵۵۹۱

[49] جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّكْعَتَیْنِ إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ۵۱۱،حاشیہ

[50] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الإِنْصَاتِ یَوْمَ الجُمُعَةِ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ۹۳۴ ،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابٌ فِی الْإِنْصَاتِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فِی الْخُطْبَةِ ۱۹۶۵،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الكَلاَمِ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ۵۱۲،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ الْإِنْصَاتِ لِلْخُطْبَةِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۴۰۲،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الِاسْتِمَاعِ لِلْخُطْبَةِ وَالْإِنْصَاتِ لَهَا ۱۱۱۰،سنن ابوداود کتاب الصلوةبَابُ الْكَلَامِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ۱۱۱۲، مسنداحمد۷۶۸۶،سنن الدارمی۱۵۸۹،صحیح ابن خزیمة۱۸۰۵،صحیح ابن حبان۲۷۹۳

[51] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِی الْخُطْبَةِ۱۹۸۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی ذَلِكَ۱۰۹۰،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ فَضْلِ الْجُمُعَةِ۱۰۵۰، جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۴۹۸،مسنداحمد۹۴۸۴،صحیح ابن خزیمة۱۸۱۸،صحیح ابن حبان۲۷۷۹،مستدرک حاکم۱۰۴۰،شرح السنة للبغوی۳۳۶

[52] جامع ترمذی الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الغُسْلِ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۴۹۶،سنن ابوداود کتاب الصلوٰة بَابٌ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۳۴۵ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۰۸۷،مسنداحمد۱۶۱۷۳،المعجم الاوسط۱۴۵۲،معرفة السنن والآثار۶۵۹۱

[53]سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ تَخَطِّی رِقَابِ النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۱۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ تَخَطِّی النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۱۱۵،مسنداحمد۱۷۶۹۷،السنن الکبریٰ للنسائی۱۷۱۸،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۸۸۶،مستدرک حاکم ۱۰۶۱،صحیح ابن خزیمة ۱۸۱۱، صحیح ابن حبان ۲۷۹۰

[54]سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ اللُّبْسِ لِلْجُمُعَةِ۱۰۷۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلاتہ بَابُ مَا جَاءَ فِی الزِّینَةِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۰۹۶، صحیح ابن خزیمة۱۷۶۵،صحیح ابن حبان۲۷۷۷،المعجم الکبیرللطبرانی عن عبداللہ بن سلام۳۷۳ ،السنن الکبری للبیہقی۵۹۵۲،شعب الایمان عن انس ۲۷۳۲، شرح السنة للبغوی۱۰۷۶

[55] سنن ابوداود کتاب الصلوٰةبَابُ التَّحَلُّقِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ ۱۰۶۶،جامع ترمذی ابواب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ البَیْعِ وَالشِّرَاءِ وَإِنْشَادِ الضَّالَّةِ وَالشِّعْرِ فِی الْمَسْجِدِ ۳۲۲،سنن نسائی کتاب المساجد النَّهْیُ عَنِ الْبَیْعِ وَالشِّرَاءِ فِی الْمَسْجِدِ وَعَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ۷۱۵،مسنداحمد۶۶۷۶،السنن الکبری للنسائی۷۹۵،صحیح ابن خزیمة۱۳۰۴

[56] المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۴۵۲،صحیح ابن حبان۶۷۶۱

[57] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ كَرَاهَةِ صِیَامِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ مُنْفَرِدًا۲۶۸۴ ،السنن الکبریٰ للنسائی ۲۷۶۴، السنن الکبریٰ للبیہقی۸۴۹۰

[58] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ مِنْ أَیْنَ تُؤْتَى الجُمُعَةُ، وَعَلَى مَنْ تَجِبُ ۹۰۲،صحیح مسلم کتاب الجمعةبَابُ وُجُوبِ غُسْلِ الْجُمُعَةِ عَلَى كُلِّ بَالِغٍ مِنَ الرِّجَالِ، وَبَیَانِ مَا أُمِرُوا بِهِ۱۹۵۸ ،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۶۶۶

[59] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الرُّخْصَةِ فِی تَرْكِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۳۵۳،المعجم الکبیرللطبرانی۱۱۵۴۸،السنن الکبریٰ للبیہقی۱۴۰۷

[60] سنن ابودودکتاب الطہارة بَابٌ فِی الرُّخْصَةِ فِی تَرْكِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۳۵۴،جامع ترمذی کتاب الجمعة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۴۹۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی ذَلِكَ ۱۰۹۱،سنن نسائی کتاب الجمعة بَابُ الرُّخْصَةِ فِی تَرْكِ الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۳۸۱

[61] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الدُّهْنِ لِلْجُمُعَةِ۸۸۳،مصنف ابن ابی شیبة۴۵۷، مسند احمد ۲۳۷۱۰،المعجم الکبیرللطبرانی۶۱۹۰،السنن الکبری للبیہقی۶۱۹۰

[62] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ یَوْمَ الجُمُعَةِ، وَهَلْ عَلَى الصَّبِیِّ شُهُودُ یَوْمِ الجُمُعَةِ، أَوْ عَلَى النِّسَاءِ۸۷۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْجُمُعَةِ  ۱۹۵۱،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی الاِغْتِسَالِ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۴۹۲،سنن نسائی کتاب الجمعةبَابُ حَضِّ الْإِمَامِ فِی خُطْبَتِهِ عَلَى الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۴۰۸،مصف ابن ابی شیبة۴۹۹۱، مسنداحمد۵۹۶۱،سنن الدارمی۱۵۷۷،صحیح ابن خزیمة۱۷۵۲،صحیح ابن حبان۱۲۲۴،شعب الایمان۲۷۶۷

[63] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الطِّیبِ لِلْجُمُعَةِ۸۸۰

[64] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ الطِّیبِ وَالسِّوَاكِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۹۶۰ ،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۳۴۴،سنن نسائی کتاب الجمعةبَابُ الْأَمْرِ بِالسِّوَاكِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۳۷۶ ،السنن الکبریٰ للنسائی۱۶۷۹،السنن الکبریٰ للبیہقی۵۹۵۵

[65] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ یَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ وَغَیْرِهِمْ؟۸۹۷ ،وكِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الغَارِ ۵۴، ۳۴۸۷، صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ الطِّیبِ وَالسِّوَاكِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۹۶۳،السنن الکبریٰ للبیہقی۱۴۲۱

[66] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ الوُضُوءِ قَبْلَ الغُسْلِ ۲۴۸،صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ صِفةِ غُسْلِ الْجَنَابَةِ۷۱۸،السنن الکبریٰ للنسائی۲۴۱،صحیح ابن حبان۱۱۹۶،سنن الدارقطنی۴۰۲،السنن الکبریٰ للبیہقی۸۲۳

[67] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ الوُضُوءِ قَبْلَ الغُسْلِ ۲۴۹،وبَابُ الغُسْلِ مَرَّةً وَاحِدَةً ۲۵۷، وبَابُ المَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ فِی الجَنَابَةِ ۲۵۹،وبَابُ مَسْحِ الیَدِ بِالتُّرَابِ لِتَكُونَ أَنْقَى ۲۶۰ ،وبَابُ مَنْ أَفْرَغَ بِیَمِینِهِ عَلَى شِمَالِهِ فِی الغُسْلِ۲۶۵ ،وبَابُ مَنْ تَوَضَّأَ فِی الجَنَابَةِ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ، وَلَمْ یُعِدْ غَسْلَ مَوَاضِعِ الوُضُوءِ مَرَّةً أُخْرَى ۲۷۴،وبَابُ التَّسَتُّرِ فِی الغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ ۲۸۱،سنن ابوداودکتاب الطھارةبَابٌ فِی الْغُسْلِ مِنَ الجَنَابَةِ ۲۴۲،۲۴۵

[68] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الوُضُوءِ بَعْدَ الغُسْلِ ۱۰۷،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ۲۵۰،سنن نسائی کتاب الطہارة بَابُ تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ بَعْدِ الْغُسْلِ۲۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ ۵۷۹،مصنف ابن ابی شیبة۷۴۴،مسنداحمد۲۴۳۸۹،مسندابی یعلی۴۸۳۵،مستدرک حاکم ۵۴۷،السنن الکبریٰ للبیہقی۸۵۲

[69] سنن ابوداودكِتَاب الطَّهَارَةِ بَابٌ فِی الْغُسْلِ مِنَ الجَنَابَةِ۲۴۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةً۱۰۶

[70] مسنداحمد۲۶۱۶۶

[71] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَیْضِ بَابُ حُكْمِ ضَفَائِرِ الْمُغْتَسِلَةِ۷۴۴

[72] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابٌ فِی الْحَائِضِ كَیْفَ تَغْتَسِلُ ۶۴۱

[73] صحیح مسلم کتاب الحیصبَابُ حُكْمِ ضَفَائِرِ الْمُغْتَسِلَةِ ۷۴۷

[74] صحیح بخاری كِتَابُ الغُسْلِ بَابٌ هَلْ یُدْخِلُ الجُنُبُ یَدَهُ فِی الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ یَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ یَكُنْ عَلَى یَدِهِ قَذَرٌ غَیْرُ الجَنَابَةِ۲۶۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْحَیْضِ بَابُ الْقَدْرِ الْمُسْتَحَبِّ مِنَ الْمَاءِ فِی غُسْلِ الْجَنَابَةِ، وَغُسْلِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِی إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِی حَالَةٍ وَاحِدَةٍ، وَغُسْلِ أَحَدِهَمَا بِفَضْلِ الْآخَرِ۷۳۱،صحیح ابن حبان۱۲۶۲

[75] صحیح ابن حبان۱۱۱۱

[76] سنن ابوداودكِتَاب الْحَمَّامِ باب النھی عن دخول الحمام۴۰۱۰

[77] مسنداحمد۱۴۶۵۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۱۴۶۲

[78] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ كَثْرَةِ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ ۱۵۱۹،مسند احمد۱۴۵۶۶، صحیح ابن خزیمة ۴۵۱،شعب الایمان۲۶۲۹

[79] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ كَثْرَةِ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ ۱۵۲۰،السنن الکبری للبیہقی۴۹۸۱

[80] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ كَثْرَةِ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ۱۵۱۴ ،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِیفَضْلِ الْمَشْیِ إِلَى الصَّلَاةِ ۵۵۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَاب الْأَبْعَدُ فَالْأَبْعَدُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَعْظَمُ أَجْرًا ۷۸۲،مسنداحمد۲۱۲۱۶،السنن الکبری للبیہقی۴۹۷۹،۲۰۱۰۵،شعب الایمان۲۶۲۵

[81] صحیح بخاری کتاب الاستئذان بَابُ تَسْلِیمِ الرِّجَالِ عَلَى النِّسَاءِ، وَالنِّسَاءِ عَلَى الرِّجَالِ ۶۲۴۸ ،شعب الایمان ۸۵۰۴

[82] صحیح بخاری كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ یَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ وَغَیْرِهِمْ؟۹۰۰ ، مسند السیراج۸۰۰،السنن الکبری للبیہقی۵۳۷۰،مصنف ابن ابی شیبة۷۶۰۸

[83]صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَیْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۲۰۰۰

[84] مسندابی یعلی۱۹۷۹

[85] بنی اسرائیل۱۹

[86]صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ لاَ یَسْعَى إِلَى الصَّلاَةِ، وَلْیَأْتِ بِالسَّكِینَةِ وَالوَقَارِ ۶۳۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ إِتْیَانِ الصَّلَاةِ بِوَقَارٍ وَسَكِینَةٍ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِهَا سَعْیًا۱۳۵۹، مسنداحمد۱۰۱۰۳

[87] صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: فَاتَتْنَا الصَّلاَةُ۶۳۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ إِتْیَانِ الصَّلَاةِ بِوَقَارٍ وَسَكِینَةٍ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِهَا سَعْیًا۱۳۶۳

[88] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۵۶؍۱۰

Related Articles