بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ بنی اسرائیل(حصہ سوم)

أَفَأَمِنْتُمْ أَنْ یَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِیلًا ‎﴿٦٨﴾‏ أَمْ أَمِنْتُمْ أَنْ یُعِیدَكُمْ فِیهِ تَارَةً أُخْرَىٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهِ تَبِیعًا ‎﴿٦٩﴾‏(بنی اسرائیل )
’’تو کیا تم اس سے  بے خوف ہوگئے  ہو کہ تمہیں  خشکی کی طرف (لے  جا کر زمین) میں  دھنسا دے  یا تم پر پتھروں  کی آندھی بھیج دے ،  پھر تم اپنے  لیے  کسی نگہبان کو نہ پا سکو،  کیا تم اس بات سے  بے خوف ہوگئے  ہو کہ   اللہ   تعالیٰ پھر تمہیں  دوبارہ دریا کے  سفر میں  لے  آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں  کے  جھونکے  بھیج دے  اور تمہارے  کفر کے  باعث تمہیں  ڈبو دے ،  پھر تم اپنے  لیے  ہم پر اس کادعویٰ (پیچھا) کرنے  والا کسی کو نہ پاؤ گے  ۔ ‘‘

اظہارقدرت واختیار:

اللہ   تعالیٰ نے  ان لوگوں  کے  اس کردارپرفرمایاکہ سمندرسے  نکلنے  کے  بعدتم جو   اللہ   وحدہ لاشریک ، مشکل کشاوحاجت رواکوبھول جاتے  ہو، جس کی قدرت وکمال اوراپنے  معبودوں  کی بے  بسی ولاچارگی کاتمہیں  خوب اندازہ ہوچکاہوتا ہے  توکیاتمہیں  معلوم نہیں  کہ وہ خشکی میں  بھی تمہاری گرفت کرسکتاہے  ، وہ قارون کی طرح تمہیں  زمین میں  دھنسا دے  ، یاقوم لوط اوراصحاب فیل کی طرح تم پرپتھروں  کی بارش کرکے  تمہیں  ہلاک کردے  اورتم اس کے  عذاب سے  بچانے  والاکوئی حمایتی نہ پاؤ، جیسے  فرمایا

 ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙاَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا۝۰ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ۝۱۷ [1]

ترجمہ: کیا تم اس بات سے  بے خوف ہو گئے  ہو کہ وہ (ہستی) جو آسمان میں  ہے  تمہیں  زمین میں  دھنسا دے  اور یہ زمین یکایک ہچکولے  کھانے  لگے ؟کیاتم اس سے  بے  خوف ہوکہ وہ جو آسمان میں  ہے  تم پرپتھراؤکرنے  والی ہوابھیج دے  ؟پھرتمہیں  معلوم ہوجائے  گاکہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے ؟۔

اس لئے  یہ نہ سوچوکہ سمندرکے  سوا کہیں  اورعذاب نہیں  آسکتااوراگرتم یہی سمجھتے  ہوتوکیاتم اس بات سے  محفوظ ہوکہ وہ تمہیں  دوبارہ سمندرمیں  ہی لے  جائے  اور تمہارے  کفرکے  سبب ایسی تیزوتندہوابھیج دے  جو کشتیوں  کو توڑ کر ڈبو دے  توہم پرانگلی اٹھانے  والایاہم سے  پوچھنے  والاکون ہے  کہ تونے  ہمارے  بندوں  کوکیوں  ڈبودیا، اس لئے  ان بے  بس ولاچارمعبودوں  کی پرستش سے  باز آ جاؤ اور مہلت کے  لمحوں  سے  فائدہ اٹھاکر   اللہ   وحدہ لاشریک کے  حضوراپنی گردنیں  جھکادو ۔

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا ‎﴿٧٠﴾(بنی اسرائیل)
یقیناً ہم نے  اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں  خشکی اور تری کی سواریاں  دیں  ،  اور انہیں  پاکیزہ چیزوں  کی روزیاں  دیں  اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں  فضیلت عطا فرمائی ۔

بنی آدم کی تکریم :

یہ توہماری بخشش اورکرم ہے  کہ ہم نے  بنی آدم کوزمین پرخلیفہ بنایااورمکمل اختیارات کے  ساتھ زمین میں  بسایا ، انسان کووہ امانت عطافرمائی جس امانت کے  بوجھ کو آسمانوں  ،  پہاڑوں  اورزمین نے  اٹھانے  سے  انکارکردیاتھا، جیسے  فرمایا

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۔ ۔ ۔ ۝۷۲ۙ[2]

ترجمہ:ہم نے  اس امانت کو آسمانوں  اور زمین اور پہاڑوں  کے  سامنے  پیش کیا تو وہ اسے  اٹھانے  کے  لیے  تیار نہ ہوئے  اور اس سے  ڈر گئے  مگر انسان نے  اسے  اٹھا لیا ۔

ہم نے  بنی آدم کی ہدایت ورہنمائی کے  لئے  انبیاء ورسل بھیج کراوران پرکتابیں  نازل کرکے  بنی آدم کواکرام بخشا، یہ بنی آدم کی ہرلحاظ سے  عزت وتکریم ہی تو ہے  کہ   اللہ   انسان کوخشکی وتری اورہواؤں  میں  اٹھائے  پھرتاہے  ، ہم نے  کائنات کی تمام چیزوں  مثلاًسورج ،  چاند ،  ہوا، پانی ، پہاڑوں  وغیرہ کوانسان کی خدمت کے  لئے  لگادیاہے  اورانسان اس سے  فیض یاب ہورہاہے  ، جیسے  فرمایا

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۱۳ [3]

ترجمہ:اس نے  زمین اور آسمانوں  کی ساری ہی چیزوں  کو تمہارے  لیے  مسخر کردیا سب کچھ اپنے  پاس سے ، ــــ اس میں  بڑی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے  لیے  جو غور و فکر کرنے  والے  ہیں  ۔

ہم نے  بہ حیثیت انسان کے ، ہر انسان کوچاہے  وہ مومن ہو یا کافر دوسری مخلوقات ، حیوانات ،  جمادات و نباتات وغیرہ سے  متعدداعتبارسے  شرف وفضل عطافرمایاہے  ، ہم نے  جس طرح انسان کوشکل وصورت، قدوقامت اورہیئت عطافرمائی ہے  وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں  ، جیسے  فرمایا

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [4]

ترجمہ:ہم نے  انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا ۔

ہم نے  انسان کو عقل وشعورعطافرمایا ہے  جس کے  ذریعے  سے  وہ اپنے  آرام وراحت کے  لئے  بے  شمارچیزیں  ایجادکرتاہے ، حیوانات وغیرہ اس سے  محروم ہیں  ، اسی عقل وشعورسے  انسان غلط وصحیح، مفیدومضر اورحسین وقبیح کے  درمیان تمیز کرنے  پرقادرہے  ، اسی عقل وشعورکے  ذریعے  سے  انسان ہماری دیگرمخلوقات سے  فائدہ اٹھاتااورانہیں  اپنے  تابع رکھتاہے ، اسی عقل وشعورسے  وہ بلند و بالا مضبوط عمارتیں  ،  زراعت وبجلی حاصل کرنے  کے  لئے  پانی ذخیرہ کرنے  کے  ڈیم، خلامیں  پہنچنے  کے  لئے  راکٹ تیارکرتا ہے ، موسم کی شدت سے  محفوظ رہنے  کے  لئے  لباس اور دوسری چیزیں  تیارکرتاہے  ،  ہم نے  انسان کوقوت گویائی عطافرمائی ہے  جس سے  دوسری مخلوقات محروم ہیں  ، انسان کوبہترین خوشگواراورخوش ذائقہ کھانے  پینے  کی چیزیں  دی ہیں  مگرپھربھی وہ اس ہستی کاشکرادانہیں  کرتاجس نے  اسے  بے  شمارنعمتوں  سے  نوازاہے  ۔

یَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِیَ كِتَابَهُ بِیَمِینِهِ فَأُولَٰئِكَ یَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا ‎﴿٧١﴾‏ وَمَنْ كَانَ فِی هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِیلًا ‎﴿٧٢﴾(بنی اسرائیل)
’’ جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے  پیشوا سمیت بلائیں  گے ، پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں  ہاتھ میں  دے  دیا گیا وہ تو شوق سے  اپنا نامہ اعمال پڑھنے  لگیں  گے  اور دھاگے  کے  برابر (ذرہ برابر) بھی ظلم نہ کئے  جائیں  گے ،  اور جو کوئی اس جہان میں  اندھا رہا وہ آخرت میں  بھی اندھا اور راستے  سے  بہت ہی بھٹکا ہوا رہے  گا ۔ ‘‘

بدقسمت انسان کون :

اللہ   وحدہ لاشریک نے  اپنی قدرت سے  اس وسیع وعریض کائنات کو تخلیق فرمایا ، بلندوبالاچھتری کی طرح سات آسمان تخلیق فرمائے ، انسان کے  قیام کے  لئے  وسیع وعریض ہموارزمین بنائی ، زمین میں  میخوں  کی طرح نصب بلندوبالاٹھوس پہاڑگاڑدیے  تاکہ وہ انسانوں  کولے  کرایک طرف ڈھلک ہی نہ جائے ، معاشی وجسمانی ضروریات کے  لئے  سورج ، چاند، ستاروں  کی مخصوص گردشیں  مقررفرمائیں  ،  انسانی ضروریات کے  لئے  بدلتے  موسم اورہرموسم کے  لحاظ سے  انواع واقسام کے  پھل ،  مختلف اناج ، سبزیوں  اوررنگارنگ کھلتے  پھولوں  کوپیداکیا،  انسان اوردوسری مخلوقات کی پیدائش کانظام بنایا ،  حیوانات وجنگلی درندے ، زمین پررینگتے  بے  شمار حشرات الارض اور ہوا میں  اڑتے  رنگارنگ پرندے  تخلیق کیے  ، انگنت سمندری مخلوقات تخلیق فرمائیں  اورافزائش نسل کے  لئے  ہرمخلوق کاجوڑاجوڑابنایا۔

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [5]

ترجمہ:اور ہر چیز کے  ہم نے  جوڑے  بنائے  ہیں  شاید کہ تم اس سے  سبق لو ۔

۔ ۔ ۔ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۔ ۔ ۔ ۝۳ [6]

ترجمہ: اسی نے  ہر طرح کے  پھلوں  کے  جوڑے  پیدا کیے  ہیں  ۔

پھرخشکی وتری کی ہرمخلوق کے  لیے  رزق کا بندوبست فرمایا، انسانوں  اوردوسری مخلوقات کے  رزق کے  لئے  آسمان سے  بارش برسائی جس سے  مردہ زمین پھرسے  ہری بھری ہوجاتی ہے  ، بارشوں  کے  پانی کولے  کرجانے  کے  لئے  بہتے  گنگناتے  دریاؤں  کے  راستے  مقررفرمائے ، سخت پہاڑوں  کے  سینے  کو چیر کربہتے  میٹھے  صاف پانی کے  چشمے  نکالے  وغیرہ،   اللہ   تعالیٰ کی ان چندقدرتوں  کودیکھ کربھی کوئی انسان اپنی بدبختی کے  سبب   اللہ   وحدہ لاشریک کے  حضورجھک جانے  کے  بجائے  شرک میں  مبتلارہے  ،    اللہ   رب العزت کوچھوڑکر باطل معبودوں  کے  آستانوں  پرسر جھکائے  ، ان کی قبروں  پرعرس منائے  ،  ان کی خوشنودی کے  لئے  نذرونیازپیش کرے  اورجانورذبح کرے  ، ان کی درگاہوں  پردیگیں  چڑھائے ، انہیں  مشکل کشا، حاجت روا، پکاروں  کو سننے  والا، خزانے  بخشنے  والا سمجھ کرانہیں  پکارے  ،  توفرمایاقیامت کے  روزجب کہ ہم ہرانسانی گروہ کواس کے  پیشوا کے  ساتھ بلائیں  گے  ، بعض لوگ پیشواسے  پیغمبر مرادلیتے  ہیں  ، یعنی ہرامت کواس کے  پیغمبرکے  حوالے  سے  پکاراجائے  گاجیسے  فرمایا

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۴۷ [7]

ترجمہ:ہرامت کے  لئے  ایک رسول ہے  ، پھرجب کسی امت کے  پاس اس کارسول آجاتاہے  تواس کافیصلہ پورے  انصاف کے  ساتھ چکا دیا جاتا ہے  اوراس پرذرہ برابرظلم نہیں  کیاجاتا۔

بعض اس سے  الہامی کتابیں  مرادلیتے  ہیں  کہ ہرگروہ کواے  اہل تورات!اے  اہل انجیل!اوراے  اہل قرآن وغیرہ کہہ کرپکاراجائے  گا، عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما اس سے  نامہ اعمال مرادلیتے  ہیں  ۔

یعنی ہرشخص کو جب بلایاجائے  گاتواس کانامہ اعمال اس کے  ہاتھ میں  ہوگااوراسی کے  مطابق فیصلہ کیاجائے  گا، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۝۱۲ۧ [8]

ترجمہ:اور ہم نے  ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں  درج کر رکھا ہے ۔

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [9]

ترجمہ: اور نامہ اعمال سامنے  رکھ دیا جائے  گااس وقت تم دیکھوگے  کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے  انداجات سے  ڈررہے  ہوں  گے  اور کہہ رہے  ہوں  گے  کہ ہائے  ہماری کم بختی!یہ کیسی کتاب ہے  کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں  رہی جواس میں  درج نہ ہوگئی ہو، جوکچھ انہوں  نے  کیاتھاوہ سب اپنے  سامنے  حاضر پائیں  گے  اورتیرارب کسی پرذراظلم نہ کرے  گا۔

وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً ۝۰ۣ كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا۝۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۸ [10]

ترجمہ: اس دن تم ہر گروہ کو گھٹنوں  کے  بل گرا ہوا دیکھو گے ،  ہر گروہ کوپکاراجائے  گاکہ آئے  اوراپنا نامہ اعمال دیکھے ، ان سے  کہا جائے  گا آج تم لوگوں  کوان اعمال کا بدلہ دیا جائے  گاجوتم کرتے  رہے  تھے ۔

بہرحال اس وقت نامہ اعمال ہرشخص کے  ہاتھ میں  ہوگا، اس امت کاپیغمبرسامنے  موجودہوگاگواہ بھی موجودہوں  گے  ، جیسے  فرمایا

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۶۹ [11]

ترجمہ:زمین اپنے  رب کے  نور سے  چمک اٹھے  گی،  کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے  گی،  انبیاء اورتمام گواہ حاضرکردیئے  جائیں  گے ،  لوگوں  کے  درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے  ساتھ فیصلہ کر دیا جائے  گا ان پرکوئی ظلم نہ ہو گا۔

ایک مقام پر فرمایا

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیْدًا۝۴۱ۭ۬ [12]

ترجمہ:پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں  گے  جب ہم ہر امت میں  سے  ایک گواہ لائیں  گے  اور ان لوگوں  پر تمہیں  (یعنی محمد صلی   اللہ   علیہ وآلہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے  کھڑا کریں  گے ۔

الغرض یہاں  پیشواسے  مرادنامہ اعمال ہے  ،  اس لئے  اس کے  بعدفرمایا اس وقت جن لوگوں  کوان کانامہ اعمال سیدھے  ہاتھ میں  دیاجائے  گاوہ خوشی سے  اپناکارنامہ پڑھیں  گے  اوران پر(کھجورکی گھٹلی کے )دھاگے  برابربھی ظلم نہ ہوگا، ایک مقام پر فرمایا

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ۝۷ۙفَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا۝۸ۙ وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا۝۹ۭ [13]

ترجمہ:پھرجس کانامہ اعمال اس کے  سیدھے  ہاتھ میں  دیاگیا اس سے  ہلکاحساب لیا جائے  گا اور وہ اپنے  لوگوں  کی طرف خوش خوش پلٹے  گا۔

اورخوشی سے  پکار کرکہے  گا

 فَیَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ۝۲۰ [14]

ترجمہ:وہ کہے  گا لودیکھو پڑھومیرانامہ اعمال ، میں  سمجھتاتھاکہ مجھے  ضرور اپنا حساب ملنے  والاہے ۔

اورجولوگ اس دنیامیں    اللہ   کی ہرسوبکھری نشانیوں  کو دیکھ کر بھی اندھے  بنے  رہے  اور حق کودیکھنے ، سمجھنے  اوراسے  قبول کرنے  سے  محروم رہے ، جن لوگوں  نے  صحیح راستے  کی تلاش وجستجوہی نہ کی ہو گی ، ان کونامہ اعمال الٹے  ہاتھ میں  دیاجائے  گاوہ اسے  لیتے  ہی پیٹھ پیچھے  چھپانے  کی کوشش کریں  گے  اورحسرت وافسوس سے  ہاتھ ملتے  ہوئے  کہیں  گے ۔

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ۝۰ۥۙ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْ۝۲۵ۚ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْ۝۲۶ۚیٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَ۝۲۷ۚمَآ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْ۝۲۸ ۚ هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْ۝۲۹ [15]

ترجمہ:اورجس کانامہ اعمال اس کے  بائیں  ہاتھ میں  دیاجائے  گاوہ کہے  گاکاش! میرااعمال نامہ مجھے  نہ دیاگیاہوتااورمیں  نہ جانتاکہ میراحساب کیا ہے  ، کاش !میری وہی موت (جودنیامیں  آئی تھی)فیصلہ کن ہوتی، آج میرامال میرے  کچھ کام نہ آیامیراسارااقتدارختم ہوگیا۔

ایک مقام پر فرمایا

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ۝۱۰ۙ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا۝۱۱ۙوَّیَصْلٰى سَعِیْرًا۝۱۲ۭ [16]

ترجمہ: رہاوہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کے  پیٹھ کے  پیچھے  دیا جائے  گاتو وہ موت کو پکارے  گااور بھڑکتی ہوئی آگ میں  جاپڑے  گا۔

الغرض جس کانامہ اعمال بائیں  ہاتھ میں  دیاگیا وہ آخرت میں  بھی   اللہ   رب العزت کے  خصوصی فضل وکرم سے  محروم رہے  گا بلکہ راستہ تلاش کرنے  میں  اندھے  سے  بھی زیادہ ناکام رہا۔ ایسے  لوگوں  کوقیامت کے  روزاندھااٹھایاجائے  گااوروہ   اللہ   تعالیٰ سے  سوال کریں  گے  کہ ہمیں  اندھاکرکے  کیوں  اٹھایاہے ، ارشادہوگاکہ دنیامیں  تم نے  ہمارے  پیغام کوبھلادیاآج یہ اس کاانجام ہے ۔

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى۝۱۲۴قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا۝۱۲۵ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ [17]

ترجمہ: اور جو میرے  ذکر (درس نصیحت)سے  منہ موڑے  گااس کے  لئے  دنیامیں  تنگ زندگی ہوگی اورقیامت کے  روزہم اسے  اندھااٹھائیں  گے  ، وہ کہے  گا پروردگار!دنیامیں  تومیں  آنکھوں  والاتھایہاں  مجھے  اندھاکیوں  اٹھایا؟  اللہ   تعالیٰ فرمائے  گاہاں  توہماری آیات کوجبکہ وہ تیرے  پاس آئی تھیں  تونے  بھلادیاتھااسی طرح آج تو بھلایا جا رہاہے ۔

وَإِنْ كَادُوا لَیَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِیلًا ‎﴿٧٣﴾‏ وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیلًا ‎﴿٧٤﴾‏ إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَیَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیرًا ‎﴿٧٥﴾‏(بنی اسرائیل )
’’یہ لوگ آپ کو اس وحی سے  جو ہم نے  آپ پر اتاری ہے  بہکانا چاہتے  کہ آپ اس کے  سوا کچھ اور ہی ہمارے  نام سے  گھڑ گھڑا لیں ،  تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی دوست بنا لیتے ،  اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے  تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے  قلیل مائل ہو ہی جاتے ،  پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے  اور دوہرا ہی موت کا،  پھر آپ تو اپنے  لیے  ہمارے  مقابلے  میں  کسی کو مددگاربھی نہ پاتے ۔ ‘‘

 رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوڈگمگانے  کی کوششیں  :

مشرکین مکہ کی ہرممکن کوشش تھی کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کودعوت توحیدکے  میدان سے  بھٹکادیں  ، اورکسی نہ کسی طورپرمجبورکردیں  کہ آپ خالص توحیدکے  ساتھ ساتھ ان کے  شرک اوررسوم جاہلیت سے  کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں  ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  عزم ویقین کومتزلزل کرنے  کی اس کوشش میں  انہوں  نے  فریب دیئے ، لالچ دلائے ، دھمکیاں  بھی دیں  ، جھوٹے  پروپیگنڈے  کاطوفان بھی اٹھایا، ظلم وستم سے  بھی بازنہ آئے ، معاشی اور معاشرتی دباؤکے  طورپرمقاطعہ کرکے  شعب بنوہاشم میں  محصورکردیا، مگررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ، ان کی جان نثارووفاداراہلیہ خدیجہ الکبریٰ رضی   اللہ   عنہا اورآپ کے  جان نثارساتھی ایک چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہے  ، کفارکی ہرمخالفانہ کوشش میں  ان کے  یقین وایمان میں  اضافہ ہی ہوا،   اللہ   تعالیٰ نے  اس ساری رودادپر تبصرہ کرتے  ہوئے  دوباتیں  ارشادفرمائیں  ، ایک تویہ کہ اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! اگرتم حق کوحق جان لینے  کے  بعد باطل سے  کوئی سمجھوتاکرلیتے ، دعوت میں  نرمی کرلیتے  ، ان کی کچھ باطلانہ رسومات کو جائز قراردے  دیتے  تویہ مشرک قوم ضرورتم سے  خوش ہوجاتی،  اور اگرہم تمہیں  اپنی حفاظت اورصیانت میں  نہ رکھتے  اور تمہاری تائیدونصرت نہ کرتے  توتم کچھ نہ کچھ ان کی طرف جھک جاتے ،  مگر  اللہ   کاغیض وغضب تم پر بھڑک اٹھتااوراس جرم کی پاداش میں  اس دنیامیں  اورآخرت میں  بھی دوگناعذاب دیا جاتا ، جب نبی اکرم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  بارے  میں    اللہ   تعالیٰ کایہ ارشادہے  تودوسروں  کے  بارے  میں  کیاکہاجاسکتاہے  ، دوسرے  یہ کہ کوئی بھی انسان خواہ وہ پیغمبرہی کیوں  نہ ہوخوداپنے  بل بوتے  پرباطل کے  طوفانوں  کامقابلہ نہیں  کرسکتاجب تک کہ   اللہ   کی مدداوراس کی توفیق شامل حال نہ ہو، چنانچہ یہ سراسر  اللہ   تعالیٰ کا بخشا ہواصبروثبات تھاجس کی بدولت نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم حق وصداقت کے  موقف پرپہاڑکی طرح جمے  رہے  اورکوئی سیلاب بلاآپ کوبال برابربھی اپنی جگہ سے  نہ ہٹاسکا۔

وَإِنْ كَادُوا لَیَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَا یَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٧٦﴾‏ سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا ‎﴿٧٧﴾‏(بنی اسرائیل )
’’یہ تو آپ کے  قدم اس سرزمین سے  اکھاڑنے  ہی لگے  تھے  کہ آپ کو اس سے  نکال دیں  پھر یہ بھی آپ کے  بعد بہت ہی کم ٹھہرپاتے ، ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے  پہلے  رسول ہم نے  بھیجے ،  اور آپ ہمارے  دستور میں  کبھی ردو بدل نہ پائیں  گے  ۔ ‘‘

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایامشرکین مکہ کی ہرممکن کوشش ہے  کہ تمہیں  تمہارے  وطن سے  ہجرت پرمجبورکردیں  تاکہ تمہاری پاکیزہ اورسچی دعوت ان کے  کانوں  تک نہ پہنچے  مگراس سازش سے    اللہ   نے  آپ کوبچالیا، ہماراتمام انبیاء کے  ساتھ یہی معاملہ رہاہے  کہ جس قوم نے  انبیاء کوقتل یاجلاوطن کیاپھروہ زیادہ دیرتک اپنی جگہ نہ ٹھہرسکی ، یاتو  اللہ   کے  عذاب نے  انہیں  ہلاک کردیا یا  اللہ   نے  کسی جبار قوم کوان پر مسلط کردیاگیایاخوداسی نبی کے  پیروکاروں  سے  مشرکین کومغلوب کرادیاگیا، جیسے  فرمایا

وَمَا كَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳ [18]

ترجمہ: اس وقت تو   اللہ   ان پر عذاب نازل کرنے  والا نہ تھا جبکہ تو ان کے  درمیان موجود تھا اور نہ   اللہ   کا یہ قاعدہ ہے  کہ لوگ استغفار کر رہے  ہوں  اور وہ ان کو عذاب دیدے ۔

اورہمارے  طریق کارمیں  تم کوئی تغیرنہ پاؤگے ، جیسے  فرمایا

سُـنَّةَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۲۳ [19]

ترجمہ:یہ   اللہ   کی سنت ہے  جوپہلے  سے  چلی آرہی ہے  اورتم   اللہ   کی سنت میں  کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ۔

چنانچہ یہ صریح پیشین گوئی جواس وقت ایک دھمکی نظرآتی تھی دس ، گیارہ سال کے  اندرہی حرف بحرف سچی ثابت ہوگئی، اس سورہ کے  نزول کے  بعدایک سال ہی گزراتھاکہ مشرکین مکہ نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کووطن سے  ہجرت کرنے  پر مجبور کر دیا مگردوسری ہجری میں  غزوہ بدرمیں  قریش کوبدترین شکست کاسامناکرناپڑا، ان کے  ستر شریف ورئیس تہہ تیغ ہوئے  اورکئی گرفتارہوئے ،  پھرہجرت کوآٹھ سال سے  زیادہ نہ گزرے  تھے  کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے  مکہ مکرمہ میں  داخل ہوئے اوراس ذلت وہزیمت کے  بعد قریش سراٹھانے  کے  قابل نہ رہے  پھرعرصہ دوسال کے  اندراندرسرزمین عرب مشرکین کے  وجودسے  پاک کردی گئی، پھرجوبھی وہاں  رہا مسلمان بن کررہا، مشرک بن کر وہاں  نہ ٹھہرسکا۔

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ‎﴿٧٨﴾‏ وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ‎﴿٧٩﴾(بنی اسرائیل)
’’نماز کو قائم کریں  آفتاب کے  ڈھلنے  سے  لے  کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے  وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ، رات کے  کچھ حصے  میں  تہجد کی نماز میں  قرآن کی تلاوت کریں  یہ زیادتی آپ کے  لیے  ہے ،  عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں  کھڑا کرے  گا ۔ ‘‘

اوقات صلوٰة کی نشاندہی:

مشکلات ومصائب کے  اس طوفان کاذکرکرنے  کے  بعدفوراًہی فرض نمازقائم کرنے  کاحکم دے  کر  اللہ   تعالیٰ نے  یہ لطیف اشارہ فرمایاکہ وہ ثابت قدمی جوان حالات میں  ایک مومن کودرکارہے  اقامت صلوٰة سے  حاصل ہوتی ہے ، اس مقام پرسورج ڈھلنے  پرنمازکاحکم ہے  جس سے  مرادظہرہے  اوراندھیرے  تک سے  مغرب وعشاء کی جانب اشارہ ہے  اورقرآن فجرسے  صراحتاًفجرکی نمازکاحکم ثابت ہے ۔ نمازکے  ان اوقات کوکئی مقامات پر بیان فرمایاہے ۔

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۱۱۴ۚ[20]

ترجمہ:اوردیکھونماز قائم کرو دن کے  دونوں  سروں  پر اور کچھ رات گزرنے  پر۔

دن کے  سروں  سے  مرادصبح اورمغرب ہے  اور کچھ رات گزارنے  سے  مراد عشا کا وقت ہے ۔

۔ ۔ ۔  وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا۝۰ۚ وَمِنْ اٰنَاۗیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّــحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۝۱۳۰ [21]

ترجمہ:اور اپنے  رب کی حمد و ثنا کے  ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے  سے  پہلے  اور غروب ہونے  سے  پہلے ،  اور رات کے  اوقات میں  بھی تسبیح کرو اور دن کے  کناروں  پر بھی،  شاید کہ تم راضی ہوجاؤ۔

یعنی سورج نکلنے  سے  پہلے  فجرکی نماز، سورج غروب ہونے  سے  پہلے  عصرکی نمازاوررات کے  اوقات میں  عشااورتہجدکی نماز، دن کے  کنارے  تووہ تین ہی ہوسکتے  ہیں  ، ایک کنارہ صبح ہے  ، دوسراکنارہ زوال آفتاب اورتیسراکنارہ شام لہذادن کے  کناروں  سے  مرادفجر ،  ظہر اور مغرب کی نمازہوسکتی ہے ۔

فَسُـبْحٰنَ اللهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ۝۱۷وَلَهُ الْحَمْــدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـیًّا وَّحِیْنَ تُظْهِرُوْنَ۝۱۸ [22]

ترجمہ:پس تسبیح کرو  اللہ   کی جب کہ تم شام کرتے  ہواورجب صبح کرتے  ہو،  آسمانوں  اورزمین میں  اسی کے  لئے  حمدہے  اور(تسبیح کرواس کی)تیسرے  پہراورجبکہ تم پر ظہر کا وقت آتاہے ۔

اس آیت میں  نمازکے  چاراوقات کی طرف صاف اشارہ ہے  ، فجر، مغرب ،  عصر اور ظہر۔ چنانچہ سورہ ھودآیت ۱۱۴،  بنی اسرائیل کی آیت ۷۸،  طہٰ۱۳۰اورالروم کی آیت ۱۷، ۱۸کوملاکرپڑھاجائے  تونمازکے  پانچوں  اوقات کاحکم نکل آتاہے ،  معراج میں  جب نمازفرض ہوئی تو  اللہ   تعالیٰ نے  جبرائیل علیہ السلام کونمازکے  اوقات اورطریقہ کی تعلیم دینے  کے  لئے  بھیجااورانہوں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوتعلیم دی ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّنِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَام عِنْدَ الْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ،  فَصَلَّى بِیَ الظُّهْرَ حِینَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاكِ،  وَصَلَّى بِیَ الْعَصْرَ حِینَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ،  وَصَلَّى بِیَ یَعْنِی الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ،  وَصَلَّى بِیَ الْعِشَاءَ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ،  وَصَلَّى بِیَ الْفَجْرَ حِینَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَى الصَّائِمِ،

چنانچہ عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے  بیت   اللہ   کے  پاس میری دوبارامامت کرائی(پہلی بار)مجھے  ظہرکی نمازایسے  وقت پڑھائی اس وقت جبکہ سورج ابھی ڈھلاہی تھااورسایہ تسمے  کے  برابرتھااورعصر کی نمازایسے  وقت پڑھائی جب اس کاسایہ اس کے  برابرہوگیاپھرمغرب کی نمازٹھیک اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دارروزہ افطارکرتاہے  پھرعشاکی نمازایسے  وقت پڑھائی جب کہ شفق(سرخی)افق سے  غائب ہوگئی،  اورفجرکی نمازایسے  وقت پڑھائی جبکہ روزہ دارپرکھاناپیناحرام ہوجاتاہے

فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ صَلَّى بِیَ الظُّهْرَ حِینَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ،  وَصَلَّى بِی الْعَصْرَ حِینَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَیْهِ،  وَصَلَّى بِیَ الْمَغْرِبَ حِینَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ،  وَصَلَّى بِیَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّیْلِ،  وَصَلَّى بِیَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ،  هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِكَ،  وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ هَذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ

جب دوسرا دن ہواتومجھے  ظہرکی نمازایسے  وقت پڑھائی جبکہ ہرچیزکاسایہ اس کے  قدکے  برابرتھااورعصرکی نمازپڑھائی جبکہ ہر چیزکاسایہ اس کے  قدسے  دوگناہوگیااورمغرب کی نمازپڑھائی جبکہ روزہ دارروزہ افطارکرتاہے اورعشاکی نمازایسے  وقت پڑھائی جبکہ رات کاایک تہائی حصہ گزرگیا اورفجرکی نمازایسے  وقت پڑھائی جبکہ اچھی طرح روشنی پھیل چکی تھی، پھر(جبریل علیہ السلام )میری طرف متوجہ ہوئے  اور کہا اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !آپ سے  پہلے انبیاء کے  نمازپڑھنے  کے  یہی اواقات ہیں  ، اور(نماز) کے  اوقات ان دونوں  وقتوں  کے  مابین ہیں  ۔ [23]

اگرچہ فرشتے  ہر نماز اور ہر نیکی کے  گواہ ہیں  مگرخاص طورپرنمازفجرکی قرات پران کی گواہی کاذکرفرمایا گیا ہے  کہ اس وقت   اللہ   کے  فرشتے  اس کے  گواہ بنتے  ہیں  ،

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتَعَاقَبُونَ فِیكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّیْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ،  وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فِیكُمْ،  فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَیْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِی؟فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ،  وَأَتَیْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  منقول ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایارات کے  اوردن کے  فرشتے  تم میں  برابرپے  درپے  آتے  رہتے  ہیں  ، صبح کی اورعصرکی نمازکے  وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے ، تم میں  جن فرشتوں  نے  رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے  ہیں  تو  اللہ   تعالیٰ ان سے  دریافت فرماتاہے  باوجودکہ وہ ان سے  زیادہ جاننے  والا ہے  کہ تم نے  میرے  بندوں  کوکس حال میں  چھوڑا؟ وہ جواب دیتے  ہیں  کہ ہم ان کے  پاس پہنچے  تو انہیں  نماز فجرمیں  پایااورواپس آئے  تونماز(عصر)میں  چھوڑکرآئے  ہیں  ۔ [24]

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: یَجْتَمِعُ الْحَرَسَانِ فِی صَلَاةِ الفجر،  فیصعد هؤلاء ویقیم هؤلاء.

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما فرماتے  ہیں  کہ فرشتوں  کے  دونوں  گروپ نمازفجرمیں  اکٹھے  ہوتے  ہیں  ان میں  سے  ایک گروپ آسمان پرچڑھ جاتاہے  اوردوسراگروپ زمین میں  رہ جاتا ہے  ۔ [25]

نمازکے  اوقات کایہ نظام مقرر کرنے  میں  جومصلحتیں  ملحوظ رکھی گئی ہیں  ان میں  سے  ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے  کہ آفتاب پرستوں  کے  اوقات عبادت سے  اجتناب کیاجائے  ،  آفتاب ہرزمانے  میں  مشرکین کا سب سے  بڑایابہت بڑامعبودرہاہے  اوراس کے  طلوع وغروب کے  اوقات خاص طور پر ان کے  اوقات عبادت رہے  ہیں  اس لئے  ان اوقات میں  تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا ،  اس کے  علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تراس کے  عروج کے  اوقات میں  کی جاتی رہی ہے  لہذا اسلام میں  حکم دیاگیاکہ تم دن کی نمازیں  زوال آفتاب کے  بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نمازطلوع آفتاب سے  پہلے  پڑھ لیا کرو ،  اس مصلحت کونبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  خود متعدد احادیث میں  بیان فرمایاہے  ،

قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِیُّ: فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ أَخْبِرْنِی عَمَّا عَلَّمَكَ اللهُ وَأَجْهَلُهُ،  أَخْبِرْنِی عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ:صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ،  ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ،  فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِینَ تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ،  وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى یَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ،  ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ،  فَإِنَّ حِینَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ،  فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَیْءُ فَصَلِّ،  فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّیَ الْعَصْرَ،  ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ،  فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ،  وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ

چنانچہ عمروبن عبسہ رضی   اللہ   عنہ روایت کرتے  ہیں  میں  نے  کہااے    اللہ   کے نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !میں  نہیں  جانتا، مجھے  بتلائیں  جو  اللہ   نے  آپ کوسکھایاہے  اورمجھے  نمازکے  اوقات کے بارے  میں  بتلائیں  ،  آپ نے  فرمایاصبح کی نمازپڑھواورجب سورج نکلنے  لگے  تونمازسے  رک جاؤیہاں  تک کہ سورج بلندہوجائے  کیونکہ سورج شیطان کے  دونوں  سینگوں  کے  درمیان میں  نکلتاہے  اوراس وقت کفاراس کوسجدہ کرتے  ہیں  (پھراگرتم بھی نمازپڑھوگے  توان سے  مشابہت ہوگی) پھرجب آفتاب بلندہوجائے  نماز نمازپڑھوکیونکہ اس وقت فرشتے  حاضرہوں  گے  اورکراماًکاتبین گواہی دیں  گے (یعنی مقبول ہوگی)یہاں  تک کہ نیزہ کاسایہ اس کے  سرپرآجائے (یعنی ٹھیک دوپہرہو)توپھرنمازنہ پڑھواس لئے  کہ اس قت جہنم جھونکی جاتی ہے ، پھرجب یہ سایہ آجائے (یعنی سورج ڈھلے ) پھر نماز عصرپڑھواس لئے  کہ اس نمازمیں  حاضرہوں  گے  اورگواہی دیں  گے ،  پھرنمازسے  رک جاؤیہاں  تک کہ سورج غروب ہوجائے  کیونکہ سورج شیطان کے  سینگوں  کے  درمیان غروب ہوتا ہے  اوراس وقت کفاراس کوسجدہ کرتے  ہیں  ۔ [26]

سارے  دن میں  پانچ نمازوں  کے  علاوہ رات کے  ایک حصہ میں  بھی نفلی عبادت کروتاکہ   اللہ   آپ کو دنیااورآخرت میں  ایسے  مرتبے  پرپہنچادے  جہاں  تم محمودخلائق ہوکر رہو ،  ہرطرف سے  تم پرمدح وستائش کی بارش ہواورتمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے ،

عَنِ الأَسْوَدِ،  قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  كَیْفَ كَانَتْ صَلاَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّیْلِ؟ قَالَتْ: كَانَ یَنَامُ أَوَّلَهُ وَیَقُومُ آخِرَهُ،  فَیُصَلِّی

اسودکہتے  ہیں  میں  نے  ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی رات کی نمازکے  بارے  میں  دریافت کیاانہوں  نے  فرمایا رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم شروع رات میں  سوئے  رہتے  اورآخررات میں  بیدارہوکرتہجدکی نمازپڑھتے ۔ [27]

فریضة زائدة لك على الصلوات المفروضة،  خصصت بها من بین أمتك

علامہ قسطلانی رحمہ   اللہ   آیت کریمہ کے  جملہ ’’نَافِلَةً لَكَ ‘‘کی تفسیرمیں  لکھتے  ہیں  تہجدکی نمازرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  لیے  نمازپنجگانہ کے  علاوہ فرض کی گئی ہے  اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کواس بارے  میں  امت سے  ممتازقراردیاگیاہے کہ امت کے  لیے  یہ فرض نہیں  مگرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم پرفرض ہے ،

 عن ابن عباس: أن النافلة للنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خاصة لأنه أمر بقیام اللیل،  وكتب علیه دون أمته

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما نے  بھی لفظ’’ نَافِلَةً لَكَ ‘‘کی تفسیرمیں  فرمایاکہ یہ خاص نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  لیے  بطورایک فرض نمازکے  ہے  ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم رات کی نمازکے  لیے  مامورکیے  گئے  اورامت کے  علاوہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم پراسے  فرض قراردیاگیا

لكن صحّح النووی أنه نسخ عنه التهجد

لیکن امام نووی رحمہ   اللہ   نے  بیان کیاکہ بعدمیں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  اوپرسے  بھی اس کی فرضیت کومنسوخ کردیاگیاتھا۔ [28]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا کہ رمضان کے  روزوں  کے  بعد سب سے  زیادہ فضیلت والے  روزے    اللہ   کے  مہینے  محرم کے  ہیں  اور فرض نماز کے  بعد سب سے  زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز (تہجد) ہے ۔ [29]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ أَفْضَلُ صَلَاةٍ بَعْدَ الْمَفْرُوضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ، وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الَّذِی تَدْعُونَهُ الْمُحَرَّمَ

اورابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  ایک اورروایت ہے  میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو یہ فرماتے  ہوئے  سنا ہے  کہ فرض نمازوں  کے  بعد سب سے  زیادہ افضل نماز رات کے  درمیانی حصے  میں  پڑھی جانے  والی نماز ہے  اور ماہ رمضان کے  روزوں  کے  بعد سب سے  زیادہ افضل روزہ   اللہ   کے  اس مہینے  کا ہے  جسے  تم محرم کہتے  ہو۔ [30]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَوْلُهُ:{عَسَى أَنْ یَبْعَثَكَ،  رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}قَالَ: الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ: مَقَامُ الشَّفَاعَةِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما آیت کریمہ ’’عنقریب آپ کارب آپ کومقام محمودمیں  کھڑاکرے  گا۔ ‘‘کے بارے  میں  کہتے  ہیں  مقام محمودسے  مراد شفاعت کا مقام ہے ۔  [31]

عَنْ مُجَاهِدٍ،  فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مَقَامًا مَحْمُودًا}قَالَ: شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

مجاہد رحمہ   اللہ   ’’مَقَامًا مَحْمُودًا‘‘ کے  بارے  میں  کہتے  ہیں  یہ وہ مقام ہے  جہاں  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم قیامت کے  روزشفاعت فرمائیں  گے ۔  [32]

مقام محمودکے  بارے  میں  مختلف روایات ہیں  ،

أَبُو هُرَیْرَةَ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ،  وَأَوَّلُ مَنْ یَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاقیامت کے  دن میں  اولادآدم کاسردارمیں  ہوں  گااوراس دن سب سے  پہلے  میری قبرکی زمین شق ہوگی، اورسب سے  پہلے میں  شفاعت کروں  گا اورسب سے  پہلے  میری شفاعت قبول ہوگی۔  [33]

أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ،  عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا كَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ،  كَنْتُ إِمَامَ الْأَنْبِیَاءِ وَخَطِیبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَیْرَ فَخْر

ابی بن کعب رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایایامت کے  دن میں  سارے  انبیاء کااورپیغمبروں  کاامام ہوں  گااوران کاخطیب

ہوں  گااوران کی شفاعت کرنے  والا ہوں  گااورمیں  یہ فخرکے  طور پر نہیں  کہتابلکہ   اللہ   تعالیٰ نے  مجھے  یہ نعمت عطافرمائی ہے ۔ [34]

عَنْ حُذَیْفَةَ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَالَ:یَجْمَعُ اللَّهُ الْخَلْقَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍفَیَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ،  وَیُسْمِعُهُمُ الدَّاعِی، حُفَاةً عُرَاةً كَمَا خُلِقُوا أَوَّلَ مَرَّةٍ، قِیَامًا لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، یُنَادَى: یَا مُحَمَّدُفَیَقُولُ:لَبَّیْكَ،  وَسَعْدَیْكَ، وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْكَ،  وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْكَ، وَالْمَهْدِیُّ مَنْ هَدَیتَ، وَعَبْدُكَ بَیْنَ یَدَیْكَ وَبِكَ وَإِلَیْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَیْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَیتَ، سُبْحَانَكَ رَبَّ الْبَیْتِ، فَهَذَا قَوْلُهُ {عَسَى أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

حذیفہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاسب لوگوں  کوایک ہی میدان میں  جمع کیاجائے  گاپکارنے  والاانہیں  اپنی آوازسناسکے  گااورنظرسے  پارہوجائے  گی،  وہ اس طرح برہنہ پااوربے  لباس ہوں  گے  جس طرح پیداہوئے  تھے ،  سب لوگ کھڑے  ہوں  گے  اور  اللہ   تعالیٰ کے  اذن کے  بغیرکوئی کلام نہ کرسکے  گا  اللہ   تعالیٰ فرمائے  گااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !آپ جواب دیں  گے  میں  عرض کروں  گا میں  حاضرہوں  اورتیری فرماں  برداری کے  لیے  تیارہوں  ، اور ہرطرح کی بھلائی تیرے  ہاتھوں  میں  ہے اورشروبرائی کی تیری طرف نسبت نہیں  ہے ،  ہدایت یافتہ وہ ہے  جسے  توہدایت عطافرمائے ،  تیرابندہ تیرے  سامنے  حاضرہے تیری توفیق سے  اورتیری ہی طرف اورتیری پکڑسے  بچنے  کاتیری رحمت کے  سوا کوئی ٹھکانااورجائے  پناہ نہیں  ہے  توہی برکت والاہے  ، اے  پروردگار!اورتوسب سے  بلندوبرترہے  اورتیری ذات پاک ہے  اے  اس گھرکے  مالک!تویہ ہے  وہ مقام محمودجس کا  اللہ   تعالیٰ نے  ذکرفرمایا۔ [35]

خط کشیدہ الفاظ تفسیرطبری میں  ہیں  ۔

ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  یَقُولُ:إِنَّ النَّاسَ یَصِیرُونَ یَوْمَ القِیَامَةِ جُثًا كُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِیَّهَایَقُولُونَ: یَا فُلاَنُ اشْفَعْ،  یَا فُلاَنُ اشْفَعْ،  حَتَّى تَنْتَهِیَ الشَّفَاعَةُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ یَوْمَ یَبْعَثُهُ اللَّهُ المَقَامَ المَحْمُودَ

عبد  اللہ   بن عمر رضی   اللہ   عنہما فرماتے  ہیں  قیامت کے  دن امتیں  گروہ درگروہ چلیں  گی،  ہرامت اپنے  نبی کے  پیچھے  ہوگی اور(انبیاء سے )کہے  گی ہماری شفاعت کیجئے  (مگروہ سب ہی انکار کردیں  گے ) آخر شفاعت کے  لئے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوں  گے  تو یہی وہ دن ہے  جب   اللہ   تعالیٰ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومقام محمودعطافرمائے  گا۔ [36]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ،  یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ لَتَدْنُو حَتَّى یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ،  فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ،  فَیَقُولُ: لَسْتُ صَاحِبَ ذَلِكَ،  ثُمَّ بِمُوسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ،  فَیَقُولُ كَذَلِكَ،  ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ فَیَشْفَعُ بَیْنَ الْخَلْقِ فَیَمْشِی حَتَّى یَأْخُذَ بِحَلْقَةِ الْجَنَّةِ،  فَیَوْمَئِذٍ یَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا

عبد  اللہ   بن عمر رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایابے  شک سورج اس قدرقریب ہوگاکہ پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے  گااس حال میں  لوگ آدم علیہ السلام سے  فریادکریں  گے  وہ جواب دیں  گے  کہ میں  یہ نہیں  کرسکتا پھرموسیٰ علیہ السلام سے  فریادکریں  گے  تووہ بھی یہی جواب دیں  گے ،  پھروہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  فریادکریں  گے  توآپ مخلوق کی شفاعت فرمائیں  گے  اور پھرکشاں  کشاں  چلتے  ہوئے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم جنت کے (دروازے  کے )کنڈے  کوپکڑیں  گے تواس دن   اللہ   تعالیٰ آپ کومقام محمودپرفائزفرمائے  گا۔ [37]

صحیح بخاری میں  ان الفاظ کااضافہ ہے  ۔

فَیَوْمَئِذٍ یَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًایَحْمَدُهُ أَهْلُ الجَمْعِ كُلُّهُمْ

اس دن   اللہ   تعالیٰ آپ کومقام محمودپرفائزفرمائے  گا تومیدان حشرمیں  جمع ہونے  والے  سب لوگ آپ کی تعریف کریں  گے ۔ [38]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،  قَالَ: ثُمَّ یَأْذَنُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الشَّفَاعَةِ فَیَقُومُ رُوحُ الْقُدُسِ جِبْرِیلُ ثُمَّ یَقُومُ إِبْرَاهِیمُ خَلِیلُ اللَّهِ ثُمَّ یَقُومُ عِیسَى أَوْ مُوسَى – قَالَ أَبُو الزَّعْرَاءِ -: لَا أَدْرِی أَیُّهُمَا قَالَ: ثُمَّ یَقُومُ نَبِیُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَابِعًا فَیَشْفَعُ لَا یُشْفَعُ لِأَحَدٍ بَعْدَهُ فِی أَكْثَرِ مِمَّا یَشْفَعُ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِی قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {عَسَى أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [39]

عبد  اللہ   سے  مروی ہے  پھر  اللہ   عزوجل شفاعت کی اجازت عطافرمادے  گا توروح القدس جبریل کھڑے  ہوں  گے ، پھرابراہیم خلیل   اللہ   کھڑے  ہوں  گے ،  پھرعیسیٰ علیہ السلام یاموسیٰ علیہ السلام کھڑے  ہوں  گے ، ابوزعراء کہتے  ہیں  مجھے  نہیں  معلوم کہ یہاں  ان دونوں  نبیوں  میں  سے  کس کانام لیاہے ، آپ نے  فرمایاپھرچوتھے  نمبر پر ہمارے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کھڑے  ہوں  گے  اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم اس قدرشفاعت فرمائیں  گے  کہ آپ کے  بعدآپ سے  زیادہ کوئی شفاعت نہ کرسکے  گااوریہ ہے  وہ مقام محمودجس کے  بارے  میں    اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاہے ’’ ہوسکتاہے  کہ آپ کاپروردگارآپ کومقام محمودپرفائزفرمادے ۔ ‘‘[40]

عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یُبْعَثُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ،  فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِی عَلَى تَلٍّ،  وَیَكْسُونِی رَبِّی تَبَارَكَ وَتَعَالَى حُلَّةً خَضْرَاءَ،  ثُمَّ یُؤْذَنُ لِی،  فَأَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَقُولَ فَذَاكَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ

کعب بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا لوگ قیامت کے  دن اٹھائے  جائیں  گے ،  میں  اپنی امت سمیت ایک ٹیلے  پرکھڑارہوں  گااور مجھے    اللہ   تعالیٰ سبزرنگ کاحلہ پہنائے  گاپھرمجھے  اجازت دی جائے  گی اورجوکچھ کہناچاہوں  گاکہوں  گایہی مقام محمود ہے ۔ [41]

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ:أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ،  فَرُفع إِلَیْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تَعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسة،  ثُمَّ قَالَ:أَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ،  وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَاكَ؟یَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِینَ وَالْآخَرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ یُسْمعهم الدَّاعِی ویَنفذُهم الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَیَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا یُطِیقُونَ وَلَا یَحْتَمِلُونَ،  فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ:أَلَّا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِیهِ؟ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا قَدْ بَلَغَكُمْ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ یَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَبُوكُمْ آدَمُ!

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس گوشت لایاگیااورشانے  کاگوشت آپ کودیاگیا، توآپ نے  اپنے  دانتوں  سے  اسے  ایک بار نوچا اور رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو دست کاگوشت بہت پسندتھا پھرآپ نے  فرمایاقیامت کے  دن تمام لوگوں  کاسردارمیں  ہوں  گاتمہیں  معلوم بھی ہے  یہ کونسادن ہوگا؟اس دن   اللہ   تعالیٰ تمام اگلوں  پچھلوں  کوایک چٹیل میدان میں  جمع کرے  گاکہ ایک پکارنے  والے  کی آوازسب کے  کانوں  تک پہنچ سکے  گی اورایک نظرسب کودیکھ سکے  گی، سورج بالکل نزدیک ہوجائے  گا اورلوگوں  کی پریشانی اوربے  قراری کی کوئی حدنہ رہے  گی جوبرداشت سے  باہرہوجائے  گی، لوگ آپس میں  کہیں  گے  کہ دیکھوتوسہی ہماری کیاحالت ہوگئی ہے ؟ کیاایساکوئی مقبول بندہ نہیں  ہے  جو  اللہ   پاک کی بارگاہ میں  تمہاری شفاعت کرے  ؟بعض لوگ بعض سے  کہیں  گے  کہ آدم علیہ السلام کے  پاس چلناچاہیے

فَیَأْتُونَ آدَمَ،  فَیَقُولُونَ: یَا آدَمُ،  أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِیَدِهِ،  وَنَفَخَ فِیكَ مِنْ رُوحِهِ،  وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ،  فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ،  أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَیَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ یَغْضَبْ بَعْدَهُ مِثْلَهُ،  وَإِنَّهُ نَهَانِی عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَیْتُهُ،  نَفْسِی،  نَفْسِی،  نَفْسِی! اذْهَبُوا إِلَى غَیْرِی،  اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ

چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں  حاضرہوں  گے  اورعرض کریں  گے  آپ تمام انسانوں  کے  پردادا ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  آپ کواپنے  ہاتھ سے  پیداکیاہے اوراپنی طرف سے  خصوصیت کے  ساتھ آپ میں  روح پھونکی، اورفرشتوں  کوحکم دیااورانہوں  نے  آپ کو سجدہ کیااس لئے  آپ رب کے  حضورمیں  ہمارے  شفاعت کردیں  ، آپ دیکھ رہے  ہیں  کہ ہم کس حال کوپہنچ چکے  ہیں  ؟آدم علیہ السلام کہیں  گے  کہ میرارب آج انتہائی غضبناک ہے اس سے  پہلے  اتناغضبناک وہ کبھی نہیں  ہواتھا اورنہ آج کے  بعدکبھی اتناغضبناک ہوگا  اللہ   تعالیٰ نے  مجھے  ایک درخت سے  روکا تھا لیکن میں  نے  اس کی نافرمانی کی،  پس نفسی، نفسی، نفسی، مجھ کواپنی فکرہے  ، تم کسی اورکے  پاس جاؤہاں  تم نوح علیہ السلام کے  پاس جاؤ

فَیَأْتُونَ نُوحًافَیَقُولُونَ: یَا نُوحُ،  أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًااشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَیَقُولُ نُوحٌ: إِنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ یَغْضَبْ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ كَانَتْ لِی دَعْوَةٌ عَلَى قَوْمِی،  نَفْسِی،  نَفْسِی،  نَفْسِی! اذْهَبُوا إِلَى غَیْرِی،  اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِیمَ

چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں  حاضر ہوں  گے  اورعرض کریں  گے اے  نوح علیہ السلام !آپ سب سے  پہلے  پیغمبرہیں  جواہل زمین کی طرف بھیجے  گئے  تھے  اورآپ کو  اللہ   نے  شکرگزاربندہ کاخطاب دیا آپ ہی ہمارے  لئے  اپنے  رب کے  حضورمیں  شفاعت کردیں  آپ دیکھ رہے  ہیں  کہ ہم کس حالت کوپہنچ گئے  ہیں  ؟نوح علیہ السلام بھی کہیں  گے  کہ میرارب آج انتہائی غضبناک ہے ، اس سے  پہلے  اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں  ہواتھا اورنہ آج کے  بعدکبھی اتناغضبناک ہوگا اورمجھے  ایک دعاکی قبولیت کایقین دلایاگیاتھاجومیں  نے  اپنی قوم کے  خلاف مانگ لی تھی،  نفسی نفسی نفسی ،  آج مجھ کواپنے  ہی نفس کی فکرہے  اپنی پڑی ہوئی ہے ،  تم میرے  سوا کسی اورکے  پاس جاؤ ابراہیم علیہ السلام کے  پاس جاؤ

فَیَأْتُونَ إِبْرَاهِیمَ،  فَیَقُولُونَ: یَا إِبْرَاهِیمُ،  أَنْتَ نَبِیُّ اللَّهِ وَخَلِیلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَیَقُولُ: إِنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ یَغْضَبْ بَعْدَهُ مِثْلَهُ،  فَذَكَرَ كَذِبَاتِهِ،  نَفْسِی،  نَفْسِی،  نَفْسِی اذْهَبُوا إِلَى غَیْرِی اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى

سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں  حاضر ہوں  گے  اورعرض کریں  گے اے  ابراہیم علیہ السلام ! آپ   اللہ   کے  نبی اور روئے  زمین میں  سے  منتخب   اللہ   کے  خلیل ہیں  ، آپ ہماری شفاعت کریں  ، آپ ملاحظہ فرمارہے  ہیں  کہ ہم کس حالت کوپہنچ چکے  ہیں  ؟ابراہیم علیہ السلام فرمائیں  گے  کہ میرارب آج انتہائی غضبناک ہے ، اس سے  پہلے  اتناغضبناک وہ کبھی نہیں  ہواتھا اور نہ آج کے  بعدکبھی اتناغضبناک ہوگااورمیں  نے  تین جھوٹ بولے  تھے ،  نفسی نفسی نفسی مجھ کواپنے  نفس کی فکرہے یرے  سواکسی اورکے  پاس جاؤہاں  موسیٰ علیہ السلام کے  پاس جاؤ

فَیَأْتُونَ مُوسَى،  فَیَقُولُونَ: یَا مُوسَى،  أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ،  اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ،  اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ،  أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَیَقُولُ لَهُمْ مُوسَى: إِنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ یَغْضَبْ بَعْدَهُ مِثْلَهُ،  وَإِنِّی قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِی،  نَفْسِی،  نَفْسِی، اذْهَبُوا إِلَى غَیْرِی،  اذْهَبُوا إِلَى عِیسَى

سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں  حاضرہوں  گے  اورعرض کریں  گے  اے  موسیٰ علیہ السلام !آپ   اللہ   کے  رسول ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  آپ کورسالت اوراپنے  کلام کے  ذریعہ سے  فضیلت دی، آپ ہماری شفاعت اپنے  رب کے  حضورکریں  ، آپ ملاحظہ فرماسکتے  ہیں  کہ ہم کس حالت کوپہنچ چکے  ہیں  ؟موسیٰ علیہ السلام فرمائیں  گے  میرارب آج انتہائی غضبناک ہے ، اس سے  پہلے  اتناغضبناک وہ کبھی نہیں  ہواتھا اورنہ آج کے  بعدکبھی اتناغضبناک ہوگا میں  نے  ایک شخص کوقتل کرڈالاتھاحالانکہ   اللہ   کی طرف سے  مجھے  اس کاکوئی حکم نہیں  ملاتھا، نفسی نفسی نفسی بس مجھ کوآج اپنی فکرہے  میرے  سواکسی اورکے  پاس جاؤ ہاں  عیسیٰ علیہ السلام کے  پاس جاؤ

فَیَأْتُونَ عِیسَى، فَیَقُولُونَ: یَا عِیسَى،  أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ قَالَ: هَكَذَا هُوَ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ،  أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَیَقُولُ لَهُمْ عِیسَى: إِنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ یَغْضَبْ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ یَذْكُرْ ذَنْبًا اذْهَبُوا إِلَى غَیْرِی ، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ

سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں  حاضرہوں  گے  اورعرض کریں  گے  اے  عیسیٰ علیہ السلام !آپ   اللہ   کے  رسول اوراس کاکلمہ ہیں  جسے    اللہ   نے  مریم علیہ السلام پرڈالاتھااور  اللہ   کی طرف سے  روح ہیں  ،  آپ نے  ، بچپن میں  ماں  کی گودمیں  لوگوں  سے  بات کی تھی، رب سے ہماری شفاعت کریں  آپ ملاحظہ فرماسکتے  ہیں  کہ ہماری کیاحالت ہوچکی ہے ،  عیسیٰ علیہ السلام بھی کہیں  گے  کہ میرارب آج انتہائی غضبناک ہے اس سے  پہلے  اتناغضبناک وہ کبھی نہیں  ہواتھا اورنہ آج کے  بعدکبھی اتناغضبناک ہوگا اورآپ کسی لغزش کاذکرنہیں  کریں  گے ، (صرف) اتناکہیں  گے  ، نفسی نفسی نفسی، میرے  کسی اورہی کے  پاس جاؤہاں  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس جاؤ

فَیَأْتُونِی فَیَقُولُونَ: یَا مُحَمَّدُ،  أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ،  وَخَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ،  غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبَكَ،  وَمَا تَأَخَّرَ،  فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ،  أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَأَقُومُ فَآتِی تَحْتَ الْعَرْشِ،  فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّی عَزَّ وَجَلَّ،  ثُمَّ یَفْتَحُ اللَّهُ عَلَیَّ وَیُلْهِمُنِی مِنْ مَحَامِدِهِ،  وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَیْهِ،  شَیْئًا لَمْ یَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِی،  فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ،  ارْفَعْ رَأْسَكَ،  سَلْ تُعْطَهْ،  اشْفَعْ تُشَفَّعْ،  فَأَقُولُ: یَا رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی،  یَا رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی،  یَا رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی،  یَا رَبِّ،  فَیَقُولُ: یَا مُحَمَّدُ،  أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَیْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ،  وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الْأَبْوَابِ ،  ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ،  لَمَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِیعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَیْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ،  أَوْ كَمَا بَیْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى

چنانچہ سب لوگ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوں  گے اورعرض کریں  گے  اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !آپ   اللہ   کے  رسول اورسب سے  آخری پیغمبرہیں  اور   اللہ   تعالیٰ نے  آپ کے  تمام اگلے  پچھلے  گناہ معاف فرمادیے  ہیں  ، اپنے  رب کے  دربارمیں  ہماری شفاعت فرمائیں  آپ خودملاحظہ فرماسکتے  ہیں  کہ ہم کس حالت کوپہنچ چکے  ہیں  ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا، آخرمیں  آگے  بڑھوں  گااورعرش تلے  آ کر اپنے  رب عزوجل کے  سامنے  سجدے  میں  گرپڑوں  گا پھر  اللہ   تعالیٰ مجھ پراپنی حمدوثناکے  دروازے  کھول دے  گاکہ مجھ سے  پہلے  کسی اورکووہ محامدنہیں  بتائے  تھے ، پھرمجھ سے  فرمایا جائے  گااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم اپناسراٹھائے  اورمانگئے آپ کودیاجائے  گااورشفاعت کیجئے  آپ کی شفاعت قبول ہوجائے  گی، میں  اپناسرسجدے  سے  اٹھاؤں  گااورعرض کروں  گااے  میرے  رب!میری امت، اے  میرے  رب ! میری امت ،  اے  میرے  رب ! میری امت پرکرم کر،  کہاجائے  گااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !اپنی امت کے  ان لوگوں  کوجن پرکوئی حساب نہیں  ہے  جنت کے  داہنی طرف کے  دروازے  سے  داخل کیجئے ، ویسے  انہیں  اختیارہے  جس دروازے  سے  چاہیں  دوسرے  لوگوں  کے  ساتھ داخل ہوسکتے  ہیں  ،  پھررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس ذات کی قسم جس کے  ہاتھ میں  میری جان ہے  جنت کے  دروازے  کے  دونوں  کناروں  میں  اتنافاصلہ ہے  جتنامکہ اورحمیرمیں  یامکہ اوربصریٰ میں  ہے ۔ [42]

وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرًا ‎﴿٨٠﴾‏ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ‎﴿٨١﴾(بنی اسرائیل )
’’اور دعا کیا کریں  کہ اے  میرے  پروردگار! مجھے  جہاں  لے  جا اچھی طرح لے  جا اور جہاں  سے  نکال اچھی طرح نکال اور میرے  لیے  اپنے  پاس سے  غلبہ اور امداد مقرر فرما دے ، اور اعلان کر دے  کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیایقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے  والا ۔ ‘‘

دعائیں  اوربشارت :

اس دعاکے  ذریعہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوآگاہ کردیاگیاکہ مکہ مکرمہ سے  ہجرت کاوقت قریب آگیاہے  لہذاآپ   اللہ   تعالیٰ سے  یہ دعاکرتے  رہیں  کہ مجھے  جہاں  سے  بھی نکالنا اور جہاں  بھی داخل فرماناحق وصداقت کے  ساتھ کرنا،

عَنِ الْحَسَنِ،  فِی قَوْلِ اللَّهِ: {أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ} [43] قَالَ: كُفَّارُ أَهْلِ مَكَّةَ لَمَّا ائْتَمَرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَقْتُلُوهُ،  أَوْ یَطْرُدُوهُ،  أَوْ یُوثِقُوهُ،  وَأَرَادَ اللَّهُ قِتَالَ أَهْلِ مَكَّةَ،  فَأَمَرَهُ أَنْ یَخْرُجَ إِلَى الْمَدِینَةِ،  فَهُوَ الَّذِی قَالَ اللَّهُ {أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ}[44]

حسن بصری نے  اس آیت’’مجھے  جہاں  لے  جااچھی طرح لے  جااورجہاں  سے  نکال اچھی طرح نکال۔ ‘‘ کی تفسیرمیں  فرمایاہے کفارمکہ نے  جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  خلاف سازش کی تاکہ آپ کوجان سے  ماردیں  یاوطن سے  نکال دیں  یاقیدکردیں  تو  اللہ   تعالیٰ نے  مکہ والوں  سے  قتال کاارادہ فرمالیااورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کوحکم دیاکہ آپ ہجرت کرکے  مدینہ منورہ چلے  جائیں  ،  اس سلسلے  میں  فرمایا اوردعاکروکہ ’’پروردگار!مجھ کوجہاں  بھی تولے  جاسچائی کے  ساتھ لے  جااورجہاں  سے  بھی نکال سچائی کے  ساتھ نکال۔ ‘‘[45]

عَنْ قَتَادَةَ،  {مُدْخَلَ صِدْقٍ} [46]قَالَ: الْمَدِینَةُ {وَمُخْرَجَ صِدْقٍ} قَالَ: مَكَّةُ

اورقتادہ رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  ’’مجھے  جہاں  لے  جااچھی طرح لے  جا۔ ‘‘ اچھی طرح داخل کرنے  سے  مراد مدینہ منورہ میں  داخل کرنا وَمُخْرَجَ صِدْقٍ اوراچھی طرح نکالنے  سے  مراد مکہ مکرمہ سے  نکالنا ہے  ۔ [47]

کیونکہ قرآن مجیدتعلیم ہے  اوراس کانفاذطاقت وقوت کے  ساتھ ہی ممکن ہے  اس لئے  فرمایاکہ یہ بھی دعا کریں  کہ اے    اللہ  ! مجھے  خوداقتدارعطافرمایاکسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے  تاکہ اس کی طاقت سے  میں  دنیاکے  معبودان باطلہ کومٹاسکوں  ، تیرے  نام کوبلندکر سکوں  ،  فواحش ومعاصی کے  سیلاب کوروک سکوں  اورتیرے  قانون عدل کوجاری وساری کرسکوں  ،

عَنْ قَتَادَةَ،  فِی قَوْلِهِ: {وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرًا} [48]وَإِنَّ نَبِیَّ اللَّهِ عَلِمَ أَنْ لَا طَاقَةَ لَهُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا بِسُلْطَانٍ،  فَسَأَلَ سُلْطَانًا نَصِیرًا لِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،  وَلِحُدُودِ اللَّهِ،  وَلِفَرَائِضِ اللَّهِ،  وَلِإِقَامَةِ دِینِ اللَّهِ،  وَإِنَّ السُّلْطَانَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ جَعَلَهَا بَیْنَ أَظْهُرِ عِبَادِهِ،  لَوْلَا ذَلِكَ لَأَغَارَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ،  فَأَكَلَ شَدِیدُهُمْ ضَعِیفَهُمْ

قتادہ رحمہ   اللہ   آیت کریمہ ’’اورمیرے  لیے  اپنے  پاس سے  غلبہ اورامدادمقررفرمادے ۔ ‘‘کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعلوم تھاکہ آپ کوزوروقوت کے  بغیراس کی طاقت نہیں  ہے  اس لیے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے    اللہ   عزوجل کی کتاب   اللہ   تعالیٰ کی حدوداور   اللہ   تعالیٰ کے  فرائض اور  اللہ   تعالیٰ کے  دین کی اقامت کے  لیے  زوراورقوت کاسوال کیااورزوروقوت بھی   اللہ   تعالیٰ کی رحمت ہے  جس سے  اس نے  اپنے  بندوں  کونوازاہے  اگرزوروقوت نہ ہوتی توانارکی پھیل جاتی، اورطاقتوارکمزوروں  کوکھاجاتے ۔ [49]

چنانچہ اس کے  بعد  اللہ   نے  مدینہ منورہ میں  مسلمانوں  کی باقاعدہ حکومت کی تشکیل کے اسباب پیدافرمائے  اورحکومت کی تشکیل کے  بعدکے  لئے  بشارت دی گئی کہ ان باطل پرستوں  کوبیبانگ یہ اعلان بھی کردوحق قائم ہوگیا اورباطل مٹ گیا، اورحق کے  مقابلے  میں  باطل تومٹنے  والاہی ہے ،  جیسے  فرمایا

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَزَاہِقٌ۔ ۔ ۔ ۝۱۸ [50]

ترجمہ:مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے  ہیں  جو اس کا سر توڑ دیتی ہے  اور وہ دیکھتے  دیکھتے  مٹ جا تا ہے  ۔

مشرکین مکہ نے  جب یہ اعلان سناتوانہوں  نے  اسے  ٹھٹھوں  میں  اڑادیاکیونکہ اس وقت مسلمان سخت بے  کسی ومظلومی کی حالت میں  زندگی گزار رہے  تھے  ، خودنبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کی زندگی داؤپرلگی ہوئی تھی ، بظاہرباطل ہی کاغلبہ تھا اور غلبہ حق کے  آثاردوردورتک نظرنہیں  آرہے  تھے  مگرابھی نوبرس ہی گزرے  تھے  کہ نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم اسی شہرمکہ مکرمہ میں  جہاں  مشرکین کاقبضہ تھافاتح کی حیثیت سے  داخل ہوئے  اور بیت   اللہ   میں  داخل ہوکرچھوٹے  بڑے  تین سوساٹھ بتوں  اورتصاویرکومٹادیاجووہاں  سجائی گئیں  تھیں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ،  وَحَوْلَ البَیْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ،  فَجَعَلَ یَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِی یَدِهِ،  وَیَقُولُ:{جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ،  إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا} [51]،  {جَاءَ الحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ} [52]

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم (فتح مکہ کے  بعد)فاتح کی حیثیت سے  داخل ہوئے مکہ مکرمہ میں  داخل ہوئے  توکعبہ کے  چاروں  طرف تین سوساٹھ بت نصب تھے  ،  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اپنے  ہاتھ میں  پکڑی چھڑی کی نوک سے  ہرایک کوٹکراتے  جاتے  اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی زبان مبارک پریہ الفاظ جاری تھے ’’ حق آ گیا اور باطل مٹ گیاباطل تومٹنے  ہی والاہے ۔ ‘‘(بنی اسرائیل۸۱)، اور’’حق آگیا ہے  اور اب باطل کے  کیے  کچھ نہیں  ہو سکتا۔ ‘‘ (سبا۴۹)اوروہ بت منہ کے  بل زمین پرگرجاتا[53]

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ ۙ وَلَا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ إِلَّا خَسَارًا ‎﴿٨٢﴾‏ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوسًا ‎﴿٨٣﴾‏ قُلْ كُلٌّ یَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِیلًا ‎﴿٨٤﴾‏ (بنی اسرائیل)
’’یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے  ہیں  مومنوں  کے  لیے  تو سراسر شفا اور رحمت ہے ، ہاں  ظالموں  کو بجز نقصان کے  اور کوئی زیادتی نہیں  ہوتی ، اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے  ہیں  تو وہ منہ موڑ لیتا ہے  اور کروٹ بدل لیتا ہے  اور جب اسے  کوئی تکلیف پہنچتی ہے  تو وہ مایوس ہوجاتا ہے  ، کہہ دیجئے  ! کہ ہر شخص اپنے  طریقہ پر عامل ہے  جو پوری ہدایت کے  راستے  پر ہیں  انہیں  تمہارا رب ہی بخوبی جاننے  والا ہے ۔ ‘‘

اللہ   تعالیٰ اپنی آخری مقدس کتاب کی بابت جس میں  باطل کاشائبہ بھی نہیں  فرماتاہے  کہ ہم اس قرآن کے  سلسلہ تنزیل میں  وہ کچھ نازل کررہے  ہیں  اگراس کوکوئی اپنا رہنما اوراپنے  لئے  کتاب آئین مان لے ، اس کی آیات کی تصدیق کرکے  اس پرعمل پیراہوجائے  تواس کے  تمام ذہنی ، نفسیاتی ، اخلاقی اورتمدنی امراض کاعلاج اورسراسررحمت ہے ،  جیسے  فرمایا

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۵۷ [54]

ترجمہ:لوگو!تمہارے  پاس تمہارے  رب کی طرف سے  نصیحت آگئی ہے  ، یہ وہ چیز ہے  جودلوں  کے  امراض کی شفاہے  اورجواسے  قبول کرلیں  ان کے  لئے  رہنمائی اوررحمت ہے ۔

مگرجواس کی رہنمائی سے  منہ موڑیں  ، اس کی تصدیق نہ کریں  یااس پرعمل پیرانہ ہوں  تواس کی آیات ان کے  خسارے  ہی میں  اضافہ کرتی ہیں  ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَعَلَیْهِمْ عَمًى۔ ۔ ۔  ۝۴۴ۧ [55]

ترجمہ:ان سے  کہویہ قرآن ایمان لانے  والوں  کے  لئے  توہدایت اورشفاہے  مگرجولوگ ایمان نہیں  لاتے  ان کے  لئے  یہ کانوں  کی ڈاٹ اورآنکھوں  کی پٹی ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِیْمَانًا۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ۝۱۲۵ [56]

ترجمہ:جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے  تو ان میں  سے  بعض لوگ (مذاق کے  طور پر مسلمانوں  سے )پوچھتے  ہیں  کہ کہو تم میں  سے  کس کے  ایمان میں  اس سے  اضافہ ہوا ؟جو لوگ ایمان لائے  ہیں  ان کے  ایمان میں  تو فی الواقع (ہر نازل ہونے  والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے  اور وہ اس سے  دلشاد ہیں  ،  البتہ جن لوگوں  کے  دلوں  کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اں  کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کردیا ہے  اور وہ مرتے  دم تک کفر ہی میں  مبتلا رہے ۔

خیروشر، برائی وبھلائی انسان کی فطرت میں  رکھ دی گئی ہے  ،  قرآن کریم نے  اس کابیان کیاکہ   اللہ   جب انسان کومال،  عافیت،  فتح،  رزق، نصرت وتائید، کشادگی عطاکرتے  ہیں  تواسے    اللہ   کافضل وکرم سمجھ کراس کاشکربجالانے  اور  اللہ   تعالیٰ کے  سامنے  عاجزی سے  جھک جانے  کے  بجائے  اپنی محنت کاصلہ سمجھتاہے  ، جیسے  قارون کی قوم نے  جب اسے  نصیحت کی تواس کے  جواب میں  کہاتھا

۔ ۔ ۔ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ   اللہ   لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ۝۷۶وَابْتَغِ فِــیْمَآ اٰتٰىكَ   اللہ   الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ   اللہ   اِلَیْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّ   اللہ   لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ۝۷۷قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ۔ ۔ ۔ ۝۷۸ [57]

ترجمہ:ایک دفعہ جب اس کی قوم کے  لوگوں  نے  اس سے  کہا پھول نہ جا،    اللہ   پھولنے  والوں  کو پسند نہیں  کرتا جو مال   اللہ   نے  تجھے  دیا ہے  اس سے  آخرت کا گھر بنانے  کی فکر کر اور دنیا میں  سے  بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر،  احسان کر جس طرح   اللہ   نے  تیرے  ساتھ احسان کیا ہے  اور زمین میں  فساد برپا کرنے  کی کوشش نہ کر   اللہ   مفسدوں  کو پسند نہیں  کرتا، تو اس نے  کہا یہ سب کچھ تو مجھے  اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے  جو مجھ کو حاصل ہے  ۔

 فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا۝۰ۡثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰہُ نِعْمَةً مِّنَّا۝۰ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ۔ ۔ ۔ ۝۴۹ [58]

ترجمہ:یہی انسان جب ذرا سی مصیبت اسے  چھو جاتی ہے  تو ہمیں  پکارتا ہے  اور جب ہم اسے  اپنی طرف سے  نعمت دے  کر اپھار دیتے  ہیں  تو کہتا ہے  کہ یہ تو مجھ علم کی بنا پر دیا گیا ہے  ! ۔

ایک مقام پرفرمایا

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۝۰ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ۔ ۔ ۔ ۝۱۲ [59]

ترجمہ:انسان کا یہ حال ہے  کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے  تو کھڑے  اور بیٹھے  اور لیٹے  ہم کو پکارتا ہے ،  مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے  ہیں  تو ایسا چل نکلتا ہے  کہ گویا اس نے  کبھی اپنے  کسی برے  وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا ۔

پھرفخروغرورمیں  وہ اتراتااورحق سے  روگردانی کرتاہے  اورجہاں  کوئی بیماری،  مصیبت یاکوئی آفت پہنچتی ہے  تواس پرصبراور  اللہ   پربھروسہ کرنے  کی بجائے  رب سے  اپنی امیدمنقطع کرلیتا اور سمجھتاہے  کہ اب بھلائی ، راحت وعافیت نصیب نہیں  ہوگی ، جیسے  فرمایا:

وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَیَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ۝۹وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّـیِّاٰتُ عَنِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ۝۱۰ۙاِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۱ [60]

ترجمہ:اگرکبھی ہم انسان کواپنی رحمت سے  نوازنے  کے  بعداس سے  محروم کردیتے  ہیں  تووہ مایوس ہوتاہے  اورناشکری کرنے  لگتاہے  اوراگراس مصیبت کے  بعد جو اس پرآئی تھی ہم اسے  نعمت کامزاچکھاتے  ہیں  توکہتاہے  میرے  توسارے  دلدرپارہوگئے ، پھروہ پھولا نہیں  سماتااوراکڑنے  لگتاہے ، اس عیب سے  پاک اگر کوئی ہیں  توبس وہ لوگ جوصبرکرنے  والے  اورنیکوکارہیں  اوروہی ہیں  جن کے  لئے  درگزربھی ہے  اوربڑااجربھی۔

مشرکین کو وعیدفرمائی اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !ان لوگوں  سے  کہہ دوکہ ہر ایک اپنے  طریقے  پرعمل کررہاہے  ، اب یہ تمہارارب ہی بہترجانتاہے  کہ سیدھی راہ پرکون ہے ،  یعنی وہ خوب جانتاہے  کہ کون ہے  جوہدایت قبول کرنے  کی صلاحیت رکھتاہے  ،  پس اسے  ہدایت سے  نوازدیتاہے  اورکون ہے  جو صلاحیت نہیں  رکھتاتووہ اسے  اپنے  حال پرچھوڑکرہدایت سے  محروم کردیتاہے  جیسے فرمایا

وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰی مَكَانَتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّا عٰمِلُوْنَ۝۱۲۱ۙوَانْتَظِرُوْا۝۰ۚ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۝۱۲۲ [61]

ترجمہ:وہ لوگ جوایمان نہیں  لاتے  توان سے  کہہ دوکہ تم اپنے  طریقے  پرکام کرتے  رہو اور ہم اپنے  طریقے  پرکیے  جاتے  ہیں  ، انجام کارکاتم بھی انتظارکرواورہم بھی منتظرہیں  ۔

وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٨٥﴾‏ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَیْنَا وَكِیلًا ‎﴿٨٦﴾‏إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیرًا ‎﴿٨٧﴾(بنی اسرائیل )
’’اور یہ لوگ آپ سے  روح کی بابت سوال کرتے  ہیں ،  آپ جواب دیجئے  کہ روح میرے  رب کے  حکم سے  ہے  اور تمہیں  بہت ہی کم علم دیا گیا ہے  ، اور اگر ہم چاہیں  تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے  اتاری ہے  سلب کرلیں ،  پھر آپ کو اس کے  لیے  ہمارے  مقابلے  میں  کوئی حمایتی میسر نہ آسکے  سوائے  آپ کے  رب کی رحمت کے ،  یقیناً آپ پر اس کا بڑا فضل ہے ۔ ‘‘

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: بَیْنَا أَنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَرْثٍ،  وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِیبٍ،  إِذْ مَرَّ الیَهُودُ،  فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ،  فَقَالَ: مَا رَأْیُكُمْ إِلَیْهِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ یَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَیْءٍ تَكْرَهُونَهُ،  فَقَالُوا: سَلُوهُ،  فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ،  فَأَمْسَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْهِمْ شَیْئًا،  فَعَلِمْتُ أَنَّهُ یُوحَى إِلَیْهِ،  فَقُمْتُ مَقَامِی فَلَمَّا نَزَلَ الوَحْیُ،  قَالَ:{وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ،  قُلْ: الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} [62]

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے میں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ ایک کھیت میں  حاضرتھا رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اس وقت کھجورکے  ایک تنے  پرٹیک لگائے  ہوئے  تھے  کچھ یہودی اس طرف سے  گزرے  کسی یہودی نے  اپنے  دوسرے  ساتھی سے  کہاکہ ان سے  روح کے  بارے  میں  پوچھوان میں  سے  کسی نے  اس پرکہاکہ ایساکیوں  کرتے  ہو ـ ؟ دوسرا یہودی بولاکہیں  وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں  جوتم کوناپسندہو، رائے  اس پرٹھہری کہ روح کے  بارے  میں  پوچھناہی چاہیے ، چنانچہ انہوں  نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  اس کے  بارے  میں  سوال کیا، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم تھوڑی دیرکے  لئے  خاموش ہوگئے  اوران کی بات کاکوئی جواب نہیں  دیامیں  سمجھ گیاکہ اس وقت آپ پروحی اتررہی ہے ، اس لئے  میں  وہیں  کھڑا رہاجب وحی ختم ہوئی توآپ نے  اس آیت کی تلاوت کی’’ یہ لوگ تم سے  روح کے  متعلق پوچھتے  ہیں  ، کہویہ روح میرے  رب کے  حکم سے  آتی ہے  مگرتم لوگوں  نے  علم سے  کم ہی بہرہ پایاہے ۔ ‘‘[63]

عام طورپر یہاں  روح سے  جان مرادلی جاتی ہے  ،  یعنی لوگوں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  روح حیات کے  متعلق سوال کیاکہ اس کی حقیقت کیاہے  اوراس کاجواب دیاگیاکہ وہ   اللہ   کے  حکم سے  آتی ہے  ، لیکن یہ معنی سیاق وسباق سے  مطابقت نہیں  رکھتا کیونکہ پہلی تین آیتوں  میں  قرآن کے  نسخہ شفاہونے  اورمنکرین قرآن کے  ظلم اورکافرنعمت ہونے  کا ذکر کیاگیاہے  اور بعدکی آیتوں  میں  بھی پھرقرآن کے  کلام الٰہی ہونے  پراستدلال کیاگیاہے  ، درمیان میں  روح حیات کے  بارے  میں  یہ مضمون کس مناسبت سے  آگیا ،  اور ربط عبارت سے  صاف محسوس ہوتاہے  کہ یہاں  روح سے  مراد وحی یاوحی لانے  والافرشتہ جبرائیل علیہ السلام ہی ہوسکتاہے  ، مشرکین مکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوصادق وامین کالقب دینے  کے  باوجودآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی رسالت کے  منکرتھے  ، اس لئے  آپ پرنازل کلام الٰہی کوبھی منزل من   اللہ   خیال نہیں  کرتے  تھے ، ان کا اصرار تھاکہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم اپنی طرف سے  یہ باتیں  گھڑلیتے  ہے  یاکوئی شخص درپردہ انہیں  اس کی تعلیم دیتاہے  اوروہ ہمیں  سنادیتے  ہیں  ، اس لئے  مشرکین کاسوال دراصل یہ تھاکہ یہ قرآن تم کہاں  سے  لاتے  ہو؟اس پر  اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاکہ اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !تم سے  یہ لوگ روح یعنی ماخذ قرآن یا ذریعہ حصول قرآن کے  بارے  میں  دریافت کرتے  ہیں  انہیں  بتادوکہ یہ روح میرے  رب کے  حکم سے  آتی ہے  مگرروح کی حقیقت کوجاننا تمہارے  بس کی بات نہیں  کیونکہ انسان کے  پاس اس قدرعلم نہیں  کہ وہ اس قدرباریک اورلطیف مسائل کی حقیقت جان سکے  ،  قرآن مجیدمیں  یہ مضمون متعددمقامات پربیان کیاگیاہے ۔

یُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ ۔ ۔ ۔ ۝۲ [64]

ترجمہ:وہ اس روح کواپنے  جس بندے  پر چاہتاہے  اپنے  حکم سے  ملائکہ کے  ذریعے  نازل فرما دیتا ہے  ۔

 رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ۝۰ۚ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ۝۱۵ۙ [65]

ترجمہ:وہ بلنددرجوں  والا مالک عرش ہے ، اپنے  بندوں  میں  سے  جس پرچاہتاہے  اپنے  حکم سے  روح نازل کردیتاہے  تاکہ وہ ملاقات کے  دن سے  خبردار کردے ۔

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِـاِذْنِهٖ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ۝۵۱وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ۔ ۔ ۔ ۝۵۲ [66]

ترجمہ:کسی بشرکایہ مقام نہیں  ہے  کہ   اللہ   اس سے  روبروبات کرے ، اس کی بات یاتووحی(اشارے )کے  طورپرہوتی ہے  یاپردے  کے  پیچھے  سے  ،  یا پھروہ کوئی پیغام بر(فرشتہ) بھیجتا ہے  اوروہ اس کے  حکم سے  جوکچھ وہ چاہتاہے  وحی کرتاہے ، وہ برتراورحکیم ہے ، اوراسی طرح (اے  نبی!)ہم نے  اپنے  حکم سے  ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے  ، تمہیں  کچھ پتہ نہ تھاکہ کتاب کیاہوتی ہے  اورایمان کیاہے ۔

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایایہ معجزانہ کلام   اللہ   کے  رسول محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کا گھڑاہوانہیں  ہے  اورنہ ہی کسی انسان کادرپردہ سکھایاہواہے  بلکہ   اللہ   نے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم پرنازل فرمایاہے  ، اگر  اللہ   اسے  پیغمبرسے  بھی چھین لے (حافظہ سے  محو کردے ) تونہ توپیغمبرکی طاقت ہے  کہ وہ ایسا کلام تصنیف کرکے  لاسکے  اورنہ کوئی دوسری طاقت ہی ایسی ہے  جواس کوایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے  کے  قابل بناسکے ، یہ تو  اللہ   کی تم پررحمت وفضل وکرم ہے  کہ اس نے  یہ کلام نازل فرمایاہے  تاکہ اس کی روشنی میں  تم لوگ اپنے  ازلی دشمن شیطان سے  بچ کر سیدھے  راستے  پرچل سکو اور  اللہ   کی رحمتوں  کے  امیدواربن جاؤ۔

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا یَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ‎﴿٨٨﴾‏(بنی اسرائیل)
کہہ دیجئے  کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے  مثل لانا چاہیں  تو ان سب سے  اس کے  مثل لانا ناممکن ہے  گو وہ (آپس میں  ) ایک دوسرے  کے  مددگار بھی بن جائیں  ۔

اعجازقرآنی :

حالانکہ صورت حال یہ ہے  کہ یہ قرآن اپنی زبان اسلوب بیان، طرزاستدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اورغیب کے  علم کے  لحاظ سے  ایک معجزہ ہے  جس کی نظیرلاناکسی انسانی قدرت سے  باہرہے ، تم لوگوں  کایہ خیال ہے  کہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اس عظیم الشان کلام کو خود تصنیف کرلیاہے  مگرہم یہ چیلنج دیتے  ہیں  کہ تمام دنیاکے  انسان وجن مل کربھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں  کرسکتے بلکہ اگروہ جن جنہیں  مشرکین نے  اپنامعبودبنارکھاہے  ، اورجن کی معبودیت پریہ کتاب علانیہ ضرب لگارہی ہے  ، منکرین قرآن کی مددپراکٹھے  ہوجائیں  تب بھی اس کواس قابل نہیں  بناسکتے  کہ قرآن کے  پائے  کی کتاب تصنیف کرکے  اس چیلنج کوردکرسکیں  ، جیسے  فرمایا

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۳َ [67]

ترجمہ:اوراگرتمہیں  اس امرمیں  شک ہے  کہ یہ کتاب جوہم نے  اپنے  بندے  پر اتاری ہے  یہ ہماری ہے  یانہیں  تواس کی مانندایک ہی سورت بنالاؤ، اپنے  سارے  ہمنواؤں  کوبلالوایک   اللہ   کوچھوڑکرباقی جس جس کی چاہومددلے  لو، اگرتم سچے  ہوتویہ کام کر کے  دکھاؤ۔

اَمْ یَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸ [68]

ترجمہ:کیایہ لوگ کہتے  ہیں  کہ پیغمبرنے  اسے  خودتصنیف کرلیاہے  ؟کہواگرتم اپنے  اس الزام میں  سچے  ہوتوایک سورۂ اس جیسی تصنیف کرلاؤاورایک   اللہ   کوچھوڑکرجس جس کوبلاسکتے  ہومددکے  لئے  بلالو ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [69]

ترجمہ:کیایہ کہتے  ہیں  کہ پیغمبرنے  یہ کتاب خودگھڑلی ہے ؟ کہو اچھایہ بات ہے  تواس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں  تم بنالاؤاور  اللہ   کے  سوااورجوجو(تمہارے  معبود)ہیں  ان کومددکے  لئے  بلاسکتے  ہوتوبلالواگرتم(انہیں  معبودسمجھنے  میں  )سچے  ہو۔

اورقرآن کریم کے  بارے  میں  خالق کائنات کایہ چیلنج آج تک تشنہ جواب ہے  ، اس کے  علاوہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کہیں  باہرسے  آکریکایک تمہارے  درمیان نمودار نہیں  ہوگئے  بلکہ وحی کے  نازل ہونے  سے  پہلے  عمرکاایک بڑاحصہ (یعنی چالیس سال) تمہارے  درمیان گزارچکے  تھے ، کیانبوت کادعویٰ کرنے  سے  پہلے  تم نے  کبھی ان کی زبان سے  اس طرز کا کلام اوران مسائل اورمضامین پرمشتمل کلام سناتھا؟اگرنہیں  سناتھااوریقیناًنہیں  سناتھاتوکیایہ بات تمہاری سمجھ میں  نہیں  آتی کہ کسی شخص کی زبان ،  خیالات، معلومات اور طرز فکروبیاں  میں  یکایک ایسا تغیر واقع ہوسکتاہے ؟ اورپھر محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم تمہیں  کلام الہٰی سناکرکہیں  غائب نہیں  ہوجاتے  بلکہ تمہارے  درمیان ہی رہتے  ہیں  ، تم ان کی زبان سے  قرآن سنتے  ہواوردوسری گفتگوئیں  اور تقریریں  بھی سناکرتے  ہو ،  قرآن کے  کلام اورمحمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  اپنے  کلام میں  زبان اوراسلوب کااتنانمایاں  فرق ہے  کہ کسی ایک انسان کے  اس قدردومختلف اسٹائیل کبھی نہیں  ہو سکتے ۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِی هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ‎﴿٨٩﴾‏ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ یَنْبُوعًا ‎﴿٩٠﴾‏ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِیرًا ‎﴿٩١﴾‏ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِیَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِیلًا ‎﴿٩٢﴾‏ أَوْ یَكُونَ لَكَ بَیْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِی السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا ‎﴿٩٣﴾(بنی اسرائیل )
’’ہم نے  تو اس قرآن میں  لوگوں  کے  سمجھنے  کے  لیے  ہر طرح سے  مثالیں  بیان کردی ہیں  مگر اکثر لوگ انکار سے  باز نہیں  آتے ،  انہوں  نے  کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے  کے  نہیں  تاوقتیکہ آپ ہمارے  لیے  زمین سے  کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ،  یا خود آپ کے  لیے  ہی کوئی باغ ہو کھجوروں  اور انگوروں  کا اور اس درمیان آپ بہت سی نہریں  جاری کردکھائیں  ،  یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے  ٹکڑے  کرکے  گرا دیں  جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود   اللہ   تعالیٰ کو اور فرشتوں  کو ہمارے  سامنے  لا کھڑا کردیں ،  یا آپ کے  اپنے  لیے  کوئی سونے  کا گھر ہوجائے  یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں  اور ہم آپ کے  چڑھ جانے  کا بھی اس وقت ہرگز یقین نہیں  کریں  گے  جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار لائیں  جسے  ہم خود پڑھ لیں ،  آپ جواب دیں  کہ میرا پروردگار پاک ہے  میں  تو صرف ایک انسان ہی ہوں  جو رسول بنایا گیا ہوں  ۔ ‘‘

مشرکین کے  مطالبے  :

ہم نے  اس قرآن میں  لوگوں  کومختلف انواع کے  مواعظ اورطرح طرح کے  دلائل وبراہین سے  سمجھایاتاکہ وہ نصیحت پکڑیں  اورتقویٰ اختیارکریں  مگراس کے  باوجوداکثرلوگ انکارہی پرجمے  رہے  ، اسی بات کو اسی سورۂ کے  شروع میں  فرمایا

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا  ۭ وَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا [70]

ترجمہ:ہم نے  اس قرآن میں  طرح طرح سے  لوگوں  کوسمجھایاکہ ہوش میں  آئیں  مگروہ حق سے  اورزیادہ دورہی بھاگے  جارہے  ہیں  ۔

اللہ   تعالیٰ نے  مشرکین کے  مختلف مطالبوں  کو بیان فرمایاکہ وہ کہتے  ہیں  کہ ہم تمہاری پیغمبری پراس وقت تک ایمان نہیں  لائیں  گے  جب تک تم زمین کی طرف ایک اشارہ کرواوراس میں  سے  یکایک ایک چشمہ پھوٹ پڑے  ،  یاتمہارے  ایک اشارے  سے  فوراًایک لہلہاتاباغ پیداہوجائے  اوراس میں  نہریں  بھی جاری ہو جائیں  ، اگر  اللہ   تعالیٰ کی مشیت ہوتی تووہ یقیناًمشرکین کے  مطالبات کوپوراکرسکتاہے  مگر  اللہ   علام الغیوب کوخوب علم ہے  کہ یہ ان کی کٹ حجتی ہے  یہ ایمان نہیں  لائیں  گے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [71]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے  کہ جن لوگوں  پر تیرے  رب کا قول راست آگیا ہے ، ان کے  سامنے  خواہ کوئی نشانی آجائے  وہ بھی ایمان لا کر نہیں  دیتے  جب تک کہ دردناک عذاب سامنے  آتا نہ دیکھ لیں  ۔

وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ   اللہ   وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ یَجْہَلُوْنَ۝۱۱۱ [72]

ترجمہ:اگر ہم فرشتے  بھی ان پر نازل کر دیتے  اور مردے  ان سے  باتیں  کرتے  اور دنیا بھر کی چیزوں  کو ہم ان کی آنکھوں  کے  سامنے  جمع کر دیتے  تب بھی یہ ایمان لانے  والے  نہ تھے ،  الاا یہ کہ مشیت الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں  مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں  کرتے  ہیں  ۔

یا آسمان کی طرف اشارہ کرواور وہ ٹکڑے  ٹکڑے  ہو کر تمہارے  جھٹلانے  والوں  پر گرپڑے ، جیسے  قریش نے  کہاتھا

 وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [73]

ترجمہ:اور وہ بات بھی یاد ہے  جو انہوں  نے  کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے  اور تیری طرف سے  ہے  تو ہم پر آسمان سے  پتھر برسا دے  یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے  آ ۔  شعیب علیہ السلام کی قوم نے  بھی یہی مطالبہ کیاتھا

فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۸۷ۭ [74]

ترجمہ:اگر تو سچا ہے  تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے ۔

یااپنے  منہ سے  ایک پھونک مارواورچشم زدن میں  سونے  کاایک محل بن کر تیار ہو جائے ، یاتمہاری ایک آوازپر   اللہ   اور اس کے  فرشتے  فوراًہمارے  سامنے  آکھڑے  ہوں  اوروہ شہادت دیں  کہ ہم ہی نے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کوپیغمبربناکربھیجاہے ، یاہماری آنکھوں  کے  سامنے  آسمان پرچڑھ جاؤاور  اللہ   سے  ایک نامہ ہمارے  نام لکھوا لاؤ تاکہ ہم اس نامے  کوچھوئیں  اور پڑھیں  ،  ان لمبے  چوڑے  مطالبوں  کا  اللہ   تعالیٰ نے  بہت جامع اور مختصر انداز میں  جواب دیاکہ ان سے  کہو پاک ہے  میرا پروردگار! یعنی جوکچھ تم   اللہ   کے  بارے  میں  کہتے  ہووہ اس سے  بہت بلنداوربالاترہے  ، اس کی ذات اس سے  پاک ہے  کہ اس کے  احکام اورآیات ان کی خواہشات نفس اورگمراہ آراء و نظریات کے  تابع ہوں  ، میں  ایک پیغام لانے  والے  انسان کے  سوااورکچھ نہیں  ، میرے  ہاتھ میں  کچھ بھی اختیارنہیں  ، میں  تمہاری خواہشات پرکوئی معجزہ نہیں  دکھاسکتا، معجزات کا صدورتو  اللہ   کی مشیت سے  ہی ممکن ہے  ، اورمیں  اس کی مشیت میں  دخل اندازی کامجازنہیں  ، جیسے  فرمایا

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ  ۔ ۔ ۔ ۝۵۰ۧ [75]

ترجمہ:اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ان سے  کہو!میں  تم سے  یہ نہیں  کہتاکہ میرے  پاس   اللہ   کے  خزانے  ہیں  اورنہ میں  غیب کا علم رکھتاہوں  اورنہ یہ کہتاہوں  کہ میں  فرشتہ ہوں  ، میں  توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں  جومجھ پرنازل کی جاتی ہے ۔

تم اگراس دعوت کی حقیقت کوجانچنا چاہتے  ہو تو  اللہ   تعالیٰ نے  جوپیغام نازل کیاہے  اس کوبغض وعناداورتعصب سے  پاک ہوکرخوب جانچو، دعوت حق پرایمان لاناہے  تو جانوروں  کی طرح آنکھیں  بند کرکے  نہیں  بلکہ اس پیغام کی صداقت ومعقولیت دیکھ کرایمان لاؤ، اوراگرانکارکرناہے  تواس کے  لئے  تمہارے  پاس کوئی معقول دلیل ہونی چاہیے ، رہی میری ذات تومیں  تمہاری قوم قبیلہ کاایک فردہوں  اوربچپن سے  تم میری زندگی کے  نشیب وفراز ،  میری امانت وصداقت ، میرے  اخلاق وکردار کے  گواہ ہواورمجھے  صادق وامین کالقب بھی دے  چکے  ہو، ان چیزوں  پرغوروتدبر کرنے  کے  بجائے  تم مجھ سے  بے  سروپا مطالبہ کرنے  لگے  ہو ،  میرا کام توبس دیانت داری کے  ساتھ کلام الٰہی تم تک پہنچادینااور تمہاری زندگیوں  کی اصلاح کرنا ہے  ، میری دعوت کوقبول کرنایانہ کرناتمہاراکام ہے ، اگراس پاکیزہ دعوت کوقبول کروگے  تو  اللہ   کی خوشنودی اورجنت کے  وارث بن جاؤگے  ،  انکار کرو گے  تو شیطان کے  ساتھ جہنم کی سیاہ آگ میں  غوطے  لگاتے  پھروگے  جہاں  تمہاراکوئی حمایتی یامددگارنہ ہوگا۔

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا ‎﴿٩٤﴾‏ قُلْ لَوْ كَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا ‎﴿٩٥﴾‏ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِیرًا بَصِیرًا ‎﴿٩٦﴾‏(بنی اسرائیل )
’’لوگوں  کے  پاس ہدایت پہنچ چکنے  کے  بعد ایمان سے  روکنے  والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں  نے  کہا کیا   اللہ   نے  ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ آپ کہہ دیں  کہ اگر زمین میں  فرشتے  چلتے  پھرتے  اور رہتے  بستے  ہوتے  تو ہم بھی ان کے  پاس کسی آسمانی فرشتے  ہی کو رسول بنا کر بھیجتے  ، کہہ دیجئے  کہ میرے  اور تمہارے  درمیان   اللہ   تعالیٰ کا گواہ ہونا کافی ہے  ،  وہ اپنے  بندوں  سے  خوب آگاہ اور بخوبی دیکھنے  والا ہے ۔ ‘‘

بشررسول :

ہرزمانے  کے  مشرکین کایہی نظریہ رہاہے  کہ کوئی انسان کبھی   اللہ   کاپیغمبرنہیں  ہوسکتااس لئے  جب بھی کسی قوم میں  کوئی رسول آیاتوانہوں  نے  دیکھاکہ وہ ان کی طرح گوشت پوست کابنا ہوا ایک انسان ہے  ، جو ان کی طرح کھاتاپیتاہے  ، بیوی بچے  رکھتا ہے  اوراپنی معاش کے  لئے  بازاروں  میں  چلتاپھرتاہے توانہوں  جھٹ سے  فیصلہ سنادیا کہ یہ پیغمبر نہیں  ہوسکتاکیونکہ یہ ہم جیساایک بشرہے ، جیسے  نوح علیہ السلام کی قوم نے  کہا

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً۝۰ۚۖ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴َۚ [76]

ترجمہ:اس کی قوم کے  جن سرداروں  نے  ماننے  سے  انکار کیا وہ کہنے  لگو کہ یہ شخص کچھ نہیں  ہے  مگر ایک بشر تم ہی جیسا اس کی غرض یہ ہے  کہ تم پر برتری حاصل کرے    اللہ   کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے  بھیجتا یہ بات تو ہم نے  کبھی اپنے  باپ دادا کے  وقتوں  میں  سنی ہی نہیں  (کہ بشر رسول بن کر آئے ) ۔

اللہ   تعالیٰ نے  ہود علیہ السلام کواپنی قوم کی ہدایت ورہنمائی کے  لئے  مبعوث فرمایا تو ان کی قوم نے  بھی ایک بشرکورسول تسلیم کرنے  سے  انکارکردیا۔

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ وَاَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝۳۳۠ۙوَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ۝۰ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۝۳۴ۙ [77]

ترجمہ:اس کی قوم کے  جن سرداروں  نے  ماننے  سے  انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا جن کو ہم نے  دنیا کی زندگی میں  آسودہ کر رکھا تھا وہ کہنے  لگے  یہ شخص کچھ نہیں  ہے  مگر ایک بشر تم ہی جیسا جو کچھ تم کھاتے  ہو وہی یہ کھاتا ہے  اور جو کچھ تم پیتے  ہو وہی یہ پیتا ہے  اب اگر تم نے  اپنے  ہی جیسے  ایک بشر کی اطاعت قبول کرلی تو تم گھاٹے  ہی میں  رہے ۔

جب موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام فرعون کے  پاس دعوت حق لے  کرپہنچے  توفرعون اورفرعونیوں  کوقبول حق کی راہ میں  بڑی دشواری ان داعیان حق کی بشریت ہی نظرآئی

فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ۝۴۷ۚ [78]

ترجمہ:کیاہم اپنے  ہی جیسے  دوآدمیوں  پرایمان لے  آئیں  اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری خدمتگار ہے ؟۔

ایک بستی والوں  نے  بھی انسانوں  کو  اللہ   کاپیغمبرتسلیم کرنے  سے  انکارکردیا

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۙ وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۝۱۵[79]

ترجمہ:بستی والوں  نے  کہاتم کچھ نہیں  ہومگرہم جیسے  چندانسان، اورخدائے  رحمٰن نے  ہرگزکوئی چیز نازل نہیں  کی ہے تم محض جھوٹ بولتے  ہو۔

مشرکین مکہ نے  بھی محمدرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوبشررسول تسلیم کرنے  سے  انکارکیا

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۝۷ۙاَوْ یُلْقٰٓى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا۔ ۔ ۔  ۝۸ [80]

ترجمہ:کہتے  ہیں  یہ کیسارسول ہے  جوکھاناکھاتاہے  اور بازاروں  میں  چلتاپھرتاہے  ؟کیوں  نہ اس کے  پاس کوئی فرشتہ بھیجاگیاجو اس کے  ساتھ رہتااور(نہ ماننے  والوں  کو) دھمکاتا؟یااورکچھ نہیں  تو اس کے  لئے  کوئی خزانہ ہی اتاردیاجاتایااس کے  پاس کوئی باغ ہوتاجس سے  یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۝۲ [81]

ترجمہ:کیا لوگوں  کے  لیے  یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے  خود انہی میں  سے  ایک آدمی پروحی بھیجی کہ(غفلت میں  پڑے  ہوئے ) لوگوں  کو چونکا دے  اور جو مان لیں  ان کو خوشخبری دیدے  کہ ان کے  لیے  ان کے  رب کے  پاس سچی عزت و سرفرازی ہے ؟(اس پر) منکرین نے  کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے ؟ ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہٗ كَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا۔ ۔ ۔ ۝۶ [82]

ترجمہ: اس انجام کے  مستحق وہ اس لیے  ہوئے  کہ ان کے  پاس ان کی رسول کھلی کھلی دلیلیں  اور نشانیاں  لے  کر آتے  رہے  مگر انہوں  نے  کہا کیا انسان ہمیں  ہدایت دیں  گے  ؟ ۔

۔ ۔ ۔ قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۝۱۰ [83]

ترجمہ:انہوں  نے  جواب دیا تم کچھ نہیں  ہو مگر ویسے  ہی انسان جیسے  ہم ہیں  تم ہمیں  ان ہستیوں  کی بندگی سے  روکنا چاہتے  ہو جن کی بندگی باپ دادا سے  ہوتی چلی آرہی ہے  ، اچھا تو لاؤ کوئی صریح سَنَد۔

الغرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں  جمع ہونامشرکین کے  لئے  ہمیشہ ایک معمہ ہی بنارہاہے ،   اللہ   تعالیٰ نے پیغمبروں  کی بشریت کے  بارے  میں  فرمایااگرزمین میں  فرشتے  اطمینان سے  چل پھررہے  ہوتے  توہم ضرورآسمان سے  کسی فرشتے  ہی کوان کے  لئے  پیغمبربناکربھیجتے ، کیونکہ زمین میں  انسان بستے  ہیں  اس لئے  ہم نے  ہمیشہ انسانوں  کی طرف انسان ہی کو پیغمبربناکربھیجتے  رہے  ہیں  ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۷وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ۝۸ [84]

ترجمہ:اور اے  نبی ( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) تم سے  پہلے  بھی ہم نے  انسانوں  ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے  تھے  تم لوگ اگر علم نہیں  رکھتے  تو اہل کتاب سے  پوچھ لو،  ان رسولوں  کو ہم نے  کوئی ایسا جسم نہیں  دیا تھا کہ وہ کھاتے  نہ ہوں  ،  اور نہ وہ سدا جینے  والے  تھے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۲۰ۧ [85]

ترجمہ:اے  نبی ! تم سے  پہلے  جورسول بھی ہم نے بھیجے  تھے  وہ سب بھی کھاناکھانے  والے  اوربازاروں  میں  چلنے  پھرنے  والے  لوگ ہی تھے  ۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً ۔ ۔ ۔ ۝۳۸ [86]

ترجمہ: تم سے  پہلے  بھی ہم بہت سے  رسول بھیج چکے  ہیں  اوران کو ہم نے  بیوی بچوں  والاہی بنایاتھا۔

چنانچہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوحکم دیاکہ آپ اپنے  بشرہونے  کاواضح اعلان کردیں  تاکہ لوگ آپ کوبھی الوہیت سے  متصف نہ کرنے  لگیں  ۔

 قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۔ ۔ ۔  ۝۶ۙۙ [87]

ترجمہ:اے  نبی( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ان سے  کہو !میں  تو ایک بشر ہوں  تم جیسامجھے  وحی کے  ذریعہ سے  بتایا جاتا ہے  کہ تمہارا خدا تو بس ایک خدا ہے  ،  لہٰذا تم سیدھے  اُسی کا رخ اختیار کرو،  اور اس سے  معافی چاہو۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۔ ۔ ۔ ۝۱۱۰ۧ [88]

ترجمہ:اے  نبی ان سے  کہو!میں  توایک بشرہوں  تم جیسا، مجھے  وحی کے  ذریعہ سے  بتایاجاتاہے  کہ تمہاراخداتوبس ایک ہی خدا ہے  ۔

اوربشررسول کوبھیجنے  کامقصدیہ تھا کہ وہ انہیں    اللہ   کاپیغام پہنچائے  اوران کی اصلاح وتربیت بھی کرے  ،   اللہ   نے  جو اصول متعین کیے  ہیں  انہیں  انسانوں  میں  جاری کرے  ،  اور خوداپنی زندگی میں  ان اصولوں  کا عملی مظاہرہ کرے ، اس پیغام کوسن کرمختلف انسانوں  کے  ذہنوں  میں  جو خیا لات ،  اشکال پیداہوتے  ہیں  اس کی گتھیاں  سلجھائے ،   اللہ   کے  پیغام کاانکارکرنے  ،  مخالفت ومزاحمت کرنے  والوں  کے  مقابلہ میں  جدوجہدکرے  ۔

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَكِّیْكُمْ وَیُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۱۵۱ۭۛ [89]

ترجمہ:ہم نے  تمہارے  درمیان خودتم میں  سے  ایک رسول بھیجا جوتمہیں  ہماری آیات سناتاہے  ، تمہاری زندگیوں  کوسنوارتاہے  ، تمہیں  کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے  اورتمہیں  وہ باتیں  سکھاتاہے  جوتم نہ جانتے  تھے  ۔

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۶۴ٍ [90]

ترجمہ:درحقیقت اہل ایمان پرتو  اللہ   نے  یہ بہت بڑااحسان کیاہے  کہ ان کے  درمیان خودانہی میں  سے  ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جواس کی آیات انہیں  سناتا ہے  ، ان کی زندگیوں  کو سنوارتاہے  اوران کوکتاب اوردانائی کی تعلیم دیتاہے حالانکہ اس سے  پہلے  یہی لوگ صریح گمراہیوں  میں  پڑے  ہوئے  تھے ۔

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۸ [91]

ترجمہ:دیکھو!تم لوگوں  کے  پاس ایک رسول آیاہے  جوخودتم ہی میں  سے  ہے  ، تمہارانقصان میں  پڑنااس پرشاق ہے ،  تمہاری فلاح کاوہ حریص ہے ، ایمان لانے  والوں  کے  لئے  وہ شفیق اوررحیم ہے ۔

لوگوں  نے  اپنے  جہل ونادانی میں  خدا رسیدگی کوخدائی کاہم معنی بنادیاتھاجس سے  یہ عقیدہ بھی پیداہوگیاکہ   اللہ   کے  برگزیدہ بندوں  میں  غیرمعمولی طاقتیں  ہوتی ہیں  ،   اللہ   ان کوکچھ خاص اختیارات تفویض کرتا ہے ، ان کو جزا وسزا میں  بھی دخل ہوتاہے ، ان پرغیب اور شہادت سب کچھ روشن ہوتاہے ،   اللہ   تعالیٰ لوگوں  کی قسمتوں  کے  فیصلے  ان کی مرضی اوران کی رائے  سے  بدل دیتاہے ، وہ لوگوں  کونفع ونقصان پہنچانے  پرقدرت رکھتے  ہیں  ،  چنانچہ   اللہ   تعالیٰ نے  خدارسیدگی اوربزرگی کے  متعلق غلط تصورات ونظریات کی صاف تردید فرما دی ، فرمایا کہ نبی   اللہ   کے  اذن کے  بغیردوسروں  کوکسی نقصان سے  بچانا تو درکنار وہ توخودآپنے  آپ سے  بھی نقصان کودوررکھنے  کی قدرت وطاقت نہیں  رکھتا۔

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَاِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۷ [92]

ترجمہ:اگر   اللہ   تمہیں  کسی قسم کا نقصان پہنچائے  تو اس کے  سوا کوئی نہیں  جو تمہیں  اس نقصان سے  بچا سکے ،  اور اگر وہ تمہیں  کسی بھلائی سے  بہرہ مند کرے  تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۴۹ [93]

ترجمہ:کہو میرے  اختیار میں  خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں  سب کچھ   اللہ   کی مشیّت پر موقوف ہے ۔

آج کل یہ بھی عقیدہ ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم غیب کاعلم رکھتے  ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاکہ نبی کے  پاس   اللہ   کے  خزانوں  کی کنجیاں  نہیں  ہیں  نہ وہ علم غیب رکھتاہے  اورنہ اس کوفوق العادت قوتیں  حاصل ہیں  ۔

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۵۰ۧ [94]

ترجمہ:اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ان سے کہو!میں  تم سے  یہ نہیں  کہتاکہ میرے  پاس   اللہ   کے  خزانے  ہیں  ، نہ میں  غیب کاحال جانتاہوں  اورنہ یہ کہتاہوں  کہ میں  فرشتہ ہوں  ، میں  توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں  جومجھ پرنازل کی جاتی ہے ۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ [95]

ترجمہ:اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ان سے  کہو! کہ میں  اپنی ذات کے  لیے  کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں  رکھتا ،    اللہ   ہی جو کچھ چاہتا ہے  وہ ہوتا ہے اوراگرمیں  غیب جاننے  والاہوتاتومیں  بہت سے  فائدے  اپنے  لیے  حاصل کرلیتااورمجھے  کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا، میں  تومحض ایک خبردار کرنے  والا اورخوشخبری سنانے  والاہوں  ان لوگوں  کے  لیے  جومیری بات مانیں  ۔

اورفرمایاکہ نبی کوجزاوسزامیں  بھی کوئی دخل نہیں  ، نبی کاکام   اللہ   کے  پیغام کولوگوں  تک پہنچادینااورسیدھی راہ دکھادیناہے ، اس کے  بعدمحاسبہ اور مواخذہ کرنااورلوگوں  کو جزاوسزادینا  اللہ   تعالیٰ کے  اختیارمیں  ہے ۔

قُلْ اِنِّىْ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَكَذَّبْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ۝۰ۭ یَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَخَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ۝۵۷قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْــنِیْ وَبَیْنَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِـمِیْنَ۝۵۸ [96]

ترجمہ: کہو،  میں  اپنے  رب کی طرف سے  ایک دلیل روشن پر قائم ہوں  اور تم نے  اسے  جھٹلا دیا ہے ،  اب میرے  اختیار میں  وہ چیز ہے  نہیں  جس کے  لیے  تم جلدی مچا رہے  ہو،  فیصلہ کا سارا اختیار   اللہ   کو ہے ،  وہی امر حق بیان کرتا ہے  اور وہی بہترین فیصلہ کرنے  والا ہے ، کہو،  اگر کہیں  وہ چیز میرے  اختیار میں  ہوتی جس کی تم جلدی مچا رہے  ہو تو میرے  اور تمہارے  درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا مگر   اللہ   زیادہ بہتر جانتا ہے  کہ ظالموں  کے  ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے ۔

۔ ۔ ۔  فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ[97]

ترجمہ:اے  نبی! تمہاراکام تو بس پیغام پہنچادیناہے  حساب لیناہماراکام ہے ۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ۝۰ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ۝۴۱ۧ [98]

ترجمہ: (اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ہم نے  سب انسانوں  کے  لیے  یہ کتاب برحق تم پر نازل کردی ہے  اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے  گا اپنے  لیے  کرے  گا اور جو بھٹکے  گا اس کے  بھٹکنے  کا وبال اسی پر ہوگا تم ان کے  ذمہ دار نہیں  ہو ۔

اورجولوگ دعوت حق قبول نہ کرناچاہیں  ان لوگوں  کے  دلوں  کوپھیردینااوران میں  ایمان پیداکردینابھی نبی کے  بس کی بات نہیں  ہے ، نبی کاکام صرف پیغام پہنچادینااورراستہ دکھلادیناہے ۔

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۸۰وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ۝۰ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۸۱ [99]

ترجمہ:تم مردوں  کونہیں  سناسکتے  اورنہ بہروں  تک آواز پہنچاسکتے  ہوجب کہ وہ پیٹھ پھیرکربھاگے  جارہے  ہوں  ، اورنہ اندھوں  کوراستہ بتاکربھٹکنے  سے  بچاسکتے  ہوتم تواپنی بات انہی لوگوں  کوسناسکتے  ہوجوہماری آیات پر ایمان لاتے  ہیں  اورپھرفرماں  برداربن جاتے  ہیں  ۔

۔ ۔ ۔ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۲۲اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ۝۲۳اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ۝۲۴ [100]

ترجمہ: مگر (اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ) تم ان لوگوں  کو نہیں  سنا سکتے  جو قبروں  میں  مدفون ہیں  ،  تم تو بس ایک خبردار کرنے  والے  ہو، ہم نے  تم کو حق کے  ساتھ بھیجا ہے  بشارت دینے  والا اور ڈرانے  والا بنا کر،  اور کوئی امت ایسی نہیں  گزری ہے  جس میں  کوئی متنبہ کرنے  والا نہ آیا ہو ۔

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [101]

ترجمہ: اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تم جسے  چاہواسے  ہدایت نہیں  دے  سکتے  مگر  اللہ   جسے  چاہتا ہے  ہدایت دیتا ہے  اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے  جوہدایت قبول کرنے  والے  ہیں  ۔

اوریہ بھی صاف صاف بیان فرمادیاگیاکہ نبی کاکام   اللہ   کے  پیغام کومن وعن پوری امانت ودیانت کے  ساتھ لوگوں  تک پہنچادیناہے  ،  اوراگرنبی بھی اطاعت سے  منہ موڑے  اور  اللہ   کے  کلام میں  اپنے  دل سے  گھڑکرباتیں  ملادے  تووہ   اللہ   کی پکڑسے  بچ نہیں  سکتا۔

۔ ۔ ۔  وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۴۵ۘ [102]

ترجمہ: اوراگرتم نے  اس علم کے  بعدجوتمہارے  پاس آ چکا ہے  ان کی خواہشات کی پیروی کی تویقینا تمہاراشمار ظالموں  میں  ہوگا ۔

۔ ۔ ۔ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۝۱۲۰ؔ [103]

ترجمہ:ورنہ اگر اس علم کے  بعدجوتمہارے  پاس آچکاہے  تم نے  ان کی خواہشات کی پیروی کی تو  اللہ   کی پکڑ سے  بچانے  والاکوئی دوست اورمددگارتمہارے  لیے  نہیں  ہے ۔

۔ ۔ ۔ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَاۗیِ نَفْسِیْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۱۵ [104]

ترجمہ: اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! ان سے  کہو میرا یہ کام نہیں  ہے  کہ اپنی طرف سے  اس میں  کوئی تغیّر و تبدّل کرلوں  میں  تو بس اس وحی کا پیرو ہوں  جو میرے  پاس بھیجی جاتی ہے  اگر میں  اپنے  رب کی نافرمانی کروں  تو مجھے  ایک بڑے  ہولناک دن کے  عذاب کا ڈر ہے  ۔

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !ان مشرکین سے  کہہ دیں  کہ میری صداقت کے  لئے  معجزوں  کی ضرورت نہیں  ،  جس طرح میں  خلوص نیت سے  تمہیں  سمجھارہاہوں  اورتندہی سے  تمہاری اصلاح حال کے  لئے  کوشش کررہاہوں  اسے  بھی   اللہ   جانتاہے  اوراس کے  جواب میں  جوتم میری مخالفت میں  کررہے  ہواس کوبھی   اللہ   دیکھ رہاہے  ، فیصلہ آخرکاراسی کو کرنا ہے ، اس لئے  بس اسی کا جاننااوردیکھناکافی ہے ۔

وَمَنْ یَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْیًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِیرًا ‎﴿٩٧﴾‏ ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآیَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا ‎﴿٩٨﴾‏ ۞ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَا رَیْبَ فِیهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا ‎﴿٩٩﴾‏ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّی إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْإِنْفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا ‎﴿١٠٠﴾‏ (بنی اسرائیل)
’’  اللہ   جس کی رہنمائی کرے  وہ تو ہدایت یافتہ ہے  اور جسے  وہ راہ سے  بھٹکا دے  ناممکن ہے  کہ تو اس کا مددگار اس کے  سوا کسی اور کو پائے ،  ایسے  لوگوں  کا ہم بروز قیامت اوندھے  منہ حشر کریں  گے ،  دراں  حالیکہ وہ اندھے  گونگے  اور بہرے  ہوں  گے  ، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جب کبھی وہ بجھنے  لگے  گی ہم ان پر اسے  اور بھڑکا دیں  گے ،  یہ سب ہماری آیتوں  سے  کفر کرنے  اور اس کے  کہنے  کا بدلہ ہے  کہ کیا جب ہم ہڈیاں  اور ریزے  ریزے  ہوجائیں  گے  پھر ہم نئی پیدائش میں  اٹھ کھڑے  کئے  جائیں  گے  ؟ کیا انہوں  نے  اس بات پر نظر نہیں  کی کہ جس   اللہ   نے  آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ ان جیسوں  کی پیدائش پر پورا قادر ہے ،  اسی نے  ان کے  لیے  ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے  جو شک و شبہ سے  یکسر خالی ہے  لیکن ظالم لوگ انکار کئے  بغیر رہتے  ہی نہیں ،  کہہ دیجئے  کہ اگر بالفرض تم میرے  رب کی رحمتوں  کے  خزانوں  کے  مالک بن جاتے  تو تم اس وقت بھی اس کے  خرچ ہوجانے  کے  خوف سے  اس کو روکے  رکھتے ،  اور انسان ہے  ہی تنگ دل ۔ ‘‘

میدان حشرکاایک ہولناک منظر:

ہدایت وگمراہی   اللہ   ہی کے  اختیارمیں  ہے  ، وہ دلوں  کی کیفیت کوخوب جانتاہے  ، اسی کے  مطابق وہ جس کوچاہتاہے  ہدایت نصیب کردیتاہے  اور وہی ہدایت پانے  والاہے  اورجسے  وہ ضلالت پسندی ، ہٹ دھرمی اورخباثت کے  سبب اسے  اس کے  نفس کے  حوالے  کرکے  گمراہیوں  میں  دھکیل دے  تو  اللہ   کے  سواکسی دوسری ہستی میں  یہ طاقت نہیں  کہ اسے  راہ راست پر لاسکے ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ مَنْ یَّہْدِ   اللہ   فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ [105]

ترجمہ: جس کو   اللہ   ہدایت دے  وہی ہدایت پانے  والا ہے  اور جسے    اللہ   بھٹکا دے  اس کے  لیے  تم کوئی ولی مرشد نہیں  پاسکتے ۔

ان لوگوں  کوہم قیامت کے  روزمیدان محشرمیں  اوندھے  منہ کھینچ لائیں  گے  ،

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ یُحْشَرُ الكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ؟ قَالَ:أَلَیْسَ الَّذِی أَمْشَاهُ عَلَى الرِّجْلَیْنِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلَى أَنْ یُمْشِیَهُ عَلَى وَجْهِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ایک شخص نے  پوچھااے    اللہ   کے  نبی ! کافر کو قیامت کے  دن اس کے  چہرہ کے  بل کس طرح چلایاجائے  گا؟ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجس   اللہ   نے  ان کودنیامیں  دوپیروں  سے  چلنے  کی قوت عطاکی ہے  وہ اس بات پربھی قادرہے  کہ انہیں  منہ کے  بل چلا دے ۔ [106]

دنیامیں  یہ آنکھیں  رکھتے  ہوئے  بھی   اللہ   کی ہرسوبکھری ہوئی نشانیوں  کونہیں  دیکھتے  اوراندھے  بنے  رہتے  ہیں  ، قوت گویائی رکھنے  کے  باوجودحق نہیں  بولتے  اورگونگابنے  رہتے  ہیں  ، سننے  کی صلاحیت رکھنے  کے  باوجودحق بات کونہیں  سنتے  اوربہرے  بنے  رہتے  ہیں  ، اس لیے قیامت کے  روزبطورجزاانہیں  اندھا ، بہرہ اورگونگاکرکے  اٹھایاجائے  گا ،  ان کی دائمی جائے  قرارجہنم ہے  جہاں  ان لوگوں  کے  لئے  ہرقسم کاحزن اورعذاب جمع ہے  ، جب کبھی جہنم کی آگ دھیمی ہونے  لگے  گی ہم اسے  اوربھڑکادیں  گے  ، اس کے  شعلوں  ، حرارت اور انگاروں  میں  اوراضافہ کردیں  گے ، اس طرح نہ عذاب میں  تخفیف ہوگی اورنہ عذاب منقطع ہوگا جیسے  فرمایا

فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا۝۳۰ۧ [107]

ترجمہ:اب چکھومزہ، ہم تمہارے  لئے  عذاب کے  سواکسی چیزمیں  ہرگزاضافہ نہ کریں  گے ۔

یہ بدلہ ہے  ان کی اس حرکت کاکہ انہوں  نے  کائنات میں  پھیلی ہوئی ہماری تکوینی آیات پر غوروفکرنہیں  کیااور وقوع قیامت اوربعث بعدالموت کومحال تصور کیا اورکہاکیاجب ہم مٹی میں  مل کرصرف ہڈیاں  اورخاک ہوکررہ جائیں  گے  تونئے  سرے  سے  ہم کوپیداکرکے  کھڑا کیاجائے  گا؟  اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  اس سوال کے  جواب میں  اپنی قدرت کاملہ کاذکرفرمایاکیایہ مکذبین اس پرغوروتدبرنہیں  کرتے  کہ جو  اللہ   وحدہ لاشریک اس عظیم الشان کائنات کواول باربلاکسی نمونہ کے  تخلیق کرسکتا ہے ، جس نے  خشکی وسمندرکی چھوٹی بڑی ان گنت مخلوقات کوپیداکیاہے  ،  جس نے  انسان کوکنکھناتی مٹی سے اپنے  ہاتھوں  سے  تخلیق کیا اورپھر پانی کے  ایک حقیرقطرے  سے  اس کی نسل کوچلایاہے  ، اوربہترین صلاحیتوں  ، قابلیتوں  سے  نواز کرزمین میں  خلیفہ بنایاہے  وہ انسانوں  کومرنے  کے  بعددوبارہ پیدا کرنے  کی ضرورقدرت رکھتاہے  ؟کیونکہ یہ تو آسمان وزمین کی تخلیق سے  زیادہ آسان ہے  ،  جیسے  فرمایا

 لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ۔ ۔ ۔ ۝۵۷ [108]

ترجمہ:آسمانوں  اورزمین کا پیدا کرنا انسان کو پیداکرنے  کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑاکام ہے  ۔

 اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [109]

ترجمہ: اور کیا ان لوگوں  کویہ سجھائی نہیں  دیتاکہ جس   اللہ   نے  یہ زمین اورآسمان پیداکیے  اور ان کوبناتے  ہوئے  وہ نہ تھکاوہ ضروراس پرقادرہے  کہ مردوں  کو جلا اٹھائے ؟کیوں  نہیں  ، یقیناًوہ ہرچیزکی قدرت رکھتاہے ۔

اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ۝۰ۭ۬ بَلٰى۝۰۝۰ۤوَهُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [110]

ترجمہ:کیاوہ جس نے  آسمانوں  اورزمین کوپیداکیااس پر قادر نہیں  ہے  کہ ان جیسوں  کوپیداکرسکے  ؟ کیوں  نہیں  جب کہ وہ ماہرخلاق ہے ، وہ توجب کسی چیزکاارادہ کرتاہے  تواس کاکام بس یہ ہے  کہ اسے  حکم دے  کہ ہوجااوروہ ہوجاتی ہے ۔

اس نے  ان کے  حشرکے  لئے  ایک وقت مقرر کر رکھاہے  جس کاآنایقینی ہے ، جیسے  فرمایا

وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۝۱۰۴ۭ [111]

ترجمہ:ہم اس کے  لانے  میں  کچھ بہت زیادہ تاخیرنہیں  کررہے  ہیں  بس ایک گنی چنی مدت اس کے  لئے  مقرر ہے  ۔

مگر ظالموں  کو اصرارہے  کہ وہ اس کاانکارہی کریں  گے ، مشرکین مکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی نبوت کااس لئے  بھی انکارکرتے  تھے  کیونکہ اس طرح انہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کافضل وشرف مانناپڑتااوراپنے  کسی معاصراورہم چشم کافضل ماننے  کے  لئے  انسان مشکل سے  ہی آمادہ ہوا کرتاہے  ، اس پرفرمایاکہ اے  نبی ان سے  کہو!اگرکہیں  میرے  رب کی رحمت کے  خزانے  تمہارے  قبضے  میں  ہوتے  تو تم خرچ ہوجانے  کے  اندیشے  سے  ضروران کوروک رکھتے  واقعی انسان بڑاتنگ دل واقع ہو اہے ، یعنی جن لوگوں  کی بخیلی اورکنجوسی کایہ حال ہے  کہ کسی کے  واقعی مرتبے  کااقرارواعتراف کرتے  ہوئے  بھی ان کادل دکھتاہے  ، انہیں  اگرکہیں    اللہ   نے  اپنے  خزانہائے  رحمت کی کنجیاں  حوالے  کردی ہوتیں  تووہ کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دیتا جیسے  فرمایا

اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا۝۵۳ۙ [112]

ترجمہ: کیاحکومت میں  ان کاکوئی حصہ ہے  ؟ اگر ایساہوتاتویہ دوسروں  کوایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے ۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا۝۱۹ۙاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا۝۲۰ۙوَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا۝۲۱اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ۝۲۲ۙۙ [113]

ترجمہ:انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر مصیبت آتی ہے  تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے  خوشحالی نصیب ہوتی ہے  تو بخل کرنے  لگتا ہے ، سوائے  ان نمازیوں  کے  ۔

یہ تو  اللہ   تعالیٰ کافضل وکرم ہے  کہ اس نے  اپنے  خزانوں  کے  منہ لوگوں  کے  لئے  کھولے  ہوئے  ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: یَدُ اللَّهِ مَلْأَى لاَ یَغِیضُهَا نَفَقَةٌ،  سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ،  وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ،  فَإِنَّهُ لَمْ یَغِضْ مَا فِی یَدِهِ،  وَقَالَ: عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ،  وَبِیَدِهِ الأُخْرَى المِیزَانُ،  یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   کا ہاتھ بھرا ہوا ہے ، اسے  رات دن کی بخشش بھی کم نہیں  کرتی، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا کیا تمہیں  معلوم ہے  کہ جب سے  اس نے  آسمان وزمین پیدا کیے  ہیں  اس نے  کتنا خرچ کیاہے لیکن اس کے  باوجودخودان کے  ہاتھ میں  جوکچھ ہے  اس میں  کمی نہیں  اورفرمایااس کاعرش پانی پرہے اوراس کے  دوسرے  ہاتھ میں  ترازوہے  جسے  وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے ۔  [114]

‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَأَظُنُّكَ یَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ‎﴿١٠١﴾‏(بنی اسرائیل )
’’ہم نے  موسیٰ کو نو معجزے  بالکل صاف صاف عطا فرمائے ،  تو خود ہی بنی اسرائیل سے  پوچھ لے  کہ جب وہ ان کے  پاس پہنچے  تو فرعون بولا کہ اے  موسٰی ! میرے  خیال میں  تو تجھ پر جادو کردیا گیا ہے ۔ ‘‘

نومعجزے  :

مشرکین رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوباربارکہتے  تھے  کہ اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !ہم اس وقت تک آپ پرایمان نہیں  لائیں  گے  جب تک آپ یہ اوریہ کام کرکے  نہ دکھادیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  مشرکین کے  معجزات کے  مطالبے  کاتیسراجواب فرمایاکہ تم سے  پہلے  فرعون کوایک دونہیں  پورے  نوصریح معجزات(یدبیضا، عصا، قحط سالی، پھلوں  میں  کمی، طوفان، ٹڈی دل، جوئیں  ، مینڈک اورخون) پے  درپے  دکھائے  گئے  تھے  جوموسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی صداقت پرکھلی دلیل تھے ، اگرآپ کواس بارے  میں  کوئی شک ہے  توآپ بنی اسرائیل سے  پوچھ لیں  مگراس کے  باوجودفرعون نے  انہیں  جھٹلایا، جیسے  فرمایا

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝۰ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ۝۱۳۳ [115]

ترجمہ:اخرکار ہم نے  ان پر طوفان بھیجا ٹڈی دل چھوڑے ،  سرسریاں  پھیلائیں  ،  مینڈک نکالے ،  اور خون برسایا،  یہ سب نشانیاں  الگ الگ کر کے  دکھائیں  ،  مگر وہ سرکشی کیے  چلے  گئے  اور بڑے  ہی مجرم لوگ تھے ۔

جس طرح تم محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کوایک سحرزدہ آدمی کہتے  ہو۔

۔ ۔ ۔ اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۴۷ [116]

ترجمہ: یہ ظالم آپس میں  کہتے  ہیں  یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے  جس کے  پیچھے  تم لوگ جا رہے  ہو ۔

فرعون نے  بھی موسیٰ علیہ السلام کواسی خطاب سے  نوازا تھا تو تمہیں  معلوم ہے  اس کاپھرکیاانجام ہوا،   اللہ   نے  اسے  اوراس کے  لشکرکوبنی اسرائیل کے  سامنے  سمندر میں  غرق کردیا، پھران کے  بے  شمارمعبودوں  میں  سے  کوئی معبودانہیں  بچانے  والانہ تھا، اس لئے  معجزات کے  مطالبے  کرنے  کے  بجائے    اللہ   وحدہ لاشریک کے  پیغام کو سمجھو،   اللہ   کے  پاکیزہ کلام پراور   اللہ   وحدہ لاشریک کی ہرسو بکھری ہوئی نشانیوں  پر غوروتدبر کرو ، تباہ شدہ اقوام کے  دردناک انجام سے  عبرت حاصل کرواور یکسو ہو کر   اللہ   رب العالمین پرایمان لے  آؤ۔

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّی لَأَظُنُّكَ یَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ‎﴿١٠٢﴾‏ فَأَرَادَ أَنْ یَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِیعًا ‎﴿١٠٣﴾‏ وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیفًا ‎﴿١٠٤﴾‏(بنی اسرائیل )
’’موسیٰ نے  جواب دیا کہ یہ تو تجھے  علم ہوچکا ہے  کہ آسمان و زمین کے  پروردگار ہی نے  یہ معجزے  دکھانے ،  سمجھانے  کو نازل فرمائے  ہیں ،  اے  فرعون ! میں  تو سمجھ رہا ہوں  کہ تو یقیناً تباہ اور ہلاک کیا گیا ہے ،  آخر فرعون نے  پختہ ارادہ کرلیا کہ انھیں  زمین سے  ہی اکھیڑ دے  تو ہم نے  خود اسے  اور اس کے  تمام ساتھیوں  کو غرق کردیا، اس کے  بعد ہم نے  بنی اسرائیل سے  فرما دیا کہ اس سرزمین پر رہو سہو، ہاں  جب آخرت کا وقت آئے  گا ہم سب کو سمیٹ اور لپیٹ کرلے  آئیں  گے ۔ ‘‘

فرعون کے  ملک مصرپریکے  بعددیگرے  جونووبال نازل ہوئے وہ   اللہ   تعالیٰ کے  سواکسی انسانی طاقت یاجادوگرکے  جادوسے  رونمانہیں  ہوسکتے  تھے ، جبکہ جب کوئی بلانازل ہونی ہوتی تھی موسیٰ علیہ السلام فرعون کوپہلے  سے  اطلاع دے  دیتے  تھے  کہ اگرتم مالک الارض وسماوات پرایمان نہ لائے  تو اس طرح کی بلاتمہاری سلطنت پرمسلط ہوجائے  گی اور ٹھیک اسی طرح وہ بلامسلط ہوجاتی تھی ، اس صورت میں  ایک ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتاتھاکہ ان بلاؤں  کانزول رب الارض وسماوات کے  سواکسی اورکی کارستانی کانتیجہ ہے ، یہ معجزات دیکھ کران کے  دلوں  میں  یقین آچکاتھامگروہ اپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہے  ، جیسے  فرمایا

وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۝۰ۭ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۝۱۴ۧ [117]

ترجمہ:انہوں  نے  سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے  ان نشانیوں  کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے  قائل ہو چکے  تھے ، اب دیکھ لوکہ ان مفسدوں  کاانجام کیساہوا۔

چنانچہ فرعون کے  القاب پر موسیٰ علیہ السلام نے  فرعون سے  کہامیں  توسحرزدہ نہیں  ہوں  البتہ   اللہ   تعالیٰ کی ان بصیرت افروز کھلی نشانیوں  کودیکھ کربھی تو اپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہے  جس سے  صاف معلوم ہوتا ہے  کہ توسخت مبغوض، مذموم، دھتکاراہوااور  اللہ   کے  عذاب میں  پھینکاجانے  والاہے  ، مشرکین مکہ اس فکرمیں  تھے  کہ کسی طرح محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم اوران کے  ساتھیوں  کومکہ مکرمہ سے  نکال باہرکریں  تاکہ یہ لوگ منتشر ہوکر ناپید ہو جائیں  ،  اس پر  اللہ   تعالیٰ نے  انہیں  جتلا دیا کہ فرعون مصرنے  بھی موسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل کے  ساتھ ایساہی کرنے  کا پختہ ارادہ کرلیاتھاجس طرح تم سوچ رہے  ہومگر  اللہ   کے  مقابلے  میں  اس کی تدبیر کوئی کام نہ آئی ،    اللہ   تعالیٰ ،  مو سیٰ علیہ السلام اورلاکھوں  بنی اسرائیل کوسرکش فرعون کے  دست بردسے  بخیریت بچا کر لے  آیااورفرعون ، اس کے  ظالم سرداروں  اوراس کے  لشکر کواکٹھاان کی نظروں  کے  سامنے  سمندر میں  غرق کرکے  عبرت کی ایک مثال قائم کردی ، اگرتم لوگ بھی فرعون کی روش اختیارکروگے  تویادرکھوتمہاراانجام بھی فرعون سے  مختلف نہیں  ہوگا، تم لوگ بھی عبرت کی نگاہ بن جاؤ گے ، اوربنی اسرائیل سے  کہہ دیاکہ فلسطین کی سرزمین میں  رہو سہو ، پھرجب آخرت کے  وعدے  کامقررہ وقت آن پوراہوگاتوہم تم سب کواعمال کی جزاکے  لئے  ایک ساتھ میدان محشرمیں  حاضرکریں  گے ، پھرجن لوگوں  نے  نیک اعمال کیے  ہوں  گے  ان کوجنتوں  میں  اورجن لوگوں  نے  برے  اعمال کیے  ہوں  گے  ان کوجہنم میں  داخل کریں  گے ۔

وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا ‎﴿١٠٥﴾‏ وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِیلًا ‎﴿١٠٦﴾‏ (بنی اسرائیل )
’’ اور ہم نے  اس قرآن کو حق کے  ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے  ساتھ اترا ، ہم نے  آپ کو صرف خوشخبری سنانے  والا اور ڈرانے  والا بنا کر بھیجا ہے ،  قرآن کو ہم نے  تھوڑا تھوڑا کر کے  اس لیے  اتارا ہے  کہ آپ اسے  بہ مہلت لوگوں  کو سنائیں  اور ہم نے  خود بھی اسے  بتدریج نازل فرمایا۔ ‘‘

یہ لوگ   اللہ   کے  اس آخری کلام کونہیں  مانتے  تونہ مانیں  اس کاانجام انہیں  معلوم ہوجائے  گامگرہم نے  اس قرآن کولوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے  لیے  حق کے  ساتھ نازل کیاہے جس کی حقانیت پرہم خودشاہدہیں  اورفرشتے  بھی گواہ ہیں  ، جیسے  فرمایا

لٰكِنِ   اللہ   یَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ۝۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَشْہَدُوْنَ۝۰ۭ وَكَفٰی بِ  اللہ   شَہِیْدًا۝۱۶۶ۭ [118]

ترجمہ:(لوگ نہیں  مانتے  تو نہ مانیں  ) مگر   اللہ   گواہی دیتا ہے  کہ اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! جو کچھ اس نے  تم پر نازل کیا ہے  اپنے  علم سے  نازل کیا ہے  اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں  اگرچہ   اللہ   کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے  ۔

اوریہ قرآن کریم طاقت ور، ذی عزت اورامین فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کے  ذریعہ ہرطرح کی کمی بیشی ،  تبدیلی اور آمیزش سے  یکسرپاک تم پرنازل ہوا ہے  ، اوراے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تمہارے  ذمہ یہ کام نہیں  ہے  کہ جولوگ قرآنی تعلیمات کوجانچ کرحق اور باطل کافیصلہ کرنے  کے  لئے  تیارنہیں  ہیں  تم ان کوان کی منشاکے  مطابق معجزے  دکھا کرمسلمان بنانے  کی کوشش کروبلکہ آپ کاکام صرف یہ ہے  کہ لوگوں  کوحق کی دعوت دو اور انہیں  صاف صاف جتلادوکہ اگروہ اس دعوت کوقبول کریں  گے  تووہ   اللہ   تعالیٰ پریاآپ پر احسان نہیں  کریں  گے  بلکہ اپناہی فائدہ کریں  گے  اور اخروی زندگی میں  کامیاب وکامران ہو کرانواع و اقسام کی بے  شمارنعمتوں  سے  بھری جنتوں  کے  وارث بنیں  گے  اوراگراپنے  بغض وعناد، ضدوہٹ دھرمی میں  اس پرایمان نہیں  لائیں  گے  تواپناہی نقصان کریں  گے  جس کی بعدمیں  کسی بھی طرح تلافی ممکن نہ ہوگی، ہم نے  آپ کو اطاعت گزارمومنوں  کے  لئے  مبشر اور نافرمانوں  کے  لئے  نذیربناکربھیجاہے ، مشرکین مکہ یہ بھی کہتے  تھے  کہ اگر یہ قرآن واقعی ہی   اللہ   تعالیٰ کی طرف سے  منزل ہے  توپھر بیک وقت کیوں  نازل نہیں  کردیاجاتااس پیغام کوتھوڑاتھوڑاکرکے  کیوں  بھیجاجارہاہے ، فرمایا کہ ہم نے  اس قرآن کوجوہدایت اور گمراہی ، حق اور باطل کے  درمیان تفریق کرتاہے  لوح محفوظ سے  آسمان دنیا کے بیت العزة پر یکبارگی نازل فرمادیاتھا پھر وہاں  سے  حالات و واقعات کے  مطابق ۲۳برس میں  تھوڑا تھوڑا کر کے  نازل کیا ہے  تاکہ تم ٹھہرٹھہرکراسے  لوگوں  کوسناؤتاکہ وہ اس کوذہن نشین کریں  ، اس کے  معانی میں  تدبرکریں  اوراس میں  سے  اس کے  مختلف علوم کااستخراج کریں  ، ایک مقام پر تھوڑا تھوڑا کر کے  قرآن کونازل کرنے  کی حکمت بیان فرمائی۔

 قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۝۱۰۲ [119]

ترجمہ:ان سے  کہوکہ اسے  توروح القدس نے  ٹھیک ٹھیک میرے  رب کی طرف سے  بتدریج نازل کیاہے  تاکہ ایمان لانے  والوں  کے  ایمان کوپختہ کرے  اورفرمان برداروں  کو زندگی کے  معاملات میں  سیدھی راہ بتائے  اورانہیں  فلاح وسعادت کی خوشخبری دے ۔

ایک مقام پر اس کی حکمت یوں  بیان فرمائی

 وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝۳۲وَلَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۝۳۳ۭ (الفرقان۳۲، ۳۳)

ترجمہ:منکرین کہتے  ہیں  اس شخص پرساراقرآن ایک ہی وقت میں  کیوں  نہ اتاردیاگیا، ہاں  ایسااس لئے  کیاگیاہے  کہ اس کواچھی طرح ہم تمہارے  ذہن نشین کرتے  رہیں  اور (اسی غرض کے  لئے )ہم نے  اس کوایک خاص ترتیب کے  ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے  اور(اس میں  یہ مصلحت بھی ہے )کہ جب کبھی وہ تمہارے  سامنے  کوئی نرالی بات (یاعجیب سوال)لے  کرآئے  ، اس کاٹھیک جواب بروقت ہم نے  تمہیں  دے  دیااوربہترین طریقے  سے  بات کھول دی ۔

قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا یُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ یَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ‎﴿١٠٧﴾‏ وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ‎﴿١٠٨﴾‏ وَیَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ یَبْكُونَ وَیَزِیدُهُمْ خُشُوعًا ۩ ‎﴿١٠٩﴾(بنی اسرائیل )
’’کہہ دیجئے  ! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ،  جنہیں  اس سے  پہلے  علم دیا گیا ہے  ان کے  پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے  تو وہ ٹھوڑیوں  کے  بل سجدہ میں  گرپڑتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  کہ ہمارا رب پاک ہے ،  ہمارے  رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے  والا ہی ہے ، وہ اپنی ٹھوڑیوں  کے  بل روتے  ہوئے  سجدہ میں  گرپڑتے  ہیں  اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے  ۔ ‘‘

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! ان مکذبین سے  کہہ دوکہ تم   اللہ   کے  اس پاکیزہ کلام پرایمان لاؤیانہ لاؤ، قرآن فی نفسہ کلام   اللہ   اوربے  شک برحق ہے ، اس کاذکرتوہمیشہ سے  الہامی کتابوں  میں  چلاآرہاہے  مگر وہ اہل کتاب جوالہامی کتابوں  کی تعلیمات سے  واقف ہیں  اوران کے  اندازکلام کوپہچانتے  ہیں  انہیں  جب یہ پاکیزہ کلام سنایا جاتاہے  تووہ   اللہ   کاشکرکرتے  ہوئے  منہ کے  بل سجدے  میں  گر جاتے  ہیں  کہ   اللہ   نے  انہیں  آخری رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم کی پہچان کی توفیق دی اورقرآن ورسالت پرایمان لانے  کی سعادت نصیب فرمائی اورقرآن سن کرجوخشیت ورقت ان پرطاری ہوئی اوراس کی تاثیرواعجازسے  حددرجہ متاثرہوکروہ خشوع وخضوع ، فروتنی اورعاجزی کے  ساتھ روتے  ،  گڑگڑاتے  ہوئے  دوبارہ سجدے  میں  گر جاتے  ہیں  اوربے  ساختہ پکار اٹھتے  ہیں  ہمارارب اپنی ذات، اسماء و صفات اوراپنے  افعال میں  ہرطرح کے  شرک سے  پاک ہے  ،  اوروہ فوراًسمجھ جاتے  ہیں  کہ جس نبی کے  آنے  کاوعدہ پچھلے  انبیاء کے  صحیفوں  میں  کیاگیاتھاوہ آگیاہے  اور اوراس کلام کو سن کران کاخشوع اور بڑھ جاتاہے ، جیسے  فرمایا

وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۝۱ [120]

ترجمہ:رہے  وہ لوگ جنہوں  نے  ہدایت پائی ہے ،    اللہ   ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں  ان کے  حصے  کا تقویٰ عطا فرماتا ہے  ۔

اللہ   تعالیٰ نے  اہل کتاب کے  صالحین کے  نیک رویے  کے  بارے  میں  متعددمقام پرفرمایا

لَیْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللهِ اٰنَاۗءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۝۱۱۳یُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۱۴وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ۝۱۱۵ [121]

ترجمہ: مگر سارے  اہل کتاب یکساں  نہیں  ، ان میں  کچھ لوگ ایسے  بھی ہیں  جوراہ راست پرقائم ہیں  ، راتوں  کو  اللہ   کی آیات پڑھتے  ہیں  اوراس کے  آگے  سجدہ ریزہوتے  ہیں  ،   اللہ   اور روز آخرت پرایمان رکھتے  ہیں  ، نیکی کاحکم دیتے  ہیں  برائیوں  سے  روکتے  ہیں  اوربھلائی کے  کاموں  میں  سرگرم رہتے  ہیں  ، یہ صالح لوگ ہیں  اورجونیکی بھی یہ کریں  گے  اس کی ناقدری نہ کی جائے  گی ،   اللہ   پرہیزگارلوگوں  کوخوب جانتاہے ۔

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلهِ۝۰ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ ثَـمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۱۹۹ [122]

ترجمہ:اہل کتاب میں  بھی کچھ لوگ ایسے  ہیں  جو  اللہ   کومانتے  ہیں  ،  اس کتاب پرایمان لاتے  ہیں  جوتمہاری طرف بھیجی گئی ہے  اوراس کتاب پربھی ایمان رکھتے  ہیں  جواس سے  پہلے  خودان کی طرف بھیجی گئی تھی ،   اللہ   کے  آگے  جھکے  ہوئے  ہیں  اور   اللہ   کی آیات کوتھوڑی سی قیمت پربیچ نہیں  دیتے  ، ان کااجران کے  رب کے  پاس ہے  اور  اللہ   حساب چکانے  میں  دیرنہیں  لگاتا۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا۝۰ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۸۲وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ۝۸۳وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ وَنَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ۝۸۴فَاَثَابَهُمُ اللهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۸۵ [123]

ترجمہ:تم اہل ایمان کی عداوت میں  سب سے  زیادہ سخت یہوداورمشرکین کو پاؤ گے ، اورایمان لانے  والوں  کے  لئے  دوستی میں  قریب تران لوگوں  کوپاؤگے  جنہوں  نے  کہاتھاکہ ہم نصاریٰ ہیں  ، یہ اس وجہ سے  کہ ان میں  عبادت گزارعالم اورتارک الدنیا فقیرپائے  جاتے  ہیں  اوران میں  غرورنفس نہیں  ہے ، جب وہ اس کلام کوسنتے  ہیں  جورسول پراتراہے  توتم دیکھتے  ہوکہ حق شناسی کے  اثرسے  ان کی آنکھیں  آنسوؤں  سے  تر ہو جاتی ہیں  ، وہ بول اٹھتے  ہیں  کہ پروردگار!ہم ایمان لائے  ہمارانام گواہی دینے  والوں  میں  لکھ لے اوروہ کہتے  ہیں  کہ آخرکیوں  نہ ہم   اللہ   پرایمان لائیں  اورجوحق ہمارے  پاس آیاہے  اسے  کیوں  نہ مان لیں  جب کہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے  ہیں  کہ ہمارا رب ہمیں  صالح لوگوں  میں  شامل کرے ؟ان کے  اس قول کی وجہ سے    اللہ   نے  ان کوایسی جنتیں  عطاکیں  جن کے  نیچے  نہریں  بہتی ہیں  اوروہ ان میں  ہمیشہ رہیں  گے  ، یہ جزاء ہے  نیک رویہ اختیارکرنے  والوں  کے  لئے ۔

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَٰلِكَ سَبِیلًا ‎﴿١١٠﴾‏ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَكُنْ لَهُ شَرِیكٌ فِی الْمُلْكِ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِیرًا ‎﴿١١١﴾‏(بنی اسرائیل )
’’کہہ دیجئے  کہ   اللہ   کو   اللہ   کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر،  جس نام سے  بھی پکارو تمام اچھے  نام اسی کے  ہیں ،  نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے  پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے  درمیان کا راستہ تلاش کرلے ،  اور یہ کہہ دیجئے  کہ تمام تعریفیں    اللہ   ہی کے  لیے  ہیں  جو نہ اولاد رکھتا ہے  نہ اپنی بادشاہت میں  کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے  اور نہ وہ کمزور ہے  کہ اسے  کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔ ‘‘

مشرکین مکہ   اللہ   تعالیٰ کے  صفاتی نام رحمٰن یارحیم سے  نامانوس تھے

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِینَ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقُولُ فِی سُجُودِهِ:یَا رَحْمَنُ یَا رَحِیمُ، فَقَالَ: إِنَّهُ یَزْعُمُ أَنَّهُ یَدْعُو وَاحِدًاوَهُوَ یَدْعُو اثْنَیْنِ،  فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآیَةَ

چنانچہ ایک مشرک نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو سجدوں  میں  یہ کہتے  ہوئے  سنا کی حالت میں  یارحمٰن یارحیم کہتے  ہوئے  سنا تووہ کہنے  لگامحمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )توکہتے  ہیں  وہ ایک   اللہ   کو پکارتے  ہیں  حالانکہ خوددومعبودوں  کوپکاررہے ہیں  جس پریہ آیت نازل ہوئی۔ [124]

فرمایااے  نبی ان سے  کہو!  اللہ   کہہ کرپکارویارحمان کہہ کرجس نام سے  بھی پکارواس کے  لئے  سب اچھے  ہی نام ہیں  ،  جیسے  فرمایا

ہُوَ  اللہ   الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ۝۰ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۝۲۲ہُوَ  اللہ   الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ   اللہ   عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۲۳ہُوَ  اللہ   الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۲۴ۧ[125]

ترجمہ:وہ   اللہ   ہی ہے  جس کے  سوا کوئی معبود نہیں  ،  غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے  والا،  وہی رحمان اور رحیم ہے ، وہ   اللہ   ہی ہے  جس کے  سوا کوئی معبود نہیں  ،  وہ بادشاہ ہے  نہایت مقدس ،  سراسر سلامتی،  امن دینے  والا،  نگہبان،  سب پر غالب،  اپنا حکم بزورنافذ کرنے  والا،  اور بڑا ہی ہو کر رہنے  والا،  پاک ہے    اللہ   اس شرک سے  جو لوگ کر رہے  ہیں  ، وہ   اللہ   ہی ہے  جو تخلیق کا منصوبہ بنانے  والا اور اس کو نافذ کرنے  والا اور اس کے  مطابق صورت گری کرنے  والا ہے ،  اس کے  لیے  بہترین نام ہیں  ،  ہر چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے  اس کی تسبیح کر رہی ہے  اور وہ زبردست اور حکیم ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا}[126] قَالَ: “ نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ،  كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالقُرْآنِ،  فَإِذَا سَمِعَهُ المُشْرِكُونَ سَبُّوا القُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ،  فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ}[127] أَیْ بِقِرَاءَتِكَ،  فَیَسْمَعَ المُشْرِكُونَ فَیَسُبُّوا القُرْآنَ {وَلَا تُخَافِتْ بِهَا} [128]عَنْ أَصْحَابِكَ فَلاَ تُسْمِعْهُمْ،  {وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِكَ سَبِیلًا} [129]

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  آیت’’نہ توتواپنی نمازبہت بلندآوازسے  پڑھ اورنہ بالکل پوشیدہ۔ ‘‘اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں  (کافروں  کے  ڈرسے ) چھپ کررہتے  تھے تواس زمانہ میں  جب آپ اپنے  ساتھیوں  کے  ساتھ نمازپڑھتے  توقرآن مجیدکی تلاوت قدرے  بلندسے  کرتے  مشرکین قرآن سنتے  تو قرآن کوبھی گالی دیتے  اور اس کے  نازل کرنے  والے  اوراس کے  لانے  والے  کوبھی گالی دیتے ، اس لئے   اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  فرمایاکہ آپ نمازنہ توپکارکرپڑھیں  (یعنی قرات خوب جہر کے  ساتھ نہ کریں  )کہ مشرکین سن کرقرآن کوبرابھلاکہیں  اورنہ آوازاتنی پست کریں  کہ صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم بھی نہ سن سکیں  بلکہ ان دونوں  کے  درمیان اوسط درجے  کالہجہ اختیار کریں  ۔ [130]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَهَرَ بِالْقُرْآنِ وَهُوَ یُصَلِّی تَفَرَّقُوا،  وَأَبَوْا أَنْ یَسْتَمِعُوا مِنْهُ،  فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَسْتَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ مَا یَتْلُو وَهُوَ یُصَلِّی،  اسْتَرَقَ السَّمْعَ دُونَهُمْ فَرَقًا مِنْهُمْ،  فَإِنْ رَأَى أَنَّهُمْ قَدْ عَرَفُوا أَنَّهُ یَسْتَمِعُ،  ذَهَبَ خَشْیَةَ أَذَاهُمْ،  فَلَمْ یَسْتَمِعْ،  فَإِنْ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ،  لَمْ یَسْتَمِعِ الَّذِینَ یَسْتَمِعُونَ مِنْ قِرَاءَتِهِ شَیْئًا،  فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْهِ: {وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ} [131]فَیَتَفَرَّقُوا عَنْكَ {وَلَا تُخَافِتْ بِهَا} [132]فَلَا تُسْمِعُ مَنْ أَرَادَ أَنْ یَسْمَعَهَا،  مِمَّنْ یَسْتَرِقُ ذَلِكَ دُونَهُمْ،  لَعَلَّهُ یَرْعَوِی إِلَى بَعْضِ مَا یَسْمَعُ،  فَیَنْتَفِعُ بِهِ {وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِكَ سَبِیلًا} [133]

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  روایت ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جن نمازمیں  قرآن مجیدکی بلندآوازسے  قرات فرماتے  تومشرک دوربھاگ جاتے اورقرآن سننے  سے  انکارکردیتے  اور اگر ان میں  سے  کوئی رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے نمازمیں  قرآن سنناچاہتاتووہ اپنے  دوسرے  ساتھیوں  سے  ڈرتے  ہوئے  چھپ کرسنتا اوراگروہ یہ سمجھتاکہ کافروں  کواس کے  بارے  میں  معلوم ہوگیاہے  توسنناچھوڑدیتاتاکہ کافراسے  کوئی ایذانہ پہنچائیں  ، اورجب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم آہستہ آہستہ آوازمیں  قرات فرماتے  تووہ لوگ اسے  سن نہ پاتے  جوآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی قرات سنناچاہتے  تھے ،    اللہ   تعالیٰ نے  اس آیت کریمہ کونازل فرمادیا کہ نمازمیں  نہ بلندآوازسے  پڑھوکہ لوگ آپ سے  بھاگ ہی نہ جائیں  اورنہ اس قدرآہستہ پڑھوکہ جو سننا چاہیں  وہ اسے  سن ہی نہ سکیں  ہوسکتاہے  کہ جوانہوں  نے  سناہویہ اس کی طرف پلٹ آئیں  اوراس طرح قرآن سننے  سے  انہیں  فائدہ ہوجائے بلکہ اس کے  بیچ کاطریقہ اختیارکریں  ۔ [134]

 عَنْ أَبِی قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَیْلَةً،  فَإِذَا هُوَ بِأَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یُصَلِّی یَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ،  قَالَ: وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،  وَهُوَ یُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَهُ،  فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ،  مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّی تَخْفِضُ صَوْتَكَ، قَالَ: قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَیْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ،  قَالَ: وَقَالَ لِعُمَرَ: مَرَرْتُ بِكَ،  وَأَنْتَ تُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَكَ، قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ،  أُوقِظُ الْوَسْنَانَ،  وَأَطْرُدُ الشَّیْطَانَ،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَیْئًاوَقَالَ لِعُمَرَ:اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَیْئًا

ابوقتادہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ایک رات رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کا گزر سیدنا ابوبکر صدیق رضی   اللہ   عنہ کی طرف سے  ہواتودیکھاکہ وہ پست آوازسے  نمازپڑھ رہے  ہیں  ،  پھرسیدناعمر رضی   اللہ   عنہ کوبھی دیکھنے  کا اتفاق ہواتووہ اونچی آوازسے  نمازپڑھ رہے  تھے جب وہ دونوں  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس اکٹھے  ہوئے  توآپ نے  فرمایااے  ابوبکر!میں  تمہارے  پاس سے  گزراتم نمازپڑھ رہے  تھے  اورتمہاری آوازدھیمی تھی؟انہوں  نے  عرض کیااے    اللہ   کے  رسول!میں  جس سے  مصروف مناجات تھاوہ میری آوازسن رہا تھا، پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  سیدنا عمر رضی   اللہ   عنہ سے  کہامیں  تمہارے  پاس سے  گزراتم بلندآوازسے  نمازپڑھ رہے  تھے  ؟انہوں  نے  کہااے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! میرامقصدسوئے  ہوئے  کوجگانااورشیطان کو بھگاناتھا، نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  سیدنا ابوبکرصدیق رضی   اللہ   عنہ سے  فرمایااپنی آوازقدرے  بلندکرو اور عمر رضی   اللہ   عنہ سے  کہااپنی آوازکچھ پست رکھو۔ [135]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  قَالَتْ:( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا) أُنْزِلَ ذَلِكَ فِی الدُّعَاءِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے  کہ یہ آیت’’نہ توتواپنی نمازبہت بلندآوازسے  پڑھ اورنہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے  درمیان کاراستہ تلاش کرلے ۔  ‘‘دعاکے  بارے  میں  نازل ہوئی ہے ۔ [136]

مشرکین کاعقیدہ تھاکہ   اللہ   تعالیٰ نے  مختلف دیویوں  ،  دیوتاؤں  اوربزرگ انسانوں  کواپنی سلطنت کے  مختلف شعبے  ان کے  حوالے  کررکھے  ہیں  اوروہ ان کاانتظام کرتے  ہیں  ، اسی طرح یہودعزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ عیسیٰ کو  اللہ   کابیٹاکہتے  تھے  ،   اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  اس بیہودہ عقیدے  کے  بارے  میں  فرمایااورکہہ دیجئے  !تمام طرح کی تعریف ، حمدوثنا اورکبریائی   اللہ   وحدہ لاشریک ہی کے  لئے  ہے جوہرلحاظ سے  کمال، مدح وثنااورحمدومجدکامالک اورہرآفت اورنقص سے  پاک ہے  ،   اللہ   نے  کسی کوبیٹابنایاہے  اورنہ اس کی بادشاہی میں  کوئی اس کاشریک ہے ، بلکہ تمام تراقتدارکامالک   اللہ   واحدوقہارہے  ، تمام عالم علوی اورعالم سفلی کے  رہنے  والے  سب   اللہ   تعالیٰ کے  مملوک ہیں  ،  اور  اللہ   تعالیٰ اپنی مخلوق میں  سے  کسی کواپناسرپرست نہیں  بناتاکہ وہ اس کے  تعاون کے  ذریعے  سے  عزت وغلبہ حاصل کرے  ، پس وہ بے  نیاز اور قابل ستائش ہے ، وہ زمین اورآسمانوں  میں  اپنی مخلوق میں  سے  کسی کامحتاج نہیں  کہ کوئی اس کامددگار ہواوراس کی بڑائی بیان کروکمال درجے  کی بڑائی۔

عَنِ الْقُرَظِیِّ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ فِی هَذِهِ الْآیَةِ:{وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا} الْآیَةَ،  قَالَ: إِنَّ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالُوا: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَقَالَ الْعَرَبُ: لَبَّیْكَ لَبَّیْكَ، لَا شَرِیكَ لَكَ إِلَّا شَرِیكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ ، وَقَالَ الصَّابِئُونَ وَالْمَجُوسُ: لَوْلَا أَوْلِیَاءُ اللَّهِ لَذَلَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآیَةَ:وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَكُنْ لَهُ شَرِیكٌ فِی الْمُلْكِ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِیرًا

امام قرظی رحمہ   اللہ   اس آیت’’اوریہ کہہ دیجئے  کہ تمام تعریفیں    اللہ   ہی کے  لیے  ہیں  جونہ اولادرکھتاہے ۔ ‘‘کے  بارے  میں  کہاکرتے  تھے یہودونصاریٰ کہتے  کہ   اللہ   تعالیٰ کابیٹاہے اورعرب کہتے  حاضرہوں  میں  حاضرہوں  تیراکوئی شریک نہیں  سوائے  اس کے  جسے  توخوداپناشریک بنالے  تواس کامالک ہے  اورجس کاوہ مالک ہے  اس کابھی اورصابی ومجوسی کہتے  اگر  اللہ   تعالیٰ کے  مددگارنہ ہوتے  تووہ عاجزوناتواں  ہوجاتا ان سب کے  جواب میں    اللہ   تعالیٰ نے  یہ آیت کریمہ نازل فرمائی’’ اورکہوتعریف ہے  اس خداکے  لئے  جس نے  کسی کوبیٹابنایانہ کوئی بادشاہی میں  اس کاشریک ہے  اورنہ وہ عاجزہے  کہ کوئی اس کاپشتبان ہواوراس کی بڑائی بیان کروکمال درجے  کی بڑائی۔ ‘‘[137]

[1] الملک ۱۶، ۱۷

[2] الاحزاب۷۲

[3] الجاثیة۱۳

[4] التین۴

[5] الذاریات۴۹

[6] الرعد۳

[7] یونس۴۷

[8] یٰسین۱۲

[9] الکہف۴۹

[10] الجاثیة۲۸

[11] الزمر۶۹

[12] النسائ۴۱

[13] الانشقاق۷تا۹

[14] الحاقة۱۹،۲۰

[15] الحاقة۲۵تا۲۹

[16] الانشقاق۱۰تا۱۲

[17] طہٰ۱۲۴تا۱۲۶

[18] الانفال۳۳

[19] الفتح۲۳

[20] ھود ۱۱۴

[21] طہٰ ۱۳۰

[22] الروم ۱۷،۱۸

[23] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابٌ فِی الْمَوَاقِیتِ۳۹۳،جامع ترمذی ابواب الصلوة بَابُ مَا جَاءَ فِی مَوَاقِیتِ الصَّلاَةِ ۱۴۹

[24] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ ۵۵۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا ۱۴۳۲

[25] تفسیرابن کثیر۱۰۲؍۵

[26] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ۱۹۳۰

[27] صحیح بخاری کتاب التھجدبَابُ مَنْ نَامَ أَوَّلَ اللَّیْلِ وَأَحْیَا آخِرَهُ ۱۱۴۶،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ صَلَاةِ اللَّیْلِ، وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی اللَّیْلِ، وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ، وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلَاةٌ صَحِیحَةٌ ۱۷۲۸،سنن نسائی کتاب لاصلوٰة باب الاختلاف علی عائشہ فی احیآء اللیل۱۶۴۳

[28] إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری۳۰۷؍۲

[29] صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ۲۷۵۶

[30] مسنداحمد۱۰۹۱۵

[31]تفسیر طبری ۵۲۷؍۱۷

[32]تفسیر طبری۵۲۷؍۱۷

[33]صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَفْضِیلِ نَبِیِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَمِیعِ الْخَلَائِقِ ۵۹۴۰

[34] مسنداحمد۲۱۲۴۵،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۱۴

[35]السنن الکبری للنسائی۱۱۲۳۰،مسندابی داود الطیالسی۴۱۴،مسندالبزار۲۹۲۶،تفسیرطبری ۵۲۶؍۱۷

[36] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة بنی اسرائیل بَابُ قَوْلِهِ عَسَى أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۴۷۱۸

[37] تفسیر طبری ۵۲۹؍۱۷

[38] صحیح بخاری كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا۱۴۷۵

[39] الإسراء: 79

[40] مسند أبی داود الطیالسی ۳۸۹

[41] مسنداحمد۱۵۷۸۳

[42] مسند احمد۹۶۲۳،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ۴۷۱۲،وکتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۶۵ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِیهَا۴۷۵

[43] الإسراء: 80

[44] الإسراء: 80

[45] تفسیرطبری۵۳۳؍۱۷

[46] الإسراء: 80

[47] تفسیرطبری۵۳۳؍۱۷

[48] الإسراء: 80

[49] تفسیرطبری۵۳۶؍۱۷

[50] الانبیائ۱۸

[51] الإسراء: 81

[52] سبأ: 49

[53]صحیح بخاری کتاب تفسیر سورة بنی اسرائیل بَابُ وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۴۷۲۰ ،وکتاب المغازی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۷، صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ إِزَالَةِ الْأَصْنَامِ مِنْ حَوْلِ الْكَعْبَةِ ۴۶۲۵،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ۳۱۳۸

[54] یونس۵۷

[55] حم السجدة۴۴

[56] التوبة۱۲۴،۱۲۵

[57] القصص۷۶تا۷۸

[58] الزمر۴۹

[59] یونس۱۲

[60] ھود۹تا۱۱

[61] ھود۱۲۱،۱۲۲

[62] الإسراء: 85

[63]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۴۷۲۱،صحیح مسلم کتاب صفات المنافق بَابُ سُؤَالِ الْیَهُودِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ وقَوْلِهِ تَعَالَى یَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۷۰۵۹

[64] النحل۲

[65] المومن۱۵

[66]الشوریٰ ۵۱ ، ۵۲

[67] البقرة۲۳

[68] یونس۳۸

[69] ھود۱۳

[70]بنی اسرائیل ۴۱

[71] یونس۹۶،۹۷

[72] الانعام۱۱۱

[73] الانفال۳۲

[74] الشعرائ۱۸۷

[75] الانعام۵۰

[76] المومنون۲۴

[77] المومنون۳۳،۳۴

[78] المومنون۴۷

[79] یٰسین۱۵

[80] الفرقان۷،۸

[81] یونس۲

[82] التغابن۶

[83] ابراہیم۱۰

[84] الانبیائ۷،۸

[85] الفرقان۲۰

[86] الرعد۳۸

[87] حم السجدة۶

[88] الکہف۱۱۰

[89] البقرة۱۵۱

[90] آل عمران۱۶۴

[91] التوبة۱۲۸

[92] الانعام۱۷

[93] یونس۴۹

[94] الانعام۵۰

[95] الاعراف۱۸۸

[96] الانعام۵۷،۵۸

[97] الرعد۴۰

[98] الزمر۴۱

[99] النمل ۸۰ ،۸۱

[100] فاطر۲۲تا۲۴

[101]القصص ۵۶

[102]البقرة ۱۴۵

[103] البقرة۱۲۰

[104] یونس۱۵

[105] الکہف۱۷

[106] صحیح بخاری تفسیرسورة الفرقان بَابُ قَوْلِهِ الَّذِینَ یُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِیلًا ۴۷۶۰،صحیح مسلم کتاب صفات المافقین بَابُ یُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ۷۰۸۷

[107] النبا۳۰

[108]المومن ۵۷

[109]الاحقاف ۳۳

[110] یٰسین۸۱،۸۲

[111] ھود۱۰۴

[112] النسائ۵۳

[113] المعارج۱۹تا۲۲

[114] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۷۴۱۱، وبَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ ، وَهُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِیمِ۷۴۱۹،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ الْحَثِّ عَلَى النَّفَقَةِ وَتَبْشِیرِ الْمُنْفِقِ بِالْخَلَفِ ۲۳۰۹

[115] الاعراف۱۳۳

[116] بنی اسرائیل۴۷

[117] النمل۱۴

[118] النسائ۱۶۶

[119] النحل ۱۰۲

[120] محمد۱۷

[121] آل عمران۱۱۳تا۱۱۵

[122] آل عمران۱۹۹

[123] المائدة ۸۲تا۸۵

[124] تفسیرطبری۵۸۰؍۱۷،تفسیرابن کثیر ۱۲۸؍۵

[125] الحشر۲۲تا۲۴

[126] الإسراء: 110

[127] الإسراء: 110

[128] الإسراء: 110

[129] الإسراء: 110

[130] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا۴۷۲۲،کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالمَلاَئِكَةُ یَشْهَدُونَ ۷۴۹۰،۷۵۲۵،۷۵۴۷،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ التَّوَسُّطِ فِی الْقِرَاءَةِ فِی الصَّلَاةِ الْجَهْرِیَّةِ بَیْنَ الْجَهْرِ وَالْإِسْرَارِ، إِذَا خَافَ مِنَ الْجَهْرِ مَفْسَدَةً ۱۰۰۱

[131] الإسراء: 110

[132] الإسراء: 110

[133] الإسراء: 110

[134] تفسیرطبری۵۸۵؍۱۷

[135] سنن ابوداود کتاب التطوع بَابٌ فِی رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ اللَّیْلِ ۱۳۲۹،جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ بِاللَّیْلِ ۴۴۷

[136] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا ۴۷۲۳

[137] تفسیر طبری ۵۹۰؍۱۷

Related Articles