ہجرت نبوی کا نواں سال

واثلہ رضی اللہ عنہ بن اسقع کاقبول اسلام

قَالُوا: وَفَدَ وَاثِلَةُ بْنُ الأَسْقَعِ اللیْثِیُّ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ الْمَدِینَةَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَجَهَّزُ إِلَى تَبُوكَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذَا صَلّى الصّبْحَ انْصَرَفَ فَیَتَصَفّحُ وُجُوهَ أَصْحَابِهِ یَنْظُرُ إلَیْهِمْ فَلَمّا دَنَا مِنْ وَاثِلَةَ أَنْكَرَهُ فَقَالَ: مَنْ أَنْت؟ فَأَخْبَرَهُ عَنْ نَسَبِهِ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِك؟وَقَالَ: أتیتك لأؤمن بِاللهِ وَرَسُولِهِ

نوہجری غزوہ تبوک سے چندروزپہلےواثلہ رضی اللہ عنہ بن اسقع لیثی یُكَنَّى أَبَا قِرْصَافَةَ وَقَدْ قِیلَ كُنْیَتُهُ أَبُو شَدَّادٍجن کی کنیت ابوقرصافہ اورکہاجاتاہےابوشداد تھی قبول اسلام کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لائے، اورفجرکی نمازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں  اداکی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھاکہ نمازفجرکے بعداپناچہرہ مبارک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کرلیتے اور غور سے ہرآدمی کاچہرہ ملاحظہ فرماتے تھے ،جب واثلہ رضی اللہ عنہ پرنظرپڑی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم کون ہو؟انہوں  نے اپنانام نسب بیان کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکس مقصدسے آئے ہو؟ انہوں  نےعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اللہ اوراس کے رسول پرایمان لانے اور آپ کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں  ،

قَالَ: فَبَایِعْ عَلَى مَا أَحْبَبْتُ وَكَرِهْتُ،قَالَ وَاثِلَةُ:نَعَمْ، فَبَایَعَهُ

آپ نے پوچھاکیاتواس بات پربیعت کرتاہے کہ ہر مہم میں  شریک ہوگاخواہ تجھے پسند ہو یا ناپسند ؟واثلہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاجی ہاں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !چنانچہ آپ نے ان سے بیعت لے لی۔[1]

فَقَالَ لِی:اذْهَبْ فَاغْتَسِلْ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَأَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ وَمَسَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واثلہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاجاؤپانی اوربیری کے پتوں  سے نہاؤاورزمانہ کفرکے بالوں  کوصاف کراؤپھران کے سرپردست شفقت[2]

وكان من أهل الصفة،فَخَرَجَ الرّجُلُ إلَى أَهْلِهِ، فَلَقِیَ أَبَاهُ الْأَسْقَعَ فَلَمّا رَأَى حَالَهُ قَالَ: قَدْ فَعَلْتهَا! قَالَ وَاثِلَةُ: نَعَمْ ،قَالَ أَبُوهُ: وَاَللهِ لَا أُكَلّمُك أَبَدًا،فَأَتَى أُمَّهُ، وَهُوَ مُولِی ظَهْرَهُ الشّمْسَ، فَسَلّمَ عَلَیْهِ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتهَا! قَالَ: نَعَمْ.وَلَامَهُ لَائِمَةً أَیْسَرَ مِنْ لَائِمَةِ أَبِیهِ وَقَالَ: لَمْ یَكُنْ یَنْبَغِی لَك أَنْ تَسْبِقَنَا بِأَمْرٍ ،فَسَمِعْت أُخْتَ وَاثِلَةَ كَلَامَهُ فَخَرَجَتْ إلَیْهِ فَسَلّمَتْ عَلَیْهِ بِتَحِیّةِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ وَاثِلَةُ:أَنّى لَك هَذَا یَا أُخَیّةُ؟قَالَتْ: سَمِعْت كَلَامَك وَكَلَامَ أُمِّك ،وَكَانَ وَاثِلَةُ ذَكَرَ الْإِسْلَامَ وَوَصَفَهُ لِعَمّهِ، فَأَعْجَبَ أُخْتَه الْإِسْلَامُ فَأَسْلَمَتْ

قبول اسلام کے بعدوہ اصحاب صفہ میں  شامل ہوگئے،پھروہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے ان کے والدنے جب انہیں  ملے اوران کاحال دیکھاتوپوچھاکیاتم نے اسلام قبول کرلیاہے،واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہاہاں  میں  نے اسلام قبول کرلیاہے، مگران کے والدکوان کاایمان لاناپسندنہ آیااس نے کہااللہ کی قسم!میں  کبھی تم سے نہیں  بولوں  گا، وہ اپنی والدہ کے پاس گئے جوظہرہ الشمس کی آزادکردہ لونڈی تھی اورانہیں  اسلامی طریقہ سےسلام کیا،اس نے کہاتم نے اسلام قبول کرلیاہے، واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہاہاں  میں  نے اسلام قبول کرلیاہے ان کی والدہ نے انہیں  برابھلاکہامگران کے والدسے کم، اورکہاتمہارے لیے یہ مناسب نہیں  تھاکہ اس معاملہ میں  سبقت کرتے،ان کی بہن سعیدالفطرت نے واثلہ رضی اللہ عنہ کی گفتگوسن لی وہ ان کے پاس آئی اوراسلامی طریقہ پرسلام کیا ،واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہااے میری بہن یہ کیامعاملہ ہے؟انہوں  نے کہامیں  نے تمہاری والداوروالدہ سے تمام گفتگوسن لی ہے،واثلہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کواسلام اوراس کی صفات کا ذکر کیا ، اسلام کابیان سن کران کی بہن حیران ہوگئیں  اوراسلام قبول کرلیا،

وَكَانَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یومئذ یَتَجَهّزُ إلَى تَبُوكَ،وَأَقْبَلَ إلَى الْمَدِینَةِ فَوَجَدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَحَمّلَ إلَى تَبُوكَ، وَبَقِیَ عِیرَاتٌ مِنْ النّاسِ وَهُمْ عَلَى الشّخُوصِ وَإِنّمَا رَحَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قبل ذلك بیومین، فجعل ینادى بِسُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعٍ: مَنْ یَحْمِلُنِی وَلَهُ سَهْمِی! قَالَ: وَكُنْت رَجُلًا لَا رِجْلَةَ لِی، فَدَعَانِی كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ: أَنَا أَحْمِلُك عُقْبَةً بِاللّیْلِ وَعُقْبَةً بِالنّهَارِ، وَیَدُك أُسْوَةُ یَدِی وَلِی سَهْمُك!قَالَ وَاثِلَةُ: نَعَمْ

اس زمانے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک پرجانے کی تیاری فرمارہے تھے،واثلہ رضی اللہ عنہ بھی جہادفی سبیل اللہ میں  شریک ہوناچاہتے تھےاس لئے وہ مدینہ منورہ چلے آئے مگراس اثنامیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکراسلام کے ساتھ مدینہ منورہ سے تبوک روانہ ہوچکے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دویوم قبل قافلہ لے کرروانہ ہوچکے تھے مگر قافلہ کے کچھ لوگ مقام شخوص پررہ گئے تھے،واثلہ رضی اللہ عنہ کے پاس سواری نہیں  تھی لیکن انہوں  نے مدینہ طیبہ کے بازاربنی قینقاع میں  گھوم گھوم کرصدالگانی شروع کی کہ کون مجھے مال غنیمت کے بدلے میں  تبوک لے چلتاہے جومجھے وہاں  لے جائے گامیں  اپنامال غنیمت کاحصہ اس کودے دوں  گا؟اتفاق سے کعب رضی اللہ عنہ بن عجرہ انصاری بھی پیچھے رہ گئے تھےانہوں  نے کہامیرے ساتھ چلومیں  اپنی سواری پربٹھاؤں  گااورکھانابھی کھلاؤں  گا مگرمال غنیمت میراہوگا، واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہامجھے منظورہے،

فَقَالَ وَاثِلَةُ بَعْدَ ذَلِكَ: جَزَاهُ اللهُ خَیْرًا! لَقَدْ كَانَ یَحْمِلُنِی عُقْبَتَیّ، وَیَزِیدُنِی وَآكُلُ مَعَهُ وَیَرْفَعُ لِی ،حَتّى إذَا بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إلَى أُكَیْدِرٍ الْكِنْدِیّ بِدُومَةِ الْجَنْدَلِ خَرَجَ كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فِی جَیْشِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَخَرَجْت مَعَهُ فَأَصَبْنَا فِیهَا كَثِیرًا، فَقَسَمَهُ خَالِدٌ بَیْنَنَا، فَأَصَابَنِی سِتّ قَلَائِصَ، فَأَقْبَلْت أَسُوقُهَا حَتّى جِئْت بِهَا خَیْمَةَ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَقُلْت: اُخْرُجْ رَحِمَك اللهُ فَانْظُرْ إلَى قَلَائِصِك فَاقْبِضْهَا! فَخَرَجَ إلَیّ وَهُوَ یَتَبَسّمُ وَیَقُولُ: بَارَكَ اللهُ لَك فِیهَا! مَا حَمَلْتُك وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ آخُذَ مِنْك شَیْئًا

اس کے بعد واثلہ رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھےاللہ اسے جزائے خیردےوہ مجھے اپنے پیچھے بٹھاکرلے گئے ،مجھے کھاناکھلایااوروہاں  پہنچادیاوہ ان کے ساتھ ہوکربارگاہ رسالت میں  حاضر ہو گئے ، پھرغزوہ تبوک میں  مجاہدانہ شریک ہوئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکواکیدرکے خلاف دومتہ الجندل پرحملے کے لئے روانہ کیاکعب بن عجرہ بھی خالد بن ولید کے فوجی دستے میں  شامل تھے، توواثلہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے فوجی دستے میں  شامل ہوگئے،اس مہم کے مال غنیمت میں  چھ اونٹنیاں  واثلہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں  آئیں  ،یہ سب اونٹنیاں  وہ اپنے عہدکے مطابق کعب رضی اللہ عنہ بن عجرہ کے پاس لے آئے اوران سے کہایہ آپ قبول فرمائیں  ، انہوں  نے ہنستے ہوئے فرمایا بھتیجے!تمہاری اونٹنیاں  تمہیں  مبارک ہوں  ، میں  کسی لالچ کی وجہ سے تمہیں  ساتھ نہیں  لایاتھا،بلکہ میرا مقصد صرف ثواب آخرت حاصل کرناتھا۔[3]

بعض اہل علم نےواثلہ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ نبوت میں  حاضری کووفدکنانہ کانام دیاہے۔[4]

عہدرسالت کے بعدانہوں  نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی عہد خلافت میں  شام میں  سکونت اختیارکرلی تھی،

قَالَ: رَأَیْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الأَسْقَعِ یَتَغَدَّى أَوْ یَتَعَشَّى بِفِنَاءِ مَنْزِلِهِ وَیَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ

انہیں  عبادت الٰہی میں  خاص شغف تھا،نہایت فیاض اورسیرچشم تھےاوردونوں  وقت لوگوں  کوبلاکرکھانے میں  شریک کرتے تھے۔[5]

وفدبنی شیبان:

یہ عدنانی قبیلہ تھا،ایک روایت کے مطابق وہ بکربن وائل سے متفرع ہوا(یہ بنوبکربن وائل کے بطن ثعلبہ بن عکابہ کی ایک شاخ تھا)اس قبیلہ کی سکونت عراق میں  دریائے دجلہ کے مشرقی علاقے میں  تھی،ایران کی مجوسی سلطنت کے خلاف چھاپوں  اورمعرکہ آرائیوں  کاآغازاسی قبیلے نے کیاتھانو ہجری میں  بنوشیبان کی ایک خاتون قیلہ رضی اللہ عنہا بنت مخرمہ اپنے قبیلے کے ایک آدمی حریث یاالحارث بن حسان کے ساتھ بارگاہی نبوت میں  حاضرہوئیں  ،

فَخَرَجْتُ مَعَهُ صَاحِبَ صِدْقٍ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم وَهُوَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، وَقَدْ أُقِیمَتْ حِینَ انْشَقَّ الْفَجْرُ وَالنُّجُومُ شَابِكَةٌ فِی السَّمَاءِ، وَالرِّجَالُ لَا تَكَادُ تَعَارَفُ مَعَ ظُلْمَةِ اللَّیْلِ، فَصَفَفْتُ مَعَ الرِّجَالِ، وَكُنْتُ امْرَأَةً حَدِیثَةَ عَهْدٍ بِجَاهِلِیَّةٍ، فَقَالَ لِی الرَّجُلُ الَّذِی یَلِینِی مِنَ الصَّفِّ: امْرَأَةٌ أَنْتِ أَمْ رَجُلٌ؟ فَقُلْتُ: لَا، بَلِ امْرَأَةٌ، فَقَالَ: إِنَّكِ قَدْ كِدْتِ تَفْتِنِینِی فَصَلِّی مَعَ النِّسَاءِ وَرَاءَكَ، وَإِذَا صَفٌّ مِنْ نِسَاءٍ قَدْ حَدَثَ عِنْدَ الْحُجُرَاتِ لَمْ أَكُنْ رَأَیْتُهُ حِینَ دَخَلْتُ، فَكُنْتُ فِیهِنَّ حَتَّى إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ دَنَوْتُ، فَجَعَلْتُ إِذَا رَأَیْتُ رَجُلًا ذَا رُوَاءٍ وَذَا قِشْرٍ، طَمَحَ إِلَیْهِ بَصَرِی لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم فَوْقَ النَّاسِ حَتَّى جَاءَ رَجُلٌ وَقَدِ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم:وَعَلَیْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَعَلَیْهِ

وہ فرماتی ہیں  میں  حریث کے ساتھ روانہ ہوئی،جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے توآپ لوگوں  کوفجرکی نمازپڑھارہے تھے ، نماز اس وقت کھڑی کی گئی جب ستارے آسمان پرملے جلے تھے اورابھی اتنااندھیراتھاکہ لوگ ایک دوسرے کوپہچان نہ سکتے تھے،کیونکہ میں  جاہلیت سے نئی نئی آنے والی عورت تھی اس لئے میں  بھی مردوں  کی صف میں  کھڑی ہوگئی،صف میں  میرے قریب کھڑے ایک شخص نے مجھ سے کہاتوعورت ہے یامرد؟ میں  نے کہامیں  عورت ہوں  ،اس نے کہاہوسکتاہے تومجھے فتنہ میں  ڈال دے اپنے پیچھے عورتوں  کے ساتھ نمازپڑھ،میں  نے دیکھاکہ عورتوں  کی ایک صف حجروں  کے پاس بن گئی ہےمیں  نے داخل ہوتے وقت اسے نہ دیکھاتھا،پس میں  ان میں  شامل ہوگئی،جب سورج طلوع ہواتومیں  قریب ہوئی جب کوئی لمبا یا چادر میں  ملبوس آدمی دیکھتی تو میں  کوشش کرتی کہ لوگوں  کے اوپر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لوں  ،یہاں  تک کہ ایک آدمی طلوع آفتاب کے وقت آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سلام کا جواب دیا،

تَعْنِی النَّبِیَّ صلّى الله علیه وسلم أَسْمَالٌ مُلَبَّبَتَیْنِ كَانَتَا بِزَعْفَرَانٍ فَقَدْ نُفِّضَتَا وَمَعَهُ عَسِیبُ نَخْلَةٍ مَقْشُورٌ غَیْرُ خَوْصَتَیْنِ مِنْ أَعْلَاهُ وَهُوَ قَاعِدٌ الْقُرْفُصَاءَ، فَلَمَّا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم مُتَخَشِّعًا فِی الْجَلْسَةِ أَرْعَدْتُ مِنَ الْفَرَقِ،فَقَالَ جَلِیسُهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْعَدَتِ الْمِسْكِینَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم وَلَمْ یَنْظُرْ إِلَیَّ وَأَنَا عِنْدَ ظَهْرِهِ:یَا مِسْكِینَةُ عَلَیْكِ السَّكِینَةُ فَلَمَّا قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم أَذْهَبَ اللَّهُ مَا كَانَ أُدْخِلَ قَلْبِی مِنَ الرُّعْبِ، وَتَقَدَّمَ صَاحِبِی أَوَّلَ رَجُلٍ فَبَایَعَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ عَلَیْهِ وَعَلَى قَوْمِهِ،

اورمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ اکڑوں  بیٹھے تھے اور دوپرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے جن پرزعفران چھڑکاہواتھا ،آپ کے پاس کھجور کے درخت کی بے چھال شاخ تھی جس کے سرے پرصرف دوپتے تھےجب میں  نے آپ کوعجزوانکسارکی حالت میں  بیٹھے دیکھاتومیں  خوف سے کانپ گئی،ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مسکین عورت (جلال نبوت سے)کانپ رہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھے بغیرفرمایااے مسکینہ!مت ڈر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشفقت بھرا ارشاد سن کرمیراخوف جاتا رہا،اورحریث بن حسان آگے بڑھااوراس نے اسلام پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی،قیلہ رضی اللہ عنہا بھی اسی موقع پرمشرف بہ اسلام ہوگئیں  ،

وَكَتَبَ لَهَا فِی قِطْعَةٍ مِنْ أَدِیمٍ أَحْمَرَ لِقَیْلَةَ وَلِلنِّسْوَةِ بَنَاتِ قَیْلَةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ان کے اپنے اوران کی بیٹیوں  کے لئے سرخ چمڑے پرایک تحریرلکھواکرعنایت فرمائی،جس کامضمون یہ تھا۔

أَنْ لا یُظْلَمْنَ حَقًّا. وَلا یُكْرَهْنَ عَلَى مُنْكِحٍ. وَكُلُّ مُؤْمِنٍ مُسْلِمٍ لَهُنَّ نُصَیْرٌ. أَحْسِنَّ وَلا تُسِئْنَ

ان کی حق تلفی نہ کی جائے،ان سے زبردستی نکاح نہ کیاجائے اورہرمومن مسلمان ان کامددگارہے ،تم نیک کام کرواوربرے کاموں  سے اجتناب کرو۔

قَالَ: فَلُمْتُ نَفْسِی فَقُلْتُ: وَاللهِ لا أَذْهَبُ حَتَّى أَزْدَادَ مِنَ الْعِلْمِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُمْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا تَأْمُرُنِی أَعْمَلُ؟فَقَالَ: یَا حَرْمَلَةُ ائْتِ الْمَعْرُوفَ وَاجْتَنِبِ الْمُنْكَرَ،وَانْصَرَفْتُ حَتَّى أَتَیْتُ رَاحِلَتِی. ثُمَّ رَجَعْتُ حَتَّى قُمْتُ مَقَامِی أَوْ قَرِیبًا مِنْهُ. ثُمَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا تَأْمُرُنِی أَعْمَلُ؟ فَقَالَ: یَا حَرْمَلَةُ ائْتِ الْمَعْرُوفَ وَاجْتَنِبِ الْمُنْكَرَ،وَانْظُرِ الَّذِی تُحِبُّ أُذُنُكَ إِذَا قُمْتَ مِنْ عِنْدِ الْقَوْمِ أَنْ یَقُولُوهُ لَكَ فَأْتِهِ وَالَّذِی تَكْرَهُ أَنْ یَقُولُوهُ لَكَ إِذَا قُمْتَ مِنْ عِنْدِهِمْ فَاجْتَنِبْهُ

قیلہ رضی اللہ عنہا بنت مخرمہ کے علاوہ بنوشیبان کے حرملہ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ایاس بھی بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے اورنعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوکرواپس چل دیئے لیکن پھرکچھ سوچ کر واپس آئے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوکرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے کیاکام کرنے کاحکم دیتے ہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے حرملہ رضی اللہ عنہ !نیکیاں  کراوربرے کاموں  سے بچ ،حرملہ رضی اللہ عنہ لوٹ کراپنی اونٹنی کے پاس آئی لیکن پھرواپس آکرپہلے سے بھی زیادہ قریب کھڑے ہوگئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے کون سے عمل کاحکم دیتے ہیں  ؟ آپ نے فرمایااے حرملہ رضی اللہ عنہ !نیکیاں  کراوربرے کاموں  سے اجتناب کر،اوراس بات کی طرف دیکھ کہ جب تو لوگوں  کے پاس سے اٹھے توجس کام کے بارے میں  توپسندکرتاہے کہ وہ تیری طرف منسوب کرکے بیان کریں  وہ کام کر،اورجس کام کی نسبت تواپنی طرف پسندنہیں  کرتاتواس سے اجتناب کر۔[6]

المثنى بْن حارثة الشیبانی وفد عَلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سنة تسع، مع وفد قومه

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کابیان ہےنوہجری میں  بنوشیبان کاایک وفداپنی قوم کے وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوااورمشرف بہ اسلام ہوکراپنے وطن واپس گیا،مشہورمجاہدمثنیٰ بن حارثہ شیبانی اسی وفد میں  شامل تھے۔[7]

وفدبنی البکاء:

قبیلہ بکاء بنی عامربن صعصعہ(ہوزانی)کی ایک شاخ تھایہ لوگ مکہ اورسرحدعراق کے راستے پرآبادتھے

وَفَدَ مِنْ بَنِی الْبَكَّاءِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَنَةَ تِسْعٍ ثَلاثَةُ نَفَرٍ: مُعَاوِیَةُ بْنُ ثَوْرِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الْبَكَّاءِ. وَهُوَ یَوْمَئِذٍ ابْنُ مِائَةِ سَنَةٍ. وَمَعَهُ ابْنٌ لَهُ یُقَالُ لَهُ بِشْرٌ. وَالْفُجَیْعُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَنْدَحِ بْنِ الْبَكَّاءِ. وَمَعَهُمْ عَبْدُ عَمْرٍو الْبَكَّائِیِّ. وَهُوَ الأَصَمُّ ،فَأَمَرَ لهم رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. بِمَنْزِلٍ وَضِیَافَةٍ، وَقَالَ معاویة للنبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی أَتَبَرَّكُ بِمَسِّكَ. وَقَدْ كَبِرْتُ وَابْنِی هَذَا بَرٌّ بِی فَامْسَحْ وَجْهَهُ، فَمَسَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَ بِشْرِ بْنِ مُعَاوِیَةَ وَأَعْطَاهُ أَعْنُزًا عُفْرًا وَبَرَّكَ عَلَیْهِنَّ

نوہجری میں  بنوالبکاء کے تین آدمیوں  کاایک وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،جن میں  معاویہ رضی اللہ عنہ بن ثوربن عبادہ بن البکائتھے جواس زمانے میں  سوبرس کے تھے،ان کے ساتھ ان کاایک بیٹابھی تھاجس کانام بشرتھا،اورفجیع بن عبداللہ بن جندح بن البکاء جوبہرے تھے بارگاہ رسالت میں  حاضر ہوا،اورتمام اراکین وفدقبول اسلام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کے قیام اورمہمان داری کاحکم دیا،معاویہ رضی اللہ عنہ بن ثور نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کیامیں  بہت بوڑھاہوگیاہوں  اورمیرایہ بیٹا (بشر) میری بہت خدمت کرتا ہے،میں  چاہتاہوں  کہ آپ اس کے چہرے پراپنادست مبارک پھیریں  اوراسے دعائے برکت سے نوازیں  ،سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشر رضی اللہ عنہ کے چہرے پراپنادست مبارک پھیرااور اس کو چند بکریاں  مرحمت فرماکر ان کے لیے برکت کی دعاکی۔

وكان معاویة قال لابنه بشر یَوْم قدم، وله ذؤابة: إذا جئت رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقل ثلاث كلمات لا تنقص منهن، ولا تزد علیهن، قل:السَّلامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ،أتیتك یا رَسُول اللهِ لأسلم علیك، ونسلم إلیك وتدعو لی بالبركة ، قال بشر: ففعلتهن،فَمَسَحَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رأسی، ودعا لی بالبركة، وأعطانی أعنزًا عفرًا

علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  یہ وفدمدینہ منورہ پہنچاتو معاویہ رضی اللہ عنہ بن ثورنے اپنے بیٹے بشر رضی اللہ عنہ سے کہااے بیٹے!جب تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوتوتین باتیں  عرض کرنا،نہ ان سے کم اورنہ ان سے زیادہ ، پہلے نہایت ادب سے السلام علیک یارسول اللہ کہنا،پھرکہنااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ کے پاس اس لئے آیاہوں  کہ آپ کوسلام کروں  اوراسلام قبول کروں  ،اس کے بعدعرض کرناآپ میرے لئے برکت کی دعا فرمائیں  ، بشر رضی اللہ عنہ بن معاویہ نے اسی ہدایت پرعمل کیا،پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سرپراپنادست شفقت پھیرااورانہیں  دعائے برکت سے نوازاپھرانہیں  چندبکریاں  عنایت فرمائیں  ۔[8]

ایک روایت میں  ہے

قَالُ الْجَعْدُ: فَالسَّنَةُ رُبَّمَا أَصَابَتْ بَنِی الْبَكَّاءِ وَلا تُصِیبُهُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکایہ اثرہواکہ بعض اوقات خشک سالی بنوالبکاء کوبہت تکلیف دیتی تھی مگربشر رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی اس سے متاثر نہیں  ہوتے تھے۔

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مُعَاوِیَةَ بْنِ ثَوْرِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الْبَكَّاءِ:

محمدبن بشربن معاویہ بن ثوربن عبادہ بن البکاء نے یہ اشعارکہے۔

وَأَبِی الَّذِی مَسَحَ الرَّسُولُ بِرَأْسِهِ ، ،وَدَعَا لَهُ بِالْخَیْرِ وَالْبَرَكَاتِ

میرے باپ وہ ہیں  جن کے سرپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک پھیرااوران کے لیے خیروبرکت کی دعافرمائی ہے۔

أَعْطَاهُ أَحْمَدُ إِذْ أَتَاهُ أَعْنُزًا ،عُفْرًا نَوَاجِلَ لَیْسَ بِاللِّجِبَاتِ

میرے والدکوجب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندسفیداچھی نسل والی بھیڑیں  عطافرمائیں  جوکم دودھ دینے والی نہ تھیں  ۔

یَمْلآنِ وَفْدَ الْحَیِّ كُلَّ عَشِیَّةٍ ،وَیَعُودُ ذَاكَ الْمِلْءُ بِالْغَدَوَاتِ

جوہرشب کوقبیلے کے وفدکودودھ سے بھردیتی تھیں  اوریہ دودھ بھرناپھرصبح کودوبارہ بھی ہوتاتھا

بُورِكْنَ مِنْ مَنْحٍ وَبُورِكَ مَانِحًا ،وَعَلَیْهِ مِنِّی مَا حَیِیتُ صلاتی

جوعطاکی وجہ سے بابرکت تھیں  اورعطاکرنے والے بھی بابرکت تھے اورجب تک میں  زندہ رہوں  میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپہنچتارہے۔[9]

عبدعمروالبکائی رضی اللہ عنہ بہرے تھے اس لئے اصم کے لقب سے مشہورتھے

فَسَماهُ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: عبد الرَّحْمَن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام بدل کرعبدالرحمٰن رکھا،اورذوالقصہ نامی پانی کے ایک چشمہ کی ملکیت کے حقوق عطافرمائے۔

فجیع رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تحریرلکھوائی۔

مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ لِلْفُجَیْعِ وَمَنْ تَبِعَهُ

وَأَسْلَمَ وَأَقَامَ الصَّلاةَ. وَآتَى الزَّكَاةَ. وَأَعْطَى اللهَ وَرَسُولَهُ وَأَعْطَى مِنَ الْمَغَانِمِ خُمُسَ اللهِ. وَنَصَرَ النَّبِیَّ وَأَصْحَابَهُ. وَأَشْهَدَ عَلَى إِسْلامِهِ. وَفَارَقَ الْمُشْرِكِینَ. فَإِنَّهُ آمِنٌ بِأَمَانِ اللهِ وَأَمَانِ مُحَمَّدٍ

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے فجیع کے لئے اوراس کے لئے جواس کی اتباع کرے

اوراسلام قبول کرے ،نمازقائم کرے،زکوٰة دے ،غنائم سے اللہ کاخمس دے اورنبی اوراس کے اصحاب کی مددکرے،میں  اس کے اسلام کی گواہی دیتا ہوں  ،وہ مشرکین سے الگ ہوجائے اوروہ اللہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امان پریقین کرنے والاہے۔

وَأَجَازَهُمْ وَرَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ

ان اصحاب رضی اللہ عنہم نے چنددن مدینہ منورہ میں  قیام کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان داری سے متمتع ہوئے ،جب وہ رخصت ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  مزیدعطیات سے نوازا۔[10]

وفدحضرموت:

حضرموت بلادعرب میں  یمن کے مشرق میں  ۴۷،۵۳درجے طول بلدمشرق کے درمیان اور۵۱،۱۹درجے عرض بلدشمال کے درمیان ایک وسیع علاقہ ہے جس کی تمام جنوبی سرحدپرسمندرہے(بحرعرب)اس کے جنوب مشرق کی سمت میں  مہرہ کاعلاقہ ،شمال مشرق اورشمال مغرب میں  وسطی عرب کاصحرائے اعظم ہے،

حَضرمَوْت هو ابن یقطن أخی قحطان

ابن حزم رحمہ اللہ کے بیان کے مطابقحضر موت ،قحطان کے بھائی یقطن کابیٹاتھا۔[11]

حضرت موت کی اولادبنی حضرموت کہلائی ، پھراس سے بہت سے بطون نکلے ،جس علاقہ میں  یہ لوگ آبادہوئے وہ بھی حضرموت کے نام سے مشہورہوگیا، قدیم زمانے میں  حضرموت کی وجہ شہرت لوبان کی وجہ سے تھی ، یونانی روایت کے مطابق جہاں  لوبان پیداہوتاتھااسے لوبان کی مہک بوکے باعث موت کی سرزمین کہاجاتاتھا،چنانچہ عرب لغت نویس یہی وجہ تسمیہ بتاتے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ولادت کے قریب بنوکندہ کے تقریباًتیس ہزارافرادبحرین سے ترک وطن کرکے حضرموت چلے آئے اوراپنے آپ کواہل حضرموت سے وابستہ کرلیا،ان لوگوں  (بنوحضرموت اوربنوکندہ)نے سالہاسال تک بڑے وسیع علاقوں  پرحکومت کی ، حضرموت کے بادشاہ کالقب عباہلہ ہواکرتاتھا۔فتح مکہ کے بعدجب عرب کے گوشے گوشے سے مختلف قبائل کے وفودجوق درجوق مدینہ منورہ آنے لگے توحضرموت سے بھی ایک وفدوائل رضی اللہ عنہ بن حجرکی قیادت میں  مدینہ منورہ پہنچا،وائل رضی اللہ عنہ بن حجرکاتعلق حضرموت کے شاہی خاندان سے تھا،اگرچہ وہاں  بادشاہت ختم ہوچکی تھی لیکن وائل رضی اللہ عنہ بن حجراب بھی وہاں  کے سربرآوردہ رئیسوں  میں  شمارہوتے تھے،ایک روایت میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کواسلام کی دعوت دی توحضر موت کے روساکوبھی خط یامبلغ بھیج کراسلام قبول کرنے کی ترغیب دی ، وائل رضی اللہ عنہ بن حجرکواسلام کی دعوت ملی تووہ بلاتامل اسلام قبول کرنے اوربارگاہ رسالت میں  حاضرہونے کے لئے تیارہوگئے،معلوم نہیں  انہوں  نے خط یا قاصدبھیج کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ارادے کی اطلاع دی یاآپ کووحی کے ذریعے ان کے ارادے کاعلم ہوگیا ،

قَدْ بَشَّرَنَا بِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَبْلَ أَنْ تَقْدَمَ عَلَیْنَا بِثَلَاثَةِ أَیَّامٍ

ان کے مدینہ طیبہ داخل ہونے سے تین دن پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواس بات کی خبر دے دی تھی۔[12]

یأتیكم وائل بْن حجر من أرض بعیدة من حَضرمَوْت طائعًا راغبًا فِی الله وفی رسوله، وَهُوَ بقیة أبناء الملوك

وائل رضی اللہ عنہ بن حجرنے جوملوک حضرموت کی یادگارہیں  اللہ اوررسول کی اطاعت قبول کرلی ہے اوروہ دوردرازکی مسافت طے کرکے مدینہ آرہے ہیں  ۔[13]

فَلَمَّا دَخَلَ رَحَّبَ بِهِ وَأَدْنَاهُ مِنْ نَفْسِهِ وَقَرَّبَ مَجْلِسَهُ وَبَسَطَ لَهُ رِدَاءَهُ

چنانچہ چنددن بعدجب وائل رضی اللہ عنہ بن حجراپنے وفدکے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اوربارگاہ نبوی میں  حاضرہوئے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاپرتپاک خیرمقدم کیااور اپنی روئے مبارک ان کے لئے بچھادی۔[14]

ایک روایت ہے کہ وائل بن حجربارگاہ نبوی میں  حاضرہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کومسجدمیں  جمع کیااوران کے سامنے خطبہ دیا،جس میں  فرمایا

یَا أَیُّهَا النَّاسُ , هَذَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ جئت راغبا فِی الْإِسْلَام والهجرة،فدعا لَهُ ومسح رأسه

اے لوگو! یہ وائل رضی اللہ عنہ بن حجرہے جوحضرموت سے اسلام کی رغبت سے تمہارے پاس آیاہے۔[15]

وائل رضی اللہ عنہ بن حجرنے بڑے ذوق وشوق سے اسلام قبول کیااورآپ کی بیعت سے مشرف ہوئے،دوسرے اراکین وفدنے بھی پیروی کی،اس موقع پرآپ نے اپنادست اقدس وائل رضی اللہ عنہ بن حجرکے چہرے یاسرپرپھیرااوران کے لئے دعافرمائی۔

اللهُمَّ بَارِكْ فِی وَائِلٍ وَوَلَدِهِ وَوَلِدِ وَلَدِهِ وَاسْتَعْمَلَهُ على الاقیال من حَضرمَوْت

اے اللہ! وائل اور ان کی اولاداوراولادکی اولادپربرکت نازل فرما،اوران کوحضرموت کے سرداروں  کاحاکم بنائے۔[16]

وائل رضی اللہ عنہ بن حجرنے قبول اسلام کے بعدچنددن مدینہ منورہ میں  قیام کیا،

ثُمَّ نَزَلَ , وَأَنْزَلَنِی مَعَهُ , وَأَنْزَلَنِی مَنْزِلًا شَاسِعًا عَنِ الْمَدِینَةِ , وَأَمَرَ مُعَاوِیَةَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ أَنْ یُبَوِّئَنِی إِیَّاهُ

ایک روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں  وائل رضی اللہ عنہ بن حجرکے قیام کے لئے ایک عمدہ مکان تجویزفرمایا اور ان کی خاطرتواضع کاخاص اہتمام فرمایا،جب وہ بیعت کا شرف حاصل کرچکے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان سے فرمایاکہ انہیں  ناقہ پربٹھاکرفلاں  مکان میں  لے جاؤ جہاں  ان کی مہمان نوازی کاانتظام کیا گیا ہے ۔[17]

وأرسل معه معاویة بْن أبی سُفْیَان، فخرج معاویة راجلًا معه ووائل بْن حجر عَلَى ناقته راكبًا، فشكا إِلَیْهِ معاویة حر الرمضاء، فَقَالَ له: ابتعل ظل الناقة، فَقَالَ معاویة:وما یغنی ذلك عنی؟ لو جعلتنی ردفك،فَقَالَ له وائل: اسكت، فلست من أرداف الملوك

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں  اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان بھی آپ کی خدمت میں  حاضرتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  حکم دیاکہ وائل بن حجرکی مشایعت کے لئے کچھ دوران کے ساتھ جاؤ،وہ تعمیل ارشادمیں  ان کے ساتھ چل پڑے،وائل رضی اللہ عنہ بن حجر سوار تھے اورمعاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے،گرمی کاموسم تھااورآفتاب کی تمازت سے زمین تانبے کی طرح تپ رہی تھی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے وائل رضی اللہ عنہ سے کہامیرے پاؤں  جل رہے ہیں  ، وائل رضی اللہ عنہ نے کہامیری سواری کے سایہ میں  آجاؤ،معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہااس سے کچھ فائدہ نہ ہوگاکیونکہ سائے میں  آنے سے زمین کی گرمی کا اثر زائل نہیں  ہوتاآپ مجھے اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیں  ،وائل رضی اللہ عنہ بن حجرنے تازہ تازہ اسلام قبول کیاتھااورابھی انکساروتواضع کارنگ طبیعت پرنہیں  چڑھاتھا،بڑی تمکنت سے بولے خاموش رہوتم بادشاہوں  کے ساتھ بیٹھنے کے قابل نہیں  ہو۔[18]

ثُمَّ قَالَ لِمُعَاوِیَةَ: انْطَلِقْ بِهِ فَأَنْزِلْهُ مَنْزِلا بِالْحَرَّةِ، قَالَ مُعَاوِیَةُ: فَانْطَلَقْتُ بِهِ وَقَدْ أَحْرَقَتْ رِجْلَیَّ الرَّمْضَاءُ فَقُلْتُ: أَرْدِفْنِی، قَالَ: لَسْتَ مِنْ أَرْدَافِ الْمُلُوكِ، قُلْتُ:فَأَعْطِنِی نَعْلَیْكَ أَتَوَقَّى بِهِمَا مِنَ الْحَرِّ، قَالَ: لا. إنی لم أكن لألبسها وقد لبستهاوَلَكِنْ إِنْ شِئْتَ قَصَّرْتُ عَلَیْكَ نَاقَتِی فَسِرْتَ فِی ظِلِّهَا، قَالَ مُعَاوِیَةُ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْبَأْتُهُ بِقَوْلِهِ فَقَالَ: إِنَّ فِیهِ لَعُبَیَّةً مِنْ عُبَیَّةِ الْجَاهِلِیَّةِ

ابن سعدکابیان ہےیہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ وائل رضی اللہ عنہ کولے جاؤ،اوران کوحرة میں  کسی مکان میں  ٹھہراؤ اورمہمان نوازی کاانتظام کرو، معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  میں  انہیں  لے گیاگرمی کی شدت سے میرے پاؤں  جھلس رہے تھے ،میں  نے وائل رضی اللہ عنہ بن حجرسے کہاکہ مجھے (اونٹ پر)اپنے پیچھے بٹھالیں  ، وائل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا توبادشاہوں  کے ساتھ بیٹھنے کے لائق نہیں  ،میں  نے کہااچھااپنے جوتے مجھے دے دیں  تاکہ انہیں  پہن کرگرمی کی تکلیف سے بچوں  ، وائل رضی اللہ عنہ نے کہاایسانہیں  ہوسکتاکہ تمہارے پہننے کے بعدمیں  انہیں  پہنوں  ،اگرتم چاہوتومیں  تمہارے لیے اپنی اونٹنی کوتیزچلنے سے روک دیتاہوں  اورتم اس کے سائے میں  چلوتمہارے لئے یہی شرف کافی ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  پھرمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کووائل کی گفتگوکی خبردی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابھی اس میں  جاہلیت کاغرورباقی ہے ، جب اسلام کی تعلیمات اس کے ذہن میں  راسخ ہوں  تویہ غروربھی جاتا رہے گا۔[19]

قَالُوا: وقدم وفد حَضْرَمَوْتَ مَعَ وفد كندة عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهم بنو ولیعة ملوك حَضْرَمَوْتَ حمدة ومخوس ومشرح وأبضعة فأسلموا ،وَقَالَ مخوس: یا رَسُول الله ادع الله أن یَذْهَبُ عنی هذه الرتةمِنْ لِسانِی،فدعا لَهُ وأطعمه طعمة مِن صدقة حَضْرَمَوْتَ

ان کے علاوہ سلاطین حضرموت میں  سے چاراوراصحاب حمدة، مخوس،مشرح اورابضعہ بھی بارگاہ نبوت میں  حاضرہوئے اورشرف اسلام سے بہرہ ورہوئے،مخوس رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعافرمائیں  کہ وہ میری زبان سے ہکلاہٹ کودورکردے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعافرمائی اور حضرموت کے صدقات سے انہیں  کھاناکھلایا۔[20]

وَقَالَ وَائِلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ اكْتُبْ لِی بِأَرْضِی الَّتِی كَانَتْ فِی الْجَاهِلِیَّةِ. وَشَهِدَ لَهُ أَقْیَالُ حِمْیَرَ وَأَقْیَالُ حَضْرَمَوْتَ ،فَكَتَبَ لَهُ:

ایک روایت میں  ہےوائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !زمانہ جاہلیت کے زمانہ میں  میرے پاس جوزمین تھی وہ مجھے عنایت فرمادیں  ، اورحمیراورحضرموت کے سرداروں  کواس کاگواہ بنادیں  ،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان لکھ دیا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هذا كتاب مِنْ محمد النَّبِیَّ لوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قِیلَ حَضْرَمَوْتَ:

أَنَّكَ أَسْلَمْتَ وَجَعَلْتُ لك ما فی یدیك من الأرضین والحصون وَأَنَّهُ یُؤْخَذُ مِنْكَ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ وَاحِدٌ یَنْظُرُ فِی ذَلِكَ ذَوَا عَدْلٍ وَجَعَلْتُ لَكَ أن لا تظلم فیها ما قام الدین وَالنَّبِیُّ وَالْمُؤْمِنُونَ عَلَیْهِ أَنْصَارٌ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ فرمان محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے وائل بن حجرشاہ حضر موت کے لیےہے

تم اسلام لائے ،جوزمینیں  اورقلعے تمہارے قبضہ میں  ہیں  وہ میں  نے تمہارے لیے کردیے ہیں  تم سے دس میں  سے ایک حصہ لے لیاجائے گاجس میں  انصاف کرنے والاغورکرے گا،میں  نے تمہارے لیے یہ شرط کی ہے کہ اس میں  کمی نہ کرناجب تک کہ دین قائم ہے اورنبی ومومنین اس کے مددگارہیں  ۔

وَكتب مَعَه ثَلَاثَة كُتُبٍ ; مِنْهَا كِتَابٌ إِلَى الْمُهَاجِرِ بْنِ أَبِی أُمَیَّةَ، وَكِتَابٌ إِلَى الْأَقْیَالِ وَالْعَبَاهِلَةِ، وَأَقْطَعَهُ أَرْضًا

اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارہ میں  ایک خط مہاجر رضی اللہ عنہ بن ابی امیہ کے نام اوردوسراحضرموت کے رئیسوں  اورسرداروں  کے نام لکھ کران کودیا۔[21]

جب وطن جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے ان کوایک قطعہ زمین بطورجاگیرمرحمت فرمایا،اورایک تحریربھی عنایت فرمائی جس میں  نماز، روزہ، سود اورشراب وغیرہ کے بارے میں  احکام درج تھے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَالْأَقْوَالِ الْعَیَاهِلَةِ مِنْ حَضْرَمَوْتَ

بِإِقْامِ الصَّلَاةِ , وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ مِنَ الصِّرْمَةِ التَّیْمَةِ وَلِصَاحِبِهَا التَّبِعَةُ لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ وَلَا وِرَاطَ فِی الْإِسْلَامِ , لِكُلِّ عَشَرَةٍ مِنَ السَّرَایَا مَا تَحْمِلُ الْقِرَابُ مِنَ التَّمْرِ مَنْ أَجْبَا فَقَدْ أَرْبَا , وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وائل بن حجراورحضرت موت کے رئیسوں  اورسرداروں  کے لیے۔

وہ باجماعت نمازکانظام قائم کریں  گے،وہ زکوٰة ۔۔۔اسلام میں  جلب ،جنب ،شغار( وٹا سٹاکے نکاح کی )اور وراط کی کوئی حیثیت نہیں  ۔۔۔اورنشہ آورچیزحرام ہے۔

قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ ثُمَّ مِنْ تِنْعَةَ یُقَالُ لَهَا تَهْنَاةُ بِنْتُ كُلَیْبٍ صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِسْوَةً ثُمَّ دَعَتِ ابْنَهَا كُلَیْبَ بْنَ أَسَدِ بْنِ كُلَیْبٍ فَقَالَتِ: انْطَلِقْ بِهَذِهِ الْكِسْوَةِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَأَتَاهُ بِهَا وَأَسْلَمَ. فَدَعَا لَهُ

ان کے علاوہ حضرموت میں  تھناہ بنت کلیب نامی ایک خاتون تھیں  ،انہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبرملی توانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لباس تیارکیا،اوراسے اپنے بیٹے کلیب بن اسدبن کلیب کے سپردکرکے کہاکہ مدینہ جاؤ، اور یہ لباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کرو، وہ دوماہ کی مسافت طے کرکے بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے اوریہ لباس آپ کی خدمت میں  پیش کیااورمشرف بہ اسلام ہو گیا۔

وَقَالَ كُلَیْبٌ حِینَ أَتَى النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:

کلیب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے تویہ اشعارکہے۔

مِنْ وَشْزِ بِرْهَوْتَ تَهْوِی بِی عَذَافِرُهُ ،إِلَیْكَ یَا خَیْرَ مَنْ یَحْفَى وَیَنْتَعِلُ

میں  برہوت سے آرہاہوں  آتے ہوئے جھک جھک جاتاہوں  میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہورہاہوں  اے ان سب سے بہتر جو پابرہنہ اورپاپوشیدہ ہیں  ۔

تَجُوبُ بِی صَفْصَفًا غُبْرًا مَنَاهِلُهُ ،تَزْدَادُ عَفْوًا إِذَا مَا كَلَّتِ الإِبِلُ

سواری مجھے ایسے میدانوں  سے لارہی ہے جہاں  تالابوں  کے گھاٹ بھی گردآلودہیں  ،اونٹ جب تھک جائیں  توان کاگردوغباراوربڑھ جائے۔

شَهْرَیْنِ أَعْمَلُهَا نَصًّا عَلَى وَجَلٍ ،أَرْجُو بِذَاكَ ثَوَابَ اللهِ یَا رَجُلُ

اسی دشت نوردی میں  دومہینے گزرگئے کہ ندامت کے ساتھ سفرکررہاہوں  اوراس سفرسے اللہ کے اجروثواب کی امیدرکھتاہوں  ۔

أَنْتَ النَّبِیُّ الَّذِی كُنَّا نُخَبَّرُهُ ،وَبَشَّرَتْنَا بِكَ التَّوْرَاةُ وَالرُّسُلُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی نبی ہیں  جن کی ہمیں  خبردی جارہی تھی ہمیں  تورات نے اورپیغمبروں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارت دی تھی۔[22]

فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِهِ یُعَرِّضُ بِنَاسٍ مِنْ قَوْمِهِ:

ان کی اولادمیں  سے ایک شخص نے اپنی قوم کی تعریف کرتے ہوئے یہ اشعارکہے ہیں  ۔

لَقَدْ مَسَحَ الرَّسُولُ أَبَا أَبِینَا ،وَلَمْ یَمْسَحْ وُجُوهَ بَنِی بَحِیرِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے داداکے چہرے پرہاتھ پھیرا،بنی بحیرکے چہروں  پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں  پھیرا

شَبَابُهُمْ وَشَیْبُهُمْ سَوَاءٌ ،فَهُمْ فِی اللُّؤْمِ أَسْنَانُ الْحَمِیرِ

چنانچہ ان لوگوں  کے بوڑھے اورجوان سب برابرہیں  ،وہ سب کمینہ پن میں  گدھوں  کے دانتوں  کی طرح ہیں

وفدنجران:

نجران مکہ معظمہ سے یمن کی جانب سات منزل پر(حجازاوریمن کے درمیان)ایک چھوٹی سی رساست تھی جوسارے عرب میں  عیسائیت کاسب سے بڑامرکزتھی، بعض مورخین کے نزدیک یہ ریاست حدودیمن کے اندرواقع تھی،

أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ الَّذِینَ ذُكِرُوا فِی سُورَةِ الْبُرُوجِ وَكَانَ فِی قَرْیَةٍ مِنْ قُرَاهَا قَرِیبًا مِنْ نَجْرَانَ

اصحاب اخدودجس کاذکرسورہ بروج میں  ہےوہ علاقہ نجران ہی کے کسی قصبہ یاگاؤں  میں  تھی۔ [23]

وادی نجران مسیحت کی تاریخ میں  ان شہداء کی وجہ سے مشہورہے جنہیں  ذوانواس نے ۵۲۳ء میں  آگ کے گڑھوں  میں  جلایاتھا،یہاں  تاریخی ٹیلے ، معابد ، دیواریں  اورسبائی ومعینی کتبے پائے جاتے ہیں  ۔[24]

یَشْتَمِلُ عَلَى ثَلَاثَةٍ وَسبعین قَرْیَة مسیرَة یَوْم للراكب السَّرِیعِ

اس ریاست میں  ۷۳ بستیاں  شامل تھیں  ،مگران کاعلاقہ اتناتھاکہ ایک تیز رفتار سوار ایک دن میں  ساراعلاقہ طے کرسکتاتھا۔[25]

وَعِشْرُونَ وَمِائَةُ أَلْفِ مُقَاتِلٍ

ان بستیوں  سے ایک لاکھ بیس ہزارقابل جنگ مرد نکل سکتے تھے،

نجران کا علاقہ نہایت سرسبزاورشاداب تھااوراس کے باشندے عیسائی عرب تھے ،جوصنعت وحرفت اورتجارت کی بدولت بڑے خوشحال تھے،یہاں  عیسائیوں  کاایک عظیم الشان گرجا تھاجوکعبہ نجران کے نام سے مشہورتھا،اس گرجامیں  ایک قبہ تین سوکھالوں  سے گنبدکی شکل کا بنایا گیاتھا،جوشخص اس کی حدودمیں  آجاتااسے مامون سمجھا جاتا تھا ، ریاست کی تمام آبادی عیسائی تھی اورتین سرداروں  کے زیرحکم تھی،ایک عبدالسیح تھاجو عاقب کہلاتاتھاجس کی حیثیت امیرقوم کی تھی،یہ بڑا دانا اور عقلمندسمجھاجاتاتھا،دوسرے کانام ایہم یاشرحبیل تھایہ سیدکہلاتاتھا،اوران کی مذہبی، تمدنی اورسیاسی امورکانگران تھا،تیسرے کانام ابوحارثہ بن علقمہ تھا،جوعرب کے قبیلہ بنو بکربن وائل سے تھا،اورعیسائی مذہب اختیارکرلیاتھا،شاہان روم اس کے علم وفضل اورمذہبی صلاحیت اوردینی پختگی کی وجہ سے بڑی تعظیم وتکریم کرتے تھے، اوربڑی بڑی جاگیریں  دے رکھی تھیں  ،یہ اسقف (لاٹ پادری)تھاجوریاست کادینی وروحانی پیشواتھا۔

نصارنیوں  میں  بھی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  آپس میں  اختلاف رکھتے تھے،ان میں  ایک فرقہ عیسیٰ علیہ السلام کوالٰہ تسلیم کرتاتھا،جس کی وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ وہ مردوں  کوزندہ کرتے ، بیماروں  کوشفادیتے ،غیب کی باتیں  بتاتے اورمٹی سے پرندے کی صورت بناکراس میں  پھونک مارتے تووہ پرندہ بن جاتا(حالانکہ یہ سب اللہ کے حکم سے ان لوگوں  کی نشانی کے لئے تھا)ایک فرقہ انہیں  اللہ کابیٹاتسلیم کرتاتھا،اوروہ اس کی یہ دلیل دیتے تھے کہ ان کاکوئی باپ نہیں  ہے ،انہوں  نے گہوارے میں  باتیں  کیں  حالانکہ اس سے پہلے کسی انسان نے ایسانہیں  کیاتھا،ایک فرقہ کاخیال تھاکہ وہ تینوں  میں  اللہ تعالیٰ،عیسیٰ علیہ السلام اورمریم سے تیسراہے،وہ اس کی یہ دلیل دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے کیا،ہم نے حکم دیا،ہم نے پیداکیا،ہم نے فیصلہ کیا،اگروہ ایک ہوتاتوکہتامیں  نے کیا،میں  نے فیصلہ کیا،میں  نے حکم دیا اورمیں  نے پیداکیا ۔

مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کونجران روانہ کرنا:

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْتُ نَجْرَانَ سَأَلُونِی، فَقَالُوا: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ یَا أُخْتَ هَارُونَ، وَمُوسَى قَبْلَ عِیسَى بِكَذَا وَكَذَا، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:إِنَّهُمْ كَانُوا یُسَمُّونَ بِأَنْبِیَائِهِمْ وَالصَّالِحِینَ قَبْلَهُمْ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب میں  وہاں  پہنچا(اوراپناتبلیغی کام شروع کیا)تولوگوں  نے ان سے(بطوراعتراض کے)سوال کیاکہ تم قرآن مجیدمیں  پڑھتے ہو(یعنی مریم کوہارون علیہ السلام کی بہن کہاگیاہے حالانکہ ہارون علیہ السلام اور)موسیٰ علیہ السلام ،عیسیٰ علیہ السلام (اوران کی والدہ محترمہ مریم رحمہ اللہ )سے بہت پہلے گزرے ہیں  (لہذامریم رحمہ اللہ ،ہارون علیہ السلام یاموسیٰ علیہ السلام کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں  ) جب میں  واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  آیا تومیں  نے یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابنی اسرائیل کی عادت تھی کہ وہ اپنے انبیاء اورصلحاء کے نام پرنام رکھاکرتے تھے(لہذامریم کے بھائی کانام ہارون علیہ السلام کے نام پرہارون رکھاگیاتھا،اس لئے انہیں  قرآن مجیدمیں  ہارون کی بہن کہاگیاہے)۔[26]

حاکم روایت کرتے ہیں  فتح مکہ کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ ثقفی کوتبلیغ اسلام کے لئے نجران بھیجا،مگران کی تبلیغی مساعی کانجران کے نصاریٰ نے کوئی اثرقبول نہ کیابلکہ الٹا ان پرطرح طرح کے اعتراضات کیے،مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ نے واپس آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوصورت حال سے آگاہ کیاتوآپ نے اسقف نجران کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا جس کامضمون یہ تھا۔

بِاسْمِ إِلَهِ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ،

 أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّی أَدْعُوكُمْ إِلَى عِبَادَةِ اللهِ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ، وَأَدْعُوكُمْ إِلَى وِلَایَةِ اللهِ مِنْ وِلَایَةِ الْعِبَادِ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَالْجِزْیَةُ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَقَدْ آذَنْتُكُمْ بِحَرْبٍ، وَالسَّلَامُ

بنام الٰہ ابراہیم علیہ السلام واسحٰق علیہ السلام ویعقوب علیہ السلام ،محمدنبی رسول اللہ کی طرف سے

حمدوثناکے بعدتمہیں  بندوں  کی عبادت چھوڑکراللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں  اوربندوں  کی حکمرانی سے ہٹاکراللہ کی حکمرانی کی دعوت دیتاہوں  ،اگرتمہیں  یہ منظورنہیں  توجزیہ اداکرواوراگرجزیہ دینابھی منظورنہیں  تولڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ۔والسلام

فَلَمَّا أَتَى الْأُسْقُفَّ الْكِتَابُ فَقَرَأَهُ فُظِعَ بِهِ وَذُعِرَ بِهِ ذُعْرًا شَدِیدًا،وَبَعَثَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ یُقَالُ لَهُ شُرَحْبِیلُ بْنُ وَدَاعَةَ وَكَانَ مِنْ هَمْدَانَ ، وَلَمْ یَكُنْ أَحَدٌ یُدْعَى إِذَا نَزَلَتْ معضلة قبله لَا الابهم وَلَا السَّیِّدُ وَلَا الْعَاقِبُ،فَدَفَعَ الْأُسْقُفُّ كِتَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شُرَحْبِیلَ فَقَرَأَهُ، فَقَالَ الْأُسْقُفُّ: یَا أَبَا مَرْیَمَ مَا رَأْیُكَ؟فَقَالَ شُرَحْبِیلُ: قَدْ عَلِمْتَ مَا وَعَدَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ فِی ذُرِّیَّةِ إِسْمَاعِیلَ مِنَ النُّبُوَّة، فَمَا تؤمن أَنْ یَكُونَ هَذَا هُوَ ذَاكَ الرَّجُلَ؟ لَیْسَ لى فِی النُّبُوَّة رأى وَلَو كَانَ أمرا مِنْ أُمُورِ الدُّنْیَا لَأَشَرْتُ عَلَیْكَ فِیهِ بِرَأْیٍ وَجَهِدْتُ لَكَشرحبیل،فَقَالَ لَهُ الْأُسْقُفُّ: تَنَحَّ فَاجْلِسْ،فَتنحّى شُرَحْبِیل فَجَلَسَ ناحیته

جب یہ نامہ مبارک اسقف نے پڑھاتواس پرسکتہ طاری ہوگیااورمارے خوف کے بے حال ہوگیا،پھراس نے وہ خط نجران کے ایک آدمی شرحبیل بن وواعہ کوبلا بھیجا جوہمدان کا رہنے والاتھا،جب کوئی مشکل پیش آتی توسیداورعاقب کے بجائے پہلے اس کوبلاتاتھا،اسقف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب گرامی اس کودیا،وہ اسے پڑھ چکاتواسقف نے پوچھا ابومریم !اس بارہ میں  آپ کی کیارائے ہے ؟ بولا،آپ جانتے ہیں  کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام سے اسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں  نبی بھیجنے کاوعدہ کیاہے ،میں  نہیں  جانتاکہ یہ وہی آدمی ہے ،نبوت کے معاملہ میں  میں  کوئی رائے نہیں  دے سکتااگرکوئی دنیاکامعاملہ ہوتاتومیں  اس کے متعلق خوب غوروخوض کرکے اپنا مشورہ دیتا،اسقف نے کہاایک طرف بیٹھ جاؤ،وہ ایک جانب جاکربیٹھ گیا،

فَبَعَثَ الْأُسْقُفُّ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ یُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ شُرَحْبِیلَ، وَهُوَ مِنْ ذِی أَصْبَحَ مِنْ حِمْیَرٍ، فَأَقْرَأهُ الْكِتَابَ وَسَأَلَهُ عَنِ الرَّأْیِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ قَوْلِ شُرَحْبِیلَ،فَقَالَ لَهُ الْأُسْقُفُّ: تَنَحَّ فَاجْلِسْ فَتَنَحَّى فَجَلَسَ ناحیته،وَبعث الْأُسْقُفُّ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ یُقَالُ لَهُ جَبَّارُ بْنُ فَیْضٍ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ ابْن كَعْبٍ أَحَدِ بَنِی الْحِمَاسِ، فَأَقْرَأَهُ الْكِتَابَ وَسَأَلَهُ عَنِ الرَّأْیِ فِیهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ قَوْلِ شُرَحْبِیلَ وَعَبْدِ اللهِ

پھراس نے ایک دوسرے آدمی عبداللہ بن شرحبیل کوبلایاجواصبح کے خاندان سے تعلق رکھتا تھاخط پڑھوایا اور مشورہ کا مطالبہ کیا، تواس نے بھی وہی کہاجوشرحبیل بن وداعہ نے کہاتھا،اسقف نے اسے بھی ایک طرف ہوجانے کاحکم دیااوروہ بھی ایک طرف جاکربیٹھ گیا،پھراسقف نے بنوحارث بن کعب کے ایک تیسرے آدمی جباربن فیض کوبلابھیجارسالہ پڑھوانے کے بعد رائے ومشورہ میں  اس نے بھی وہی جواب دیاجوپہلے شرحبیل اورعبداللہ دے چکے تھے فَأَمَرَهُ الْأُسْقُفُّ فَتَنَحَّى فَجَلَسَ ناحیته اسقف نے اسے بھی ایک طرف ہوجانے کاحکم دیااوروہ بھی ایک جانب جاکربیٹھ گیا،

فَلَمَّا اجْتَمَعَ الرَّأْیُ مِنْهُمْ عَلَى تِلْكَ الْمَقَالَةِ جَمِیعًا، أَمَرَ الْأُسْقُفُّ بِالنَّاقُوسِ فَضُرِبَ بِهِ، وَرُفِعَتِ النیرَان والمسوح فِی الصَّوَامِعِ، وَكَذَلِكَ كَانُوا یَفْعَلُونَ إِذَا فَزِعُوا بِالنَّهَارِ، وَإِذَا كَانَ فَزَعُهُمْ لَیْلًا ضَرَبُوا بِالنَّاقُوسِ وَرُفِعَتِ النِّیرَانُ فِی الصَّوَامِعِ، فَقَرَأَ عَلَیْهِمْ كِتَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَهُمْ عَنِ الرَّأْیِ فِیهِ،فَاجْتَمَعَ رَأْیُ أَهْلِ الرَّأْیِ مِنْهُمْ عَلَى أَنْ یَبْعَثُوا شُرَحْبِیل بن ودَاعَة الْهَمدَانِی وَعبد الله ابْن شُرَحْبِیلَ الْأَصْبَحِیَّ وَجَبَّارَ بْنَ فَیْضٍ الْحَارِثِیَّ، فَیَأْتُوهُمْ بِخَبَرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب ایک بات پر اتفاق رائے ہوگیا تو اسقف نے ناقوس بجانے کاحکم دیااورناقوس بجادیاگیااورگرجوں  میں  چادریں  اٹھالی گئیں  ،جب کبھی وہ دن میں  گھبرا اٹھتے تھے توایساہی کیاکرتے تھے اورکبھی رات کوگھبرااٹھتے توناقوس بجاتے اورگرجوں  میں  آگ جلاتے ،الغرض ناقوس کی آوازسن کرلوگ گرجاکے نزدیک جمع ہوگئے،اسقف نے ان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب گرامی پڑھ کرسنایا،اوران سے رائے پوچھی کہ اس سلسلے میں  کیاکرناچاہئے ؟سب نے بالاتفاق جواب دیاکہ شرحبیل بن وواعہ ،عبداللہ بن شرحبیل اورجباربن فیض کورسول اللہ کی خدمت میں  بھیجاجائے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبرلائیں  ،

امام حاکم نے ان تینوں  کے آنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں  سوال کا ذکر کیا ہے۔

وَفْدُ نَصَارَى نَجْرَانَ سِتُّونَ رَاكِبًا، مِنْهُمْ: أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا مِنْ أَشْرَافِهِمْ، وَالْأَرْبَعَةُ وَالْعِشْرُونَ، مِنْهُمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَیْهِمْ یَئُولُ أَمْرُهُمْ، الْعَاقِبُ أَمِیرُ الْقَوْمِ، وَذُو رَأْیِهِمْ، وَصَاحِبُ مَشُورَتِهِمْ، وَالَّذِی لَا یَصْدُرُونَ إِلَّا عَنْ رَأْیِهِ وَأَمْرِهِ، وَاسْمُهُ عبد المسیح، وَالسَّیِّدُ: ثِمَالُهُمْ، وَصَاحِبُ رَحْلِهِمْ وَمُجْتَمَعِهِمْ، وَاسْمُهُ الأیهم، وأبو حارثة بن علقمة أخو بنی بكر بن وائل أُسْقُفُهُمْ وَحَبْرُهُمْ وَإِمَامُهُمْ، وَصَاحِبُ مِدْرَاسِهِمْ،

بہرحال اس نامہ مبارک کے موصول ہونے پراہل نجران جوجنگ کے لئے تیارنہ تھے نوہجری میں  ساٹھ سواروں  پرمشتمل اپناایک وفدمدینہ منورہ بھیجا ،اس وفدمیں  اسقف ، سید اور عاقب سمیت نجران کے بڑے بڑے چوبیس معززین اورشرفاءشامل تھے،اس وفد میں  تین اشخاص مرجع الرئیسی تھے، عاقب قوم کے امیر،اصحاب رائے ومشورہ جن کی رائے اور مشورہ کے علاوہ کوئی کام صادر نہیں  ہوتا تھاجن کا نام عبد المسیح تھا ، دوسرا شخص کو سید کے نام سے موسوم کرتے تھے یہ ان کے ثمال،صاحب رحلت اور مجتمع تھا جن کا نام الایھم تھا اور تیسرا شخص بنو بکر بن وائل کے ابو حارثہ بن علقمہ ان کے پوپ،عالم،امام اورمدارس کے متولی تھے،

فَلَمَّا وَجَّهُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَجْرَانَ، جَلَسَ أبو حارثة عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ مُوَجِّهًا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى جَنْبِهِ أَخٌ لَهُ یُقَالُ لَهُ: كرز بن علقمة یُسَایِرُهُ، إِذْ عَثَرَتْ بَغْلَةُ أبی حارثة، فَقَالَ لَهُ كرز: تَعِسَ الْأَبْعَدُ یُرِیدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُ أبو حارثة: بَلْ أَنْتَ تَعِسْتَ ،فَقَالَ: وَلِمَ یَا أَخِی؟فَقَالَ: وَاللهِ إِنَّهُ النَّبِیُّ الْأُمِّیُّ الَّذِی كُنَّا نَنْتَظِرُهُ،فَقَالَ لَهُ كرز: فَمَا یَمْنَعُكَ مِنَ اتِّبَاعِهِ وَأَنْتَ تَعْلَمُ هَذَا؟ فَقَالَ: مَا صَنَعَ بِنَا هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ، شَرَّفُونَا وَمَوَّلُونَا وَأَكْرَمُونَا، وَقَدْ أَبَوْا إِلَّا خِلَافَهُ، وَلَوْ فَعَلْتُ نَزَعُوا مِنَّا كُلَّ مَا تَرَى، فَأَضْمَرَ عَلَیْهَا مِنْهُ أَخُوهُ كرز بن علقمة حَتَّى أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِكَ

جب یہ وفد نجران سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہونے کے لئے چلا توابوحارثہ بن علقمہ بھی اپنی خچر پرسوارہوکران کے ساتھ چلا ، اس کے پہلوبہ پہلواس کابھائی کرزبن علقمہ بھی چلنے لگا،راستہ میں  ابوحارثہ بن علقمہ کے خچرکوٹھوکرلگی،توکرزبن علقمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں  بددعاکرتے ہوئے کہا منحوس آدمی ہلاک ہو،ابوحارثہ نے کہاوہ نہیں  بلکہ توہلاک ہو،وہ بولابھائی !یہ کیوں  ؟اس نے کہااللہ کی قسم!یہی وہ امی نبی ہے جس کاہم (اہل کتاب ) انتظارکررہے ہیں  ،کرزبن علقمہ نے کہاپھریہ سب کچھ جانتے ہوئے تم حلقہ بگوش اسلام کیوں  نہیں  ہوتے،بولا،یہ عیسائی بادشاہ ہمارابڑااحترام کرتے ہیں  اورانہوں  نے ہمارے گھرمیں  مال ودولت کے ڈھیر لگا دیئے ہیں  ،اگرمیں  ان کی رضاکے خلاف یہ قدم اٹھاؤں  تویہ سب مال ومتاع چھین لیں  گے،کرزکے دل میں  بھائی کی بات پیوست ہوگئی اوراس نے بعدمیں  مناسب وقت پر اپنے اسلام کااعلان کردیا۔[27]

فَدَخَلُوا عَلَیْهِ مَسْجِدَهُ حَیْنَ صَلَّى الْعَصْرَ، عَلَیْهِمْ ثِیَابُ الْحِبَرَاتِ ، جُبَبٌ وَأَرْدِیَةٌ، قَالَ: یَقُولُ بَعْضُ مَنْ رَآهُمْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمئِذٍ: مَا رَأَیْنَا وَفْدًا مِثْلَهُمْ،وَقَدْ حَانَتْ صَلَاتُهُمْ، فَقَامُوا فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلُّون،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُمْ،فَصَلَّوْا إلَى الْمَشْرِقِ

جب نجران کاوفد مدینہ منورہ پہنچا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصرکی نمازسے فارغ ہوکربیٹھے ہی تھے ،یہ لوگ نفیس پوشاکیں  پہنے ہوئے اورخوبصورت نرم چادریں  اوڑھے ہوئے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں  ان کے بعدان جیساباشوکت وفدکوئی نہیں  آیا،ان کے لئے مسجدنبوی کے صحن میں  خیمے لگا دیئے گئے اورانہوں  نے وہیں  قیام کیا،یہ لوگ غالبا ًاتوار کے دن مدینہ منورہ پہنچے تھے جوان کایوم عبادت تھاچنانچہ انہوں  نے اپنے طریقے پرمسجدنبوی میں  نمازپڑھنی چاہی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پراعتراض کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑھنے دو،اجازت ملنے پر انہوں  نے مشرق کی طرف منہ کرکے اپنی نمازپڑھی۔[28]

ان لوگوں  نے خاصی مدت مدینہ منورہ میں  قیام کیااس دوران مختلف مسائل پرگفتگوہوئی ،سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کے بارے میں  مباحثہ شروع ہوا۔

وَقَالُوا:مَنْ أَبُوهُ؟

نصاریٰ نجران:اگرمسیح علیہ السلام ابن اللہ نہیں  توپھران کاباپ کون ہے؟

وَقَالُوا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَالْبُهْتَانَ , لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ , لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔یہ اللہ پرصریح جھوٹ اوربہتان ہے، اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  ،اس کی کوئی بیوی نہیں  اورنہ کوئی اولادہے۔

 أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَا یَكُونُ وَلَدٌ إِلَّا وَهُوَ یُشْبِهُ أَبَاهُ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔تمہیں  اچھی طرح علم ہے کہ بیٹاباپ کے مشابہ ہوتاہے۔

قَالُوا: بَلَى!

نصاریٰ نجران۔یقیناًاس میں  کوئی شک وشبہ نہیں  ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔تمہارے اس جواب سے یہ نتیجہ حاصل ہواکہ اگرعیسیٰ علیہ السلام ابن اللہ ہیں  توانہیں  اللہ کے مماثل اورمشابہ ہوناچاہیے،لیکن تمہیں  معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ بے مثل ہے ،

 لَیْسَ کمثلہ شی وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۔

اس کی کوئی مثال نہیں  اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے،

أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَیٌّ لَا یَمُوتُ , وَأَنَّ عِیسَى یَأْتِی عَلَیْهِ الْفَنَاءُ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔تمہیں  معلوم ہے کہ پروردگارعالم زندہ ہے ،اوراس پرکبھی موت واردنہیں  ہوگی، اورعیسیٰ علیہ السلام پرموت واردہونے والی ہے(یعنی وہ زندہ ہیں  ، ابھی تک ان پرموت نہیں  آئی )

قَالُوا: بَلَى

نصاریٰ نجران: صحیح ہے۔

 أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا قَیِّمٌ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ یَكْلَؤُهُ وَیَحْفَظُهُ وَیَرْزُقُهُ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیاتم جانتے ہورب العالمین ہرچیزکوقائم رکھنے والااورتمام کائنات کاحافظ اورنگہبان ہے،وہی اپنی تمام مخلوق کورزق مہیاکرتاہے؟

قَالَ: بَلَى

نصاریٰ نجران :یہ بات صحیح ہے۔

فَهَلْ یَمْلِكُ عِیسَى مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔کیاعیسیٰ علیہ السلام بھی ان میں  کسی چیزپرقدرت رکھتے ہیں  ؟

قالوا: لا

نصاریٰ نجران: نہیں  ۔

أَفَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَخْفَى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کیاتمہیں  معلوم ہےاللہ تعالیٰ پرساتوں  آسمانوں  اورزمینوں  کی کوئی چیزپوشیدہ نہیں  ؟

قَالُوا: بَلَى!

نصاریٰ نجران:یہ بات صحیح ہے۔

فَهَلْ یَعْلَمُ عِیسَى مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا إِلَّا مَا عُلِّمَ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔کیاعیسیٰ علیہ السلام کواس سے زیادہ کچھ معلوم ہے جوان کواللہ نے بتلادیاہے؟

قَالُوا: لَا

نصاریٰ نجران:نہیں  ،انہیں  ا تناہی علم تھاجتنااللہ نے انہیں  وحی کردیاتھا۔

أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أنّ رَبَّنَا صَوَّرَ عِیسَى فِی الرَّحِمِ كَیْفَ شَاءَ؟ وأَنَّ رَبَّنَا لَا یَأْكُلُ الطَّعَامَ، وَلَا یَشْرَبُ الشَّرَابَ، وَلَا یُحْدِثُ الْحَدَثَ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :تمہیں  معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کی ماں  کےپیٹ میں  جیسی چاہی شکل وصورت بنائی، اوراللہ تعالیٰ کونہ کھانے کی حاجت ہوتی ہے اورنہ پینے کی ،اورنہ ہی اسے بول وبراز کی حاجت لاحق ہوتی ہے۔

قَالُوا: بَلَى!

نصاریٰ نجران:بیشک اللہ تعالیٰ کوکسی چیزکی حاجت نہیں  ہوتی۔

أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ عِیسَى حَمَلَتْهُ امْرَأَةٌ كَمَا تَحْمِلُ الْمَرْأَةُ، ثُمَّ وَضَعَتْهُ كَمَا تَضَعُ الْمَرْأَةُ وَلَدَهَا , ثُمَّ غُذِّیَ كَمَا یُغَذَّى الصَّبِیُّ , ثُمَّ كَانَ یَطْعَمُ الطَّعَامَ، وَیَشْرَبُ الشَّرَابَ، وَیُحْدِثُ الْحَدَثَ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :تمہیں  اچھی طرح علم ہے کہ مریم دوسری عورتوں  کی طرح عیسیٰ علیہ السلام سے حاملہ ہوئیں  ،اورانہوں  نے عیسیٰ علیہ السلام کواسی طرح جنم دیاجس طرح دوسری عورتیں  جنم دیتی ہیں  ،پھران کی پیدائش کے بعدانسانی ضرورت کے مطابق انہیں  غذابھی دی گئی،وہ خوراک کھاتے تھے اورمشروبات پیتے تھے اوربول وبرازبھی کرتے تھے۔

قَالُوا: بَلَى

نصاریٰ نجران:بالکل صحیح بات ہے،وہ انسانی ضروریات کے تحت غذاکے محتاج تھے، اوربول وبرازبھی کرتے تھے۔

فَكَیْفَ یَكُونُ هَذَا كَمَا زَعَمْتُمْ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اب تم خودسوچو،وہ اللہ کے مشابہ کیسے ہوسکتے ہیں  ،انہیں  کسی چیزپرقدرت بھی حاصل نہیں  ،انہیں  علم بھی اتناہی حاصل ہے جتنا اللہ نے انہیں  وحی کردیا،وہ انسانوں  کی طرح ماں  کے پیٹ میں  رہے،پیدائش کے بعدانہیں  غذابھی دی گئی،انہیں  بول وبرازکی حاجت بھی لاحق ہوتی تھی ،انہیں  موت بھی آئے گی پھروہ الٰہ کیسے ہوگئے۔[29]

نصاریٰ ان تمام دلائل سے لاجواب ہوگئے لیکن ان لوگوں  کی زبان پرایک ہی رٹ تھی،میں  نہ مانوں  ۔

وعرض النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على أحبار نجران وسائر الوفد أن یسلموا، فقالوا له:أَسْلَمْنَا قَبْلَكَ،قَالَ:كَذَبْتُمَا , یَمْنَعُكُمَا مِنَ الْإِسْلَامِ دُعَاؤُكُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدًا , وَعِبَادَتُكُمَا الصَّلِیبَ , وَأَكْلُكُمَا الْخِنْزِیرَ

جب یہ سب بات چیت ہوگئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،انہوں  نے کہاہم توآپ سے پہلے کے مسلمان ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(سید اور عاقب سے) فرمایاتمہارایہ اسلام قبول نہیں  اس لئے کہ تم اللہ عزوجل کی اولاد مانتے ہو،صلیب کی پرستش کرتے ہو ،خنز یرکا گوشت کھاتے ہو۔

انہوں  نےدریافت کیاکہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں  کیاکہتے ہیں  ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کاجواب دینے میں  سارادن توقف فرمایایہ آیات نازل فرمائیں  ۔

 سورةآل عمران آیات ۳۳تا۶۳

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٣٤﴾(آل عمران)
بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں  میں  سے آدم (علیہ السلام)کو اور نوح (علیہ السلام)کو، ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرمالیاکہ یہ سب آپس میں  ایک دوسرے کی نسل سے ہیں  اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ اولیائ،اصفیائ،اورانبیاء کے منتخب افرادکاذکرفرمایاکہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کوفضیلت عطافرمائی ،جنہیں  اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں  سے بناکراس میں  اپنی طرف سے روح پھونکی،انہیں  مسجودملائک بنایا،انہیں  اسماء کاعلم،حلم اورشرف عطافرمایاجس کی بناپروہ تمام مخلوقات سے افضل قرارپائےاس لیے اس کی اولادبھی افضل ہوئی ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰی كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۝۷۰ۧ [30]

ترجمہ:یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں  خشکی و تری میں  سواریاں  عطا کیں  اور ان کو پاکیزہ چیزوں  سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں  فوقیت (فضیلت) بخشی۔

اورانہیں  جنت میں  رہائش پذیرفرمایااورپھروہیں  سے اپنی حکمت ومشیت سے انہیں  زمین پراتارا،اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کوفضیلت عطافرمائی،انہیں  اس وقت مبعوث فرمایا گیا جب لوگوں  نے شیطان کے پنجے میں  پھنس کراپنے مالک حقیقی کی بندگی کوبھول کرطاغوت کی بندگی اختیار کر لی ،اللہ نے انہیں  نوسوپچاس سال سے زیادہ طویل عمرعطاکی ،اس قدر لمبی عمرمیں  انہوں  اپنی قوم کودن رات،خفیہ اورظاہرہرطرح دعوت حق دی، مگرمحدودچندلوگوں  کے سوا باقی قوم کی آنکھوں  پرشرک کی پٹی بندھی رہی ،وہ ان خودساختہ معبودوں  کی پرستش سے تائب ہونے پرتیارنہ ہوئے،آخرانجام کار مشرکوں  کواپنے جرائم عظیم کی سزاکے طورپر غرق کردیا گیا، اورآپ کواورآپ کے ساتھیوں  کوکشتی کے ذریعے سے نجات بخشی، اورآپ کی نسل کو قیامت تک باقی رکھا،ہرزمانے میں  لوگ آپ کی تعریف کرتے رہے اورکرتے رہیں  گے،پھراللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کوفضیلت عطافرمائی جن میں  خودابراہیم علیہ السلام بھی شامل ہیں  ،جن کواللہ نے خاص طورپراپنی خلت سے نوازکرخلیل اللہ کے لقب سے مشرف فرمایا، جنہیں  دعوت توحیدکے نتیجے میں  آگ میں  پھینک دیاگیامگراللہ تعالیٰ نے انہیں  محفوظ رکھا،اللہ نے بڑھاپے میں  اولادعطافرمائی مگرجب اللہ کاحکم ہواتوبلاتامل اپنےپیارےبیٹے کوقربانی کے لئے پیش کردیامگراللہ تعالیٰ نے انہیں  محفوظ رکھااوراس قربانی کوقبول فرمایا،آپ نے رات دن،چھپ چھپ کراورعلانیہ لوگوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی،اللہ تعالیٰ نےآپ کواسوہ (نمونہ) قراردیاکہ بعدکے لوگ ان کی اتباع کریں  ، اوربیشترپیغمبران کی ہی نسل سے پیدا ہوئے ،جن پرآسمانی کتابیں  نازل ہوئیں  حتی کہ تمام اولادآدم کے سردار،رسولوں  کے سردار، افضل البشر،پیغمبرآخرالزمان،سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے پیداہوئے،جن میں  اللہ نے وہ تمام خوبیاں  جمع فرمادیں  جودوسرے انبیائے کرام میں  انفرادی طور پر موجود تھیں  ،چنانچہ آپ گزشتہ اورآئندہ تمام انسانوں  سے بلندترہوئے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عمران کے خاندان کوبھی منتخب فرمایاجس میں  موسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام پیداہوئے،یہ گھرانے جن کااللہ نے ذکرفرمایاہے جہان والوں  سے اس کے منتخب افرادکے گھرانے تھے ، ان انسانوں  کی ایک نسل سے دوسری نسل پیداہوتی چلی آئی،جیسے فرمایا

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا هَدَیْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَهٰرُوْنَ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۸۴ۙوَزَكَرِیَّا وَیَحْیٰى وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ۝۰ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۸۵ۙوَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا۝۰ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۸۶ۙوَمِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ۝۰ۚ وَاجْتَبَیْنٰهُمْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ۝۸۷ [31]

ترجمہ: پھر ہم ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی (وہی راہِ راست جو) اس سے پہلے نوح علیہ السلام کو دکھائی تھی اور اُسی کی نسل سے ہم نے داؤد ، سلیمان ، ایوب ، یوسف ، موسیٰ اور ہارون کو (ہدایت بخشی) اس طرح ہم نیکو کاروں  کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں  (اُسی کی اولاد سے) زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس کو (راہ یاب کیا) ہر ایک ان میں  سے صالح تھا،(اسی کے خاندان سے ) اسماعیل ، السیع علیہ السلام اور یونس اور لوط کو (راستہ دکھایا ) اِن میں  سے ہر ایک کو ہم نے تمام دُنیا والوں  پر فضیلت عطا کی ، نیز ان کے آباؤ اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں  میں  سے بہتوں  کو ہم نے نوازا انہیں  اپنی خدمت کے لیے چن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

یعنی یہ سب پیغمبر انسان ہی تھے اورایک دوسرے کے معاون ومددگارتھے،یہ الٰہ یااللہ کے بیٹے نہیں  تھے اورنہ ان میں  سے کسی نے اپنی الوہیت کادعویٰ کیاتھا،چنانچہ روزقیامت اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا

 وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ۝۰ۭ وَاَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۱۷ [32]

ترجمہ: اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں  سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں  کو بھی الٰہ بنالو؟ تو وہ جواب میں  عرض کرے گا کہ سبحان اللہ ، میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا اگر میں  نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا ، آپ جانتے ہیں  جو کچھ میرے دل میں  ہے اور میں  نہیں  جانتا جو کچھ آپ کے دل میں  ہے ، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں  کے عالم ہیں  ،میں  نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں  کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، میں  اُسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں  ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلایا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں  پر نگران ہیں  ۔

اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے کہ کون اس قابل ہے کہ اسے چناجائے اورکون نہیں  ۔

ان پیغمبروں  کی بزرگی اورمرتبہ صرف یہ تھاکہ رب العالمین نے اپنی رحمت سے دین اسلام کی اشاعت اور دنیا کی اصلاح کے لئے ان کومنتخب فرما لیا تھا ، اوران لوگوں  نے بحیثیت پیغمبر اپناکام احسن اندازمیں  پوراکیاتھا،اللہ سب کچھ سنتااور جانتا ہے،یعنی اللہ کومعلوم تھاکہ کون اس قابل ہے کہ اسے چناجائے اورکون نہیں  ،یہ اللہ کافضل وکرم ہے۔

‏ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّی نَذَرْتُ لَكَ مَا فِی بَطْنِی مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٣٥﴾‏ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّی وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّی سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّی أُعِیذُهَا بِكَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ‎﴿٣٦﴾‏ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِیَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ یَا مَرْیَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ یَرْزُقُ مَن یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٣٧﴾‏(آل عمران)
جب عمران کی بیوی نے کہا کے اے میرے رب ! میرے پیٹ میں  جو کچھ ہے اسے میں  نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما ! یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے،جب بچی کو جنا تو کہنے لگی اے پروردگار ! مجھے تو لڑکی ہوئی ، اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں  میں  نے اس کا نام مریم رکھا، میں  اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں  دیتی ہوں  ، پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی اس کی خیر خبر لینے والا زکریا (علیہ السلام)کو بنایا، جب کبھی زکریا (علیہ السلام) ان کے حجرے میں  جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے، وہ پوچھتے اے مریم! یہ روزی تمہارے پاس کہاں  سے آئی؟ وہ جواب دیتیں  یہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بیشمار روزی دے۔

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَتِ امْرَأَةً لَا تَحْمِلُ ،فَرَأَتْ یَوْمًا طَائِرًا یَزُقُّ فَرْخَهُ ، فَاشْتَهَتِ الْوَلَدَ، فَدَعَتِ اللهَ، عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَهَبَهَا وَلَدًا، فَاسْتَجَابَ اللهُ دُعَاءَهَا، فَوَاقَعَهَا زَوْجُهَا، فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَلِمَا تَحَقَّقَتِ الْحَمْلَ نَذَرَتْهُ أَنْ یَكُونَ {مُحَرَّرًا} أَیْ: خَالِصًا مُفَرَّغًا لِلْعِبَادَةِ، وَلِخِدْمَةِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ

محمدبن اسحاق نے لکھاہےیہ ایسی خاتون تھیں  جنہیں  حمل قرارنہیں  پاتاتھا انہوں  نے ایک دن ایک پرندے کودیکھاجواپنے بچے کواپنے منہ سے کھلارہاتھا توانہیں  بھی بچے کی خواہش پیداہوئی اورانہوں  نے اللہ عزوجل سے دعاکی کہ انہیں  بھی ایک بچہ عطافرمائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاکوشرف قبولیت سے نوازااوران کے شوہرنے مقاربت کی توانہیں  حمل قرارپاگیا، پھرجب حمل نمایاں  ہوگیا توانہوں  نے نذرمانی کہ ان کابچہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اوربیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔[33]

ان معززگھرانوں  کاذکرفرماکراللہ تعالیٰ نے جونداؤں  اورپکارکوسننے والاہے ،عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم علیہ السلام کاذکرفرمایاکہ ان کی تربیت اورنشونمامیں  کس طرح اللہ کا خاص لطف وکرم شامل تھا،چنانچہ فرمایااللہ تبارک وتعالیٰ عمران کی بیوی

حَنَّة بِنْتُ فَاقُوذَ۔[34]

کی پکارکوسن رہاتھاجب وہ حاملہ ہو کر بڑے خلوص نیت سے التجاکر رہی تھیں  کہ اے میرے پروردگار! میں  اپنے پیٹ کے بچے کوتیرے دین کی خدمت کے لئے نذر کرتی ہوں  تواپنے بندوں  کی دعاؤں  کو قبول فرماتاہے تومیرے نیت اوردل کےارادے سے خوب باخبرہے ،پس میری اس گزارش کوقبول فرما،یعنی لڑکا پیدا فرما جو تیرے دین کی خدمت کرےمگر امید کے برعکس جب لڑکا ہونے کے بجائے لڑکی پیداہوئی جس میں  بہت سی فطری کمزوریاں  اورجس پر بہت سی تمدنی پابندیاں  ہوتی ہیں  تووہ بڑی حسرت سے کہنے لگیں  اے میرے رب! میرا مقصودتوتیری رضاوخوشنودی کے لئے ایک خدمت گاروقف کرناتھااوریہ کام ایک مرد ہی بہترطریقے سے کرسکتاہے اور میرے ہاں  لڑکی پیداہوگئی ہے،اوراللہ جوعلام الغیوب ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں  اسے تواس وقت بھی علم تھاجب ان کی والدہ کوبھی علم نہیں  تھااسے بخوبی معلوم تھاکہ اس گھرمیں  کس نے جنم لیا تھا،مریم علیہ السلام کی والدہ نے کہاخیرمیں  نے اس لڑکی کانام مریم رکھاہے اوراپنی نذرکے مطابق تیری راہ میں  نذرکرتی ہوں  تواسے اوراس کی آئندہ نسل کوشیطان مردودکے فتنے سے اپنی پناہ میں  رکھ، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعاکوبھی شرف قبولیت سے نوازا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ مَوْلُودٍ یُولَدُ إِلَّا وَالشَّیْطَانُ یَمَسُّهُ حِینَ یُولَدُ، فَیَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّیْطَانِ إِیَّاهُ، إِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہر بچہ جب پید ا ہوتاہے توشیطان اسےپیداہوتے ہی چھوتا ہے جس سے وہ بچہ چیختاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس سے مریم علیہ السلام اوران کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کومحفوظ رکھا۔[35]

پیدائش کے پہلے دن بچے کانام رکھنا:

کہتے ہیں  کہ جس دن بچہ پیداہواسی دن اس کانام رکھناجائزہے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وُلِدَ لِی اللَّیْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّیْتُهُ بِاسْمِ أَبِی إِبْرَاهِیمَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج رات میرے ہاں  لڑکاپیداہوا،اورمیں  نے اس کانام اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے نام پرابراہیم رکھا۔[36]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ بِعْبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ الْأَنْصَارِیِّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ وُلِدَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عَبَاءَةٍ یَهْنَأُ بَعِیرًا لَهُ، فَقَالَ:هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِی فِیهِ فَلَاكَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَ فَا الصَّبِیِّ فَمَجَّهُ فِی فِیهِ، فَجَعَلَ الصَّبِیُّ یَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللهِ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں  جب (میرے سوتیلے بھائی)عبداللہ بن ابوطلحہ کی ولادت ہوئی تومیں  اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  لے گیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عباءہ میں  اپنے اونٹ کو تیار کررہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں  نے اثبات میں  جواب دیا، اور میں  نے کھجوروں  کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں  کو اپنے منہ میں  ڈال کر اچھی طرح چبایا،اور اس کے بعد نومولود کے منہ میں  ڈال دیا تو وہ نومولود کھانے لگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  اپنے ہاتھ سے گھٹی دی) اوران کانام عبداللہ رکھا۔[37]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلاَمٌ فَسَمَّاهُ القَاسِمَ، فَقَالُوا: لاَ نَكْنِیكَ بِأَبِی القَاسِمِ وَلاَ نُنْعِمُكَ عَیْنًا، فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:أَسْمِ ابْنَكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ

جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم میں  سےایک آدمی کے یہاں  بچہ پیداہواتوانہوں  نے اس کانام قاسم رکھا،صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہاکہ ہم تمہاری کنیت ابوالقاسم نہیں  رکھیں  گے اورنہ تیری آنکھ اس کنیت سے پکارکرٹھنڈی کریں  گے،وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورآپ سے اس کاذکرکیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اپنے لڑکے کانام عبدالرحمٰن نام رکھ لو۔[38]

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: أُتِیَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَیْدٍ جَالِسٌ، فَلَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشَیْءٍ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَأَمَرَ أَبُو أُسَیْدٍ بِابْنِهِ، فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفَاقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیْنَ الصَّبِیُّ فَقَالَ أَبُو أُسَیْدٍ: قَلَبْنَاهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:مَا اسْمُهُ قَالَ: فُلاَنٌ، قَالَ:وَلَكِنْ أَسْمِهِ المُنْذِرَ فَسَمَّاهُ یَوْمَئِذٍ المُنْذِرَ

سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمنذربن ابی اسید رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی توانہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کواپنی ران پررکھ لیا اورابواسید رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیزمیں  جوسامنے تھی مصروف ہوگئے(اوربچہ کی طرف توجہ ہٹ گئی)،ابواسید رضی اللہ عنہ نے بچہ کے متعلق حکم دیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے اسے اٹھا لیا گیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے توفرمایابچہ کہاں  ہے؟ابواسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے اسے گھربھیج دیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااس کانام کیاہے؟عرض کیاکہ فلاں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلکہ اس کانام منذرہے،چنانچہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کایہی نام منذر (ڈرادینے والا) رکھا ۔[39]

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: وُلِدَ لِی غُلاَمٌ، فَأَتَیْتُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِیمَ، فَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ، وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ، وَدَفَعَهُ إِلَیَّ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرے یہاں  ایک بچہ پیداہوا،میں  اسے لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام ابراہیم رکھا،اورایک کھجوراپنے دہان مبارک میں  نرم کرکے اس کے منہ میں  ڈالی اوراس کے لئے برکت کی دعاکی،پھراسے مجھے دے دیا۔[40]

عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِیقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ السَّابِعِ، وَیُحْلَقُ رَأْسُهُ، وَیُسَمَّى

سمرہ رضی اللہ عنہ بن جندب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہربچہ اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہوتا ہے(لہذا) ساتویں  دن اس کی طرف سے جانورذبح کیاجائے، اس کا سرمنڈایاجائے اوراس کانام رکھاجائے۔[41]

حافظ ابن کثیرنے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھاہے کہ بچے کانام ولادت کے پہلے روزرکھناچاہیے اورساتویں  دن نام رکھنے والی حدیث کوضعیف قراردیاہے، لیکن حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے تمام احادیث پربحث کرکے آخرمیں  لکھاہے

تَعْرِیفه یَوْم وجوده وَجَاز تَأْخِیر التَّعْرِیف إِلَى ثَلَاثَة أَیَّام وَجَاز إِلَى یَوْم الْعَقِیقَة عَنهُ وَیجوز قبل ذَلِك وَبعده وَالْأَمر فِیهِ وَاسع

پہلے روز،تیسرے روزیاساتویں  روزنام رکھاجاسکتاہے اس مسئلہ میں  گنجائش ہے۔[42]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس کی مشیت وحکمت کوکوئی نہیں  جان سکتامریم کوایک عظیم کام کے لئے قبول فرمالیا مریم علیہ السلام ابھی چھوٹی ہی تھیں  کہ ان کی والدہ وفات پاگئیں  تووہ اپنی خالہ جو یحییٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں  کے پاس آگئیں  ،

وَهَلَكَتْ أُمُّهَا فَضَمَّتْهَا إِلَى خَالَتِهَا أُمِّ یَحْیَى

مریم رحمہ اللہ بنت عمران اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنی خالہ ام یحییٰ کے ساتھ رہنے لگیں  ۔[43]

کیونکہ خالہ ماں  کے قائم مقام ہوتی ہے۔

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ:الخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ

براء بن عازب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالہ ماں  کے قائم مقام ہوتی ہے۔[44]

اورزکریا علیہ السلام کوجورشتے میں  ان کے خالو اوراپنے وقت کے پیغمبرتھے،صحیح بخاری میں  ہے وہ ان کی بہن کے شوہرتھے،

فَإِذَا یَحْیَى وَعِیسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ

وہاں  (دوسرے آسمان پرمعراج کی رات)یحییٰ وعیسیٰ علیہ السلام تھے جودونوں  خالہ زادبھائی تھے۔[45]

مریم علیہ السلام کی جسمانی و مادی ضروریات اورعلمی واخلاقی تربیت کے صحیح اہتمام کرنے کے لئے کفیل بنادئے گئے ،ایک روایت ہے کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ ذکریا علیہ السلام نے اپنے ذمہ لے لیاتھا، مریم علیہ السلام کی جسمانی اوراخلاقی تربیت بہت اچھی ہوئی اور بڑے نیک اعمال و اطوارکی حامل ہوئیں  ، وہ ہروقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں  منہمک رہتیں  ،اسی حال میں  جب وہ جب مریم سن رشدکوپہنچ گئیں  توزکریا علیہ السلام نے مریم علیہ السلام کوہیکل(بیت المقدس) کے شرقی حصہ میں  ایک حجرہ دے دیاجہاں  انہوں  وہ ایک پردہ لٹکاکراپنے آپ کودیکھنے والوں  کی نگاہوں  سے محفوظ کرلیا ،اور مکمل یکسوئی سے شب وروزاللہ تعالیٰ کی عبادت میں  منہمک ہوگئیں  ، زکریا علیہ السلام صبح وشام ان کی دنیاوی اورروحانی خبرگیری کے لئے ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ،جب بھی زکریا علیہ السلام مریم علیہ السلام کی حجرے میں  داخل ہوتے ان کے پاس بے موسمی پھل،میوہ جات وغیرہ رکھے ہوئے پاتے ، جبکہ زکریا علیہ السلام یاکوئی اورشخص لاکردینے والا نہیں  تھا،

لما دَخَلَ علیها زكریا المحراب وجد عندها فَاكِهَةَ الشِّتَاءِ فِی الصَّیْفِ، وَفَاكِهَةَ الصَّیْفِ فِی الشِّتَاءِ

زکریا رضی اللہ عنہ جب ان کے حجرے میں  پہنچتے توان کے پاس سردیوں  میں  موسم گرماکاپھل اورگرمیوں  میں  موسم سرماکاپھل پاتے تھے۔[46]

ایک دن زکریا علیہ السلام نے بڑی حیرت وتعجب سے دریافت کیااے مریم!یہ پھل وغیرہ تمہارے پاس کہاں  سے آتے ہیں  ،مریم علیہ السلام نے بڑے سکون واطمینان سے سادہ اورمختصر جواب دیا،کھانے پینے کے یہ سامان  اللہ تعالیٰ کے پاس سے آئے ہیں  ، وہ رزاق اپنی مشیت وحکمت سے جس بندے کوچا ہتا ہے بے حساب رزق عطاکرتاہے جہاں  سے بندے کوگمان بھی نہیں  ہوتااورجس کو چاہتاہے تنگ دست کردیتاہے،

۔۔۔وَمَنْ یَّـتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۝۲ۙوَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔۔۔۝۰۝۳ [47]

ترجمہ:جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو ۔

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِی مِن لَّدُنكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِیعُ الدُّعَاءِ ‎﴿٣٨﴾‏ فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ یَكُونُ لِی غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِی عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّهُ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ ‎﴿٤٠﴾‏ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّی آیَةً ۖ قَالَ آیَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِیرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْكَارِ ‎﴿٤١﴾(آل عمران)
اسی جگہ زکریا (علیہ السلام)نے اپنے رب سے دعا کی، کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بیشک تو دعا کا سننے والا ہے، پس فرشتوں  نے انہیں  آواز دی جب وہ حجرے میں  کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے یحییٰ کی یقینی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا سردار، ضابطہ نفس اور نبی ہے نیک لوگوں  میں  سے، کہنے لگے اے میرے رب ! میرے بال بچہ کیسے ہوگا ؟ میں  بالکل بوڑھا ہوگیاہوں  اور میری بیوی بانجھ ہے، فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے، کہنے لگے پروردگار! میرے لیے اس کی کوئی نشانی مقرر کر دے، فرمایا نشانی یہ ہے تین دن تک تو لوگوں  سے بات نہ کرسکے گا صرف اشارے سے سمجھائے گا ، تو اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر اور صبح شام اسی کی تسبیح بیان کرتا رہ۔

حاصل دعایحییٰ علیہ السلام :زکریا علیہ السلام ابھی تک اولادکی نعمت سے محروم تھے جب انہوں  نے نوجوان صالحہ لڑکی مریم علیہ السلام پررب کی ایسی نواشات دیکھیں  توفطرةًان کے دل میں  آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ اس بوڑھاپے میں  انہیں  بھی ایسی ہی نیک اورصالح اولادسے نوازدے،چنانچہ انہوں  نے بظاہرناممکن چیزکی طلب کے لئے پوشیدگی میں  بارگاہ الٰہی میں  دعاکے لئے ہاتھ اٹھائے،جیسےہے

 ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّا۝۲ۖۚاِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِیًّا۝۳ [48]

ترجمہ:ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔

اورعرض کیااے میرے رب !بیشک تودعاؤں  کوسننے والاہے پس مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ ونیک اطوار اولاد عطا فرما دے تاکہ دینی اوردنیوی دونوں  قسم کی نعمتوں  کی تکمیل ہوجائے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ جوپکارنے والوں  کی فریادوں  ، پکاروں  اوردعاوں  کوقبول فرماتاہے، اورجواس سے نہیں  مانگتا اس سے ناراض ہوتاہے، اس نے زکریا علیہ السلام کی دعاکوبھی شرف قبولیت بخشا، چنانچہ جب وہ اپنے حجرے میں  رب کی عبادت اورمناجات میں  مشغول تھے کہ فرشتوں  نے بالمشافہ انہیں  خوشخبری دیتے ہوئے کہااے زکریا علیہ السلام !تیرے پروردگارنے تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دی ہے جس کانام یحییٰ(یوحنابپتسمہ دینے والا ہوگا، بائیبل) ہوگا،

وَقَالَ قَتَادَةُ: إِنَّمَا سَمَّى اللهُ یَحْیَى، لَأَنَّ اللهَ أَحْیَاهُ بِالْإِیمَانِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آپ کویحییٰ کے نام سے اس لیے موسوم کیاگیاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوایمان کے ساتھ زندہ رکھا۔[49]

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَسَیِّدًا،قَالَ: السَّیِّدُ: الْكَرِیمُ عَلَى اللهِ

اورمجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  السَّیِّدُ سے مرادیہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  بہت معززہوں  گے۔[50]

اورمزیدمدح اور فضیلت میں  فرمایا کہ اس نام کاکوئی شخص دنیا میں  نہیں  پیدا ہوا اورپہلی بشارت سے بڑھ کردوسری بشارت دی کہ وہ نبوت سے سرفراز کیا جائے گا ،سرداری اوربزرگی کی شان والاہوگا،

وَقَالَ عَطِیَّةُ: السَّیِّدُ فِی خُلُقِهِ وَدِینِهِ

عطیہ فرماتے ہیں  وہ اپنے خلق اوردین کے اعتبارسے سردارہوں  گے۔[51]

اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ( عیسٰی علیہ السلام )کی تائیدوتصدیق کریگا،

قَالَ الرَّبِیعُ بْنُ أَنَسٍ: هُوَ أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَ بِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَقَالَ قَتَادَةُ: وَعَلَى سُنَنِهِ وَمِنْهَاجِهِ.

ربیع بن انس رضی اللہ عنہ اورقتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کی نبوت کوتسلیم کرنے والے یحییٰ علیہ السلام ہیں  ،اورقتادہ کہتے ہیں  وہ عیسیٰ کی روش اورآپ کے طریق پر تھے۔[52]

وہ گناہوں  سے پاک اوران کے قریب بھی نہیں  پھٹکے گا،وہ ضبط نفس والا ہو گا یعنی وہ فواحش ومنکرات سے پاک ہوں  گے، اورپہلی سے بھی زیادہ بلندپایہ بشارت سنائی کہ وہ اللہ کےپیغمبروں  میں  شمار کیا جائے گا ،جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کوبشارت فرمائی تھی

 ۔۔۔اِنَّا رَاۗدُّوْہُ اِلَیْكِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷ [53]

ترجمہ:ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں  گے اور اس کو پیغمبروں  میں  شامل کریں  گے۔

کامل صفات کابیٹاہونے اورنبی ہونے کی خوشخبری سن کر زکریا علیہ السلام نے ازراہ فرح وتعجب کی کیفیت سے عرض کیا اے میرے پروردگار! اب اولادکیسے ممکن ہوسکتی ہے میری بیوی توجوانی سے ہی بانجھ ہے، اوربانجھ عورت بھلاکیسے بچہ پیداکرے گی، اس کے علاوہ میں  خودبھی بڑھاپے کی آخری حدود کو چھو رہاہوں  ،جس میں  بچے کی امیدکی ہی نہیں  جا سکتی ، یعنی دونوں  طرف کمزوریاں  موجودہیں  ،فرشتوں  نے زکریا علیہ السلام کا تعجب دورکرنے کے لئے کہاکہ اے زکریا!جب  اللہ  قادرمطلق نے اولادکی موجودگی کواسباب مثلاًتوالدوتناسل کے ساتھ متعلق کردیاہے، اسی طرح اگراس نے بغیراسباب کے تجھے بیٹادینے کافیصلہ فرمالیاہے تو تیرے بڑھاپے اورتیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یقیناً معجزانہ شان سے تجھے بیٹاملے گااوریہ کام  اللہ تعالیٰ کے لئے قطعی مشکل نہیں  ہے کیوں  کہ جب وہ تجھے نیست سے جب تمہارا ذکرتک نہیں  تھا ہست تک کرسکتاہے توتجھے دنیاوی ظاہری اسباب سے ہٹ کربیٹادے دینااس کے لئے کیا مشکل ہے ،جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [54]

ترجمہ:وہ آسمانوں  اور زمین کا موجِد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے ، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

وَهُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَیَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ۔۔۔ ۝۷۳ [55]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [56]

ترجمہ: ہمیں  کسی چیز کو وجود میں  لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں  ہوتا کہ اسے حکم دیں  ہو جاؤ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [57]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

هُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰ۚ فَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَـقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۶۸ۧ [58]

ترجمہ:وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی موت دینے والا ہےوہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔

معجزانہ طورپراولادجیسی نعمت کی خوشخبری سن کرزکریا علیہ السلام کے اشتیاق میں  مزید اضافہ ہوا،اورمکمل اطمینان حاصل کرنے کی غرض سے علامت معلوم کرنی چاہی کہ جس سے میں  جان جاؤں  کہ ولادت جیساغیرمعمولی واقعہ پیش آنے والاہے ، پروردگارنے فرمایا اے زکریا علیہ السلام !باوجودتندرست ہونے کے پیہم تین دن تک تیری زبان بندرہے گی جو ہماری طرف سے بطورنشانی ہو گی، اس وقت سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آگئے ہیں  ، جیسے فرمایا

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰیَةً۝۰ۭ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا۝۱۰ [59]

ترجمہ:زکریا نے کہا پروردگار ! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے ،فرمایا تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں  سے بات نہ کر سکے۔

تواس خاموشی میں  کثرت سے صبح وشام رب کی تسبیح وتحمیدکاخصوصی اہتمام کرتے رہنا،تاکہ اس نعمت الہٰی کاجوتجھے ملنے والی ہے شکراداہو،گویایہ سبق دیاگیا کہ  اللہ  تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں  مزیدنعمتون سے نوازے تواسی حساب سے اس کاشکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو، اوراگرکسی ضرورت سے بات کرنی ہی پڑے تو اشارے سے کرنا پھر  اللہ تعالیٰ بہت جلدتمہیں  فرزندسے نوازے گا ،اس طرح اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں  پر ان کی غلطی کوواضح فرمایاکہ جس طرح مسیح علیہ السلام کی ولادت معجزانہ طورپرہوئی تھی اسی طرح ان سے چھ مال قبل ہی اسی خاندان میں  یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی دوسری طرح کے معجزے سے ہوچکی تھی ،اگریحییٰ علیہ السلام کوان کی معجزانہ ولادت نے الٰہ نہیں  بنایاتومسیح علیہ السلام اپنی غیرمعمولی پیدائش کے بل پرالٰہ کیسے ہوسکتے ہیں  ۔

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ یَا مَرْیَمُ اقْنُتِی لِرَبِّكِ وَاسْجُدِی وَارْكَعِی مَعَ الرَّاكِعِینَ ‎﴿٤٣﴾‏ ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا كُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونَ ‎﴿٤٤﴾(آل عمران)
اور جب فرشتوں  نے کہا اے مریم ! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیدہ کرلیا اور تجھے پاک کرلیا اور سارے جہان کی عورتوں  میں  سے تیرا انتخاب کرلیا، اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کراور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں  کے ساتھ رکوع کر، یہ غیب کی خبروں  سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں  ، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں  سے کون پالے گا ؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا ۔

چارافضل ترین عورتیں  :اللہ عزوجل کے حکم سے چندفرشتوں  نے انہیں  براہ راست مخاطب کرکے فرمایاکہ اے مریم علیہ السلام !  اللہ تعالیٰ نے تم کثرت عبادت،دنیاسے بے رغبتی کی شرافت اورشیطانی وسواس سے دوری کی وجہ سے برگزیدہ کرلیاہے،اورتجھے (ایسی خرابیوں  سے) پاک کردیاجوتیری شان میں  کمی کاباعث بن سکتی تھیں  ، اوردنیا کی تمام عورتوں  پرتجھے فضیلت عطافرماکربرگزیدہ فرمایاہے ،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:نِسَاءُ قُرَیْشٍ خَیْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الإِبِلَ، أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِهِ یَقُولُ أَبُو هُرَیْرَةَ عَلَى إِثْرِ ذَلِكَ: وَلَمْ تَرْكَبْ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ بَعِیرًا قَطّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااونٹ پرسوارہونے والیوں  (عربی خواتین) میں  سب سے بہترین قریشی خواتین ہیں  ، اپنےبچوں  پرسب سے زیادہ محبت وشفقت کرنے والی، اور اپنے شوہر کے مال واسباب کی سب سے بہترنگراں  ومحافظ،اس روایت کوبیان کرنے کے بعدابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ مریم بنت عمران علیہ السلام کبھی اونٹ پرسوارنہیں  ہوئی تھیں  ۔ [60]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِیرٌ، وَلَمْ یَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ: إِلَّا آسِیَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامردوں  میں  توبہت سے کامل لوگ اٹھے لیکن عورتوں  میں  فرعون کی بیوی آسیہ اورمریم بنت عمران علیہ السلام کے سوااورکوئی کامل نہیں  پیداہوئی،ہاں  عورتوں  پرعائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں  پر ثرید کی فضیلت ہے۔[61]

ایک روایت میں  مریم علیہ السلام کے ساتھ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کوبھی خَیْرُ نِسَائِهَا(سب عورتوں  سے بہتر) کہا گیا ہے۔

قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، بِالْكُوفَةِ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:خَیْرُ نِسَائِهَا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَائِهَا خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ

عبداللہ بن جعفرسے مروی ہے میں  نے کوفہ میں  سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوفرماتے ہوئے سناہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے آسمان وزمین کے اندرجتنی عورتیں  ہیں  (اپنے زمانہ میں  )سب میں  خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا افضل ہیں  ،اور آسمان وزمین کے اندرجتنی عورتیں  ہیں  (اپنے زمانہ میں  ) سب میں  مریم بنت عمران علیہ السلام افضل ہیں  ۔[62]

ایک روایت میں  فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی فضیلت والی عورتوں  میں  شامل کیاگیاہے۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ العَالَمِینَ: مَرْیَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَآسِیَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکافی ہے تجھ کوجہان کی عورتوں  سے مریم بنت عمران، اورخدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد،اورفاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد علیہ السلام ،اورآسیہ فرعون کی بیوی یعنی یہ چاروں  سارے جہان سے افضل ہیں  ۔[63]

جب فرشتوں  نے آپ کواللہ کی منتخب ہونے اورپاک کرنے کی خوشخبری دی تویہ ایک عظیم نعمت اوراللہ کاعظیم احسان تھاجس کاشکرکرناضروری تھا،اس لئے فرشتوں  نے کہا اے مریم ! علیہ السلام اپنے رحیم وکریم خالق کی اطاعت پر قائم رہنااورساتھ ہی رب کے سامنے عاجزی کے اظہار کے لئے جماعت کے ساتھ خشوع وخضوع سےرکوع و سجود یعنی نمازبھی پڑھتی رہو، اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ سب غیب کی خبریں  ہیں  جوہم تمہیں  وحی کرتے ہیں  ، ورنہ تم اس وقت موجودنہیں  تھے جب مریم علیہ السلام کی پاکیزگی کردارکودیکھ کرہیکل کے تمام خادموں  کی خواہش تھی کہ وہ ان کے کفیل بنیں  ،ایک اورمقام پرفرمایا

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ۝۴۴ۙ [64]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ) تم اس وقت مغربی گوشے میں  موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا اور نہ تم شاہدین میں  شامل تھے۔

وَقَالَ لَهُمْ زَكَرِیَّا: أَنَا أَحَقُّكُمْ بِهَا تَحْتِی خَالَتُهَا

زکریا رضی اللہ عنہ نے اپناحق جتلایا کہ میں  رشتہ میں  اس لڑکی کاخالوہوں  اس لئے یہ حق مجھے ملناچاہیے ۔

ہرایک کی خواہش کی وجہ سے اچھاخاصہ جھگڑا برپاہوگیااور ایک اختلافی فضاقائم ہوگئی ، چنانچہ اس جھگڑے کاحل قرعہ اندازی طے ہوا کہ جس کے نام کاقرعہ نکل آئے وہ ان کاکفیل بنے،

أَلْقَوْا أَقْلَامَهُمْ فَجَرَتْ بِهَا الْجِرْیَةُ إِلَّا قَلَمَ زَكَرِیَّا صَاعِدًا، فَكَفَلَهَا زَكَرِیَّا

قرعہ اندازی کاطریقہ یہ طے ہواکہ سب لوگ اپنے اپنے قلم دریااردن میں  ڈال دیں  ،جس کاقلم پانی کے ساتھ نہیں  بہے گا وہی مریم علیہ السلام کا سرپرست قرارپائے گا،چنانچہ جب اس طرح قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ زکریا علیہ السلام کانام نکلا ،اوریہ شرف زکریا علیہ السلام کو حاصل ہوا جوان کے نبی اورمعززترین فردتھے، چنانچہ زکریا علیہ السلام مریم علیہ السلام کی حفاظت و کفالت کے ذمہ دار بن گئے۔ [65]

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ ‎﴿٤٥﴾‏وَیُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ یَكُونُ لِی وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ كُن فَیَكُونُ ‎﴿٤٧﴾(آل عمران)
جب فرشتوں  نے کہا اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہےجو دنیا اور آخرت میں  ذی عزت ہےاور وہ میرے مقربین میں  سے ہے،وہ لوگوں  سے اپنے گہوارے میں  باتیں  کرے گا اور ادھیڑ عمر میں  بھی اور وہ نیک لوگوں  میں  سے ہوگا،کہنے لگیں  الٰہی مجھے لڑکا کیسے ہوگا ؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں  لگایا، فرشتے نے کہااسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہےجب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے ہوجا ! تو وہ ہوجاتا ہے ۔

اللہ نے چندفرشتوں  علیہ السلام کو ان کے پاس ایک عظیم ترین بشارت دے کربھیجا فرشتوں  نے کہااے مریم!  اللہ تعالیٰ تمہیں  ایک ایسے بچے کی خوشخبری دیتا ہے جس کی ولادت اعجازی شان کی مظہراورعام انسانی اصول کے برعکس،باپ کے بغیر، اللہ کی قدرت خاص اوراپنے کلمہ کن سے تمہارے بطن سے پیدافرمائے گا،اس کانام مسیح عیسٰی بن مریم ہوگا ، (مسیح کے معنی کثرت سے سیاحت کرنے والا،اورہاتھ پھیرنے والاہے کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں  کوباذن  اللہ شفایاب فرماتے تھے )وہ اس مادی دنیامیں  اورروز آخرت میں  بھی ذی عزت ،بلندمرتبہ اوررب کے مقربین میں  ہوگا،دوسرے اولوالعزم انبیاء اوررسولوں  کی طرح جس کے لئے اللہ چاہئے گاآپ بھی شفاعت کریں  گے ،جس سے آپ کا بلندمقام جہان والوں  کے سامنے ظاہرہوجائے گا،وہ بچپن میں  جب کہ وہ ماں  کی گودمیں  ہوگااورادھیڑعمرمیں  بھی لوگوں  سے کلام کرے گایعنی گہوارے میں  بھی(معجزہ اورنشانی کے طورپر) اورجوان ہو کر بھی جب انہیں  وحی اوررسالت سے سرفرازکیاجائے گا، لوگوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیں  گے اوریہ اللہ کی ایک عظیم نشانی ہے ، ان کے علاوہ صحیح حدیث میں  دواوربچوں  کابھی ذکرہے جنہوں  نے ماں  کی گودمیں  کلام کیا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “ لَمْ یَتَكَلَّمْ فِی المَهْدِ إِلَّا ثَلاَثَةٌ: عِیسَى، وَكَانَ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ جُرَیْجٌ، كَانَ یُصَلِّی، جَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ، فَقَالَ: أُجِیبُهَا أَوْ أُصَلِّی، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْهُ حَتَّى تُرِیَهُ وُجُوهَ المُومِسَاتِ، وَكَانَ جُرَیْجٌ فِی صَوْمَعَتِهِ، فَتَعَرَّضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَكَلَّمَتْهُ فَأَبَى، فَأَتَتْ رَاعِیًا فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا، فَوَلَدَتْ غُلاَمًا، فَقَالَتْ: مِنْ جُرَیْجٍ فَأَتَوْهُ فَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ وَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الغُلاَمَ، فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ یَا غُلاَمُ؟ قَالَ : الرَّاعِی، قَالُوا: نَبْنِی صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ؟ قَالَ: لاَ، إِلَّا مِنْ طِینٍ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگودمیں  تین بچوں  کے سوااورکسی نے بات نہیں  کی،اول عیسیٰ ،(دوسرے کاواقعہ یہ ہے کہ)بنی اسرائیل میں  ایک بزرگ تھے جن کانام جریج تھا، وہ نمازپڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں  نے انہیں  پکارا،انہوں  نے(اپنے دل میں  )کہاکہ میں  والدہ کاجواب دوں  یانمازپڑھتارہوں  ؟اس پران کی والدہ نے(غصہ ہوکر)بددعاکی اے اللہ!اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں  کامنہ نہ دیکھ لے، جریج اپنے عبادت خانے میں  رہاکرتے تھے،ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اوران سے بدکاری چاہی لیکن انہوں  نے(اس کی خواہش پوری کرنے سے ) انکار کیا،پھروہ ایک چرواہے کے پاس آئی اوراسے اپنے اوپرقابودے دیا،اس سے ایک بچہ پیداہوااوراس نے ان پریہ تہمت دھری کہ یہ جریج کابچہ ہے،ان کی قوم کے لوگ آئے اوران کاعبادت خانہ توڑدیا،انہیں  نیچے اتار کرلائے اورانہیں  گالیاں  دیں  ،پھرانہوں  نے وضوکرکے نمازپڑھی اس کے بعد بچے کے پاس آئے اوراس سے پوچھا اے لڑکےتیراباپ کون ہے؟بچہ(اللہ کے حکم سے )بول پڑا اورکہا میراباپ چرواہاہے،اس پر(ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور)کہاکہ ہم آپ کاعبادت خانہ سونے کابنائیں  گے،لیکن انہوں  نے کہاہرگزنہیں  ،مٹی ہی کابنے گا،

وَكَانَتِ امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنًا لَهَا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ رَاكِبٌ ذُو شَارَةٍ فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِی مِثْلَهُ، فَتَرَكَ ثَدْیَهَا وَأَقْبَلَ عَلَى الرَّاكِبِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْنِی مِثْلَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْیِهَا یَمَصُّهُ، قَالَ: أَبُو هُرَیْرَةَ كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمَصُّ إِصْبَعَهُ ثُمَّ مُرَّ بِأَمَةٍ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلِ ابْنِی مِثْلَ هَذِهِ، فَتَرَكَ ثَدْیَهَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی مِثْلَهَا، فَقَالَتْ: لِمَ ذَاكَ؟ فَقَالَ: الرَّاكِبُ جَبَّارٌ مِنَ الجَبَابِرَةِ، وَهَذِهِ الأَمَةُ یَقُولُونَ: سَرَقْتِ، زَنَیْتِ، وَلَمْ تَفْعَلْ

(تیسراواقعہ)اورایک بنی اسرائیل کی عورت تھی وہ اپنے بچے کودودھ پلارہی تھی کہ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والااورخوش پوش گزرا،اس عورت نے دعاکی اے اللہ!میرے بچے کوبھی اسی جیسابنادے،شیر خوار بچے نے اپنی ماں  کا پستان چھوڑ کر(اللہ کے حکم سے)بول پڑا،اے اللہ!مجھے اس جیسانہ بنانا،پھراس کے سینے سے لگ کردودھ پینے لگا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جیسے میں  اس وقت بھی دیکھ رہاہوں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی چوس رہے ہیں  (بچے کے دودھ پینے لگنے کی کیفیت بتلاتے وقت)،پھرایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی(جسے اس کے مالک ماررہے تھے)تواس عورت نے دعاکی اے اللہ!میرے بچے کواس جیسانہ بنانا،بچے نے پھراس کاپستان چھوڑدیااورکہااے اللہ!مجھے اسی جیسابنادے،اس عورت نے پوچھاایساتوکیوں  کہہ رہاہے؟بچے نے کہا وہ سوارظالموں  میں  سے ایک ظالم شخص تھا،اوراس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے چوری کی اورزناکیا۔حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں  کیاتھا۔[66]

ایک روایت میں  اصحاب الاخدودمیں  شیر خواربچے کے بولنے کابھی ذکرہے،ایک لمبی روایت کے آخرمیں  ہے

حَتَّى جَاءَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِیٌّ لَهَا فَتَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِیهَا، فَقَالَ لَهَا الْغُلَامُ: یَا أُمَّهْ اصْبِرِی فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ

جب بادشاہ کے حکم سے لوگوں  کوآگ میں  ڈالاجانے لگاتوایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کاایک بچہ بھی تھا،وہ عورت آگ میں  گرنے سے جھجکی(پیچھے ہٹی)،بچہ نے کہااے ماں  !صبرکرتوسچے دین پرہے۔[67]

یہ سن کر مریم علیہ السلام حیرت زدہ ہو گئیں  اور اللہ کے عام قانون فطرت کے مطابق کہنے لگیں  اے میرے رب !میرے ہاں  ایسالڑکا کیسے پیداہوگاجبکہ کسی مرد نے مجھے چھواتک نہیں  ،یعنی میراتوکوئی شوہرہی نہیں  ہے،نہ میراشادی کرنے کاارادہ ہے، اوراللہ کی پناہ کہ میں  بدکارہوں  ،فرشتوں  نے جواب دیااے مریم علیہ السلام تیری حیرت و تعجب بجا ،باوجود اس کے کہ تیری شادی نہیں  ہوئی ہےتیرے ہاں  بچہ ہوگا اللہ تعالیٰ جوچاہتاہے پیدا کرتاہے، قدرت الہٰی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں  ہے وہ جب چاہئے اسباب عادیہ وظاہریہ کا سلسلہ ختم کرکے اپنے حکم لفظ کن سے پلک جھپکتے میں  جوچاہئے کر دے ، جیسے فرمایا

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [68]

ترجمہ:اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں  آ جاتا ہے ۔

وَیُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنِّی قَدْ جِئْتُكُم بِآیَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّی أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّینِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَأَنفُخُ فِیهِ فَیَكُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْیِی الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُم بِآیَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿٥٠﴾‏ إِنَّ اللَّهَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ ‎﴿٥١﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ اسے لکھنا اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائے گااور وہ بنی اسرائیل کی طرف سے رسول ہوگا کہ میں  تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں  ، میں  تمہارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں  پھر اس میں  پھونک مارتا ہوں  تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں  مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں  اور مردے کو جلادیتا ہوں  اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں  میں  ذخیرہ کرو میں  تمہیں  بتا دیتا ہوں  اس میں  تمہارے لیے بڑی نشانی ہےاگر تم ایمان لانے والے ہو، اور میں  تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں  جو میرے سامنے ہے اور میں  اس لیے آیا ہوں  کہ تم پر بعض وہ چیزیں  حلال کروں  جو تم پر حرام کردی گئی ہیں  اور میں  تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں  اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور میری فرماں  برداری کرو! یقین مانو میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔

فرشتوں  نے پھراپنے سلسلہ کلام میں  کہااوراللہ اس پریہ احسان فرمائے گاکہ اسے کتاب وحکمت کی تعلیم دے گا، اوراشرف وافضل کتابیں  تورات وانجیل کاعلم سکھائے گا، اور بنی اسرائیل (جواپنے زمانے کی افضل ترین قوم تھی) کی طرف رسول بناکربھیجے جائیں  گے، اللہ تعالیٰ ہرنبی کواس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطافرماتاہے تاکہ رسولوں  کی صداقت اوربرتری نمایاں  ہوسکے ،

قَالَ كَثِیرٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ: بَعَثَ اللهُ كُلَّ نَبِیٍّ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ بِمُعْجِزَةٍ تُنَاسِبُ أَهْلَ زَمَانِهِ، فَكَانَ الْغَالِبُ عَلَى زَمَانِ مُوسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، السِّحْرُ وَتَعْظِیمُ السَّحَرَةِ، فَبَعَثَهُ اللهُ بِمُعْجِزَةٍ بَهَرَت الْأَبْصَارَ وَحَیَّرَتْ كُلَّ سَحَّارٍ،فَلَمَّا اسْتَیْقَنُوا أَنَّهَا مِنْ عِنْدِ الْعَظِیمِ الْجَبَّارِ انْقَادُوا لِلْإِسْلَامِ، وَصَارُوا مِنَ الْأَبْرَارِ،

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  اکثرعلماء کاقول ہے کہ ہرہرزمانے کے نبی کواس کے زمانے والوں  کی مناسبت سے خاص خاص معجزات اللہ تعالیٰ نے عطافرمائے ہیں  ،موسٰی کے زمانے میں  جادو کابڑا زور تھااورجادوگروں  کی بڑی قدروتعظیم تھی،تواللہ نے آپ کو ایسامعجزہ عطا فرمایاجس سے تمام جادوگروں  کی آنکھیں  کھل گئیں  اوران پرحیرت طاری ہوگئی ،اورانہیں  کامل یقین ہوگیاکہ یہ اللہ واحدوقہارکی طرف سے عطیہ ہےجادوہرگزنہیں  چنانچہ ان کی گردنیں  جھک گئیں  اوریک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اوربالاخراللہ کے مقرب بندے بن گئے،

وَأَمَّا عِیسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، فبُعث فِی زَمَنِ الْأَطِبَّاءِ وَأَصْحَابِ عِلْمِ الطَّبِیعَةِ، فَجَاءَهُمْ مِنَ الْآیَاتِ بِمَا لَا سَبِیلَ لِأَحَدٍ إِلَیْهِ، إِلَّا أَنْ یَكُونَ مُؤَیَّدًا مِنَ الَّذِی شَرَعَ الشَّرِیعَةَ،فَمِنْ أَیْنَ لِلطَّبِیبِ قُدْرَةٌ عَلَى إِحْیَاءِ الْجَمَادِ ،أَوْ عَلَى مُدَاوَاةِ الْأَكْمَهِ وَالْأَبْرَصِ، وَبَعْثِ مَنْ هُوَ فِی قَبْرِهِ رَهِینٌ إِلَى یَوْمِ التَّنَادِ؟

عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں  طبیبوں  اورحکیموں  کابڑادوردورہ تھاکامل اطباء اورماہرحکیم علم طب کے پورے عالم اورلاجواب کامل الفن استادموجودتھے،پس اس مناسبت سے وہ ایسے ایسے معجزات لے کرآئے جن کاکوئی مقابلہ نہیں  کرسکتاتھا،سوائے اس کے جسے اس ذات گرامی کی تائیدوحمایت حاصل ہوجوشریعت کونازل فرمانے والاہے ،غورفرمائیں  کسی طبیب کویہ قدرت کیسے حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ جمادات جومحض بے جان چیزہے اس میں  روح ڈال دے، یاو ہ مادرزاداندھوں  کوبالکل بینا،اورکوڑھیوں  کواس مہلک بیماری سے تندرست کردے، اورقبروں  میں  مدفون مردوں  کوزندہ کردے،یہ کسی کے بس کی بات نہیں  ؟

وَكَذَلِكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ [اللهُ ] فِی زَمَنِ الْفُصَحَاءِ وَالْبُلَغَاءِ وَنَحَارِیرِ الشُّعَرَاءِ،فَأَتَاهُمْ بِكِتَابٍ مِنَ اللهِ، عَزَّ وَجَلَّ، لَوِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِهِ،أَوْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِنْ مِثْلِهِ،أَوْ بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ لَمْ یَسْتَطِیعُوا أَبَدًا، وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا،وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِأَنَّ كَلَامَ الرَّبِّ لَا یُشْبِهُهُ كَلَامَ الْخَلْقِ أَبَدًا

ٹھیک اسی طرح جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں  تشریف لائے، اس وقت فصاحت وبلاغت،نکتہ رسی اوربلندخیالی اوربول چال میں  نزاکت ولطافت کا زورتھا،اس فن میں  بلندپایہ شاعروں  نے وہ کمال حاصل کرلیاتھاکہ دنیا ان کے قدموں  پرجھکتی تھی، تواس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کتاب عطافرمائی گئی کہ اگرکائنات کے تمام جن وانس مل کربھی اس جیسی کتاب لاناچاہیں  توہرگزنہ لاسکیں  ،پوری کتاب کالاناتوکجااس جیسی صرف دس سورتوں  کو ہی بنالاؤبلکہ یہ ایک سورت بھی کبھی نہ لاسکیں  گےخواہ ایک دوسرے کے ممدومعاون ہی کیوں  نہ بن جائیں  ،اس لیے کہ یہ اللہ رب العالمین کاکلام ہے اورمخلوق میں  سے کسی کاکلام کبھی بھی اس کے مشابہ ہوہی نہیں  سکتا۔[69]

چنانچہ اللہ کی طرف سے خاص قسم کے معجزات کے ساتھ جب عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے توانہوں  نے اپنی قوم بنی اسرائیل کوکہا،میں  تمہارے پاس تمہارے خالق ومالک رب کی طرف معجزات لے کرآیاہوں  ،میں  تمہارے سامنے مٹی سے ظاہرشکل وصورت کاایک پرندہ بناتا ہوں  اور اس میں  پھونک مارتا ہوں  ، اوروہ جیتاجاگتاپرندہ بن کرسب کے سامنے اڑنے لگتاہے، اسی طرح مادرزاداندھے اورکوڑھی کواچھاکردیتا ہوں  ، اور مردے کوزندہ کر دیتا ہوں  ، اورجوکچھ تم کھاتے اورکل کے لئے گھروں  میں  ذخیرہ کرتے ہو تمہیں  بتلا دیتا ہوں  ،مگراس غلط فہمی میں  مبتلامت ہوجاؤکہ میں  خدائی صفات یااختیارات کاحامل ہوں  بلکہ میں  اللہ کاایک عاجزبندہ ہوں  یہ جوکچھ میرے ہاتھ پرظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جومحض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہاہے ،جیسے فرمایا

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙ [70]

ترجمہ:بچہ بول اٹھامیں  اللہ کا بندہ ہوں  اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ۔

اگرتم حق کوماننے کے لئے تیارہوتو یہ نشانیاں  میری سچائی کی دلیل ہیں  کہ میں  اللہ خالق کائنات اورحاکم ذی قتدار کی طرف سے مبعوث کیاگیاہوں  ،میرے فرستادہ خداہونے کاایک اورثبوت یہ ہے کہ میں  تمہیں  تمہارے سابق دین سے ہٹاکرنئے دین کی طرف لانے کی کوشش نہیں  کررہا،بلکہ میں  اسی اصل دین کومانتا اوراسی کی تعلیم کوصحیح قراردے رہاہوں  جواللہ کی طرف سےمجھ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام لائے تھے اوروہ چیزیں  جو اللہ تعالیٰ نے تم پرحرام قراردی تھیں  ، یاتمہارے جہلاکے توہمات،تمہارے فقیہوں  کی قانونی موشگافیوں  ،تمہارے رہبانیت پسندلوگوں  کے تشددات اور غیر مسلم قوموں  کے غلبہ وتسلط کی بدولت تمہارے ہاں  اصل شریعت الٰہی پرجن قیودکااضافہ ہوگیاہے میں  ان کو منسوخ کروں  گااور تمہارے لئے وہی چیزیں  حلال اوروہی حرام قراردوں  گا جنہیں  اللہ نے حلال یاحرام کیاہے ،اس لئے تم اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرواوراس کے احکام کی تعمیل کرواوراس کے منع کیے ہوئے کاموں  سے پرہیزکرواوراللہ کے رسول کی حیثیت سے میری اطاعت کرو،میرااورتمہارارب ایک ہی ہے،وہی ہماراخالق ،رزاق اورہمیں  تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں  عطاکرنے والاہے لہذااسی کی عبادت کرو،اسی سے ڈرو،اسی سے محبت کرو،اسی سے آس وامیدیں  وابستہ کرو،مصائب ومشکلات میں  اسی کومددکے لئے پکارو اور عبادت کی دوسری تمام صورتیں  بھی اسی کے لئے مخصوص کردو،اللہ کی عبادت ، اس کاتقویٰ اوراس کے رسول کی اطاعت ہی سیدھاراستہ ہے جواللہ تک اوراس کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  تک پہنچاتاہےاس کے سواہرراستہ جہنم کی طرف لے جانے والاہے۔

فَلَمَّا أَحَسَّ عِیسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِی إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ‎﴿٥٢﴾‏رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَیْرُ الْمَاكِرِینَ ‎﴿٥٤﴾‏ إِذْ قَالَ اللَّهُ یَا عِیسَىٰ إِنِّی مُتَوَفِّیكَ وَرَافِعُكَ إِلَیَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِینَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِینَ كَفَرُوا إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیمَا كُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِینَ ‎﴿٥٦﴾‏ وَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥٧﴾‏ ذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَیْكَ مِنَ الْآیَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِیمِ ‎﴿٥٨﴾‏(آل عمران)
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیاتو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟ حواریوں  نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں  ، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں  ، اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں  گواہوں  میں  لکھ لے،اور کافروں  نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ اور تیرے تابعداروں  کو کافروں  کے اوپر غالب کرنے والا ہوں  قیامت کے دن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں  ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں  گا، پھر کافروں  کو تو میں  دنیا اور آخرت میں  سخت تر عذاب دوں  گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا لیکن ایمان والوں  اور نیک اعمال والوں  کو اللہ تعالیٰ ان کا ثواب پورا پورا دے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں  سے محبت نہیں  کرتا، یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں  آیتیں  ہیں  اور حکمت والی نصیحت ہیں  ۔

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رشدوہدایت کے لئے ان کی طرف پے درپے پیغمبرمبعوث فرمائے،انہیں  باربارتنبیہات اورفہمائش کی مگروہ اپنے کفر میں  اتنے بڑھ چکے تھے کہ انہوں  نے اللہ کے پکڑسے بے خوف ہوکر کئی انبیاء کو ناحق قتل کردیاتھا، اورہراس نیک بندے کے خون کے پیاسے ہوجاتے تھے جوانہیں  دعوت حق دیتاتھا،آخراللہ تعالیٰ نے انہیں  آخری موقعہ عطا فرمایا اوردوجلیل القدرپیغمبروں  عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کوبیک وقت مبعوث فرمایاجن کے پاس مامورمن اللہ ہونے کی کھلی کھلی نشانیاں  تھیں  ،مگربنی اسرائیل نے ان دونوں  کی دعوت حق کوبھی رد کر دیا،وہ اتنے خودسراوربے خوف ہوچکے تھے کہ ایک رقاصہ کی فرمائش پریحییٰ علیہ السلام کاسرقلم کردیا،اورعیسیٰ علیہ السلام کوبھی رومی سلطنت کے کافر حکمران سے سزائے موت دلوانے کی کوشش کی، چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی گہری سازشیں  اورمشکوک حرکتوں  کومحسوس کرلیاکہ وہ انہیں  اللہ کا پیغمبرمان کراطاعت کرنے کے بجائے انہیں  جادوگرکہتے ہیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۱۰ [71]

ترجمہ:پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں  لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں  سے منکرِ حق تھے انہوں  نے کہا کہ یہ نشانیاں  جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں  ہیں  ۔

اور شہیدکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں  ، تو ظاہری اسباب کے مطابق قوم کے باشعورلوگوں  سے مددطلب کی اور کہا اللہ کی راہ میں  میری مددکرنے والاکون ہے؟یعنی اللہ کے دین کی نصرت کے لئے میرے ساتھ کون تعاون کرے گا؟

وَهَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی أَیَّامِ الْحَجِّ: مَنْ رَجُلٌ یُؤوینی حَتَّى أُبَلِّغَ رِسَالَةَ رَبِّی، فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ مَنَعُونِی أَنْ أُبَلِّغَ رِسَالَةَ رَبِّی،حَتَّى قیَّض اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ، فَبَایَعُوهُ وَوَازَرُوهُ، وَشَارَطُوهُ أَنْ یَمْنَعُوهُ مِنَ الْأَسْوَدِ وَالْأَحْمَرِ إِنْ هُوَ هَاجَرَ إِلَیْهِمْ،رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ، وَأَرْضَاهُمْ ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے پہلے حج کے موقع پرہرہرقبیلہ کے لوگوں  کے پاس جاکرفرمایاکرتے تھے کہ کوئی ہے جومجھے اللہ کاکلام پہنچانے کے لئے جگہ دے؟قریش نے توکلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں  ،یہاں  تک کہ مدینہ منورہ سے قبیلہ اوس وخزرج کےکے لوگ جومکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے اس کٹھن خدمت کے لئے کمربستہ ہو گئے ،اورآپ کومدینہ منورہ میں  ہی نہیں  اپنے دلوں  میں  جگہ دی ،پھرآپ نے جب ان کی طرف ہجرت فرمائی توانہوں  نےاپنے وعدے کے مطابق آپ کی حفاظت اورخیر خواہی کی اورہرسیاہ وسرخ کے مقابلے میں  آپ کی مددکی ،اللہ ان سے راضی ہوگیااوروہ اللہ سے راضی ہوگئے۔

حواریوں  یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے چند مددگاروں  (انصار) نے کہاہم اللہ کی راہ میں  آپ کے مددگارہیں  ،

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِكُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دن فرمایاہرنبی کے حواری(سچے مددگار)ہوتے ہیں  اورمیرے حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہیں  ۔[72]

اورکہنے لگے ہم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے،نبیوں  کی تصدیق کی اوراس کے مطابق عمل کیا، پس اے ہمارے رب! تو ہمیں  گواہوں  میں  لکھ لے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ:فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ،قَالَ مَعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ کے قول’’ہمارانام گواہی دینے والوں  میں  لکھ لے۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں  اس سے مرادیہ ہے کہ ہمیں  امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لکھ رکھ۔[73]

جب وہ دین کی نصرت کے لئے اورشریعت قائم کرنے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے توبنی اسرائیل کاایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے کفر اختیارکیا،ان کفر کرنے والوں  نے اللہ کے نور کو بجھانے کے لئے اللہ کے نبی کو شہیدکرنے کامنصوبہ بنایا،دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بھی جوسب خفیہ تدبیر کرنے والوں  سے بہتر ہے خفیہ تدبیر فرمائی ، اورکفرکرنے والوں  کوان کے منصوبوں  کی سزادینے کی فیصلہ فرمایا ، اللہ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنادیااوروہ خائب وخاسرہوکر رہے گئے،اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ علیہ السلام ! میں  تجھے یہودیوں  کی سازش سے بچاکرپوراکاپورااپنی طرف آسمانوں  پراٹھالوں  گا ،

عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ قَالَ فِی قَوْلِهِ: {إِنِّی مُتَوَفِّیكَ} یَعْنِی وَفَاةَ الْمَنَامِ، رَفَعَهُ اللهُ فِی مَنَامِهِ

حسن بصری ’’اب میں  تجھے واپس لے لوں  گا۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  اس سے مرادوفات نیندہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کونیندمیں  آسمانوں  پراٹھایاتھا ۔ [74]

اوریہودی جن الزامات سے آپ کومتہم کرتے ہیں  پاک کرنے والا ہوں  ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیاکے سامنے پیش کردی گئی ،بنی اسرائیل کی لگائی ہوئی آگ سے رومی فوج نے رات کے وقت آپ کو پھانسی پر لٹکانے کے لئے گھر کو گھیر لیا، مگر اللہ نے اپنے بندے اوراپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام کواپنی طرف آسمانوں  پر اٹھا لیا ، اورکسی اور شخص پرآپ کی مشابہت ڈال دی جواسی گھر میں  تھا، جس آدمی کوآپ کاہم شکل بنایا گیا تھا دشمنوں  نے اسے پکڑکرسخت توہین کی اس کے سرپرکانٹوں  کا تاج رکھ کر صلیب پر چڑھادیا،اس طرح وہ ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کی نیت عیسیٰ علیہ السلام کو شہیدکرنے کی تھی اور اپنے خیال میں  وہ اس کوشش میں  کامیاب بھی رہے،اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایا

وَّقَوْلِـهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُـبِّهَ لَهُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ۝۰ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا۝۱۵۷ۙ [75]

ترجمہ:اور خود کہا کہ ہم نے مسیح ،عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں  نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں  نے اس کے بارے میں  اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں  مبتلا ہیں  ان کے پاس اس معاملہ میں  کوئی علم نہیں  ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں  نے مسیح کو یقینا ًقتل نہیں  کیا۔

اور تیرے تابع داروں  کو یہودیوں  کے اوپر رکھنے والاہوں  ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں  کے خلاف عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں  کی مددفرمائی اورعیسیٰ علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے نصاریٰ یہودیوں  پرہمیشہ دنیاوی طورپر غالب رہیں  گے، گواپنے غلط عقائدکی وجہ سے نجات آخروی سے محروم ہی رہیں  گے ، پھرتم سب میری طرف لوٹ کرآؤگے اورمیں  تمہارے آپس کے تم تراختلافات کافیصلہ کروں  گا،پھرجنہوں  نے اللہ کے ساتھ کفرکیا،اس کی آیات کااوررسولوں  کا انکار کیا ،میں  انہیں  دنیا میں  (ظاہرنظرآنے والی مصیبتیں  ، سزائیں  ،بدامنی ،ڈوروخوف ،قتل وغارت ،ذلت وپستی ،عجیب وغریب بیماریوں  ، قدرتی آفات ، فصلوں  اورپھلوں  میں  کمی ، بڑے پیمانے پر اموات وغیرہ) اور آخرت میں  سخت ترعذاب دوں  گا،اوروہاں  ان کاکوئی حامی وناصرنہ ہوگاجوانہیں  اللہ کے عذاب سے بچا سکے،وہ بھی جنہیں  وہ اللہ کے ہاں  ان کی شفاعت کرنے والے سمجھتے ہیں  ،وہ بھی نہیں  جنہیں  وہ اللہ کوچھوڑکردوست بناتے ہیں  ،نہ ان کے رفیق نہ رشتے دار اورنہ وہ خوداپنی کچھ مددکر سکیں  ۔جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَمَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ۝۳۴ الرعد۳۴

ترجمہ: کوئی ایسا نہیں  جو انہیں  خدا سے بچانے والا ہو ۔

لیکن جولوگ اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے ،اس کے فرشتوں  پر،اس کی منزل کتابوں  پر،اس کے رسولوں  پر،موت کے بعدکی ابدی زندگی پراوران سب امورپرایمان لائے جن پرایمان لانے کاحکم دیاگیاہے، اوررب کی رضاوخوشنودی کے لئے اعمال صالحہ اختیار کیے، تو اللہ تعالیٰ انہیں  ان کاپوراپورااجروثواب عنایت فرمائے گا، اور اپنے فضل وکرم سے مزید انعامات سے نوازے گا،اللہ ظالموں  سے محبت نہیں  کرتابلکہ ناراض ہوتاہے اورانہیں  عذاب دیتاہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آیات اورحکمت سے لبریز تذکرے ہیں  جوہم تمہیں  سنارہے ہیں  ۔

إِنَّ مَثَلَ عِیسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَیَكُونُ ‎﴿٥٩﴾‏ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِینَ ‎﴿٦٠﴾(آل عمران)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام)کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام)کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا !پس وہ ہوگیا! تیرے رب کی طرف سے حق یہی ہے خبردار شک کرنے والوں  میں  نہ ہونا۔

اللہ تعالیٰ نےآدم علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مماثلت میں  فرمایانصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  جوعقیدہ رکھتے ہیں  وہ درست نہیں  ،ان کے پاس اس کی کوئی قوی یاضعیف دلیل بھی نہیں  ،ان کاعقیدہ ہے کہ چونکہ آپ کاوالدنہیں  اس لئے وہ حق رکھتے ہیں  کہ انہیں  اللہ کابیٹااورشریک تسلیم کیاجائے،یہ بات دلیل تودرکنارشبہ بننے کے قابل بھی نہیں  ،کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اس طرح پیداکرنے سے تویہ ثابت ہوتاہے کہ اکیلا اللہ ہی تخلیق وتدبیرکامالک ہے، اورتمام اسباب اس کی مشیت وارادہ کے تابع ہیں  ،اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مخلوق کاکوئی فرداللہ کے ساتھ کسی لحاظ سے شریک بننے کا مستحق نہیں  ،علاوہ ازیں  اگرمحض اعجازی پیدائش ہی کسی کوالٰہ یاالٰہ کابیٹا بنانے کے لئے کافی دلیل ہوتو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوبغیرباپ اوربغیرماں  کے پیدافرمایاہے،اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی آدم علیہ السلام کے بارے میں  بھی وہی عقیدہ رکھیں  جوعیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  رکھتے ہیں  ،اگرمسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیداکرنے کی وجہ سے اللہ کا بیٹااور معبود قرار دیا جاسکتاہے تو آدم علیہ السلام کے ماں  اور باپ دونوں  کے بغیرپیداہونے کی وجہ سے ان کے معبود ہونے کابالاولیٰ دعوی کرنا چاہیے،اسی طرح حواکوصرف مردکی پسلی سے بغیرعورت کے پیدا کیا ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً۔۔۔ ۝۱ [76]

ترجمہ:اےلوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں  سے بہت مرد و عورت دنیا میں  پھیلا دیے ۔

 ہُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْكُنَ اِلَیْہَا۔۔۔۝۰۝۱۸۹ [77]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا۔۔۔۝۶ [78]

ترجمہ:اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا ۔

اس لئے تیرے رب نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں  جو فرمایاہے وہی حق اوراعلیٰ ترین سچائی ہے کہ جس طرح اللہ نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدافرمایا اوراپنی قدرت کے کلمہ کن سے حکم دیا ہو جاپس وہ ہوگیا،اسی طرح اللہ نے مسیح علیہ السلام کو بھی اپنے مصلحتوں  کے تحت کلمہ سے پیدا فرمایاہے،مسیح علیہ السلام اللہ کے بندے اوررسول ہیں  ،اللہ نے انہیں  لوگوں  کے لئے اپنی قدرت کا نشان بنایا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ۔۔۔ ۝۲۱ [79]

ترجمہ: اور ہم یہ اس لیے کریں  گے کہ اس لڑکے کو لوگوں  کے لیے ایک نشانی بنائیں  ۔

ان پرکتاب انجیل نازل فرمائی اورانہیں  مامورمن اللہ ہونے کی کھلی کھلی نشانیاں  دیں  ،پس اے نصاریٰ! اللہ نے جوفرمایاہے اس میں  شک کرنے کے بجائے ایمان لے آئیں  اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ شک کرنے والوں  میں  سے نہ ہوں  کیونکہ حق کے خلاف ہربات باطل ہی ہوسکتی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۔۔۔ ۝۳۲ [80]

ترجمہ:پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ ۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ ‎﴿٦١﴾‏إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٦٢﴾‏ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِالْمُفْسِدِینَ ‎﴿٦٣﴾(آل عمران)
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں  جھگڑے تو آپ کہہ دیں  کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں  کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں  کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں  کو بلا لیں  پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں  اور جھوٹوں  پر اللہ کی لعنت کریں  ،یقیناً صرف یہی سچا بیان ہے اور کوئی معبود برحق نہیں  بجز اللہ تعالیٰ کے اور بیشک غالب اور حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر بھی اگر قبول نہ کریں  تو اللہ تعالیٰ بھی صحیح طور پر فسادیوں  کو جاننے والا ہے ۔

یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے ،نجران کے وفدپرحقیقت واضح ہوچکی تھی،اللہ تعالیٰ نے جوکچھ فرمایاان میں  سے کسی کاجواب ان لوگوں  کے پاس نہ تھا ،اکثراہل وفداپنے دلوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے قائل بھی ہوچکے تھے یاکم ازکم اپنے انکارمیں  متزلزل ہوچکے تھے، مگربڑے سردار جان بوجھ کرہٹ دھرمی اختیارکررہے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرنے کے لئے فرمایا،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جوشخص عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  آپ سے بحث کرتاہے، اورانہیں  ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلندترہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یقینی علم آچکاہے کہ وہ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں  ،اورآپ نے انہیں  دلائل کے ساتھ واضح کر دیاہے کہ وہ اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں  ،اگراب کوئی اسے نہیں  مانتاتواس کی بحث محض اللہ اوررسول کی مخالفت اورضدوہٹ دھرمی کی بناپرہے ،لہذاان سے بحث ومباحثہ کرنے میں  آپ کوکوئی فائدہ حاصل نہیں  ہو سکتا،اس لئے آپ ان لوگوں  کومباہلہ کی دعوت دیں  ،یعنی دونوں  فریق اللہ کے سامنے عجزونیازکے ساتھ دعاکریں  کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اورعذاب نازل کرے،اس میں  فریقین خودبھی اوران کے سب سے پیارے افرادیعنی بیویاں  اوراولادوغیرہ بھی شریک ہوں  ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یقیناًجوکچھ اللہ مالک الملک نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  بیان کیاہے وہی حق وسچ ہے اس کے خلاف ہرچیزباطل ہے اوراللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں  ، اس کے سواکسی کی عبادت درست نہیں  اورنہ کوئی ذرہ برابرعبادت کاحق رکھتاہے ،بیشک اللہ ہی ہرچیزپرغالب ہے اورہرچیزاس کے سامنے سرنگوں  ہے ،وہ ہرچیزکوصحیح مقام پررکھتاہے ،کافروں  کے ذریعے سے مومنوں  کی آزمائش میں  بھی اس کی حکمت کاملہ موجودہے ،پھربھی اگروہ قبول نہ کریں  تواللہ ہی صحیح طورپرفسادیوں  کوجاننے والاہے وہ انہیں  سخت ترین سزادے گا۔

عاقب اورسیدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرلعنت کرنے کاارادہ کیامگرپھرتنہائی میں  جاکرمشاورت کرنے لگے،

لاَ تَفْعَلْ، فَوَاللهِ لَئِنْ كَانَ نَبِیًّا فَلاَعَنَّا لاَ نُفْلِحُ نَحْنُ، وَلاَ عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا ،فَقَالُوا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ، قَدْ رَأَیْنَا أَلَّا نُلَاعِنَكَ، وَأَنْ نَتْرُكَكَ عَلَى دِینِكَ وَنَرْجِعَ عَلَى دِینِنَا،وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِینًا، وَلاَ تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِینًا ،فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِینًا حَقَّ أَمِینٍ، فَأَشْرَفَ أَصْحَابُهُ،

عاقب اورسید نے کہا کہ مباہلہ نہ کرنااللہ کی قسم ! اگریہ واقعی یہ نبی ہوئے اورہم پرلعنت کردی، توہم لوگ ہمیشہ کے لئے تباہ وبربادہوجائیں  گے،یہ سوچ کرانہوں  نے مباہلہ کاارادہ ترک کردیا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوکرعرض کیااے ابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نہ مباہلہ کرتے ہیں  اورنہ اسلام قبول کرتے ہیں  ہم اپنے دین پر قائم رہیں  گے، حالانکہ انہیں  معلوم تھاکہ یہ باطل ہے، اوریہ انتہائی درجے کا عناد اور فسادہے، البتہ ہمیں  جزیہ دینا منظور ہے،آپ ہمارے ساتھ ایک دیانت دارآدمی کوبھیج دیں  ، ایساکوئی آدمی نہ بھیجاجائے جوامین نہ ہو، جس کوہم خراج کی رقم جوآپ مقررکریں  گے اداکردیاکریں  گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  تمہارے ساتھ ایک امین آدمی کوبھیجوں  گاوہ واقعی امین ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں  سے ہرایک کی یہ خواہش تھی کہ یہ فضیلت اس کومل جائے،

قَالَ: فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَقُولُ: مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ قَطُّ حُبِّی إیَّاهَا یَوْمئِذٍ، رَجَاءَ أَنْ أَكُونَ صَاحِبَهَا، فَرُحْتُ إلَى الظُّهْرِ مُهَجِّرًا، فَلَمَّا صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ سَلَّمَ، ثُمَّ نَظَرَ عَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ یَسَارِهِ، فَجَعَلْتُ أَتَطَاوَلُ لَهُ لِیَرَانِی، فَلَمْ یَزَلْ یَلْتَمِسُ بِبَصَرِهِ حَتَّى رَأَى أَبَا عُبَیْدَةَ ابْن الْجَرَّاحِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب فرماتے ہیں  میں  نے کبھی بھی سرداربننے کی خواہش نہیں  کی لیکن اس دن صرف اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتعریف کی ہے ،اس کاتصدیق کرنے والااللہ کے نزدیک میں  بن جاؤں  ، اس لئے میں  اس روز سویرے سویرے ظہرکی نمازکے لئے چل پڑا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نمازظہر پڑھائی، پھردائیں  بائیں  نظریں  دوڑانے لگے،میں  بارباراپنی جگہ اونچاہوتاتھاتاکہ آپ کی نگاہیں  مجھ پرپڑیں  آپ برابربغوردیکھتے ہی رہےیہاں  تک کہ نگائیں  ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ پرپڑیں  ۔[81]

فَقَالَ:قُمْ یَا أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الجَرَّاحِ، فَلَمَّا قَامَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَذَا أَمِینُ هَذِهِ الأُمَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایااے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح کھڑے ہو جاؤجب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ اس امت کے امین ہیں  ،یہ کہہ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوان عیسائیوں  کے ساتھ نجران روانہ فرمایا۔[82]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: لَئِنْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ یُصَلِّی عِنْدَ الْكَعْبَةِ، لَآتِیَنَّهُ حَتَّى أَطَأَ عَلَى عُنُقِهِ، قَالَ: فَقَالَ:لَوْ فَعَلَ، لَأَخَذَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عِیَانًا، وَلَوْ أَنَّ الْیَهُودَ تَمَنَّوْا الْمَوْتَ، لَمَاتُوا، وَرَأَوْا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ، وَلَوْ خَرَجَ الَّذِینَ یُبَاهِلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَرَجَعُوا لَا یَجِدُونَ مَالًا وَلا أَهْلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  ابوجہل نے کہااگرمیں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوکعبے کے پاس نمازپڑھتے دیکھوں  توآپ کی گردن کورونددوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگروہ ایسی حرکت کرتاتوآنکھوں  کے سامنے فرشتے اسے پکڑلیتےاگریہودی موت کی تمناکرتے تووہ مرجاتے اورجہنم میں  اپنے ٹھکانے دیکھ لیتےاوراگرعیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلے کے لیے نکلتے تووہ اس طرح لوٹتے کہ نہ ان کامال بچتااورنہ اہل وعیال۔[83]

وَفِی قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ مِنَ الْفَوَائِدِ أَنَّ إِقْرَارَ الْكَافِرِ بِالنُّبُوَّةِ لَا یُدْخِلُهُ فِی الْإِسْلَامِ حَتَّى یَلْتَزِمَ أَحْكَامَ الْإِسْلَامِ وَفِیهَا جَوَازُ مُجَادَلَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَدْ تَجِبُ إِذَا تَعَیَّنَتْ مَصْلَحَتُهُ وَفِیهَا مَشْرُوعِیَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة ، وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِیُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَمِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَا تَمْضِی عَلَیْهِ سَنَةٌ مِنْ یَوْمِ الْمُبَاهَلَة

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس سلسلے میں  لکھتے ہیں  اہل نجران کے قصہ میں  بہت سے فوائدہیں  ، جن میں  یہ کہ کافراگرنبوت کا اقرارکرے تواس کواسلام میں  داخل نہیں  کرے گاجب تک کہ جملہ احکام اسلام کاالتزام نہ کرے ، اوریہ اہل کتاب سے مذہبی امورمیں  مناظرہ کرناجائزہے بلکہ بعض دفعہ واجب جب اس میں  کوئی مصلحت مدنظرہو،اوریہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنابھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہورکے بعدبھی مباہلہ کاقصد کرے،ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے ایک حریف کومباہلہ کی دعوت دی تھی، اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کوبھی ایک جماعت کے ساتھ مباہلہ کاموقع پیش آیاتھا،اوریہ تجربہ کیاگیاہے کہ مباہلہ کرنے والاباطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الٰہی میں  گرفتارہوجاتاہے۔[84]

بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظورفرمالی، اورفریقین کے مابین دوہزارجوڑے کپڑوں  اور ہرجوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی پر معاہدہ صلح طے پاگیا، اس سلسلے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جووثیقہ لکھواکردیااس کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

وَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله علیه وسلم لِأَهْلِ نَجْرَانَ:

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللهِ لِأَهْلِ نَجْرَانَ أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَیْهِمْ حُكْمُهُ فِی كُلِّ ثَمَرَةٍ صَفْرَاءَ أَوْ بَیْضَاءَ أَوْ سَوْدَاءَ أَوْرَقِیقٍ فَأَفْضَلَ عَلَیْهِمْ وَتَرَكَ ذَلِكَ كُلَّهُ عَلَى أَلْفَیْ حُلَّةٍ حُلَلِ الْأَوَاقِی فِی كُلِّ رَجِبٍ أَلْفُ حُلَّةٍ، وَفِی كُلِّ صَفَرٍ أَلْفُ حُلَّةٍ كُلُّ حُلَّةٍ أُوقِیَّةً فَمَا زَادَتْ حُلَلُ الْخَرَاجِ أَوْ نَقَصَتْ عَلَى الْأَوَاقِی فَبِالْحِسَابِ، وَمَا قَبَضُوا مِنْ دُرُوعٍ أَوْ خَیْلٍ أَوْ رِكَابٍ أَوْ عَرْضٍ أُخِذَ مِنْهُمْ فَبِالْحِسَابِ، وَعَلَى نَجْرَانَ مَثْوَاةُ رُسُلِی عِشْرِینَ یَوْمًا فَدُونَ ذَلِكَ، وَلَا تُحْبَسُ رُسُلِی فَوْقَ شَهْرٍ، وَعَلَیْهِمْ عَارِیَّةُ ثَلَاثِینَ دِرْعًا وَثَلَاثِینَ فَرَسًا وَثَلَاثِینَ بَعِیرًا إِذَا كَانَ بِالْیَمَنِ كَیَدٌ وَمَا هَلَكَ مِمَّا أَعَارُوا رُسُلِی مِنْ دُرُوعٍ أَوْ خَیْلٍ أَوْ رِكَابٍ فَهُوَ ضَمَانٌ عَلَى رُسُلِی حَتَّى یُؤَدُّوهُ إِلَیْهِمْ وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِیَتِهِمْ جِوَارُ اللهِ وَذِمَّةُ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللهِ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَبِیَعِهِمْ وَصَلَوَاتِهِمْ لَا یُغَیِّرُوا أُسْقُفًا عَنْ أُسْقُفِیَّتِهِ، وَلَا رَاهِبًا عَنْ رَهْبَانِیَّتِهِ، وَلَا وَاقِفًا عَنْ وَقْفَانِیَّتِهِ وَكُلُّ مَا تَحْتِ أَیْدِیهِمْ مِنْ قَلِیلٍ أَوْ كَثِیرٍ وَلَیْسَ رِبًا وَلَا دَمَ جَاهِلِیَّةٍ وَمَنْ سَأَلَ مِنْهُمْ حَقًّا فَبَیْنَهُمُ النَّصْفُ غَیْرَ ظَالِمِینَ وَلَا مَظْلُومِینَ لِنَجْرَانَ، وَمَنْ أَكَلَ رِبًا مِنْ ذِی قَبْلَ فَذِمَّتِی مِنْهُ بَرِیئَةٌ، وَلَا یُؤَاخَذُ أَحَدٌ مِنْهُمْ بِظُلْمِ آخَرَ، وَعَلَى مَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ جِوَارُ اللهِ وَذِمَّةُ النَّبِیِّ أَبَدًا حَتَّى یَأْتِیَ اللهُ بِأَمْرِهِ إِنْ نَصَحُوا وَأَصْلَحُوا فِیمَا عَلَیْهِمْ غَیْرَ مُثْقَلِینَ بِظُلْمٍ

شَهِدَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ وَغَیْلَانُ بْنُ عَمْرٍو وَمَالِكُ بْنُ عَوْفٍ النَّصْرِیُّ وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَالْمُسْتَوْرِدُ بْنُ عَمْرٍو أَخُو بَلِیٍّ وَالْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ وَعَامِرٌ مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ وہ تحریرہے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران کے لئے تحریرکی کہ

xجب مجھے ان کے پھلوں  ،سونے ،چاندی ،غلاموں  اورہرسیاہ وسفیدمیں  اختیارحاصل ہے تومیں  بطوراحسان ان سب چیزوں  کوان کے قبضہ میں  چھوڑتا ہوں  ،یہ صرف سال میں  دوہزارحلے اداکریں  گے ،ایک ہزارحلہ ماہ رجب میں  اورایک ہزارحلہ ماہ صفرمیں  ،ہرحلہ کی قیمت ایک اوقیہ ہوگی ،اس میں  کمی بیشی ہو گی تووہ نقدی کی صورت میں  پوری کی جائے گی ،اگروہ زرہیں  ،گھوڑے ،اونٹ یادیگرسامان دیناچاہیں  توقیمت لگاکروہ قبول کیاجائے گااورحلے اداکرنے پر اصرارنہیں  کیاجائے گا۔

xیمن میں  جنگ کی صورت میں  تیس زرہیں  ،تیس گھوڑے اورتیس اونٹ بطورعاریت دینے ان پرلازم ہوں  گے جوجنگ کے بعدواپس کردیئے جائیں  گے اگران میں  سے کوئی چیزضائع ہوجائے گی تواس کی قیمت اداکی جائے گی۔

xان کی عبادت گاہیں  اورگرجے سب ان کے قبضے میں  رہیں  گے،ان کواپنی رہبانیت پرقائم رہنے کی اجازت ہوگی اوروہ اللہ اوراس کے رسول کی پناہ میں  رہیں  گے،کسی اسقف کواس کے منصب سے اورکسی راہب کواس کی رہبانیت سے اورکسی کاہن کواس کی کہانت سے معزول نہیں  کیاجائے گا،ان کے حقوق اور اقتدارمیں  اورجوکچھ وہ کرتے چلے آئے ہیں  اس میں  تغیروتبدل نہیں  ہوگا بشرطیکہ رعایاکے خیرخواہ اورخیراندیش رہیں  ،نہ ظالم کاساتھ دیں  اورنہ خودظلم کریں  ۔

xان سے زمانہ جاہلیت کی دیت اورخون کاقصاص نہیں  لیاجائے گا،نہ ان کوکسی قسم کانقصان پہنچایاجائے گا۔

xزرعی پیداوارمیں  ان سے عشرنہیں  لیاجائے گااورنہ اسلامی لشکران کے علاقہ میں  داخل ہوگا۔

xان میں  سے جوشخص بخوشی فوجی خدمت بجالائے گا،اس کوانصاف کے ساتھ اس کاحصہ دیاجائے گا۔

xآئندہ سودی کاروبارمنع ہوگاخلاف کرنے والاعہد سے خارج سمجھاجائے گا۔

xکسی کوکسی دوسرے کے جرم میں  نہیں  پکڑاجائے گا۔

xجب تک اہل نجران اس دستاویزمیں  لکھی ہوئی سب دفعات کی پابندی کریں  گے ،انہیں  اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے امن حاصل ہوگا،ان پرظلم نہیں  ہوگااورانہیں  کسی ابتلاء میں  مبتلانہیں  کیاجائے گا۔

اس دستاویزپراہل نجران کی طرف سے ان افرادنے دستخط کیےابوسفیان رضی اللہ عنہ ،غیلان رضی اللہ عنہ بن عمرو،مالک رضی اللہ عنہ بن عوف،اقرع رضی اللہ عنہ بن حابس مستورد،مغیرہ رضی اللہ عنہ اورابو بکر کے غلام عامر ۔

اس کے بعداہل نجران کے اندراسلام پھیلناشروع ہوااہل سیرلکھتے ہیں

 فَرَجَعُوا إِلَى بِلَادِهِمْ فَلَمْ یَلْبَثْ السَّیِّدُ وَالْعَاقِبُ إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى رَجَعَا إِلَى النَّبِیِّ صلّى الله علیه وسلم فَأَسْلَمَا وَأَنْزَلَهُمَا فِی دَارِ أَبِی أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیِّ

یہ لوگ اپنے وطن واپس آگئے، عاقب اورسیددونوں  نجران پہنچنے پربہت ہی کم ٹھہرنے پائے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اوراسلام قبول کرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پراتارا۔[85]

 أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِیًّا إِلَى أَهْلِ نَجْرَانَ لِیَأْتِیَهُ بِصَدَقَاتِهِمْ وَجِزْیَتِهِمْ وَهَذِهِ الْقِصَّةُ غَیْرُ قِصَّةِ أَبِی عُبَیْدَةَ لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَةَ تَوَجَّهَ مَعَهُمْ فَقَبَضَ مَالَ الصُّلْحِ وَرَجَعَ وَعَلِیٌّ أَرْسَلَهُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ یَقْبِضُ مِنْهُمْ مَا اسْتُحِقَّ عَلَیْهِمْ مِنَ الْجِزْیَةِ وَیَأْخُذُ مِمَّنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ مَا وَجَبَ عَلَیْهِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَاللهُ أعلم

پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوان سے مقررہ سالانہ جزیہ وصول کرنے اورجومسلمان ہو گئے تھے ان سے اموال زکوٰة حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا،اورمعلوم ہے کہ صدقہ تومسلمانوں  ہی سے لیاجاتاہےیہ قصہ ابو عبیدہ والا قصہ نہیں  کیونکہ انہیں  تو صلح کا مال لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔[86]

بعض روایتوں  میں  ہے کہ نجران سے یکے بعددیگرے دووفدآپ کی خدمت میں  حاضرہوئے تھے اورپہلے وفدکے ساتھ بحث کے دوران میں  آیت مباہلہ نازل ہوئی تھی ان لوگوں  نے مباہلہ نہ کیا،

ووافق نزول الجزیة بعد ذلك على وفقه

اورجزیہ دینامنظورکرکے واپس چلے گئے ،اس وفدکے بعددوسراوفدجوساٹھ آدمیوں  پرمشتمل تھامدینہ منورہ آیااوروہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمان امن لے کرواپس گیا۔[87]

نجرانی وفدکوخوداپنے عقائدپرکامل یقین نہیں  تھااس لئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ پرتیارنہ ہوا،جس سے یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحت کے پیشوا اور پادری جن کے تقدس کاسکہ دوردورتک قائم ہے، دراصل ایسے عقائدکااتباع کررہے ہیں  جن کی صداقت پرخودانہیں  کامل اعتمادنہیں  ،جس سے مسلمانوں  کوبہت فائدہ ہوا۔

[1] ابن سعد ۲۳۲؍۱،مغازی واقدی۱۰۲۸؍۳، اسد الغابة ۳۹۹؍۵

[2] پھیرا۔مستدرک حاکم۶۴۲۸

[3] مغازی واقدی۹۵۲؍۳، اسد الغابة ۳۹۹؍۵

[4] ابن سعد ۲۳۲؍۱

[5] ابن سعد۲۸۶؍۷

[6] ابن سعد۲۴۱تا۲۴۳؍۳

[7] اسدالغابة ۵۵؍۵

[8] اسدالغابة۳۹۰؍۱

[9] ابن سعد۲۳۱؍۱ ، السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۵؍۴

[10] ابن سعد۳۰۴؍۱،اسدالغابة۳۳۴؍۴

[11] جمھرة أنساب العرب ۴۶۰ ، اردودائرہ معارف اسلامیہ بحوالہ عہدنامہ عتیق سفرپیدائش۱۰:۲۶

[12] المعجم الصغیرللطبرانی۱۱۷۶

[13] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۵۶۲؍۴،اسدالغابة۴۰۵؍۵

[14] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۵۶۲؍۴، اسد الغابة ۴۰۵؍۵

[15] ابن سعد۲۶۲؍۱

[16] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۵۶۲؍۴، اسد الغابة ۴۰۵؍۵،ابن سعد۲۶۲؍۱

[17] معجم الصغیر طبرانی۱۱۷۶

[18] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۵۶۲؍۴

[19] ابن سعد۲۶۳؍۱

[20] ابن سعد۲۶۳؍۱

[21] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۵۶۲؍۴،ابن سعد ۲۱۹؍۱، السیرة النبویة لابن کثیر۱۵۴؍۴

[22] ابن سعد۲۶۳؍۱

[23] الروض الانف ۱۰۷؍۱

[24] المنجدفی الاعلام

[25] فتح الباری۹۴؍۸

[26] صحیح مسلم کتاب الاداب بَابُ النَّهْیِ عَنِ التَّكَنِّی بِأَبِی الْقَاسِمِ وَبَیَانِ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْأَسْمَاءِ۵۵۹۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ مَرْیَمَ۳۱۵۵

[27] زادالمعاد۵۵۰؍۳

[28] فتح الباری۲۴۴؍۳،ابن ہشام۵۷۴؍۱،الروض الانف۷؍۵،عیون الآثر۲۵۲؍۱

[29] فقہ السیرة للغزامی۴۲۵؍۱، تفسیرطبری۱۷۴؍۵،تفسیرابن ابی حاتم۵۸۵؍۲،تفسیرالرازی۱۲۸؍۷،تفسیرالنیسابوری۱۰۰؍۲

[30] بنی اسرائیل۷۰

[31] الانعام۸۴تا۸۷

[32] المائدہ ۱۱۶، ۱۱۷

[33] تفسیرابن کثیر۳۳؍۲

[34] تفسیرابن کثیر۳۳؍۲،تفسیرالرازی ۲۰۲؍۸

[35] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ آل عمران بَابُ وَإِنِّی أُعِیذُهَا بِكَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۴۵۴۸ ، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ۶۱۳۳،صحیح ابن حبان۶۲۳۵،مصنف ابن ابی شیبہ ۳۱۴۹۶، مستدرک حاکم۴۱۵۸

[36] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ رَحْمَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْیَانَ وَالْعِیَالَ وَتَوَاضُعِهِ وَفَضْلِ ذَلِكَ ۶۰۲۵

[37] صحیح بخاری کتاب العقیقة بَابُ تَسْمِیَةِ المَوْلُودِ غَدَاةَ یُولَدُ، لِمَنْ لَمْ یَعُقَّ عَنْهُ، وَتَحْنِیكِهِ۵۴۷۰،صحیح مسلم کتاب الاداب باب استحباب تحنیک المولودعندولادتہ۵۶۱۲،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی تَغْیِیرِ الْأَسْمَاءِ ۴۹۵۱

[38] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا بِاسْمِی وَلاَ تَكْتَنُوا بِكُنْیَتِی۶۱۸۹

[39] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ تَحْوِیلِ الِاسْمِ إِلَى اسْمٍ أَحْسَنَ مِنْهُ ۶۱۹۱، صحیح مسلم کتاب الاداب بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْنِیكِ الْمَوْلُودِ عِنْدَ وِلَادَتِهِ وَحَمْلِهِ إِلَى صَالِحٍ یُحَنِّكُهُ۵۶۲۱

[40] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَنْ سَمَّى بِأَسْمَاءِ الأَنْبِیَاءِ۶۱۹۸

[41] سنن ابوداودکتاب الضحایابَابٌ فِی الْعَقِیقَةِ ۲۸۳۷،۲۸۳۸،جامع ترمذی ابواب الاضاحی باب من العقیقة ۱۵۲۲،سنن نسائی کتاب العقیقة باب مَتَى یُعَقُّ؟ ۴۲۲۵،سنن ابن ماجہ کتاب الذبائع بَابُ الْعَقِیقَةِ ۳۱۶۵،مسنداحمد۲۰۰۸۳

[42] تحفة المودود۱۱۱؍۱

[43] مستدرک حاکم۴۱۵۸

[44] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ۴۲۵۱،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ ۲۲۸۰عن سیدناعلی ، مسند احمد ۲۲۸۰عن سیدناعلی

[45] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِیَّاءَ، إِذْ نَادَى ۳۴۳۰

[46] تفسیرابن ابی حاتم۶۴۰؍۲

[47] الطلاق۲،۳

[48] مریم۲،۳

[49] تفسیرابن ابی حاتم۶۴۲؍۲

[50] تفسیرطبری۳۷۵؍۶

[51] تفسیرابن کثیر۳۷؍۲

[52] تفسیرابن کثیر۳۷؍۲

[53] القصص۷

[54] البقرة۱۱۷

[55] الانعام۷۳

[56] النحل۴۰

[57] یٰسین۸۲

[58] المومن۶۸

[59] مریم۱۰

[60] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى إِذْ قَالَتِ المَلاَئِكَةُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ المَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ ۳۴۳۴، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل نساء قریش

[61] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِینَ آمَنُوا امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ۳۴۱۱،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابُ فَضَائِلِ خَدِیجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا ۶۲۷۲،جامع ترمذی ابواب الاطعمة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الثَّرِیدِ ۱۸۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمة بَابُ فَضْلِ الثَّرِیدِ، عَلَى الطَّعَامِ ۳۲۸۰

[62] صحیح مسلم کتاب الفضائل َبابُ فَضَائِلِ خَدِیجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا۶۲۷۱،جامع ترمذی ابواب المناقب باب فضل خدیجہ۳۸۹۳

[63] جامع ترمذی کتاب المناقب بَابُ فَضْلِ خَدِیجَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا۳۸۷۸

[64] القصص۴۴

[65] تفسیرطبری۳۴۹؍۶

[66] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا۳۴۳۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَقْدِیمِ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلَاةِ وَغَیْرِهَا۶۵۰۸،البدایة والنہایة۱۱۷؍۲

[67] صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ قِصَّةِ أَصْحَابِ الْأُخْدُودِ وَالسَّاحِرِ وَالرَّاهِبِ وَالْغُلَامِ۷۵۱۱ ، مسند احمد ۲۳۹۳۱

[68] القمر۵۰

[69] تفسیرابن کثیر۴۵؍۲

[70] مریم۳۰

[71] المائدة۱۱۰

[72] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ فَضْلِ الطَّلِیعَةِ۲۸۴۶

[73] تفسیرابن ابی حاتم۶۶۰؍۲

[74] تفسیر ابن کثیر۴۷؍۲

[75] النساء ۱۵۷

[76] النسائ۱

[77] الاعراف۱۸۹

[78] الزمر۶

[79] مریم۲۱

[80] یونس۳۲

[81] ابن ہشام۵۸۴؍۱

[82]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ عن حذیفہ ۴۳۸۰،۴۳۸۱

[83] مسنداحمد۲۲۲۵،السنن الکبری للنسائی۱۰۹۹۵

[84] فتح الباری۹۵؍۸

[85]ابن سعد۲۶۸؍۱

[86]فتح الباری ۹۴،۹۵؍۸

[87] شرح الزرقانی علی المواہب۱۱؍۵

Related Articles