بعثت نبوی کا بارهواں سال

واقعہ معراج کے  بارہ میں  مشہورمگرغیرمستندواقعات

 ایک بڑھیااورشیطان کاملنااوربعض انبیاء کاسلام کرنا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا جَاءَ جِبْرِیلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُرَاقِ فَكَأَنَّهَا أَمَرَّت ذَنَبَهَا،  فَقَالَ لَهَا جِبْرِیلُ: مَهْ یَا بُرَاقُ،  فَوَاللَّهِ إِنْ رَكِبَكَ مِثْلُهُ. وَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَإِذَا هُوَ بِعَجُوزٍ عَلَى جَانِبِ الطَّرِیقِ،  فَقَالَ:مَا هَذِهِ یَا جِبْرِیلُ؟قَالَ: سِرْ یَا مُحَمَّدُ،  قَالَ: فَسَارَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَسِیرَ،  فَإِذَا شَیْءٌ یَدْعُوهُ مُتَنَحِّیًا عَنِ الطَّرِیقِ ،  یَقُولُ: هَلُمَّ یَا مُحَمَّدُ فَقَالَ لَهُ جِبْرِیلُ: سِرْ یَا مُحَمَّدُ فَسَارَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَسِیرَ،  قَالَ:فَلَقِیَهُ خَلْقٌ مِنَ الْخَلْقِ فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا أَوَّلُ،  السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا آخِرُ،  السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا حَاشِرُ،  فَقَالَ لَهُ جِبْرِیلُ: ارْدُدِ السَّلَامَ یَا مُحَمَّدُ. فَرَدَّ السَّلَامَ،  ثُمَّ لَقِیَهُ الثَّانِیَةَ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى،  ثُمَّ الثَّالِثَةَ كَذَلِكَ،  حَتَّى انْتَهَى إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام کے  ساتھ براق پرجارہے  تھے  کہ راستے  کے  ایک کنارے  پرمیں  نے  ایک بڑھیادیکھی ، میں  نے  پوچھااے  جبریل یہ کون ہے ؟جبریل علیہ السلام نے  کہاچلے  چلئے ،  پھرمیں  نے  چلتے  چلتے  دیکھا کہ کوئی راستے  سے  یکسوہے  اورمجھے  بلارہی ہے ،  فرمایا پھرمیں  آگے  بڑھا تودیکھا  اللہ   کی ایک مخلوق ہے  اورباآوازبلندکہہ رہی ہے  السلام علیک یااول ، السلام علیک یاآخر، السلام علیک یاحاشر، جبریل علیہ السلام نے  کہااے  محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )سلام کاجواب دیں  ، آپ نے  ان کے سلام کا جواب دیا، پھردوبارہ ایساہی ہوا، پھرتیسری مرتبہ بھی یہی ہوایہاں  تک کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم بیت المقدس پہنچ گئے ،

فَعَرَضَ عَلَیْهِ الْمَاءَ وَالْخَمْرَ وَاللَّبَنَ،  فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللَّبَنَ،  فَقَالَ لَهُ جِبْرِیلُ: أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ،  وَلَوْ شَرِبْتَ الْمَاءَ لَغَرِقْتَ وَغَرِقَتْ أُمَّتُكَ،  وَلَوْ شَرِبْتَ الْخَمْرَ لَغَوَیْتَ وَلَغَوَتْ أُمَّتُكَ، ثُمَّ بُعِثَ لَهُ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ،  عَلَیْهِمُ السَّلَامُ،  فأمَّهم رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّیْلَةَ،  ثُمَّ قَالَ لَهُ جِبْرِیلُ:أَمَّا الْعَجُوزُ الَّتِی رَأَیْتَ عَلَى جَانِبِ الطَّرِیقِ،  فَلَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِ تِلْكَ الْعَجُوزِوَأَمَّا الَّذِی أَرَادَ أَنْ تَمِیلَ إِلَیْهِ،  فَذَاكَ عَدُوُّ اللَّهِ إِبْلِیسُ أَرَادَ أَنْ تَمِیلَ إِلَیْهِ،  وَأَمَّا الَّذِینَ سَلَّمُوا عَلَیْكَ فَإِبْرَاهِیمُ وَمُوسَى وَعِیسَى،  عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ

وہاں  مجھے پانی، شراب اوردودھ پیش کیا گیا میں  نے  دودھ لے  لیا (اورباقی دوکو چھوڑ دیا ) جبریل علیہ السلام نے  آپ سے  کہاآپ نے  راز فطرت پالیا اگرآپ پانی کا برتن لے  لیتے  توآپ کی امت غرق ہوجاتی،  اوراگرآپ شراب پی لیتے  توآپ اورآپ کی امت گمراہ ہو جاتی،  پھرآپ کے  لیے  آدم علیہ السلام سے  لے  کرآپ تک تمام انبیاء کوبھیجاگیا،  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ان کی امامت کرائی اوراس رات سب نے  آپ کی اقتداء میں  نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے  مجھے  کہاوہ بڑھیاجوراستے  کے  ایک جانب آپ نے  دیکھی تھی توگویایہ دکھایاگیاکہ دنیاکی عمراتنی ہی باقی رہ گئی ہے  جتنی اس بڑھیاکی عمرباقی ہے ، اور جس کی آوازپرآپ توجہ کرنے  والے  تھے  وہ   اللہ   کا دشمن(ابلیس)تھا، اورچاہتاتھاکہ آپ اس کی طرف مائل ہوں  اورجن کے  سلام کی آوازیں  آپ نے  سنیں  وہ ابراہیم، موسی اورعیسیٰ تھے ۔ [1]

وفی بعض ألفاظه نكارة وَغَرَابَةٌ

یہ روایت لکھ کرحافظ ابن کثیرکہتے  ہیں  اس کے  بعض حصوں  میں  نکارت اورغرابت ہے ۔

علاوہ ازیں  اس میں  جلیل القدرانبیاء کے  منہ سے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کویااول، یاآخر کہلوایاگیاہے  حالانکہ اول وآخر  اللہ   کی صفتیں  ہیں  جوقرآن مجیدمیں    اللہ   کے  لیے  آئی ہیں  ، یہ حصہ بھی اس کے  غیر مستند ہونے  کاغمازہے ۔

 راستے  کی مختلف منزلوں  پراترکرنمازپڑھنا:

عَن انس رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَرَكِبْتُ وَمَعِیَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فَسِرْتُ فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ،  فَصَلَّیْتُ،  فَقَالَ: أَتَدْرِی أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ صَلَّیْتَ بِطَیْبَةَ وَإِلَیْهَا الْمُهَاجَرُ،  ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَصَلَّیْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِی أَیْنَ صَلَّیْتَ؟صَلَّیْتَ بِطُورِ سَیْنَاءَ،  حَیْثُ كَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى،  ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ ،  فَصَلَّیْتُ،  فَقَالَ: أَتَدْرِی أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ صَلَّیْتَ بِبَیْتِ لَحْمٍ،  حَیْثُ وُلِدَ عِیسَى،  عَلَیْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ دَخَلْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِیَ الْأَنْبِیَاءُ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ،  فَقَدَّمَنِی جِبْرِیلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  جبریل علیہ السلام کے  ساتھ برق رفتارجانورپرسوارجارہاتھاکہ جبریل علیہ السلام نے  کہااتریں  اور نماز پڑھیں  !چنانچہ میں  نے  نمازپڑھی، جبریل علیہ السلام نے  پوچھاآپ کومعلوم ہے  آپ نے  کہاں  نمازپڑھی؟آپ نے  طیبہ (مدینہ منورہ)میں  نمازپڑھی ہے  اوریہی آپ کی ہجرت گاہ ہے ، (وہاں  سے  ہم چلے  ،  پھرایک مقام پر )جبریل علیہ السلام نے  کہااتریں  اورنماز پڑھیں  !چنانچہ میں  نے  نمازپڑھی،  جبریل علیہ السلام نے  پوچھاآپ کومعلوم ہے  آپ نے  کہاں  نمازپڑھی ہے ؟آپ نے  طورسینامیں  نمازپڑھی ہے ، جہاں    اللہ   نے  موسیٰ علیہ السلام سے  کلام فرمایاتھا، (آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم پھرچلے  اورایک مقام پر ) پھر جبریل علیہ السلام نے  کہااتریں  اورنمازپڑھیں  !چنانچہ میں  نے  نماز پڑھی، جبریل علیہ السلام نے  پوچھاآپ کومعلوم ہے  آپ نے  کہاں  نماز پڑھی؟ آپ نے  بیت اللحم میں  نمازپڑھی جوعیسیٰ علیہ السلام کامولدہے ،  پھرمیں  بیت المقدس میں  داخل ہوگیا(اس کے  بعد انبیاء کی امامت اورپھرآسمانوں  پرچڑھ جانے  کا بیان ہے  جیسے  دیگرروایات میں  ہے )۔ [2]

اس روایت کے  بارے  میں  بھی حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   نے  کہاہے

 وَفِیهَا غَرَابَةٌ وَنَكَارَةٌ جَدًّا

اس میں  غرابت اوربہت اچنبھاپن ہے ۔

ویزید هو ابن عبد الرحمن بن أبی مالك الدمشقی صدوق ربما وهم یرویه عنه سعید بن عبد العزیز وهو التنوخی الدمشقی وهو ثقة إمام ولكنه اختلط فی آخر عمره

شیخ البانی رحمہ   اللہ   نے  کہااس میں  ایک راوی یزیدہے  جوابن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے  جو اگرچہ صدوق ہے  لیکن کبھی کبھی اس کووہم لاحق ہوجاتاہے ، اس سے  بیان کرنے  والا راوی سعیدبن عبدالعزیزہے  وہ بھی اگرچہ ثقہ اورامام ہے  لیکن اسے  آخرعمرمیں  اختلاط ہوگیاتھا۔ [3]

حورعین کامشاہدہ، قافلے  کاملنااوراس کی علامات:

فَلَمَّا بَلَغَ بَیْتَ الْمَقْدِسِ وَبَلَغَ الْمَكَانَ الَّذِی یُقَالُ لَهُ:بَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  أَتَى إِلَى الْحَجَرِ الَّذِی ثَمَّةَ،  فَغَمَزَهُ جِبْرِیلُ بِأُصْبُعِهِ فَثَقَبَهُ،  ثُمَّ رَبَطَهَا ثُمَّ صَعِدَ فَلَمَّا اسْتَوَیَا فِی صَرْحَة الْمَسْجِدِ،  قَالَ جِبْرِیلُ: یَا مُحَمَّدُ،  هَلْ سَأَلْتَ رَبَّكَ أَنْ یُرِیَكَ الْحُورَ الْعِینَ؟فَقَالَ: نَعَمْ !فَقَالَ:فَانْطَلِقْ إِلَى أُولَئِكَ النِّسْوَةِ،  فَسَلِّمْ عَلَیْهِنَّ وَهُنَّ جُلُوسٌ عَنْ یَسَارِ الصَّخْرَةِ،  قَالَ: فَأَتَیْتُهُنَّ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِنَّ فَرَدَدْنَ عَلَیَّ السَّلَامَ

جب ہم بیت المقدس پہنچ کراس جگہ پہنچے  جسے  باب محمدکہاجاتاہے  توجبریل علیہ السلام وہاں  ایک پتھرکے  پاس آئے  اوراس میں  اپنی انگلی مارکرسوراخ کردیا اوراس میں  سواری دابہ کو باندھ دیاپھرمسجداقصٰی پرچڑھ گئے ، جب دونوں  مسجدکے  صحن میں  پہنچ گئے  توجبریل علیہ السلام نے  کہااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !کیاآپ نے  اپنے  رب سے  حورعین دیکھنے  کی بھی التجا کی ؟میں  نے  کہا ہاں  ،  توجبریل علیہ السلام نے  کہا توآئیے !آپ کوان خواتین جنت کی طرف لے  چلتاہوں  ، پس آپ ان کوسلام کریں  وہ صخرہ کی بائیں  جانب بیٹھی تھیں  ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  ان کے  پاس گیااوران کوسلام کیاتوانہوں  نے  میرے  سلام کاجواب دیا،

فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَنَّ؟فَقُلْنَ:نَحْنُ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ نِسَاءُ قَوْمٍ أَبْرَارٍ نُقُّوا فَلَمْ یَدْرَنُواوَأَقَامُوا فَلَمْ یَظْعَنُوا وَخُلِّدُوا فَلَمْ یَمُوتُواثُمَّ انْصَرَفْتُ ،  فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى اجْتَمَعَ نَاسٌ كَثِیرٌ ،  ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ وَأُقِیمَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ:فَقُمْنَا صُفُوفًا نَنْتَظِرُ مَنْ یَؤُمُّنَا فَأَخَذَ بِیَدِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ،  فَقَدَّمَنِی فَصَلَّیْتُ بِهِمْ،  فَلَمَّا انْصَرَفْتُ قَالَ جِبْرِیلُ: یَا مُحَمَّدُ،  أَتَدْرِی مَنْ صَلَّى خَلْفَكَ؟ قَالَ:قُلْتُ: لَا، قَالَ: صَلَّى خَلْفَكَ كُلُّ نَبِیٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ

میں  نے  ان سے  پوچھاتم کون ہو؟انہوں  نے  کہا ہم خوب سیرت اورخوبصورت ہیں  نیک لوگوں  کی بیویاں  ہیں  ، وہ پاک صاف کیے  ہوئے  ہوں  گے  پھرناپاک نہیں  ہوں  گے  وہ جنت ہی میں  مقیم رہیں  گے  یہاں  سے  کوچ نہیں  کریں  گے ،  ہمیشہ رہیں  گے  انہیں  موت نہیں  آئے  گی، پھرمیں  وہاں  سے  آگیا، ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ بہت سے  لوگ جمع ہوگئے ،  پھرمؤذن نے  اذان دی اور نمازکی تکبیرکہی گئی، فرمایاپس ہم صفیں  بنائے  کھڑے  منتظرتھے  کہ کون ہمیں  نمازپڑھائے  گا؟تب جبریل علیہ السلام نے  میراہاتھ پکڑااورمجھے  آگے  کردیامیں  نے  ان کونمازپڑھائی، جب میں  نمازسے  فارغ ہواتوجبریل علیہ السلام نے  کہااے  محمد ( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) کیا آپ جانتے  ہیں  آپ کے  پیچھے  کن لوگوں  نے  نمازپڑھی؟میں  نے  کہانہیں  ،  جبریل علیہ السلام نے  کہا آپ کے  پیچھے  ہراس نبی نے  نمازپڑھی جسے    اللہ   عزوجل نے  مبعوث فرمایا(اس کے  بعدآسمانوں  پرلے  جانے  اوروہاں  انبیاء سے  ملاقاتوں  کاذکرہے  ، اس کے  بعدہے )

انْطَلَقَ بِی عَلَى ظَهْرِ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ،  حَتَّى انْتَهَى بِی إِلَى نَهْرٍ عَلَیْهِ خِیَامُ الْیَاقُوتِ وَاللُّؤْلُؤِ وَالزَّبَرْجَدِ وَعَلَیْهِ طَیْرٌ خُضْرٌ أَنْعَمُ طَیْرٍ رَأَیْتُ ، فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  إِنَّ هَذَا الطَّیْرَ لَنَاعِمٌ، قَالَ : یَا مُحَمَّدُ،  آكِلُهُ أَنْعَمُ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  أَتَدْرِی أَیُّ نَهْرٍ هَذَا؟قُلْتُ: لَا، قال: هذا الكوثر الذی أعطاك اللَّهُ إِیَّاهُ،  فَإِذَا فِیهِ آنِیَةُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ،  یَجْرِی عَلَى رَصْرَاض مِنَ الْیَاقُوتِ وَالزُّمُرُّدِ،  مَاؤُهُ،  أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ

پھرمجھے  ساتویں  آسمان سے  بھی اوپر لے  گئے  حتی کہ وہاں  ایک نہرپرمیں  پہنچاجس پریاقوت ، موتیوں  اورزبرجدکے  خیمے  تھے  اوراس پرسبزرنگ کاپرندہ منڈلارہاتھا، اتنانفیس جوکبھی میں  نے  نہیں  دیکھا، میں  نے  کہا اے  جبریل علیہ السلام !یہ پرندہ توبہت نفیس ہے ، جبریل علیہ السلام نے  کہا اے  محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )جولوگ اسے  کھائیں  گے  وہ اس سے  بہترہوں  گے ، پھرجبرئیل نے  کہااے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم ! آپ جانتے  ہیں  یہ کون سی نہرہے ؟میں  نے  کہانہیں  ،  جبریل نے  کہایہ وہ کوثرہے  جو  اللہ   نے  آپ کو عطا کی ہے ، اس میں  آبخورے  سونے  چاندی کے  تھے ، اس کابہاؤیاقوت اور زمردکی کنکریوں  پر تھا، اس کاپانی دودھ سے  زیادہ سفیدتھا۔

قَالَ:فَأَخَذْتُ مِنْهُ آنِیَةً مِنَ الذَّهَبِ،  فَاغْتَرَفْتُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ،  فَإِذَا هُوَ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ،  وَأَشَدُّ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ،  ثُمَّ انْطُلِقَ بِی حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى الشَّجَرَةِ،  فَغَشِیَتْنِی سَحَابَةٌ فِیهَا مِنْ كُلِّ لَوْنٍ،  فَرَفَضَنِی جِبْرِیلُ،  وَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِلَّهِ،  عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ اللَّهُ لِی: یَا مُحَمَّدُ،  إِنِّی یَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَیْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِینَ صَلَاةً،  فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، قَالَ:ثُمَّ انْجَلَتْ عَنِّی السَّحَابَةُ وَأَخَذَ بِیَدِی جِبْرِیلُ،  فَانْصَرَفْتُ سَرِیعًا

فرمایامیں  نے  اس کے  آبخوروں  میں  سے  ایک سونے  کاآبخورہ لیااوراس میں  سے  ایک چلوپانی لیااورپیاتووہ شہدسے  زیادہ میٹھا اور کستوری سے  زیادہ خوشبودارتھاپھرمجھے  لے  جایاگیایہاں  تک کہ میں  اس خاص درخت کے  پاس آگیاوہاں  مجھے  ہرقسم کے  رنگوں  والی بدلی نے  ڈھانپ لیا،  پس جبریل علیہ السلام نے  مجھے  چھوڑدیااورمیں    اللہ   عزوجل کی بارگاہ میں  سجدہ ریزہوگیا، تو  اللہ   نے  مجھ سے  فرمایااے  محمد ( صلی   اللہ   علیہ وسلم )!میں  نے  اس دن ہی سے  جس دن میں  نے  آسمانوں  اور زمین کو پیداکیا، میں  نے  آپ پراورآپ کی امت پرپچاس نمازیں  فرض کردی تھیں  پس آپ اورآپ کی امت اس کااہتمام کرے  ،  فرمایاپھروہ بدلی مجھ سے  ہٹ گئی اورجبریل علیہ السلام نے  میرا ہاتھ پکڑلیااورمیں  تیزی سے  واپس پلٹا(اس کے  بعدموسیٰ علیہ السلام سے  ملاقات اوران کے  مشورے  سے  تخفیف صلاة کاذکرہے )

تین داعیان ضلالت:

اس میں  براق کی کچھ صفات بیان کرنے  کے  بعدہے

فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ عَلَیْهِ،  إِذْ دَعَانِی دَاعٍ،  عَنْ یَمِینِی: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ،  یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ،  فَلَمْ أُجِبْهُ وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهِ،  فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ عَلَیْهِ،  إِذْ دَعَانِی دَاعٍ،  عَنْ یَسَارِی: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ،  فَلَمْ أُجِبْهُ وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهِ] ،  فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ،  إِذْ أَنَا بِامْرَأَةٍ حَاسِرَةٍ عَنْ ذِرَاعَیْهَا،  وَعَلَیْهَا مِنْ كُلِّ زِینَةٍ خَلَقَهَا اللَّهُ،  فَقَالَتْ: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ. فَلَمْ أَلْتَفِتْ إِلَیْهَا وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهَا. حَتَّى أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ

میں  اس پرسوارہوکرچلاہی تھاکہ میری دائیں  جانب کسی نے  آوازدی اے  محمد!میری طرف دیکھ میں  تجھ سے  کچھ پوچھوں  گا، اے  محمد!میری طرف دیکھ میں  تجھ سے  کچھ پوچھوں  گالیکن میں  نے  جواب دیانہ ٹھہرا، پھرکچھ اورآگے  چلاتوبائیں  جانب سے  آوازآئی اے  محمد!میری طرف دیکھ میں  تجھ سے  کچھ پوچھوں  گا لیکن میں  وہاں  بھی نہ ٹھہرا، نہ دیکھااورنہ جواب دیا، پھرکچھ آگے  گیاکہ ایک عورت دنیابھرکی زینت لیے  ہوئے  باہیں  کھولے  ہوئے  کھڑی تھی، اس نے  مجھے  اسی طرح آوازدی کہ میں  کچھ دریافت کرناچاہتی ہوں  لیکن میں  نے  اس کی طرف التفات کیانہ ٹھہراحتی کہ میں  بیت المقدس پہنچ گیا (پھرسواری کے  باندھنے  اوردودھ اورشراب کے  پیالے  پیش کرنے  وغیرہ کاذکرہے  اس کے  بعدہے  کہ)

مَا رَأَیْتَ فِی وَجْهِكَ هَذَا؟ قَالَ:فَقُلْتُ: بَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ،  إِذْ دَعَانِی دَاعٍ،  عَنْ یَمِینِی: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ. فَلَمْ أُجِبْهُ وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهِ، قَالَ: ذَاكَ دَاعِی الْیَهُودِ،  أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَجَبْتَهُ أَوْ: وَقَفْتَ عَلَیْهِ لَتَهَوَّدَتْ أُمَّتُكَ، فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ،  إِذْ دَعَانِی دَاعٍ عَنْ یَسَارِی قَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ. فَلَمْ أَلْتَفِتْ إِلَیْهِ وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهِ. قَالَ: ذَاكَ دَاعِی النَّصَارَى،  أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَجَبْتَهُ لَتَنَصَّرَتْ أُمَّتُكَ،  فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ إِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ حَاسِرَةٍ عَنْ ذِرَاعَیْهَا عَلَیْهَا مِنْ كُلِّ زِینَةٍ خَلَقَهَا اللَّهُ تَقُولُ: یَا مُحَمَّدُ،  انْظُرْنِی أَسْأَلْكَ. فَلَمْ أُجِبْهَا وَلَمْ أَقُمْ عَلَیْهَا. قَالَ: تِلْكَ الدُّنْیَا،  أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَجَبْتَهَا أَوْ أَقَمْتَ عَلَیْهَا،  لَاخْتَارَتْ أُمَّتُكَ الدُّنْیَا عَلَى الْآخِرَة،  ثُمَّ دَخَلْتُ أَنَا وَجِبْرِیلُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ،  فَصَلَّى كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا رَكْعَتَیْنِ

جبریل علیہ السلام نے  کہ آپ کے  چہرے  پرفکرکے  آثارکیوں  ہیں  ؟تومیں  نے  تینوں  گزشتہ واقعات بیان کیے ،  جبریل علیہ السلام نے  کہادائیں  جانب سے  بلانے  والا یہودیت کا داعی تھا اگر آپ اس کا جواب دیتے  یاوہاں  ٹھہرجاتے  توآپ کی امت یہودی ہوجاتی، بائیں  جانب سے  پکارنے  والاعیسائی تھااگرآپ اس کاجواب دیتے  توآپ کی امت عیسائی ہو جاتی، باہیں  کھولے  اورزیب وزینت سے  آراستہ عورت دنیا تھی اگرآپ اس کوجواب دیتے  یااس کے  پاس ٹھہرجاتے  توآپ کی امت آخرت کے  مقابلے  میں  دنیاکو پسند کر لیتی ، پھرمیں  اورجبرئیل علیہ السلام بیت المقدس میں  داخل ہوئے  اوردونوں  نے  دودورکعت نماز پڑھی [4]اس کے  بعدہے ۔

 آدم علیہ السلام کواصلی حالت میں  دیکھنا:

ثُمَّ أُتِیتُ بِالْمِعْرَاجِ الَّذِی تَعْرُجُ عَلَیْهِ أَرْوَاحُ بَنِی آدَمَ ۔ ۔ ۔  فَصَعِدْتُ أَنَا وَجِبْرِیلُ،  فَإِذَا أَنَا بِمَلَكٍ یُقَالُ: لَهُ: إِسْمَاعِیلُ. وَهُوَ صَاحِبُ السَّمَاءِ الدُّنْیَا وَبَیْنَ یَدَیْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ،  مَعَ كُلِّ مَلَكٍ جُنْده مِائَةُ أَلْفِ مَلَكٍ۔ ۔ ۔  فإذا أنا بآدم كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ خَلَقَهُ اللَّهُ،  عَزَّ وَجَلَّ عَلَى صُورَتِهِ ،  هُوَ تُعْرَضُ عَلَیْهِ أَرْوَاحُ ذُرِّیَّتِهِ الْمُؤْمِنِینَ،  فَیَقُولُ: رُوحٌ طَیِّبَةٌ،  وَنَفْسٌ طَیِّبَةٌ،  اجْعَلُوهَا فِی عِلِّیِّینَ، ثُمَّ تُعْرَضُ عَلَیْهِ أَرْوَاحُ ذُرِّیَّتِهِ الْفُجَّارِ فَیَقُولُ: رُوحٌ خَبِیثَةٌ،  وَنَفْسٌ خَبِیثَةٌ،  اجْعَلُوهَا فِی سجین

پھرمیرے  پاس وہ سیڑھی لائی گئی جس پرانسانوں  کی روحیں  چڑھتی ہیں  ہم دونوں  اوپرچڑھ گئے ، میں  نے  اسمٰعیل نامی فرشتے  سے  ملاقات کی جوآسمان دنیاکاسردارہے  جس کے  ہاتھ تلے  سترہزارفرشتے  ہیں  جن میں  ہرفرشتے  کے  ساتھ اس کے  لشکری فرشتوں  کی تعدادایک لاکھ ہے یہاں  آسمان کادروازہ کھلوانے  کے  بعدمیں  نے آدم علیہ السلام کو اسی حالت میں  دیکھاجوان کی اس وقت تھی جب   اللہ   نے  ان کوپیداکیاتھاان کی اصلی صورت میں  ان پران کی اولادمیں  سے  مومنوں  کی روحیں  پیش کی جاتی تھیں  اوروہ کہتے  تھے  پاک روح، پاک جان، اس کوعلیین میں  رکھ دو، پھران پران کی اولادمیں  سے    اللہ   کے  نافرمانوں  کی روحیں  پیش کی جاتیں  تووہ کہتے  ناپاک روح، ناپاک جان، اس کوسجین میں  رکھ دو۔ [5]

 حرام خوروں  کامشاہدہ:

ثُمَّ مَضَیْتُ هُنَیَّةً ،  فَإِذَا أَنَا بِأَخْوِنَةٍ عَلَیْهَا لَحْمٌ مُشَرَّحٌ لَیْسَ یَقْرَبُهَا أَحَدٌ وَإِذَا أَنَا بأخْوِنَة أُخْرَى عَلَیْهَا لَحْمٌ قَدْ أَرْوَحَ وَأَنْتَنَ،  عِنْدَهَا أُنَاسٌ یَأْكُلُونَ مِنْهَا قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ مِنْ أَمَّتِكَ یَتْرُكُونَ الْحَلَالَ وَیَأْتُونَ الْحَرَامَ

میں  وہاں  سے  کچھ دورچلاتودیکھاکہ دسترخوان بچھا ہواہے  ،  جس کے  ایک جانب نفیس چکناگوشت رکھاتھا لیکن اس کے  قریب کوئی نہیں  جاتااورایک دوسرادسترخوان ہے  جس پر سڑاہواسخت بدبودارگوشت رکھاہواہے ، اس کے  پاس لوگ ہیں  وہ اسے  کھارہے  ہیں  ، میں  نے  پوچھااے  جبریل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے  کہا یہ آپ کی امت کے  وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے  حلال کے  ہوتے  ہوئے  حرام سے  اپنی خواہش نفس پوری کی۔ [6]

سودخوروں  کے  انجام کامشاہدہ:

ثُمَّ مَضَیْتُ هُنَیَّةً،  فَإِذَا أَنَا بِأَقْوَامٍ بُطُونُهُمْ أَمْثَالُ الْبُیُوتِ،  كُلَّمَا نَهَضَ أَحَدُهُمْ خَرَّ یَقُولُ: اللَّهُمَّ،  لَا تُقِمِ السَّاعَةَ،  قَالَ: وَهُمْ عَلَى سَابِلَةِ آلِ فِرْعَوْنَ. قَالَ:فَتَجِیءُ السَّابِلَةُ فَتَطَؤُهُمْ. قَالَ:فَسَمِعْتُهُمْ یَضِجُّونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،  قَالَ:قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ من أمتك الَّذِینَ یَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلا كَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ

میں  پھر کچھ دوراورگیاتودیکھاکہ کچھ لوگوں  کے  پیٹ بڑے  بڑے  گھڑوں  جیسے  ہیں  جب بھی ان میں  سے  کوئی کھڑاہو جاناچاہتاہے  تو گر پڑتا اورباربار کہتاہے  اے    اللہ  ! قیامت قائم نہ کرنا،  فرمایاآل فرعون کے  خوف ناک جانور انہیں  روندتے  ہیں  اوروہ   اللہ   کے  سامنے  آہ وزاری کررہے  ہیں  ، میں  نے  پوچھا یہ کون لوگ ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے  جواب دیایہ آپ کی امت کے  وہ لوگ ہیں  جوسودکھاتے  تھے ، سودخوران لوگوں  کی طرح ہی کھڑے  ہوں  گے  جنہیں  شیطان نے  چھوکربدحواس کردیاہو۔ [7]

یتیموں  کامال کھانے  والے :

ثُمَّ مَضَیْتُ هُنَیَّةً ،  فَإِذَا أَنَا بِأَقْوَامٍ مَشَافِرُهُمْ كَمَشَافِرَ الْإِبِلِ،  قَالَ:فَتُفْتَحُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَیُلْقَمُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَمْرِ،  ثُمَّ یَخْرُجُ مِنْ أَسَافِلِهِمْ،  فَسَمِعْتُهُمْ یَضِجُّونَ إِلَى اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ،  فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟قَالَ: هَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ {الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا

پھرمیں  کچھ اوردور چلاتوکچھ اورلوگوں  کودیکھا جن کے  ہونٹ اونٹوں  کے  ہونٹوں  جیسے  ہیں  ، ان کے  مونہوں  کوپھاڑپھاڑفرشتے  انہیں  گدھوں  کے گوشت کے  لقمے  دے  رہے  ہیں  جو ان کے  نچلے  حصوں  سے  نکل جاتاہے ، وہ چیخ چلارہے  ہیں  اور   اللہ   عزوجل کے  سامنے  آہ وزاری کررہے  ہیں  ، میں  نے  پوچھااے  جبریل!یہ کون لوگ ہیں  ؟فرمایایہ آپ کی امت کے  وہ لوگ ہیں  جویتیموں  کامال ناحق کھایاکرتے  تھے  ، جولوگ یتیموں  کامال ناحق کھاتے  ہیں  وہ اپنے  پیٹ میں  آگ بھررہے  ہیں  اور وہ ضروربھڑکتی ہوئی جہنم کی آگ میں  داخل ہوں  گے ۔ [8]

بدکارعورت:

ثُمَّ مَضَیْتُ هُنَیَّةً،  فَإِذَا أَنَا بِنِسَاءٍ یُعَلَّقْنَ بِثَدْیِهِنَّ فَسَمِعَتْهُنَّ یَضْجِجْنَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ مَنْ هَؤُلَاءِ النِّسَاءُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الزُّنَاةُ مِنْ أُمَّتِكَ

پھرمیں  کچھ دورچلاتودیکھاکچھ عورتیں  اپنی چھاتیوں  کے  بل لٹک رہی ہیں  ، میں  نے  انہیں  بھی   اللہ   عزوجل کی طرف فریادکرتے  ہوئے  سنا، میں  نے  پوچھااے  جبریل !یہ عورتیں  کون ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے  کہایہ آپ کی امت کی زناکارعورتیں  ہیں  ۔ [9]

عیب جواورلعن طعن کرنے  والے :

ثُمَّ مَضَیْتُ هُنَیَّةً فَإِذَا أَنَا بِأَقْوَامٍ یُقْطَعُ مِنْ جُنُوبِهِمُ اللَّحْمُ،  فَیُلْقِمُونَهُ فَیُقَالُ لَهُ: كُلْ كَمَا كُنْتَ تَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ أَخِیكَ ، قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ،  مَنْ هَؤُلَاءِ؟قَالَ: هَؤُلَاءِ الْهَمَّازُونَ مِنْ أُمَّتِكَ اللَّمَّازُونَ

میں  کچھ دوراورچلاتودیکھاکہ کچھ لوگ ہیں  جن کے  پہلوؤں  سے  گوشت کاٹ کاٹ کران کوزبردستی کھلارہے  ہیں  ،  اورکہتے  جاتے  ہیں  کہ جس طرح تم (دنیا میں  ) اپنے  بھائی کاگوشت کھاتے  تھے اب بھی کھاؤ، میں  نے  پوچھااے  جبریل !یہ کون لوگ ہیں  ؟ فرمایایہ آپ کی امت کے  وہ لوگ ہیں  جوعیب جو اور لعن طعن کرنے  والے  تھے ۔ [10]

اس کے  بعدروایت میں  دوسرے  آسمان سے  ساتویں  آسمان تک اوران میں  ملنے  والے  انبیاء کاپھرسدرة المنتہیٰ اوراس کے  بعض عجائبات کاذکرہے ، ان سب میں  بھی عجیب وغریب چیزوں  کابیان ہے  ، اس کے  بعدہے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا۔

زیدبن حارثہ رضی   اللہ   عنہ کے  لیے  جنت میں  لونڈی:

ثُمَّ إِنِّی دُفِعْتُ إِلَیَّ الْجَنَّةِ،  فَاسْتَقْبَلَتْنِی جَارِیَةٌ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتِ یَا جَارِیَةُ؟ فَقَالَتْ لِزَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ

پھرمجھے  جنت میں  لے  جایاگیاوہاں  میں  نے  ایک جاریہ(نوجوان بچی یالونڈی)دیکھی، میں  نے  اس سے  پوچھااے  لونڈی !توکس کی ہے ؟اس نے  کہامیں  زیدبن حارثہ رضی   اللہ   عنہ کے  لیے  ہوں  ۔ [11]

فَرَأَیْت فِیهَا جَارِیَة لعساء فسألتها: لمن أَنْت؟ وَقد أعجبتنی حِین رَأَیْتهَا،  فَقَالَت لزید بن حَارِثَة ،  فبشر بهَا رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زید بن حَارِثَة

ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں  میں  نے  ایک لونڈی دیکھی میں  نے  اس سے پوچھاتم کس کے  لیے  ہو؟اس نے  جواب دیازید رضی   اللہ   عنہ بن حارثہ کے  لیے ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  زیدکواس کی خوش خبری دی۔ [12]

جہنم اوراس کی شدت وحدت کامشاہدہ:

ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ،  فَإِذَا فِیهَا غَضَبُ اللَّهِ وَزَجْرُهُ وَنِقْمَتُهُ،  لَوْ طُرِحَ فِیهَا الْحِجَارَةُ وَالْحَدِیدُ لَأَكَلَتْهَا،  ثُمَّ أُغْلِقَتْ دُونِی

پھرمیرے  سامنے  جہنم پیش کی گئی جو   اللہ   کے  غضب اس کی زجروتوبیخ اوراس کی سزاکامظہرتھی،  اگراس میں  پتھراورلوہابھی پھینکاجائے  تواسے  بھی وہ کھا جائے  ۔ [13]

ناقة   اللہ   کے  قاتل کاانجام :

صالح علیہ السلام کوان کی قوم کی خواہش پرمعجزانہ طورپراونٹنی دی گئی تھی مگرانہوں  نے  اسے  مارڈالا، معراج میں  جب نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جہنم کی ایک جھلک دیکھی تواس میں  آپ نے  اس قاتل کابھی مشاہدہ کیا

وَرَأَى رَجُلًا أَحْمَرَ أَزْرَقَ جِدًّا قَالَ:مَنْ هَذَا یا جبریل؟ قَالَ:هَذَا عَاقِرُ النَّاقَةِ

میں  نے  ایک سرخ رنگ، نیلگوں  آنکھوں  والا، گھونگریالے  بالوں  والا، پراگندہ حال شخص دیکھا، میں  نے  پوچھااے جبریل!یہ کون شخص ہے ؟جبریل علیہ السلام نے  کہایہی ہے  جس نے  اونٹنی کو مار ڈالا تھا[14]

اس کی سندمیں  قابوس مختلف فیہ راوی ہے ۔

روایت میں  اس کے  بعدپھرسدرة المنتہیٰ آنے ، وہاں  نمازوں  کے  فرض ہونے  اورپھران میں  تخفیف کاذکرہے  اورمعراج سے  واپس آنے  کے  بعدصبح ابوجہل سے  معراج کے  ذکراوران کے  سامنے  راستے  میں  ان کے  قافلے  کے  ملنے  اوراس کی علامات کاپھربیت المقدس کی بابت ان کے  سوالات اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  جوابات کابیان ہے ۔

اس روایت کی بیان کردہ تفصیلات میں  جوغرابت ونکارت ہے محتاج وضاحت نہیں  ، حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   نے  اس کاذکرکیاہے  ، اس کاراوی ابوہارون العبدی ہے  جس کانام عمارہ بن جوین ہے ، ابن کثیر رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  محدثین کے  نزدیک وہ ضعیف ہے ۔ [15]

قال شعبة: لئن أقدم فتضرب عنقی أحب إلى من أن أحدث عن أبی هارون.

شعبہ کہتے  ہیں  ابو    ہارون سے  روایت کرنامجھے  اپنی گردن کٹانازیادہ اچھالگتاہے ۔

قال أحمد: لیس بشئ

امام احمدبن حنبل کہتے  ہیں  یہ کچھ نہیں  ہے ۔

قال ابن معین: ضعیف،  لا یصدق فی حدیثه

ابن معین کہتے  ہیں  یہ ضعیف ہے  اس کی روایتوں  کی تصدیق نہیں  کی جاسکتی ۔

قال النسائی: متروك الحدیث

امام نسائی کہتے  ہیں  یہ متروک الحدیث ہے ۔

قال الجوزجانی: أبو هارون كذاب مفتر

جوزجانی کہتے  ہیں  ابوہارون جھوٹ گھڑنے  والاہے ۔ [16]

بنابریں  مذکورہ تمام واقعات غیرمستندہیں  ۔

ایک اورروایت کے  عجائب وغرائب:

حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   نے  ابن جریرطبری کے  حوالے  سے  ایک طویل روایت نقل کی ہے اوراس کی بابت بھی کہاہے

وَفِیهِ غَرَابَةٌ

اس میں  انوکھاپن ہے ۔

مجاہدین کے  اجروثواب کی تمثیل:

فَسَارَ وَسَارَ مَعَهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ،  فَأَتَى قَوْمًا یَزْرَعُونَ فِی یَوْمٍ وَیَحْصُدُونَ فِی یَوْمٍ،  كُلَّمَا حَصَدُوا عَادَ كَمَا كَانَ،  فَقَالَ: یَا جِبْرِیلُ،  مَنْ هَؤُلَاءِ؟قَالَ: هَؤُلَاءِ الْمُهَاجِرُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ،  یُضَاعَفُ لَهُمُ الْحَسَنَةُ بِسَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ،  وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهُ وَهُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ

اس روایت میں  براق کی جگہ گھوڑے  کالفظ استعمال کیاگیاہے ، گھوڑے  پرسوارہوکرمیں  جبریل علیہ السلام کے  ساتھ چلا، راستے  میں  کچھ ایسے  لوگوں  کو دیکھا کہ ایک روزکاشت کرتے  ہیں  اورایک ہی روزمیں  کھیتی تیارہوجاتی ہے  جسے  وہ کاٹ لیتے  ہیں  وہ جب بھی فصل کاٹتے  ہیں  تووہ پھراسی طرح ہوجاتی ہے  جیسے  وہ پہلے  ہوتی تھی، میں  نے  پوچھا اے جبریل علیہ السلام !یہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے  کہایہ   اللہ   کی راہ میں  جہادکرنے  والے  ہیں  ، ان کی نیکیاں  سات سوگناتک بڑھادی جاتی ہیں  ، یہ جوبھی خرچ کریں    اللہ   تعالیٰ ان کواس کانعم البدل دیتاہے  اوروہ بہترین رزق دینے  والاہے ۔ [17]

فرض نمازوں  کوگراں  سمجھنے  والے :

ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ تُرضَخ رُءُوسُهُمْ بِالصَّخْرِ،  كُلَّمَا رُضخت عَادَتْ كَمَا كَانَتْ،  وَلَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ مِنْ ذَلِكَ شَیْءٌ، فَقَالَ:مَا هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِینَ تَتَثَاقَلُ رُءُوسُهُمْ عَنِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ

پھر میں  ایسے  لوگوں  کے  پاس سے  گزرا جن کے  سرپتھروں  سے  کچلے  جارہے  تھے لیکن کچلے  جانے  کے  بعدان کے  سرپہلے  کی طرح ہوجاتے  اوران کے  ساتھ یہ عمل مسلسل کیا جا رہاتھاایک لمحے  کے  لیے  بھی توقف نہ ہوتا،  میں  نے  پوچھااے جبرائیل !یہ کون لوگ ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے  کہایہ وہ لوگ ہیں  جن کے  سرگرانی نمازکے  لئے  اٹھنے  نہ دیتی تھی۔ [18]

زکوة نہ نکالنے  والے :

ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ عَلَى أَقْبَالِهِمْ رِقَاعٌ،  وَعَلَى أَدْبَارِهِمْ رِقَاعٌ یَسْرَحُونَ كَمَا تَسْرَحُ الْإِبِلُ وَالنَّعَمُ،  وَیَأْكُلُونَ الضَّرِیعَ وَالزَّقُّومَ وَرَضْفَ جَهَنَّمَ وَحِجَارَتَهَا قَالَ: مَا هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِینَ لَا یُؤَدُّونَ صَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ،  وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ شَیْئًا وَمَا اللَّهُ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ

پھرمیں  نے  کچھ لوگوں  کودیکھا جن کے  آگے  پیچھے  چیتھڑے ، دھجیاں  لٹک رہی تھیں  ، وہ اونٹوں  اورجانوروں  کی طرح کانٹے  داردرخت تھوہر(زقوم)اورجہنم کے  پتھراور انگارے  چرچگ رہے  تھے ، میں  نے  پوچھایہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے  کہایہ وہ لوگ ہیں  جواپنے  اموال کی زکوة نہیں  نکالتے  تھے  اور  اللہ   نے  ان پرکچھ ظلم نہیں  کیااور  اللہ   اپنے  بندوں  پرظلم کرنے  والانہیں  ہے ۔ [19]

ہرجائی مردوں  اورعورتوں  کاانجام:

ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ بَیْنَ أَیْدِیهِمْ لحم نضیج فی قدر ولحم نیئ فی قدر خبیث،  فجعلوا یأكلون من النیئ الْخَبِیثِ وَیَدَعُونَ النَّضِیجَ الطَّیِّبَ،  فَقَالَ:مَا هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟فَقَالَ: هَذَا الرَّجُلُ مِنْ أُمَّتِكَ،  تَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ الْحَلَالُ الطَّیِّبَةُ،  فَیَأْتِی امْرَأَةً خَبِیثَةً فَیَبِیتُ عِنْدَهَا حَتَّى یُصْبِحَ،  [وَالْمَرْأَةُ تَقُومُ مِنْ عِنْدِ زَوْجِهَا حَلَالًا طَیِّبًا،  فَتَأْتِی رَجُلًا خَبِیثًا فَتَبِیتُ مَعَهُ حَتَّى تُصْبِحَ

پھرمیں  نے ایسے  لوگوں  کودیکھا جن کے  سامنے  ایک ہانڈی میں  صاف ستھرا گوشت ہے  اورایک دوسری ہانڈی میں  خبیث سڑابوسیدہ گندہ گوشت ہے ، یہ اس اچھے اورعمدہ پکے  ہوئے  گوشت سے  گریزکررہے  ہیں  اوراس بدبوداربدمزہ سڑے  ہوئے  گوشت کوکھارہے  ہیں  ،  میں  نے  پوچھایہ کس گناہ کے  مرتکب لوگ ہیں  ؟جواب ملاکہ یہ وہ مردہیں  جو اپنی حلال ، پاکیزہ بیویاں  کوچھوڑکرحرام عورتوں  کے پاس رات گزارتے  تھے ، اور وہ عورتیں  ہیں  جواپنے حلال مردوں  کوچھوڑکردوسرے  مردوں  کے  پاس رات گزارتیں  تھیں  ۔ [20]

راستوں  میں  بیٹھ کرلوگوں  کوتنگ کرنے  والوں  کی مثال:

ثُمَّ أَتَى عَلَى خَشَبَةٍ عَلَى الطَّرِیقِ،  لَا یَمُرُّ بِهَا ثَوْبٌ إِلَّا شَقَّتْهُ،  وَلَا شَیْءٌ إِلَّا خَرَقَتْهُ، قَالَ:مَا هَذَا یَا جِبْرِیلُ؟قَالَ: هَذَا مَثَلُ أَقْوَامٍ مِنْ أُمَّتِكَ،  یَقْعُدُونَ عَلَى الطَّرِیقِ یَقْطَعُونَهُ ثُمَّ تَلَا وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ ثُمَّ تَلَا {وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ [وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ] } [21]

پھرمیں  نے  دیکھاکہ راستے  میں  پڑی ہوئی ایک لکڑی ہے  اس کے  پاس سے  جوبھی کپڑاگزرتاہے یہ اس کپڑے  کوپھاڑدیتی اورجوچیزبھی گزرتی اسے  زخمی کردیتی، میں  نے  پوچھا اے  جبریل علیہ السلام یہ کیاہے ؟ فرمایایہ آپ کی امت کے ان لوگوں  کی مثال ہے  جوراستے  پربیٹھ جاتے  ہیں  اورلوگوں  کے  راستے  کاٹتے (یعنی انہیں  تنگ کرتے ) ہیں  ،  پھراس سورہ الاعراف کی آیت نمبر۸۶ کی تلاوت فرمائی۔ [22]

حریص خائن کی مثال:

ثُمَّ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ قَدْ جَمَعَ حُزْمَةً عَظِیمَةً لَا یَسْتَطِیعُ حَمْلَهَا،  وَهُوَ یُرِیدُ أَنْ یَزِیدَ عَلَیْهَا قَالَ: یَا جِبْرِیلُ مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِكَ عَلَیْهِ أَمَانَةٌ لَا یَسْتَطِیعُ أَدَاءَهَا،  وَهُوَ یَزِیدُ عَلَیْهَا

پھر ایک ایسے  شخص کودیکھا جس نے  لکڑیوں  کاایک بڑاگٹھاجمع کیاہواہے  جسے  وہ اٹھانہیں  سکتالیکن وہ اس میں  لکڑیوں  کااضافہ کرتاجاتاہے ، میں  نے پوچھااے  جبریل علیہ السلام !یہ کون ہے ؟فرمایایہ آپ کی امت کاوہ آدمی ہے  جس کے  ذمے  لوگوں  کی اتنی امانتیں  ہیں  کہ وہ انہیں  اداکرنے  کی طاقت نہیں  رکھتالیکن اس کی خواہش یہ ہے  کہ وہ مزیدبوجھ لادے ۔ [23]

فتنہ پردازخطیب:

ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ أَلْسِنَتُهُمْ وَشِفَاهُهُمْ بِمَقَارِیضَ مِنْ حَدِیدٍ كُلَّمَا قُرِضَتْ عَادَتْ كَمَا كَانَتْ لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ مِنْ ذَلِكَ شَیْءٌ، قَالَ:مَا هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟قَالَ: هَؤُلَاءِ خُطَبَاءُ الْفِتْنَةِ

پھرمیں  نے ایسے  لوگوں  کودیکھا جن کی زبانیں  اورمنہ لوہے  کی قینچیوں  سے  کاٹے  جارہے  تھے  اورکاٹے  جانے  کے  بعدپھراسی طرح ہوجاتے  اوریہ عمل اسی طرح مسلسل جاری رہتا ہے ایک لمحے  کے  لیے  بھی توقف نہیں  ہوتا، میں  نے  پوچھایہ کون لوگ ہیں  ؟ فرمایایہ فتنہ پردازواعظ اور خطیب ہیں  ۔ [24]

بے  سوچے  سمجھے  بولنے  والے  کی مثال:

ثُمَّ أَتَى عَلَى جُحْرٍ صَغِیرٍ یَخْرُجُ مِنْهُ ثَوْرٌ عَظِیمٌ،  فَجَعَلَ الثَّوْرُ یُرِیدُ أَنْ یَرْجِعَ مِنْ حَیْثُ خَرَجَ،  فَلَا یَسْتَطِیعُ،  فَقَالَ:مَا هَذَا یَا جِبْرِیلُ؟فَقَالَ: هَذَا الرَّجُلُ یَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ الْعَظِیمَةِ ثُمَّ یَنْدَمُ عَلَیْهَا فَلَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَرُدَّهَا

پھر ایک چھوٹے  سے  پتھرپرپہنچے دیکھاکہ پتھرکے  سوراخ میں  سے  ایک بڑابیل نکل رہاہے  ، وہ بیل اس پتھرکے  اس سوراخ میں  واپس جانے  کی کوشش کرتاتھاجہاں  سے  وہ نکلا تھالیکن وہ ایساکرنہیں  پارہاتھا، میں  نے  پوچھااے  جبریل!یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ وہ آدمی ہے  جوبڑابول بولتاتھا پھراس پرنادم تو ہوتاتھالیکن اسے  واپس لوٹانے  کی طاقت نہیں  رکھتا۔ [25]

جنت کی صدااورپکار:

ثُمَّ أَتَى عَلَى وَادٍ فَوَجَدَ رِیحًا طَیِّبَةً بَارِدَةً،  وَرِیحَ مِسْكٍ،  وَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ:یَا جِبْرِیلُ،  مَا هَذِهِ الرِّیحُ الطَّیِّبَةُ الْبَارِدَةُ؟ وَمَا هَذَا الْمِسْكُ؟ وَمَا هَذَا الصَّوْتُ؟قَالَ:هَذَا صَوْتُ الْجَنَّةِ تَقُولُ: یَا رَبِّ آتِنِی مَا وَعَدْتَنِی،  فَقَدْ كَثُرَتْ غُرَفِی،  وَإِسْتَبْرَقِی وَحَرِیرِی وسندسی،  وعبقریی ولؤلؤی ومرجانی،  وفضتی وَذَهَبِی وَأَكْوَابِی وَصِحَافِی،  وَأَبَارِیقِی وَمَرَاكِبِی،  وَعَسَلِی وَمَائِی،  وَخَمْرِی وَلَبَنِی فَآتِنِی مَا وَعَدْتَنِی

پھرمیں  ایک وادی میں  آیا جہاں  میں  نے  پاکیزہ ٹھنڈی ہوامحسوس کی اورکستوری کی خوشبوبھی اورایک آوازبھی سنی،  میں  نے  پوچھااے  جبریل! یہ ٹھنڈی پاکیزہ ہوا، کستوری کی خوشبواورآوازکیاہے ؟ جبریل علیہ السلام نے  کہا یہ جنت کی آوازہے  ، یہ کہتی ہے  اے   اللہ  ! مجھ سے  اپناوعدہ پوراکر!میرے  بالاخانے  ،  ریشم،  موتی،  مونگے ،  سوناچاندی،  جام،  کٹورے ، شہد، پانی ،  دودھ شراب وغیرہ نعمتیں  بہت زیادہ ہوگئی ہیں  ،

 فَقَالَ:لَكِ كُلُّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ،  وَمُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ،  وَمَنْ آمَنَ بِی وَبِرُسُلِی وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَمْ یُشْرِكْ بِی،  وَلَمْ یَتَّخِذْ مِنْ دُونِی أَنْدَادًا وَمَنْ خَشِیَنِی فَهُوَ آمِنٌ،  وَمَنْ سَأَلَنِی أَعْطَیْتُهُ،  وَمَنْ أَقْرَضَنِی جِزْیَتُهُ، وَمَنْ تَوَكَّلَ عَلَیَّ كَفَیْتُهُ،  إِنِّی أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا،  لَا أُخْلِفُ الْمِیعَادَ وَقَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ،  وَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ، قَالَتْ: قَدْ رَضِیتُ

اسے    اللہ   تعالیٰ نے  جواب دیاہرمسلمان مرداورمسلمان عورت، مومن مرداورمومن عورت اورجومجھ پراورمیرے  رسولوں  پرایمان لایا، نیک عمل کیے ، میرے  ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایانہ کسی کومیراہمسربنایا، یہ تیرے  مہمان ہوں  گے ، تیرے  ہی پاس آئیں  گے ،  سن! جس کے  دل میں  میرا ڈرہے  وہ ہرخوف سے  محفوظ ہے ، جومجھ سے  سوال کرتاہے  وہ محروم نہیں  رہتاجومجھے  قرض دیتاہے  میں  اسے  بدلہ دیتاہوں  ،  جومجھ پرتوکل کرتاہے  میں  اسے  کفایت کرتاہوں  ،  میں  سچامعبودہوں  ، میرے  سواکوئی معبودنہیں  ، میرے  وعدے  خلاف نہیں  ہوتے ، مومن یقیناًفلاح یاب ہوگئے ، بہت بابرکت ہے  وہ جوبہترین خالق ہے ، یہ سن کرجنت نے  کہابس میں  راضی ہو گئی۔ [26]

جہنم کی صدااورپکار:

ثُمَّ أَتَى عَلَى وَادٍ فَسَمِعَ صَوْتًا مُنْكَرًا،  وَوَجَدَ رِیحًا مُنْتِنَةً، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الرِّیحُ یَا جِبْرِیلُ؟ وَمَا هَذَا الصَّوْتُ؟فَقَالَ:هَذَا صَوْتُ جَهَنَّمَ تَقُولُ: یَا رَبِّ آتِنِی مَا وَعَدْتَنِی،  فَقَدْ كَثُرَتْ سَلَاسِلِی وَأَغْلَالِی،  وَسَعِیرِی وَحَمِیمِی،  وَضَرِیعِی،  وَغَسَّاقِی وَعَذَابِی،  وَقَدْ بَعُدَ قَعْرِی،  وَاشْتَدَّ حَرِّی،  فَآتِنِی كُلَّ مَا وَعَدْتَنِی،  فَقَالَ:لَكِ كُلُّ مُشْرِكٍ وَمُشْرِكَةٍ،  وَكَافِرٍ وَكَافِرَةٍ،  وَكُلُّ خَبِیثٍ وَخَبِیثَةٍ،  وَكُلُّ جَبَّارٍ لَا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ، قَالَتْ:قَدْ رَضِیتُ

پھرمیں  ایک اوروادی میں  پہنچا جہاں  نہایت بری اوربھیانک مکروہ آوازیں  آرہی تھیں  اورسخت بدبوتھی، میں  نے  پوچھااے  جبرئیل علیہ السلام یہ کیسی بدبوہے  اوریہ کیسی آوازیں  ہیں  ؟ انہوں  نے  کہایہ جہنم کی آوازیں  ہیں  ، وہ کہہ رہی ہے  اے   اللہ   !مجھ سے  اپناوعدہ پوراکرجوتونے  مجھ سے  کیاہے ، میرے  طوق اورزنجیر، میرے  شعلے  اورمیرا کرماؤ،  میرا تھور ، لہو اورپیپ، میرے  عذاب اورسزاکے  سامان بہت زیادہ ہوگئے  ہیں  ، میراگہراؤبہت زیادہ ہے  ، میری آگ بہت تیزہے ، پس تومجھے  وہ دے  جس کاتونے  مجھ سے  وعدہ کیا ہے ،    اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاہرمشرک، مشرکہ اورکافروکافرہ، خبیث مروعورت اورہرسرکش جویوم حساب پرایمان نہیں  رکھتایہ سب تیرے  لیے  ہیں  ، یہ سن کرجہنم نے  کہامیں  راضی ہو گئی۔ [27]

انبیاء علیہ السلام کی مجلس مکالمہ اور  اللہ   سے  ہم کلامی:

پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم چلے  حتی کہ بیت المقدس پہنچ گئے یہاں  آپ نے  گھوڑے  کوصخرہ کے  ساتھ باندھنے  کے  بعدفرشتوں  کے  ساتھ نمازپڑھی، پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ملاقات انبیاء کی روحوں  کے  ساتھ ہوئی اور(گویا)ایک استقبالیہ مجلس منعقدہوئی جس میں  ہرجلیل القدرپیغمبرنے  اپنی اپنی امتیازی خصوصیت بیان کی جن سے    اللہ   نے  ان کونوازاتھا، سب سے  آخرمیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپناشرف وامتیازبیان فرمایا، پھرپانی دودھ اورشراب کے  تین سربہ مہربرتنوں  کا ذکر ہے ، اس کے  بعدآسمان پرچڑھ جانے  اوروہاں  انبیاء علیہ السلام سے  ملاقاتوں  کابیان ہے اس میں  بھی بہت سی عجیب وغریب چیزیں  ہیں  جومستندروایات میں  نہیں  ہیں  ، اسی طرح پھر سدرة المنتہیٰ میں  پہنچے  اوریہاں  آپ کے    اللہ   سے  ہم کلام ہونے  کاذکرہے اوریہ تفصیل دلچسپ بھی ہے  اورمستندروایات سے  یکسرمختلف بھی، اورآخرمیں  پانچ نمازوں  کے  فرض ہونے  اورموسیٰ علیہ السلام کے  مشورے  سے  اس میں  تخفیف کابیان ہے ۔ [28]

یہ ضعیف روایت ہے ، اس کااندازبیاں  اوراس میں  بیان کردہ تفصیلات بھی اس کے  غیر مستند ہونے  کی غمازہیں  ، اسی لیے  حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   اس کے  راوی کی بابت لکھتے  ہیں

أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِیُّ قَالَ فِیهِ الْحَافِظُ أَبُو زُرْعَةَ:الرَّازِیُّ یَهِمُ فِی الْحَدِیثِ كَثِیرًا وَقَدْ ضَعَّفَهُ غَیْرُهُ أَیْضًا،  وَوَثَّقَهُ بَعْضُهُمْ،  وَالْأَظْهَرُ أَنَّهُ سَیِّئُ الْحِفْظِ فَفِیمَا تَفَرَّدَ بِهِ نَظَرٌ. وَهَذَا الْحَدِیثُ فِی بَعْضِ أَلْفَاظِهِ غَرَابَةٌ وَنَكَارَةٌ شَدِیدَةٌ

میں  کہتاہوں  ابوجعفرالرازی اس کے  بارے  میں  حافظ ابوزرعہ نے  کہاوہ حدیث میں  بہت وہم کرتاہے ، ان کے  علاوہ اورلوگوں  نے  بھی اسے  ضعیف قرار دیا ہے  اور بعض نے  اس کی توثیق کی ہے  اورزیادہ واضح بات یہ ہے  کہ وہ برے  حافظے  والاہے ، پس اس کی وہ روایات جس میں  وہ متفردہے مشکوک ہیں  اوراس کی اس حدیث کے  بعض الفاظ میں  بھی غرابت اورسخت نکارت ہے ۔ [29]

سودخوروں  کی ایک اورمثال:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَتَیْتُ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُیُوتِ،  فِیهَا الْحَیَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ،  فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ یَا جِبْرَائِیلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا جس رات مجھے  معراج ہوامیں  کچھ لوگوں  پرسے  گزراجن کے  پیٹ مکانوں  کے  مانند تھے  ، ان میں  سانپ تھے  جوان کے  پیٹوں  کے  باہرسے  نظرآتے  تھے میں  نے  پوچھااے جبریل!یہ کون لوگ ہیں  ؟ انہوں  نے  کہایہ سودخورہیں  ۔ [30]

 صدقے  کے  مقابلے  میں  قرض کی فضیلت:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا،  وَالْقَرْضُ بِثَمَانِیَةَ عَشَرَ،  فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ یَسْأَلُ وَعِنْدَهُ،  وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا یَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ

انس رضی   اللہ   عنہ سے  منقول ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجس رات مجھے  معراج ہوا میں  نے  جنت کے  دروازوں  پریہ لکھاہوادیکھاکہ صدقہ کااجردس گناہے  اورقرض کااٹھارہ گنا،  میں  نے  کہااے  جبرئیل علیہ السلام سے  کہاقرض کااجرصدقے  سے  بھی بڑھ کرہے ، اس کا کیاسبب ہے ؟انہوں  نے  کہااس کی وجہ یہ ہے  کہ سائل ہوتے  ہوئے  بھی سوال کرلیتاہے  اورقرض طلب کرنے  والااسی وقت قرض مانگتاہے  جب وہ حاجت مندہوتاہے  ، اس کے  پاس کچھ نہیں  ہوتااس لیے  قرض دینے  کی فضیلت صدقے  سے  بھی زیادہ ہے ۔ [31]

امام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   ، ابن معین رحمہ   اللہ   ، امام ابوداود رحمہ   اللہ   ، امام نسائی رحمہ   اللہ   ، ابوزرعہ رحمہ   اللہ   اورامام دارقطنی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں

فی إسناده خالد بن یزید ضعفه

اس کی سندمیں  خالدبن یزیدضعیف ہے ،

حكم الألبانی:ضعیف جدا

شیخ البانی کہتے  ہیں  یہ بہت کمزورروایت ہے ۔

انہی مشاہدات کے  سلسلہ میں  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے  فرشتے (مالک) سے  ہوئی جونہایت ترش روئی سے  ملا،

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  أَنَّهُ قَالَ: تَلَقَّتْنِی الْمَلَائِكَةُ حِینَ دَخَلْتُ السَّمَاءَ الدُّنْیَا،  فَلَمْ یَلْقَنِی مَلَكٌ إلَّا ضَاحِكًا مُسْتَبْشِرًا،  یَقُولُ خَیْرًا وَیَدْعُو بِهِ،  حَتَّى لَقِیَنِی مَلَكٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ،  فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا،  وَدَعَا بِمِثْلِ مَا دَعَوْا بِهِ،  إلَّا أَنَّهُ لَمْ یَضْحَكْ،  وَلَمْ أَرَ مِنْهُ مِنْ الْبِشْرِ مِثْلَ مَا رَأَیْتُ مِنْ غَیْرِهِ،  فَقُلْتُ لِجِبْرِیلَ: یَا جِبْرِیلُ مَنْ هَذَا الْمَلَكُ الَّذِی قَالَ لِی كَمَا قَالَتْ الْمَلَائِكَةُ وَلَمْ یَضْحَكْ (إلَیَّ) ،  وَلَمْ أَرَ مِنْهُ مِنْ الْبِشْرِ مِثْلَ الَّذِی رَأَیْتُ مِنْهُمْ ؟

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  آسمان دنیاپرپہنچاجوفرشتہ مجھ سے  ملاقات کوآتاتھاوہ خندہ پیشانی اوربشاش چہروں  کے  ساتھ ملا ، اورکلمات دعاوخیروبرکت زبان پرجاری کرتاتھایہاں  تک کہ ایک ایسافرشتہ آیاجس نے  اورفرشتوں  کی طرح ملاقات کی اوردعابھی دی مگرنہ ہنستا تھا اور نہ اس کی پیشانی سے  بشاشت کے  آثارپائے  جاتے  تھے ، میں  نے  جبرائیل سے  کہااے  جبرئیل! یہ کون فرشتہ ہے  جونہ ہنستاہے  اورنہ اس کے  چہرہ سے  خوشی کے  آثار محسوس ہوتے  ہیں  ،

قَالَ: فَقَالَ لِی جِبْرِیلُ: أَمَا إنَّهُ لَوْ ضَحِكَ إلَى أَحَدٍ كَانَ قَبْلَكَ،  أَوْ كَانَ ضَاحِكًا إلَى أَحَدٍ بَعْدَكَ،  لَضَحِكَ إلَیْكَ،  وَلَكِنَّهُ لَا یَضْحَكُ،  هَذَا مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ لِجِبْرِیلَ،  وَهُوَ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى بِالْمَكَانِ الَّذِی وُصِفَ لَكُمْ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِینٍ : أَلَا تَأْمُرُهُ أَنْ یُرِیَنِی النَّارَ؟ فَقَالَ:بَلَى،  یَا مَالِكُ،  أَرِ مُحَمَّدًا النَّارَ. قَالَ: فَكَشَفَ عَنْهَا غِطَاءَهَا،  فَفَارَتْ وَارْتَفَعَتْ،  حَتَّى ظَنَنْتُ لَتَأْخُذَنَّ مَا أَرَى.

جبرائیل علیہ السلام نے  مجھے  جواب دیا اگر یہ فرشتہ آپ سے  پہلے  کسی کے  ساتھ ہنستاہوتاتوآپ کے  ساتھ بھی ہنستا، یہ توکبھی ہنساہی نہیں  ، یہ تودورخ کادروغہ ہے ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم فرماتے  ہیں  میں  نے  جبرائیل سے  کہا اور جبرائیل کا   اللہ   کے  ہاں  جومرتبہ ہے  اس سے  تم واقف ہوکہ ہرایک فرشتہ اس کی اطاعت کرتاہے میں  نے  کہااے  جبرائیل !تم مالک سے  کہوکہ مجھے  دوزخ کی سیرکرادے ،  جبرئیل علیہ السلام نے  کہابہترہے ، اوردروغہ جہنم سے  کہاے  مالک! محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کودوزخ کی سیرکرادو،  فرمایاپس دروغہ جہنم مالک نے  جہنم پرسے  ڈھکنااٹھایاجس کے  اٹھاتے  ہی اس کے  شعلے  بلندہوئے  اورمیں  نے  خیال کیاکہ جہاں  تک میری نظرجاتی ہے  ہرچیزکویہ جلادے  گی۔  [32]

ثُمَّ انْحَدَرَ،  فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِیلَ: مَا لِی لَمْ آتِ عَلَى سَمَاءٍ إِلَّا رَحَّبُوا بِی وَضَحِكُوا إِلَیَّ،  غَیْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ،  فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ فَرَدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ فَرَحَّبَ بِی وَلَمْ یَضْحَكْ إِلَیَّ

پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نیچے  اترے  تورسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبریل علیہ السلام سے  کہاجس آسمان پر جوبھی مجھے  ملااس نے  ہنس کرمیرااستقبال کیااورخوش آمدیدکہاسوائے  ایک آدمی کے ، میں  نے  اسے  سلام کیااس نے  سلام کاجواب دیا، مجھے  خوش آمدیدکہالیکن مسکرا کراستقبال نہیں  کیا

قَالَ: یَا مُحَمَّدُ،  ذَاكَ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ لَمْ یَضْحَكْ مُنْذُ خُلِقَ وَلَوْ ضَحِكَ إِلَى أَحَدٍ لَضَحِكِ إِلَیْكَ

جبریل علیہ السلام نے  کہااے  محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )یہ جہنم کادروغہ (مالک) ہے  یہ جب سے  پیداہواہے  ہنسا نہیں  ہے اگریہ کسی کے  سامنے  ہنساہوتا تویقیناً آپ کے  سامنے  بھی ہنستا۔ [33]

ان تمام مشاہدات کاذکرسب روایات میں  یکجانہیں  آیاہے بلکہ مختلف مشاہدات کا ذکر متفرق طور پرمختلف احادیث میں  واردہواہے  ، ان سب کے  حوالہ جات یکجاکردیئے  گئے  ہیں  ۔

رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلَّم فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَهُوَ جَالِسٌ وَاجِمٌ.فَقَالَ لَهُ: هَلْ مِنْ خَبَرٍ؟ فَقَالَ نَعَمْ! فَقَالَ: وَمَا هُوَ؟ فَقَالَ إِنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَةَ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ.قَالَ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ؟ قَالَ نَعَمْ! قَالَ أَرَأَیْتَ إِنْ دَعَوْتُ قَوْمَكَ لَكَ لِتُخْبِرَهُمْ أَتُخْبِرُهُمْ بِمَا أَخْبَرْتَنِی بِهِ؟قَالَ: نَعَمْ !

دوسرے  دن رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم حرم کعبہ میں  چنددوسرے  مسلمانوں  کے  ساتھ تشریف فرماتھے  تواتفاقاً(امت کے فرعون)ابوجہل سے  آمناسامناہوگیااس نے  تمسخرانہ انداز میں  کہاکوئی تازہ خبرہے ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاہاں  ، اس نے  پوچھافرمائے کیاخبرہے  ؟ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  گزشتہ شب مکہ سے  بیت المقدس تک ہوآیا ہوں  ،  (تو ابوجہل کامنہ کھلے  کاکھلے  رہ گیا)کہنے  لگاراتوں  رات بیت المقدس کی طرف، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا ہاں  !(ابوجہل نے  فوراًآپ کی تکذیب نہ کی کیونکہ اس نے  سوچاکہیں  ایسا نہ ہوکہ وہ لوگوں  کوآپ کی یہ بات بتائے  اورآپ اس کاانکارکردیں  )اس نے  اس لئے  اس نے  کہااگرآپ کی قوم کے  لوگوں  کویہاں  بلاؤں  توکیاآپ ان سے  بھی یہ واقعہ بیان کریں  گے  جومجھ سے  بیان کیاہے ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایابیشک،

فقال أبو جهل: هیا معشر قریش وقد اجتمعوا مِنْ أَنْدِیَتِهِمْ فَقَالَ أَخْبِرْ قَوْمَكَ بِمَا أَخْبَرْتَنِی بِهِ،  فَقَصَّ عَلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى وَأَنَّهُ جَاءَ بَیْتَ الْمَقْدِسِ هَذِهِ اللَّیْلَةَ وَصَلَّى فِیهِ،

چنانچہ ابوجہل نے  پکارپکارکرکہا اے  گروہ قریش خبرسننے  کے  لئے  جمع ہوجاؤجب لوگ جمع ہوگئے  تو کہنے  لگا جو آپ نے  مجھے  بتلایاہے  اب سب لوگوں  کے  سامنے  دہرائیں  ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  بغیرکسی پس وپیش کے  تمام واقعہ من وعن سب کے  سامنے  دہرادیاکہ آپ راتوں  رات بیت المقدس گئے  اوروہاں  نمازپڑھی۔ [34]

اہل مکہ کوتوآپ کاتمسخراڑانے  کاموقعہ چاہیے  تھا

فَمِنْ بَیْنِ مُصَفِّقٍ،  وَمِنْ بَیْنِ وَاضِعٍ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ مُتَعَجِّبًا لِلْكَذِبِ

چنانچہ کوئی تومذاق میں  تالیاں  پیٹنے  لگااورکوئی تعجب سے  اپنے  ماتھے پرہاتھ مارنے  لگااورسخت حیرت کے  ساتھ انہوں  نے  بالاتفاق آپ کوجھوٹاسمجھا۔ [35]

کفارمکہ اچھی طرح جانتے  تھے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم بیت المقدس جو مکہ سے  چالیس دن کے  فاصلے  پرہے  کبھی تشریف نہیں  لے  گئے  تھے اس لئے کچھ دیرکے  بعدکہنے  لگے  اچھاتم وہاں  کی کیفیت اورجونشانات ہم پوچھیں  بتا سکتے  ہو؟ان میں  وہ لوگ بھی تھے  جوبیت المقدس ہوآئے  تھے  اوروہاں  کے  چپے  چپے  سے  واقف تھے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاپوچھوکیاپوچھتے  ہو؟

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلَّم: لَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی الْحِجْرِ وَقُرَیْشٌ تَسْأَلُنِی عَنْ مَسْرَایَ فَسَأَلُونِی عَنْ أَشْیَاءَ مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَكُرِبْتُ كَرْبًا مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، قَالَ:فَرَفَعَهُ اللهُ لِی أَنْظُرُ إِلَیْهِ،  مَا یَسْأَلُونِی عَنْ شَیْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  حجریاحطیم میں  کھڑاہو گیا اورقریش مجھ سے  معراج کاحال دریافت کرنے  لگے ، انہوں  نے  بیت المقدس کے  متعلق کئی چیزوں  کے  بارے  میں  دریافت کیا (بعض اوصاف یادنہ رہنے  کی وجہ سے )میں  بیان نہ کرسکا، مجھے ان سوالات سے  اتناصدمہ ہواکہ ایسا صدمہ پہلے  کبھی نہیں  پہنچا تھا اس وقت   اللہ   تعالیٰ نے  بیت المقدس کواٹھا کر میرے  سامنے  کردیامیں  اسے  دیکھتا جاتا تھااور جوسوال وہ پوچھتے  تھے انکاجواب دیتا جاتا تھا۔ [36]

فَقَالَ الْقَوْمُ: أَمَّا النَّعْتُ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَصَابَ

آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ان نشانات کے  بتلانے  کے  بعدسب کہنے  لگے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اوصاف توٹھیک ٹھیک بتائے  ہیں    اللہ   کی قسم !ایک بات بھی غلط بیان نہیں  کی ۔ [37]


کیارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے    اللہ   تعالیٰ کودیکھاتھا

 ابوذر رضی   اللہ   عنہ کی روایت :

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،  قَالَ:سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  یَا رَسُولَ اللَّهِ،  هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟قَالَ:نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ

ابوذر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  پوچھااے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! کیاآپ نے  اپنے  پروردگار کودیکھا؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاوہ تونورہے میں  اس کوکیسے  دیکھتا۔ [38]

 ابوموسیٰ اشعری کی روایت :

عَنْ أَبِی مُوسَى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ حِجَابُهُ النُّورُ.وَفِی رِوَایَةٍ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ .

ابوموسیٰ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس کاحجاب بھی نورہے ، اورروایت میں  ہے  اگروہ اسے  کھول دے  تواس کے  چہرہ کی شعاعیں  جہاں  تک نظرجاتی ہے  وہاں  تک کی ہرچیزکوجلاکربھسم کر دیں  ۔  [39]

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ کی روایت :عطاء بن ابی رباح نے  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى کامطلب پوچھا قَالَ:رَأَى جِبْرِیلَ توانہوں  نے  جواب دیا رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ [40]

 عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما کی روایات :

زِرًّا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،  {فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى}[41]،  قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ رَأَى جِبْرِیلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

زربن جیش کی روایت ہے  کہ عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما نے ’’یہاں  تک کہ دوکمانوں  کے  برابریااس سے  کچھ کم فاصلہ رہ گیا، تب اس نے    اللہ   کے بندے  کووحی پہنچائی جووحی بھی اسے  پہنچانی تھی۔ ‘‘ کی تفسیریہ بیان فرمائی رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبرائیل علیہ السلام کواس صورت میں  دیکھا کہ ان کے  چھ سوبازوتھے ۔  [42]

اورصحیح مسلم کی دوسری روایت میں  مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى اور لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى کی بھی یہی تفسیرزربن جیش نے  عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  نقل کی ہے ، ح۳۲۷۷۔

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما کی یہ تفسیرزربن جیش کے  علاوہ عبدالرحمٰن بن یزیداورابووائل کے  واسطہ سے  بھی منقول ہوئی ہے ۔  [43]

عَنْ زِرٍّ،  عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،  أَنَّهُ قَالَ فِی هَذِهِ الْآیَةِ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} [44] ،  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُ جِبْرِیلَ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى،  عَلَیْهِ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

اس کے  علاوہ زربن جیش کی دوروایتیں  اوربھی ہیں  جن میں  عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما ’’اورایک مرتبہ پھراس نے  سدرة المنتٰی کے  پاس اس کواترتے  دیکھا۔ ‘‘کی تفسیربیان کرتے  ہوئے  فرماتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکہ میں  نے  جبریل علیہ السلام کوسدرة المنتہیٰ کے  پاس دیکھاان کے  چھ سوبازوتھے ۔ [45]

شَقِیقَ بْنَ سَلَمَةَ،  یَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ،  یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رَأَیْتُ جِبْرِیلَ عَلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى،  وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

اسی مضمون کی روایت شفیق بن سلمہ سے  بھی ہے  جس میں  وہ کہتے  ہیں  کہ میں  نے  عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما کی زبان سے  یہ سناکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  خودیہ فرمایاکہ میں  نے  جبریل علیہ السلام کواس صورت میں  سدرة المنتہیٰ پردیکھاتھاان کے  چھ سوبازوتھے ۔ [46]

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما کی روایات:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى}[47] ،  قَالَ:رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِقَلْبِهِ مَرَّتَیْنِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  ’’نظرنے  جوکچھ دیکھا، دل نے  اس میں  جھوٹ نہ ملایا۔ ‘‘ کامطلب پوچھاگیاتوانہوں  نے  کہارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کو دو مرتبہ اپنے  دل سے  دیکھا۔  [48]

عَنْ عِكْرِمَةَ،  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  قَالَ:أَتَعْجَبُونَ أَنْ یَكُونَ الْخُلَّةُ لِإِبْرَاهِیمَ،  وَالْكَلَامُ لِمُوسَى،  وَالرُّؤْیَةُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عکرمہ رضی   اللہ   عنہ کی روایت ہے  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما نے  فرمایاکیاتمہیں  اس بات پرتعجب ہے  کہ ابراہیم علیہ السلام کو  اللہ   نے  خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے  سرفراز کیا اور محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کورؤیت کا شرف بخشا؟۔ [49]

هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِیِّ

امام حاکم رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ روایت بخاری کی شرط پرصحیح ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  ایک روایت ہے  جس میں  وہ فرماتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کودیکھاتھا۔ [50]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: رَآهُ مَرَّتَیْنِ

دوسری رؤیت میں  فرماتے  ہیں  دومرتبہ دیکھاتھا۔ [51]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  {مَا كَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَأَى} قَالَ: رَآهُ بِقَلْبِهِ.

جبکہ تیسری رؤیت میں  کہتے  ہیں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے    اللہ   کودل سے  دیکھا تھا۔ [52]

إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْیَتَهُ وَكَلاَمَهُ بَیْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَى،  فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَیْنِ،  وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَیْنِ.قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ،  فَقُلْتُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟

شعبی رحمہ   اللہ   کی روایت ہے  کہ ابن عباس رضی   اللہ   عنہ نے  ایک مجلس میں  فرمایا  اللہ   نے  اپنی رویت اوراپنے  کلام کو محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم اورموسیٰ علیہ السلام کے  درمیان تقسیم کردیاتھا،  موسیٰ علیہ السلام سے  اس نے  دومرتبہ کلام کیا اور محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دومرتبہ اس کودیکھا، ابن عباس رضی   اللہ   عنہ کی یہ گفتگوسن کرمسروق رحمہ   اللہ   ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا کے  پاس گئے  تھے  اور پوچھا تھا کیا محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کو دیکھا تھا۔ [53]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رَأَیْتُ رَبِّی تَبَارَكَ وَتَعَالَى

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما کی ایک روایت یہ ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  نے  اپنے  رب تبارک وتعالی کودیکھا۔ [54]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله علیه وسلم قال:أَتَانِی رَبِّی اللَّیْلَةَ فِی أَحْسَنِ صُورَةٍ أَحْسَبُهُ یَعْنِی فِی النَّوْمِ

دوسری روایت میں  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما کہتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاآج رات میرارب بہترین صورت میں  میرے  پاس آیامیں  سمجھتاہوں  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  اس ارشادکامطلب یہ تھاکہ خواب میں  آپ نے    اللہ   تعالیٰ کو دیکھا ۔ [55]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ،  عَنْ بَعْضِ،  أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْنَا یَا نَبِیَّ اللَّهِ: هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: لَمْ أَرَهُ بِعَیْنَیَّ،  وَرَأَیْتُهُ بِفُؤَادِی مَرَّتَیْنِ

محمدبن کعب القرظی کہتے  ہیں  بعض صحابہ رضی   اللہ   عنہم نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  پوچھااے    اللہ   کے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! کیاآپ نے  اپنے  رب کودیکھاہے  ؟آپ نے  جواب فرمایامیں  نے  ان کوآنکھ سے  نہیں  بلکہ دومرتبہ اپنے  دل سے  دیکھا۔ [56]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  رَأَى رَبَّهُ مَرَّتَیْنِ: مُرَّةً بِبَصَرِهِ،  وَمَرَّةً بِفُؤَادِهِ

ایک اورروایت میں  ابن عباس رضی   اللہ   عنہ نے  کہارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کودومرتبہ دیکھاایک مرتبہ آنکھوں  سے  اوردوسری مرتبہ دل سے ۔ [57]

وَفِی رِوَایَةِ عَنْهُ أَنَّهُ أَطْلَقَ الرُّؤْیَةَ،  وَهِیَ مَحْمُولَةٌ عَلَى الْمُقَیَّدَةِ بِالْفُؤَادِ. وَمَنْ رَوَى عَنْهُ بِالْبَصَرِ فَقَدْ أَغْرَبَ،  فَإِنَّهُ لَا یَصِحُّ فِی ذَلِكَ شَیْءٌ عَنِ الصَّحَابَةِ،  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ

حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مطلق رؤیت کی جوروایت مروی ہے  اسے  اس روایت پرمحمول کیاجائے  گاجس میں  دل کے  ساتھ دیکھنے  کی تخصیص ہے  اور جس نے  ان سے  آنکھ سے  دیکھنے  کی روایت کی ہے  اس نے  بڑی عجیب بات کی ہے  اس لیے  کہ صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم سے  اس کی بابت کوئی چیزصحیح ثابت نہیں  ۔ [58]

ام المومنین عائشہ رضی   اللہ   عنہا صدیقہ کی روایات :

عَنْ مَسْرُوقٍ،  قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: یَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِی مِمَّا قُلْتَ،  أَیْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ،  مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ : مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ،  ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ} [59]،  {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [60].قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَیْنَ قَوْلُهُ؟ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى}[61] قَالَتْ:إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِیلُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَأْتِیهِ فِی صُورَةِ الرِّجَالِ،  وَإِنَّهُ أَتَاهُ فِی هَذِهِ الْمَرَّةِ فِی صُورَتِهِ الَّتِی هِیَ صُورَتُهُ فَسَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ

مسروق رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  میں  نے  عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  دریافت کیااماں  جان !کیامحمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  (معراج کے  موقعہ پر)اپنے  رب کودیکھاتھا؟ عائشہ رضی   اللہ   عنہا نے  جواب دیاتمہاری اس بات سے  تومیرے  رونگٹے  کھڑے  ہوگئے  تم یہ کیسے  بھول گئے  کہ تین باتیں  ایسی ہیں  جن کااگرکوئی شخص دعویٰ کرے  توجھوٹا دعویٰ کرے  گا،  جوشخص تم سے  یہ کہے  کہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کودیکھاتھاوہ جھوٹ کہتاہے ، پھریہ آیتیں  تلاوت فرمائیں  ’’نگاہیں  اس کو نہیں  پا سکتیں  اور وہ نگاہوں  کو پالیتا ہے  ،  وہ نہایت باریک ہیں  اور باخبر ہے ۔ ‘‘’’کسی بشرکایہ مقام نہیں  کہ   اللہ   سے  کلام کرے  مگر یاتووحی کے  طورپریاپردے  کے  پیچھے  سے یاپھروہ کوئی پیغام بر(فرشتہ)بھیجتاہے  اوروہ اس کے  حکم سے  جوکچھ وہ چاہتاہے  وحی کرتاہے  ۔ ‘‘اس کے  بعدانہوں  نے  فرمایالیکن رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جبرائیل علیہ السلام کودومرتبہ ان کی اصلی صورت میں  دیکھاتھا، ام المومنین عائشہ رضی   اللہ   عنہا کی بات سن کر مسروق رحمہ   اللہ   نے  کہاپھراس قول کا کیا مطلب ہے ’’پھروہ قریب آیااوراوپرمعلق ہوگیایہاں  تک کہ دوکمانوں  کے  برابریااس سے  کچھ کم فاصلہ رہ گیاتب اس نے    اللہ   کے  بندے  کووحی پہنچائی جووحی بھی اسے  پہنچانی تھی۔ ‘‘ نے اس پر عائشہ رضی   اللہ   عنہا نے  جواب دیااس سے  مرادجبرائیل ہیں  وہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  سامنے  ہمیشہ انسانی صورت میں  آیاکرتے  تھے  مگراس موقع پروہ اپنی اصلی شکل میں  آپ کے  پاس آئے  اورساراافق ان سے  بھر گیا۔ [62]

قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْیَةَ،  قَالَ: وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ،  فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ،  أَنْظِرِینِی،  وَلَا تُعْجِلِینِی،  أَلَمْ یَقُلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ} [63]{وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} [64]؟ فَقَالَتْ: أَنَا أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ جِبْرِیلُ،  لَمْ أَرَهُ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِی خُلِقَ عَلَیْهَا غَیْرَ هَاتَیْنِ الْمَرَّتَیْنِ،  رَأَیْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا نے  کہاجوشخص تم سے  یہ کہے  کہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  رب کودیکھاتھاوہ   اللہ   پربہت بڑاافتراکرتاہے  مسروق رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  میں  ٹیک لگائے  بیٹھاتھایہ بات سن کرمیں  اٹھ بیٹھا اور کہا ام المومنین جلدی نہ فرمائیں  کیا  اللہ   تعالیٰ نے  یہ نہیں  فرمایا’’اوراس نے  اسے  آسمان کے  کھلے  کناروں  پردیکھا ہے ۔ ‘‘ اور’’اوراس نے  اسے  دوسری مرتبہ دیکھا۔ ‘‘تو عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا نے  فرمایااس امت میں  سب سے  پہلے  میں  نے  ہی رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  اس معاملے  کودریافت کیاتھارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا وہ توجبریل علیہ السلام تھے  میں  نے  ان کواس اصلی صورت میں  جس پر  اللہ   نے  ان کو پیدا کیا ہے  ان سے  دو مواقع کے  سواکبھی نہیں  دیکھاان دوپر میں  نے  ان کو آسمان سے  اترتے  ہوئے  دیکھا اوران کی عظیم ہستی زمین وآسمان کے  درمیان ساری فضاپرچھائی ہوئی تھی،

فَقَالَتْ: أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللهَ یَقُولُ: {لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ} [65]،  أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللهَ یَقُولُ: {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُكَلِّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِإِذْنِهِ مَا یَشَاءُ إِنَّهُ عَلِیٌّ حَكِیمٌ} [66]؟، قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَیْئًا مِنْ كِتَابِ اللهِ،  فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْیَةَ،  وَاللهُ یَقُولُ: {یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ} [المائدة: 67]، قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ یُخْبِرُ بِمَا یَكُونُ فِی غَدٍ،  فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْیَةَ،  وَاللهُ یَقُولُ: {قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللهُ}[67]،

پھر عائشہ رضی   اللہ   عنہا نے  فرمایا اے  مسروق! کیا تو نے  نہیں  سناکہ   اللہ   نے  فرمایاہے ’’نگاہیں  اس کو نہیں  پاسکتیں  اوروہ نگاہوں  کوپا لیتا ہے وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے ۔ ‘‘علاوہ ازیں  کیاتونے  نہیں  سناکہ   اللہ   تعالیٰ فرماتاہے ’’کسی بشرکایہ مقام نہیں  کہ   اللہ   سے  کلام کرے  ، مگریاتووحی کے  طور پر یا پردے  کے  پیچھے  سے  یاپھروہ کوئی پیغام بر(فرشتہ)بھیجتاہے  اوروہ اس کے  حکم سے  جوکچھ وہ چاہتاہے  وحی کرتاہے  ۔ ‘‘عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا نے  فرمایا جوشخص یہ خیال کرے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے    اللہ   کی کتاب میں  سے  کچھ چھپالیا(یعنی اسے  بیان نہیں  فرمایا ) تو اس نے  بھی   اللہ   پربڑابہتان باندھا  اللہ   تعالیٰ فرماتاہے ’’اے  پیغمبر!جوکچھ تمہارے  رب کی طرف سے  تم پرنازل کیا گیا ہے  وہ لوگوں  تک پہنچادو اگرتم نے  ایسانہ کیاتواس کی پیغمبری کاحق ادا نہ کیا۔ ‘‘اورفرمایاجوشخص یہ خیال کرے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم آئندہ آنے  والے  کل کے  حالات کی خبردیتے  ہیں  تواس نے  بھی   اللہ   پربہتان باندھاحالانکہ   اللہ   تعالیٰ فرماتاہے ’’ان سے  کہو  اللہ   کے  سوا آسمانوں  اورزمین میں  کوئی غیب کاعلم نہیں  رکھتا اوروہ(تمہارے  معبودتویہ بھی)نہیں  جانتے  کہ کب وہ اٹھائے  جائیں  گے ۔ ‘‘[68]

محمدبن کعب القرظی کی روایت:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ،  عَنْ بَعْضِ،  أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْنَا یَا نَبِیَّ اللَّهِ: هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: لَمْ أَرَهُ بِعَیْنَیَّ،  وَرَأَیْتُهُ بِفُؤَادِی مَرَّتَیْنِ

محمدبن کعب القرظی کہتے  ہیں  بعض صحابہ رضی   اللہ   عنہم نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  پوچھااے    اللہ   کے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! کیاآپ نے  اپنے  رب کودیکھاہے  ؟آپ نے  جواب فرمایامیں  نے  ان کوآنکھ سے  نہیں  بلکہ دومرتبہ اپنے  دل سے  دیکھا۔ [69]

انس رضی   اللہ   عنہ کی روایت:

حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ المُنْتَهَى،  وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ العِزَّةِ،  فَتَدَلَّى حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى،  فَأَوْحَى اللَّهُ فِیمَا أَوْحَى إِلَیْهِ: خَمْسِینَ صَلاَةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ

انس رضی   اللہ   عنہ بن مالک کی ایک روایت شریک بن عبد  اللہ   کے  حوالہ سے  ہے  جس میں  یہ الفاظ ہیں  یہاں  تک کہ آپ کو سدرة المنتہیٰ پرلے  کرآئے  اورتب ا للہ رب العزت سے قریب ہوئے اوراتنے  قریب جیسے  کمان کے  دونوں  کنارے  یااس سے  بھی کم فاصلہ رہ گیا، پھر  اللہ   نے  اوردوسری باتوں  کے  ساتھ آپ کی امت پردن اوررات میں  پچاس نمازوں  کی وحی کی۔ [70]

اس روایت کی سند اورمضمون پرامام خطابی ، حافظ ابن حجر، ابن حزم اورحافظ عبدالحق الجمع بین الصحیین کے مولف نے اعتراض کیے ہیں ، اورسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ صریح قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید دوالگ الگ رؤایتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداء افق اعلیٰ پرہوئی تھی اورپھراس میں ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ، فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى کا معاملہ پیش آیا تھا اور دوسری سدرة المنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی لیکن یہ روایت ان دونوں رؤایتوں کوغلط ملط کرکے ایک بنا دیتی ہے ، اس لئے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بناپراس کو کسی طرح قبول ہی نہیں کیاجاسکتا ۔

ان سب روایات میں  سب سے  زیادہ وزنی روایتیں  عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا کی ہیں  کیونکہ ان دونوں  نے  بالاتفاق خودرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کاارشادبیان کیاہے  کہ ان دونوں  مواقع پرآپ نے    اللہ   تعالیٰ کونہیں  بلکہ جبریل علیہ السلام کودیکھا تھا اوریہ رؤایات قرآن مجید اورارشادات نبویہ سے  پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں  ، مزیدبرآں  ان کی تائید ابوذر رضی   اللہ   عنہ اور ابوموسیٰ اشعری کی روایت سے  بھی ہوتی ہے ۔

اس کے  برعکس عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  جوروایات ہیں  ان میں  سخت اضطراب پایاجاتاہے  کسی میں  دونوں  رؤایتوں  کوعینی کہتے  ہیں  ،  کسی میں  دونوں  کوقلبی قراردیتے  ہیں  ، کسی میں  ایک کوعینی اوردوسری کوقلبی بتاتے  ہیں  اورکسی میں  عینی رویت کی صاف صاف نفی کردیتے  ہیں  ، ان میں  سے  کوئی روایت بھی ایسی نہیں  ہے  جس میں  وہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کا اپنا کوئی ارشادنقل کررہے  ہوں  اورجہاں  انہوں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کاارشادنقل کیاہے  وہاں  اول تو قرآن مجیدکی بیان کردہ ان دونوں  رویتوں  میں  سے  کسی کابھی ذکرنہیں  ہے  اورمزیدبرآں  ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے  یہ معلوم ہوتی ہے  کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  کسی وقت بحالت بیداری نہیں  بلکہ خواب میں    اللہ   تعالیٰ کودیکھاتھا، اس لئے  درحقیقت ان آیات کی تفسیرمیں  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  منسوب روایات پراعتمادنہیں  کیا جاسکتا، اسی طرح محمدبن کعب کی روایت بھی اگرچہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کاایک ارشادنقل کرتی ہے  لیکن ان میں  ان صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم کے  ناموں  کی کوئی تصریح نہیں  ہے  جنہوں  نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  یہ بات سنی ، نیزان میں  سے  ایک میں  بتایاگیاہے  کہ نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  عینی رؤیت کی صاف صاف نفی فرمادی تھی۔

کیامعراج متعددمرتبہ ہوا

حَصَلَ الْوُقُوفُ عَلَى مَجْمُوعِ هَذِهِ الْأَحَادِیثِ صَحِیحِهَا وَحَسَنِهَا وَضَعِیفِهَا،  یَحْصُلُ مَضْمُونُ مَا اتَّفَقَتْ عَلَیْهِ مِنْ مِسْرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من مَكَّةَ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ،  وَأَنَّهُ مَرَّةٌ وَاحِدَةٌ،  وَإِنِ اخْتَلَفَتْ عِبَارَاتُ الرُّوَاةِ فِی أَدَائِهِ،  أَوْ زَادَ بَعْضُهُمْ فِیهِ أَوْ نَقَصَ مِنْهُ

حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  میں  نے  ان تمام احادیث کی واقفیت کے  بعدجن میں  صحیح بھی ہیں  ، حسن بھی ہیں  ، ضعیف بھی ہیں  کم ازکم اتناتوضرورمعلوم ہو گیا کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کامکہ مکرمہ سے  بیت المقدس تک کے  جاناہوااوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواہے ،  گوراویوں  کی عبارتیں  اس باب میں  مختلف الفاظ سے  ہیں  ، گوان میں  کمی بیشی بھی ہے ( یعنی انہوں  نے  تعددمعراج کے  قول کوبالکل لغواوربے  سنداورخلاف سیاق احادیث ٹھہرایاہے )۔ [71]

عند جمهور المحدثین والفقهاء والمتكلمین وتواردت علیه ظواهر الأخبار الصحیحة،  ولا ینبغی العدول عنه

علامہ زرقانی رحمہ   اللہ   نے  تصریح کی ہے یہی جمہور محدثین ،  متکلمین اور فقہا کی رائے  ہے  اورصحیح رؤایات کاتواتربھی بظاہراسی پردلالت کرتاہے  اوراس سے  عدول نہیں  کرنا چاہیے  ۔ [72]

کیامعراج ایک خواب تھا

بعض لوگ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  جسمانی معراج پریقین نہیں  رکھتے  اوراپنے  یقین کی بنیاد امیرمعاویہ رضی   اللہ   عنہ اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا کی طرف منسوب ضعیف ،  منقطع روایات پر رکھتے  ہیں  امیر معاویہ رضی   اللہ   عنہ کی جانب جو روایت منسوب ہے  اسے  ابن ہشام نے  زیادالبکالی کے  واسطہ سے  محمدبن اسحاق سے  نقل کیاہے ۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِی یَعْقُوبُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ الْأَخْنَسِ: أَنَّ مُعَاوِیَةَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ،  كَانَ إذَا سُئِلَ عَنْ مَسْرَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: كَانَتْ رُؤْیَا مِنْ اللَّهِ تَعَالَى صَادِقَةً.

محمدبن اسحاق سے  مروی ہے  کہ مجھ سے  یعقوب بن عتبة بن المغیرہ نے  بیان کیاکہ معاویہ رضی   اللہ   عنہ بن ابی سفیان سے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  معراج کے  سلسلہ میں  دریافت کیاگیا آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا یہ   اللہ   کی جانب سے  ایک سچاخواب تھا۔ [73]

چنددلائل:

اس روایت کومحمدبن اسحاق کے  سوااورکوئی روایت نہیں  کرتا، کوفہ کاباشندہ زیادبن عبد  اللہ   بن الطفیل البکالی جواکثرمحدثین کے  نزدیک ضعیف ہے ،

قال ابن معین: لا بأس به فی المغازى،  وأما فی غیرها فلا، قال النسائی: ضعیف وقال مرة: لیس بالقوی، قال أبو حاتم: لا یحتج به،  قال ابن المدینی: ضعیف، قال ابن سعد: كان عندهم ضعیفاً،  وقد رووا عنه،  قال صالح جزرة: هو فی نفسه ضعیف،  لكن هو من أثبتهم فی المغازى، قال عبد الله بن إدریس: ما أحد أثبت فی ابن إسحاق من زیاد البكائى

یحییٰ بن معین کہتے  ہیں  غزوات کی روایت نقل کرے  توکوئی حرج نہیں  لیکن بقیہ روایات میں  ہرگزبھی قابل قبول نہیں  امام نسائی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ضعیف ہے  قوی نہیں  ، ابوحاتم کاقول ہے  کہ یہ حجت نہیں  ، ابن المدینی کہتے  ہیں  ضعیف ہے ، ابن سعدکہتے  ہیں  کہ اگرچہ محدثین نے  اس سے  روایات لی ہے  لیکن محدثین کے  نزدیک یہ حجت نہیں  ، صالح جزرہ کاکہناہے  کہ فی الذات تو ضعیف ہے  لیکن مغازی کی روایات میں  معتبرہے ، عبد  اللہ   بن ادریس کہتے  ہیں  محمدبن اسحاق کے  اقوال اورروایات نقل کرنے  میں  اس سے  زیادہ قابل اعتبارکوئی نہیں  ۔ [74]

تبع تابعین میں  یعقوب بن عتبة المغیرة ۱۳۸ ھ میں  انتقال کرچکے  تھے انہوں  نے  امیرمعاویہ رضی   اللہ   عنہ کونہیں  دیکھااورانہوں  نے  یہ روایت کس سے  لی ہے  بیان نہیں  کیا،  اس روایت میں  ایک راوی غائب ہے  اسلئے  یہ منقطع روایت ہے جوقابل قبول نہیں  ہوتی۔

دوسری روایت عائشہ رضی   اللہ   عنہا کی طرف منسوب کی جاتی ہے ۔

حدثنا ابن حمید،  قال: ثنا سلمة،  عن محمد،  قال:وَحَدَّثَنِی بَعْضُ آلِ أَبِی بَكْرٍ: أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَقُولُ: مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَلَكِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِرُوحِهِ.

ہم سے  ابن حمیدنے  بیان کیاہے  ، ان سے  سلمہ نے  وہ محمدسے  نقل کرتے  ہیں  ،  محمدکہتے  ہیں  کہ مجھ سے  سیدنا ابوبکر کی اولادمیں  سے  کسی نے  بیان کیاکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا کہاکرتی تھیں  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں  ہواتھابلکہ معراج آپ کوآپ کی روح کے  ذریعہ ہوئی۔ [75]

چنددلائل:

اس روایت میں  بھی محمدبن اسحاق اور عائشہ رضی   اللہ   عنہا کے  درمیان ایک راوی (یعنی خاندان ابی بکرکے  ایک شخص کانام ونشان مذکورنہیں  ، راوی مجہول ہے  اس طرح یہ روایت غریب مجہول ہے ) غائب ہے ، اس لئے  یہ روایت بھی پایہ صحت سے  فروترہے ۔  (سیرت النبی ۴۳۳؍۳)

مورخ سلمتہ الابرش :

سلمة بن الْفَضْلِ الأبرش الأَنْصارِیّ ،  أَبُو عَبْد اللَّهِ الأزرق الرازی قاضی الری،  ضعفه ابن راهویه، قال الْبُخَارِیّ: عنده مناكیر ، وَقَال النَّسَائی : ضعیف،  وقال ابن المدینی: ما خرجنا من الرى حتى رمینا بحدیث سلمة، ابن معین،  قال: سلمة الابرش رازى یتشیع، وقال أبو حاتم: لا یحتج به، وقال أبو زرعة: كان أهل الرى لا یرغبون فیه لسوء رأیه وظلم فیه

اس کاپورانام سلمة بن الفضل ہے  ، ابرش کے  لقب سے  مشہورتھا،  اس کی کنیت ابوعبد  اللہ   ارزق تھی ، رازی کی نسبت سے  مشہورہے  ، یہ رے  کاقاضی تھا ،  محمدبن اسحاق کی مغازی کایہ ایک راوی ہے ،  امام اسحٰق بن راہویہ کہتے  ہیں  یہ ضعیف ہے ، امام بخاری رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اس کی بعض احادیث منکرہوتی ہیں  ، امام نسائی رحمہ   اللہ   کاقول ہے  کہ یہ ضعیف ہے ،  علی بن المدینی کابیان ہے  کہ ہم جس وقت رے  سے  واپس ہوئے  تھے  توہم نے  ان روایات کوجواس سے  سن کرلکھی تھیں  لغواورجھوٹ سمجھ کرزمین پرپھینک دیاتھا، یحییٰ بن معین کہتے  ہیں  کہ یہ ابرش رازی شیعہ تھا، امام ابوحاتم رازی فرماتے  ہیں  یہ قابل حجت نہیں  ، امام ابوزرعہ رازی کاارشادہے  کہ رے  کے  باشندے  اسے  قطعاًپسندنہ کرتے  تھے  کیونکہ اس کے  خیالات بہت گندے  تھے  اگرچہ نمازیں  بہت خشوع وخضوع سے  پڑھتا، قاضی ہونے  سے  قبل بچوں  کو پڑھاتاتھا،  یہ ۱۹۱ ھ میں  فوت ہوا[76]

مورخ محمدبن حمیدرازی :

عن یعقوب القمى، قال یعقوب بن شیبة: كثیر المناكیر، وقال البخاری: فیه نظر.وكذبه أبو زرعة.وقال فضلك الرازی: عندی عن ابن حمید خمسون ألف حدیث،  ولا أحدث عنه بحرف، وقال صالح جزرة: كنانتهم ابن حمید فی كل شئ یحدثنا ما رأیت أجرأ على الله منه،  كان یأخذ أحادیث الناس فیقلب بعضه على بعض، وقال النسائی: لیس بثقة.وقال صالح جزرة: ما رأیت أحذق بالكذب من ابن حمید ومن ابن الشاذكونى، فضلك الرازی یقول: دخلت على محمد بن حمید وهو یركب الأسانید على المتون

اس کاپورانام محمدبن حمیدہے ، رے  کاباشندہ تھا، یعقوب قمی(جوشیعہ کتابوں  کامصنف ہے )وغیرہ سے  روایات نقل کرتاہے  ، حفظ الروایات سمجھاجاتاہے  ضعیف ہے ، یعقوب بن شیبہ کہتے  ہیں  یہ بہت منکرروایات بیان کرتاہے  ، امام بخاری رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اس پراعتراض ہے ، اس کے  ہم وطن امام ابوزرعہ رازی رحمہ   اللہ   کاکہناہے  کہ کذاب ہے ، فضلک الرازی فرماتے  ہیں  کہ میرے  پاس اس کی پچاس ہزارروایات ہیں  جن میں  سے  ایک بھی بیان کرنابھی پسندنہیں  کرتا، صالح جزرہ کاقول ہے  کہ ہم لوگ اس محمدبن حمیدکوہربات میں  جھوٹاسمجھتے  ہیں  میں  نے  اس شخص سے  زیادہ   اللہ   سے  بے  خوف کوئی انسان نہیں  دیکھا، یہ لوگوں  سے  احادیث وروایات سنتااوران میں  ردوبدل کرتا رہتاتھا، امام نسائی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ضعیف ہے ، صالح جزرہ کاقول ہے  کہ میں  نے  اپنی زندگی میں  دوشخصوں  سے  زیادہ جھوٹ کا ماہرکوئی نہیں  دیکھاایک محمدبن حمیدمورخ اوردوسراابن الشاذ کوفی،  امام فضلک الرازی فرماتے  ہیں  کہ میں  اس محمدبن حمیدکے  پاس گیاتویہ سنی سنائی کہانیوں  کی سندات وضع کررہاتھا۔ [77]

اس لئے  یہ باورکرناکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوخواب یاروح کے  ذریعہ معراج کرائی گئی تھی کسی طورپرثابت نہیں  ہوتابلکہ ان ضعیف روایات کے  زریعہ سے  جسمانی معراج کی حیثیت پرکاری ضرب لگانے  کی فضول کوشش کی گئی ہے ۔


کیامعراج ام ہانی رضی   اللہ   عنہا کے  گھرسے  ہوا

قرآن مجیدمیں  معراج کے  متعلق فرمایاگیاہے

 سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا۔ ۔ ۔ [78]

ترجمہ:پاک ہے  وہ جو لے  گیا ایک رات اپنے  بندے  کو مسجدِ حرام سے  دور کی اس مسجد تک جس کے  ماحول کو اس نے  برکت دی ہے تاکہ اسے  اپنی کچھ نشانیوں  کا مشاہدہ کرائے ۔

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَیْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَیْتِ بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  بیت   اللہ   کے  قریب نینداوربیداری کی درمیانی حالت میں  تھا۔ [79]

أَنَّ مَالِكَ بْنَ صَعْصَعَةَ،  حَدَّثَهُ: أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَیْلَةِ أُسْرِیَ بِهِ: بَیْنَمَا أَنَا فِی الحَطِیمِ

مالک بن صعصہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے معراج کی رات کے  بارے  میں  فرمایامیں  حطیم میں  تھا۔ [80]

قرآن مجیداوررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی اتنی وضاحت کے  بعدبھی مشہوردروغ گوکلبی کی ایک روایت ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْكَلْبِیُّ،  عَنْ أَبِی صَالِحٍ بَاذَانَ،  عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ [رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا] فِی مَسْرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: مَا أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ فِی بَیْتِی،  نَائِمٌ عِنْدِی تِلْكَ اللَّیْلَةَ،  فَصَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ نَامَ وَنِمْنَا،  فَلَمَّا كَانَ قُبَیْلَ الْفَجْرِ أَهَبَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَلَمَّا صَلَّى الصُّبْحَ وَصَلَّیْنَا مَعَهُ قَالَ:یَا أُمَّ هَانِئٍ لَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَكُمُ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ كَمَا رَأَیْتِ بِهَذَا الْوَادِی،  ثُمَّ جِئْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَصَلَّیْتُ فِیهِ،  ثُمَّ صَلَّیْتُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مَعَكُمُ الْآنَ كَمَا تَرَیْنَ

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومعراج میرے  ہی مکان سے  کرائی گئی ہے ، اس رات رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازعشاکے  بعدمیرے  ہی مکان پرہی آرام فرمارہے  تھے  ، آپ بھی سوگئے  اورہم سب بھی سوگئے ، صبح سے  کچھ ہی پہلے  ہم نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوجگایاپھرآپ کے  ساتھ ہی ہم نے  نمازفجراداکی، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااے  ام ہانی رضی   اللہ   عنہا !میں  نے  تمہارے  ساتھ ہی عشاکی نمازاداکی اوراب نمازفجربھی تمہارے  ساتھ یہیں  ہوں  اس درمیان میں    اللہ   تعالیٰ نے  مجھے  بیت المقدس پہنچایااورمیں  نے  وہاں  نمازبھی پڑھی۔ [81]

الْكَلْبِیُّ: مَتْرُوكٌ بِمَرَّةٍ سَاقِطٌ

اس روایت میں  مشہوردروغ گو راوی کلبی ہے  جومتروک ہے  اورساقط ہے ۔

اس کے  بارے  میں  سیدسلمان ندوی کہتے  ہیں  کہ بعض نیچے  درجے  کی روائتوں  اورتاریخ کی کتابوں  میں  ام ہانی کابیان ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو میرے  گھرسے  معراج ہوئی ، یہ روایت مشہوردروغ گوکلبی کی ہے  اس روایت میں  حد درجہ لغواورغریب ومنکرباتیں  مذکورہیں  ۔

عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ،  قَالَتْ: بَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِهِ فِی بَیْتِی فَفَقَدْتُهُ مِنَ اللَّیْلِ،  فَامْتَنَعَ مِنِّی النَّوْمُ مَخَافَةَ أَنْ یَكُونَ عَرَضَ لَهُ بَعْضُ قُرَیْشٍ،  فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ جِبْرِیلَ أَتَانِی فَأَخَذَ بِیَدِی فَأَخْرَجَنِی،  فَإِذَا عَلَى الْبَیْتِ دَابَّةٌ دُونَ الْبَغْلِ،  وَفَوْقَ الْحِمَارِ،  فَحَمَلَنِی عَلَیْهَا،  ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى انْتَهَى بِی إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ،

ام ہانی رضی   اللہ   عنہا سے ایک اوررایت ہے  فرماتی ہیں  معراج کی رات رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم میرے  ہاں  سوئے  تھے  میں  نے  رات کوآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ہرچندتلاش کی لیکن نہ پایامجھے  ڈرتھاکہ کہیں  قریشیوں  نے  کودھوکانہ کیاہو،  لیکن رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکہ جبرائیل علیہ السلام میرے  پاس آئے  اورمیراہاتھ تھام کرچلے ، دروازے  پرایک جانورتھاجوخچرسے  چھوٹااورگدھے  سے  اونچاتھا،  مجھے  اس پرسوارکیاہم یہاں  سے  چلے یہاں  تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے ۔ [82]

ام ہانی سے  ایک اورروایت ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم عشاء کی نمازپڑھ کرہم لوگوں  کے  ساتھ میرے  مکان میں  سوئے شب کومیری آنکھ کھلی توآپ کونہ پایا، روسائے  قریش کی دشمنی کے  باعث دل میں  عجیب عجیب بدگمانیاں  پیداہونے  لگیں  ، نیندنہ آئی ، صبح اٹھ کررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  معراج کاواقعہ بیان کیااورفرمایا

قَالَ وَأَنا أُرِید أَن أخرج إِلَى قُرَیْش فَأخْبرهُم مَا رَأَیْت فَأخذت بِثَوْبِهِ فَقلت إِنِّی أذكرك الله انك تَأتی قوما یكذبُونَك وَیُنْكِرُونَ مَقَالَتك فَأَخَاف أَن یَسْطُوا بك قَالَت فَضرب ثَوْبه من یَدی ثمَّ خرج إِلَیْهِم فَأَتَاهُم وهم جُلُوس فَأخْبرهُم

میں  روسائے  قریش سے  کہنے  جاتاہوں  اورجوکچھ دیکھاہے  وہ ان سے  بیان کرتاہوں  ، میں  نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کادامن تھام لیااورعرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں  اس خواب کو بیان نہ کریں  ،  وہ آپ کی تکذیب کریں  گے ، آپ کی بات ہرگزنہیں  مانیں  گے اوراگربس چلاتوآپ کی جان پرحملہ کریں  گے ، فرماتی ہیں  لیکن آپ نے  نہ مانااورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جھٹکامارکراپنادامن میرے  ہاتھ سے  چھڑالیا اورسیدھے  قریش کے  مجمع میں  پہنچ کرساری باتیں  بیان کردیں  ۔ [83]

عقلی دلائل :

یہ کہانی قرآن وحدیث کے  سراسرخلاف ہے ۔

xپانچ نمازیں  معراج کوفرض کی گئیں  تھیں  کیارسول   اللہ   عشاء کی نمازفرض ہونے  سے  پہلے  ہی پڑھاکرتے  تھے ؟سیدسلمان ندوی لکھتے  ہیں  ان روایتوں  میں  علاوہ اورلغویات کے عشا ء اورصبح کی نمازباجماعت کی بات کس قدرغلط ہے  کہ یہ نمازپنجگانہ توعین معراج میں  فرض ہوئی ہے  ظاہرہے  کہ اس قسم کی روایتوں  کاصحیحین کے  مقابلہ میں  کیارتبہ اور اعتبار ہو سکتاہے  ، اس لئے  اس میں  کوئی شک نہیں  کہ معراج کی شب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم خانہ کعبہ میں  تھے ۔ [84]

xرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ام المومنین خدیجہ الکبری رضی   اللہ   عنہا سے  شادی کرنے  سے  قبل اپنے  چچاابوطالب سے  ام ہانی رضی   اللہ   عنہا کارشتہ طلب فرمایاتھامگرابوطالب نے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی پاک دامنی، حق پسندی ،  امانت ودیانت داری ، مہمان نوازی، غریبوں  یتیموں  اوربے  کسوں  کامددگاراورغیرت مندی جیسے  اوصاف کونظراندازکرکے  آپ کوفقیراورغیرشریف قرار دے  کررشتہ دینے  سے  انکار کردیااورام ہانی کانکاح ہبیرہ سے  کردیاجواسلام کابدترین دشمن ثابت ہوا، فتح مکہ کے  بعدنجران بھاگ گیااورعیسائی بن کرروم چلاگیااوراسی حالت میں  اسے  موت آئی ، قارئین کرام خودفیصلہ کرلیں  کیایہ ممکن ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ام ہانی کے  گھررات کوجاکرسوجائیں  جس میں  ام ہانی کااسلام کا دشمن اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کواپنارقیب سمجھنے  والا شوہر موجود ہو،  اور اگر ام ہانی کے  شوہرکی غیرموجودگی میں  سوئے  توکیارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  بدترین دشمن اورقریش مکہ کواپنی عفت و عصمت پرحملہ آورہونے  کا موقعہ فراہم کیاتھا۔

xمعراج کے  وقت رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  گھران کی دو بیٹیاں  ام کلثوم رضی   اللہ   عنہا اور فاطمہ رضی   اللہ   عنہا موجودتھیں  توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنے  گھرمیں  اپنی کم سن بیٹیوں  کے  ساتھ سونے  کے  بجائے  ام ہانی رضی   اللہ   عنہا کے  گھرکوکیوں  ترجیح دی ، کیایہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ذات اقدس پرحملہ نہیں  ؟


معراج سے  واپسی کی ضعیف روایات

ان روایات کی ابتدا ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  جو۷ہجری میں  اسلام لائے  کی طرف منسوب کرتے  ہوئے  ام ہانی رضی   اللہ   عنہا والی کہانی سے  شروع کی گئی ہے ۔

 فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: یَا مُحَمَّدُ،  هَلْ مَرَرْتَ بِإِبِلٍ لَنَا فِی مَكَانِ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ،  وَاللَّهِ قَدْ وَجَدْتُهُمْ أَضَلُّوا بَعِیرًا لَهُمْ فَهُمْ فِی طَلَبِهِ، قَالَ: فَهَلْ مَرَرْتَ بِإِبِلٍ لِبَنِی فُلَانٍ؟ قَالَ:نَعَمْ،  وَجَدْتُهُمْ فِی مَكَانِ كَذَا وَكَذَا،  وَقَدِ انْكَسَرَتْ لَهُمْ نَاقَةٌ حَمْرَاءُ، وَعِنْدَهُمْ قَصْعَةٌ مِنْ مَاءٍ،  فَشَرِبْتُ مَا فِیهَا،  قَالُوا: فَأَخْبِرْنَا عِدَّتَهَا وَمَا فِیهَا مِنَ الرُّعَاةِ [قَالَ:قَدْ كُنْتُ عَنْ عِدَّتِهَا مَشْغُولًا.فَنَامَ فَأُوتِیَ بِالْإِبِلِ فَعَدَّهَا وَعَلِمَ مَا فِیهَا مِنَ الرُّعَاةِ] ثُمَّ أَتَى قُرَیْشًا فَقَالَ لَهُمْ: سَأَلْتُمُونِی عَنْ إِبِلِ بَنِی فُلَانٍ،  فَهِیَ كَذَا وَكَذَا،  وَفِیهَا مِنَ الرُّعَاةِ فُلَانٌ وَفُلَانٌ،  وَسَأَلْتُمُونِی عَنْ إِبِلِ بَنِی فُلَانٍ،  فَهِیَ كَذَا وَكَذَا

ایک روایت ہے ایک شخص نے  کہاکیاراستے  میں  ہمارافلاں  قافلہ بھی ملاتھا؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاہاں  ، اوران کاایک اونٹ کھوگیاتھاجس کی تلاش کررہے  تھے ، کسی نے  کہا اور فلاں  قبیلے  والوں  کے  اونٹ بھی راستے  میں  ملے  ؟ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاوہ بھی ملے  تھے  اورفلاں  جگہ پرتھے ، ان میں  ایک سرخ رنگ اونٹنی تھی جس کاپاؤں  ٹوٹ گیاتھا ، ان کے  پاس ایک بڑے  پیالے  میں  پانی تھاجس سے  میں  نے  بھی پیا، انہوں  نے  کہااچھاان کے  اونٹوں  کی گنتی بتاؤ؟ان میں  چرواہے  کون کون تھے  یہ بھی بتاؤ؟اسی وقت   اللہ   تعالیٰ نے  قافلہ آپ کے  سامنے  کردیا، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ساری گنتی بھی بتادی اورچرواہوں  کے نام بھی بتادیئے ،

وَفِیهَا مِنَ الرُّعَاةِ ابْنُ أَبِی قُحَافَةَ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ،  وَهِیَ مُصَبَّحَتُكُمْ مِنَ الْغَدَاةِ عَلَى الثَّنِیَّةِ،  قَالَ: فَقَعَدُوا عَلَى الثَّنِیَّةِ یَنْظُرُونَ أَصَدَقَهُمْ مَا قَالَ؟ فَاسْتَقْبَلُوا الْإِبِلَ فَسَأَلُوهُمْ: هَلْ ضَلَّ لَكُمْ بَعِیرٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ. فَسَأَلُوا الْآخَرَ: هَلِ انْكَسَرَتْ لَكُمْ نَاقَةٌ حَمْرَاءُ؟ قَالُوا: نَعَمْ

ان میں  ایک چرواہاابن ابی قحافہ بھی تھا، اوریہ بھی فرمادیاکہ وہ کل صبح ثنیہ پہنچ جائیں  گے ، چنانچہ اس وقت اکثرلوگ بطورآزمائش ثنیہ جاپہنچے  اوردیکھاکہ واقعہ قافلہ وہاں  پہنچ چکاہے ، ان سے  پوچھا کہ تمہارااونٹ گم ہوگیاتھا؟انہوں  نے  کہاہاں  درست ہے ، ایک اونٹ گم ہوگیاتھا، دوسرے  قافلے  والوں  سے  پوچھاتمہاری سرخ رنگ اونٹنی کاپاؤں  ٹوٹ گیاتھا؟انہوں  نے  کہا ہاں  ، یہ بھی صحیح ہے ۔  [85]

فَلَمَّا سَمِعَ الْمُشْرِكُونَ قَوْلَهُ أَتَوْا أَبَا بَكْرٍ فَقَالُوا: یَا أَبَا بَكْرٍ،  هَلْ لَكَ فِی صَاحِبِكَ؟ هَلْ لَكَ فِی صَاحِبِكَ؟ یَزْعُمُ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَكَّةَ فِی لَیْلَةٍ وَاحِدَةٍ! فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أوقال ذَلِكَ؟قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَشْهَدُ لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ،  فَتُصَدِّقُهُ بِأَنْ یَأْتِیَ الشَّامَ فِی لَیْلَةٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ یَرْجِعُ إِلَى مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ یُصْبِحَ؟فَقَالَ أَبُو بَكْرٍنَعَمْ،  إِنِّی أُصَدِّقُهُ بِأَبْعَدَ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ

ایک روایت ہے جب مشرکین نے  یہ خبرسنی تو اس امیدپرسیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ کے  پاس بھی پہنچ گئے  کہ وہ اس عجیب وغریب ، ناقابل یقین واقعہ کاذکران کے  سامنے  کردیں  ہوسکتاہے  وہ اس حیران کن واقعہ کوسن کراسلام سے  تائب ہوجائیں  ، اس طرح محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جوتحریک چلارکھی ہے  اس کی جان ہی نکل جائے  گی،  اوران سے  کہااے  ابوبکر رضی   اللہ   عنہ !کیاآپ نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی بات سنی ، وہ کہتے  ہیں  وہ ایک رات میں  بیت المقدس جاکرواپس آگئے  ہیں  ،  سیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایاکیایہ خبر رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  خود فرمائی ہے ، کہنے  لگے  ہا ں  ایساہی کہاہے ،  سیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایامیں  اس کی گواہی دیتاہے  اگرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ایسی خبردی ہے  توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  سچ کہا،  تووہ حیرت سے کہنے  لگے  کیاآپ اس خبرکوسچ تسلیم کر رہے  ہیں  کہ آپ ایک رات میں  بیت المقدس چلے  گئے  اورصبح ہونے  سے  پہلے  مکہ میں  پہنچ گئے ؟ سیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایاہاں  اگروہ کہتے  ہیں  تومیں  اس کی تصدیق کرتاہوں  میں  توان کی اس سے  بڑی بات کی بھی تصدیق کرتاہوں  ، وہ کہتے  ہیں  کہ آسمان سے  میرے  پاس فرشتے  آتے  ہیں  اورمیں  اس کوقبول کرتا ہوں  ۔ [86]

ثُمَّ رَكِبَ مُنْصَرِفًا،  فَبَیْنَا هُوَ فِی بَعْضِ طَرِیقِهِ مَرَّ بِعِیرٍ لِقُرَیْشٍ تَحْمِلُ طَعَامًامِنْهَا جَمَلٌ عَلَیْهِ غِرَارَتَانِ: غِرَارَةٌ سَوْدَاءُ،  وَغِرَارَةٌ بَیْضَاءُ، فَلَمَّا حَاذَى بِالْعِیرِ نَفَرَتْ مِنْهُ وَاسْتَدَارَتْ،  وَصُرِعَ ذَلِكَ الْبَعِیرُ وَانْكَسَرَثُمَّ إِنَّهُ مَضَى فَأَصْبَحَ،  فَأَخْبَرَ عَمَّا كَانَ،  فَلَمَّا سَمِعَ الْمُشْرِكُونَ قَوْلَهُ أَتَوْا أَبَا بَكْرٍفَقَالُوا: یَا أَبَا بَكْرٍ،  هَلْ لَكَ فِی صَاحِبِكَ؟ یُخْبِرُ أَنَّهُ أَتَى فِی لَیْلَتِهِ هَذِهِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ،  ثُمَّ رَجَعَ فِی لَیْلَتِهِ

ایک روایت ہے  پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم واپس(مکہ معظمہ)آنے  کے  لیے  براق پرسوارہوئے ، راستے  میں  آپ قریش کے  ایک قافلے  کے  پاس سے  گزرے  جوغلہ لادے  جارہاتھا ان میں  سے  ایک اونٹ تھاجس پردوبورے  لدے  ہوئے  تھے  ، ایک بوراسیاہ اورایک سفیدتھا،  جب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم اس قافلے  کے  پاس سے  گزرے  تووہ بدک گیا اور چکرا گیا اوراونٹ گرکرزخمی ہوگیا جب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم مکہ پہنچ گئے  اورصبح لوگوں  کورات کی سیرکی بابت بتلایا، پس جب مشرکین نے  آپ کی بات سنی توبھاگے  بھاگے  سیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ کے  پاس گئے ، اورکہااے  ابوبکر!آپ کواپنے  ساتھی(پیغمبر)کے  بارے  میں  کچھ پتہ ہے ؟وہ کہتاہے  کہ وہ آج کی رات ایک مہینے  کی مسافت کا سفر کرکے  رات کی رات ہی میں  واپس آگیاہے ،

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ كَانَ قَالَهُ فَقَدْ صَدَقَ،  وَإِنَّا لِنُصَدِّقُهُ فِیمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ هَذَا،  نُصَدِّقُهُ عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِسیدناابوبکرt نے  کہا إِنْ كَانَ قَالَهُ فَقَدْ صَدَقَ،  وَإِنَّا لِنُصَدِّقُهُ فِیمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ هَذَا،  نُصَدِّقُهُ عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ

سیدناابوبکر رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایااگریہ بات انہوں  نے  کہی ہے  تویقیناًسچ کہااورہم توان کی اس سے  بھی بڑھ کرباتوں  کی تصدیق کرتے  ہیں  جو عقل میں  نہیں  آتیں  اورہم توان کوان کی آسمانی خبروں  میں  بھی سچاجانتے  ہیں  (وہ پھررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس آگئے )۔ [87]

فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا عَلَامَةُ مَا تَقُولُ؟ قَالَ:مَرَرْتُ بِعِیرٍ لِقُرَیْشٍ،  وَهِیَ فِی مَكَانِ كَذَا وَكَذَا،  فَنَفَرَتِ الْعِیرُ مِنَّا وَاسْتَدَارَتْ وَفِیهَا بَعِیرٌ عَلَیْهِ غِرَارَتَانِ: غِرَارَةٌ سَوْدَاءُ،  وَغِرَارَةٌ بَیْضَاءُ،  فَصُرِعَ فَانْكَسَرَفَلَمَّا قَدِمَتِ الْعِیرُ سَأَلُوهُمْ،  فَأَخْبَرُوهُمُ الْخَبَرَ عَلَى مِثْلِ مَا حَدَّثَهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ ذَلِكَ سُمِّیَ أبو بكر الصدیق

مشرکین کہنے  لگے آپ جوکچھ کہتے  ہیں  اس کی نشانی کیا ہے ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایامیں  قریش کے  ایک قافلے  کے  پاس سے  گزرااوروہ فلاں  فلاں  جگہ پرتھا، پس وہ قافلہ ہماری وجہ سے  بدکااورچکراگیااوراس میں  ایک اونٹ تھا جس پردوبورے  لدے  ہوئے  تھے  ایک سیاہ بورا اور دوسراسفیدبورا، پس وہ اونٹ گرگیااورزخمی ہوگیا،  جب قافلہ آیاتوانہوں  نے  قافلہ والوں  سے  پوچھاانہوں  نے  اسی طرح بیان کیا جس طرح رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ان کوبتلایاتھا اوراسی وجہ سے  سیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ کوالصدیق کے  نام سے  پکاراجانے  لگا۔ [88]

هَذَا سِیَاقٌ فِیهِ غَرَائِبُ عَجِیبَةٌ

حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   اسے  نقل کرکے  لکھتے  ہیں  اس روایت میں  بہت عجیب نادرچیزیں  ہیں  ،

وآفته خالد بن یزید فإنه ضعیف مع كونه فقیها

شیخ البانی نے  بھی حافظ ابن کثیر رحمہ   اللہ   کی اس رائے  کونقل کرکے  لکھا ہے اس میں  ایک راوی خالدبن یزیدہے ، وہی ساری خرابی کی بنیادہے

کیونکہ وہ فقیہ ہونے  کے  باوجودضعیف ہے ۔ [89]

 وَإِنَّا لِنُصَدِّقُهُ فِیمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ هَذَا

تاہم اس روایت میں  سیدنا ابوبکر رضی   اللہ   عنہ کایہ فرماناہم تواس سے  بھی بڑی باتوں  میں  ان کی تصدیق کرتے  ہیں  صحیح ہے  کیونکہ یہ بات دوسری صحیح روایات سے  ثابت ہے ۔

ایک روایت ہے  کہ جب رات کوآپ کے  اعزاء نے  آپ کوبسترپرنہ پایاتوآپ کوڈھونڈنے  کے  لئے  پہاڑوں  اورغاروں  میں  نکل گئے  کیونکہ انہیں  خوف تھاکہ کہیں  قریش آپ کو گزندنہ پہنچائیں  ، ان روایات کے  آخرمیں  یہ بھی ہے

 ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَأَخْبَرَ أَنَّهُ أُسْرِیَ بِهِ فَافْتَتَنَ نَاسٌ كَثِیرٌ كَانُوا قَدْ صَلَّوْا مَعَهُ

جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم معراج سے  واپس ہوئے  اورآپ نے  انہیں  اس عظیم واقعہ کی خبردی تویہ خبرآناًفاناًتمام مکہ معظمہ میں  پھیل گئی اوربہت سے بعض نومسلم یہ سن کراسلام سے  پھرگئے  جنہوں  نے  آپ کے  ساتھ نمازپڑھی تھی۔ [90]

سیدسلمان ندوی کاتبصرہ :یہ تمام قصے  سرتاپالغواورباطل ہیں  ،  اسحاق اورابن سعدنے  توسرے  سے  ان واقعات کی اسنادنہیں  لکھیں  ، لیکن ابن جریرطبری ، بیہقی، ابن ابی حاتم ،  ابویعلیٰ اورابن عساکرنے  ان کی سندیں  ذکرکی ہیں  ، ان کے  روات ابوجعفررازی، ابوہارون عبدی اورخالدبن یزدانی ابی مالک ہیں  ، جن میں  سے  ابوجعفررازی گوبجائے  خود ثقہ ہیں  مگربے  سروپاروایتوں  کے  بیان کرنے  میں  بے  باک ہیں  ، بقیہ دومشہورکذاب اوردروغ گوہیں  ، ابن جریرطبری نے  حسن بصری ، قتادہ اورابن زیدسے  بھی واقعہ ارتداد نقل کیاہے  لیکن ان کاسلسلہ ان سے  آگے  نہیں  بڑھتا، اس واقعہ کے  انکارکی سب سے  پرزوردلیل ہمارے  پاس یہ ہے  کہ اس وقت مکہ میں  جواصحاب اسلام لائے  وہ گنے  چنے  لوگ تھے  جوہم کونام بنام معلوم ہیں  ، ان میں  سے  کسی کی پیشانی پرارتدادکاداغ نہیں  ۔ [91]

جہاں  تک حسن بصری رحمہ   اللہ   تابعی ، قتادہ رحمہ   اللہ   تابعی اورابن زیدتبع تابعی کے  اقوال کاسوال ہے  یہ ان کی آراہیں  حدیث نہیں  اوران حضرات کوقرآن مجیدکی ایک آیت

۔ ۔ ۔  وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ۔ ۔ ۔ ۝۶۰ۧ [92]

ترجمہ:اورہم نے  جوکچھ آپ کودکھایاتھاوہ لوگوں  کی آزمائش کے  لئے  دکھایاتھا۔

کے  باعث مغالطہ ہواہے ، یہ واقعہ کفارو مشرکین کے  لئے  آزمائش تھامگرانہوں  نے  اسے  صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم کی آزمائش تصورکرلیا،  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ کی اس روایت کوابوجعفررازی نے  ربیع بن انس سے  نقل کیا ہے  ، وہ اسے  ابوالعالیہ کے  ذریعہ ابوہریرہ سے  نقل کرتے  ہیں  ، ربیع بن انس اورابوالعالیہ مسلمہ امام ہیں  ، لیکن ان سے  یہ روایت ابوجعفررازی کے  علاوہ کوئی اورنقل نہیں  کرتا ،  ابوجعفررازی سے  یہ روایت نقل کرنے  والاابوہارون عبدی ہے  اوراس سے  نقل کرنے  والاخالدبن یزیدبن ابی مالک ہے  ، یہ تینوں  راوی کس حیثیت کے  ہیں  ان کے  بارے  میں  امام ذہبی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  ۔

ابوجعفررازی:

عیسى بن أبی عیسى، ولد بالبصرة واستوطن الرى،  روى عنه ابنه عبد الله،  وأبو نعیم،  قال ابن معین وقال أبو حاتم: ثقة،  قال ابن المدینی: ثقة كان یخلط.وقال مرة: یكتب حدیثه إلا أنه یخطئ،  وقال الفلاسى: سیئ / الحفظ، قال ابن حبان: ینفرد بالمناكیر عن المشاهیر، قال أبو زرعة: یهم كثیرا، وروى حاتم بن إسماعیل،  وهاشم أبو النضر،  وحجاج بن محمد وغیرهم،  عن أبی جعفر الرازی،  عن الربیع بن أنس،  عن أبی العالیة،  عن أبی هریرة أوغیره،  عن النبی صلى الله علیه وسلم حدیثاً طویلا فی المعراج فیه ألفاظ منكرة جدا

اس کانام عیسیٰ بن ابی عیسیٰ تھابصرہ میں  پیداہوااوررے  میں  سکونت اختیارکی، اس سے  اس کابیٹاعبد  اللہ   اورابونعیم روایت کرتے  ہیں  ، یحییٰ بن معین رحمہ   اللہ   اورابوحاتم رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ثقہ ہے ، لیکن علی بن المدینی کہتے  ہیں  یہ غلطیاں  کرتاہے  ، روایات میں  غلط ملط کرتاہے ، فلاس کہتے  ہیں  اس کاحافظہ بہت خراب تھا، ابن حبان رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  یہ منکر روایات بیان کرتا اورانہیں  مشہورآئمہ کی جانب منسوب کردیتاہے (جیساکہ اس روایت کوربیع بن انس اورابوالعالیہ کی جانب منسوب کردیا)ابوزرعہ رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اسے  بہت وہم ہوتاتھا، ذہبی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اس نے  ربیع بن انس کے  ذریعہ ابوالعالیہ سے  اورابوالعالیہ ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  اس سندکے  زریعہ اس نے  معراج کے  سلسلہ میں  ایک طویل روایت بیان کی ہے  جس میں  بہت سی باتیں  منکر ہیں  ۔ [93]

یہ ۱۰۵ ھ کوپیداہوااوراسی(۸۰) سال کی عمرمیں  اس کاانتقال ہوا۔

خالدبن یزید:

یہ دمشق کاباشندہ ہے  ، اس کانسب یوں  ہے

خالد بن یزید بن عبد الرحمن بن أبی مالك [ق] الدمشقی، وهاه ابن معین،  قال أحمد: لیس بشئ، قال النسائی: غیر ثقة، قال الدارقطنی: ضعیف، قال ابن أبی الحواری سمعت ابن معین یقول: بالعراق كتاب بنبغى أن یدفن تفسیر الكلبی،  عن أبی صالح.وبالشام كتاب ینبغی أن یدفن كتاب الدیات، قال أحمد بن أبی الحواری: سمعت هذا الكتاب من خالد،  ثم أعطیته للعطار،  فأعطى للناس فیه حوائج

خالدبن یزیدبن عبدالرحمان بن ابی مالک الدمشقی، یحییٰ بن معین کہتے  ہیں  یہ واہی انسان ہے ، امام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  یہ کچھ نہیں  ، امام نسائی رحمہ   اللہ   کاقول ہے  یہ ثقہ نہیں  ، امام دارقطنی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ضعیف ہے ، احمدبن ابی الحواری کابیان ہے  کہ میں  نے  امام یحییٰ بن معین رحمہ   اللہ   کویہ فرماتے  سناکہ عراق میں  ایک کتاب ایسی ہے  جسے  دفن کردیناچاہیے  وہ تفسیرکلبی ہے (یعنی تفسیرابن عباس، جس میں  ام ہانی کی پہلی روایت ہے )، یہی احمدبن ابی الحواری کہتے  ہیں  کہ میں  نے  یہ کتاب خالدسے  نقل کی تھی بعدمیں  میں  نے  ایک عطارکودے  دی وہ اس میں  دوائیں  باندھ کرلوگوں  کودیاکرتاتھا۔ [94]

ابوہارون العبدی:

عمارة بن جوین، كذبه حماد بن زید، قال أحمد: لیس بشئ،  قال النسائی: متروك الحدیث، قال ابن حبان: كان یروی عن أن سعید ما لیس من حدیثه، قال شعبة: لئن أقدم فتضرب عنقی أحب إلى من أن أحدث عن أبی هارون،  كنت أتلقى الركبان أسأل عن أبی هارون العبدی،  فقدم فرأیت عنده كتاباً فیه أشیاء منكرة فی علی رضی الله عنه، قال الدارقطنی: متلون خارجی وشیعی،  فیعتبر بما روى عنه الثوری، قال الجوزجانی: أبو هارون كذاب مفتر، شعبة یقول: أتیت أبا هارون فقلت له: أخرج إلى ما سمعته من أبی سعید.فأخرج إلى كتابا،  فإذا فیه: حدثنا أبو سعید أن عثمان أدخل حفرته وإنه لكافر بالله،  فدفعت الكتاب فی یده وقمت، قال ابن معین: كانت عند أبی هارون صحیفة یقول هذه الصحیفة الوصی، سمعت صالح بن محمد أبا على وسئل عن أبی هارون العبدى فقال: أكذب من فرعون، توفى سنة أربع وثلاثین ومائة

اس کانام عمارة بن الجوین ہے ، امام ذہبی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ضعیف ہے ، امام حمادبن زید رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  کذاب ہے ، امام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   کاقول ہے  کہ کچھ نہیں  ، یحییٰ بن معین کہتے  ہیں  ضعیف ہے ، اس کی روایات کی تصدیق نہیں  ہوتی، امام نسائی رحمہ   اللہ   کاقول ہے  متروک الحدیث ہے ، ابن حبان رحمہ   اللہ   کابیان ہے  کہ یہ ابوسعیدخدری رضی   اللہ   عنہ کی جانب ایسی روایات منسوب کرتا ہے  جو انہوں  نے  بیان نہیں  کیں  ، امام شعبہ رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  کہ اگرکوئی مجھے  دوباتوں  کااختیاردے  کہ یاقتل ہونامنظورکرلویااس ابوہارون کی روایات لوگوں  کے  سامنے  بیان کروتومیں  قتل ہونامنظورکروں  گا لیکن اس کی روایت بیان کرنے  کے  لئے  تیارنہیں  ، میں  پہلے  ہرقافلہ سے  اس کاحال پوچھتاتھالیکن پھراتفاق سے  یہ بصرہ آگیااس کے  پاس ایک کتاب تھی میں  نے  اسے  دیکھاتو اس میں  سیدنا علی رضی   اللہ   عنہ کی برائیاں  لکھی ہوئی تھیں  ، امام دارقطنی رحمہ   اللہ   کاقول ہے  کہ متلون المزاج شخص تھاکبھی رافضی بن جاتا تھااورکبھی خارجی، ابن حبان رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  یہ ابوسعیدخدری رضی   اللہ   عنہ کے  نام سے  جتنی روایات بیان کرتاہے  وہ سب جھوٹ ہیں  ، انہوں  نے  یہ روایات کبھی بیان نہیں  کیں  ، جوزقانی کاقول ہے  کہ ابوہارون کذاب ہے  ، صحابہ پر تہمتیں  لگاتاہے ، امام شعبہ رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  میں  اس کے  پاس گیااوراس سے  سوال کیاکہ تمہارے  پاس ابوسعیدخدری رضی   اللہ   عنہ کی جولکھی ہوئی روایات ہیں  وہ مجھے  دکھاؤ،  اس نے  ایک کتاب نکال کرمیرے  سامنے  رکھی، اس میں  ایک روایت یہ بھی تھی کہ ابوسعیدخدری رضی   اللہ   عنہ فرماتے  ہیں  کہ عثمان رضی   اللہ   عنہ بن عفان اپنے  مرنے  اوردفن ہونے  سے  قبل   اللہ   کامنکربن چکا تھا ،  میں  نے  وہ کتاب اسے  واپس کردی اوراٹھ کرواپس چلاآیا(یعنی ایک کتاب میں  سیدنا علی رضی   اللہ   عنہ بن ابی طالب کی اوردوسری کتاب میں  سیدنا عثمان رضی   اللہ   عنہ کی برائیاں  لکھی ہوئی تھیں  ) یحییٰ بن معین کہتے  ہیں  اس کے  پاس ایک صحیفہ تھاجسے  یہ صحیفہ الوصی کہاکرتاتھا، صالح بن محمدسے  جب ابوہارون العبدی کے  بارے  میں  پوچھاگیاتوانہوں  نے  کہا یہ توفرعون سے  بھی زیادہ جھوٹاہے ، ۱۳۴ ہجری میں  اس کا انتقال ہوا۔ [95]

بہرحال معراج کے  موقع پربیت المقدس میں  کچھ نشانیاں  بیت المقدس کے  لاٹ پادری نے  بھی محسوس کیں  ۔

بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَحْیة بْنَ خَلِیفَةَ إِلَى قَیْصَرَفَذَكَرَ وُرُودَهُ عَلَیْهِ وَقُدُومَهُ إِلَیْهِ. وَفِی السِّیَاقِ دَلَالَةٌ عَظِیمَةٌ عَلَى وُفُور عَقْلِ هِرَقْلَ ثُمَّ اسْتَدْعَى مَنْ بِالشَّامِ مِنَ التُّجَّارِ،  فَجِیءَ بِأَبِی سُفْیَانَ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ وَأَصْحَابِهِ،  فَسَأَلَهُمْ عَنْ تِلْكَ الْمَسَائِلِ الْمَشْهُورَةِ الَّتِی رَوَاهَا الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ،  كَمَا سَیَأْتِی بَیَانُهُ

محمدبن کعب قرظی کہتے  ہیں  جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دحیہ بن خلیفہ کواپنے  نامہ مبارک کے  ساتھ قیصرروم کے  پاس بطورقاصدبھیجا، یہ روانہ ہوئے  اورملک شام میں  پہنچ گئے ، قیصرروم ہرقل نے  ملک شام کے  تاجروں  کوجمع کیاان میں  ابوسفیان صخربن حرب اوراس کے  ساتھ مکہ مکرمہ کے  دوسرے  مشرک ساتھی بھی تھے ، پھرقیصرروم نے  ان سے  بہت سے  سوالات کیے  جوصحیح بخاری اورصحیح مسلم میں  مذکورہیں  ۔ [96]

وَجَعَلَ أَبُو سُفْیَانَ یَجْهَدُ أَنْ یُحَقِّرَ أَمْرَهُ وَیُصَغِّرَهُ عِنْدَهُ. قَالَ فِی هَذَا السِّیَاقِ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ: وَاللَّهِ مَا یَمْنَعُنِی أَنْ أَقُولَ عَلَیْهِ قَوْلًا أُسْقِطُهُ مِنْ عَیْنِهِ إِلَّا أَنِّی أَكْرَهُ أَنْ أَكْذِبَ عِنْدَهُ كَذْبَةً یَأْخُذُهَا عَلَیَّ،  وَلَا یُصَدِّقُنِی بِشَیْءٍ. قَالَ: حَتَّى ذَكَرْتُ قَوْلَهُ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِهِ قَالَ: فَقُلْتُ: أَیُّهَا الْمَلَكُ،  أَلَا أُخْبِرُكَ خَبَرًا تَعْرِفُ أَنَّهُ قَدْ كَذَبَ؟ قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُ یَزْعُمُ لَنَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ أَرْضِنَا أَرْضِ الْحَرَمِ فِی لَیْلَةٍ فَجَاءَ مَسْجِدَكُمْ هَذَامَسْجِدَ إِیلِیَاءَ،  وَرَجَعَ إِلَیْنَا تِلْكَ اللَّیْلَةَ قَبْلَ الصَّبَاحِ

ابوسفیان کی اول سے  آخرتک یہی کوشش رہی کہ وہ قیصرروم کے  سامنے  کسی نہ کسی طرح رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی برائی اور حقارت کرے  تاکہ بادشاہ کے  دل کامیلان رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی طرف نہ ہوسکے ، وہ خودکہتے  ہیں  کہ میں  صرف اس خوف سے  غلط باتیں  کرنے  اورتہمتیں  دھرنے  سے  بازرہاکہ کہیں  میراجھوٹ قیصرروم پرنہ کھل جائے  پھرتویہ میری بات کوجھٹلادے  گااورمیری بڑی ندامت ہوگی، اس وقت میرے  دل میں  خیال آیااورمیں  نے  قیصرروم سے  کہابادشاہ سلامت!سنیے ، میں  ایک واقعہ بیان کرتاہوں  جس سے  آپ پریہ بات خوب واضح ہوجائے  گی کہ محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )بڑے  جھوٹے  آدمی ہیں  ؟قیصرروم نے  پوچھاوہ کیابات ہے ؟ابوسفیان نے  کہاایک دن وہ کہنے  لگاکہ وہ اس رات مکہ مکرمہ سے  چلااورآپ کی اس مسجدمیں  یعنی بیت المقدس کی مسجدقدس میں  آیااورپھرصبح سے  پہلے  مکہ مکرمہ واپس پہنچ گیا،

قَالَ: وبَطْرِیقُ إِیلِیَاءَ عِنْدَ رَأْسِ قَیْصَرَ،  فَقَالَ: بَطْرِیق إِیلِیَاءَ: قَدْ عَلِمْتُ تِلْكَ اللَّیْلَةَ،  قَالَ: فَنَظَرَ قَیْصَرُ،  وَقَالَ: وَمَا عِلْمُكَ بِهَذَا؟ قَالَ: إِنِّی كُنْتُ لَا أَنَامُ لَیْلَةً حَتَّى أُغْلِقَ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِفَلَمَّا كَانَ تِلْكَ اللَّیْلَةُ أَغْلَقْتُ الْأَبْوَابَ كُلَّهَا غَیْرَ بَابٍ وَاحِدٍ غَلَبَنِی،  فَاسْتَعَنْتُ عَلَیْهِ بِعُمَّالِی وَمَنْ یَحْضُرُنِی كُلِّهِمْ فَعَالَجْتُهُ فَغَلَبَنِی فَلَمْ نَسْتَطِعْ أَنْ نُحَرِّكَهُ،  كَأَنَّمَا نُزَاوِلُ بِهِ جَبَلًا

میری یہ بات سنتے  ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جوشام روم کی اس مجلس میں  اس کے  پاس بڑی عزت سے  بیٹھاہواتھافوراًہی بول اٹھاکہ یہ بالکل سچ ہے ، مجھے  اس رات کاعلم ہے ،  قیصرنے  تعجب خیزنظرسے  اس کی طرف دیکھااورادب سے  پوچھاآپ کوکیسے  معلوم ہوا؟ اس نے  کہا میں  ہررات سونے  سے  پہلے  مسجدقدس کے  تمام دروازے  اپنے  ہاتھوں  سے  بند کردیاکرتا تھااس رات میں  نے  تمام دروازے  بندکردیے  لیکن ایک دروازے  کابندہونامشکل ہوگیاتومیں  نے  اپنے  تمام کارکنوں  اورتمام حاضرین سے  مددلی مگرہم سب مل کربھی اس دروازے  کوحرکت نہ دے  سکے  وہ دروازہ اس وقت پہاڑکی طرح وزنی معلوم ہوتاتھا،

فَدَعَوْتُ إِلَیْهِ النَّجَاجِرَةَ،  فَنَظَرُوا إِلَیْهِ فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الْبَابَ سَقَطَ عَلَیْهِ النِّجَافُ وَالْبُنْیَانُ وَلَا نَسْتَطِیعُ أَنْ نُحَرِّكَهُ،  حَتَّى نُصْبِحَ فَنَنْظُرَ مِنْ أَیْنَ أَتَى،  قَالَ: فَرَجَعْتُ وَتَرَكْتُ الْبَابَیْنِ مَفْتُوحَیْنِ،  فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَیْهِمَا فَإِذَا الْحَجَرُ الَّذِی فِی زَاوِیَةِ الْبَابِ مَثْقُوبٌ،  وَإِذَا فِیهِ أَثَرُ مَرْبَطِ الدَّابَّةِ ،  قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی مَا حُبِسَ هَذَا الْبَابُ اللَّیْلَةَ إِلَّا عَلَى نَبِیٍّ وَقَدْ صَلَّى اللَّیْلَةَ فِی مَسْجِدِنَا

میں  نے  بڑھئی بلوائے ، انہوں  نے  دیکھااوربہت ترکیبیں  اورکوششیں  کیں  لیکن وہ بھی ہارگئے اورکہنے  لگے  اس پرتوچھت گری ہوئی ہے ،  صبح ہونے  سے  پہلے  ہم اسے  ہلانہیں  سکتے ،  صبح ہوئی توہم دیکھیں  گے  کہ چھت کہاں  سے  اورکیسے  گری ہے ، چنانچہ میں  واپس آگیااورمیں  نے  دونوں  کواڑبالکل کھلے  رہنے  دیے ، صبح ہوئی تومیں  ان دروازوں  کے  پاس گیاتومیں  نے  دیکھاکہ مسجدکے  ایک کونے  میں  پڑے  ہوئے  پتھرمیں  ایک سوراخ ہوگیاہے  اورایسامعلوم ہوتاتھاکہ اس جگہ رات کوکسی نے  کوئی جانورباندھاہے ،  میں  نے  اپنے  ساتھیوں  سے  کہا معلوم ہوتاہے  کہ یہ دروازہ کسی نبی کے  لیے  کھلارکھاگیاہے  جنہوں  نے  آج رات ہماری اس مسجدمیں  نمازاداکی ہے ۔ [97]

اس روایت کی سندسخت ضعیف ہے  کیونکہ محمدبن کعب تابعی ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  بیان کرتے  ہیں  لہذایہ حدیث مرسل ہے  اوردوسری علت یہ ہے  کہ اس سندمیں  محمدبن عمرواقدی متروک ہے ، علاوہ ازیں  ہرقل اورابوسفیان کی باہمی گفتگومعروف روایات میں  مروی ہے  لیکن ان روایات میں  اس واقعہ کاذکرنہیں  ہے ۔


واقعہ معراج کی تاریخ

حدیث اورسیرت کی کتابوں  میں  اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم سے  مروی ہیں  جن کی تعداد۲۵تک پہنچتی ہے  ، ان میں  مفصل ترین روایات انس رضی   اللہ   عنہ بن مالک،  مالک بن صعصعہ رضی   اللہ   عنہ ،  ابوزرغفاری رضی   اللہ   عنہ اور ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہیں  ، ان کے  علاوہ سیدنا عمربن خطاب رضی   اللہ   عنہ ، سیدنا علی رضی   اللہ   عنہ بن ابی طالب،  عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما ،  عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما ،  ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ ،  حذیفہ بن یمان رضی   اللہ   عنہ ،  ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا اورمتعدددوسرے  صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم نے  بھی اس کے  بعض اجزاء بیان کیے  ہیں  ،  معراج مکہ مکرمہ میں  شب کوہوئی اس پرسب کواتفاق ہے  البتہ معراج ہجرت سے  کتنے  سال یادن پہلے  اورکس مہینہ میں  ہوئی اس کے  بارے  میں  اختلاف ہے ، کچھ لوگ ربیع الاول اور کچھ ربیع الآخر کہتے  ہیں  ، ابن قتیبہ دنیوری اور علامہ ابن عبدالبرنے  رجب کی تعیین کی ہے ، محدث عبدالغنی نے  بھی ۲۷رجب کو اختیار کیا ہے  ،

وعلیه عمل الناس،  قال بعضهم: وهو الأقوى،  فإن المسألة إذا كان فیها خلاف للسلف ولم یقم دلیل على الترجیح واقترن العمل بأحد القولین أو الاقوال،  وتلقى بالقبول فإن ذلك مما یغلب على الظن كونه راجحا

علامہ زرقانی رحمہ   اللہ   نے  لکھاہے  لوگوں  کااس پرعمل ہے  اوربعض کی رائے  ہے  کہ یہی قوی ترین روایت ہے  کیونکہ اصول یہ ہے  کہ جب کسی بات میں  اسلاف کااختلاف ہو اورکسی رائے  کی ترجیح پرکوئی دلیل قائم نہ ہوتوجوظن غالب ہو وہ قول صحیح ہوگاجس پرعمل درآمدہواورجولوگوں  میں  مقبول ہو۔ [98]

بعض رمضان اورشوال کہتے  ہیں  ، یہ تمام روایات طبقات ابن سعد،  تفسیر ابن کثیر، تفسیرطبری ، صحیح ابن حبان، فتح الباری، شرح الزقانی، شرح شفائے  عیاض،  استیعاب ابن عبدالبر ،  اسدالغابة ، ابن اثیراورالروض الانف میں  درج ہیں  ،  مگر کثرت روایت کارخ ہجرت سے  ایک سال قبل ہی ہے ۔

بہرحال متاخرین کے  کی اقتباسات ہیں  درج ہیں  ۔

اس لئے  ان قیاسات کی روشنی میں  معراج کی کوئی یقینی تاریخ متعین نہیں  کی جاسکتی۔

[1]دلائل النبوة للبیہقی ۳۶۱؍۲، تفسیر ابن کثیر ۹؍۵،تفسیرطبری ۳۳۶؍۱۷

[2] دلائل النبوةللبیہقی۳۵۵؍۲،سنن نسائی کتاب الصلوٰة باب فرض الصلوٰة وذکراختلاف الناقلین۴۵۴،تفسیرابن کثیر۱۲؍۵

[3] الاسراء والمعراج۴۴؍۱

[4] دلائل النبوة ۳۹۰؍۲،تفسیرابن کثیر ۲۲؍۵، تفسیرطبری ۳۴۴؍۱۷

[5] دلائل النبوة۳۹۲؍۲،تفسیرابن کثیر۲۲؍۵،تفسیر طبری ۳۴۵؍۱۷

[6] دلائل النبوة۳۹۰؍۲،تفسیرابن کثیر۲۰؍۵

[7] دلائل النبوة ۳۹۰؍۲، تفسیرابن کثیر۲۳؍۵ ، تفسیر طبری ۳۴۵؍۱۷

[8] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۰؍۲،تفسیرابن کثیر۲۳؍۵

[9] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۰؍۲،تفسیرابن کثیر۲۳؍۵

[10] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۰؍۲،تفسیرابن کثیر۲۳؍۵

[11] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۰؍۲، تفسیرابن کثیر ۲۳؍۵

[12] الروض الانف۲۷۸؍۳

[13] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۰؍۲، تفسیرابن کثیر۲۳؍۵

[14] تفسیرابن کثیر۲۷،۲۸؍۵

[15] تفسیرابن کثیر۲۰تا۲۳؍۵

[16] میزان الاعتدال۱۷۳؍۳

[17] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷،تفسیرابن کثیر۲۰۰؍۳

[18]دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۳؍۵، تفسیر طبری ۳۳۷؍۱۷

[19] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۳؍۵،تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷

[20] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر ۳۳؍۵،تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷

[21]الْأَعْرَافِ: 86 .

[22] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲، تفسیرابن کثیر۳۳؍۵، تفسیر طبری ۳۳۷؍۱۷

[23] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۳؍۵

[24] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۳؍۵،تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷

[25] دلائل النبوة للبیہقی ۳۹۷؍۲، تفسیرابن کثیر۳۳؍۵، تفسیر طبری۳۳۷؍۱۷

[26] دلائل النبوةللبیہقی ۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۳،۳۴؍۵، تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷

[27] دلائل النبوةللبیہقی ۳۹۷؍۲،تفسیرابن کثیر۳۴؍۵،تفسیرطبری۳۳۷؍۱۷

[28] تفسیرابن کثیر۳۴؍۵

[29] تفسیرابن کثیر۳۸؍۵

[30] سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ التَّغْلِیظِ فِی الرِّبَا۲۲۷۴

[31]سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ الْقَرْضِ ۲۴۳۲

[32]ابن ہشام۴۰۴؍۱

[33] تفسیرابن کثیر۱۴؍۵

[34] البدایة والنہایة۱۱۴؍۳

[35] دلائل النبوة للبیہقی۳۶۳؍۲

[36] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ ذِكْرِ الْمَسِیحِ ابْنِ مَرْیَمَ، وَالْمَسِیحِ الدَّجَّالِ عن جابر وابی ہریرہؓ ۴۲۸،۴۳۰صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ حَدِیثِ الإِسْرَاءِ ۳۸۸۶، وکتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل بَابُ قَوْلِهِ أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ المَسْجِدِ الحَرَامِ عن جابر ۴۷۱۰

[37] مسنداحمد۲۸۱۹،مصنف ابن ابی شیبة۳۶۵۷۲ ، تفسیرابن کثیر۳۰؍۵

[38] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ، وَفِی قَوْلِهِ رَأَیْتُ نُورًاً ا۴۴۳،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۸۲،تفسیرابن کثیر۵؍۸

[39] البدایة والنهایة۳۳۰؍۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ: حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵، مسنداحمد ۱۹۶۳۲، مسندالبزار۳۰۱۸،تفسیرابن کثیر۶۷۸؍۱

[40] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ ۴۳۵

[41] النجم: 10

[42] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى۴۸۵۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ ۴۳۴،جامع ترمذی ابواب التفسیربَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۷۷

[43] مسنداحمد۳۷۴۸

[44] النجم: 13

[45] مسنداحمد۳۹۱۵

[46] مسنداحمد۳۸۶۲

[47] النجم: 11

[48] مسند احمد ۱۹۵۶

[49] مستدرک حاکم۲۱۶،السنة لابن ابی عاصم۴۴۲،التوحیدلابن خزیمة۴۹۷؍۲،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۷۵

[50] مستدرک حاکم۲۱۷

[51] مستدرک حاکم ۲۱۹

[52] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ ۳۲۸۱

[53]جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ ۳۲۷۸

[54] مسند احمد۲۵۸۰

[55] مسنداحمد۳۴۸۴

[56] تفسیرطبری ۵۰۵؍۲۲

[57] المعجم الکبیر للطبرانی۱۲۵۶۴، الدرالمنشورفی التفسیربالماثور۶۴۷؍۷،فتح القدیر۱۳۳؍۵،فتحُ البیان فی مقاصد القرآن۲۵۱؍۱۳

[58] تفسیرابن کثیر۴۴۹؍۷

[59] الأنعام: 103

[60] الشورى: 51

[61] النجم: 9

[62] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِینَ وَالمَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ، آمِینَ فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۳۲۳۴،۳۲۳۵، وكِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ سُورَةُ وَالنَّجْمِ ۴۸۵۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى

[63]التكویر: 23،

[64] النجم: 13

[65] الأنعام: 103

[66]الشورى: 51

[67] النمل: 65

[68]صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ ۴۳۹

[69] تفسیرطبری ۵۰۵؍۲۲

[70] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِهِ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِیمًا۷۵۱۷

[71] تفسیرابن کثیر۴۲؍۵

[72] شرح الزرقانی علی المواہب ۶۷؍۲

[73] ابن ہشام۴۰۰؍۱،الروض الانف۲۵۷؍۳،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیر العباد۶۹ز؍۳

[74] میزان الاعتدال۹۱؍۲

[75] تفسیرطبری۳۵۰؍۱۷، تفسیرابن کثیر۴۴؍۵،ابن ہشام۳۹۹؍۱

[76] میزان الاعتدال ۱۹۲؍۲، تہذیب الکمال فی أسماء الرجال ۳۰۵؍۱۱

[77]میزان الاعتدال ۵۳۰؍۳

[78]بنی اسرائیل ۱

[79] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۶،سنن نسائی کتاب الصلوٰة فَرْضُ الصَّلَاةِ , وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِینَ۴۴۹، مسند احمد ۱۷۸۳۳،صحیح ابن خزیمة۳۰۱،السنن الکبری للنسائی۳۰۹،السنن الصغیر للبیہقی ۲۵۳

[80] مسنداحمد۱۷۸۳۵، صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ المِعْرَاجِ۳۸۸۷، صحیح ابن حبان۴۸،المعجم الکبیر للطبرانی۵۹۹

[81] تفسیرطبری۳۳۱؍۱۷،تفسیرابن کثیر۴۰؍۵،ابن ہشام۴۰۲؍۱، الخصا ئص الکبری۲۹۲؍۱،البدیة والنہایة ۱۱۰؍۳

[82] المعجم الکبیرللطبرانی ۱۰۵۹،تفسیرابن کثیر۴۱؍۵، الخصائص الکبری۲۹۲؍۱

[83] الخصائص الکبری ۲۹۲؍۱،المعجم الکبیر للطبرانی۱۰۵۹

[84] سیرت النبی ۴۱۰؍۳

[85] المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۵۹،تفسیرابن کثیر ۴۲؍۵

[86] دلائل النبوة للبیہقی ۳۵۹؍۲، تفسیرابن کثیر۲۰؍۵،تفسیرطبری۳۳۵؍۱۷

[87] تفسیرابن کثیر۱۴؍۵

[88] تفسیرابن کثیر۱۲؍۵، تفسیرطبری ۳۳۳؍۱۷

[89] الاسراء والمعراج۴۸؍۱

[90] دلائل النبوة للبیہقی۳۵۹؍۲،تفسیرابن کثیر۲۰؍۵

[91] سیرت النبی ۴۱۹؍۳

[92] بنی اسرائیل۶۰

[93] میزان الاعتدال۳۲۰؍۳

[94] میزان الاعتدال۶۴۵؍۱

[95] میزان الاعتدال۱۷۳؍۳

[96] صحیح بخاری کتاب بَدْءِ الخلق كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ۴۶۰۷

[97] تفسیرابن کثیر۴۴؍۵،أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن۶؍۳،الدر المنثور۲۲۵؍۵

[98] شرح الزرقانی علی المواھب ۶۷؍۲

Related Articles