ہجرت نبوی کا پہلا سال

 وصیت کاحکم

وَهِیَ شَرْعًا عَهْدٌ خَاصٌّ یُضَافُ إلَى مَا بَعْدَ الْمَوْتِ

وصیت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایساخاص عہدجس کی نسبت مرنے کے بعدکسی کام کی طرف کی گئی ہو۔[1]

عرب میں دستورتھاکہ سوائے بڑے بالغ لڑکے کے کوئی وارث نہیں ہوسکتاتھا،اس وراثت میں کوئی چھوٹابھائی ،بہن اورماں شامل نہیں ہوتے تھے اوراگروہ لڑکاکم عمرہوتاتواس کے عزیزواقارب ہی اس کامال ہڑپ کرجاتے، وراثت کی تقسیم کے لئے ابھی کوئی قانون مقررنہیں ہوا تھا اس لئے پہلے اس رسم قبیحہ کومٹانے کے لئے ہرشخص پر لازم کیاگیاکہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائےتاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ توخاندان میں جھگڑے ہوں اورنہ کسی حق دارکی حق تلفی ہونے پائے، فرمایاتم پرفرض کیاگیاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کاوقت آئے اوروہ اپنے پیچھے مال چھوڑرہاہوتووالدین اوررشتہ داروں کے لئے معروف طریقے سے وصیت کرے،یہ متقی لوگوں پرحق ہے،مگر جب سورہ نساء نازل ہوئی اوراس میں اللہ تعالیٰ نے خودوالدین ،اولاد،خاوند،بیوی اوربہن بھائیوں کے حصے مقررفرمادیے لہذااب وصیت کی ضرورت نہ رہی ،شاذونادرطورپراگرکسی کے لواحقین میں کوئی نادارشخص غیروارث ہے تووہ اس کے لیے وصیت کرسکتاہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حدسے زائدکی وصیت کی جاسکتی ہے نہ کم،جومقررکردیاگیاہے وہی ملے گاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقررفرمادیاکہ وارثوں کے جوحصے اللہ تعالیٰ نے مقررکردیئے ہیں ان میں وصیت سے کمی بیشی نہیں کی جاسکتی،

عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، قَالَ:خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ

عمروبن خارجہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایاجس میں فرمایااللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کوحق دے دیاہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ۔[2]

ثم إن الله تعالى قدر للوالدین الوارثین وغیرهما من الأقارب الوارثین هذا المعروف فی آیات المواریث، بعد أن كان مجملا وبقی الحكم فیمن لم یرثوا من الوالدین الممنوعین من الإرث وغیرهما ممن حجب بشخص أو وصف، فإن الإنسان مأمور بالوصیة لهؤلاء وهم أحق الناس ببره

ثابت ہواکہ نسخ کاحکم صرف والدین اورورثاء کے لئے ہے لیکن جس کے لئے میراث میں حصہ نہیں اس کے حق میں وصیت کرنے کاحکم ٹھیک اسی طرح برقرارہے جیسا پہلے تھا۔[3]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ الْخَیْرِ سَبْعِینَ سَنَةً، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِی وَصِیَّتِهِ فَیُخْتَمُ لَهُ بِسُوءِ عَمَلِهِ فَیَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ الشَّرِّ سَبْعِینَ سَنَةً فَیَعْدِلُ فِی وَصِیَّتِهِ فَیُخْتَمُ لَهُ بِخَیْرِ عَمَلِهِ فَیَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَالَ: ثُمَّ یَقُولُ أَبُو هُرَیْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ {تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ}- إِلَى – {وَلَهُ عَذَابٌ مُهِینٌ} [4]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآدمی سترسال تک نیک لوگوں کے سے اعمال کرتارہتاہے لیکن جب وصیت کرتاہے تواس میں ظلم کرتاہے تواس کے لیے اس کے برے عمل کی مہرلگادی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوجاتاہے، اورایک شخص سترسال تک برے لوگوں کے سے اعمال کرتارہتاہے لیکن وصیت میں عدل سے کام لیتاہے تواس کے لیے اس کے نیک عمل کی مہرلگادی جاتی ہے تووہ جنت میں داخل ہوجاتاہے، اس حدیث کوبیان کرنے کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگرتم چاہوتویہ آیت کریمہ’’یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں جواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے گااسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اوران باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گااوریہی بڑی کامیابی ہے اورجواللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے گااوراس کی مقررکی ہوئی حدوں سے تجاوزکرجائے گااسے اللہ آگ میں ڈالے گاجس میں وہ ہمیشہ رہے گااوراس کے لیے رسواکن سزاہے۔‘‘بھی پڑھ لو۔[5]

پھرجنہوں نے وصیت سنی اوربعدمیں گواہوں نے جان بوجھ کر وصیت میں ردوبدل کردی،اس میں تحریف کردی تو وہ ظلم کاارتکاب کریں گے اور اس کاگناہ انہی کے سر پرہوگاجوآخروی نجات کے نقطہ نظرسے سخت خطرناک ہے،اللہ سب کچھ سنتااور جانتاہے ،البتہ جس کویہ اندیشہ ہوکہ وصیت کرنے والے نےطبعی محبت وشفقت سے کسی کی نادانستہ یاقصداًحق تلفی کی ہے اورپھرمعاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے یعنی وصیت کو شرعی احکام کے مطابق کردے تواس پرکچھ گناہ نہیں ،اللہ بخشنے والااوررحم فرمانے والاہے۔

وصیت کے مسائل

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَخْبَرَهُ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ عِنْدَهُ شَیْءٌ یُوصِی فِیهِ، أَنْ یَبِیتَ لَیْلَتَیْنِ، إِلَّا وَوَصِیَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ ،قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ:مَا مَرَّتْ عَلَیَّ لَیْلَةٌ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ إِلَّا وَعِنْدِی وَصِیَّتِی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی مسلمان کویہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیزکی وصیت کرنے کاارادہ رکھتاہومگردوراتیں بھی اس حالت میں گزاردے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجودنہ ہو، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سناہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو ۔[6]

وصیت کے واجب یامستحب ہونے میں اختلاف ہے۔

فَذَهَبَ الْجَمَاهِیرُ إلَى أَنَّهَا مَنْدُوبَةٌ

جمہورکے نزدیک وصیت کرنامستحب ہے واجب نہیں ۔

وَذَهَبَ دَاوُد، وَأَهْلُ الظَّاهِرِ إلَى وُجُوبِهَا، وَحُكِیَ عَنْ الشَّافِعِیِّ فِی الْقَدِیمِ, وَالْأَقْرَبُ مَا ذَهَبَ إلَیْهِ الْهَادَوِیَّةُ وَأَبُو ثَوْرٍ مِنْ وُجُوبِهَا عَلَى مَنْ عَلَیْهِ حَقٌّ شَرْعِیٌّ یَخْشَى أَنْ یَضِیعَ إنْ لَمْ یُوصِ بِهِ كَوَدِیعَةٍ، وَدَیْنٍ لِلَّهِ تَعَالَى أَوْ لِآدَمِیٍّ، وَمَحَلُّ الْوُجُوبِ فِیمَنْ عَلَیْهِ حَقٌّ، وَمَعَهُ مَالٌ، وَلَمْ یُمْكِنْهُ تَخْلِیصُهُ إلَّا إذَا أَوْصَى بِهِ، وَمَا انْتَفَى فِیهِ وَاحِدٌ مِنْ ذَلِكَ فَلَا وُجُوبَ

امام داؤد رحمہ اللہ اور ظواہراورامام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وصیت کرناواجب ہے،امام عطا رحمہ اللہ ،امام زہری رحمہ اللہ اورامام ابن جریر رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے، ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک جمہورکاقول راجح ہے،راجح یہ ہے کہ اس شخص کے لئے وصیت کرناواجب ہے جس پردوسروں کے حقوق ہوں مثلاامانت اورقرض وغیرہ،نیزاس کے پاس مال بھی ہواوران حقوق سے وصیت کے علاوہ خلاصی حاصل کرنابھی ممکن نہ ہواورجس میں ان شرائط میں سے ایک بھی کم ہوئی تواس کے حق میں وصیت واجب نہیں ۔[7]

وَاسْتُدِلَّ بِقَوْلِهِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ عَلَى جَوَازِ الِاعْتِمَادِ عَلَى الْكِتَابَةِ وَالْخَطِّ، وَإِنْ لَمْ یَقْتَرِنْ بِشَهَادَةٍ.وَقَالَ بَعْضُ أَئِمَّةِ الشَّافِعِیَّةِ إنَّ ذَلِكَ خَاصٌّ بِالْوَصِیَّةِ، وَأَنَّهُ یَجُوزُ الِاعْتِمَادُ عَلَى الْخَطِّ فِیهَا مِنْ دُونِ شَهَادَةٍ لِثُبُوتِ الْخَبَرِ فِیهَا

اوراس کی وصیت لکھی ہوئی ہو،حدیث کے ان الفاظ سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ خط وکتابت پراعتمادجائزہے اگرچہ گواہی نہ بھی موجودہو،اوربعض ائمہ شافعیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کتابت کاذکرمحض مبالغے کے لئے کیاگیاہے ورنہ بغیرکتابت کے بھی وصیت کوشہادت کے ساتھ قبول کیاجاتاہے۔[8]

xکسی وارث کونقصان پہنچانے کے لئے وصیت کرناجائزنہیں ۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّینَ سَنَةً ثُمَّ یَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَیُضَارَّانِ فِی الْوَصِیَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ قَالَ: وَقَرَأَ عَلَیَّ أَبُو هُرَیْرَةَ مِنْ هَا هُنَا {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصَى بِهَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ}حَتَّى بَلَغَ: {ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ}

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآدمی یاعورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے رہتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تووصیت میں (ورثاء ) کو نقصان پہنچاجاتے ہیں اس وجہ سے ان پرجہنم کی آگ واجب ہوجاتی ہےپھرانہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ اس وصیت کے بعدجوکی جائے اورقرض کے بعدجبکہ اوروں کانقصان نہ کیاگیاہو،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکیاہواہے اور اللہ جاننے والابردبار ہے،یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ،جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘[9]

اس روایت کی سندمیں راوی شھربن حوشب ضعیف ہے،

وقال النسائی وابن عدی: لیس بالقوى

امام نسائی رحمہ اللہ اور ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں راوی راوی شھربن حوشب قوی نہیں ہے۔[10]

حكم الألبانی : ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف روایت ہے۔

اگرچہ حدیث میں ضعف ہے لیکن اس مسئلے میں یہ آیت ہی کافی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:الْإِضْرَارُ فِی الْوَصِیَّةِ مِنَ الْكَبَائِرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوصیت میں ورثاء کونقصان پہنچاناکبیرہ گناہوں سے ہے۔[11]

ضررکی اقسام میں سے یہ بھی ہے کہ ورثاء میں بعض کوبعض پرفضیلت دے دینایاورثاء کونقصان پہنچانے کے لئے مال نکالنے کی وصیت کرجانا۔

فَمَا أَحَقُّ وَصِیَّةِ الضِّرَارِ بِالْإِبْطَالِ مِنْ غَیْرِ فَرْقٍ بَیْنَ الثُّلُثِ وَمَا دُونَهُ وَمَا فَوْقَهُ

دلائل کا ظاہر اس بات پردلالت کرتاہے کہ نقصان پہنچانے والی وصیت نافذ نہیں ہوگی خواہ وہ ثلث مال سے ہویااس سے کم یازیادہ کے ساتھ ہو۔[12]

x قربت(ثواب کے کام)میں ثلث تک وصیت کی جاسکتی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبْعِ، لِأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِیرٌ أَوْ كَبِیرٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کاش لوگ(وصیت کو) ربع تک کم کرلیں (تومجھے یہی پسندہے)کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاثلث کی وصیت کردولیکن ثلث بھی بہت زیادہ ہے۔[13]

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: عَادَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ أَشْفَیْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، بَلَغَنِی مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَا یَرِثُنِی إِلَّا ابْنَةٌ لِی وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْ مَالِی؟ قَالَ: لَا، قَالَ: قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ:لَا، الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِیرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِیَاءَ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع میں میری عیادت کو تشریف لائے اورمیں ایسے دردمیں مبتلاتھاکہ موت کے قریب ہوگیاتھا،میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے جیسادردہے آپ جانتے ہیں اورمیں مال دارآدمی ہوں اور میری وارث صرف میری ایک لڑکی ہی ہےکیا میں اپنا دوتہائی مال خیرات کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے عرض کیاآدھامال خیرات کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایانہیں ،ایک تہائی مال کی خیرات کراوریہ تہائی بھی بہت ہےاگر تم اپنے وارثوں کومال دارچھوڑ کرجا ؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیراورتنگدست چھوڑکرجاوکہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔[14]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ تَصَدَّقَ عَلَیْكُمْ، عِنْدَ وَفَاتِكُمْ، بِثُلُثِ أَمْوَالِكُمْ، زِیَادَةً لَكُمْ فِی أَعْمَالِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے تم پرتمہاری وفات کے وقت تمہارے ثلث مال کے بدلے تمہاری نیکیوں میں اضافے کاصدقہ کیاہے تاکہ وہ اس کے ذریعے تمہارے(اچھے)اعمال میں زیادتی کردے۔[15]

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَجُلًا، أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ عِنْدَ مَوْتِهِ، وَلَمْ یَكُنْ لَهُ مَالٌ غَیْرُهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِیدًا ، ثُمَّ دَعَاهُمْ فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَقْرَعَ بَیْنَهُمْ: فَأَعْتَقَ اثْنَیْنِ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے وفات کے وقت اپنے چھ غلام آزادکردیے جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی مال بھی نہیں تھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خبرملی توآپ نے اسے بڑی سخت بات فرمائی،پھران غلاموں کوبلوایااورانہیں تین حصوں میں تقسیم کیاپھران کے درمیان قرعہ اندازی کرکےدوکوآزادکردیااورچارکوغلام ہی رہنےدیا۔[16]

عَنْ أَبِی زَیْدٍ، وَقَالَ: النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ شَهِدْتُهُ قَبْلَ أَنْ یُدْفَنَ لَمْ یُدْفَنْ فِی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِینَ

ابوزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں اسے دفن کرنے سے پہلے حاضرہوتا(جس نے وفات کے وقت اپنے سارے غلام آزادکردیے تھے)تووہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیاجاتا۔[17]

إِنْ كَانَتِ الْوَرَثَةُ أَغْنِیَاءَ اسْتُحِبَّ أَنْ یُوصِیَ بِالثُّلُثِ تَبَرُّعًا وَإِنْ كَانُوا فُقَرَاءَ اسْتُحِبَّ أَنْ یُنْقِصَ مِنَ الثُّلُثِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگرورثاء فقیرہوں توبہتریہی ہے کہ ثلث سے بھی کم مال میں وصیت کی جائے اوراگرغنی ہوں توپھرمستحب نہیں ۔[18]

غیر وارث (میت دورونزدیک کے رشتہ دار) کے حق میں کل جائدادکے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی،

سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: مَرِضْتُ بِمَكَّةَ مَرَضًا، فَأَشْفَیْتُ مِنْهُ عَلَى المَوْتِ، فَأَتَانِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِی مَالًا كَثِیرًا، وَلَیْسَ یَرِثُنِی إِلَّا ابْنَتِی، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْ مَالِی؟ قَالَ:لاَ قَالَ: قُلْتُ: فَالشَّطْرُ؟ قَالَ:لاَ قُلْتُ: الثُّلُثُ؟ قَالَ: الثُّلُثُ كَبِیرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَرَكْتَ وَلَدَكَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِی امْرَأَتِكَ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں مکہ مکرمہ میں بیمار پڑا جس سے مرنے کے قریب تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس بہت مال ہے اور میرا وارث بجز میری بیٹی کے اور کوئی نہیں کیا میں دوتہائی مال صدقہ کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے عرض کیا آدھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے عرض کیا تہائی؟آپ نے فرمایا کہ تہائی بہت ہےاگر تو اپنی اولاد کو مال دار چھوڑے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو تنگدست چھوڑے کہ لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں اور جو تم بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر تمہیں ملے گا یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو

فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، آأُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِی؟ فَقَالَ:لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِی، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِیدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً، وَلَعَلَّ أَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِی حَتَّى یَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَیُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، لَكِنِ البَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ یَرْثِی لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ، قَالَ سُفْیَانُ:وَسَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ

میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پیچھے رہ کر جو عمل بھی اللہ کی خوشنودی کے لئے کرو گے اس کے ذریعہ اللہ تمہاری بلندی اور درجہ میں زیادتی عطا فرمائے گا اور امید ہے کہ تم میرے پیچھے رہو گے تو بہت سے لوگوں کو تم سے نفع پہنچتا رہے گا اور بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان پہنچے گا، لیکن بے چارہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ چونکہ ان کا انتقال مکہ مکرمہ میں ہوگیا اس لئے ان کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے تھے۔ سفیان نے کہا کہ سعد بن خولہ بنی عامر بن لوئی کے ایک فرد تھے۔[19]

xاگرکوئی وارث ہی نہ ہوتوکیاپھرثلث سے زائدمال میں وصیت کی جاسکتی ہے۔

ا س مسئلہ میں اختلاف ہے

فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إلَى مَنْعِهِ مِنْ الزِّیَادَةِ عَلَى الثُّلُثِ،وَجَوَّزَ لَهُ الْحَنَفِیَّةُ الزِّیَادَةُ، وَاحْتَجُّوا بِأَنَّ الْوَصِیَّةَ مُطْلَقَةٌ فِی الْآیَةِ فَقَیَّدَتْهَا السُّنَّةُ بِمَنْ لَا وَارِثَ لَهُ فَبَقِیَ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ عَلَى الْإِطْلَاقِ

جمہورکے نزدیک ثلث سے زائدمال میں وصیت کرناکسی صورت جائزنہیں ۔احناف کانظریہ ہے کہ اس صورت میں ثلث مال سے زائدمیں بھی وصیت جائزہےکیونکہ قرآن میں مطلق طورپروصیت کاذکرہے پھرسنت نے اسے اس کے لئے مقید کر دیا جس کاوارث ہے اورجس کاوارث نہیں ہے وہ قرآن کے اطلاق پرہی باقی رہے گا۔[20]

xو صیت پرعمل سے پہلے قرض اداکرناواجب ہے۔

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ:وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض کو ادا کیا۔[21]

عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ، أَنَّ أَخَاهُ مَاتَ وَتَرَكَ ثَلَاثَمِائَةِ دِرْهَمٍ، وَتَرَكَ عِیَالًا،فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَهَا عَلَى عِیَالِهِ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَیْنِهِ، فَاقْضِ عَنْهُ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ أَدَّیْتُ عَنْهُ إِلَّا دِینَارَیْنِ،ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَیْسَ لَهَا بَیِّنَةٌ، قَالَ:فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ

سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیرابھائی فوت ہواتواس نے تین سودرہم اوراہل وعیال پیچھے چھوڑے، میں نے ان درہموں کواس کے گھروالوں پرخرچنے کاارادہ کیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیشک تمہارابھائی اپنے قرض کی وجہ سے قیدکیاگیاہے تواس کی طرف سے ادائیگی کردے،میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے سوائے دو دینار کے باقی اداکردیے ہیں صرف ایک عورت نے دیناروں کا دعوی کیاہے لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے اداکردوکیونکہ وہ حق دار ہے ۔[22]

وَعَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عِنْدَ الشَّیْخَیْنِ وَغَیْرِهِمَا أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی خُطْبَتِهِ:مَنْ خَلَّفَ مَالًا أَوْ حَقًّا فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ خَلَّفَ كَلًّا أَوْ دَیْنًا فَكَلُّهُ إلَیَّ وَدَیْنُهُ عَلَیَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایاجس نے کوئی مال یاحق پیچھے چھوڑاوہ اس کے ورثاء کے لئے ہے اورجس نے کوئی بوجھ یاقرض چھوڑاتواس کا بوجھ میری طرف ہے اوراس کاقرض بھی میری طرف ہے۔[23]

ابوسعید رضی اللہ عنہ ، سلمان رضی اللہ عنہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں احادیث مروی ہیں ۔[24]

‏ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَیْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِیقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١٨٨﴾‏ ۞ یَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿١٨٩﴾‏ (البقرة)
 ’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کرلیا کروحالانکہ تم جانتے ہو، لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے (احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیںبلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔‘‘

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ} فَهَذَا فِی الرَّجُلِ یَكُونُ عَلَیْهِ مَالٌ وَلَیْسَ عَلَیْهِ فِیهِ بَیِّنَةٌ فَیَجْحَدُ الْمَالَ فَیُخَاصِمُهُمْ إِلَى الْحُكَّامِ وَهُوَ یَعْرِفُ أَنَّ الْحَقَّ عَلَیْهِ، وَهُوَ یَعْلَمُ أَنَّهُ آثَمٌ آكُلٌ حَرَامًا

علی بن ابوطلحہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کرلیا کرو۔‘‘ اس شخص کے بارے میں ہے جس کے ذمے کسی شخص کامال ہواورکوئی گواہی موجودنہ ہواوروہ انکارکرتے ہوئے جھگڑے کوحکام کے پاس لے جائے حالانکہ وہ جانتاہے کہ حق اس کے خلاف ہے اوروہ گناہ گاراورمال حرام کھانے والاہے۔[25]

فرمایااورتم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطریقہ سے نہ کھاؤاور حاکموں کے آگے رشوت پیش نہ کروکہ اس طرح دوسروں کا مال کاکوئی حصہ تمہیں قصداًظالمانہ طریقے سے کھانے کاموقع مل جائے،

أُمَّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ، فَخَرَجَ إِلَیْهِمْ فَقَالَ:إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّهُ یَأْتِینِی الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ یَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ، فَأَقْضِیَ لَهُ بِذَلِكَ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِیَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْیَأْخُذْهَا أَوْ فَلْیَتْرُكْهَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آوازسنی اور جھگڑاکرنے والوں کے پاس تشریف لائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایامیں بھی انسان ہوں اس لئے جب میرے پاس لوگ اپنے مقدمات لے کرآتے ہیں ہوسکتاہے کہ (فریقین میں سے)ایک فریق دوسرے فریق سے عمدہ ہواورمیں سمجھتاہوں کہ وہ سچاہے اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کردیتاہوں ، دوزخ کاایک ٹکڑااس کودلارہاہوں خواہ وہ لے لے یاچھوڑدے۔[26]

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلِهِ: {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ}[27] وَاعْلَمْ یَا ابْنَ آدَمَ، أَنَّ قَضَاءَ الْقَاضِی لَا یُحِلُّ لَكَ حَرَامًا، وَلَا یُحِقُّ لَكَ بَاطِلًا، وَإِنَّمَا یَقْضِی الْقَاضِی بِنَحْوِ مَا یَرَى، وَیَشْهَدُ بِهِ الشُّهُودُ، وَالْقَاضِی بَشَرٌ یُخْطِئُ وَیُصِیبُ، وَاعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ قَدْ قُضِیَ لَهُ بِالْبَاطِلِ، فَإِنَّ خُصُومَتَهُ لَمْ تَنْقَضِ حَتَّى یَجْمَعَ اللهُ بَیْنَهُمَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیَقْضِی عَلَى الْمُبْطَلِ لِلْمُحِقِّ، وَیَأْخُذُ مِمَّا قُضِیَ بِهِ لِلْمُبْطِلِ عَلَى الْمُحِقِّ فِی الدُّنْیَا

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کرلیا کرو۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اے ابن آدم!اس بات کوخوب جان لوکہ قاضی کافیصلہ تمہارے لیے حرام کوحلال اورباطل کوحق قرارنہیں دے سکتاکیونکہ قاضی تواپنی رائے اورگواہوں کی گواہی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جبکہ قاضی ایک انسان ہے جس کافیصلہ غلط بھی ہوسکتاہے اورصحیح بھی، لہذاخوب جان لوکہ جس کے حق میں باطل فیصلہ ہوجائے تواس کاجھگڑاختم نہیں ہوجاتابلکہ ان دونوں کواللہ تعالیٰ قیامت کے دن جمع کرے گااورحق والے کے حق میں باطل والے کے خلاف اس سے بدرجہابہترفیصلہ فرمائے گاجودنیامیں ہواتھا ۔[28]

پچھلی جاہل قوموں کی طرح اہل عرب بھی چاندکے متعلق مختلف قسم کے اوہام وتخیلات اوررسوم میں مبتلاتھے،ان کاعقیدہ تھاکہ چاندکے طلوع وغروب اوراس کے گھٹنے بڑھنے ،اس کی حرکت اوراس کے گہن سے انسانی قسمتوں پراثرپڑتاہےاس لئے وہ چاندسے اچھے یابرے شگون لیتے،چاندکی بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کونجس تصورکرتے تھے،کسی تاریخ کوسفرکے لئے موزوں نہ سمجھتے اوربعض مہینوں اورتاریخوں میں شادی بیاہ نہ کرتے،اس سلسلہ میں ان میں کئی توہم پرستانہ رسمیں بھی رائج تھیں ،انہی چیزوں کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاندکے بارے میں سوال کیا،اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے فرمایالوگ تم سے چاندکی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو!چاند تواسلامی جنتری ہےکیونکہ اسلامی سال شمسی تاریخوں سے نہیں بلکہ قمری حساب سے مقررہے،چاندکی ان گھٹتی بڑھتی صورتوں سے تم لوگ مختلف معاملات میں تاریخوں کا تعیین کرتے ہو اوراس سے رمضان المبارک ،ماہ حرام اورحج کے مہینوں کاعلم ہوتاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ سَأَلَ النَّاسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْأَهِلَّةِ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {یَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ} یَعْلَمُونَ بِهَا حَلَّ دَیْنِهِمْ، وَعِدَّةَ نِسَائِهِمْ، وَوَقْتَ حَجِّهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاندکے بارے میں سوال کیاتواس موقع پریہ آیت’’لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے۔‘‘نازل ہوئی ۔اس سے وہ قرض کی مدت ،عورتوں کی عدت اورحج کے وقت کومعلوم کرسکتے ہیں ۔[29]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ جَعَلَ الْأَهِلَّةَ مَوَاقِیتَ لِلنَّاسِ، فَصُومُوا لِرُؤْیَتِهِ وَأَفْطِرِوَا لِرُؤْیَتِهِ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَعُدُّوَا لَهُ ثَلَاثِینَ یَوْمًا

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نےچاندکولوگوں کے لیے وقت معلوم کرنے کاذریعہ بنادیاہے لہذاچانددیکھ کرروزے رکھواورچانددیکھ کرروزے رکھناچھوڑدواوراگرآسمان ابرآلودہوتومہینے کے دنوں کی تعدادتیس پوری کرلو۔[30]

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عہدجاہلیت میں انصارمیں ایک توہم پرستانہ دستور تھا کہ جب انہوں نے احرام باندھاہوتاتودروازے سے گھرکے اندرداخل نہ ہوتے تھے بلکہ پیچھے سے (یاچھت پرسے کودکر)گھرمیں جاتے تھے،قریش مکہ میں بھی یہی دستورتھالیکن بعض خاندان اس سے متثنیٰ تھے

كَانُوا إِذَا أَحْرَمُوا فِی الجَاهِلِیَّةِ أَتَوْا البَیْتَ مِنْ ظَهْرِهِ

جب وہ حج یاعمرہ کااحرام باندھ لیتے اورپھرکسی ضرورت کے لئے گھرآنے کی ضرورت پڑجاتی توگھرکے دروازے سے اندرآنے کے بجائے گھرکی پچھلی دیوار کو پھلانگ کرگھرمیں داخل ہوتے۔[31]

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: كَانَتِ الْأَنْصَارُ إِذَا قَدِمُوا مِنْ سَفَرٍ لَمْ یَدْخُلِ الرَّجُلُ مِنْ قِبَلِ بَابِهِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ {وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا}[32]

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصارکے ہاں یہ معمول تھاکہ جب وہ سفرسے واپس آتے توگھرکے دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھےچنانچہ یہ آیت’’ (احرام کی حالت میں ) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو ۔‘‘ نازل ہوئی تھی۔[33]

عَنِ الْحَسَنِ : كَانَ أَقْوَامٌ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ إِذَا أَرَادَ أَحَدُهُمْ سَفَرًا أَوْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِهِ یُرِیدُ سَفَرَهُ الَّذِی خَرَجَ لَهُ، ثُمَّ بَدَا لَهُ بَعْدَ خُرُوجِهِ مِنْهُ أَنْ یُقِیمَ وَیَدَعَ سَفَرَهُ الَّذِی خَرَجَ لَهُ لَمْ یَدْخُلِ الْبَیْتَ مِنْ بَابِهِ وَلَكِنْ یَتَسَوَّرُهُ مِنْ قِبَلِ ظَهْرِهِ تَسَوُّرًا فَقَالَ اللهُ: لَیْسَ ذَلِكَ بِالْبِرِّ، أَنْ تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا، وَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں جب کچھ لوگ سفرکاارادہ کرتے اوراپنے ارادہ سفرکے تحت گھرسے نکل جاتے اورگھرسے باہرنکل جانے کے بعدوہ سفرکاارادہ ترک کرکے مقیم ہوجاتے توپھرگھرمیں اپنے دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پچھواڑے کی جانب سے دیوارپھلانگ کرگھرمیں داخل ہواکرتے تھے، تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘[34]

مشرکین میں بھی اسی طرح کارواج تھا

كَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا أَحْرَمُوا لَمْ یَدْخُلُوا الْبُیُوتَ إِلا مِنْ ظُهُورِهَا

مشرکین جب حج یاعمرہ کااحرام باندھ لیتے اورپھرکسی ضرورت کے لئے گھرآنے کی ضرورت پڑ جاتی توگھرکے دروازے سے اندرآنے کے بجائے گھرکی پچھلی دیوار کو پھلانگ کرگھرمیں داخل ہوتے۔[35]

اوراس عمل کونیکی اورعبادت تصورکرتے تھے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاس، قَالَ: دخل رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذات یَوْم، وهو محرم بَابِ بُسْتَانٍ، فأبصره قطبة بْن عَامِر الْأَنْصَارِیّ، أحد بنی سَلَمة، فاتبعه، فأبصره رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:ما أدخلك وأنت محرم؟ فقال القوم:یَا رَسُولَ اللهِ، هذا الرجل فاجر، خرج من الدار وهو محرم،قال: فقال له رَسُول اللهِ: مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟قال:یَا رَسُولَ اللهِ،خَرَجْتَ مِنْهُ فَخَرَجْتُ مِنْهُ،فقال رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی رَجُلٌ أَحْمَسُ،قال:إِنْ تك أَحْمَسَ فَإِنَّ دِینُنَا وَاحِدٌ، فأنزل الله عَزَّ وَجَلَّ :وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝۰ۚ وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۝۰۠ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں کسی باغ میں تشریف لے گئے ،یہ دیکھ کرقطیبہ رضی اللہ عنہ بن عامرانصاری جوبنوسلمہ سے تھےبھی احرام باندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اندرچلے گئے،لوگوں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ شخص گناہ کامرتکب ہواہے کہ احرام کی حالت میں دروازے سے اندرداخل ہواہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطیبہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکرفرمایاقطیبہ رضی اللہ عنہ !تم احرام باندھ کراندرکیوں آئے؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواندرآتادیکھ کرمیں بھی اندرداخل ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تواحمسی ہوں (یعنی میراقبیلہ اس دستورکاپابندنہیں ہے) انہوں نے عرض کیاجوآپ کادین ہے وہی میرادین ہے، اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی تردیدکرتے ہوئے فرمایا’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں سے کہواپنے حج کے دنوں میں گھروں میں پیچھے سے دیوار پھلانگ کریاکھڑکی سے داخل ہوکریاسفرسے واپس آکرگھرکے پیچھے سے داخل ہوناکوئی نیکی کاکام نہیں ہے،نیکی تواصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچےاوروہ کام کرے جس کااس نے حکم فرمایاہے اوراس کام سے رک جائے جس سے اس نے منع فرمایاہےلہذاتم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیاکروالبتہ ہرحال میں اللہ سے ڈرتے رہوشایدکہ تمہیں روزمحشر فلاح نصیب ہوجائے۔‘[36]

وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ ‎﴿١٩٠﴾‏وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَیْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ یُقَاتِلُوكُمْ فِیهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٩١﴾‏ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٩٢﴾‏ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَیَكُونَ الدِّینُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِینَ ‎﴿١٩٣﴾(البقرة)
 ’’لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا، انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے، اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے، اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے،ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے ۔‘‘

حکم جہاداورشرائط:شروع میں مسلمان کمزوراورمنتشرتھےاس لئے مسلمانوں کوقتال کی اجازت نہیں تھی ،جب مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ منورہ میں مجتمع ہوگئی تواس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جومسلمانوں سےلڑنے پرآمادہ رہتے تھے۔

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، عَنِ الرَّبِیعِ، فِی قَوْلِهِ: {وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ} قَالَ هَذِهِ أَوَّلُ آیَةٍ نَزَلَتْ فِی الْقِتَالِ بِالْمَدِینَةِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَاتِلُ مُنْ یُقَاتِلُهُ وَیَكُفُّ عَمَّنْ كَفَّ عَنْهُ حَتَّى نَزَلَتْ بَرَاءَةُ

ابوجعفررازی نے ربیع بن انس سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’لڑواللہ کی راہ میں جوتم سے لڑتے ہیں اورزیادتی نہ کرواللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کوپسندنہیں فرماتا۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے کہ یہ مدینہ منورہ میں قتال کے بارے میں نازل ہونے والی پہلی آیت ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان لوگوں سے لڑناشروع کردیاجوآپ سے لڑتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نہیں لڑتے تھے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں لڑتے تھے حتی کہ سورۂ برات نازل ہوگئی۔[37]

فرمایا اورتم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑوجوتم سے لڑتے ہیں ، اس دورمیں جنگ کاکوئی نصب العین نہیں تھا،فاتح جب فتح پاتے توبچوں ،بوڑھوں ،عورتوں بیماروں سب کوقتل کردیتے،لاشوں کامثلہ کرتے اورجوبچ جاتے انہیں غلام بناکران کی تحقیروتذلیل کرتے،عورتوں کی بے حرمتی کرتے، شہروں کوجلادیتے،کھڑی فصلوں اوردرختوں کو جلا دیتے وغیرہ ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت ،بدعہدی ،لاشوں کامثلہ کرنے،جن عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں کاجنگ سے تعلق نہ ہوانہیں قتل کرنا،کسی مجروح پرحملہ کرنا،کسی بھاگنے والے کاپیچھاکرنا،قیدی کوقتل کرنا،آگ میں جلانے اوربلاضرورت درخت کاٹنےسے منع فرمایا۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ یَزِیدَ الْأَنْصَارِیَّ یُحَدِّثُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النُّهْبَةِ وَالْمُثْلَةِ

عبداللہ بن یزیدانصاری سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ کے مال اورمثلہ(قطع اعضا)سے منع فرمایا ہے۔[38]

لا تُجْهِزَنَّ عَلَى جَرِیحٍ، وَلا یُتْبَعَنَّ مُدْبِرٌ. وَلا یُقْتَلَنَّ أَسِیرٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ

کسی مجروح پرحملہ نہ کیاجائے،کسی بھاگنے والے کاپیچھانہ کیاجائے،کسی قیدی کوقتل نہ کیاجائےاوراپنے گھرکادروازہ بندکرلے وہ امان میں ہے۔[39]

عَنْ عَاصِمٍ یَعْنِی ابْنَ كُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ النَّاسَ حَاجَةٌ شَدِیدَةٌ وَجَهْدٌ، وَأَصَابُوا غَنَمًا فَانْتَهَبُوهَا فَإِنَّ قُدُورَنَا لَتَغْلِی إِذْ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْشِی عَلَى قَوْسِهِ، فَأَكْفَأَ قُدُورَنَا بِقَوْسِهِ ثُمَّ جَعَلَ یُرَمِّلُ اللحْمَ بِالتُّرَابِ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ النُّهْبَةَ لَیْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَیْتَةِأَوْ إِنَّ الْمَیْتَةَ لَیْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ النُّهْبَةِ

عاصم سےمروی ہےہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر جہادمیں روانہ ہوئے پس لوگوں کو دوران سفر کھانے پینے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا پھر کچھ بکریاں ملیں ہر شخص نے چوپایا لوٹ لیا، پس ہماری دیگچیاں ابل رہی تھیں (یعنی ان میں گوشت پک رہا تھا) اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمان ٹیکتے ہوئے تشریف لائے اور اپنی کمان سے ہماری دیگچیاں الٹ دیں اورپھر گوشت کو مٹی میں لتھیڑنے لگے،اس کے بعد آپ نے فرمایا لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے کم نہیں ہے یایوں فرمایامردارکاگوشت لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں ۔[40]

أَبَا أَیُّوبَ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْهَى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے قتل صبر(باندھ کرمارنے)سے منع فرمایا۔[41]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَیْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَیْهَا، فَجَاءَتِ الْحُمَرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ، فَجَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَیْهَا، وَرَأَى قَرْیَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ:مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ قُلْنَا: نَحْنُ،قَالَ:إِنَّهُ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے ان کے بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا زمین پر گر کر پر بچھانے لگی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو بے قرار کیا؟ اس کا بچہ اس کو دیدو،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک سوراخ دیکھا جس کو ہم نے جلادیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس نے جلایا؟ ہم نے کہا ہم نے جلایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآگ پیداکرنے والے کے رب کے سواکسی کوروانہیں کہ آگ سے عذاب دے۔[42]

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِیرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجاہدین کو بھیجتے وقت) فرمایا روانہ ہو جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی تائید و توفیق کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر، (دیکھو) کسی بڈھے کھوسٹ کوقتل نہ کرنا،نہ کسی بچے یانابالغ کواورنہ کسی عورت کو،(غنیمت میں )خیانت سے بازرہنا،غنائم کوجمع رکھنااوراصلاح کامعاملہ کرنا،نیکی اوراحسان اپنانا بلاشبہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔[43]

حكم الألبانی: ضعیف

قَالَ: اغْزُوا بِسْمِ اللهِ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ، اغْزُوا وَلَا تَغْدُرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِیدًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤاللہ کانام لے کراوراللہ کی راہ میں لڑوان لوگوں سے جواللہ سے کفرکرتے ہیں مگرجنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرو،مثلہ نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرواورکسی بچہ کوقتل نہ کرو۔[44]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: من قتل مُعاهِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِیحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِیرَةِ أَرْبَعِینَ عَامًا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی کسی معاہدکوقتل کرے گااسے جنت کی بوتک نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اس کی خوشبوچالیس برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔[45]

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا فِی غَیْرِ كُنْهِهِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ

ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی بغیرکسی جرم کے کسی معاہدتوقتل کرے گااللہ تعالیٰ نے اس پرجنت حرام کردی ہے۔[46]

اورجہاں بھی تمہاراان سے مقابلہ پیش آئے ان سے پوری قوت کے ساتھ لڑو اور جس طرح انہوں نے تمہیں مکہ مکرمہ سے ہجرت پرمجبورکردیاتھااسی طرح تم بھی انہیں مکہ معظمہ سے نکال باہرکرو،اس لیے کہ قتل اگرچہ ایک برافعل ہے مگراللہ کی زمین پر کفروشرک قتل سے بھی زیادہ سخت ہے،

عَنْ أَبِی مَالِكٍ: {وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ } قَالَ:الْفِتْنَةُ الَّتِی أَنْتُمْ مُقِیمُونَ عَلَیْهَا أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ

ابومالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے زیادہ برا ہے۔ ‘‘ کے معنی یہ ہیں جس شرک پرتم قائم ہویہ توقتل سے بھی بڑھ کرہے۔[47]

اوراگرکفارمسجدحرام کی حرمت کوملحوظ رکھیں اور اس کے قریب لڑائی سے پرہیزکریں توتم بھی ان سے نہ لڑو،مگرجب وہ مسجدحرام کی حرمت کاخیال نہ کریں اوروہاں لڑنے سے نہ چوکیں ،ازخودلڑائی کا آغازکریں توتم بھی بے تکلف ان کی گردنیں ماروکہ ایسے کافروں کی یہی سزاہے،پھراگروہ حرم میں لڑائی سےبازآجائیں اوراسلام کی طرف رجوع کرکے توبہ کرلیں تو جان لوکہ اللہ معاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے،تم کفارومشرکین سے لڑتے رہویہاں تک کہ اللہ کی زمین پرکفروشرک کانام بھی باقی نہ رہے،جب تک فتنہ(شرک) نیست ونابودنہ ہوجائے اوراللہ کادین تمام دینوں پر غالب ہو جائے،پھراگروہ کفروشرک سے باز آ جائیں اوراللہ کے آگے سراطاعت خم کردیں توان پردست درازی نہ کرو اس کے بعدجوقتال کرے گاوہی ظالم ہوگا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹۴ [48]

ترجمہ: لہذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو ۔

 وَجَزٰۗؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا۔۔۔ ۝۴۰ [49]

ترجمہ:برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ۔

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ۔۔۔۝۰۝۱۲۶ [50]

ترجمہ:اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَیْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ‎﴿١٩٤﴾(البقرة)
’’حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں، جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ ‘‘

ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہ دستورچلاآرہاتھاکہ چارمہینے حرمت والے تھے، ان میں تین مہینےذی القعدہ،ذی الحجہ اورمحرم حج کے لئے مختص تھے اورچوتھامہینہ رجب عمرے کے کے لئے خاص تھا،ان چاروں مہینوں میں جنگ وجدل اورقتل وغارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن وامان کے ساتھ بیت اللہ تک جائیں اوراپنے گھروں کوواپس ہوسکیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ ہجری کوچودہ سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ،لیکن کفارمکہ نے محض ہٹ دھرمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے رفقاکوعمرہ کرنے کی اجازت نہ دی ،بیت اللہ تمام اہل عرب کے لئے مقدس تھااورمکہ مکرمہ ایک اوپن سٹی تھاجس میں کوئی بھی شخص حج یاعمرہ کے لئے آسکتاتھا،اس لئے ان حرمت والے مہینے میں زائرین کوروکنے کا انہیں کوئی اختیارحاصل نہ تھا،قریش مکہ کی ہٹ دھرمی سے جنگ کاخطرہ پیداہوگیامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ وجدل پسندنہیں فرماتے تھے ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:لَمْ یَكُنْ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَغْزُو فِی الشَّهْرِ الْحَرَامِ إِلَّا أَنْ یُغْزى ویُغْزَوا فَإِذَا حَضَرَهُ أَقَامَ حَتَّى یَنْسَلِخَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمت والے مہینے میں جہادنہیں کیاکرتے تھے الایہ کہ دشمن پہل کرتاتوپھراس سے لڑتے تھے، جب حرمت کامہینہ ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے رک جاتے تھے حتی کہ وہ مہینہ گزرجاتا۔[51]

[1] سبل السلام ۱۵۱؍۲،نیل الاوطار۴۱؍۶

[2] سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ۲۷۱۳،جامع ترمذی کتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ لاَ وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ ۲۱۲۱،سنن نسائی کتاب الوصایابَابُ إِبْطَالِ الْوَصِیَّةِ لِلْوَارِثِ۳۶۷۱ ، مسنداحمد۱۷۶۶۴

[3] تیسیرالکریم الرحمن ۸۵؍۱

[4]النساء: ۱۴

[5] مصنف عبدالرزاق۱۶۴۵۵

[6] المعجم الاوسط۳۹۰،صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ باب وصیة الرجل مکتوبة عندہ۴۲۰۷ ،السنن الکبری للنسائی ۶۴۱۲،السنن الکبری للبیہقی۱۲۵۹۰

[7] سبل السلام۱۵۱؍۲

[8] نیل الاوطار۴۴؍۶،سبل السلام ۱۵۲؍۲

[9] سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْإِضْرَارِ فِی الْوَصِیَّةِ۲۸۶۷،جامع ترمذی ابواب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی الضِّرَارِ فِی الوَصِیَّةِ ۲۱۱۷،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ الْحَیْفِ فِی الْوَصِیَّةِ۲۷۰۴ ، مصنف عبدالرزاق ۱۶۴۵۵،مسنداحمد۷۷۴۲

[10] میزان الاعتدال۲۸۴؍۲

[11] سنن الدارقطنی ۴۲۹۳،مصنف عبدالرزاق ۱۶۴۵۶،مصنف ابن ابی شیبة ۳۰۹۳۳، السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۲۶،المعجم الاوسط ۸۹۴۷،تفسیرابن کثیر۲۳۱؍۲

[12] نیل الاوطار۴۶؍۶

[13] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۲۷۴۳،السنن الکبری للنسائی ۶۴۲۸

[14] صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ الوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۴۲۰۹،صحیح بخاری کتاب الوصا یابَابُ أَنْ یَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَتَكَفَّفُوا النَّاسَ۲۷۴۲

[15] سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ،نصب الرایة۲۷۰۹،سنن الدارقطنی۴۲۸۹،المعجم الکبیرللطبرانی۹۴

[16] سنن ابوداودکتاب العتق بَابٌ فِیمَنْ أَعْتَقَ عَبِیدًا لَهُ لَمْ یَبْلُغْهُمُ الثُّلُثُ ۳۹۵۸،مسنداحمد۲۲۸۹۱،السنن الکبری للنسائی ۴۹۵۵،صحیح ابن حبان۴۵۴۲، المعجم الکبیر للطبرانی ۴۵۷،معرفة السنن والآثار۲۰۴۶۰

[17] سنن ابوداودکتاب العتق بَابٌ فِیمَنْ أَعْتَقَ عَبِیدًا لَهُ لَمْ یَبْلُغْهُمُ الثُّلُثُ ۳۹۶۰

[18] شرح النووی علی مسلم۷۷؍۱۱

[19]صحیح بخاری کتاب الفرائض بَابُ مِیرَاثِ البَنَاتِ۶۷۳۳

[20] نیل الاوطار ۴۸؍۶ ، روضة الندیة ۳۲۰؍۲

[21] مسنداحمد۱۲۲۲،صحیح بخاری کتاب الوصایا بَابُ تَأْوِیلِ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِی بِهَا أَوْ دَیْنٍ

[22] سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام بَابُ أَدَاءِ الدَّیْنِ عَنِ الْمَیِّتِ ۲۴۳۳،مسنداحمد۲۰۰۷۶،مصنف ابن ابی شیبة۶۱۹

[23] نیل الأوطار۲۸۳؍۵، البدر المنیر۷۱۶؍۶،صحیح بخاری کتاب النفقات بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَكَ كَلًّا أَوْ ضَیَاعًا فَإِلَیَّ۵۳۷۱، وكتاب الكفالة بَابُ الكَفَالَةِ فِی القَرْضِ وَالدُّیُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَیْرِهَا ۲۲۹۸،صحیح مسلم کتاب الفرائض بَابُ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ۴۱۵۷، جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْیُونِ ۱۰۷۰، مسنداحمد۹۸۴۸، الروضة الندیة۴۰۶؍۳

[24] السنن الکبری للبیہقی ۱۳۳۴۵، صحیح ابن حبان۴۸۵۴

[25] تفسیرطبری۵۵۰؍۳

[26] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ إِثْمِ مَنْ خَاصَمَ فِی بَاطِلٍ، وَهُوَ یَعْلَمُهُ۲۴۵۸، صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ الْحُكْمِ بِالظَّاهِرِ، وَاللحْنِ بِالْحُجَّةِ۴۴۷۵

[27] البقرة: 188

[28] تفسیر طبری ۵۵۰؍۳

[29] تفسیرطبری ۵۵۴؍۳

[30] مصنف عبدالرزاق۷۳۰۶

[31] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرة بَابُ قَوْلِهِ وَلَیْسَ البِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا البُیُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ البِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا البُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۴۵۱۲،صحیح مسلم کتاب التفسیرباب فی تفسیرآیات متفرقة۷۵۴۹

[32] البقرة: 189

[33] مسند أبی داود الطیالسی ۷۵۲

[34] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۴؍۱

[35] تاریخ بغداد ۴۴۲؍۱۵

[36]‘ أسد الغابة۳۸۷؍۴

[37] تفسیرابن ابی حاتم ۳۲۵؍۱،تفسیرطبری۵۶۱؍۳

[38] مسنداحمد۱۸۷۴۰

[39] فتوح البلدان۴۹؍۱

[40] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ النُّهْبَى إِذَا كَانَ فِی الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِی أَرْضِ الْعَدُوّ ِ۲۷۰۵

[41] مسنداحمد۲۳۵۹۰

[42]سنن ابوداودکتاب الجہاد باب فی کراھیة حرق العدونالنار ۲۶۷۵

[43] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی دُعَاءِ الْمُشْرِكِینَ۲۶۱۴

[44] مصنف عبدالرزاق۹۴۲۸ ،مصنف ابن ابی شیبة ۳۲۹۲۳، مسند احمد ۱۸۰۹۷

[45]صحیح بخاری کتاب الجزیہ والموادعہ بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَیْرِ جُرْمٍ ۳۱۶۶

[46] سنن الدارمی۲۵۴۶

[47] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۵؍۱

[48] البقرة۱۹۴

[49] الشوریٰ۴۰

[50] النحل۱۲۶

[51] مسنداحمد۱۴۷۱۳

Related Articles