ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

وفات سے پانچ دن پہلے

وفات سے پانچ دن پہلے بروزچہارشنبہ(بدھ)کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کووصیت کرنے کاارادہ کیا

هَرِیقُوا عَلَیَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ، لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِیَتُهُنَّ، لَعَلِّی أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ،وَأُجْلِسَ فِی مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَیْهِ تِلْكَ، حَتَّى طَفِقَ یُشِیرُ إِلَیْنَا:أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ فَصَلَّى بِهِمْ وَخَطَبَهُمْ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ پرسات ایسی مشکوں  کاپانی ڈالوجن کے منہ نہ کھولے گئے ہوں  تاکہ میں  باہرجاکرلوگوں  کو وصیت کروں ،ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  کے ایک ٹب میں  (جو تانبے کاتھا) بٹھا دیااورمشکوں  سے پانی لے لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرڈالناشروع کیا، ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن  برابرپانی ڈالتی رہیں  یہاں  تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارے سے فرمایابس،بس اب تم نے اپناکام پوراکردیااس کے بعدآپ نے بیماری میں  کچھ تخفیف محسوس کی اورباہرمسجد میں تشریف لے گئے ،آپ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو نماز(ظہر) پڑھائی اورپھرایک خطبہ ارشاد فرمایا۔[1]

صُبُّوا عَلَیَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى

ایک روایت میں  ہے سات مشکیں  مدینہ کے سات مختلف کنوؤں  سے بھرکرلاؤاورمیرے اوپرڈالو۔[2]

إِنِّی أَبْرَأُ إِلَى اللهِ أَنْ یَكُونَ لِی مِنْكُمْ خَلِیلٌ، فَإِنَّ اللهِ تَعَالَى قَدِ اتَّخَذَنِی خَلِیلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِی خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِیلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ وَصَالِحِیهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّی أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  اللہ کے سامنے اس بات سے بریت کااظہارکرتاہوں  کہ تم میں  سے کوئی میراخلیل ہو کیونکہ یقیناًاللہ نے مجھے اپناخلیل بنایاہے جس طرح اس نے ابراہیم   علیہ السلام  کوخلیل بنایا تھا ، اگرمیں  اپنی امت میں  سے کسی کواپناخلیل بناتاتوسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوبناتا،خبردارتم سے پہلے جولوگ گزرچکے ہیں  وہ اپنے انبیاء اورصالحین کی قبروں  کو مسجد بنالیاکرتے تھے تم قبروں  کو مسجدنہ بنانامیں  تم کواس سے منع کرتاہوں ۔[3]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَعَنَ اللهُ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کومساجدبنالیا۔[4]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَاتَلَ اللَّهُ الیَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہودونصاریٰ پراللہ کی مار کہ انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کو مسجد بنا لیا۔[5]

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله علیه وسلم قَالَ:اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَناً یُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ.

عطاء بن یسار سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے اللہ!میری قبرکوبت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں  ،اللہ کاان لوگوں  پربڑاغضب جنہوں  نے اپنے پیغمبروں  کی قبروں  کو مسجد بنالیا ۔[6]

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَتَّخِذُوا بَیْتِی عِیدًا

حسن بن علی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیری قبرپرمیلہ نہ لگانا۔[7]

ومن جمع بین سنة  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ تعالى عَلَیْهِ وآله وَسَلَّم فى القبور، وما أمر به ونهى عنه وما كان علیه أصحابه، وبین ما علیه أكثر الناس الیوم رأى أحدهما مضاداً للآخر، مناقضاً له، بحیث لا یجتمعان أبداً،فنهى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن الصلاة إلى القبور، وهؤلاء یصلون عندها، ونهى عن اتخاذها مساجد، وهؤلاء یبنون علیها المساجد، ویسمونها مشاهد، مضاهاة لبیوت الله تعالى ،ونهى عن إیقاد السرج علیها، وهؤلاء یوقفون الوقوف على إیقاد القنادیل علیها،ونهى أن تتخذ أعیاداً، وهؤلاء یتخذونها أعیاداً  ومناسك، ویجتمعون لها كاجتماعهم للعید أو أكثر، ونهى أن یزاد علیها غیر ترابهاوهؤلاء لا یزیدون علیه سوى التراب الآجر والأحجار والجص،ونهى عن الكتابة علیهاوهؤلاء یتخذون علیها الألواح، ویكتبون علیها القرآن وغیره

حافظ ابن قیم  رحمہ اللہ  قبرپرستی پرتبصرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں  اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں  کاحدیث نبوی اورآثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں  موازنہ کرے تووہ دیکھے گاکہ آج مسلمانوں  کے ایک جم غفیرنے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے مثلاًنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبورانبیاء پربھی نمازپڑھنے سے منع فرمایامگرمسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپرنمازپڑھتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی کے ساتھ روکامگرآج ان پربڑی بڑی عمارات بناکران کا نام خانقاہ ، مزارشریف اوردرگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  پرچراغاں  سے منع فرمایا مگر قبرپرست مسلمان قبروں  پرخوب خوب چراغاں  کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں  وقف کرتے ہیں  ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  پرمیلہ لگانے سے منع فرمایامگرمسلمان ان پرمیلہ لگاتے ہیں  اور مختلف مناسک اداکرتے ہیں  اوراس طرح وہاں جمع ہوتے ہیں  جیسے عید کا اجتماع ہو۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  پرزائدمٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایامگریہ لوگ مٹی کے بجائے چونااوراینٹ سے ان کوپختہ بناتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  پرکتبے لکھنے سے منع فرمایامگریہ لوگ شاندارعمارتیں  بناکرآیات قرآنی قبروں  پرلکھتے ہیں  ،گویاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہرحکم کے مخالفت اوردین کی ہرہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں ۔[8]

صاحب مجالس الابرارلکھتے ہیں  کہ یہ فرقہ ضالہ غلو(حدسے بڑھنا)میں  یہاں  تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ کی طرح قبروں  کے آداب اورارکان ومناسک مقررکرڈالے ہیں  جو اسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے پھرتعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کوحنفی سنی کہلاتے ہیں حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے ہرگزہرگزایسے امورکے لیے نہیں  فرمایا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  منبرسے نیچے تشریف لے آئے۔

فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطِیبًافَقَالَ: أَمَّا بعد أیها الناس إنه قد دنى منی خلوف مِنْ بَیْنِ أَظْهَرُكُمْ وَلَنْ تَرَوْنِی فِی هَذَا الْمَقَامِ فِیكُمْ،  وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَنَّ غَیْرَهُ غَیْرُ مُغْنٍ عَنِّی حتَّى أقوِّمه فِیكُمْ، أَلَا فَمَنْ كُنْتُ جَلَدْتُ لَهُ ظَهْرًا فَهَذَا ظَهْرِی فَلْیَسْتَقِدْ،وَمَنْ كُنْتُ أَخَذْتُ لَهُ مَالًا فَهَذَا مَالِی فَلْیَأْخُذْ مِنْهُ، وَمَنْ كُنْتُ شَتَمْتُ لَهُ عِرْضًا فَهَذَا عِرْضِی فَلْیَسْتَقِدْ،وَلَا یَقُولَنَّ قَائِلٌ أخاف الشحناء من قبل رَسُولُ الله، أَلَا وَإِنَّ الشَّحْنَاءَ لَیْسَتْ مِنْ شَأْنِی وَلَا مِنْ خُلُقِی،

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرمایاامابعد!اے لوگو!میرے تم سے پیچھے رہنے کاوقت قریب آگیاہے اورتم مجھے اس جگہ پر ہرگزنہیں  دیکھوگےاورمیں  دیکھتاہوں  کہ اس کے سوامجھے کفایت کرنے والانہیں  یہاں  تک کہ تم میں  اس کی تعیین وتعدیل کردوں ،آگاہ رہومیں  نے جس شخص کی پشت پرکوڑاماراہے وہ میری اس پشت سے قصاص لے لےاورمیں  نے جس کامال لیاہے وہ اس مال سے اسے لے سکتاہے،اورمیں  نے جس کی بےعزتی کی ہے وہ مجھ سے اس کاقصاص لے لے اور کوئی یہ نہ کہے کہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دشمنی سے ڈرتاہوں  ،آگاہ رہودشمنی کرنامیری عادت نہیں  ،

وَإِنَّ أَحَبَّكُمْ إلیَّ مِنْ أَخَذَ حَقًّا إِنْ كَانَ لَهُ علیَّ أَوْ حَلَّلَنِی ، فَلَقِیتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَیْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِی مَظْلِمَةٌ،قَالَ:فَقَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ لِی عِنْدَكَ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَا أُكَذِّبُ قَائِلًا.وَلَا مُسْتَحْلِفُهُ عَلَى یَمِینٍ فِیمَ كَانَتْ لَكَ عِنْدِی؟قَالَ: أَمَا تَذْكُرُ أَنَّهُ مرَّ بِكَ سَائِلٌ فَأَمَرْتَنِی فَأَعْطَیْتُهُ ثَلَاثَةَ دَرَاهِمَ،قَالَ: أَعْطِهِ یَا فَضْلُ

اورتم میں  سے وہ شخص مجھے زیادہ محبوب ہے کہ اگراس کامیرے ذمہ کوئی حق ہے تووہ مجھ سے لے لیتاہے یا میرے لیے جائزقراردے دیتاہے،پس میں  اللہ تعالیٰ کواس حال میں  ملناچاہتاہوں  کہ میرے ذمے کسی کی کوئی بے انصافی نہ ہو، راوی کہتاہے ان میں  سے ایک شخص کھڑاہوااوراس نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں  نہ قائل کی تکذیب کرتاہوں  اورنہ میرے ذمہ تیرے دراہم ہیں  اس پرقسم کامطالبہ کرتاہوں ،اس نے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کویادنہیں  کہ آپ کے پاس سے ایک سائل گزراتوآپ نے مجھے حکم دیااورمیں  نے تین درہم دیئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فضل  رضی اللہ عنہ بن عباس سے فرمایا انہیں  تین درہم اداکردو،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پھرمنبرپرتشریف لے گئے اور انصار کے بارے میں  وصیت فرمائی۔[9]

ثُمَّ قَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ، مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَیْءٌ فَلْیَرُدَّهُ، وَلَا یَقُولُ: فُضُوحُ الدُّنْیَا، أَلَا وَإِنَّ فُضُوحَ الدُّنْیَا خَیْرٌ مِنْ فُضُوحِ الْآخِرَةِ

پھرفرمایالوگو!جس کے پاس کسی کی کوئی چیزہوتواسے اداکردواوردنیاکی فضحیت سے نہ ڈرے کیونکہ دنیاکی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت ہلکی ہے۔[10]

وَفِی إِسْنَادِهِ ومتنه غرابة شدیدة

حافظ ابن اکثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کے متن اوراسنادمیں  شدید غرابت پائی جاتی ہے۔

انصارکے متعلق وصیت:

مَرَّ أَبُو بَكْرٍ، وَالعَبَّاسُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ وَهُمْ یَبْكُونَ فَقَالَ: مَا یُبْكِیكُمْ؟ قَالُوا: ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَّافَدَخَلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، یَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْهِ مِلْحَفَةٌ مُتَعَطِّفًا بِهَا عَلَى مَنْكِبَیْهِ، وَعَلَیْهِ عِصَابَةٌ دَسْمَاءُ حَتَّى جَلَسَ عَلَى المِنْبَرِ فَكَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الیَوْمِ، ثُمَّ قَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ إِلَیَّ ،  فَثَابُوا إِلَیْهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے (چاریاپانچ دن)پہلے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورعباس  رضی اللہ عنہ  انصارکی ایک مجلس کے پاس سے گزرےانصاررورہے تھے،انہوں  نے پوچھاتم کیوں  رورہے ہو؟انصارنے جواب دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس کی یادآرہی ہے(اوراب عنقریب ہم اس سے محروم ہو جائیں  گے)سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورعباس  رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوکرانصارکی کیفیت بیان کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  باہرتشریف لائے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک بڑی چادراپنے شانوں  پرڈالے ہوئے تھے اوراپنے سرمبارک پرایک سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی، اورمنبر(کی نچلی سیڑھی)پرتشریف فرما ہوئے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آخری مجلس تھی،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  منبر پر تشریف فرمانہ ہوسکے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کی حمدوثنا بیان کی،پھرفرمایالوگو!میری بات سنوچنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہوگئے،

قَالَ:أُوصِیكُمْ بِالأَنْصَارِ، فَإِنَّهُمْ كَرِشِی وَعَیْبَتِی، وَقَدْ قَضَوُا الَّذِی عَلَیْهِمْ، وَبَقِیَ الَّذِی لَهُمْ، فَإِنَّ النَّاسَ یَكْثُرُونَ وَیَقِلُّ الأَنْصَارُ، حَتَّى یَكُونُوا فِی النَّاسِ بِمَنْزِلَةِ المِلْحِ فِی الطَّعَامِ، فَمَنْ وَلِیَ مِنْكُمْ شَیْئًا یَضُرُّ فِیهِ قَوْمًا وَیَنْفَعُ فِیهِ آخَرِینَ، فَلْیَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَیَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِیئِهِمْ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں  تم کوانصارکے معاملہ میں  وصیت کرتا ہوں  کہ وہ میرے جسم وجان ہیں  انہوں  نے اپنی تمام ذمہ داریاں  پوری کی ہیں  لیکن اس کابدلہ جوانہیں  چاہیے تھاوہ ملناابھی باقی ہے،لوگ بڑھتے جائیں  گے اورانصارکم ہوتے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ اتنے کم ہوجائیں  گے جیسے کھانے میں  نمک ہوتاہے،لہذاجوشخص محمد  علیہ السلام کی امت میں  کسی چیزکاوالی ہواوراسے اختیار ہو کہ اس میں  کسی کوضررپہنچائے یا کسی کوفائدہ پہنچائے تواس کوچاہیے کہ انصار میں  سے نیکی کرنے والوں  کی نیکی کوقبول کرے اوران میں  سے برائی کرنے والے کی برائی کو در گزرکرے۔[11]

فَقَالَ:إِنَّ اللهَ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللهِ  فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ وَقَالَ: فَدَیْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا فَقُلْتُ فِی نَفْسِی مَا یُبْكِی هَذَا الشَّیْخَ؟ إِنْ یَكُنِ اللهُ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللهِ، فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّیْخِ، یُخْبِرُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَیَّرَهُ اللهُ  بَیْنَ أَنْ یُؤْتِیَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْیَا، وَبَیْنَ مَا عِنْدَهُ، وَهُوَ یَقُولُ: فَدَیْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا،فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ العَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا،قَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ لاَ تَبْكِ، إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِی صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍوَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا مِنْ أُمَّتِی لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍوَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ وَمَوَدَّتُهُ،لاَ یَبْقَیَنَّ فِی المَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، إِلَّا بَابُ أَبِی بَكْرٍ

اس کے بعد فرمایا بیشک اللہ نے ایک بندہ کو اختیار دیاہے کہ خواہ وہ دنیامیں  رہناپسندکرے خواہ اس چیز کو پسندکرے جواللہ کے پاس ہے،اس بندہ نے اس چیزکوپسندکرلیاہے جواللہ کے پاس ہے،یہ سن کرسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  رونے لگےاور عرض کیاہمارے ماں  باپ آپ پر قربان ہو جائیں ، میں  نےاپنے دل میں  کہااگراللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اورآخرت میں  سے کسی کواختیارکرنے کوکہاہے اوراس بندے نے آخرت پسندکرلی تواس میں  ان بزرگ کے رونے کی وجہ کیاہے،سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے رونے سے اوروں  کوبھی تعجب ہواکہنے لگے ان بزرگوارکو دیکھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  توایک بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں  جسے اللہ تعالیٰ نے دنیاکی نعمتیں  اورجواللہ کے پاس ہے اس میں  سے کسی کے پسندکرنے کااختیاردیاتھااوریہ کہہ رہے ہیں  کہ ہمارے ماں  باپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرفداہوں ،ابوسعید  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  ہمیں  بعدمیں  معلوم ہوا کہ وہ بندہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی تھےسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  ہم سب سے زیادہ عالم تھے (اس لئے وہ ہم سے پہلے سمجھ گئے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے ابوبکر  رضی اللہ عنہ !روؤنہیں ،پھرفرمایایقیناًاپنی صحبت اوراپنے مال کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  ہیں  اگراپنی امت میں  سے میں  کسی کو خلیل بناتاتوسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوبناتالیکن اسلامی اخوت اورمحبت بھی بہت اچھی چیزہے،جن لوگوں  کے گھرکے دروازے مسجدمیں  کھلتے ہیں  وہ سب بند کر دیئے جائیں  سوائے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے دروازہ کے۔[12]

چنانچہ تمام دروزے بندکرکے سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کادروزہ باقی رکھاگیا،اس میں  آپ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھاکہ خلافت کے زمانہ میں  نمازپڑھاتے وقت ان کو آنے جانے میں  سہولت رہے،آج بھی مسجدنبوی میں  سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے دروازے پربطوریادگارکتبہ لگاہواہے۔

وقال:یا أَیُّهَا النَّاسُ، بلغنی أنكم تخافون من موت نبیكم هل خُلِّدَ نبی قبلی فیمن بعث إلیه فأخلد فیكم؟  ألَا إنی لاحق بربی، وإنكم لاحقون به، فأوصیكم بالمهاجرین الأوَّلین خیرًا، وأوصى المهاجرین فیما بینهم  فإن الله تعالى یقول:

وَالْعَصْرِ۝۱ۙاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۝۲ۙاِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۝ۧ [13]

 وإنَّ الأمور تجری بإذن الله،ولا یحمّلنكم استبطاء أمر على استعجاله، فإنَّ الله عز وجل لا یعجل بعجلة أحد   ومن غالب الله غلبه  ومن خادع الله خدعه،فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ [14]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ایک روایت یہ خطبہ بیان فرمایالوگو!مجھے معلوم ہواہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے خائف ہوکیامجھ سے پہلے مبعوث شدہ انبیاء میں  سے کوئی نبی بھی ہمیشہ اس دنیا میں  رہاہے کہ میں  دائمی طورپرتم میں  رہ سکوں  گامیں  اپنے رب سے جاملوں  گااورتم سب مجھ سے آملوگے،پس میں  تمہیں  وصیت کرتاہوں  کہ پہلے ہجرت کرنے والوں  سے بہترسلوک کرنا،علیٰ ہذامہاجرین کوبھی آپ میں  حسن سلوک سے رہناچاہئے،اللہ تعالیٰ فرماتاہےزمانے کی قسم!انسان درحقیقت خسارے میں  ہے سوائے ان لوگوں  کے جوایمان لائے اورنیک اعمال کرتے رہے،اورایک دوسرے کوحق کی نصیحت اورصبرکی تلقین کرتے رہے۔بلاشبہ تمام اموراللہ کی مرضی سے جاری ہوتے ہیں  اس کی مرضی کسی امرمیں  تاخیرکی ہوتوتم اس میں  عجلت کی خواہش نہ کروکیونکہ اللہ عزوجل کسی کی جلد بازی کی بناپرکسی کام میں  عجلت نہیں  فرماتا ،جوشخص اللہ کی مرضی پرغالب آنا چاہئے اللہ اس پرغالب رہتا ہےجواللہ کو دھوکا دیتاہے اللہ اسے دھوکادیتاہے،پس کیا تم چاہتے ہوکہ اگرتم کواس سرزمین کی حکومت دے دی جائے توتم زمین میں  فسادپھیلاتے پھرواورقرابت کے تعلقات کومنقطع کردو۔

وأوصیكم بالأنصار خیرًا، فإنهم الذین تبوّءوا الدار والإیمان من قبلكم, أن تحسنوا إلیهم،ألم یشاطروكم فی الثمار؟ألم یوسّعوا لكم فی الدیار؟ألم یؤثروكم على أنفسهم وبهم الخصاصة؟ألا فمن ولی أن یحكم بین رجلین فلیقبل من محسنهم, ولیتجاوز عن مسیئهم،ألا ولا تستأثروا علیهم

میں  تمہیں  انصارسے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتاہوں  کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے تمہیں  اپنے گھروں  میں  قیام کی جگہ دی اورتمہیں  باعزت طریق پررکھاپس تم پران سے حسن سلوک واجب ہے،کیاانہوں  نے اپنے باغات کے پھلوں  میں  تمہارا حصہ نہیں  مقررکیا؟کیاانہوں  نے اپنے گھروں  میں  تمہارے قیام کے لئے گنجائش نہیں  نکالی ؟کیاانہوں  نے خودپرتنگی ترشی برداشت کرکے بھی تمہیں  اپنی جانوں  پرترجیح نہیں  دی؟خبردار!تم میں  سے جوکسی دوآدمیوں  پرحاکم مقررہواسے چاہیے کہ انصارکی بھلائیوں  کو قبول کرے اوران کی برائیوں  سے درگزر کرے،خبردار!تم ان پر برتری اورترجیحی سلوک کی سعی مت کرنا،

ألا وإنی فرط لكموأنتم لاحقون بی،ألا وإن موعدكم الحوض، ألا فمن أحب أن یرده علیَّ غدًا فیلكفف یده ولسانه إلا فیما ینبغی ، إلا فیما ینبغى،أَیُّهَا النَّاسُ إن الذنوب تغیر النعم، فإذا بر الناس برتهم أئمتهم، وإذا فجر الناس عقوا أئمته

خبرداررہوکہ میں  تم سے پہلے اللہ کے یہاں  جانے والاہوں  تم بعد میں  مجھ سے آملوگے،خبرداررہوتم سے حوض کوثرپرملاقات ہوگی،  خبردار جوشخص کل مجھ سے حوض کوثر پرملنے کاخواہش مندہواسے چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ اور زبان کولوگوں  کی (ایذا رسانی) سے روکے رکھے،سوائے نیک کاموں  کے ان سے کوئی اورکام نہ لے، اےلوگو!گناہوں  سے اللہ کی نعمتیں  ہٹ جاتی ہیں  ،متغیرہوجاتی ہیں  ،لوگ جب تک نیک رہتے ہیں  ان کے حکمران ان کی فرمانبرداری کرتے رہیں  گے مگرجب لوگ گناہ کرنے لگیں  گے توان کے حکمران ان کے نافرمان ہوجائیں  گے۔[15]

اس کے بعدمنبرسے اترآئے اورحجرہ مبارکہ میں  تشریف لے گئے۔

اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواسودعنسی ، مسلمہ کذاب اورطلحیہ اسدی کے اعلان نبوت اور لوگوں  کے مرتدہونے کی خبرمعلوم ہوئی،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتدین سے جہادکی وصیت اور تاکید فرمائی اور اسود عنسی کی سرزنش کے لئے انصارکی ایک جماعت روانہ فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے ایک دن پہلے اسودعنسی کوقتل کردیاگیا۔

وذلك فی حیاه النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ الْخَبَرُ مِنْ لَیْلَتِهِ

یہ(اسودعنسی کے قتل کی) خبرتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواسی شب ہی میں  مل چکی تھی جس کی صبح کوآپ کی وفات ہوئی۔

عَن ابْن عمر قَالَ اتى النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم الْخَبَر من السَّمَاء فِی اللیْلَة الَّتِی قتل فِیهَا الاسود الْعَنسِی

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجس شب میں  اسودماراگیااسی وقت اس کے قتل کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوبذریعہ وحی مل گئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صبح کوہم سب کوبشارت دی کہ کل رات اسودقتل کر دیا گیا ۔[16]

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کوامامت کاحکم:

فَقَالَ:أَصَلَّى النَّاسُ؟ قُلْنَا لَا، وَهُمْ یَنْتَظِرُونَكَ یَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: ضَعُوا لِی مَاءً فِی الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِیَنُوءَ فَأُغْمِیَ عَلَیْهِ ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: أَصَلَّى النَّاسُ؟قُلْنَا لَا، وَهُمْ یَنْتَظِرُونَكَ یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ:ضَعُوا لِی مَاءً فِی الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِیَنُوءَ فَأُغْمِیَ عَلَیْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: أَصَلَّى النَّاسُ؟ فَقُلْنَا لَا، وَهُمْ یَنْتَظِرُونَكَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ،قَالَتْ: فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِیفٌ وَإِنَّهُ مَتَى یَقُمْ مَقَامَكَ لَا یُسْمِعِ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ

رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیالوگ عشاء کی نمازپڑھ چکے؟عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !نہیں  وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاٹب میں  پانی بھردو(پانی بھردیاگیا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غسل فرمایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم (باہرجانے کے لئے) کھڑے ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوغش آگیا کچھ دیر بعدافاقہ ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیالوگوں  نے نمازپڑھ لی ؟عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نہیں ، لوگ آپ کا انتظار کررہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاٹب میں  پانی بھر دو(پانی بھردیاگیا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غسل فرمایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھڑے ہونے کاارادہ کیامگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوغش آگیا کچھ دیربعدافاقہ ہواتو فرمایاکیالوگوں  نے نمازپڑھ لی ؟عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نہیں ، لوگ آپ کاانتظارکررہے ہیں ،اورادھرلوگوں  کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نمازعشاءکے لیے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریف آوری کے مسجدمیں  منتظرتھے،فرمایا سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے کہووہ نماز پڑھائیں ،عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  بہت ہی رقیق القلب آدمی ہیں  وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوکرنمازنہ پڑھاسکیں  گےوہ اتنارؤئیں  گے کہ لوگ کچھ نہ سن سکیں  گےآپ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیں  کہ وہ نمازپڑھائیں  تومناسب ہوگا۔[17]

عَنْ عَائِشَةَ،قَالَتْ: وَاللهِ، مَا بِی إِلَّا كَرَاهِیَةُ أَنْ یَتَشَاءَمَ النَّاسُ، بِأَوَّلِ مَنْ یَقُومُ فِی مَقَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں  اوراللہ کی قسم!میں  نے یہ اس لیے کہاکہ لوگ میرے والدبزگوارکومنحوس نہ سمجھیں  کہ یہی وہ شخص ہیں  جوپہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلیفہ اورقائم مقام ہوئے۔[18]

فَقَالَ:مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِی لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِیفٌ وَإِنَّهُ مَتَى یَقُمْ مَقَامَكَ لَا یُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِی لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِیفٌ وَإِنَّهُ مَتَى یَقُمْ مَقَامَكَ لَا یُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَفَقَالَتْ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوسُفَ قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ،فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ بِأَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّیَ بِالنَّاسِ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : یَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ  فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَیَّامَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھروہی حکم دیاکہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے کہووہ نماز پڑھائیں ،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے بھی اپنی معروضات کودوہرایااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  بہت ہی رقیق القلب آدمی ہیں  وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوکرنمازنہ پڑھاسکیں  گےوہ اتنا رؤئیں  گے کہ لوگ کچھ نہ سن سکیں  گے آپ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیں  کہ وہ نماز پڑھائیں  تومناسب ہوگا ،اورمیں  نےام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  سے بھی کہاکہ تم کہوکہ سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  بے انتہانرم دل ہیں  وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جگہ کھڑے ہوکرقرآن کی قرات نہ کر سکیں  گے اس لیے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کونمازپڑھانے کاحکم فرمائیں  تومناسب ہوگاچنانچہ ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا نے بھی ایساہی کہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے( خفا ہو کر )فرمایاتم یوسف کے ساتھ والیوں  کی مانندنہ بنو اورجاؤسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ سے کہووہ لوگوں  کونمازپڑھائیں ، آخرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے پاس آدمی بھیجااورحکم فرمایاکہ وہ نماز پڑھائیں ،بھیجے ہوئے شخص نے آکرکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایاہے ( انہوں  نے اپنے اس حق کو سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب کی طرف منتقل کرنا چاہا)سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے کہاتم پڑھادو، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہانہیں  تم اس کے زیادہ حقدار ہو،(الغرض سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے نماز پڑھائی) پھرکئی دن تک وہ نماز پڑھاتے رہے۔[19]

نمازظہرکے لئے تشریف لے جانا:

ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَیْنَ رَجُلَیْنِ أَحَدُهُمَا العَبَّاسُ لِصَلاَةِ الظُّهْرِ وَأَبُو بَكْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ  فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِیَتَأَخَّرَفَأَوْمَأَ إِلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ لاَ یَتَأَخَّرَ،قَالَ: أَجْلِسَانِی إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِی بَكْرٍ،قَالَ: فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ یُصَلِّی وَهُوَ یَأْتَمُّ بِصَلاَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ   وَالنَّاسُ بِصَلاَةِ أَبِی بَكْرٍوَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌوَأَبُو بَكْرٍ یُسْمِعُهُمُ التَّكْبِیرَ،فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِی حَیَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

دوسرے دن(بروزجمعرات)مرض میں  کچھ افاقہ ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہرکی نمازکے وقت باہرجانے کاارادہ کیادوآدمیوں  کے سہارے آپ باہرتشریف لے گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک طرف عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب تھے اوردوسری طرف سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں  زمین پرگھسیٹتے جارہے تھے(جب آپ باہرپہنچے تو)سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نمازشروع کرچکے تھے۔سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے (محسوس کیاکہ آپ تشریف لارہے ہیں  تو) پیچھے ہٹنے کاارادہ کیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں  پیچھے ہٹنے سے منع فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں  سے فرمایامجھے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے بازووں  میں  بیٹھادو، چنانچہ دونوں  نےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کےبائیں  پہلومیں  جاکربیٹھادیا،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نمازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کر رہے تھےاورباقی لوگ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی اقتداء کررہے تھے ،اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  بلندآوازسے تکبیرکہہ رہے تھے تاکہ لوگ سن لیں ،اس کے بعدپھرجب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  زندہ رہے ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  ہی نمازپڑھاتے رہے۔[20]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

عَنْ جَابِرٍ قَالَ:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَأَبُو بَكْرٍ خَلْفَهُ، فَإِذَا كَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ یُسْمِعُنَا

جابر  رضی اللہ عنہ سے منقول ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  ظہرکی نمازپڑھائی ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیرکہتے توسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ ہمیں  سنانے کے لیے(بلند آواز سے ) تکبیرکہتے۔[21]

حدیث قرطاس:

اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُفَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ،فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَدْ غَلَبَهُ الوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ القُرْآنُ حَسْبُنَا، كِتَابُ اللهِ،مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ۝ [22]

وفات سے چاردن پہلے جمعرات کے روز(شام کے وقت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کےمرض میں  شدت ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکوئی کاغذلے آؤ میں  تمہیں  کچھ لکھوا دوں  کہ لکھنے کے بعدتم گمراہ نہ ہو سکوگے،اس پربعض (سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ) نے(ازراہ شفقت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر) عرض کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ویسے ہی اس وقت تکلیف میں  ہیں ہمارے پاس قرآن موجود ہے،ہماری ہدایت کے لیے تواللہ کی شریعت (یعنی قرآن وحدیث) بس کافی ہے(آپ کومزیدکیوں  تکلیف دی جائے)جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی ہے ۔

فَاخْتَلَفَ أَهْلُ البَیْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ قَرِّبُوا یَكْتُبُ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ غَیْرَ ذَلِكَ ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ ، فَذَهَبُوا یَرُدُّونَ عَلَیْهِ، فَقَالَ:ذَرُونِی، فَالَّذِی أَنَا فِیهِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِی إِلَیْهِ،فَأَمَرَهُمْ بِثَلاَثٍ قَالَ: أَخْرِجُوا المُشْرِكِینَ مِنْ جَزِیرَةِ العَرَبِ وَأَجِیزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِیزُهُمْ قَالَ:قُومُوا عَنِّی، وَلاَ یَنْبَغِی عِنْدِی التَّنَازُعُ

جو لوگ گھر میں  موجود تھے ان میں  اختلاف رائے ہوا بعض کہنے لگے کاغذ وغیرہ لے آؤ تاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  وصیت لکھوادیں  تو پھرتم اس کی موجودگی میں  گمراہ نہ سکوگے بعض لوگوں  نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرارکیا،بالآخر لوگوں  نے آپس میں  کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کیاکیفیت ہے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی ہذیان صادرہوسکتاہے؟یعنی نہیں  ہوسکتا،توپھر آپ ہی سے کیوں  نہ پوچھ لی جائے،الغرض (اتفاق رائے سے)حاضرین نے آپ کووصیت لکھوانا یاد دلایا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے چھوڑدو جس حالت میں  میں  اس وقت ہوں  وہ اس سے بہترہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کوتین وصیتیں  کیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مشرکین کوجزیرة العرب سے نکال دینا، وفودکی اسی طرح خاطر مدارات کرنا جس طرح میں  کرتاتھاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااب تم میرے پاس سے چلے جاؤ،تمہیں  میرے پاس اختلاف کرنا مناسب نہیں  تھا ۔[23]

وقد كان عمر أفقه من ابن عَبَّاس حَیْثُ اكْتفى بِالْقُرْآنِ على أنه یحتمل أن یكون -صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ- كان ظهر له حین همّ بالكتاب أنه مصلحة، ثم ظهر له أو أُوحی إلیه بعد أنّ المصلحة فی تركه ولو كان واجبًا لم یتركه علیه الصلاة والسلام لاختلافهم لأنه لم یترك التكلیف لمخالفة من خالف، وقد عاش بعد ذلك أیامًا ولم یعاود أمرهم بذلك

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے بہت زیادہ سمجھدارتھے ،انہوں  نے قرآن کریم کوکافی جانانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مصلحتاًیہ ارادہ ظاہرفرمایا تھا مگر بعد میں  اس کاچھوڑنابہترمعلوم ہوااگریہ حکم واجب ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں  کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقعہ کے چارروزبعدتک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  زندہ رہے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوبارہ اس خیال کااظہارنہیں  فرمایا۔[24]

قَالَ:أَوْصَى بِكِتَابِ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتاب اللہ(یعنی شریعت الٰہیہ )پرعمل کرنے کی بھی وصیت فرمائی۔[25]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ یَقْتَسِمُ وَرَثَتِی دِینَارًا وَلاَ دِرْهَمًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِی، وَمَئُونَةِ عَامِلِی فَهُوَ صَدَقَةٌ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ میرے وارث نہ دینارتقسیم کریں  نہ درہم،ہم(انبیائ)اپنی بیویوں  کے اخراجات اوراپنے عامل کی اجرت کے علاوہ جوکچھ چھوڑجائیں  وہ صدقہ ہوتاہے۔[26]

مرض الموت میں  تبلیغ:

قَالَ: كَشَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِی بَكْرٍفَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ، یَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ،أَلَا وَإِنِّی نُهِیتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِیهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِی الدُّعَاءِ فَقَمِنٌ أَنْ یُسْتَجَابَ لَكُمْ،فَقَالَ:اللهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پردہ کھولا اس وقت آپ کے سرپرپٹی بندھی ہوئی تھی،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں  صفوں  میں  کھڑے ہوچکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو! مبشرات نبوت میں  سے اب کچھ باقی نہیں  رہا(اب نبوت کسی کونہیں  ملے گی)سوائے اس کے کہ کسی مسلمان کونیک خواب نظر آ جائے یااس کے لئے کسی دوسرے مسلمان کوخواب میں  کچھ نظرآجائے،خبردارہوجاؤمجھے رکوع وسجودمیں  قرآن پڑھنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہذارکوع میں  تواللہ عزوجل کی عظمت بیان کیا کرو (یعنی  سبحان ربی العظیم )اورسجدوں  میں  خوب دعائیں  مانگاکروامیدہے کہ دعاقبول ہوجائے گی،پھرتین مرتبہ آپ نے فرمایااے اللہ کیامیں  نے (تیرے احکام کو) پہنچا دیا ۔[27]

یَقُولُ: لَا یَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ یُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ

وفات سے تین دن پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کسی کو موت نہ آئے مگراس حال میں  کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن رکھتاہو(کہ  الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفووسترکا معاملہ فرمائے گا) ۔[28]

مرض میں  افاقہ:

أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَجَعِهِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ، فَقَالَ النَّاسُ: یَا أَبَا حَسَنٍ، كَیْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا ، فَأَخَذَ بِیَدِهِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّی وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ یُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّی لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِی عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْهُ فِیمَنْ هَذَا الأَمْرُ، إِنْ كَانَ فِینَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِی غَیْرِنَا عَلِمْنَاهُ، فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِیٌّ: إِنَّا وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاهَا لاَ یُعْطِینَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ، وَإِنِّی وَاللَّهِ لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انہی ایام میں  ایک دن مرض میں  کچھ افاقہ ہوا،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھے جب وہ باہرتشریف لائے توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے پوچھا اے ابو الحسن رضی اللہ عنہ ! رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کیسے ہیں ؟سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے کہا الحمدللہ آج مرض میں  افاقہ ہے،اتنے میں  عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کا ہاتھ پکڑ کرکہا اللہ کی قسم!تین دن بعدتم دوسرے کے ماتحت بن جاؤگے اوراللہ کی قسم!بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عنقریب اسی مرض میں  وفات پاجائیں  گےمیں  بنوعبدالمطلب کے چہروں  سے ان کی موت کوپہچان لیتا ہوں ،چلوہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس چلیں  اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کریں  کہ خلافت کس کوملے گی اگرہمیں  ملے گی توہمیں  معلوم ہو جائے گااوراگرکسی اورکوملے گی توبھی ہمیں  معلوم ہوجائے گا،پھرآپ(جیسی)وصیت ہمیں  کریں  گے (ہم اس پرعمل کریں  گے)سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیااللہ کی قسم!اگرہم نے سوال کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکارکردیا تو آپ کے بعدلوگ کبھی ہمیں  خلافت نہیں  دیں  گے(وہ آپ کے انکارکودلیل بناکرہمیں  کبھی بھی خلافت کامستحق نہ سمجھیں  گے لہذا )اللہ کی قسم! یقیناًمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال نہیں  کروں  گا(اس روایت سے یہ علم ہواکہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  اورعباس  رضی اللہ عنہ  کوخوب علم تھاکہ بنوہاشم کے علاوہ دوسرے لوگ بھی خلافت وامامت کے اہل ہیں ،خلافت کی اہلیت اسلامی اصول پر مبنی ہے نہ کہ نسب پر،یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اس سے پہلے کسی موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی امامت و خلافت کااعلان نہیں  فرمایاتھا)۔[29]

مرض میں  شدت:

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مرض نے شدت اختیارکی،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَیْهِ الوَجَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  مرض کی اتنی شدت میں  نے کسی کی بیماری میں  نہیں  دیکھی جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری میں  تھی۔[30]

قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یُوعَكُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِیدًا؟قَالَ:أَجَلْ، إِنِّی أُوعَكُ كَمَا یُوعَكُ رَجُلاَنِ مِنْكُمْ،قُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَیْنِ؟قَالَ:أَجَلْ، ذَلِكَ كَذَلِكَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُهُ أَذًى، شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا سَیِّئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا

ایک دن عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما حاضرخدمت ہوئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوشدت کابخار چڑھا ہوا تھا،میں نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کوتوبہت سخت بخار ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں جتنابخارتم میں  سے دوآدمیوں  کوہوتاہے اتنامجھے اکیلے کوہے،میں نے عرض کیایہ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے دوہرااجرہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں یہ اسی لئے ہے،پھرفرمایاکسی مسلمان کوجب کوئی مصیبت پہنچتی ہے خواہ وہ کانٹاچھبنےکی تکلیف ہویااس سے زیادہ تواس کی وجہ سے اللہ اس کے گناہوں  کواس طرح جھاڑدیتاہے جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔[31]

وَفِی هَذِهِ الْأَحَادِیثِ بِشَارَةٌ عَظِیمَةٌ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ لِأَنَّ الْآدَمِیَّ لَا یَنْفَكُّ غَالِبًا مِنْ أَلَمٍ بِسَبَبِ مَرَضٍ أَوْ هَمٍّ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا ذَكَرَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ان احادیث میں  مومنوں  کے لیے بڑی بشارتیں  ہیں  اس لیے کہ تکالیف ومصائب اورامراض دنیامیں  اہل ایمان کوپہنچتے رہتے ہیں  مگراللہ تعالیٰ ان سب پران کواجروثواب اور درجات عالیہ عطافرماتاہے۔[32]

قبروں  کوسجدہ گاہ بنانے کی ممانعت:

لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، وَهُوَ كَذَلِكَ یَقُولُ:لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الیَهُودِ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا

بیماری شدت سے جاری تھی ایک دن اسی عالم میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے چہرہ مبارک پرچادرڈالی،چادرڈالنے سے سانس گھٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھرچہرہ کھول لیا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  باربارکرتے رہے،اسی عالم میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ یہودونصاریٰ پرلعنت کرےانہوں  نے اپنے نبیوں  کی قبروں  کوسجدہ گاہ بنا لیا تھا،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  جوکچھ انہوں  نے کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے ڈرارہے تھے۔[33]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے منہ پردوالگانا:

وَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَدَدْنَاهُ فِی مَرَضِهِ فَجَعَلَ یُشِیرُ إِلَیْنَا:أَنْ لاَ تَلُدُّونِی، فَقُلْنَا: كَرَاهِیَةُ المَرِیضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ:أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِی؟ قُلْنَا: كَرَاهِیَةَ المَرِیضِ لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ:لاَ یَبْقَى فِی البَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَّا العَبَّاسَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَشْهَدْكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں بیماری کے دوران ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے منہ پردوالگانے کاارادہ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ہم نے یہ سمجھ کرکہ مریض تودواکومنع کیاہی کرتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے منہ پردوالگاہی دی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوذراافاقہ ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے تمہیں  دوالگانے سے منع کیا تھا(پھرتم نے دواکیوں  لگائی ؟ )ہم نے کہاکہ مریض تودواسے کراہت کی وجہ سےمنع کیاہی کرتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجتنے آدمی گھرمیں  موجودہیں  سب کے منہ میں  میرے سامنے دواڈالی جائے صرف عباس  رضی اللہ عنہ  اس سے الگ ہیں  کہ وہ تمہارے ساتھ اس کام میں  شریک نہیں  تھے۔[34]

نمازمغرب میں  سورہ مرسلات:

عَنْ أُمِّ الفَضْلِ بِنْتِ الحَارِثِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَقْرَأُ فِی المَغْرِبِ بِالْمُرْسَلاَتِ عُرْفًا، ثُمَّ مَا صَلَّى لَنَا بَعْدَهَا حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ

ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ان ہی ایام میں  ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے(گھروالوں  کو)مغرب کی نمازپڑھائی اور اس میں  سورہ مرسلات کی تلاوت فرمائی ، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  (گھر والوں  کوبھی)نمازنہ پڑھاسکے۔[35]

وفات سے ایک دن پہلے:

انتقال سے ایک روزقبل بروزاتواررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام غلاموں  کوآزادکردیاگھرمیں  سات دینارتھے وہ بھی صدقہ کردیئے،اپنے ہتھیاروں  کو مسلمانوں  کوہبہ کر دیا گھر میں  کچھ نہ رہایہاں  تک کہ اس رات گھرمیں  روشنی کرنے کے لئے عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے اپنی پڑوسن سے تیل ادھارلیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ کاآخری دن:

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ یُصَلِّی لَهُمْ فِی وَجَعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ،قَالَ: لَمْ یَخْرُجْ إِلَیْنَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَأُقِیمَتِ الصَّلَاةُ  حَتَّى إِذَا كَانَ یَوْمُ الِاثْنَیْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِی الصَّلاَةِ، فَكَشَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الحُجْرَةِ یَنْظُرُ إِلَیْنَا وَهُوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ثُمَّ تَبَسَّمَ یَضْحَكُ فَلَمَّا وَضَحَ وَجْهُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَیْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ وَضَحَ لَنَافَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الفَرَحِ بِرُؤْیَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَیْهِ لِیَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إِلَى الصَّلاَةِ فَأَشَارَ إِلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری کے زمانہ میں  سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نمازپڑھاتے رہے،  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی علالت کے زمانہ میں تین دن(جمعہ،ہفتہ اوراتوار)تک ہم کونمازنہیں  پڑھائی،جب پیرکادن ہواتواس حالت میں  کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نمازفجرکے وقت صفوں  میں  کھڑے ہوئے تھے اورسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  امامت کے لئے آگے آرہے تھے کہ اتنے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجرہ کا پردہ اٹھایااور(تھوڑی دیرتک)کھڑے ہوکرلوگوں  کی طرف دیکھااس وقت آپ کاچہرہ مبارک ایسا(حسین) ہو رہا تھا گویا کہ وہ قرآن کاایک ورق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خوب کھل کرمسکرائے،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کاچہرہ مبارک دکھائی دیاتونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے روئے پاک ومبارک سے زیادہ حسین منظرہم نے کبھی نہیں  دیکھاتھاہمیں  اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہوگیاکہ کہیں  ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھنے ہی میں  نہ مشغول ہوجائیں  اور نمازتوڑدیں ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا توسمجھے کہ آپ نماز پڑھانے باہرتشریف لارہے ہیں ،وہ پیچھے ہٹے تاکہ صف میں  آکرمل جائیں ، لیکن فوراًہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارہ کیاکہ آگے بڑھواورنمازپوری کرو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  باہرآنے پرقادرنہ ہوسکے اورپردہ ڈال دیا۔[36]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

فَلَمَّا انْصَرَفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ مِنَ الصَّلَاةِ دَخَلَ عَلَیْهِ، وَقَالَ لِعَائِشَةَ: مَا أَرَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَلَا قد أقلع عنه الْوَجَعِ وَهَذَا یَوْمُ بِنْتِ خَارِجَةَ یَعْنِی إِحْدَى زَوْجَتَیْهِ وَكَانَتْ سَاكِنَةً بِالسُّنْحِ شَرْقِیِّ الْمَدِینَةِ فَرَكِبَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ وَذَهَبَ إِلَى مَنْزِلِهِ

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نمازسے فارغ ہوکرحجرہ مبارکہ میں  تشریف لے گئے ، عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے کہامیں  دیکھتاہوں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواب سکون ہے جوکرب اوربے چینی پہلے تھی وہ اب محسوس نہیں  ہورہی اورچونکہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی دو بیویوں  میں  اس بیوی کی نوبت کادن تھاجومدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر رہتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اجازت لے کروہاں  چلے گئے۔[37]

قَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ:یَا نَبِیَّ اللهِ إنِّی أَرَاكَ قَدْ أَصْبَحْتَ بِنِعْمَةٍ مِنْ اللهِ وَفَضْلٍ كَمَا نُحِبُّ، وَالْیَوْمُ یَوْمُ بِنْتِ خَارِجَةَ، أَفَآتِیهَا؟قَالَ: نَعَمْ، وَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ إلَى أَهْلِهِ بِالسُّنْحِ

ابن اسحٰق کی روایت میں  ہےسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  دیکھتاہوں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کی نعمت اورفضل سے اچھی حالت میں  صبح کی ہے اورآج میری ایک بیوی حبیبہ بنت خارجہ کی نوبت کا دن ہے اگراجازت ہوتو وہاں  ہوآؤں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  چلے جاؤ، چنانچہ سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  سنح اپنے گھرمیں  چلے گئے۔[38]

دوسرے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوبھی جب معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوکچھ سکون ہے تووہ بھی اپنے گھروں  کولوٹ گئے،

ثُمَّ دخل یوم الاثنین وأصبح رَسُول اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  مفیقا فودعه أسامة وخرج إلى معسكره فأمر النّاس بالرحیل. فبینا هُوَ یرید الركوب إذا رسول أمه أم أیمن قد جاءه یَقُولُ: إن رَسُول اللهِ یموت!

دوشنبہ کی صبح کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوسکون ہوااورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اچھے ہو گئے ہیں  تواسامہ  رضی اللہ عنہ  نے روانگی کاقصدکیا اسی تیاری میں  تھے کہ ان کی والدہ ام ایمن نے پیغام بھیجاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حالت نزع میں  ہیں  اس لئے ابھی روانہ ہونے سے رک جاؤ۔[39]

فَدَخَلَ أُسَامَةُ مِنْ مُعَسْكَرِهِ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَغْمُورٌ، وَهُوَ الْیَوْمُ الَّذِی لَدُّوهُ فِیهِ، فَطَأْطَأَ أُسَامَةُ فَقَبَّلَهُ، وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لا یَتَكَلَّمُ، فَجَعَلَ یَرْفَعُ یَدَیْهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ یَضَعُهُمَا عَلَى أُسَامَةَ، قَالَ أُسَامَةُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ یَدْعُو لِی، وَرَجَعَ أُسَامَةُ إِلَى مُعَسْكَرِهِ،فَأَقَامَ أُسَامَةُ وَالنَّاسُ، لِیَنْظُرُوا مَا اللهُ قَاضٍ فِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہ خبر سنتے ہی اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  افتاں  وخیزاں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھنے کے لئے مدینہ واپس آئے ،دیکھاکہ مرض میں  شدت ہےاورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بات نہیں  کرسکتے ،اسامہ  رضی اللہ عنہ  نے جھک کرپیشانی مبارک پربوسہ دیا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے پھراسامہ پررکھ دیے ،اسامہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں  سمجھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے لئے دعافرمارہے ہیں ،بعدمیں  وہ جرف واپس آ گئے جہاں  مجاہدین کاپڑاؤتھا،اوراسامہ  رضی اللہ عنہ اوردوسرے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحت یابی کے منتظررہے۔[40]

أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَى صَدْرِهَا وَأَصْغَتْ إِلَیْهِ وَهُوَ یَقُولُ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی، وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ

(وفات کاوقت قریب آتاجارہاتھا)ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے بتا یا کہ قبل از وفات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے سینے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اوریہ پڑھ رہے تھے  اے اللہ مجھے بخش دے ،مجھ پر رحم فرما اورمجھے رفیق(اعلیٰ)سے ملادے۔[41]

قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ یَتَغَشَّاهُ   فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَیْهَا السَّلاَمُ: وَا كَرْبَ أَبَاهُ، فَقَالَ لَهَا:لَیْسَ عَلَى أَبِیكِ كَرْبٌ بَعْدَ الیَوْمِ

اسی اثنامیں  مرض نے اورشدت اختیارکی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرغشی طاری ہوگئی،یہ دیکھ کر فاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا رونے لگیں  اور کہنے لگیں  ہائے میرے والدکی تکلیف،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا آج کے بعد تمہارے والد کو کوئی تکلیف نہیں  پہنچے گی۔[42]

غُشِیَ عَلَیْهِ سَاعَةً  فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرُهُ نَحْوَ سَقْفِ البَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَى

اتناکہنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرپھرکچھ دیرکے لیےغشی طاری ہوگئی،جب افاقہ ہوا تو آپ نے اپنی نظریں  چھت کی طرف کرلیں  اورفرمایااے اللہ!مجھے اپنی بارگاہ میں  ملادے۔[43]

دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُسْنِدَتُهُ إِلَى صَدْرِی وَمَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سِوَاكٌ رَطْبٌ یَسْتَنُّ بِهِ،   فَأَبَدَّهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ  وَعَرَفْتُ أَنَّهُ یُحِبُّ السِّوَاكَ فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ:أَنْ نَعَمْ،فَتَنَاوَلْتُهُ، فَاشْتَدَّ عَلَیْهِ، وَقُلْتُ: أُلَیِّنُهُ لَكَ؟فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ: أَنْ نَعَمْ، فَأَخَذْتُ السِّوَاكَ فَقَصَمْتُهُ، وَنَفَضْتُهُ وَطَیَّبْتُهُ، ثُمَّ دَفَعْتُهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ ، فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَنَّ اسْتِنَانًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ ، وَأَنَّ اللهَ جَمَعَ بَیْنَ رِیقِی وَرِیقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ

اتنے میں  عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ  ،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں  ایک تازہ مسواک استعمال کے لیے تھی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسواک کی طرف دیکھتے رہے،میں  سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسواک کرناچاہتے ہیں ، اس لیے میں نے پوچھاکیامسواک لے کر آپ کو دوں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سرکے اشارہ سے فرمایاہاں ، میں  نے مسواک ان سےلے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودے دی لیکن کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسواک کونرم نہ کر سکے میں  نے پوچھاکیامیں  اسے آپ کے لیے نرم کر دوں ؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سرکے اشارہ سے فرمایاہاں ،میں نے ان سےمسواک لے لی میں  نے اس کے سرے کوپہلے توڑایعنی اتنی لکڑی نکال دی جوعبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ اپنے منہ سے لگایاکرتے تھےپھراس کواپنے دانتوں  سے چباکراس کو نرم کیا اور صاف کر کے(ٹوٹے ہوئے ریشے دورکرکے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودے دی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اتنی اچھی طرح مسواک کی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی طرح کبھی نہیں  کی تھی،عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  اللہ نے میرے اورآپ کے لعاب کوآپ کے دنیاکے آخری دن اورآخرت کے پہلے دن جمع کردیا۔[44]

اس حدیث میں  ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اورسیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  دنیاوآخرت میں  اسی رشتے سے منسلک رہیں  گے ،

فَقَالُ:  أَمَا تَرْضَیْنَ أَنْ تَكُونِی زَوْجَتِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ؟قُلْتُ: بَلَى وَاللهِ،قَالَ:فَأَنْتِ زَوْجَتِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی زوجہ محترمہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مخاطب ہوکرفرمایا کیاتم اس پر خوش ہوکہ دنیا و آخرت میں  میری بیوی رہو؟  میں  نے کہااللہ کی قسم ہاں  میں  دنیاوآخرت میں  آپ کے ساتھ رہناچاہتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تو دنیا و آخرت میں  میری بیوی ہے۔[45]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَزْوَاجُكَ فِی الْجَنَّةِ؟ قَالَ:أَمَا إِنَّكِ مِنْهُنَّ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !جنت میں  کون آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویاں  ہوں  گی؟ (بلاشبہ تمام ازواج مطہرات جنت میں  بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویاں  ہوں  گی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاص طورپر عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے فرمایاتم توانہی(جنتی بیویوں )میں  سے ہو ۔[46]

خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ:إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ،

اسی طرح عماربن یاسر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایامجھے خوب معلوم ہے کہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ مطہرہ ہیں  اس دنیامیں  بھی اورآخرت میں  بھی۔[47]

فَدَعَا بِالطَّسْتِ  فَمَا عَدَا أَنْ فَرَغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَهُ أَوْ إِصْبَعَهُ ثُمَّ قَالَ فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَى

پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تھوکنے کے لئے ایک طشت منگوایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس میں  تھوکتے جاتے تھے،مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی انگلی آسمان کی طرف کی اور تین مرتبہ فرمایا فی الرفیق الاعلی، فی الرفیق الاعلی، فی الرفیق الاعلی ۔[48]

یَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِی أَكَلْتُ بِخَیْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِی مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ

لمحہ با لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ  رضی اللہ عنہا !میں  نے خیبر میں  جومسموم کھانا چکھ لیا تھااس کی تکلیف آج بھی محسوس کر رہاہوں  ایسامعلوم ہوتاہے کہ اب اس زہرکے اثر سے میری شہ رگ کٹ جائے گی۔[49]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ مِنْ آخِرِ وَصِیَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ حَتَّى جَعَلَ نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُلَجْلِجُهَا فِی صَدْرِهِ، وَمَا یَفِیصُ بِهَا لِسَانُهُ

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ مِنْ آخِرِ وَصِیَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ

ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو آخری وصیت فرمائی  نماز، نماز اور تمہارےلونڈی اور غلام (ان کاخیال رکھنا)آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کئی مرتبہ دہرائے ۔یہی کہتے کہتے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔[50]

وَبَیْنَ یَدَیْهِ رَكْوَةٌ أَوْ عُلْبَةٌ فِیهَا مَاءٌ، فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْهِ فِی المَاءِ فَیَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ، یَقُولُ:لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پانی کاایک گیلن رکھاہواتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس میں  ہاتھ ڈال کراپنے چہرہ مبارک پرپھیرتے تھے اور فرماتے تھے  اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،کوئی عبادت کے لائق نہیں ،کوئی مشکل کشا، کوئی حاجت روانہیں ،کوئی رزق دینے والانہیں ،بیشک موت کے وقت جان کنی ہوتی ہے۔[51]

أَذْهِبِ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًافَانْتَزَعَ یَدَهُ مِنْ یَدِی

عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاہاتھ پکڑکر یہ دعاپڑھنی چاہی اے لوگوں  کے پروردگار ! تکلیف دور فرما دے اور شفا دے دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بغیر کوئی شفا نہیں  ہے۔ مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاتھ کھینچ لیا۔[52]

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَهُ  أَوْ إِصْبَعَهُ ثُمَّ قَالَ فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَى

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا ہاتھ یااپنی انگلی کوکھڑاکیااوریہ پڑھنے لگے فی الرفیق الاعلی .آخری فقرہ تین باردہرایا۔[53]

آخری کلمات جوزبان مبارک سے اداہوئے یہ تھے

اللهُمَّ اغْفِرْ لِی وَاجْعَلْنِی مَعَ الرَّفِیقِ الْأَعْلَى

اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھے اپنے ساتھ ملا دے۔[54]

یَوْمَ الِاثْنَیْنِ

پیرکے دن کی آخری ساعتیں  تھیں ۔[55]

اسْتِبْطَاءً لِیَوْمِ عَائِشَةَ

ام المومنین عایشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی باری کادن تھا۔[56]

حین زاغت الشمس یَوْمَ

آفتاب ڈھل چکاتھا۔[57]

وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِی فَلَقَدْ انْخَنَثَ فِی حَجْرِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی سینےمیں  سر رکھے ہوئے لیٹے تھے کہ   آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی گود میں  جھک پڑے۔[58]

وَمَالَتْ یَدُهُ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاہاتھ نیچے ہوگیا۔[59]

اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سات دن یاتیرہ دن بیماررہنے کے بعد وفات ہو گئی (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ)

فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں مجھے معلوم بھی نہ ہو سکا کہ(کس وقت)آپ کی وفات ہوگئی۔[60]

قَالَتْ: قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ سَحْرِی وَنَحْرِی، فَلَمَّا خَرَجَتْ نَفْسُهُ لَمْ أَجِدْ رِیحًا قَطُّ أَطْیَبَ مِنْهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاسرمبارک میرے سینے اورٹھوڑی کے درمیان تھافرماتی ہیں   جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روح نے پروازکیاتومیں  نے کبھی اس سے بہترخوشبونہیں  پائی ۔[61]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: وَضَعْتُ یَدِی عَلَى صَدَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ مات فمرت لی جُمَعٌ آكُلُ، وَأَتَوَضَّأُ، وَمَا یَذْهَبُ رِیحُ الْمِسْكِ مِنْ یَدِی

اورام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا سے فرماتی ہیں جس روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تومیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سینہ مبارک پرہاتھ رکھاتوتمام کھانے میرے لیے تلخ ہوگئے ،میں  نے وضوکیااورکستوری کی خوشبومیرے ہاتھ سے نہیں  جاتی تھی۔[62]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات دوموٹے پیوندلگےکپڑوں  میں  ہوئی :

عَنْ أَبِی بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا مِمَّا یُصْنَعُ بِالْیَمَنِ، وَكِسَاءً مِنَ الَّتِی یُسَمُّونَهَا الْمُلَبَّدَةَ، قَالَ: فَأَقْسَمَتْ بِاللهِ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ فِی هَذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ

ابوبردہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس گیاانہوں  نے ایک موٹا تہبندنکالاجویمن میں  بنتا ہے اورایک پیوندلگاہوا کمبل جس کوملبدہ کہتے ہیں  پھرقسم کھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ان دونوں  کپڑوں  میں  ہوئی تھی۔[63]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی توا س وقت آپ کی عمر۶۳برس کی تھی[64]

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کااضطراب

اس الم ناک حادثہ کی خبرفوراًہی چاروں  طرف پھیل گئی،تمام مدینہ منورہ میں  تہلکہ پڑگیا،مسلمانوں  پرغم کاپہاڑٹوٹ پڑا،فاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا بنت محمد بھی رو رہی تھیں (شدت غم سے ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے)

قَالَتْ: یَا أَبَتَاهُ، أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ، یَا أَبَتَاهْ، مَنْ جَنَّةُ الفِرْدَوْسِ، مَأْوَاهْ یَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِیلَ نَنْعَاهْ

اے اباجان!آپ اپنے رب کے بلاوے پرچلے گئے ،اے اباجان! آپ جنت الفردوس میں  اپنے مقام پرچلے گئے ، ہم جبر ئیل علیہ السلام  کوآپ کی وفات کی خبرسناتے ہیں ۔[65]

ازواج مطہرات پررنج والم کاجوپہاڑگرااس کاتوپوچھناہی کیا۔

وكان عثمان ممن أخرس, یذهب به ویجیء ولا یستطیع كلامًا

سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ  ذی النورین سالت وششدر رہ گئے دیوارسے پشت لگائے بیٹھے تھےشدت غم سے بول ہی نہ سکے۔

عباس  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب پریشانی میں  سخت بدحواس تھے۔

وكان علی ممن أقعد فلم یستطع حراكًا بزنة سحاب

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب فرط غم سے زاروقطار روتے ہوئے بیہوش ہوگئے۔

وأضنى عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَیْسٍ، فمات كمدًا بفتح الكاف والمیم حزنًا

عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ  اسی غم میں  ایسے بیمارپڑے کہ آخراسی بیماری میں  انتقال کرگئے ۔[66]

فَقَالَ: إنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُنَافِقِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تُوُفِّیَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا مَاتَ، وَلَكِنَّهُ ذَهَبَ إلَى رَبِّهِ كَمَا ذَهَبَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ،  وو الله لَیَرْجِعَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا رَجَعَ مُوسَى، فَلَیَقْطَعَنَّ أَیْدِی رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ زَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَاتُ

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کی پریشانی وحیرانی سب ہی سے بڑھی ہوئی تھی ،وہ شدت غم سے دیوانے ہوگئے اورتلوارکھینچ کرلوگوں  کوباآوازبلنددھمکایاکہ منافقین کاگمان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات نہیں  ہوئی بلکہ وہ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں ،جس طرح موسیٰ   علیہ السلام  بن عمران تشریف لے گئے تھے اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کران کے پاس دوبارہ واپس آ گئے تھے ،حالانکہ ان کے بارے میں  کہاجارہاتھاکہ وہ وفات پاچکے ہیں ،اللہ کی قسم !رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی ضرورپلٹ کر آئیں  گے اوران لوگوں  کے ہاتھ پاؤں  کاٹیں  گئے جو یہ سمجھتے ہیں  کہ آپ کی موت واقع ہوگئی ہے۔[67]

عَن أَنَسٍ قَالَ: مَا رَأَیْتُ یَوْمًا قَطُّ كَانَ أَحْسَنَ وَلَا أَضْوَأَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ عَلَیْنَا فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَیْت یَوْمًا كَانَ أقبح وأظلم مِنْ یَوْمٍ مَاتَ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے ہاں  تشریف لائے اس سے بہتر اور درخشاں  دن میں  نے کبھی نہیں  دیکھااورجس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وفات پائی اس سے زیادہ تاریک دن میں  نے کبھی نہیں  دیکھا ۔[68]

وَدَخَلَ الْمُسْلِمُونَ الّذِینَ عَسْكَرُوا بِالْجُرْفِ الْمَدِینَةَ، وَدَخَلَ بُرَیْدَةُ بْنُ الْحُصَیْبِ بِلِوَاءِ أُسَامَةَ مَعْقُودًا حَتّى أَتَى بِهِ بَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَغَرَزَهُ عِنْدَهُ

اسامہ  رضی اللہ عنہ  کے لشکرسے سب مجاہدین جوالجرف میں  جمع تھے افتاں  وخیزاں  واپس آئے اوربریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے وہ نشان جوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ  رضی اللہ عنہ  کوعطافرمایاتھا لاکرحجرہ مبارکہ کے دروازے پرنصب کردیا۔[69]

وَأَمَّا مَعْنُ بْنُ عَدِیٍّ، فَبَلَغَنَا أَن النَّاس بكما عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ تَوَفَّاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَالُوا: وَاَللَّهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا مُتْنَا قَبْلَهُ، إنَّا نَخْشَى أَنْ نَفْتَتِنَ بَعْدَهُ،قَالَ مَعَنُ بْنُ عَدِیٍّ: لَكِنِّی وَاَللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنِّی مُتُّ قَبْلَهُ حَتَّى أُصَدِّقَهُ مَیِّتًا كَمَا صَدَّقْتُهُ حَیًّا

رحمت کونین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصال فرمایاتوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم پرقیامت ٹوٹ پڑی اوروہ شدت الم سے نڈھال ہوگئے اس وقت دنیاان کی نظرمیں  تاریک ہوچکی تھی اوران میں  سے بعض گریہ کناں  ہوکربارباریہ کہہ رہے تھے کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے مرجاتے اورہمیں  یہ وقت نہ دیکھناپڑتا،ان اللہ تعالیٰ ہی کومعلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدہمیں  کن مصائب وآلام کاسامناکرناپڑے ، معن رضی اللہ عنہ بن عدی بلوی نے یہ باتیں  سنیں  توانہوں  نے لوگوں  سے مخاطب ہوکرکہااللہ کی قسم مجھے تویہ پسندنہیں  کہ میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے مرگیاہوتامیری تویہ تمناہے کہ جس طرح میں  نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصدیق کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحلت کے بعدبھی اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصدیق کروں  ۔[70]

[1] صحیح بخاری کتاب الوضوباب الغسل والوضو بالمنضب۱۹۸، وکتاب المغازی باب مرض النبیﷺ عن عائشہ صدیقہ ۴۴۴۲

[2] سنن الدارمی ۸۲،دلائل النبوة للبیہقی ۱۷۷؍۷،تاریخ طبری۱۹۴؍۳، البدایة والنہایة۲۴۹؍۵

[3] صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلوٰة بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ  فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ عن جندب۱۱۸۸

[4] صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلوٰة بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ  فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ ۱۱۸۶

[5] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ۴۳۷،موطا امام مالک  کتاب الجامع مَا جَاءَ فِی  الْیَهُودِ ۱۸

[6] موطا امام مالک  کتاب الصلوٰة باب جامع الصلوٰة۸۹

[7] مصنف عبدالرزاق۴۸۳۹

[8] اغاثة اللھفان۱۹۵؍۱

[9] البدایة والنہایة۲۵۱؍۵ ، دلائل النبوة للبیہقی۱۷۹؍۷،السیرة النبویة لابن کثیر۴۵۷؍۴

[10] المعجم الاوسط للطبرانی۲۶۲۹

[11] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۶۲۸ ،و کتاب الجمعة بَابُ  مَنْ قَالَ فِی الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ عن ابن عباس ۹۲۷، وکتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ مناقب انصار عن ابن عباس وانس  ۳۷۹۹، ۳۸۰۰،۳۸۰۱

[12] صحیح بخاری کتاب الصلاة  بَابُ الخَوْخَةِ وَالمَمَرِّ فِی المَسْجِدِعن ابی سعید وابن عباس  ۴۶۶،۴۶۷، وکتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۴، صحیح مسلم  کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْه ُ۶۱۷۰

[13] العصر۱تا۳

[14] محمد۲۲

[15] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۱۱؍۱۲،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۲۵۲؍۱۲،السیرة الحلیبة ۴۹۱؍۳،المواھب اللدینة۵۵۷؍۳،القول المبین فی سیرة سید المرسلین ۳۹۴؍۱،احیاء علوم الدین۴۷۰؍۴

[16] امتاع الاسماع ۵۲۷؍۱۴،الخصائص الکبری۱۸۲؍۲

[17] صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ ۹۳۶

[18] صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ۹۳۹

[19] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابٌ حَدُّ المَرِیضِ أَنْ یَشْهَدَ الجَمَاعَةَ ۴۶۴  ، وبَابٌ أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ۶۷۸، وبَابٌ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ۶۸۷،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ ۹۳۶،۹۴۱

[20] صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ الغُسْلِ وَالوُضُوءِ فِی المِخْضَبِ وَالقَدَحِ وَالخَشَبِ وَالحِجَارَةِعن عائشہ صدیقہ ۱۹۸، وکتاب الاذان بَابٌ حَدُّ المَرِیضِ أَنْ یَشْهَدَ الجَمَاعَةَ ۶۶۴ ، وبَابٌ أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ۶۷۸، وبَابٌ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ۶۸۷،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ۹۴۱ ،۹۴۲،۹۴۸

[21] سنن نسائی كِتَابُ الْإِمَامَةِ باب الِائْتِمَامُ بِمَنْ یَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ۷۹۹

[22] الانعام۳۸

[23] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ كِتَابَةِ العِلْمِ عن ابن عباس ۱۱۴ ، وکتاب الجہاد باب جوائز الوفود ۳۰۵۳، وکتاب الجزیة والموادعة َبابُ إِخْرَاجِ الیَهُودِ مِنْ جَزِیرَةِ العَرَبِ۳۱۶۸، وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۳۲،۴۴۳۱،وکتاب المرضی بَابُ قَوْلِ المَرِیضِ قُومُوا عَنِّی۵۶۶۹،صحیح مسلم کتاب الوصیة  بَابُ تَرْكِ الْوَصِیَّةِ لِمَنْ لَیْسَ لَهُ شَیْءٌ یُوصِی فِیهِ۴۲۳۲

[24] شرح القسطلانی ۔إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری۲۰۷؍۱

[25] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصَایَا وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَصِیَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ عن عبداللہ بن ابی اوفیٰ ۲۷۴۰، وکتاب المغازیبَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۶۰،وکتاب فضائل القرآن بَابُ الوَصِیَّةِ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۵۰۲۲،صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ تَرْكِ الْوَصِیَّةِ لِمَنْ لَیْسَ لَهُ شَیْءٌ یُوصِی فِیهِ۴۲۲۷

[26] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ نَفَقَةِ القَیِّمِ لِلْوَقْفِ عن ابی ہریرہ ۲۷۷۶،صحیح مسلم کتاب  الجہادوالسیربَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ۴۵۸۳،سنن ابوداودکتاب  الخراج والفی ئ والامارةبَابٌ فِی صَفَایَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَمْوَالِ۲۹۷۴

[27] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ النَّهْیِ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ عن ابن عباس ۱۰۷۴،۱۰۷۵

[28] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ الْأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ تَعَالَى عِنْدَ الْمَوْتِ عن جابر ۷۲۲۹ ،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ حُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ عِنْدَ الْمَوْتِ ۳۱۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ التَّوَكُّلِ وَالْیَقِینِ ۴۱۶۷

[29] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِعن ابن عباس ۴۴۴۷، وکتاب الاستذانبَابُ المُعَانَقَةِ، وَقَوْلِ الرَّجُلِ كَیْفَ أَصْبَحْتَ۶۲۶۶

[30] صحیح بخاری کتاب المرضی ٰبَابُ شِدَّةِ المَرَضِ عن عائشہ ۵۶۴۶،صحیح مسلم کتاب البروصلة والادب بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا۶۵۵۷ ،سنن ابن ماجہ  کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۶۲۲

[31] صحیح بخاری کتاب المرضی ٰبَابٌ أَشَدُّ النَّاسِ بَلاَءً الأَنْبِیَاءُ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ عن ابن مسعود۵۶۴۸، صحیح مسلم کتاب البروصلة والادب بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا۶۹۹۵

[32] فتح الباری ۱۰۸؍۱۰

[33] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ ۴۳۵،۴۳۶، وکتاب  احادیث الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۴۵۳،وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۴۳،۴۴۴۴، وکتاب اللباس  بَابُ الأَكْسِیَةِ وَالخَمَائِصِ۵۸۱۵ ،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة  بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۷

[34] صحیح بخاری کتاب المغازیبَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۸، وکتاب الطب بَابُ اللدُودِ ۵۷۱۲،وکتاب الدیات بَابُ القِصَاصِ بَیْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فِی الجِرَاحَاتِ ۶۸۸۶،صحیح مسلم کتاب السلام  بَابُ كَرَاهَةِ التَّدَاوِی بِاللدُودِعن عائشہ صدیقہ ۵۷۶۱

[35] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ القِرَاءَةِ فِی المَغْرِبِ۷۶۳، وکتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ عن ام الفضل ۴۴۲۹، جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابٌ فِی القِرَاءَةِ فِی الْمَغْرِبِ ۳۰۸

[36] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابٌ أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ عن انس  ۶۸۰،۶۸۱، وبَابٌ هَلْ یَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ یَنْزِلُ بِهِ، أَوْ یَرَى شَیْئًا، أَوْ بُصَاقًا فِی القِبْلَةِ؟۷۵۴، وابواب العمل فی الصلوٰةبَابُ مَنْ رَجَعَ القَهْقَرَى فِی صَلاَتِهِ، أَوْ تَقَدَّمَ بِأَمْرٍ یَنْزِلُ بِهِ۱۲۰۵، وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۴۸ ،  صحیح مسلم کتاب الصلوٰة  بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ۹۴۴

[37] البدایة والنہایة۲۶۵؍۵

[38] ابن ہشام۶۵۴؍۲،الروض الانف۵۷۷؍۷

[39] ابن سعد۱۴۶؍۲

[40] ابن سعد ۱۴۶؍۲، عیون الآثر۳۵۰؍۲،ابن ہشام ۶۵۰؍۲،الروض الانف ۵۷۰؍۷،عیون الآثر۴۰۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۵۱؍۴، السیرة الحلیبة ۲۹۲؍۳

[41] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۴۰، صحیح مسلم  کتاب الفضائل باب فضل عائشہ  عن عائشہ صدیقہ ۶۲۹۳

[42] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۶۱،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۶۳۰

[43] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۴۴۶۳،وکتاب الدعوات  بَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ الرَّفِیقَ الأَعْلَى ۶۳۴۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابٌ فِی فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا۶۲۹۷

[44] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا جَاءَ فِی بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ البُیُوتِ إِلَیْهِنَّ ۳۱۰۰، وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ عن عائشہ ۴۴۳۸، ۴۴۴۹

[45] صحیح ابن حبان۷۰۹۵

[46] صحیح ابن حبان۷۰۹۶

[47]صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا ۳۷۷۲

[48] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ عن عائشہ ۴۴۳۸ ، ۴۴۵۹

[49] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۲۸

[50] مسند احمد ۲۶۴۸۳

[51] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۴۹

[52] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ اسْتِحْبَابِ رُقْیَةِ الْمَرِیضِ۵۷۰۷

[53] صحیح بخاری کتاب  المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ  ۴۴۳۸

[54] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۴۰،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ اسْتِحْبَابِ رُقْیَةِ الْمَرِیضِ ۵۷۰۵،وکتاب الفضائل بَابٌ فِی فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا ۶۲۹۳

[55] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَوْتِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ ۱۳۸۷

[56] صحیح مسلم کتاب الفضائلبَابٌ فِی فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا ۶۲۹۲

[57] ابن سعد۱۴۶؍۲

[58] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصَایَا وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَصِیَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ۲۷۴۱

[59] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۴۹

[60] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصَایَا وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  وَصِیَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ۲۷۴۱،صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ تَرْكِ الْوَصِیَّةِ لِمَنْ لَیْسَ لَهُ شَیْءٌ یُوصِی فِیهِ ۴۲۳۱

[61] البدایة والنہایة۲۶۱؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۲۱۳؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۳۲؍۱۲،السیرة النبویة لابن  کثیر۴۷۸؍۴

[62] البدایة والنہایة۲۶۱؍۵

[63] صحیح مسلم کتاب اللباس والزینة  بَابُ التَّوَاضُعِ فِی اللِّبَاسِ  عن عائشہ  ۵۴۴۲،صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا ذُكِرَ  مِنْ دِرْعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۱۰۸، وکتاب اللباس   بَابُ الأَكْسِیَةِ وَالخَمَائِصِ۵۸۱۸،دلائل النبوة للبیہقی۲۷۵؍۷

[64] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ  بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ  عن ابن عباس ۳۹۰۳،وکتاب المغازی بَابُ وَفَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۴۶۶،وکتاب المناقب  بَابُ وَفَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۵۳۶،صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ كَمْ سِنُّ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُبِضَ؟ عن عائشہ ۶۰۹۲

[65] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۶۲

[66] شرح الزقانی علی المواھب۱۴۳؍۱۲

[67] ابن ہشام۶۵۵؍۲

[68] مشکوٰة المصابیح ۵۹۶۲،سنن الد ارمی۸۹

[69] ابن سعد۱۴۶؍۲،عیون الآثر ۳۵۱؍۲،مغازی واقدی ۱۱۲۰؍۳

[70] ابن ہشام۶۶۰؍۲

Related Articles