ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

وفداحمس

احمس کے لغوی معنی ہیں  بہادر،شجاع ،یہ قبیلہ بنوعامربن صعصعہ کی ایک شاخ تھا،ویسے بنواحمس کئی عدنانی قبائل کے لئے بولاجاتا تھا بالخصوص ان قبیلوں  کے لئے جن کی مائیں  قریش سے تعلق رکھتی تھیں ،خودقریش کوبھی بعض اوقات بنواحمس سے منسوب کیاجاتاتھا،ایک روایت کے مطابق بنواحمس قریش ہی میں  سے نکلے ہیں ۔

وَقَدِمَ قَیْسُ بْنُ عَزْرَةَ الأَحْمَسِیُّ فِی مِائَتَیْنِ وَخَمْسِینَ رَجُلا مِنْ أحمس الله   وكان یقال لهم ذاك فی الجاهلیة،فقال لهم رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من أنتم؟فقالوا: نحن أحمس الله، فقال لهم رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَأَنْتُمُ الْیَوْمَ لِلَّهِ،وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لِبِلالٍ: أَعْطِ رَكْبَ بَجِیلَةَ وَابْدَأْ بِالأَحْمَسِیِّینَ

رمضان دس ہجری میں  قیس  رضی اللہ عنہ بن عزرہ احمسی کی قیادت میں  دوسوپچاس آدمیوں  پرمشتمل احمس اللہ(اللہ کے بہادربندے) کاایک وفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہوا، دورجاہلیت میں  انہیں  اسی نام سے پکاراجاتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھاتم کس قبیلے سے ہو؟انہوں  نے عرض کیاہم احمس اللہ ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم آج سے اللہ تعالیٰ کے لئے ہو،اس وقت بنوبجیلہ کاوفدبھی بارگاہ نبوت میں  حاضرتھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیاپہلے قبیلہ احمس کے افرادکوعطیات دواورپھربجیلہ کے سواروں  کودو۔[1]

اسی قبیلہ کے ایک سوپچاس گھڑسوارجریر  رضی اللہ عنہ  کی قیادت میں تبالہ میں ذوالخلصہ کوانہدام کرنے کے لئے گئے تھے۔

وكان رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. یُسَائِلُهُ عَمَّا وَرَاءَهُ ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ أَظْهَرَ اللهُ الإِسْلامَ وَأَظْهَرَ الأَذَانَ فِی مَسَاجِدِهِمْ وَسَاحَاتِهِمْ. وَهَدَّمَتِ الْقَبَائِلُ أَصْنَامَهَا الَّتِی كَانَتْ تُعْبَدُقَالَ: فَمَا فَعَلَ ذُو الْخَلَصَةِ؟قَالَ: هُوَ عَلَى حَالِهِ قَدْ بَقِیَ. وَاللهُ مُرِیحٌ مِنْهُ إِنْ شَاءَ اللهُ ،قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَةَ؟

محرم گیارہ ہجری میں  جریر  رضی اللہ عنہ  بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے توآپ نے ان سے دریافت فرمایا جریر! تمہاری قوم کاکیاحال ہے؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے اسلام کوغلبہ عطاکیا،مساجداورصحراؤں  میں  صدائے توحید(اذان)بلندہوتی ہے اورقبائل نے اپنے بتوں  کو توڑ ڈالاہے جن کی وہ پرستش کرتے تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاذوالخلصہ کاکیاہوا؟جریر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ابھی تک وہ باقی ہےجب ہم واپس جائیں  گے توان شاء اللہ اس کابھی خاتمہ کردیں  گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایاکیاتم مجھے ذی الخلصہ سے نجات نہیں  دلاؤگے؟

بیت كان یدعى الكعبة الیمانیة

اس کے استھان کاالکعبہ الیمانیہ کہاجاتاتھا۔[2]

فَقُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی كِفْلٌ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَیْلِ، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَدْرِی حَتَّى رَأَیْتُ أَثَرَ یَدِهِ فِی صَدْرِی   ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِیًا مَهْدِیًّا،قَالَ: فَمَا وَقَعْتُ عَنْ فَرَسٍ بَعْدُ

میں  نے عرض کیاکیوں  نہیں ، میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  گھوڑے کی پیٹھ پرجم کرنہیں  بیٹھ سکتا، یہ عذرسن کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے سینے پراتنے زورسے ہاتھ ماراکہ اس میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی انگلیوں  کے نشانات ظاہرہوگئے اورساتھ ہی دعافرمائی اے اللہ !اس (جریر  رضی اللہ عنہ ) کو گھوڑے کی پیٹھ پرقائم رکھ اور اس کو ہدایت دینے والااورہدایت یافتہ بنادے،اس دعاکے نتیجے میں  جریر  رضی اللہ عنہ  گھوڑے پرجم کربیٹھنے لگے اورانہوں  نے گھوڑے پر سوار ہو کر بڑے بڑے معرکے سرکیے۔[3]

وَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً  ، فَانْطَلَقْتُ فِی خَمْسِینَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، وَكَانُوا أَصْحَابَ خَیْلٍ، قَالَ: فَأَتَاهَا فَحَرَّقَهَا فِی النَّارِ وَكَسَرَهَا

پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر  رضی اللہ عنہ  کوجھنڈا عطا فرمایااورقبیلہ احمس جو گھڑ سواری میں  بہت مشتاق تھے کے ایک سوپچاس سواروں  کے ہمراہ عازم یمن کیا،اس کے بعدجریر  رضی اللہ عنہ بتالہ پہنچ گئے جہاں  ذوالخلصہ نصب تھا، خثعم اور باہلہ کے لوگوں  نے جو شاہسواری میں  بڑے ماہرتھے مزاحمت کی لیکن مقابلہ پر جم نہ سکے اورشکست کھاکرہٹ گئے،جریر  رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں  رضی اللہ عنہم  نے اس بت کو توڑ پھوڑ ڈالا اورپھرآگ لگادی۔[4]

فَمَا أَطَالَ الْغَیْبَةَ حتى رجع. فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَدَمْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ. وَأَخَذْتُ مَا عَلَیْهِ وَأَحْرَقْتُهُ بِالنَّارِ. فَتَرَكْتُهُ كَمَا یَسُوءُ مَنْ یَهْوَى هَوَاهُ

ایک روایت میں  ہےزیادہ مدت نہ گزری تھی کہ وہ واپس آئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے دریافت کیاکہ کیاتم نے اسے منہدم کردیاہے؟ انہوں  نےعرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوحق کے ساتھ بھیجاہے جی ہاں  (ہم نے اسے منہدم کر دیاہے)اس پرجوکچھ تھامیں  نے لے لیااوراسے آگ میں  جلاکراسی حالت بنادی کہ جواس سے محبت کرتاتھااسے ناگوارہوگاکسی کو ہمارے کام میں  مزاحم ہونے کی ہمت نہیں  پڑی۔[5]

ثُمَّ بَعَثَ جَرِیرٌ رَجُلًا مِنْ أحمس یكنى أَرْطَأَةَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُبَشِّرُهُ بِذَلِكَ

ایک اورروایت میں  ہےذوالخلصہ کوبربادکرنے کے بعدجریر  رضی اللہ عنہ  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوخوشخبری دینے کے لئے اپناقاصد ابوارطاة

اسمه الحصین بن ربیعة جن کانام حصین بن ربیعہ تھا۔[6]

کوروانہ کیاجس نے منی میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوکرفتح کی بشارت دی

فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا، كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْرَبُ،بَرَّكَ عَلَى خَیْلِ قَبِیلَتِهِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ

اورکہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !  اللہ کی قسم ! جس نے آپ کو دین حق دے کربھیجاہے جب تک وہ بت جل کرخارش زدہ اونٹ کی طرح سیاہ نہیں  ہوگیامیں  وہاں  سے نہیں  چلا،یہ سن کرآپ  علیہ السلام  نے قبیلہ احمس اور اس کے آدمیوں  کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعافرمائی۔[7]

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، “ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى ذِی الْخَلَصَةِ، فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا بِالنَّارِ، ثُمَّ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ أَحْمَسَ یُقَالُ لَهُ: بُشَیْرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُبَشِّرُهُ

جریربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ذوالخلصہ کوڈھانے کے لیے بھیجامیں  نے اسے منہدم کیااورپھرآگ سے جلادیاپھراحمس سے ایک شخص کو جسے بشیرکہاجاتاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخوش خبری دینے کے لیے روانہ کیااوراس نے جاکرخوشخبری دی۔[8]

اس بت کاپتھر مسجدتبالہ کی دہلیزپرلگاہواہے ۔

وَفِی الْحَدِیثِ مَشْرُوعِیَّةُ إِزَالَةِ مَا یُفْتَتَنُ بِهِ النَّاسُ مِنْ بِنَاءٍ وَغَیْرِهِ سَوَاءً كَانَ إِنْسَانًا أَوْ حَیَوَانًا أَوْ جَمَادًا وَفِیهِ اسْتِمَالَةُ نُفُوسِ الْقَوْمِ بِتَأْمِیرِ مَنْ هُوَ مِنْهُمْ وَالِاسْتِمَالَةُ بِالدُّعَاءِ وَالثَّنَاءِ وَالْبِشَارَةِ فِی الْفُتُوحِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث ہذاسے ثابت ہواکہ جوچیزیں  لوگوں  کی گمراہی کاسبب بنیں  وہ مکان ہوں  یا کوئی انسان ہویاحیوان ہویاکوئی جمادات سے ہوشرعی طورپران کازائل کردیناجائزہے اوریہ بھی ثابت ہواکہ کسی قوم کی دلجوئی کے لیے امیرقوم خودان ہی میں  سے بنانا بہتر ہے اورفتوحات کے نتیجہ میں  دعا کرنا،بشارت دینااورمجاہدین کی تعریف کرنابھی جائزہے ۔[9]

ابن سعدکے روایت کے مطابق یہ واقعہ جریر  رضی اللہ عنہ  کے قبول اسلام کے فوراًبعدپیش آیالیکن صحیح بخاری کتاب المغازی میں  جس طرح یہ واقعہ بیان کیاگیاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ حجة الوداع کے بعداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے پیش آیا،زرقانی نے شرح مواہب میں  صراحت کے ساتھ لکھاہے کہ یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال سے تقریباًدومہینے پہلے کاواقعہ ہے،جریر  رضی اللہ عنہ  ذی الخلصہ کوڈھانے کی مہم پرمحرم گیارہ ہجری میں  روانہ ہوئے تھے،

فَبَعَثَ جَرِیرٌ بَشِیرًا، أَبَا أَرْطَاةَ

جریر  رضی اللہ عنہ نے اس کو ڈھانے کی خوش خبری دینے کے لئے ابوارطاة کوبارگاہ نبوی میں  بھیجا،

چنددن بعدخودبھی مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے لیکن ابھی راستے ہی میں  تھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبرملی۔[10]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدجب یہ قبائل مرتدہوئے توانھوں  نے پھرذوالخلصہ کوزندہ کرناچاہالیکن سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی خلافت نے اس کوہمیشہ کے لئے فناکردیا، اسی سال جریر  رضی اللہ عنہ  بن عبد اللہ بجلی کوذوالکلاح حمیری کے پاس جس کااصل نام سمیفع  تھااوراس نے اپنے رب ہونے کادعویٰ کیاتھااورلوگ اسے پوج بھی رہے تھے دعوت اسلام کے لئے بھیجاگیا، جریر  رضی اللہ عنہ  بن عبد اللہ بجلی نے اس کے سامنے بڑی کامیابی سے دعوت اسلام کوپیش کیاجس کے نتیجے میں  ذوالکلاح اوراس کی اہلیہ خزیمہ بنت ابراہہ بن صاح دونوں  دائرہ اسلام میں  داخل ہوگئے۔

 وكان ذو الكلاع قد أعتق أربعة آلاف أهل بیت، وقیل: عشرة آلاف،ثم إن ذا الكلاع خرج إِلَى الشام، وأقام به، فلما كانت الفتنة كان هو القیم بأمر صفین ، وقتل فیها

ایک روایت ہےذوالکلاع نے چارہزاریادس ہزارخاندان آزادکیے، پھر ذوالکلاع شام کی طرف چلے گئے اوروہیں  سکونت اختیارکرلی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدارتدادکاجوفتنہ کھڑاہواتھاجس کی وجہ سے جنگ صفین برپاہوئی ، اس میں  یہ شہادت کی منصب پرفائزہوئے۔[11]

وفدبنی نخع:

یہ قبیلہ مشہورقحطانی قبیلہ مذحج کی ایک شاخ تھا،یہ لوگ یمن میں  آبادتھے۔

وَقَدِمَ عَلَیْهِ وَفْدُ النَّخْعِ وَهُمْ آخِرُ الْوُفُودِ قُدُومًا عَلَیْهِ فِی نِصْفِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ فِی مِائَتَیْ رَجُلٍ فَنَزَلُوا دَارَ الْأَضْیَافِ، ثُمَّ جَاءُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُقِرِّینَ بِالْإِسْلَامِ، وَقَدْ كَانُوا بَایَعُوا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، یُقَالُ لَهُ زرارة بن عمرو: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی رَأَیْتُ فِی سَفَرِی هَذَا عَجَبًاقَالَ:  وَمَارَأَیْتَ ؟

یہ آخری وفدتھاجوگیارہ ہجری میں  آپ کی خدمت میں  حاضرہوااس وفدمیں دو سوآدمی شامل تھے،یہ وفدمہمان خانہ میں  اترا،یہ وفد صرف شرف زیارت اوربیعت کے لیے خدمت اقدس میں  حاضرہواتھا اورپہلےمعاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پراسلام قبول کرکے بیعت کرچکے تھے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کودیکھ کرخوش ہوئے دعاؤں  سے نوازااوران کی تعریف کی،وفدمیں  زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  بھی شامل تھے انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے راستے میں  چندعجیب خواب دیکھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیان کرو،

قَالَ رَأَیْتُ أَتَانًا تَرَكْتُهَا فِی الْحَیِّ كَأَنَّهَا وَلَدَتْ جَدْیًا أَسْفَعَ أَحْوَى،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تَرَكْتَ أَمَةً لَكَ مُصِرَّةً عَلَى حَمْلٍ ؟قَالَ نَعَمْ،قَالَ: فَإِنَّهَا قَدْ وَلَدَتْ غُلَامًا وَهُوَ ابْنُكَ،قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ فَمَا بَالُهُ أَسْفَعَ أَحْوَى؟قَالَ: ادْنُ مِنِّی فَدَنَا مِنْهُ فَقَالَ: هَلْ بِكَ مِنْ بَرَصٍ تَكْتُمُهُ؟قَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَلِمَ بِهِ أَحَدٌ، وَلَا اطَّلَعَ عَلَیْهِ غَیْرُكَ،قَالَ: فَهُوَ ذَلِكَ

زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیامیں  اپنے گھرایک گدھی چھوڑآیاتھامیں  نے خواب میں  دیکھاکہ اس نے ایک بکری کا  بچہ دیاہے جوسفیداورسیاہ رنگ کاابلق ہے،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم نے اپنے گھرکوئی حاملہ لونڈی چھوڑی ہے ؟زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  !جی ہاں ،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا بیٹا پیداہواہے جوتیرافرزندہے،زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ   !اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !پھروہ سیاہ سرخی مائل (ابلق) ہونے کا کیا مطلب ہے؟رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقریب آؤ،پھرآہستہ سے پوچھاکیاتمہارے جسم پربرص کے داغ ہیں  جنہیں  تم نے لوگوں  سے پوشیدہ رکھا ہے؟زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  !اللہ کی قسم جس نے آپ کورسول بناکربھیجاہے میرے ان داغوں  کا آج تک کسی کوعلم نہ تھا،ارشادہوابچہ پر اسی کااثرہے،

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ وَرَأَیْتُ النعمان بن المنذر عَلَیْهِ قُرْطَانِ مُدَمْلَجَانِ وَمَسْكَتَانِ،قَالَ: ذَلِكَ مَلِكُ الْعَرَبِ رَجَعَ إِلَى أَحْسَنِ زِیِّهِ وَبَهْجَتِهِ

زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے دوسراخواب سنایااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !  میں  نے نعمان بن منذر(عرب کا مشہور بادشاہ) کو دیکھاکہ اس نے کانوں  میں  ڈنڈیاں  ، ہاتھوں  میں  کنگن اور پیروں  میں  پازیبیں  پہن رکھی ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ عرب کا بادشاہ ہے تونے اس کو اچھی حالت اورخوبصورت لباس میں  دیکھاہے۔

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ وَرَأَیْتُ عَجُوزًا شَمْطَاءَ قَدْ خَرَجَتْ مِنَ الْأَرْضِ،قَالَ: تِلْكَ بَقِیَّةُ الدُّنْیَا

زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے تیسراخواب بیان کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک بڑھیازمین سے باہرنکلی ہے جس کے کچھ بال سفیداورکچھ سیاہ ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! نے فرمایایہ دنیاہے جس قدر باقی رہ گئی ہے،

قَالَ:وَرَأَیْتُ نَارًا خَرَجَتْ مِنَ الْأَرْضِ فَحَالَتْ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنٍ لِی یُقَالُ لَهُ عمرو، وَهِیَ تَقُولُ: لَظَى لَظَى بَصِیرٌ وَأَعْمَى أَطْعِمُونِی آكُلُكُمْ أَهْلَكُمْ وَمَالَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ فِتْنَةٌ تَكُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ،قَالَ یَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْفِتْنَةُ؟قَالَ: یَقْتُلُ النَّاسُ إِمَامَهُمْ وَیَشْتَجِرُونَ اشْتِجَارَ أَطْبَاقِ الرَّأْسِ .وَخَالَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بَیْنَ أَصَابِعِهِ  یَحْسَبُ الْمُسِیءُ فِیهَا أَنَّهُ مُحْسِنٌ   وَیَكُونُ دَمُ الْمُؤْمِنِ عِنْدَ الْمُؤْمِنِ فِیهَا أَحْلَى مِنْ شُرْبِ الْمَاءِ إِنْ مَاتَ ابْنُكَ أَدْرَكْتَ الْفِتْنَةَ وَإِنْ مُتَّ أَنْتَ أَدْرَكَهَا ابْنُكَ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ لَا أُدْرِكَهَافَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  اللهُمَّ لَا یُدْرِكْهَافَمَاتَ وَبَقِیَ ابْنُهُ وَكَانَ مِمَّنْ خَلَعَ عثمان

زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے اپناچوتھاخواب سنایاکہ میں  نے ایک آگ زمین سے نمودارہوتے دیکھی جومیرے اورمیرے بیٹے عمرو کے درمیان آگئی اور وہ آگ کہہ رہی ہے میں  آگ ہوں ،میں  آگ ہوں ،کوئی بیناہونابیناہو،مجھے کھانے کے لئے دومیں  تم کوتمہارے اہل کواورمال کوکھاؤں  گی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ ایک فسادہے جوآخرزمانہ میں  ظاہرہوگا،زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  !اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیسافتنہ ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایالوگ اپنے امام کوقتل کردیں  گے آپس میں  پھوٹ پڑجائے گی،لوگ ایک دوسرے سے اس طرح گتھ جائیں  گے جیسے ہاتھوں  کی انگلیاں  پنجہ ڈالنے میں  گتھ جاتی ہیں ،بدکاراس زمانے میں  اپنے آپ کو نیکوکارسمجھے گا،مومن کاخون پانی سے بڑھ کر خوشگوار سمجھا جائے گا اگرتیرابیٹا مر گیاتب تواس فتنہ کودیکھ لے گا تو مر گیاتوتیرابیٹادیکھ لے گا،زرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! دعافرمائیں  کہ میں  اس فتنہ کونہ دیکھوں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی الٰہی زرارہ یہ فتنہ نہ دیکھے،اس واقعہ کے چندسال بعدزرارہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  فوت ہوگئے اوران کابیٹازندہ رہا اس نے خلیفہ سوئم سیدنا عثمان ذوالنورین  رضی اللہ عنہ کی بیعت کوتوڑ دیا تھا (اورباغیوں  میں  شامل تھا)۔[12]

ایک روایت میں  یہ بنی نخع کا دوسرا وفد تھا ، اس سے پہلے رجب نوہجری میں  ان کاایک دورکنی وفدارطات بن شراجیل اورارقم (جہیش) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہو کراسلام قبول کرچکاتھاانہوں  نے اپنے قبیلے کی طرف سے بیعت بھی کی۔[13]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےزمانہ جاہلیت میں  قریش روزہ رکھاکرتے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی مکہ مکرمہ میں  ہی عاشورہ کاروزہ رکھاکرتے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہاں  بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھااورلوگوں  کو بھی تاکیدفرمائی کہ وہ روزہ رکھیں ، لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تویہ روزہ ضروری نہ رہاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کوچھوڑدیااورفرمایاجوچاہے رکھ لے اورجوچاہے نہ رکھے۔[14]

قَالَ: كَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الیَهُودُ عِیدًا

یہودی اس دن کو عید کی طرح مناتے تھے اوراس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔[15]

وَیُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِیهِ حُلِیَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ  ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صُومُوهُ أَنْتُمْ

خیبرکے یہودی اس دن کو وہ اپنی عورتوں  کوزیورات پہنناتے اوران کابناؤ سنگھارکراتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے(یہودیوں  کی مخالفت میں  )حکم دیاکہ تم اس دن روزہ رکھاکرو(کیونکہ مسلمان روزہ کی حالت میں  عیدنہیں  مناتے ان کی عیداس دن ہوتی ہے جس دن روزہ رکھناحرام ہے لہذامسلمان عاشورہ کاروزہ رکھ لیں  گے تواس دن عیدمنانے کاسوال ہی پیدانہ ہو گااوروہ یہودیوں  کی مشابہت سے بچ جائیں  گے)۔[16]

قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ: فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توایسادن ہے جس کی یہودونصاری بڑی تعظیم کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب اگلاسال آئے گاتوإِنْ شَاءَ اللهُ ہم نویں  کا (بھی)روزہ رکھیں  گے مگراگلاسال نہیں  آیاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاگئے۔[17]

ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِیهِ الْیَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ یَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ یَوْمًا

عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرو اوراس روزہ میں  یہودیوں  کی مخالفت کروان سے ایک دن پہلے یاایک دن بعدروزہ رکھو(یہی ان کی مخالفت کرنا ہے)۔[18]

ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ:صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَهُودَ

اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نویں  اوردسویں  کاروزہ رکھواوریہودکی مخالفت کرو۔[19]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کارات کوقبرستان جانا:

عَائِشَةُ:قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَیْلَتِی الَّتِی كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا عِنْدِی، انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَخَلَعَ نَعْلَیْهِ، فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَیْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَاضْطَجَعَ، فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا رَیْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَیْدًا، وَانْتَعَلَ رُوَیْدًا، وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ، ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَیْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِی فِی رَأْسِی، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِی، ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِیعَ فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِیَامَ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ، فَلَیْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں ایک رات کوجبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے ہاں  لیٹے ہوئے تھے،آپ نے کروٹ لی (پھر بیٹھے ) جوتے نکال کرقدموں  کے سامنے رکھے ، پھراپنی چادرلی اوراس کاایک سرا بسترپربچھاکرلیٹ گئےپھرتھوڑی دیراس خیال سے رکے رہے کہ کہیں  میں  جاگ نہ جاؤں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آہستہ سے اپنی چادرلی ،آہستہ سے جوتے پہنے،آہستہ سے دروازہ کھولا،آہستہ سے نکلے اورآہستہ سے دروازہ بندکردیا،میں  نے بھی اپنی چادرلی اس کو سر پر اوڑھااورجسم پر لپیٹ لیا،پھرمیں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے چلی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بقیع کے قبرستان پہنچے اوروہاں  بڑی دیرتک کھڑے رہےپھردونوں  ہاتھوں  کوتین مرتبہ اٹھایا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  لوٹے ، میں  بھی لوٹی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جلدی چلے تومیں  بھی جلدی چلی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھاگے تو میں  بھی بھاگی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر آگئے اورمیں  بھی گھر آگئی،میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گھرپہنچ گئی اور آتے ہی لیٹ گئی،

فَدَخَلَ، فَقَالَ:مَا لَكِ؟ یَا عَائِشُ، حَشْیَا رَابِیَةً قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَیْءَ، قَالَ: لَتُخْبِرِینِی أَوْ لَیُخْبِرَنِّی اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ:فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِی رَأَیْتُ أَمَامِی؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَلَهَدَنِی فِی صَدْرِی لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِی، ثُمَّ قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ یَحِیفَ اللهُ عَلَیْكِ وَرَسُولُهُ؟قَالَتْ: مَهْمَا یَكْتُمِ النَّاسُ یَعْلَمْهُ اللهُ، نَعَمْ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  گھرمیں  داخل ہوئے تو فرمایا اے عائش رضی اللہ عنہ ! کیا ہوا ؟سانس کیوں  چڑھ رہاہے؟پیٹ کیوں  پھول رہاہے؟میں نے عرض کیا کچھ نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابتادوورنہ لطیف وخبیر(اللہ) مجھے بتادے گا،عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں  باپ آپ پرقربان ہوں یہ کہہ کر ساراماجراسنایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میرے آگے آگے جوسایہ نظرآرہاتھاوہ تم ہی تھیں ؟عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے کہاجی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے سینہ پرہاتھ مارا جس سے انہیں  کچھ تکلیف سی محسوس ہوئی،پھرفرمایاکیاتم نے یہ خیال کیاتھاکہ اللہ اوراس کارسول تمہاری حق تلفی کریں  گے، تب میں  نے کہاجب لوگ کوئی چیزچھپاتے ہیں  توہاں  اللہ اس کوجانتاہے،

قَالَ:فَإِنَّ جِبْرِیلَ أَتَانِی حِینَ رَأَیْتِ، فَنَادَانِی، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ، فَأَخْفَیْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ یَكُنْ یَدْخُلُ عَلَیْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَكِ ،وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِیتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِی، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِیَ أَهْلَ الْبَقِیعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ ،قَالَتْ: قُلْتُ: كَیْفَ أَقُولُ لَهُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ “ قُولِی: السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ، وَیَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے پاس جبریل  علیہ السلام  آئے تھےانہوں  نے مجھے آوازدی اورتم سے انہوں  نے اس بات کو چھپایاوہ تمہارے پاس آنانہیں  چاہتے تھے کیونکہ تم نے اپنے کپڑے (دوپٹہ،چادروغیرہ)اتاردیئے تھے،میں  نے تمہیں  بیدارکرنااچھانہیں  سمجھا اس لئے تم (اکیلے) گھبراؤگی،جبریل  علیہ السلام  نے کہاآپ کارب آپ کوحکم دیتا ہے کہ آپ بقیع والوں  کے پاس جائیں  اوران کے لئے استغفارکریں ، میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  کیاکہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہوسلام ہے ایماندار گھروالوں  پراورمسلمانوں  پر،رحمت کرے گاہم سے آگے جانے والوں  پراورپیچھے جانے والوں  پر اورہمیں  اللہ نے چاہاتوتم سے ملنے والے ہیں ۔[20]

جولوگ عورتوں  کے لیے زیارت قبورکوجائزکہتے ہیں  وہ اس حدیث سے دلیل لیتے ہیں  ، عورتوں  کے زیارت قبورکے سلسلہ میں  علماء کا تین طورپراختلاف ہے،

ایک تویہ کہ عورتوں  کوزیارت حرام ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

لَعَنَ اللهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ

اللہ تعالیٰ ان عورتوں  پرلعنت کرے جو قبروں  کی زیارت کرتی ہیں ۔[21]

دوسرے یہ کہ عورتوں  کومکروہ ہے۔

اور تیسرے یہ کہ مباح ہے اوروہ اس حدیث سے دلیل لیتے ہیں

 نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا

میں  نے تمہیں  زیارت قبورسے منع کیاہے اب زیارت کیا کرو ۔[22]

پھربقیع والوں  کی استغفارکایہ سلسلہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی باری میں  لگاتار ہوتارہا،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَ لَیْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَى الْبَقِیعِ

عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں    (پھر) میری باری کی رات کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم یہی کرتے کہ آخرشب میں  بقیع(قبرستان)چلے جاتے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ۔[23]

عَنْ أَبِی مُوَیْهِبَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ، فَقَالَ: یَا أَبَا مُوَیْهِبَةَ، إِنِّی قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِیعِ فَانْطَلِقْ مَعِی،قَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ یَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ، لِیَهْنِ لَكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِیهِ مِمَّا أَصْبَحَ النَّاس فِیهِ، أَقْبَلَتِ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللیْلِ الْمُظْلِمِ، یَتْبَعُ آخِرُهَا أَوَّلَهَا.الْآخِرَةُ شَرٌّ مِنَ الْأُولَى،قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیَّ فَقَالَ: یَا أَبَا مُوَیْهِبَةَ، إِنِّی قَدْ أُوتِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الدُّنْیَا، وَالْخُلْدَ فِیهَا، ثُمَّ الْجَنَّةَ، وَخُیِّرْتُ بَیْنَ ذَلِكَ، وَبَیْنَ لِقَاءِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّةِ قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی، فَخُذْ مَفَاتِیحَ الدُّنْیَا، وَالْخُلْدَ فِیهَا، ثُمَّ الْجَنَّةَ، قَالَ: لَا وَاللَّهِ یَا أَبَا مُوَیْهِبَةَ، لَقَدِ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّی، وَالْجَنَّةَ. ثُمَّ أَسَتَغْفِرُ لِأَهْلِ الْبَقِیعِ، ثُمَّ أَنْصَرِفُ، فَبَدَأَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ الَّذِی قَبَضَهُ اللهُ فِیهِ

اسی طرح ایک دن آدھی رات کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے آزادکردہ غلام أَبَا مُوَیْهِبَةَ  سے کہاکہ بقیع کی طرف چلومجھے اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کاحکم دیاگیاہے،جب آپ قبرستان پہنچے توآپ نے فرمایافرمایااے قبروالو!تم پرسلام ہولوگ جس حال میں  ہیں  اس کے مقابل تمہیں  وہ حال مبارک ہوجس میں  تم ہو،فتنے ایک تاریک رات کے ٹکڑوں  کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے چلے آرہے ہیں  اوربعدوالافتنہ پہلے والے فتنہ سے زیادہ برا ہے ، اس کے بعدیہ کہہ کراہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی (بہت جلد)تم سے آملنے والے ہیں ، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  أَبَا مُوَیْهِبَةَ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااے أَبَا مُوَیْهِبَةَ !مجھے اختیاردیاگیاہے کہ میں  دنیاکے خزانوں  کی چابیاں  لے کراس میں  ہمیشہ زندہ رہوں  پھرجنت میں  چلاجاؤں یاابھی اپنے رب سے ملاقات کرکے جنت میں  جاؤ،أَبَا مُوَیْهِبَةَ فوراًبولے میرے ماں  باپ آپ پرقربان!دنیاکے خزانوں  کی چابیاں  لے کرہمیشہ دنیامیں  رہیے پھرجنت میں  چلے جایئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں  أَبَا مُوَیْهِبَةَ!اللہ کی قسم !میں  تواپنے رب کریم کی ملاقات اورجنت کو پسند کرچکاہوں ، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اورام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کے گھرتشریف لے آئے۔[24]

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی خلافت کی طرف اشارہ:

قَالَ: أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَكَلَّمَتْهُ فِی شَیْءٍ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْهِ،قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تُرِیدُ المَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ لَمْ تَجِدِینِی فَأْتِی أَبَا بَكْرٍ

ایک دن ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئی اورکسی معاملہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گفتگوکی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ مانگا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے کسی اور دن آنے کا حکم دیا،اس عورت نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کونہ پاؤں  (توکس کے پاس جاؤں )جیسے ان کااشارہ موت کی طرف ہو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرمجھے نہ پاؤتو سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پاس آنا۔[25]

قال الشافعی: فِی هَذَا الحدیث دلیل على أن الخلیفة بعد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْر

امام شافعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کی قوی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں  گے۔[26]

ایک روایت میں  ہے ایک بدوی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیعت کی اورپوچھاکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوجائے تومیں  کس کے پاس آؤں ؟ فرمایا سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے پاس آنا، اس نے کہااگروہ بھی فوت ہوجائیں  تو پھر کس کے پاس آؤں ؟ فرمایا سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔

عن ابن عباس قال  جاءت امْرَأَةٌ إلى النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تسأله شیئا فقال لها تعودین فقالت له یَا رَسُولَ اللهِ إن عدت فلم أَجِدْكَ تعرض بالمَوْتَ  فقال إن جئت فلم تجدینی فائتی أبا بكر فإنه الخلیفة من بعدی

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے  ایک دن ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ مانگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھرکسی دن آنا اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں  آپ کونہ پاؤں  ،اس کااشارہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی موت کی طرف تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگر تم آؤاورمجھے نہ پاؤ تو ابوبکر  رضی اللہ عنہ کے پاس آنامیرے بعدوہ خلیفہ ہوں  گے۔[27]

سمعت أبا رجاء العطاردی یقول سمعت الزبیر بن العوام وذكر عنده أبو بكر فقال سمعت رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقول الخلیفة فیكم بعدی أبو بكر ثم عمر

ابورجاء عطاری رحمہ اللہ  کہتے ہیں  میں  نے زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام سے سناان کے سامنے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کا ذکر کیا گیاانہوں  نے کہامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناکہ میرے بعدتم میں  سے ابوبکر  رضی اللہ عنہ اورعمر  رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں  گے۔[28]

عَنْ حُذَیْفَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی: أَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ

حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایامیرے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنا۔[29]

ان روایتوں  سے شیعوں  کادرہوتاہے جو کہتے ہیں  کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بعد سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کوخلیفہ مقررکرگئے تھے۔

عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْكَةَ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَسُئِلَتْ: مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْلِفًا لَوِ اسْتَخْلَفَهُ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، فَقِیلَ لَهَا: ثُمَّ مَنْ؟ بَعْدَ أَبِی بَكْرٍ قَالَتْ: عُمَرُ، ثُمَّ قِیلَ لَهَا مَنْ؟ بَعْدَ عُمَرَ، قَالَتْ: أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ “ ثُمَّ انْتَهَتْ إِلَى هَذَا

ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ  سےمروی ہےمیں  نے ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے سناان سے پوچھاگیاکہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی کوخلیفہ مقررفرماتے توکس کومقرر فرماتے ؟(اس سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کی خلافت پرنص نہیں  کیابلکہ سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کی خلافت صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ہوئی اورشیعہ جودعویٰ کرتے ہیں  کہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی خلافت پرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نص کیاتھاباطل اوربے اصل ہے اورخود سید نا علی  رضی اللہ عنہ  نے ان کی تکذیب کی)انہوں  نے کہاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کو مقرر فرماتے،پھرپوچھاگیاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے بعدکس کومقرر فرماتے، فرمایاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کومقررفرماتے،پھرپوچھاگیاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے بعدکس کومقررفرماتے، فرمایاابوعبیدہ بن الجراح کومقررفرماتے،پھرخاموش رہیں ۔ [30]

فرقوں  سے علیحدگی کی ہدایت:

حُذَیْفَةَ بْنَ الیَمَانِ یَقُولُ: كَانَ النَّاسُ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَیْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ یُدْرِكَنِی، فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِی جَاهِلِیَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَیْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَیْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ:نَعَمْ قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَیْرٍ؟ قَالَ:نَعَمْ، وَفِیهِ دَخَنٌ قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ:قَوْمٌ یَهْدُونَ بِغَیْرِ هَدْیِی، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَیْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ:نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَیْهَا قَذَفُوهُ فِیهَا قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَیَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَكَنِی ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِینَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ یَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى یُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لوگ عموماًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے خیرکے متعلق سوالات کرتے رہتے تھے لیکن میں اس خوف سے کہ کہیں  کسی برائی میں  نہ مبتلا ہو جاؤں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے برائی کے متعلق سوال کرتا تھا،ایک دن میں  نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم جاہلیت میں  تھے برائیوں  میں  گھرے ہوئے تھےاللہ نے اس خیر (اسلام)سے ہمیں  نوازاتوکیااس خیرکے بعدبھی کوئی شر ہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،میں  نے عرض کیاکیااس شرکے بعدپھرخیرآئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں لیکن اس میں  کدورت ہوگی ،میں  نے عرض کیاکدورت کیاہوگی؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسے لوگ ہوں  گے جومیرے طریقہ کوچھوڑکر لوگوں  کوہدایت کریں  گے،تم ان کی بعض باتوں  کواچھاسمجھوگے اوربعض باتوں  کوبراسمجھوگے،میں نے عرض کیاکیااس خیرکے بعدبھی شرہوگی؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  دوزخ کے دروازوں  پر بلانے والے ہوں  گے جوان کی پکارپرلبیک کہے گاوہ اس کوجہنم میں  ڈال دیں  گے،میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ان کی کچھ صفات بیان فرمائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں وہ ہماری ہی قوم اورمذہب کے لوگ ہوں  گے اورہماری ہی زبان میں  باتیں  کریں  گے(یعنی بظاہراسلام کادعویٰ کریں  گے اور اسلام کی باتیں  کریں  گے)میں نے دریافت کیااگرمیں  وہ زمانہ پاؤں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  مجھے بتائیں  کہ میں  اس وقت کیاکروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامسلمانوں  کی جماعت اوران کے امام سے وابستہ رہنا،میں  نے عرض کیااگرمسلمانوں  کی جماعت نہ ہواورنہ ان کاکوئی امام ہو(توپھرکیاکروں )رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسی حالت میں  بھی تم تمام فرقوں  سے علیحدہ رہنا خواہ تمہیں  درخت کی جڑیں  ہی کیوں  نہ چبانی پڑیں  حتی کہ اسی حالت میں  تمہیں  موت آجائے(یعنی کسی حالت میں  فرقوں  کی گمراہی میں  نہ پڑنا)۔[31]

وحی کی کثرت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے انتقال کازمانہ قریب آتاجاتاتھا،حجة الوداع کے موقع پراگرچہ دین کی تکمیل ہوگئی تھی لیکن وحی کاسلسلہ بندنہ ہواتھاوحی برابرجاری تھا

     أَنَّ اللهَ تَعَالَى تَابَعَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الوَحْیَ قَبْلَ وَفَاتِهِ، حَتَّى تَوَفَّاهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ الوَحْیُ

اللہ تعالیٰ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پرپے درپے وحی نازل کرتارہااورجیسے جیسے وفات کاوقت قریب آتاجارہاتھاوحی کی کثرت ہوتی جارہی تھی۔[32]

جنت میں  جانے والے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ یَأْبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَى

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیری تمام امت جنت میں  جائے گی سوائے ان کے جنہوں  نے انکارکیا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !(جنت میں  جانے سے)کون انکارکرے گا؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے میری اطاعت کی جنت میں  داخل ہوگااورجس نے میری نافرمانی کی اس نے انکارکیا۔[33]

شہدائے احدکے لئے دعا:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَیِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنِّی فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِیدٌ عَلَیْكُمْ، وَإِنِّی وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِی الآنَ، وَإِنِّی أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ – أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ – وَإِنِّی وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِی، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِیهَا

عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاوائل صفر گیارہ ہجری میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  باہرتشریف لے گئےپھرجنگ احدکے تقریباًآٹھ سال بعدشہدائے احدپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح نماز پڑھی جیسی کہ میت پرپڑھی جاتی ہےایسامعلوم ہورہاتھاگویاآپ مردوں  اورزندوں  کورخصت کررہے ہیں ،نمازکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لوٹ کرمنبرپر تشریف فرما ہوئے اور فرمایامیں  تمہاراپیش روہوں  اورتم پرگواہ ہوں ،اللہ کی قسم میں  یقیناًاس وقت اپنے حوض کوثرکودیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں  کی کنجیاں  دے دی گئی ہیں (میری امت ان پرقابض ہوگی) اور اللہ کی قسم !یقیناًمجھے اس بات کااندیشہ نہیں  کہ میرے بعدتم شرک کروگے(یعنی تم سے شرک کی توقع نہیں )البتہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں  تم دنیاکے حصول میں  ایک دوسرے سے مسابقت نہ کرو(نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤگے)۔[34]

قَوْلُهُ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا  أَیْ عَلَى مَجْمُوعِكُمْ لِأَنَّ ذَلِكَ قَدْ وَقَعَ مِنَ الْبَعْضِ أَعَاذَنَا اللهُ تَعَالَى

حافظ ابن حجرعسقلانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے اس کاڈرنہیں  کہ میرے بعدتم شرک کروگےکے قول سے مرادمسلمانوں  کامجموعہ ، اس لیے کہ بعض لوگوں  سے شرک واقع ہوچکاہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی پناہ میں  رکھے گویاحدیث کامطلب یہ ہواکہ سارے مسلمانوں  کامجموعہ شرک میں  مبتلانہیں  ہوگامگرمسلمانوں  کے بعض افرادشرک میں  مبتلاہوں  گے۔[35]

یہی معنی علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ  نے بھی بتلایاہے اوربریلوی عالم غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ  نے بھی ایساہی معنی بیان کیاہے چنانچہ لکھتے ہیں ،

مَا أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مجھے یہ خوف نہیں  ہے کہ تم میرے بعدمشرک ہوجاؤگے ،اس کامعنی یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں  ہے کہ تم مجموعی طورپرمشرک ہوجاؤگے اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے ایعیاذباللہ ۔[36]

ازواج مطہرات کاایک سوال:

أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّنَا أَسْرَعُ بِكَ لُحُوقًا؟قَالَ:أَطْوَلُكُنَّ یَدًا،فَأَخَذُوا قَصَبَةً یَذْرَعُونَهَا، فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلَهُنَّ یَدًا،فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا كَانَتْ طُولَ یَدِهَا الصَّدَقَةُ، وَكَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهِ وَكَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ

ایک دن ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں  سے کون سب سے پہلے آپ سے ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس کاہاتھ سب سے زیادہ درازہے،ازواج مطہرات (ایک دن جمع ہوئیں  پھرانہوں  )نے لکڑی سے اپنے ہاتھ ناپے،ام المومنین سودہ  رضی اللہ عنہا کاہاتھ سب سے زیادہ لمبا تھا لیکن( رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب سے پہلے ان کاانتقال نہیں  ہوابلکہ)ان زوجہ مطہرہ  رضی اللہ عنہا  کاانتقال سب سے پہلے ہواجوخیرات کوبہت پسندکرتی تھیں (یعنی ام المومنین زینب  رضی اللہ عنہ ) اس وقت ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن  نے سمجھاکہ درازی سے مرادصدقہ وخیرات کرناتھی۔[37]

ایک پیشین گوئی:

قَالَ: صَلَّى بِنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ فِی آخِرِ حَیَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ:أَرَأَیْتَكُمْ لَیْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا، لاَ یَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ

وفات سے چنددن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عشاء کی نمازپڑھائی ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوکرفرمایاتمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات کے بعد جونفوس بھی روئے زمین پرزندہ ہیں  سو سال کے اندران میں  سے کوئی باقی نہیں  رہے گا(یعنی سو سال کے بعدکوئی شخص یہ نہیں  کہہ سکے گاکہ میں  صحابی ہوں ،جویہ کہہ گاوہ جھوٹاہوگا)۔[38]

مرض الموت کی ابتدا:

أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى بَقِیعِ الْغَرْقَدِ، مِنْ جَوْفِ اللیْلِ، فَاسْتَغْفَرْ لَهُمْ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ابْتُدِئَ بِوَجَعِهِ مِنْ یَوْمِهِ ذَلِكَ

انتیس( ۲۹)صفرگیارہ ہجری بروزدوشنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک جنازے کے ساتھ بقیع الغرقد تشریف لے گئے ،واپسی پرراستے میں  سرکادردشروع ہوگیا(اوراس کے ساتھ تیزبخاربھی ہو گیا)۔[39]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: جِئْنَا النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَإِذَا عَلَیْهِ صَالِبٌ مِنَ الْحُمَّى مَا تَكَادُ تَقَرُّ یَدُ أَحَدِنَا عَلَیْهِ مِنْ شِدَّةِ الْحُمَّى. فَجَعَلْنَا نُسَبِّحُ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  ہم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواتنی تیزحرارت تھی کہ ہم لوگوں  میں  سے کسی کاہاتھ شدت حرارت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرٹھہرنہیں  سکتاتھاہم لوگ تسبیح پڑھنے لگے۔[40]

اسی حالت میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  گیارہ دن نمازپڑھاتے رہے،

قَالَتْ: أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ مَیْمُونَةَ

جس دن بیماری کی ابتداہوئی اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ام المومنین میمونہ  رضی اللہ عنہا  کے ہاں  مقیم تھے۔[41]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی بیماری:

قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَیٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِیَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِی، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ یَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ  أَوْ أَرَدْتُ  أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ یَقُولَ القَائِلُونَ  أَوْ یَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ  ثُمَّ قُلْتُ: یَأْبَى اللَّهُ وَیَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ یَدْفَعُ اللَّهُ وَیَأْبَى المُؤْمِنُونَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری کے ایام میں  ایک دن عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے سرمیں  دردہواوہ کہنے لگیں  ہائے دردسر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اسی حالت میں  میری زندگی میں  تمہاراانتقال ہوجائے تو اچھاہے کہ میں  تمہارے لئے دعاواستغفارکروں ،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے (بطریق ناز)عرض کیااللہ کی قسم !مجھے افسوس ہے کہ آپ میرامرناچاہتے ہیں  تاکہ آج ہی شام کوکسی دوسری بیوی کے ساتھ رات بسرکریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں  یہ بات نہیں  ہے میں  تو خود درد سر میں  مبتلاہوں  (اوراب زندگی کی کوئی امیدنہیں  ہے)یہاں  تک کہ(ایک دن تو)میں  نے یہ ارادہ کرلیاتھاکہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اوران کے بیٹے کوبلاکروصیت کردوں  (یعنی سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کواپناوصی بنادوں )تاکہ بعد میں  کوئی کچھ نہ کہہ سکے اورنہ(وصی وجانشین بننے کی) آرزو کرسکے ، پھر میں  نے سوچاکہ(وصیت کی ضرورت ہی کیاہے)نہ اللہ کسی اورکو (جانشین)منظورکرے گااوراہل ایمان بھی سوائے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے اورکسی کے خلافت کوقبول نہیں  کریں  گے (بہر صورت خلافت ان ہی کوملے گی لہذامیں  نے وصیت کا ارادہ ترک کردیا)۔[42]

مَعَاذَ اللهِ أَنْ یَخْتَلِفَ الْمُؤْمِنُونَ فِی أَبِی بَكْرٍ

ایک اورروایت میں  یہ الفاظ آئےاللہ کی پناہ کہ لوگ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی خلافت میں  اختلاف کریں ۔[43]

قبروں  پرمسجدبنانے کی ممانعت:

أُمِّ المُؤْمِنِینَ، أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِیهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِلْكَ الصُّوَرَ فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ القِیَامَةِ

(بیماری کے ایام میں )ایک دن ام المومنین ام سلمہ   رضی اللہ عنہا  اورام حبیبہ رضی اللہ عنہا  نے ایک گرجاکاذکرکیاجس کوماریہ کہتے تھے اورجس کوانہوں  نے حبشہ میں  دیکھا تھاانہوں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیاکہ اس میں  تصاویرتھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاان لوگوں  میں  جب کوئی نیک آدمی مرجاتاتواس کی قبرپرمسجدبنالیتے تھے اوراس میں  تصویریں  بناتے تھے،قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں  گے۔[44]

قَالَ عُلَمَاؤُنَا: فَفَعَلَ ذَلِكَ أَوَائِلُهُمْ لِیَتَأَنَّسُوا بِرُؤْیَةِ تِلْكَ الصُّوَرِ وَیَتَذَكَّرُوا أَحْوَالَهُمُ الصَّالِحَةَ فَیَجْتَهِدُونَ كَاجْتِهَادِهِمْ  وَیَعْبُدُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ قُبُورِهِمْ، فَمَضَتْ لَهُمْ بِذَلِكَ أَزْمَانٌ، ثُمَّ إِنَّهُمْ خَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ جَهِلُوا أَغْرَاضَهُمْ، وَوَسْوَسَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ أَنَّ آبَاءَكُمْ وَأَجْدَادَكُمْ كَانُوا یَعْبُدُونَ هَذِهِ الصُّورَةَ فَعَبَدُوهَا  فَحَذَّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مِثْلِ ذَلِكَ

امام قرطبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں بنواسرائیل نے شروع میں  اپنے بزرگوں  کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں  اوران کے نیک کاموں  کویادکرکے خودبھی ایسے ہی نیک کام کریں  اوران کی قبروں  کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں ،پیچھے اوربھی زیادہ جاہل لوگ پیداہوئے جنہوں  نے اس مقصدکوفراموش کردیااوران کوشیطان نے وسوسوں  میں  ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں  کو پوجتے تھے اورانہی کی تعظیم کرتے تھے،پس نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی شرک کاسدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں ۔[45]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے ہاں  مستقل قیام:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیماری میں  روزبروزکمزورہوتے جارہے تھے مگراپنی ازواج مطہرات کے ہاں  ان کی مقررہ باری پران کے ہاں  جاتے تھے ،

قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیَتَعَذَّرُ فِی مَرَضِهِ:أَیْنَ أَنَا الیَوْمَ، أَیْنَ أَنَا غَدًااسْتِبْطَاءً لِیَوْمِ عَائِشَةَ

البتہ اپنے مرض الوفات میں  گویااجازت لیناچاہتے تھے (ان سے دریافت فرماتے)آج میری باری کن کے یہاں  ہے ،میں کل کہاں  رہوں  گاگویاآپ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی باری کاانتظارکرتے تھے۔[46]

قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِی أَنْ یُمَرَّضَ فِی بَیْتِی،فَأَذِنَّ لَهُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری نے شدت اختیارکرلی تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں  سے اجازت چاہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تیمارداری عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے ہاں  کی جائے ، تمام ازواج مطہرات نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشی سے اجازت دے دی۔[47]

قَالَتْ: فَخَرَجَ وَیَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَیَدٌ لَهُ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ، وَهُوَ یَخُطُّ بِرِجْلَیْهِ فِی الْأَرْضِعَاصِبًا رَأْسَهُ

پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کے بازوں  کے سہارے ام المومنین میمونہ  رضی اللہ عنہا  کے گھرسے نکل کرام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے حجرے میں  داخل ہوئےاس وقت آپ کے سرپرپٹی بندھی تھی اورضعف کی وجہ سے پاؤں  مبارک زمین پرگھسیٹ رہے تھے۔[48]

كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ، لَمْ یُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً

بیماری کے زمانہ میں  تمام ازواج مطہرات (ہمہ وقت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہتی تھیں ،کوئی بیوی آپ کوچھوڑکرکہیں  نہ جاتی تھیں ۔[49]

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ:فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ، طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِی كَانَ یَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِیَدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کووہ مرض لاحق ہواجس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تومیں  معوذات اوردوسری حفظ کی ہوئی دعائیں  پڑھ کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم پردم کرتی رہتی تھیں  اوربرکت کی امید میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کاہاتھ مبارک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں ۔[50]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے نوروز پہلے یہ آخری آیت نازل ہوئی ۔

وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللهِ۝۰ۣۤ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۲۸۱ۧ [51]

ترجمہ:لوگو! اس دن کی رسوائی ومصیبت سے بچوجس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤگے،اس دن ہرشخص کواس کی کمائی ہوئی نیکی یابدی کاپوراپورابدلہ مل جائے گااورکسی پرذرہ برابرظلم نہیں  کیاجائےگا۔[52]

لوگو! اللہ کاتقویٰ اختیارکرواورسنت رسول کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکرکےقیامت کے دن کی ذلت و رسوائی سے بچ جاؤ،اس سخت دن کو تم اعمال کی جزاکے لئے اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، اور اللہ تعالیٰ اس دن ہرشخص کواس کی ہرچھوٹی بڑی،ظاہراورپوشیدہ کمائی ہوئی نیکی یابدی کاپوراپورابدلہ دے گااورکسی پرذرہ برابرظلم نہیں  کیا جائے گا ، اگر ترازومیں  نیکیوں  کاپلڑابھاری ہوگیا توانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کے حقداربنوگے ورنہ جہنم کادرناک عذاب جھیلوگے۔

لشکراسامہ  رضی اللہ عنہ :

سریہ موتہ اورغزوہ تبوک نے شام سے متصل سرحدی علاقوں  میں  رہنے والے عرب قبائل اوراس کے ساتھ پوری سلطنت رومامیں  ہلچل پیداکردی اورسلطنت روما کی طرف سے مدینے پرحملے کاخطرہ جوغزوہ تبوک کے آغازمیں  محسوس ہوتاتھاپہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگا،اس خطرے کے پیش نظر چھبیس صفرالمظفر بروز دو شنبہ گیارہ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رومیوں  کے مقابلہ کے لئے ایک اورلشکرتیارکیاجس میں  مہاجرین اولین اوربڑے بڑے جلیل القدرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  شامل تھے ،

مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ، وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ وَسَلَمَةُ بْنُ أَسْلَمَ بْنِ حُرَیْسٍ  ،فَتَكَلَّمَ قَوْمٌ وَقَالُوا: یَسْتَعْمِلُ هَذَا الْغُلامَ، عَلَى الْمُهَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ

جن میں  سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب ،اورابوعبیدہ بن الجراح اورسعدبن ابووقاص  رضی اللہ عنہ اورسعیدبن زید  رضی اللہ عنہ اورقتادہ بن نعمان   رضی اللہ عنہ اورسلمہ بن اسلم جیسے لوگ شامل تھےاور اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  کو اس لشکرپرامیرمقررکرکے ابنی(غزوہ موتہ کامقام)ٰ کی طرف لشکرکشی کاحکم فرمایا،بعض صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے اسامہ  رضی اللہ عنہ  کی امارت پراعتراض کیاکہ مہاجرین اولین پرایک غلام کوامیرمقررکردیاگیاہے۔[53]

اس وقت اسامہ  رضی اللہ عنہ  کی عمر بیس برس کی تھی ،آپ صغیرسنی کی وجہ سے غزوہ احدمیں  شریک نہیں  کئے گئے تھے ،صلح حدیبیہ اورفتح مکہ کے درمیانی عرصے میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ ادا فرمایا اس وقت اسامہ  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سواری کے اونٹ پرپشت مبارک سے لگے بیٹھے تھے لیکن اس کم عمری کے باوجوداسامہ  رضی اللہ عنہ  کی بہادری اورمہارت جنگ کے متعلق کسی کو شبہ نہ تھا ، اعتراض صرف یہ تھاکہ وہ نو عمر غلام ہیں  اس لئے پرانے عربی ذہن کے مطابق انصارومہاجرین اکابرکے شایان شان نہیں  کہ وہ ان کے ماتحت ہوکر جنگ کریں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اسی پرانے عربی ذہن کو بدلنا چاہتے تھے اوراہلیت کارکی برتری کے مقابلے میں  پیدائش کی برتری کے تصورکی بیخ وبن سے اکھاڑپھینکناچاہتے تھے ، جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواسامہ  رضی اللہ عنہ  کی قیادت وسیادت کے بارے میں  مسلمانوں  کے اعتراضات کاعلم ہواتو

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنْ تَطْعُنُوا فِی إِمَارَتِهِ، فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعُنُونَ فِی إِمَارَةِ أَبِیهِ مِنْ قَبْلُ   وَایْمُ اللهِ إِنْ كَانَ لَخَلِیقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ  وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ بَعْدَهُ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرآج تم اس کے امیربنائے جانے پرعتراض کررہے ہوتواس سے پہلے تم ان کے والدکی امارت پربھی اعتراض کرچکے ہو، اور اللہ کی قسم وہ(زید  رضی اللہ عنہ ) امارت کے مستحق تھے، اورتمام لوگوں  میں  مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے، اوران کے بعدیہ(اسامہ  رضی اللہ عنہ ) مجھے تمام لوگوں  سے زیادہ محبوب ہیں ۔[54]

بہرحال آپ کے حکم سے مجاہدین اسامہ  رضی اللہ عنہ  کے لشکرمیں  داخل ہوگئے،چارشنبہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی علالت کاسلسلہ شروع ہوا

عَقَدَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلّى الله عَلَیْهِ وَسَلّمَ بِیَدِهِ لِوَاءًثُمّ قَالَ: یَا أُسَامَةُاُغْزُ بِاسْمِ اللهِ وَفِی سَبِیلِ اللهِ فَقَاتِلْ مَنْ كَفَرَ بِاَللهِ،خَرَجَ بِلِوَائِهِ مَعْقُودًا، فَدَفَعَهُ إِلَى بُرَیْدَةَ بْنِ الْحَصِیبِ الأَسْلَمِیّ، وَعَسْكَرَ بِالْجُرْفِ

پنجشنبہ کے روزباوجودعلالت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خوداپنے دست مبارک سے نشان بناکراسامہ  رضی اللہ عنہ  کودیااورفرمایااللہ کے نام پراللہ کی راہ میں  جہادکرو اوراللہ سے کفرکرنے والوں  سے مقابلہ اورمقاتلہ کرو،اسامہ  رضی اللہ عنہ  نشان لے کرباہرتشریف لائے اوراسے بریدہ اسلمی  رضی اللہ عنہ  کے سپردکیا اوریہ لشکرمدینہ منورہ سے کوچ کر کے تین میل دور مقام جرف میں  خیمہ زن ہوگیا۔[55]

کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری کے متعلق تشویشناک خبریں  آرہی تھیں  اس لئے لشکراس مقام سے آگے نہ بڑھا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظارمیں  وہیں  ٹھہرنے پرمجبور ہوگیا ، عباس  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کی غرض سے مدینہ واپس آگئے اور سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  امیر لشکر اسامہ  رضی اللہ عنہ  سے اجازت لے کرآپ کودیکھنے آتے تھےاوراللہ نے یہ فیصلہ فرمایاتھاکہ یہ لشکر ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت کی پہلی فوجی مہم قرارپائے۔

فاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا سے سرگوشی:

دن چڑھے چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا کوبلوایا

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:فَقَالَ:مَرْحَبًا بِابْنَتِی فَأَجْلَسَهَا عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَیْهَا حَدِیثًا فَبَكَتْ فَاطِمَةُ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَیْضًا، فَقُلْتُ لَهَا: مَا یُبْكِیكِ؟ فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِیَ سِرَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا فَقَالَتْ  إِنَّهُ كَانَ حَدَّثَنِی أَنَّ جِبْرِیلَ كَانَ یُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ فِی الْعَامِ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَانِی إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِی  وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِی لُحُوقًا بِی  وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ

جب وہ آئیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے بیٹی مرحبا!اورانہیں  داہنی یابائیں  طرف بٹھایا،پھران کے کان میں  ایک بات فرمائی جسے سن کرفاطمہ  رضی اللہ عنہا  رونے لگیں ، پھر کچھ فرمایا تووہ ہنسنےلگیں ،میں  نے کہاتم کیوں  روتی ہو؟انہوں  نے کہامیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کارازفاش نہیں  کروں  گی،  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوگئی تومیں  نے پوچھاتوانہوں  نے فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتھاکہ جبرئیل علیہ السلام  ہرسال میں  مجھ سے ایک بار قرآن کاوردکرتے تھے مگر اس سال انہوں  نے دوبار ورد کیاہے اورمیں  سمجھتا کرتاہوں  کہ میری موت قریب آپہنچی ہے(تومیں  رونے لگی)اورمیرے اہل بیت میں توسب سے پہلے مجھ سے ملے گی  اور میں  تیرااچھاپیش خیمہ ہوں (تومیں  ہنسنے لگی)۔[56]

فَقَالَ:أَمَا تَرْضَیْنَ أَنْ تَكُونِی سَیِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ، أَوْ نِسَاءِ المُؤْمِنِینَ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ

ایک روایت میں  ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسری باریہ فرمایا اورکیاتم اس بات سے خوش نہیں  ہوکہ تم جنتی عورتوں  کی یا مومنین کی عورتوں  کی سردار ہویہ سن کرفاطمہ  رضی اللہ عنہا  ہنسنے لگیں ۔[57]

پھراس دن آپ پردوسرے ایام کے مقابلہ میں  بہت زیادہ وحی نازل ہوئی۔[58]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  اوراسی دن کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی

وَمَنْ یُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِیقًا [59]

ترجمہ:جولوگ اللہ اوررسول کی اطاعت کریں  گے وہ ان لوگوں  کے ساتھ ہوں  گے جن پراللہ نے انعام فرمایاہے یعنی انبیاء اور صدیقین اورشہداء اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں  یہ رفیق جوکسی کومیسرآئیں ۔

فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُیِّرَ كُنْتُ أَسْمَعُ: أَنَّهُ لاَ یَمُوتُ نَبِیٌّ حَتَّى یُخَیَّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ ،یَقُولُ:فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَى

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  میں  سمجھ گئی کہ آپ کواختیاردے دیا گیا (اورآپ نے اللہ والوں  کی رفاقت کوپسند کر لیا )کیونکہ میں سنتی آئی تھی کہ نبی کوموت نہیں  آتی جب تک اسے جنت میں  اس کامقام نہ دکھادیاجائے اوراسے دنیااورآخرت میں  اختیارنہ دیاجائے (خواہ وہ زندہ رہناپسندکرے یامرناپسندکرے)پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  باربار یہ پڑھنے لگےاعلیٰ رفیق کی قربت میں  مجھے جگہ دے۔[60]

[1] ابن سعد۲۶۱؍۱،سبل الھدی وارشادفی سیرة خیرالعباد۲۶۱؍۶

[2] شرح الزرقانی علی المواھب

[3] السیرة النبویة لابن کثیر۷۱۱؍۳

[4] السیرة النبویة لابن کثیر۷۱۱؍۳ 

[5] ابن سعد۲۶۱؍۱

[6] شرح زرقانی علی المواھب۵۷؍۱۲

[7] شرف مصطفی ۴۹۰؍۳، زادالمعاد ۴۲۵؍۲،دلائل النبوة للبیہقی ۳۴۷؍۵، اسدالغابة۳۳؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۷۱۱؍۳

[8] مسنداحمد۱۹۱۸۵

[9] فتح الباری ۷۳؍۸

[10] مسنداحمد

[11] اسدالغابة۲۲۰؍۲

[12] زادالمعاد۶۰۰؍۳،عیون الآثر۳۲۳؍۲،ابن سعد۶۲؍۶، شرح الزرقانی علی المواھب ۲۳۶؍۵

[13] بذل القوة

[14] صحیح بخاری کتاب الصومبَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ  ۲۰۰۲،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ ۲۶۳۷

[15] صحیح بخاری کتاب الصومبَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ  ۲۰۰۵

[16] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ ۲۶۶۰،۲۶۶۱،مسنداحمد۱۹۶۶۹

[17] صحیح مسلم کتاب الصوم   بَابُ أَیُّ یَوْمٍ یُصَامُ فِی عَاشُورَاءَ ۲۶۶۶،سنن ابوداود کتاب الصیام بَابُ مَا رُوِیَ أَنَّ عَاشُورَاءَ الْیَوْمُ التَّاسِعُ ۲۴۴۵،السنن الصغیرللبیہقی۱۴۱۴

[18] مسنداحمد۲۱۵۰

[19] السنن الکبری للبیہقی۸۴۰۴

[20] صحیح مسلم کتاب الجنائز باب مایقال عنددخول القبور۲۲۵۶

[21] السنن الکبری للبیہقی عن ابی ہریرہ ۷۲۰۴

[22] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ ۲۲۶۰، مسنداحمد۱۲۳۶،السنن الصغیرللبیہقی۱۱۵۷

[23] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا۲۲۵۵،ابن سعد ۱۵۷؍۲

[24] ابن ہشام ۶۴۲؍۲، الروض الانف ۵۵۷؍۷،البدایة والنہایة ۲۴۳؍۵،تاریخ طبری ۱۸۸؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۴۴۳؍۴

[25] صحیح بخاری  کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا ۳۶۵۹ ، وکتاب الاحکام بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ ۷۲۲۰ ،وکتاب الاعتصام بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِی تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَیْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِیرُهَا ۷۳۶۰،صحیح مسلم  کتاب فضائل الصحابة بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ عن جبیرہ بن مطعم۶۱۷۹،صحیح ابن حبان ۶۶۵۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۵۸۹،مسنداحمد۱۶۷۵۵،شرح السنة للبغوی ۳۸۶۸

[26] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۹۶۹؍۳

[27] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۲۰؍۳۰

[28] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۲۱؍۳۰

[29] مسنداحمد۲۳۲۴۵،السنن الکبری للبیہقی۱۰۵۶

[30] صحیح مسلم  کتاب فضائل الصحابة بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ عن جبیرہ بن مطعم  ۶۱۷۹

[31]صحیح بخاری کتاب مناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۶۰۶، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذیر الدعاة إلى الكفر ۴۷۸۴ ،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْعُزْلَةِ ۳۹۷۹      

[32]صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابٌ كَیْفَ نَزَلَ الوَحْیُ، وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ عن انس ۴۹۸۲،صحیح مسلم کتاب التفسیر باب فی تفسیرآیات متفرقة۷۵۲۴

[33] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن ابی ہریرہ ۷۲۸۰

[34] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۳۴۴،وکتاب  المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۵۹۶، وکتاب الرقاق بَابُ مَا یُحْذَرُ مِنْ زَهَرَةِ الدُّنْیَا وَالتَّنَافُسِ فِیهَا ۶۴۲۶، وکتاب المغازی باب غزوہ احد۴۰۴۲، صحیح مسلم کتاب فضائل باب اثبات حوض نبیناﷺعن عقبہ بن عامر ۵۹۷۶،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمَیِّتِ یُصَلَّى عَلَى قَبْرِهِ بَعْدَ حِینٍ ۳۲۲۴

[35] فتح الباری ۲۱۱؍۳

[36] نعمة الباری ۵۱۴؍۳

[37] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب بعد،بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الشَّحِیحِ الصَّحِیحِ عن عائشہ صدیقہ ۱۴۲۰

[38] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ السَّمَرِ فِی العِلْمِ۱۱۶

[39] ابن ہشام ۶۴۲؍۲،الروض الانف ۵۵۷؍۷،عیون الآثر۴۰۵؍۲،البدایة والنہایة۲۴۳؍۵

[40] ابن سعد۱۶۰؍۲

[41] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة  بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ عن عائشہ صدیقہ ۹۳۷

[42] صحیح بخاری کتاب المرضی بَابُ قَوْلِ المَرِیضِ إِنِّی وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِی الوَجَعُ عن عائشہ  صدیقہ ۵۶۶۶،وکتاب الاحکام بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ ۷۲۱۷، دلائل النبوة للبیہقی۱۶۸؍۷

[43] ابن سعد۱۳۴؍۳

[44] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ عن عائشہ صدیقہ ۴۲۷، وبَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ ۴۳۴،وکتاب الجنائز بَابُ بِنَاءِ المَسْجِدِ عَلَى القَبْرِ ۱۳۴۱،وکتاب  فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ۳۸۷۳، صحیح مسلم  كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۱

[45] تفسیرالقرطبی۵۸؍۲

[46] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَاعن عائشہ صدیقہ ۱۳۸۹

[47] صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ الغُسْلِ وَالوُضُوءِ فِی المِخْضَبِ وَالقَدَحِ وَالخَشَبِ وَالحِجَارَةِ عن عائشہ صدیقہ   ۱۹۸،وکتاب الاذان بَابٌ حَدُّ المَرِیضِ أَنْ یَشْهَدَ الجَمَاعَةَ ۶۶۵،وکتاب الھبة وفضلھابَابُ هِبَةِ الرَّجُلِ لِامْرَأَتِهِ وَالمَرْأَةِ لِزَوْجِهَا ۲۵۸۸،وکتاب فرض الخمس بَابُ مَا جَاءَ فِی بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ البُیُوتِ إِلَیْهِنَّ ۳۰۹۹،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ۹۳۷

[48] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۴۲،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ    ۹۳۸،ابن ہشام۶۴۹؍۲

[49] صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِیِّ عَلَیْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ۶۳۱۳، ۶۳۱۴ ،دلائل النبوة للبیہقی ۱۶۴؍۷،البدایة والنہایة۲۴۶؍۵

[50] صحیح بخاری کتاب المغازیبَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۳۹

[51] البقرة۲۸۱

[52] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرہ بَابُ وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیهِ إِلَى اللهِ ۴۵۴۴

[53] عیون الآثر۳۵۰؍۲

[54] صحیح بخاری کتاب   فضائل اصحاب النبیﷺبَابُ مَنَاقِبِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۷۳۰ ، صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ فَضَائِلِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا عن ابن عمر ۶۲۲۴

[55] صحیح بخاری   کتاب باب بعث النبیﷺ اسامةبن زید،ابن ہشام ۶۰۶،۶۵۰؍۲

[56]  صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِیِّ عَلَیْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ۶۳۱۴

[57] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۲۴،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِیِّ عَلَیْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ۶۳۱۳ ،دلائل النبوة للبیہقی۳۶۴؍۶

[58] صحیح مسلم کتاب التفسیرباب فی تفسیرآیات متفرقة عنانس ۷۵۲۴

[59] النسائ۶۹

[60] صحیح بخاری کتاب المغازیبَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۳۵،۴۴۳۶، وبَابُ آخِرِ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۴۶۳،وکتاب التفسیرسورہ النساء بَابُ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ ۴۵۸۶ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابٌ فِی فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا عن عائشہ صدیقہ ۶۲۹۵

Related Articles