بعثت نبوی کا ساتواں سال

پہلاوفدحبشہ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں   ہجرت حبشہ(پانچ اورچھ بعثت نبوی)کے بعدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت اوردعوت کی خبریں   حبش کے ملک میں   پھیلیں   تو

ثُمَّ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِمَكَّةَ، عِشْرُونَ رَجُلًا أَوْ قَرِیبٌ مِنْ ذَلِكَ مِنْ النَّصَارَى، حِینَ بَلَغَهُمْ خَبَرُهُ مِنْ الْحَبَشَةِ فَوَجَدُوهُ فِی الْمَسْجِدِ،فَجَلَسُوا إلَیْهِ وَكَلَّمُوهُ وَسَأَلُوهُ ، وَرِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ فِی أَنْدِیَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ مَسْأَلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا أَرَادُوا، دَعَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَتَلَا عَلَیْهِمْ الْقُرْآنَ،  فَلَمَّا سَمِعُو الْقُرْآنَ فَاضَتْ أَعَیْنُهُمْ مِنْ الدَّمْعِ، ثُمَّ اسْتَجَابُوا للَّه  ، وَآمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ

ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ ہی میں   تشریف رکھتے تھے اوربیس( ۲۰)یابیس کے قریب عیسائیوں   کاوفدملک حبش سے آیایہ وفدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خبرسن کرمحض آپ کودیکھنے کے لیے آیاتھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت مسجدحرام میں   تشریف رکھتے تھے،انہوں   نے وہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کی قریش کے لوگ بھی تجسس سے کھڑے ان کوبغوردیکھ رہے تھے،وفدکے لوگوں  نے آپ سے کچھ سوالات کیےجن کاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں   تسلی بخش جواب دے دیااورپھرانہیں   دعوت اسلام پیش کی اورقرآن کریم سے چندآیات ان کے سامنے پڑھیں  ، چونکہ یہ لوگ لکھے پڑھے ،سنجیدہ اورروشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں   پر اثرکیاتوان کی آنکھوں   سے آنسوجاری ہو گئے ، چنانچہ انہوں   نے قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اورفوراًدائرہ اسلام میں   داخل ہوگئے،

وَعَرَفُوا مِنْهُ مَا كَانَ یُوصَفُ لَهُمْ فِی كِتَابِهِمْ مِنْ أَمْرِهِ،  فَلَمَّا قَامُوا عَنْهُ اعْتَرَضَهُمْ أَبُو جَهْلِ ابْن هِشَامٍ فِی نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ، فَقَالُوا لَهُمْ: خَیَّبَكُمْ اللَّهُ مِنْ رَكْبٍ! بَعَثَكُمْ مَنْ وَرَاءَكُمْ مِنْ أَهْلِ دِینِكُمْ تَرْتَادُونَ لَهُمْ لِتَأْتُوهُمْ بِخَبَرِ الرَّجُلِ، فَلَمْ تَطْمَئِنَّ مَجَالِسُكُمْ عِنْدَهُ، حَتَّى فَارَقْتُمْ دِینَكُمْ وَصَدَّقْتُمُوهُ بِمَا قَالَ   مَا نَعْلَمُ رَكْبًا أَحْمَقَ مِنْكُمْ. أَوْ كَمَا قَالُوا فَقَالُوا لَهُمْ: سَلَامٌ عَلَیْكُمْ، لَا نُجَاهِلُكُمْ، لَنَا مَا نَحْنُ عَلَیْهِ، وَلَكُمْ مَا أَنْتُمْ عَلَیْهِ، لَمْ نَأْلُ أَنْفُسَنَا خَیْرًا

اورانہوں   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوان اوصاف کی بناپرپہچان لیاجوان کی کتابوں   میں   مذکورتھے،جب یہ لوگ ایمان کی انمول دولت حاصل کرکے مسجدحرام سے نکل کرجارہے تھے کہ ابوجہل بن ہشام اوراس کے چند ساتھیوں   نے انہیں   راستہ میں   روکااورکہنے لگے اللہ تمہیں   نامرادکرے تم بڑے بے وقوف اور احمق ہواورکہا تمہارے ہم مذہب لوگوں   نے تمہیں   یہاں   تحقیق حال کے لئے بھیجاتھاتمہاراکام تویہ تھاکہ جوکچھ تم نےدیکھا ،سنااور سمجھا اسے ان لوگوں   تک من وعن پہنچادومگرتم نے تھوڑی دیر میں   ہی اپناآبائی مذہب چھوڑ دیاتم سے زیادہ بے وقوف لوگ ہم نے کبھی نہیں   دیکھے اورجوکچھ کہا، وفدکے لوگوں   نے بڑے تحمل سے جواب دیا بھائیوں   تم پرسلام ہے،ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں   کرسکتےہمیں   اپنے طریقے پرچلنے دواورتم اپنے راستے پرگامزن رہو،ہم جان بوجھ کرہدایت وبھلائی سے محروم نہیں   رہ سکتے۔[1]

قرآن مجیدمیں   اس واقعہ کی طرف یوں   اشارہ کیاگیاہے

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۡسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۡلَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ۝۵۵ [2]

ترجمہ:اورجب انہوں   نے بہیودہ بات سنی تویہ کہہ کراس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اورتمہارے اعمال تمہارے لئے،تم کوسلام ہے ، ہم جاہلوں   کا سا طریقہ اختیارکرنانہیں   چاہتے۔[3]

[1] ابن ہشام۳۹۲؍۱،البدایة والنہایة ۲۰۳؍۴، الروض الانف۲۴۰؍۳،عیون الاثر۱۵۰؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۶؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۰؍۲،السیرة الحلبیة ۴۸۷؍۱

[2] القصص۵۵

[3] البدایة والنہایة۸۲؍۳

Related Articles