بعثت نبوی کا تیسراسال

کفارکی ایک تجویز

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرداران قریش مکہ میں جمع ہوئے جن میں عتبہ بن ربیعہ،ابوسفیان بن حرب،نصربن حارث، ابوالبختری،اسودبن عبدالمطلب،زمعہ بن اسود، ولیدبن مغیرہ،ابوجہل بن ہشام،عبداللہ بن امیہ،امیہ بن خلف،عاص بن وائل،منبہ بن حجاج وغیر ہ شامل تھے،اورسب نے اپنی اس مجلس میں یہ طے کیاکہ ایک مرتبہ اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوسمجھادوتاکہ ان کاکوئی عذرباقی نہ رہے جائے اوراگراب بھی وہ نہ مانیں توپھران کی مخالفت میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی جائے،چنانچہ انہوں نے اپناایک قاصدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجاکہ ہم لوگ آپ سے کچھ بات چیت کرناچاہتے ہیں آپ ہماری مجلس میں آئیں اورہماری تجویزسن لیں ،یہ پیغام ملتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرداران قریش کے مجمع میں پہنچ گئے،تمام شامل حاضرین نے ایک زبان ہو کر کہا کہ آج یہ ہماراآخری اجتماع ہے اورہم نے آپس میں طے کرکے صلح کی ایک آخری تجویز سوچی ہے جوہرطرح سے آپ کے حق میں مفید اور بہتر ہے اگر آپ نے ہماری یہ تجویزتسلیم کرلی توہماری صلح ہے ورنہ ہم آپ سے جنگ کریں گے۔

قَالَ: یَا بن أَخِی، إنْ كُنْتَ إنَّمَا تُرِیدُ بِمَا جِئْتَ بِهِ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ مَالًا جَمَعْنَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِنَا حَتَّى تَكُونَ أَكْثَرَنَا مَالًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِیدُ بِهِ شَرَفًا سَوَّدْنَاكَ عَلَیْنَا، حَتَّى لَا نَقْطَعَ أَمْرًا دُونَكَ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِیدُ بِهِ مُلْكًا مَلَّكْنَاكَ عَلَیْنَا وَإِنْ كَانَ هَذَا الَّذِی یَأْتِیكَ رِئْیًا تَرَاهُ لَا تَسْتَطِیعُ رَدَّهُ عَنْ نَفْسِكَ، طَلَبْنَا لَكَ الطِّبَّ، وَبَذَلْنَا فِیهِ ،

اے بھتیجے!ہماری تجویزیہ ہے کہ آپ نے جویہ نئی بات نکالی ہے اس سے اگر آپ کی غرض مالداربنناہے توہم حاضرہیں ،ہم آپس میں مال جمع کرکے آپ کواتنادے دیتے ہیں کہ حجازمیں آپ سے بڑامالدار اور کوئی نہیں ہوگااور اگراس سے آپ کی غرض اپنی سرداری اوربادشاہت کومنواناہے توآج سے ہم آپ کویہ شرف اورمنصب دیتے ہیں اورآپ کواپناسرداراوربادشاہ تسلیم کرلیتے ہیں ،اوراگریہ بات ہے کہ کوئی جن یاآسیب تمہارے سرپرآتاہے اورتم اس کودفع نہیں کرسکتے تو ہم سے کہوہم حکیم بلاکراپنے خرچ سے تمہارااس قدرعلاج کریں گے کہ تم اچھے ہوجاؤ ۔[1]

ایک روایت میں ہےکسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرناچاہتے ہیں توہم وہاں آپ کی شادی کرادیتے ہیں وغیرہ یعنی ختم ہوجانے والادنیاوی مال ومتاع اوربلندمنصب کالالچ سامنے پیش کیا گیا۔

فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا بِی مَا تَقُولُونَ، مَا جِئْتُ بِمَا جِئْتُكُمْ بِهِ أَطْلُبُ أَمْوَالَكُمْ، وَلَا الشَّرَفَ فِیكُمْ، وَلَا الْمُلْكَ عَلَیْكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِی إلَیْكُمْ رَسُولًا وَأَنْزَلَ عَلَیَّ كِتَابًا وَأَمَرَنِی أَنْ أَكُونَ لَكُمْ بَشِیرًا وَنَذِیرًا فَبَلَّغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَكُمْ،فَإِنْ تَقْبَلُوا مِنِّی مَا جِئْتُكُمْ بِهِ، فَهُوَ حَظُّكُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَإِنَّ تَرُدُّوهُ عَلَیَّ أَصْبِرْ لِأَمْرِ اللَّهِ حَتَّى یَحْكُمَ اللَّهُ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ

یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب ارشادفرمایاآپ لوگوں نے جو چیزیں پیش کی ہیں ان میں سے کسی کی مجھے نہ ضرورت ہے اورنہ تمنا،میں اس لئے نہیں آیاکہ تمہارے مال طلب کروں یاتم میں اپنی شرافت وبلندی پیداکروں یاحجازکابادشاہ بن جاؤ ں ، سنو! مجھے رب العالمین نے تم سب کی طرف اپنارسول بناکربھیجاہے،اوراس نے مجھ پراپنی کتاب نازل فرمائی ہے،اورمجھے حکم فرمایاہے کہ میں تمہارے لئے خوشیاں سنانے والااور متنبہ کرنے والابنوں ،مجھے خوشی ہے کہ میں اپنافرض باحسن خوبی بجا لا رہا ہوں ،میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچارہاہوں ،تمہاری خیرخواہی وبہبودی میں کوئی کمی نہیں کر رہا، اب اگرتم نے اسے قبول کرلیاتواپنے دونوں جہاں سنوارلوگے اوراگرتم نے اس کو تسلیم نہ کیاتومیں اس وقت تک صبرسے کام لوں گاجب تک کہ باری تعالیٰ میرے اورتمہارے درمیان کوئی دوٹوک فیصلہ کردے۔[2]

موتیوں کی لڑیوں جیسے الفاظ ان کے دلوں میں کھب گئے اوروہ معاملہ کی اصلیت تک بھی پہنچ گئے لیکن اتنی ہمت وجرات نہ ہوئی کہ علی الاعلان قبول کرلیں اورصدیوں کی پرانی ڈگرکویکسرچھوڑدیں ۔

قَالُوا: فَإِذَا لَمْ تَفْعَلْ هَذَا لَنَا،فَخُذْ لِنَفْسِكَ، سَلْ رَبَّكَ أَنْ یَبْعَثَ مَعَكَ مَلَكًا یُصَدِّقُكَ بِمَا تَقُولُ، وَیُرَاجِعُنَا عَنْكَ وَسَلْهُ ،فَلْیَجْعَلْ لَكَ جَنَانًا وَقُصُورًا وَكُنُوزًا مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ یُغْنِیكَ بِهَا عَمَّا نَرَاكَ تَبْتَغِی، فَإِنَّكَ تَقُومُ بِالْأَسْوَاقِ كَمَا نَقُومُ، وَتَلْتَمِسُ الْمَعَاشَ كَمَا نَلْتَمِسُهُ، حَتَّى نَعْرِفَ فَضْلَكَ وَمَنْزِلَتَكَ مِنْ رَبِّكَ إنْ كُنْتَ رَسُولًا كَمَا تَزْعُمُ،فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَنَا بِفَاعِلِ وَمَا أَنَا بِاَلَّذِی یَسْأَلُ رَبَّهُ هَذَاوَمَا بُعِثْتُ إلَیْكُمْ بِهَذَا وَلَكِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِی بَشِیرًا وَنَذِیرًا أَوْ كَمَا قَالَ فَإِنْ تَقْبَلُوا مَا جِئْتُكُمْ بِهِ فَهُوَ حَظُّكُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ، وَإِنْ تَرُدُّوهُ عَلَیَّ أَصْبِرْ لِأَمْرِ اللَّهِ حَتَّى یَحْكُمَ اللَّهُ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ

اس لئے خفت مٹانے کے طورپرکہنے لگے اچھااگرآپ ان سب باتوں میں سے کسی پربھی آمادہ نہیں توہم اپنے مسلمان ہوجانے کے لئے آپ سے کچھ اورعرض کرتے ہیں آپ اپنے رب سے دعاکریں کہ وہ کسی فرشتے کوآپ کی تصدیق کے لئے آپ کے ساتھ کردے ہم اس سے آپ کے بارے میں دریافت کریں اوروہ ہمیں مطمئن کردے،اگریہ بھی نہیں مانتے توآپ اپنے رب سے کہیں کہ وہ آپ کوسونے چاندی کے محلات جن میں باغات لگے ہوئے ہوں آپ کودے دے تاکہ ہم آپ کی فضیلت کے قائل ہوجائیں اوراچھی طرح جان لیں کہ واقعی آپ اپنے رب کے پاس بہت قدروقیمت والے ہیں ورنہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ آپ بھی ہماری طرح بازاروں میں پھرتے ہیں اورکسب معاش میں لگے رہتے ہیں ،ان کی یہ تجاویزسن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم لوگوں کی یہ تجاویزبھی قبول نہیں کرسکتااورنہ ہی میں اپنے رب سے ان کومانگوں گا نہ تویہ میرامنصب ہے اورنہ ہی مقصداورنہ ہی میری بعثت سے یہ مطلب،میں توصرف اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچانے والااورجنت ودوزخ کے کام بتلانے والاہوں ،اگرتم قبول کروتوتمہارے لیے ہی بہترہے ورنہ میں اللہ کے حکم کاانتظارکروں گاکہ وہ میرے اورتمہارے درمیان کیافیصلہ فرماتا ہے۔[3]

اس پرقریش برہم اوربرافروختہ ہوکراٹھ کھڑے ہوئے کہ دیکھونہ یوں مانتے ہیں اورنہ وؤ ں ،ہم توامن وآتشی اورصلح کے ساتھ رہناچاہتے ہیں لیکن ان کی فطرت میں ہی نہیں کہ مل جل کررہیں ۔

یَا مُحَمَّدُ، وَإِنَّا وَاَللَّهِ لَا نَتْرُكُكَ وَمَا بَلَغْتَ منّا حَتَّى نملكك، أَوْ تُهْلِكَنَا

اچھااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!تواب قسم ہے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے یاہم تمہیں ہلاک کردیں گے یاپھرتم ہمیں ہلاک کردوگے۔

کافروں کے اسی سوال اورواقعہ کابیان قرآن مجیدکی ان آیتوں میں ہے۔

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۝۷ۙاَوْ یُلْقٰٓى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا۝۰ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۸[4]

ترجمہ:کہتے ہیں کہ یہ کیسارسول ہے جو کھانا کھاتاہے اوربازاروں میں چلتاپھرتاہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجاگیا جو اس کے ساتھ رہتااور(نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟یااورکچھ نہیں تواس کے لئے کوئی خزانہ ہی اتار دیاجاتایااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتاجس سے یہ(اطمینان کی)روزی حاصل کرتااوریہ ظالم کہتے ہیں تم لوگ توایک سحرزدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔

[1] ابن ہشام۲۹۳؍۱،عیون الأثر۱۲۴؍۱، سیر أعلام النبلاء۲۱۶؍۱

[2] ابن ہشام۲۹۵؍۱

[3] ابن ہشام۲۹۶؍۱

[4] الفرقان۷،۸

Related Articles