بعثت نبوی کا پہلا سال

کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال خفیہ دعوت دی

اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی قوم میں اپنارسول مبعوث فرماتاہے تورسول کافرض منصبی یہ ہوتاہے کہ وہ لوگوں کواللہ کاپیغام سناکرانہیں ان کے باطل عقیدوں کی اصلاح اوربرے اعمال سے روکنے کی کوشش کرے،اس مقصدکے لئے وہ لوگوں کے دلوں میں چھپی فطری نیکی کوابھارتاہے،ان کے اعمال بد پرتنبیہ کرتاہے،وعظ ونصیحت کے ذریعے انہیں صراط مستقیم پرچلنے کی تلقین کرتاہے اورقوم کی فکری وعملی رہنمائی کرتاہے،یہ تمام کام وہ چھپ کر نہیں کرتا،پوری انسانی تاریخ میں کسی پیغمبرکایہ طریقہ کارکبھی نہیں رہاکہ وہ اپنی دعوت حق کولوگوں سے چھپائےاورخفیہ دعوت کے ذریعے کچھ لوگ تیارکرے اوراس طرح سازش کے ذریعے اپنی قوم میں انقلاب برپاکردے،ہرپیغمبرکی شدیدخواہش رہی ہے کہ اس کی قوم طاغوت کی بندگی سے اعلان براء ت کرکے دعوت حق پرلبیک کہے اوراس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے پوری تندہی اورجانفشانی سے کھلم کھلاہرطرح کی جدوجہدبھی کی ، مگرانہوں نے اس بات کی ہرگزپرواہ نہیں کی کہ ان کی دعوت پرلبیک کہنے والے کون اورکس حیثیت کے لوگ ہیں اوران کی تعدادکیاہے،اس لئے بعض پیغمبروں کے پیروکار صرف چندہی افرادتھے،مگروہ دل برداشتہ ہونے کے بجائے پوری لگن سے اپنافرض منصبی اداکرتے رہے ،اوراللہ تعالیٰ ان سے یہ جواب طلبی نہیں کرتا کہ اس کے اتنے کم پیروکار کیوں ہیں ؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبرکو اپنی قوم پردروغہ نہیں بنایاکیونکہ رسالت کایہ مشکل ترین فرض اللہ نے پیغمبرکے ذمہ ڈالاہوتاہے اس لئے اللہ ہی اپنے بندے کی حفاظت کاذمہ دار بھی ہوتاہے اورہرکٹھن مرحلے میں اس کی دستگیری بھی فرماتاہے اس لئے پیغمبراپنی قوم کے سخت جارحانہ ردعمل کے خوف سے اپنی دعوت کو خفیہ نہیں رکھتے،نوح علیہ السلام سے لے کرعیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کی سیرت دیکھ لیں کسی نے بھی دعوت حق کوپھیلانے کے لئے خفیہ دعوت کاسلسلہ شروع نہیں کیابلکہ روزاول سے ہی ببانگ دھل قوم کواللہ کاپیغام پہنچایا، ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد، اپنے قبیلہ اور اپنی قوم میں تن تنہا،کھلم کھلا،بے خوف وخطر اپنے فرض منصبی کو نبھایااورنمرودجیسے ظالم بادشاہ کے خلاف کوئی انڈرگراونڈجماعت تیارکرنے کی کوشش نہیں فرمائی، موسیٰ علیہ السلام سے نادانستگی میں ایک قبطی قتل ہوگیاتھا،جب انہیں منصب رسالت پرفائزکرکے فرعون کے پاس جا کر دعوت حق پیش کرنے کاحکم ملاتوموسیٰ علیہ السلام نے اس قتل کاذکرکیاتواللہ تعالیٰ نے فرمایا

 قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝۴۶ [1]

ترجمہ:فرمایاڈرومت میں تمہارے ساتھ ہوں ،سب کچھ سن رہا ہوں اوردیکھ رہاہوں ۔

چنانچہ اس بات کاقوی امکان تھاکہ فرعون جیساسرکش بادشاہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کوگرفتارکرکے قبطی کے قصاص میں قتل کرادیتا مگر موسیٰ علیہ السلام نے کوئی خفیہ منصوبہ تیارنہیں کیاکہ پہلے کچھ مصرجاکرانقلاب برپاکرنے کے لیے خفیہ طورپربنی اسرائیل کے کچھ لوگ تیار کیے جائیں بلکہ اللہ کے حکم کے موجب بغیرکسی خوف کے دعوت حق پہنچانے کے لئے فرعون کے پاس جاپہنچے ، پھر کیایہ بات کچھ عجیب نہیں ہے کہ امام المتقین،خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام جلیل القدر پیغمبروں کی سیرت کے مطابق کھلم کھلادعوت کاکام کرنے کی بجائے تین سال تک خفیہ دعوت کا کام کریں ، اگریہ تصورکیاجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداران قریش کی عداوت کے خوف سے ایسا کیا تھا جوایک چھوٹے سے علاقہ کے سردار تھے توکیاوہ نمرود اور فرعون سے بھی زیادہ سرکش تھے، اورکیااللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کی طرح آپ کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیاہواتھا؟۔جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ۝۰ۭ وَاللهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۶۷ [2]

ترجمہ:اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے، یقین رکھو کہ وہ کافروں کو( تمہارے مقابلہ میں )کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔

اگر آپ نے سرداران قریش کی عداوت کے خوف سے خفیہ دعوت کاکام شروع کیا تھاتوکیاتین سال کی خفیہ وعظ ونصیحت کے بعدجب آپ نے علانیہ دعوت کاکام شروع کیا اس وقت قریش کابغض و عداوت ختم ہوگئی تھی، اورکیاسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال میں سرداران قریش سے مقابلہ کرنے کے لئے اتنے لوگ تیارکرلئے تھے جوان کامقابلہ کرسکتے تھے ،پھریہ بھی غورکریں اگریہ دعوت خفیہ ہی تھی توابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کومکہ مکرمہ سے اسی(۸۰ )میل دورکیسے آپ کی تعلیمات کا علم ہوگیاتھا اوران کے بھائی نے مکہ مکرمہ سے واپس جاکر ان سے یہ کہاتھا کہ میں نے اس شخص کودیکھاہے جو لوگوں کو پر تاثیر انداز میں بہترین اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے اور جو کلام وہ سناتا ہے وہ بڑاہی پراثرہے، مگر وہ کلام شعراء کے کلام سے نہیں ملتاجس کی وجہ سے مکہ کے لوگ اسے جادوگرکہتے ہیں مگراللہ کی قسم ! میں نے اسے ایسانہیں پایا،اس کا پاکیزہ حلیہ،پرتاثیرکلام اورمحبت بھرا انداز بیاں جادوگری سے نہیں ملتااورتمہارا طورطریق اس شخص سے بہت ملتاجلتاہے،مگرابوذر رضی اللہ عنہ اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اورخودمکہ تشریف لے آئے ،مکہ مکرمہ ایک کھلا شہرتھااورہرکوئی بلاخوف وخطراس میں آسکتاتھااگریہ دعوت خفیہ تھی توابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کوچھپ کرمکہ مکرمہ آنے کی کوئی ضرورت نہ تھی،وہ بڑی آسانی کے ساتھ مکہ مکرمہ میں آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل سکتے تھے،اس سے صاف ظاہرہے کہ مکہ میں سب کو اس پاکیزہ دعوت کاعلم ہوچکا تھااوراس کے نتیجہ میں مخالفت شروع ہوچکی تھی ۔

طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کوبصریٰ میں ایک راہب کی زبانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کاعلم ہوا،جس دعوت کی بازگشت بصریٰ تک پہنچ چکی ہووہ دعوت کیاخفیہ ہوسکتی ہے۔

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذرغفاری ،عبداللہ بن مسعودکوبیت اللہ میں کھڑے ہوکرقریش کے سامنے قرآن کی تلاوت سے توروکاتاکہ قریش بغض وعداوت میں ان لوگوں کو کوئی گزندنہ پہنچادیں مگرکسی صحابی رضی اللہ عنہم سے یہ نہیں کہاکہ وہ اپنے اسلام کاعلم اپنے قبیلے کونہ ہونے دے،یہ تو ایسے ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے سے اپنے پیغمبربنائے جانے کاعلم تھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منصوبہ بندی کررکھی تھی کہ جیسے ہی یہ فریضہ مجھے عنایت کیاجائے گامیں اس طرح خفیہ طور پر ایک جماعت کھڑی کرکے انقلاب برپا کردوں گا ،چنانچہ جیسے ہی آپ کوحکم ملاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچے سمجھے پلان کے مطابق خفیہ دعوت کاکام شروع کردیا،اوراگراس بات کوصحیح تسلیم کرلیاجائے تواس سے تویہ بات ثابت ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام کولوگوں کے علم میں لانے میں کوتاہی برتی اوریہ شان رسالت کے منافی ہے،اس کے علاوہ بالکل ابتدائی دورمیں قریش کے قبیلہ بنوہاشم، بنومطلب، بنو عبد شمس ، بنواسد، بنومخزوم، بنوتیم، بنوزہرہ، بنوعدی، بنوجمح، بنوسہم،بنواسدبن خزیمہ اوربنوحارث کے ۲۴مردوں اور ۶ عورتوں نے اسلام قبول کیا۔ غلاموں میں عماربن یاسر ، یاسر اوران کی اہلیہ سمیہ،عامربن فہیرہ اورصہیب بن سنان نے اسلام قبول کیا ، کیاوہ دعوت جسے قریش کے تمام قبیلوں کے سلیم الفطرت لوگوں نے قبول کرلیاتھا خفیہ دعوت تھی ، کیاان تمام لوگوں کااسلام ان کے گھروالوں اورقبیلہ والوں سے مخفی رہ گیاتھا اور سرداران قریش کے کانوں میں بھنک بھی نہ پڑی،مکہ مکرمہ کی آبادی کوئی لمبی چوڑی نہ تھی،تمام قبائل قریب قریب سے رہتے تھے،ان کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ام الحکیم بیضاء بنوامیہ میں ، پھوپھی صفیہ بنواسد میں ، پھوپھی برہ بنومخزوم میں اورایک پھوپھی امیمہ بنواسدبن خزیمہ میں بیاہی ہوئی تھیں ،عثمان بن عفان بیضاء کے نواسے اورزبیربن العوام ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے اورصفیہ کے بیٹے تھے،حجش کے صاحبزادے امیمہ کی اولاداورابوسلمہ برہ کے بیٹے تھے،بنوزہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ننھیال اور بنواسدآپ کے سسرال تھے، کیااتنی قریبی رشتہ داریوں میں تین سال تک کوئی دعوت خفیہ رہ سکتی ہے بنوہاشم کے ایک فردکااعلان نبوت بنوامیہ یابنواسدیابنومخزوم کے علم میں نہ آیا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق

 وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ۝۲۱۴ۙوَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۱۵ۚفَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۱۶ۚ وَتَوَكَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۝۲۱۷ۙ [3]

ترجمہ:اپنے قریب ترین رشتہ داروں کوڈراؤ اورایمان لانے والوں میں سے جولوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ، لیکن اگروہ تمہاری نافرمانی کریں توان سے کہہ دوکہ جوکچھ تم کرتے ہواس سے میں بری الذمہ ہوں ،اوراس زبردست اوررحیم پر توکل کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کاآغازبالکل فطری اندازمیں الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ کے اصول پرشروع کیا،یعنی پہلے گھرکے قریب ترین لوگوں سے شروع ہو کربعدمیں ان سے قریب ترین لوگوں تک دعوت پہنچائی۔


سابقون اولون رضی اللہ تعالیٰ عنہم

ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا

چنانچہ سب سے پہلے سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبوب زوجہ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کودعوت اسلام پیش کی ، جن کی دانائی ،فہم وفراست اوراخلا ق اور دیگر اوصاف کی وجہ سے پورا قبیلہ ان کااحترام کرتاتھا،جوپندرہ سال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک زندگی ہوکرانتہائی قریب سے آپ کی زندگی کے ہرگوشے سے واقف تھیں ، اس لئے جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام دی بغیرکسی پس وپیش کے اسی وقت کلمہ توحیدلاالہ الہ اللہ محمدرسول اللہ پڑھ لیا،

عَنْ قَتَادَةَ بْنِ دِعَامَةَ، قَالَ:تُوُفِّیَتْ خَدِیجَةُ بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِثَلَاثِ سِنِینَ، وَهِیَ أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ

چنانچہ قتادہ بن دعامہ سے روایت ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ہجرت سے تین سال قبل اس دنیاسے انتقال فرماگئیں اورمردوں اورعورتوں میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرسب سے پہلے ایمان لانے والی تھیں ۔[4]

واتفقوا على أن خدیجة أول من آمن باللَّه ورسوله

علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے لکھاہےاس بات پرسب متفق ہیں کہ سب سے پہلے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا اللہ اوراس کے رسول پریمان لائیں ۔[5]

وأول خلق الله أسلم بإجماع المسلمین، لم یتقدمها رجل ولا امرأة

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تمام مسلمانوں کے اجماع کی روسے اللہ کی مخلوق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے میں سب سے اول ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کوئی مرداسلام لایااورنہ کوئی عورت۔[6]

وأولهم إسلامًا خدیجة بنت خویلد

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد نے اسلام قبول کیا۔[7]

خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے کردی تھی،دو بیٹیاں ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور رقیہ رضی اللہ عنہا اس عمرکوپہنچ چکی تھیں کہ ان کا نکاح ابولہب کے دوبیٹوں سے طے پاچکا تھا مگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی ، اس لئے یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹیوں کودعوت اسلام نہیں دی ہوگی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ:وَآمَنَتْ بِهِ خَدِیجَةُ وَبَنَاتُهُ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں دعوت اسلام پرایمان لے آئیں ۔[8]

وَأَسْلَمَتْ حِینَ أَسْلَمَتْ أُمُّهَا

اورامام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں نے بھی اسلام قبول کرلیاجب ان کی والدہ ایمان لائیں ۔[9]

اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبوت کے ایک سال بعدگہوارہ نبوت میں آنکھ کھولی،جب تک ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہ فرمائی بلکہ پندرہ برس نبوت سے قبل اوردس سال نبوت کے بعد پچیس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کامحور صرف اورصرف وہی رہیں ،بلکہ ان کے فوت ہوجانے کے بعدبھی تمام عمرانہیں یادکرتے رہے ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب

بہرحال وہ سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آپ کے گھرمیں رہتے ہوئے آپ کے شب وروزکواچھی طرح جانتے تھے،ان کے اسلام قبول کرنے کی روایت کچھ اس طرح ہے۔

ثُمَّ إِنَّ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ بِیَوْمٍ وَهُمَا یُصَلِّیَانِ فَقَالَ عَلِیٌّ یَا مُحَمَّدُ مَا هَذَا؟قَالَ دِینُ اللَّهِ الَّذِی اصْطَفَى لِنَفْسِهِ وَبَعَثَ بِهِ رُسُلَهُ فَأَدْعُوكَ إِلَى اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَإِلَى عِبَادَتِهِ وَأَنْ تَكْفُرَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى ، فَقَالَ عَلِیٌّ: هَذَا أَمْرٌ لَمْ أَسْمَعْ بِهِ قَبْلَ الْیَوْمِ فَلَسْتُ بقاضٍ أَمْرًا حَتَّى أُحَدِّثَ بِهِ أَبَا طَالِبٍ ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفْشِیَ عَلَیْهِ سَرَّهُ قَبْلَ أَنْ یَسْتَعْلِنَ أَمْرُهُ فَقَالَ لَهُ: یَا عَلِیُّ إِذَا لَمْ تُسْلِمْ فَاكْتُمْ فَمَكَثَ عَلِیٌّ تِلْكَ اللَّیْلَةَ ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ أَوْقَعَ فِی قَلْبِ عَلِیٍّ الْإِسْلَامَ، فَأَصْبَحَ غَادِیًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَهُ فَقَالَ مَاذَا عَرَضْتَ عَلَیَّ یَا مُحَمَّدُ؟فَقَالَ.لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شریك له وتكفر بالات وَالْعُزَّى، وَتَبْرَأُ مِنَ الْأَنْدَادِفَفَعَلَ عَلِیٌّ وَأَسْلَمَ، وَمَكَثَ یَأْتِیهِ عَلَى خَوْفٍ مِنْ أَبِی طَالِبٍ وَكَتَمَ عَلِیٌّ إِسْلَامَهُ وَلَمْ یُظْهِرْهُ

ایک روزسیدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں نمازپڑھ رہے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )آپ لوگ یہ کیاکررہے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ اللہ کادین اسلام ہے ، جس نے مجھے پاک صاف بنا دیا ہے، اسی دین کوسب پیغمبرلیکرمبعوث ہوتے رہے ہیں ، پس میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں اوراس بات کی کہ تم اس کی ہی عبادت کرواوراس نے لات وعزیٰ کے پجاریوں کومشرک اورکافرقراردیاہے(سیدنا علی رضی اللہ عنہ کیونکہ ابھی کم سن تھے اس لئے فوراًکوئی فیصلہ نہ کرسکے)اس لئے عرض کی کہ یہ ایسی دعوت ہے جومیں نے پہلے کبھی نہیں سنی، میں اس کے بارے میں خودکوئی فیصلہ نہیں کرسکتا جب تک میں اپنے والد سے مشورہ نہ کرلوں ، یہ سن کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متفکرہوئے کہ کہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس رازکواس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ اس کے انکشاف کاحکم دے فاش نہ کردیں ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہااگرتم اسلام قبول نہیں کرتے توابھی اس کااظہارنہ کرنا،مگرصبح تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کاسینہ کھول دیا تو حاضر ہو کر عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کل آپ نے مجھے کس چیزکی دعوت دی تھی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کہ تم گواہی دوکہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواکوئی معبودنہیں اور( قریش مکہ کے معبودوں ) لات وعزی کی پرستش سے انکار کردو اورجملہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیارکرو،چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان جملہ باتوں کا اقرارکرکےاس دعوت کوفوراً قبول کرلیا لیکن ابی طالب کے خوف سے اپنے اسلام کوپوشیدہ رکھااوراس کے سامنے اس کااظہار نہیں کیا۔ [10]

أَسْلَمَ مِنَ الْغِلْمَانِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

چنانچہ بچوں میں سب سے پہلے سیدناعلی بن ابوطالب نے اسلام قبول کیا۔[11]

أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كان إذا حضرت الصلاة، خرج إلى شعاب مكة ومعه علی فیصلیان فإذا أمسیا رجعا، ثم إن أبا طالب عبر علیهما وهما یصلیان فقال للنبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا بن أَخِی! مَا هَذَا الدِّینُ الَّذِی أَرَاكَ تَدِینُ بِهِ؟ قَالَ: أَیْ عَمِّ، هَذَا دِینُ اللَّهِ، وَدِینُ مَلَائِكَتِهِ، وَدِینُ رُسُلِهِ، وَدِینُ أَبِینَا إبْرَاهِیمَ ،بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ رَسُولًا إلَى الْعِبَادِ، وَأَنْتَ أَیْ عَمِّ، أَحَقُّ مَنْ بَذَلْتُ لَهُ النَّصِیحَةَ، وَدَعَوْتُهُ إلَى الْهُدَى، وَأَحَقُّ مَنْ أَجَابَنِی إلَیْهِ وَأَعَانَنِی عَلَیْهِ فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: أَیْ ابْنَ أَخِی، إنِّی لَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أُفَارِقَ دِینَ آبَائِی وَمَا كَانُوا عَلَیْهِ، وَلَكِنْ وَاَللَّهِ لَا یَخْلُصُ إلَیْكَ بِشَیْءٍ تَكْرَهُهُ مَا بَقِیتُ قَالَ لِعَلِیٍّ: أَیْ بُنَیَّ، مَا هَذَا الدِّینُ الَّذِی أَنْتَ عَلَیْهِ؟فَقَالَ:یَا أَبَتِ، آمَنْتُ باللَّه وَبِرَسُولِ اللَّهِ، وَصَدَّقْتُهُ بِمَا جَاءَ بِهِ، وَصَلَّیْتُ مَعَهُ للَّه وَاتَّبَعْتُهُ أَنَّهُ قَالَ لَهُ: أَمَا إنَّهُ لَمْ یَدْعُكَ إلَّا إلَى خَیْرٍ فَالْزَمْهُ

مگر بعدمیں (روایت کے مطابق تقریباًایک سال بعد) اتفاق سے ابو طالب نے بھی اپنے بیٹے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی درہ میں نماز پڑھتے دیکھ لیااس کے لئے عبادت کایہ انوکھاطریقہ تھاجسے وہ بڑے غور سے مشاہدہ کرتے رہے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے توابوطالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے بھتیجے یہ کیسا دین ہےجوتونے اختیار کیا ہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیااے چچا!یہ اللہ اوراس کے فرشتوں کا اوراس کے رسولوں کااورہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کاپسندیدہ دین ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے اس دین کے ساتھ تمام بندوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیاہے ، (پھرانہیں دعوت اسلام پیش کی)اوراے چچا!تم اس بات کے زیادہ مستحق ہوکہ میں تمہیں نصیحت کروں اورراہ ہدایت کی دعوت دوں اورتم اس کوقبول کرنے اورمیری امدادمیں شریک ہونے کے حق دارہو،مگرابو طالب نے کہا اے بھتیجے میں اپنا آبائی دین ترک نہیں کرسکتا، البتہ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکے گاپھرسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکربولے اے بیٹے! یہ کیسادین ہے جس پرتوچل رہا ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیااے ابا جان میں اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے بھیجے ہوئے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایاہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے اس کی تصدیق کی ہے اوراللہ کی عبادت کے لئےمیں ان کے ہمراہ نماز پڑھتاہوں ،اوران کا مطیع ہوگیاہوں ،ابوطالب نے کہاوہ تمہیں صرف بھلائی ہی کی طرف دعوت دیں گے،تم ان کے ساتھ ہی رہو۔[12]

ایک روایت یوں ہے اپنے چچا زاد بھائی کاساتھ دواوران کی مدد کرو ۔

قال: أما إنه لم یدعك إلا إلى خیر فاتبعه

ایک روایت میں ہے ابوطالب نے کہاوہ تمہیں صرف بھلائی ہی کی طرف دعوت دیں گےتم ان کی اطاعت کرو ۔[13]

بعثت نبوی کے وقت عام طورپرسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی عمر سات،آٹھ اورتیرہ سال کی بیان کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ کہ وہ اس وقت پانچ سال سے زیادہ کے نہ تھے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمرکے تعین کے لیے چندتاریخی واقعات کچھ یوں ہیں ۔

xسب سے پہلاغزوہ جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوتیغ زنی کرنے کاموقعہ ملاوہ غزوہ بدرتھا،وہ خوداس کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ابھی پورے بیس برس کابھی نہیں ہواتھاجواس جنگ میں لڑنے کے لئے اٹھ کھڑاہواتھا۔[14]

عن ابن عباس رضی الله تعالى عنهما أن النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أعطى علیا كرم الله وجهه الرایة یوم بدر وهو ابن عشرین سنة

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کاقول ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدرمیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوجھنڈاعطافرمایااوران کی عمربیس سال کی تھی۔[15]

شهد عَلِیّ بدرا، وهو ابْن عشرین سنة، وشهد الفتح، وهو ابْن ثمان وعشرین سنة

خطیب بغدادی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شریک ہوئے تووہ بیس برس کے تھے اورفتح مکہ کے زمانہ میں اٹھائیس برس کے تھے۔[16]

اس حساب سے ہجرت کے وقت آپ رضی اللہ عنہ اٹھارہ برس کے تھے اوربعث نبوی کے زمانہ میں پانچ سال کے تھے ۔

xفاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے آپ کانکاح مشہورروایت کے مطابق غزوہ بدرکے بعدہوااس وقت ان کی عمربیس برس کی تھی اوردوسری زیادہ معتبرروایت سے غزوہ احدتین ہجری کے بعد ہواتھااس وقت وہ اکیس برس کے تھے ،جیساکہ مروی ہے۔

وسنّ علىّ یومئذ احدى وعشرون سنة وخمسة أشهر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا(فاطمہ رضی اللہ عنہا )نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بعدواقعہ احدکیااس وقت سیدنا علیٰ رضی اللہ عنہ کاسن اکیس برس پانچ ماہ کا تھا۔[17]

اس اعتبارسے بھی ہجرت کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اٹھارہ برس کے ہوئے اوربعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پانچ سال کے ہوئے۔

xابوطالب بڑی عسرت کی زندگی بسرکرتے تھے ،نبوت کے دوسرے سال جب قحط پڑگیاتوان کی معاشی حالت اورخراب ہوگئی ،دوبڑے بیٹے طالب اورعقیل ۳۶اور ۲۶برس کے خودکفیل تھے ،دونوں چھوٹے بیٹوں کی پرورش کابوجھ ان پرتھاجن کی عمریں سولہ اورچھ برس کی تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاعباس بن عبدالمطلب کو ابوطالب کی اعانت پرمتوجہ کیااورفرمایاکہ ان کے دونوں چھوٹے بیٹوں کی پرورش کابارہم اٹھالیں ،چنانچہ جعفر رضی اللہ عنہ کو عباس رضی اللہ عنہ نے اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کفالت میں لے لیا،علامہ شبلی کے مطابق اگرسیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمراس وقت تیرہ چودہ برس کی تھی توجعفر رضی اللہ عنہ جوان سے دس سال بڑے تھے لامحالہ ۲۳،۲۴برس قرارپائے گی ،

 وكان جعفر أكبر من علی رضی الله عنهما بعشر سنین

جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔[18]

أَخُو عَلِیِّ بنِ أَبِی طَالِبٍ وهو أسن من علی بعشر سنین

جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اوران سے دس سال بڑے تھے۔[19]

اوراس عمرکاجوان شخص خودکفیل ہوتاہے قابل پرورش نہیں ،پھر عباس رضی اللہ عنہ کوان کی پرورش کی کیاضرورت تھی؟حالانکہ واقعہ ہے کہ وہ عباس رضی اللہ عنہ کی پرورش میں رہے تھے ،اس اعتبارسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بعثت نبوی کے وقت پانچ ہی برس کی عمرکے ہوتے ہیں اورفی الواقع اسی سن میں تھے بھی۔

x جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے غزوہ موتہ جمادی الثانی آٹھ ہجری میں جام شہادت نوش فرمایااس وقت وہ ۳۴،۳۵برس کے تھے ،ان ہی کی اولادمیں علی بن عبداللہ بن جعفربن ابراہیم بن محمدبن علی بن عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ موصوف کاقول مقاتل الطالبین کے شیعہ مولف نے صفحہ چودہ پرنقل کیاہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ جس وقت قتل ہوئے وہ تینتیس ،چونتیس برس کے تھے ، جب وہ آٹھ ہجری میں چونتیس برس کے تھے توہجرت کے وقت چھبیس ،ستائیس برس کے ہوں گے اوربعثت نبوی کے زمانہ میں چودہ ،پندرہ برس کے اوران سے دس برس چھوٹے سیدنا علی رضی اللہ عنہ چارپانچ برس کے ۔

x سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب رمضان چالیس(۴۰)ہجری میں شہیدکردیے گئے اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر۵۸برس تھی ،

حَدَّثَنَا حسین الجعفی، قَالَ:سمعت سفیان بْن عیینة یسأل جعفر بْن مُحَمَّد: كم كان لعلی یوم قتل؟ قَالَ: ثمان وخمسون سنة

حسین الجعفی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے سناانہوں نےجعفربن محمد(الباقر)سے پوچھاقتل کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمرکیاتھی؟ کہا اٹھاون برس۔[20]

اس حساب سے بھی ہجرت کے وقت ان کی عمراٹھارہ برس اوربعثت نبوی کے وقت پانچ سال بنتی ہے۔

xاوراگریہ ثابت بھی ہوجائے کہ بعثت نبوی کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمرسات،آٹھ،نویادس برس کی تھی

ولعلی عشرَة أَعْوَام فإسلام ابْن عشرَة أَعْوَام ودعاؤه إِلَیْهِ إِنَّمَا هُوَ كتدریب الْمَرْء وَلَده الصَّغِیر على الدّین لَا أَن عِنْده غناء وَلَا أَن عَلَیْهِ إِثْمًا إِن أَبى فَإِن أَخذ الْأَمر على قَول من قَالَ أَن علیا مَاتَ وَله ثَمَان وَخَمْسُونَ سنة فَإِنَّهُ كَانَ إِذْ بعث النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم ابْن خَمْسَة أَعْوَام

توبقول ابن حزم رحمہ اللہ دس برس والے کااسلام ودعوت اسلام ایساہی ہے جیسے انسان کا اپنے چھوٹے بچے کودین کاخوگربناناکہ نہ توان کوکچھ نفع ہے نہ اس کے انکارسے کوئی گناہ،اگراس معاملہ کواس قول کے مطابق اختیارکیاجائے کہ وفات کے وقت ان کی عمر ۵۸ برس تھی توپھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت پانچ ہی برس کے تھے۔[21]

غرضیکہ ان تصریحات سے بخوبی ثابت ہے کہ ہجرت سے دوایک سال پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سن وسال کے ہوئے یعنی پندرہ سولہ برس کے کہ تعلیمات دین سے بہرہ مندہوسکے۔

 زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ بن شراحیل کلبی

وَكَانَ زَیْدٌ رَجُلا قَصِیرًا آدَمَ شَدِیدَ الأَدَمَةِ. فِی أَنْفِهِ فَطَسٌ

جن کاقدپست،ناک چپٹی اوررنگ گہراگندمی تھا۔[22]

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کابیان ہے زید رضی اللہ عنہ کارنگ کھلاہواگندمی تھاجوآٹھ سال کی عمرسے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو اس وقت یہ پندرہ سال کے تھے ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال چھوٹے تھے ، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کردیاتھااس وقت سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پرمامورہوگئے اورپندرہ سال سے صبح وشام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق وعادات کامطالعہ کرتے رہے تھے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت واخلاق سے ازحد متاثر تھے اس لئے جب ان کے بزرگ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے حاضرہوئے توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کواپنی آزادی پرترجیح دی،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے بزرگوں کے سامنے آزادکرکے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اورلوگ انہیں زیدبن محمدکہنے لگے اس طرح یہ بھی گھر ہی کے فردتھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکاروبارمیں ساتھ دیتے رہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی ام ایمن رضی اللہ عنہا سے کر دی تھی جس سے ایک بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ پیداہوااس لئے ان کی کنیت ابو اسامہ تھی، یہ کس طرح ایمان لائے معلوم نہیں مگریقینا ًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پرایمان لائے ہوں گے،

وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمَوَالِی زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ

بہرحال موالی میں سب سے پہلے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ نے اسلام قبول کیا۔[23]

أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ

موالی میں سب سے پہلے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ نے اسلام قبول کیا۔[24]

اور آپ کاشمار سابقون اولون میں ہوا، زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ رازدان رسول تھے ۔

شعبان پانچ ہجری کوغزوہ بنی مصطلق (غزوہ مریسیع) میں آپ کومدینہ منورہ میں نیابت (جانشینی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف بھی ملا ، زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ایک بہادرسپاہی اور بہترین تیراندازتھے ، حق وباطل کی اولین لڑائی غزوہ بدرسے غزوہ موتہ میں اپنی شہادت تک ہر لڑائی میں پامردی اورشجاعت سے حصہ لیا ، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس لشکر میں زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ موجود ہوتے ،امارت کاعہدہ انہیں سپردکیاجاتا،اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نومرتبہ سالار لشکر مقرر کئے گئے، جب آٹھ ہجری میں حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفیر بن کر بصریٰ گئے اور موتہ کے مقام پرامیرغسانہ شرجیل بن عمرونے انہیں شہید کر دیا ،ان کابدلہ لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزارمجاہدین کالشکرتیار فرمایا اور انہیں اسلامی جھنڈا عطافرما کر اس اسلامی لشکرکاسپہ سالاربناکرموتہ روانہ کیااور ارشاد فرمایا اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہوجائے تو ان کے بعدجعفر رضی اللہ عنہ بن ابو طالب لشکر کے سپہ سالار ہوں گے،اگر جعفر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ قائدلشکرہوں گے،اگریہ بھی شہیدہوجائیں تومجاہدین اپنے میں سے جسے بہتر پائیں اپناامیر لشکر بنالیں ، رسول اللہ کے فرمان کے مطابق پہلے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ پچپن برس کی عمرمیں شہیدکردیئے گئے ،ان کے بعد دونوں سپہ سالار جعفر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تین ہزارمجاہدین کی مختصر تعداد کے ہمراہ بڑی بہادری ، جواں مردی وبے جگری سے شاہ روم کے جھنڈے تلے دو لاکھ فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے شہیدہوگئے،ان کے بعدجھنڈابہترین جنگی فراست کے حامل خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے سپرد کر دیا گیا جونئے نئے مسلمان ہوئے تھے،انہوں نے بہترین جنگی تدبیر سے لشکراسلامی کوہزیمت سے بچالیا ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے تینوں سپہ سالاروں کی شہادت کی خبر پہنچی توانتہائی غمگین ہوئے اوران کے اہل خانہ میں جاکرتعزیت فرمائی،جب زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کے گھرگئے توان کی چھوٹی بیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ کرزاروقطاررونے لگی،بیٹی کی حالت دیکھ کرآپ بھی آبدیدہ ہوگئےتو سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ جوآپ کے ہمراہ تھے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی رورہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیایہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے ۔

سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کارنگ گورا،بدن دبلا،ڈاڑھی خشخاشی ،چہرہ شگفتہ ،آنکھیں روشن اورپیشانی فراخ تھی ،ان کی کنیت ابوبکرتھی جوزمانہ جاہلیت میں مشہورہوچکی تھی اور عمر بھر اپنی کنیت ہی سے موسوم کیے جاتے رہے،والدکانام عثمان بن عامر اورکنیت ابوقحافہ تھی،

وَأُمُّ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: أُمُّ الْخَیْرِ سَلْمَى بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِر

اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عامراورکنیت ام الخیرتھی ۔

كَانَ یُسمى أَیْضا عبد الْكَعْبَة إِلَى أَن أسلم، فَسَماهُ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: عبد الله

بعض جگہوں پرلکھاہے اسلام لانے سے قبل آپ کانام عبدالکعبہ تھااورجب اسلام قبول کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکانہ نام بدل کر عبداللہ رکھ دیا۔[25]

قِیلَ سُمّیَ عَتِیقًا ; لِأَنّ أُمّهُ كَانَتْ لَا یَعِیشُ لَهَا وَلَدٌ فَنَذَرَتْ إنْ وُلِدَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُسَمّیَهُ عَبْدَ الْكَعْبَةِ، وَتَتَصَدّقُ بِهِ عَلَیْهَا، فَلَمّا عَاشَ وَشَبّ سُمّیَ عَتِیقًا، كَأَنّهُ أُعْتِقَ مِنْ الْمَوْتِ

انہیں عتیق بھی کہتے ہیں ،اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ کی والدہ کے لڑکے زندہ نہ رہتے تھے ،انہوں نے نذرمانی کہ اگران کے لڑکاپیداہوااورزندہ رہا تو وہ اس کانام عبدالکعبہ رکھیں گی اوراسے کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردیں گی،چنانچہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیداہوئے توانہوں نے نذرکے مطابق ان کانام عبدالکعبہ رکھا،کیونکہ انہوں نے موت سے رہائی پائی تھی اس لئے جوان ہونے پروہ عقیق (آزادکردہ غلام)کے نام سے موسوم کیے جانے لگے۔[26]

بعض راویوں کاخیال ہے کہ عتیق کالقب انہیں نہایت سرخ وسفیدہونے کے باعث دیا گیا۔

فَقَالَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ: أَلَا أَقْضِی بَیْنَكُمَا إِنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ أَنْتَ عَتِیقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ قُلْتُ: فَمِنْ یَوْمَئِذٍ سُمِّیَ عَتِیقًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہےایک مرتبہ سیدنا ابوبکرچندلوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،رسول اللہ نے فرمایااے ابوبکرتم اللہ کی آگ سے آزادشدہ ہواس دن سے ان کانام عتیق پڑگیا۔[27]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَنْتَ عَتِیقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ فَیَوْمَئِذٍ سُمِّیَ عَتِیقًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ، انہیں دیکھ کر آپ نے فرمایاتم عتیق ہویعنی دوزخ سے آزاد کئے ہوئے ہواس دن سے ان کانام عتیق پڑگیا۔[28]

وَاسْمُ أَبِی بَكْرٍ: عَبْدُ اللَّهِ، وَعَتِیقٌ: لَقَبٌ لِحَسَنٍ وَجْهُهُ وَعِتْقُهُ

ابن ہشام کہتے ہیں سیدناابوبکرکانام عبداللہ ہے اورعتیق آپ کی آزادی اورخوبصورتی کے سبب سے آپ کالقب ہے۔[29]

یہ قبیلہ بنی تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے،ان کانسب آٹھویں پشت پر مرہ پرجا کر رسول اللہ سے مل جاتاہے،

وكان لأبی بَكْر من الولد عَبْد الله وأسماء ذات النطاقین وأمهما قُتَیْلَةُ بِنْت عَبْد الْعُزَّى، وعبد الرَّحْمَن وعائشة وأمهما أُمُّ رُومَانَ بِنْت عَامِرِ وأم كلثوم بِنْت أبی بَكْر وأمها حبیبة بِنْت خارجة ومحمد بْن أبی بَكْر وأمه أَسْمَاءُ بِنْت عُمَیْسِ

جوان ہونے پران کی شادی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے ہوئی جن کے بطن سے عبداللہ اوراسماء پیداہوئے ،اسماء کالقب بعدمیں ذات النطاقین قرارپایا،قتیلہ بنت عبدالعزیٰ کے بعدانہوں نے ام رومان بنت عامربن عویمرسے شادی کی جن کے بطن سے عبدالرحمٰن اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیداہوئے،اس کے بعدمدینہ منورہ آکر پہلے انہوں نے حبیبہ بنت خارجہ سے شادی کی جن سے ام کلثوم پیداہوئیں ،پھر اسماء بنت عمیس سے شادی کی ان کے بطن سے محمدپیداہوئے ۔

قوم قریش تجارت پیشہ تھی چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی جوان ہوکر کپڑے کی تجارت شروع کی ، اپنی جاذب نظرشخصیت ،بے نظیراخلاق، حسن معاملہ،صدق ودیانت کی وجہ سے ان کی تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا اورجلدہی وہ مکہ مکرمہ کے ذی ثروت،ذی شوکت ومرتبت لوگوں میں سے شمارہونے لگے ،وہ بہترین اخلاق کے مالک ،رحم دل اورنرم خوتھے ، غریبوں ،محتاجوں کی مددکرتے اور مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، ہوش وخرد،عاقبت اندیشی اوربلندی فکرونظرکے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے ،اس لئے وہ اپنی قوم کے اکثر گمراہ کن اعتقادات اوررسوم وعادات سے بالکل الگ رہتے تھے ،عرب میں جہاں ہر طرف شراب وجو ا اورزنا کاکھلم کھلا رواج تھایہ ان خباستوں سے دورہی رہتے تھے ۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے جاہلیت اوراسلام دونوں زمانوں میں شراب کا قطرہ تک نہ چکھاحالانکہ اہل مکہ شراب کے عادی ہی نہیں بلکہ عاشق تھے۔

یہ بڑے ہوش مند، زیرک اور نفع ونقصان میں تمیزکی بڑی اچھی صلاحیت کے مالک تھے، اور انساب میں گہرا علم رکھتے تھے، قریش مکہ کے تمام خاندانوں کے نسب انہیں ازبر یادتھے اورہرقبیلے کے عیوب ونقائص اورمحاعدوفضائل سے بخوبی واقف تھے،اس وصف میں قریش کاکوئی فردان کامقابلہ نہ کر سکتا تھا،وہ خلیق، ایمان دار،دیانت دار اور ملنسارتاجرتھے اورقوم کے تمام لوگ ان کے اعلیٰ اخلاق اورعمدہ برتاؤ کے معترف تھے اورانہی فضائل کے باعث ان سے بے حدمحبت کرتے تھے اور لوگ بکثرت ان کے پاس آکر بیٹھتے تھے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کاقیام مکہ کے اس محلے میں تھاجہاں خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد اور دوسرے بڑے بڑے تاجر سکونت پذیرتھے اورجن کی تجارت یمن وشام تک پھیلی ہوئی تھی ،جب سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرما کر انہی کے گھرمنتقل ہوگئے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسی محلے میں رہنے کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ پید ا ہوا اور دو سال ،چندماہ چھوٹے ہونے کے باوجود مزاج ،عادات اورخصائل واخلاق ،پیشے میں اشتراک میں ہم آہنگی کے باعث دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے اس لئے گھرکے افرادکے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احباب خاص میں شامل تھے۔

مورخین اورراویوں میں دونوں کی دوستی کے متعلق بھی اختلاف ہے ،بعض لکھتے ہیں کہ بعثت سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گہری دوستی ہوچکی تھی اوریہی دوستی ویک جہتی ان کے سب سے پہلے اسلام لانے کامحرک ہوئی ،لیکن بعض مورخین کاخیال ہے کہ دونوں کے تعلقات میں استواری اسلام کے بعدہوئی ،اسلام سے پہلے دونوں کے تعلقات صرف ہمسائیگی اور ذہنی میلانات ورجحانات میں یکسانی تک محدودتھے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کے اچھے برے اوصاف سے خوب واقف تھے جس کی وجہ سے قریش سب سے زیادہ ان کے علم پر بھروسہ کرتے تھے، ابن ہشام ان کے اخلاق وعادات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مَأْلَفًالِقَوْمِهِ، مُحَبَّبًا سَهْلًا، وَكَانَ أَنْسَبَ قُرَیْشٍ لِقُرَیْشٍ، وَأَعْلَمَ قُرَیْشٍ بِهَا، وَبِمَا كَانَ فِیهَا مِنْ خَیْرٍ وَشَرٍّ

سیدنا ابوبکر ایسے شخص تھے کہ آپ کی نرمی اورخوش کلامی اورحسن اخلاق کے سبب تمام قوم آپ سے محبت رکھتی تھی اورقریش کے نسب سے ساری قوم میں زیادہ واقف تھے اوربھلائی وبرائی کے تمام حالات جانتے تھے۔[30]

وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ رَجُلًا مَأْلَفًا لِقَوْمِهِ مُحَبَّبًا سَهْلًا، وَكَانَ أَنْسَبَ قُرَیْشٍ لِقُرَیْشٍ، وَأَعْلَمَ قُرَیْشٍ بِمَا كَانَ فِیهَا مِنْ خَیْرٍ وَشَرٍّ.وَكَانَ رَجُلًا تَاجِرًا ذَا خُلُقٍ وَمَعْرُوفٍ، وَكَانَ رِجَالُ قَوْمِهِ یَأْتُونَهُ وَیَأْلَفُونَهُ لِغَیْرِ وَاحِدٍ مِنَ الْأَمْرِ، لِعِلْمِهِ وَتِجَارَتِهِ وَحُسْنِ مُجَالَسَتِهِ

علامہ ابن کثیرلکھتے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے خیرخواہ اوراس سے محبت کرنے والے تھے اورنسباًبھی قریش کے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے تھے،اور قریش کی تمام بھلی بری باتوں سے بخوبی واقف تھے اورایک تاجرکی حیثیت سے لوگوں میں خلیق اوربامروت مشہورتھے اوران کی قوم قریش بھی آپ کے علم وفضل ،علم مجلسی اوراخلاق وعادات حسنہ کی بناپرآپ کوحدسے زیادہ چاہتی تھی۔[31]

عہدوں کی تقسیم کے لحاظ سےخوں بہااوردیتیں اکٹھا کرنابنوتیم بن مرہ کاکام تھا،جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کے سپردکردی گئی اس لئے خون بہا اور دیتیوں کے تمام مقدمات ان کے سامنے پیش ہوتے تھے وہ جوفیصلہ کرتے قریش اسے منظور کرتے تھے جس دیت کا بار یہ قبول کرلیتے سارا قبیلہ اسے اٹھانے کوتیارہوجاتا مگرجس بارکو کوئی دوسراشخص قبول کر لیتا تو لوگ اس کی بات ماننے سے انکاری ہو جاتے،آپ کے ایمان لانے کاواقعہ اس طرح بیان کیاجاتاہے،

ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام بن خویلد تھے جن کی کنیت ابوخالدتھی اوروہ کعبہ میں پیداہوئےتھے،اس کاسبب یہ ہواکہ

دَخَلَتْ أُمُّهُ الْكَعْبَةَ، فَمَخَضَتْ فِیهِ، فَوَلَدَتْ فِیهِ

ان کی والدہ دوسری عورتوں کے ہمراہ کعبہ میں داخل ہوئیں اوروہیں ان کودردذہ شروع ہوگیااورانہوں نے وہیں حکیم بن حزام کوجنم دیا۔[32]

وكان من أشراف قریش وهو من مسلمة الفتح

اوروہ قریش کے اشراف میں سے تھےاورانہوں نےفتح مکہ کے موقع پردعوت اسلام قبول کی تھی۔[33]

وكان یومًا عند حَكِیمِ بْنِ حِزَامٍ إذ جاءت مَوْلاهُ له، فَقَالَتْ: إن عمتك خَدِیجَة تزعم فی هذا الیوم أن زوجها نبی مرسل مثل موسى، فانسل أبو بكر حتى أتى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے،اسی اثنامیں حکیم بن حزام کی لونڈی گھر میں آئی اور ان سے کہاکہ آج آپ کی پھوپھی کہہ رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے شوہرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی بنا کر بھیجا ہے،یہ سنتے ہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فورا ًحکیم بن حزام کے گھرسے روانہ ہوگئے اور سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور حکیم بن حزام کی لونڈی نے جو کچھ کہاتھااس کے بارے میں پوچھا ، جب انہیں علم ہواکہ لونڈی کا بیان صحیح تھا تو بلاکسی دباو،تامل وتفکردائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔[34]

وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ الْأَحْرَارِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ

اورآزادمردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔[35]

وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ، فِیمَا بَلَغَنِی: مَا دَعَوْتُ أَحَدًا إلَى الْإِسْلَامِ إلَّا كَانَتْ فِیهِ عِنْدَهُ كَبْوَةٌ ، وَنَظَرٌ وَتَرَدُّدٌ، إلَّا مَا كَانَ مِنْ أَبِی بَكْرِ بْنِ أَبِی قُحَافَةَ، مَا عَكَمَ عَنْهُ حِینَ ذَكَرْتُهُ لَهُ، وَمَا تَرَدَّدَ فِیهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے جس کے سامنے بھی دعوت اسلام پیش کی اس نے سوچنے کے لئے کچھ نہ کچھ پس و پیش کیامگر جونہی میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بن ابی قحافہ سے دعوت اسلام کاذکرکیا انہوں نے کوئی ترددنہیں کیااوراس دعوت کوتسلیم کرنے میں کچھ بھی دیرنہ لگائی۔[36]

صرف یہی امرتعجب انگیز نہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے توحیدکی دعوت سنتے ہی اس پرلبیک کہی بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارحرامیں فرشتے کے نزول اوروحی اترنے کاواقعہ انہیں سنایا تو بھی انہوں نے خفیف ترین شک کااظہارنہ کیااوربغیرپس وپیش آپ کی تمام باتوں کایقین کرلیا،حقیقت یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے ان عقل مندانسانوں میں سے تھے جو ایک طرف بتوں کی عبادت کوحماقت سے تعبیرکرتے تھے اوردوسری طرف دل وجان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ، امانت ،نیکی اورپاک بازی کے قائل تھے ،جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں توکوئی شک دل میں لائے بغیرفوراًایمان لے آئے کیونکہ انہیں نہ صرف آپ کی صداقت پرکامل یقین تھابلکہ وہ تمام باتیں بھی سراسرحکمت پرمبنی نظرآتی تھیں اوروہ انہیں عقل وفکرکے تقاضوں پرپورااترتے دیکھتے تھے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت والفت میں اپنے آپ کو سرتاپاغرق کردیا اور ایمان کاوہ نمونہ پیش کیاجس کی نظررہتی دنیاتک پیش نہ کی جاسکے گی ، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کودین اسلام کی محبت میں ترقی کرتے ہی دیکھا

وَكَانَ لا یُخْطِئُهُ یَوْمًا أَنْ یَأْتِیَ بَیْتَ أَبِی بَكْرٍ أَوَّلَ النَّهَارِ وَآخِرَهُ

کوئی دن ایسانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھرصبح وشام تشریف نہ لاتے ہوں ۔[37]

اس دعوت دین کے کاموں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بڑا مرکزی کردار اداکیا،کیونکہ یہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے ،کاروبار میں حسن معاملہ تھے، لوگوں میں ہردلعزیز تھے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی بے حدعزت وعقیدت تھی جس کی بناپر اور لوگ ان کے پاس آکربیٹھتے تھے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاکرانہوں نے بھی بے نظیرجرات کامظاہرہ کرتے ہوئے قابل اعتماد لوگوں تک علانیہ دعوت اسلام پہنچائی اوراس بات کامطلق خیال نہ کیاکہ اس طرح آئندہ چل کران کے لئے کتنے خطرات پیداہوں گے ،ان کاشمار مکہ کے معززتاجروں میں ہوتاتھااورایک تاجرکے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے گہرے دوستانہ وروادارانہ تعلقات رکھے اوران باتوں کے اظہارسے احترازکرے جو عوام کے مروجہ عقائد و اعمال کے خلاف ہوں مبادااس کی تجارت پر برا اثر پڑے مگرانہوں نے کوئی پرواہ نہ کی ،اگروہ خفیہ طورپرصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر اکتفا کرتے اور تجارت میں نقصان کے ڈرسے اپنے اسلام کومخفی رکھتے توبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشایدکوئی اعتراض نہ ہوتااورامام المتقین صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے محض اسلام کے اظہارہی کوکافی سمجھتے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسانہ کیا وہ اعلانیہ اسلام لائے اوراپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردی ، انہوں نے نہ اپنی تجارت کاخیال کیا اورنہ کفارمکہ کی مخالفت وایذارسانی کا بلکہ بڑے انہماک سے تبلیغ دین میں مشغول ہوگئے ، ان کی تبلیغی کوششوں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان ، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف ، طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (فاتح ایران ) اورآپ کے رضاعی بھائی ابوسلمہ بن عبدالاسد ارقم بن الارقم جوام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہرتھے، زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام ،ان کے بھائی عمیرہ بن ابی وقاص ،ابوعبیدہ بن جراح اوراکثردوسرے لوگ مسلمان ہوئے ۔

فَلَمَّا أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ أَخَذَهُمَا نَوْفَلُ بْنُ خُوَیْلِدِ بْنِ الْعَدَوِیَّةِ فَشَدَّهُمَا فِی حَبْلٍ وَاحِدٍ وَكَانَ نَوْفَلُ بْنُ خُوَیْلِدٍ یُدْعَى أَسَدُ قُرَیْشٍ فَلِذَلِكَ سُمِّیَ أَبُو بَكْرٍ وَطَلْحَةُ الْقَرِینَیْنِ

جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیاتونوفل بن خویلد جوقریش کے شیرکہلاتے تھے ان دونوں کوپکڑکرایک رسی سے باندھ دیا،اسی وجہ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ قرنین (یعنی دونوں ایک قرن میں بندھے ہوئے)کہلاتے ہیں ۔[38]

بلال رضی اللہ عنہ بن رباح

بلال رضی اللہ عنہ کے والدکانام رباح

واسم أمه حمامة. وكانت لبعض بنی جمح ویكنى أبا عبد الله وَكَانَ الَّذِی یُعَذِّبُهُ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ

اوروالدہ کانام حمامہ تھاجوبنی جمع میں سے کسی کی مملوکہ تھیں ،آپ کی کنیت ابوعبداللہ تھی، آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی جمع میں امیہ بن خلف کے غلام تھے جوانہیں شدیدعذاب دیتاتھا۔

حَدَّثَنِی مَنْ رَأَى بِلالا رَجُلا آدَمَ شَدِیدَ الأُدْمَةِ. نَحِیفًا. طُوَالا. أَجْنَأَ. لَهُ شَعْرٌ كَثِیرٌ. خَفِیفُ الْعَارِضَیْنِ. بِهِ شَمَطٌ كَثِیرٌ. لا یُغَیِّرُ

مکحول نے آپ رضی اللہ عنہ کاحلیہ اس طرح بیان کیاہے ،مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیاجس نے بلال رضی اللہ عنہ کودیکھاتھاآپ رضی اللہ عنہ درازقامت،دبلے پتلے قدرے آگے کوجھکے ہوئے ،ہلکے بازو، پتلا چہرہ ،سخت سیاہ رنگت ، سرپرزیادہ گھنے بال اوربالوں میں سفیدی کے آثار ، آوازبلندتھی۔

بلال رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب لوگوں میں ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی،آپ سابقون اولون میں ہیں ،

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ الإِسْلامَ سَبْعَةٌ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ. وَبِلالٌ. وَخَبَّابٌ. وَصُهَیْبٌ. وَعَمَّارٌ. وَسُمَیَّةُ أُمُّ عَمَّارٍ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدچھ لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ، خبیب رضی اللہ عنہ ، صہیب رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ اوران کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا ۔[39]

ثُمَّ إنَّهُمْ عَدَوْا عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، وَاتَّبَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَوَثَبَتْ كُلُّ قَبِیلَةٍ عَلَى مَنْ فِیهَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَجَعَلُوا یَحْبِسُونَهُمْ وَیُعَذِّبُونَهُمْ بِالضَّرْبِ وَالْجُوعِ وَالْعَطَشِ، وَبِرَمْضَاءِ مَكَّةَ إذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، مَنْ اُسْتُضْعِفُوا مِنْهُمْ، یَفْتِنُونَهُمْ عَنْ دِینِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ یُفْتَنُ مِنْ شِدَّةِ الْبَلَاءِ الَّذِی یُصِیبُهُ، وَمِنْهُمْ مِنْ یَصْلُبُ لَهُمْ، وَیَعْصِمُهُ اللَّهُ مِنْهُمْ، وَكَانَ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفِ بْنِ وَهْبِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ جُمَحٍ یُخْرِجُهُ إذَاحَمِیَتْ الظَّهِیرَةُ، فَیَطْرَحَهُ عَلَى ظَهْرِهِ فِی بَطْحَاءِ مَكَّةَ، ثُمَّ یَأْمُرُ بالصّخرة الْعَظِیمَة فتتوضع عَلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ یَقُولُ لَهُ: (لَا وَاَللَّهِ) لَا تَزَالُ هَكَذَا حَتَّى تَمُوتَ، أَوْ تَكْفُرَ بِمُحَمَّدِ، وَتَعْبُدَ اللَّاتَ وَالْعُزَّى فَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ ثُمَّ صَهَرُوهُمْ فِی الشَّمْسِ فَیَقُولُ وَهُوَ فِی ذَلِكَ الْبَلَاءِ: أَحَدٌ أَحَدٌ

پھرمشرکین نے اصحاب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کوسخت ایذائیں اور تکلیفیں پہنچانی شروع کیں جس قبیلہ میں جوکوئی مسلمان ہوتااس قبیلہ کے لوگ اس مسلمان کوبھوک ، پیاس ، مارپیٹ اور قیدوبندکی تکلیفیں پہنچاتے اورہاتھ پاؤ ں باندھ کرگرم زمین پرڈال دیتے۔آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی جمع میں امیہ بن خلف کے غلام تھے،جب ان کے مالک امیہ بن خلف کو بلال رضی اللہ عنہ کے کفرو شرک کوخیرباد کہہ کر اسلام قبول کرنے کا علم ہوا تو آگ بگولہ ہو گیاچنانچہ امیہ بن خلف اپنے غلام بلال رضی اللہ عنہ کوحرہ کی زمین جومکہ میں گرمی کے سبب مشہورہے اورتوئے کی طرح دھوپ میں گرم ہوجاتی ہے اس پربلال رضی اللہ عنہ کوچت لٹاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر ایک بہت وزنی پتھررکھ دیتاتھا(تاکہ پشت زمین سے لگ جائے اور پوری پوری اذیت پہنچے)کبھی گائے کی کھال میں لپیٹ کراورکبھی لوہے کی زرہ پہناکرصحراکی چلچلاتی دھوپ میں بٹھادیتاجب بلال رضی اللہ عنہ تکلیف سے کراہتےتو ان سے کہتاتھاکہ جب تک تو محمد کے ساتھ کفر کرکے لات اورعزیٰ پرایمان نہیں لائے گامیں تجھ کواسی عذاب سے ہلاک کردوں گامگرمگراسلام کایہ سچا مجاہد دھوپ کی شدت اورپیاس کے عالم میں تڑپتے ہوئے احد،احد کی آوازبلند کرتےیعنی اللہ توایک ہے۔[40]

أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ قَالَ:مَرَرْتُ ببلال وهو یعذّب فی الرمضاء لو أَنْ بِضْعَةَ لَحْمٍ وُضِعَتْ لَنَضَجَتْ، وَهُوَ یَقُولُ: أَنَا كَافِرٌ بِاللاتِ وَالْعُزَّى وَأُمَیَّةَ مُغْتَاظٌ عَلَیْهِ فیزیده عذابا فیقبل علیه، فیذهب خلقه فیغشى علیه، ثم یفیق

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں ایک دفعہ بلال کے پاس سے گزراانہیں اذیت دی جارہی تھی ،گرمی کی شدت کایہ عالم تھاکہ اگرگوشت کاٹکڑاان تپتے ہوئے پتھروں پررکھ دیاجاتاتووہ بھی بھن جاتالیکن بلال رضی اللہ عنہ مسلسل کہہ رہے تھے میں لات وعزیٰ کورب ماننے سے انکارکرتاہوں اورامیہ کواورزیادہ غصہ آرہاتھااوروہ انہیں بڑھ چڑھ کرپیٹ رہاتھا،وہ ان کے پاس جاتااوران کے حلق پرتان کرمکہ مارتاوہ بے ہوش ہوجاتے ، پھرہوش آتاتوان کے ہونٹوں سے احد،احد ہی کانعرہ الفت بلندہوتاتھا۔[41]

قَالَ:جَعَلُوا فِی عُنُقِ بِلالٍ حَبْلا، وَأَمَرُوا صِبْیَانَهُمْ أَنْ یَشْتَدُّوا بِهِ بَیْنَ أَخْشَبَیْ مَكَّةَ، یَعْنِی جَبَلَیْهَا فَفَعَلُوا ذَلِكَ وَهُوَ یَقُولُ: أَحَدٌ أَحَدٌ

بلاذری نے مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کیاہےجب امیہ نے دیکھاکہ بلال رضی اللہ عنہ کے عزم واستقلال میں کوئی تزلزل نہیں آیاتووہ بلال رضی اللہ عنہ کے گلے میں رسی ڈال کرشریرلڑکوں کے حوالے کردیتاتاکہ وہ انہیں شہرمیں گھسیٹتے پھریں ،بچے اسی طرح کرتے مگرپھربھی بلال رضی اللہ عنہ کے منہ سے احد،احدہی نکلتاتھا۔[42]

كأَنَّ وَرَقَةَ كَانَ یَمُرُّ بِبِلَالٍ وَالْمُشْرِكُونَ یُعَذِّبُونَهُ وَهُوَ یَقُولُ أَحَدٌ أَحَدٌ.فَیَقُولُ وَرَقَةَ : أَحَدٌ أَحَدٌوَاللَّهِ یَا بِلَالُ.ثُمَّ یُقْبِلُ عَلَى أُمَیَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَمَنْ یَصْنَعُ ذَلِكَ بِهِ مِنْ بَنِی جُمَحٍ فَیَقُولُ: أحلف باللَّه لَئِنْ قَتَلُوكَ لَاتَّخَذْتُ قَبْرَكَ حَنَانًا هَذَا

ورقہ بن نوفل کاجب اس طرف سے گزرہوتااوروہ بلال رضی اللہ عنہ کواسلام قبول کرنے کی بناپرعذاب دیاجارہاہوتااورتکلیف کی شدت میں بھی کہتے تھے اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہےتووہ کہتے اے بلال رضی اللہ عنہ واللہ !اللہ ایک ہے ،اوراللہ ایک ہی ہے،اور پھر امیہ بن خلف سے مخاطب ہوکرکہتے کہ اگرتم لوگ بلال رضی اللہ عنہ کوقتل کردوگےتواللہ کی قسم !میں اس کی قبر کو زیارت گاہ بناؤ ں گاجس سے لوگ برکت حاصل کریں گے۔[43]

مگریہ روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے کیونکہ ورقہ بن نوفل توپہلی وحی کے چنددنوں بعدہی فوت ہوگئے تھے اورانہوں نے اسلام بھی قبول نہیں کیاتھااگرزندہ رہے تھے توپھران کے اسلام قبول کرنے کاکہیں کوئی ذکرنہیں ،اوروہ بڑی عمرکے تھے اوران کی بنیائی بھی جاتی رہی تھی ۔

اس طرح کافی عرصہ بیت گیا مگر امیہ بن خلف کے ظلم وستم میں کچھ کمی نہ ہوئی ۔

حَتَّى مَرَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ (ابْنُ أَبِی قُحَافَةَ) رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَوْمًا، وَهُمْ یَصْنَعُونَ ذَلِكَ بِهِ،وَكَانَتْ دَارُ أَبِی بَكْرٍ فِی بَنِی جُمَحٍ ، فَقَالَ لِأُمَیَّةِ بْنِ خَلَفٍ:ٔلَا تَتَّقِی اللَّهَ فِی هَذَا الْمِسْكِینِ؟حَتَّى مَتَى؟قَالَ: أَنْتَ الَّذِی أَفْسَدْتَهُ فَأَنْقِذْهُ مِمَّا تَرَى،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَفْعَلُ، عِنْدِی غُلَامٌ أَسْوَدُ أَجْلَدُ مِنْهُ وَأَقْوَى، عَلَى دِینِكَ، أُعْطِیكَهُ بِهِ

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا گھربنوجمع کے قریب واقع تھاایک مرتبہ وہ اس طرف سے گزرے اوروہ بلال رضی اللہ عنہ کوتکلیف پہنچارہے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کوتکلیف سے کراہتے اوربلبلاتے ہوئے دیکھاتودل بھرآیاتوامیہ بن خلف سے مخاطب ہو کر کہاکیاتم اللہ سے نہیں ڈرتے جواس مسکین ولاچار پر اتناظلم کررہے ہو،آخر تم اس غلام پر کب تک ظلم وجبرکے پہاڑ توڑو گے؟امیہ بن خلف نے کہاآپ نے ہی اسے ہمارے طریقہ سے ہٹادیاہے اگر اس پرکچھ زیادہ ہی ترس آرہاہے تواسے مجھ سے آزادکرالو ، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تویہ دلی تمنا تھی کہ ان کاایک مسلمان بھائی غلامی سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کی زندگی گزارے ،اس لئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فورا ًبولے ٹھیک ہے مجھے تمہاری بات منظورہے میرے پاس بلال رضی اللہ عنہ سے زیادہ مضبوط اورسڈول سیاہ فام غلام ہے اورساتھ ہی آپ ہی کے دین پرہے آپ اس کے تبادلے میں انہیں مجھے دے دیں ،امیہ بن خلف جو اپنے ہرظلم وستم کے باوجود بلال رضی اللہ عنہ کوان کے دین سے برگشتہ نہ کرسکاتھانے اس پیشکش کو منظور کرلیا اس طرح سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں خریدکرراہ للہ آزاد کر دیا۔[44]

لَمَّا هَاجَرَ بِلالٌ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرمائی تو بلال رضی اللہ عنہ بھی ہجرت فرماکر مدینہ منورہ چلے گئے اور سعدبن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جا کر فروکش ہوئے۔[45]

أَوَّلُ مَنْ أَذَّنَ بِلالٌ ،كَانَ بِلالٌ إِذَا فَرَغَ مِنَ الأَذَانِ فَأَرَادَ أَنْ یُعْلِمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أَذَّنَ وَقَفَ عَلَى الْبَابِ وَقَالَ: حَیَّ عَلَى الصَّلاةِ. حَیَّ عَلَى الْفَلاحِ. الصَّلاةَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَآهُ بِلالٌ ابْتَدَأَ فِی الإِقَامَةِ، كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – ثَلاثَةُ مؤذنین: بلال وأبو محذورة وعمرو ابن أُمِّ مَكْتُومٍ. فَإِذَا غَابَ بِلالٌ أَذَّنَ أَبُو مَحْذُورَةَ. وَإِذَا غَابَ أَبُو مَحْذُورَةَ أَذَّنَ عَمْرُو ابن أم مكتوم

سب سے پہلے اذان دینے والے بلال رضی اللہ عنہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کومسجدنبوی کاموذن مقرر فرمایا اورآپ پانچ وقت بآوازبلندتوحیدورسالت کی پکارلوگوں کے کانوں تک پہنچاتے،آذان سے فارغ ہوکر بلال رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در دولت پرحاضرہوکراذان کی اس طرح خبرکرتے، نمازکے لیے آئیے،فلاح وکامیابی کی طرف آئیے ، نماز تیارہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودردولت سے باہر تشریف لاتے دیکھ کراقامت شروع کر دیتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین موذن تھے بلال رضی اللہ عنہ ، ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اور عمروبن ام مکتوم رضی اللہ عنہا ۔ بلال رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اذان دیتے اوران کی عدم موجودگی میں عمروبن ام مکتوم رضی اللہ عنہا اذان دیتے تھے مگر بلال رضی اللہ عنہ کوبقیہ موذنین پرسبقت تھی۔[46]

بلال رضی اللہ عنہ انتہائی متواضع اور منکسر المزاج تھے جب لوگ ان کی تعریف کرتے تو کہتے کہ میں توایک حبشی ہوں جوکل تک امیہ بن خلف کاغلام تھا، بلال رضی اللہ عنہ نے کفروشرک اوراسلام کے مابین ہرلڑائی میں حصہ لیا،

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِلالا أَنْ یُؤَذِّنَ یَوْمَ الْفَتْحِ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ فَأَذَّنَ عَلَى ظَهْرِهَا وَالْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ وَصَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ قَاعِدَانِ. فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: انْظُرْ إِلَى هَذَا الْحَبَشِیِّ فَقَالَ الآخَرُ: إِنْ یَكْرَهْهُ اللَّهُ یُغَیِّرْهُ

جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مددسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کوفتح کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوکعبے کے اوپرکھڑے ہوکر توحیدورسالت (اذان)کی پکار دینے کاحکم فرمایا چنانچہ حکم کی تعمیل میں بلال رضی اللہ عنہ کعبے کے اوپرچڑھ گئے اوراذان دی،حارث بن ہشام اورصفوان بن امیہ بھی بیٹھے یہ منظردیکھ رہے تھے ایک نے دوسرے سے کہااس حبشی کو دیکھو دوسرے نے کہااگراللہ اسے پسندنہ کرے گا تو اس کوبدل دے گا۔

ان دونوں کے پاس ہی عتاب بن اسیداورابوسفیان بھی بیٹھے ہوئے تھے،

وَقَالَ عتاب بن أسید الْحَمد لله الَّذِی اكرم أسیدا أَن لَا یرى هَذَا الْیَوْم وَمَات أسید قبل ذَلِك بِیَسِیر قَالَ وَقَالَ سُهَیْل بن عَمْرو إِن كَانَ هَذَا لغیر الله فسیغیر وَإِن كَانَ من الله لیمضینه ، قَالَ وَقَالَ أَبُو سُفْیَان لَا أَقُول شَیْئا لَو تَكَلَّمت لظَنَنْت هَذَا الْحَصَى ستخبر عنی،قَالَ فَأوحى الله تَعَالَى إِلَى نبیه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بقَوْلهمْ وَهُوَ على الصَّفَا فَقَالَ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِصَفْوَان قلت كَذَا وَكَذَا للْكَلَام الَّذِی قَالَه وَقَالَ لعتاب قلت كَذَا وَكَذَا وَقلت یَا سُهَیْل بن عَمْرو كَذَا وَكَذَا وَقلت یَا أَبَا سُفْیَان كَذَا وَكَذَا قَالَ فعرفهم بِالَّذِی قَالُوا فَحسن إِسْلَام عتاب بن أسید وَصَفوَان بن أُمیَّة وَسُهیْل بن عَمْرو وفزع أَبُو سُفْیَان وَكَاد أَن یَقع فَقَالَ أَبُو سُفْیَان أما أَنا فَأسْلمت یَوْمئِذٍ فَحسن إِسْلَامه

عتاب کہنے لگااللہ تعالیٰ نے اسیدکوعزت دے کر بچا لیا اگر وہ اس کوسن پاتاتوغصہ ہوتا،سہیل بن عمرونے کہااگراللہ اسے پسندنہیں کرے گاتوبدل دے گا اور اگریہ اللہ کی مرضی سے ہے توقائم رہے گا،ابوسفیان نے کہا میں کچھ نہیں کہتامجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں کچھ کہوں گاتویہ سنگریزے اس کی اطلاع کردیں گے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجبکہ آپ کوہ صفاپرتھےان کے کلام کی ٰخبرپہنچادی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاادھرسے گزرہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے تمہارے کہنے کاعلم ہوچکاہے ،پھرعتاب،سہیل بن عمرو،ابوسفیان نے جوکچھ کہاتھابیان فرمادیا،عتاب کہنے لگے ان باتوں کاعلم ہمارے سواکسی کونہیں ہے ،اگرکسی کوعلم ہوتاتوہم یہ کہتے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ باتیں پہنچائی ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ اللہ کی رسول ہیں اوراللہ تعالیٰ نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان باتوں کاعلم دیاہے ،لہذاوہ دونوں اسی وقت مسلمان ہو گئے اوران کااسلام اچھارہا ۔[47]

جب ہجرت مدینہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے باہوش وحواس اپنے خاکی جسم وجاں کے ساتھ معراج پرتشریف لے گئے اور جنت ودوزخ کا احوال دیکھا۔

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُنِی دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَسَمِعْتُ خَشْفَةً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: بِلالٌ

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب میں جنت میں داخل ہونے لگاتومیں نے قدموں کی چاپ سنی میں نے جبرائیل سے دریافت کیااے جبرائیل یہ کیسی آوازہے؟انہوں نے کہایہ بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آوازہے۔[48]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلاَلٍ: عِنْدَ صَلاَةِ الفَجْرِ یَا بِلاَلُ حَدِّثْنِی بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِی الإِسْلاَمِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَیْكَ بَیْنَ یَدَیَّ فِی الجَنَّةِ ، قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِی: أَنِّی لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا، فِی سَاعَةِ لَیْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّیْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِی أَنْ أُصَلِّیَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(جب آپ واپس زمین پرتشریف لائے تو)فجرکے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایااے بلال رضی اللہ عنہ !مجھے اپناسب سے زیادہ امیدوالانیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعدکیاہےکیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے،بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں نے تواپنے نزدیک اس سے زیادہ امیدکاکوئی کام نہیں کیاکہ جب میں نے رات یادن میں کسی بھی وضوکیاتومیں اس وضوسے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیرمیں لکھی گئی تھی۔[49]

اس طرح بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنت کی بشارت پانے والوں میں سے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلال رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی ،

أن بنی أبی البكیر جاؤوا إلى رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: زَوِّجْ أُخْتَنَا فُلانًا.فَقَالَ لَهُمْ: أَیْنَ أنتم عن بلال؟ثم جاؤوا مَرَّةً أُخْرَى فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحْ أُخْتَنَا فُلانًا فَقَالَ: أَیْنَ أَنْتُمْ عَنْ بِلالٍ؟ثم جاؤوا الثَّالِثَةَ فَقَالُوا: أَنْكِحْ أُخْتَنَا فُلانًا. فَقَالَ: أَیْنَ أَنْتُمْ عَنْ بِلالٍ؟أَیْنَ أَنْتُمْ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ فَأَنْكَحُوهُ

چنانچہ جب ابوالبکیرکے چندلوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرکہنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری بہن کارشتہ فلاں کودے دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کی تعریف وتوصیف میں فرمایاتم بلال رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں کہاں ہو؟ ان لوگوں نے دوسری مرتبہ آکرکہاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھربھی فرمایاتم بلال رضی اللہ عنہ کے برابرکہاں ہو؟وہ لوگ تیسری مرتبہ آئے اورعرض کیا ہماری بہن کارشتہ فلاں کودے دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ تم بلال رضی اللہ عنہ کی برابری کیونکر کرسکتے ہوجوکہ جنتی ہے ،چنانچہ انہوں نے اپنی بہن کا نکاح ان سے کردیا۔[50]

قَدْ شَهِدَ بِلالٌ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

بلال رضی اللہ عنہ غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام مشاہدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حاضر ہوئے ۔

جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ عُمَرُ یَقُولُ:أَبُو بَكْرٍ سَیِّدُنَا، وَأَعْتَقَ سَیِّدَنَا یَعْنِی بِلاَلًا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردارہیں اورانہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال رضی اللہ عنہ کو آزادکیا۔[51]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تدفین سے پہلے بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی جب اشھدان محمدرسول اللہ پرپہنچے تو رو پڑے ، مسجدمیں موجود دوسرے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جن کے دل اس صدمہ سے بے حال تھے ان کے ساتھ رونے لگے۔

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمَّا قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ لَهُ بِلالٌ: یَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ: لَبَّیْكَ قَالَ: أَعْتَقَتَنِی لِلَّهِ أَوْ لِنَفْسِكَ؟ قَالَ: لِلَّهِ ، قَالَ: فَأْذَنْ لِی حَتَّى أَغْزُوَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَأَذِنَ لَهُ فَذَهَبَ إِلَى الشَّامِ

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجمعہ کے دن جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ منبرپرتشریف فرماہوئے توبلال رضی اللہ عنہ نے ان سے کہااے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ !انہوں نے کہافرمایے میں حاضرہوں ، انہوں نے عرض کیاآپ نے مجھے اللہ کے لیے آزادکیاہے یااپنے لیے ؟سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں نے تمہیں اللہ کے لیے آزادکیاتھا، بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیاتوپھرمجھے اجازت فرمائیں کہ میں اللہ کی راہ میں جہادکروں ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں جہادپرجانے کی اجازت عطافرمادی اوروہ شام چلے گئے۔[52]

جب سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی فتح سے فراغت پائی تو بلال رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شام میں رہنے کی اجازت طلب کی ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست قبول فرمالی اور بلال رضی اللہ عنہ دمشق میں سکونت پذیرہوگئے ،مدت کے بعددمشق میں ایک روز بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں دیکھاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں بلال رضی اللہ عنہ !یہ کیاماجراہے ؟ بلال رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی ،اب انہیں ایک لمحہ قرار نہ تھااسی بے چینی کے عالم میں مدینہ منورہ روانہ ہوگئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوکر زاروقطاررونے لگے ،جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ کومعلوم ہواکہ بلال رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں تودونوں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کودیکھ کر سینے سے لگالیااورانہیں پیارکرنے لگے، حسین رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا ہماری خواہش ہے کہ صبح کی اذان آپ رضی اللہ عنہ ہی دیں ، بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشوں کادل کیسے توڑسکتے تھے،صبح کی نمازکے وقت مسجدکی چھت پرچڑھے اوربڑے دل سوزاندازمیں اذان دیناشروع کی،جس وقت انہوں نے اللہ اکبر،اللہ اکبرکہا اس سرے سے اس سرے تک سارامدینہ تھرا اٹھا ، جب اشھدان محمدرسول اللہ پر پہنچے تواہل مدینہ کے دل اوربھی بے چین ہوگئے یہاں تک کہ جب بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے واشھدان محمدرسول اللہ نکلاتومدینہ کاکوئی انسان نہ تھاجو زاروقطار روتا ہواگھرسے باہر نہ آگیاہواورکوئی آنکھ نہ تھی جواپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے کئی سال بعد غم میں ساون بھادوں کی طرح نہ برس رہی ہو ، اس دن مدینہ ایک ماتم کدہ بنا ہوا تھاجہاں ہرطرف آہیں اورسسکیاں تھیں ۔

یہ روایت ضعیف ہے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کرآپ رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے گئے تھے اور پھرمدینہ منورہ کبھی واپس نہیں آئے اورآپ رضی اللہ عنہ نے باقی ماندہ زندگی دمشق میں بسرکی اور تقریباًساٹھ سال کی عمرمیں ساٹھ ہجری کووفات پائی،

وَدُفِنَ عِنْدَ الْبَابِ الصَّغِیرِ فِی مَقْبَرَةِ دِمَشْقَ

اوردمشق کے قبرستان میں باب صغیر کے قریب مدفون ہوئے،اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ پررحم فرمائے ۔إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ۔

أوّل من أسلم من الرّجال الأحرار أبو بكر، ومن الصّبیان علیّ، ومن النساء خدیجة، ومن الموالی زید، ومن العبید بلال

سب سے پہلے آزادمردوں میں سے پہلے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ عورتوں میں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آزادکردہ غلاموں میں زید رضی اللہ عنہ اورغلاموں میں بلال رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔[53]

بِالْجَمْعِ بَیْنَ هَذِهِ الْأَقْوَالِ بِأَنَّ أوَّل مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ الْأَحْرَارِ أَبُو بَكْرٍ، وَمِنَ النِّسَاءِ خَدِیجَةُ، وَمِنَ الْمَوَالِی زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَمِنَ الْغِلْمَانِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِینَ

تمام اقوال کے مطابق آزادمردوں میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے،عورتوں میں سب سے پہلے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے،آزادکردہ غلاموں میں زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ نے اوربچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب نے اسلام قبول کیا۔[54]

بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ اورلونڈیوں کوبھی خریدکرآزادکردیا

أم عبیس، أسلمت وهی زوج كریز بن ربیعة بن حبیب ابن عبد شمس ، ولدت له عبیسا فكنیت به

ان میں ام عبیس رضی اللہ عنہا ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیااوروہ کریزبن ربیعہ بن حبیب ابن عبدشمس کی اہلیہ تھیں ،ان کے بطن سے عبیس پیداہوئیں اوراسی سے ہی ان کی کنیت ہے۔[55]

فأسلمت أول الإسلام، وكانت ممن استضعفه المشركون، فعذبوها فاشتراها أبو بكر فأعتقها

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کااعلان فرمایاتودعوت حق پرلبیک کہنے والے ابتدائی مسلمانوں میں ام عبیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں جنہیں حق پرستی کے جرم میں بے پناہ ظلم کانشانہ بنناپڑا لیکن وہ کسی صورت میں اسلام سے منحرف نہ ہوتی تھیں ،آخرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے خریدکرآزادکردیا۔[56]

قال البلاذریّ: كانت أمة لبنی زهرة، وكان الأسود بن عبد یغوث یعذبها

بلاذری کہتے ہیں ام عبیس رضی اللہ عنہا بنوزہرہ کی لونڈی تھیں اور مکہ کامشہورمشرک رئیس اسودبن عبدیغوث ان پربے پناہ ظلم کرتاتھا۔[57]

وَأَعْتَقَ النَّهْدِیَّةَ وَابْنَتَهَا وَكَانَتَا لِامْرَأَةٍ مِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِوَهِیَ تَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أُعْتِقُكُمَا أَبَدًا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حِلًّا یَا أُمَّ فُلَ لَتْ: أَحِلًّا؟ أَنْتَ أَفْسَدْتُهُمَا فَأَعْتِقْهُمَا

اسی طرح نہدیہ رضی اللہ عنہا اوران کی بیٹی بنوعبدالدارکی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں ، بعثت کے ابتدائی زمانے میں شرف اسلام سے بہرہ ورہوئیں ان پران کی مالکہ نے سخت ظلم ڈھائے لیکن وہ برابرجادہ مستقیم پرگامزن رہیں ، اوران کی مالکہ کہتی تھی اللہ کی قسم !میں اسے کبھی بھی آزادنہیں کروں گی،اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے اے ام فلاں !رحم کرو،اوروہ جواب میں کہتی تھی میں اس پررحم کروں تم لوگ انہیں گمراہ کرواورمیں انہیں آزادکردوں ؟آخرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں خریدکرآزادکردیا۔[58]

أَنَّ أبا بكر أعتق ممن كان یعذب فی الله سبعة: بلالاً. وعامر بن فهیرة، وزنیرة، وجاریة بنی مؤمل، والنهدیة، وابنتها، وأم عبیس

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سات غلاموں اورلونڈیوں کوجنہیں دعوت حق پرلبیک کہنے کے جرم میں انسانیت سوزظلم کیاجاتاتھاخریدکرآزادکردیاان میں بلال رضی اللہ عنہ ،عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ،زنیرہ رضی اللہ عنہا ،بنومومل کی لونڈی،نہدیہ اوران کی بیٹی اورام عبیس رضی اللہ عنہا شامل تھے۔[59]

روایت میں ہے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعدپہلی عورت جس نے اسلام قبول کیاوہ عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ لبابہ بنت الحارث تھیں ۔

قال ابن خالویه: وأول امرأة أسلمت بعد خدیجة لبابة بنت الحارث زوجة العبّاس

ابن خالویہ کہتے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعدپہلی خاتون جس نے اسلام کوقبول کیاوہ عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ لبابہ بنت الحارث تھیں ۔[60]

سمیہ رضی اللہ عنہا بنت خباط

سُمَیَّةُ بِنْتُ خُبَّاطٍ مولاة أبی حُذَیْفة بْن المغیرة بْن عَبْد الله بْن عمر بن مخزوم.وهی أم عمار بن یاسر. أسلمت قدیمًا بمكة

سمیہ رضی اللہ عنہا بنت خباط ابو حدیفہ رضی اللہ عنہ بن عمربن مخزوم کی آزادکردہ لونڈی اور عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں اوروہ مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سبقت رکھتی ہیں ،خاندان یاسر تاریخ اسلام کاایک ممتازگھرانہ ہےاس گھرکے سب افرادماں باپ اوربیٹاسب دین اسلام کے شیدائی تھے،یہ خاندان اس وقت مسلمان ہواجب گنتی کے چندلوگ ہی ایمان لائے تھے ،

كانت سابع سبعة فی الإسلام

مروی ہےسمیہ رضی اللہ عنہا کاشمارمسلمان ہونے والی باندیوں اورغلاموں میں ساتواں تھا۔[61]

عورتوں میں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا الکبری اورام الفضل کے بعدشایدتیسرانام سمیہ رضی اللہ عنہا کاہے ،

عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:أَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ: النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ زَادَ فِیهِ غَیْرُهُ عَنْ یَحْیَى بْنِ أَبِی بُكَیْرٍ: وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَیَّةُ، وَصُهَیْبٌ، وَبِلَالٌ، وَالْمِقْدَادُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہےجنہوں نے سب سے پہلے اپنااسلام ظاہرکیاوہ سات افرادتھے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ ، سمیہ رضی اللہ عنہا بنت خباط رضی اللہ عنہ، صہیب رضی اللہ عنہ ، بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ وہ ابوحذیفہ بن مغیرہ مخزومی رضی اللہ عنہ کی باندی تھیں ۔

كان قدم یاسر بْن عامر وأخواه الْحَارِث ومالك من الیمن إِلَى مكّة یطلبون أخا لهم فرجع الْحَارِث ومالك إِلَى الیمن وأقام یاسر بمكّة وحالف أَبَا حُذَیْفة بْن المغیرة بْن عَبْد الله بْن عمر بن مخزوم وزوجه أبو حذیفة له یُقَالُ لها سمیة بِنْت خیاط

اس خاندان کاسربراہ عماربن یاسربن عامربن مالک یمن سے تعلق رکھتے تھے ،وہ اپنے دوسرے بھائیوں حارث اور مالک کے ہمراہ اپنے ایک بھائی کوڈھونڈنے آئے تھے،وہ دونوں بھائی تویمن واپس لوٹ گئے لیکن یاسرعنسی کو مکہ کے لوگوں کاطرزمعاشرت اورمکہ کی گلیوں کے نشیب وفرازاچھے لگے اس لئے یہیں کے ہوکررہ گئے اوراس وقت کے دستورکے مطابق ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ مخزومی کے حلیف بن گئے، یاسر رضی اللہ عنہ کے ان سے روزبروزباہمی تعلقات خوشگوارہوتے چلے گئے جس پرابوحذیفہ نے اپنی انتہائی سلیقہ شعار کنیزسمیہ بنت خباط سے ان کا نکاح کردیا،میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے اوران کے بطن سے عمار اور عبداللہ (حریث) پیدا ہوئے۔[62]

فولدت له عمارًا فأعتقه أَبُو حُذَیْفة

ابوحذیفہ نے محبت،شفقت ہمدردی اورسخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمار رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر سمیہ رضی اللہ عنہا کوآزاد کر دیا۔[63]

 عبد الله یقال له حریث فقتله بنو الدیل فی الجاهلیة

عبداللہ جنہیں حریث کہاجاتاہے جاہلیت میں بنوافدیل کے ہاتھو ں قتل ہوگئے۔[64]

ولم یزل یاسر وعمار مع أبی حُذَیْفة إِلَى أن مات ،وجاء الله بالإسلام فأسلم یاسر وسمیة وعمار وأخوه عبد الله بن یاسر

ابوحذیفہ مرتے دم تک ان کے ساتھ حسن سلوک اورمالی امداد فراہم کرتے رہے اور یاسر رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ بھی ابوحذیفہ کے انتقال تک ان کے ساتھ ہی رہے ،جونہی مکہ میں اللہ کے دین کانورچمکاتوان کے کانوں میں بھی یہ پاکیزہ آوازپڑی، مزاج میں حق قبول کرنے کی تڑپ تھی، اوران کادل شرک کی گمراہیوں میں گھٹتاتھا اس لئے یاسر رضی اللہ عنہ ،سمیہ رضی اللہ عنہا ، عمار رضی اللہ عنہ اوران کے بھائی عبداللہ بن یاسر رضی اللہ عنہ یعنی سارا خاندان اللہ پرایمان لانے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں بازی لے گیا۔[65]

سمیہ رضی اللہ عنہا بنت خباط اس وقت خاصی بوڑھی ہوچکی تھیں لیکن دین کی حمایت میں کسی سے کم نہ تھیں ،جب کفارمکہ نے دیکھاکہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام پردھیان دے رہے ہیں اورباطل معبودوں کوچھوڑکراللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے لگے ہیں توان کا غصہ وغضب اورکینہ روز بروز بڑھتا چلا گیا اورانہیں کوئی نہیں ملتاتھاجس پروہ اپناغصہ اتارکراپنے دل کوٹھنڈا کریں ، سوائے ان ضعفاء کے جوکہتے کہ ہمارارب اللہ تعالیٰ ہے اوراس پرقائم رہتے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ،کیونکہ ان کمزوروں کی حمایت اوردفاع کرنے والاکوئی نہیں تھااس بات نے قریش کواوربہادربنادیاتھاچنانچہ وہ ان ضعفاء پرجیناحرام کردیتےاورمختلف طریقوں سے تکالیف پہنچانے لگے ،کبھی انہیں ماراپیٹاجاتا،کبھی کسی کو الٹالٹکادیاجاتا،کسی کوبوری میں لپیٹ کر ایسا دھواں دیاجاتاکہ دم گھٹ جائے،انہوں نے اس طرح نت نئے ستم ایجادکررکھے تھے کہ صرف ان کے خیال ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ،بالخصوص جوظلم وستم آل یاسر پر روا رکھے گئے ان کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا

فَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ وَصَهَرُوهُمْ فِی الشَّمْسِ

سمیہ رضی اللہ عنہا کولوہے کی زرہ پہنائی جاتی اورمکے کی چلچلاتی دھوپ میں جلتی ہوئی ریت پرکھڑا کر دیا جاتا ۔[66]

گرمی کی شدت سے لوہے کی زرہ تپ کرآگ بن جاتی لیکن صابرہ وشاکرہ ضعیفہ آہ تک نہ کرتیں ،یہ لوگ دکھ بھرتے،فاقے سہتے لیکن لاالہ الااللہ کانعرہ ان کے لبوں سے نہ جاتا،ہرامتحان گوارا تھا ، ہر آزمائش منظورتھی لیکن لات وعزیٰ کانام لیناگوارانہ تھا ، کمزوراوربوڑھے مرد تو ایک طرف رہے سرداران مکہ ایک کمزوراوربڑھی عورت کے صبراور اپنے دین پرعزم واستقلال دیکھ کرمبہوت رہ گئے جس سے ان کے غیض وغضب کی آگ اوربھڑک اٹھی اورنت نئی تکالیف دینے کاسلسلہ بڑھتاچلاگیامگرجتناوہ ظلم کرتے ان کااللہ پرایمان اوریقین مزیدپختہ ہوتاچلاگیا خصوصاًاس وقت جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے خاندان کے لئے مغفرت کی دعائیں سنتے۔

فَقَالَ عُثْمَانُ: أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِیَدِی نَتَمَشَّى فِی الْبَطْحَاءِ حَتَّى أَتَى عَلَى أَبِیهِ وَأُمِّهِ وَعَلَیْهِ یُعَذَّبُونَ ،فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: یَا رَسُولَ اللَّهِ الدَّهْرَ هَكَذَا؟فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اصْبِرْ ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِآلِ یَاسِرٍ وَقَدْ فَعَلْتُ

عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا جہاں یاسر رضی اللہ عنہ ،ان کی بیوی سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہ اوران کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ کوایسی دردناک تکالیف دی جارہی تھیں جس سے دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں لیکن بے بسی کایہ عالم ہے کہ انہیں دشمن کے چنگل سے کوئی چھڑانہیں سکتا ، ابو عمار رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکرعرض کیا کیا زمانہ ایساہی ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصبرکروپھرفرمایااے اللہ!آل یاسرکی مغفرت فرمااورجوکہ توکرہی چکاہے۔[67]

فَقَالَ عَمَّارٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ مِنَّا أَوْ بَلَغَ مِنْهَا الْعَذَابُ كُلَّ مَبْلَغٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. صَبْرًا أَبَا الْیَقْظَانِ. اللَّهمّ لا تُعَذِّبْ أَحَدًا مِنْ آلِ یَاسِرٍ بِالنَّارِ

ایک اورروایت میں ہےجب عمار رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے والد،اپنی والدہ پرقریش کی سختیوں اورظلم کاشکوہ کیاکہنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم پرتکلیفوں کی انتہاہوگئی ہےتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ ابویقظان( عمار رضی اللہ عنہ کی کنیت) صبرکرو،اے اللہ!آل یاسرمیں کسی کوآگ کاعذاب نہ دینا۔[68]

وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَمَّارٍ، وَأُمِّهِ، وَأَبِیهِ، وَهُمْ یُعَذَّبُونَ بِالأَبْطَحِ فِی رَمْضَاءِ مَكَّةَ، فَیَقُولُ: صَبْرًا آلَ یَاسِرٍ، مَوْعِدُكُمُ الْجَنَّةُ

ایک اورروایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمار رضی اللہ عنہ ،ان کی والدہ اوروالدکے پاس سے گزرے جبکہ انہیں بطع کے مقام پرعذاب دیاجارہاتھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخوشخبری ہواے آل عمار!بیشک تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔[69]

جب ان کے شوہر یاسر رضی اللہ عنہ سختیاں جھیلتے ہوئے جاں بحق ہوگئے توابوحذیفہ بن مغیرہ نے سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابوجہل کے حوالے کردیا جس سے سمیہ رضی اللہ عنہا کاعقیدہ اور بھی مضبوط ہوگیااورانہوں نے مقابلے کاچیلنج دے دیاجسے بنومغیرہ مخزومی نے قبول کرلیاجن میں سرفہرست ابوجہل تھا وہ ایک بوڑھیاباندی سمیہ رضی اللہ عنہا کی مقابلہ آرائی سے دیوانہ ہوگیا اوران پرظلم کی انتہاکردی ، یہ صحابیہ بہادری کے ساتھ ابوجہل کے ظلم وستم جھیلتی رہیں ،ابوجہل نے ہرچندانہیں کہاکہ تم اپنے دین سے کنارہ کشی کرلولیکن انہوں نے نہ تواپنا دین بدلااورنہ ہی ان کاایمان اورعزم واستقلال کمزورہوا ، آخرجب وہ اپنے ہرظلم وستم کوآزماچکااور مقصدباطل میں ناکام ہوگیاتواس نے اپنی شقاوت قلبی کامظاہرہ کرنے کے لئے دواونٹ منگوائے ، دونوں کومخالف سمت میں کھڑاکرکے سمیہ رضی اللہ عنہا کی ایک ٹانگ ایک اونٹ کے ساتھ اوردوسری ٹانگ دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھ دی اور سمیہ رضی اللہ عنہا سے کہاابھی وقت ہے اپنے دین کوترک کردوورنہ تمہاری لاش کے دوٹکڑے ہو جائیں گے مگر سمیہ رضی اللہ عنہا نے زندگی بچانے کے لئے کفرمیں پناہ لینے اوراسلام کادامن چھوڑنے سے انکارکردیا۔

فَأَمَّا سُمَیَّةُ فَإِنَّهَا رُبِطَتْ بَیْنَ بعیرین وو جیء قُبُلُهَا بِحَرْبَةٍ فَقُتِلَتْ وَهِیَ أَوَّلُ شَہِیدَةٍ فِی الْإِسْلَامِ

چنانچہ اس نے حکم دیاکہ اونٹوں کومخالف سمت میں بھگادیاجائے اورایک نیزہ لیکروحشت ودرندگی کے عالم میں سترعورت کی ایسی نازک جگہ وارکیا اورواربھی اس غضب کاکہ نیزہ جسم کے پارنکل گیا، سمیہ رضی اللہ عنہا کاجسم چیرکر دوٹکڑے ہو گیا ، اوروہیں اللہ کوپیاری ہوکرامرہوگئیں ،اسلام میں وہ پہلی شہیدہیں ۔[70]

جب بھی شہداء اسلام کاتذکرہ ہوتاہے توان کانام سرفہرست چمکتا نظر آتا صبر کی یاد دلاتا اور ہمیشہ کی جنت کی طرف اشارہ کرتاہے۔

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (فاتح ایران)

عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ: كَانَ أَبِی رَجُلا قَصِیرًا. دَحْدَاحًا. غَلِیظًا. ذَا هَامَةٍ. شَثْنَ الأَصَابِعِ. أَشْعُرَ. وَكَانَ یَخْضِبُ بِالسَّوَادِ

عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرے والدپست قد، ٹھگنے،موٹے ،بڑے سروالے ،انگلیاں موٹی تھیں بال بہت تھے اورسیاہ خضاب لگاتے تھے۔[71]

سعدبن ابی وقاص کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے قبیلہ بنوزہرہ سے تھا اس رشتے سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں زاد بھائی لگتے تھے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں عقل ودانش،فہم وفراست، خاندانی شرافت ، معاملات میں امانت ودیانت داری ،اوربہادری وشجاعت کے جوہرمیں نمایاں کیاتھا ،آپ اپنے والدین کے مطیع فرمان تھے مگر اپنی والدہ سے بہت زیادہ پیارکرتے تھے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کوفطرت سلیمہ عطافرمائی تھی،آپ میں شرافت ، دیانت وامانت اورشجاعت کے جوہرکوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے اس لئے ابھی سترہ برس کے ہی تھے مگر اپنی قوم کی بداخلاقیوں ،بداعمالیوں اورشرکیہ عبادات سے متنفر رہتے تھے، اپنے ہم عمر لڑکوں کی طرح کھیل کود اور فسق وفجورمیں مبتلا ہونے کے بجائے اپنازیادہ تروقت جنگی فنون تیراندازی ،تلوار اور نیزہ بازی کی مشق میں صرف کرتے تھے ،ان کے پاکیزہ کردارواطوار کی بناپرلوگ انہیں عزت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے ،آپ بھی دوسرے اصحاب کی طرح شدت سے حق کے متلاشی تھے،

رَأَیْت فِی الْمَنَام قبل ان اسْلَمْ كَأَنِّی فِی ظلمَة لَا أبْصر شَیْئا إِذْ أَضَاء لی قمر فاتبعته فَكَأَنِّی انْظُر الى من یسبقنی إِلَى ذَلِك القمر، فَأنْظر إِلَى زید بن حَارِثَة وَإِلَى عَلیّ وَإِلَى أبی بكر وَكَأَنِّی أسألهم مَتى أتیتم الى هَا هُنَا قَالُوا السَّاعَة وَبَلغنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو إِلَى الاسلام مستخفیا فَلَقِیته فِی شعب أجیاد ، وقد صلى العصر فأسلمت فما تقدمنی أحد إلا هم

ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھاکہ وہ تاریکیوں میں غوطے لگا رہے ہیں کہ اچانک ایک روشن چاندکوچمکتے دیکھ کراس کی طرف لپکے ،جب قریب پہنچے تو سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب، زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کوپہلے سے وہاں موجود پاکر ششدر رہے گئے،ان تینوں اصحاب سے پوچھاکہ وہ یہاں کب تشریف لائے ہیں ؟ انہوں نے جواباً کہاابھی ہی آئے ہیں ،جب صبح ہوئی توکسی طرح انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کاعلم ہواتوانہیں فورا ًاپنارات والاخواب یادآگیاجس سے ان کی فطرت سلیمہ نے فورا ًاندازہ لگالیاکہ باری تعالیٰ ان کے ساتھ بھلائی وخیروبرکت کاارادہ رکھتے ہیں اور ان کوکفروشرک کی گہری دلدل سے نکال کرصراط مستقیم پرچلانے چاہتے ہیں ، چنانچہ اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر آپ رضی اللہ عنہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کومحلہ جیادکی ایک گھاٹی میں عصرکی نمازپڑھتے ہوئے پالیا۔[72]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دین اسلام قبول کرنے کی تمنا ظاہر کی جسے سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اورانہیں دائرہ اسلام میں داخل فرمایا، آپ نے قبول اسلام کرنے والوں میں تیسرے ، چوتھے یاچھٹے مسلمان ہونے کا شرف حاصل کیا ، مگراسلام قبول کرنااتناآسان کام نہ تھاجب ان کی والدہ کواپنے بیٹے کے اسلام لانے اوراپنے موروثی معبودان سے منحرف ہونے کاعلم ہواتوسیخ پاہوگئیں ۔

قَالَتْ: یَا سَعْدُ، مَا هَذَا الَّذِی أَرَاكَ قَدْ أَحْدَثْتَ؟ لَتَدَعَنّ دِینَكَ هَذَا أَوْ لَا آكُلُ وَلَا أَشْرَبُ حَتَّى أَمُوتَ، فَتُعَیَّر بِی فَیُقَالُ:یَا قَاتِلَ أُمِّهِ،فَقُلْتُ: لَا تَفْعَلِی یَا أمَه، فَإِنِّی لَا أَدْعُ دِینِی هَذَا لِشَیْءٍ ، فمكثتْ یَوْمًا وَلَیْلَةً لَمْ تَأْكُلْ فَأَصْبَحَتْ قَدْ جَهِدَتْ، فمكثتْ یَوْمًا آخَرَ وَلَیْلَةً أُخْرَى لَا تَأْكُلْ، فأصبحتْ قَدِ اشْتَدَّ جُهْدُهَا فَلَمَّا رَأَیْتُ ذَلِكَ قُلْتُ: یَا أُمَّهْ، تَعْلَمِینَ وَاللَّهِ لَوْ كَانَتْ لكِ مِائَةُ نَفْسٍ فخَرجت نَفْسا نَفْسًا، مَا تَرَكْتُ دِینِی هَذَا لِشَیْءٍ، فَإِنْ شِئْتِ فَكُلِی، وإن شئت لا تأكلی،فلما رأت ذلك فأكلتْ

اورکہنے لگیں اے سعد رضی اللہ عنہ !یہ کیسادین تونے اختیارکیاہے جس نے تجھے اپنے آباؤ اجدادکے دین سے برگشتہ کردیاہے،میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہوجاؤ پھر دھمکی دے کر بولیں جب تک تم اس دین کوترک نہ کروگے اس وقت تک نہ میں کچھ پیوں گی اور نہ کھاؤ ں گی اوراسی حالت میں دم دے دوں گی،میں نے اسلام کونہیں چھوڑاتومیری ماں نےاپنی دھمکی پرعمل کرنے لگیں ،اورہرطرف سے مجھ پرآوازہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے میں بہت دل تنگ ہوا،اپنی والدہ کی خدمت میں باربارعرض کیا،خوشامدیں کیں ، سمجھایا کہ اللہ کے لیے اپنی ضدسے بازآجاؤ یہ توناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کوچھوڑدوں ،مگران کی ایک ہی بات تھی کہ اس دین کو چھوڑکرواپس اپنے آبائی دین پر آجاؤ ورنہ میں اپنی جان دے دوں گی،اس ضد میں میری والدہ پرتین دن کافاقہ گزرگیا اوروہ بھوک وپیاس سے بہت لاغر ہو گئیں مگراپنی دھمکی پرقائم رہیں ،آخرجب کئی روزہوگئے اوروہ اپنی ہٹ دھرمی سے نہ ہٹیں تو سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پختہ عزم واستقلال اور وا شگاف اندازمیں اپنی والدہ سے عرض کی کہ اے امی جان بلاشبہ میں آپ سے بہت محبت کرتاہوں لیکن میرے دین سے زیادہ عزیزنہیں واللہ !ایک نہیں تمہاری سوجانیں بھی ہوں اوراسی بھوک پیاس میں ایک ایک کرکے سب نکل جائیں توبھی میں آخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہیں چھوڑوں گااب چاہے تمہیں کھاؤ یانہ کھاؤ یہ تم پرمنحصرہے، جب ان کی والدہ نے سعد رضی اللہ عنہ کا رسول سے اس درجہ محبت کا اندازہ کر لیاکہ ان کے لئے وہ اپنی والدہ کوبھی ان پر قربان کرسکتاہے توبادل نخواستہ کھانا پینا شروع کردیا۔[73]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجیدمیں یہ آیات نازل فرمائیں ۔

 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ۝۰ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۝۰ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۝۰ۡوَّاتَّبِــعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۵ [74]

ترجمہ: حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کواپنے والدین کاحق پہچاننے کی خودتاکیدکی ہے ،اس کی ماں نے ضعف پرضعف اٹھاکراسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کادودھ چھوٹنے میں لگے(اسی لئے ہم نے اس کونصیحت کی کہ) میراشکرکراوراپنے والدین کاشکربجالاومیری ہی طرف تجھے پلٹناہے ،لیکن اگروہ تجھ پر دباوڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تونہیں جانتا(یعنی جوتیرے علم میں میراشریک نہیں )توان کی بات ہرگزنہ ماننا،اوردنیامیں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو، مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کرجس نے میری طرف رجوع کیاہے ،پھرتم سب کوپلٹنامیری ہی طرف ہے،اس وقت میں تمہیں بتادوں گاکہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو ۔

فَكَانَ أَصْحَابُهُ إِذَا أَرَادُوا الصَّلَاةَ ذَهَبُوا إِلَى الشِّعَابِ فَاسْتَخْفَوْا، فَبَیْنَمَا سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ وَعَمَّارٌ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَخَبَّابٌ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ یُصَلُّونَ فِی شِعْبٍ، اطَّلَعَ عَلَیْهِمْ نَفَرٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ، مِنْهُمْ: أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، وَالْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ، وَغَیْرُهُمَا فَسَبُّوهُمْ وَعَابُوهُمْ حَتَّى قَاتَلُوهُمْ، فَضَرَبَ سَعْدٌ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِینَ بِلِحْیِ جَمَلٍ فَشَجَّهُ، فَكَانَ أَوَّلَ دَمٍ أُرِیقَ فِی الْإِسْلَامِ

دعوت حق کے آغازمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں سعدبن ابووقاص رضی اللہ عنہ ،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،خباب اورسعیدبن زید رضی اللہ عنہم شامل تھےکفارکی شرانگیزی سے بچنے کے لیے مکہ مکرمہ کے قریبی پہاڑوں کی سنسان گھاٹیوں میں چھپ کراللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے،کسی طرح مشرکین کوجن میں ابوسفیان بن حرب ،اخنس بن شریق وغیرہ شامل تھےاس بات کی خبرہوگئی،پہلے تووہ مسلمانوں پرآوازے کسنے لگے اورپھران پرحملہ کردیا، سعد رضی اللہ عنہ کی اٹھتی جوانی تھی انہیں جوش آگیاپاس ہی اونٹ کی ایک ہڈی پڑی ہوئی تھی اسے اٹھاکرمشرکین پرپل پڑےجس سے ایک مشرک کاسرپھٹ گیااوراس میں سے خون بہنے لگا، علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص پہلے شخص ہیں جنہوں نے حق کی حمایت میں خونریزی کی۔[75]

شَهِدَ سَعْدُ بَدْرًا وأحدا وثبت یَوْمَ أُحُدٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حین ولى الناس ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ رَأَیْتُ سَعْدًا یُقَاتِلُ یَوْمَ بَدْرٍ قِتَالَ الْفَارِسِ فِی الرِّجَالِ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شامل ہوئے، عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے غزوہ بدرمیں سعد رضی اللہ عنہ کوجنگ کرتے دیکھاوہ پیادہ تھے مگرشہسواروں کی طرح لڑرہے تھے۔[76]

وثبت یَوْمَ أُحُدٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حین ولى الناس وَشَهِدَ الْخَنْدَقَ وَالْحُدَیْبِیَةَ وَخَیْبَرَ وَفَتِحَ مَكَّةَ وَكَانَتْ مَعَهُ یَوْمَئِذٍ إِحْدَى رَایَاتِ الْمُهَاجِرِینَ الثَّلاثُ وَشَهِدَ الْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مِنَ الرُّمَاةِ الْمَذْكُورِینَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورغزوہ احدمیں حاضر ہوئےغزوہ احدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب لوگوں نے پشت پھیری تووہ اس وقت ثابت قدم رہے،غزوہ خندق ،حدیبیہ اورغزوہ خیبراورفتح مکہ میں بھی حاضرہوئے،اس روز(فتح مکہ کے دن) مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک ان کے پاس تھا، تمام مشاہدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حاضرہوئے،اوروہ ان اصحاب میں سے تھے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتیراندازوں میں بیان کیے گئے ہیں ۔[77]

ان کی طرف کچھ اشعارمنسوب ہیں ۔

أَلا هَلْ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ أَنِّی,حَمَیْتُ صِحَابَتِی بِصُدُورِ نَبْلِی

اے وہ رسول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،میں نے اپنے تیروں کی نوک سے اپنے ہمراہیوں کی حفاظت کی

أَذُودُ بِهَا عَدُوَّهُمُ ذِیَادًا،بِكُلِّ حُزُونَةٍ وَبِكُلِّ سَهْلِ

میں ان تیروں کے ذریعے سے ان کے دشمن کودفع کرتاتھا،ہرسکت زمین سے اورہرنرم زمین سے

فَمَا یُعْتَدُّ رَامٍ مِنْ مَعَدٍّ ،بِسَهْمٍ مَعْ رَسُولِ اللَّهِ قَبْلِی

مجھ سے پہلے کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتیراندازنہیں شمارہوتاتھا۔[78]

وأحد الستة أهل الشورى

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب شوری میں شامل تھے۔[79]

جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت فرمائی تھی،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِی، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ مِنْ هَذَا الْبَابِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَدَخَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ

عبد الله بن عمروبن عاص سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایاجوشخص اس دروازے سے پہلے داخل ہوگاوہ جنتی ہے توسب سے پہلے سعدبن ابی وقاص اس دروازے سے داخل ہوئے۔[80]

جن کے بارے میں امام المتقین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُفَدِّی رَجُلًا بَعْدَ سَعْدٍ سَمِعْتُهُ یَقُولُ:ارْمِ فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سعدبن ابی وقاص کے بعدمیں نے کسی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سناکہ آپ نے خودکوان پرفداکیا،میں نے سناکہ آپ فرمارہے تھے تیر چلاؤ (اے سعد!)تم پرمیرے ماں باپ قربان ہوں ۔[81]

عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ: نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ: اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لَهُ إِذَا دَعَاكَ

قیس بن ابی حازم سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن مالک کے لیے فرمایااے للہ!جب وہ دعاکریں توان کی دعاقبول فرما۔[82]

ارباب سیرنے شہسواراسلام سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کے دوسرے اوصاف ومحاسن کے علاوہ ان کے ذوق عبادت ،خوف خدااورعلم وفضل کابھی خصوصیت سے کیاہے،ان پرہروقت خشیت الٰہی کاغلبہ رہتاتھا،نہایت کثرت سے روزے رکھتے تھے اوررات کابیشترحصہ یادالٰہی میں گزارتے تھے ،نمازکے لیے کھڑے ہوتے توخوف الٰہی سے جسم پرلرزہ طاری ہوجاتااورچہرےکارنگ متغیرہوجاتا،نمازتہجدکاخاص التزام تھااکثرآدھی رات کے بعدمسجدنبوی میں جاکرنہایت خشوع وخضوع سے نمازیں پڑھاکرتے تھے،نمازکے بعدنہایت عجزوالحاح سے دعامانگتے تھے کہ الٰہی!میرے گناہوں کوبخش دے اورمجھے اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق دے،رمضان المبارک آتاتوان کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہتی ،اس مقدس مہینے میں رات دن عبادت کے سواکوئی شغل نہ ہوتا،رات کے آخری حصے میں خوف خداسے اس قدرروتے کہ ریش مبارک اورجائے نمازآنسوؤ ں سے ترہوجاتی ،قرآن مجیدسے غیرمعمولی شغف وانہماک تھاتلاوت قرآن میں کبھی ناغہ نہیں آنے دیتے تھے ،ایسی خوش ا لحانی اوردردکے ساتھ تلاوت کرتے کہ سننے والوں پرمحویت کاعالم طاری ہوجاتاتھا، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن سائب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سعد رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اورفرمایاعبدالرحمٰن میں نے سناہے کہ تم قرآن کریم کی قرات خوش الحانی سے کرتے ہومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ قرآن عبرت کے لیے نازل ہواہے اس لیے جب پڑھوتوروؤ اگرروتے نہیں توتمہاری صورت سے عبرت پذیری کااظہارہواوراس کوخوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔

وَكَانَ یَوْمَ مَاتَ ابْنَ بِضْعٍ وَسَبْعِینَ سَنَةً

انہوں نے ستربرس سے زیادہ عمرپائی۔[83]

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ لَمَّا تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَمُرُّوا بِجَنَازَتِهِ فِی الْمَسْجِدِ ،فَبَلَغَهُنَّ أَنَّ النَّاسَ عَابُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: مَا كَانَتِ الْجَنَائِزُ یُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: مَا أَسْرَعَ النَّاسَ إِلَى أَنْ یَعِیبُوا مَا لا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ. عَابُوا عَلَیْنَا أَنْ یُمَرَّ بِجِنَازَةٍ فِی الْمَسْجِدِ وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَیْلِ بْنِ بَیْضَاءَ إِلا فِی جَوْفِ الْمَسْجِدِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب سعدبن ابی وقاص کی وفات ہوئی توازواج مطہرات صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلابھیجاکہ ان کاجنازہ مسجدسے گزاریں ،لوگوں نے ایساہی کیاان کاجنازہ ان کے حجروں کے پاس روکاگیا،ازواج مطہرات نے ان پر نمازجنازہ پڑھی پھرانہیں اس باب الجنائزسے نکالاگیاجوالمقاعدکی جانب تھا،ازواج مطہرات کومعلوم ہواکہ لوگوں نے اس پراعتراض کیاہے کہ جنازوں کومسجدمیں داخل نہیں کیا جاتاتھا،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کومعلوم ہواتوانہوں نے فرمایاکہ لوگوں کواس تیزی سے اس بات کی طرف کس نے چلایاکہ وہ اس پراعتراض کربیٹھے جس کاانہیں علم نہیں ،انہوں نے ہم پراعتراض کیاکہ مسجدمیں جنازہ گزاراگیاحالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن البیضاپرصحن مسجدہی میں نمازپڑھی۔[84]

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان(ذوالنورین )

عثمان بن عفان. وأمه أروى بنت كریز وأمها أم حكم. وهی البیضاء بِنْت عَبْد المُطَّلِب وكان عثمان فی الجاهلیة یكنى أبا عمروفلما كان الإسلام ولد له من رقیة بنت رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غلام سماه عَبْد الله واكتنى به فكناه المسلمون أَبَا عَبْد الله

آپ کااسم گرامی عثمان والدکانام عفان والدہ کانام ارویٰ بنت کریزاورام حکیم البیضاء بنت عبدالمطلب،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ کی حقیقی ہمشیرہ،زمانہ جاہلیت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعمرو تھی، جب اسلام کاظہورہواتورقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں ایک لڑکاپیداہواجس کانام انہوں نے عبداللہ رکھااوراسی نام سے اپنی کنیت ابوعبداللہ رکھ لی،مسلمانوں نے انہیں ابوعبیداللہ کی کنیت سے پکارا اورلقب غنی تھا،دوسرے لفظوں میں عثمان غنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھانجے تھے،آپ کاتعلق بنوامیہ سے تھااورسلسلہ نسب یوں ہے،عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ عبدشمس بن عبدمناف،یعنی آپ کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبدمناف پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتاہے۔آپ کی ولادت ۵۷۶ء مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

حلیہ :

كَانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ حسن الوجه دقیق الْبَشَرَةِ، كَبِیرَ اللِّحْیَةِ، مُعْتَدِلَ الْقَامَةِ، عَظِیمَ الْكَرَادِیسِ، بَعِیدَ مَا بَیْنَ الْمَنْكِبَیْنِ، كَثِیرَ شَعْرِ الرَّأْسِ، حسن الثغر، فیه سمرة، وقیل كان فی وجهه شئ مِنْ آثَارِ الْجُدَرِیِّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ. وَعَنِ الزهری: كان حسن الوجه والثغر، مربوعاً، أصلع، أروح الرجلین.یخضب بالصفرة وكان قد شد أسنانه بالذهب وقد كسى ذراعیه الشعر.

آپ کاچہرہ خوبصورت ،کھال باریک ،داڑھی بڑی ، قددرمیانہ ،جوڑوں کی ہڈیاں بڑی،کندھوں کے درمیان فاصلہ،سرکے بال زیادہ ،دانت خوبصورت جن میں گندم گونی پائی جاتی تھی اوربعض کاقول ہے کہ آپ کے چہرے میں چیچک کے کچھ نشان بھی تھےاورزہری کابیان ہے کہ آپ کاچہرہ اوردانت خوبصورت ،قددرمیانہ، سرکے اگلے بال اڑے ہوئے ،ٹانگیں کشادہ ، آپ سیاہی سے رنگ کرتے تھے اورآپ نے اپنے دانتوں کوسونے سے کساہواتھااورآپ کے بازؤ وں پربہت بال تھے۔ [85]

آپ نہایت ذہین وہونہار،بااخلاق ،اعلیٰ کرداررکھتے تھے،کہتے ہیں ہونہارکے چکنے چکنے پاؤ ں ،آپ بچپن سے ہی نیک کاموں کی طرف راغب اوراس وقت کی تمام آلودگیوں سے متنفر تھے،شرم وحیاء آپ میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی،اسلام لانے کے بعدمسلمانوں میں کامل الحیاء والایمان کے الفاظ آپ کے لئے استعمال کیے گئے ، عرب میں جبکہ لکھنے پڑھنے کاکوئی رواج نہیں تھامگرآپ نے کم عمری میں ہی لکھناپڑھناشروع کیااوراس میں کمال مہارت حاصل کی، قریش کے عام نوجوانوں کی طرح جوان ہوکر تجارت کاپیشہ اختیارکیااوراپنی ایمانداری اورصداقت کی بناپرتجارت میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی،اللہ نے اپنے فضل وکرم سے دولت میں بہت برکت عطافرمارکھی تھی اس لئے مٹی بھی خریدتے تووہ سونابن جاتی تھی جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں ایک ممتاز،معززاوردولت مندتاجرکی حیثیت سے مشہور ہوئے،کیونکہ طبیعت میں فیاضی و سخاوت تھی اس لئے ہمیشہ دل کھول کر اپنامال رفاعی واسلامی امورپربے دریغ خرچ کرتے تھے اس لئے غنی کے لقب سے پکارے جانے لگے،آپ کوکئی شرف حاصل ہیں ، ان کاشمارالسابقون الاولون میں ہوتاہے۔

عثان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کاواقعہ یوں بیان کرتے ہیں ۔

أنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَوَّجَ ابْنَتَهُ رُقَیَّةَ وَكَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ مِنَ ابْنِ عَمِّهَا عُتْبَةَ بْنِ أَبِی لَهَبٍ، تَأَسَّفَ إِذْ لَمْ یَكُنْ هُوَ تَزَوَّجَهَا فَدَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ مَهْمُومًا فَوَجَدَ عِنْدَهُمْ خَالَتَهُ سُعْدَى بِنْتَ كُرَیْزٍ وَكَانَتْ كَاهِنَةً فَقَالَتْ لَهُ:أَبْشِرْ وَحُیِّیِتَ ثَلَاثًا تَتْرَا، ثُمَّ ثَلَاثًا وَثَلَاثًا أُخْرَى، ثُمَّ بِأُخْرَى كَیْ تَتِمَّ عَشْرَا أَتَاكَ خَیْرٌ وَوُقِیتَ شَرَّا أُنْكِحْتِ وَاللَّهِ حَصَانًا زَهْرَا، وَأَنْتَ بِكْرٌ وَلَقِیتَ بِكْرَا، وَافَیْتَهَا بِنْتَ عَظِیمٍ قَدْرَا، بَنَیْتَ أَمْرًا قَدْ أَشَادَ ذِكْرَا،قَالَ عثمان: فعجبت من أمرها حیث تبشرنی بالمرأة قَدْ تَزَوَّجَتْ بِغَیْرِی

جب مجھےپتہ چلاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کاجوبڑی صاحب جمال تھیں ان کے عم زادعتبہ بن ابی لہب سے نکاح کردیاہے تومیں متاسف ہواکہ آپ سے نکاح نہ کرسکا،میں غمگین ہوکر گھرلوٹاتووہاں اپنی خالہ سعدی بنت کریز کوجوکہانت بھی کیاکرتیں تھیں موجوپایااس نے مجھ سے کہاخوش ہوجاؤ اورآپ کوپے درپے تین سلام ہوں ،پھرتین ہوں پھرتین ہوں پھرایک اورسلام ہوتاکہ دس پورے ہوجائیں ،آپ کے پاس بھلائی آئے گی اورآپ شرسے بچائے جائیں گے،اللہ کی قسم !آپ اصیل اورخوب صورت لڑکی سے نکاح کریں گے اورآپ کنوارے ہیں اورکنواری سے ملیں گے، میں نے اسے عظیم القدرپایاہے آپ نے ایسے کام کی بنیادرکھی ہے جوشہرت کوبلندکردے گا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہامیں اس کی بات سے بہت حیران ہواوہ مجھے ایسی عورت کی بشارت دیتی ہے جس نے کسی اورسے نکاح کرلیاہے۔

فَقُلْتُ: یَا خَالَةُ! مَاتَقُولِینَ؟ فَقَالَتْ: عُثْمَانُ لَكَ الْجَمَالُ، ولكِ اللِّسَانُ، هذا النبی مَعَهُ الْبُرْهَانُ.أَرْسَلَهُ بِحَقِّهِ الدَّیَّانُ.وَجَاءَهُ التَّنْزِیلُ وَالْفُرْقَانُ، فَاتْبَعْهُ لَا تَغْتَالُكَ الْأَوْثَانُ ،قَالَ: فَقُلْتُ إِنَّكِ لَتَذْكُرِینَ أَمْرًا مَا وَقَعَ بِبَلَدِنَا،فَقَالَتْ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، جَاءَ بِتَنْزِیلِ اللَّهِ، یَدْعُو بِهِ إِلَى اللَّهِ، ثمَّ قَالَتْ: مِصْبَاحُهُ مِصْبَاحُ، وَدِینُهُ فَلَاحُ، وَأَمْرُهُ نَجَاحُ، وَقَرْنُهُ نَطَاحُ، ذلَّت لَهُ الْبِطَاحُ، مَا یَنْفَعُ الصِّیَاحُ، لَوْ وَقَعَ الذِّبَاحُ، وَسُلَّتِ الصِّفَاحُ وَمُدَّتِ الرِّمَاحُ، قَالَ عُثْمَانُ: فَانْطَلَقْتُ مُفَكِّرًا فَلَقِیَنِی أَبُو بَكْرٍ فَأَخْبَرْتُهُ

میں نے خالہ سے کہاآپ جوکچھ کہہ رہی ہیں میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا؟آپ ایک ایسی بات کاذکر کررہی ہیں جس کامکہ میں کوئی تذکرہ ہی نہیں ،اس پر میری خالہ نے کہااے عثمان!تجھے خوبصورتی اورزبان حاصل ہے اوراس نبی کے ساتھ برہان ہے جسے بدلہ دینے والے نے حق کے ساتھ بھیجاہے اوراس کے پاس تنزیل وفرقان آیاہے ، پس اس کی اتباع کراوربت تجھے ہلاک نہ کردیں ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہاتوایسی بات کاذکرکررہی ہے جس کاہمارے ملک میں ظہورنہیں ہواہے،کہنے لگیں محمدبن عبداللہ ،اللہ کے رسول ہیں جوتنزیل الٰہی کے ساتھ آئے ہیں اوروہ اس کے ذریعےلوگوں کواللہ کی طرف بلاتے ہیں ،پھراس نے کہااس کاچراغ ، چراغ ہے اوراس کادین فلاح ہے اوراس کاحکم کامیابی ہے اوراس کامدمقابل ماراہواہےاوروادیاں اس کی مطیع ہیں اورشوروغل کوئی فائدہ نہیں دے گاخواہ حلق دردکرے اور رخسارکی ہڈیاں کھینچ جائیں اورنیزے لمبے ہوجائیں ،یہ اشعارسناکروہ چلی گئیں مگرانہوں نے جوکچھ کہا تھا وہ میرے دل میں اترگیااورمیں غورو فکرکرتاہواچل پڑا تجارت اورطبیعت میں ہم آہنگی کی وجہ سے میرے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اچھے روابط تھے،میں اسی تفکرمیں جارہاتھاکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے متفکر دیکھا تو میرے تفکر کیوجہ دریافت کی،میں نے اپنی خالہ سے جوکچھ سناتھامن وعن ان کے گوش گزارکردیا،

فَقَالَ: وَیْحَكَ یَا عُثْمَانُ إِنَّكَ لَرَجُلٌ حَازِمٌ، مَا یَخْفَى عَلَیْكَ الْحَقُّ مِنَ الْبَاطِلِ، مَا هَذِهِ الْأَصْنَامُ الَّتِی یَعْبُدُهَا قَوْمُنَا؟ أَلَیْسَتْ مِنْ حِجَارَةٍ صُمٍّ لَا تَسْمَعُ وَلَا تُبْصِرُ وَلَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ؟قَالَ قُلْتُ بَلَى! وَاللَّهِ إِنَّهَا لَكَذَلِكَ،فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَدَقَتْكَ خَالَتُكَ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَدْ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى خَلْقِهِ بِرِسَالَتِهِ، هَلْ لَكَ أَنْ تَأْتِیَهُ؟فاجتمعنا برَسُولُ اللَّهِ فقال: یا عثمان أجب الله إلى حقه، فَإِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیْكَ وَإِلَى خَلْقِهِ، قَالَ:فواللہ ماتمالکت حین سمعت قولہ اسْلَمْتُ

اس پرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہااے سیدناعثمان!تم ایک ہوشیاراورسمجھ دارنوجوان ہوتم میں حق وباطل کو پرکھنے کی تمیزہےتم جیسے نوجوان کوحق وباطل میں اشتباہ نہیں ہوسکتا،یہ مٹی پتھراورلکڑی وغیرہ کے معبودجواندھے ،بہرے اورگونگے ہیں جونہ ہماری پکارکو سن سکتے ہیں اور نہ ہماری حالت زاردیکھ سکتے ہیں ،اورنہ کچھ کہہ سکتے ہیں ،یہ ہمارے اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے معبودہیں جونہ کسی کونفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی نقصان ،مگرہماری قوم معبودحقیقی کو چھوڑکر ان کی پرستش میں مگن ہے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کرمیں نے کہااللہ کی قسم! آپ نے جوکچھ کہاٹھیک ہی کہا یہ معبودایسے ہی ہیں ،اس پرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاتمہاری خالہ نے تمہیں سچ ہی کہا ہے،محمدبن عبداللہ، اللہ کے رسول ہیں ،اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپناپیغام دے کرتمام مخلوقات کی طرف مبعوث فرمایاہے ، اگرتم مناسب خیال کروتوان سے ملاقات کرواوراللہ نے جوکلام نازل کیاہے اسے سنواورخودہی فیصلہ کرلو، پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عثمان !اللہ کے حق کوقبول کرومجھے تمہاری اورتمام مخلوق کی طرف اللہ کارسول ہوں ، عثمان رضی اللہ عنہ آپ کے فضائل واخلاق سے بہترین طورپرواقف تھے ، ان کے سامنے آپ کی زندگی کھلی کتاب کی طرح تھی اس لئے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پہنچائی فورا ًایمان لانے میں کچھ بھی تامل نہ ہوا ، سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کی قسم !آپ کاکلام سنتے ہی میں ایسابے خودہواکہ بے اختیارفوراًدعوت اسلام کو قبول کرلیااورکلمہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میری زبان سے جاری ہوگیا۔[86]

پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ عمربھرجان ومال ودولت سے اسلام اورمسلمانوں کی خدمت میں مشغول رہے،آپ رضی اللہ عنہ خودکہتے تھے کہ میں اسلام قبول کرنے والے چار میں چوتھاہوں ۔

لَمَّا أَسْلَمَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَخَذَهُ عَمُّهُ الْحَكَمُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ بْنِ أُمَیَّةَ فَأَوْثَقَهُ رِبَاطًا وَقَالَ: أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ آبَائِكَ إِلَى دِینٍ مُحْدَثٍ؟وَاللَّهِ لا أَحُلُّكَ أَبَدًا حَتَّى تَدَعَ مَا أَنْتَ عَلَیْهِ مِنْ هَذَا الدِّینِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: وَاللَّهِ لا أَدَعُهُ أَبَدًا وَلا أُفَارِقُهُ، فَلَمَّا رَأَى الْحَكَمُ صَلابَتَهُ فِی دِینِهِ تَرَكَهُ

جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیاتوان کے چچاحاکم بن ابی العاص نے ان کورسی میں باندھ دیااورکہاکیاتم اپنے آباؤ اجدادکےدین کو چھوڑکرایک نیادین کی طرف پھرتے ہو ؟ اللہ کی قسم !میں تمہیں کبھی نہ کھولوں گاتاوقتیکہ تم اس دین کوترک نہ کردو، عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیااللہ کی قسم!میں اس دین کوکبھی نہیں چھوڑوں گااورنہ کبھی اس سے علیحدہ ہوں گا، چچانے جب ان کاعزم دیکھاکہ یہ اپنے دین پرکس قدرمحکم اورپختہ ہیں تو انہیں چھوڑدیا۔[87]

وكانت رقیة ذات جمال بارع،ثُمَّ لَمْ أَلْبَثْ أَنْ تَزَوَّجْتُ رُقَیَّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ یُقَالُ: أَحْسَنُ زَوْجٍ رَآهُ إِنْسَانٌ وزوج رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ بَعْدَ رُقْیَةَ أُمَّ كُلْثُومِ بنت رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فماتت عنده. فقال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَ عِنْدِیَ ثَالِثَةٌ زَوَّجْتُهَا عُثْمَانَ

اللہ تعالیٰ نےرقیہ رضی اللہ عنہا کوخصوصی حسن وجمال سے نوازاتھا،کچھ ہی روز بعدسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کانکاح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردیا،جس پرمکہ مکرمہ میں عام طور پر لوگ کہاکرتے تھے کہ بہترین جوڑاجوکسی آدمی نے دیکھاوہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اوران کے شوہرسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے انتہائی راضی تھے اس لیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعدام کلثوم رضی اللہ عنہا کانکاح سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردیا،جب وہ بھی انتقال کرگئیں توخیراولین وآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیری تیسری لڑکی ہوتی تومیں اس کانکاح بھی عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیتا۔[88]

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جب رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوئی توقریش کی عورتیں اس جوڑے پررشک کرتی تھیں اوروہ اپنے جذبات کوان الفاظ سے تعبیرکرتی تھیں ۔

وَتَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَكَانَتْ نِسَاءُ قُرَیْشٍ یَقُلْنَ حِینَ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ:أَحْسَنُ شَخْصَیْنِ رَأَى إِنْسَانُ رُقَیَّةُ وَبَعْلُهَا عُثْمَانُ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب رقیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی توقریش کی عورتیں کہتی تھیں کہ انسان نے جوحسین ترین جوڑادیکھاوہ رقیہ رضی اللہ عنہا اوراس کے

خاوندسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔[89]

عن أسامة بن زیدقال: بعثنی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بصحیفة فیها لحم إلى عُثْمَان فدخلت علیه وقد كان جالس مع رُقْیَةَ، ما رأیت زوجا أحس منهما

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مجھے گوشت کاپیالہ بھرکرعنایت فرمایااورفرمایاکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھریہ پیالہ دے آؤ ، میں یہ پیالہ لے کرسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھرپہنچا،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور رقیہ رضی اللہ عنہا اس وقت اپنے گھرمیں تشریف فرماتھے،میں نے وہ ہدیہ ان دونوں کی خدمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کیا، میں نے اس سے زیادہ خوبصورت جوڑا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔[90]

اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کاام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: یَا عُثْمَانُ! هَذَا جِبْرِیلُ یُخْبِرُنِی أَنَّ اللَّهَ قَدْ زَوَّجَكَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِمِثْلِ صَدَاقِ رُقَیَّةَ، عَلَى مِثْلِ مُصَاحَبَتِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کومسجدکے دروازے پرملے اور فرمایا اے عثمان رضی اللہ عنہ !یہ جبریل علیہ السلام ہیں اورمجھے خبردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نےام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح تجھ سے کردیاہے،رقیہ کے برابرحق مہرپراوراس حسن سلوک پرجوحسن سلوک تم رقیہ رضی اللہ عنہا سے کرتے تھے۔[91]

قاله ابْنُ إِسْحَاق.وتزوج بعد رقیة أم كلثوم بِنْت رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فلما توفیت قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لو أن لنا ثالثة لزوجناك

اورابن اسحاق کہتے ہیں رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعدام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا،جب وہ بھی وفات پاگئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیری تیسری بیٹی ہوتی تومیں اس کانکاح تم سے کردیتا۔[92]

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی اس خصوصیت کاذکرفرماتے ہوئے لکھاہے کہ اس نکاح سے آپ جہنم کی آگ سے بھی آزادہوگئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی تھی کہ میرے داماداورسسرال کوجہنم کی آگ سے آزادفرمانا۔[93]

زوجه رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابنتیه: رقیة ثُمَّ أم كلثوم، واحدةً بعد واحدة، وَقَالَ: إن كَانَ عندی غیرهما لزوجتكها وثبت عَنِ النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: سألت ربی عز وجل ألا یدخل النار أحدا صاهر إلی أو صاهرت إِلَیْهِ

چنانچہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوصاحب زادیاں رقیہ رضی اللہ عنہا اورام کلثوم رضی اللہ عنہا کویکے بعددیگرے آپ کے نکاح میں دیااورفرمایاکہ ان دونوں کے علاوہ بھی اگرمیری کوئی اوربیٹی ہوتی تووہ بھی میں ان کانکاح میں دے دیتا،اوریہ بات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی کہ میرے داماداورمیرے سسرال کوہرگزجہنم میں داخل نہ فرمانا۔[94]

اس طرح یکے بعددیگرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحب زادیاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اوریہ وہ شرف ہے جوپوری انسانی تاریخ میں کسی اورشخص کوحاصل نہیں ہوا۔

وَهُوَ أَحَدُ العشرة المشهود لهم بالجنة، وأحد الستة أصحاب الشُّورَى

سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں جنہیں جنت کی بشارت سنائی گئی ،آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شوری میں شامل تھے۔[95]

آپ کوبلوائیوں نے بائیس روزیاچالیس روزمحاصرے کے بعدمشہورقول کے مطابق اٹھارہ ذوالحجہ کوجمعہ کے روزچاشت کے وقت قتل کردیا۔

ایک شاعرنے کہا

ضحَّوا بَأَشْمَطَ عُنْوَانُ السُّجُودِ بِهِ، یُقَطِّعُ اللیل تسبیحاً وقرآناً

انہوں نے سرکے سیاہ وسفیدبالوں والے کوچاشت کے وقت قتل کردیاجوسجودکاآئینہ تھااوررات کوتسبیح کرتے اورقرآن پڑھتے گزارتاتھا۔

مختلف اقوال کے مطابق اس وقت آپ کی عمر۷۵سال ،۸۲ سال،۸۲سال چندماہ،۸۴ سال ،۸۶سال، ۸۸یا۹۰سال کی تھی ۔

فَكَانَتْ خِلَافَتُهُ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ سَنَةً إِلَّا اثْنَیْ عَشَرَ یَوْمًا

آپ کی خلافت بارہ سال سے بارہ روزکم رہی۔[96]

فَخَرَجُوا بِهِ فِی نَفَرٍ قَلِیلٍ مِنَ الصحابة، فیهم حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ، وَحُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى، وَأَبُو الْجَهْمِ بْنُ حُذَیْفَةَ، وَنِیَارُ بْنُ مُكْرَمٍ الْأَسْلَمِیُّ، وَجَبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَكَعْبُ بْنُ مَالِكٍ، وَطَلْحَةُ وَالزُّبَیْرُ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَنِسَائِهِ، مِنْهُنَّ امرأتاه نائلة وأم البنین بنت عتبة بن حصین، وَصِبْیَانٌ.

بلوائیوں کے خوف سے ان کے جنازہ میں بہت کم لوگ شامل ہوسکے، ان کے جنازے میں یہ صحابہ کرام شامل ہوئےحکیم بن حزم رضی اللہ عنہ ،حویطب بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ ،ابوجہم بن حذیفہ،نیاربن مکرم اسلمی،جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ ،زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ،کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ اورزبیراورسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب اورکچھ اورصحابہ کرام اورکچھ عورتیں جن میں آپ کی اہلیہ نائلہ اورام البنین بنت عتبہ بن حصین اوربچے۔[97]

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان کے قتل پرکہا

أَوَّلُ الْفِتَنِ قَتْلُ عُثْمَانَ، وآخر الفتن الدجال

سب سے پہلافتنہ عثمان رضی اللہ عنہ کاقتل ہے اور آخری فتنہ دجال ہے،

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْأَنْصَارِیِّ.قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ جِئْتُ عَلِیًّا وَهُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ وَعَلَیْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ فَقُلْتُ لَهُ: قُتِلَ عُثْمَانُ، فَقَالَ: تَبًّا لَهُمْ آخِرَ الدَّهْرِ وَفِی رِوَایَةٍ: خَیْبَةً لَهُمْ

ابوجعفرانصاری کہتے ہیں جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے تومیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیاآپ مسجدمیں سیاہ عمامہ پہنے بیٹھے ہوئے تھے میں نے آپ سے کہاسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے ہیں آپ نے فرمایاان پرہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہلاکت ہواورایک روایت میں ہے کہ وہ ناکام ہوں ۔[98]

رَافِعًا صَوْتَهُ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْكَ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ

ایک روایت میں ہےسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مسجدکے دروازے پربلندآوازسے کہااے اللہ!میں تیرے حضورخون سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بریت کااظہارکرتاہوں ۔[99]

[1] طہ۴۶

[2] المائدة۶۷

[3] الشعراء ۲۱۴تا۲۱۷

[4] المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۹۶،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۲۶۱

[5] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۹۲؍۳

[6] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۸۰؍۷

[7] تهذیب الأسماء واللغات۱۵؍۱

[8] المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۵۰

[9]تفسیرالقرطبی۲۴۲؍۱۴

[10] البدایة والنہایة۳۴؍۳

[11] البدایة والنہایة۳۶؍۳

[12] ابن ہشام۲۴۱؍۱،تاریخ طبری ۳۱۳؍۲، الروض الانف۲۸۹؍۲،عیون الاثر۱۱۲؍۱

[13] سیر أعلام النبلاء۱۱۱؍۱

[14] نہج البلاغہ خطبہ۲۶،کامل المبردوعقدالفریدوغیرہ

[15] سیرةالحلبیة۲۰۳؍۲

[16] تاریخ بغداد۴۶۱؍۱

[17] تاریخ الخمیس ۳۶۱؍۱ ، المواھب اللدنیة ۲۳۴؍۱

[18]الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۴۲؍۱

[19] سیر أعلام النبلاء۱۳۰؍۳

[20]تاریخ بٖغداد۴۶۳؍۱

[21]الفصل فی الملل والأهواء والنحل۱۱۲؍۴

[22]ابن سعد ۳۲؍۳،تاریخ دمشق۳۵۱؍۱۹

[23] البدایة والنہایة۳۹؍۳

[24] تاریخ طبری۳۱۶؍۲

[25]ابن ہشام ۲۴۹؍۱

[26] الروض الانف۲۹۳؍۲

[27] مستدرک حاکم ۳۵۵۷

[28] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَاسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُثْمَانَ وَلَقَبُهُ عَتِیقٌ۳۶۷۸،۳۶۷۹

[29] ابن ہشام ۲۴۹؍۱

[30] ابن ہشام۲۵۰؍۱

[31] البدایة والنہایة۳۹؍۳

[32] معرفة الصحابة لابی نعیم۷۰۲؍۲، اسدالغابة۵۸؍۲،المحبر۱۷۶، المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام ۴۷؍۷

[33] اسدالغابة۵۸؍۲

[34] خاتم النبیین صلى الله علیه وآله وسلم ۲۸۹؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۴۷؍۱

[35] البدایة والنہایة۳۶؍۳

[36] ابن ہشام ۲۵۲؍۱، الروض الانف۲۹۴؍۲،عیون الاثر۱۱۳؍۱

[37] تاریخ طبری ۳۷۵؍۲

[38]ابن سعد۱۶۱؍۳

[39] ابن سعد۱۷۵؍۳

[40] ابن ہشام۳۱۷؍۱،ابن سعد۱۷۶؍۳

[41] انساب الاشراف للبلاذری۱۸۵؍۱

[42] انساب الاشراف للبلاذری۱۸۵؍۱،ابن سعد۱۷۶؍۳

[43] سیرةابن اسحاق۱۹۰؍۱،سبل الہدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۳۵۸؍۲،ابن ہشام۳۱۸؍۱

[44] ابن ہشام۳۱۸؍۱

[45] ابن سعد۱۷۶؍۳

[46] ابن سعد۱۷۶؍۳

[47] اخبار مکة۲۰۳؍۵

[48] شرح السنة للبغوی۳۹۴۹

[49] شرح السنة للبغوی۳۹۴۹

[50] ابن سعد ۱۷۹؍۳

[51] صحیح بخاری كتاب أصحاب النبی صلى الله علیه وسلم بَابُ مَنَاقِبِ بِلاَلِ بْنِ رَبَاحٍ، مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا۳۷۵۴

[52] ابن سعد۱۷۵تا۱۸۰؍۳

[53] الإصابة فی تمییز الصحابة ۸۴؍۱

[54] البدایة والنہایة۳۹؍۳

[55] الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۳۴؍۸

[56]اسدالغابة ۳۵۳؍۷

[57] الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۳۳؍۸

[58] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۳۴؍۱

[59] الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۳۴؍۸

[60] الإصابةفی تمییز الصحابة۸۴؍۱

[61] اسدالغابة۱۵۲؍۷

[62] ابن سعد ۱۸۶؍۳

[63] انساب الاشراف ۱۵۷؍۱

[64] ابن سعد۱۰۱؍۴

[65] تاریخ طبری۵۰۸؍۱۱

[66] دلائل النبوة للبیہقی۲۸۱؍۲،الدردفی اختصارالمغازی والسیر ۴۲؍۱، المواھب الدینة ۱۴۳؍۱،ابن سعد۱۷۶؍۳

[67] مسند احمد ۴۳۹، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۵۸۹؍۴،ابن سعد ۱۸۸؍۳

[68] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۸۶۴؍۴

[69] اسدالغابة ۱۲۲؍۴،الاصابة فی تمیزاصحابة۱۸۹؍۸

[70] تفسیر الثعلبی ۴۵؍۶، تفسیر البغوی ۹۳؍۳، تفسیر الرازی ۲۷۳؍۲۰

[71] ابن سعد۱۰۵؍۳

[72] سبل الھدی والرشد فی سیرة خیر العباد ۲۳۴؍۱۰، الخصائص الکبری ۲۰۵؍۱

[73] تفسیرابن کثیر۳۳۶؍۶،امتاع الاسماع۱۳۷؍۹،تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام ۲۴۱؍۳،ترتیب الأمالی الخمیسیة للشجری۲۰۰۲

[74]لقمان ۱۴،۱۵

[75] الکامل فی التاریخ۶۵۸؍۱

[76] ابن سعد۱۰۴؍۳

[77] ابن سعد۱۰۵؍۳

[78] ابن سعد۱۰۵؍۳

[79] امتاع الاسماع ۱۳۷؍۹

[80] مسنداحمد۷۰۶۹

[81] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ المِجَنِّ وَمَنْ یَتَّرِسُ بِتُرْسِ صَاحِبِهِ۲۹۰۵

[82] ابن سعد۱۰۵؍۳

[83] ابن سعد۱۱۰؍۳

[84] ابن سعد۱۰۹؍۳،مسنداحمد۲۴۴۹۸

[85]البدایة والنہایة ۲۱۴؍۷

[86] البدایة والنہایة ۱۹۸؍۷

[87] ابن سعد۴۰؍۳

[88] ابن سعد ۴۱؍۳

[89] تفسیر القرطبی ۲۴۲؍۱۴

[90] معجم الصحابة للبغوی۳۲۸؍۴،كنز العمال۶۳؍۱۳،ذخائر العقبى فی مناقب ذوى القربى۱۶۲؍۱

[91] البدایة والنهایة ۲۱۲؍۷

[92] اسدالغابة۵۷۸؍۳

[93] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۰۳۹؍۳

[94] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۳۹؍۳

[95] البدایةوالنہایة ۲۲۳؍۷

[96] البدایة والنہایة۲۱۱؍۷

[97] البدایةوالنہایة۲۱۳؍۷

[98] البدایة والنہایة۲۱۳؍۷

[99] البدایة والنہایة ۲۱۵؍۷

Related Articles