بعثت نبوی کا پہلا سال

کیفیت وحی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقاضائے وحی کے اختلاف کی وجہ سے چھ مختلف حالتوں سے وحی ہوتی تھی۔

xوحی کاپہلاطریقہ یہ تھا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّادِقَةُ فِی النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ یَرَى رُؤْیَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی آنے کی ابتداسونے کی حالت میں سچے خوابوں کے ذریعہ ہوئی ،چنانچہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجاتا ۔[1]

یہ سلسلہ بعدمیں بھی جاری رہااوراحادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی خوابوں کاذکرموجودہے ،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں خواب دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدحرام میں داخل ہوئے ہیں اوربیت اللہ کاطواف کیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ مکہ کے لئے روانہ ہوئے مگرمشرکین مکہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوسکے اور ایک ایسا معاہدہ(صلح حدیبیہ ) کرکے واپسی کی راہ اختیارفرمائی جس میں مسلمانوں کی عظیم فتح تھی مگرعام مسلمان فوری طورپراس بات کاادراک نہ کرسکے،اس لئے یہ بات مسلمانوں کے دل میں بری طرح کھٹک رہی تھی وہ بارباررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کاحوالہ دیتے ،جس میں مسجدالحرام میں داخلہ اوربیت اللہ کے طواف کاذکرتھااس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

لَـقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللهُ اٰمِنِیْنَ۝۲۷ [2]

ترجمہ:فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایاتھاجوٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا،ان شاء اللہ تم ضرورمسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے۔

چنانچہ یہ عمرہ جوعمرة القضاء کے نام سے مشہورہے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ دوسرے سال ذی القعدہ سات ہجری کو پورافرمادیا۔

xوحی کاایک طریقہ موسیٰ علیہ السلام جیساتھاکہ باری تعالیٰ نے ان سے کوہ طورپر بات چیت فرمائی ،چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں آسمانوں پرتشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے پردے کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرشتے کی توسط کے بغیر براہ راست جوبھی وحی فرمائی سوفرمائی ،پھراللہ نے آپ کوپچاس نمازوں کاتحفہ دیاگیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بوجھ کم کرنے کے لئے انہیں باربار مزیدکم کرنے کی گزارش فرماتے رہے اوربالآخریہ پانچ نمازوں تک کم ہوگئیں مگراللہ کے نزدیک یہ اب بھی پچاس ہی ہیں ۔

xوحی کا ایک طریقہ جبرائیل امین کے زریعہ پہنچاناہے،وہ اللہ کے حکم سے آپ کونظرآئے بغیر آپ کے قلب وذہن میں بات ڈالتے تھے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَیْسَ شَیْءٌ یُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ , وَیُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَیْسَ شَیْءٌ یُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَیُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَیْتُكُمْ عَنْهُ وَأَنَّ الرُّوحَ الْأَمِینَ نَفَثَ فِی رُوعِیَ أَنَّهُ لَنْ تَمُوتَ نَفْسٌ حَتَّى تَسْتَوْفِیَ رِزْقَهَا فَاتَّقُوا اللهَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ وَلَا یَحْمِلَنَّكُمُ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أَنْ تَطْلُبُوهُ بِمَعَاصِی اللهِ فَإِنَّهُ لَا یُدْرَكُ مَا عِنْدَ اللهِ إِلَّا بِطَاعَتِهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!کوئی چیزایسی نہیں جوتمہیں جنت کے نزدیک لے جانے والی اوردوزخ سے دورکرنے والی ہواورتمہیں اس کے بارے میں نہ بتایاگیاہواورکوئی چیزایسی نہیں جوتمہیں دوزخ کے قریب کرنے والی اورجنت سے دورکرنے والی ہواورمیں نے تمہیں اس سے نہ روکاہو اوربے شک جبرائیل علیہ السلام نے اورایک روایت میں ہے بے شک روح القدس نے یہ بات میرے دل میں ڈالی ہے کہ کوئی بھی زندہ چیزاس وقت تک موت سے ہم کنارنہ ہوگی جب تک کہ اپنارزق پورانہیں کرلیتی، پس اللہ سے ڈرواوررزق حاصل کرنے میں بددیانتی نہ کرو اور رزق آنے کی تاخیرتمہیں اس بات پرامادہ نہ کردے کہ تم اسے اللہ کی معصیت کے ذریعہ تلاش کرو کیونکہ اللہ کے پاس جوکچھ ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیرحاصل نہیں کیا جاسکتا۔[3]

مگریہودی اللہ تعالیٰ کے اس برگزیدہ فرشتے کو اپنا دشمن سمجھ کرگالیاں دیتے تھے اورکہتے تھے کہ یہ رحمت کانہیں بلکہ عذاب کافرشتہ ہے۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللهِ ۝۹۷ [4]

ترجمہ:ان سے کہوجوکوئی جبریل سے عداوت رکھتاہواسے معلوم ہوناچاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پرنازل کیا۔

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙ [5]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے اسے لے کرتیرے دل پرامانت دارروح اتری ہے تاکہ توان لوگوں میں شامل ہو جو (اللہ کی طرف سے اللہ کی مخلوق کو)متنبہ کرنے والے ہیں ۔

x بعض مفسرین کہتے ہیں جب کوئی وعدہ یا خوشخبری سنانی مقصودہوتی تو جبرائیل امین انسانی صورت میں دحیہ رضی اللہ عنہ بن کلبی جوبہت حسین وجمیل تھے کی شکل میں حاضرخدمت ہوتے (اس حالت میں صحابہ کرام نے بھی انہیں دیکھا) اور آپ سے اس وقت تک مخاطب رہتے جب تک اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی بات آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ، اور آپ کوسمجھنے میں مطلق تکلیف نہ ہوتی ۔

xوحی کاسب سے ہلکاطریقہ یہ تھاجودومرتبہ ہی پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کوصرف دو مرتبہ ہی ان کی اپنی اصلی صورت میں دیکھاہے ،پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پرتشریف لے گئے اورجبرائیل علیہ السلام آسمان کے مشرقی کنارے سے ظاہرہوئے،جیسے فرمایا:

وَهُوَبِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى۝۷ۭثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۝۸ۙفَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى۝۹ۚ [6]

ترجمہ:وہ سامنے آکھڑاہواجبکہ وہ بالائی افق پرتھا،پھرقریب آیااوراوپرمعلق ہوگیایہاں تک کہ دوکمانوں کے برابریااس سے کم کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔

لَمْ أَرَهُ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِی خُلِقَ عَلَیْهَا غَیْرَ هَاتَیْنِ الْمَرَّتَیْنِ، رَأَیْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہےمیں نے ان کودوبارکے سواان کی اصلی صورت پرنہیں دیکھا،میں نے ان کودیکھاوہ آسمان سے اتررہے تھے اوران کے تن وتوش کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک روک دیاتھا۔[7]

اوردوسری مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پرتشریف لے گئے توان کو سدرة المنتہیٰ کے پاس دیکھاتھا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِیلَ فِی صُورَتِهِ، وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، كُلُّ جَنَاحٍ مِنْهَا قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ یَسْقُطُ مِنْ جَنَاحِهِ مِنَ التَّهَاوِیلِ وَالدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ مَا اللَّهُ بِهِ عَلِیمٌ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودسے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے جبریل علیہ السلام کو سدرة المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، ان کے چھ سو بازو تھے ، جن سے موتی اوریاقوت جھڑتے تھے۔[8]

xوحی کی سب سے شدیدترین صورت یہ تھی کہ آپ کے کانوں میں ایک گھنٹی سی بجنی شروع ہوجاتی تاکہ آپ سب طرف سے توجہ ہٹاکروحی کے لئے متوجہ ہوجائیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ قَالَ:قَالَ:یَا رَسُولَ اللَّهِ كَیْفَ یَأْتِیكَ الوحی؟فقال رَسُولَ اللَّهِ. أَحْیَانًا یَأْتِینِی فِی مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَیَّ فَیُفْصِمُ عَنِّی وَقَدْ وَعَیْتُ مَا قَالَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے مروی ہے حارث بن ہشام نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کبھی تووہ میرے پاس جرس کی جھنکارکی سی آوازمیں آتی ہے اوروہ مجھ پرسب وحی سے زیادہ سخت ہوتی ہے،پھروہ مجھ سے منقطع ہوجاتی ہے اورمجھے یادہو جاتا ہے۔[9]

بعض مفسرین کہتے ہیں ایسااس وقت ہوتاتھاجب کوئی دھمکی دینایاڈرانامقصودہوتاتھا اورپھر جبرائیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کرتے،اس وحی کی شدت سے یہ حال ہوجاتاکہ شدیدسردی میں بھی آپ کی پیشانی مبارک پسینہ پسینہ ہوجاتی ،

قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یَنْزِلُ عَلَیْهِ الْوَحْی فِی الْیَوْمِ الشَّدِیدِ الْبَرْدِ فَیُفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِینَهُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے شدیدسردی کے زمانے میں آپ پروحی کونازل ہوتے ہوئے دیکھاہے اختتام پرآپ کی پیشانی پرپسینہ ٹپکتاہوتاتھا۔[10]

اگرسفرمیں اونٹ پرسوارہوتے تووحی کے بوجھ سے وہ بیٹھ جاتا،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے زانو پر سر رکھے لیٹے ہوئے تھے کہ ایسی وحی ہوئی جس سے ان کے زانوپراتنابوجھ پڑاکہ ٹوٹنے کے قریب ہوگئی۔

[1] صحیح بخاری کتاب التعبیر بَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ۶۹۸۲ صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۰۳،مسنداحمد۲۵۲۰۲،مستدرک حاکم ۴۸۴۳،صحیح ابن حبان ۳۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۲۱،مصنف عبدالرزاق ۹۷۱۹،شرح السنة للبغوی ۳۷۳۵

[2] الفتح ۲۷

[3] شعب الایمان۹۸۹۱،شرح السنة للبغوی۴۱۱۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۳۳۲،القناعة والتعفف۵۷

[4] البقرة ۹۷

[5] الشعراء ۱۹۲تا۱۹۴

[6] النجم۷تا۹

[7] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ ۴۳۹،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ ۳۰۶۸،مسنداحمد۲۵۹۹۳،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۶۸

[8] مسند احمد۳۷۴۸، صحیح ابن حبان۶۴۲۸،مسندابی یعلی۴۹۹۳

[9] ابن سعد۱۵۵؍۱

[10] ابن سعد۱۵۵؍۱

Related Articles