ہجرت نبوی کا پہلا سال

کچھ یہودیوں کااسلام قبول کرنا

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:إِنَّ حَبْرًا مِنْ أَحْبَارِ الْیَهُودِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَكَانَ قَارِئًا لِلْتَوْرَاةِ فَوَافَقَهُ وَهُوَ یَقْرَأُ سُورَةَ یُوسُفَ كَمَا أُنْزِلَتْ عَلَى مُوسَى فِی التَّوْرَاةِ، فَقَالَ لَهُ الْحَبْرُ: یَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ قَالَ:اللهُ عَلَّمَنِیهَا، قَالَ: فَتَعَجَّبَ الْحَبْرُ لِمَا سَمِعَ مِنْهُ فَرَجَعَ إِلَى الْیَهُودِفَقَالَ لَهُمْ: أَتَعْلَمُونَ وَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَا أُنْزِلَ فِی التَّوْرَاةِ،قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى دَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ وَنَظَرُوا إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَیْنَ كَتِفَیْهِ فَجَعَلُوا یَسْتَمِعُونَ إِلَى قِرَاءَتِهِ لِسُورَةِ یُوسُفَ، فَتَعَجَّبُوا مِنْهُ،فَأَسْلَمَ الْقَوْمُ عِنْدَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہودیوں کاایک عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے ،اس نے پوچھا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!اس سورت کی تعلیم آپ کوکس نے دی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااس کی تعلیم مجھے اللہ تعالیٰ نے دی ہے،یہودی عالم کو سخت تعجب ہوااوروہ واپس یہود کی طرف چلاگیااورجاکرکہاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )قرآن میں سے جوپڑھتے ہیں وہ موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی کتاب تورات کی طرح ہے،پھروہ یہود کی ایک جماعت کولے کرحاضر خدمت ہوا،ان لوگوں نے بھی آپ کودیکھتے ہی پہچان لیاکہ آپ وہی نبی ہیں جن کی بشارت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی کتاب تورات میں دی گئی ہے،انہوں نے مہرنبوت کو دیکھااورسورت یوسف کی تلاوت کی فرمائش کی، انہوں نے غورسے کلام اللہ سنااورحیران رہ گئے، اورسب کے سب ایمان لائے۔[1]

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِی شِقَاقٍ ۖ فَسَیَكْفِیكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿١٣٧﴾‏ صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ‎﴿١٣٨﴾‏(البقرة)
 ’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیںاور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے، اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔ ‘‘

یہودونصاری اپنے زعم میں کہتے تھے

 ۔۔۔كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا۔۔۔[2]

یہودی یانصاریٰ میں شامل ہوجاؤگےتوراہ راست پالوگے۔

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال دیتے ہوئے فرمایایہودی یاعیسائی بن کرکوئی ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا،ہاں اگریہ یہودونصاریٰ یاکوئی اورگروہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کتابوں اورتمام انبیاء ومرسلین پرایمان لائے ہیں اورکسی میں فرق نہ کریں توپھروہ حق کوپاکر ہدایت یافتہ ہوجائیں گے، اوراگروہ بغض وعناداورتعصبات میں مبتلاہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اوراللہ کانازل کردہ کلام قرآن کریم کی تکذیب کریں توپھریہ کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں اورواضح نشانیوں کے باوجودایمان لاناہی نہیں چاہتے،مگراس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ قادرمطلق ان کے مقابلے میں تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے،وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ، کہواللہ کاپسندیدہ دین اسلام اختیارکرو،اس کے پسندیدہ دین سے اچھا دین اورکیاہوسکتاہے اورہم اسی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں ۔

 لَمَّا دَخَلَ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:لَمَّا دَخَلَ الْمِصْرِیُّونَ عَلَى عُثْمَانَ وَالْمُصْحَفُ بَیْنَ یَدَیْهِ فَضَرَبُوهُ عَلَى ثَدْیِهِ فَجَرَى الدَّمُ عَلَى {فَسَیَكْفِیكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ} [3]

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب بلوائی سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے گھرمیں داخل ہوئے تواس وقت وہ قرآن مجیدکوسامنےرکھ کرتلاوت فرمارہے تھے ،انہوں نے ان کے سینہ پرضرب لگائی اوران کا خون اس آیت پرگرا’’اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘[4]

ثنا نَافِعُ بْنُ أَبِی نُعَیْمٍ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَیَّ بَعْضُ الْخُلَفَاءِ مُصْحَفَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لِیُصْلِحَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ: إِنَّ مُصْحَفَهُ كَانَ فِی حِجْرِهِ حِینَ قُتِلَ فَوَقَعَ الدَّمُ عَلَى {فَسَیَكْفِیكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ}فَقَالَ نَافِعٌ: بَصُرَتْ عَیْنِی بِالدَّمِ عَلَى هَذِهِ الْآیَةِ وَقَدْ تَقَدَّمَ

نافع بن ابونعیم نے بیان کیاکہ جب ایک خلیفہ نے میرے پاس اصلاح کی غرض سے مصحف عثمان بن عفان بھیجاتو(زیادکہتے ہیں کہ)میں نے ان(نافع بن ابونعیم)سے کہالوگ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کوشہیدکیاگیاتومصحف شریف آپ کی گودمیں تھااورآپ کاخون اس آیت’’اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ پرگراتھا نافع نے جواب دیاہاں یہ درست ہے میں نے خوداس آیت پرسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے خون کودیکھاتھا۔[5]

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِی اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ ‎﴿١٣٩﴾‏ أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٤٠﴾‏ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٤١﴾‏(البقرہ)
 ’’آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لیے مخلص ہیں، کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے ؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہویا اللہ تعالیٰ ؟ اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے ؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ، یہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لیے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے ۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان یہودونصاریٰ سے کہوتم ہم سے اللہ خالق کائنات کی توحید،اخلاص ،اس کے احکام کی اتباع واطاعت اوراس کےمنع کردہ امورسے اجتناب کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایاتھا

۔۔۔قَالَ اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِی اللهِ۔۔۔ ۝۸۰ [6]

ترجمہ:اس نے قوم سے کہا کیا تم لوگ اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ ۔

حالانکہ وہ صرف ہماراہی رب نہیں ہے بلکہ تمہارارب بھی وہی ہے،ہم پراورتم پرصرف اسی کاتصرف اوراختیارہےاس لئے غیراللہ کے بجائے اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کرنی چاہیے،ہم نے اللہ وحدہ لاشریک مان کر جو اعمال کیے ہیں ہم اس کے جوابدہ ہیں اور تم نے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیراللہ کواس کے ساتھ شریک ٹھیراکران کی پرستش اوراطاعت بجالاتے ہوتو اس کاانجام بھی تم دیکھ لوگے،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِیْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱ [7]

ترجمہ:اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم مبرأ ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں مبرأہوں ۔

فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ۔۔۔۝۰۝۲۰ۧ [8]

ترجمہ:اب اگر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو ان سے کہو میں نے اور میرے پیروکاروں نے تو اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔

یعنی ہرشخص کا اپنا اپنا عمل ہے اورہرکوئی اپنے اعمال کاجوابدہ ہوگا،ہم توتم سے اورتمہارے شرک سے بیزارہیں اورہم اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لیے اپنی بندگی کوخالص کرچکے ہیں ، یہودونصاریٰ کی تردیدمیں فرمایا پھر کیا تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ یہ جلیل القدرپیغمبر ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام اوراولاد یعقوب علیہ السلام سب کے سب یہودی تھے یانصرانی تھے؟ کہوتم زیادہ جانتے ہویااللہ تعالیٰ؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے توصاف طورپرفرمادیاہے

مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۶۷ [9]

ترجمہ:ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔

اوراس شخص سے بڑاظالم اورکون ہوگاجواللہ کی منزل کتابوں میں اللہ کے پسندیدہ دین اسلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوپڑھنے کے باوجودچھپائے؟

عَنِ الْحَسَنِ فَقَالَ:كَانَتْ شَهَادَةُ اللهِ الَّذِی كَتَمُوا أَنَّهُمْ كَانُوا یَقْرَءُونَ فِی كِتَابِ اللهِ الَّذِی أَتَاهُمْ أَنَّ الدِّینَ الْإِسْلَامُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ،وَأَنَّ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا بُرَّاءً مِنَ الْیَهُودِیَّةِ وَالنَّصْرَانِیَّةِ، فَشَهِدُوا لِلَّهِ بِذَلِكَ، وَأَقَرُّوا بِهِ عَلَى أَنْفُسِهِمْ لِلَّهِ، فَكَتَمُوا شَهَادَةَ اللهِ عِنْدَهُمْ مِنْ ذَلِكَ، فَذَلِكَ مَا كَتَمُوا مِنْ شَهَادَةِ اللهِ

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کوپڑھتے تھے جواللہ تعالیٰ نے انہیں عطافرمائی جس میں لکھاہواتھاکہ دین تواسلام ہی ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ،اورابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ،اوران کی اولادیہودیت اورنصرانیت سے بری تھی،انہوں نے اللہ کے لیے اس کی گواہی دی، اوراس گواہی دینے کااللہ کے لیے قراربھی کرلیا لیکن اس سب کچھ کے باوجودان کے پاس اللہ تعالیٰ کی یہ شہادت موجودتھی ،اسے انہوں نے چھپایا۔                [10]

مگریادرکھو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل تونہیں ہے،وہ توعلام الغیوب ہے اوراس کاعلم ہرچیزپرمحیط ہے،اوراس نے تمہارے اعمال کوشمارکرکے محفوظ کررکھاہے،وہ کچھ پاکبازلوگ تھے جواس دنیاسے رحلت پاگئے،انہوں نے جواعمال کیے اپنے لئے ہی کیے تھے اورتم جواعمال کررہے ہواپنے ہی لئے کررہے ہو،تمہاری بداعمالیوں کابوجھ ان پرنہیں پڑے گا،اورنہ تم سے ان لوگوں کے اعمال کے متعلق سوال کیاجائےگا۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ‎﴿١٥٣﴾‏وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ‎﴿١٥٤﴾‏ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ‎﴿١٥٥﴾‏ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿١٥٦﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ‎﴿١٥٧﴾(البقرة)
 ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے، اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئےجنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘

صلوٰة اورصبربہترین وسیلہ :منصب امامت پرمامورکرنے کے بعدضروری ہدایات فرمائیں ،اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ کی اطاعت پر،اللہ کی نافرمانی سے رکنے پراوراللہ کی راہ میں جو تکالیف ،مصائب ،نقصانات پہنچیں ان کاصبروثبات اورعزم واستقلال کے ساتھ مقابلہ کرو اوردنیاوی امورمیں نماز سے جودین کاستون،اہل ایمان کا نور اور بندے اوررب کے درمیان رابطے کاذریعہ ہےسے اپنے آپ کومضبوط کرو

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۔۔۔ ۝۴۵ۙ[11]

ترجمہ:صبر اور نماز سے مدد لو۔

قَالَ حُذَیْفَةُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کی وجہ سے غم میں مبتلاہوتے تونمازشروع فرمادیتے تھے۔[12]

اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہےاوروہ انہیں بے حدوحساب اجر عطا فرمائے گا

۔۔۔اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ [13]

ترجمہ:صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔

عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کامعاملہ بھی عجیب ہے،بے شک اس کا ہر معاملہ اچھا اور بہتر ہی ہوتا ہے یہ صرف مومن ہی کی شان ہوسکتی ، اسے خوشی پہنچتی ہے تواللہ کاشکراداکرتاہے اورتکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے،دونوں حالتیں اس کے لئے خیرہیں ۔[14]

اورجولوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ایسے لوگ توحقیقت میں زندہ ہیں مگرتمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہوتا،

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ بَلْ اَحْیَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۝۱۶۹ [15]

ترجمہ:جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو ، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔

عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ:وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:أَرْوَاحُهُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِیلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِی إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِیلِ،فَاطَّلَعَ إِلَیْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةًفَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَیْئًا؟ قَالُوا: أَیَّ شَیْءٍ نَشْتَهِی وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ یُتْرَكُوا مِنْ أَنْ یُسْأَلُوا، قَالُوا: یَا رَبِّ، نُرِیدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِی أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِی سَبِیلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَیْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا

مسروق سے مروی ہےہم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا’’ جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں ۔‘‘ تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ، ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب! ہم چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں ،جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔[16]

كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَیْرٌ تَعْلُقُ فِی شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى یُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

اورکعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ مومن کی روح ایک ایساپرندہ ہے جوجنت کے درختوں سے(پھل وغیرہ) کھاتارہتاہے حتی کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم میں لوٹادے گا۔[17]

فرمایا اوراس دنیامیں ہم ضرورتمہیں خوف وخطر،فاقہ کشی،جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکے تمہاری آزمائش کریں گے،جیسے فرمایا

 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ۝۰ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ۝۳۱ [18]

ترجمہ:ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہداور ثابت قدم کون ہیں ۔

اوراللہ تعالیٰ کبھی خوف اوربھوک کے رنج میں مبتلاکرکے آزماتاہے،

۔۔۔ فَاَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲ [19]

ترجمہ:تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں ۔

یعنی اللہ تعالیٰ خوف، بھوک، مال کی کمی ،اپنوں اور غیروں ،خویش و اقارب ، دوست واحباب کی موت ،کبھی پھلوں اورپیداوارکے نقصانات سے اپنے بندوں کو آزماتا ہے ، فرمایاان تنگی اورمصیبت کے وقت جو لوگ صبر کریں اور دل سےکہیں ’’ ہم اللہ ہی کے ہیں اوراللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘ انہیں خوشخبری دے دو ،

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیبُهُ مُصِیبَةٌ، فَیَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللهُ: {إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ}[20]، اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَیْرًا مِنْهَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکوئی مسلمان ایسانہیں کہ اس کومصیبت پہنچے اوروہ یہ کہے جواللہ نے حکم کیاہے’’ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ،اےاللہ !مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اوراس کے بدلہ میں اس سے اچھی عنایت فرما۔‘‘تو اللہ تعالیٰ اس سے بہترچیزاس کوعنایت فرماتاہے۔[21]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَیُّ الْمُسْلِمِینَ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَةَ؟ أَوَّلُ بَیْتٍ هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ إِنِّی قُلْتُهَا: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ ،اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًامِنْهَا،فَأَخْلَفَ اللهُ لِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ابوسلمہ (ان کا شوہرعبداللہ بن عبدالاسدمخزومی )انتقال کرگئے تومیں نے کہااب ان سے بہترکون ہوگااس لئے کہ ان کا پہلا گھر تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی ، پھرمیں نے یہی دعاپڑھی،’’ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ،اےاللہ !مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اوراس کے بدلہ میں اس سے اچھی عنایت فرما۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نےمجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے بدلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا شوہربنادیا۔[22]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: أَتَانِی أَبُو سَلَمَةَ یَوْمًا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا فَسُرِرْتُ بِهِ، قَالَ: لَا یُصِیبُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ مُصِیبَةٌ فَیَسْتَرْجِعَ عِنْدَ مُصِیبَتِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا، إِلَّا فُعِلَ ذَلِكَ بِهِ ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: فَحَفِظْتُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو سَلَمَةَ اسْتَرْجَعْتُ وَقُلْتُ: اللَّهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى نَفْسِی قُلْتُ: مِنْ أَیْنَ لِی خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَةَ؟

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک دن ابوسلمہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس آئے توکہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اس پرکہے’’ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ،اور یہ دعا کرے اے اللہ مجھے اس مصیبت پر اجرو ثواب عطا فرما اور مجھے اس کانعم البدل عطا فرما تو اسے یہ دونوں چیزیں عطا فرمادی جائیں گی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس دعا کو یاد کرلیا،جب میرے شوہر( ابوسلمہ کا) کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان للہ واناالیہ راجعون پڑھ کریہ دعا مانگی،’’اےاللہ !مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اوراس کے بدلہ میں اس سے اچھی عنایت فرما۔‘‘پھر میں دل میں سوچنے لگی کہ مجھے ابوسلمہ سے بہتر آدمی کون ملے گا؟

فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی اسْتَأْذَنَ عَلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَدْبُغُ إِهَابًا لِی، فَغَسَلْتُ یَدَیَّ مِنَ الْقَرَظِ وَأَذِنْتُ لَهُ، فَوَضَعْتُ لَهُ وِسَادَةَ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ، فَقَعَدَ عَلَیْهَا فَخَطَبَنِی إِلَى نَفْسِی،

لیکن میری عدت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اندرآنے کی اجازت مانگی،اس وقت میں کسی جانور کی کھال کو دباغت دے رہی تھی میں نے درخت سلم کے پتوں سے اپنے ہاتھ پونچھ کردھوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے کی اجازت دی،اور چمڑے کا ایک تکیہ رکھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اپنے حوالے سے مجھے پیغام نکاح دیا،

فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ مَقَالَتِهِ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بِی أَنْ لَا تَكُونَ بِكَ الرَّغْبَةُ فِیَّ، وَلَكِنِّی امْرَأَةٌ فِیَّ غَیْرَةٌ شَدِیدَةٌ فَأَخَافُ أَنْ تَرَى مِنِّی شَیْئًا یُعَذِّبُنِی اللَّهُ بِهِ، وَأَنَا امْرَأَةٌ قَدْ دَخَلْتُ فِی السِّنِّ، وَأَنَا ذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ:أَمَّا مَا ذَكَرْتِ مِنَ الْغَیْرَةِ فَسَوْفَ یُذْهِبُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْكِ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتِ مِنَ السِّنِّ فَقَدْ أَصَابَنِی مِثْلُ الَّذِی أَصَابَكِ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتِ مِنَ الْعِیَالِ فَإِنَّمَا عِیَالُكِ عِیَالِی ، قَالَتْ: فَقَدْ سَلَّمْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: فَقَدْ أَبْدَلَنِی اللَّهُ بِأَبِی سَلَمَةَ خَیْرًا مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی بات کہہ کر فارغ ہوئےتو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے منہ تو نہیں موڑ سکتی لیکن مجھ میں غیرت کا مادہ بہت زیاد ہے اور میں اس بات سے ڈرتی ہوں کہ کہیں آپ کو میری کوئی ایسی چیز نظر نہ آئے جس پر اللہ مجھے عذاب میں مبتلا کردے، پھر میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکی ہوں اور میرے بچے بھی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے غیرت کی جس بات کا تذکرہ کیا ہے تو اللہ تم سے زائل کردے گااور تم نے بڑھاپے کا جو ذکر کیاہے تو یہ کیفیت مجھے بھی درپیش ہےاور تم نے جو بچوں کا ذکر کیا ہے تو تمہارے بچے میرے بچے ہیں ،اس پر میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیااور وہ کہتی ہیں کہ اس طرح اللہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ابوسلمہ سے بہتر بدل عطا فرمایا۔[23]

صبر کرنے والوں پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اس کی رحمت ان پرسایہ فگن ہو گی اورایسے ہی لوگ راست رو ہیں ۔

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ أَن یَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٥٨﴾(البقرة)
 ’’صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں، اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے ۔‘‘

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:كَانُوا قَبْلَ أَنْ یُسْلِمُوا یُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِیَةِ، الَّتِی كَانُوا یَعْبُدُونَهَا عِنْدَ المُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ یَتَحَرَّجُ أَنْ یَطُوفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا، سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَیْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [24] الآیَةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےقبول اسلام سے پہلے انصارِمَنَاةَ الطَّاغِیَةِ بت کی مشلل پہاڑی پرعبادت کرتے تھے اوراحرام باندھ کراسی کے نام کی تلبیہ پکاراکرتے تھے ، یہ لوگ (زمانہ جاہلیت میں )صفاومروہ کے درمیان سعی کوگناہ سمجھتے تھے،جب وہ مسلمان ہوئے توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا اورکہاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم صفااورمروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے،اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ صفا و مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں ۔‘‘(یعنی صفاومروہ کے درمیان سعی کرناگناہ نہیں ہے)۔[25]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ:إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا یُهِلُّونَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ لِصَنَمَیْنِ عَلَى شَطِّ الْبَحْرِ، یُقَالُ لَهُمَا إِسَافٌ وَنَائِلَةُ، ثُمَّ یَجِیئُونَ فَیَطُوفُونَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،ثُمَّ یَحْلِقُونَ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ كَرِهُوا أَنْ یَطُوفُوا بَیْنَهُمَا لِلَّذِی كَانُوا یَصْنَعُونَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ} [26]إِلَى آخِرِهَا، قَالَتْ: فَطَافُوا

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت میں ہےدورجاہلیت میں دریاکے کنارے دوبت تھےاسی کے نام کی تلبیہ پکارا کرتے جس میں سے ایک کانام اساف اوردوسرے کانائلہ تھااورلوگ ان کے استھان پر جاتے تھے اورپھرواپس صفاومروہ پرآکرسعی کرتے تھے اورپھرسرمنڈاتے تھے، جب اسلام آیاتومسلمانوں نے ان میں سعی کرنے کوبراجانا (کہ صفاومروہ کی سعی حج کے اصلی مناسک سے ہے یانہیں )تب اللہ عزوجل نے یہ آیت’’ صفا و مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں ۔‘‘ نازل کی، پھرلوگ سعی کرنے لگے ۔[27]

عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: قُلْتُ: أَرَأَیْتِ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِهِمَا} [28] قَالَ: فَقُلْتُ: فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا یَتَطَوَّفَ بِهِمَا، قَالَ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ: بِئْسَمَا قُلْتَ یَا ابْنَ أُخْتِی، إِنَّهَا لَوْ كَانَتْ عَلَى مَا أَوَّلْتَهَا عَلَیْهِ، كَانَتْ: فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ أَنْ لَا یَطَّوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا قَبْلَ أَنْ یُسْلِمُوا یُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِیَةِ الَّتِی كَانُوا یَعْبُدُونَ عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، وَكَانَ مَنْ أَهَلَّ لَهَا تَحَرَّجَ أَنْ یَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَسَأَلُوا عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [29] ، إِلَى قَوْلِهِ، {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِهِمَا} [30] قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بِهِمَا، فَلَیْسَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَدَعَ الطَّوَافَ بِهِمَا

عروہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ جو فرمان ہے’’صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر کوئی آدمی صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھانجے! یہ تم نے غلط بات کہی، اگر اس آیت کا وہ مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا ہے تو پھر آیت اس طرح ہوتی’’ ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ دراصل اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے انصار کے لوگ منات کے لئے احرام باندھتے تھے اور مشلل کے قریب اس کی پوجا کرتے تھے اور جو شخص اس کا احرام باندھتا وہ صفا مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتا تھا، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ زمانہ جاہلیت میں صفا مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتے تھےاب اس کا کیا حکم ہے؟اس پر اللہ نے یہ آیت ’’ صفا و مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں ۔‘‘ نازل فرمائی،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی سعی کا ثبوت اپنی سنت سے پیش کیا لہٰذا اب کسی کے لئے صفا مروہ کی سعی چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔[31]

فرمایایقیناًمسجدحرام کے پاس دومعروف پہاڑیاں صفااورمروہ اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری نشانیوں میں سے ہیں جن کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کی عبدیت کوجانچتاہے۔

 ۔۔۔وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۝۳۲ [32]

ترجمہ:اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

لہذاجوشخص بیت اللہ کاذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں حج کرے یاان تاریخوں کے سوادوسرے ایام میں عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے(یعنی دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا)

عَنْ حَبِیبَةَ بِنْتِ أَبِی تَجْرَاةَ قَالَتْ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَطُوفُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَالنَّاسُ بَیْنَ یَدَیْهِ وَهُوَ وَرَاءَهُمْ، وَهُوَ یَسْعَى حَتَّى أَرَى رُكْبَتَیْهِ مِنْ شِدَّةِ السَّعْیِ یَدُورُ بِهِ إِزَارُهُ، وَهُوَ یَقُولُ:اسْعَوْا فَإِنَّ اللهَ كَتَبَ عَلَیْكُمُ السَّعْیَ

حبیبہ ابو تجراہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوصفاومروہ کے مابین طواف کرتے ہوئے دیکھااور لوگ آگے تھے آپ پیچھے تھے،آپ سعی فرمارہے تھے اورقدرے تیزدوڑنے کی وجہ سے میں آپ کے دونوں گھٹنوں کودیکھ رہی تھی اورآپ کاتہ بند دونوں گھٹنوں کے مابین گھوم رہاتھااورآپ فرمارہے تھے سعی کرواللہ تعالیٰ نے تم پرسعی کوفرض قراردیاہے۔[33]

اورجوکوئی برضاورغبت اللہ کے لئے کوئی کام کرتاہے،جیسے حج،عمرہ،طواف ، نمازاورروزہ وغیرہ تویہ اس کے لئے بہترہے،اللہ کو اس کے اعمال کاعلم ہے اوروہ اس کی قدرکرنے والاہے،یعنی تھوڑے سے کام کوقبول فرماتااوراس پربڑا اجر عطا فرماتاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [34]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔

إِنَّ الَّذِینَ یَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَا تِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ‎﴿١٥٩﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَیْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٦٠﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَٰئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٦١﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا ۖ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنظَرُونَ ‎﴿١٦٢﴾(البقرة)
 ’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے،مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں،یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مرجائیں ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔ ‘‘

حق بات چھپاناجرم عظیم ہے:یہودیوں کے علماء کاسب سے بڑاجرم یہ تھاکہ انہوں نے تورات کے علم کوپھیلانے کے بجائے ربیوں اورمذہبی پیشہ وروں کے ایک محدودطبقے تک محدودکردیاجس کی وجہ سے عوام اللہ کے احکامات سے بے خبرہوگئی ،پھرجب جہالت کی وجہ سے ان میں گمراہیاں پھیل گئیں توتب بھی ان کے علماء حق کی آوازکوبلندنہ کیابلکہ عوام میں اپنی مقبولیت برقراررکھنے کے لئے ہراس ضلالت اوربدعت کوجوعوام میں مقبول تھی اسے اپنے قوم وعمل سے یاخاموشی سے سندجوازدینے لگے،اس سے بچنے کی لئے مسلمانوں کوتاکیدکی گئی کہ جولوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اورہدایات کوچھپاتے ہیں درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ،یقین جانوکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دورکردے گا اورتمام مخلوق بھی ان پر لعنت کرے گی کیونکہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کے ساتھ دھوکہ کیا اوران کے دین کوبربادکیا،

عَنْ مُجَاهِدٍ: {وَیَلْعَنُهُمُ اللاعِنُونَ} قَالَ: الْبَهَائِمُ، إِذَا أَسْنَتَتِ الْأَرْضُ قَالَتِ الْبَهَائِمُ: هَذَا مِنْ أَجْلِ عُصَاةِ بَنِی آدَمَ،لَعَنَ اللهُ عُصَاةَ بَنِی آدَمَ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب زمین میں قحط سالی کی حالت ہوتوجانورکہتے ہیں کہ یہ گناہ گاربنی آدم کی وجہ سے ہے،اللہ تعالیٰ نافرمان انسانوں پرلعنت کرے۔[35]

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ قَالَ: قَالَ اللهُ:{أُولَئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللاعِنُونَ} یَعْنِی مَلَائِكَةَ اللهِ وَالْمُؤْمِنِینَ

ابوالعالیہ ، ربیع بن انس اورقتادہ فرماتے ہیں ’’یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ فرشتے اورمومن ان پرلعنت کرتے ہیں ۔[36]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أَلْجَمَهُ اللهُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کااس کوعلم تھااوراس نے اسے چھپایاتوقیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔[37]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: إِنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَیْرَةَ، وَلَوْلاَ آیَتَانِ فِی كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِیثًا، ثُمَّ یَتْلُو {إِنَّ الَّذِینَ یَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَالهُدَى}[38] إِلَى قَوْلِهِ {الرَّحِیمُ} [39]إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِینَ كَانَ یَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ یَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِی أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ كَانَ یَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَیَحْضُرُ مَا لاَ یَحْضُرُونَ، وَیَحْفَظُ مَا لاَ یَحْفَظُونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت حدیثیں بیان کیں ہیں اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہو تیں تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا، پھر ابوہریرہ نے یہ آیات پڑھیں ’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں ۔‘‘ یہ امریقینی ہے کہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خرید و فروخت کرنے کا شغل رہتا تھااور ہمارے انصار باغوں میں لگے رہتے تھےاور ابوہریرہ اپنا پیٹ بھر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور ایسے اوقات میں حاضر رہتا تھا کہ لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کر لیتا تھا، جو وہ لوگ یاد نہ کرتے تھے۔[40]

البتہ جولوگ اس روش سے بازآجائیں اوراپنے اعمال واحوال کی اصلاح کرلیں اوراللہ کے جن فرامین کو چھپاتے تھے اسے لوگوں میں بیان کرنے لگیں ان کے پچھلے گناہوں کومیں معاف کردوں گااورمیں بڑادرگزرکرنے والااوررحم کرنے والاہوں ،اورجن لوگوں نے تکذیب کارویہ اختیارکیااوراسی حالت ہی میں جان دی ان پراللہ اورفرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے،اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گےنہ ان کی سزامیں تخفیف ہوگی اورنہ انہیں پھرکوئی دوسری مہلت دی جائے گی، نعوذباللہ من عذاب اللہ۔

وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٦٣﴾‏إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿١٦٤﴾(البقرة)
 ’’تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے،آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا اور بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ان میں عقلمندوں کے لیے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔‘‘

مشرکین بے شمارمعبودوں کی پرستش کرتے تھے ،ہرقبیلے کااپناہی معبودتھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت پیش کی تووہ کہنے لگے

 اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [41]

ترجمہ:کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں دعوت توحیددی کہ تمہارامعبودحقیقی تواللہ وحدہ لاشریک ہی ہےجواپنی ذات ،اپنے اسماء وصفات اوراپنے افعال میں اکیلااورمتفردہے،اس کی ذات میں اس کاکوئی شریک ہے نہ اس کاکوئی ہم نام ،اورنہ ہمسر،نہ اس کی کوئی مثال اورنہ اس کی کوئی نظیرہے،وہی کائنات کوپیداکرنے والااوراس میں تدبیرکرنے والاہے،اس بے پایاں رحمت سے متصف ہستی کے سواتمہاراکوئی اورمعبودنہیں ہے،

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ فِی هَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ} [البقرة: 163]، وَفَاتِحَةِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ: {الم اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ [42]

اسماء بنت یزیدسے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسم اعظم ان دوایتوں میں ہے،ایک یہ آیت’’تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘ اور دوسری یہ آیت ہے’’اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔‘‘[43]

اگراللہ کی الوہیت، وحدانیت اورقدرت کو پہچاننے کے لیے تمہیں کوئی نشانی اورعلامت درکارہے توضدیاتعصب سے آزادہوکر ان سات نشانیوں پرغوروتدبرکرلو۔

۱۔بغیرستونوں کے آسمانوں کی رفعت،لطافت،وسعت،نجوم وکواکب،ستاروں اورسیاروں اورفلک پران کی گردش، اورفرش کی طرح ہموارزمین کی ساخت،جن کی وسعت وعظمت محتاج بیان نہیں ۔

۲۔رات اوردن کے دائمی طورپر پیہم ایک دوسرے کے بعدآنے میں ،جیسے فرمایا

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [44]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات دن پرسبقت لے جاسکتی ہے ،سب ایک ایک فلک میں تیررہے ہیں ۔

دنوں کا لمبا،چھوٹااورمتوسط ہونا،اوران کی وجہ سے موسموں کاتغیروتبدل ہوناجیسے فرمایا

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَاَنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۶۱ [45]

ترجمہ:یہ اس لیے کہ رات سے دن اوردن سے رات نکالنے والااللہ ہی ہے اوروہ سمیع وبصیرہے۔

۳۔ان کشتیوں اورجہازوں میں جوانسانوں کی وزنی تجارتی سامان کولے کر دریاؤں اورسمندروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں ۔

۴۔بارش کے اس میٹھے پانی میں جسے اللہ اوپرسے برساتاہے، اوراس پانی کے ذریعے سے مردہ پڑی زمین کو زندگی بخشتاہے،اوراس سے طرح طرح طرح کےاجناس ،پھل فروٹ پیداہوتے ہیں جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙلِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۝۰ۙ وَمَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۳۵سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۶ [46]

ترجمہ:ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے ہم نے اس کوزندگی بخشی اوراس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں،ہم نے اس میں کھجوروں اورانگوروں کے باغ پیدا کیے اوراس کے اندرسے چشمے پھوڑنکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ،یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کاپیداکیاہوانہیں ہے ،پھرکیایہ شکرادانہیں کرتے؟پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیداکیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یاخودان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی)میں سے یاان اشیائ میں سے جن کویہ جانتے تک نہیں ہیں۔

۵۔ اوراپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہرقسم کی جان دارمخلوق کوپھیلاتاہےجواس کی قدرت ، عظمت،وحدانیت اوراس کے غلبے کی دلیل ہے،پھروہی ان کے رزق کاانتظام فرماتاہے اوروہی ان کی خوراک کاکفیل ہے،جیسے فرمایا

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [47]

ترجمہ:زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے،سب کچھ ایک صاف دفترمیں درج ہے۔

۶ ۔انسانی زندگی کی ضروریات کے لئےہرقسم کی ہواؤں کی گردش میں ۔

۷۔اوران بادلوں میں جنہیں اللہ اپنی مرضی اورمشیت سےجہاں چاہتاہے وہاں بھیج کربارش برساتاہے،کیایہ سارے اموراللہ کی الوہیت،وحدانیت اوراس کی عظیم قدرت پردلالت نہیں کرتے؟

جب یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی روشن دلیلیں ہیں تو پھر اس وحدہ لاشریک کوچھوڑکرغیراللہ کواپنا معبود سمجھنا اور انہیں مشکل کشاسمجھناکہاں کی عقل مندی ہے،جیسے فرمایا

وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۝۱۹۰ۚۙالَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا۝۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۹۱ [48]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں کی پیدائش میں اوررات دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جواٹھتے،بیٹھتے اورلیٹتے ہرحال میں اللہ کویادکرتے ہیں اورزمین اورآسمانوں کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں (وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے ،توپاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ،پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا یُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ یَرَى الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعَذَابِ ‎﴿١٦٥﴾‏ إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ ‎﴿١٦٦﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ یُرِیهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ ‎﴿١٦٧﴾‏ (البقرة)
 ’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیںجیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے، اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے، جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے) جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گےاور تابعدار لوگ کہنے لگیں گےکاش! ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہوجائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہ نکلیں گے۔ ‘‘

محبت صرف اللہ سے :مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کوخالق،مالک اوررازق مانتے تھے مگر اپنے بے شمار دیوی دیوتاؤں کواللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں شریک سمجھتے اوران سے بڑی محبت رکھتے تھے، اہل کتاب کامعاملہ بھی ان کے برعکس نہ تھا یہودیوں نے بھی عزیر علیہ السلام کواللہ کابیٹا اور عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام اوران کی والدہ کوالوہی صفات عطاکررکھیں تھیں اوران سے ایسی محبت کرتے تھے جسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے ،ان کے اس شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایااللہ کی الوہیت، وحدانیت اوررزاقیت پردلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثارکے ہوتے ہوئے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جواللہ کے سوادوسروں کواس کا ہمسر اور مدمقابل بتاتے ہیں اوران سے اس قدر محبت اوران کی ایسی تعظیم اوراطاعت کرتے ہیں جیسی اللہ کے ساتھ محبت اورتعظیم واطاعت ہونی چاہیے۔ ایک مقام پرمشرکین کی غیراللہ سے محبت کانقشہ یوں بیان فرمایا

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [49]

ترجمہ:جب اکیلے اللہ کا ذِکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کُڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذِکر ہوتا ہے تو یکا یک وہ خوشی سے کھل اُٹھتے ہیں ۔

حالانکہ اہل شرک نےجن مخلوقات کواللہ تعالیٰ کا ہمسراورمدمقابل قراردے رکھاہے وہ توبس چندنام ہیں ،لفظ کے اعتبارسے ان کاکوئی معنی ٰ نہیں ہے ۔

۔۔۔وَجَعَلُوْا لِلهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ قُلْ سَمُّوْهُمْ۝۰ۭ اَمْ تُنَبِّـــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ۔۔۝۰۝۳۳ [50]

ترجمہ: لوگوں نے اس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو (اگر واقعی وہ اللہ کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو ) ذرا ان کے نام لو کہ وہ کون ہیں ؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا ؟ ۔

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ۔۔۔۝۰۝۲۳ۭ [51]

ترجمہ:دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے اِن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی، حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ؟قَالَ:أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وَهُوَ خَلَقَكَ،قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِیمٌ ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ:ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ یَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ:ثُمَّ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَةِ جَارِكَ

عبداللہ بن مسعودسے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ کے نزدیک سب سے بڑاگناہ کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرناحالانکہ اسی اکیلے نے پیداکیاہے، میں نے کہا یہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن اس کے بعد کونسا ہے؟فرمایا وہ یہ کہ تو اپنی اولاد اس خوف سے قتل کر دے کہ تیرے ساتھ کھائے گی،میں نے پوچھا پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔[52]

تاہم مشرکین اپنے معبودوں سے جتنی سے محبت کرتےہیں اس سے بڑھ کرمومنین اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں اوروہ اس کی رضاکوہردوسری رضابھی مقدم رکھتے ہیں ،کاش! جوکچھ عذاب جہنم کوسامنے دیکھ کرمشرکین سوجھنے والاہے وہ آج ہی ان ظالموں کوسوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اورسارے اختیارات یقینی طورپر اللہ وحدہ لاشریک ہی کے قبضے میں ہیں اورانہوں نے جواللہ تعالیٰ کے ہمسراورمدمقابل ٹھیرارکھے ہیں ان کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت واختیارنہیں ہے،اوریہ کہ اللہ سزادینے میں بھی بہت سخت ہے،جب وہ سزادے گااس وقت کی کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما جن کی دنیامیں پیروی کی گئی تھی اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہرکریں گے مگر سزا پاکر رہیں گے

كَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [53]

ترجمہ:ہرگزنہیں وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے ۔

ابراہیم خلیل اللہ نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایاتھا

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۵ۤۙ [54]

ترجمہ:اور اس نے کہا تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مدد گار نہ ہوگا۔

ایک اورمقام پرفرمایا

 وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱ [55]

ترجمہ:کاش! تم دیکھو اِن کا حال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے ،جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔

جب مشرکین عذاب الٰہی دیکھ لیں گے توان کی دوستیاں ،رشتے داریاں اوران کے سارے اسباب ووسائل کاسلسلہ کٹ جائے گا،اوروہ لوگ جودنیامیں ان کی پیروی کرتے تھےکہیں گے کہ کاش! ہم کودنیامیں واپس جانے کاپھرایک موقع دیاجاتاتوجس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہرکررہے ہیں ہم بھی ان سے بیزارہوکردکھادیتے،اللہ تعالیٰ نے فرمایاان کایہ دعویٰ بھی جھوٹاہوگا

۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [56]

ترجمہ: اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے۔

اللہ ان لوگوں کے مشرکانہ اعمال جویہ شیطان کے ساتھی بن کر دنیامیں کررہے ہیں ،جب ان کے سامنے لائے گاتو یہ حسرتوں اورپشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ،یعنی دنیامیں جواچھےاعمال کیے تھے وہ بھی شرک کے سبب ضائع ہوجائیں گے،جیسے فرمایا

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ [57]

ترجمہ:اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اُڑا دیں گے۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ۝۰ۭ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ۔۔۔۝۰۝۱۸ [58]

ترجمہ:جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو ، وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍؚبِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَـیْــــًٔـا۔۔۔۝۳۹ۙ [59]

ترجمہ: جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔

 اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ۝۱ [60]

ترجمہ:جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا ۔

اورجب اللہ عدل وانصاف کے ساتھ تمام معاملات کا فیصلہ چکادیے گااورمجرمین جہنم میں داخل کردیے جائیں گےاس وقت شیطان اپنے پیروکاروں سے کہے گا

وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲ [61]

ترجمہ: اور جب فیصلہ چکادیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا، اب مجھے ملامت نہ کرواپنے آپ ہی کو ملامت کرویہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بریٔ الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لیے تو درد ناک سزا یقینی ہے ۔ اور کفارومشرکین آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

‏ یَا أَیُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ ‎﴿١٦٨﴾‏ إِنَّمَا یَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٦٩﴾‏(البقرہ)
 ’’لوگو ! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔‘‘

لوگو!اللہ تعالیٰ نےزمین میں جوحلال حیوانات اورہرقسم کےپاکیزہ اناج،پھل اورمیوہ جات پیداکیے ہیں انہیں کھاؤاورمشرکین کی طرح شیطان کے طریقے اورراستے پرچل کر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحرام قرارمت دووہ توتمہاراکھلادشمن ہے،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا۝۰ۭ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ [62]

ترجمہ:درحقیقت شیطان تمہارادشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنادشمن ہی سمجھو،وہ تواپنے پیرووں کواپنی راہ پراس لیے بلارہاہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہوجائیں ۔

اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۝۵۰ [63]

ترجمہ: اب کیاتم مجھے چھوڑکراس کواوراس کی ذریت کواپناسرپرست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ،بڑاہی برابدل ہے جسے ظالم لوگ اختیارکررہے ہیں ۔

قَتَادَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ قُلْتُ: أَرَأَیْتَ قَوْلَهُ: وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ قَالَ: كُلُّ مَعْصِیَةٍ لِلَّهِ فَهِیَ مِنْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ. وَرُوِیَ عَنِ السُّدِّیِّ نَحْوُ قَوْلِ قَتَادَةَ.

قتادہ رحمہ اللہ اورسدی رحمہ اللہ ’’اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ ‘‘ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی شیطان کے نقش قدم پرچلنے کانام ہے۔[64]

عبد بن حمید عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: مَا كَانَ من یَمِین أَو نذر فِی غضب فَهُوَ من خطوَات الشَّیْطَان وكفارته كَفَّارَة یَمِین

عبدبن حمیدنے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہروہ قسم اورنذرجس کااللہ تعالیٰ کی ناراضی سے تعلق ہووہ شیطان کے نقش قسم پرچلناہے اوراس کاکفارہ قسم کاکفارہ ہے۔[65]

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ رَبِّی أَمَرَنِی أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ، مِمَّا عَلَّمَنِی یَوْمِی هَذَا، كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ، وَإِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِینِهِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَیْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ یُشْرِكُوا بِی مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا، وَإِنَّ اللهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ، إِلَّا بَقَایَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ،

عیاض بن حمارمجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا سنو میرے رب نے مجھے یہ حکم فرمایا ہے کہ میں تم لوگوں کو وہ باتیں سکھا دوں کہ جن باتوں سے تم لا علم ہو میرے رب نے آج کے دن مجھے وہ باتیں سکھا دیں ہیں میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کے لئے حلال ہےاور میں نے اپنے سب بندوں کو حق کی طرف رجوع کرنے والا پیدا کیا ہے لیکن شیطان میرے ان بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکاتے ہیں ،اور میں نے اپنے بندوں کے لئے جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ ان کے لئے حرام قرار دیتے ہیں ، اور وہ ان کو ایسی چیزوں کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ جس کی کوئی نشانی میں نے نازل نہیں کی،اور بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی اور عرب عجم سے نفرت فرمائی سوائے اہل کتاب میں سے کچھ باقی لوگوں کے

وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِیَكَ وَأَبْتَلِیَ بِكَ، وَأَنْزَلْتُ عَلَیْكَ كِتَابًا لَا یَغْسِلُهُ الْمَاءُ، تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَیَقْظَانَ، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَنِی أَنْ أُحَرِّقَ قُرَیْشًا، فَقُلْتُ: رَبِّ إِذًا یَثْلَغُوا رَأْسِی فَیَدَعُوهُ خُبْزَةً، قَالَ: اسْتَخْرِجْهُمْ كَمَا اسْتَخْرَجُوكَ، وَاغْزُهُمْ نُغْزِكَ، وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقَ عَلَیْكَ، وَابْعَثْ جَیْشًا نَبْعَثْ خَمْسَةً مِثْلَهُ، وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مَنْ عَصَاكَ،

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں تم کو آزماؤں اور ان کو بھی آزماؤں کہ جن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہےاور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے کہ جسے پانی نہیں دھو سکے گااور تم اس کتاب کو سونے اور بیداری کی حالت میں بھی پڑھو گے،اور بلاشبہ اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں قریش کو جلا ڈالوں ،تو میں نے عرض کیا اے پروردگار وہ لوگ تو میرا سر پھاڑ ڈالیں گے،اللہ نے فرمایا تم ان کو نکال دینا جس طرح کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا ہے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خرچہ کیا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر روانہ فرمائیں میں اس کے پانچ گنا لشکر بھیجوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تابعداروں کو لے کر ان سے لڑیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان ہیں ،

قَالَ: وَأَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیمٌ رَقِیقُ الْقَلْبِ لِكُلِّ ذِی قُرْبَى وَمُسْلِمٍ، وَعَفِیفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِیَالٍ، قَالَ: وَأَهْلُ النَّارِ خَمْسَةٌ: الضَّعِیفُ الَّذِی لَا زَبْرَ لَهُ، الَّذِینَ هُمْ فِیكُمْ تَبَعًا لَا یَبْتَغُونَ أَهْلًا وَلَا مَالًا، وَالْخَائِنُ الَّذِی لَا یَخْفَى لَهُ طَمَعٌ، وَإِنْ دَقَّ إِلَّا خَانَهُ، وَرَجُلٌ لَا یُصْبِحُ وَلَا یُمْسِی إِلَّا وَهُوَ یُخَادِعُكَ عَنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ وَذَكَرَ الْبُخْلَ أَوِ الْكَذِبَ وَالشِّنْظِیرُ الْفَحَّاشُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی لوگ تین قسم کے ہیں ، حکومت کے ساتھ انصاف کرنے والے صدقہ و خیرات کرنے والے توفیق عطا کئے ہوئے وہ آدمی کہ جو اپنے تمام رشتہ داروں اور مسلمانوں کے لئے نرم دل ہو، وہ آدمی کہ جو پاکدامن پاکیزہ خلق والا ہو اور عیالدار بھی ہو لیکن کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھیلاتا ہو، آپ نے فرمایا دوزخی پانچ طرح کے ہیں وہ کمزور آدمی کہ جس کے پاس مال نہ ہو اور دوسروں کا تابع ہو اہل و مال کا طلبگار نہ ہو،اورخیانت کرنے والا آدمی کہ جس کی حرص چھپی نہیں رہ سکتی اگرچہ اسے تھوڑی سی چیز ملے اور اس میں بھی خیانت کرے اوروہ آدمی جو صبح شام تم کو تمہارے گھر اور مال کے بارے میں دھوکہ دیتا ہواور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل یا جھوٹے اور بدخو اور بیہودہ گالیاں بکنے والے آدمی کا بھی ذکر فرمایا۔[66]

وہ تواللہ تعالیٰ کے سامنے کیے ہوئے دعویٰ کے مطابق تمہیں برائی ،بے حیائی اورفحش کاموں کاحکم دیتاہے اورتمہیں یہ سکھاتاہے کہ تم اللہ کے نام پروہ باتیں کہوجن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں ۔

وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلَا یَهْتَدُونَ ‎﴿١٧٠﴾‏ وَمَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿١٧١﴾‏(البقرة)
 ’’ اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایاگو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں ،کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں انہیں عقل نہیں ۔‘‘

ان سے جب کہاجاتاہے کہ اپنی ضلالت وجہالت کوترک کرکے اللہ کی منزل کتاب اورسنت رسول کی پیروی کروتوجواب دیتے ہیں کہ ہم توانہی دینی اورمعاشرتی رسم ورواج کی پیروی کریں گے جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے،اچھااگران کے باپ دادانے عقل وشعور سے کچھ بھی کام نہ لیاہواورراہ راست نہ پائی ہوتوکیاپھربھی یہ آنکھیں بندکرکے انہیں کی تقلید کیے چلے جائیں گے ؟اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے مومنین کے بارے میں ارشادفرمایا

 إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ أَنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [67]

ترجمہ:ایمان والوں کی بات تواتنی ہے کہ جب انہیں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایاجاتاہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تووہ کہتے ہیں کہ ہم نے فیصلہ سن لیااورہم نے اطاعت کی اوریہی لوگ دونوں جہانوں میں بامرادہیں ۔

یہ کفارومشرکین جنہوں نے تقلیدآبامیں اپنی عقل وفہم کومعطل کررکھاہے اور جنہوں نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پرچلنے سے انکارکردیاہے ان کی مثال بالکل ان جانوروں کی سی ہے جیسے چرواہاجانوروں کوپکارتاہے اوروہ ہانک پکارکی صداتوسنتے ہیں مگریہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے،اسی طرح یہ مقلدین بھی بہرے ہیں کہ حق کی آوازکوسمجھنے اورقبول کرنے سے قاصرہیں ،یہ گونگے ہیں کہ حق بات ان کی منہ سے نہیں نکلتی ،یہ اندھے ہیں کہ عبرت کی نظر سے دیکھ نہیں سکتے اورعقل وشعورسے عاری ہیں کہ دعوت حق اوردعوت توحیدوسنت کے سمجھنے سے قاصرہیں ،اس لیے عقل وشعوراورکوئی نفع بخش بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ، جیسے فرمایا

 وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ۔۔۔ ۝۳۹ [68]

ترجمہ:مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴿١٧٢﴾‏ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَیْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٧٣﴾‏ (البقرة)
’’اے ایمان والو !جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو، تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے، پھر جو مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہواس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اگرتم حقیقت میں اللہ وحدہ لاشریک ہی کی بندگی کرنے والے ہوجوتمہاراخالق ،مالک اورروزی رساں ہےتوساری چھوت چھات اورزمانہ جاہلت کی ساری بندشیں اورپابندیاں توڑ کرپاک وحلال چیزیں جوہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بغیرکسی کراہت اوررکاوٹ کے کھاؤ،

یٰٓاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۔۔۔۝۰۝۵۱ۭ [69]

ترجمہ: اے پیغمبرو !کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِینَ، فَقَالَ: {یَا أَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ} [70]وَقَالَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [71] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْهِ إِلَى السَّمَاءِ، یَا رَبِّ، یَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى یُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اورپاک وحلال مال کو پسند فرماتا ہےاوراللہ نے مومنوں کوبھی وہی حکم دیاہے جومرسلین کوحکم فرمایاہے،اورفرمایا’’اے رسولو!کھاؤپاکیزہ چیزیں اورنیک عمل کرومیں تمہارے کاموں کوجانتاہوں ۔‘‘اورفرمایا’’اے ایمان والو!کھاؤپاک چیزیں جوہم نے تم کودیں ہیں ۔‘‘پھراس شخص کاذکر فرمایا ایک شخص لمبا سفرکرتاہے،وہ پراگندہ بالوں والاغبار آلود ہوتا ہے،اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکردعاکرتاہے اورگڑگڑاکراللہ تعالیٰ کو پکارتاہے حالانکہ اس کاکھاناپیناحرام ہےاوراس کاپیناحرام ہےاوراس کالباس حرام ہےاوراس کی غذا حرام ہے پھراس کی دعاکیونکرقبول ہو۔ [72]

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ، قَالَ:سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ، وَالْجُبْنِ، وَالْفِرَاءِ، قَالَ:الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللهُ فِی كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللهُ فِی كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ، فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی،پنیراورجنگلی گدھے کے بارے میں پوچھاگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قراردیاہے اورحرام وہ ہے جسے اس نے اپنی کتاب میں حرام قراردیاہےاورجس سے اس نے سکوت فرمایاہے وہ قابل معافی ہے۔[73]

اوراللہ کی بخشی ہوئی بے بہانعمتوں پراس کا شکراداکرواوراس کے حضوراپناسرجھکادو،اللہ کی طرف سے اگرکوئی پابندی تم پرہے تووہ یہ ہے کہ جس جانورکوشرعی طور پر ذبح نہ کیاگیاہوبلکہ اپنی موت آپ مر جائے خواہ کسی نے اس کاگلاگھونٹ دیاہویاچوٹ لگنے سے مرگیاہوکہیں سے گرکرمرگیاہویادوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہویادرندوں نے اسے مارڈالاہو اسے نہ کھاؤ،جانوروں کوذبح کرتےہوئے جوخون بہہ جائے اورسورکا گوشت نہ کھاؤخواہ اسے ذبح کیاگیاہوخواہ وہ اپنی موت آپ مرگیاہو اورکوئی بھی ایسی چیزنہ کھاؤجس پراللہ کے سواکسی اورکانام لیا گیاہو،یعنی وہ جانور جسےبتوں ،استھانوں ،پتھروں اورقبروں وغیرہ پرذبح کیاگیاہویاوہ کھاناجوکسی اورکے نام پربطورنذرپکایاجائے اسے مت کھاؤ،

یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، إِنَّ لَنَا أَظْآرًا مِنَ الْعَجَمِ لَا یَزَالُ یَكُونُ لَهُمْ عِیدٌ فَیُهْدُونَ لَنَا مِنْهُ، أَفَنَأْكُلُ مِنْهُ شَیْئًا؟قَالَتْ: أَمَّا مَا ذُبِحَ لِذَلِكَ الْیَوْمِ فَلَا تَأْكُلُوا وَلَكِنْ كُلُوا مِنْ أَشْجَارِهِمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاگیااے مومنین کی ماں !بعض عجمی لوگ اپنی عیدوں میں جانوروں کوذبح کرتے ہیں پھران کے گوشت کامسلمانوں کوتحفہ بھی دیتے ہیں فرمایاجوانہوں نے اپنے اس خاص دن کے لیے ذبح کیاہواسے نہ کھاؤاوران کے درختوں (کے پھلوں )کوکھالو۔[74]

ہاں جوشخص مجبور و بے بس ہوجائےاوروہ ان میں سے کوئی چیزبقدرضرورت کھالے بغیراس کے کہ وہ قانون شکنی کاارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حدسے تجاوزکرے تواس پرکچھ گناہ نہیں ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ، قَاطِعًا لِلسَّبِیلِ أَوْ مُفَارِقًا لِلْأَئِمَّةِ، أَوْ خَارِجًا فِی مَعْصِیَةِ اللهِ، فَلَهُ الرُّخْصَةُ ، وَمَنْ خَرَجَ بَاغِیًا أَوْ عَادِیًا أَوْ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ، فَلَا رُخْصَةَ لَهُ وَإِنِ اضْطُرَّ إِلَیْهِ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں جوشخص ناچار ہوجائے اوروہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے ، حدسے تجاوزنہ کرے،رہزن نہ ہو،حکمرانوں کامخالف نہ ہویااللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے لیے نہ نکلاہوتواس کے لیے حرام کھانے کی رخصت ہےاورجوشخص سرکشی،دشمنی اوراللہ کی نافرمانی کے لیے نکلاہوتواس کے لیے اضطراری حالت میں بھی حرام کھانے کی رخصت نہیں ہے۔[75]

آگرکوئی شخص اضطراری حالت میں کھالے تواس پرگناہ نہیں ہے،بیشک للہ بخشنے والااوررحم کرنے والاہے۔

إِنَّ الَّذِینَ یَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا یُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٧٤﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ‎﴿١٧٥﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِی الْكِتَابِ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ ‎﴿١٧٦﴾‏(البقرة)
’’بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیںیقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے، یہ لوگ آگ کا عذاب کتنا برداشت کرنے والے ہیں،ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقیناً دور کے خلاف میں ہیں۔

بدترین لوگ :یہودیوں نے اپنے پاس موجودان کتابوں میں لکھی ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کوچھپایاجوآپ کی نبوت ورسالت کی شاہدتھیں تاکہ ان کی ریاست وقیادت کاخاتمہ نہ ہواوران تحائف اورنذرانوں کاسلسلہ ختم نہ ہوجائے جوعرب ان کی تعظیم کی وجہ سے ان کی خدمت میں پیش کیاکرتے تھے،ان کے بارے میں فرمایاحق یہ ہے کہ جولوگ ان احکام کوچھپاتے ہیں جواللہ نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اورتھوڑے سے دنیاوی مال ومتاع کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کودورپھینک دیتے ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ سے بھررہے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایاکہ یتیموں کامال کھانے والےبھی اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں ،

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا۝۰ۭ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۝۱۰ۧ [76]

ترجمہ:جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الَّذِی یَشْرَبُ فِی إِنَاءِ الفِضَّةِ إِنَّمَا یُجَرْجِرُ فِی بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتاپیتاہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔[77]

حق چھپانے کی وجہ سے وہ غضب الٰہی کے مستحق قرارپائیں گے اس لیےقیامت کے روزاللہ ہرگزان سے کلام نہیں فرمائے گا اورنہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گابلکہ انہیں دکھ دینے والے عذاب میں مبتلاکردے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَلَا یُزَكِّیهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ، شَیْخٌ زَانٍ ، وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روزتین قسم کے لوگوں سے اللہ بات نہ کرے گانہ ان کی طرف دیکھے گانہ انہیں پاک کرے گااوران کے لئے دردناک عذاب ہیں زانی بڈھااورجھوٹابادشاہ اورمتکبرفقیر۔[78]

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اوربخشش ومغفرت کے بدلے جہنم کا دردناک عذاب مول لے لیا،ان لوگوں کاعجیب حوصلہ ہے کہ دنیاکے معمولی فائدوں کے لئے جہنم کادائمی عذاب برداشت کرنے کے لیے تیارہیں !یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی اورانہیں حکم دیاتھاکہ یہ علم کوظاہراورنشرکریں مگرجن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے،اس کے کچھ حصوں کو مانا اور کچھ سے انکارکردیا اورضد،حسداورتعصب میں مبتلاہوکر حق سے بہت دورنکل گئے۔

[1] دلائل النبوة للبیہقی۲۷۶؍۶

[2] البقرہ۱۳۵

[3] البقرة: 137

[4] شعب الایمان ۲۰۳۴

[5] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۴؍۱

[6] الانعام۸۰

[7] یونس۴۱

[8] آل عمران ۲۰

[9] آل عمران۶۷

[10] تفسیرابن ابی حاتم ۲۴۶؍۱

[11] البقرة۴۵

[12] مسنداحمد۲۳۲۹۹،سنن ابوداودأَبْوَابُ قِیَامِ اللیْلِ بَابُ وَقْتِ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللیْلِ۱۳۱۹

[13] الزمر۱۰

[14] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ۷۵۰۰

[15] آل عمران۱۶۹

[16] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ بَیَانِ أَنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِی الْجَنَّةِ، وَأَنَّهُمْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ ۴۸۸۵، مسنداحمد۲۳۸۸

[17] مسنداحمد۱۵۷۷۶

[18] محمد۳۱

[19] النحل۱۱۲

[20] البقرة: 156

[21] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَةِ ۲۱۲۶

[22] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَةِ۲۱۲۶، مسند احمد۱۶۳۴۳

[23] مسند احمد ۱۶۳۴۴

[24] البقرة: 158

[25] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ وُجُوبِ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ ۱۶۴۳

[26] البقرة: ۱۵۸

[27] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ أَنَّ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رُكْنٌ لَا یَصِحُّ الْحَجُّ إِلَّا بِهِ ۳۰۷۹،فتح الباری ۵۰۰؍۳

[28] البقرة: ۱۵۸

[29] البقرة: ۱۵۸

[30] البقرة: ۱۵۸

[31] مسنداحمد۲۵۱۱۲

[32] الحج۳۲

[33] مسنداحمد۲۷۳۶۸

[34] النساء ۴۰

[35] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۹؍۱

[36] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۹؍۱

[37] سنن ابوداودکتاب العلم بَابُ كَرَاهِیَةِ مَنْعِ الْعِلْمِ ۳۶۵۸،جامع ترمذی کتاب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِی كِتْمَانِ العِلْمِ۲۶۴۹،سنن ابن ماجہ المقدمة بَابُ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ۲۶۱

[38] البقرة: 159

[39] البقرة: 160

[40] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ حِفْظِ العِلْمِ۱۱۸، صحیح مسلم کتاب فضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی هُرَیْرَةَ الدَّوْسِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۳۹۹

[41] ص۵

[42] آل عمران: 2

[43] سنن ابوداودکتاب الصلاة ابواب الوتربَابُ الدُّعَاءِ۱۴۹۶،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَابُ جَامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۴۷۶،سنن ابن ماجہ کتاب الدعابَابُ اسْمِ اللهِ الْأَعْظَمِ۳۸۵۵

[44] یٰسین ۴۰

[45] الحج۶۱

[46]یٰسین۳۳تا۳۶

[47] ھود۶

[48] آل عمران۱۹۰،۱۹۱

[49] الزمر۴۵

[50] الرعد۳۳

[51] النجم۲۳

[52] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا۷۵۲۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ، وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ۲۵۷،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الفُرْقَانِ ۳۱۸۲،سنن نسائی کتاب المحاربہ ذِكْرُ أَعْظَمِ الذَّنْبِ۴۰۱۹

[53] مریم۸۲

[54] العنکبوت۲۵

[55]سبا۳۱

[56] الانعام۲۸

[57] الفرقان۲۳

[58] ابراہیم۱۸

[59] النور۳۹

[60] محمد۱

[61] ابراہیم۲۲

[62] فاطر۶

[63] الکہف۵۰

[64] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۱؍۱

[65] الدر المنثور۴۰۳؍۱           

[66] صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعیمھا واھلھاباب صفات الدنیااھل الجنة واھل النار۷۲۰۷، مسنداحمد۱۷۴۸۴، مسند البزار ۳۴۹۱،السنن الکبریٰ للنسائی ۸۰۱۶،صحیح ابن حبان ۶۵۳،المعجم الاوسط ۲۹۳۳،شرح السنة للبغوی ۴۲۱۰

[67] النور۵۱

[68] الانعام۳۹

[69] المومنون۵۱

[70] المومنون۵۱

[71]البقرہ172

[72] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا ۲۳۴۶، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ ۲۹۸۹، مسند احمد ۸۳۴۸،سنن الدارمی ۲۷۵۹،السنن الکبری للبیہقی۶۳۹۴،شعب الایمان۱۱۱۸،شرح السنة للبغوی۲۰۲۸،معجم ابن عساکر ۲۴۷

[73] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابُ أَكْلِ الْجُبْنِ وَالسَّمْنِ۳۳۶۷

[74] تفسیرالقرطبی۲۲۴؍۲

[75] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۳؍۱

[76] النساء ۱۰

[77] صحیح بخاری کتاب الاشربة بَابُ آنِیَةِ الفِضَّةِ۵۶۳۴،صحیح مسلم کتاب اللباس بَابُ تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ أَوَانِی الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ فِی الشُّرْبِ وَغَیْرِهِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ۵۳۸۵،سنن ابن ماجہ کتاب الاشربة بَابُ الشُّرْبِ فِی آنِیَةِ الْفِضَّةِ۳۴۱۳،صحیح ابن حبان۵۳۴۱،المعجم الکبیرللطبرانی۹۲۸، مسنداحمد۲۶۵۶۸

[78] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ غِلَظِ تَحْرِیمِ إِسْبَالِ الْإِزَارِ، وَالْمَنِّ بِالْعَطِیَّةِ، وَتَنْفِیقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ۲۹۶، مسنداحمد۱۰۲۲۷، مسند البزار ۴۰۲۳،السنن الکبری للنسائی۷۱۰۰،شعب الایمان۵۰۲۲،شرح السنة للبغوی ۳۵۹۱

Related Articles