ہجرت نبوی کا دوسرا سال

کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کابہترین خبررسانی کانظام تھاآپ کواطلاع ملی کہ ابوسفیان بن حرب بہت بڑے قافلہ کے ساتھ جس کی مالیت کااندازہ تقریباًپانچ لاکھ درہم ہے شام سے لوٹ رہاہے،اوراس قافلہ کے محافظ تیس یاچالیس آدمی ہیں ،یہ خبرسن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں  کوجمع کیااورارشادفرمایا۔

هَذِهِ عِیرُ قُرَیْشٍ فِیهَا أَمْوَالُهُمْ فَاخْرُجُوا إلَیْهَا لَعَلَّ اللهَ یُنْفِلُكُمُوهَا. فَانْتَدَبَ النَّاسُ فَخَفَّ بَعْضُهُمْ وَثَقُلَ بَعْضُهُمْ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ لَمْ یَظُنُّوا أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یلقى خربا

یہ قریش کاقافلہ ہے جس میں  ان کاقیمتی سامان ہے باہرنکلواورشایداللہ یہ تمہیں  انعام کے طورپرعطاکردے،لوگوں  نے ان کی دعوت کوقبول کیابعض نے خوشی سے اوربعض نے بے دلی سے،اس لئے کہ ان کوہرگزیہ توقع نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جنگ کریں  گے۔[1]

واقدی بھی یہی لکھتاہے کہ وہ قافلہ لوٹنے کی غرض سے روانہ ہوئے تھے مگرکچھ صفحوں  کے بعدلکھتاہے کہ بدرجاتے ہوئے ر استے میں  جب  خبیب بن یساف نے اسلامی لشکر میں  شامل ہونے کی اجازت چاہی

فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَخْرُجَن مَعَنَا رَجُلٌ لَیْسَ عَلَى دِینِنَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جوشخص ہمارے دین میں  شامل نہیں  وہ ہمارے ساتھ جہادمیں  شریک نہیں  ہوسکتا۔[2]

یعنی ثابت ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روانگی قافلہ کولوٹنے کے لئے نہیں  بلکہ جہادکے لئے تھی ،اسی طرح ابن اسحاق کے بیان کے آخری الفاظ کہ لوگوں  کوہرگزیہ توقع نہیں  تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جنگ کریں  گے،اس بات کاثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ سے روانہ ہونے کے وقت اورراستہ میں  لڑائی کے امکانات سے واقف تھے اور حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لڑائی کے امکانات کاذکرفرمایامگرلوگوں  کویہ توقع نہ تھی لہذاقافلہ لوٹنے کاارادہ درست معلوم نہیں  ہوتا۔

x  اس کے علاوہ اگرقافلہ ہی لوٹناتھاجس کے ہمراہ صرف تیس یاچالیس محافظ تھے توپھرپہلے سرایات اورغزوات کے مطابق ساٹھ یاستر مہاجرین کاایک دستہ لے کرروانہ ہوتے آخراب لشکرکی تعدادبڑھانے کے لئے انصارکو کیوں  شامل کیاگیا۔

x  بدرکامقام مدینہ منورہ سے تقریباًبانوے میل یعنی چارمنزلیں  اورمکہ مکرمہ سے تقریباًایک سوساٹھ میل یعنی دس منزلوں  کے قریب ہے ،اوربین الاقوامی شاہراہ بدرسے پندرہ سولہ میل کے قریب ہے یعنی بین الاقوامی شاہراہ مدینہ منورہ کے قریب تھی اورمکہ مکرمہ سے دور،اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقافلہ لوٹناہوتاتوآپ مکی لشکرکے پہنچنے سے بہت پہلے تیز رفتار اورعلاقہ کے چپہ چپہ سے واقف دستہ کے ساتھ اس پرقبضہ کرچکے ہوتے،اوراگرابوسفیان نے اپنے قافلہ کاراستہ بدل دیا تھا توتب بھی قافلہ کولوٹناکوئی مسئلہ نہیں  تھاکیونکہ قافلہ تیز رفتاری سے حرکت نہیں  کرسکتا اور تیز رفتار لشکرکے لئے سست رفتارتجارتی قافلہ کاتعاقب مشکل نہیں  ہوتا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاتعاقب یاتعاقب کی خواہش کی کوئی روایت نہیں  ملتی۔

x  جب اتنے بڑے لشکرکی موجودگی میں  قافلہ لوٹنے کے امکانات ضائع ہوچکے تھے بلکہ قافلہ ہاتھ سے نکل چکاتھااورآپ دفاع مدینہ کی غرض سے اس غزوہ پرروانہ نہیں  ہوئے تھے توآپ مدینہ واپس کیوں  نہ لوٹ گئے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوعلم تھاکہ اہل مکہ ایک منصوبے کے تحت لڑائی کی غرض سے آرہے ہیں  اوراگرمسلمانوں  نے ان کا سامنا مدینہ منورہ سے دورکسی مقام پرنہ کیاتویہ لشکرمدینہ کے محاصرے کی غرض سے بڑھتاہی چلاآئے گا۔

x  اہل مکہ کوجب ضمضم سے ڈرامائی خبرملی تواگرانہیں  واقعہ ہی اپنے قافلہ کاخوف ہوتاتوفورا ًنکل کھڑے ہوتے بلکہ اس کے برعکس انہوں  نے تین چاردن مکہ میں  تیاریوں  میں  گزارا،ظاہرہے کہ ان کی روانگی کے وقت ان کے قافلے کوکسی طرح کاخطرہ درپیش نہ تھابلکہ ان کی روانگی کسی ماقبل کے منصوبے کے تحت عمل میں  آئی تھی۔

xمکی لشکرمیں  ان کے حلیف بنوغطفان اوربنوسلیم کے دستے بھی موجودتھے،یہ دونوں  قبیلے نجدکے رہنے والے تھے،یاتویہ دونوں  قبیلے قریش کے لشکرکے ساتھ آئے تھے یا انہوں  نے مکی لشکرکے ساتھ بدرکے مقام سے جنوب کی جانب سے الحاق کیاتھایعنی مکی لشکرنے ان ایام میں  بدرپہنچنے کامنصوبہ بہت پہلے تیارکیاہوگا،یہ فیصلہ یامنصوبہ ضمضم کے مکہ پہنچنے کے بعدکانہیں  ہوسکتا،اگریہ منصوبہ ماقبل نہ ہوتاتوخیبرکے نزدیک کے نجدی قبائلی دستے بدرکی لڑائی میں  مکی لشکرکے شانہ بشانہ کھڑے ہوکرلڑائی میں  شرکت نہیں  کرسکتے تھے۔

x  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہرنکل کر کم عمرجوانوں  کوواپس فرمادیااگریہ سفرقافلہ لوٹنے کی غرض سے ہوتاتوجب کہ قافلے کے ساتھ صرف تیس یاچالیس محافظوں  کی موجودگی بھی مسلم تھی توپھرکم عمرجوانوں  کوساتھ لے چلنے پرآپ کوکسی طرح کااعتراض نہ ہوتا۔

xہرمتمدن دورمیں  پروپیگنڈے کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ خودکوحق بجانب قراردلوانے کے لئے اپنے حملوں  کودشمن کاحملہ ثابت کیاجائے،ہجرت کے بعدسے  مکہ نے جوطریق کار اختیار کیا تھا اوراب تک وہ جوکاروائیاں  کرچکے تھے اس کاچرچایقیناًجزیرة العرب کے مختلف حصوں  میں  ہواہوگا،ملک میں  امن وامان کاقیام ہرقبیلہ کے مفادمیں  تھا،مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے مابین جواختلافات پیداہوچکے تھے وہ بین الاقوامی شاہراہ کے دائیں  بائیں  اہم علاقہ پرناخوشگواراثرڈال رہے تھےممکن ہے کہ بعض قبائل نے مکہ کے مدینہ کے خلاف جارحانہ رویہ پرنکتہ چینی کی ہو،دوسری طرف مکہ کسی طورپرمدینہ کوپھلتاپھولتا نہیں  دیکھ سکتاتھااس مخمصے کاایک ہی حل ہوسکتاتھاکہ مدینہ پریکبارگی شدت سے حملہ کیاجائے اور اسے ابوسفیان کے بڑے تجارتی قافلہ کے دفاع سے تعبیرکیاجائے،اس طرح عظیم دشمن مدینہ کاخاتمہ بھی ہوسکے گااوردنیامکہ کی طرف انگشت نمائی بھی نہیں  کرسکے گی،سب سے اہم مسئلہ یہ تھاکہ مکہ کے قریب قیام پذیربنی بکراوراہل قریش میں  اختلافات تھے،اگرپورامکہ مدینہ کے خلاف روانہ ہوجاتاتوخدشہ تھاکہ بنی بکران کی غیرحاضری کافائدہ اٹھاکرمیں  مکہ پرحملہ کردیتے۔(ابن اسحاق۳۹۵)چنانچہ بنوبکرکوسمجھانے بجھانے کے لئے پہلے یہ ضروری تھاکہ یہ مشہورکردیاجائے کہ مدینہ نے مکی قافلے کولوٹنے کافیصلہ کیاہے اوراس قافلے کی حفاظت کے لئے پورے مکی لشکرکوآگے بڑھ کرراستہ بھرحفاظت مہیاکرنی ہے،اس کے علاوہ اہل مکہ کوعلم تھاکہ بنوضمرہ اوربنومدلج مسلمانوں  کے حلیف ہیں  ،ان کوبھی یہ باورکراناتھاکہ مدینہ بین الاقوامی شاہراہ پرتجارتی قافلہ لوٹنے کی مجرمانہ کاروائی کررہاہے اس لئے مکہ اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے مدینہ کے خلاف لشکرکشی میں  حق بجانب ہے،اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کے اندربھی ایساعنصرموجودتھاجومکی مدنی کشمکش کواچھی نظرسے نہیں  دیکھتاتھا،انہیں  بھی خاموش کرنے کے لئے ضروری تھاکہ مکہ کی کشکرکشی کوحفاظتی  تدبیربتایاجائے۔

xاصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومدینہ منورہ میں بروقت اطلاع مل چکی تھی کہ مکہ اپنے حلیفوں  بنوغطفان وغیرہ کے ساتھ ایک بڑالشکرلے کرمدینہ کی طرف آرہاہے  اورلڑائی کے امکانات روشن ہیں ،یہ خبرتمام افرادکے علم میں  تھی ورنہ بعض افرادکولڑائی کے نام سے خطرہ محسوس نہ ہوتااس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ مقابلہ کے لئے انصارکوبھی لشکرمیں  شامل کیاجائے ۔

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مشاورت مدینہ منورہ میں  کی گئی مگر جب قافلہ لوٹنے کاایک غلط مفروضہ تسلیم کرلیاگیاتومفروضے کاسقم دورکرنے کے لئے اجتماع ملت کوبدرپہنچنے سے ایک منزل قبل ذفران کے مقام پررکھاگیا ،مگریہ صحیح نہیں  ۔

اصل واقعہ یوں  ہے کہ مدینہ منورہ میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومکی لشکرکے روانگی کی خبرموصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فوراًصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کا اجلاس علام طلب فرمایاجومدنی زندگی میں  نئی بات تھی کیونکہ اس سے قبل سرایایاغزوات کے لئے اس طرح کے اجتماع کی ضرورت نہیں  پڑی تھی ،مکی دستوں  کامقصدشاہراہ شام کے اطراف مدینہ کے اثرورسوخ کوکم کرنااوراگرموقع ملے تومدینہ پرچھاپہ مارنے کا ہوتا تھااوران کی تعدادکسی موقع پرتین سوسے زائدنہیں  ہوئی تھی ،مگریہ دستے مدینہ کاوجودمٹانے کی صلاحیت نہیں  رکھتے تھے یاکم ازکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں  اس قابل نہیں  سمجھتے تھے کہ انہیں  روکنے کے لئے پوری ملت کے وسائل یکجاکیے جائیں ،مگراس مرتبہ مکہ کے پیش نظر جو مقصد تھا اور اس مقصدکے حصول کے لئے جوطاقت وہ استعمال کررہاتھااس کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ملت کاعلام اجلاس طلب کرنا مناسب خیال فرمایاتاکہ صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم کوموقع کی نزاکت کا احساس بھی ہوجائے اوروہ اس قدرخوفزدہ بھی نہ ہوجائیں  کہ لشکرمیں  بے دلی کی فضاچھاجائے ،دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوپہلے دن سے ہی توقع تھی کہ قریش اپنی طاقت جمع کر کے ایک نہ ایک دن مسلمانوں  کرصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے مدینہ کے خلاف یلغارکریں  گے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میثاق مدینہ میں  دفاع مدینہ کے متعلق دفعات ہرگز شامل نہ فرماتے ،چنانچہ دشمن کواپنے مقاصدبد سے روکنے کے لئے اب ضروری تھاکہ ایسے لوگوں  کوساتھ لے جایاجائے جواخلاق وکردارمیں  بلندمعیارکے حامل ہوں  اور حق وباطل کے پہلے معرکہ میں میدان جنگ میں  ثابت قدم رہے سکیں ،کیونکہ چند لوگ ابھی موجودتھے جوخودکودائرہ اسلام میں  شمارکرتے تھے مگرابھی ایمان کے اس درجہ پر نہیں  پہنچے تھے جہاں  اپنی جان کانذرانہ پیش کرنا اپنے لئے سعادت اوربلندترین مقام کاانعام سمجھتے، اس لئے ایسے لوگوں  کوجولڑائی کے امکانات کی خبرسنتے ہی خوفزدہ ہوگئے تھے انہیں  مدینہ ہی میں  چھوڑدیاگیاتھاتاکہ کہیں  ایسانہ ہوکہ موت سے ڈرنے والے لشکرمیں  بے دلی پیداکردیں ،جبکہ جومدنی لشکربدرکی جانب روانہ ہواتھااس نے میدان جنگ میں  انتہائی صبروثبات کاثبوت پیش کیاتھا،ان تین سوتیرہ میں  سے ایک فردبھی ایسانہیں  تھاجولڑائی کی خبرسن کرہی خوفزدہ ہوگئے۔

 کفارکے مقتولین کی تدفین:

اس دن شدیدگرمی تھی اس لئے لاشیں  جلدہی سڑنے لگیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَأَشْهَدُ بِاللهِ،لَقَدْ رَأَیْتُهُمْ صَرْعَى، قَدْ غَیَّرَتْهُمُ الشَّمْسُ، وَكَانَ یَوْمًا حَارًّا

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  اس لئے اللہ کوگواہ بناتاہوں  کہ میں  نے (بدرکے میدان میں )مقتولین کی لاشیں  پڑی ہوئی پائیں ،اس دن بڑی گرمی تھی اورسورج نے ان کی لاشوں  کو بدبودار کر دیاتھا۔[3]

أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْقَتْلَى أَنْ یُطْرَحُوا فِی الْقَلِیبِ ، طُرِحُوا فِیهِ

چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ کفار(کے چوبیس سرداروں )کی لاشوں  کو(ایک نہایت خبیث ناپاک اورگندے ) کنوئیں  میں  ڈال دو،چنانچہ تمام سرداران مکہ کی لاشوں  کو ایک ہی کنوئیں  میں  ڈال دیاگیا۔[4]

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوبتاتے جارہے تھے کہ یہ فلاں  ابن فلاں  ہے ،یہ فلاں  ابن فلاں  ہے

فَنَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ- فِیمَا بَلَغَنِی فِی وَجْهِ أَبِی حُذَیْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ، فَإِذَا هُوَ كَئِیبٌ قَدْ تَغَیَّرَ لَوْنُهُ، فَقَالَ:یَا أَبَا حُذَیْفَةَ، لَعَلَّكَ قَدْ دَخَلَكَ مِنْ شَأْنِ أَبِیكَ شَیْءٌ؟ أَوْ كَمَا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا، وَاَللَّهِ یَا رَسُولَ اللهِ، مَا شَكَكْتُ فِی أَبِی وَلَا فِی مَصْرَعِهِ،وَلَكِنَّنِی كُنْتُ أَعْرِفُ مَنْ أَبِی رَأْیًا وَحِلْمًا وَفَضْلًا، فَكُنْتُ أَرْجُو أَنْ یَهْدِیَهُ ذَلِكَ إلَى الْإِسْلَامِ، فَلَمَّا رَأَیْتُ مَا أَصَابَهُ، وَذَكَرْتُ مَا مَاتَ عَلَیْهِ مِنْ الْكُفْرِ، بَعْدَ الَّذِی كُنْتُ أَرْجُو لَهُ، أَحْزَنَنِی ذَلِكَ،فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْرٍ، وَقَالَ لَهُ خَیْرًا

جب عتبہ بن ربیعہ کی لاش کوٹانگ سے پکڑاورگھسیٹ کرکنوئیں  میں  ڈالنے کے لئے لایا جا رہا تھا تو اپنے والدکی یہ حالت دیکھ کر ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  کاچہرہ متغیرہوگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو حذیفہ  رضی اللہ عنہ  کے چہرے پررنج وغم کے آثاردیکھےتو فرمایااے ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  !کیا اپنے والدکی یہ حالت دیکھ کرتیرے دل میں  کچھ خیال گزراہے،ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !واللہ کوئی خیال نہیں ،بات صرف اتنی سی ہے کہ میراوالدصاحب الرائے ،حلیم ، بردباراورصاحب فضل تھا،اس لئے اس کی فہم وفراست سے امیدتھی کہ وہ اسے اسلام کی طرف رہنمائی کرے گی ،لیکن جب اسے کفرپرمرتے دیکھاتورنج ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  کے حق میں  دعائے خیرفرمائی ۔[5]

غَیْرَ أُمَیَّةَ، أَوْ أُبَیٍّ، فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، فَلَمَّا جَرُّوهُ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ قَبْلَ أَنْ یُلْقَى فِی البِئْرِ

مگرامیہ بن خلف کی لاش دوسرے مشرکین مکہ کے ساتھ کنوئیں  میں  نہ ڈالی جاسکی کیونکہ وہ بہت جسیم تھا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اس کی لاش کوپکڑکرگھسیٹاتوکنوئیں  تک پہنچتے پہنچتے اس کے تمام جوڑعلیحدہ ہو گئے اس لئے وہیں  مٹی میں  دبا دی گئی۔[6]

باقی لوگوں  کی لاشوں  کوکسی اورجگہ ڈلوادیاگیا

وَأَمَرَ عَبْدَ اللهِ بْنَ كَعْبٍ بِقَبْضِ الْغَنَائِمِ وَحَمْلِهَا

جب سورج غروب ہونے لگامیدان بدرسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوئے اورعبداللہ بن کعب  رضی اللہ عنہ کومال غنیمت جمع کرنے اوراونٹوں  پر لادنے کاحکم فرمایا۔[7]

اس کے بعدمال غنیمت کواکٹھاکیا گیا

وَیُقَالُ صَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْأُثَیْلِ

پھر سب مجاہدین ، قیدیوں  اورمال غنیمت کے ساتھ وادی بدرسے دو میل دوروادی اثیل میں  جومدینہ منورہ کے راستے میں  ہے تشریف لائے اورنمازعصرادافرمائی اوروہیں  شب بسرفرمائی۔

کفارکے اسیر:

گرفتارہونے والوں  میں  سے چندکے نام کچھ یوں  ہیں ۔

ابوعزیزبن عمیربھی تھاجوکفار کاعلم بردارتھا،وہب بن عمیرانہیں  رفاعہ بن رافع  رضی اللہ عنہ  نے گرفتارکیاتھا۔

ام المومنین سودہ بنت زمعہ  رضی اللہ عنہا  کے بھائی عبدبن زمعہ(بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

نسطاس مولیٰ امیہ بن خلف (غزوہ احدکے بعدمسلمان ہوگئے تھے)

قیس بن سائب مخزومی (جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ شریک تجارت تھااوربعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

سہیل بن عمرو(بعدمیں  مسلمان ہوئے تھے )

عبداللہ بن ابی بن خلف (فتح مکہ میں  مسلمان ہوئے )

خالدبن اعلم ،ابودواعہ سہمی (فتح مکہ میں  مسلمان ہوئے )

فاطمہ بنت ابی جیش  رضی اللہ عنہا  کے بھائی سائب بن ابی جیش(فتح مکہ میں  اسلام قبول کیا )

عبداللہ بن ابی السائب (بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

ابوعطاء مطلب بن حظب (بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

عباس  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جن کوکعب بن عمروابوالیسر رضی اللہ عنہ  نے گرفتارکیاتھا (بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

وَكَانَ أَبُو الْیُسْرِ رَجُلا مَجْمُوعًا، وَكَانَ الْعَبَّاسُ رَجُلا جَسِیمًا، فَقَالَ رَسُولُ الله لأَبِی الْیُسْرِ: كَیْفَ أَسَرْتَ الْعَبَّاسَ یَا أَبَا الْیُسْرِ؟ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَقَدْ أَعَانَنِی عَلَیْهِ رَجُلٌ مَا رَأَیْتُهُ قَبْلَ ذَلِكَ وَلا بَعْدَهُ، هَیْئَتُهُ كَذَا وَكَذَا،قَالَ رَسُولُ اللهِ : لَقَدْ أَعَانَكَ عَلَیْهِ مَلَكٌ كَرِیمٌ

عباس قوی اورجسیم تھے ،جبکہ ابوالیسر رضی اللہ عنہ  نحیف الجسم اورضعیف القوی اور قصیرالقامت تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےابو الیسر سے فرمایااے ابوالیسر رضی اللہ عنہ !تونے عباس کوکیسے گرفتارکیا؟ابوالیسر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص نے میری مددکی جس کومیں  نے اس سے پہلے کبھی نہیں  دیکھا تھااورنہ ہی وہ بعدمیں  دکھائی دیااوراس کی ہئیت ایسی اورایسی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تحقیق ایک محترم فرشتے نے تیری مددکی۔[8]

عقیل  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب(بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

نوفل بن حارث جن کو عبید  رضی اللہ عنہ  بن اوس نے گرفتار کیا تھا (بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

دامادرسول ابوالعاص  رضی اللہ عنہ بن ربیع(بعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)

آپ کے شدیددشمن نضربن حارث اورعقبہ بن ابی معیط لَعَنَهُ اللهُ بھی تھے ، اسی عقبہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیت اللہ میں باری تعالیٰ کی بارگاہ میں  سربسجودتھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھ لاکررکھی تھی اس وقت فاطمہ  رضی اللہ عنہا نے آکراوجھ کوکمرسے ہٹایاتھا۔

ایک مرتبہ جب آپ بیت اللہ میں  نمازپڑھ رہے تھے توآپ کے گلے میں  کپڑا ڈال کرگھونٹنے لگااورسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے آکربچایا تھا اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعاکی تھی۔

اللهُمَّ عَلَیْكَ الْمَلَأَ مِنْ قُرَیْشٍ، اللهُمَّ عَلَیْكَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ، وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ وَأُمَیَّةَ بْنَ خَلَفٍ، أَوْ أُبَیَّ بْنَ خَلَفٍ، شَكَّ شُعْبَةُ۔ [9]

مَا أَنَا بِالَّذِی أَرْضَى عَنْكَ أَبَدًا حَتَّى تَأْتِیَهُ فَتَبْزُقَ فِی وَجْهِهِ وَتَطَأَ عَلَى عُنُقِهِ

اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےاسی بدبخت عقبہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہ انور پر تھوکا تھا پیروں  تلے ان کی گردن کو روند ڈالو۔[10]

اوراس نے منصب نبوت کی باربارتوہین کی تھی ۔

 شہدائے بدر:

مجاہدین اسلام سے چھ مہاجرین  عبیدہ  رضی اللہ عنہ بن حارث، کم سن صحابی عمیر  رضی اللہ عنہ  بن ابی وقاص جوسولہ سال کی عمرمیں  شہادت سے سرخ روہوئے، عاقل  رضی اللہ عنہ  بن البکیر چونتیس سال کی عمرمیں  شہادت سے سرخ روہوئے،آپ  رضی اللہ عنہ  سابقون اوالون میں  سے تھے، یہ دارارقم میں  مشرف باسلام ہوئے تھے،پہلے ان کانام غافل تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے غافل کے بجائے عاقل نام رکھا،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ , قَالَ:مِهْجَعٌ مَوْلَى عُمَرَ یَحْمِلُ وَیَقُولُ: أَنَا مِهْجَعٌ , وَإِلَى رَبِّی أَرْجِعُ

سعدبن مسیب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کے آزادکردہ غلام مہجع بن صالح ،قریش سے قتال کی وقت ان کی زبان پریہ الفاظ تھےمیں  مہجع ہوں  اوراپنے پروردگارکی طرف لوٹنے والاہوں ۔[11]

ذوالشمالین عمیر رضی اللہ عنہ  بن عبدعمرو، صفوان بن وہب یاصفوان بن بیضاء۔ دو انصارقبیلہ اوس سے مبشر رضی اللہ عنہ  بن عبدالمنذر،سعد  رضی اللہ عنہ  بن خثیمہ جنہوں  نے عمروبن عبدویاطعیمة بن عدی کے ہاتھوں  جام شہادت نوش فرمایا اورپانچ انصارقبیلہ خزرج سے معوذ  رضی اللہ عنہ  بن الحارث ، عوف  رضی اللہ عنہ  بن الحارث جوماں  کے نام سے عوف  رضی اللہ عنہ  بن عفرا بھی کہلاتے تھے، عمیر  رضی اللہ عنہ  بن الحمام ، یزید  رضی اللہ عنہ  بن حارث ، رافع  رضی اللہ عنہ  بن معلی اور حارثہ  رضی اللہ عنہ بن سراقہ شہیدہوئے،اس طرح کل چودہ مسلمانوں  نے جام شہادت نوش فرمایا،

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَتْلَى بَدْرٍ

جنگ کے بعدشہدائے بدر پر نماز جنازہ پڑھی گئی اوران کوایک ہی جگہ دفن کردیاگیا۔[12]

أَنّ مُعَاذَ بْنَ مَاعِصٍ جُرِحَ بِبَدْرٍ فَمَاتَ مِنْ جُرْحِهِ بِالْمَدِینَةِ

قبیلہ خزرج کے معاذ بن ماعص رضی اللہ عنہ  جوغزوہ بدرمیں  بہت زخمی ہوگئے تھے واپس لوٹنے کے بعدمدینہ میں  ان ہی زخموں  کی وجہ سے انتقال ہوا۔[13]

مال غنیمت:

دورجاہلیت میں  جنگ وجدل اوردشمن قبائل کی لوٹ مارعربوں  کادل پسنداورمحبوب مشغلہ تھا اہل عرب کواس خوفناک کام پرجوچیزابھارتی تھی ان میں  ایک مال غنیمت کاشوق تھا،ایک عرب جب ہتھیاراٹھاتاتھاتواس کے دل میں پہلی تمنایہ پیداہوتی تھی کہ جنگ میں  اسے خوب مال غنیمت اورلونڈی غلام ہاتھ آئیں ،تجارت یامحنت ومشقت سے حاصل کیاہوامال اس کی نگاہ میں  ذلیل مال تھا،اصلی عزت اس کے نزدیک اس طیب مال کے حاصل کرنے میں  تھی جسے وہ میدان جنگ سے لوٹ کرلائے ، رات دن مختلف قبیلے ایک دوسرے پراسی غرض کے لئے چھاپے ماراکرتے تھے کہ بکریاں ،اونٹ،لونڈی غلام اورمال ومتاع لوٹ لائیں  اوریہی شوق ان کوزیادہ ترجنگ پرابھاراکرتاتھا اس لئے یہ اکثر قبائل کاباقاعدہ پیشہ بن چکاتھا،جب کوئی فوج کسی قبیلے پرچھاپے کے لئے روانہ ہوتی توان کی عورتیں  اپنے مردوں  کوقسم دے دیاکرتی تھیں  کہ بغیرمال غنیمت لئے واپس نہ آنا،چنانچہ اس فوج کے ساتھ بہت سے مال غنیمت کے بھوکے بھی محض لوٹ مارکے لئے اس کے ساتھ ہوجاتے تھے،یہ لوٹ ماراہل عرب کی جنگ کے اولین مقاصدمیں  سے تھی اورعقلائے عرب اس جنگ کوبیکاروبے نتیجہ سمجھتے تھے جس میں  کچھ مال ہاتھ نہ آئے،اکثم بن صیفی جواپنی قوم کابڑاجہاندیدہ وفرزانہ شخص تھاکہاکرتاتھاکہ بہترین فتح وہ ہے جس میں  بہت سے قیدی ہاتھ آئیں اوربہترین غنیمت وہ ہے جس میں  اونٹ اوربکریاں  ملیں ، اس لوٹ مارمیں  جس کے ہاتھ جولگ جاتاوہ اسی کی ملکیت شمار ہوتا تھا،مگراسلام نے دنیاوی مال ودولت کے حصول کے بجائے جنگ کامقصد حفاظت اسلام، حق اشاعت توحید،مظلوموں  کی حمائت اورحفاظت خود اختیاری قراردیا ،معرکہ بدرمیں  شامل مٹھی بھر مجاہدین عرب کے بہترین لوگ تھے ،ان میں  زیادہ ترجوان لوگ تھے جو مسلمان ہونے سے پہلے بھی فسق وفجور،قتل وغارت ، لوٹ مارسے اجتناب کرتے  تھے،مگرجب اللہ کے فضل وکرم اورتوفیق سے مسلمانوں  فتح یاب ہوئے ، دشمن کے نامور لوگوں  کی لاشوں  سے میدان پٹاپڑاتھا،دشمن کی باقی خوف زدہ اورمنتشر طاقت کوممکن حدتک کچل دینے کایہ بہترین موقعہ تھاکیونکہ بھاگتے ہوئے دشمن کوجسے اپنی جان کاخوف ہوبہ آسانی شکارکیا جا سکتا ہے ، مگراس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت میں ایک بڑا گروہ کے لئے شوق غنیمت کوضبط کرنامشکل ہوگیاجوصدیوں  کی روایات سے طبیعتوں  میں  اس قدرراسخ ہوگیاتھاکہ وہ حکم الٰہی اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کاانتظارکیے بغیر جاہلیت کے رسم ورواج کے مطابق مال غنیمت لوٹنے اورکفارکی طاقت کچل دینے کے بجائے ان کوپکڑپکڑ کرباندھنے میں  مصروف ہوگیا،اسی کے متعلق یہ ایت نازل ہوئی

لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ    [14]

ترجمہ:اگرپہلے سے خداکانوشتہ نہ آچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیاہے اس پربڑاعذاب نازل ہوتا۔

وَرَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا ذُكِرَ لِی- فِی وَجْهِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الْكَرَاهِیَةَ لِمَا یَصْنَعُ النَّاسَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاَللَّهِ لَكَأَنَّكَ یَا سَعْدُ تَكْرَهُ مَا یَصْنَعُ الْقَوْمَ؟  قَالَ: أَجَلْ وَاَللَّهِ یَا   رَسُولَ اللهِ، كَانَتْ أَوَّلَ وَقْعَةٍ أَوْقَعَهَا (اللهُ) بِأَهْلِ الشِّرْكِ.فَكَانَ الْإِثْخَانُ فِی الْقَتْلِ بِأَهْلِ الشِّرْكِ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ اسْتِبْقَاءِ الرِّجَالِ

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سعد  رضی اللہ عنہ  بن معاذکی طرف دیکھاجن کے چہرے پرکراہت کے آثارتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے دریافت فرمایاکہ اے سعد  رضی اللہ عنہ  !معلوم ہوتاہے کہ لوگوں  کی یہ کاروائی تمہیں  پسندنہیں  آرہی؟ سعد  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیاجی ہاں  اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ حق وباطل کا پہلامعرکہ ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے ،اس موقع پرانہیں  قیدی بناکران کی جانیں  بچالینے سے بہتریہ تھاکہ ان کوخوب کچل ڈالاجاتا۔[15]

خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَدْرٍ نَلْقَى الْعَدُوَّ، فَلَمَّا هَزَمَهُمُ اتَّبَعَهُمْ طَائِفَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَقْتُلُونَهُمْ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَةٌ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَوْلَتْ طَائِفَةٌ بِالْعَسْكَرِ، فَلَمَّا كَفَى اللهُ الْعَدُوَّ، وَرَجَعَ الَّذِینَ قَتَلُوهُمْ، قَالُوا: لَنَا النَّفَلُ نَحْنُ قَتَلْنَا الْعَدُوَّ، وَبِنَا نَفَاهُمُ اللهُ وَهَزَمَهُمْ، وَقَالَ الَّذِینَ كَانُوا أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ بِهِ مِنَّا، هُوَ لَنَا نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَنَالُ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً وَقَالَ الَّذِینَ اسْتَوْلَوْا عَلَى الْعَسْكَرِ: وَاللهِ مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ بِهِ مِنَّا نَحْنُ اسْتَوْلَیْنَا عَلَى الْعَسْكَرِ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ یَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِكُمْ  إِلَى قَوْلِهِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ، فَقَسَمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمْ عَنْ فُوَاقٍ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ غزوہ بدرکی طرف روانہ ہوئےاورہماراسامنادشمن سے ہواجب انہیں  شکست فاش ہوگئی تومجاہدین کاایک مختصر گروہ ان کے تعاقب میں  گیااورانہیں  قتل کرتارہااورایک گروہ اس افراتفری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کے لیے کھڑارہااورایک گروہ دشمنوں  سے لڑتارہاجس کے جو ہاتھ لگارواج کے مطابق وہ اس کواپنی ملکیت سمجھ بیٹھا اور جومختصر گروہ دشمنوں  کا تعاقب کررہاتھا ،اوروہ گروہ جواس افراتفری میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کررہاتھا ان کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا ،رات کوسب لوگ جمع ہوئے اور دونوں گروہ ان غنائم میں  اپنا حصہ طلب کرنے لگے ۔

ایک گروہ کا موقف یہ تھاکہ اگرہم دشمن کاتعاقب کرکے دور تک نہ پہنچادیتے تو وہ پلٹ کروارکرتے اورہماری جیت ہماری ہارمیں  بدل جاتی اس لئے ان غنائم میں  ہم حصہ دارہیں ۔

دوسرا گروہ کہنے لگااگرہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کے لئے ان کے گرد گھیراڈال کرکھڑے نہ ہوتے توممکن تھاکہ پچھلی جانب سے کفارآپڑتے اورآ پ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوکوئی گزندپہنچتی تو فتح کیسے نصیب ہوتی اورمال غنیمت کیسے ہاتھ لگتا، بہترین کام ہم نے کیا ہے اس لئے ہمارابھی حق بنتاہے، یہ دلائل دے کروہ مال غنیمت میں  اپنے حق کے مدعی تھے۔

تیسراگروہ جن کے پاس مال غنیمت تھادونوں  گروہوں  کے دلائل سننے کوتیارنہ تھا ان کاکہناتھامال غنیمت ہماراہی سمیٹاہواہے اورصدیوں  کے رسم ورواج کے مطابق لوٹاہوامال ان کاہے کوئی شخص ان پردعوی دارنہیں  ہو سکتا۔

کفرواسلام کی یہ پہلی لڑائی تھی ،مال غنیمت کے بارے میں  کچھ ہدایات نازل نہیں  ہوئی تھیں جس کی وجہ سے اس نزاع نے زبانوں  میں  تلخی پیدا کردی اور دلوں  میں  بغض وغیرہ کے آثار نمایاں  ہونے لگے،ابھی تک مال غنیمت کے بارے میں  کوئی حکم نازل نہیں  ہواتھااس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دیکھ کرسب کاجمع کیاہوا مال ایک جگہ اکھٹاکرکے رکھ دیاتاکہ اللہ تعالیٰ جوفیصلہ فرمائے اس کے مطابق عمل کیاجائے ۔

ہرجنگ اپنے ساتھ بے شمارمسائل لے کرآتی ہے،بے شمارنئے تجربات ہوتے ہیں  اورحکومتوں  کوان کی روشنی میں  اپنی بعض پالیسیوں  میں  تبدیلیاں  بھی کرناپڑتی ہیں ،بعض ایسے مسائل پیداہوتے ہیں  جواس سے پہلے موجودنہ تھےاس لئے ان کوسلجھانے اوران سے نبردآزماہونے کے قوانین کی ضرورت محسوس نہیں  کی گئی تھی،جنگ کے بعدنئے قوانین کی ضرورت پڑتی ہے اورانہیں  بنایااوررائج کیاجاتاہے ،مدینہ کی اسلامی ریاست بھی اس سے متثنیٰ نہ تھی ،اس پرپہلی بارحملہ ہواتھااوراس نے پہلی دفاعی جنگ لڑی تھی اس لئے اس کے لشکریوں  نے ان روایات پرعمل کیاجوان کے معاشرے کاصدیوں  سے معمول چلی آرہی تھیں  لیکن جواسلام کے نئے ضابطہ اخلاق کے لئے قابل قبول نہ   تھیں اس لئے نئی قانونی ضرورتیں  پیداہوئیں  اوریہ ضرورتیں  پوری کی گئیں ،چنانچہ غزوہ بدرکے بعدسورہ انفال نازل ہوئی جس میں  مال غنیمت کے متعلق قطعی احکام بھی موجودتھے ،اطاعت امیرکی مزیدتاکیدکی گئی اورجنگ میں  ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی۔[16]

 چندمسلمانوں  کاقوم اوروطن کی حمایت :

غزوہ بدرمیں  کچھ مسلمان ،مشرکین کی تعداداورجماعت بڑھانے کے لئے کفارمکہ کے ساتھ نکلے تومیدان میں  کوئی تیرآکراس مسلمان کولگتا اوراس سے وہ ماراجاتااورکبھی تلوارکی ضرب سے وہ ماراجاتا،پس جومسلمان بدرمیں  کافروں  کے ساتھ آئے تھے وہ مارے گئے ،ان کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی،

 إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِی أَنْفُسِهِمْ

جولوگ اپنے نفس پرظلم کررہے تھے ان کی روحیں  جب فرشتوں  نے قبض کیں توان سے پوچھاکہ یہ تم کس حال میں  منتلاتھے؟۔[17]

وہ چند لوگ حارث بن زمعہ بن الاسود،ابوقیس بن فاکہہ بن مغیرہ،ابوقیس بن ولیدبن مغیرہ،علی بن امیہ بن خلف،عاص بن منبہ حجاج وغیرہ سات افراد ایسے تھے جواسلام قبول کرنے کے بعدبھی بلاکسی مجبوری ومعذوری کے اپنی کافرقوم ہی کے درمیان مقیم تھے اورنیم مسلمانہ اورنیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پرراضی تھے،درآنحالیکہ ایک دارالاسلام مہیاہوچکاتھاجس کی طرف ہجرت کرکے اپنے دین واعتقادکے مطابق پوری اسلامی زندگی بسرکرناان کے لئے ممکن ہوگیاتھااوردارالاسلام کی طرف سے ان کویہ دعوت بھی دی جاچکی تھی کہ اپنے ایمان کوبچانے کے لئے وہ اس کی طرف ہجرت کرآئیں مگرانہوں  نے ہجرت نہ کی ،حالانکہ جوشخص اللہ کے دین پرایمان لایاہواس کے لئے نظام کفرکے تحت زندگی بسرکرناصرف دوہی صورتوں  میں  جائزہوسکتاہے ،ایک یہ کہ وہ اسلام کواس سرزمین میں  غالب کرنے اورنظام کفرکونظام اسلام میں  تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتارہے ،جس طرح انبیاء  علیہ السلام  اوران کے ابتدائی پیروکرتے رہے ہیں ،دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں  سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتاہواورسخت نفرت وبیزاری کے ساتھ وہاں  مجبورانہ قیام رکھتاہومگران کے ساتھ ایسی صورت بھی نہ تھی اورپھر قریش مکہ کے دباؤ میں مشرکین کے ہمراہ وادی بدرمیں  پہنچ گئے اورقتل ہوگئے، ان کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ۝۰ۭ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ قَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا۝۰ۭ فَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِیْرًا۝۹۷ۙاِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّلَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًا۝۹۸ۙفَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللهُ اَنْ یَّعْفُوَعَنْھُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۝۹۹وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً۝۰ۭ وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۰۰ۧ [18]

ترجمہ:جولوگ اپنے نفس پرظلم کررہے تھے ان کی روحیں  جب فرشتوں  نے قبض کیں  توان سے پوچھاکہ یہ تم کس حال میں  مبتلاتھے؟انہوں  نے جواب دیاکہ ہم زمین میں  کمزورومجبورتھے،فرشتوں  نے کہاکیااللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں  ہجرت کرتے؟یہ وہ لوگ ہیں  جن کاٹھکاناجہنم ہے اوروہ بڑاہی براٹھکاناہے،ہاں  جو مرد ، عورتیں  اوربچے واقعی بے بس ہیں  اورنکلنے کاکوئی راستہ اورذریعہ نہیں  پاتے بعیدنہیں  کہ اللہ انہیں  معاف کردے،اللہ بڑامعاف کرنے والااوردرگزرفرمانے والا ہے،جوکوئی اللہ کی راہ میں  ہجرت کرے گاوہ زمین میں  پناہ لینے کے لئے بہت جگہ اوربسراوقات کے لئے بڑی گنجائش پائے گا ، اورجواپنے گھرسے اللہ اوررسول کی طرف ہجرت کے لئے نکلےپھرراستہ ہی میں  اسے موت آجائے اس کااجراللہ کے ذمے واجب ہوگیا،اللہ بہت بخشش فرمانے والااوررحیم ہے۔

وَمَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِقَامَةِ الْمُسْلِمِ بَیْنَ الْمُشْرِكِینَ إِذَا قَدَرَ عَلَى الْهِجْرَةِ مِنْ بَیْنِهِمْ، وَقَالَ:أَنَا بَرِیءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیمُ بَیْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِینَ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ! وَلِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا،وَقَالَ:مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ،  وَقَالَ:لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا،وَقَالَ: سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِیَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِیمَ، وَیَبْقَى فِی الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرَضُوهُمْ، تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللهِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِیرِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشرکین کے درمیان کسی مسلمان کی رہائش کوممنوع قراردیاہے ،اگروہ وہاں  سے ہجرت کرسکتا ہواورفرمایاکہ میں  ہرمسلمان سے بیزارہوں  جوکہ مشرکین کے درمیان رہائش پذیرہو،عرض کیاگیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں ؟ فرمایاکہ کیاتوانہیں  دیکھ نہیں  رہایعنی اس کے دوزخی ہونے کو، پھرفرمایاکہ جوکوئی کسی کے ساتھ اکٹھارہاوہ اسی طرح ہے،مزیدفرمایاجب تک توبہ منقطع نہیں  ہوتی اس وقت تک ہجرت منقطع نہ ہوگی اورجب تک سورج مغرب سے نہیں  نکلتااس وقت تک توبہ منقطع نہ ہوگی ، اور مزید فرمایا عنقریب ہجرت کے بعدہجرت ہوگی،اس لئے زمین میں  سب سے بہتروہ لوگ ہیں  جو ابراہیم  علیہ السلام  کے مقام ہجرت سے پیوستہ رہیں  اورزمین پرشریرلوگ باقی رہ جائیں  گے اوروہ انہیں  پھینک دے گی ،اللہ تعالیٰ بندروں  اورسوروں  کے ساتھ ان کاحشرکرے گا۔ [19]

 غزوہ بدرمیں  شریک مجاہدین کی فضیلت :

بدری صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۹ [20]

ترجمہ:اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے ، یہی بڑی کامیابی ہے۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، وَكَانَ أَبُوهُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِیلُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِیكُمْ،قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ المُسْلِمِینَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا،قَالَ: وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ المَلاَئِكَةِ

معاذبن رفاعہ بن رافع اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  اوروہ غزوہ بدرمیں  شریک تھےجنگ کے بعد جبرائیل  علیہ السلام خدمت میں  حاضرہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا آپ مسلمانوں میں مجاہدین بدرکوکیادرجہ دیتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بدر میں  شریک ہونے والے مجاہدین تمام مسلمانوں  سے افضل ہیں ،جبرائیل  علیہ السلام نے کہاکہ اسی طرح وہ فرشتے جوجنگ بدرمیں  شریک ہوئے تمام فرشتوں  سے افضل ہیں ۔[21]

ایک صحابی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے چچاکابیٹامنافق ہوگیاہے کیاآپ کی اجازت ہے کہ میں  اس کی گردن اڑادوں ؟ آپ نے فرمایاوہ جنگ بدرمیں  شریک ہوئے ہیں  امیدہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے جہادکوان کے گناہ کاکفارہ کردے گا،ایک روایت میں  ہےتمہیں  کیامعلوم ہے کہ حق تعالیٰ نے اہل بدرکے انجام پرمطلع ہونے پرہی یہ فرمایاہے۔

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ

ترجمہ:اے اہل بدرتم جوچاہوکرو تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی۔[22]

یایہ فرمایا

أَوْ: فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

ترجمہ:میں  نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔[23]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ رَجُلٌ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَةَ

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جوشخص بدریاحدیبیہ میں  شریک ہواوہ دوزخ میں  داخل نہ ہوگا۔[24]

عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ لَا یَدْخُلَ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللهُ، أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَیْبِیَةَ

اورام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جوشخص بدراورحدیبیہ میں  شریک ہواوہ ان شاءاللہ دوزخ میں  داخل نہیں  ہوگا۔[25]

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص بدرمیں  حاضرہواوہ ہرگزجہنم میں  نہ جائے گا۔[26]

رسول اللہ اہل بدرکااحترام کیاکرتے تھے اورانہیں  دوسروں  پرمقدم رکھاکرتے تھے۔

وخصّ أهل بدر من أصحابه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بأن یزادوا فی الجنازة على أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ تمییزا لهم لفضلهم.

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسرے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں  اہل بدرکویہ امتیاز واعزاز بخشا تھاکہ ان کی افضلیت کی خصوصیت کے طورپران کی نمازجنازہ میں  چارسے زائدتکبیریں  کہی تھیں ۔[27]

مگراس کے باوجودصحابہ کرام روزحشرسے بے خوف نہیں  ہوگئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی سے لریزاں  رہتے تھےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے درخواست کرتے رہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے حق میں  دعافرمائیں  کہ اللہ انہیں  بغیرحساب کتاب ہی بخش دے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مرتبہ آپ کے جنتی ہونے کاذکرفرمایا

ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قِیلَ: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَیَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ هَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ ، ثُمَّ دَخَلَ وَلَمْ یُبَیِّنْ لَهُم، فَأَفَاضَ القَوْمُ، وَقَالُوا: نَحْنُ الَّذِینَ آمَنَّا بِاللهِ وَاتَّبَعْنَا رَسُولَهُ، فَنَحْنُ هُمْ، أَوْ أَوْلاَدُنَا الَّذِینَ وُلِدُوا فِی الإِسْلاَمِ، فَإِنَّا وُلِدْنَا فِی الجَاهِلِیَّةِ،فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ، فَقَالَ:هُمُ الَّذِینَ لاَ یَسْتَرْقُونَ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ، وَلاَ یَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ،فَقَالَ عُكَاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ: أَمِنْهُمْ أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ؟  قَالَ: نَعَمْ،فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا؟قَالَ:سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا میری امت کے ستر ہزار آدمی جنت میں  بلاحساب کتاب داخل ہوں  گے ،اس کے بعدآپ (اپنے حجرہ میں )تشریف لے گئے اورکچھ تفصیل نہیں  فرمائی،لوگ ان جنتیوں  کے بارے میں  بحث کرنے لگے، اورکہنے لگے کہ ہم ہی اللہ پرایمان لائے ہیں  اوراس کے رسول کی اتباع کی ہے،اس لئے ہم ہی (صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ) وہ لوگ ہیں  یاہماری وہ اولادہیں  جواسلام میں  پیداہوئے کیونکہ ہم جاہلیت میں  پیداہوئے تھے،یہ باتیں  جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کومعلوم ہوئیں  توآپ باہرتشریف لائے اورفرمایایہ وہ لوگ ہوں  گے جوجھاڑپھونک نہیں  کراتے ،فال نہیں  دیکھتے اورداغ کرعلاج نہیں  کرتے بلکہ اپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر عکاشہ  رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  بھی ان میں  سے ہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتوانہی لوگوں  میں  سے ہے ، اس پرایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )میں  بھی ان میں  سے ہوں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عکاشہ  رضی اللہ عنہ  تم سے بازی لے گیا۔[28]

قاصدکومدینہ منورہ روانہ کرنا

وادی اثیل پہنچنے کے بعدسب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازمغرب پڑھی۔

 ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْفَتْحِ عَبْدَ اللهِ ابْنَ رَوَاحَةَ بَشِیرًا إلَى أَهْلِ الْعَالِیَةِ، بِمَا فَتَحَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى الْمُسْلِمِینَ، وَبَعَثَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ إلَى أَهْلِ السَّافِلَةِ

پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ونصرت کی خوشخبری کے سنانے کے لئے عبداللہ بن رواحہ کواہل عالیہ، اور زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ کواہل سافلہ کی طرف روانہ فرمایا۔[29]

فَقَالَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَأَیْنَ صَاحِبَاك؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا الّذِی أَجَبْتُك اللّیْلَةَ.قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَحَفِظَك اللهُ! فَكَانَ یَحْرُسُ الْمُسْلِمِینَ تِلْكَ اللّیْلَةَ، حَتّى كَانَ آخِرَ اللّیْلِ، فَارْتَحَلَ

وادی اثیل میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پوچھاآج رات کیمپ کاپہرہ کون دے گا؟ذکوان بن عبدقیس نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آج رات میں  کیمپ کاپہرہ دینا چاہتا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تمہاری حفاظت فرمائے، انہوں  مجاہدین نےرات کوآرام کیااوررات کے آخری پہروہاں  سے روانہ ہوئے۔[30]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاچندبے سروساماں صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم کے ساتھ بدرروانگی اورپھرقریش کاپوری تیاریوں  کے ساتھ مقابلہ کے لئے نکلنے کی خبریں  یہودومنافقین کے علم میں  آچکی تھیں  جس سے وہ بہت خوش تھے کہ قریش کے آزمودہ کارجنگجو ان چندمٹھی بھرمسلمانوں  کاخاتمہ کردیں  گے،

وكان الیهود والمنافقون قد أرجفوا فی المدینة بإشاعة الدعایات الكاذبة، حتى أنهم أشاعوا خبر مقتل النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ولما رأى أحد المنافقین زید بن حارثة راكبا القصواء ناقة رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال: لقد قتل محمد، وهذه ناقته نعرفها، وهذا زید لا یدری ما یقول من الرعب، وجاء فلّا

چنانچہ انہوں  نے جھوٹے پروپیگنڈے سے مدینہ منورہ میں  موجود باقی مسلمانوں  کی نیندیں  حرام کررکھی تھیں  ، انہوں  نے یہاں  تک افواہ اڑا دی کہ مسلمانوں  کامکمل صفایا ہوگیااورنعوذباللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی قریش سے مقابلے میں  مارے گئے ہیں ،اس خبرکی تصدیق کرنے کاکوئی ذریعہ نہ تھا جس سے مسلمانوں  کے دلوں  میں  بڑااضطراب پیدا ہو چکا تھا ، جب دونوں  قاصدتیزی سے سفرکرتے ہوئے بروز اتوار مدینہ منورہ پہنچے توایک منافق نے زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اونٹنی قصواء پرسوارتیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف آتے ہوئے دیکھاتوکہنے لگالوگو! دیکھو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل ہوگئے تب ہی توقریش کے بہادروں  سے شکست کھاکرزیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ ان کی اونٹنی پرسوارتیزی سے چلے آرہے ہیں ۔[31]

مسلمان گھبرا کر دھڑکتے دلوں  سے تیزرفتارقاصدوں  کواپنی طرف آتے ہوئے دیکھنے لگے،جب وہ پہنچے تومسلمانوں  نے انہیں  چاروں  طرف سے گھیرلیا اور ان سے جنگ کی تفصیلات معلوم کرنے لگے،

قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ:فَأَتَانَا الْخَبَرُ حِینَ سَوَّیْنَا التُّرَابَ عَلَى رُقَیَّةَ ابْنَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الَّتِی كَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ. كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَلَّفَنِی عَلَیْهَا مَعَ عُثْمَانَ أَنَّ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ (قَدْ) قَدِمَ. قَالَ: فَجِئْتُهُ وَهُوَ وَاقِفٌ بِالْمُصَلَّى قَدْ غَشِیَهُ النَّاسُ، وَهُوَ یَقُولُ: قُتِلَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَأَبُو جَهْلِ ابْن هِشَامٍ، وَزَمَعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأَبُو الْبَخْتَرِیِّ الْعَاصِ بْنُ هِشَامٍ، وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَنُبَیْهُ وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الالْحَجَّاجِ،قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتْ، أَحَقٌّ هَذَا؟ قَالَ:نَعَمْ، وَاَللَّهِ یَا بُنَیَّ

اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  کہ فتح کی یہ خوشخبری ہمیں  اس وقت پہنچی جب ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی رقیہ  رضی اللہ عنہا  کومٹی دے رہے تھے،میں  نے دیکھاکہ لوگ زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ کوگھیرے ہوئے ہیں  اوروہ زیدمصلے پرکھڑے ہوئے یہ کہہ رہے تھے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ،ابوجہل بن ہشام،زمعہ بن الاسود،امیہ بن خلف،نبیہ اورمنبہ بن حجاج ، ابوالبختری بن ہشام جنگ میں مارے گئے،میں  نے کہااے میرے والد!کیایہ سچی خبر ہے ، زید  رضی اللہ عنہ  نے کہاہاں  واللہ بالکل حق ہے۔[32]

جب مسلمانوں  کوحق کی سربلندی کایقین آگیاتومدینہ میں  چاروں  طرف خوشی کی ایک لہردوڑگئی اور مسلمانوں  کی تکبیرات سے مدینہ منورہ کے دروبام گونج اٹھے،اورکچھ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخوش آمدیدکہنے کے لئے بدرکی جانب روانہ ہوگئے۔

رحمة للعالمین محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں  سے نرمی کابرتاؤفرماتے تھے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  لَمَّا أَمْسَى الْقَوْمُ مِنْ یَوْمِ بَدْرٍ، وَالْأُسَارَى مَحْبُوسُونَ بِالْوِثَاقِ، بَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَاهِرًا أَوَّلَ اللیْلِ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا لَكَ لَا تَنَامُ؟وَقَدْ أَسَرَ الْعَبَّاسَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَمِعْتُ أَنِینَ عَمِّیَ الْعَبَّاسِ فِی وِثَاقِهِ، فَأَطْلَقُوهُ، فَسَكَتَ، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں غزوہ بدرمیں  قوم نے اس حالت میں  شام کی کہ قیدی بیڑیوں  میں  محبوس تھے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابتدائی شب بیداری میں  گزاری،  آپ کے صحابہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کوکیاہواآپ سوتے نہیں ؟اور ایک انصاری نے عباس کو قیدی بنا رکھا ہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے عباس  رضی اللہ عنہ کی آہنی بیڑیاں  پہنے ہوئے سنی،لوگ اٹھ کرعباس  رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اورانہیں  کھول دیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سوئے۔[33]

یَزِیدُ بْنُ الأَصَمِّ قَالَ: لَمَّا كَانَتْ أُسَارَى بَدْرٍ كَانَ فِیهِمُ الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَسَهِرَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لَیْلَتَهُ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: مَا أَسْهَرَكَ یَا نَبِیَّ اللهِ؟  فَقَالَ: أَنِینُ الْعَبَّاسِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَأَرْخَى مِنْ وَثَاقِهِ فَقَالَ رَسُولُ الله: مَا لِیَ لا أَسْمَعُ أَنِینَ الْعَبَّاسِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنِّی أَرْخَیْتُ مِنْ وَثَاقِهِ شیئا،قَالَ:فَافْعَلْ ذَلِكَ بِالْأُسَارَى كُلِّهِمْ

اوریزیدبن الاصم سے مروی ہے  غزوہ بدرکے قیدیوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچاعباس  رضی اللہ عنہ بھی تھے ( صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے قیدیوں  کوبڑی سختی کے ساتھ باندھ رکھا تھا جس سے عباس سمیت تمام قیدی تکلیف سے کراہتے تھے ان کی تکلیف بھری آوازوں  سے )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رات میں  جاگتے رہے،بعض اصحاب  رضی اللہ عنہم  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس طرح بے چین دیکھا تو جا کر عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیابات ہے جوآپ کوجگارہی ہے؟آپ نے فرمایاعباس کی آہ،صحابہ کرام فوراً عباس کی طرف دوڑے اوران کی بندشیں  کچھ ڈھیلی کردیں جس سے ان کی تکلیف کم ہوگئی ،تھوڑی دیرکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایاکیابات ہے کہ میں  عباس کی آہ نہیں  سن رہاہوں ؟ اسی صحابی  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے کسی قدران کی بندشیں  ڈھیلی کردیں  ہیں ،توآپ نے فرمایاتمام قیدیوں  کی بندشیں  ڈھیلی کردی جائیں ۔[34]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاکنوئیں  پرآنا:

وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالعَرْصَةِ ثَلاَثَ لَیَالٍ، فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الیَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ  فَشُدَّ عَلَیْهَا رَحْلُهَا ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ، وَقَالُوا: مَا نُرَى یَنْطَلِقُ إِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِهِ، حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِیِّ، فَجَعَلَ یُنَادِیهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کامعمول تھاکہ آپ کسی قوم پرغلبہ اورفتح پاتے تو تین دن میدان جنگ میں  ٹھیراکرتے تھے،اسی طرح فتح غزوہ بدرکے بعدبھی آپ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ تین یوم میدان جنگ میں  قیام فرمایا،تیسرے روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی سواری کے تیارہونے کاحکم فرمایاچنانچہ سواری پرکاٹھی ڈال دی گئی،مگر آپ نے اس پرسواری نہ کی بلکہ پیدال ہی (وادی بدر)کی طرف چل پڑے ،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ کسی خاص ضرورت سے کہیں  تشریف لے جارہے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے پیچھے چل پڑے،  پیدل چلتے ہوئے آپ اس کنوئیں  پرتشریف لے گئے جس میں  کفارکے مقتولین کوڈالاگیاتھا،وہاں  پہنچ کرآپ کنوئیں  کے کنارے کھڑے ہوگئے اور مقتولین کوان کے نام اوران کے باپوں  کے نام کہہ کہہ کرپکارا۔[35]

یَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ، وَیَا شَیْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ، وَیَا أُمَیَّةَ بْنَ خَلَفٍ، وَیَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ- هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حقا

اے عتبہ بن ربیعہ ،اے شیبہ بن ربیعہ ،اے امیہ بن خلف ،اے ابوجہل بن ہشام!کیاتم نے اس وعدے کوسچاپایاجوتمہارے رب نے تم سے کیاتھابیشک میرے رب نے اس بارے میں  مجھ سے جوسچا وعدہ فرمایاتھاوہ (حرف بحرف ) پوراکردیا۔[36]

یَا أَهْلَ الْقَلِیبِ، بِئْسَ عَشِیرَةُ النَّبِیِّ كُنْتُمْ لِنَبِیِّكُمْ، كَذَّبْتُمُونِی وَصَدَّقَنِی النَّاسُ، وَأَخْرَجْتُمُونِی وَآوَانِی النَّاسُ، وَقَاتَلْتُمُونِی وَنَصَرَنِی النَّاسُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا.

ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایااے گڑھے والو!تم اپنے نبی کے حق میں  بہت براقبیلہ تھے ،تم نے مجھ کو جھٹلایا تو لوگوں  نے میری تصدیق کی،تم نے مجھے نکالاتولوگوں  نے ٹھکانادیا،تم نے مجھ سے قتال کیااورلوگوں  نے میری مددکی،(اب بتاؤ)جووعدہ تم سے تمہارے رب نے کیاتھاکیاتم نے اسے سچ پایایانہیں ؟مجھ سے میرے رب نے جووعدہ فرمایاتھامیں  نے اسےسچ پایا۔[37]

فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ

(آپ کی یہ گفتگوسن کر)سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ ایسے جسموں  سے بات کررہے ہیں  جوبے جان ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے تم ان (مردوں )سے زیادہ نہیں  سن رہے ہو(یعنی یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے میری باتیں  انہیں  سنا دے) البتہ یہ جواب نہیں  دے سکتے۔[38]

اس سے ایک بات تویہ ثابت ہوئی کہ مردے سنتے نہیں ،دوسرانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جوجواب فرمایا’’ تم ان سے زیادہ نہیں  سن رہے ہو۔‘‘یہ بھی دلالت کرتاہے کہ صرف اورصرف سماع انہی مردوں  کے متعلق تھانہ کہ عام کے لیے کیونکہ اگرایساہوتاتونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہاں  مردے بھی سنتے ہیں  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ دلیل ردفرمادیتے اورفرماتے کہ اس آیت کامطلب عدم سماع والانہیں لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس استدلال کوردنہیں  فرمایابلکہ جواب میں  محض قلیب بدروالوں  کے سماع کی وضاحت کردی۔معلوم ہواکہ یہ واقعہ مخصوص اوراستثنائی شکل کاحکم رکھتاہے۔

فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: إِنَّمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهُمُ الآنَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِی كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الحَقُّ، ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتَى حَتَّى قَرَأَتْ الآیَةَ

اس حدیث کاذکرجب ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے کیاگیاتوانہوں  نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ فرمایاتھاکہ انہوں  نے جان لیاہوگاکہ جوکچھ میں  نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا،اس کے بعدانہوں  نے آیت’’بے شک آپ مردوں  کونہیں  سناسکتے۔‘‘ پوری پڑھی۔[39]

[1] ابن ہشام ۶۰۶؍۱،الروض الانف۶۰؍۵،تاریخ طبری۴۲۷؍۲

[2] مغازی واقدی۴۷؍۱

[3] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُفَّارِ قُرَیْشٍ شَیْبَةَ، وَعُتْبَةَ، وَالوَلِیدِ، وَأَبِی جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَهَلاَكِهِمْ ۳۹۶۰، مسنداحمد ۳۷۷۵

[4] ابن ہشام۶۳۸؍۱،الروض الانف۱۰۴؍۵،عیون الآثر۳۰۶؍۱

[5] ابن ہشام ۶۳۸؍۱

[6] صحیح بخاری كِتَابُ الجِزْیَةِ والموادعہ بَابُ طَرْحِ جِیَفِ المُشْرِكِینَ فِی البِئْرِ، وَلاَ یُؤْخَذُ لَهمْ ثَمَنٌ عن عبداللہ۳۱۸۵

[7] مغازی واقدی۱۱۳؍۱

[8] تاریخ طبری۴۶۳؍۲

[9] دلائل النبوة للبیہقی۲۷۸؍۲

[10] دلائل النبوة لابی نعیم ۴۷۰؍۱

[11] مصنف ابن ابی شیبة۳۶۶۹۹

[12] ابن سعد۲۰؍۲

[13] ابن سعد۴۴۶؍۳،مغازی واقدی۱۴۷؍۱

[14] الانفال ۶۸

[15] ابن ہشام۶۲۸؍۱

[16] شرف المصطفی۱۷؍۳، الدرر فی اختصار المغازی والسیر۱۰۸؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۴۶۷؍۲، سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۵۸؍۴

[17] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ النساء بَابُ إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاهُمُ المَلاَئِكَةُ ظَالِمِی أَنْفُسِهِمْ، قَالُوا: فِیمَ كُنْتُمْ؟ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الأَرْضِ، قَالُوا: أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِیهَا۴۵۹۶

[18] النساء ۹۷تا۱۰۰

[19] زادالمعاد۱۱۲؍۳

[20] المائدة۱۱۹

[21] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا۳۹۹۲

[22] فتح الباری۳۹۸۲،۲۸۶؍۷،مسنداحمد۶۰۰

[23] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا۳۹۸۳

[24] مسنداحمد۱۵۲۶۲

[25] مسنداحمد۲۶۴۴۰

[26] فتح الباری ۳۹۸۲،۳۰۵؍۷

[27] السیرة الحلبیة ۲۸۰؍۲، أنموذج اللبیب فی خصائص الحبیب

[28] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ مَنِ اكْتَوَى أَوْ كَوَى غَیْرَهُ، وَفَضْلِ مَنْ لَمْ یَكْتَوِ  ۵۷۰۵

[29] ابن ہشام ۶۴۲؍۱، تاریخ طبری۴۵۸؍۲

[30] مغازی واقدی۱۱۳؍۱

[31] الرحیق المختوم۲۰۶؍۱

[32] ابن ہشام ۶۴۲؍۱، الروض الانف ۱۱۴؍۵، تاریخ طبری۴۵۸؍۲

[33] ابن سعد۹؍۴

[34] السیرة النبویة لابن کثیر۴۶۲؍۲،ابن سعد۹؍۴،البدایة والنہایة۳۶۵؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۴۱؍۳

[35] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۷۶

[36] البدایة والنھایة۲۹۲؍۳

[37] البدایة والنھایة۱۵۱؍۵،ابن ہشام ۶۳۹؍۱،الروض الانف۱۰۶؍۵،تاریخ طبری۴۵۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۵۰؍۲

[38] صحیح بخاری کتاب المغازی صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۷۶ عن ابی طلحہ ۳۹۷۶

[39] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۸۰،۳۹۸۱

Related Articles