ہجرت نبوی کا تیسرا سال

یوم عاشورہ

عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِیَّةِ كَانُوا یَصُومُونَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَامَهُ، وَالْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ یُفْتَرَضَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ عَاشُورَاءَ یَوْمٌ مِنْ أَیَّامِ اللهِ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جاہلیت کے زمانے کے لوگ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں نے بھی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس کاروزہ رکھا،جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعاشورہ اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے توجوچاہئے عاشورہ کا روزہ رکھے اورجوچاہئے اسے چھوڑدے۔[1]

عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ: حِینَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ: فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھااوراس دن روزے کاحکم فرمایا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن کی تویہودونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب آئندہ سال آئے گا توہم (یہودو نصاریٰ کی مشابہت سے بچنے کے لئے) نویں تاریخ کابھی روزہ رکھیں گے،راوی نے کہاکہ ابھی آئندہ سال نہیں آیاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے تھے۔[2]

غزوہ غطفان(ذی امر،انمار) محرم تین ہجری

یہ دوعرب قبیلوں کانام ہے پہلاغطفان بن سعدبن مالک بن حرام بن جذام جنوبی عرب کاایک قبیلہ ہے ،اوردوسراغطفان بن سعدبن قیس عیلان ہے ،اس قبیلے کی چراگاہیں خیبراورحجازکی سرحدوں سے لیکربنوطے کے پہاڑوں ’’اجا‘‘اور’’سلمیٰ ‘‘تک پھیلی ہوئی ہیں ،اس قبیلے کی دوبڑی شاخیں تھیں ،اشجع جو مدینہ قرب وجوارمیں آبادتھیں اوربغیض جو عبس اورذبیان میں منقسم ہوگئی تھی اورجس کاعلاقہ شربہ اورربذہ کے گردونواح میں تھا،ان کے پڑوس میں خصافہ بن قیس عیلان کے قبائل آبادتھے ،جن میں ممتازترین بنوسلیم ان کی جنوبی سرحدپرتھے اورانہی کاہم نسب قبیلہ ہوزان اوربھی آگے جنوب میں آبادتھا۔

یہ غزوہ ہجرت کے ۲۵ماہ بعدپیش آیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعدہی پہلے دفاعی حربے کے طورپرتجارتی راستوں کی ناکہ بندی شروع کردی تھی ،شام اور عراق سے نجداوریمن کوجانے والے اہم راستوں پربدرایک اہم پڑاؤتھااوراس پرقریش مکہ کی شکست نے اس راستے کوان کے لئے خطرناک بنادیاتھا،اس لئے ساحل کے ساتھ چلنے والے راستے کوزیادہ محفوظ سمجھاجانے لگاتھا،مدینہ منورہ میں جب مکہ مکرمہ کے جنگی جنون کی خبریں پہنچیں اوریہ معلوم ہواکہ کارواں تجارت سے حاصل ہونے والے فائدے کو مصارف جنگ کے لئے وقف کیاگیاہے توتجارتی راستوں کی ناکہ بندی کے لئے سرگرمیاں تیزکردی گئیں ،غزوہ سولیق سے واپس ہوکرمدینہ منورہ میں تقریبا ً ذی الحجہ کے باقی دن قیام فرمایا

قَالُوا: بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّ جَمْعًا مِنْ ثَعْلَبَة وَمُحَارِبٍ بِذِی أَمَرّ، قَدْ تَجَمّعُوا یُرِیدُونَ أَنْ یُصِیبُوا مِنْ أَطْرَافِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، جمعهم رَجُلٌ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ دُعْثُورُ ابن الْحَارِثِ بْنِ مُحَارِبٍ، فندب رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المسلمین،وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ عُثْمَانَ بْنَ عفَّان وَخَرَجَ فِی أربعمائة وَخَمْسِینَ رَجُلا، وَمَعَهُمْ أَفْرَاسٌ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرملی کہ بنوثعلبہ اور بنومحارب کی ایک مشترکہ جماعت ذی امرمیں جمع ہوکر مشہوروبہادر سردار دعثوربن حارث محاربی کی کمان میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کاارادہ رکھتی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوجمع فرمایا، مدینہ منورہ پرسیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپناخلیفہ مقرر فرمایا اورسواروپیادہ پرمشتمل چارسوپچاس کی نفری لے کران لوگوں  تعاقب میں روانہ ہوئے ، مگردشمن کوجب آپ کی آمدکی خبرہوئی تومقابلہ کرنے کے بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں میں منتشرہوگئے،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام تک اپنی پیش قدمی جاری رکھی جہاں دشمنوں نے جمع ہونے کاپروگرام بنایاتھا

فَأَصَابَ رَجُلًا مِنْهُمْ بِذِی الْقَصّةِ یُقَالُ لَهُ جَبّارٌ مِنْ بَنِی ثَعْلَبَة، فَأَدْخَلُوهُ على رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ إلَى الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمَ،فَأَقَامَ بِنَجْدٍ صَفَرًا كُلَّهُ أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ رَجَعَ إلَى الْمَدِینَةِ

صرف قبیلہ ثعلبہ کا جبار نامی ایک آدمی ہاتھ لگا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےپیش کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعوت اسلام پیش فرمائی تووہ مسلمان ہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاعدہ کے مطابق اسے بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیاتاکہ وہ انہیں دین کی باتیں سمجھائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اردگردکے لوگوں پر مسلمانوں کارعب ودبدبہ قائم کرنے اورمسلمانوں کی طاقت کاحساس دلانے کے لئے صفرتین ہجری کاپورامہینہ وہیں گزاردیااوراس کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے ۔[3]

اس واقعہ سے یہ واضح نہیں ہوتاکہ اس سفراورنجدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کامقصدتجارتی ناکہ بندی تھا،تاہم نجداس تجارتی شاہراہ کاآخری پڑاؤہے جوشام اورعراق سے شروع ہوکرمدینہ سے ہوتی ہوئی مکہ میں سے گزرکرخلیج فارس کی تجارتی بندرگاہ کوشام اورعراق سے ملاتی ہے،اور ایشیا و یورپ کے تجارتی رشتے استوارکرتی ہے ،یہاں سے واپسی میں بارش شروع ہوگئی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھیگ گئے،

وَأَلْقَاهَا عَلَى شَجَرَةٍ ثُمّ اضْطَجَعَ تَحْتَهَا وَالْأَعْرَابُ یَنْظُرُونَ إلَى كُلّ مَا یَفْعَلُ، ثُمّ أَقْبَلَ مُشْتَمِلًا عَلَى السّیْفِ حَتّى قَامَ عَلَى رَأْسِ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسّیْفِ مَشْهُورًا فَقَالَ: یَا مُحَمّدُ، مَنْ یَمْنَعُك مِنّی الْیَوْمَ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُ!قَالَ: وَدَفَعَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السّلَامُ فِی صَدْرِهِ وَوَقَعَ السّیْفُ مِنْ یَدِهِ،فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَامَ بِهِ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُك مِنّی الْیَوْمَ؟قَالَ: لَا أَحَدَ،قَالَ:فَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ وَأَنّ مُحَمّدًا رَسُولُ اللهِ، فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَیْفَهُ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَجَعَلَ یَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اکیلے ہوکر اپنے کپڑے خشک کرنے لئے ایک درخت پر پھیلا دیئے اورخوداس درخت کے نیچے لیٹ گئے،ان قبائل کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حرکات کا مشاہدہ کررہے تھے ، انہوں نے فوراجاکراپنے بہادرسرداردعثوربن حارث کو اس بہترین موقع واردات کی اطلاع کردی تاکہ وہ جاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا(مَعَاذَ اللهِ)کام تمام کر دے،چنانچہ وہ ایک ننگی تلوارلے کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظروں سے چھپتے چھپاتے اس درخت کے نیچے آپ کے سرپرآکرکھڑا ہوگیا،اورکہنے لگااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!تمہیں آج میری تلوار سے کون بچائے گا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سکون سے فرمایامجھے میرااللہ بچائے گا،اسی وقت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے سینے پرہاتھ ماراجس سے وہ نڈھال ہوکرچاروں شانے چت گرپڑا اور اس کی تلواربھی اس کے ہاتھ سے گرگئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تلوارکوفورا اٹھا لیااورفرمایامجھے تومیرے اللہ نے بچالیااب تم بتلاؤ ،تجھے میرے وارسے کون بچائے گا،وہ بڑی بے بسی اورشکست خوردہ پست آواز سے بولا،کوئی نہیں ! اس واقع کااس پراتنا اثرہواکہ اس نے فوراًکلمہ شہادت پڑھ لیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلواراس کوواپس کردی اوروہ واپس اپنی قوم میں چلاگیا، جب وہ واپس اپنی قوم میں آیاتو انہیں ساری صورت حال بتلا کر دعوت اسلام پیش کی،اس طرح اس کے ذریعہ سے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔[4]

(لیکن غزوہ احدمیں اس کاکوئی ذکرنہیں ملتا) اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے بغیرکسی ٹکراؤ کے گیارہ دن بعد مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔

ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی (ربیع الاول تین ہجری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اپنی بیٹیاں رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کاعقدابولہب دوبیٹوں عتبہ اورعتیبہ سے فرمادیاتھامگرابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے لوگوں کودعوت اسلام پیش کرناشروع فرمائی تودوسرے قریشی سرداروں کے ساتھ ابولہب اوراس کی بیوی ام جمیل بنت حرب حَمَّالَةَ الْحَطَبِ(یعنی چغلخور) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنے میں پیش پیش تھے،اس لئے سرداران قریش اور ان دونوں نے اپنے بیٹوں سے کہاکہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں بے دین (یعنی مسلمان)ہوگئی ہیں ، اس لئے اگرتم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی دونوں بیٹیوں کوطلاق نہ دی توتم دونوں ہمیں اپناماں باپ نہ کہنا،چنانچہ ان دونوں نے اپنے سرداروں اور والدین کے دباؤمیں آکرگھرآئی ہوئی انمول نعمت کوٹھکرادیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعقدسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے فرمادیا تھا ، جب ان کاغزوہ بدر کے بعد رمضان المبارک میں بسبب بیماری انتقال ہوگیا

فَأَمَّا أُمُّ كُلْثُومَ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَزَوَّجَهَا أَیْضًا عُثْمَانُ بَعْدَ أُخْتِهَا رُقَیَّةَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

چنانچہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔[5]

ثم تزوجها عُثْمَان رضی الله عنه بعد موت أُخْتِهَا رُقْیَةَ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعداپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کانکاح سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا ۔[6]

وَكَانَ نِكَاحُهُ لَهَا فِی رَبِیعٍ الْأَوَّلِ، وَبَنَى عَلَیْهَافِی جُمَادَى الْآخِرَةِ مِنَ السُّنَّةِالثَّالِثَةِ مِنَ الْهِجْرَةِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول تین ہجری کو اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کاعقدبھی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے فرمادیا،اورجمادی الآخر میں رخصتی عمل میں آئی۔[7]

نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلاکرفرمایایہ جبریل علیہ السلام ہیں جوکہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی تجھ سے بیاہ دوں ۔[8]

ثُمَّ تُوُفِّیَتْ عِنْدَهُ لَمْ تَلِدْ لَهُ شَیْئًا، وَتُوُفِّیَتْ فِی سنة تسع من الهجرة، وصلى علیها أبوها رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ان بطن سے کوئی اولادنہیں ہوئی،نوہجری میں ان کابھی انتقال ہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کی نمازجنازہ پڑھائی۔[9]

وَمَاتَتْ  أم كُلْثُوم بنت رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شعْبَان وغسلتها صَفِیَّة بنت عَبْدالْمطلب وَنزل فِی حفرتهاعلى وَالْفضل وَأُسَامَة

ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں وفات پاگئیں اورانہیں صفیہ بنت عبدالمطلب نے غسل دیا،اوران کی قبرمیں سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،فضل اوراسامہ  رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔[10]

زوجه رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابنتیه: رقیة ثُمَّ أم كلثوم، واحدةً بعد واحدة، وَقَالَ: إن كَانَ عندی غیرهما لزوجتكها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوبیٹیوں رقیہ رضی اللہ عنہا اورام کلشوم کانکاح یکے بعددیگرے (سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے)کردیا،اورفرمایااگرمیری کوئی اوربیٹی بھی ہوتی تواس کانکاح بھی تم سے کردیتا ۔[11]

وغسلتها أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْس، وصَفِیَّةُ بِنْتُ عَبْدِالْمُطَّلِبُ

ایک روایت میں انہیں اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس اورصفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب نے غسل دیا۔[12]

وَغَسَّلَتْهَا أُمُّ عَطِیَّةَ الْأَنْصَارِیَّةُ وَغَیْرُهَا

ایک روایت میں  انہیں ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا اوردوسری عورتوں نے غسل دیا۔[13]

ابن صیادکادعویٰ نبوت

مدینہ میں ایک یہودی صادتھاجس کے بیٹے کانام صاف تھاجوابھی نابالغ تھا،اس لڑکے نے مدینہ منورہ میں نبوت کادعویٰ کیااور دجل وفریب کی باتیں کرکے عوام کوبہکایاکرتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کواسلام کی دعوت دی مگراس نے قبول نہیں کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ یہ ایمان لانے والانہیں ہے،صحین میں اس کے بارے میں یہ لکھاہےصاف نے جوصیادکالڑکاتھاابھی لڑکاہی تھاکہ اس نے نبوت کادعویٰ کردیا

انْطَلَقَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَیَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ یَلْعَبُ مَعَ الصِّبْیَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِی مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَیَّادٍ الحُلُمَ، فَلَمْ یَشْعُرْ ،فَفَرَّ الصِّبْیَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَیَّادٍفَكَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ ذَلِكَ،حَتَّى ضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ،فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَرِبَتْ یَدَاكَ، أَتَشْهَدُ أَنِّی رَسُولُ اللهِ؟فَنَظَرَ إِلَیْهِ ابْنُ صَیَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّیِّینَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعمر رضی اللہ عنہ اورچنددوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ابن صیادکے پاس گئے،آپ کووہ بنومغالہ کے مکان کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتاہواملا،ان دنوں ابن صیادجوانی کے قریب تھا،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبرہی نہیں ہوئی،اوربچے تو(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کر)بھاگ گئے لیکن ابن صیادوہیں بیٹھ گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات بری معلوم ہوئی ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پراپناہاتھ رکھاتواسے معلوم ہوا،پھرآپ نے فرمایاتیرے ہاتھ خاک آلودہوں کیاتم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کارسول ہوں ،ابن صیادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولاہاں میں گواہی دیتاہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں ،

فَقَالَ ابْنُ صَیَّادٍ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّی رَسُولُ اللهِ؟فَرَفَضَهُ وَقَالَ:آمَنْتُ بِاللهِ وَبِرُسُلِهِ،مَا تَرَى؟قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَرَى عَرْشَ إِبْلِیسَ عَلَى الْبَحْرِ،فَقَالَ لَهُ:مَاذَا تَرَى؟ قَالَ ابْنُ صَیَّادٍ: یَأْتِینِی صَادِقٌ وَكَاذِبٌ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُلِّطَ عَلَیْكَ الأَمْرُ،ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِیئًا، فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ، فَقَالَ ابْنُ صَیَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ،فَقَالَ:اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: دَعْنِی یَا رَسُولَ اللهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ یَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَیْهِ، وَإِنْ لَمْ یَكُنْهُ فَلاَ خَیْرَ لَكَ فِی قَتْلِهِ

پھراس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکیاآپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کارسول ہوں ؟یہ بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑدیااورفرمایامیں اللہ اوراس کے پیغمبروں پرایمان لایا(اس کے جھوٹ کاپول کھولنے کے لئے تاکہ اس کاپیغمبری کادعویٰ غلط ثابت ہوجائے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تجھے کیادکھائی دیتاہے؟اس نے کہامیں پانی پرایک تخت دیکھتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوسمندرمیں ابلیس کاتخت دیکھتاہے،پھرآپ نے پوچھااورکیادیکھتاہے،ابن صیادبولاکہ میرے پاس سچی اورجھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں (یعنی کبھی سچاخواب دیکھتاہوں اورکبھی جھوٹا)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتوتیراسب کام گڈمڈہوگیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سے فرمایا اچھامیں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا،آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا،ابن صیادنے کہاوہ دخ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دورہوتواپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے چھوڑدیں میں اس کی گردن مار دیتا ہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ دجال ہے تو تواس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تواس کامارڈالنا تیرے لئے بہترنہ ہوگا،

انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِی فِیهَا ابْنُ صَیَّادٍ، وَهُوَ یَخْتِلُ أَنْ یَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَیَّادٍ شَیْئًا قَبْلَ أَنْ یَرَاهُ ابْنُ صَیَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ – یَعْنِی فِی قَطِیفَةٍ لَهُ فِیهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ – فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَیّادٍ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ یَتَّقِی بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَیَّادٍ: یَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَیَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَثَارَ ابْنُ صَیَّادٍ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ تَرَكَتْهُ بَیَّنَ

پھرایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کران کھجورکے درختوں میں گئے جہاں ابن صیادتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیادآپ کونہ دیکھے اوراس سے پہلے کہ وہ آپ کودیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں ،آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کودیکھ پایاوہ ایک چادراوڑھے پڑاتھااورکچھ گن گن یاپھن پھن کررہاتھا،لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دورہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجورکے تنوں میں چھپ چھپ کرجارہے تھے،اس نے پکارکرابن صیادسے کہہ دیاصاف!دیکھومحمدآن پہنچے ہیں ،یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑاہوا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیادکی باتیں کرنے دیتی تووہ اپناحال کھولتا،کچھ عرصہ بعدابن صیادمسلمان ہوگیا۔[14]خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

کعب بن اشرف کاقتل(ربیع الاول تین ہجری)

یہودی توامیدلگائے بیٹھے تھے کہ قریش کااسلحہ سے مسلح لشکرمسلمانوں کونیست ونابودکردے گا،لیکن اس کے برعکس قریش ہی تباہ وبربادہوگئے تویہودیوں کے خواب چکنا چور ہوگئے،وہ غصہ سے بدحال ہوگئے ،مسلمانوں کی فتح ونصرت سے سب سے زیادہ صدمہ کعب بن اشرف کوہوا ،اس کاباپ قبیلہ طی کی شاخ بنی نبھان کاعرب تھاجس نے زمانہ جاہلیت میں ایک خون کر دیاتھااس لئے فرارہوکرمدینہ آگیا،اوریہودکے قبیلہ بنونضیرسے دوستی کرلی اوران میں معززسمجھاجانے لگا،یہاں اس نے عقیلہ بنت ابی حقیق سے شادی کرلی جس سے کعب پیداہو جو درازقد،فربہ اندام ،بڑے پیٹ اوربڑے سروالااوربہت عمدہ شاعرتھا، اوراپنی دولت کے بل پرحجازکے یہودیوں کاسرداربن گیا تھا ، لیکن اسے داعی اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت عداوت تھی ،اس نے پہلے دوسرے یہودکے ساتھ مل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ باہمی امن وبھائی چارہ کیامگربہت جلد اس معاہدہ کوتوڑ ڈالا اور اپنے اشعارمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرسب وشتم اورآپ کی ہجو میں اشعارکہنے لگا،

وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ یَهْجُو النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُحَرِّضُ عَلَیْهِ كُفَّارَ قُرَیْشٍ

اورکعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں اشعارکہتاتھااورکھلم کھلاکفارقریش کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ پر اکساتا رہتا تھا۔[15]

اور جہاں بھی موقعہ ملتا مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے سے دریغ نہ کرتاتھا،

فَشَبَّبَ بِنِسَاءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى آذَاهُمْ

پھراپنی دولت ،منصب وجاہ پربھروسہ کرکے مسلمانوں کوجوش دلانے اوربھڑکانے کے لئے ان کی حرم کی خواتین سے اکثر چھیڑچھاڑکرنے لگا ۔[16]

وَجَزّ النّسَاءُ شَعْرَ الرّءُوسِ

اورخواتین سے انکے خوبصورت بالوں کے متعلق نازیبا عشقیہ اشعارکہنے لگا۔[17]

وَجَزَّ النِّسَاءُ رُءُوسَهُنَّ

اورخواتین سے انکے بالوں کے حسن کے متعلق عشقیہ اشعارکہنے لگا۔[18]

وَتَشَبَّبَ بِنِسَاءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى آذَاهُمْ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے مسلمان عورتوں سے چھیڑ چھاڑی کر انہیں تکلیف سے دوچار کیا کرتاتھا۔[19]

بلاشبہ یہ تمام باتیں لوگوں کے سینوں میں غصہ کی آگ بھڑکانے والی تھیں اورعرب اس شخص کوکبھی معاف نہیں کرسکتے جوان کی عورتوں کی عزت پرحملہ کرے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِیراً [20]

ترجمہ:اورتم اہل کتاب اورمشرکین بہت سی تکلیف داہ باتیں سنوگے۔

الزُّهْرِیِّ فِی قَوْلِهِ: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِیراً قال: هو كعب بن الأشرفقال: هو كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ

زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اور تم اہل کتاب اورمشرکین سے بہت سی تکلیف داہ باتیں سنوگے کعب بن اشرف کے بارے میں نازل ہوئی۔[21]

اس کی مسلمانوں سے بغض و عداوت کایہ عالم تھاکہ جب اسے مسلمانوں کی فتح کی خبرپہنچی توکہنے لگا۔

وَاَللَّهِ لَئِنْ كَانَ مُحَمَّدٌ أَصَابَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، لَبَطْنُ الْأَرْضِ خَیْرٌ مِنْ ظَهْرِهَا

ترجمہ:اللہ کی قسم اگرمحمدنے قریش ( مکہ کے بڑے بڑے جنگجو، بہادر اورآزمودہ کارسرداروں )کوواقعی شکست دے دی ہے توپھرزمین کا بطن (اندرون) اس کی ظہر(پشت)سے بہترہے، یعنی پھرذلت سے جینے سے عزت سے مرجاناہی بہترہے تاکہ آنکھیں ذلت ورسوائی کے منظرنہ دیکھیں ۔[22]

لیکن بہت جلدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ رب کاشکراداکرتے ہوئے مدینہ میں قریش کے ستر قیدیوں سمیت داخل ہوئےاور اس نے بچشم خود قیدیوں کودیکھ لیا تو اسے اس خبرپریقین آہی گیا،دنیامیں ویسے توبہت سے گروہ ہیں مگراللہ کی نظرمیں صرف دوہی گروہ ہیں ایک حزب اللہ اوردوسراحزب شیطان،جواسلام میں داخل ہوگاوہ حزب اللہ میں شامل ہوگا ،اورحزب شیطان میں وہ تمام قوتیں ہیں جنہیں مشرکین مکہ کہاجائے،یہودکہاجائے،منافقین کانام لیا جائے، مجوسیوں اور ہندوں کاشمارکیاجائے یا دہریے کہاجائے الغرض ہروہ گروہ جواسلام سے باہرہے وہ اپناکوئی بھی نام رکھے حزب شیطان ہی میں شمارہوگا، اوران کے دل مسلمانوں کے خلاف باہم دھڑکتے ہیں ،چنانچہ کعب بن اشرف یہودی کی آتش حسداورنفرت طبعی نے جوش مارا،اسے نظرآنے لگاکہ اسلام ایک مذہب نہیں ایک طاقت بھی ہے ،چنانچہ اس کی شرانگیزیاں اور تیز ہو گئیں ، ابو سفیان کے سفارتی دورے کاپہلااثریہ ہواکہ اس نے معاہدہ کی خلاف ورزی کواپنی عظمت کی دلیل بنالیا، اورقریش مکہ سے یگانیت کامظاہرہ کرنے اور مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہوا

فَنَزَلَ عَلَى الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِی وَدَاعَةَ بْنِ ضُبَیْرَةَ السَّهْمِیِّ،وَعِنْدَهُ عَاتِكَةُ بِنْتُ أَبِی الْعِیصِ بْنِ أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، فَأَنْزَلَتْهُ وَأَكْرَمَتْهُ، وَجَعَلَ یُحَرِّضُ عَلَى رَسُولِ الله ِصَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُنْشِدُ الْأَشْعَارَ، وَیَبْكِی أَصْحَابَ الْقَلِیبِ مِنْ قُرَیْشٍ، الَّذِینَ أُصِیبُوا بِبَدْرِ

مکہ مکرمہ پہنچ کر مطلب بن وداعہ بن ضبیرہ سھمی کے ہاں قیام کیا،مطلب کی بیوی عاتکہ بنت العیص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف نے اس کی بہت خاطرمدارت کی، پھراس نے ایک ایک قبیلہ میں جاکرلوگوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب بھڑکایا،غزوہ بدرکے مشرک مقتولوں پرخوب ر ویا دھویا ، اور مرنے والوں کے مرثیے کہہ کہہ کرعوام اورسرداروں کوانتقام کاجوش دلانے اورانہیں انتقام پراکسانے لگا۔اوریہ مرثیہ کہا۔

طَحَنَتْ رَحَى بَدْرٍ لِمَهْلِك أَهْلِهِ ، وَلِمِثْلِ بَدْرٍ تَسْتَهِلّ وَتَدْمَعُ

بدرکی چکی نے تمہارے جوانوں کاخون پیس ڈالا،بدرکے واقعات پرچیخو!آنسوبہاؤ!

قُتِلَتْ سَرَاةُ النّاسِ حَوْلَ حِیَاضِهِ ، لَا تَبْعَدُوا إنّ الْمُلُوكَ تُصَرّعُ

تمہارے بہترین بہادروں کی گردنیں کٹ کرزمین پرگریں ،حیران نہ ہوکہ تمہارے شہزادوں کی لاشیں بدرمیں پڑی رہ گئیں

ویقول أقوام أذل بسخطهم ، إن ابن أشرف ظَلّ كَعْبًا یَجْزَعُ

بعض لوگ جن کے غصے پرمیراجی خوش ہوتاہے ،کہتے ہیں ،کعب بن اشرف توبالکل مایوس ہوگیاوہ سچے ہیں

صَدَقُوا فَلَیْتَ الْأَرْضَ سَاعَةَ قُتّلُوا ،ظَلّتْ تَسِیخُ بِأَهْلِهَا وَتُصَدّعُ

کیسے کیسے حسین،شجیع اورخاندانی جوان تھے وہ، جوبھوکے،بے گھرلوگوں کی پناہ تھے ،کٹ مرے وہ کھلے خزانے خیرات کرتے

لِیَزُورَ یَثْرِبَ بِالْجُمُوعِ وَإِنّمَا ، یَسْعَى عَلَى الْحَسَبِ الْقَدِیمُ الْأَرْوَعُ

جب ستاروں سے بارش نہ برستی،وہی توتھے جودوسروں،کابوجھ اٹھاتے تھے وہ راج دلارے تھے جوصرف اپناحق لیاکرتے تھے

نُبّئْت أَنّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامِهِمْ ،فِی النّاسِ یَبْنِی الصّالِحَاتِ وَیَجْمَعُ

اے کاش!جب وہ قتل ہوئے توزمین پھٹ جاتی اوراپنے بچوں کونگل جاتی اوروہ جواس خبرکوپھیلانے آئے تھے ،نیزوں پرچڑھائے جاتے ، یا اندھے،بہرے اورگونگے بن کرزندہ رہتے۔[23]

أَنَّ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ قَدِمَ عَلَى مُشْرِكِی قُرَیْشٍ فَحَالَفَهُمْ عِنْدَ أَسْتَارِ الْكَعْبَةِ عَلَى قِتَالِ الْمُسْلِمِینَ،ثُمَّ رَجَعَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ إلَى الْمَدِینَةِ فَشَبَّبَ بِنِسَاءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى آذَاهُمْ

الغرض اس نے قریش کومسلمانوں  خلاف جنگ پرآمادہ کرلیااورانہیں حلف اٹھانے کے لئے حرم میں لے آیا،جہاں سب لوگوں نے بیت اللہ کاپردہ تھام کر مسلمانوں سے جنگ کرنے کاحلف اٹھایا، مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا کر وہ مدینہ منورہ واپس آگیااورمسلمان عورتوں سے چھیڑچھاڑکرنے لگا،

اس کی یہ تمام حرکات اس معاہدہ کے خلاف تھیں جومسلمانوں اوریہودیوں کے درمیان ہواتھااورجس میں وہ بھی شریک تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے کرتوتوں کی خبریں پہنچتی رہتیں تھیں ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبروتحمل کامظاہرہ فرماتے اورمسلمانوں کو درگزرکی تلقین فرماتے رہتے تھے، صرف حسان رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کی ہجو میں اشعارکہتے تھے ۔تاہم انہیں ان تمام حرکات پر کسی نہ کسی طرح معاف کیاجاسکتاتھا،لیکن ان سب سے گزرکروہ اپنے جذبہ عنادمیں یہاں تک پہنچاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک لینے کاتہہ کرلیا،اس نے ایک سازش تیارکی جس کامقصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کودھوکاسے قتل کرنا تھا،

أَنَّهُ صَنَعَ طَعَامًا وَوَاطَأَ جَمَاعَةً مِنَ الْیَهُودِ أَنَّهُ یَدْعُو النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْوَلِیمَةِ فَإِذَا حَضَرَ فَتَكُوا بِهِ ثُمَّ دَعَاهُ فَجَاءَ وَمَعَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَأَعْلَمَهُ جِبْرِیلُ بِمَا أَضْمَرُوهُ بَعْدَ أَنْ جَالَسَهُ فَقَامَ فَسَتَرَهُ جِبْرِیلُ بِجَنَاحِهِ فَخَرَجَ فَلَمَّا فَقَدُوهُ تَفَرَّقُوا فَقَالَ حِینَئِذٍ مَنْ یَنْتَدِبُ لِقَتْلِ كَعْب

ایک روایت ہےکعب بن اشرف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے ایک دعوت کے بہانے بلایااورکچھ لوگوں کو اس غلیظ مقصد کے لئے متعین کردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے ہی تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے مقصدبدکی اطلاع دی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ہی اس کے گھرسے باہرتشریف لے آئے اور واپسی پراس کے قتل کاحکم فرمایا۔[24]

وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: نَزَلَتْ فِی كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ وَأَصْحَابِهِ، حِینَ أَرَادُوا أَنْ یَغْدروا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فِی دَارِ كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ

علامہ ابن کثیرنے ابومالک کے حوالہ سے بیان کیاہے کہ اس نے ایک جماعت کے ساتھ مل کریہ انتظام کیاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھربلائے اورچپکے سے قتل کرا دے،چنانچہ اسی پریہ آیت نازل ہوئی

۔۔۔اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ۔۔۔[25]

ترجمہ:جب کہ ایک گروہ نے تم پردست درازی کاارادہ کرلیاتھامگراللہ نے ان ہاتھ تم پراٹھنے سے روک دیئے۔(تفسیرابن کثیر۶۱؍۳)

یعقوبی نے بنونضیرکاحال بیان کرتے ہوئے صاف لکھاہے،

ارادان یمکر برسول اللہ

اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودھوکہ سے قتل کرنے کاارادہ کیاتھا ،

اوراسی کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰٓؤُلَاۗءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا۝۵۱ [26]

ترجمہ:کیاتم نے ان لوگوں کونہیں دیکھاجنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیاگیاہےاوران کاحال یہ ہے کہ جبت اورطاغوت کومانتے ہیں اورکافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تویہی زیادہ صحیح راستے پرہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش نے اس کے جرائم کی فہرست کومکمل کردیا،مگرتنہااس کے جرائم پراس کی قوم کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیاجاسکتاتھا،اس کی قوم سے بھی یہ امید رکھنی فضول تھی کہ وہ اس کوان حرکات سے روکے گی کیونکہ اس کی ساری قوم کورویہ اسی کی طرح عداوت وبغض سے بھراہواتھا،اس کے علاوہ دہ دوسرے مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کرلڑنے کے لئے بھی نہیں آیاتھابلکہ ہمیشہ پس پردہ بیٹھ کرسازششیں کرتارہا،چنانچہ اس کے شرکے استیصال کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ گئی تھی کہ پردہ کے پیچھے ہی اس کی زندگی کاخاتمہ کردیاجاتا،آخرجب وہ اپنی حرکتوں سے بازنہ آیابلکہ مسلمانوں کے درگزرکرنے سے اس کی جرات اوربڑھ گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوقتل کرنے کاحکم فرمایا ۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللهَ وَرَسُولَهُ ، فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟قَالَ:نَعَمْ، قَالَ فَافْعَلْ إِنْ قَدَرْتَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَأْذَنْ لِی أَنْ أَقُولَ شَیْئًا قَالَ:قُلْ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکعب بن اشرف یہودی نے اللہ اوراس رسول کوبہت ایذاپہنچائی ہے تم میں سے کون اس کے قتل کے لئے تیارہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جوہروقت اپنی جان آپ پر نچھاورکرنے کے لئے تیاررہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہی بنو عبدالاشہل قبیلہ کے اس شخص محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابو عبدالرحمٰن یاابوعبداللہ تھی کھڑے ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاآپ کعب بن اشرف کوقتل کرنا چاہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ،محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ میراماموں ہے (محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے دودھ شریک بھتیجے تھے)میں اسے قتل کروں گا، رضاعت کارشتہ عرب کے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتاتھا،لیکن اسلام کے مقابلے میں خون کے رشتے ہیچ ہوچکے تھے ،رضاعت کارشتہ توپھردوسرے درجے پر آتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم کرسکتے ہوتو ضرور ایسا کر گزرو ، اس سخت کام کرنے کے لئے مکروحیلہ کرناضروری تھاکیونکہ یہودی اپنے قلعہ نماحویلیوں میں رہاکرتے تھے ،اوردن کے وقت منڈیوں میں اپنے غلاموں کے ساتھ ہوتے، اورجووقت ملتا اپنے ساتھیوں کی مجلسوں میں بیٹھتے،اس لئے محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے(جنگی چال کے طورپر) عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر مجھے اسے خوش کرنے کے لئے کچھ مبہم اور ذومعنی تعریفی کلمات کہنے کی اجازت فرمائیں تاکہ اس طرح اسے قتل کرنے کی راہ ہموارہوسکے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت عطافرمائی،

وعند ابن عبد البر فَمَكثَ مُحَمَّد بْن مسلمة أَیَّامًا مَشْغُول النَّفس بِمَا وعد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من نَفسه فِی قتل ابْن الْأَشْرَف، وأتى أَبَا نائلة سلكان بْن سَلامَة بْن وقش وَكَانَ أَخا كَعْب بْن الْأَشْرَف من الرضَاعَة وَعباد بْن بشر بْن وقش والْحَارث بْن أَوْس بْن معَاذ وَأَبا عبس بْن جبر، فأعلمهم بِمَا وعد بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من قتل ابْن الْأَشْرَف، فَأَجَابُوهُ إِلَى ذَلِك، وَقَالُوا: كلنا یَا رَسُول الله نَقْتُلهُ،ثم أتوارَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: یَا رَسُول الله،لَا بُد لنا أَن نقُول قولا غیر مطابق للواقع، یسر كعبا لنتوصل به إلى التمكن من قتله

ابن عبدالبرکی روایت میں ہےمحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کعب بن اشرف کے قتل کرنے کاوعدہ کرنے کے بعدکئی روزتک متفکررہے اور اسے قتل کرنے کے طریقوں پرغور کرتے رہے، بالآخر وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی اورشاعر ابو نائلہ( سلکان بن سلامة بن وقش) عبادبن بشر،حارث بن اوس اورابوعبس بن جبران(یہ سب افرادقبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ) سے مل کرمشورہ کیا، ان سب نے اس کے قتل پر آمادگی ظاہرکی اورکہاہم سب مل کر اسے قتل کریں گے،پھرسب مل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہاں جاکرکچھ نہ کچھ کرناپڑے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجومناسب ہووہ کہنامیری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔[27]

عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَشَى مَعَهُمْ إِلَى بَقِیعِ الْغَرْقَدِ ثُمَّ وَجَّهَهُمْ فَقَالَ انْطَلِقُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ أَعِنْهُمْ،ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى بَیْتِهِ، إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ یَعْنِی النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْلُهُ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً سَأَلَنَا الصَّدَقَةَ وَنَحْنُ لَا نَجِدُ مَا نَأْكُل،قَوْلُهُ وَاللهِ لَتَمَلُّنَّهُ بِفَتْحِ الْمُثَنَّاةِ وَالْمِیمِ وَتَشْدِیدِ اللامِ وَالنُّونِ مِنَ الْمَلَالِ، قَالُوا أَنْفَقْنَاهُ عَلَى هَذَا الرَّجُلِ وَعَلَى أَصْحَابِهِ،قَالَ أَلَمْ یَأْنِ لَكُمْ أَنْ تَعْرِفُوا مَا أَنْتُمْ عَلَیْهِ مِنَ الْبَاطِلِ، قَالَ: إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ، فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَیِّ شَیْءٍ یَصِیرُ شَأْنُهُ، وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَیْنِ

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع غرقدتک ان کی مشایعت فرمائی اور انہیں رخصت کرتے ہوئے فرمایا اللہ نام پر روانہ ہوجاؤ،اوردعافرمائی اے اللہ ان کی مددفرمانا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھرتشریف لے آئے ،محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں سمیت کعب بن اشرف سے ملنے کے لئے گئے اوردوران گفتگورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس طرح گویا ہوئے، یہ شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )ہم سے( فقرائ،مساکین پرتقسیم کرنے کے لئے) صدقہ و زکواة مانگتاہے، جبکہ ہمارے پاس کھانے کوبھی نہیں ہے ،اس شخص نے ہمیں تنگ اورپریشان کر دیاہے ،اس لیے میں تم سے قرض لینے آیاہوں ،کعب بن اشرف نے جو ایک مسلمان کی زبان سے ایسے کلمات سنے تواپنی باطنی خباثت کا اظہارکرکے کہنے لگاابھی توکچھ نہیں آگے چل کر دیکھنا ابھی تم لوگوں کو اوربھی رنج و مصیبت برداشت کرناہوں گے،اور واللہ تم اس شخص اوراس کے ساتھیوں پرنفقہ کرنے سے اکتاچکےہیں ،کیاتمہیں ابھی تک محسوس نہیں ہواکہ تم باطل پرہو؟محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ ہم ان کے ہاتھ پران کی پیروی اور فرمابرداری کاعہدکرچکے ہیں اس لئے ان کاساتھ چھوڑنا پسندنہیں کرتے بس ان کے انجام کے منتظرہیں ، میں اس وقت آپ کے پاس وسق یا دو وسق (ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتاہے اورایک صاع ساڑھے تین سیرکاہوتاہے،اس طرح ایک دسق دوسودس سیریعنی سواپانچ من ہوا ، بعض نے کہا ہے کہ وسق ایک اونٹ کے بار پرتولا جاتا ہے) غلہ قرض کے طورپر مانگنے کے لئے حاضر ہوا ہوں ،

ارْهَنُونِی،قَالُوا: أَیَّ شَیْءٍ تُرِیدُ؟قَالَ: ارْهَنُونِی نِسَاءَكُمْ،قَالُوا: كَیْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ العَرَبِ،قَالَ: فَارْهَنُونِی أَبْنَاءَكُمْ،قَالُوا: كَیْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا، فَیُسَبُّ أَحَدُهُمْ، فَیُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَیْنِ، هَذَا عَارٌ عَلَیْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللأْمَةَ،وَفِی مُرْسَلِ عِكْرِمَةَ وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ سِلَاحَنَا مَعَ عِلْمِكَ بِحَاجَتِنَا إِلَیْهِ

کعب بن اشرف نے کہاٹھیک ہے میں غلہ دینے کے لئے تیار ہوں مگراس کے بدلے کوئی چیزمیرے پاس رہن رکھ دو ،انہوں نے کہا آپ کیاچیز رہن رکھناپسندکریں گے ؟ کعب بن اشرف نے کہااپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو ،انہوں نے کہا ہماری غیرت اورحمیت یہ کیسے برداشت کرے گی کہ ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس رہن رکھیں جبکہ آپ عرب کےایک حسین وجمیل نوجوان ہیں ،کعب بن اشرف نے کہا اچھاتو پھراپنے لڑکوں کورہن رکھ دو،انہوں نے جواب دیااے کعب! یہ توہمارے لئے بے غیرتی کی بات ہوگی،لوگ ہماری اولاد کو اس بات کاطعنہ دیں گے کہ تم تو صرف ایک یادو وسق غلہ کے عوض رہن رکھے گئے تھے، البتہ ہم اپنے ہتھیارآپ کے پاس رہن رکھ سکتے ہیں ،عکرمہ رحمہ اللہ کی ایک مرسل روایت ہے کہ انہوں نے کہاآپ کوتوعلم ہے ہم ہتھیاروں کے کس قدرمحتاج اورضرورت مندہیں (انہوں نے یہ پیشکش اس لئے کی تھی تاکہ اسے ان لوگوں کے ہتھیارلے کراس کے پاس آنے سے کچھ شک وشبہ نہ رہے)کعب بن اشرف نے ہتھیاررہن رکھنے کی تجویزکو مان لیااوریہ طے پایاکہ وہ رات کوہتھیاررہن رکھ کرغلہ لے جائیں ،طے شدہ پروگرام کے مطابق محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بعد ابونائلہ بھی کعب بن اشرف کے پاس آئے اورباتوں باتوں میں اپنے پہلے ساتھی کی طرح اس طرح گویا ہوئے

قَالَ: كان قدوم هذا الرجل علینا بلاء من البلاء، عَادَتْنَا الْعَرَبُ وَرَمَتْنَا عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَةٍ وَقَطَعَتْ عنا السبیل حَتَّى ضَاعَ الْعِیَالُ، وَجَهِدَتِ الْأَنْفُسُ وَأَصْبَحْنَا قَدْ جَهِدْنَا وَجَهِدَ عِیَالُنَا ،إِنَّ مَعِی أَصْحَابًا لِی عَلَى مِثْلِ رَأْیِی وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ آتِیَكَ بِهِمْ

قریش کے اس شخص کی مدینہ میں آمد ہمارے لئے ایک آزمائش بن گئی ہے ،اس کی وجہ سے ساراعرب ہمارے خون کاپیاساہوگیاہے اورسب نے ہمیں ایک کمان سے مارا ہے،انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرلیاگیاہے جس سے ہماری راہیں بندہوگئی ہیں وغیرہ ایک کے بعددوسرے مسلمان سے اس طرح کی مخالفانہ گفتگوسن کرکعب اور زیادہ خوش ہوا، جب ابونائلہ نے اس کے چہرے پرخوشی کے آثاردیکھے تومزیدکہامیں اپنی سوچ میں اکیلانہیں ہوں بلکہ کئی اورمسلمان بھی میری طرح سوچتے ہیں ،میر ا خیال ہے کہ میں انہیں بھی آپ کے پاس لے آؤں تاکہ آپ ان کے پاس کچھ بیچیں اوران پراحسان کریں ،

کعب بن اشرف نے ابونائلہ کی بات بھی مان لی اورطے ہواکہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت اس کے پاس آسکتاہے ،یہودی اپنی حفاظت کے لئے اپنے مضبوط اورمستحکم قلعوں نماحویلیوں میں رہا کرتے تھے ،اس کی حویلی مدینہ منورہ کے جنوب میں بنونضیرکی آبادی کے پیچھے واقع تھی،چنانچہ چودہ ربیع الاول تین ہجری کوطے شدہ پروگرام کے مطابق یہ چاروں ساتھی تیاری کرکے کعب بن اشرف کی حویلی کے دروازے پر پہنچ گئے اور اسے زورسے آواز دی،اس نے ان لوگوں کی آوازوں سے سب کوپہچان لیا،کعب بن اشرف کی نئی نئی شادی ہوئی تھی آوازوں کوپہچاننے کے باوجوداپنے لحاف میں دبک گیا

فَوَثَبَ فِی مِلْحَفَتِهِ فَأَخَذَتِ امْرَأَتُهُ بِنَاحِیَتِهَاوَقَالَتْ لَهُ أَنْتَ امْرُؤٌ مُحَارِبٌ لَا تَنْزِلُ فِی هَذِهِ السَّاعَةِ ،قَالَتْ: أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ یَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ أَخِی مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِیعِی أَبُو نَائِلَةَ إِنَّ الكَرِیمَ لَوْ دُعِیَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَیْلٍ لَأَجَابَ،فَقَالَ: إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّی قَائِلٌ بِشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ، فَإِذَا رَأَیْتُمُونِی اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ، فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوه

لیکن اس کی نئی نویلی بیوی نے لحاف کا کونا پکڑ کرہٹادیااورکہاتم ایک جنگجوشخص ہولڑنے والے اس وقت نہیں آیا کرتے ،اس نے کہااگرابونائلہ مجھے لیٹاہوادیکھے گاتووہ مجھے بیدارنہ کرے گا،اس کی بیوی نے کہا مجھے اس آوازسے خون ٹپکتانظرآرہاہے،کعب بن اشرف نے کہایہ تمہاراوہم ہے یہ تومیرابھائی محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ اورمیرارضاعی بھائی ابونائلہ رضی اللہ عنہ ہیں ،اور بڑی بے فکری سے کہا اگرکسی نوجوان کونیزہ بازی کے لئے پکاراجائے تووہ اس چیلنج کوقبول کرلیتاہے،کعب بن اشرف کو آوازدینے اوراس کے نیچے اترنے کے دوران محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو اپنا منصوبہ سمجھایاکہ جیسے ہی کعب بن اشرف نیچے آئے گا میں اس کاسرسونگھنے کے بہانے اس کے بال مضبوطی سے پکڑلوں گا،اس وقت تم لوگ اس کی گردن اتار لینا،

فَنَزَلَ إِلَیْهِمْ مُتَوَشِّحًا وَهُوَ یَنْفَحُ مِنْهُ رِیحُ الطِّیبِ، فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ كَالیَوْمِ رِیحًا، أَیْ أَطْیَبَ، قَالَ: عِنْدِی أَعْطَرُ نِسَاءِ العَرَبِ وَأَكْمَلُ العَرَبِ،فَقَالَ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَشُمَّ رَأْسَكَ؟قَالَ: نَعَمْ،فَشَمَّهُ ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَتَأْذَنُ لِی؟ قَالَ: نعَمْ،فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ، قَالَ: دُونَكُمْ، فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ

جب کعب بن اشرف نیچے آیاتوخوشبوؤں میں بسا ہوا تھا ، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے پروگرام مطابق اسے کہاجوخوشبوآپ نے لگائی ہوئی ہے اتنی اچھی خوشبوتومیں نے کبھی سونگھی ہی نہیں ، کعب بن اشرف نے کہامیرے پاس عرب کی سب سے حسین وجمیل عورت ہے جوہروقت عطرمیں بسی رہتی ہے، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے خوشدلی سے کہاکیاآپ مجھے اپنا معطرسرسونگھنے کی اجازت دیں گے؟ اس نے اپنی بڑائی ظاہرکرنے کے لئے اجازت دے دی،محمدبن مسلمہ اور ان کے ساتھیوں نے آگے بڑھ کراس کاسرسونگھااورپیچھے ہٹ گئے، اوربولے واقعی ہی بڑی لاجواب خوشبوہے، پھرکچھ ہی لمحوں بعد بولے کہ کیاآپ دوبارہ مجھے اپنے سرکی خوشبوسونگھنے کی اجازت دیتے ہیں ،کعب بن اشرف نے کہابڑے شوق سے سونگھ لو، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ آگے بڑے اورسرکی خوشبوسونگھنے کے بہانے اس کے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑلیا،اورساتھیوں کواس کی گردن پر تلوار کا وارکرنے کااشارہ کیا،وہ تواشارے کے منتظرتھے فوراًہی اس کی گردن پر باقی تینوں ساتھیوں نے تلواروں کے زور دار وار کرکے اس کا سرقلم کردیا۔[28]

اوراس کاسرگھوڑے کے توبرے میں رکھ لیا ،اس دوران حارث رضی اللہ عنہ بن اوس کواپنے کسی ساتھی کی تلوارسے کچھ زخم لگ گئے اورجسم سے خون بہنے لگا،تمام ساتھی فوراًہی اس جگہ سے رخصت ہوگئے مگر حرہ عریض پہنچے تو دیکھا کہ ان کاایک زخمی ساتھی حارث بن اوس رضی اللہ عنہ نہیں ہے،وہ وہاں رک کران کاانتظارکرنے لگے کچھ دیربعدحارث بن اوس رضی اللہ عنہ اپنے تینوں ساتھیوں سے آملے، حارث بن اوس رضی اللہ عنہ خون بہہ جانے کی وجہ کافی کمزورہورہے تھے اس لئے ان کے دوسرے ساتھیوں نے انہیں اپنی سواری پراٹھالیا، اوربنوقریظہ کے راستے رات کے آخری پہر اطلاع دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،

وَقَدْ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللّیْلَةَ یُصَلّی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ نَظَرَ إِلَیْهِمْ:أَفْلَحَتِ الْوُجُوهُ ، فَقَالُوا: وَوَجْهُك یَا رَسُولَ اللهِ! وَرَمَوْا بِرَأْسِهِ بَیْنَ یَدَیْهِ، فحمد الله عَلَى قتله

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ساری رات نماز کھڑےپڑھتے رہے،جب نمازسے فارغ ہوئےتو ان کچھ کہنے سے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دمکتے چہروں کودیکھ کر فرمایا اوران چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے، ان لوگوں نے جواب میں کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے چہرے کوبھی، پھر کعب بن اشرف کاکٹاہواچہرہ توبرے سے نکال کرآپ کے سامنے ڈال دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کے قتل پراللہ کاشکراداکیا۔[29]

وَجُرِحَ الحارث بن أوس بِبَعْضِ سُیُوفِ أَصْحَابِهِ، فَتَفَلَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَرِئَ

اور حارث بن اوس اپنے ساتھیوں کے وار سے زخمی ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنالعب دہن حارث بن اوس رضی اللہ عنہ کے زخموں پرلگایاجس سے ان کے زخم مندمل ہوگئے اوروہ صحت یاب ہوگئے اورآئندہ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔[30]

جب یہودیوں کواپنے سردارکے قتل کے واقعہ کاعلم ہواتووہ خوف زدہ ہوگئے،اوراچھی طرح سمجھ گئے کہ اگراب وہ اپنی بدزبانی اور ریشیہ دانیوں سے بازنہ رہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت کے استعمال سے گریزنہیں کریں گے،کیونکہ اپنی کاروائیوں کوجانتے تھے اس لئے اپنے سردارکے قتل پرکوئی شروہنگامہ نہ کیا،

فَأَصْبَحَتِ الْیَهُودُ مذعورین. فجاؤوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: قُتِلَ سیدنا غیلة! فذكرهم النبی. صَنِیعَهُ وَمَا كَانَ یَحُضُّ عَلَیْهِمْ وَیُحَرِّضُ فِی قِتَالِهِمْ وَیُؤْذِیهِمْ، ثُمَّ دَعَاهُمْ إِلَى أَنْ یَكْتُبُوا بَیْنَهُ وَبَیْنَهُمْ صُلْحًا أَحْسَبُهُ،قَالَ: وَكَانَ ذَلِكَ الكتاب مع علی رضی الله عَنْهُ. بَعْد

یہودکی صبح خوف کی حالت میں ہوئی، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورشکایت کہ ہماراسرداردغاسے قتل کیاگیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارا سردار مسلمانوں کو طرح طرح سے ایذائیں دیتارہتا، اور لوگوں کو ہمارے قتال پربرانگیختہ اور آمادہ کرتارہتاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سن کریہوددم بخودرہے گئے اوران پاس خاموش رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک عہدلکھوایا کہ ان میں سے کوئی آئندہ اس قسم کی حرکت نہیں کرے گا،یہ عہدنامہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا[31]

فَأَذِنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَتْلِ مَنْ وُجِدَ مِنَ الْیَهُودِ لِنَقْضِهِمْ عَهْدَهُ وَمُحَارَبَتِهِمُ اللهَ وَرَسُولَهُ

اس کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکی عہدشکنی اوراللہ اوررسول سے جنگ آزمائی کے باعث ان کے قتل کی اجازت دی۔[32]

جس سے ہریہودی خوفزدہ ہوااوراپنے قتل سے ڈرنے لگااس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی عرصہ تک مدینہ منورہ پراندرونی اوربیرونی متوقع خطرات سے فارغ ہوگئے۔

اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالناصحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقہ سے دشمن کے سرداروں کوقتل کرادینااسلام کے قانون جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے، اگر ایسا ہوتا تو یقینا ًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے فرعون امت ابوجہل اورابوسفیان جیسے دشمنوں کوقتل کراتے، اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے فدائیوں کی کوئی کمی نہ تھی جواس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کرکے قتل کر سکتے تھے،عہدرسالت اورعہدصحابہ رضی اللہ عنہم کی پوری تاریخ میں صرف کعب بن اشرف اورابورافع کے سواکسی اورشخص کانام نہیں ملتاجسے اس طرح خفیہ طریقہ سے قتل کیا گیا ہو، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن صر ف یہی شخص نہ تھے ۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِی الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّینَ، وَإِذَا وُضِعَ فِی أُمَّتِی السَّیْفُ لَمْ یُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِكِینَ، حَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی الْأَوْثَانَ ، وَإِنَّهُ سَیَكُونُ فِی أُمَّتِی كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی، وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِینَ لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى یَأْتِیَ أَمْرُ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ پیشواؤں کاخدشہ ہے، اورجب ان میں ایک دفعہ تلوارچل پڑی توقیامت تک بندنہ ہوگی،اورقیامت اس وقت تک بپانہیں ہوگی جب تک میری امت کی ایک بڑی جماعت مشرکین سے نہ جاملے اورمیری امت کے بہت سے گروہ بت پرستی نہ کرنے لگیں ،اورمیری امت میں تیس (۳۰)دجال پیداہوں گے وہ سب نبوت کادعوی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ(قیامت تک)حق پررہے گااوران کی(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)مددکی جائے گی اوران کے ساتھ چھوڑجانے والے ان کاکچھ بھی نہیں بگاڑسکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کاحکم (قیامت)آجائے۔[33]

  حویصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ظَفَرْتُمْ بِهِ مِنْ رِجَالِ یَهُودَ فَاقْتُلُوهُ ، قَدْ أَسْلَمَ، فَعَدَا مُحَیّصَةُ عَلَى ابْنِ سُنَیْنَةَ فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ حُوَیّصَةُ یَضْرِبُ مُحَیّصَةَ، وَكَانَ أَسَنّ مِنْهُ، یَقُولُ: أَیْ عَدُوّ اللهِ، أَقَتَلْته؟أَمَا وَاَللهِ لَرُبّ شَحْمٍ فِی بَطْنِك مِنْ مَالِهِ! فَقَالَ مُحَیّصَةُ: وَاَللهِ، لَوْ أَمَرَنِی بِقَتْلِك الّذِی أَمَرَنِی بِقَتْلِهِ لَقَتَلْتُك،قَالَ: وَاَللهِ، لَوْ أَمَرَك محمّد أن تقتلنی؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ حُوَیّصَةُ: وَاَللهِ، إنّ دِینًا یَبْلُغُ هَذَا لَدِینٌ مُعْجِبٌ. فَأَسْلَمَ حُوَیّصَةُ یَوْمَئِذٍ، فَقَالَ مُحَیّصَةُ- وَهِیَ ثَبْتٌ، لَمْ أَرَ أَحَدًا یَدْفَعُهَا

کعب بن اشرف کے قتل کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکی عہدشکنی اوراللہ اوررسول سے جنگ آزمائی کے باعث ان کے قتل کی اجازت دی تھی،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کے مطابق حویصہ بن مسعودکے چھوٹے بھائی محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مشہور تاجر ابن سنینہ یہودی کوجوحویصہ بن مسعوداور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں اکثرآتارہتا اور خرید و فروخت کرتاتھا،مگرکعب بن اشرف کے نقش قدم پرچل رہاتھاقتل کرڈالا،ان کے بھائی حویصہ بن مسعودجوعمرمیں ان سے بڑے تھے اورابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان سے کہاجبکہ ان کے چھوٹے بھائی محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکے تھے ،بڑے بھائی حویصہ بن مسعود نے اپنے چھوٹے بھائی محیصتہ بن مسعودکوزدوکوب کرناشروع کردیااور کہا اے اللہ کے دشمن تونے اس کوقتل کرڈالاجس کامال کھاکھاکرتیرے پیٹ میں بہت سی چربی جمع ہوگئی ہے، محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیااللہ کی قسم! اس کے قتل کاحکم اس ذات نے دیاتھاکہ اگروہ ذات بابرکات تیرے قتل کابھی حکم دیتی تواللہ کی قسم !میں تیری بھی گردن اڑادیتا،بڑے بھائی حویصہ بن مسعود کویہ سن کربڑاتعجب ہوا اور بولا،کیاواقعی اگرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تجھے میرے قتل کا حکم دیں تو تو مجھے قتل کرڈالے گا؟چھوٹے بھائی نے جرات سے جواب دیاہاں ،اللہ کی قسم ! اگروہ تیری گردن مارنے کا حکم فرماتے توضرورتیری گردن ماردیتااورتیرے بڑے بھائی ہونے کاخیال تک نہ کرتا،عرب معاشرے میں اس جواب کی اہمیت بہت زیادہ تھی،چنانچہ حویصہ بن مسعودیہ بیباک جواب سن کربڑاحیران ہوااوربولااللہ کی قسم! یہی دین حق ہے جودلوں میں اس درجہ راسخ ، مستحکم اوررگ وپے میں اس طرح جاری وساری ہے،اس کے بعداپنے بھائی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرسچے دل سے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔[34]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدرکے لئے تشریف لے گئے تویہی یہودی اور عبداللہ بن ابی بن سلول جوبڑاحسین وجمیل،گدازجسم اورفصیح البیان شخص تھا، جس کے ساتھ اوس وخزرج کے تین سو ساتھی تھے، جنہیں یقین تھاکہ قریش کاکیل کانٹے سے لیس بڑا لشکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو دنیاسے مٹادیں گے اس لئے وہ اس مقابلے کی خبرکے بے چینی سے منتظرتھے،کہ کب یہ اطلاع ملتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت کفارسے لڑتے ہوئے فناہو گئے ہیں ،اس لئے انہوں نے مسلمانوں کی شکست اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پروپیگنڈاکیاتھاجس سے مسلمانوں میں بڑااضطراب پیدا ہوا ،اورجب انہیں قریش مکہ کی عبرت ناک شکست اورقلیل التعدادبے سروساماں مسلمانوں کی فتح ونصرت کی خبر ہو تو ان کے دلوں میں مزیدبغض وعنادپیداہوگیا،یہود نے اپنی عیاری ومکاری ، چالبازیوں کے ذریعہ باربارکھلم کھلاعہدشکنی کامظاہرہ کیا،جب یہ سامنے ہوتے تودوستی اور محبت کادم بھرتے اورپیٹھ پیچھے اسلام کاگلاگھوٹنے کی سازشیں کرتے،مشرکوں سے بھی سلام وپیام جاری تھا،غزوہ بدرمیں مسلمانوں کی فتح ہوئی توان کے لئے یہ دورخی پالیسی دشوار ہوگئی ،اب ان کے سینوں میں غیرت کی آگ سلگنے لگی،دل حسدسے پکنے لگے،ان کی عقلیں حیران تھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے دین کو اتنا چمکادیاکہ گھرگھراسلام کاچراغ روشن ہوگیاہے،یہی نہیں وہ بے سروسامانی کی حالت میں مشرکوں اورظالموں سے ٹکربھی لیتے ہیں اوراللہ ان کوفتح ونصرت سے ہمکناربھی کرتا ہے،عرب قبائل پران کی دھاک بیٹھ گئی ہے،سارے لوگ ان سے ڈرنے اورلرزنے لگے ہیں ،یہودی بھلااس صورت حال کوٹھنڈی آنکھوں کیسے دیکھ سکتے تھےیہ توان کے لئے خطرہ کی گھنٹی تھی اب وہ کھل کرسامنے آگئے،ریااورنفاق کانقاب انہوں نے اتارپھینکااب وہ مسلمانوں کے لئے ننگی تلواربن گئے اوران کی کھلے بندوں مخالفت کرنے لگے،لوگوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جوش دلاتے ،اشعارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکرتے ،کڑوی کسیلی باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادل چھیدتے،سب سے زیادہ شریر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی قینقاع کے لوگ تھے جن کاپیشہ زرگری تھا،اس لئے ان کے پاس کافی مال ودولت تھاجس سے انہوں نے سامان جنگ اکھٹاکر رکھاتھا، اس قبیلہ کے لوگ نہایت بہادر و دلیر تھے اوران میں لڑنے والے مردوں کی تعداد تقریباًسات سوتھی ،یہ لوگ مدینہ منورہ کے مضافات میں ایک قلعہ میں رہتے تھے،چنانچہ مسلمان مردوں میں سے جب کوئی اپنی ضرورت سے ان کے بازارمیں جاتاتویہ اس شخص کامذاق اڑاتے اورکسی نہ کسی طرح انہیں تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ،پھر ان کادائرہ مسلمان عورتوں کی طرف بھی بڑھ گیااورانہوں نے مردوں اور عورتوں کے ساتھ اس طرح کا یکساں معاملہ کرنا شروع کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہودکے اس طرزعمل کی خبرملتی رہتی تھی مگرکچھ عرصہ آپ نے خاموشی اختیارفرمائی کہ شایدان کے دلوں میں کچھ خوف پیدا ہو جائے اوراپنی غلیظ حرکتوں سے بازآجائیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قُرَیْشًا یَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدِمَ الْمَدِینَةَ جَمَعَ الْیَهُودَ فِی سُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعَ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، أَسْلِمُوا قَبْلَ أَنْ یُصِیبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قُرَیْشًا، قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، لَا یَغُرَّنَّكَ مِنْ نَفْسِكَ أَنَّكَ قَتَلْتَ نَفَرًا مِنْ قُرَیْشٍ كَانُوا أَغْمَارًا، لَا یَعْرِفُونَ الْقِتَالَ، إِنَّكَ لَوْ قَاتَلْتَنَا لَعَرَفْتَ أَنَّا نَحْنُ النَّاسُ، وَأَنَّكَ لَمْ تَلْقَ مِثْلَنَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمگریہ سلسلہ جب درازہونے لگاتو شوال کی پندرہ یا سولہ تاریخ بروزشنبہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کووعظ ونصیحت کرنے کے لئے ان کے بازاربنی قینقاع میں تشریف لے گئے، اورسب یہودکوجمع فرماکرایک ہمدرد اور خیرخواہ کی طرح ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے گروہ یہود! اللہ سے ڈرو،جیسے بدرمیں قریش پراللہ کاعذاب نازل ہواہے کہیں تم پر بھی ایسا عذاب نازل نہ ہو جائے ،اسلام قبول کرلو،تم خوب اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہوکہ میں اللہ کا سچا نبی اوراس کارسول ہوں جس کوتم اپنی کتاب(توریت) میں لکھا ہواپاتے ہواوراللہ نے تم سے اس کا عہدبھی لیاہواہے،بنی قینقاع جوطاقت کے نشے میں چورتھے ، آپ کی بات کی کوئی پرواہ نہ کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ پر مشتعل ہوگئے، اوراپنی کتابی معلومات ،اپنی عددی کمتری،اورمسلمانوں کے ساتھ بودوباش کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درشتی سے جواب دیااورادب واحترام کی حدودتجاوزکرکے اپنی بہادری کی بڑائی مارنے لگے،کہنے لگے اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ایک فنون حرب سے ناآشنااور ناتجربہ کارقوم یعنی قریش سے مقابلہ میں آپ ان پر غالب ہو گئے ،واللہ اگرہم سے مقابلہ ہواتوآپ کواچھی طرح معلوم ہوجائے گاکہ ہم میدان جنگ کے شیر ہیں ، مرد میدان اورتلواروں کے دھنی ہیں اورصاف طورپرکہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لئے تیار ہیں ۔[35]

یہ عہدشکنی اوردشمنی کاواضح اعلان تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوکوئی اورجواب دینے کے بجائے اپناغصہ ضبط کرلیا اور واپس تشریف لے آئے،اب مسلمانوں اوریہودیوں کے تعلقات بگڑگئے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی تادیبی کاروائی نہ ہونے کے سبب یہودیوں کی جرات اوربڑگئی اور انہوں نے مدینہ منورہ میں ہنگامے کھڑے کرلئے،ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی ۔

[1] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۶۴۲

[2] صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ أَیُّ یَوْمٍ یُصَامُ فِی عَاشُورَاءَ ۲۶۶۶،سنن ابوداودکتاب الصیام بَابُ مَا رُوِیَ أَنَّ عَاشُورَاءَ الْیَوْمُ التَّاسِعُ ۲۴۴۵

[3]ابن ہشام ۴۶؍۲،عیون الآثر۳۵۵؍۱،تاریخ طبری ۴۸۷؍۲،ابن سعد۲۶؍۲،البدایة والنہایة ۲؍۴

[4] عیون الآثر۳۵۵؍۱،مغازی واقدی۱۹۴؍۱،البدایة والنہایة۳؍۴،ابن سعد۲۶؍۲

[5] دلائل النبوة للبیہقی۲۸۲؍۷

[6] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۹۵۲؍۴

[7] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۹۵۲؍۴

[8] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب

[9] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۹۵۲؍۴

[10] الثقات لابن حبان۱۰۵؍۲

[11] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۳۷؍۳

[12]الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۹۵۲؍۴

[13] تاریخ الإسلام وَوَفیات المشاهیر وَالأعلام۳۵۰؍۱

[14] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ عن ابن عمر ۱۳۵۴،وکتاب الجہاد بَابٌ كَیْفَ یُعْرَضُ الإِسْلاَمُ عَلَى الصَّبِیِّ ۳۰۵۵،وکتاب الادب بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ اخْسَأْ ۶۱۷۳،وکتاب القدربَابُ یَحُولُ بَیْنَ المَرْءِ وَقَلْبِهِ ۶۶۱۸، صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَیَّادٍ۷۳۵۴

[15] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابُ كَیْفَ كَانَ إِخْرَاجُ الْیَهُودِ مِنَ الْمَدِینَةِ؟۳۰۰۰

[16] ابن ہشام۵۴؍۲،شرح الزرقانی علی الموھب ۳۶۹؍۲، عیون الاثر۳۴۸؍۱،الروض الانف ۲۸۷؍۵،البدایة والنھایة۷؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۷؍۳

[17] المغازی واقدی۵۴؍۲

[18] دلائل النبوة للبیہقی۱۰۱؍۳

[19] فتح الباری ۳۳۷؍۷

[20] آل عمران۱۸۶

[21] عیون الاثر۳۵۴؍۱

[22] ابن ہشام۵۲؍۲

[23] ابن ہشام۵۲؍۲،الروض الانف۲۸۵؍۵،مغازی واقدی۱۲۲؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۷؍۳،فتح الباری۳۳۷؍۷

[24] فتح الباری۳۳۷؍۷

[25] المائدة۱۱

[26] النسائ۵۱

[27] شرح الزرقانی على المواهب۳۷۲؍۲

[28] فتح الباری ۳۳۷؍۷،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ۴۰۳۷

[29] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ عن جابر ۴۰۳۷،وکتاب الجہادبَابُ الفَتْكِ بِأَهْلِ الحَرْبِ ۳۰۳۲،صحیح مسلم کتاب الجہاد بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ طَاغُوتِ الْیَهُودِعن جابر ۴۶۶۴،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی الْعَدُوِّ یُؤْتَى عَلَى غِرَّةٍ وَیُتَشَبَّهُ بِهِمْ ۲۷۶۸،فتح الباری۳۳۸تا۳۴۰؍۷،البدایة والنہایة۲۵؍۲،مغازی واقدی ۱۹۰؍۱

[30] زادالمعاد۱۷۱؍۳

[31]ابن سعد۲۵؍۲

[32] ابن سعد۲۵؍۲،زادالمعاد۱۷۱؍۳

[33] مسند احمد ۲۲۳۹۵

[34] مغازی واقدی۱۹۲؍۱،ابن ہشام۵۳؍۲،الروض الانف۲۹۳؍۵،عیون الآثر ۳۵۳؍۱، تاریخ طبری۴۹۱؍۲،البدایة والنہایة ۱۰؍۴، دلال النبوة للبیہقی ۲۰۰؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۱۶؍۳

[35] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ كَیْفَ كَانَ إِخْرَاجُ الْیَهُودِ مِنَ الْمَدِینَةِ؟۳۰۰۱

Related Articles