ہجرت نبوی کا دوسرا سال

سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ (نخلہ کی جانب   رجب ۲ہجری)

عن  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ بَعَثَ رَهْطًا، فَبَعَثَ عَلَیْهِمْ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَلَمَّا أَخَذَ لِیَنْطَلِقَ بَكَى صَبَابَةً الى  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وبعث معه ثَمَانِیَةُ رَهْطٍ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ، لَیْسَ فِیهِمْ مِنَ الأَنْصَارِ أَحَدٌ

رجب دوہجری( جنوری ۶۲۴ئ) کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوعبیدہ بن جراح  رضی اللہ عنہ  کوقریش کی نقل وحرکت اوران کی تیاریوں  کاحال معلوم کرنے کے لئے ایک جماعت کا امیر بنایا جب وہ روانہ ہونے لگے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جدائی کے صدمہ سے رودیئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  روک لیا،اوران کے بدلے عبداللہ بن جحش اسدی  رضی اللہ عنہ  کوآٹھ یابارہ مہاجرین پرمشتمل مجاہدین کاایک دستہ کاامیرمقررفرماکرمکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ کی جانب روانہ کیااس دستہ میں  کوئی انصاری شامل نہیں  تھا۔[1]

قال ابن سعد بعث عبد الله بن جحش فی اثنی عشر رجلا من المهاجرین

ابن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو بارہ مہاجرین کے ایک دستہ کے ساتھ روانہ کیا۔[2]

كُلُّ اثْنَیْنِ یَعْتَقِبَانِ عَلَى بَعِیرٍ وَكَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ. ثُمَّ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ: أَبُو حُذَیْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، وَمِنْ حَلْفَائِهِمْ: عَبْدُ اللهِ ابْن جَحْشٍ، وَهُوَ أَمِیرُ الْقَوْمِ، وَعُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنِ بْنِ حُرْثَانَ، أَحَدُ بَنِی أَسَدِ ابْن خُزَیْمَةَ، حَلِیفٌ لَهُمْ. وَمِنْ بَنِی نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ: عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ بْنِ جَابِرٍ، حَلِیفٌ لَهُمْ. وَمِنْ بَنِی زُهْرَةَ بْنِ كِلَابٍ: سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ. وَمِنْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ، حَلِیفٌ لَهُمْ مِنْ عَنْزِ بْنِ وَائِلٍ، وَوَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ عَرِینِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ یَرْبُوعٍ، أَحَدُ بَنِی تَمِیمٍ، حَلِیفٌ لَهُمْ، وَخَالِدُ بْنُ الْبُكَیْرِ، أَحَدُ بَنِی سَعْدِ بْنِ لَیْثٍ، حَلِیفٌ لَهُمْ. وَمِنْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ فِهْرٍ: سُهَیْلُ بْنُ بَیْضَاءَ

اورتمام افراداونٹوں  پرسوارتھے،اس دستہ میں  عماربن یاسر، ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  بن عتبہ بن ربیعہ، سعدبن ابی وقاص، عتبہ  رضی اللہ عنہ  بن غزوان سلمی، سہل  رضی اللہ عنہ  بن بیضاء، عامر  رضی اللہ عنہ  بن فہیرہ اور واقدبن عبداللہ یربوعی تھے۔[3]

 وَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا وَأَمَرَهُ أَنْ لَا یَنْظُرَ فِیهِ حَتَّى یَسِیرَ یَوْمَیْنِ ثُمَّ یَنْظُرَ فِیهِ، إِذَا نَظَرْتَ فِی كِتَابِی فَامْضِ حَتَّى تَنْزِلَ نَخْلَةَ بَیْنَ مَكَّةَ وَالطَّائِفِ، فَتَرْصُدَ بِهَا قُرَیْشًا وَتَعْلَمَ لَنَا مِنْ أَخْبَارِهِمْ

اس مہم کوانتہائی رازمیں  رکھنے کے لئے انہیں ایک بندخط دے کرہدایت فرمائی کہ وہ سیدھے مکہ کی طرف جائیں اوراس خط کو دودن کی مسافت کے بعدکھولیں ،حسب ہدایت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  نے نخلہ کی جانب دودن کے سفرکے بعد خط کوکھولاجس میں  یہ ہدایت لکھی ہوئی تھی، جب تو میراخط پڑھے تواپناسفرجاری رکھنایہاں  تک کہ تووادی نخلہ پہنچ جائے ،وہاں  قریش کے قافلے کی نگرانی کرنااوران کے آئندہ ارادوں  کے متعلق معلومات حاصل کرنا اور جو معلومات حاصل ہوں  انہیں ہم تک پہنچانا۔[4]

یعنی اس دستہ کاکام صرف معلومات حاصل کرناتھاانہیں  جنگ کی اجازت نہیں  دی گئی تھی ،کام بہت اہم تھااوردشمن کے علاقہ میں  جاکر سرانجام دیناتھا۔

فَقَالَ: سَمْعًا وَطَاعَةً، وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ بِذَلِكَ،وَقَالَ: قَدْ نَهَانِی أَنْ أَسْتَكْرِهَ أَحَدًا مِنْكُمْ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُرِیدُ الشَّهَادَةَ وَیَرْغَبُ فِیهَا فَلْیَنْطَلِقْ، وَمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ فَلْیَرْجِعْ فَأَمَّا أَنَا فَمَاضٍ لِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَضَى وَمَضَى مَعَهُ أَصْحَابُهُ لَمْ یَتَخَلَّفْ مِنْهُمْ أَحَد،وَسَلَكَ عَلَى الْحِجَازِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِمَعْدِنٍ، فَوْقَ الْفُرُعِ یُقَالُ لَهُ بُحْرَانُ، أَضَلَّ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ وَعُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ بَعِیرًا لَهُمَا كَانَا یَعْتَقِبَانِهِ فَتَخَلَّفَا فِی طَلَبِهِ وَمَضَى عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ وبقیة أصحابه حتى نزل نخلة

عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  نے کہاہم نے سنااوراس کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے مجاہد ساتھیوں  کوخط کے متن سے اگاہ فرمایااورکہاہم تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی تعمیل میں  روانہ ہوتے ہیں  جس کادل چاہے ہمارے ساتھ چلے اورجس کادل نہ چاہے یہیں  سے لوٹ جائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کومجبورکرنے کاحکم نہیں  دیامگرکسی نے بھی لوٹ جانا پسندنہ کیااورسب ساتھ چلنے پرکمربستہ ہوگئے،اثنائے راہ راستہ بُحْرَانُ یافرع نامی مقام پر سعدبن ابی وقاص اورعتبہ  رضی اللہ عنہ بن غزوان سلمی کااونٹ جس پروہ سوارہوتے تھے گم ہوگیایہ لوگ اونٹ کی تلاش میں  درگرداں  وپریشان رہے اورجب اونٹ ملاتوراستہ بھول گئے اورباقی افرادرجب کی آخری تاریخ کونخلہ پہنچ کرایک باغ کے قریب اترے ،

فَمَرَّتْ عِیرٌ لِقُرَیْش فِیهَا عَمْرُو بْنُ الْحَضْرَمِیِّ، قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: واسم الحضرمی عبد الله بن عباد [أحد] الصدف  وَعُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُغِیرَةِ الْمَخْزُومِیُّ وَأَخُوهُ نَوْفَلٌ وَالْحَكَمُ بْنُ كَیْسَانَ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَةِ،وكان فیها خمر وأدم وزبیب جاءوا بِهِ مِن الطائف

شام کے وقت قریش کا چھوٹاساتجارتی قافلہ وہاں  سے گزرا،افرادقافلہ میں  قریش کے بڑے بڑے معززلوگ عمروبن الحضری(اموی سردارحرب بن امیہ کا حلیف) اور عبداللہ بن مغیرہ (خالدبن ولیدکے دادااورحرب کے بعدمکہ میں  دوسرے درجے کے رئیس)کے دولڑکے عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ ،نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ اور (مغیرہ کے بیٹے ہشام کا آزادکردہ غلام)بنی نعیرہ مولیٰ حکم بن کیسان شامل تھے، قافلہ کے سامان میں  شراب وزبیب(خشک میوہ ) چمڑا اور تجارت کادیگرسامان تھاجووہ طائف سے لائے تھے۔[5]

فَلَمَّا رَآهُمُ الْقَوْمُ هَابُوهُمْ وَقَدْ نَزَلُوا قَرِیبًا مِنْهُمْ فَأَشْرَفَ لَهُمْ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ وَكَانَ قَدْ حَلَقَ رَأْسَهُ،فَلَمَّا رَأَوْهُ أمنوا،وَتَشَاوَرَ الصَّحَابَةُ فِیهِمْ وَذَلِكَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ رَجَبٍ، فَقَالُوا: وَاللهِ لَئِنْ تَرَكْتُمُوهُمْ هَذِهِ اللیْلَةَ لَیَدْخُلُنَّ الْحَرَمَ فَلْیَمْتَنِعُنَّ بِهِ مِنْكُمْ، وَلَئِنْ قَتَلْتُمُوهُمْ لَتَقْتُلُنَّهُمْ فِی الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَتَرَدَّدَ الْقَوْمُ،وَهَابُوا الْإِقْدَامَ عَلَیْهِمْ،ثُمَّ شَجَّعُوا أَنْفُسَهُمْ عَلَیْهِمْ، وَأَجْمَعُوا عَلَى قَتْلِ مَنْ قَدَرُوا عَلَیْهِ مِنْهُمْ، وَأَخْذِ مَا مَعَهُمْ، فَرَمَى وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ التَّمِیمِیُّ عَمْرَو بْنَ الْحَضْرَمِیِّ بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ، وَاسْتَأْسَرَ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَالْحَكَمُ بْنُ كَیْسَانَ وَأَفْلَتَ القوم نوفل بن عبد الله فأعجزهم،وَكَانَ ابْنُ الْحَضْرَمِیِّ أَوَّلَ قَتِیلٍ قُتِلَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِكِینَ

اہل قافلہ ان اجنبیوں  کودیکھ کرپریشان ہو گئے لیکن اتفاقاً عکاشہ بن محصن  رضی اللہ عنہ  نے اپنا سر منڈھویا ہوا تھا جس کودیکھ کر اہل قافلہ مطمئن ہوگئے کہ یہ عمرہ کرنے کے لئے آنے والے لوگ معلوم ہوتے ہیں اس لئے بے ضرر ہیں ،عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  شش وپنج میں  مبتلا ہو گئے کیاوہ ماہ حرمت رجب کی آخری رات کواس قافلہ کے ساتھ کیاکریں ، آخرانہوں نے اپنے ساتھیوں  سے مشورہ طلب فرمایا کہ اس قافلہ کے ساتھ کیا کیاجائے ، حرمت والے مہینے کی یہ آخری تاریخ ہے ،اگرہم ان سے لڑائی کریں  تواس ماہ کی حرمت کی پامالی کا خوف ہے اوراگرآج رات انہیں  چھوڑ دیتے ہیں  تویہ قافلہ حدودحرم میں  داخل ہوجائے گااورمسلمانوں  کی موجودگی کی تشہیرکرے گااس لئے ان سب کویہیں  قتل کردیناچاہیے ،  بہرکیف کچھ لوگ اپنی جگہ ٹھیرے لیکن بعض افرادشجاعت ومردانگی کے ساتھ قافلہ پرٹوٹ پڑے ،تاہم اس سے پہلے ہی واقدبن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ  نے عمروبن الحضرمی کوایساتاک کرتیرماراکہ اس کاوہیں  فیصلہ ہو گیا ، کفرواسلام کے مقابلہ میں  سب سے پہلے یہی شخص عمروبن الحضرمی ماراگیا۔[6]

عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اورحکم بن کیسان مولیٰ عبداللہ بن مغیرہ کو گرفتار کرلیاجبکہ نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ مکہ بھاگ جانے میں  کامیاب ہو گیا،نوفل کے بچ جانے سے وہاں  ٹھیرنابے انتہاخطرات کودعوت دینا تھا

وقابل عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ وَأَصْحَابُهُ بِالْعِیرِ وَالْأَسِیرَیْنِ حَتَّى قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،    أَنَّ عَبْدَ اللهِ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:إنَّ لِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا غنمتا الْخُمُسَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ یَفْرِضَ اللهُ تَعَالَى الْخُمُسَ مِنْ الْمَغَانِمِ فَعَزَلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خُمُسَ الْعِیرِ، وَقَسَّمَ سَائِرَهَا بَیْنَ أَصْحَابِهِ،فكان أَوّلَ خُمُسٍ خُمِسَ فِی الْإِسْلَامِ

اس لئے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  نے قیدیوں  کوساتھ لیا اورقافلے کوہانک کرمدینہ منورہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لے آئے تاکہ انہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  پیش کیاجائے،عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں  سے کہاکہ یہ جس قدرمال غنیمت ہمارے ہاتھ لگاہے اس میں  سے پانچواں  حصہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نذرکریں  گے،اوریہ واقعہ خمس کے فرض ہونے سے پہلے کاہے چنانچہ راستہ میں  سردارلشکر عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اپنی صوابدیدپر اس مال غنیمت سے پانچواں  حصہ اللہ کے رسول کانکال کرعلیحدہ کردیااورباقی مال صحابہ میں  تقسیم کردیا،یہ پہلی غنیمت تھی جومسلمان صحابہ  رضی اللہ عنہم کوملی۔[7]

رجب ،ذیقعدہ ،ذالحجہ اورمحرم کی حرمت پرساراعرب متفق تھاان مہینوں  میں  لڑائی ناجائزسمجھی جاتی تھی ،یہ لڑائی مسلمانوں  کوبھی ناگوارگزری اورکیونکہ اس مہم کامقصدہی فوت ہوگیاتھادشمن کے ہوشیارہونے سے نخلہ میں  چھان بین اورتحقیق مشکل بلکہ ناممکن ہوگئی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے بھی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے اس فعل پراظہارناراضگی فرمایا

فَوَقَّفَ الْعِیرَ وَالْأَسِیرَیْنِ. وَأَبَى أَنْ یَأْخُذَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُقِطَ فِی أَیْدِی الْقَوْمِ،وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، وَعَنَّفَهُمْ إخْوَانُهُمْ مِنْ الْمُسْلِمِینَ فِیمَا صَنَعُوا

اور نہ توقافلہ کاکچھ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لیااورنہ ہی قیدیوں  کوقبضہ میں  کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قول وفعل سے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی بہت رنجیدہ تھے اورخیال کرتے تھے کہ ہم ہلاک ہوگئے اورمسلمان بھی ان کی اس حرکت کوبراکہتے تھے۔ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  اوران کے رفقانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے حلفا ًکہاکہ ہم سے جوکچھ ہواغلط فہمی کی وجہ سے ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمروبن الحضرمی کاخون بہا (دیت)اداکردیا۔

یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی تھی جب رجب کاحرمت والامہینہ ختم ہورہاتھااورشعبان شروع ہورہاتھااوریہ امرمشتبہ تھا کہ آیاحملہ ماہ حرام رجب میں  ہواہے یاشعبان میں  ،لیکن عمروبن الخضری کے قتل ہونے سے قریش کاآتش غضب بھرک اٹھامگرانہوں  نے اس امرپرخاموشی اختیارکی کیونکہ کرزبن جابرالفہری نے مدینہ کی چراگاہ پرچھاپہ مارکر جنگ کا آغازکردیاتھااوراب مسلمانوں  کوبھی حق حاصل تھاکہ وہ اپنامعاملہ برابرکریں  اس لئے سیاسی شعبدہ بازی کے طورپرقریش اوران کے درپردہ ملے ہوئے مدینہ منورہ کے یہودیوں  اورمنافقین نے مسلمانوں  کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے ماہ حرمت کے واقعہ کوخوب شہرت دی اوراسلام کے خلاف پراپیگنڈامہم شروع کردی،

وَقَالَتْ قُرَیْشٌ قَدْ اسْتَحَلَّ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، وَسَفَكُوا فِیهِ الدَّمَ، وَأَخَذُوا فِیهِ الْأَمْوَالَ، وَأَسَرُوا فِیهِ الرِّجَالَ

پورے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں  یہ غلغلہ بلندہوگیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے ساتھیوں  نے حرام مہینے کوبھی حلال قراردے دیاہے، یہ لوگ اللہ نے جس ماہ کوحرمت بخشی ہے اس میں  خونریزی کی اورمال لوٹااورلوگوں  کوقیدکیا۔[8]

مسلمانوں  نے اپنے اپنے طور پر اس پراپیگنڈا کا توڑ کرنے کی کوشش کی لیکن اس ہمہ گیرغلغلے میں  ان کی آوازدب گئی،پراپیگنڈہ کی اس مہم میں  سب سے اہم اورخطرناک کرداریہودیوں  کاتھا جو مسلمانوں  کے خلاف پروپیگنڈہ کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں  دیتے تھے ،

وَقَالَتْ الْیَهُودُ:عَمْرُو بْنُ الْحَضْرَمِیّ قَتَلَهُ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ التّمِیمِیّ

انہوں  نے بنوتمیم کے شخص واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کوایک حضرمی فردکاقاتل ٹھیرایا۔[9]

اوراس طرح ان دونوں  کے درمیان قبائلی جنگ بھڑکانے کی کوشش کی جوعرب کے معاشرے کی خطرناک ترین سیاسی صورت تھی یہی وہ حربہ تھاجس کے عیارانہ استعمال سے اس سے قبل مدینے کے یہودیوں  نے اوس وخزرج کے درمیان ایک طویل جنگ کراکے دونوں  قبیلوں  کو کمزور کر دیا اورمدینے میں  اپنی بالادستی قائم کرلی تھی،یہی حربہ یہاں  استعمال کرنے کی کوشش کی گئی،اس کے علاوہ مدینے کے اندرمختلف افواہیں  پھیلاکرمدینے کی مسلمان آبادی پرخوف وہراس طاری کیاگیا، رائے عامہ کوموافق کرنے کے لئے انہوں  نے ماہ حرام میں  جنگ کے اس واقعہ کوغیرمعمولی شہرت دی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کاماہ حرام میں  ٹھیراناپایہ تحقیق کاپہنچاہی نہیں ،یہودیوں  نے جملے اورنعرے چست کیے،

عَمُرَتْ الْحَرْبُ،  حَضَرَتْ الْحَرْبُ، وَقَدَتْ الْحَرْبُ

لڑائی پررونق اورخوب زورشورسے لمبی مدت تک ہو گی جنگ سرپرآگئی،شعلہ جنگ بھڑک اٹھا۔[10]

یہ جملے عربوں  میں  پھیل گئے ،مسلمانوں  میں  سے بعض سادہ لوح لوگ جن کے دل پرنیکی اورصلح پسندی کاایک غلط تصور مسلط تھا کفارمکہ اوریہودیوں  کے اعتراضات سے متاثرہوگئے تھے ،آخرجب چرچابہت بڑھ گیاتولوگ سوالات کرنے لگے کہ آخران مہینوں  کے تعلق سے اسلام کے کیااحکامات ہیں  ، چندروزبعداسلام کی طرف سے اس خطرناک اورپہلودارپراپیگنڈے کا جواب دیا گیا ،اورقرآن مجیدنے اپنے ایک معرکہ آراحکم کے ذریعے ایک ایسا انسانیت نواز قانون اور اصول مرحمت فرمایاجس کادنیاکی قانونی تاریخ میں  اس سے پہلے کوئی جواب موجودنہ تھااورآج بھی اپنی افادیت کے اعتبارسے دنیاکی ہرقوم کے لئے قابل عمل ہے،فرمایا

نزول سورۂ البقرة آیت۲۱۷،۲۱۸

یَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِیهِ كَبِیرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ یَرُدُّوكُمْ عَن دِینِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن یَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِینِهِ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢١٧﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ یَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢١٨﴾‏(البقرہ)
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں  میں  لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ ان میں  لڑائی کرنا بڑاگناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں  کے رہنے والوں  کو وہاں  سے نکالنا،  اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے،یہ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے ، یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں  گے یہاں  تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں  تمہارے دین سے مرتد کردیں  اور تم میں  سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں  اسی کفر کی حالت میں  مریں ، ان کے اعمال دنیاوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں  گے،یہ لوگ جہنمی ہوں  گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں  رہیں  گے، البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں ، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔

فرمایا کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں  میں  جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکو!تمہاری بداعمالیاں  توبرائی میں  اس سے بھی بڑھ کرہیں تم اللہ کاانکارکرتے ہو،جوتمہاراخالق ،مالک ،زراق اور مشکل کشاہے ،تم میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں  کومیرے گھرکی زیارت سے روکتے ہو،تم نے انہیں  جو ہمارے گھرکے زیادہ حقدارتھے وہاں  سے نکال دیا ، تم دین اللہ سے مسلمانوں  کومرتد کرنے کی اپنی تمام ترامکانی کوششیں  کررہے ہو،پس میرے مسلمان بندوں  کے کام کے بجائے اپنی سیاہ کاریوں  پر نظر کروکہ کیسے بدترین کارنامے تم نے سرانجام دیئے ہیں  ،

فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ بِهَذَا الْأَمْرِ وَفَرَّجَ اللهُ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا كَانُوا فِیهِ مِنَ الشَّفَقِ،اقَبَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعِیرَ وَالْأَسِیرَیْنِ

جب یہ آیت نازل ہوئی تب مسلمانوں  کی بے چینی اورترددرفع ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں  حاصل ہونے والے اونٹوں  اورقیدیوں  کوبیت المال کے لئے قبول فرمایا،یہ عہدشکن یہودیوں  کی پہلی سفارتی شکست تھی وہ مسلمانوں  کوبددل کرنے میں  بری طرح ناکام ہوگئے۔

وَبَعَثَتْ إلَیْهِ قُرَیْشٌ فِی فِدَاءِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَالْحَكَمِ ابْنِ كَیْسَانَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا نُفْدِیكُمُوهَا حَتَّى یَقْدَمَ صَاحِبَانَا یَعْنِی سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ، وَعُتْبَةَ بْنَ غَزْوَانَ فَإِنَّا نَخْشَاكُمْ عَلَیْهِمَا، فَإِنْ تَقْتُلُوهُمَا، نَقْتُلْ صَاحِبَیْكُمْ، فَقَدِمَ سَعْدٌ وَعُتْبَةُ، فَأُفْدَاهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ،وَأَمَّا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ فَلَحِقَ بِمَكَّةَ، فَمَاتَ بِهَا كَافِرًا،فَأَمَّا الْحَكَمُ بْنُ كَیْسَانَ فَأَسْلَمَ فَحَسُنَ إسْلَامُهُ، وَأَقَامَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُتِلَ یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ شَهِیدًا

قریشیوں  نے آپ کے پاس قاصدبھیجاکہ ان دونوں  قیدیوں  عثمان بن عبداللہ اورحکم بن کیسان کافدیہ لے لیں  ،مگرآپ نے فرمایاکہ میرے دونوں  صحابی سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  اورعتبہ بن غزوان  رضی اللہ عنہ  جب صحیح سلامت واپس آجائیں  گے تب ہم قیدی رہاکردیں  گے ،مجھے ان دونوں  کے متعلق تم سے اندیشہ ہے ،پس اگرتم نے ان دونوں  کوقتل کردیاتوہم بھی تمہارے دونوں  دوستوں  کوقتل کردیں  گے،اپنے موقف پرمضبوطی اوراستحکام سے قائم رہنے کے اس طرزعمل نے پراپیگنڈے کی بنیادوں  کوہلادیاجوبنوتمیم اوربنوحضرم کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کر سکتا تھا،چندروزبعدجب سعد  رضی اللہ عنہ اورعتبہ  رضی اللہ عنہ  سلامتی سے واپس آگئے توآپ نے فدیہ لے لیااوردونوں  قیدیوں  عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اورحکم بن کیسان مولیٰ عبداللہ بن مغیرہ کورہافرمادیا،عثمان بن عبداللہ مکہ مکرمہ واپس چلا گیااورحالت کفرمیں  ہی مرگیا،حکم  رضی اللہ عنہ بن کیسان توچنددن مسلمانوں  کے ساتھ رہنے کے بعددین اسلام اوراس کے ماننے والوں  کے کردار واطواردیکھتے رہے اوربالآخرمسلمان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کی خدمت میں  رہ گئے اوربیئرمعونہ کی لڑائی میں  شہیدہوئے۔

اسی واقعہ کے بارے میں  عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے۔

تَعُدُّونَ قَتْلًا فِی الْحَرَامِ عَظِیمَةً ، وَأَعْظَمُ مِنْهُ لَوْ یَرَى الرُّشْدَ رَاشِدُ

صُدُودُكُمْ عَمَّا یَقُولُ مُحَمَّدٌ ،وَكُفْرٌ بِهِ وَاَللَّهُ رَاءٍ وَشَاهِدُ

تم لوگ شہرحرام یعنی رجب کے مہینہ میں  قتل وقتال کوبڑے شئے خیال کرتے ہوحالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  جوارشادفرماتے ہیں  اس سے روکنااوران کے ساتھ کفرکرنااس سے کہیں  بڑھ کرہے،کاش کوئی سمجھ دارذراخیال کرے اوراللہ خوب دیکھنے والااورمشاہدہ کرنے والاہے

وَإِخْرَاجُكُمْ مِنْ مَسْجِدِ اللهِ أَهْلَهُ ، لِئَلَّا یُرَى للَّه فِی الْبَیْتِ سَاجِدُ

اورتمہارااللہ کے گھرسے اللہ والوں  کونکالنا،تاکہ اللہ کوسجدہ کرنے والاکوئی نظرنہ آئے ،یہ بھی شہرحرام میں  قتال کرنے سے کہیں  بڑھ کرہے

فَإِنَّا وَإِنْ عَیَّرْتُمُونَا بِقَتْلِهِ ، وَأَرْجَفَ بِالْإِسْلَامِ بَاغٍ وَحَاسِدُ

تم اگرچہ ہم کواس قتل پرعاردلاؤاورحاسدلوگ اسلام کے متعلق کتنی ہی جھوٹی خبریں  اڑائیں  لیکن ہم کوپروانہیں

سَقَیْنَا مِنْ ابْنِ الْحَضْرَمِیِّ رِمَاحَنَا ،بِنَخْلَةَ لَمَّا أَوْقَدَ الْحَرْبَ وَاقِدُ

بے شک ہم نے عمروبن الحضرمی کے خون سے مقام نخلہ میں  اپنے نیزوں  کوسیراب کیا

دَمًا وَابْنُ عَبْدِ اللهِ عُثْمَانُ بَیْنَنَا ، یُنَازِعُهُ غُلٌّ مِنْ الْقَدِّ عَانِدُ

جبکہ واقدبن عبداللہ نے لڑائی کی آگ بھڑکائی اورعثمان بن عبداللہ ہمارے مابین اسیرتھاجس کوطوق وسلاسل اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔[11]

سریہ نخلہ کے متعلق بہت کچھ لکھاگیاہے اورعبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  پرنکتہ چینی کی گئی ہے کہ انہوں  نے حرام مہینہ میں  دشمن پرحملہ کیا،مورخین نے یہاں  تک لکھ دیاہے کہ سریہ نخلہ ہی بدر کی لڑائی کاموجب بنا،مجری کے الفاظ ہیں جس چیزنے بدرکے واقعہ کوابھارااوروہ تمام لڑائیاں  چھیڑدیں  جن کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومشرکین سے سامناکرناپڑا سب کاسبب یہی تھاواقدسہمی نے حضری کوقتل کردیاتھا۔[12]

وَقَالَ بَعْضُ الَّذِینَ أَظُنُّهُ قَالَ: كَانُوا فِی السَّرِیَّةِ: وَاللهِ مَا قَتَلَهُ إِلا وَاحِدٌ

ابن خلدون جیسامفکربھی یہی کہتاہے۔[13]

مگرتمام مورخین نہایت معصومانہ اندازمیں یہ بھول جاتے ہیں  کہ جنگ کااعلان اس خط کے ذریعہ ہوا تھا جو قریش نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کولکھاتھا،اس کے بعدابوجہل کی مہم،عکرمہ بن ابی جہل کی مہم اورچنددیگرکوششوں  کے علاوہ کرزبن جابرالفہری کامدینہ کے مضافات میں  کامیاب چھاپہ، کیایہ مہمیں  جومکہ مکرمہ کی جانب سے کی گئی تھیں  وہ بدرکی لڑائی سے قبل واقع نہیں  ہوئی تھیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظراسلامی نظریہ حیات کے مطابق ایک واضح اورصاف تصورجنگ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرزبن جابرکے چھاپہ کواورنہ ہی سریہ نخلہ کودونوں علاقوں  کے مابین جنگ کی بنیادبناناچاہتے تھے،چونکہ آپ انسانیت کواللہ کاپیغام پہنچاناچاہتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پالیسی سراسرصلح پرمبنی تھی نہ کہ جنگ جوانسانیت کی موت کاباعث بناکرتی ہے،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آخرتک صلح وامن کواپنامقصدبنائے رکھااورکسی موقع پربھی لڑائی میں  پہل کی کوشش نہیں  کی۔

مورخین نے ان اولین سریہ وغزوات کی غرض وغایت مکی قافلوں  کولوٹنابتایاہے ،مگرہم یہ باورکرنے کے لئے ہرگزتیارنہیں  ،اس لئے کہ

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قافلہ لوٹنے یاروکنے کے لئے مہم روانہ فرمائیں  اوروہ قافلہ نکل جائے ایسانہیں  ہوسکتاتھاکیونکہ جس طرح آپ کوبروقت صحیح معلومات مل جاتی تھیں  اورجس پیمانے پرآپ ان مہموں  کی منصوبہ بندی فرمایاکرتے تھے اس کے پیش نظرقافلوں  کابچ نکلناناممکن ہواکرتاتھا،بعدکے ادوارمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی راہوں  کو مسدود کرنے کے لئے سرایاروانہ فرمائے جس کے نتیجہ میں  مکی قافلوں  کے لئے شام اورعراق کی شاہراہیں  ناممکن بنادی گئیں ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس پہلے دورمیں  بھی تجارتی راہوں  کامکی قافلوں  کے لئے مسدودکرنامنظورہوتاتوآپ کے بھیجے ہوئے دستے اس اہم ذمہ داری کوبطریق احسن پوراکرتے۔

x ابوسفیان کاوہ تجارتی قافلہ جس کے سلسلے میں  غزوہ بدرپیش آیااس میں  قریش کے ہرشخص کاسرمایہ لگاہواتھااوراتنابڑاسرمایہ تھاکہ اس سے ایک ہزاراونٹوں  کاسامان خریدا گیا تھاجبکہ اس کے ساتھ مسلح محافظ صرف تیس یاچالیس افرادتھے۔[14]

جبکہ اس کے مقابلے میں  اس سے پہلے قافلوں  سریہ حمزہ  رضی اللہ عنہ  میں  قریش کے تین سومسلح افرادتھے،اتنے بڑے قافلہ کوجن کاسالارابوجہل جیساشریرالنفس انسان تھااوراس کے ہمراہ تین سومسلح محافظ تھے اورحمزہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس صرف تیس مجاہدین تھے ، کیاتیس مجاہدین قافلہ لوٹنے کے لئے کافی ہوسکتے تھے ۔

xسریہ عبیدہ بن حارث  رضی اللہ عنہ  میں  قریش کے دوسومسلح افرادتھے۔

xغز وہ بواط میں  امیہ بن خلف کے ساتھ ایک سومسلح افرادکادستہ تھا، مکہ نے یہ مہم صرف اس لئے روانہ کی تھی کہ ساحلی علاقہ کے چھوٹے قبائل پرحملہ کرکے ان کے اونٹ چھین لئے جائیں  اوریوں  گزشتہ مہموں  میں  جوخفت اٹھانی پڑی تھی اس کاازالہ ہوسکے ،اس کے ساتھ جوایک ہزارسے ڈھائی ہزارتک اونٹ بتائے جاتے ہیں  ،یہ وہی اونٹ تھے جوامیہ نے ان چھوٹے قبائل سے لوٹے تھے ورنہ ڈھائی ہزاراونٹوں  کے قافلے کے وجودکاامکان نہیں ۔

xتار یخ میں  کہیں  نہیں  لکھاگیاکہ قریش کے ان مسلح دستوں  کے ساتھ کوئی قافلہ بھی موجودتھا۔

xمیدان بدراورمدینہ منورہ کے درمیان اٹھانوے میل کافاصلہ ہے ،میدان بدراورمکہ مکرمہ کے درمیان دوسوپچاس میل کافاصلہ ہے ،ینبوع،سیف البحر وغیرہ مدینہ اوربدرکے قریب کے مقامات ہیں ،اگران باتوں  کو مدنظررکھاجائے تویہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اتنی بڑی تعدادمیں  مسلح افرادکامدینہ منورہ کے قرب وجوار میں گشت محض تفریح نہیں  تھی ،اس گشت کے دوہی مقاصد ہو سکتے ہیں  ایک تویہ کہ اگرموقعہ ملے تومدینہ طیبہ پرحملہ کردیاجائے اوردوسرایہ کہ مدینہ منورہ اورساحل کے درمیان آبادقبائل میں  اپنارعب اوراثررسوخ بڑھایاجائے تاکہ باوقت ضرورت مسلمانوں  کے خلاف ان سے مددلے سکیں  اورساتھ ہی اس اہم علاقہ کی حربی نقطہ نگاہ سے چھان بین کی جائے ۔

xیہ با ت بھی زیرنظررہے کہ قریش کواپنے قافلوں  کے لٹنے کا کوئی خطرہ نہیں  ہوتاتھااس لئے وہ اپنے تجارتی قافلوں  کی حفاظت کے لئے برائے نام محافظ روانہ کرتے تھے۔

xاس کے علاوہ یہ بات انتہائی توجہ کے لائق ہے کہ جب قافلہ والوں  کے ساتھ لوٹنے والوں  کامقابلہ ہوجاتاتھا توفریقین صف آراہوکرباقاعدہ لشکروں  کی طرح صف آرائی کے بعدلڑائی کاآغازنہیں  کرتے تھے ،قافلہ ہمیشہ بہت سی جگہ گھیرتاہے ، کوئی سواری تیزجارہی ہوتی ہے اورکوئی چندسوگزیامیل ڈیڑھ میل پیچھے آہستہ آہستہ آرہی ہوتی ہے ،ان کے محافظ بھی مختلف حصوں  میں  بٹے ہوئے ہوتے ہیں  اورمتحد ہو کرحملہ آوروں  کا مقابلہ نہیں  کرسکتے ،ڈاکہ ڈالنے والے وادیوں  کے دائیں  بائیں  گھاٹیوں  میں  چھپ کرقافلے کے عقب ترین حصے کے گزرنے کاانتظارکرتے ہیں  پھرتیزی سے جھپٹ کرحملہ آورہوتے ہیں  اورجوکچھ ہاتھ میں  آئے قبضہ میں  لیکرپہاڑی علاقہ کے پیچ وخم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غائب ہوجاتے ہیں ،قافلوں  کولوٹنے والے لشکرآرائی نہیں  کرتے اورقافلہ سالارحملہ آورنہیں  ہواکرتے ۔

xغزوہ ذ ی العشیرہ کامقصد بھی قافلہ لوٹنے کی کوشش کاالزام لگایاگیاہے اوراس مرتبہ بھی دوسومہاجرین بتائے گئے ہیں ،حالانکہ جولشکرقافلوں  کولوٹنے کے لئے نکلتے ہیں  وہ کئی روزتک ایک ہی مقام پراس لئے نہیں  ٹھیرتے کہ اس طرح قافلوں  کوان کی موجودگی کاعلم ہوجاتاتھا،اوریہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ جب لشکرلوٹ مارکے لئے نکلتے ہیں  تو ان کے کمانداروں  کے پاس نہ تواتناوقت ہوتاہے کہ وہ بحث وتمیص کے ذریعہ دوستانہ معاہدے وجودمیں  لائیں  اورنہ ہی ان کی ذہنی افتاد اس طرح کے صلح کن تعلقات کی طرف مائل ہواکرتی ہے۔

xمشر کین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کاہن ، جادوگر ، شاعر،دیوانہ وغیرہ سب کچھ کہتے تھے لیکن آپ کے کردارایساتھاکہ اپنی تمام مخالفتوں  اورجانی دشمنی کے باوجودبھی آپ کو صادق وامین ہی کہاکرتے تھے،آپ کی ذات بابرکات پرسب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے ،اس لئے جب قصرروم نے ابوسفیان سے جوابھی مسلمان نہیں  ہوئے تھے اوراسلام کے شدیدمخالفین میں  شامل تھے گفتگوکی تھی اس وقت بھی ابوسفیان نے ایک بات بھی ایسی نہیں  کہی جس سے قافلوں  کے لوٹنے کی کوششوں  کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرالزام آتاہو۔

بہرحا ل مجاہدین اسلام نے قریشی دستوں  کی ہرکوشش ناکام بنادی اوران کاکوئی وارکارگرثابت نہ ہوسکا۔

ان تما م سریہ یاغزوہ میں  کسی میں  نہ توکشت وخون ہوااورنہ کوئی قافلہ لوٹاگیاجس سے یہ صاف ظاہرہوتاہے کہ ان کاروائیوں  کا اصل مقصودقریش کے غیظ وغضب سے مدینہ منورہ کی حفاظت تھا،دوسرے یہ کہ ان میں  سے کسی کاروائی میں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل مدینہ کاکوئی آدمی نہیں  لیابلکہ تم دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں  تک محدودرہے اوردوسرے قبیلوں  کے اس میں  الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے ،دوسری طرف قریش مدینہ کی پوزیشن سمجھتے تھے ، وہ سفارتی سفروں  کے نتیجہ میں  ان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کوہرگزقبول نہیں  کرسکتے تھے جس سے مکہ مکرمہ کی تجارت اوراس طرح پورے حجازکی معیشت خطرے میں  پڑسکتی ہو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے کوہجرت اوراس علاقے میں  آپ کااس طرح بااقتدار اور بااختیارہونا،مختلف یہودی قبائل اورمدینہ سے دورمختلف قبائل سے معاہددات امن وبھائی چارہ سے مکہ کو شدیدتشویش اورخطرے پیداہوا،مکہ کوصاف نظرآنے لگاکہ اس کی تجارت کے راستے اس گروہ کے رحم وکرم پرہیں  جسے انہوں  نے بزورشمشیرجلاوطن کیاتھا،اس مسئلے کاپرامن حل قطعی طورپرمعدوم نہ تھااگرمکے کاکوئی امن دوست سردارمیسرآجاتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مکی زندگی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفووکرم سے مایوس نہ کرتی ، اگروہ صلح کی طرف ایک قدم بڑھاتاتواس کی طرف دس قدم بڑھاتے لیکن بدقسمتی سے مکہ میں  برسراقتدار گروہ کی باگ دوڑجس شخص کے ہاتھ میں  تھی

وَكَانَ رَجُلًا خَفِیفًا، حَدِیدَ الْوَجْهِ، حَدِیدَ اللِّسَانِ، حَدِیدَ النَّظَرِ

وہ دبلا پتلا، تیز مزاج ، تیز زبان اورتیزنظر عمربن ہشام بن المغیرہ تھا،جس کی کنیت ابوالحکم تھی ،اس نے جوپالیسی اختیارکی وہ اس کے اس مزاج کے مطابق تھی جس نے تاریخ سے اسے ابوجہل کالقب دلوایا تھا ۔

اولین سرایاوغزوات میں انصارکی عدم شرکت

ان تمام سرایاوغزوات میں  کسی انصاری کودعوت نہیں  دی گئی تھی،اس کی چندوجوہ تھیں ،ابن اسحاق اشارتاًیہ کہتاہے کہ چونکہ انصارنے جووعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا وہ حملوں  کے خلاف تحفظ دیناتھااورجوغزوات اورسرایابدرسے قبل عمل میں  آئے وہ تحفظ کے لئے نہیں  تھےاس لئے انصارکوان میں  شمولیت کی دعوت نہیں  دی گئی۔[15]

مگرایسانہیں  ہے،بلکہ غزوہ بدرسے قبل کے سرایاوغزوات دفاع مدینہ کی غرض سے عمل میں  لائے گئے تھے،ان میں  کسی سرایایاغزوہ کے متعلق یہ نہیں  کہاجاسکتاکہ اس میں  جارہانہ کاروائی کاشائبہ تک بھی شامل تھا،قافلوں  کولوٹنے کامفروضہ سرے سے ہی غلط ہے،اس لئے تمام سرایا اور غزوات کی تہہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حفاظت مضمر تھی جس کاوعدہ انصارمدینہ نے بیعت عقبہ ثانی کے موقع پرکیاتھا ،اصل میں  انصارکوان مہموں  میں  ساتھ نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ مہاجرین کی تربیت تیرہ سال سے مکہ میں  ہوچکی تھی ، ان کاصبرواستقلال،ان کی ہمت،ان کاایمان والقان،ان کاجذبہ جانثاری اوران کی عسکری قابلیت مسلم تھی،انہیں  صرف جغرافیائی معلومات اوربدنی مشق کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت غزوات اورسرایامیں  شرکت کے ذریعے انہیں  حاصل ہورہی تھی،انصارمدینہ کوابھی بنیادی تربیت کی ضرورت تھی جوزمانہ امن ہی میں  دی جاسکتی ہے،جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ یقین نہ ہوجاتاکہ انصارمدینہ بھی لڑائی کے دوران وہی خصوصتیں  دکھاسکیں  گے جو اسلامی لشکر کا خاصہ ہونی چائیں اس وقت تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  کس طرح میدان جنگ میں  شرکت کی دعوت دیتے۔

  پندرہ شعبان کی رات

اس رات کی فضیلت میں  بہت سی روایات مروی ہیں  ،جن میں  راجح قول کے مطابق کوئی روایت بھی صحیح نہیں  ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةً فَخَرَجْتُ، فَإِذَا هُوَ بِالبَقِیعِ، فَقَالَ: أَكُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللهُ عَلَیْكِ وَرَسُولُهُ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی روایت کے کلمات کچھ یوں  ہیں ایک مرتبہ رات کے وقت میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے بستر پر نہ پایامیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تلاش میں  نکلی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  جنت البقیع میں  تھے،مجھے دیکھ کر فرمایا کیا تمہیں  اس بات کا اندیشہ ہو گیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں  گے؟میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  سمجھی تھی کہ شاید آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے ہوں  گے،   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں  رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں  کے بالوں  کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں  لوگوں  کو معاف فرماتا ہے۔[16]

وَفِی البَابِ عَنْ أَبِی بَكرٍ الصِّدِّیقِ.حَدِیثُ عَائِشَةَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِیثِ الحَجَّاجِ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا یُضَعِّفُ هَذَا الحَدِیثَ.وقَالَ یَحْیَى بْنُ أَبِی كَثِیرٍ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ یَحْیَى بْنِ أَبِی كَثِیرٍ

امام ترمذی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس باب میں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ سے بھی روایت مروی ہے ابوعیسیٰ نے کہاہمعائشہ  رضی اللہ عنہا کی حدیث کواسی سندسے حجاج کی روایت سےنہیں  جانتے اورمیں  نے محمد بخاری رحمہ اللہ سے سناوہ اس حدیث کوضعیف بتلاتے تھےاورفرماتے تھے کہ یحییٰ بن کثیرکوعروہ سے سماع ثابت نہیں  ہے اورمحمدبخاری رحمہ اللہ  نے کہاکہ حجاج کوبھی یحییٰ بن کثیرسے سماع ثابت نہیں  ہے۔[17]

عَنْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:یَنْزِلُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِكُلِّ نَفْسٍ إِلَّا إِنْسَانًا فِی قَلْبِهِ شَحْنَاءُ أَوْ مُشْرِكٌ بِاللهِ

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پندرہ شعبان کی رات کواللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورتمام انسانوں  کوبخش دیتاہے سوائے جواللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اور جواپنے دل میں  غروروتکبررکھتاہے۔[18]

وَفِى النُّزُولِ فِی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ أَحَادِیثُ فِیهَا لِینٌ، وَالرِّوَایَةُ فِی النُّزُولِ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ أَحَادِیثُ ثَابِتَةٌ صِحَاحٌ

امام عقیلی رحمہ اللہ  کہتے ہیں اورپندرہ شعبان کونزول باری تعالیٰ میں  تمام روایات کمزور ہیں اوراللہ تعالی کےہررات آسمان دنیاپر نزول صحیح روایات سے ثابت ہے۔[19]

أهل التَّعْدِیل وَالتَّجْرِیح لَیْسَ فِی حَدِیث لَیْلَة النّصْف من شعْبَان حَدِیث یَصح

اسماعیل بن ابراہیم کہتے ہیں جرح وتعدیل کے علماء کے نزدیک پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں  کوئی حدیث ثابت نہیں  ہے۔[20]

ابْن وضاح عَن زید بن اسْلَمْ قَالَ مَا ادركنا أحدا من مشیختنا وَلَا فقهائنا یلتفتون الى لَیْلَة النّصْف من شعْبَان ، وَلَا یلتفتون الى حَدِیث مَكْحُول وَلَا یرَوْنَ لَهَا فضلا على سِوَاهَا مِنَ اللیَالِی، وَالْفُقَهَاءُ لَمْ یَكُونُوا یَصْنَعُونَ ذَلِكَ

ابن وضاح رحمہ اللہ  نے صحیح سندکے ساتھ عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم (جمہورعلماء کے نزدیک یہ شخص خودضعیف ہے)سے نقل کیاہے کہ میں  نے اپنے استادوں  اورفقہائے کرام میں  سے کسی شخص کوپندرہ شعبان کی رات کااہتمام کرتے ہوئے نہیں  دیکھا،اورنہ کسی کومکحول  رحمہ اللہ  کی حدیث کاذکرکرتے ہوئے سناہے اورنہ انہیں  دوسری راتوں  پراس کی کوئی فضیلت بیان کرتے ہوئے سنا ہے،فقہاء ایسے کام نہیں  کرتے تھے۔[21]

قَالَ وَقیل لِابْنِ ابی ملیكَة أَن زِیَاد النمیری یَقُول أَن أجر لَیْلَة النّصْف من شعْبَان كَأَجر لَیْلَة الْقدر فَقَالَ لَو سمعته وَبِیَدِی عَصا لضربته

اور ابن وضاع رحمہ اللہ  ہی نے صحیح سندکے ساتھ ابن ابی ملیکہ  رحمہ اللہ  سے نقل کیاہے کہ انہیں  کہا گیا زیاد النمیری (جو ایک قصہ گوتھااوراسماء الرجال کے جمہورعلماء کے نزدیک یہ شخص بذات خود ضعیف ہے)کہتاہے کہ پندرہ شعبان کی رات کی اجروثواب لیلتہ القدرجیساہے توابن ملیکہ  رحمہ اللہ  نے فرمایاکہ اگریہ بات میں  خود اس (زیادالنمیری) سے سن لیتا اور میرے پاس لاٹھی ہوتی تواسے لاٹھی سے مارتا۔[22]

أنكر ذلك أكثر علماء الحجاز منهم عطاء وابن أبی ملیكة ونقله عبد الرحمن بن زید بن أسلم عن فقهاء أهل المدینة وهو قول أصحاب مالك وغیرهم وقالوا: ذلك كله بدعة

علمائے حجازعطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ  اورابن ابی ملیکہ  رحمہ اللہ  نے اس پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کا انکارکیاہے ،عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم نے اس انکارکومدینہ کے فقہاسے نقل کیاہے ، امام مالک کے شاگردوں  کایہی موقف ہے اوریہ تمام علماء اسے بدعت قراردیتے ہیں ۔[23]

روزوں  کی ابتدائی فرضیت(شعبان ۲ہجری)

روزہ:نمازکی طرح روزہ بھی زمانہ قدیم سے انبیاء کی شریعتوں  کالازمی جزورہاہے ْنمازروزمرہ کاعمومی نظام تربیت ہے اورروزہ سال بھرمیں  ایک ماہ کاغیرمعمولی نظام تربیت ہے جو آدمی کوسارے دن اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں  کسے رہتاہے تاکہ روزانہ کی تربیت سے جوخرابیاں  رہ گئی ہوں  وہ دورہوجائیں ،ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوجاتاہے اورایک مہینہ تک مسلسل اس کی تکرارجاری رہتی ہے گویاپورے تیس دن انسان ایک شدیدترین ڈسپلن کے تحت رہتاہے، اللہ کی حاکمیت کے اقرارواعتراف کومستحکم کرنے کے لئے اسلام کے اکثراحکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائدکی گئی۔

روزہ انسانی کردارو اخلاق میں  ایسا شعورپیداکرتاہے جواسے قدم قدم پرصراط مستقیم پرچلنے میں  مدددیتاہے۔

احساس بندگی:اسلام اس طریقہ سے انسان کے شعورمیں  اللہ کی حاکمیت کے اقرارواعتراف کومستحکم کرناچاہتاہے اوراس شعورکواتنامستحکم بنادیتاہے کہ احکام الہٰی کے روبرو انسان اپنی آزادی اورخودمختاری سے دست بردارہوجائے ،اللہ کاوجودمحض ایک مابعدالطبیعی عقیدہ نہ رہے بلکہ عملی زندگی میں  محسوس وکارفرماہوجائے،کفراس کے سواکچھ نہیں  کہ انسان اللہ کے مقابلے میں  اپنے آپ کوخودمختارمحسوس کرے اوراس کے مقابلے میں  اسلام یہ ہے کہ انسان ہرآن اپنے آپ کواللہ کابندہ اورمحکوم محسوس کرے ،اورنماز کا مقصد اس شعورکی یاددہانی ہے ،اسی طرح رمضان کے روزے سال میں  ایک مرتبہ پورے مہینے اس شعورکوذہن پرقائم رکھتے ہیں  تاکہ سارے سال انسان کے ذہن پراس کے اثرات قائم رہیں ۔

اطاعت امر: احساس بندگی کے ساتھ ساتھ جوچیزلازمی پیداہوگی وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کوجس رب کابندہ سمجھ رہاہے اس کی اطاعت کرے،ان دونوں  میں  فطری طور پرایساربط ہے کہ ایک دوسرے سے جدانہیں  ہوسکتے،آپ جس کی خداوندی کااعتراف کریں  گے لازمااطاعت بھی اسی کی کریں  گے،اوراحساس بندگی جس قدرشدیدہوگا اطاعت امربھی اتنی ہی شدت سے ہوگی،چنانچہ روزے کامقصداحساس بندگی کی یاددہانی کے ساتھ ساتھ اطاعت امرکی تربیت دینابھی ہے ،روزہ انسان کومہینہ بھرکئی کئی گھنٹے اس حالت میں  رکھتاہے کہ اس کواپنی ابتدائی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے اذن واجازت کی طرف رجوع کرناپڑتاہے ،اپنی خواہش ہویادوسروں  کی ،انسان بلااذن روزہ نہیں  چھوڑسکتا،اس طرح اس کی اطاعتیں  ہرطرف سے سمٹ کرایک مرکزی اقتدارکی طرف پھرجاتی ہیں ،روزے میں  اگرچہ بظاہرصرف دو خواہشات (غذااورصنفی خواہش)پرپابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان پربندگی کااحساس پوری طرح طاری رہے ،اس کے بغیراگرانسان محض بھوکا پیاسا رہ لے تویہ روزہ لاش کی طرح بے روح ہوگا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ وَالجَهْلَ ، فَلَیْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ أَنْ یَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے جھوٹ بولنااورجھوٹ پرعمل کرنانہ چھوڑاتواللہ کوکوئی حاجت نہیں  کہ وہ شخص اپناکھاناپینا چھوڑ دے۔[24]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَهُ مِنْ صِیَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَیْسَ لَهُ مِنْ قِیَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں  جن کوان کے روزں  سے صرف پیاس کے سوااور کچھ حاصل نہیں  ہوتااورکتنے ہی رات کوقیام کرنے والے ہیں  جن کوان کے قیام سے صرف بیداری حاصل ہوتی ہے۔[25]

ان دونوں  احادیث میں  اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے کامقصدبھوکاپیاسارہنانہیں  بلکہ تقویٰ اورطہارت ہے۔

تعمیرسیرت:روزے کاتیسرامقصدانسان کی سیرت کی تعمیرہے،اس سیرت کی بنیادتقویٰ پرہے،تقویٰ سے مرادکوئی خاص شکل وصورت اختیارکرنانہیں  ہے بلکہ قرآن اس کو بڑے وسیع مضمون میں  استعمال کرتاہے وہ پوری انسانی زندگی کے ایسے رویئے کوتقویٰ کے نام سے تعبیرکرتاہے جس کی بنیاداحساس بندگی اورذمہ داری پرہو(اس کے مخالف رویہ کانام قرآن کی روسے فجورہے)دنیاکے فسادکاسبب فجورہے،اوردیگرعبادات کی طرح روزے کامقصدبھی یہ ہے کہ انسان میں  فجورکے رجحانات ختم کیے جائیں  اور تقویٰ کونشونمادیاجائے،غورکریں روزہ کس طریقہ سے اس کام کے سرانجام دینے میں  مدددیتاہے۔

ایک شخص سے کہاجاتاہے کہ اللہ نے تم پرپابندی لگائی ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھاؤنہ صرف جلوت میں  بلکہ خلوت میں  بھی اکل وشرب سے پرہیزکرو،اس صورت میں  اگر کوئی شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتاہے تواس کے نفس پرکس قسم کی کیفیات ابھرتی ہیں ۔

x  یہ کہ اسے اللہ کے عالم الغیب ہونے کاپورایقین ہے اوریہی یقین ہے جو اسے تنہائی میں  بھی روزے  کے حدودکاپابندرکھتاہے۔

x  اس کاآخرت اورحساب کتاب پرپوراایمان ہے اس لئے کہ اس کے بغیرکوئی شخص کئی کئی گھنٹے بھوکاپیاسانہیں  رہ سکتاہے

x   اس کے اندراپنے فرض کااحساس ہے بغیراس کے کہ کوئی شخص اس پرکھانے پینے کی پابندی لگائے اس نے خودسے اپنے اوپریہ پابندی عائدکرلی۔

x  مادیت اورروحانیت کے انتخاب میں  اس نے روحانیت کومنتخب کرلیااوردینااورآخرت کے درمیان ترجیح کاسوال جب اس کے سامنے آیاتواس نے آخرت کوترجیح دی، اس کے اندراتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطرمادی نقصان برداشت کرلیا۔

x  و ہ اپنے آپ کواس معاملے میں  آزادنہیں  سمجھتاکہ سہولت دیکھ کرمناسب موسم میں  روزے رکھ لے بلکہ جوبھی وقت مقررکیاگیاہے اس نے اس کی پابندی کی ہے۔

x  اس میں  صبرواستقامت،تحمل،یکسوئی اوردینوی تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم ازکم اتنی ہے کہ رضائے الہٰی کے بلند نصب العین کی خاطروہ ایک ایساکام کرتاہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعددوسری زندگی پرملتوی کردیاگیاہے۔

یہ کیفیات جوروزہ رکھنے کے ساتھ انسان کی زندگی میں  ابھرتی ہیں  ،روزوں  میں  عملاایک طاقت بن جاتی ہیں  اورہرسال ایک ماہ روزہ رکھتے رکھتے انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں ۔

ضبط نفس:اس تربیت کے ضابطے کو اختیار کرنے کے لئے دوخواہشوں  کوخاص طورپرمنتخب کیاگیاہے یعنی بھوک اورجنسی خواہش،اوران کے ساتھ تیسری خواہش،آرام کرنے کی خواہش بھی زدمیں  آجاتی ہے اس لئے کہ تراویح پڑھنے اورسحری کے لئے اٹھنے سے اس پربھی کافی ضرب پڑتی ہے،یہ تینوں  خواہشات جوانسان کی تمام حیوانی خواہشات میں  سب سے زیادہ اہم ہیں  ،روزہ ان تینوں  کوگرفت میں  لے لیتاہے اوران کے منہ میں  مضبوط لگام دے کرراسیں  ہمارے ہاتھ میں  دے دیتاہے ،تیس دن کی مسلسل مشق کا مقصد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہمارانفس ہم پرغلبہ حاصل کرلے ہم اپنے خادم پرپورااقتدارحاصل کرلیں ،جس خواہش کوچاہیں  روک دیں  اوراپنی جس قوت سے جس طرح چاہیں  کام لے سکیں ،اس لئے کہ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کامقابلہ کرنے کی کبھی عادت نہ رہی ہواورجونفس کے ہرمطالبے پربے چوں  وچراسرجھکادینے کاخوگر رہا ہو اور جس کے لئے حیوانی جبلت کاداعیہ ایک فرمان واجب الاذعان کاحکم رکھتاہو،دنیامیں  کوئی بڑاکام نہیں  کرسکتا۔

اجتماعی اثرات :اس تربیت کے ذریعے سے جماعت کے ہرفردکوحاکم الحکمین کی حاکمیت کے مقابلے میں  اپنی خودمختاری سے عملادست بردارہوجانے کے لئے تیارکیا جائے۔

x  ہرفردکے ذ ہن میں  اللہ کے عالم الغیب والشہادة ہونے اورآخرت کی بازپرس کاعقیدہ عملی مشق وتمربن کے ذریعے اس طرح جاگزیں  کردیاجائے کہ وہ خوداپنی شخصی ذمہ داری کے احساس کی بناپر(نہ کہ خارجی دباؤکی وجہ سے)قانون الہٰی کی اطاعت کرنے لگے۔

x  ہرفردمیں  ر وح پھونک دی جائے کہ ماسوااللہ کی بندگی واطاعت سے اعتقاداوعملامنکرہوجائے اوراس کی بندگی اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔

x  ہرفردکی ا خلاقی تربیت اس طرح کی جائے کہ اسے اپنی خواہشات پرمکمل اقتدارحاصل ہوجائے اوراس میں  صبروتحمل ،جفاکشی اورتوکل علی اللہ،ثابت قدمی ویکسوئی کی صفات پیداہوجائیں  اوراس کے کردارمیں  اتنی قوت آجائے کہ وہ خارجی ترغیبات اورمیلانات نفس کامقابلہ کرسکے۔

یہی وجہ ہے کہ روزے ہرعاقل وبالغ فردپرفرض کیے گئے ہیں  اگرچہ ضروری نہیں  کہ تمام افرادمیں  یہ خصوصیات بدرجہ اتم پیداہوجائیں  جواس سے پیداکرنی مقصودہیں ،اس لئے کہ خارجی عوامل کے علاوہ ذاتی استعداداورخواہش بھی ضروری ہے لیکن خارجی طورپراس سے بہترنظام تربیت دنیامیں  ممکن نہیں  ہے۔

چنانچہ ان اور دوسرے بے شمار مقاصدکے حصول کے لئے روزوں  کومسلمانوں  پرفرض قراردیاگیا۔

نزل فرض شهر رمضان بعد ما صُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بِشَهْرٍ فِی شَعْبَانَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ شَهْرًا مِنْ مُهَاجَرِ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فی هَذِهِ السَّنَةِ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ. وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الزَّكَاةُ فِی الأَمْوَالِ، وَأَنْ تُخْرَجَ عَنِ الصغیر والكبیر. والحر والعبد. والذكر والأنثى. صاع من تمر. أو صاع من شعیر. أو صاع مِنْ زَبِیبٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  ، عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ اور ابوسعدخدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے اٹھارھویں  مہینے شعبان میں بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ہوئی اوراس کے ایک مہینہ بعدرمضان المبارک فرض ہوااوراسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےعیدسے دودن پہلے صدقہ الفطرکاحکم فرمایایہ زکوٰة فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاکہ ہرچھوٹے بڑے آزادوغلام مردوعورت کی طرف سے ایک صاع(تقریباًساڑھے تین سیر)کھجوریاایک صاع جویاایک صاع منقہ صدقہ الفطر ادا کیاجائے۔[26]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:فَرَضَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الفِطْرِ  أَوْ قَالَ:رَمَضَانَ عَلَى الذَّكَرِ، وَالأُنْثَى، وَالحُرِّ، وَالمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ،فَعَدَلَ  النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صدقہ فطر یا صدقہ رمضان، مرد، عورت، آزاد، غلام، ہر ایک پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا،پھرلوگوں  نے ایک صاع کے بدلے گہیوں  کانصف صاع دیناشروع کردیا۔[27]

وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الزَّكَاةُ فِی الأَمْوَالِ

ومیاطی کہتے ہیں  یہ مال کی زکوٰة فرض ہونے سے پہلے کاواقعہ ہے،بعض کہتے ہیں  کہ زکوٰة بھی اسی سال فرض ہوئی اوربعض کہتے ہیں  کہ زکوٰة ہجرت سے پہلے فرض ہوئی تھی۔وَاللهُ أَعْلَمُ۔

اوراس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے

عَنْ أَبِی عَمَّارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ، فَقَالَ:أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الزَّكَاةُ، ثُمَّ نَزَلَتِ الزَّكَاةُ، فَلَمْ نُنْهَ عَنْهَا، وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهَا، وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ

ابوعمارسے مروی ہے قیس بن سعدسے صدقہ الفطرکے بارے میں  پوچھاگیا انہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  صدقہ الفطراداکرنے کاحکم زکوٰة فرض ہونے سے پہلے دیاتھا،جب زکوٰة فرض ہوئی توپھرآپ نے صدقہ الفطراداکرنے کاحکم دیااورنہ منع کیالیکن ہم صدقہ الفطرادا کرتے ہیں ۔[28]

پیمانے :اہل مدینہ کے ناپ کے اہم پیمانے مد،صاع اوروسق تھے ،مددوچلوغلہ یاپانی کی مقدارکے برابرتھااورچلومتوسط آدمی کے ہاتھوں  کے بقدرطے پایا،چارمدکاایک صاع اورساٹھ صاع کاایک وسق شمارہوتاتھاصاع اورمدکی مقدارکے متعلق مختلف اقوال ہیں  توازن پیداکرنے کے بعدیہ صورت قریب ترسمجھی گئی ہے ،ایک مدمساوی ہے ۵۴۴گرام وزن گہیوں کے یا۸۱۶ گرام پانی کے اورایک صاع مساوی ہے ۲۱۷۶گرام گہیوں  کے یا۳۲۶۴گرام پانی کے،درہم سکہ کے طورپر1/4تولہ چاندی کی قیمت کاتھااوروزن کے لحاظ سے پیمانہ بھی تھاجو2/97گرام یعنی 1/4تولہ قزن رکھتاتھا،سکہ کے طورپردینارکے ساتھ اوروزن کے طورپراوقیہ اوررطل کے ساتھ شمار ہوتا تھا علاوہ ازیں  درہم میں  چھ وانق اوربارہ قیراط مانے جاتے تھے۔[29]

نزول سورۂ البقرة آیت ۱۸۳تا۱۸۷

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿١٨٣﴾‏ أَیَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِیضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَیْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١٨٤﴾‏(البقرہ)
اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں  پر فرض کئے گئے تھےتاکہ تم  تقویٰ اختیار کرو ، گنتی کے چند دن ہیں  لیکن تم میں  سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں  ہو تو وہ اور دنوں  میں  گنتی پورا کرلے،  اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں  ایک مسکین کو کھانا دیں ، پھر جو شخص نیکی میں  سبقت کرے وہ اس کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں  بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم با علم ہو۔

رسول اللہ نے ابتدامیں  مسلمانوں  کوصرف ہرمہینے تین روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی مگریہ روزے فرض نہ تھے،پھرہجرت کے اٹھارہ ماہ بعدشعبان دوہجری میں  رمضان کے روزوں  کایہ حکم قرآن میں  نازل ہواکہ جس طرح تم سے اگلی امتوں  پرروزے فرض تھے اسی طرح تم پربھی روزے فرض کیے جاتے ہیں  تاکہ تم میں  تقویٰ پیدا ہو جائے،

بندہ کہتاہے اگرمجھ میں  تقویٰ پیداہوجائے تومجھے کیاملے گا،اللہ تعالیٰ فرماتاہے یہ جلیل القدرکتاب میں  نے متقین کے لیے ہی نازل کی ہے،

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْهِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ۙ [30]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں  کوئی شک نہیں ، ہدایت ہے ان پرہیز گارلوگوں  کے لیے۔

لہذااس کتاب سے رہنمائی حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت،اس کی بخشش اوراس کی لازوال انواع واقسام نعمتوں  کی طرف سبقت کرو،

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ [31]

ترجمہ:دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں  جیسی ہے ، اور وہ ان متقی لوگوں  کے لیے مہیا کی گئی ہے۔

قربانی تولوگ کرتے ہیں  مگراللہ تعالیٰ صرف متقین ہی کی قربانی قبول فرماتاہے،

۔۔۔قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۲۷ [32]

ترجمہ: اللہ تو متقیوں  ہی کی نذریں  قبول کرتا ہے۔

اورروزقیامت متقین کو اللہ کی بارگاہ میں  عزت واحترام کے ساتھ پیش کیاجائے گا،

 یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝۸۵ۙ [33]

ترجمہ:وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں  کو ہم مہمانوں  کی طرح رحمن کے حضور پیش کریں  گے۔

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ۝۳۱ [34]

ترجمہ:اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی ، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ۝۵۱ۙفِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۝۵۲ۚۙ یَّلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۝۵۳ۙۚكَذٰلِكَ۝۰ۣ وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۝۵۴ۭیَدْعُوْنَ فِیْهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ اٰمِنِیْنَ۝۵۵ۙلَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى۝۰ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۝۵۶ۙ [35]

ترجمہ:متقی لوگ امن کی جگہ میں  ہوں  گے،باغوں  اور چشموں  میں  ،حریر و دیبا کے لباس پہنے ، آمنے سامنے بیٹھے ہوں  گے،یہ ہوگی ان کی شان،وہاں  وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں  طلب کریں  گے اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں  ان سے بیاہ دیں  گے،وہاں  موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں  گے ،بس دنیا میں  جو موت آچکی سو آچکی اور اللہ ان کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا۔

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍ۝۱۷ۙفٰكِهِیْنَ بِمَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ۝۰ۚ وَوَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۝۱۸ [36]

ترجمہ:متقی لوگ وہاں  باغوں  اور نعمتوں  میں  ہوں  گے،لطف لے رہے ہوں  گے ان چیزوں  سے جو ان کا رب انہیں  دے گا اور ان کا رب انہیں  دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا۔

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَاۗءُوْنَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ یَجْزِی اللهُ الْمُتَّقِیْنَ۝۳۱ۙ [37]

ترجمہ:دائمی قیام کی جنتیں  ، جن میں  وہ داخل ہوں  گے ، نیچے نہریں  بہ رہی ہوں  گی اور سب کچھ وہاں  عین ان کی خواہش کے مطابق ہو گا جزا دیتا ہے اللہ متقیوں  کو۔

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّعُیُوْنٍ۝۴۱ۙوَّفَوَاكِهَ مِمَّا یَشْتَهُوْنَ۝۴۲ۭ [38]

ترجمہ:متقی لوگ آج سایوں  اور چشموں  میں  ہیں ،اور جو پھل وہ چاہیں  (اُن کے لیے حاضر ہیں )۔

اوراللہ تعالیٰ دنیامیں  بھی متقین کے ساتھ ہوتاہے۔

  ۔۔۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۝۱۹۴ [39]

ترجمہ: اور یہ جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں  کے ساتھ ہے جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔

اوراگرتقویٰ اختیارکروگے تو دنیاکی برائی اور آخرت کے مہیب عذابوں  سے تم بچ جاؤگے۔

 لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۝۰۝۴۸ۙ [40]

ترجمہ:ہم نے تم (انسانوں ) میں  سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی، اگرچہ اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں  کو دیا ہے اس میں  تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں  میں  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔

اللہ تعالیٰ نے یہ روزے پورے سال بھرکے لئے نہیں  بلکہ رمضان کے انتیس یاتیس دن کے لئے ہی فرض کیے ہیں  اور اگرتم سفرمیں  ہویابیمارہوتوروزہ نہ رکھوپھرقضاکرلو،اس کے علاوہ جولوگ روزے کوبرداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں  اورپھربھی روزہ نہ رکھیں  وہ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو کھاناکھلادیاکریں  اوراگرزیادہ دیں  تواوربھی اچھاہے ،لیکن یاد رہے کہ روزہ رکھنا زیادہ اچھا ہے ۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ۗ یُرِیدُ اللَّهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٨٥﴾(البقرة )
’’ ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘

روزوں  کی فرضیت:

وَقِیلَ: إِنَّمَا سُمِّیَ رَمَضَانُ لِأَنَّهُ یَرْمِضُ الذُّنُوبَ أَیْ یُحْرِقُهَا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ

ابن الجوزی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں رمضان کویہ نام اس لئے دیاگیاہے کہ یہ گناہوں  کورمض کردیتاہے یعنی نیک اعمال کے ذریعے جلاڈالتاہے۔[41]

قرآن مجیدکارمضان المبارک سے اوررمضان المبارک کاقرآن مجیدسے ایک گہراتعلق اورنسبت ہے ،چنانچہ فرمایارمضان وہ عظمت والا مہینہ ہے جس  میں  قرآن مجیدکوخیروبرکت والی رات لیلة القدرمیں  بیت العزة میں  ایک ساتھ نازل کیاگیا

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ [42]

ترجمہ: (یقیناً) ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں  نازل کیا ۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ۝۳        [43]

ترجمہ: ہم نے اِسے ایک بڑی خیرو برکت والی رات میں  نازل کیا ہے کیونکہ ہم  لوگوں  کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

اورپھراللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سےحسب ضرورت تئیس سال تک نازل ہوتارہا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝۳۲ [44]

ترجمہ:منکرین کہتے ہیں  اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں  کیوں  نہ اُتار دیا گیا؟ ہاں  ایسا اس لیے کیا گیا کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں  ، اور (اسی غرض کے لیے ) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے۔

یہ جلیل القدرکتاب دنیاکے تمام انسانوں  کے لئے سراسرہدایت ہے اورایسی واضح تعلیمات پرمشتمل ہے جوغوروتدبرکرنے والوں  کوراہ راست دکھانے اوریہ حق وباطل،حلال وحرام،ہدایت وگمراہی کا فرق کھول کررکھ دینے والی ہے،

 قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا ۔۔۔ ۝۱۰۴ [45]

ترجمہ:دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں  آگئی ہیں  ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ تَتَعَلَّمُ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ، خَیْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّیَ مِائَةَ رَكْعَةٍ،وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتُعَلِّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ یُعْمَلْ بِهِ خَیْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّیَ أَلْفَ رَكْعَةٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابوزر!اگرصبح اٹھ کرتم قرآن پاک کی ایک آیت(علم وفکرکے ساتھ)سیکھ لوتویہ تمہارے لئے سورکعت نمازسے افضل ہے،اور اگر صبح اٹھ کر ایک آیت سیکھ کر اس پر عمل پیرا ہو تویہ اس سے بہترہے کہ تم ایک ہزاررکعتیں  پڑھو۔[46]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی الصُّفَّةِ، فَقَالَ:أَیُّكُمْ یُحِبُّ أَنْ یَغْدُوَ كُلَّ یَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ، أَوْ إِلَى الْعَقِیقِ، فَیَأْتِیَ مِنْهُ بِنَاقَتَیْنِ كَوْمَاوَیْنِ فِی غَیْرِ إِثْمٍ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: أَفَلَا یَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَیَعْلَمُ، أَوْ یَقْرَأُ آیَتَیْنِ مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَیْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَیْنِ، وَثَلَاثٌ خَیْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ

عقبہ بن عامرسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھرسے) باہرتشریف لائے اورہم صفہ میں  موجودتھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم میں  سے یہ کون پسندکرے گاکہ وہ ہر روز بطحان یاعتیق کی طرف جائے اوروہ ہاں  سے موٹی موٹی کوہانوں  والی دواونٹنیاں  لائے،اس میں  وہ کسی جرم کاارتکاب نہ کرے نہ قطع رحمی کرے؟ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم (سب ہی )یہ پسندکرتے ہیں  ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاپس تم میں  سے کوئی شخص مسجدکی طرف نہیں  جاتاکہ وہ اللہ عزوجل کی کتاب سے دوآیتیں  جان لے یاپڑھ لے،یہ اس کے لیے دواونٹنیوں  سے بہترہیں  اورتین(آیتیں )اس کے لیے تین(اونٹنیوں )سے بہترہیں اورچار(آیتیں )اس کے لیے چار(اونٹنیوں )سے بہترہیں  اور(جتنی بھی آیتیں  ہوں )اپنی تعدادکے اونٹوں  سے (بہترہیں )[47]

پہلے ابتدائی حکم کے بعد شعبان کے اخیرعشرہ میں فدیہ کی رعایت کوختم کرکے روزے فرض کردیئے گئے تاکہ نفس انسان پاک صاف اورطیب وطاہر ہو جائے ،

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:كُنَّا فِی رَمَضَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ فَافْتَدَى بِطَعَامِ مِسْكِینٍ، حَتَّى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ، [48]

سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرمضان کے مہینہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ مبارک میں  ہم میں  سے جو چاہتاروزہ رکھ لیتااورجوچاہتاروزہ چھوڑ دیتا اور ایک مسکین کو کھانا کھلا کرایک روزے کافدیہ دے دیتایہانتک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی’’  توجوتم میں  سے اس مہینہ میں  موجودہوتواسے چاہئے کہ وہ روزہ رکھے۔‘‘[49]

اس طرح روزے مسلمان مکلف ،بالغ ،عاقل آدمی پرسال میں  ایک مرتبہ فرض ہیں  جبکہ اس کے علاوہ نفلی روزے رکھنابھی مسنون ہے البتہ فدیہ کی رعایت کمزور بوڑھوں  (مردوعورت)کے لئے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں  برقراررکھی گئی،

أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَیْنِ، كُلَّ یَوْمٍ مِسْكِینًا، خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ

چنانچہ جب انس بن مالک رضی اللہ عنہ  بوڑھے ہوگئےتووہ ایک سال یادوسال رمضان میں  روزانہ ایک مسکین کوروٹی اورگوشت دیاکرتے تھے اورروزہ چھوڑدیاتھا۔[50]

اوراگرماہ رمضان میں کوئی مریض ہویا سفر پر ہویاکوئی اورشرعی عذرہوتواسے اختیارہے کہ اگروہ چاہے توروزہ رکھ لے یاافطارکرکے دوسرے دنوں  میں  ان روزوں  کی تعداد پوری کرے، اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتاہے سختی کرنانہیں  چاہتا،اس لئے یہ طریقہ تمہیں  بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں  کی تعدادپوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفرازکیاہے اس پراللہ کی کبریائی کااظہارواعتراف کرواورشکرگزاربنو۔

نزول سورۂ البقرة۱۸۶،۱۸۷

‏ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ ۖ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ ‎﴿١٨٦﴾‏(البقرة)
’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں، اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ ‘‘

عَنِ الصَّلْتِ بْنِ الْحَكِیمِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ: أَقَرِیبٌ رَبُّنَا فَنُنَاجِیهِ أَمْ بَعِیدٌ فَنُنَادِیهِ؟فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی}

صلت بن حکیم سے مروی ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااور عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہمارارب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے اندازمیں  مناجات کریں  یاوہ دورہے کہ ہم اسے پکاریں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خاموش رہے، تو اس سوال کے جواب میں  یہ آیت نازل ہوئی’’ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں  تو انہیں  بتا دو کہ میں  ان سے قریب ہی ہوں ۔‘‘[51]

اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ [52]

ترجمہ:اللہ ان لوگوں  کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں  اور احسان پر عمل کرتے ہیں  ۔

جیسے موسیٰ   علیہ السلام کوفرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایاتھا

 لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝۴۶ [53]

ترجمہ:میں  تمہارے ساتھ ہوں  سب کچھ سن رہا ہوں  اور دیکھ رہا ہوں ۔

جب کوئی پکارنے والاچاہے وہ خاموشی سے پکارے یابلند آواز سے مجھے پکارے میں  اس کی پکارکوبراہ راست سنتاہوں  اوراس کی دعاکوقبول کرکےاس کی پریشانیوں  کو دورکر دیتا ہوں ،

عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِیِّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللهَ تَعَالَى لَیَسْتَحْیِی أَنْ یَبْسُطَ الْعَبْدُ إِلَیْهِ یَدَیْهِ یَسْأَلُهُ فِیهِمَا خَیْرًا فَیَرُدُّهُمَا خَائِبَتَیْنِ

سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلندکرکے دعامانگتاہے تووہ اس کے ہاتھوں  کوخالی پھیرتے ہوئے شرماتاہے[54]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَیْسَ فِیهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِیعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ  یَدَّخِرَهَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ یَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ:اللَّهُ أَكْثَرُ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوبندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعاکرتاہے جس میں  نہ گناہ ہو،نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں  تواللہ تعالیٰ تین باتوں  میں  سے ایک ضرورعطافرماتاہے ،یاتواس کی دعااسی وقت قبول فرماکراس کی منہ مانگی مرادپوری فرمادیتاہے یااسے ذخیرہ کر کے رکھ کر آخرت میں  عطافرماتاہے ،یااس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلااورمصیبت کوٹال دیتاہے،یہ سن کرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیاپھرتوہم بکثرت دعا مانگا کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھراللہ کے ہاں  کیاکمی ہے ۔[55]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِی مُلَیْكَةَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو، یَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ:اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِی

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے  میں  نےافطارکے وقت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کویہ دعامانگتے ہوئے سنا’’اےاللہ! میں  تجھ سے سوال کرتاہوں  تیری اس رحمت کے ذریعہ سے جوہر چیز کو شامل ہے کہ میری مغفرت فرما۔‘‘[56]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثَلاَثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ،  الصَّائِمُ حَتَّى یُفْطِرَ، وَالإِمَامُ العَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ یَرْفَعُهَا اللهُ فَوْقَ الغَمَامِ وَیَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ، وَیَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِی لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِینٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تین شخصوں  کی دعاردنہیں  ہوتی، روزے دارشخص کی جب افطار کرتاہے،عادل بادشاہ،اورمظلوم،مظلوم کی دعاکواللہ تعالیٰ اسے ابرکے اوپراٹھالیتاہے اوراس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے مجھے میری عزت کی قسم!میں  تیری مددضرور کروں  گا گو دیر سے کروں ۔[57]

لہذا لوگوں  کوچاہیے کہ میری دعوت توحید پر لبیک کہیں  اور مجھ وحدہ لاشریک پر ایمان لائیں ،یہ بات تم انہیں  سنا دو شاید کہ وہ حقیقت حال معلوم کرکے راہِ راست اختیار کر لیں  ، جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّیُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ۔۔۔۝۰۝۲۹ [58]

ترجمہ: اےلوگو جو ایمان لائےہو !اگر تم تقویٰ ا ختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں  کو تم سے دُور کر دے گا اور تمہارے قصور معاف کر دے گا۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللَّیْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ‎﴿١٨٧﴾(البقرة )
’’روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو، اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:لَمَّا نَزَلَ صَوْمُ رَمَضَانَ كَانُوا لاَ یَقْرَبُونَ النِّسَاءَ رَمَضَانَ كُلَّهُ، وَكَانَ رِجَالٌ یَخُونُونَ أَنْفُسَهُمْ

براءبن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب روزے فرض قراردے دیئے گئے تومسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں  کے قریب نہیں  جاتےتھےمگرانسانی فطرت سے کئی لوگوں  سے ایسی غلطیاں  سرزدہوگئیں ۔[59]

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا، فَحَضَرَ الإِفْطَارُ، فَنَامَ قَبْلَ أَنْ یُفْطِرَ لَمْ یَأْكُلْ لَیْلَتَهُ وَلاَ یَوْمَهُ حَتَّى یُمْسِیَ، وَإِنَّ قَیْسَ بْنَ صِرْمَةَ الأَنْصَارِیَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَ الإِفْطَارُ أَتَى امْرَأَتَهُ، فَقَالَ لَهَا: أَعِنْدَكِ طَعَامٌ؟ قَالَتْ: لاَ وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ یَوْمَهُ یَعْمَلُ، فَغَلَبَتْهُ عَیْنَاهُ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَتُهُ، فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ: خَیْبَةً لَكَ، فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِیَ عَلَیْهِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {أُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ}[60] فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِیدًا، وَنَزَلَتْ: {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ}[61]

براءبن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(شروع اسلام میں )محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ جب روزے سے ہوتے اور افطارکاوقت آتاتوکوئی روزہ داراگرافطارسے پہلے بھی سوجاتاتوپھراس رات میں  بھی اورآنے والے دن میں  بھی انہیں  کھانے پینے کی اجازت نہیں  تھی تاآنکہ پھرشام ہوجاتی، پھرایساہواکہ قیس بن ضرمہ  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ پیش آیا،قیس بن صرمہ انصاری  رضی اللہ عنہ بھی روزے سے تھے جب شام کوبیوی کے پاس آئےاوران سے پوچھاکیاتمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟انہوں  نے کہا(اس وقت توکچھ)نہیں  ہے لیکن میں  جاتی ہوں  کہیں  سے لاؤں  گی،دن بھرانہوں  نے(کھیتی باڑی کا) کام کیاتھااس لئے آنکھ لگ گئی،جب  بیوی واپس ہوئیں  اورانہیں (سوتے ہوئے) دیکھا توفرمایاافسوس تم محروم ہی رہے!لیکن دوسرے دن وہ دوپہرکو(نقاہت سے)بے ہوش ہوگئے،جب اس کاذکرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیاگیاتویہ آیت نازل ہوئی’’ حلال کردیاگیاتمہارے لئے رمضان کی راتوں  میں  اپنی بیویوں  سے صحبت کرنا۔‘‘اس پرصحابہ  رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اوریہ آیت نازل ہوئی’’ کھاؤپیویہاں  تک کہ ممتازہوجائے تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (صبح کاذب) سے۔‘‘[62]

فرمایاکہ اب تمہارے لئے روزوں  کے زمانے میں  راتوں  کواپنی بیویوں  کے پاس جاناحلال کردیاگیاہے ،وہ تمہارے لئے لباس ہیں  اورتم ان کے لئے لباس ہو،اللہ کومعلوم ہوگیاکہ تم چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھےمگراس نے تمہارے پچھلے قصورمعاف کردیےاورتمہاری بخشش ومغفرت فرمادی،اب اس رخصت اوروسعت کے بعد تمہیں  اجازت ہے کہ اپنی بیویوں  کے ساتھ شب باشی کرواورجولطف اللہ نے تمہارے لئے جائزکردیاہے اسے حاصل کرو،نیزغروب آفتاب سے طلوع فجرتک کھاؤپیو یہاں  تک کہ تم کوسیاہی شب دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں  نظرآجائے تب یہ سب کام چھوڑکرغروب آفتاب تک اپناروزہ پوراکرو،مگرجب تم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں  میں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی خاطرمسجدوں  میں  گوشہ گیر ہو جاؤ تو اپنی شہوانی لذتوں  کوقابورکھواوراپنی بیویوں  سے مباشرت اوربوس وکنارسے باز رہو،یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں  ہیں  ،جنہیں  اس نے بندوں  کے لئے مقررکی ہیں  اوران کے توڑنے سے منع فرمایاہے پس ان کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔

 تِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۝۰ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲۹ [63]

ترجمہ:یہ اللہ کی مقرر کر دہ حدود ہیں  ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں  وہی ظالم ہیں ۔

اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں  کے لئے بصراحت بیان کرتاہے ،توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں  گے۔

 روزوں  میں  سحری کاحکم:

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم میں  تخفیف فرماکرروزوں میں  رات کوکھانے پینے کی اجازت فرمادی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خالی پیٹ روزہ رکھنے سے منع فرمایااورروزے کے لئے سحری کولازم قراردیا،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَكَةً

انس  رضی اللہ عنہ  بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسحری کھایاکروکیونکہ سحری کھانے میں  برکت ہوتی ہے۔[64]

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:عَلَیْكُمْ بِغَدَاءِ السَّحُورِ فَإِنَّهُ هُو الْغَدَاءُ الْمُبَارَكُ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسحری کاکھاناضرورتناول کروکیونکہ وہی توبابرکت کھانا ہے۔[65]

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَدْعُو إِلَى السَّحُورِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ،فَقَالَ:هَلُمُّوا إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ

عرباض بن ساریہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوماہ رمضان میں  سحری تناول کرنے کی دعوت دیتے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامبارک کھانے کی طرف آؤ ۔[66]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، نَهَى عَنِ الْوِصَالِ،قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ:إِنِّی لَسْتُ كَهَیْئَتِكُمْ إِنِّی أُطْعَمُ وَأُسْقَى

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایاہے،ایک شخص نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ بھی تووصال کے روزے رکھتے ہیں  ؟آپ نے فرمایاتم اس معاملہ میں  میری طرح نہیں  ہوکیونکہ میں  اس حالت میں  رات گزارتاہوں  کہ میرارب مجھے کھلاتااورپلاتاہے( توتم وہ کام کروجس کی تم طاقت رکھتے ہو)۔[67]

یہودونصاریٰ روزوں  میں  سحری نہیں  کھاتے اورآپ اہل کتاب کی مشابہت کوپسندنہیں  فرماتے تھے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:السَّحُورُ أَكْلُهُ بَرَكَةٌ، فَلَا تَدَعُوهُ، وَلَوْ أَنْ یَجْرَعَ أَحَدُكُمْ جُرْعَةً مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَلَائِكَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى الْمُتَسَحِّرِینَ

اس لئے ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا سحری کھانا باعث برکت ہے، اس لئے اسے ترک نہ کیا کروخواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کروکیوں  کہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں  پردرودبھیجتے ہیں ۔[68]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہود کی مخالفت میں  اہل ایمان کوحکم فرمایا وہ بغیرسحری کے روزے رکھتے ہیں تم سحری کھایاکرو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَسَحَّرُوا وَلَوْ بِجَرْعَةٍ من ماء

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا سحری کھایاکرواگرچہ پانی کاایک گھونٹ ہی کیوں  نہ میسرہو۔[69]

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ

عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاہمارے روزے اوراہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کافرق ہے (یعنی وہ کیونکہ سحری نہیں  کھاتے تم ضرور کھایا کرو) ۔[70]

مَعْنَاهُ الْفَارِقُ وَالْمُمَیِّزُ بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِهِمُ السُّحُورُ فَإِنَّهُمْ لَا یَتَسَحَّرُونَ وَنَحْنُ یُسْتَحَبُّ

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں  فرماتے ہیں ہمارے اوران کے روزوں  میں  حدفاضل اورتمیزکرنے والی بات سحری کاتناول کرناہے کیونکہ وہ سحری نہیں  کھاتے اورہمارے لیے سحری تناول کرنامستحب ہے۔[71]

عَنْ أَبِی قَیْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ یَأْمُرُنَا أَنْ نَصْنَعَ لَهُ الطَّعَامَ یَتَسَحَّرُ بِهِ، فَلَا یُصِیبُ مِنْهُ كَثِیرًا، فَقُلْنَا لَهُ: تَأْمُرُنَا بِهِ وَلَا تُصِیبُ مِنْهُ كَثِیرًا؟ قَالَ: إِنِّی لَا آمُرُكُمْ بِهِ أَنِّی أَشْتَهِیهِ، وَلَكِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ

ابوقیس مولی عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعمروبن العاص  رضی اللہ عنہ ہمیں  سحری کاکھاناتیارکرنے کاحکم دیاکرتے تھے اورخوداس سے زیادہ تناول نہ کرتے،ہم نے عرض کی آپ ہمیں  تواس کی تیاری کاحکم دیتے ہیں  لیکن خوداس سے زیادہ تناول نہیں  کرتے؟انہوں  نے جواب میں  کہامیں  تمہیں  کھاناتیارکرنے کاحکم اس لیے نہیں  دیتاکہ مجھے کھانے کی رغبت ہوتی ہے، لیکن(میرے حکم دینے کاسبب یہ ہے)میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہےہمارے اوراہل کتاب کے روزوں  کے درمیان حدفاضل سحری کاتناول کرناہے۔[72]

سحری ختم ہونے کاوقت :

اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت سے اس آیت میں  پہلے لفظ فجر شامل نہیں  فرمایا تھاجس سے صبح کے وقت کے تعین میں  لوگوں  سے غلطی ہوئی اوروہ صبح صادق کے بعدبھی کھاتے پیتے رہے تواللہ تعالیٰ نے لفظ فجراس آیت میں  شامل فرمادیاجس سے بات واضح ہوگئی کہ سفیداورکالے دھاگوں  کے امتیازسے رات اوردن کا امتیاز مرادہے ۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَأُنْزِلَتْ: {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ، [73] وَلَمْ یُنْزَلْ: {مِنَ الفَجْرِ، [74] وَكَانَ رِجَالٌ إِذَا أَرَادُوا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِی رِجْلَیْهِ الخَیْطَ الأَبْیَضَ وَالخَیْطَ الأَسْوَدَ، وَلاَ یَزَالُ یَأْكُلُ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَهُ رُؤْیَتُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ: {مِنَ الفَجْرِ،[75]فَعَلِمُوا أَنَّمَا یَعْنِی اللَّیْلَ مِنَ النَّهَارِ

سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے جب یہ آیت’’نیز راتوں  کو کھاؤ پیو یہاں  تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ ٴ صبح کی دھاری نمایاں  نظر آجائے۔ ‘‘ اس میں  فجرکالفظ ابھی نازل نہیں  ہواتھاتوکئی لوگ جب روزہ رکھنے کاارادہ کرتے تواپنے دونوں  پاؤں  میں  سفیداورسیاہ دھاگاباندھ لیتے اورپھرجب تک وہ دونوں  دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابرکھاتے پیتے رہتےیہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے’’ سپیدہ ٴ صبح ۔‘‘کے الفاظ نازل فرمائےتب ان کومعلوم ہواکہ کالے دھاگے سے رات اورسفیددھاگے سے دن مراد ہے۔[76]

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ} [77]     مِنَ الْفَجْرِ قَالَ لَهُ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِی عِقَالَیْنِ: عِقَالًا أَبْیَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّیْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِیضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّیْلِ، وَبَیَاضُ النَّهَارِ

عدی بن حاتم  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے جب آیت’’نیز راتوں  کو کھاؤ پیو یہاں  تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ ٴ صبح کی دھاری نمایاں  نظر آجائے۔‘‘ نازل ہوئی تو میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے اپنے تکیے کے نیچے سفیداورسیاہ رنگ کے دودھاگے رکھ لئے ہیں  جن کی وجہ سے میں  رات اوردن میں  امتیاز کر لیتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ تمہاراتکیہ بہت چوڑاہے(کہ جس میں  رات اوردن سماگئے ہیں ) اس آیت میں  سیاہی سے مرادرات کی سیاہی اورسفیدی سے دن کی سفیدی مرادہے۔[78]

سحری کی اذان:

اس مہینے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دومختلف صحابہ  رضی اللہ عنہم سے دواذانیں  کہلواتے تھے تاکہ لوگوں  کوشک وشبہ نہ ہو،مسجدنبوی کے موذن بلال  رضی اللہ عنہ  تھے ،جب روزوں  کاحکم نازل ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  صبح صادق سے بیشتر سحری کی اذان کے لئے مقررفرمایاتاکہ وہ لوگوں  کواذان کے زریعہ سحری کے وقت کی خبردیں  کہ وہ بیدارہوکرکھانے پینے  کابندوبست کریں  اور کھاپی لیں ،اس اذان میں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘نہیں  کہاجاتاتھا اور ابن مکتوم نابینا رضی اللہ عنہ  کوسحری موقوف کرنے اذان فجرکے لئے مقررفرمایا

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،أَنَّ بِلاَلًا كَانَ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ لاَ یُؤَذِّنُ حَتَّى یَطْلُعَ الفَجْرُ،قَالَ القَاسِمُ: وَلَمْ یَكُنْ بَیْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ یَرْقَى ذَا وَیَنْزِلَ ذَا

چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے بلال  رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیاکرتے تھے (یعنی صبح صادق سے پہلے اذان دیتے ہیں ) اس لئےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ  اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہوکیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں  دیتے،قاسم نے بیان کیاکہ دونوں  (بلال  رضی اللہ عنہ اورام مکتوم رضی اللہ عنہ )کی اذان کے درمیان صرف اتنافاصلہ ہوتاتھاکہ ایک چڑھتے تھے تودوسرااترتے۔[79]

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَیْنَ الأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟قَالَ:قَدْرُ خَمْسِینَ آیَةً

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سحری کھائی پھرنمازفجرکے لئے کھڑے ہوگئے (اورنمازپڑھی) میں  نے دریافت کیاآذان اورسحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟ انہوں  نے کہاسحری کی فراغت اورنمازمیں  داخل ہونے کا وقفہ اتناتھاجتنی دیرمیں  کوئی شخص قرآن مجیدکی پچاس ساٹھ آیتیں  پڑھ لیتا ہے (مرادیہ ہے کہ بلال  رضی اللہ عنہ  قبل فجراذان دیاکرتے تھے اورطلوع فجرتک وہیں  ٹھیرے رہتے،پھرجب اترتے توعبداللہ بن ام مکتوم کوخبردیتے کہ تم اذان دوپھرابن مکتوم طہارت وغیرہ کرکے چڑھتے اورطلوع فجرسے قبل اذان دیتے )۔[80]

 روزہ افطارکاوقت:

اہل تشیع سورج غروب ہونے کے کافی دیربعداندھیراچھاجانے پرروزہ افطارکرتے ہیں ،احناف سورج غروب ہونے کے پانچ یاتقریباًسات منٹ دیرسے روزہ کھولتے ہیں  ،اہل حدیث سورج غروب ہونے کے فوراً بعدہی روزہ افطارکرلیتے ہیں ،شرعی دلائل سے تجزیہ کرتے ہیں  کہ ان تینوں  میں  کون روزہ صحیح وقت پر افطارکرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا

۔۔۔ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ۔۔۔[81]

پھررات تک اپنے روزے پورے کرو۔

اللیل   (رات)کی وضاحت ازروئے لغت

امام محمدبن مکرم ابن منظورالافریقی المصری اپنی عربی کی لغت کی مشہوراورمتداول کتاب میں  لکھتے ہیں ۔

اللیْلُ: عَقِیبُ النَّهَارِ ومَبْدَؤُه مِنْ غُرُوبِ الشَّمْسِ

الیل:رات دن کے بعدآتی ہے اوراس کی ابتداءغروب آفتاب سے ہوتی ہے۔[82]

صاحب المنجدی الابجدی بیان کرتے ہیں :

اللیْل:من مَغْرِبِ  الشَّمْسِ الی طلوع الفجراوالی طلوع الشَّمْسِ

رات سورج غروب ہونے سے لے کرطلوع فجریاطلوع آفتاب تک ہے۔[83]

صاحب المعجم العربی الحدیث لکھتے ہیں :

اللیْل:وَهُوَ من مَغْرِبِ الشَّمْس إِلَى طُلُوعهَا وَفِی الشَّرْع من مَغْرِبِ الشَّمْسِ الی بزوع الفَجْرِ

رات سورج کے غروب ہونے سے طلوع ہونے تک اورشریعت میں  سورج غروب ہونے سے فجرکے پھیلنے تک ہے۔[84]

حسن عمیدرقمطرازہیں :

شب ازغروب تاطلوع آفتاب

رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک ہے۔فرہنگ عمید

لغات کے ان حوالوں  سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں  ہے کہ باتفاق اہل لغت سورج غروب ہوتے ہی رات کی ابتداہوجاتی ہے۔

ازروئے تفاسیراللیل(رات)اورافطاری کے وقت کی وضاحت:

ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللیْلِ،یَقْتَضِی الْإِفْطَارَ عِنْدَ غُرُوب الشَّمْسِ حُكْمًا شَرْعِیًّا

امام ابن کثیر رحمہ اللہ آیت ’’ رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔‘‘کے تحت لکھتے ہیں  شرعی حکم کے تحت سورج غروب ہوتے ہی روزہ کھولاجائے۔[85]

ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَام مِنْ الْفَجْر {إلَى اللیْل} أَیْ إلَى دُخُوله بِغُرُوبِ الشَّمْس

جلالین مع حاشیہ الصاوی میں  ہے پھرتم روزوں  کورات کے داخلہ تک غروب آفتاب کے وقت تک پوراکرو۔[86]

إِلى غایة اللیْلِ وهو دخول اللیل وذاك بغروب الشمس

اسمعیل حقی البروسوی لکھتے ہیں  سورج غروب ہوتے ہی رات شروع ہوجاتی ہے۔[87]

واللیلُ: الذی یتم به الصیامُ: مَغِیبُ قرص الشمسِ

عبدالرحمن بن محمدالثعالبی بیان کرتے ہیں اوررات جس کے ساتھ روزے پورے ہوتے ہیں  سورج کی ٹکیہ کاغائب ہوناہے۔ [88]

فبهذه الایة ظهر حقیقة الصوم انه الإمساك من المفطرات الثلث من الصبح المعترض الى غروب الشمس

قاضی ثناءاللہ پانی پتی وضاحت کرتے ہیں پس اس آیت سے روزہ کی حقیقت واضح ہوئی کہ ارادہ صبح صادق سے لے کرسورج غروب ہونے تک مفطرات ثلثہ (کھانے،پینے اورجماع)سے رکے رہنا ہے ۔[89]

مولاناعبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں لیل عرف عرب میں  غروب آفتاب سے گنی جاتی ہے اورنیزاحادیث صیححہ میں  بھی غروب کے متصلًارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاافطارکرناثابت ہوگیاہے توپھردیرکرناتکلیف بے فائدہ ہے۔تفسیرحقانی

مولانامودودی رحمہ اللہ  مذکورہ صدرآیت کی تشریح میں  لکھتے ہیں  رات تک روزہ پوراکرنے سے مرادیہ ہے کہ جہاں  رات کی سرحدشروع ہوتی ہے وہیں  تمہارے روزے کی سرحدختم ہوجائے اورظاہرہے کہ رات کی سرحدغروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے لہذاغروب آفتاب ہی کے ساتھ افطارکرلیناچاہیے۔[90]

باتفاق مفسیرین رات کی ابتداغروب آفتاب سے ہوجاتی ہے ،سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطارکرلیاجائے۔

اِلَى الَّیْلِ(رات تک)کی وضاحت ازروئے گرائمر

شیخ عبدالقاہرجرجانی شرح ماة عامل میں  اِلَى کی بحث کے تحت لکھتے ہیں

وقدلایکون مابعدھاداخلافی حکم ماقبلھاان لم یکن بعدھاجنس ماقبلھانحوقولہ تعالیٰ  ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ

یعنی کبھی اِلَى کے بعدوالااِلَى کے پہلے والے حکم میں  داخل نہیں  ہوتااگراِلَى کابعدوالااِلَى سے پہلے والے کی جنس سے نہ ہوتوجیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے’’ پھرروزوں  کورات تک پوراکرو۔‘‘

شیخ موصوف یہ قاعدہ سمجھاناچاہتے ہیں  کہ یہاں   اِلَى ابتد ائی حدکے لیے ہے  چونکہ رات کی ابتداسورج غروب ہونے سے ہوجاتی ہے اس لیے سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطارکرلیاجائے ،روزہ کے پوراکرنے کاتعلق دن سے ہے نہ کہ رات سے چونکہ دن اور رات دونوں  کی جنس مختلف ہے اس لیے یہاں  اِلَى کے بعدلیل اِلَى سے پہلے فجر کے حکم میں  داخل نہیں  ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سورج غروب ہوتے ہی افطارفرمالیاکرتے تھے حالانکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سمجھتے تھے کہ دن ابھی باقی ہے۔

عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رات اس طرف سے آجائے اور دن اس طرف چلا جائے اور آفتاب ڈوب جائے تو روزہ دار کے افطار کا وقت آگیا۔[91]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ لِبَعْضِ القَوْمِ:یَا فُلاَنُ قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَیْتَ؟ قَالَ:انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَوْ أَمْسَیْتَ؟ قَالَ:انْزِلْ، فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: إِنَّ عَلَیْكَ نَهَارًا، قَالَ:انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ، فَشَرِبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:إِذَا رَأَیْتُمُ اللَّیْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ

عبداللہ بن ابی اوفیٰ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم (رمضان کے مہینے میں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک سفر(غزوہ فتح)میں  تھے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روزے سے تھے،جب سورج غروب ہوگیاتوآپ نے ایک صحابی (بلال  رضی اللہ عنہ )سے فرمایا اتر اور ہمارے لئے ستوگھول،انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!آپ تھوڑی دیراورٹھیرتے ،آپ نے فرمایااتراورہمارے لئے ستوگھول قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، فَلَوْ أَمْسَیْتَ؟ انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!آپ تھوڑی دیراورٹھیرتے،آپ نے پھروہی حکم دیاکہ اتراورہمارے لئے ستوگھول،لیکن ان کااب بھی خیال تھاکہ ابھی دن باقی ہے،آپ نے اس مرتبہ پھر فرمایاکہ اتراورہمارے لئے ستوگھول، چنانچہ وہ اترے اورانہوں نے ستوگھول دیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیا،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم دیکھوکہ رات اس مشرق کی طرف سے آگئی ہے اورآپ نےمشرق کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا توروزہ رکھنے والے کوروزہ افطار کر لینا چاہئے (یعنی پھرجان بوجھ کردیرنہیں  کرناچاہیے)۔ [92]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جلدی روزہ افطارکی فضیلت بھی بیان فرمائی۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ

سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایالوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں  گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں  گے۔[93]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَزَالُ الدِّینُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لِأَنَّ الْیَهُودَ، وَالنَّصَارَى یُؤَخِّرُونَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا دین غالب رہے گا جب تک کہ لوگ روزہ جلدی افطار کیا کریں  گے کیونکہ یہود اور نصاری روزہ افطار کرنے میں  تاخیر کرتے ہیں ۔[94]

یعنی مسلمانوں  کاجلدی روزہ افطارکرتے رہنادین کے غلبہ کاسبب ہے ،خیال رہے کہ یہاں  جلدی سے مرادوقت جوازمیں  جلدی ہے جب سورج ڈوب جائے توپھردیرنہ لگائے بلاوجہ دیرلگاناسنت کے خلاف ہے اوراتنی دیرکہ تارے گتھ جائیں ۔

عَنْ أَبِی عَطِیَّةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، رَجُلاَنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا یُعَجِّلُ الإِفْطَارَ، وَیُعَجِّلُ الصَّلاَةَ، وَالآخَرُ یُؤَخِّرُ الإِفْطَارَ، وَیُؤَخِّرُ الصَّلاَةَ،  قَالَتْ: أَیُّهُمَا یُعَجِّلُ الإِفْطَارَ وَیُعَجِّلُ الصَّلاَةَ؟ قُلْنَا: عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ،قَالَتْ: هَكَذَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوعطیہ سے مروی ہےمیں  اورمسروق ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس آئے پھرہم نے کہااے مومنوں  کی ماں ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں  دوشخص ہیں  ایک ان میں  جلدی افطارکرتاہےاورجلدی نمازپڑھتاہے، اوردوسرادیرسے افطاری کرتاہے اوردیرسے نمازپڑھتاہے،انہوں (عائشہ  رضی اللہ عنہا )نے پوچھاکہ ان دونوں  میں  کون جلدی افطارکرتاہے اورجلدی نمازپڑھتاہے؟ہم نے کہاعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ ،(توعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے)فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس طرح کرتے تھے اوردوسرے ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ ہیں ۔[95]

یعنی ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کے عمل کوسنت نبوی قراردیا۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الْأَوْدِیِّ  قَالَ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَ النَّاسِ إِفْطَارًا وَأَبْطَأَهُمْ سُحُورًا

عمروبن میمون الاودی  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں  سے جلدافطاری کرنے والے اورسحری میں  تاخیرکرنے والے تھے۔[96]

قَالَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ثَلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الْمُرْسَلِینَ تَعْجِیلُ الْإِفْطَارِ وَتَأْخِیرُ السُّحُورِ وَالسِّوَاكُ

کتب فقہ حنفی میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاافطاری میں  جلدی ،سحری میں  دیرکرنااورمسواک کرنارسولوں  کی سنت ہے۔[97]

یعنی قرآن وحدیث ،لغت وتفسیر،نحوبلکہ فقہ حنفی کی روسے بھی روزہ افطارکرنے کاوقت غروب آفتاب ہے ،جلدی روزہ افطار کرنا یعنی سورج غروب ہونے کے بعدسرخی وغیرہ کی پرواہ نہ کرنااسلامی طریقہ ہے ،لہذاروزہ دارکوسورج غروب ہوتے ہی افطاری کرلینی چاہیے اورکسی قسم کے شک وشبہ میں  نہیں  پڑناچاہئے،جبکہ تاخیر سے افطاری کرنا یہود و نصاریٰ کاعمل بتایاگیاہے۔

دعاافطار:

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ:اللهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ

معاذبن زہرہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطارفرماتے تویہ دعا فرماتے’’اے پروردگار!میں  نے خاص تیرے لئے روزہ رکھااورتیرے عطافرمائے ہوئے رزق پرافطارکرتاہوں ۔‘‘[98]

ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، وَقَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَفْطَرَ قَالَ:ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ

مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب افطارکرتے تویہ دعاپڑھتے تھے’’ پیاس بجھ گئی اوررگیں  آسودہ ہوگئیں  او ران شاءاللہ اجرثابت ہوگیا۔‘‘[99]

 افطاری کس چیزسے کی جائے:

بہتریہ ہے کہ روزہ افطارترکھجوروں  سے کیاجائے اوراگرنہ ملیں  توخشک کھجوروں  سے،اگریہ بھی نہ ہوتوپانی کے گھونٹ سے،مومن کے لئے کھجوربہت اچھی سحری ہے۔

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ یَقُولُ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ، فَعَلَى تَمَرَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز(مغرب)پڑھنے سے قبل تازہ کھجوروں  کے ساتھ افطارکرتے اوراگرتازہ کھجوریں  میسرنہ ہوتیں  توخشک کھجوروں  (چھوہارے)سے افطارکرتے اوراگرخشک کھجوریں  نہ ملتیں  توپانی کے چندگھونٹ بھرلیتے۔[100]

مباحات روزہ

خودبخودقے کاآنا:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ ذَرَعَهُ القَیْءُ، فَلَیْسَ عَلَیْهِ قَضَاءٌ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْیَقْضِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جسے خود بخود قے آجائے اس پر قضا واجب نہیں  اور جو جان بوجھ کر قے کرے اسے قضا روزہ رکھنا چاہئے۔ [101]

جس شخص کوضعف کیوجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کاخوف ہواس کوجونکیں  اورسینگی لگانا اور دوسروں  کو لگانا جائز ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَاحْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حالت احرام میں  پچھنے لگوائے اور روزہ کی حالت میں  پچھنے لگوائے۔[102]

سینگی لگانے سے کیاروزہ ٹوٹ جائے گایاقائم رہے گا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: أَوَّلُ مَا كُرِهَتِ الْحِجَامَةُ لِلصَّائِمِ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ , فَمَرَّ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:أَفْطَرَ هَذَانِ , ثُمَّ رَخَّصَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ فِی الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ , وَكَانَ أَنَسٌ یَحْتَجِمُ وَهُوَ صَائِمٌ

انس بن مالک سے مروی ہےپہلے پہل روزے دارکے لیے سینگی لگوانااس طرح مکروہ ہواکہ جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے روزے کی حالت میں  سینگی لگوائی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے پاس سے گزرے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاان دونوں  کاروزہ ٹوٹ گیا،اس کے بعدنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزے دارکے لیے سینگی لگوانے کی رخصت دے دی،اورانس  رضی اللہ عنہ  روزے کی حالت میں  سینگی لگواتے تھے۔[103]

اس بارے میں  علمائے کرام میں  دومختلف آراءپائی جاتی ہیں  جولوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں  ان کی دلیل یہ حدیث ہےجوثوبان،شدادبن اوس،رافع بن خدیج اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے،امام ابن قیم رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے ،اس کے برعکس عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اورخودابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزہ رکھ کرسینگی لگوائی ۔اوران کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں  ٹوٹتا،

سئل أنس بن مالك: كنتم تكرهون الحجامة للصائم على عهد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَ:لاَ، إِلَّا مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے دریافت کیاگیاکیاآپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں روزے دارکے لیے سینگی لگواناناپسندکرتے تھے ؟انہوں  نے فرمایانہیں  صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھاجاتاتھا۔[104]

أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ وعَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَا یَحْتَجِمَانِ وَهُمَا صَائِمَانِ

سعدبن ابی وقاص اورعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ بھی روزے کی حالت میں  سینگی لگوالیاکرتے تھے۔[105]

قَالَ مَالِكٌ: لاَ تُكْرَهُ لِلصَّائِمِ الْحِجَامَهُ، إِلاَّ خَشْیَةً  أَنْ یَضْعُفَ

امام مالک رحمہ اللہ  نے فرمایاروزے دارکوسینگی لگواناصرف اس لیے مکروہ ہے کہ کمزوری کااندیشہ ہے۔[106]

وإسناده صحیح، ولكنه منسوخ

شیخ عبدالقادرارناؤوط جامع الاصول کے حاشیے میں  لکھتے ہیں اس روایت کی سندصحیح ہے مگراس حکم کو منسوخ کردیاگیا۔[107]

أَنَّ حَدِیثَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ مَنْسُوخٌ

امام ابن حزم رحمہ اللہ   رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہےکہ   حدیث سینگی لگانے اورلگوانے والے نے روزہ کھول دیا کاحکم منسوخ ہے۔[108]

وأن حدیث أفطر الحاجم والمحجوم هو المنسوخ

شیخ البانی  رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے   حدیث  سینگی لگانے اورلگوانے والے نے روزہ کھول دیا کاحکم منسوخ ہے۔[109]

فَیُجْمَعُ بَیْنَ الْأَحَادِیثِ بِأَنَّ الْحِجَامَةَ مَكْرُوهَةٌ فِی حَقِّ مَنْ كَانَ یَضْعُفُ بِهَا وَتَزْدَادُ الْكَرَاهَةُ إذَا كَانَ الضَّعْفُ یَبْلُغُ إلَى حَدٍّ یَكُونُ سَبَبًا لِلْإِفْطَارِ، وَلَا تُكْرَهُ فِی حَقِّ مَنْ كَانَ لَا یَضْعَفُ بِهَا، وَعَلَى كُلِّ حَالٍ تَجَنُّبُ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ أَوْلَى، فَیَتَعَیَّنُ حَمْلُ قَوْلِهِ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ عَلَى الْمَجَازِ لِهَذِهِ الْأَدِلَّةِ الصَّارِفَةِ لَهُ عَنْ مَعْنَاهُ الْحَقِیقِیِّ

امام شوکانی رحمہ اللہ  نے اس مسئلے پربحث کرکے آخرمیں  فرمایاحدیثوں  میں  تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ سینگی لگوانااس شخص کے لیے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حدتک پہنچتی ہوکہ اس کی وجہ سے افطارکرناپڑے تواس صورت میں  سینگی لگوانازیادہ مکروہ ہے،اورجس شخص کوکمزوری نہیں  ہوتی اس کے حق میں (سینگی لگوانا)مکروہ نہیں  لہذا’’  سینگی لگانے اورلگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔‘‘کومجازی معنی میں  لیناپڑے گاکیونکہ مذکورہ بالادلائل اسے حقیقی معنی پرمحمول کرنے سے مانع ہیں  ۔[110]

ان دلائل سے اوران کے علاوہ دلائل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس قسم کے مسائل میں  احتیاط کرنامناسب ہے جیسے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ کاعمل ہے ،

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، یَحْتَجِمُ وَهُوَ صَائِمٌ، ثُمَّ تَرَكَهُ، فَكَانَ یَحْتَجِمُ بِاللیْلِ وَاحْتَجَمَ أَبُو مُوسَى لَیْلًا

امام بخاری رحمہ اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ روزے کی حالت میں  سینگی لگوالیاکرتے تھے پھرانہوں  نے یہ عمل ترک کردیاچنانچہ وہ رات کوسینگی لگواتے تھےاورابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  نے رات کوسینگی لگوائی۔[111]

 روزہ کی حالت میں  جس وقت اورجس طرح کی چاہے مسواک کرسکتاہے:

وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ:لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاكِ الرَّطْبِ

ابن سیرین  رحمہ اللہ نے کہاترمسواک کرنے میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔ [112]

جس شخص کے ذمے فرض غسل باقی ہواورصبح صادق ہوجائے وہ نہالے اوراپناروزہ پوراکرے:

أَنَّ عَائِشَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتَاهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُدْرِكُهُ الفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ، وَیَصُومُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا اورام سلمہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جنابت کی حالت میں  صبح ہوتی پھر آپ غسل کرتے اور روزہ رکھتے۔ [113]

کلی کرنااورناک میں  پانی ڈالناتاہم مبالغہ نہ کیاجائے :

لَقِیطِ بْنِ صَبْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَالِغْ فِی الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ناک میں  پانی ڈالنے میں  مبالغہ کر مگر یہ کہ تو روزہ دار ہے (یعنی وضو اور غسل میں  ناک میں  خوب اچھی طرح پانی داخل کرو مگر روزہ میں  احتیاط چاہیے)۔[114]

بیوی کابوسہ لینااوراس سے بغل گیرہونابشرطیکہ اپنے آپ پرکنڑول ہو:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بوسہ لیتے اور مباشرت کرتے اس حال میں  کہ روزہ دار ہوتے اور وہ تم میں  سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قادر تھے۔[115]

سرکے بالوں  اورداڑھی پرمہندی لگانا۔

ضرورت کے وقت کھانا چکھنابشرطیکہ حلق میں  نہ جائے:

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَطَعَّمَ القِدْرَ أَوِ الشَّیْءَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےہانڈی یاکسی چیزکاذائقہ معلوم کرنے میں  (زبان پررکھ کر)کوئی حرج نہیں ۔[116]

روزہ دارکاسرمہ لگانا،کان یاآنکھ میں  دوائی ڈالنا:

أَنَسٌ، وَالحَسَنُ، وَإِبْرَاهِیمُ بِالكُحْلِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا

انس  رضی اللہ عنہ ، حسن  رحمہ اللہ اورابراہیم  رحمہ اللہ نے کہاروزہ دارکے لیے سرمہ لگانادرست ہے۔[117]گوشت یارگ میں  بغیرطاقت والاٹیکہ لگانا۔

گرمی کی وجہ سے نہانایاسردپانی ڈالنا:

عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ فِی سَفَرِهِ  عَامَ الْفَتْحِ بِالْفِطْرِ، وَقَالَ:تَقَوَّوْا لِعَدُوِّكُمْ،  وَصَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ: الَّذِی حَدَّثَنِی لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ یَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ، أَوْ مِنَ الْحَرِّ

بعض اصحاب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے سال دوان سفر لوگوں  کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا اپنے دشمن کے واسطے قوت حاصل کرواوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روزے کی حالت میں  تھے،ابوبکر نے کہا کہ اسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو عرج کے مقام پر روزہ کی حالت میں  گرمی (یا پیاس) کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا۔[118]

وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ لِی أَبْزَنَ أَتَقَحَّمُ فِیهِ، وَأَنَا صَائِمٌ

انس  رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیراایک آبزن (پتھرکا بناہوا حوض)ہے جس میں  میں  روزے سے ہونے کے باوجودغوطے مارتاہوں ۔[119]

گردوغباریاکوئی چیزبلاقصدحلق میں  چلے جانے اورتھوک نگل جانے سے:

عَن بن عَبَّاسٍ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ فِی حَلْقِهِ الذُّبَابُ وَهُوَ صَائِمٌ قَالَ لَا یُفْطِرُ ،وَقَالَ الْحَسَنُ إِنْ دَخَلَ الذُّبَابُ فِی حلقه فَلَا شَیْء عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایاایک شخص کے گلے میں  مکھی چلی گئی اوروہ شخص روزے سے تھاانہوں  نے فرمایاروزہ افطارکرنے کی ضرورت نہیں ،اورحسن رحمہ اللہ  نے فرمایااگرگلے میں  مکھی چلی جائے تواس پرروزے کی قضانہیں  ہے ۔[120]

احتلام (خواب میں  منی خارج ہوجانا)ہوجانے سے کیونکہ یہ غیراختیاری فعل ہے،اسی طرح نکسیر پھوٹنے ، دانتوں  یامسوڑہوں  سے خون نکلنے یابھول چوک سے کھاپی لینے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَكَلَ نَاسِیًا، وَهُوَ صَائِمٌ، فَلْیُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو شخص روزہ کی حالت میں  بھول کر کھالے وہ اپنا روزہ پورا کرے اس لئے کہ اللہ نے اسے کھلایا اور پلایاہے۔[121]تیل ڈالنا، عطر ملنا بھی جائزہے۔

مفسدات روزہ

روزے کی حالت میں  جان بوجھ کرکھاناپینا:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَةٍ وَلاَ مَرَضٍ، لَمْ یَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس نے رمضان میں  بغیر عذر یا مرض کے روزہ افطار کیا وہ اگر ساری عمر بھی روزے رکھے تب بھی اس ایک روزے کے برابر ثواب حاصل نہیں  کرسکتا۔ [122]

جان بوجھ کرقے کرنا:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ ذَرَعَهُ القَیْءُ، فَلَیْسَ عَلَیْهِ قَضَاءٌ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْیَقْضِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جسے خود بخود قے آجائے اس پر قضا واجب نہیں  اور جو جان بوجھ کر قے کرے اسے قضا روزہ رکھنا چاہیے۔[123]

حیض ونفاس:

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ، فَذَلِكَ نُقْصَانُ دِینِهَا

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ عورت جب حائضہ ہو جاتی ہے تو کیا وہ نماز اور روزہ چھوڑ نہیں  دیتی اور (یہی) اس کے دین کی کمی سے ہے۔[124]

حالت روزہ میں  عمداًجماع کرنا:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الآخَرَ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِی رَمَضَانَ، فَقَالَ:أَتَجِدُ مَا تُحَرِّرُ رَقَبَةً؟ قَالَ: لاَ،قَالَ:فَتَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ:أَفَتَجِدُ مَا تُطْعِمُ بِهِ سِتِّینَ مِسْكِینًا؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَأُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِعَرَقٍ فِیهِ تَمْرٌ،  وَهُوَ الزَّبِیلُ ، قَالَ:أَطْعِمْ هَذَا عَنْكَ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا، مَا بَیْنَ لاَبَتَیْهَا أَهْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، قَالَ:فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ اس بد نصیب نے اپنی بیوی سے رمضان میں  جماع کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تیرے پاس کوئی غلام ہے جو تو آزاد کرے؟ اس نے کہا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتے ہو،اس نے کہا نہیں ،فرمایاکیا تو ساٹھ مسکینوں  کو کھانا کھلا سکتا ہے؟اس نے کہا نہیں ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں  کھجوریں  تھیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس کو لے جا کر اپنی طرف سے کھلا دے،اس نے کہا کہ پتھریلے میدانوں  کے درمیان میں  ہم سے زیادہ کوئی گھرانا محتاج نہیں  ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اپنے گھر والوں  کو کھلادے۔[125] گلوکوزیاخون یاکوئی اورغذائی موادکسی ذریعے سے داخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے۔

 رخصت برائے روزہ:

ایسامریض جسے شفایاب ہونے کی امیدہواورمسافرکوقضاکے ساتھ روزہ رکھنے کی رخصت ہے،جیساکہ قرآن مجیدمیں  ہے

۔۔۔فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔۔۔[126]

ترجمہ:اورجوکوئی تم میں  مریض ہویاسفرپرہوتودیگرایام میں  گنتی پوری کرلے۔

حائضہ اورنفاس والی عورت نہ نمازپڑھے گی نہ روزہ رکھے گی لیکن بعدمیں  صرف روزہ کی قضادے گی۔

عَنْ مُعَاذَةَ،أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: أَتَقْضِی إِحْدَانَا الصَّلَاةَ أَیَّامَ مَحِیضِهَا؟فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَحَرُورِیَّةٌ أَنْتِ؟ قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِیضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَا تُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ

معاذہ سے مروی ہےایک عورت نے عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے سوال کیا کہ ہم عورتوں  کو ایام حیض کی نمازوں  کی قضا کرنی چاہیے؟  عائشہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا تو حروریہ ہے؟ ہم میں  سے جس کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں  حیض آتا تو اس کو نماز کی قضاء کا حکم نہیں  دیا جاتا تھا۔[127]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنَّا نَحِیضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَطْهُرُ، فَیَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّیَامِ، وَلاَ یَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلاَةِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  ایام حیض سے پاک ہوتیں  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں  روزوں  کی قضاء کا حکم دیا کرتے تھے اور جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں  دیتے تھے۔[128]

وَقَدْ رُوِیَ عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَیْضًا وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ لاَ نَعْلَمُ بَیْنَهُمْ اخْتِلاَفًا، أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِی الصِّیَامَ وَلاَ تَقْضِی الصَّلاَةَ

معاذہ اورعائشہ  رضی اللہ عنہا  کی روایت پرعمل ہے اوراہل علم کااس بات میں  کوئی اختلاف نہیں  کہ حیضہ عورت پاک ہونے پرروزے کی قضادے گی مگرنمازکی نہیں ۔

حاملہ اوردودھ پلانے والی کواگرروزہ سے جنین یابچہ کونقصان کااندیشہ ہوتواسے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے پھرقضادیں :

۔۔۔وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ۔۔۔[129]

ترجمہ: اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دیں ۔

قَالَ:كَانَتْ رُخْصَةً لِلشَّیْخِ الْكَبِیرِ، وَالْمَرْأَةِ الْكَبِیرَةِ، وَهُمَا یُطِیقَانِ الصِّیَامَ أَنْ یُفْطِرَا، وَیُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ یَوْمٍ سْكِینًا، وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعُ إِذَا خَافَتَا،قَالَ أَبُو دَاوُدَ:یَعْنِی عَلَى أَوْلَادِهِمَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا

یہ رخصت تھی جو بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جبکہ وہ باوجود قدرت کے روزہ نہ رکھنا چاہیں  تو روزہ نہ رکھیں  اور ہر روزہ کے بدلہ میں  ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں  اسی طرح یہ رخصت حاملہ اور مرضعہ کے لیے تھی جبکہ وہ خوف محسوس کریں   امام ابوداؤد  رحمہ اللہ نے کہا یعنی اپنے بچوں  کے نقصان کا کہ وہ روزہ نہ رکھیں  اور اس کے بدلہ میں  ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ۔[130]

عَبْدِ اللهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ:أَغَارَتْ عَلَیْنَا خَیْلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُهُ یَتَغَدَّى، فَقَالَ: ادْنُ فَكُلْ،فَقُلْتُ: إِنِّی صَائِمٌ، فَقَالَ: ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ، أَوِ الصِّیَامِ، إِنَّ اللهَ تَعَالَى وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ، وَشَطْرَ الصَّلاَةِ، وَعَنِ الحَامِلِ أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوِ الصِّیَامَ، وَاللهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِلَیْهِمَا أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَیَا لَهْفَ نَفْسِی أَنْ لاَ أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن کعب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لشکرنے ہمارے قبیلہ پر حملہ کیا میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کھانا کھا رہے تھے فرمایا قریب ہو جاؤ اور کھاؤ، میں  نے کہا میں  روزے سے ہوں ،فرمایا قریب آؤ میں  تمہیں  روزے کے بارے میں  بتاؤں  اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے آدھی نماز اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ معاف کر دیا ہے،اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حاملہ اور دودھ پلانے والی دونوں  یا ایک کا ذکر کیا مجھے اپنے اوپر افسوس ہے کہ میں  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کھانا کیوں  نہیں  کھایا۔[131]

بوڑھامرداوربوڑھی عورت جوروزہ کی استطاعت نہ رکھتے ہوں  وہ ہردن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ۔

۔۔۔وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ۔۔۔[132]

ترجمہ: اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دیں ۔

قَالَ:كَانَتْ رُخْصَةً لِلشَّیْخِ الْكَبِیرِ، وَالْمَرْأَةِ الْكَبِیرَةِ، وَهُمَا یُطِیقَانِ الصِّیَامَ أَنْ یُفْطِرَا، وَیُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ یَوْمٍ سْكِینًا

یہ رخصت تھی جو بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جبکہ وہ باوجود قدرت کے روزہ نہ رکھنا چاہیں  تو روزہ نہ رکھیں  اور ہر روزہ کے بدلہ میں  ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ۔[133]

 کفارہ:

جوشخص اپنی بیوی سے رمضان المبارک میں  روزہ کی حالت میں  جماع عمداًکرے تواس پرروزے کی قضاء اورکفارہ لازم ہے کفارے کی تفصیل یوں  ہے۔

ایک غلام آزادکرے،اگرغلام آزادکرنے کی استطاعت نہیں  تودوماہ کے متواترروزے رکھے،اگراس کی بھی استطاعت نہیں  توساٹھ مسکینوں  کو کھاناکھلادے(کفارہ کی ادائیگی میں  مذکورہ ترتیب ضروری ہے)

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الآخَرَ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِی رَمَضَانَ، فَقَالَ:أَتَجِدُ مَا تُحَرِّرُ رَقَبَةً؟ قَالَ: لاَ،قَالَ:فَتَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ:أَفَتَجِدُ مَا تُطْعِمُ بِهِ سِتِّینَ مِسْكِینًا؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَأُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِعَرَقٍ فِیهِ تَمْرٌ،  وَهُوَ الزَّبِیلُ ، قَالَ:أَطْعِمْ هَذَا عَنْكَ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا، مَا بَیْنَ لاَبَتَیْهَا أَهْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، قَالَ:فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ اس بد نصیب نے اپنی بیوی سے رمضان میں  جماع کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تیرے پاس کوئی غلام ہے جو تو آزاد کرے؟ اس نے کہا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتے ہو،اس نے کہا نہیں ،فرمایاکیا تو ساٹھ مسکینوں  کو کھانا کھلا سکتا ہے؟اس نے کہا نہیں ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں  کھجوریں  تھیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس کو لے جا کر اپنی طرف سے کھلا دے،اس نے کہا کہ پتھریلے میدانوں  کے درمیان میں  ہم سے زیادہ کوئی گھرانا محتاج نہیں  ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اپنے گھر والوں  کو کھلادے[134]

 روزے کی قضا:

جوشخص فوت ہوجائے اوراس کے ذمہ روزے ہوں  تووارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِیُّهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص مر جائے اور اس پر روزے ہوں  تو اسکی طرف سے اسکا ولی روزے رکھے۔[135]

قیام اللیل:

قیام اللیل کوصلواة تراویح ،قیام رمضان ،صلواة اللیل وغیرہ بھی کہاجاتاہے ،قیام اللیل کامطلب یہ ہے کہ راتوں  کواللہ کی عبادت اوراس کی بارگاہ میں  عجزوانکساری کا اظہار ہو ، قرآن مجیدمیں  اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جوصفات بیان فرمائی ہیں  ان میں  ایک یہ بھی ہے

وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا     [136]

ترجمہ: جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں  راتیں  گزارتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوحکم دیئے بغیررمضان کی رغبت دلاتے تھے۔

  أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِرَمَضَانَ:مَنْ قَامَهُ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ابوہر یرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناآپ رمضان کے فضائل بیان فرمارہے تھے جوشخص بھی رمضان میں  ایمان اورنیت اجروثواب کے ساتھ(رات میں  ) نماز کے لئے کھڑاہوا، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں  گے۔[137]

رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین رات قیام رمضان کیا۔

   عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ یَقُمْ بِنَا شَیْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِیَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ یَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِیَامَ هَذِهِ اللَّیْلَةِ، قَالَ: فَقَالَ:إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِیَامُ لَیْلَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ یَقُمْ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِینَا أَنْ یَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِقِیَّةَ الشَّهْرِ

ابوذر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رمضان المبارک کے)روزے رکھے (شروع میں )آپ نے ہمارے ساتھ مہینے میں  سے کچھ بھی قیام نہ کیایہاں  تک کہ ۲۳ویں  رات کوآپ نے قیام رمضان کیاتہائی رات تک،پھرآپ نے ۲۴ویں رات چھوڑکر۲۵ویں  رات کوجماعت کرائی آدھی رات تک،میں  نے عرض کیا کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ساری رات ہی اس نمازمیں  گزاردیتے ؟توآپ نے ہم سے یہ فرمایا جو شخص امام کے ساتھ قیام(رمضان)کرتاہے اس کے لئے پوری رات کاقیام لکھاجاتاہے،پھر۲۶رات کو چھوڑ کر۲۷ویں  شب کواپنے اہل خانہ اوراپنی ازواج مطہرات اورسب لوگوں  کوجمع کرکے قیام کیااورصبح صادق کے قریب تک نماز پڑھاتے ہی رہے یہاں  تک کہ ہم خوف زدہ ہوگئے کہ سحری کھانے کاوقت بھی باقی رہے گا یانہیں ،پھرپورامہینہ آپ نے قیام رمضان ہمارے ساتھ نہیں  کیا۔[138]

تینوں  راتوں  میں  رکعات توگیارہ ہی تھیں  مگردوسری رات میں  پہلی رات سے اورتیسری رات میں  دوسری رات سے قرات طویل کرکے رکعات کولمباکردیاگیا۔

  فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِینَا أَنْ یَفُوتَنَا الْفَلَاحُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ستائیسویں  شب کواپنے اہل خانہ اوراپنی ازواج مطہرات اورسب لوگوں  کوجمع کرکے قیام کیااورصبح صادق کے قریب تک نمازپڑھاتے ہی رہے یہاں  تک کہ ہم خوف زدہ ہوگئے کہ سحری کھانے کاوقت بھی باقی رہے گا یانہیں ۔[139]

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِی الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ، فَكَثُرَ النَّاسُ ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللیْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ:قَدْ رَأَیْتُ الَّذِی صَنَعْتُمْ، فَلَمْ یَمْنَعْنِی مِنَ الْخُرُوجِ إِلَیْكُمْ إِلَّا أَنِّی خَشِیتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْكُمْ وَذَلِكَ فِی رَمَضَانَ

ام المو منین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک رات مسجدمیں  نمازپڑھی،صحابہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ یہ نمازپڑھی،دوسری رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ نمازپڑھی تونمازیوں  کی تعدادبہت بڑھ گئی،  تیسری یاچوتھی رات توپورااجتماع ہی ہوگیالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس رات نمازپڑھانے کوتشریف نہ لائے،صبح کے وقت آپ لوگوں  کے سامنے آئے اورفرمایااے لوگو!تم لوگ جتنی تعدادمیں  جمع ہوگئے تھے میں  نے اسے دیکھالیکن محض اس ڈرسے کہ کہیں  رمضان المبارک کایہ قیام تم پرفرض نہ ہوجائے میں  تمہاری طرف نہ نکلا۔ [140]

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: احْتَجَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حُجَیْرَةً مُخَصَّفَةً، أَوْ حَصِیرًا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی فِیهَا، فَتَتَبَّعَ إِلَیْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا یُصَلُّونَ بِصَلاَتِه ،ثُمَّ جَاءُوا لَیْلَةً فَحَضَرُوا، وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ،فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا البَابَ،فَخَرَجَ إِلَیْهِمْ مُغْضَبًا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا زَالَ بِكُمْ صَنِیعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَیُكْتَبُ عَلَیْكُمْ،فَعَلَیْكُمْ بِالصَّلاَةِ فِی بُیُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَیْرَ صَلاَةِ المَرْءِ فِی بَیْتِهِ إِلَّا الصَّلاَةَ المَكْتُوبَةَ

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے بیان کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجورکی شاخوں  یابوریئے سے ایک مکان چھوٹے سے حجرے کی طرح بنالیاتھاوہاں  آکرآپ تہجدکی نمازپڑھاکرتے تھے ، چندلوگ بھی وہاں  آگئے اورانہوں  نے آپ کی اقتداءمیں  نمازپڑھی، پھرسب لوگ دوسری رات بھی آگئے اورٹھیرے رہے لیکن آپ گھرہی میں  رہے اورباہران کے پاس تشریف نہیں  لائے،لوگوں  نےآوازیں  بلندکیں  اوردروازے پرکنکریاں  بھی ماریں  تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  غصہ کی حالت میں  باہرتشریف لائے اورفرمایا تم چا ہتے ہوکہ ہمیشہ یہ نمازپڑھتے رہوتاکہ تم پرفرض ہوجائے (اس وقت مشکل ہو)دیکھوتم نفل نمازیں  اپنے گھروں  میں  ہی پڑھاکرو کیونکہ فرض نمازوں  کے سواآدمی کی بہترین نفل نمازوہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔[141]

اورآخری عشرہ کی اہمیت کوواضح کرنے کے لئے تیسویں  رات کوتہائی رات تک ،پچسویں  رات کو آدھی رات تک اور ستائیسویں  رات کو اپنی اہل بیت سمیت اتنی دیرتک نماز پڑھائی کہ سحری چھوٹ جانے کاخطرہ پیداہوگیا ،تین مختلف اوقات میں  نمازتراویح ختم کرنے میں  حکمت یہ تھی کہ امت کے لئے تنگی نہ ہو،جس وقت تک کوئی  پڑھناچاہئے پڑھ لے ۔

سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رمضان المبارک کوہی باجماعت نمازتراویح کوتین دن لگاتار پڑھانے کے بعدفرض ہونے کے خوف سے نہیں  پڑھایامگراس کے باوجود صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم مسجدنبوی میں  باجماعت نماز تراویح پڑھاکرتے تھے ،جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندفرمایا۔

      أَنَّ ثَعْلَبَةَ بْنَ أَبِی مَالِكٍ الْقُرَظِیَّ، حَدَّثَهُ قَالَ:خَرَجَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَةٍ فِی رَمَضَانَ فَرَأَى نَاسًا فِی نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ یُصَلُّونَ، فَقَالَ:  مَا یَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟قَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَیْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ یَقْرَأُ وَهُمْ مَعَهُ یُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا، أوَ قَدْ أَصَابُوا  ولَمْ یَكْرَهْ ذَلِكَ لَهُمْ

ثعلبہ بن ابومالک القرظی فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں  ایک رات باہرتشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں  کومسجدکے ایک کونے میں  نمازپڑھتے ہوئے دیکھا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ لوگ کیاکررہے ہیں ؟ ایک کہنے والے نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں  کوقرآن پاک یادنہیں  ہے اورابی بن کعب  رضی اللہ عنہ  پڑھتے ہیں  ،یہ ان کی اقتدامیں  نمازپڑھ رہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتحقیق انہوں  نے اچھاکام کیااورتحقیق انہوں  نے صحیح کام کیااوریہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ناپسند نہیں  فرمائی۔[142]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں  رات گیارہ رکعات نمازتراویح پڑھائی۔

    عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  رمضان میں  آٹھ رکعات قیام رمضان پڑھایاپھروترپڑھائے۔[143]

x  ماہ رمضان المبارک میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وترسمیت تیرہ رکعت سے زیادہ ثابت نہیں ،بیس رکعتیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سندکے ساتھ مروی نہیں ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں  آٹھ رکعتیں  پڑھائی تھیں  پھروترپڑھ لیا۔[144]

دودورکعتوں  کے بعدسلام پھیرناچاہیے اوراگرایک ہی سلام سے چاررکعتیں  پڑھ لے توبھی جائزہے ۔

تراویح میں  امام اونچی آوازسے قرآت کرے ۔

تراویح کوجماعت کے ساتھ پڑھے یااکیلااختیارہے اوراگراکیلاہواورآہستہ قرآت پڑھے توبھی جائز ہے ۔

پچھلی رات پڑھنااول رات پڑھنے سے افضل ہے۔

عَنْ أَبِی سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،كَیْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ:مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلاَ فِی غَیْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَة،یُصَلِّی أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلاَثًا

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ  بن عبدالرحمٰن نے عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے پوچھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان المبارک میں ( رات کو) کتنی رکعتیں  پڑھتے تھے ؟ آپ  رضی اللہ عنہا نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں ) گیارہ رکعتوں  سے زیادہ نہیں  پڑھتے تھے خواہ رمضان کامہینہ ہوتا یاکوئی اور،چار رکعت ایسی پڑھتے کہ ان کی اچھائی اور درازی سے تو پوچھو نہیں  کہ کیسی عمدہ اور طویل نماز ہوتی تھی،پھر چار رکعتیں  پڑھتے اور یہ نہ پوچھو کہ کیسی عمدہ اور طویل رکعتیں  ہوتی تھیں ،پھر تین رکعت نماز پڑھتے[145]

علماءوفقہاءحنفیہ نے فرمادیاکہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے۔

 فَإِن قلت لم یبین فِی الرِّوَایَات الْمَذْكُورَة عدد هَذِه الصَّلَاة الَّتِی صلاهَا رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فِی تِلْكَ اللیَالِی؟قلت: روى ابْن خُزَیْمَة وَابْن حبَان من حَدِیث جَابر، رَضِی الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ: صلى بِنَا رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فِی رَمَضَان ثَمَان رَكْعَات ثمَّ أوتر

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  اگرتوسوال کرے کہ جونمازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین راتوں  میں  پڑھائی تھی اس میں  تعدادکاذکرنہیں  تومیں  اس کے جواب میں  کہوں  گاکہ ابن خزیمہ اورابن حبان نے جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے علاوہ وترآٹھ رکعتیں  پڑھائی تھیں ۔[146]

  وَلَمْ أَرَ فِی شَیْءٍ مِنْ طُرُقِهِ بَیَانَ عَدَدِ صَلَاتِهِ فِی تِلْكَ اللیَالِی لَكِنْ روى بن خُزَیْمَة وبن حِبَّانَ مِنْ حَدِیثِ جَابِرٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسلم فِی رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں میں  نے حدیث مذکورہ بالاکی کسی سندمیں  یہ نہیں  دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان تین راتوں  میں  کتنی رکعت پڑھائی تھیں  لیکن ابن خزیمہ اورابن حبان نے جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے علاوہ وترآٹھ رکعت پڑھائی تھیں ۔[147]

 وَعِنْدَ ابْنِ حِبَّانَ فِی صَحِیحِهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ علیه السلام قَامَ بِهِمْ فِی رَمَضَانَ، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ

علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کونقل کیاہےابن حبان نے اپنی صحیح میں  جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کوآٹھ رکعت اوروترپڑھائے ،یعنی کل گیارہ رکعات۔[148]

xامام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ کے شاگردامام محمد  رحمہ اللہ  اپنی کتاب موطامحمدصفحہ ۹۳ میں  باب تراویح کے تحت میں فرماتے ہیں

عَنْ أبی سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ كَیْفَ كَانَتْ صلاةُ رسولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: مَا كَانَ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَزِیدُ فی رمضان ولا غیرِه على إحدى عَشْرة رَكْعَةً

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ انہوں  نے ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رات کی نمازکیونکرتھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں  پڑھتے تھے۔

پھرامام محمد رحمہ اللہ اس حدیث کونقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں ۔

قال محمد وبھذااناخذکلہ

ہمارا بھی ان سب حدیثوں  پرعمل ہے ہم ان سب کولیتے ہیں ۔

 السنة ماواظب علیہ رَسُول  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فحسب علی ھذا التعریف یکون السنة ھوذٰلک القدر المذکور ومازادعلیہ یکون مستحبا

ھدایة جلداول کے حاشیہ پرہے سنت صرف وہی ہے جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشہ کیاہوپس اس تعریف کے مطابق صرف مقدارمذکور(آٹھ رکعت ہی)سنت ہوگی اورجواس سے زیادہ ہووہ نمازمستحب ہوگی۔

 فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِیَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِی جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ان تمام کاخلاصہ یہ ہے کہ رمضان کاقیام(تراویح)سنت مع وترگیارہ رکعت باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی فعل(اسوہ حسنہ)سے ثابت ہے۔[149]

ان التراویح فی الاصل احدی عشرة رکعة فعلہ رَسُول  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ثم ترک لعذر

علامہ علی قاری حنفی  رحمہ اللہ  اپنی کتاب مرقاة شرح مشکوٰة میں فرماتے ہیں  دراصل تراویح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پڑھااوربعدمیں  عذرکی وجہ سے چھوڑدیا۔

 وأخرج ابن حبان فی صحیحه  من حدیث جابر: أنه صلّى بهم ثمان ركعات ثم أوتر ،  وهذا أصح

مولاناعبدالحی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اورابن حبان نے اپنی صحیح میں  جابر  رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کوعلاوہ وترآٹھ رکعتیں  پڑھائیں یہ حدیث بہت صحیح ہے۔[150]

  أما النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فصح عنه ثمان ركعات

حنفی امام المحدثین السیدمحمدانورکشمیری رحمہ اللہ  نے فرمایااوریہ تسلیم کیے بغیرچارہ ہی نہیں  ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح توآٹھ رکعات ہی تھی۔[151]

صحابہ  رضی اللہ عنہم اورصحابیات رضی اللہ عنہن کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں  آٹھ رکعت تراویح پڑھنا۔

جَاءَ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی رَمَضَانَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ كَانَ مِنِّی اللیْلَةَ شَیْءٌ , قَالَ: وَمَا ذَاكَ یَا أُبَیُّ؟ قَالَ: نِسْوَةُ دَارِی قُلْنَ إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّی خَلْفَكَ بِصَلَاتِكَ ، فَصَلَّیْتُ بِهِنَّ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ فَسَكَتَ عَنْهُ وَكَانَ شِبْهَ الرِّضَاءِ

امام محمد بن نصرمروزی نے قیام اللیل میں  جابر  رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہےابی بن کعب  رضی اللہ عنہ رمضان میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضرہوئے اورعرض کی کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آج رات کوایک خاص بات ہوگئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابی رضی اللہ عنہ !وہ کیابات ہے؟ انہوں  نے کہاکہ میرے گھرانے کی عورتوں  نے کہاکہ ہم قرآن نہیں  پڑھتے ہیں  اس لیے تمہارے پیچھے نماز(تراویح)تمہاری اقتداءمیں  پڑھیں  گے تومیں  نے ان کوآٹھ رکعت اوروترپڑھادیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سن کرسکوت فرمایا گویا اس بات کوپسندفرمایا۔[152]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہردورکعتیں  پہلے والی دورکعتوں  سے ہلکی ہوتی تھیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللیْلِ، فَلْیَفْتَتِحْ صَلَاتَهُ بِرَكْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم رات کونوافل پڑھناشروع کروتوپہلے دوہلکی رکعتیں  اداکرو۔[153]

  عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّهُ قَالَ:أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللیْلَةَ ،فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ،ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ، وَهُمَا دُونَ اللتَیْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ، وَهُمَا دُونَ اللتَیْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ، وَهُمَا دُونَ اللتَیْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ وَهُمَا دُونَ اللتَیْنِ قَبْلَهُمَاثُمَّ أَوْتَرَ فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً

چنانچہ زیدبن خالدجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں  نے کہامیں  آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رات کی نمازدیکھوں  گاتو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دوہلکی رکعتیں  پڑھیں (تحیة الوضو) پھردوطویل رکعتیں  پڑھیں  پھران سے ہلکی دوطویل رکعتیں  پڑھیں  پھران سے ہلکی دو طویل رکعتیں  پھران سے ہلکی دوطویل رکعتیں  پھران سے ہلکی دوطویل رکعتیں ، پھرایک رکعت وترپڑھایہ سب تیرہ رکعات ہوئیں ۔[154]

   قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِی خِلاَفَةِ أَبِی بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ  خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا

گھروں  وغیرہ میں  فر داًفردا ًپڑھنے کے متعلق امام زہری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدبھی یہی طریقہ جاری رہا،اس کے بعدسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت اور سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کے ابتدائی دورمیں  بھی اسی پرعمل ہوتارہا۔[155]

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق امام کے پیچھے گیارہ رکعات قیام رمضان کاحکم فرمایاتھا۔

  عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، أَنَّهُ قَالَ:  أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَیَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِیماً الدَّارِیَّ   أَنْ یَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً

سائب بن یزید  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے سیدنا  عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے ابی بن کعب اورتمیم داری  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیا کہ وہ لوگوں  کوگیارہ رکعات قیام رمضان پڑھائیں ۔[156]

اورجوروایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السندہے،اس لیے کہ بیچ کاراوی یزیدبن رومان ہے اس نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں  پایا،

 یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ لَمْ یُدْرِكْ عُمَرَ

چنانچہ علامہ عینی حنفی  رحمہ اللہ  وعلامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  یزیدبن رومان نے سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں  پایا۔[157]

اورجن لوگوں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کوپایاہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں  ان میں  سائب  رضی اللہ عنہ  کی روایت اوپرگزرچکی۔

  قال مالك والذی آخذ به فی نفسی فی قیام شهر رمضان الذی جمع عمر علیه الناس: إحدى عشرة ركعة بالوتر، وهی صلاة النبی صلى الله علیه وسلم

ابوبکرمحمدبن الولیدالطرطوسی فرماتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ تراویح کے بارہ میں ،میں  اپنے لیے اسی چیزکواختیارکرتاہوں  جس پرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے لوگوں  کوجمع کیاتھایعنی گیارہ رکعت مع وتر اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازتراویح تھی۔[158]

  (قَالَ) ، أَیْ: الْأَعْرَجُ وَكَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فِی ثَمَانِیَ رَكَعَاتٍ

عرج کہتے ہیں  قاری سورۂ  البقرة آٹھ رکعت میں  ختم کرتاتھا۔[159]

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کی نظرمیں  رات کے آخری حصہ میں  عبادت کی بڑی فضیلت تھی اس لئے فرمایا۔

   عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِیِّ، أَنَّهُ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ یُرِیدُ آخِرَ اللیْلِ وَكَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ أَوَّلَهُ

عبدالرحمٰن بن عبدقاری سے مروی ہےسیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے باجماعت قیام رمضان (دوبارہ)شروع کرایامگریہ بھی فرمایااور رات کاوہ حصہ جس میں  لوگ سوجاتے ہیں اس حصہ سے بہتراورافضل ہے جس میں  یہ نمازپڑھتے ہیں ،آپ کی مرادرات کے آخری حصہ (کی فضیلت)سے تھی کیونکہ لوگ یہ نمازرات کے شروع ہی میں  پڑھ لیتے تھے۔[160]

فقہاءسے آٹھ کاثبوت اوربیس کاضعف۔

   كَوْنِ الْمُتَهَجِّدِ آتِیًا بِالسُّنَّةِ عَلَى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ

محقق ابن الہمام  رحمہ اللہ نے لکھاہےپس اب ہمارے مشائخ ائمہ کے اصول کے مطابق آٹھ رکعات سنت نبویہ ہے۔[161]

إِنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِیثِ الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا كَیْفَ كانت صلاة رسول الله فِی رَمَضَانَ قَالَتْ مَا كَانَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلَا فِی غَیْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً

ایک اورمقام پرفرماتے ہیں  بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے،علاوہ بریں  یہ (بیس کی روایت)صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جوابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان وغیررمضان میں  گیارہ رکعت سے زائدنہ پڑھتے تھے۔ [162]

 ولم یثبت روایة عشرین منہ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کماھوالمتعارف الاٰن الافی روایة ابن ابی شیبة وھوضعیف وقدعارضہ حدیث عائشہ وھوحدیث صحیح

شیخ عبدالحق  حنفی محدث دیلوی رحمہ اللہ  فتح سرالمنان میں  فرماتے ہیں جوبیس تراویح مشہورومعروف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں  اورجوابن ابی شیبہ میں  بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اورعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی صحیح حدیث کی بھی مخالف ہے (جس میں  مع وترگیارہ رکعت ثابت ہے)

  وصحیح مارویة عائشة انہ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صلی احدٰی عشرة رکعةکماھوعادتہ فی قیام اللیل وروی انہ کان بعض السلف فی عہد عمرابن عبدالعزیزیصلون احدی عشرة رکعة قصدًا تشبیھا برَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم

شیخ عبدالحق حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ  اپنی کتاب ماثبت بالسنة صفحہ۲۱۷  میں  فرماتے ہیں  صحیح  حدیث وہ ہے جس کوعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے روایت کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گیارہ رکعت پڑھتے تھے جیساکہ آپ کی قیام اللیل کی عادت تھی اورروایت ہے کہ بعض سلف امیرالمومنین عمربن عبدالعزیزکے عہدخلافت میں  گیارہ رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے مشابہت پیداکریں ۔

  إِحْدَى عشرَة رَكْعَة، وَهُوَ اخْتِیَار مَالك لنَفسِهِ

علامہ عینی حنفی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں گیارہ رکعت کوامام مالک  رحمہ اللہ نے اپنے لیے اختیارکیا۔[163]

اس لئے امیرالمومنین سیدنا عمربن خطاب ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ  اورعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سےبیس رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداًضعیف ہیں ۔

لیلة القدر:

اللیالی والأیام الفاضلة ولا ینبغی للمرید أن یغفل عنهن، لأنه إذا غفل التاجر عن موسم الربح فمتى یربح؟ ‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍!

ابن جوزی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ دن اورراتیں  بڑی فضیلت والی ہیں  ان سے غفلت برتنے کی گنجائش نہیں  کیونکہ تاجرجب اپنے تجارتی سیزن میں  سستی کاشکارہوتووہ خاطرخواہ نفع حاصل نہیں  کرسکتا۔[164]

لیلة القدروہ رات ہے جس میں  عبادت کرناایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہترہے۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، فِی قُبَّةٍ تُرْكِیَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا حَصِیرٌ،قَالَ: فَأَخَذَ الْحَصِیرَ بِیَدِهِ فَنَحَّاهَا فِی نَاحِیَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ، فَدَنَوْا مِنْهُ، فَقَالَ: إِنِّی اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللیْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِیتُ، فَقِیلَ لِی: إِنَّهَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِفَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ یَعْتَكِفَ فَلْیَعْتَكِفْ ، فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ

اس کے تعین کے سلسلہ میں  ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان کے پہلے عشرہ میں  اعتکاف فرمایا،پھردرمیانی عشرے میں  ایک ترکی قنات میں  اعتکاف فرمایاجس کے چاروں  طرف(پردہ کے لئے) بوریاتھا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےاس پردہ کوہاتھ سے ہٹایااورقبہ کے ایک کونے میں  کر دیا پھراپناسراس میں  سے نکال کرلوگوں  سے کچھ فرماناشروع کیایہ دیکھ کرسب لوگ سمٹ کرآپ کے قریب آگئےتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپہلے دس دن کامیں  نے اعتکاف کیا تھا کہ لیلةالقدرکی تلاش کروں پھرمیں  نے درمیانی عشرے کااعتکاف کیاپھرمیرے پاس کوئی آیا(یعنی فرشتہ)اورمجھ سے کہاکہ وہ رات آخری عشرے میں  ہے،پس تم میں  سے جوبھی اعتکاف کرناچاہئے وہ اعتکاف کرلے ،یعنی اخیرمیں  بھی معتکف رہے چنانچہ لوگوں  نے اعتکاف کیا،

قَالَ:وَإِنِّی أُرِیتُهَا لَیْلَةَ وِتْرٍ، وَإِنِّی أَسْجُدُ صَبِیحَتَهَا فِی طِینٍ وَمَاءٍ،فَأَصْبَحَ مِنْ لَیْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِینَ، وَقَدْ قَامَ إِلَى الصُّبْحِ، فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، فَأَبْصَرْتُ الطِّینَ وَالْمَاءَ، فَخَرَجَ حِینَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَجَبِینُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِیهِمَا الطِّینُ وَالْمَاءُ، وَإِذَا هِیَ لَیْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِینَ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاکہ میں  اس رات کودکھلایاگیاہوں  اور وہ طاق راتوں  میں  سے کوئی ہے اورمیں  اس کی صبح کومٹی اورپانی میں  سجدہ کررہاہوں ، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوجب اکیسویں  رات کی صبح ہوئی اوراس رات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح تک نمازپڑھتے رہے اوررات کومینہ برسا اور مسجدٹپکی اورمیں  نے مٹی اورپانی کودیکھاپھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازفجرپڑھ کرنکلے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشانی اورناک کے پانسے پرمٹی اورپانی کانشان تھااوروہ رات اکیسویں  تھی اورعشرہ کی آخری رات تھی۔[165]

وَمَا نَرَى فِی السَّمَاءِ قَزَعَةً

اورحدیث میں  ہے اس رات توآسمان پرابرکاکوئی پھٹاہواٹکڑابھی نہ تھا۔ [166]

  عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُجَاوِرُ فِی رَمَضَانَ العَشْرَ الَّتِی فِی وَسَطِ الشَّهْرِ، فَإِذَا كَانَ حِینَ یُمْسِی مِنْ عِشْرِینَ لَیْلَةً تَمْضِی، وَیَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِینَ رَجَعَ إِلَى مَسْكَنِهِ ، وَرَجَعَ مَنْ كَانَ یُجَاوِرُ مَعَهُ،وَأَنَّهُ أَقَامَ فِی شَهْرٍ جَاوَرَ فِیهِ اللیْلَةَ الَّتِی كَانَ یَرْجِعُ فِیهَا، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَمَرَهُمْ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ قَالَ:كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ العَشْرَ، ثُمَّ قَدْ بَدَا لِی أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ العَشْرَ الأَوَاخِرَ،فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِی فَلْیَثْبُتْ فِی مُعْتَكَفِهِ،وَقَدْ أُرِیتُ هَذِهِ اللیْلَةَ، ثُمَّ أُنْسِیتُهَا، فَابْتَغُوهَا فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَابْتَغُوهَا فِی كُلِّ وِتْرٍ، وَقَدْ رَأَیْتُنِی أَسْجُدُ فِی مَاءٍ وَطِینٍ،فَاسْتَهَلَّتِ السَّمَاءُ فِی تِلْكَ اللیْلَةِ فَأَمْطَرَتْ، فَوَكَفَ المَسْجِدُ فِی مُصَلَّى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِینَ،فَبَصُرَتْ عَیْنِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَظَرْتُ إِلَیْهِ  انْصَرَفَ مِنَ الصُّبْحِ وَوَجْهُهُ مُمْتَلِئٌ طِینًا وَمَاءً

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان المبا رک کے اس عشرہ میں  اعتکاف کیاکرتے تھے جومہینے کے بیچ میں  پڑتاہے، بیس راتوں  کے گزرجانے کے بعدجب اکیسویں  تاریخ کی رات آتی توشام کوآپ اپنے گھرواپس آجاتے،جولوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں  ہوتےوہ بھی اپنے گھروں  میں  واپس آجاتے،ایک رمضان میں  آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تواس رات میں  بھی (مسجدہی میں )مقیم رہےجس میں  آپ کی عادت گھرآجانے کی تھی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں  کوخطبہ دیا اورجوکچھ اللہ تعالیٰ نے چاہاآپ نے لوگوں  کواس کاحکم دیا،پھراسی خطبہ میں  فرمایاکہ میں اس (درمیانی)عشرے میں اعتکاف کیاکرتاتھالیکن اب مجھ پریہ ظاہرہواہے کہ اب اس آخری عشرہ میں  مجھے اعتکاف کرناچاہیے،اس لئے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیاہے وہ اپنے معتکف ہی میں  ٹھیرارہے،اورمجھے یہ رات (شب قدر)دکھائی گئی لیکن اسے بھلا دیا گیاہوں  اس لئے تم لوگ اسے آخری دس راتوں  میں  سے طاق راتوں  میں  تلاش کرو،میں  نے(خواب میں )اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑمیں  سجدہ کررہاہوں ، پھراس رات آسمان پرابرہوااور بارش برسی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے نمازپڑھنے کی جگہ(چھت سے)پانی ٹپکنے لگایہ اکیسویں  کی رات کاذکرہے،میں  نے خودااپنی آنکھوں  سے دیکھاکہ آپ صبح کی نمازکے بعدواپس ہورہے تھے اورآپ کے چہرہ مبارک پرکیچڑلگی ہوئی تھی[167]

  عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَنَا بِلَیْلَةِ القَدْرِ فَتَلاَحَى رَجُلاَنِ مِنَ المُسْلِمِینَ، فَقَالَ:خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَیْلَةِ القَدْرِ، فَتَلاَحَى فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ یَكُونَ خَیْرًا لَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِی التَّاسِعَةِ، وَالسَّابِعَةِ، وَالخَامِسَةِ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کولیلةالقدرکی تعین کی خبردینے کے لئے آرہے تھے،راستے میں  دوشخص آپس میں  لڑرہے تھےاب آپ تشریف لائے اورہم سے فرمانے لگے میں  تواسی لئے نکلاتھاکہ تمہیں بتلادوں  کہ فلاں  رات لیلة القدرہے لیکن فلاں  دوشخص لڑرہے تھے (اس کی مشغولی اوراس کے برے اثرنے)وہ چیزہی میرے دل میں  سے نکال دی ممکن ہے کہ اس (تعین)کااٹھ جاناہی تمہارے حق میں  بہترہو،پس تم اسے نویں ،ساتویں  اورپانچویں  میں  تلاش کرو یعنی انتیس،ستائیس اورپچیس۔[168]

  وَعَنِ الْفَلْتَانِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّا لَجُلُوسٌ نَنْتَظِرُهُ إِذْ خَرَجَ عَلَیْنَا، وَفِی وَجْهِهِ الْغَضَبُ فَجَلَسَ طَوِیلًا لَا یَتَكَلَّمُ ثُمَّ سُرِّیَ عَنْهُ ،  فَقَالَ: إِنِّی خَرَجْتُ إِلَیْكُمْ وَقَدْ تَبَیَّنَتْ لِی لَیْلَةُ الْقَدْرِ وَمَسِیحُ الضَّلَالَةِ فَخَرَجْتُ إِلَیْكُمْ لِأُبَیِّنَهَا] لَكُمْ وَأُبَشِّرُكُمْ بِهَافَلَقِیتُ فِی الْمَسْجِدِ رَجُلَیْنِ یَتَلَاحَیَانِ بَیْنَهُمَا الشَّیْطَانُ فَحَجَزْتُ بَیْنَهُمَا فَاخْتُلِسَتْ مِنِّی، فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِوَأَمَّا مَسِیحُ الضَّلَالَةِ فَإِنَّهُ أَجْلَحُ الْجَبْهَةِ مَمْسُوحُ الْعَیْنِ عَرِیضُ النَّحْرِ فِیهِ دِمَاءُ ابْنِ الْعُزَّى أَوْ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ فُلَان

فلتان بن عاصم  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  ایک دن ہم سب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظا رمیں  جمع ہوکربیٹھے تھے جوآپ تشریف لائے ،غصہ چہرے سے ظاہرتھادیرتک خاموش بیٹھے رہے،پھرہم سے فرمایالیلة القدرکونسی رات ہے ؟اورمسیح دجال کون ہے ؟یہ چیزمجھ پرواضح ہوچکی تھی اورمیں  چلاکہ تمہیں  بھی بتلادوں ،دیکھاکہ مسجدمیں  دوشخص لڑجھگڑرہے ہیں  اورشیطان ان کے درمیان ہے ،میں  ان کاجھگڑامٹانے میں  مشغول ہوگیاوہ بات دل سے ہٹ گئی ،اب سنوشب قدرکوآخری عشرے میں  تلاش کرواوردجال چکلی پیشانی والا،مٹی ہوئی آنکھ والا،چوڑے سینے کاہے یوں  سمجھوتم میں  ابن العزی یا عبد العزیٰ بن فلان ہے۔[169]

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أُرُوا لَیْلَةَ القَدْرِ فِی المَنَامِ فِی السَّبْعِ الأَوَاخِرِ  فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَرَى رُؤْیَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی السَّبْعِ الأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّیهَا فَلْیَتَحَرَّهَا فِی السَّبْعِ الأَوَاخِرِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چنداصحاب کوشب قدرخواب میں (رمضان کی)سات آخری تاریخوں  میں  دکھائی گئی تھی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایامیں  دیکھ رہاہوں  کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں  پرمتفق ہوگئے ہیں اس لئے جسے اس کی تلاش ہووہ اسی ہفتہ کی آخری(طاق) راتوں  میں  تلاش کرے۔[170]

  عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَقِیَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:رَقِیتُ عَلَیْهِ وَقَدْ عَلِمْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فَأُنْسِیتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ

کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ماہ ر مضان المبارک میں  منبرپرکھڑے ہوکرخطبہ سنایاجس میں  فرمایااس منبرپرکھڑے ہونے تک مجھے لیلة القدرکاعلم تھالیکن اس وقت میں  تعین بھول گیااب میں  تمہیں  حکم کرتاہوں  کہ تم لیلة القدرکوآخری عشرے کی طاق راتوں  میں  تلاش کرو۔[171]

   ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنْ كَانَ مُلْتَمِسَهَا فَلْیَلْتَمِسْهَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوآدمی لیلة القدرکوتلاش کرناچاہتاہے تواسے چاہیے کہ وہ اسے (رمضان کے)آخری عشرہ میں  تلاش کرے۔[172]

  عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیّ قَالَ سَمِعْت رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَخْطُبُ النّاسَ عَلَى مِنْبَرِهِ وَهُوَ یَقُولُ أَیّهَا النّاسُ إنّی قَدْ رَأَیْت لَیْلَةَ الْقَدْرِ ثُمّ أُنْسِیتهَا، وَرَأَیْت فِی ذِرَاعَیّ سِوَارَیْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَكَرِهْتهمَا، فَنَفَخْتهمَا فَطَارَا، فَأَوّلْتهمَا هَذَیْنِ الْكَذّابَیْنِ صَاحِبَ الْیَمَنِ، وَصَاحِبَ الْیَمَامَةِ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  نے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے منبرپرخطبہ دیتے ہوئے فرمارہے تھے اے لوگو!میں  نے لیلة القدردیکھی لیکن پھربھلادیاگیااورمیں  نے اپنے ہاتھ میں  سونے کے دوکنگن دیکھے جومجھے برے معلوم ہوئے لیکن میں  نے پھونک ماری اوروہ دونوں  اڑگئے میں  نے اس کی تعبیریہ کی ہے کہ یہ دوجھوٹے دعویدارن نبوت ہیں  ایک(اسودعنسی)یمن والااوردوسرا(مسیلمہ کذاب)یمامہ والا۔[173]

    أَبِی ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ ،فَلَمَّا صَلَّى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ اثْنَیْنِ وَعِشْرِینَ، قَالَ:إِنَّا قَائِمُونَ اللیْلَةَ إِنْ شَاءَ اللهُ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ یَقُومَ فَلْیَقُمْ،وَهِیَ لَیْلَةُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ، فَصَلَّاهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً بَعْدَ الْعَتَمَةِ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللیْل،ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا كَانَ لَیْلَةُ أَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ لَمْ یُصَلِّ شَیْئًا وَلَمْ یَقُمْ، فَلَمَّا كَانَ لَیْلَةُ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ قَامَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ یَوْمَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ،إِنَّا قَائِمُونَ اللیْلَةَ إِنْ شَاءَ اللهُ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ یَقُومَ فَلْیَقُمْ

ابوذر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رمضان کے آخری عشرے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجدمیں  اعتکاف کیابائیسویں تاریخ میں  ہمیں  عصرکی نمازپڑھائی پھرکھڑے ہوکرہم سے فرمایاآج کی تیئیسویں رات کوان شاءاللہ ہم نماز(تراویح)پڑھیں  گے تم میں  سے جوبھی چاہئے پڑھے،چنانچہ بعدازنمازعشاء رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  باجماعت نمازپڑھائی اور تہائی رات جانے پرختم کی،بعدازاں  آپ نے ہمارے مجمع کومخاطب ہوکر فرمایاجہاں  تک میراخیال ہے جسے تم ڈھونڈرہے ہووہ ابھی آگے ہے ، چوبیس تاریخ کواسی طرح بعدازنمازعصرکھڑے ہوکرہم سے فرمایا آج( پچیسویں  شب کو ان شاءاللہ ہم قیام اللیل کریں  گےتم میں  سے بھی جوچاہئے ہمارے ساتھ شامل ہوجائے

فَصَلَّى بِالنَّاسِ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللیْلِ،ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا كَانَ لَیْلَةُ سِتٍّ وَعِشْرِینَ لَمْ یَقُلْ شَیْئًا وَلَمْ یَقُم ،فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ سِتٍّ وَعِشْرِینَ قَامَ فَقَالَ:إِنَّا قَائِمُونَ إِنْ شَاءَ اللهُ، یَعْنِی لَیْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ، فَمَنْ شَاءَ أَنْ یَقُومَ فَلْیَقُمْ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَتَجَلَّدْنَا لِلْقِیَامِ فَصَلَّى بِنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثَا اللیْلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى قُبَّتِهِ فِی الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لَهُ: إِنْ كُنَّا لَقَدْ طَمِعْنَا یَا رَسُولَ اللهِ أَنْ تَقُومَ بِنَا حَتَّى تُصْبِح

چنانچہ اس رات بھی آپ نے ہمیں  باجماعت نمازپڑھائی یہاں  تک کہ ایک تہائی رات بچ گئی،آج بھی بعدازفراغت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے فرمایاجس رات (لیلةالقدر)کی تلاش میں  تم ہوغالباًوہ ابھی اوربھی آگے ہے ، پھر چھبیسویں  رات کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ نہ فرمایانہ قیام اللیل کیاہاں  چھبیسویں  تاریخ کوعصرکی نماز پڑھا کر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا ستائسویں  شب کو ان شاءاللہ ہم قیام اللیل کریں  گےتم میں  سے بھی جوچاہئے ہمارے ساتھ شامل ہوجائے،ابو ذر بیان کرتے ہیں  ہم قیام کے لیے کھڑے ہوئے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نماز پڑھائی یہاں  تک کہ دو تہائی رات ختم ہوگئی پھر آپ مسجد کے قبہ کی طرف گئے تو میں  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو چاہتے تھے کہ صبح تک ہمیں  قیام کروائیں  گے۔ [174]

x  اللہ تعالیٰ اسی رات میں سال بھرکے کل معاملات کافیصلہ صادر فرماتاہے ،اس رات جبرئیل  علیہ السلام  فرشتوں  کی بے شمارجماعت کواپنے ساتھ لیکرآفتاب کے غروب ہوتے ہی زمین پرتشریف لاتے ہیں  ،ان فرشتوں  کی تعدادزمین کے سنگ ریزوں  سے بھی زیادہ ہوتی ہے ،وہ تمام روئے زمین پرپھیل جاتے ہیں  مگربت خانوں ،گرجاؤں  اورغیراللہ کی پرستش کی جگہوں  میں  داخل نہیں  ہوتے،اسی طرح نجس اورناپاک جگہ اوروہ گھرجس میں  نشے کی چیزہویانشہ بازشخص ہویاوہاں  باجے اورتصویریں  ہوں  وہاں  بھی نہیں  جاتے ،

صَلَّتْ عَلَیْهِ الْمَلَائِكَةُ لَیَالِی رَمَضَانَ كُلِّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ، وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِیلُ تَكْثُرُ دُمُوعُهُ، وَیَرِقُّ قَلْبُهُ

جبرئیل  علیہ السلام  نیک بخت لوگوں  سے مصافحہ کرتے ہیں ،اس کی نشانی بظاہریہ ہے کہ خوف خداسے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ،دل نرم ہوجائیں  اورآنسوبہہ نکلیں ۔

اور ساری رات کل مومن مردوعورت کے لئے نیک دعاؤں  میں  مشغول رہتے ہیں ،یہ تمام فرشتے آفتاب طلوع ہونے تک اسی طرح رہتے ہیں  اوراس کے بعدآسمان پرچڑھ جاتے ہیں  ،پھرسب مل کردن بھرمومن مردوعورت کے لئے دعااوراستغفارمیں  مشغول رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں  نے ان سب کوبخش دیااورقیامت کے روزان سب کوبغیرحساب وکتاب جنت میں  داخل کروں  گا۔

x  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس پورے عشرے میں  تمام رات جاگتے تھے اوراللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول رہتے تھے،اپنے اہل وعیال کواورتمام گھروالوں  کوجگاتے تھے،ایک موقوف حدیث میں  آیاہے کہ اس رات تین مرتبہ لاالٰہ الااللہ کہنے والے کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں  اورجہنم سے نجات پاکرجنت میں  داخل ہوجاتاہے ۔

 قَالَتْ عَائِشَةُ:یَا نَبِیَّ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ، مَا أَقُولُ؟قَالَ: تَقُولِینَ: اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّی

ام المومنین  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرمیں  لیلة القدرکوپاؤں  تواللہ تبارک وتعالیٰ سے کیادعاکروں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ دعاکروالہٰی تودرگزرکرنے والاہے اورمعافی کوپسندفرماتاہے ،میرے گناہوں  سے بھی درگزرفرما۔[175]

   إِنَّهَا لَیْلَةٌ بَلْجَةٌ، سَمْحَةٌ لَا بَارِدَةٌ وَلَا حَارَّةٌ، تَطْلُعُ الشَّمْسُ صَبَاحَهَا لَیْسَ لَهَا شُعَاعٌ

اس رات کی ظاہری علامت یہ ہےاس رات میں  سکون ہوتاہے نہ توزیادہ سردی ہوتی ہے نہ گرمی اورنہ اس رات میں  ستارے جھڑتے ہیں ،آسمان صاف اورروشن ہوتاہے اوراس کی صبح کوسورج تیزشعاعوں  والانہیں  نکلتااورنہ اس کے ساتھ شیطان خروج کرتاہے بلکہ سورج کی شعائیں  ہلکی اوراس کی روشنی بوقت طلوع مدہم ہوتی ہے ۔

اس مبارک رات میں  کچھ گناہ گارایسے ہیں  جن کی بخشش نہیں  ہوتی ،اوراللہ تعالیٰ کے عام انعاموں  سے محروم رہتے ہیں  وہ مجرم یہ ہیں ،شرابی ،ماں  باپ کانافرمان ،اسلامی رشتوں  ناتوں  کوتوڑنے والا،مسلمانوں  سے دنیاوی بناپربغض وبیررکھنے والا۔

اعتکاف:

اصلاح قلب اوراللہ تعالیٰ کی مرضیات پرچلنے میں  استقامت اسی وقت ممکن ہے جب اس ذات پاک پراعتمادکلی کیاجائے اوراس کی طرف پوری طرح رجوع وانابت اختیاکی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف میلان اوررجوع ہی اطمینان قلب کاسبب ہے اورپرگندہ دل اللہ تعالیٰ کے قریب سے دروہوتاہے،چونکہ کھانے پینے میں  زیادتی،باہمی میل جول میں  اضافہ،بات چیت اورسونے میں  کثرت ایسے اعمال ہیں  جس سے قلب کی پراگندگی اوراس کے انتشاراورپریشانی میں  اضافہ ہوتاہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی طرف وصل وقرب میں  رکاوٹ بنتے ہیں  اس لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں  پراپنی رحمت اورحکمت سے روزہ فرض کیاتاکہ کھانے پینے میں  کمی واقع ہوجائے اوردل ودماغ سے شہوانی خیالات نکل جائیں  جواللہ تعالیٰ کی طرف رغبت وانابت میں  رکاوٹ ہوتے ہیں ،پھرروزے میں  اس کی بھی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انسان دنیاوی نعمتوں  اورمصلحتوں  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اخروی زندگی کے لئے بھی کچھ مفیدکام کرسکے جواسے نقصان نہ پہنچائیں ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس میں  اعتکاف کومشروع قراردیاہے تاکہ بندہ کادل خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف مائل اوراس کی عبادت کاعادی وشوقین ہوجائے اورغیراللہ سے اس کی توجہ ہٹ جائے اوردنیاوی جنجھٹوں  سے دورہوکراللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے یکسو اوراسی سے مانوس ہوجائے اوریہی انسیت بندہ کوقبرکی وحشت میں  کام آئے گی،دراصل اعتکاف کابڑامقصدیہی ہے اورچونکہ یہ مقصداسی طرح حاصل ہوسکتاہے کہ اعتکاف رمضان میں  ہواس لئے اعتکاف کواس کے آخری عشرہ میں  مشروع کیاگیاہے،چونکہ اللہ تعالیٰ نے روزے ہی کے ساتھ اعتکاف کاذکرکیاہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی روزے کے بغیراعتکاف نہیں  فرمایاہے،رہامسئلہ قلت کلام کاتواس کاحکم اس لئے ہے کہ شریعت نے امت کوتمام ایسی باتوں  سے زبان بندرکھنے کاحکم دیاہے جوآخرت میں  اس کے لئے مفیدنہ ہوں ،رہازیادہ سونے سے بھی ممانعت کاحکم توشریعت نے رات کی نمازکاحکم دیاہے جوفضول جاگنے سے زیادہ بہتر اور مفیدہے،قیام اللیل معتدل قسم کی عبادت ہے جودل اورجسم دونوں  کے لئے مفیدہے اوربندے کے ذاتی مصالح اورکاموں  میں  رکاوٹ بھی نہیں  پیداکرتی،اہل ریاضت وسلوک کے مجاہدوں  کادارومداران ہی چارچیزوں  پرہے اوراس سے بڑھ کرخوش نصیب کون ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ پرگامزن رہے اورغلوکرنے والوں  یاکوتاہی کرنے والوں  کی راہ اورطریقہ سے پرہیزکرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کے آخری عشرہ میں  اعتکاف فرماتے تھے اوریہ سنت طیبہ وفات تک جاری رہی ،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان میں  اعتکاف نہیں  کیاتواس کی قضاشوال میں  فرمائی ،ایک مرتبہ آپ نے شب قدرکی تلاش کے لئے رمضان کے پہلے عشرہ میں  ،ایک مرتبہ درمیانی عشرہ میں  اورایک مرتبہ آخری عشرہ میں  اعتکاف کیا ، آخیرمیں  معلوم ہواکہ شب قدررمضان کے آخری عشرہ میں  ہے توآپ اس میں  تلاش فرماتے تھے،اعتکاف آپ پوری زندگی میں  پابندی سے کرتے تھے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ یَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کے عشرہ اخیرہ میں  ہمیشہ اعتکاف فرماتے تھے (اوریہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنے پاس بلا لیا۔[176]

اوراس کے لئے مسجدمیں  چھوٹاسا خیمہ لگادیاجاتاتھااورتنہائی میں  رب العزت کے حضوربیٹھتے رہتے تھے،جب آپ اعتکاف کاارادہ فرماتے توفجرکی نمازکے بعدخیمہ میں  داخل ہو جاتے ، ایک مرتبہ آپ کے حکم سے آپ کاخیمہ لگایاگیاتوازواج مطہرات نے بھی اپنے اپنے خیمے لگوالئے،جب آپ فجرکی نماز سے فارغ ہوئے توان خیموں  کودیکھ کر اپنا خیمہ کھولنے کاحکم فرمایااوراس سال آپ نے رمضان میں  اعتکاف ملتوی فرمادیاپھرشوال کے ابتدائی عشرہ میں  اعتکاف فرمایا ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:  كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَعْتَكِفُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَیُصَلِّی الصُّبْحَ ثُمَّ یَدْخُلُهُ، فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ  خِبَاءً، فَأَذِنَتْ لَهَا، فَضَرَبَتْ خِبَاءً،  فَلَمَّا رَأَتْهُ زَیْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَخْبِیَةَ، فَقَالَ:مَا هَذَا؟فَأُخْبِرَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کے آخری عشرے میں  اعتکاف کرتے تھے میں  آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیتی تھی، آپ فجر کی نماز پڑھ کر اس میں  داخل ہوتے،پھرام المومنینحفصہ  رضی اللہ عنہا  نے ام المومنینعائشہ  رضی اللہ عنہا  سے خیمہ نصب کر نے کی اجازت مانگی انہوں  نے اجازت دیدی توحفصہ  رضی اللہ عنہا  نے بھی ایک خیمہ نصب کیا،جب زینب  رضی اللہ عنہا  بن جحش نے دیکھا تو انہوں  نے بھی ایک دوسرا خیمہ نصب کیا،جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے چند خیمے دیکھے آپ نے فرمایا کہ یہ خیمے کیسے ہیں ؟   آپ سے واقعہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا کیا تم ان میں  نیکی سمجھتے ہو، چنانچہ آپ نے اس مہینہ میں  اعتکاف چھوڑ دیا پھر شوال کے ایک عشرہ میں  اعتکاف کیا۔[177]

أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَعْتَكِفُ حَتَّى تَسْتَأْذِنَ زَوْجَهَا وَأَنَّهَا إِذَا اعْتَكَفَتْ بِغَیْرِ إِذْنِهِ كَانَ لَهُ أَنْ یُخْرِجَهَا وَإِنْ كَانَ بِإِذْنِهِ فَلَهُ أَنَّ یَرْجِعَ فَیَمْنَعَهَا،وَهَذَا الْحَدِیثُ حُجَّةٌ عَلَیْهِمْ وَفِیهِ جَوَازُ ضَرْبِ الْأَخْبِیَةِ فِی الْمَسْجِدِ  وَأَنَّ الْأَفْضَلَ لِلنِّسَاءِ أَنْ لَا یَعْتَكِفْنَ فِی الْمَسْجِدِ وَفِیهِ أَنَّ أَوَّلَ الْوَقْتِ الَّذِی یَدْخُلُ فِیهِ الْمُعْتَكِفُ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ ،وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِیِّ وَاللیْثِ وَالثَّوْرِیِّ وَقَالَ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ وَطَائِفَةٌ یَدْخُلُ قُبَیْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَأَوَّلُوا الْحَدِیثَ عَلَى أَنَّهُ دَخَلَ مِنْ أَوَّلِ اللیْلِ وَلَكِنْ إِنَّمَا تَخَلَّى بِنَفْسِهِ فِی الْمَكَانِ الَّذِی أَعَدَّهُ لِنَفْسِهِ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں عورت اپنے خاوندکی اجازت کے بغیراعتکاف نہ کرے اوربغیراجازت اعتکاف کی صورت میں  خاوندکوحق ہے کہ وہ عورت کااعتکاف ختم کرادے اوریہ حدیث اس بات پرحجت ہے کہ اعتکاف کے لیے مساجدمیں  خیمہ لگایاجاسکتاہے اورعورتوں  کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ مساجدمیں  اعتکاف نہ کریں ،اورمعتکف کے لیے اپنے جگہ میں  داخل ہونے کاوقت نمازفجرکے بعدکاوقت ہے،یہ اوزاعی رحمہ اللہ  کاقول ہے لیکن ائمہ اربعہ اورایک جماعت علماءکاقول یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے قبل اپنے مقام میں  داخل ہواورحدیث مذکورہ کامطلب انہوں  نے یوں  بیان کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اول رات ہی میں  داخل ہوگئے تھے مگر جو جگہ آپ نے اعتکاف کے لیے مخصوص فرمائی تھی اس میں  فجرکے بعدداخل ہوئے۔[178]

وَفِی الْحَدِیثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ اشْتِغَالِ الْمُعْتَكِفِ بِالْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ مِنْ تَشْیِیعِ زَائِرِهِ وَالْقِیَامِ مَعَهُ وَالْحَدِیثِ مَعَ غَیْرِهِ وَإِبَاحَةُ خَلْوَةِ الْمُعْتَكِفِ بِالزَّوْجَةِ وَزِیَارَةُ الْمَرْأَةِ لِلْمُعْتَكِفِ ،وَفِیهِ إِضَافَةُ بُیُوتُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِنَّ وَفِیهِ جَوَازُ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ لَیْلًا وَفِیهِ قَوْلُ سُبْحَانَ اللهِ عِنْدَ التَّعَجُّب

اس حدیث سے بہت سے فوائدنکلتے ہیں  مثلاًیہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں  کوکھڑاہوکران کورخصت کرسکتاہےاورغیروں  کے ساتھ بات بھی کر سکتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں  صرف ضروری اورمناسب بات چیت کرنااوراعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے،اوراس حدیث میں  بیوت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اضافت کابھی جوازہے اوررات میں  عورتوں  کاگھروں  سے باہرنکلنے کابھی جوازثابت ہے اورتعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کابھی ثبوت ہے۔[179]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہرسال دس دن اعتکاف فرماتے تھے مگروفات کے سال بیس دن اعتکاف فرمایا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْتَكِفُ فِی كُلِّ رَمَضَانٍ عَشَرَةَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ العَامُ الَّذِی قُبِضَ فِیهِ اعْتَكَفَ عِشْرِینَ یَوْمًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر رمضان میں  دس دن اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔[180]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سال میں  جبریل  علیہ السلام  کے ساتھ قرآن کاایک مرتبہ وردفرماتے تھے لیکن وفات کے سال دومرتبہ ورد فرمایا اوراسی طرح ہرسال قرآن آپ پرایک مرتبہ پیش کیاجاتااور وفات کے سال دومرتبہ پیش کیاگیا،جب اعتکاف کی حالت میں  ہوتے تومسجدسے باہرنہ نکلتے حتی کہ گھرمیں  بھی بغیرخاص ضرورت کے نہ جاتے لیکن یہ ضرور ہوتاکہ سرام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے حجرہ میں  کردیتے وہ باوجودایام سے ہونے کے اسے دھوتیں  اوربالوں  میں  کنگھی کر دیتیں ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصْغِی إِلَیَّ رَأْسَهُ وَهُوَ مُجَاوِرٌ فِی المَسْجِدِ، فَأُرَجِّلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنا سر میری طرف جھکا دیتے اس حال میں  کہ آپ مسجد میں  معتکف ہوتے اور میں  اس میں  کنگھی کرتی درآنحالانکہ میں  حائضہ تھی۔[181]

اوربعض ازواج مطہرات خیمہ میں  بھی آتی تھیں  مگر بجزبات چیت کے ان سے اورکوئی سروکار نہ رکھتے تھے اورجب وہ چلنے کے لئے کھڑی ہوتیں  توواپسی پران کی مشایعت بھی کرتے تھے اوریہ رات میں  ہواکرتاتھا،

 أَنَّ صَفِیَّةَ  زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِی اعْتِكَافِهِ فِی المَسْجِدِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً، ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا یَقْلِبُهَا، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ بَابَ المَسْجِدِ عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ، مَرَّ رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَسَلَّمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَلَى رِسْلِكُمَا، إِنَّمَا هِیَ صَفِیَّةُ بِنْتُ حُیَیٍّ، فَقَالاَ: سُبْحَانَ اللَّهِ یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَبُرَ عَلَیْهِمَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الشَّیْطَانَ یَبْلُغُ مِنَ الإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ، وَإِنِّی خَشِیتُ أَنْ یَقْذِفَ فِی قُلُوبِكُمَا شَیْئًا

ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ رمضان کے آخری عشرہ میں  جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اعتکاف میں  بیٹھے ہوئے تھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملنے مسجدمیں  آئی،تھوڑی دیرباتیں  کیں  پھر چلنے کو کھڑی ہوئیں  تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئےتاکہ ان کو پہنچا دیں  یہاں  تک کہ باب ام سلمہ کے پاس مسجد کے دروازے تک پہنچیں تودو انصاری مرد گزرے ان دونوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں  ٹھیرو یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہے، دونوں  نے کہا سبحان اللہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے متعلق کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ان دونوں  پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمانا شاق گزرا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے جسم میں  پھرتا ہے اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں  وہ تمہارے دلوں  میں  بد گمانی پیدا نہ کرے۔[182]

آپ اعتکاف کے دوران ازواج مطہرات کے ساتھ مباشرت نہیں  کرتے تھے اورنہ بوسہ وغیرہ لیتے تھے ،جیسے فرمایا

وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِتِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ یُبَیِّنُ اللهُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ  [183]

ترجمہ: جب تم مساجدمیں  اعتکاف کئے ہوئے ہوتواپنی بیویوں  سے ہم بستری نہ کرو،یہ اللہ کی حدودہیں  اس لیے انہیں  (توڑنے کے)قریب بھی نہ جاؤ،اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں  کے لیے اسی طرح بیان فرماتاہے تاکہ وہ (گناہ سے)بچ سکیں ۔

اعتکاف کے دوران آپ کابستراورچارپائی اعتکاف کی جگہ رکھ دی جاتی تھی ،جب کسی ضرورت کے لئے نکلتے توراستہ میں  کسی مریض کی عیادت بھی کرلیتے تھے،ایک مرتبہ آپ نے ترکی قبہ میں  اعتکاف کیاجس کے اندرچٹائی بچھی ہوتی تھی(یااس پرچٹائی ڈال دی)یہ تمام باتیں  اس لئے تھیں  کہ اعتکاف کااصل اوراس کی روح حاصل ہوبخلاف آجکل کے جاہل لوگوں  کے اپنی جائے اعتکاف کومیل ملاپ کی جگہ اورزائرین کے لئے مجلس بنالیتے ہیں  پھراس کے بعددنیابھرکی باتیں  کرتے ہیں  ،اس میں  اوراعتکاف نبوی میں  بہت بڑافرق ہے۔

[1] عیون الأثر۲۶۴؍۱، شرح الشفا۲۶۸؍۲،تاریخ طبری۴۱۰؍۲،البدایة والنهایة۳۰۴؍۳

[2] شرح الشفا ۲۶۸؍۲

[3] ابن ہشام۶۰۱؍۱،الروض الانف۶۲؍۶

[4] عیون الأثر۲۶۴؍۱

[5] مغازی واقدی۱۷؍۱

[6] دلائل النبوة للبیہقی۱۷؍۳

[7] مغازی واقدی۱۷؍۱

[8] ابن سعد۶؍۲،ابن ہشام ۶۰۴؍۱،الروض الانف ۵۵؍۵،تاریخ طبری۴۱۲؍۲،البدایة والنہایة۳۰۶؍۳

[9] مغازی واقدی۱۷؍۱

[10] ابن ہشام۶۰۴؍۱،تاریخ طبری۴۱۲؍۲،عیون الاثر۲۶۵؍۱،الروض الانف ۶۵؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۲۱؍۳،البدایة والنہایة۳۰۶؍۳،ابن سعد۲۹۸؍۳،مغازی واقدی۱۷؍۱

[11] ابن ہشام۶۰۵؍۱،الروض الانف ۵۸؍۵،الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم۳۲۳؍۱،عیون الأثر۲۶۶؍۱، المواهب اللدنیة۲۰۴؍۱،رحمة للعالمین۴۲۲؍۱

[12]سیرة النبی،شبلی نعمانی۲۰۳؍۱ 

[13] تاریخ ابن خلدون اردو،تاریخ طبری ۴۱۵؍۲

[14] عہدنبوی کے میدان جنگ  ۲۷

[15] ابن اسحاق ۲۹۴

[16] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّوْمِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۷۳۹، مسنداحمد۲۶۰۱۸

[17] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّوْمِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۷۳۹

[18] أخبار مكة۱۸۳۸

[19] الضعفاءالکبیرللعقیلی۲۹؍۳

[20] الباعث علی انکارالبدع والحوادث ۳۵؍۱

[21]الباعث علی انکارالبدع والحوادث۳۴؍۱،البدع لابن وضاح۱۰۸،۹۲؍۲

[22] الباعث علی انکارالبدع والحوادث۳۴؍۱،البدع لابن وضاح  ۱۰۹،۹۲؍۲،حقیقہ السنة والبدعة۱۴۰؍۱

[23] لطائف المعارف  ۱۳۷

[24] صحیح بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالیٰ واجتنبواقول الزور ۶۰۵۷  ،جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّشْدِیدِ فِی الغِیبَةِ لِلصَّائِمِ ۷۰۷

[25] سنن الدارمی۲۷۶۲ ،مشکوة المصابیح۲۰۱۴

[26] ابن سعد۱۹۱؍۱

[27] صحیح بخاری  كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَى الحُرِّ وَالمَمْلُوكِ۱۵۱۱

[28] مسنداحمد۲۳۸۴۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ۱۸۲۸،سنن نسائی كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فَرْضِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ نُزُولِ الزَّكَاةِ۲۵۰۷

[29] جزیرة العرب ندوی ۲۰۲،۲۰۳

[30] البقرة۲

[31] آل عمران۱۳۳

[32] المائدة۲۷

[33] مریم۸۵

[34] ق۳۱

[35] الدخان۵۱تا۵۶

[36] الطور۱۷،۱۸

[37] النحل۳۱

[38] المرسلات۴۱،۴۲

[39] البقرة۱۹۴

[40] المائدة۴۸

[41] تفسیرالقرطبی ۲۹۱؍۲

[42] القدرا

[43] الدخان۳

[44] الفرقان۳۲

[45] الانعام۱۰۴

[46] شرح مذاهب أهل السنة لابن شاہین۵۴

[47] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِی الصَّلَاةِ وَتَعَلُّمِهِ۱۸۷۳

[48] البقرة: 185

[49] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ نَسْخِ قَوْله تَعَالَى وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ بِقَوْلِهِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ۲۶۸۵،۲۶۸۶

[50]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ البقرہ بَابُ قَوْلِهِ أَیَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ، وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ، فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا

[51] تفسیرابن ابی حاتم۱۶۶۷

[52] النحل۱۲۸

[53] طہ۴۶

[54] جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب فِی فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ بِعِبَادِهِ ۳۵۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاءبَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الدُّعَاءِ۳۸۶۵، مسنداحمد ۲۳۷۱۴

[55] مسند احمد ۱۱۱۳۳

[56] سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابٌ فِی الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ۱۷۵۳

[57] جامع ترمذی ابواب الدعوات بَابٌ فِی العَفْوِ وَالعَافِیَةِ ۳۵۹۸، سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابٌ فِی الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ ۱۷۵۲،مسنداحمد۸۰۴۴

[58] الانفال۲۹

[59] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ أُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ۴۵۰۸

[60] البقرة: 187

[61]  البقرة: 187

[62] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ اللهِ جَلَّ ذِكْرُهُ أُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ۱۹۱۵

[63] البقرة ۲۲۹

[64]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ بَرَكَةِ السَّحُورِ مِنْ غَیْرِ إِیجَابٍ ۱۹۲۳،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِیدِ اسْتِحْبَابِهِ، وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِیرِهِ وَتَعْجِیلِ الْفِطْرِ۲۵۴۹،مسنداحمد۸۸۹۸

[65] السنن الکبری للنسائی۲۴۸۵

[66] السنن الکبری للنسائی۲۴۸۴

[67] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْوِصَالِ فِی الصَّوْمِ۲۵۶۶

[68] مسنداحمد۱۱۰۸۶،صحیح ابن حبان۳۴۶۷

[69]صحیح ابن حبان۳۴۷۶ 

[70] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِیدِ اسْتِحْبَابِهِ، وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِیرِهِ وَتَعْجِیلِ الْفِطْرِ۲۵۵۰،سنن ابوداودکتاب الصیام بَابٌ فِی تَوْكِیدِ السُّحُورِ۲۳۴۳، سنن نسائی کتاب الصیام فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ۲۱۶۸،مسنداحمد۱۷۷۶۲

[71] شرح النووی علی مسلم۲۰۷؍۷

[72] سنن الدارمی۱۷۳۹

[73] البقرة: 187

[74] البقرة: 187

[75] البقرة: 187

[76] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ البقرہ بَابُ قَوْلِهِ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ ۴۵۱۱،وکتاب الصوم  بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللیْلِ۱۹۱۷،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِی الصَّوْمِ یَحْصُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ۲۵۳۴

[77] البقرة: 187

[78] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِی الصَّوْمِ یَحْصُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ۲۵۳۳ ,جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن  بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ ۲۹۷۱

[79] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ۱۹۱۸،۱۹۱۹،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِی الصَّوْمِ یَحْصُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ عن ابن عمر ۲۵۳۸

[80] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابٌ قَدْرِ كَمْ بَیْنَ السَّحُورِ وَصَلاَةِ الفَجْرِ۱۹۲۱،وکتاب مواقیت الصلوة بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ۵۷۵، وکتاب التھجدبَابُ مَنْ تَسَحَّرَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ فَلَمْ یَنَمْ حَتَّى صَلَّى الصُّبْحَ ۱۱۳۴

[81] البقرة۱۸۷

[82] لسان العرب۶۰۷؍۱۱

[83] المنجدی الابجدی

[84] المعجم العربی الحدیث

[85] تفسیرابن کثیر۵۱۷؍۱

[86] تفسیرجلالین۳۹؍۱

[87] تفسیرروح البیان۳۰۰؍۱

[88] تفسیرالثعالبی۳۹۵؍۱

[89] تفسیرالمظہری۲۰۶؍۱

[90] تفہیم القرآن۱۴۶؍۱

[91] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ یُفْطِرُ بِمَا تَیَسَّرَ مِنَ المَاءِ، أَوْ غَیْرِهِ۱۹۵۴

[92] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ مَتَى یَحِلُّ فِطْرُ الصَّائِمِ ۱۹۵۵،۱۹۴۱، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ وَقْتِ انْقِضَاءِ الصَّوْمِ وَخُرُوجِ النَّهَارِ۲۵۶۰،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ وَقْتِ فِطْرِ الصَّائِمِ ۲۳۵۲

[93]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ تَعْجِیلِ الإِفْطَارِ۱۹۵۷ ،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِیدِ اسْتِحْبَابِهِ، وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِیرِهِ وَتَعْجِیلِ الْفِطْرِ۲۵۵۴،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ تَعْجِیلِ الْفِطْرِعن ابی ہریرہ۲۳۵۳

[94] سنن ابوداود کتاب  الصوم بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ تَعْجِیلِ الْفِطْرِ۲۳۵۳

[95] جامع ترمذی ابواب الصوم  بَابُ مَا جَاءَ فِی تَعْجِیلِ الإِفْطَارِ۷۰۲

[96] فتح الباری۱۹۹؍۴

[97] المبسوط ۷۷؍۳،بدائع الصنائع ۲۰۱؍۱، الھدایة فی شرح ہدایة المبتدی ۱۲۷؍۱،العنایة شرح الھدیة۳۷۳؍۲،الدرالمختار۴۲۰؍۲

[98] سنن ابوداودباب القول عندالفطار ۲۳۵۸، مصنف ابن ابی شیبة۹۷۴۴،المعجم الاوسط۷۵۴۹،المعجم الصغیرللطبرانی۹۱۲،السنن الصغیرللبیہقی۱۳۹۱

[99] سنن ابوداود کتاب الصوم بَابُ الْقَوْلِ عِنْدَ الْإِفْطَارِ ۲۳۵۷، مسند البزار ۵۳۹۵، السنن الکبری للنسائی۳۳۱۵، سنن الد ارقطنی۲۲۷۹،مستدرک حاکم۱۵۳۶،السنن الکبری للبیہقی۸۱۳۳

[100] سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ مَا یُفْطَرُ عَلَیْهِ ۲۳۵۶ ، جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ مَا یُسْتَحَبُّ عَلَیْهِ الإِفْطَارُ۶۹۶،مسنداحمد۱۲۶۷۶،سنن الدارقطنی۲۲۷۸،مستدرک حاکم۱۵۷۶، مسنداحمد ۱۲۶۷۶

[101] جامع ترمذی ابواب الصوم  بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا   ۷۲۰

[102] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ الحِجَامَةِ وَالقَیْءِ لِلصَّائِمِ ۱۹۳۸

[103] سنن الدارقطنی۲۲۶۰

[104] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ الحِجَامَةِ وَالقَیْءِ لِلصَّائِمِ ۱۹۴۰

[105]موطاامام مالک کتاب الصیام  باب حِجَامَةُ الصَّائِمِ

[106] موطاامام مالک کتاب الصیام  باب حِجَامَةُ الصَّائِمِ

[107] جامع الاصول۴۴۱۵،۲۹۵؍۶

[108]فتح الباری۱۷۸؍۴

[109] إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل۸۰؍۴

[110] نیل الاوطار۲۴۱؍۴

[111]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ الحِجَامَةِ وَالقَیْءِ لِلصَّائِمِ ،قبل الحدیث۱۹۳۸

[112]صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ،جامع ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء فی السواک للصائم۷۲۵

[113]صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ الصَّائِمِ یُصْبِحُ جُنُبًا۱۹۲۵،۱۰۲۶،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صِحَّةِ صَوْمِ مَنْ طَلَعَ عَلَیْهِ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ۲۵۸۹

[114] سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ الصَّائِمِ یَصُبُّ عَلَیْهِ الْمَاءَ مِنَ الْعَطَشِ وَیُبَالِغُ فِی الِاسْتِنْشَاقِ۲۳۶۶

[115] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ المُبَاشَرَةِ لِلصَّائِمِ ۱۹۲۷، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِی الصَّوْمِ لَیْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ۲۵۷۳،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ۲۳۸۲،جامع ترمذی  أَبْوَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی مُبَاشَرَةِ الصَّائِمِ۷۲۹،مسنداحمد۲۴۱۳۰

[116] صحیح بخاری  كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ

[117] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ، سنن ابوداودکتاب الصوم باب فی الکحل عندالنوم۶۰۷

[118] سنن ابوداود کتاب الصوم بَابُ الصَّائِمِ یَصُبُّ عَلَیْهِ الْمَاءَ مِنَ الْعَطَشِ وَیُبَالِغُ فِی الِاسْتِنْشَاقِ۲۳۶۵

[119] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ

[120]فتح الباری ۱۵۵؍۴،صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ نَاسِیًا

[121] صحیح بخاری كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ إِذَا حَنِثَ نَاسِیًا فِی الأَیْمَانِ۶۶۶۹، سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ أَفْطَرَ نَاسِیًا۱۶۷۳

[122] جامع ترمذی ماجاء فی الافطار متعمدا   ۷۲۳،۷۲۲

[123] جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا۷۲۰،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ الصَّائِمِ یَسْتَقِیءُ عَامِدًا۲۳۸۰،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّائِمِ یَقِیءُ ۱۶۷۶، مسنداحمد۱۰۴۶۳

[124] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ الحَائِضُ تَتْرُكُ الصَّوْمَ وَالصَّلاَةَ۱۹۵۱،صحیح مسلم کتاب حیض بَابُ وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ دُونَ الصَّلَاةِ ۷۶۳

[125] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ المُجَامِعِ فِی رَمَضَانَ، هَلْ یُطْعِمُ أَهْلَهُ مِنَ الكَفَّارَةِ إِذَا كَانُوا مَحَاوِیجَ ۱۹۳۷،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ تَغْلِیظِ تَحْرِیمِ الْجِمَاعِ فِی نَهَارِ رَمَضَانَ عَلَى الصَّائِمِ۲۵۹۵

[126] البقرة۱۸۴

[127] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَیْضِ بَابُ وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ دُونَ الصَّلَاةِ۷۶۱

[128] جامع ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء فی قضآء الحائض الصیام دون الصلوٰة۷۸۷،۷۸۶

[129] البقرة۱۸۴

[130]سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ مَنْ قَالَ هِیَ مُثْبَتَةٌ لِلشَّیْخِ وَالْحُبْلَى۲۳۱۸

[131] جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی الإِفْطَارِ لِلْحُبْلَى وَالمُرْضِعِ۷۱۵

[132] البقرة۱۸۴

[133]سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ مَنْ قَالَ هِیَ مُثْبَتَةٌ لِلشَّیْخِ وَالْحُبْلَى۲۳۱۸

[134] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ المُجَامِعِ فِی رَمَضَانَ، هَلْ یُطْعِمُ أَهْلَهُ مِنَ الكَفَّارَةِ إِذَا كَانُوا مَحَاوِیجَ ۱۹۳۷،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ تَغْلِیظِ تَحْرِیمِ الْجِمَاعِ فِی نَهَارِ رَمَضَانَ عَلَى الصَّائِمِ۲۵۹۵ ،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ كَفَّارَةِ مَنْ أَتَى أَهْلَهُ فِی رَمَضَانَ۲۳۹۲

[135] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ۱۹۵۲،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ قَضَاءِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۶۹۲،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابٌ فِیمَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ۲۴۰۰

[136] الفرقان۶۴

[137] صحیح بخاری کتاب صلوٰة التراویح بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ۲۰۰۸، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ التَّرْغِیبِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، وَهُوَ التَّرَاوِیحُ۱۷۸۰ ،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابٌ فِی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ۱۳۷۲،سنن نسائی کتاب الصیام بَابُ ثَوَابِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا۲۱۹۶

[138] سنن ابوداود  کتاب الصلوٰة بَابٌ فِی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ۱۳۷۵،سنن نسائی کتاب قیام اللیل بَابُ قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ  ۱۶۰۶ ،جامع ترمذی ابواب الصوم  بَابُ مَا جَاءَ فِی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ ۸۰۵،۸۰۶

[139] جامع ترمذی الصوم  بَابُ مَا جَاءَ فِی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ ۸۰۵،۸۰۶،سنن ابوداودالصلوة بَابٌ فِی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ۱۳۷۵

[140] صحیح بخاری کتاب التہجدبَابُ تَحْرِیضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللیْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَیْرِ إِیجَابٍ۱۱۲۹،مسند احمد ۲۵۴۴۶

[141]صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ صَلاَةِ اللیْلِ۷۳۱، وکتاب الادب بَابُ مَا یَجُوزُ مِنَ الغَضَبِ وَالشِّدَّةِ لِأَمْرِ اللهِ۶۱۱۳،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین  بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِی بَیْتِهِ، وَجَوَازِهَا فِی الْمَسْجِدِ۱۸۲۵

[142] السنن الکبری للبیہقی ۴۲۸۲

[143] صحیح ابن خزیمة  ۱۰۷۰،صحیح ابن حبان ۲۴۰۹،  مسند   ابو یعلی  الموصلی ۱۸۰۲

[144] صحیح ابن حبان۲۴۱۵

[145]صحیح بخاری کتاب التھجدبَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاللیْلِ فِی رَمَضَانَ وَغَیْرِهِ ۱۱۴۷ ،وکتاب صلوة التراویح بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ۲۰۱۳،صحیح مسلم صلاة المسافرین بَابُ صَلَاةِ اللیْلِ، وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی اللیْلِ، وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ، وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلَاةٌ صَحِیحَةٌ۱۷۲۳

[146] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۷۷؍۷

[147] فتح الباری۱۲؍۳

[148] نصب الرایة لأحادیث الهدایة ۱۵۲؍۲

[149] فتح القدیر۴۶۸؍۱

[150]  التعلیق الممجد على موطأ محمد۶۱۸؍۱

[151] العرف الشدی باب ماجاء فی قیام شہر رمضان ۲۰۸؍۲

[152] قیام اللیل وقیام رمضان وكتاب الوتر۲۱۷؍۱

[153]صحیح مسلم صلاة المسافرین بَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ۱۸۰۷ 

[154] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ ۱۸۰۴ ،سنن ابوداودأَبْوَابُ قِیَامِ اللیْلِ بَابٌ فِی صَلَاةِ اللیْلِ۱۳۶۶،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی كَمْ یُصَلِّی بِاللیْلِ ۱۳۶۲

[155]صحیح بخاری کتاب صلوٰة التراویح بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ۲۰۰۹ ،صحیح مسلم صلاة المسافرین  بَابُ التَّرْغِیبِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، وَهُوَ التَّرَاوِیحُ۱۷۸۰

[156]موطاامام مالک کتاب الصلوة فی رمضان  باب مَا جَاءَ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ۴

[157] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۲۶۷؍۵،نصب الرایة ۱۵۴؍۲

[158] الحوادث والبدع ۵۶؍۱

[159] موطا امام مالک۳۸۱

[160] صحیح بخاری کتاب صلوٰة التراویح بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ۲۰۱۰ ،موطاامام مالک کتاب الصلوة فی رمضان باب مَا جَاءَ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ۳، السنن الکبری للبیہقی ۴۲۷۵

[161] فتح القدیر۴۴۷؍۱

[162] تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی ۴۴۵؍۳،مرعاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح ۳۲۱؍۴

[163] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۲۷؍۱۱، تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی۴۴۰؍۳

[164] مُخْتَصَرُ مِنْهَاجِ القَاصِدِینْ۷۰؍۱

[165] صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ باب فضل لیلة القدروالحث علی طلبھا ۲۷۷۱

[166] صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ باب فضل لیلة القدروالحث علی طلبھا۲۷۷۲

[167] صحیح بخاری کتاب لیلة القدربَابُ تَحَرِّی لَیْلَةِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ ۲۰۱۸،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ باب فضل لیلة القدر والحث علی طلبھا۲۷۷۲ ،مصنف عبدالرزاق۷۶۸۵،مسنداحمد۱۱۱۸۶

[168] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ رَفْعِ مَعْرِفَةِ لَیْلَةِ القَدْرِ لِتَلاَحِی النَّاسِ۲۰۲۳

[169] مجمع الزوائد۵۰۶۰

[170]صحیح بخاری کتاب لیلة القدربَابُ التِمَاسِ لَیْلَةِ القَدْرِ فِی السَّبْعِ الأَوَاخِرِ۲۰۱۵،صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلة القدروالحث علی طلبھا۲۷۶۱

[171] العجم الکبیرللطبرانی۲۰۶

[172] صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلة القدروالحث علی طلبھا ۲۷۶۶

[173] الروض الانف۴۹۸؍۷

[174] مسنداحمد۲۱۵۱۰

[175] مسنداحمد۲۵۳۸۴،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاءبَابُ الدُّعَاءِ بِالْعَفْوِ وَالْعَافِیَةِ۳۸۵۰،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۵۱۳

[176] صحیح بخاری کتاب الاعتکاف بَابُ الِاعْتِكَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِكَافِ فِی المَسَاجِدِ كُلِّهَا۲۰۲۶

[177] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِكَافِ بَابُ اعْتِكَافِ النِّسَاءِ۲۰۳۳

[178] فتح الباری۲۷۷؍۴

[179] فتح الباری۲۸۰؍۴

[180] صحیح بخاری  كِتَابُ الِاعْتِكَافِ بَابُ الِاعْتِكَافِ فِی العَشْرِ الأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ۲۰۴۴

[181] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِكَافِ بَابُ الحَائِضِ تُرَجِّلُ رَأْسَ المُعْتَكِفِ ۲۰۲۸

[182] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِكَافِ بَابٌ هَلْ یَخْرُجُ المُعْتَكِفُ لِحَوَائِجِهِ إِلَى بَابِ المَسْجِدِ۲۰۳۵

[183] البقرة۱۸۷

Related Articles